صحیفۂ سجادیہ کا مختصر تعارف

مشخصات کتاب

سرشناسه:مجدفقیهی، محمدعلی، 1342 -

Majd Faghihi, Mohammad Ali

عنوان قراردادی:آشنایی با صحیفه سجادیه . اردو

صحیفه سجادیه .اردو. شرح

عنوان و نام پدیدآور:صحیفۂ سجادیہ کا مختصر تعارف/ محمدعلی مجدفقیهی؛ مترجم لیاقت علی خان.

مشخصات نشر:قم : مرکز بین المللی ترجمه و نشر المصطفی(ص)،1397.

مشخصات ظاهری:157 ص.؛5/14×5/21س م.

شابک:978-600-429-472-0

وضعیت فهرست نویسی:فیپا

یادداشت:اردو.

یادداشت:کتابنامه .

موضوع:علی بن حسین (ع)، امام چهارم، 38 - 94ق . صحیفه سجادیه -- نقد و تفسیر

موضوع:Ali ibn Hosayn, Imam IV. Sahifeh Sajjadieh-- Criticism and interpretation

شناسه افزوده:لیاقت علیخان، 1948 - م.، مترجم

شناسه افزوده:Khan, L. Ali

شناسه افزوده:علی بن حسین (ع)، امام چهارم، 38 - 94ق . صحیفه سجادیه. شرح

شناسه افزوده:Ali ibn Hosayn, Imam IV. Interpretation . Sahife Sajadiye

رده بندی کنگره:BP267/1/ع8ص3042277 1397

رده بندی دیویی:297/772

شماره کتابشناسی ملی:5417542

ص: 1

اشاره

صحیفہ ٔ سجادیہ کا تعارف

مؤلف:ڈاکٹر محمد علی مجدفقیھی

مترجم :لیاقت علی خان

ص: 2

ص: 3

ص: 4

ص: 5

ص: 6

ص: 7

ص: 8

فہرست مطالب

مقدّمۂ مترجم 1

مقدمۂ مؤلف.. 5

پہلا باب.. 9

پہلی فصل: 9

امام سجاد علیه السلام اور دعا 9

امام سجاد علیه السلام کی زندگی کے چند پہلو 11

امام سجاد علیه السلام کے زمانے میں دعا کی طرف رجحان 14

دعا اور اس کا فلسفہ. 19

دوسری فصل. 23

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف 23

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف 25

صحیفے کی طرف رجحان. 25

صحیفہ کے اسمائے گرامی. 27

صحیفہ کی دعاؤں کی تعداد 27

صحیفہ کی حدیث.. 28

صحیفہ کے ملحقات.. 33

صحیفہ ٔ سجادیہ کی دعاؤں کے عناوین 34

تیسری فصل. 41

صحیفہ کی حجیت اور اعتبار. 41

1۔ تواتر: 45

2۔ متن. 47

صحیفہ کی فصاحت و بلاغت: 47

صحیفہ کا اصل مضمون. 48

نتیجہ. 55

چوتھی فصل. 57

صحیفہ کے تراجم، لغت نامے، تکملے اور شرحیں: 57

تراجم: 60

کلمات کا لغت نامہ یا الفاظ کے معاجم 62

لغات موضوعی یا معاجم موضوعی 62

شرحیں، حواشی اور تعلیقات: 64

صحیفہ ٔ سجادیہ کے مستدرکات: 70

دوسرا باب.. 75

اصل مضمو ن کی شناخت.. 75

پہلی فصل. 75

بتیسویں دعا۔ الہٰی عظمت وسلطنت،[نماز شب کے بعد کی دعا] 77

انسان میں عمل کی کمی اور آرزو ؤں کی زیادتی 84

تشریح. 85

شیطان اور اس کے وسوسے.. 87

تشریح. 88

انسان کی پناہ گاہ فقط خدا وند متعال 93

تشریح. 93

خدا کی بارگاہ میں انسان کی شرمندگی 95

تشریح. 97

خدا وند متعال کا پردہ پوشی کرنا 101

تشریح. 102

خدا وندمتعال کی نعمتوں کو یاد کرنا 104

تشریح. 107

خدا سے آتش جہنم کی پناہ مانگنا 110

تشریح. 112

رسول خدا اور ان کے خاندان پاک پر بے شمار درود۔ 114

تشریح. 115

دوسری فصل. 121

متن شناسی 2. 121

متن شناسی 2. 123

بیالیسویں دعا ؛ ختم قرآن کے وقت دعا 123

قرآن کی کلی خصوصیات.. 123

تشریح. 124

تلاوت قرآن کا حق. 128

تشریح. 128

قرآن اور اس کے حاملین [ علماء] 131

تشریح. 133

قرآن انسان کے کمال کا زینہ ہے: 140

تشریح. 140

قرآن اور انسان سازی.. 142

تشریح. 145

قرآن اور موت و قیامت کی سختیاں 151

رسول خدا پر درود و سلام 158

تشریح. 160

تیسری فصل. 163

متن شناسی:باونویں دعا 163

متن شناسی. 165

باونویں دعا: اللہ تعالی کے حضور انکساری و عاجزی کے اظہار پر حضرت علیه السلام کی دعا، 165

خدا کے لیے خاکساری.. 165

تشریح. 167

دعا کے اسباق: 170

منابع و مآخذ 173

ص: 9

2۔ متن. 47

صحیفہ کی فصاحت و بلاغت: 47

صحیفہ کا اصل مضمون. 48

نتیجہ. 55

چوتھی فصل. 57

صحیفہ کے تراجم، لغت نامے، تکملے اور شرحیں: 57

تراجم: 60

کلمات کا لغت نامہ یا الفاظ کے معاجم 62

لغات موضوعی یا معاجم موضوعی 62

شرحیں، حواشی اور تعلیقات: 64

صحیفہ ٔ سجادیہ کے مستدرکات: 70

دوسرا باب.. 75

اصل مضمو ن کی شناخت.. 75

پہلی فصل. 75

بتیسویں دعا۔ الہٰی عظمت وسلطنت،[نماز شب کے بعد کی دعا] 77

انسان میں عمل کی کمی اور آرزو ؤں کی زیادتی 84

تشریح. 85

شیطان اور اس کے وسوسے.. 87

تشریح. 88

انسان کی پناہ گاہ فقط خدا وند متعال 93

تشریح. 93

خدا کی بارگاہ میں انسان کی شرمندگی 95

تشریح. 97

خدا وند متعال کا پردہ پوشی کرنا 101

تشریح. 102

ص: 10

خدا وندمتعال کی نعمتوں کو یاد کرنا 104

تشریح. 107

خدا سے آتش جہنم کی پناہ مانگنا 110

تشریح. 112

رسول خدا اور ان کے خاندان پاک پر بے شمار درود۔ 114

تشریح. 115

دوسری فصل. 121

متن شناسی 2. 121

متن شناسی 2. 123

بیالیسویں دعا ؛ ختم قرآن کے وقت دعا 123

قرآن کی کلی خصوصیات.. 123

تشریح. 124

تلاوت قرآن کا حق. 128

تشریح. 128

قرآن اور اس کے حاملین [ علماء] 131

تشریح. 133

قرآن انسان کے کمال کا زینہ ہے: 140

تشریح. 140

قرآن اور انسان سازی.. 142

تشریح. 145

قرآن اور موت و قیامت کی سختیاں 151

رسول خدا پر درود و سلام 158

تشریح. 160

تیسری فصل. 163

متن شناسی:باونویں دعا 163

متن شناسی. 165

ص: 11

مقدّمۂ مترجم 1

مقدمۂ مؤلف.. 5

پہلا باب.. 9

پہلی فصل: 9

امام سجاد علیه السلام اور دعا 9

امام سجاد علیه السلام کی زندگی کے چند پہلو 11

امام سجاد علیه السلام کے زمانے میں دعا کی طرف رجحان 14

دعا اور اس کا فلسفہ. 19

دوسری فصل. 23

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف 23

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف 25

صحیفے کی طرف رجحان. 25

صحیفہ کے اسمائے گرامی. 27

صحیفہ کی دعاؤں کی تعداد 27

صحیفہ کی حدیث.. 28

صحیفہ کے ملحقات.. 33

صحیفہ ٔ سجادیہ کی دعاؤں کے عناوین 34

تیسری فصل. 41

صحیفہ کی حجیت اور اعتبار. 41

1۔ تواتر: 45

2۔ متن. 47

صحیفہ کی فصاحت و بلاغت: 47

صحیفہ کا اصل مضمون. 48

نتیجہ. 55

چوتھی فصل. 57

صحیفہ کے تراجم، لغت نامے، تکملے اور شرحیں: 57

تراجم: 60

کلمات کا لغت نامہ یا الفاظ کے معاجم 62

لغات موضوعی یا معاجم موضوعی 62

شرحیں، حواشی اور تعلیقات: 64

صحیفہ ٔ سجادیہ کے مستدرکات: 70

دوسرا باب.. 75

اصل مضمو ن کی شناخت.. 75

پہلی فصل. 75

بتیسویں دعا۔ الہٰی عظمت وسلطنت،[نماز شب کے بعد کی دعا] 77

انسان میں عمل کی کمی اور آرزو ؤں کی زیادتی 84

تشریح. 85

شیطان اور اس کے وسوسے.. 87

تشریح. 88

انسان کی پناہ گاہ فقط خدا وند متعال 93

تشریح. 93

خدا کی بارگاہ میں انسان کی شرمندگی 95

تشریح. 97

خدا وند متعال کا پردہ پوشی کرنا 101

تشریح. 102

خدا وندمتعال کی نعمتوں کو یاد کرنا 104

تشریح. 107

خدا سے آتش جہنم کی پناہ مانگنا 110

تشریح. 112

رسول خدا اور ان کے خاندان پاک پر بے شمار درود۔ 114

تشریح. 115

دوسری فصل. 121

متن شناسی 2. 121

متن شناسی 2. 123

بیالیسویں دعا ؛ ختم قرآن کے وقت دعا 123

قرآن کی کلی خصوصیات.. 123

تشریح. 124

تلاوت قرآن کا حق. 128

تشریح. 128

قرآن اور اس کے حاملین [ علماء] 131

تشریح. 133

قرآن انسان کے کمال کا زینہ ہے: 140

تشریح. 140

قرآن اور انسان سازی.. 142

تشریح. 145

قرآن اور موت و قیامت کی سختیاں 151

رسول خدا پر درود و سلام 158

تشریح. 160

تیسری فصل. 163

متن شناسی:باونویں دعا 163

متن شناسی. 165

باونویں دعا: اللہ تعالی کے حضور انکساری و عاجزی کے اظہار پر حضرت علیه السلام کی دعا، 165

خدا کے لیے خاکساری.. 165

تشریح. 167

دعا کے اسباق: 170

منابع و مآخذ 173

ص: 12

ص: 13

ص: 14

مقدّمہ مترجم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ الّذی جَعَلَنا من المتَمسّکین بولایۃ علی ا بن ابی طالب والائمۃ المعصومین علیهم السلام ، والصلاۃ و السّلام علیٰ مَن امرنا بتمسک حبل اللہ المتین و عترتہ الغُرّ المیامین، و علی آلہ الھُداۃِ المھدیّین۔

صحیفۂ سجادیہ امام العارفین، زین العابدین، سید الساجدین حضرت امام سجاد علیه السلام کی دعاؤں کا ایک ایسا انمول خزانہ ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ظاہراً یہ دعاؤں کا مجموعہ ہے لیکن حقیقت میں اسلامی علوم و معارف کا ایک ایسا سمندر ہے کہ جس سے علوم و معارف کے تشنہ افراد سیراب ہو رہے ہیں۔

یہ شرف صحیفہ ٔ سجادیہ کو حاصل ہے کہ اسے ” اخت القرآن “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس صحیفے میں امام سجاد علیه السلام نے نہ صرف انسان کوخداوندمتعال سے ہم کلام ہونے کا سلیقہ سکھایا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں

کس طرح خداوندمتعال سے اپنا رابطہ مستحکم کرسکتا ہے۔ اس صحیفے کو کبھی زبور آل محمد علیهم السلام کہا گیا ہے تو کبھی انجیل اہل بیت علیهم السلام کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

ص: 1

یہ افتخار صرف مکتب اہل بیت علیهم السلام کو نصیب ہوا ہے کہ یہ صحیفہ ہمارے معصوم امام علیه السلام سے منسوب ہے۔یہ بے جا نہ ہو گا کہ اگر ہم اس صحیفہ کی دعاؤں کے مجموعے کے بارے میں قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کریں کہ جس میں ارشاد ہوا:

”ما یعبؤا بکم ربّی لولا دعاؤکم“(1)

”اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا پروردگار تمہاری طرف توجہ بھی نہ کرتا۔“

روایات میں دعا کوعبادت کا خلاصہ کہاگیا ہے یہی وہ حالت ہے جس میں انسان اپنے پروردگار سے قریب ہوتا ہے۔

یہ دعائیں ظالموں کے خلاف احتجاج اور صاحبان ایمان کے کردار کی تعمیر کا سبب ہیں۔انقلاب اسلامی کے عظیم الشان رہبر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ فرماتے ہیں:

”صحیفہ ٔ سجادیہ تمام دعاؤں سے مختلف ہے، صحیفہ ٔ سجادیہ میں جہاں درد و الم ہے وہاں پر ایسےمعارف بھی ہیں جو نہ نہج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں اور نہ ہی دوسری احادیث میں، بلکہ کہیں بھی نہیں ملتے۔ یہ جوان جو حوزۂ علمیہ قم یا

مدارس میں علم کے حصول کے لیے تشریف لائے ہیں ان کو صحیفہ ٔ سجادیہ کا تعارف کرائیں تا کہ وہ صحیفے سے انس و محبت اور عشق پیدا کریں“(2)۔

مترجم نے قرآن و اہل بیت علیهم السلام کے ساتھ عشق و محبت کی وجہ سے امام سجاد علیه السلام کی ان دعاؤں کے ترجمے کے لیے اس نسخے کا

ص: 2


1- ۔ سورہ ٔ فرقان: آیت 77۔
2- ۔مجلہ آفاق ، شمارہ 37 ۔

انتخاب کیا ہے کہ جس کے مؤلف حجۃالاسلام والمسلمین جناب محمد علی مجد فقیھی ہیں۔ کتاب ہٰذا میں مؤلف نے

مطالب کی مفصل وضاحت پیش کی ہے اور بہترین طریقے سے لغات بیان کی ہیں۔

خداوندمتعال سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنی خاص عنایات سے اس کاوش میں شریک تمام علماء اور احباب کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے اور اس مجموعہ کو ہم سب کے لیے دارِفنا سے دارِبقا

کے لیے ذخیرہ قرار دے۔

آمین یا ربّ العالمین

والسلام

الاحقر

لیاقت علی خان

حوزۂ علمیہ قم

اگست 2011ء

ص: 3

ص: 4

مقدمہ مؤلف

صحیفہ ٔ سجادیہ،عرفاء کے پیشوا، عابدوں کی زینت حضرت امام سجاد علیه السلام کی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔صحیفہ ٔ سجادیہ ابتدائی صدیوں کی قدیمی ترین میراث ہے جو برسہا برس سے آج تک شیعہ علماء کی خصوصی توجہ کا مرکز قرار پائی ہے۔

صحیفہ ٔ سجادیہ کا ہر ورق اپنے دعائیہ اور تعلیمی اسلوب میں منفرد ہے۔ دینی حقائق اور معارف سے متعلق یہ بہت عظیم کتاب ہے جو راہ حق و حقیقت کے متلاشی افراد اور جادۂ محبت کے سالکین کے لیے روشن چراغ ہے۔

صحیفہ ٔ سجادیہ روح کو تسکین دینے والا ایک ایسا عظیم سمندرہےکہ جس میں خوبصورت الفاظ اور آہنگ ونغمہ موجزن ہے۔ تشنگان عشق کی پیاس بجھانے اور معنویت کے دل دادہ افراد کو سیراب کرنے کے لیے عشق الہی کے دریائے بے کراں کی بشارت دیتا ہے۔

جنہیں امام سجاد علیه السلام نے اپنے محبوب حقیقی سے انس و محبت کےدرجۂ کمال پر پہنچ کر عشق الہی کے ولولہ انگیز نغموں کی صورت میں سوزِ دل اور اشکوں سے لبریز ذکرِ خدا سے مترنم لبوں سے یہ دعائیں کی ہیں۔

صحیفہ ٔ سجادیہ فقط ایک کتاب نہیں بلکہ انسان سازی کا ایک بہت بڑا مکتب ہے۔ لیکن بڑےافسوس کا مقام یہ ہے کہ نہ فقط صحیفہ بلکہ تمام اصل اسلامی متون وعبارات کے حقائق و معارف تک

ص: 5

رسائی کے لیے عمیق غور و فکرکو بروئے کار نہیں لایاگیا ہے بلکہ ثانوی درجے کے مطالب کو اخذکیا گیا ہے اور یہ سطحی مطالب حقیقی معارف کی بہ نسبت زیادہ بیان ہوئے ہیں۔لہذا ان متون وعبارات کی طرف توجہ کرنے کے باوجود ان میں غور و فکر سے کام نہیں لیا گیا اور ابھی تک یہ متروک ہیں۔

صحیفہ ٔ سجادیہ اگرچہ ایک دعائی مجموعہ ہے۔لیکن دعاؤں کے سائے میں توحید، قیامت، نبوت، امامت اور شناخت انسان کے بارے میں ایسے عظیم معارف موجود ہیں جو حدیثی مجموعوں میں کم ملتے ہیں۔ یہ معارف انسان کے فہم وادراک کی بنیادوںمیں اضافے اور ترقی و کمال کا سبب ہیں۔

انسان کے لیے حقائق اور غیبی روابط کے متعلق صحیفہ کی لطیف تعبیرات انسان کے دل کو دنیا سے اچا ٹ کر دیتی ہیں اور اسے خداوندمتعال کی بارگاہ میں لا کر عشق ومحبت، پاکیزگی اور نورانیت کے عالَم میں پہنچا دیتی ہیں۔ المختصریہ کہ صحیفہ ٔ سجادیہ انسانی وجود کے تینوں ستونوں (یعنی شناخت، احساس اور کردار )میں ترقی و کمال کا باعث بھی ہے اور ان کے لطیف و روحانی ہونے کا سبب بھی۔

کتاب حاضر اہل بیت علیهم السلام کے اس گراں قدرذخیرے کی پہچان کے لیے ایک مختصر سی کاوش ہے اور امید ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں گے اور اس صحیفے کو طاق نسیا ں سے نکالنے کےلیےزیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے گی۔

اس کتاب میں پہلے صحیفہ ٔ سجادیہ کا تعارف پیش کیا گیاہے پھر اس کے موضوعات کو بیان کیاگیا ہے، مزید صحیفہ

کی تین منتخب دعاؤں کی مختصر وضاحت بھی کی گئی ہے۔

ص: 6

یہ بات ذکر کرنی بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کی تدوین وتالیف جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ کے شعبۂ قرآن و حدیث کے سربراہ جناب حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محمدعلی رضائی اصفہانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔

آخر میں جناب ڈاکٹر اصفہانی اور تمام دوستوں کا میں شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کی نشر و اشاعت میں مدد کی ہے، خصوصاً جناب حجۃ الاسلام و المسلمین رضا نژاد جو درسی کتابوں کی تدوین کے سربراہ ہیں مزید ان کے تمام معاونین اور جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ کے پریس کے وہ تمام افراد کہ جنہوں نے اس تحریر کو بہتر بنانے میں دقت نظر سے کام لیا اور بہترین سلیقے سے تمام امور کو انجام دیا، سب کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں اور ان کی سعادت اور کامیابی کا خداوندمتعال سے طلب گار ہوں۔

قم،محمد علی مجد فقیھی

خرداد1384ش بمطابق 2006 ء

ص: 7

ص: 8

پہلا باب

پہلی فصل

امام سجاد علیه السلام اور دعا

ص: 9

ص: 10

امام سجاد علیه السلام کی زندگی کے چند پہلو

1) امام سجاد علیه السلام جنت کے جوانوں کے سردار حضرت امام حسین علیه السلام کے بیٹے اور ائمہ اہل بیت علیهم السلام میں سے ایک امام ہیں۔ آپ کا نام مبارک”علی علیه السلام “ مشہور ترین لقب ”زین العابدین علیه السلام “ ”سجاد علیه السلام “”سید الساجدین علیه السلام “اور آپ کی کنیت ” ابو محمد علیه السلام “ ہے۔

آپ کی ولادت باسعادت 15 جمادی الاول 36 یا 38 ہجری میں ہوئی آپ کی شہادت 25 محرم 94 یا 95 ہجری میں ہوئی۔ آپ کی عمر مبارک 57 برس تھی اور آپ کی امامت کا زمانہ 35 سال تھا۔

حضرت سجاد علیه السلام امام علی علیه السلام کی شہادت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے اس وقت آپ کے جد بزرگوار جنگ جمل کے جہاد میں مشغول تھے۔ اس کے بعد آپ اپنے چچا امام حسن مجتبیٰ علیه السلام کے ساتھ رہے جب وہ مختلف مشکلات میں گرفتار تھے۔ امام سجاد علیه السلام کے زمانے میں بنی امیہ کےلشکروالے مدینہ میں

مسجد النبی میں داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے گھوڑے مسجد النبی میں باندھے۔ نیز آپ کے زمانے میں ہی امام حسین علیه السلام نے قیام کیا اور کربلا کا دردناک

واقعہ رونما ہوا۔

ص: 11

معاویہ ابن ابی سفیان، یزید،معاویہ ابن یزید،مروان،عبدالملک اور ولید ابن عبدالملک، حضرت علیه السلام کےہم عصر اموی خلفاء تھے۔ ولید ملعون نے امام علیه السلام کو زہر دلوا کر شہید

کرایا۔

آپ اپنے زمانے میں عبادت اور علم میں نمایاں بلند مرتبہ شخصیت کے حامل تھے کہ آپ کے اس مقام و منزلت کا سب نے اعتراف کیا ہے۔

اب ہم آپ ؑکے فضائل کے چند پہلو درج ذیل سطروں میں بیان کرتےہیں۔

1۔ یعقوبی اپنی تاریخ میں رقم طرازہیں:

”کان افضل الناس واشدّ ھم عبادۃ، و کان یسمّی زین العابدین، و کان یسمّی ایضاً ذا الثّفنات لما کان فی وجھہ من اثر السجود، و کان یصلّی فی الیوم و اللّیلۃ الف رکعۃ، و لمّا غسل وجد علی کتفیہ جلب کجلب البعیر، فقیل لأھلۃ ما ھذہ الآثار ؟ قالوا: من حملھ الطعام فی اللّیل یدور بھ علی منازل الفقراء، قال سعید بن المسیّب: ما رایت قطّ افضل من علی بن الحسین...(1)“؛

سعید ابن مسیب ناقل ہیں:”میں نے کسی ایک کو بھی علی ابن الحسین علیه السلام سے افضل و برتر نہیں دیکھا“۔

ص: 12


1- 1۔ تاریخ یعقوبی ، احمد یعقوبی ، ج2 ، ص303۔ آپ لوگوں میں سب سے افضل تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کیا کرتے تھے۔آپ کو زین العابدین علیه السلام بھی کہتے تھے اور آپ کو ( ذالثفنات ) کا لقب دیا گیا تھا ۔سجدوں کی کثرت کی وجہ سے آپ کی پیشانی پر گھٹے پڑ گئے تھے ، رات اور دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے جب آپ کو غسل دیا گیا تو آپ کے کاندھوں پر زخموں کے نشانات پائے گئے ، آپ کے گھر والوں سے ان زخموں کی وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ آپ رات میں غذا پشت مبارک پر رکھ کر فقراء کے گھروں میں لے جایا کرتے تھے ۔

3۔ شافعی کہتے ہیں:

”وجدتُ علی بن الحسین۔وھوافقھ اھل المدینۃ۔یعوّل علی خبر الواحد(1)

علی ابن الحسین علیه السلام اہل مدینہ میں فقیہ ترین فرد تھے اور خبر واحد پر اعتماد کرتے تھے۔

3۔ اہل سنت کےعالم اور مؤرخ محمدا بن سعد لکھتےہیں:

”کان علی بن الحسین ثقۃ مأموناً کثیر الحدیث عالیاً رفیعاً ورعاً(2)“؛

علی ابن الحسین علیه السلام قابل اعتماد شخص تھے، زیادہ احادیث نقل کرتے تھے بلند مرتبہ اور اہل تقویٰ و پرہیزگار تھے۔

4۔ ارشاد میں شیخ مفید ناقل ہیں:” امام سجاد علیه السلام کے رشتہ داروں میں سے کسی نے لوگوں کے سامنے آپ کو برا بھلا کہا اور چلا گیا تو امام علیه السلام نے حاضرین سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا جو کچھ اس شخص نے کہا:اب میں چاہتا ہوں کہ تم سب میرے ساتھ چلو اور میرا جواب بھی سن لو۔

ان لوگوں نے کہا: ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں البتہ کیابہترہوتا کہ ہم اور آپ اسی وقت اس کو جواب دے دیتے جب وہ برا بھلا کہہ رہا تھا۔امام علیه السلام اپنے

ساتھیوں کے ساتھ اس شخص کے گھر کی طرف چلے اور راستے میں اس آیت کی تلاوت کی کہ جس میں بعض مؤمنین کے نیک صفات کا بیان ہے۔ ” ...والکاظمین الغیظ و العافین عن الناس واللہ یحبّ المحسنین“(3) (اور غصہ پی جاتے ہیں اورلوگوں کومعاف کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنےوالوں کودوست

ص: 13


1- ۔ حیات امامان شیعہ، رسول جعفریان، ص260 ۔ بہ نقل از : شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج15 ، ص 274۔
2- ۔ گذشتہ حوالہ : طبقات الکبری ، ابن سعد، ج 5 ، ص 222 ۔
3- ۔ آل عمران ، آیت 134 ۔

رکھتاہے )اصحاب پہلے کچھ اور فکر کررہے تھے لیکن اب سمجھ گئے کہ امام علیه السلام بدلہ لینے نہیں جا رہیں۔

جب اس شخص کے گھر پہنچے

تو امام علیه السلام نے آواز دی اور فرمایا:اسے بتاؤ:علی ابن الحسین علیه السلام آئے ہیں۔ وہ شخص گھر سے لڑائی کے لیے آمادہ ہوکرباہر آیا،کیوں کہ اس کاخیال تھا کہ امام علیه السلام بدلہ لینے آئے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے بھائی؛ کچھ دیر پہلے تو میرے پاس آیا تھا اور مجھے کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں مجھ میں پائی جاتی ہیں تو میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے ...اور اگر وہ باتیں مجھ میں نہیں تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے معاف کر دے۔ امام علیه السلام کے اس حسن اخلاق نے اسے شرمسار کر دیا۔ وہ امام علیه السلام کے قریب آیا اور امام علیه السلام کی پیشانی کا بوسہ لے کرکہا: میں نے جو کچھ کہا اس کے آپ نہیں بلکہ میں اس کا زیادہ سزاوار اور مستحق ہوں (1)۔

امام سجاد علیه السلام کے زمانے میں دعا کی طرف رجحان

امام سجاد علیه السلام کے زمانے کی خصوصیات بیان کرنے سے پہلےائمہ علیهم السلام کی سماجی اور معاشرتی میدان میں عملی سیرت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

ص: 14


1- ۔ الارشاد ، شیخ مفید ، ص 257۔

قرآن ایسی دینی کتاب ہے جو انسان کے کمال تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان خداوندمتعال کی بندگی کابلند مقام حاصل کرلے۔ انسان کے لیے بلند ترین کمال بندگی کے مقام تک پہنچنا ہے۔عبودیت کا معنی یہ ہے، انسان، شیطان اور نفس امارہ کی قیدسے آزاد ہو جائےاور اپنا سب کچھ رضائے الہی حاصل کرنے میں خرچ کر دے۔لہٰذا قرآن کی نظر میں وہی انسان”عبدشکور“ہے کہ جس کی تمام تر کوشش خداوندمتعال کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔

بنا بر ا ین ائمہ معصومین علیهم السلام ، بندگی میں کامل انسان ہیں چاہے انفرادی یااجتماعی کسی بھی میدان میں ہوں خداوندعالم کی رضا پر راضی ہیں، امام علیه السلام کا قیام یا سکوت اختیار کرنا، حکومت کرنا یا گوشہ نشینی اختیار کرنا، جنگ کے میدان میں حاضر ہونا یا صلح کرنا ان سب کی بنیاد خواہشات نفسانی یا دوسرے لوگوں کی خوشامد و چاپلوسی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ نفس کی قید و بند سے آزاد ہیں، فقط خدا کے بندے ہیں اور جو کام انجام دیں وہ اسی کی رضا کی علامت ہے۔

امام سجاد علیه السلام نے ایسے دور میں زندگی بسر کی کہ جب بنی امیہ کے ہاتھوں دین میں تحریف کرنے کا بازار گرم تھا...۔اسلامی احکام، ابن زیاد، حجاج اور عبدالملک ابن مروان جیسے افراد کے ہاتھوں کھلواڑبنناواضح ہے ... ایسی حکومت کےتحت لوگوں کی دینی َتربیت کس حد تک انحطاط کا شکارہوچکی تھی اور زمانۂ جاہلیت کی جاہلانہ رسومات کس قدر

زندہ ہو چکی تھیں(1)۔

ص: 15


1- ۔ حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ ، رسول جعفریان ، ص 260۔

اگر امام سجاد علیه السلام نے اپنے زمانہ کےمخصوص حالات کی بنیاد پر قیام نہیں کیا تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بابا امام حسین علیه السلام سے مختلف شخصیت کے مالک تھے بلکہ تمام ائمہٍ معصومین علیهم السلام ایک ہی نور سے ہیں اور وہ سب اطاعت الہٰی کے محراب میں کھڑے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں امام علیہ السلام نےحالت اسیری میں کس طرح یزید ملعون کے دربار میں خطبے ارشاد فرمائے ہیں اور یزید ملعون کو اس کے اپنے ہی محل میں رسوا کیا ہے۔ یہ نکتہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر کام کی انجام دہی اس کے لازمی شرائط کے ساتھ وا بستہ ہے کیوں کہ دو شرطیں ایسی بنیادی ہیں جو تمام اصلاح طلب تحریکوں کے لیے لازمی ہیں۔

1۔ شرط فاعلی: ایسی رہبر کاموجود ہونا جو رہبری ( امامت ) کی تمام لازمی خوبیوں کا مالک ہو۔

2۔ شرط قابلی:ایسی تحریک کے لیے لوگوں کی آمادگی اورزمانے کے حالات کا سازگار ہونا۔

شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کے بارے میں شرط فاعلی بطور کامل موجود ہے اور جب بھی یہ فاعلی پہلو، شرط قابلی سے ہم آہنگ ہو تو ظاہر ہوتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ امام سجاد علیه السلام نے اپنی

34 سالہ سرگرمیوں کے ساتھ شیعوں کو زندگی کے سخت ترین دور سے نکالا، یہ ایسا دورتھا کہ جس میں امویوں اور زبیریوں کے ذریعے شیعوں کو کافی کچلا گیا اور کہیں روشن کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔

ص: 16

وہ دور یہ تھا کہ جس میں اموی اپنے مذموم مقاصد تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کا ظلم و فساد برپاکرتے تھے اور ہرطرح سے کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ اس دور کے لوگوں نے امام حسین علیه السلام کو دعوت دینے کے ذریعے اپنے امتحان کامرحلہ سر کیا۔

یہ لوگ عقل و فہم اور ایمان سے عاری ہو چکے تھے، انہیں دین کے لبادے میں رفاہ و آسائش اور تن پروری کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔

وہ لوگ امام سجاد علیه السلام سے اظہار محبت کرتے تھے اور ان کے درمیان امام علیه السلام اچھی خاصی محبوبیت رکھتے تھے لیکن یہ محبتیں بھی انہی نام نہاد محبتوں کی طرح تھیں جس کا اظہار

امام علیه السلام کے آباء و اجداد کے ساتھ ہوا امتحان کے وقت، میدان عمل میں ان میں سے ہر ایک گوشہ نشین ہو کرنقصان پہنچاتا تھا اور نہ صرف یہ کہ ان کا ساتھ نہیں دیتے تھے بلکہ بوقت ضرورت ائمہ علیهم السلام کے مقابلے میں کھڑے بھی ہو جاتے تھے۔

امام سجاد علیه السلام نے ان حالات میں ایسے لوگوں کو بالواسطہ اصل دین اور دین داری کی طرف دعوت دی-” فن خطابت یا خط و کتابت،،وغیرہ جیسی براہ راست زبانی روش اور ”عملی قیام“کےبجائے بالواسطہ زبانی طورپر لوگوں کو دعا کے انداز میں دین،عبادت اور مکارم اخلاق وغیرہ کی طرف متوجہ کیا۔

البتہ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ دعا، عبادت اور اخلاقی پابندیوں کو اسلحہ اور وسیلہ کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ امور ایک عابد اور کامل انسان کی زندگی کا جزو لاینفک ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی دعائیں، عبادتیں اور اخلاقی

ص: 17

فضائل تمام ائمہ علیهم السلام سے مروی

ہیں لیکن چوں کہ امام سجاد علیه السلام کے زمانے میں دعوت دین کا براہ راست استفادہ نہیں ہوا لہذا خود بخود بالواسطہ روش زیادہ نمایاں ہو گئی۔اور لوگوں میں وہی زیادہ مشہور ہوگئی۔ دوسری طرف سے ہر دعا کرنے والے کی دعا میں یہ خصوصیت

ہوتی ہے کہ وہ اپنی دعا میں افراد، معاشرے اور زمانے کے حالات سے غفلت نہ برتے

اور ان کی خیرخواہی کے لیے دعا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ امام سجاد علیه السلام کی بعض دعائیں سماجی حالات کو بیان کرتی ہیں اور دینی عقائد کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔

امام علیه السلام کا دعاؤں میں درود و صلوات کا بکثرت ذکر کرنا ایک قسم کا لوگوں اور محمد و آل محمد علیهم السلام کے درمیان رابطہ برقرار کرنا ہے۔

ختم قرآن کی دعا قرآنی حقیقت کو بیان کرتی ہے اور لوگوں کو اس نکتہ کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ قرآن،عمل کی کتاب ہے اور قرآنی حدود کالحاظ رکھنا اس کے حروف سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

دعاؤں میں ظالموں پر لعنت اس بات کی دلیل ہے کہ امام علیه السلام ان کی حکومت سے ناراض تھے اور اس بات کی علامت ہے کہ لوگ ان سے ہوشیار رہیں اور ان کے سامنے تسلیم نہ ہوں۔

کتاب صحیفۂ سجادیہ ایسی دعاؤں کامجموعہ ہے جو اسلامی امت میں رہبریت اور امامت کا کردار بیان کرتی ہے اور لوگوں کو امام علیه السلام کے واجب الاطاعت ہونے کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔

ص: 18

اس میں تسبیح و تہلیل اورتحمید وتمجید پر مشتمل ایسی دعائیں ہیں جو صحیح عقیدہٴ توحید اور اس کے علوم ومعارف سکھاتی ہیں اور معاشرے میں موجود افراد کے صحیح عقائد اور درست فکر کو تشکیل دیتی ہیں۔

مزید ایسی عرفانی اور اخلاقی دعائیں ہیں جو دنیا سے وابستہ دلوں کو دنیوی دلبستگی سے دور کریں اور انہیں خدا دوستی اور محبت الہی کی طرف متوجہ کریں۔

یہ تمام دعائیں ایسے شخص

کی ہیں جو خدا ئی معرفت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز اور عشق الہٰی کی معراج پرقائم ودائم ہے اوردوسرے لوگوں کو بھی معرفت ومحبت کے ان مراتب تک پہنچانے کاخوا ہاں ہے۔ اگر ایسا ہو جائے اور انسان خدا کے ساتھ اپنے اُنس اور تسلیم کے رابطے کو مضبوط کر لے تو پھر غیر خدا کے سامنے نہ جھکے گا نہ ہی اس سے ہراساں و خوف زدہ ہو گا۔

دعا اور اس کا فلسفہ

اس کتاب کا اصل موضوع بلکہ اس کا سارا متن خداوندمتعال سے دعا و مناجات کرنےپر مشتمل ہے۔ اسی لیے

مناسب یہ ہے کہ مختصر طور پر دعا اور اس کے فلسفہ کے بارے میں کچھ ذکرکیا جائے۔

”دعا“یعنی خداوندمتعال سے درخواست، گفتگو او ررازونیاز کرنا ہے۔ دعا ایک طرح سے اپنی کمی و کاستی سے آگاہی اور باری تعالی کے غنی وبے نیاز ہونے کے شعور کی بنیاد ہوتی ہے۔

ص: 19

کمی وکاستی کا ایسا احساس انسان کے کمال کی طرف بڑھنے کا محرک اور ضرورت واحتیاج کے بر طرف ہونے کاباعث ہوتا ہے۔اور چوں کہ ضروریات مختلف ہیں لہذا دعائیں اور درخواستیں بھی مختلف صورت واحساس سے کی جاتی ہیں۔

دعا انسان کے فطری امور میں سے ہے اسی لیے تمام قوموں، ملتوں اور ادیان میں موجود ہے اور یہی چیز مادیت کے ہاتھوں خستہ حال انسانی روح کو تروتازگی اور نشاط بخشتی ہے یہی وہ لمحات ہیں کہ جب انسان اپنے پروردگار سے یکسوئی کے ہمراہ و مناجات کرتا ہے۔

جس طرح عقیدۂ توحید انسان کی فطرت میں موجود ہے بعینہ دعا کی حالت بھی ممکن ہے انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں موجود ہو اور فقط اضطراب اور کسی پناہ کے ملنے کے احساس کے موقع پر یہ کیفیت ظاہر ہو۔(1)

رابطے کی یہ حالت مؤمنین کی روح میں ایک سرگرم و متحرک عنصر کی صورت میں پیدا ہوتی ہے اورایسی حالت ان کی معنوی زندگی کالازمہ ہے۔

ہماری دینی و قرآنی ثقافت میں”دعا“کوحیات ایمانی کا جزو لاینفک ہے۔جس سے دوری اور منہ موڑنا انسانی شخصیت کی پستی اور رحمت الہی سے محروم ہونے کا سبب ہے۔(2)

”دعا“پر انسانی نگاہ دو قسم کی ہے:بعض دعا کو”وسیلہ“جانتے ہیں،اس لحاظ سے اگر ان کی دعا قبول ہو گئ تو پھر دعا کے لیے ہاتھ نہیں اُٹھاتے اور اگر اُن کی دعا قبول نہ ہو تو ان میں ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی اپنی زبان سے کفر اور ناسزا الفاظ بھی جاری کر تے ہیں کیوں کہ ” مدعوّ “ یعنی جسے

انہوں نے پکارا اور جس کی بارگاہ میں آئے ہیں اسے اچھی طرح

ص: 20


1- ۔ عنکبوت،65۔
2- ۔ غافر ، 60۔

نہیں پہچانا نہ ہی اس کے لطف و حکمت سے آشنا ہوئے۔دوسراگروہ”دعا “ کو ہدف سمجھتاہے اور اس کی نظر میں دعا خدا وند متعال سے انس و محبت،دلبستگی کااظہار اور اسی کے ساتھ لو لگانا ہے۔ اگر ان کی حاجت پوری ہو جائے تو اس کا شکر اداکرتے ہیں اور اگر پوری نہ ہو تو پھر بھی طلب کر نے سے دست بردار نہیں ہوتے بلکہ خود اس طلب اور رابطے کو اپنے لیے ہر ضرورت سے بالا تر سمجھتے ہیں۔مناجات المریدین میں ہم پڑھتے

ہیں:

”و فی مناجا تک روحی و راحتی“

اور تیری مناجات ہی میں میری خوشی اور سامان ِراحت ہے۔(1)

جس نکتے کی طرف علمی و دینی مراکز کو توجہ کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ”دعا“کو ایک ایسا علم سمجھیں جس کی

دیگر دینی موضوعات کی طرح مختلف پہلوؤں سے تحقیق ہونی ضروری ہے۔ جیسے عقائد، احکام اور اخلاق وغیرہ کے علوم ہیں۔صاحب ِایمان انسانوں کی زندگی میں ان کے عملی پہلو کے علاوہ علمی پہلو کوبھی دیکھنا ہو گا اور فلسفہٴ دعا کا ہدف دعاسے متعلق بہت سے سوالات کا جواب دینا نیز ان کامستند طور پر علمی تجزیہ وتحلیل کرنا ہے۔

صحیفہ ٔ سجادیہ جو سب کا سب دعاومناجات کا مجموعہ ہے،یہ دعا کے ساتھ ساتھ بہت سے حقائق و معارف کی تعلیم

دیتا ہے اوردعا سے متعلق متعدد سوالات کا جواب دہ بھی ہے۔

مکتب اہل بیت علیه السلام میں زبان دعا اپنی لطافت اور وفور شوق کے ساتھ ساتھ مختلف دینی شعبوں کے اعلٰی معارف پر مشتمل ہے۔ ان دعاؤں میں موجود حقائق و معارف شاید روایات میں نہ مل سکیں،کیوں کہ روایات میں ائمہ علیهم السلام کے مخاطب عام لوگ ہوتے ہیں

ص: 21


1- ۔ الصحیفۃ الثانیہ السجادیہ ، المناجاۃ المریدین ، ص ، 30 ۔

اور انہی کی سطحی فکر کے مطابق گفتگو ہوتی ہے لیکن دعاؤں میں مخاطب خداوندمتعال کی ذات اقدس ہے لہذا ان دعاؤںمیں امام علیه السلام کے قلب مبارک میں موجود جو معارف کابیان ہے وہی ملے گا، لہذا بہت سے راز اور اہم نکات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ص: 22

دوسری فصل

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف

ص: 23

ص: 24

صحیفہٴ سجادیہ کا مختصر تعارف

صحیفہٴسجادیہ امام علی علیه السلام ابن حسین علیه السلام ابن علی علیه السلام ابن ابی طالب علیه السلام کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ یہ دعائیں امام سجاد علیه السلام کی عظیم روح کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ دعائیں تعظیم، تقدیس الہی، خدا کی حمد، شکر،بارگاہ احدیت میں عاجزی و انکساری، اعتراف گناہ،بندگی میں کوتاہی، خدا کے دائمی لطف کا امید وارہونا اور اس کے بے مثال حسن سے عشق کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔مزیدخداوندمتعال سے خیر و سعادت اور توفیق و ہدایت طلب کرنا،برائی و بدبختی اور غضب وعذاب سے نجات پانا، اور نفس امّارہ ومکار شیطان سے خدا کی پناہ مانگنے کا راستہ انہی دعاؤں میں ملتاہے۔

صحیفے کی طرف رجحان

صحیفہ ٔ سجادیہ کے اعتقادی، اخلاقی، فلسفی، نصیحت آموز اور اجتماعی مضامین نیز اس کے ادبی و

بلاغی بیان نے اسے دیگر دینی کتابوں میں ایک اعلیٰ مقام اور بلند حیثیت عطا کی ہے۔ اور یہی بات علماء،عرفاء،حکماء،ادباء اور باریک بین حضرات کے رجحان کا سبب بنی ہے یہی وجہ ہے کہ کتا ب صحیفہ ٔ سجادیہ ابتدائی صدیوں سے اصحاب وعرفاءکی توجہ کا مرکز رہی ہے۔

(1)۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد کے باب فضائل و مناقب امام سجاد علیه السلام میں ناقل ہیں:

ص: 25

“و قد روی عنہ فقھاء العامۃ من

العلوم ما لا تحصیٰ کثرۃ و حفظ عنہ من المواعظ و الادعیۃ و فضائل القرآن و الحلال و الحرام و المغازی و الایّام ما ھو مشھور بین العلماء“(1)

(2)۔ نجاشی متوکل کے حالات زندگی میں تحریر کرتے ہیں:

”متوکل بن عمیر بن متوکل، روی عن یحییٰ بن زید دعاء الصحیفۃ“(2)۔

امام سجاد علیه السلام کی دعاؤں کا کتب حدیث خصوصاً کتب اربعہ میں ذکر ہونا اور دعاؤں کی دیگر قدیمی کتابوں میں نقل ہونا در حقیقت صحیفہ ٔ سجادیہ کی طرف علماء کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

شیخ طوسینے اپنی دعاؤں کی کتاب ” المصباح المتہجد“ میں مختلف مناسبتوں سے صحیفہ ٔ سجادیہ کی دعائیں نقل کی ہیں اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب بھی کسی امام علیه السلام کی دعا کو بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس امام علیه السلام کا اسم مبارک بھی لکھتے

ہیں لیکن امام سجاد علیه السلام کی دعاؤں کا ذکر صرف دعا کے عنوان سے کرتے ہیں۔یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ امام سجاد علیه السلام کی دعائیں علما ء کے نزدیک کس قدر مشہور اور معتبر تھیں۔

ص: 26


1- ۔ الارشاد ، ص260 ۔261 ، اہل سنت کے علماء نے بے شمار علوم امام سجاد علیه السلام سے نقل کیے ہیں جیسے:مواعظ، دعائیں، فضائل قرآن، حلال و حرام کے مسائل، جنگوں کے واقعات اور تاریخ ان سے نقل کیے ہیں جو علماءکے درمیان مشہور ہیں۔
2- ۔ رجال نجاشی ، شمارہ 1144 ۔

صحیفہ کے اسمائے گرامی

صحیفہ ٔ سجادیہ” صحیفہٴ کاملہ“ کے نام سےمشہور ہے۔ ابن شھر آشوب نے معالم العلماء میں صحیفہ کو” زبور آل محمد علیهم السلام “ اور”انجیل اہل بیت علیهم السلام “کہاہے اور اسے”اخت القرآن“بھی کہا گیا ہے۔صحیفہ” کا ملہ“نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سےمختصر صحیفہ زیدیوں کے پاس موجود ہے جب کہ اس کے مقابلے میں شیعہ امامیہ کے ہاں عظیم

اور کامل ترین صحیفہ موجود ہے۔

اس کا زبور اور انجیل نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ " زبور " حضرت داؤد علیه السلام کی کتاب ہے جس میں اکثرمناجات اور دعائیں ہیں اور چوں کہ صحیفہ بھی مناجات اور دعاؤں کی کتاب ہے اس لیے” زبور آل محمد علیهم السلام “کہتے ہیں۔ ”انجیل“ بھی حضرت عیسیٰ علیه السلام کی کتاب ہے کہ جس میں حضرت عیسیٰ مسیح علیه السلام کے مواعظ اور نصیحتیں موجود ہیں۔صحیفہ ٔ سجادیہ میں بھی مؤثر ترین مواعظ موجود ہیں اسی لیےیہ ”انجیل اہل بیت علیهم السلام “ کے نام سے موسوم ہے۔

صحیفہ کی دعاؤں کی تعداد

صحیفہ کے موجودہ نسخہ

میں 54 دعائیں شامل ہیں حالانکہ صحیفہ ٔ سجادیہ کے مقدمہ میں موجود دعاؤں کی تعداد 75 بیان کی گئی ہے۔ان میں سے گیارہ عدد خود راوی نے گم کیا ہے اور صرف ان میں سے 64 دائیں راوی کے پاس موجود تھی۔ لہٰذا بقیہ دوسری دس عدد دوسرے راویوں سے گم ہوئی ہوگی، لیکن صحیفہ کے دوسرے اسناد میں جو”مطہری“ سے نقل ہوئے ہیں ان میں 75باب دعا

ص: 27

میں سے گیارہ باب کے گم ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے بلکہ 55 باب کو تفصیل سے ذکرکیا ہے۔

صحیفہ کی حدیث

صحیفہ ٔ سجادیہ کے پہلے راوی”متوکل ابن ہارون“ نے اس کتاب تک کیسے رسائی حاصل کی، اس سلسلہ میں اس کےحصول کے بعض طریقوں کو درج ذیل سطروں میں ذکر کیا جارہاہے۔

متوکل ابن ہارون ناقل ہیں: میں نے یحیی ابن زیدا بن علی علیه السلام سے ان کے باپ کی شہادت کے بعد ملاقات کی جب

کہ وہ خراسان روانہ ہو رہے تھے۔(1)

یحیی نے پوچھا: تم کہاں سے آ رہے ہو ؟

میں نے کہا:حج کرکے مکہ سے، تو انہوں نے اپنے اہل خانہ، مدینہ میں اپنے چچا زاد بھائیوں اور سب سےزیادہ

حضرت جعفر علیه السلام ابن محمد علیه السلام کے بارے میں احوال پرسی کی۔ میں نے انہیں ان کے خاندان اور حضرت جعفر علیه السلام کے حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ حضرت جعفر علیه السلام آپ کے والد زید ابن علی علیه السلام کے بارے میں کافی غم زدہ ہیں۔

ص: 28


1- ۔ الکامل فی التاریخ ، ابن اثیر ، ج5 ،ص127 ؛ الامام الصادق علیه السلام والمذاھب الاربعہ ،اسد حیدر ، ج1،ص129۔ یحیی،زید شہیدکے فرزند ہیں،اپنے باپ کے قتل ہونے کے بعد3 12ہجری میں کوفہ سے خراسان روانہ ہوئے اور بلخ میں حریش ابن عبدالرحمان شیبانی کے گھر پہنچے۔ حاکم خراسان نصرا بن سیّار نے125 ہجری میں انہیں شہید کردیااور ان کا سر جدا کر کے مدینہ بھیجا پھر ان کا بدن سولی پر لٹکایا ۔ ابھی ان کا بدن سولی پر ہی تھا تو ابومسلم خراسانی نے خراسان پر قبضہ کر لیا، ان کا بدن نیچے اتروایا، ان کی نماز جنازہ پڑھی اور دفن کر دیا۔

یحیی نے کہا:میرے چچا محمد علیه السلام ابن علی علیه السلام نے میرے والد سے اشارتاً کہا تھا کہ خروج نہ کریں اور اگر خروج کر کے مدینہ سے نکلیں گے تو اس کے انجام کار سے بھی آگاہ کردیا تھا۔

یحیی نے مزید دریافت کیا:کیا تو نے میرے چچا زاد بھائی جعفر علیه السلام ابن محمد علیه السلام سے ملاقات کی ہے ؟

میں نے عرض کیا: جی ہاں!

انہوں نے پوچھا:کیا فرما رہے تھے ؟ میں نے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں!میں وہ آپ کے سامنے ا نہیں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے ان سے سنا ہے انہوں نے مسکراتےہوئے کہا:

کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ جو کچھ سنا ہے بیان کرو؛ میں نے کہا: میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:وہ آپ کو بھی ایسے ہی قتل کرکے سولی پر لٹکائیں گے جیسے آپ کے والد بزرگوارکوقتل کےبعدسولی پر لٹکایا گیا“۔

یہ سن کر ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور فرمایا:

”یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ اُمّ الکتاب“(1)

اے متوکل!خداوند متعال نے اس امر ( امامت ) کے ذریعے ہماری تائید فرمائی اور ہمارے نصیب میں علم وتلوار قرار دی جب کہ ہمارے چچا زاد بھائیوں کو فقط علم سے نوازا۔

ص: 29


1- ۔ سورۂ رعد ، آیت 39 ۔( اللہ جس چیز کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔)

میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! میں نے دیکھا ہے لوگ آپ اور آپ کے والد کی نسبت آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر علیه السلام

کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔

یحیی نے کہا:بات یہ ہے کہ ہمارے چچا محمد علیه السلام ابن علی علیه السلام اور ان

کے فرزند حضرت جعفر علیه السلام لوگوں کو زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جب کہ ہم انہیں موت کی طرف بلاتے ہیں۔

میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا !کیا وہ حضرات زیادہ علم رکھتے ہیں یا آپ ؟

یہ سن کر تھوڑی دیر سر جھکائے رکھا اور پھر سر اٹھا کر بولے: ہم سب کے پاس علم ہے مگر یہ کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں ہم نہیں جانتے۔

پھر کہنے لگے: کیا تم نے میرے چچا زاد بھائی حضرت جعفر علیه السلام کےاقوال میں سے کچھ لکھا ہے ؟

میں نے کہا: جی ہاں!

انہوں نے کہا: مجھے دکھاؤ۔

چند مسائل جو میں نے لکھے تھے ان کےسامنے پیش کیے اور ان میں سے ایک وہ دعا بھی تھی جو مجھے حضرت امام جعفر صادق علیه السلام

نے یہ کہہ کر لکھوائی کہ یہ دعا انہیں ان کے والد حضرت محمد علیه السلام ابن علی علیه السلام (محمد باقر علیه السلام )نے لکھوائی تھی اور یہ بھی بتایا کہ یہ دعا ان کے والد علی علیه السلام ا بن حسین علیه السلام کی ایسی دعاہے جو صحیفہٴ کاملہ میں موجود ہے۔

یحیی نے یہ دعا دیکھی

اور کہا کہ اجازت دیتے ہو کہ اس میں سے ایک نسخہ لے لوں ؟

ص: 30

میں نے کہا: اے فرزند رسول ! یہ تووہ چیز ہے جو آپ ہی سے ہم تک پہنچی ہے کیا اس کے لیے بھی آپ کو اجازت لینے کی ضرورت ہے ؟

اس کے بعد فرمایا: ابھی میں آپ کو ایک کامل دعا کا نسخہ دیتا ہوں جسے میرے والد (زید)نے اپنے والد

(علی علیه السلام ابن الحسین علیه السلام )سے یاد کیا اور مجھے نصیحت فرمائی کہ اسے محفوظ رکھوں اور اسےکسی نااہل کے حوالے نہ کروں۔

میں نے اٹھ کر ان کے سر کا بوسہ لیا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا ! میرا دین آپ حضرات کی محبت

اور اطاعت ہے اور امیدوار ہوں کہ یہی محبت اور اطاعت میری زندگی میں اور میرے مرنے کے بعد بھی سعادت کا باعث بنے گی... ۔

اس کے بعد یحیی نے ایک صندوقچہ منگوایا اور اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جو قفل میں بندتھا اور مہر لگی ہوئی تھی انہوں نے مہر کو چوما اور رو تے ہوئے مہر کو توڑا اور قفل کو کھولا پھر صحیفہ کو نکال کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر مل کر فرمایا: خدا کی قسم! اے متوکل! اگر تم نے میرے چچا زاد بھائی کا یہ قول نقل نہ کیا ہوتا کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سولی پر لٹکایا جائے گا تو میں ہرگز یہ تمہارے حوالے نہ کرتا اور اس مسئلے میں بخل سے کام لیتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا قول برحق ہے اور یہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے اور عنقریب یہ بات صحیح

ثابت ہو کر رہے گی۔ لہذا مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کبھی یہ علم بنی امیہ کے ہاتھوں لگ جائے اوروہ اسے اپنے خزانوں میں چھپا دیں۔ لہذا اب تم اسے لو اور مجھے اس کی حفاظت کی پریشانی سے آزاد کر و ...۔

ص: 31

متوکل یحیی ابن زیدکے قتل کے بعد مدینہ گیا اور حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کی خدمت میں حاضر ہوا

اور وہ صحیفہ جو یحیی نے اس کو دیا تھا امام علیه السلام کو دکھایا ؛امام علیه السلام نے صحیفہ کھولا اور فرمایا:

خدا کی قسم! یہ میرے چچا زید کی تحریر ہے اور یہ میرے دادا علی ابن الحسین علیه السلام کی دعائیں ہیں۔پھر آپ ؑ

نے اپنے بیٹے اسماعیل سے فرمایا:اے اسماعیل! اٹھو! اور وہ دعا لے آؤ جس کی حفاظت کا تمہیں حکم دیا تھا۔

چنانچہ اسماعیل گئے اور ایک صحیفہ اٹھا لائے جو بالکل ویسا ہی تھا جیسا یحیی ابن زید نے مجھے دیا تھا۔

امام جعفرصادق علیه السلام نے صحیفہ کا بوسہ لیا اور اپنی آنکھوں سے لگاکر فرمایا: یہ میرے والد بزرگوار کا لکھا ہوا اور میرے دادا کا املا ء کروایا ہوا نسخہ ہے۔

میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا !اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس صحیفہ کو زید اور یحیی کے صحیفہ سے ملاکر دیکھ لوں۔ حضرت علیه السلام نے اجازت دی اور فرمایا: میں تجھے اس کا اہل سمجھتا ہوں۔

میں نے دیکھا یہ دونوں صحیفے ایک جیسے ہیں اور ایک دوسرے سے ایک حرف کا بھی اختلاف نہیں پایاجاتا...۔

ص: 32

صحیفہ کے ملحقات

صحیفہ ٔ سجادیہ کے شائع شدہ اور خطی نسخوں میں 54 دعائیں ذکر ہوئی ہیں۔ پھر آخر میں ایک فصل ہے جو” صحیفہ کے ملحقات“ کے نام سے موجود ہے جس میں امام علیه السلام سے بعض دیگردعائیں بھی ذکر ہوئی ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:

1۔تسبیح2۔تحمید3۔آل محمد علیهم السلام کا ذکر4۔حضرت آدم علیه السلام پر درود و سلام 5۔الکرب و الاقالۃ6۔ ممّا یحذر و یخاف7۔ التذلّل8۔ ادعیۃ لاسبوع(ہفتے کی دعائیں) جو اتوار کے دن کی دعاؤں سے شروع ہوتی ہیں اور سنیچر کے دن کی دعاؤں پر ختم ہوتی ہیں۔شیخ عباس قمی نے ”مفاتیح الجنان“ کے شروع میں یہ دعائیں نقل کی ہیں۔9۔مناجات خمسۃ عشر (پندرہ مناجات)شیخ حر عاملینے ان مناجات کو صحیفہٴ ثانیہ میں بھی ذکر کیا ہے، وہ پندرہ مناجات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مناجاۃ التائبین، توبہ کرنے والوں کی مناجات2۔مناجاۃ الشاکین،شکایت کرنے والوں کی مناجات3۔مناجاۃ الخائفین، خوف رکھنے والوں کی مناجات4۔مناجاۃ الراجین، امید رکھنے والوں کی مناجات5۔مناجات الراغبین،رغبت رکھنے والوں کی مناجات 6۔مناجاۃ الشاکرین،شکر کرنے والوں کی مناجات7۔مناجاۃ المطیعین، اطاعت کرنے والوں کی

مناجات 8۔مناجاۃ المریدین،اہل

ارادہ و صاحبان اشتیاق کی مناجات 9۔مناجا ۃ المحبین،محبت

کرنے والوں کی مناجات10۔مناجا ۃ المتوسلین،توسل کرنے والوں کی مناجات 11۔مناجاۃ المفتقرین، محتاجوں کی مناجات12۔مناجا ۃ العارفین،عارفوں کی

ص: 33

مناجات13۔مناجاۃالذاکرین،اہل ذکر کی مناجات14۔مناجا ۃ المعتصمین،معتصمین کی مناجات 15۔مناجا ۃ الزاھدین،زاہدوں کی مناجات۔

صحیفہ ٔ سجادیہ کی دعاؤں کے عناوین

1۔ حمد اور شکر ( الف )التحمید للہ عزّوجلّ ؛ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے۔(1)

(ب) دعاءہ فی الشّکر ؛ آپ کی شکر الہٰی کے متعلق دعا(37)۔

2۔ صلواتھا و سلامھا۔

(الف)۔الصلاۃ علی محمد و آلہ؛صلوات و

درود بر محمد و آل محمد(2)۔

ب)۔الصّلاۃ علی حملۃ العرش و کلّ ملک مقرّب؛حاملین عرش اور مقرب فرشتوں پر درود۔

( ج)۔الصّلاۃ علی

اتباع الرّسل و مصدّقیھم؛درود ہو انبیاء علیهم السلام کے ماننے والوں

اور ان کی تصدیق کرنے(ایمان لانے والوں)پر(4)

3۔ انسان کی دنیوی

زندگی کی ضرورتوں اور دنیا کے حالات کے بارے میں دعا:

1۔اذا عرضت لہ مھمّۃ او نزلت ملمّۃ و عندالکرب ؛ کسی بھی اہم امر کے پیش آنے، مصیبت کے نازل ہونے اور غم و اندوہ کے موقع پر آپ کی دعا۔(7)

2۔ فی طلب الحوائج الی اللہ تعالی؛ اللہ سے حاجات طلب کرنے کے لیے آپ کی دعا(13)۔

ص: 34


1- ۔قوسین میں صحیفۂ سجادیہ کی دعا کے شمارے میں مندرج ہیں۔

3۔ اذا مرض او نزل بہ کرب او بلیّۃ؛ بیماری کے اوقات اور بلا ء و مصیبت کے نزول کے لمحات کی دعا(15)۔

4۔ اذا دفع عنہ ما یحذر

او عجّل لہ مطلبہ؛ کسی مصیبت کے دور ہو جانے کی دعا یا کسی مقصد کے فوراً حاصل ہونےکی دعا(18)۔

5۔اذا حزنہ امر و اھمّتہ الخطایا؛ کسی امر سے مغموم ہونے یا گناہوں کے تصور سے رنجیدہ ہونے کی صورت میں دعا(21)۔

6۔ اذا سئل اللہ العافیۃ و شکرھا؛پروردگار سے عافیت و تندرستی اور شکر عافیت طلب کرنے کی دعا(23)۔

7۔ عند الشّدۃ و الجھد و تعسّر الامور؛شدت، زحمت اور دشواریوں کے مواقع پر آپ کی دعا(22)۔

8۔ اذا قتّر علیہ الرزق؛تنگی رزق کے لمحات کی دعا(29)۔

9۔فی المعونۃ علی قضاء الدّین؛ ادائے قرض کے لیے مدد کرنے کی درخواست(30)۔

10۔ فی استکشاف الھموم؛ رنج و غم کی دوری کے لیے دعا(54)۔

4۔ معنوی حاجات

میں ر وحی، عرفانی اور اخلاقی حالات کے بارے میں دعا:

1۔ لنفسہ و خاصّتہ ؛

اپنے لیے اور اپنے مخصوص لوگوں کے لیے دعا(5)۔

2۔فی الاستعاذۃ من المکارہ و سیّیء الاخلاق و مذامّ الافعال؛ناخوشگوار حالات، برے اخلاق، قابل مذمت اعمال کے مقابلہ میں خدا کی پناہ طلب کرنے کی دعا(8)۔

ص: 35

3۔فی الاشتیاق الی طلب المغفرۃ من اللہ جلّ جلالہ،اللہ تعالیٰ سےطلب مغفرت کے اشتیا ق میں آ پ کی دعا(9)۔

4۔فی اللَجا ِ اِ لی اللہ تعالیٰ، خدائے متعال کی بارگاہ میں التجاءکرنے کی دعا(10)۔

5۔ بخواتیم الخیر ؛ انجام

بخیر ہونے کی دعا(11)۔

6۔فی الاِعتراف و طلب التّوبۃ الی اللہ تعالیٰ ؛ اللہ تعالی کے حضور اعتراف (قصور)اور طلب توبہ کی دعا(12)۔

7۔اذا استقال من ذنوبہ او

تضرّع فی طلب العفو عن عیوبہ؛ آپ کی وہ دعاکہ جس وقت گناہوں سے توبہ کرتےیا عیوب کی معافی مانگتے اور گریہ و زاری کرتے تھے(16)۔

8۔فی مکارم الاخلاق و مرضیّ الافعال؛اعلیٰ

اخلاق اور پسندیدہ اعمال کے بارے میں(20)۔

9۔متفزّعاً الی اللہ۔ عزّ و جلّ۔؛بارگاہ الہی میں پناہ طلب کرتے وقت آپ کی دعا(28)۔

10۔فی ذکر التوبۃ و طلبھا؛ ذکر

توبہ اور طلب توبہ کے بارے میں دعا(31)۔

11۔فی الاستخارۃ؛ خدا سےطلب خیر کے سلسلے میں آپ کی دعا(33)۔

12۔اذا ابتلیٰ او رایٰ مُبتلی بفضیحۃ بذنب؛جب کسی آ زمائش میں مبتلا ہوتےیا کسی کو گناہ

کی رسوائی میں گرفتاردیکھتے تودست بدعاہوتے(34)۔

13۔فی الرضا اذا نظرالی اَ صحاب الدنیا؛اصحاب دنیا کو دیکھ کرتقدیرالہٰی پر رضا وخوشی کے اظہار میں

دعا(35)۔

ص: 36

14۔فی الاِ عتذار من تبعات العباد و من التّقصیر فی حقوقھم و فی فکاک رقبتہ من النّار؛بندوں کی ذمہ داریوں اور ان کے حقوق میں کوتاہی کی معذرت خواہی اور آتشّ جہنم سے آزادی کے لیے دعا(38)۔

15۔فی طلب العفو و الرحمۃ؛عفو و رحمت کے لیے دعا(39)۔

16۔اذا نُعی الیہ میّت او ذَکر الموت؛کسی کے مرنے کی خبر ملنےیاموت کا ذکرہونے کے وقت دعا(40)۔

17۔فی طلب السّتر و الوقایۃ؛

پردہ پوشی،حفاظت کےلیے دعا۔

18۔فی الرّ ھبۃ؛ خوف خدا کےلیے دعا(50)۔

19۔فی التّضرع و الاستکانۃ؛تضرع اور نیازکے بارے میں دعا(51)۔

20۔فی الالحاح علی اللہ تعالیٰ؛بارگاہ الہٰی میں زیادہ اصرار کے ساتھ درخواست کرنے کے وقت دعا(52)۔

5۔ نمازِ شب اور قرآن:

1۔بعد الفراغ من صلاۃ اللّیل فی الاِعتراف بالذّنب؛نماز شب سے فارغ ہونے کے بعداپنے اعتراف خطا کی منزل میں دعا(32)۔

2۔عند ختم القرآن؛ قرآن ختم کرنے کے موقع پر دعا(42)۔

6۔ دوسروں کے لیے دعا:

1۔ لِابویہ ؛ ماں

باپ کے حق میں دعا(24)۔

2۔ لولدہ؛ اولاد کے حق میں دعا(25)۔

ص: 37

3۔لجیرانہ و اولیائہ اذا ذکرھم؛ ہمسایو ں اور دوستوں کے حق میں دعا جب بھی اُن کا ذکر ہو(26)۔

4۔لاھل الثّغور؛سرحد کے محافظین کے لیے دعا(27)۔

7۔مخصو ص

اوقات کے لیے دعائیں:

1۔عند الصّباح و المساء ؛صبح اور شام کے وقت کی دعا(6)۔

2۔اذا دخل شھر رمضان؛ رمضان

المبارک کے آغاز ہونے کے وقت کی دعا(44)۔

3۔فی وداع شھر رمضان؛ رمضان المبارک کو الوداع کرنے کی دعا(45)۔

4۔فی یوم الفطر اذا انصرف من صلاتہ قام قائماً ثمّ استقبل القبلۃ، و فی یوم الجمعۃ؛ عید فطر کے دن

جیسے ہی نماز سے فارغ ہو کر واپس لوٹتے تو روبہ قبلہ کھڑے ہو کر دعا

مانگتے۔اور جمعہ کے دن کی دعا(46)۔

5۔فی یوم عرفۃ؛عرفہ کے دن کی دعا(47)۔

6۔یوم الاضحیٰ و یوم الجمعۃ؛عید قربان اور روز جمعہ کی دعا(48)۔

8۔ طبیعی حوادث

اور آسمانی نشانیوں کے بارے میں دعائیں:

1۔عند الاستسقاء بعد الجدب ؛ قحط کے بعد بارش کے لیے دعا(19)۔

2۔اذا نظرالی السّحاب و البرق و سمع صوت الرّعد؛بادل اوربجلی دیکھ کر اور گرج چمک کی آواز سن کر دعا(43)۔

3۔اذا نظر الی الھلال؛ پہلی کا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا(43)۔

9۔ دشمنوں کی سازشوں اور شیطان کی مکاریو ں سے بچنے کی دعائیں

ص: 38

1۔اذا اعتدی علیہ،اورایٰ من الظالمین ما لا یُحب ؛جب کوئی آپ پر ظلم و زیادتی کرتا یا ظالموں کا کوئی نا پسندیدہ عمل دیکھتے تو دعا فرماتے(14)۔

2۔ فی دفاع کید الاعداء و ردّ باسھم؛ دشمنوں کے مکر سے بچاؤاور اُن کے حملوں کو پلٹانے کے وقت دعا(49)۔

3۔اذا ذُکر الشیطان فاستعاذ منہ و من عداوتہ و کیدہ ؛جب کبھی شیطان کا ذکر ہوتا تو اس کے مکر اور دشمنی سےحضرت علیه السلام پناہ مانگتے تھے(17)۔

ص: 39

ص: 40

تیسری فصل

صحیفہ کی حجیت اور اعتبار

ص: 41

ص: 42

صحیفہ ٔ سجادیہ کی حجیت کے بیان سے پہلے،یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس کی حجیت معلوم کرنا ضروری بھی ہے یا نہیں ؟

اس سوال کے جواب کےلیے ایک مقدمہ ذکر کرنا ضروری ہے:

دعا کا ایک وسیع باب ہے اور باقی مستحبات کی طرح یہ بھی” قاعد ہٴ تسامح درادلہ سنن“(1) کے زمرے میں آتا ہے۔

دعا مطلق قصد قربت کی نیت سے بھی کی جا سکتی ہے اگر کوئی ثواب بھی اس کے لیے ذکر کیا گیا ہو”اگرچہ حقیقت اس کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو یعنی وہ روایت صحیح نہ ہو “ دعا کرنے والے کو اس کا ثواب ملے گا۔

اس مطلب کو روایات”من بلغ“(2) میں بیان کیا گیا ہے،کیوں کہ دعا خداوندمتعال کے ساتھ رابطہ کا نام ہے اور اگر اس دعا کے پڑھنے سے یہ رابطہ برقرار ہو جائے تو پھر سند کے صحیح ہونے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس مطلب کا راز یہ ہے کہ ہمارے دینی متون”حُکم“ کے مقولے سے ہیں یا”حکمت“ کے۔جب یہ حکم اور فرمان کے مقولے سے ہو تو وہاں پر صرف کلام کافی نہیں بلکہ متکلم بھی اہم ہے،کیوں

ص: 43


1- ۔ادلۂ مستحبات یعنی ایک قسم کی چشم پوشی کرنا اور سہولت پہنچانا ہے اور اس کی دلیل اس سلسلے میں موجود محکم روایات ہیں۔
2- 2۔ ادلہٴ سنن یاتسامح میں اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کو یہ علم ہو کہ فلاں کام کے انجام دینے سے ثواب حاصل ہو گا اور اس ثواب کی نیت سے وہ عمل انجام دے تو اسے وہی ثواب حاصل ہو گا چاہے حقیقت امر اس طرح نہ ہو اور اس قسم کی حدیث حجیت سے خالی ہی کیوں نہ ہو، اصول کافی، محمدا بن یعقوب کلینی ، ج2 ، ص87۔

کہ”عبودیت“اور”اطاعت“فرمان الہی کےبغیر انجام نہیں پاتی اور حکم کی اطاعت اس وقت عملی ہوتی ہے جب مولیٰ کا حکم ثابت ہوجائے۔لہٰذا حکم”واجبات اور محرمات“ کے دائرےمیں یعنی”فقہ و احکام،، میں روایات کے اسناد کی تحقیق ضروری ہے تاکہ جو شخص راوی ہے اس کی روایت موثق اور قابل اعتماد ہو لیکن متون حکمت میں ”کلام“ اہم ہے کلام نقل کرنے والا نہیں، اسی لیے امام علی علیه السلام کا یہ فرمان ہے:

” خذ الحکمۃ ممَن اَتاک بھا، وانظر الی ما قال، و لا تنظر الی من قال؛حکمت جہاں سے ملے لے لو اور یہ نہ دیکھو کس نے کہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہا ہے۔“(1)

لہٰذا جن متون میں دعا، اخلاق اور اعتقاد کے مسائل بیان ہوئے ہیں ان کی سند کی تحقیق ضروری نہیں،کیوں کہ ہدف،فکری، اخلاقی، روحی اور معنوی خلا کو پُر کرنا ہے اور اس قسم کے متون سے یہ ہدف پورا ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے اگر کوئی حدیث اعتقادی مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کو واضح طور پر بیان کرے اور اس اعتقاد کے مبانی و اصولوں کو روشن کرے تو اس حدیث کی سند معلوم کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، جیسے نہج البلاغہ کے بعض خطبے اگرچہ ان کے معتبر اسناد موجود ہیں کیوں کہ”جب سورج موجود ہو تو اس کے روشن ہونے پر دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی“۔

لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر کسی دعا کا متن اصول اور عقائد کے خلاف نہ ہو تو انسان کے اندر گریہ و زاری کی حالت پیدا کرے اور خدا کے ساتھ لطیف پیرائے میں ہم کلام ہونے کا طریقہ سِکھائے تو

ص: 44


1- ۔ غرر الحکم و درالکلم،آمدی فصل 30،حرف خاء۔

اس کے پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس کی سند کی تحقیق بھی ضروری نہیں۔

پس جو مطالب ذکر ہوئے ہیں ان کی روشنی میں صحیفہ ٔ سجادیہ کی حجیت کے لیے اسناد کی تحقیق ضرور ی نہیں ؛

لیکن اگر ہم اس لحاظ سے بھی اطمینان حاصل کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ صحیفے کی حجیت کے لیے مندرجہ ذیل تواتر،متن اور سند کےعناوین پر توجہ کریں۔

1۔ تواتر

(1)

ایک روایت کے صادر ہونے

کے متعلق حصول اطمینان کے راستوں میں سے ایک راستہ روایت کامتواتر ہوناہے۔تواتر کی صورت میں سند کے بارے میں بحث کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں

رہتی،کیوں کہ سندبذات خودکوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ”سند“ وثاقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اگر روایت کی وثاقت تواتر کے ذریعہ حاصل ہو جائے تو یہ سند سے زیادہ تسلی بخش ہے اور پھر دوبارہ اسناد کی تحقیق ضروری نہیں ہے۔

صحیفہ ٔ سجادیہ کے بارے میں یہ تواتر موجود ہے علاوہ ازیں شیعہ علماء نے بالاتفاق اس کتاب کو قبول کیا ہے اور اس کی دعاؤں کو اپنی ادعیہ اور روائی کتابوں میں بیان کیا ہے اور نقل حدیث کی اجازت کے باب میں بھی ہزاروں” اجاز ے“موجود ہیں جو صحیفہ کی اہمیت پر روشن دلیل ہیں۔(2)...

اب صحیفہ کی دعاؤں کے متواترہونے کی تصدیق کے لیےبعض علماء کے بیانات مندرجہ ذ یل ہیں۔

ص: 45


1- ۔ مقدمہ صحیفہ کے بارے میں تواتر اجمالی کا اثبات ہے۔
2- ۔ بحارالانوار ؛ علامہ مجلسی ؛ ج 10 ص47،مقدمہ صحیفہ ٔسجادیہ، سید محمد مشکوۃ، فصلنامہ علوم حدیث، مقالہ ڈاکٹر منصور پلوان شمارہ 12۔

عظیم فلسفی اورمحقق میر داماد فرماتے ہیں:

الصحیفۃالکریمۃالسجادیۃالمسماۃ”انجیل اہل بیت علیه السلام “و”زبور آل الرسول |“متواترۃ۔(1) انجیل اہل بیت علیه السلام اور زبور آل محمد| کے نام سے موسوم صحیفہٴ کریمہ سجادیہ، متواتر ہے۔

عظیم محدث کاشانی ؒ فرماتے ہیں:

نقل الصحیفۃ ھذہ متواترۃ عن سیّد العابدین کسایر الکتب المنسوبۃ الی مصنّفیھا۔(2) اپنے مصنفین سے منسوب دیگر تمام کتب کی طرح صحیفہ ٔ سجادیہ بھی سید العابدین علیه السلام سے بطور

متواتر منقول ہے۔

آغا بزرگ تہرانی ؛ صاحب کتاب الذریعہ فرماتے ہیں:

و ھی (الصحیفۃ السجادیۃ ) من المتواترات عند الاصحاب لاختصاصھا با لاجازۃ والروایۃ فی کل طبقۃ و عصر ینتھی سند روایتھا الی امام ابی جعفر الباقر علیه السلام و زید الشھید ابنی علیّ بن الحسین عن ابیھما علیّ بن الحسین علیهم السلام (3)

اور یہ (صحیفہ ٔ سجادیہ ) اصحاب کے نزدیک متواترات میں سے ہے کیوں کہ ہر طبقہ اور ہر زمانے میں اس سے متعلق اجازت اور روایات مختص ہیں۔ اس صحیفہ کی روایت کی سند امام ابوجعفر

ص: 46


1- ۔ شرح الصحیفہ ؛ سید محمد باقر میر داماد ؛ ص 45 ۔
2- ۔ تعلیقات علی الصحیفہ ،محسن فیض کاشانی، ص 11۔12 ۔
3- ۔ الذریعه ؛۔ آغا بزرگ تھرانی، ج 15، ص 18 ۔

محمد باقر علیه السلام اور امام زین العابدین علی علیه السلام ابن الحسین علیه السلام کے بیٹے زید الشہید پر ختم ہوتی ہے کہ جسے انہوں نے اپنے والد سےنقل کیا ہے۔

2۔ متن

تحقیق کا ایک وہ طریقہ جس پر آج کل گذشتہ زمانے کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ خود متن صاحب متن کی پہچان کے لیے کافی ہے۔ اس جہت سے بھی ہم اطمینان حاصل کر سکتے ہیں کہ صحیفہ کی امام علیه السلام کی طرف نسبت دینا درست ہے۔

صحیفہ کا متن دو طرح سے کمال کےاوج پر ہے۔

1۔ فصاحت و بلاغت۔

2۔ اصل مضمون۔

صحیفہ کی فصاحت و بلاغت

صحیفہ کی فصاحت و بلاغت اور حسن و جمال کے تمام پہلو صاحبان ذوق کے لیے عیاں ہیں کہ ان میں سے بعض کے اقوال کی طرف اشارہ کیاجارہاہے:

عظیم المرتبت ادیب(سید علی خان مدنی صاحب شرح کبیر صحیفہ ٔ سجادیہ؛ریاض السالکین)صحیفہ کے ادبی و بلاغی نکات کے متعلق تحقیق کے بعد اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

و اما بلاغۃ بیانھا و براعۃ تبیانھا فعندھا تسجد سحرۃ الکلام ؛ و تذعن بالعجز مدارۃ الاعلام...؛

ص: 47

صحیفہ کا بلیغ بیان اور مضامین کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ ساحران سخن اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے

ہیں اور بڑے بڑے دانشور اس کے مقابلے میں اپنی کم مائگی کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں۔(1)

ابن شہر آشوب ا لمناقب میں اس کے بارے میں ایک قصہ نقل فرماتے ہیں:

”انّ بعض البلغاءبالبصرۃ ذکرت عندہ الصحیفۃ الکاملۃ فقال: خذو ا عنّی حتی املی علیکم مثلھا ؛ فاخذ القلم و اطرق رأ سہ فما رفعہ حتّی مات“ بصرہ کے بعض ادباء کے سامنے صحیفہٴ کاملہ کا ذکر ہوا تو ان میں سے ایک نے کہا: اسے اپنے پاس ہی رکھو تاکہ میں خود

تمہارے لیے ا یسا صحیفہ بیان کر وں۔پھر اس نےقلم ہاتھ میں لیا،اپنا سر نیچے

جھکایا پھر اس نے سر نہ اٹھایا یہاں تک کہ اس دنیا سے چل بسا۔ مرزا عبدالّلہ

افندی ؛ صاحب کتاب ریاض العلماء، صحیفہٴ ثالثہ سجادیہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

صحیفہ کی دعاؤں کا تواتر،معانی کی عظمت،لفظوں کی لطافت اور عبارتوں کی طراوت اس طرح کی ہے کہ اس نے دوسروں کو اپنے سامنے عاجز و خاموش کر دیا ہے۔(2)

صحیفہ کا اصل مضمون

صحیفہ کے مضمون کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ بڑے بڑے علماء وحکماء نے اس کی شرح اور حاشیہ لکھنے پر کافی توانائیاں صرف کی ہیں۔ صحیفہ کے مضامین ا یسے ہیں کہ اہل

ص: 48


1- ۔ ریاض السّالکین ،سید علی خان مدنی ؛ ج1 ،ص 51 ۔
2- ۔ الصحیفۃ الثالثہ السجادیہ،مرزا افندی اصفھانی ؛ ص 4۔ 5 ۔

فکر کےلیے بھی معنوی غذا فراہم کرتے ہیں اور اہل دل کو سیراب بھی۔اب ہم اس کے متعلق بعض بزر گوں کے کلمات کونقل کرتے ہیں۔

حضرت امام خمینی کتاب

آداب الصلاۃ میں فرماتے ہیں:

ائمہ اطہار علیهم السلام کے کلمات میں سے صحیفہ ٔ سجادیہ کویہ خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہ نورانی صحیفہ آسمان عرفان سے عارف باللہ حضرت سید الساجدین علیه السلام کی نورانی عقل پر نازل ہواہے۔ خدا کے بندوں کومادیت کی قید سے نجات دلاتا ہے،بندگی کے ادب بتاتا ہے، اور پروردگار کی بارگاہ ملکوتی میں حاضر ہونے کے لیے ہنر سکھاتا ہے۔(1)

محقق میر داماد بھی اس صحیفہ سے متعلق اپنے تعلیقے کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

”انّ فی انجیل اہل بیت علیه السلام و زبور آل محمد |رموزا سماویۃ و الفاظاً الہٰیۃ؛ و اسالیب وحیانیّۃ و…(2) بے شک انجیل اہل بیت علیهم السلام اور زبور آل محمد| آسمانی و آفاقی اسرار و رموز، الہی الفاظ اور وحیانی اسلوب وغیرہ پر مشتمل ہے“۔

عارف کامل اور علم اصول کےماہر محقق اصفھانی ( کمپانی) بھی اپنے اشعار میں یوں گویا ہیں:

بل ھی ام الصحف المکرمۃ جوامع الحکمۃ

منھا محکمۃ

بل الحروف العالیات طرّا تحکی عن اسمہ

العلیّ قدرا۔(3)

ص: 49


1- ۔ آداب الصلاۃ ،حضرت امام خمینی ،ص 92 ۔
2- ۔ شرح صحیفہ ،میر داماد، ص 43 ۔
3- ۔ حاشیہ المکاسب ؛ شیخ محمد اصفہانی ؛ ج 1 ،ص 15 ۔

بلکہ یہ مکرّم و معزّز صحیفوں کی اصل و اساس ہے جو تمام حکمتوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس کے تمام حروف عالی ہیں جو اپنے بلند وبالا نام کی قدر ومنزلت کی حکایت کرتے ہیں۔

صاحب تفسیر طنطاوی بھی ایک خط میں آیۃ اللہ مرعشی نجفی کو خطاب کر کے صحیفہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

”من سوء حظّنا انناالی الآن لم نظفر بھذا الا ثر القیّم الخالد من تراث النبیّ و اھل بیتہ و انا کلّما انظر فیھا اری ٰانّھا فوق کلام المخلوق و دون کلام الخالق“(1)

مذکورہ بالا نظریات بیان کرنے کی غرض فقط صحیفہ کے اعلیٰ مضمون اور روح مطلب کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صحیفہ خود اپنے اوپر گواہ ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ فریاد کر رہا ہے کہ:میں” زین العابدین علیه السلام “و ”سید الساجدین علیه السلام “ کے اس

معدن و موتیوں کے دریا میں سے نایاب گوہر ہوں۔

3۔ سند

صحیفہ کی وثاقت پر اصل مضمون اور توا تر کے ہوتے ہوئے سند کی تحقیق کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن پہلے اگر سند میں کوئی بات قابل اعتراض ہو بھی تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ صحیفہ ٔ سجادیہ کے مختلف اسناد مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ سند محمدا بن وارث:صحیفہٴ ثالثہ میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ (2)

ص: 50


1- ۔ مدیر کاظم شانہ چی سے نقل شدہ صحیفہ کے مقدمہ میں ص 50۔ ”یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ابھی تک اس گراں قدردائمی وابدی خزانےاور میراث نبوت سے استفادہ نہیں کیا میں نے جتنا بھی صحیفہ کا مطالعہ کیا اسے کلام خالق سے نیچے اور کلام مخلوق سے بلند پایا ہے“۔
2- ۔ صحیفہ ٔثالثہ ، میرزا عبداللہ افندی ، ص11 ۔

2۔ سند ابن شاذان: صحیفہٴ ثالثہ میں بھی اور بحارالانوار میں بھی اسےنقل کیا گیا ہے۔(1)

3۔ سند علی ابن محمد خزّار قمی( شیعوں کے قدما ءمیں سے ہیں)کتاب کفایۃ الاثر میں مذکور ہے۔ (2)

4۔ سند نجاشی کتاب رجال میں۔(3)

5۔سند شیخ طوسی کتاب

الفہرست میں۔(4)

6۔ صحیفہ کے اول میں جوسند موجود ہے۔

7۔ اس نسخہ کی سند 416

ہجری قمری میں ابوبکر محمدا بن علی کرمانی سے نقل ہوئی ہے۔(5)

اس مختصر کتاب میں دیگر اسناد کو ذکر

اور تحقیق کرنے کی گنجائش نہیں ہے، لیکن ایک سند جو صحیفہ کے شروع میں اکثر بیان

ہوتی ہے اور اسے ایک دوسری روایت سےنقل کیا گیاہے کہ جس کا تعلق پانچویں صدی سے ہے۔ اس سند کے راویو ں کا نجاشی کی سند، شیخ طوسی کی دو سندوں اور

416 ہجری قمری کے قدیمی ترین نسخے کے ساتھ موازنہ درج ذیل جدول کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔

ص: 51


1- ۔ صحیفۂ ثالثہ ، ص 127 ؛ بحارالانوار ، علامہ مجلسی ، ج87 ، ص 308۔
2- ۔ کفایۃ الاثر ، علی ابن محمد خزّار قمی ، ص302 ؛ الصحیفۃ الجامعۃ ، مؤسسہ امام مھدی(عج) ص631
3- ۔ رجال ؛ نجاشی ؛ شمارہ 1144۔
4- ۔ الفھرست ، ص 579۔
5- ۔ مقدمہ صحیفہ سجادیہ ، کاظم مدیر شانہ چی ، ص 41 ؛جس وقت امام رضا علیه السلام کے حرم مطھر کی تعمیر نوجاری تھی تو ایک صندوق میں کئی جلد کتابوں کے ساتھ ، یہ سند بھی ایک خطی نسخہ کی صورت میں موجود تھی اور اس کتاب کی تاریخ 416ہجری تھی امام رضا علیه السلام تحقیق اسلامی فاؤنڈیشن والوں نے استاد کاظم مدیر شانہ چی کے عالمانہ مقدمہ اور تحقیق کے ساتھ اسے شائع کیا ہے۔

ہمارےزمانے

کی معروف اور رائج سندجو صحیفہ کے شروع میں موجود ہے۔

سند

نجاشی

سند شیخ طوسی

سند شیخ طوسی

[416ھ۔ق]

کےقدیمی نسخہ کی سند

امام علی ابن الحسین علیه السلام

امام

علی ابن الحسین علیه السلام

امام

علی ابن الحسین علیه السلام

امام

علی ابن الحسین علیه السلام

امام

علی ابن الحسین علیه السلام

زید ابن علی علیه السلام

زیدابن

علی علیه السلام

زید

ابن علی علیه السلام

زید1بن

علی علیه السلام

زید

ابن علی علیه السلام

یحیی ابن زید

یحیی

ابن زید

یحیی

ابن زید

یحیی

ٰ ابن زید

یحیی

1بن زید

متوکل

ابن ہارون

متوکل

متوکل

متوکل

متوکل

ابن ہارون

عمیر ابن متوکل ثقفی بلخی

علی

ابن نعمان اعلم

عبد

اللہ ابن عمر ابن خطاب زیات

ابو

عبد اللہ جعفرابن محمد حسینی

ابو

مفضل محمد ابن عبد اللہ شیبانی

ابو

منصور محمدابن محمد عکبری ابو عبد اللہ محمد ابن احمد شھر یار بھاءالشرف محمد

ابن حسن علوی

عمیر

ابن متوکل ثقفی

ان

کےباپ سے

محمد ابن مطہرابن اخی طاہرحسین ابن عبید اللہ

عمر

ابن متوکل

ا

پنے باپ سے

محمد

ابن مطہر

ابن

اخی طاہر

تعلکبری

جماعۃ

عمر

ابن متوکل

اپنے

باپ سے

محمد

ابن مطہر

ابن

اخی طاہر

ابو

بکر دوزی

احمد

ابن عبدون

عمیر

ابن متوکل

محمدابن

صالح

احمدابن

عبد اللہ

علی

ابن مالک

ابو

علی محمد ابن ہمام ابن سھل ا سکافی

ابو

الحسن محمد یحیٰ دھنی بندار ابن یحیی بزوزن

حدثنا

نجاشی

شیخ طوسی

شیخ

طوسی

ابو

بکر محمد ابن علی کرمانی

ص: 52

جو چیز سند مشہور میں قابل اعتراض قرار پائی ہے اور پہلے مرحلے میں اس کے ضعیف ہونے کا سبب بن سکتی ہے

درج ذیل چند چیزیں ہیں:

1۔ حدثنا کہنے والامعلوم نہیں ہے۔

2۔ ابومفضل شیبانی کی تضعیف کی گئی ہے۔

3۔ صحیفہ کا پہلا راوی

متوکل ابن ہارون مجہول ہے۔

1۔ قائل ِحدثنا:” حدثنا“

کہنے والے کے بارے میں دو نظریے پائے جاتےہیں:

شیخ بہائی کہتے ہیں

کہ: وہ ابوالحسن علی ابن محمد ابن محمد ابن سکون حلّی (ابن سکون ) متوفیٰ 606 ہجری قمری ہیں۔

میر داماد کہتے ہیں: وہ

عمید الرّؤسا ھبۃ اللہ ابن حامد ابن احمد ابن ایوب لغوی مشہور ہیں۔

قابل ذکرہے کہ دونوں ہی احتمال مساوی ہیں،کیوں کہ دونوں کا مقام و رتبہ ایک ہے اور قابل اعتماد ہیں۔

2۔ ابو مفضل شیبانی:

یہ وہ شخص ہے جسے شیخ طوسی نے صحیفہ کے راویوں کے درمیان، مذکورہ سند کی بنیاد پر،اس پر اعتراض کیا ہے اور اسے ضعیف قراردیا ہے۔ شیخ طوسی شیبانی کے بارے میں کہتے ہیں:

”کثیرالروایۃ،حسن الحفظ الّا أنّہ ضعّفہ جماعۃ من اصحابنا“(1)

نجاشی اس کے حالات میں

لکھتے ہیں:

ص: 53


1- ۔ الفهرست ، شیخ طوسی ، ص 299 ، شمارہ 651 ۔

” کان سافر فی طلب الحدیث عمرہ، اصلہ کوفی، وکان فی اوّل أ مرہ ثبتاً ثمّ خلّط، و رأیت جلّ اصحابنا یغمزونہ و یضعّفونہ …“

”رأیت ھذا الشیخ و سمعت

منہ کثیراً ثمّ توقّفت عن الروایۃ عنہ الّا بواسطۃ بینی و بینہ۔“(1)

جو کچھ نقل ہوا ہےاس سے پتہ چلتا ہے کہ ابو مفضل شیبانی شروع میں شیعہ علماء کے لیے قابل اعتماد تھا اور بعد میں اس کا رجحان زیدیہ مذہب کی طرف ہو گیا، یہی وجہ ہےکہ شیعہ علماء اس سے دور ہوگئے۔ اس کی تضعیف کی تنہا وجہ اس کا آخری عمر میں مذہب زیدیہ سےمنسوب ہونا ہے۔

اس کے جواب میں کہنا پڑے گا کہ :پہلی بات تو یہ ہےکہ اس کی روایات صحیح العقیدہ ہونےکے وقت صحیح ہیں،

دوسری بات یہ ہے کہ ایک فرقہ کی طرف صر ف نسبت شخصی روایات کے مسترد ہونےکی دلیل نہیں بنتی،کیوں کہ علم درایہ میں روایات کے معتبر ہونےکی دلیل فقط راوی کا قابل اعتماد ہونا ہے ؛ اس کے غلط عقیدہ اور مذہب سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا ہے اسی وجہ سے میر داماد،نجاشی کا کلام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

خود نجاشی دیگر متعدد راویوں کے حالا ت زندگی میں اکثر مقامات پر اس کا نام لیتے ہیں اور اس کے اسنا د پر اعتماد کرتے ہیں۔(2)

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شیخ مفید، ابن غضائری اور ابن اشناس جیسی بزرگ ہستیاں جو شیخ طوسی کے استاتذہ میں سے ہیں۔ صحیفہٴ کاملہ کو ” شیبانی“ سے نقل کرتی ہیں۔ اس بات سے

ص: 54


1- ۔ رجال ،نجاشی ، ص 396 ، شمارہ 1056۔
2- ۔ شرح الصحیفہ ؛ میر داماد ؛ ص 49 ۔

واضح ہوتا ہے کہ شیبانی سے صحیفہ نقل کرنا؛ اس کے صحیح العقیدہ ہونے کےوقت ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ اگر اس وقت کے علاوہ بھی نقل ہوا ہو تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

3۔ متوکل ابن ہارون: کہا جاتا ہے کہ: رجال کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے

لہذااس کی حیثیت معلوم نہیں ہے ؛ اگرچہ ممکن ہے حقیقت میں وہ بزرگ ا ور موثق افراد میں سے ہو۔ میر داماد اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

متوکل کی وثاقت پر اصحاب سے کوئی نص و روایت نقل نہیں ہوئی ہے۔(1)مگر یہ کہ شیخ الدین حسن ابن داؤد نے اپنی کتاب میں اسےمؤثق افراد کے زمرےمیں ذکر

کیا ہے۔ (2)

نتیجہ

1۔”صحیح،، کی اصطلاح کا استعمال قدماء اور متأ خرین کے نزدیک مختلف ہے کیوں کہ قدماء ا س روایت کو صحیح سمجھتے ہیں جس کے صحیح ہونے پر قرائن موجود ہوں ؛ اگرچہ اس کی سند مرسل یا ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ قرائن آج ہمارے پاس موجود نہیں ہیں ان میں سے ایک قر ینہ روایت کا ” اصول اربع ما ئۃ“ میں موجود ہوناہے۔ صحیفہ کو قدماء میں سے مشایخ کی ایک تعدادنے نقل کیا ہے اور ان کے نزدیک یہ مشہور اور قابل قبول ہے۔ اس بنا پر صحیفہ کی روایت کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جاسکتاہے ۔

2۔ اگر متعدد قابل اعتماد وموثق افراد نے کسی شخص سے حدیث نقل کی ہے تو یہ بات اس شخص کے

منقولات پر اعتماد کی وجہ سے ہے۔

ص: 55


1- ۔ شرح صحیفہ ؛ میر داماد ؛ ص 51 ۔
2- ۔ رجال ابن داؤد حلی 283 ۔

3۔ ابو مفضل کے عقیدہ بدلنےسے اس کے نقل شدہ اقوال پر کوئی اثر نہیں پڑتا(حتی اس کے صحیح العقیدہ نہ ہونے کے دور میں بھی)،اور اس کے صحیح العقیدہ ہونےکےدور میں اس کے نقل شدہ اقوال پر تو اعتراض کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔

ص: 56

چوتھی فصل

صحیفہ کے تراجم، لغت نامے، تکملے اور شرحیں

ص: 57

ص: 58

اکثر دینی، حدیثی اور دعائی متون پر مشتمل تدوین شدہ کتب مندرجہ ذیل اہداف میں سے کسی ایک ہدف کے تحت تحریر کی جاتی ہیں:

1۔ان متون کے دیگر زبانوں میں تراجم۔

2۔ محقق کو رہنمائی اور

آسانی فراہم کرنا تاکہ وہ اپنا مدّنظر موضوع،عبارت یا لفظ تلاش کرسکے۔ اس ہدف کی بنیاد پر دستیاب کتب کی دو قسمیں ہیں:

الف:الفاظ کی بنیاد پر لغت نامے۔

ب: موضوعی لغت نامے یا موضوعی معاجم۔

3۔ شرحیں: ایسی کتابیں

جو توضیح اور تفسیر پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کی بھی دو قسمیں ہیں:

الف: شرح لغات یا شرح مفردات جو”قاموس“یا”تفسیر غریب اللغات“یا”فقہ اللغہ“یا” لغت نامہ“سے موسوم ہیں۔

ب:اصل مضمون کی وضاحت ہوتو اسے شرح ؛ تعلیقہ یا حاشیہ کہا جاتا ہے۔

4۔ایسی کتابیں جو ان متون کی کمی اور نواقص کی تکمیل کے لیےلکھی جاتی ہیں انہیں ”تکملہ“یا” مستدرک“کہاجاتاہے۔

صحیفہ ٔ سجادیہ کے بارے میں بالا مذکورہ تمام صورتوں میں کتب تدوین ہوئی ہیں کہ جنہیں ہم آنے والی فصلوں میں بیان کریں گے۔

ص: 59

تراجم

بادشاہ صفوی کے دور میں شیعہ دانشمندوں کے درمیان فارسی زبان میں لکھنے کی تحریک کا آغاز ہوا اوربہت سے دانشمندوں نے فارسی کتب کی تصنیف اور دینی کتب کے فارسی تراجم کا کام شروع

کیا،اسی لیے صحیفہ ٔ سجادیہ کا قدیمی ترین ترجمہ صفوی دور کا جاننا چاہیے۔

آغا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں اس دورکے تقریباً پانچ تر اجم کاذکر کیا ہے کہ جن میں سے دو ترجمے بغیر نام کے ہیں۔(1) ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1۔ بعض اصحاب ( علماء )سے صحیفہ ٔ سجادیہ کا ترجمہ: یہ ترجمہ 1059 ہجری قمری میں تمام ہوا اور اس کا ایک نسخہ رضویہ میوزیم میں خرم علی انصاری کے ہاتھ کا لکھا ہواموجود ہے۔ صاحب الذریعہ نے اس کا ایک اور نسخہ حاج شیخ عباس قمی کے پاس بھی دیکھا ہے۔

2۔ بعض دیگر اصحاب ( علماء ) سے صحیفہ کا ترجمہ ۔

3۔ آقا حسین ابن جمال الدین محمد خوانساری ( متوفی 1098 ہجری قمری)کا ترجمہ آقا جمال الدین خوانساری کی تألیفات کے ضمن میں صحیفہ ٔ سجادیہ کے ترجمہ کا ذکر کیاگیا ہے،(2) اگرچہ ان کے والد کے حالات میں کوئی بھی ترجمہ نقل نہیں ہوا ہے، لیکن صاحب الذریعہ نے اس ترجمہ کی ان کے والد کی طرف نسبت دی ہے۔

4۔ محمد صالح ابن محمد باقر روغنی قزوینی کا ترجمہ: یہ شیخ حر عاملی کے ہم عصر تھے، ابتدا میں صحیفہ کی عربی میں شرح

ص: 60


1- ۔ الذریعہ ؛ آغا بزرگ تہرانی ؛ ج 4 ؛ ص 111 ۔ 112 ۔
2- ۔ فصل نامہ علوم حدیث ، خوانساری کے خاندان اجلاس میں چوتھے سال کے مخصوص مجلہ میں شمارہ 1 ، ص 113 ۔

لکھی، بعد از آں فارسی شرح لکھی۔ چوں کہ ان کے پیش نظر بعض لوگوں کے لیے دعا کے الفاظ کے معانی سمجھنا

مشکل تھا اس لیےدعاؤں کے الفاظ کا ترجمہ کیا۔ مزیدصحیفہ کے ملحقات کا بھی ترجمہ کیا۔

5۔ آقا محمد ھادی ابن مولیٰ محمد صالح مازندرانی ( متوفی 1120 ہجری قمری) کاترجمہ انہوں نے یہ ترجمہ

1083 ہجری قمری میں مکمل کیا تھا۔

صحیفہ کے ان تر اجم کے علاوہ اب تک متعدد دیگر ترجمے بھی کیےگئے ہیں کہ ان میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ

کررہے ہیں :

6۔ محمد علی چھاردہی نجفی مدرس(متوفی1334ہجری قمری)کا ترجمہ:یہ شیخ آغا بزرگ تہرانی کے ہم عصر تھے۔(1)

7۔ سید علی نقی فیض الاسلام کا ترجمہ:یہ ترجمہ صحیفہ کے مشہور ترین ترجموں میں سے ایک ہے۔ فیض الاسلامنے قرآن اور نہج البلاغہ کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کا ترجمہ مختصر شرح کے ساتھ ہے اور وہ دقت نظرسے لکھا گیا ہے۔ اس کی نثر بہت سلیس نہیں ہے۔

8۔علامہ ذوالغنون الحاج میرزاابوالحسن شعرانی کا ترجمہ۔ ان کاترجمہ سلیس اور رواں ہے۔صحیفہ کےملحقات کاترجمہ کیا گیا ہے مزید مترجم کی طرف سےحاشیہ میں محققانہ تو ضیحات اور تعلیقات بھی موجود ہیں۔

9۔ ترجمہ بلاغی اصفہانی:مشہور خطیب سید صدر الدین بلاغی اصفہانی۔

10۔ ترجمہ جواد فاضل: وہ مشہور ترین مصنفین اور مترجمین میں سے ایک ہیں۔

11۔ ترجمہ و شرح استاد محی الدین الہٰی قمشہ ای۔

ص: 61


1- ۔ الذریعہ ، آغا بزرگ تہرانی ، ج4 ، ص112 ۔

12۔ ترجمہ استاد حسینی عماد زادہ اصفھانی۔

13۔ ترجمہ آقا حسین انصاریان ۔

14۔ ترجمہ آقایان محسن غرویان اور عبد الجواد ابراہیمی ۔

15۔ ترجمہ آقا عقیقی بخشایشی۔

16۔ ترجمہ آقا علی شیروانی۔

17۔صحیفہ کا انگریزی ترجمہ: آغا بزرگ تہرانی نے کتاب الذریعہ میں اس ترجمے کا ذکر کیاہے کہ جس میں سید سرورحسینی اور مولوی احمد علی فوجانی(1) کے نام بھی لکھے ہیں کہ جنہوں نے یہ ترجمہ 1348 ہجری قمری میں چھاپا۔ مکتبۃ الثقلین نے یہی ترجمہ پاکٹ سائز میں شائع کیا ہے۔

کلمات کا لغت نامہ یا الفاظ کے معاجم

1۔المعجم المفھرس لألفاظ الصحیفۃ السجادیۃ: سید علی اکبر قرشی کی تألیف جو 1391

ہجری قمری میں شائع ہوئی۔

2۔ معجم الفاظ صحیفہ:علی انصاریان کی تألیف جو صحیفہ کے متن کے ساتھ شام میں ایران کے سفارت خانے کے

ثقافتی امور کے شعبے کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔

لغات موضوعی یا معاجم موضوعی

صحیفہ کے متعلق فقط ایک موضوعی لغت نامہ عربی زبان میں موجود ہے جسے آقا محمد حسین مظفر نے ”الدلیل الی موضوعات الصحیفۃ السجادیہ “ کے عنوان سے تألیف کیا ہے۔ یہ کتاب مجموعی

ص: 62


1- ۔”موہانی“ صحیح ہے، جیسا کہ ترجمہ کے مقدمہ میں ذکر کیا گیا ہے:”Mohani“۔

طور پر انیس موضوعات پر مشتمل ہے، پھر ہر موضوع کے فرعی موضوعات بھی ہیں۔وہ انیس موضوعات مجموعی طور پرمندرجہ ذیل ہیں:

التوحید،النبوۃ،الامامۃ،المعاد،الاسلام،الملائکۃ،الأخلاق،الطاعات،الذّکر

والدعاء،السیاسۃ،الاقتصاد،الانسان،الکون،الاجتماع،العلم،الزمن،التاریخ،الصّحۃ العسکریۃ،

لغت نامے یاقاموس لغات( شرح مفردات )

صحیفہ کے الفاظ اور مفردات کی شرح کے لیے صفوی دور سے لےکر آج تک متعدد کتابیں تألیف کی گئی ہیں کہ جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1۔الأزھار اللطیفۃ فی شرح مفردات الصّحیفۃ: سید محمد رضا ابن الحسن الحسینی الاعرجی الحلّی نے 1136 ہجری قمری میں اس کی تألیف مکمل کی، انہوں نےنسخوں اور روایات کا اختلاف بھی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔(1)

2۔ تعلیقات علی الصّحیفۃ السّجادیۃ:اس کے مولف ملامحسن فیض کاشانیہیں (متوفی 1091ہجری قمری )انہوں نے اگرچہ تعلیقہ کے عنوان سے یہ کتاب تألیف کی ہے لیکن صحیفہ کی اکثر لغات کی شرح و توضیح بیان کر دی ہے۔موسسہ آل البیت علیهم السلام نے 1407 ھ ق میں اس کی تحقیق و تصحیح کرنے کے بعد اسے زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔

ص: 63


1- ۔ الذریعہ ، آغا بزرگ تہرانی ، ج1 ، ص535۔

3۔ شرح لغات صحیفہ قرشی:یہ کتاب سید علی اکبر قرشی أ رموی کی تالیف ہے جو 1383 ہجری قمری میں شا ئع

ہوئی۔أحسن الحدیث اورقاموس قرآن بھی ان کی تألیفات میں سےہیں۔(1)

4۔ قاموس الصّحیفہ:سید ابو الفضل حسینی نے 1389ھ ش میں لکھی،حروف تہجی کی ترتیب سے اسے مرتب کیا۔ مؤلف نے 72 بہترین بنیادی کتب کی بنیاد پر اپنی گراں قدر تحقیقات اس کتاب میں بیان کی ہیں۔ لغات کی شرح عربی زبان میں ہے۔

5۔ صحیفہ ٔ سجادیہ کی لغت: اس کےمؤلف منصور خاکسار نے اس کا دوسرا ایڈیشن نبوغ پبلیکیشنز قم کی طرف سے 1337ہجری قمری میں شا ئع کیا ہے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب مروّجہ حروف تہجی سے ہے البتہ الفاظ مشتقات کی صورت میں نہیں ہیں، یہ لغت نامہ در حقیقت فارسی زبان میں صحیفہ کی لغات کا ترجمہ ہے۔

شرحیں، حواشی اور تعلیقات

علماء، ادباء اور عرفاء کے نزدیک صحیفہ ٔ سجادیہ کی اہمیت کے پیش نظر اب تک اس کی متعدد شرحیں اور حواشی لکھی جا چکی ہیں۔آغا بزرگ تہرانی نے کتاب ”الذریعہ“

میں اپنے زمانے تک لکھی گئی تقریباً پچاس مختصر و مفصل شرحیں ذکر کی ہیں جو

صحیفہ کے متعلق عربی یا فارسی زبان میں تحریر کی گئی ہیں۔(2) قدیم ترین شرح جو اس میں ذکر ہوئی ہے وہ چھٹی صدی میں لکھی گئی ہے،اگرچہ ان تمام شرح کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے،بالخصوص ہمارے زمانے تک متعدد شرحیں لکھی جا

ص: 64


1- ۔ مقدمۂ صحیفہ سجادیہ ، عقیقی بخشایشی ، ص 38 ۔
2- ۔ الذریعہ ، آغا بزرگ تہرانی ، ج13 ، ص345 ۔359 ۔

چکی ہیں اور ان سب کا شمار کرنا مشکل ہے، البتہ ان میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔ شرح صحیفۂ حلی؛

یہ شیخ ابو جعفر محمدابن منصور ابن احمدا بن ادریس عجلی حلّی (متوفی 598ہجری قمری) نے تألیف کی ہے۔ یہ شرح تعلیقہ کی صورت میں تھی اور ظاہراً قدیم ترین شرح ہے۔

2۔ الفوائد الشریفۃ(1):

شیخ تقی الدین ابراہیم ابن علی کفعمی، صاحب کتاب المصباح ، البلد الامین (متوفی 905 ہجری قمری) نے تألیف کی ہے۔

3۔ شرح صحیفۂ کرکی:یہ شیخ محقق نورالدین ابو الحسن علی ابن عبد العالی کرکی (متوفی 940ہجری قمری )نے تالیف کی ہے۔

4۔ شرح صحیفۂ زوارہ ای: ابوالحسن علی ابن حسن زوارہ ای ؛ خود مفسر قرآن ہیں اور عظیم مفسر ملا فتح اللہ کاشانی کے استاد بھی۔ یہ شرح فارسی زبان میں لکھی گئی ہے اور 947

ہجری قمری میں تالیف کی گئی ہے۔

5۔ شرح صحیفۂ عاملی:یہ شیخ عزالدین حسین ابن عبد الصمد حارثی عاملی متوفی 984 ہجری قمری(شیخ بہا ئی کے والد بزرگوار ہیں)یہ شرح تعلیقہ کی صورت میں لکھی گئی ہے۔

6۔ شرح صحیفہ: ابو جعفر محمد ابن جما ل الدین ابی منصور حسن ابن شہید ثانی صاحب کتاب شرح استبصار

متوفی 1030ہجری قمری نےلکھی ہے۔

7۔ حدائق الصالحین: محمد ابن حسین ابن عبد الصمد حارثی عاملی المعروف شیخ بہا ئی متوفی 1031ہجری قمری۔ انھوں نے اس

ص: 65


1- ۔ آغا بزرگ تہرانی نے الذریعہ کی ج13 میں اس شرح کو الفوائدالطریفۃ کے عنوان سے یاد کیا ہے لیکن جلد 16 میں کہتے ہیں یہ شرح الفوائد الطریفہ کے نام سے مشہور ہے ، لیکن کفعمی کی عبارت بلد الامین میں الفوائد الشریفہ ہے ۔ الفوائد الطریفہ محمد تقی مجلسی کی شرح کا نام ہے۔

شرح کے علاوہ صحیفہ کے متعلق جداگانہ طور پرحواشی بھی تحریر کیےہیں البتہ یہ حواشی مکمل نہیں ہیں۔فی الحال جو کچھ اس میں سے ابھی موجود ہے وہ الحدیقۃ الھلا لیّہ ہے جو الدّعا عند رؤیۃ الھلال کی شرح ہے۔(1)

8۔شرح صحیفۂ میر داماد: محمد باقر حسینی استر آبادی جو”محقق داماد“ کے نام سے مشہور ہیں۔(مشہور فلسفی

ملا صدرا شیرازی کے استاد ہیں)۔یہ شرح فلسفی و رجالی ا بحاث پر مشتمل ہے مزیدصحیفہ کے الفاظ کے بارے میں لغوی و ادبی تحقیق ہے اور اسی طرح اس میں

ہیئت اور نجوم کے بارے میں بھی قیمتی مطالب موجود ہیں۔اس کی سنگی اشاعت کے حاشیہ میں سید نعمت اللہ جزائری کی شرح تھی لیکن 1406ہجری قمری میں یہ آقا سید مھدی رجائی کی تحقیق کے ساتھ اصفہان میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

9۔ النّکت اللطیفہ:یہ شیخ فخر الدین ابن محمد علی طریحی نجفی، صاحب کتاب مجمع البحرین (متوفی 1085 ہجری قمری)نے تألیف کی ہے۔

10۔ شرح صحیفہ مشھدی:میرزا محمد ابن محمد رضا مشھدی، صاحب تفسیر کنز الدّقائق نے 1091 ہجری قمری میں اس کی تالیف شروع کی اور وہ شیخ حرّ عاملی کے ہم عصر تھے۔

11۔ شرح صحیفہ: شیخ علی ابن شیخ زین العابدین ابن شیخ محمد ابن شیخ حسن ابن شہید ثانی، جوشیخ علی صغیر کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ صحیفہ کے بارے میں ایک بہت ہی جامع شرح تھی اور تفسیر مجمع البیان کے اسلوب پر لکھی گئی ہے ؛یعنی ابتدا میں دعا ذکر

ص: 66


1- ۔[چاند کو دیکھنے کے وقت کی دعا کی شرح ]

ہوئی ہے اس کے بعد لغت،اعراب اور دعا کے معانی بیان ہوئے ہیں۔ مؤلف نے 1097ہجری قمری میں اس کی تألیف کو مکمل کیا ہے۔

12۔ شرح صحیفہ میرزا رفیعا:سید امیر رفیع الدین محمد ابن حیدر حسینی طباطبائی نائینی، میرزا رفیعا کے نام سے مشہور تھے،اور شاہ صفی کے ہم عصر علماء میں سے تھے۔ شیخ بہائی کے شاگرد اور علامہ مجلسی(متوفی 1099ہجری قمری ) کے استاد تھے۔

13۔ شرح صحیفہ عبدالباقی:عبدالباقی خطّاط تبریزی۔صاحب الذریعہ نے کتاب الریاض سے نقل کیا ہے کہ یہ بہترین شرح ہے اور صوفیوں کے نظریہ اور روش کے مطابق لکھی گئی ہے۔

14۔الفوائد الطّریفۃ:شرح ملّا محمد تقی مجلسی،یہ علامہ مجلسی کے والد ہیں(متوفی 1070 ہجری قمری)۔

15۔ الفوائد الطریفۃ:یہ عربی زبان میں شرح ہے جو علامہ محمد باقر مجلسی(متوفی 1111 ہجری قمری) کی تألیف ہے جو نا مکمل ہے۔

16۔ شرح فارسی علامہ مجلسی:یہ فقط اہم اور مشکل مطالب کی وضاحت کرتی ہے۔

17۔ریاض السّالکین:صدر الدین السید علی خان ابن نظام الدین مدنی شیرازی(متوفی 1120 ہجری قمری) یہ شرح صحیفہ ٔ سجادیہ کی بہترین ومفصل ترین اور مشہور ترین شرحوں میں سے ہے اور 54 ابواب پر مشتمل ہے۔ موجودہ دور کی بہترین شرحیں بھی اس سے بہت متأثر ہیں۔ علامہ امینی اس شرح کے بارے میں فرماتے ہیں:

ص: 67

”کتاب قیّم یطفح العلم من جوانبہ، و تتدقّق الفضیلۃ بین دفّتیہ، فاِذا أسمت فیہ سرح اللحظ فلا یقف الّا علی خزائن من العلم و الأدب موصدۃ ابوابھا، او مخابی ء من دقائق لم یھتد الیھا ایّ المعیّ غیر مؤلفہ الشریف المبجّل؛“(1)

ایک گران قدر ومستحکم کتاب ہے کہ جس میں علم و دانش ہر جگہ سے لبریز اور اس کی دونوں جلدوں سے فضیلت نمایاں ہے۔اور جب بھی آپ اس کتاب کو ملاحظہ کریں گے تو یہ مشاہدہ کریں گے کہ علم و ادب کے خزانے ہر طرف سے اپنا باب علم وا کیے ہوئے ہیں اور علمی و ادبی سر بستہ مطالب و نکات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ کوئی بھی عظیم دانشمند سوائے اس جلیل القدر مولف کے اس تک دسترس نہیں رکھتا تھا۔

18۔ شرح صحیفہ:علی ابن شیخ ابی جعفر محمد ابن جمال الدین ابی منصور حسن ابن زین الدین شہید ثانی،

صاحب کتاب الدرالمنثور،( متوفی 1104ہجری قمری)۔

19۔ شرح صحیفہ بلاغی:شیخ حسن ابن عباس ابن محمد علی بلاغی نجفی،صاحب کتاب تنقیح المقال۔یہ ترکیبی شرح ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے جس کی تألیف کا آغاز سال 1105ہجری قمری میں کیاگیا۔

20۔ شرح صحیفہ فتونی:ابو الحسن ابن محمد طاھر ابن عبدالمجید فتونی بناطی عاملی اصفہانی (متوفی1140ہجری قمری)ان کی ایک تفسیر ہے جس کا نام مرآۃ الانوار ہے۔

21۔ ریاض العابدین:یہ

بدیع ھرندی نے فارسی زبان میں لکھی ہے۔

22۔ شرح صحیفہ کاشانی:ملّا حبیب اللہ ابن علی مدد کاشانی نے لکھی ہے۔

ص: 68


1- ۔ الغدیر ، عبدالحسین امینی ، ج11 ، ص347۔

23۔ شرح صحیفہ لاھیجی:یہ میرزا حسن ابن عبدالرزاق لاھیجی کی تالیف ہے، آپ کتاب شمع الیقین و آئینہ حکمت، کے موٴلف بھی ہیں۔ یہ شرح تین جلدوں پرمشتمل ہونے کے باوجود نا مکمل ہے۔

24۔ ریاض العارفین یا روضۃ العارفین: یہ مولا محمد اصطہباناتی شیرازی نے لکھی ہے۔

25۔نورالانوار:سید نعمت اللہ جزائری شوشتری(متوفی1112ہجری قمری)کی تالیف ہے اور 1316ہجری قمری میں شائع ہوئی ہے۔یہ شرح ،صحیفہ کی مشہور ترین شرحوں میں سے ایک ہے در حقیقت یہ شرح ان کی صحیفے کے متعلق ایک بڑی شرح کی تلخیص ہے۔

26۔شرح کبیر جزائری: یہ شرح نور الانوار کے علاوہ ہے۔

27۔شرح صحیفہ سبزواری:اس کے مولف میرزا ابراہیم ابن محمد علی سبزواری ہیں جو ”وثوق الحکماء“ کے لقب سے مشہور ہیں ان کی وفات 1358ہجری قمری میں ہوئی۔ یہ شرح فارسی زبان میں ہے اورعرفانی مطالب پر مشتمل ہے ا س میں صحیفہ کے مشکل جملات اور کلمات کی شرح بھی کی گئی ہے۔

28۔شرح صحیفہ شیرازی:سید محمد شیرازی علمائے معاصر میں سے ہیں۔ انھوں نے یہ شرح کربلا میں لکھی اس کی ایک جلد ہے اور یہ ترکیبی سلیس شرح ہے۔

29۔شرح صحیفہ مغنیہ:محمد جوادمغنیہ علما ئےلبنان میں سے ہیں یہ شرح مختصر اور سلیس ہے اور انہی آخری برسوں میں لکھی گئی ہے۔

ص: 69

صحیفہ سجادیہ کے مستدرکات

صحیفہ ٔ سجادیہ امام سجاد علیه السلام کی صرف چند دعاؤں پر مشتمل ہے۔حدیث اور دعاؤں کی دیگر کتابوں کی طرف رجوع کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیه السلام سے

مزید دعائیں بھی نقل ہوئی ہیں جو صحیفہ ٔ سجادیہ میں نہیں ہیں، اسی لیے بعض محدثین اور محققین نے ان آخری چندصدیوں میں امام علیه السلام کی دوسری دعائیں بھی جمع کی ہیں جوحضرت علیه السلام کے دوسرے صحیفہ کے عنوان سے تدوین ہوکرمنظر عام پر آچکی ہیں۔ درحقیقت یہ صحیفےصحیفہ ٔسجادیہ کے مستدرکات ہیں۔

شیخ آغابزرگ تہرانی کتاب الذریعہ میں لکھتے ہیں:دیگر صحیفے بھی تألیف ہوئے ہیں جو حضرت علی ابن الحسین علیه السلام کی ایسی دعاؤں پرمشتمل ہیں جو صحیفہٴ کاملہ یاأَولی میں ذکر نہیں ہوئیں انہیں مندرجہ ذیل ناموں سے یاد کیا گیاہے:

صحیفہٴ ثانیہ، ثالثہ، رابعہ، خامسہ، سادسہ، سابعہ اور ثامنہ(1)۔

البتہ پندرہویں جلد میں

صحیفہ ٔ سجادیہ کاذکر کرتے ہوئے، فقط چھ صحیفوں کے نام ذکر کیے ہیں جومندرجہ ذیل ہیں۔ (2)

1۔ الصحیفۃ السجادیۃ الثانیۃ ؛یہ صحیفہ عظیم محدث شیخ حرّ عاملی محمدابن الحسن)متوفی1104ہجری قمری)صاحب کتاب وسائل الشیعہ نے لکھاہے انھوں نے اس صحیفہ میں

ص: 70


1- ۔ گذشتہ حوالہ ج13،ص340۔
2- ۔ الغدیر ، عبد الحسین امینی ، ج 15، 20 ۔21 ۔

امام علیه السلام سےتقریباً ساٹھ

دعا اور مناجات نقل کی ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک مأخذبھی بیان نہیں کیا اگرچہ ہر ایک دعا کا ماخذصحیفہٴ جامعہ سجادیہ میں بیان کیا گیاہے جو بعد میں تألیف کی گئی ہے۔ آغا بزرگ تہرانی کتاب ” الذریعہ“میں تحریر کرتے ہیں کہ:محدث حرّ عاملی نے یہ دعائیں ان کتابوں اور اصول سےنقل کی ہیں جو ان کے نزدیک معتبر تھے اور اپنے نسخہ کے حاشیہ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔(1)

انھوں نے اس صحیفہ کی تالیف ماہ رمضان 1053ہجری قمری میں مکمل کی۔ اس کا اصلی نسخہ، حاشیہ کے

ساتھ ہندوستان میں علامہ میر حامدحسین کی لائبریری میں موجود ہے اور اس کی پہلی جلد بمبٔی میں 1311ہجری قمری میں بغیر حواشی کے شائع ہوئی جس کا بعد میں سید محسن عاملی(صاحب کتاب اعیان الشیعہ اور صحیفہٴ خامسہ سجادیہ) نے مختلف تصحیح شدہ نسخوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کےمشکل

الفاظ کی تفسیر اور معانی بھی بیان کیے ہیں۔

یہ کتاب مفید حواشی اور تعلیقات کے ساتھ 1322ہجری قمری میں تین سو دس (310)صفحات پر مشتمل پاکٹ سائز میں مصر سے شائع ہوئی ہے۔

ایران میں 1398ہجری قمری

میں مصری نسخہ کے بعینہ اسے مکتبۃ الثقلین نے شائع کیا ہے۔ امام سجاد علیه السلام سےمنسوب مشہور ترین”مناجات خمسہ عشر“ہے یہ تمام مناجات صحیفہٴ ثانیہ میں ذکر ہوئی ہیں۔

ایک نکتہ یہاں پر ذکر کرنا ضروری ہے کہ جسے

صاحب ”الذریعہ“ نے بیان کیاہے وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: بعض

ص: 71


1- ۔الغدیر، عبد الحسین امینی ، ج ،15 ،ص 20 ۔

معاصر علماء نے میرے لیے حکایت کی ہے کہ صحیفہٴ ثانیہ سجادیہ شیخ محمد ابن علی حرفوشی کی تألیف ہے جو شیخ حرّ عاملی کے ہم عصر ہیں۔ اور ان سے چالیس سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محدث حر ّ عاملی کا صحیفہٴ ثالثہ ہے اور اس کے بعد صحیفہ رابعہ ہونا چاہیے۔(1)

البتہ محدث حرّ عاملی نے اپنے صحیفہ کو ثانیہ کا نام رکھنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ حرفوشی کا صحیفہ ان کی دسترس میں نہیں تھا۔

2۔ الصحیفۃ السجادیۃ الثالثۃ:

اس صحیفہ کو مرزا عبداللہ افندی اصفہانینے تالیف کیاہے۔آپ صاحب کتاب ”ریاض العلماء“کہلاتےہیں۔ علامہ مجلسی کے شاگرد اور شیخ حرّ عاملی کے ہم عصرہیں۔ انہوں نے صحیفہٴ ثالثہ پر ایک مفید مقدمہ لکھا ہے اور پھر اپنے صحیفہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلا حصہ ؛ اکیس دعاؤں پر مشتمل ہے یہ ایسی دعائیں ہیں جو صحیفہٴ کاملہ سجادیہ کے نسخہ میں نہیں ہیں۔

صحیفہٴ ثالثہ لکھنے کی اصلی وجہ بھی یہی تھی۔

دوسراحصہ: اس میں ایسی دعا ئیں نقل ہوئی ہیں جو صحیفہٴ اولیٰ اورصحیفہٴ ثانیہ دونوں میں موجود نہیں تھیں۔ان دعاؤں کی تعدادتقریباً 32 ہے، اس صحیفہ کی کل53دعائیں ہیں۔ صحیفہٴ ثانیہ پر اس صحیفہ کی برتری و فضیلت یہ ہے کہ مؤلف نے دعائیں نقل کرنے کے بعد

ان کے مآخذ اور اسناد بھی بیان کیے ہیں۔

ص: 72


1- ۔ الذریعہ ، آغا بزرگ تہرانی ، ج15 ، ص 19۔20۔

طولانی ترین مناجات کوجنہیں امام سجاد علیه السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے”المناجاۃ الانجیلیّۃ الطّویلۃ او الکبریٰ“کےنام سے اس صحیفہ میں نقل کیا گیا ہے۔

3۔ الصحیفۃ السّجادیۃ الرابعۃ:یہ میرزا حسین نوری،صاحب کتاب ”مستدرک الوسائل“کی تألیف ہے۔ان کی وفات(1320ہجری قمری)میں ہوئی ہے۔انہوں نے ایسی دعاؤں کو ذکر کیا ہے جو پہلے والے تینوں صحیفوں میں موجود نہیں ہیں یہ 77 دعائیں ہیں۔ان دعاؤں میں سے تقریباً نصف دعائیں ماہ رمضان المبارک کے دنوں کے بارے میں ہیں۔

اس صحیفہ میں ہر دعا کے مآخذ و منابع بھی مذکور ہیں۔ یہ صحیفہ خوبصورت تحریر کے ساتھ پاکٹ سائز میں 152 صفحات پرمشتمل ایران سےشائع ہوا ہے۔

4۔ الصحیفۃ السجادیۃ الخامسۃ : اس صحیفہ کو سید محسن امین عاملی، صاحب کتاب ”اعیان الشیعہ،نے تألیف کیا ہے۔ ان کی وفات ایرانی سال کےمطابق1370 ہجری قمری میں ہوئی۔ اس صحیفہ میں انہوں نے صحیفہٴ ثالثہ اور صحیفہٴ رابعہ کی دعاوٴں کو ایسی جدید52 دعاؤں کے ساتھ جمع کر دیا ہے جوپہلے نقل نہیں ہوئیں ان سب دعاؤں کی مجموعی تعداد82 ہے۔

انہوں نے ہر دعا کے مأخذ اور منبع کو ذکر کیا ہے اور نسخوں کے اختلاف کومتن کے اندر بریکٹ میں لائے ہیں۔ یہ صحیفہ دمشق میں1330ہجری قمری میں، پاکٹ سائز میں شائع ہوا اور

بعد میں مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین علیه السلام نے اصفہان سے آفسٹ

شکل میں شائع کیا ہے۔

ص: 73

5۔ الصحیفۃ السجادیۃ السادسۃ:اس صحیفہ کو علامہ محمدصالح مازندرانی

حائری نے

تالیف کیا ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہوا اور اس کے خطی نسخے کی سرنوشت کابھی کچھ پتہ نہیں ہے فقط موّلف نے اپنی تالیفات کی فہرست میں اس کا ذکرکیا ہے۔(1)

6۔ الصحیفۃ السجادیۃ الجامعۃ:یہ صحیفہ پانچوں صحیفوں(صحیفہ کاملہٴسجادیہ،

صحیفہٴ ثانیہ، ثالثہ، رابعہ، اور خامسہ)پرمشتمل ہےکہ جسے آیۃ اللہ سید محمد باقر ابطحی اصفہانی نے تدوین کیا ہے جو 1411 ہجری قمری میں ایک

جلد میں شائع ہوا۔

اس صحیفہ کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

1۔ اس کےمتن کی مختلف

کتبی نسخوں کے ساتھ تصحیح ہو ئی ہے جن میں دعائیں نقل کی گئی تھیں۔

2۔مشکل کلمات اور لغات کی وضاحت حاشیہ میں موجود ہےبعض کلمات کی آخر میں ضمیمہ کےطور پر معنی وتفسیر کی گئی ہے۔

3۔صحیفہٴ کاملہ سجادیہ کی سند پوری تحقیق کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور اس کے راویوں اور صحیفہ کے” اجازات“کے متعلق بھی تفصیلی مطالب بیان ہوئے ہیں۔

4۔ آخر میں بہت اچھی

فہرستیں ضمیمہ کی گئی ہیں۔ آیات قرآن، دعائیں، دعاؤں کے موضوعات اور ہر دعا کے منابع کی جدا جدا فہرست بیان کی گئی ہے۔

البتہ اس صحیفہ میں

صحیفہٴ کاملہ(اولی)کی دعاؤں کی ترتیب برعکس ہو گئی ہے چوں کہ اسے موضو عا تی اعتبار کی ترتیب سےمرتب کیا گیا ہے۔

ص: 74


1- ۔الذریعہ، آغا بزرگ تہرانی ، ج 1 ، ص 21۔

دوسرا باب

اصل مضمون کی شناخت

پہلی فصل

اشاره

ص: 75

ص: 76

بتیسویں دعا_الہی عظمت وسلطنت[نماز شب کے بعد کی دعا]

”اللھم یا ذا المُلک المتاَبّدِ بالخُلود، و السّلطان الممتنع بغیر جُنُود و لا اَعوان، و العزّ الباقی علیٰ مرّ الدّھور، و خوالی الاعوام و مواضی الازمان و الایّام، عَزّ سُلطانُک عزّاً لا حدّ لہ باَوّلیّۃ، و لا منتھیٰ لہ بآخِریّۃ، واستعلیٰ ملکُک علُوّاً سقطت الاشیاءُ دون بُلوغ امَدِہِ، و لا یبلغ ادنیٰ ما استاثرتَ بہ من ذٰلک اقصیٰ نعتِ النّاعتین۔

ضلّت فیک الصّفات، و تفسّخت دونک النّعوت، و حارت فی کبریآئک لطآئف الاوھام۔ کذٰلک انت اللہ الاوّل فی اوّلیّتک، و علیٰ ذلک انت دآئم لا تزولُ “

اے اللہ! اے دائمی اور ابدی بادشاہی والے!اورلشکرواعوان کے بغیرمضبوط فرمانروائی والے اور اے ایسی عزت و رفعت والے جو صدیوں، برسوں، زمانوں اور دنوں کے گزرنے کے باوجود برقرار ہے!تیری سلطنت ایسی غالب ہے کہ جس کی ابتداء کی نہ کوئی حدہے اور نہ انتہاء کا کوئی کنارہ اور تیری بادشاہی کا پایہ اتنا بلند ہے کہ اس کی بلندی کو چھونے سے سب قاصر ہیں اور تعریف

ص: 77

کرنے والوں کی انتہا درجےکی تعریف بھی تیری بلندی کے ابتدائی درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتی جسے تو نے اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے۔

صفات کارواں تیرے بارے میں حیران و سرگردان ہیں اور توصیفی کلمات تیرے لائق ِ حال مدح تک پہنچنے سے عاجز ہیں اور نازک تصورات تیرے مقام کبریائی میں حیران ہیں تو وہ خدا ہے جو ازل سے ایسا ہے اور ہمیشہ بغیر زوال کے ایسا ہی رہے گا۔

توضیحات:

حضرت امام سجاد علیه السلام نے اس دعا کے ابتدائی حصہ میں خدا وندمتعال کی عظمت و دائمی بزرگی بیان

کی ہے۔ اس کے بعد انسان کا خداوند عالم کے صفات کے ادراک اور بیان کرنے سے عاجز ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس صحیفہ کی دیگر دعاؤں میں عظمت الہٰی کے متعلق اہم نکات بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند مختصر طورپر یو ں ہیں:

1۔ پروردگار کی عظمت و بزرگی کا اندازہ نہیں کیاجا سکتا اور اس کی انتہا نہیں ہے۔ چھیالیسویں دعا

میں ہم پڑھتےہیں:”مجدک ارفع من ان یحد ّ بکنھہ“(1)اور

پانچویں دعا میں بھی ذکر ہوا ہے۔”یامن لا تنقضی عجا ئب عظمتہ“(2)

2۔ خداوندمتعال کی عظمت و سلطنت کسی سے قرض لی ہوئی نہیں ہے، اور یہ غیر الہی سلطنتوں کے بر خلاف ہے۔ غیر خدائی سلطنتیں

اپنی عظمت و شوکت میں خاص امور اور خاص عوامل کی محتاج ہوتی ہیں جیسے وفادار اور طاقتور لشکر کا موجود ہونا، لوگوں کا فرمانبردار اور مطیع ہونا

وغیرہ ...خداوند

ص: 78


1- ۔ تیری بزرگی و عظمت اس امر سے بلند و بالا ہے کہ اس کی حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ (دعا 46 فقرہ 23)۔
2- ۔ اے وہ پروردگار ! جس کی عظمت کے عجائب تمام ہونے والے نہیں ہیں(دعا 5 فقرہ1)۔

متعال کی عظمت و سلطنت ایسے کسی عامل کی محتاج نہیں ہے، فرمانبرداروں کی اطاعت اس کی سلطنت میں نہ کوئی چیز زیادہ کر سکتی ہے اور نہ ہی معصیت کاروں کے گناہ اس کی سلطنت میں کوئی چیز کم کر سکتے ہیں۔

باون(52)نمبر دعا میں ہم پڑھتے ہیں:”سبحانک لا ینقص سلطانک من اشرک بک“(1) اور اسی دعا میں یہ بھی بیان ہوا ہے،”السلطان الممتنع

بغیر جنود و لا اعوان“ جس کی سلطنت بغیر کسی لشکر اور مددگار کے محفوظ ہے۔

3۔ حضرت علیه السلام اپنی دعاؤں میں خدا سے چاہتے ہیں کہ ٓاپ کو اس عظمت کے اعتراف کرنے تک پہنچا دیں اور اس کی عظمت کے انکارکے راستے بند کر دیں۔”واحجبنا عن الالحاد فی عظمتک“(2)بلکہ دوسرے مقام پر انسان کے دل کی سلامتی، عظمت الہی کی یاد اور اعتراف میں مضمرجانتے ہیں۔”واجعل سلامۃ قلوبنا فی ذکر عظمتک“(3)

1۔ المتأبّد: باب تفعل کا اسم فاعل ہے اور اس کی اصل (أٔبد)ہے۔ راغب اصفہانی مفردات میں لکھتے ہیں:( تأبد الشیء):بقی ابداً، ابدی اور دائمی ہو گیا۔(4)

2۔ ا للممتنع:باب افتعال سے ہے اور اس کی اصل”منعۃ“ہے، اس کا معنی عزت و غلبہ ہے، یعنی ایسا سلطان جو صاحب عزت و غلبہ ہے جوکبھی مغلوب ہونے والا نہیں ہے۔ امام سجاد علیه السلام کی عرفہ کے دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں:”سبحانک من ملیک ما امنعک“(5)

ص: 79


1- ۔ تو پاک و بے نیاز ہے، مشرکین اپنے شرک کے ساتھ تیری سلطنت کو کمزور نہیں کر سکتے ہیں۔(دعا 52،فقرہ 3)۔
2- ۔ ہمیں اپنی عظمت کے بارے میں کج فکری سے محفوظ رکھنا۔(دعا 5،جملہ1)
3- ۔ ہمارے دلوں کی سلامتی اپنی عظمت کی یاد میں قرار دے۔(دعا 5، فقرہ 14)
4- ۔المفردات ، راغب اصفہانی ، کتاب ص8 ۔
5- ۔ تو پاک و پاکیزہ ہے، تو صاحب اقتدار اور عزیز ہے۔(دعا 47)

3۔خوالی الأعوام:”خوالی“:”خالیۃ“ کی جمع ہے،اس کا معنی گزرا ہوا۔”اعوام“: عام کی جمع ہے اس کا معنی سال ہے اس ترکیب

میں صفت موصوف کی طرف اضافہ ہے لہذا (الأعوام الخالیہ)یعنی گزرے ہوئے سال۔

4۔ مواضی:” ماضی“ کی جمع ہے اس کا معنی گزرا ہوا زمانہ ہے۔

5۔ استعلی:باب استفعال اور اصل (علوّ)ہے لیکن یہاں اس کا معنی بلندی چا ہنا نہیں ہے بلکہ یہاں ثلاثی مجرد ہی کا معنی دیتا ہے یعنی” علو“یا بلندی۔

6۔سقطت الاشیاء دون بلوغ أمدہ:”أمد“کا معنی کسی چیز کی انتہا ہے۔(دون) کا معنی ہے قبل یانزدیک ”الأشیاء“یہاں اس سےمراد عقول ہیں اورغور وفکر سےکسی مطلب کی گہرائی تک پہنچنے کےلیےضروری مقدمات اور ذرائع کاموجود ہوناہے۔خلاصہٴ مطلب یہ ہے کہ عقلیں اور خیالات تیری عظمت کی انتہا تک پہنچنے سے عاجزہوجاتےہیں۔صحیفہ کی پہلی دعا میں اس مطلب کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے،”عجزت عن نعتہ

أوھام الواصلین“(1)

7۔استأثرت:(استاثر

الشی ء)؛(استبد بہ و خصّ بہ نفسہ)اسےاپنے لیےمخصوص کر لیا اور اپنے لیے چن لیا۔

8۔ ضلّت فیک الصّفات:”ضلت“کامعنی ضاعت یاعدمت؛یعنی ضائع ہوگیا یاگم ہوگیا۔”الصفات“سے مراد توصیفات ہیں اس عبارت کا معنی یوں ہے:کوئی ایک صفت بھی آپ کا وصف بیان کرنے سے قاصر ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیه السلام نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں فرماتےہیں:

ص: 80


1- ۔ تعریف کرنے والوں کے خیالات اس کی تعریف سے عاجز ہیں۔(دعا 1۔ فقرہ 2)۔

”الذی لیس لصفتہ حدّ محدود ولانعت موجود“؛اس کی ذات کے وصف کے لیے نہ کوئی معین حد ہے نہ توصیفی کلمات موجود ہیں۔

پس کوئی بھی صفت خداوندمتعال کی ایسی توصیف نہیں کر سکتی، جو اس کی ذات اقدس کےکمال جبروت کی عکاسی کرے،کیوں کہ پہلی بات یہ ہے کہ تمام تعریفیں کچھ خاص معیارات پر ہوتی ہیں جومحدود ہیں اور محدود کے ذریعے کبھی نامحدود کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی چیز کی تعریف اس چیز پر احاطہ کرنا ہے،جب کہ کوئی بھی موجود خداوندمتعال کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔

”خداوندمتعال کے صفات

صحیح طور پرسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مرحلہ میں ان تمام مطالب، مفاہیم، نمونوں اور اندازوں سے پرہیز کیا جائے جو انسان مادیت کے ساتھ رابطے کی وجہ سے اپنے ذہن میں عکاسی کرتا رہتا ہے انسان یہ سب چھوڑتے ہوئے اور ایسی تمام شکل و صورتوں کو ترک کرتے ہوئے جو طبیعی دنیا سےمختلف قسم کے ظہورات کے طورپر اس کے ذہن میں ”خدا“کےتصور کے عنوان سے بناتی ہیں، آگے بڑھ سکتا ہے۔انسان خداوندمتعال کی صفات کو اپنے ذہن کے اندر مادی و طبیعی چیزوں کو دیکھ کر تصور کرتا ہے، اس

انداز فکر اورتصور سے پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ:

قابل ذکر ہے کہ خداوندمتعال کے وجود کی حقیقت پر واضح دلائل موجود ہیں، البتہ وجود باری تعالی کی یہ حقیقت جسم و جسما نیت، طبیعت ومادیت کے خواص سے بالاتر ہے (اسی لیے) اس دعا

کی عبارت میں صفا ت کی نفی جیسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں)

ص: 81

لہذا اس قسم کی سلبی مثالوں کے ذریعے افکار کو اس حقیقت کی عظمت کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے

اور جسمانی اوصاف اور مختلف حدود و قیود کی نفی کے ساتھ منطقی نتیجہ کے طور پر اس حقیقت ازلی تک پہنچنے کی طرف رہنمائی کی جا سکتی ہے“۔ (1)

9۔تفسّخت دونک النعوت:”تفسخت“”تقطعت و بطلت“نقض،قطع اور باطل ہو ا

اسی طرح یہی تعبیر چھیا لیسویں دعا کے فقرہ نمبر 12 میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔”و تفسخت دون بلوغ

نعتک الصفات“(2) اسی عبارت کے آگے مزیداسی کے بارے میں فرمایا: ”فلک العلوالاعلیٰ فوق کل عال“ ہر سر بلند پر اعلیٰ ترین برتری خاص تیرے لیے ہے۔ یہ جملہ ایک طرح سے پہلے جملہ کی علت بیان کر رہا ہے یعنی اس چیز کی علت جس کے ذریعے تمہاری توصیف نہیں کی جاسکتی یہ ہے کہ تو تمام بلندیوں سے بالاتر ہے اور یہ حقیقت اس مطلب کو بیان کر رہی ہے کہ جب تک کسی چیز کا احاطہ نہ ہو اس کی حقیقی توصیف و تعریف ممکن نہیں اور ذات باری تعالی ہر موجودسے بر تر ہے۔

10۔لطائف الأوھام:”لطائف:لطیفہ“ کی

جمع ہے اور اس کا معنی لطیف اور باریک ہے، ” أوھام “ ” وھم“ کی جمع ہے۔

”وہم“ ایسے الفاظ میں سے ہے جو فلسفہ اور منطق کی اصطلاحات میں بھی استعمال ہواہےاور اس پر فلسفی رنگ غالب ہے۔ توجہ رہے کہ دینی متون میں”وہم“ فلسفی معنی میں استعمال نہیں ہوا۔ فلسفہ کی اصطلاح میں ”وہم“ ایک ایسی قوت ہے جو محسوسات کے جزئی معنی کو ادراک کرنے سے متعلق ہے۔(3)

ص: 82


1- ۔ خدا و جھان اور انسان ، نھج البلاغہ کی نظر سے، علامہ محمد تقی جعفری، ص 3 ، ر جوع کریں: الرواشح السماویہ،میر داماد ، ص19۔
2- ۔ تیرے صفات حد نعت و صفت تک پہنچنے سے پہلے ہی بکھر گئے۔
3- ۔ الاسفار الاربعہ ، صدرالمتالّھین شیرازی ، ج 8 ، ص 65 ،ج 3 ، ص 360 ،517 ۔

”وہم“ کے لغوی معانی تمثیل وتخیل کےہیں:کسی چیز کا تصور یا کوئی ایسی یاد گار بات جودل میں اتر گئی ہو۔(1) بنابر ایں و ہم کی قوت کا دائرہٴ کار وسیع ہے کیوں کہ احساسات و ادراکات کے دیگر عوامل کا دائرہٴ کار محدود ہے مثال کے طور پر عقل کبھی اپنے دائرہٴ کار سے آگے نہیں بڑھ سکتی،لیکن” و ہم“ اس طرح نہیں ہے یعنی وہم تخیلات اور نئی سے نئی شکلیں بناسکتاہے مثال کے طور پر انسان اپنے ذہن میں دوسر والے انسان کا تخیل کر سکتا ہے۔لہذا”وہم“ زیادہ ظرفیت اور طاقت کے باوجود خدا وند متعال کی تعریف و توصیف کی تصویر کشی سے عاجز ہے اس لیے جو بھی صورت ذہن کے اندر پیدا ہوتی ہے

یاجو چیز بھی دل میں آ تی ہے وہ ہماری اپنی پیدا وار ہے اور اس لامحدود حقیقت کو بیان نہیں کر سکتی۔

حضرت امام باقر علیه السلام اس سلسلےمیں فرماتے ہیں:

( کیف تدرکہ الاوھام وھو خلاف ما یعقل، وخلاف ما یتصوّر فی الاوھام؛ وہم اس ذات کا ادراک کیسے کر سکتا ہے جو اس کے بر خلاف ہے جو عقل میں آئے اوراس کے بھی برخلاف ہے جو وہم کے تصورات کی جولا نگاہ میں ہے۔ (2)

11۔ الاوّل فی أولیّتک:حضرت امام سجاد علیه السلام صحیفے کی پہلی دعا میں خداوندمتعال کے اوّل ہونے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

ص: 83


1- ۔ اقرب الموارد ، سعید الخوری ، ج 2 ، ص 1419 ۔
2- ۔ عبدالرحمن ابن ابی نجران نے امام باقر علیه السلام سے نقل کیا ہے باب دوم اطلاق العقول بانّہ شئی ، کتاب توحید اصول کافی ج1 ص 82 ۔

”الحمدللہ الاول بلا اوّل کان قبلہ،والآخر بلا آخر یکون بعدہ، ساری تعریفیں ایسے اللہ کے لیے مخصوص ہیں جو ایسا اول ہے جس سےپہلے کوئی اول نہیں اور ایسا آخر ہے جس کےبعد کوئی آخر نہیں ہے“۔(1)

مزید سینتالیسویں دعا میں فر ماتے ہیں:الاوّل قبل کل أحد،الآخربعدکلّ عدد؛ وہ اول ہے ہراحد سے پہلے، اور وہ آخر ہے ہر عدد کے بعد۔

ان دونوں عبارتوں کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال کا اوّل اور آخر ہونا ابتداء اور انتہا کے معنی میں ہے، یعنی خدا وند منان ہر شےکی ابتدا اور انتہا ہے۔

انسان میں عمل کی کمی اور آرزو ؤں کی زیادتی

”وانا العبد الضعیف عَمَلاً، الجسیم اَمَلاً، خرجت من یدیّ اسباب الوُصُلات اِلّا ما وصلہ رحمتک، و تقطّعت عنّی عصم الآمال الا ما انا معتصم بہ من عفوک، قلّ عندی ما اعتدُّ بہ من طاعتک،و کثُر علیّ ما ابوءُ بہ من معصیتک،و لن یضیق علیک عفو عن عبدک و ان اساءَ فاعف عنّی۔اللھم و قد اشرف علی خفایا الاعمال علمک، و انکشف کلُّ مستور دون خُبرک و لا تنطوی عنک دقائق الاُمور، و لا تعزب عنک غیّبات السّرائر“۔

اورمیں تیرا وہ بندہ ہوں کہ جس کا مختصرعمل اور سرمایہٴ امید زیادہ ہے سعادت تک پہنچنے کےتمام وسائل میرے ہاتھ سے جاتے رہے مگر تیری رحمت نے کچھ اسباب سے جوڑے رکھا۔ اور امیدوں کے

بندھن بھی ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے ہیں،سوائے تیرے عفو و درگزر کےدامن کےکہ جس پر سہارا کیے ہوئے ہوں۔ تیری وہ

ص: 84


1- ۔ دعا ایک فقرہ نمبر 1 ۔

اطاعت جودلگرمی کاباعث ہے، نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ معصیت جس کا میں معترف ہوں بہت زیادہ ہے۔

تیرااپنے کسی بندے کو معاف کر دینا اگرچہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو کچھ دشوار نہیں ہے، لہٰذا تو پھر مجھے بھی معاف کر دے۔ اے اللہ! تیرا علم تمام پوشیدہ اعمال پر محیط ہے تیرے علم اور اطلاع کے آگے ہر مخفی چیز ظاہر و آشکار ہے اور باریک سے باریک چیزیں بھی تیری نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ پردوں میں چھپے ہوئے راز تجھ سے مخفی ہیں۔

تشریح

امام علیه السلام نے خدا وند متعال کی عظمت و قدرت بیان کرنے کے بعد خدا اور انسان کے درمیان رابطے

کو بیان کیا ہے۔ یہ انسان جو خدا وند متعال کی مدد سے کمال تک پہنچ سکتا ہے اور تمام آرزوئیں پوری کرسکتا ہے۔میدان عمل میں تساہلی،سستی اور ناتوانی کا مظاہرہ کرتا ہے اورکسی شاعر کی تعبیر کے مطابق:اگر فقیر سستی کرے تو اس میں اہل خانہ کا کیا قصور؟ ”عمل“ ایسی کوشش اور جدوجہدہے جو انسان اپنی تمناؤں تک پہنچنے کے لیے انجام دیتا ہے۔ ایک طرف سے انسان ایک ایسا موجود ہے جس کی آرزوئیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ وہ کبھی سیرہونے والا نہیں ہے اس لیے

آرزو کے اعتبار سے انسان کی کوئی حدنہیں ہے لیکن جس عمل کے ذریعے اسے اپنی

آرزوؤں کو پورا کرنا ہے اس میں غفلت وکوتاہی سے کام لیتا ہے۔

1۔ الجسیم:” العظیم “:بڑا، بزرگ ۔

2۔ اسباب الوصلات: ( الوصلات ) وصلہ کی جمع ہے: مطلوب ومقصود تک پہنچنے کا سبب بننے والی چیز

اس معنی کا نتیجہ یہ ہےکہ:

ص: 85

وہ اسباب جن کے ذریعے میں سعادت تک پہنچا ہوں اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھا ہوں مگر وہ سبب جو کبھی نہیں کھو تا

وہ تیری رحمت ہےکیوں کہ رحمت تیری طرف سے ہے نہ ہماری طرف سے اور تیری رحمت

ہر کسی کے شامل حال ہے۔

3۔ عصم الٓا مال: ( عصم ) عصمت کی جمع ہے اور نگہداری، حفاظت، روکنے اور منع کرنے

کے معنی میں آیا ہے یہاں پر یہ تمسک کرنے کے معنی میں ہے یعنی آرزوئیں

جن سے وابستہ تھیں اور جن سے امید بندھی تھی وہ بندھن سب ٹوٹ گئے لیکن

تجھ سے بخشش و رحمت کی امید کا بندھن نہیں ٹوٹا۔

4۔ اعتدّ: ( اعتداد ) شمار کرنا، آمادہ اور مہیا کرنا۔

5۔ أبو ء: (باء

یبوء ) سے ہے اصل میں اس کا معنی کسی شیٔ کی طرف رجوع کرنا

ہے البتہ اعتراف اقرار اور قبول کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

یہاں دوسرا معنی مناسب ہے۔ کیوں کہ اقرار کرنا بھی ایک طرح سےحقیقت کی طرف رجوع کرناہے ۔

6۔ دون خبرک:”عند علمک “:تیرے علم کے مقابلہ میں۔

7۔ لا تنطوی:”انطوی علی شیء “:( سترہ فی باطنہ )؛ اس کو اپنے اندر چھپا لیا ۔

8۔ لا تعزب:”لایغیب “مخفی اور پوشیدہ نہیں۔

ص: 86

شیطان اور اس کے وسوسے

”و قد استحوَذ علیّ عدوک الّذی استنظرک لغوایتی فاَنظرتہ،واستمھلک الیٰ یوم الدین لِاِضلالی فامھلتہ، فاوقعنی و قد ھربتُ اِلیک من صغآئر ذُنوب موبقۃ، وکبآئر اعمال مُردیۃ۔

حتی اذا قارفتُ معصیتک، و استوجبتُ بسوء سعیی سخطتک، فَتَلَ عنّی عذار غدرہ و تلقّانی بکلمۃ کفرہ، و تولی البراءۃ منّی،وادبر موَلیّاً عنّی،فاصحرنی لغضبک فریداً، واخرجنی الی فناءِ نقمتک طریداً“

تیرا وہ دشمن جس نے مجھے دھوکہ دینے کےلیے تجھ سے مہلت مانگی اور تو نے اسے مہلت دے دی اس نے مجھے گمراہ کرنے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی اور تو نے اسے مہلت دے دی وہ مجھ پر غالب آ گیا ہے۔ اور اب جب کہ میں مہلک گناہان صغیرہ اور تباہ کر دینے والے کبیرہ گناہوں کے ساتھ تیرے دامن میں پناہ کے لیے بڑھ رہا تھا تو اس نے مجھے آ گرایا۔

اور جب میں گناہ کا مرتکب ہو گیاور اپنی بداعمالی کی وجہ سے تیری ناراضگی کا مستحق بن گیا تو اس نے اپنے حیلہ و فریب کی باگیں مجھ سے اتار لیں اور مجھےناشکرا ہونےکے طعنے دینے لگا اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرنےلگے اور پیٹھ پھیرکر چل دیا اور مجھے تیرے غضب کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا، اور تیرے انتقام کی منزل پر مجھے کھینچ تان کر لے آیا۔

ص: 87

تشریح

پہلے حصہ میں عمل اور آرزو کا مسئلہ بیان ہوا ہے اور اس میں” شیطان“ کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دونوں حصوں کا آپس میں تعلق یہ ہے کہ انسان کاعمل میں سستی کرنا، برے اعمال کی طرف رجحان اور معقول آرزوؤں کے بجائے لغوو بےہودہ آرزوؤں کی طرف رغبت کاسبب ”شیطان“ ہے اگرچہ ”شیطان“ کا کردار اس انحراف میں ایسے ہے جیسے آگ کے تنور میں

موجودچنگاریوں پر ہوا یعنی چنگاریاں نہ ہوں تو ہوا کچھ نہیں کر سکتی اسی طرح ہمارے اندر نفس امّارہ نہ ہو تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔یہ شیطان اپنے وسوسوں کے

ذریعے ہمارے اندر خاکستر میں موجودہ چنگاریوں کو بھڑکاتاہے اور انسان کی پستی و گمراہی اور سستی وبدکاری کے وسائل فراہم کرتا ہے۔

شیطان دینی ثقافت میں صرف ایک تاریخی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ انسان کے مقابلہ میں ایک زندہ فعال،سرگرم اور خطرناک حقیقت کا نام بھی ہے۔

جو انسان کی سعادت اور خو ش بختی کے لیے ایک بڑاخطرہ ہے۔ اس وجہ سے دینی اور دعائی متون میں” شیطان“ کو”انسان کا کھلا دشمن“ سمجھا گیا ہے ضروری ہے کہ انسان اس دشمن سے ہوشیار رہے اس کے مقابلے میں مضبوط حکمت عملی سے کام لے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے خدا سے پناہ مانگے۔

1۔ استحوذ:اصل

میں ( حاز، یحوز حیازۃ)سے ہے جس کا معنی کسی چیز پر احاطہ یا غلبہ کرنا ہے۔ پس عبارت کا معنی یہ ہوا کہ شیطان نے میرے اوپر غلبہ کر لیا اور مجھے اس چیز کی طرف لے گیا کہ جس کا خود اس نے ارادہ کیا تھا۔ آٹھویں دعا میں بھی یہ عبارت موجود ہے ”و نعوذ

ص: 88

بک... أن یستحوذ علینا الشیطان” “ اے خداوندا تم سے پناہ مانگتےہیں کہ شیطان ہم پر مسلط ہو جائے، اس سلسلے میں ایک روایت بھی نقل ہوئی ہے ایک دن حضرت

موسی ؑ شیطان کے رو برو ہوئے اور کہا۔

فاخبرنی بالذنب الّذی اذا أذنبہ ابن آدم استحوذت علیہ ؟ قال: اذا اعجبتہ نفسہ، واستکثر عملہ و صغرفی عینہ ذنبہ (1)

اےشیطان!مجھے بتا کہ وہ کون سا گناہ ہے کہ جس کے ارتکاب سے تو انسان پر مسلط ہو جاتا ہے ؟شیطان نے کہا:جب کبھی انسان عجب کا شکار ہو، اپنے عمل کو زیادہ سمجھے اور اپنے گناہوں کو اپنی نظروں میں حقیر شمار کرے۔

یعنی تین قسم کی نظر اس بات کا سبب بنتی ہے کہ شیطان انسان پر مسلط ہو جائے۔

1۔ اپنے تیئس اپنے آپ کو بڑاسمجھنا۔

2۔ اپنے کم عمل کو زیادہ جاننا۔

3۔ اپنے گناہوں کوناچیز سمجھنا۔

2۔ استنظرک:”استمھلک“مہلت طلب کی اور تاخیر کی درخواست کرنا، یہ نظر،نظراً کی اصل سے ہے ٹھرا،توقف کیا،

مہلت دی۔ سورۂ (اعراف)آیت 14۔ 17،(حجر )آیت 36۔ 40او( ص) 79۔83 میں

شیطان کا خدا سے مہلت مانگنا بیان کیاگیا ہے۔

3۔ فأوقعنی۔ ”أوقع“کی اصل ”وقع۔ یقع“ہے اور اس کے ثلاثی مجرد میں چوں کہ مختلف معنی ہیں، اس لیے ثلاثی مزیدفیہ کے معنی بھی مختلف ہیں اگر ”اوقع“ ” وقع“ سے لیا گیا ہو تو اس کا معنی ”حاصل

ہو ا اور واقع“ ہوا ہوگا، پس”اوقعنی“ کا معنی مجھے حاصل ہوا ہو گا اور اگر”وقع“ سے”ساقط ہوا اور گرا دیا“

ص: 89


1- ۔ اصول کافی ، باب عجب ، کتاب ایمان و کفر ۔ ج 2 ، ص 313 ۔ محمد ابن شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج 1 ، ص 99 ۔

لیا جائے تو”اوقعنی“ کا معنی ”اسقطنی“ ہو گا:”مجھے پھینکا،گرا دیا، زمین پر مارا “ اس کا معنی یہ ہوا کہ شیطان کا جو ہدف تھا اس تک وہ پہنچ گیا اور مجھے اغوا کر کے

گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا۔

4۔موبقۃ:باب افعال سے اسم فاعل ہے:”اوبق“ یعنی”اھلک“ ہلاکت میں ڈالا، ہلاک کیا۔

5۔ مردیۃ:باب افعال سے اسم فاعل ہے” اردی ارداءً“ ہلاک کر ڈالا، گڑھے میں پھینکا ۔

6۔ قارفت معصیتک:”قارف“ کسب کیا، حاصل کیا، نزدیک ہوا۔

یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ ضمیر استحوذ،ضمیر قارفت کے مقابلہ میں ہے۔ آخری دو کلموںمیں ضمیر شیطان کی طرف لوٹتی ہے یعنی یہ شیطان ہے جو انسان پر غلبہ پالیتاہے۔ البتہ اس چیز کا سبب خودانسان فراہم کرتاہے (ایک نمبر میں اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے ) جو انسان کو ذلت وپستی کی طرف کھینچ لےجاتاہے لیکن”قارفت “ متکلم کی ضمیر استعمال

ہوئی ہے یعنی خودانسان ہے جو گناہ انجام دیتا ہے کیوں کہ شیطان کبھی بھی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا انسان خود اپنے برے ارادے سےشیطان کو اپنے دل میں داخل ہونے کی اجازت دے کر گناہ کا مرتکب ہوتاہے جب کہ انسان شیطان سے دور رہنے کو بخوبی جانتا ہے اس کا باطن ووجدان اس بات سےآگاہ ہوتا ہے اور دینی تعلیمات میں بھی یہ بات اسے بتائی جاچکی ہے۔

7۔ فتل عنّی عذار غدرہ: ”صرف عنہ“، اس سے منہ موڑ لیا۔

عذار، چہرے اور رخسار کے کنارہ،ریش کا خط، چوپایوں کی لگام۔

غدر، اصل میں”عہد شکنی“

کے معنی میں ہے لیکن فریب اور دھوکے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر دوسرا معنی مراد ہے۔

ص: 90

اگر”عذار“ کو لگام کے معنی میں لیں تو عبارت کا معنی یہ ہوگا: فریب اور دھوکے کی لگام کو مجھ سے اٹھا لے،

اور رخسار کے معنی میں لیں یعنی اپنے دھوکے اور فریب کے چہرے کو مجھ سے موڑ دے۔

دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی مراد ہے یعنی کیوں کہ اس کا ہدف گمراہ کرنا اور مجھے گناہ اور خدا کے غضب میں مبتلا کرنا ہے اور یہ ہدف اس نے حاصل کر لیا لہذا اس کے بعد اس کو مجھ پر فریفتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسی لیے وہ اب اس عمل سے بازآ گیا ہے۔

8۔تلقّانی بکلمۃ کفرۃ: اشارہ ہے اس آیت کی طرف جو قرآن میں شیطان کی زبانی حکایت کرت ہے:

“و قال الشّیطان لمّا قُضی الامرانّ اللہ وعدکم وعد الحق و وعدتکم فأخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطن الاّأن دعوتکم فاستجبتم لی فلاتلومونی ولو موا أنفسکم ما أنا بمصرخکم وما أنتم بمصر خیّ انّی کفرت بما اشرکتمون من قبل انّ الظٰلمین لھم عذاب ألیم” (1)

اور ( قیامت کے دن ) جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہہ اٹھے گا: اللہ نے تمہارے ساتھ یقینًا سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہیں چلتا تھا مگر یہ کہ میں نے تمہیں صرف دعوت دی اور تم نے میرا کہنا مان لیا۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو پہلے تم جو مجھے اللہ کا شریک بناتے تھے میں اب یقیناً اس سے بیزار ہوں۔ ظالموں کے لیے

تو یقیناً درد ناک عذاب ہے۔

ص: 91


1- ۔ ابراھیم ، 22 ۔

9۔تولّی البرائۃ منّی:نیز یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے

جہاںشیطان کی زبانی نقل ہوا ہے،

“کَمَثل الشیطان اذ قال

للانسٰن اکفر فلمّا کفر قال انّی بریء منک انّی اخاف اللہ ربّ العالمین”

”شیطان کی طرح جب اس نے انسان سے کہا: کافر ہو جاؤ ؛ پھر جب وہ کافر ہو گیا تو کہنے لگا: میں تجھ سے بیزار ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (1)

10۔ فاصحرنی:“اصحر الرّجل للصحرا ء“:ابرز لھا:صحرا ء

کی طرف باہر جانا۔ اس عبارت میں شیطان سے دھوکہ کھانے والےانسان کو، ایک ایسے

شخص سےتشبیہ دی گئی ہے جسے صحرا سے باہر لے گئے ہوں اور وہ وہاں تنہا اور بے کس ہوگرمی و سردی جیسے مختلف خطروں سے بچنے کےلیے اس کے پاس کچھ نہ ہو ؛ یعنی ہر طرح کی دفاعی طاقت انسان سے سلب کرلے۔لہٰذا اس کا معنی یوں ہو گا: اس نے مجھے

گمراہی کے صحرا میں چھوڑ دیا تاکہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو۔

11۔فناء نقمتک طریداً:“فناء“حضور، آستانہ۔

”طرید “ فعیل مفعول کے معنی میں ہے اس کی اصل طرد ہےاوراس کامعنی ہے دور کرنا، پس طرید، یعنی دور ہوا۔

ص: 92


1- ۔ سورۂ حشر ، آیت 16 ۔

انسان کی پناہ گاہ فقط خداوند متعال

“لا شفیع یشفع لی اِلیک، ولا خفیر یؤمنُنی علیک، ولا حصن یحجبنی عنک، ولا ملاذ الجاُ الیہ منک۔ فھذا مقام العائذبک، ومحلّ المعترف لک، فلا یضیقنّ عنّی فضلک، ولا یقصرنّ دُونی عفوُک،ولا اکن اخیب عبادک التائبین، و لا اقنط وُفودک الآملین، و اغفرلی، اِنّک خیر الغافرین”

شفاعت کرنے والانہیں جو تیرےحضورمیری شفاعت کرےاور پناہ دینے والا نہیں جو مجھے امان میں رکھے چار دیواری نہیں جو مجھے تیری نگاہوں سے چھپا سکے،کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں تیرے خوف سے پناہ لے سکوں۔

اب یہ منزل میرے پناہ مانگنے اور یہ مقام میرے گناہوں کے اعتراف کرنے کا ہے، لہذا ایسا نہ ہو کہ تیرے دامن فضل(کی وسعتیں)میرے لیے تنگ ہو جائیں اور عفو و درگزر مجھ تک پہنچنے ہی نہ پائے۔توبہ کرنے والے بندوں میں سب سے زیادہ ناکام ثابت نہ ہوں اور تیرے پاس امیدیں لے کر آنے والوں میں سب سے زیادہ نا امید نہ بنوں۔(بار الہا!) مجھے بخش دے اس لیے کہ تو بخشنے والوں میں سب سے زیادہ بہتر ہے۔

تشریح

انسان کے پاس خداوندمتعال سے فرار کا کوئی راستہ نہیں،کیوں کہ”لا یمکن الفرار من حکومتک ”(1) تیری حکومت سے فرار نا ممکن ہے۔” لا یسبقک من طلبت ولا یفلتک من اخذت ”)(2) “جسے

ص: 93


1- ۔ دعائ کمیل کا ایک فقرہ ۔
2- ۔ نھج البلاغہ ، خطبہ109 ۔ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔

طلب کر ے وہ آگے نہیں بڑھ

سکتا اور جسے تو پکڑلے وہ بچ کر نہیں جا سکتا ہے“

البتہ ایک راہ نجات

انسان کے پاس ہے ؛(...رحمتی وسعت کلّ شیء...) (1)

”...

ربّنا وسعت کلّ شیء رّحمۃ و علماً...“(2) ہمارے پروردگار! تیری رحمت و علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

“ و انّ رحمتک اوسع من ذنبی ”(3) ؛ یقیناًتیری رحمت میرے گناہ سے زیادہ وسیع ہے۔

لہٰذا اگر انسان گناہ کی وجہ

سے خداوندمتعال کے غضب کا شکار ہو جائے، تو کوئی چیز بھی اس غضب الہٰی کو دور نہیں کر سکتی ؛اور وہ خداوندمتعال کے انتقام سے بچ نہیں سکتا اور اس کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔

ان حالات میں فقط خداوندمتعال اس کی پناہ گاہ ہے ؛ لہذا فرار کی راہ بند ہونے کے باوجود کھلی ہوئی ہے۔ خدا وندمتعال سے غیر خدا کی طرف فرار کا راستہ بند ہے، لیکن خداوندعالم سے فرار کے بعد خود خدا کی طرف راستہ کھلا ہے ؛ لہذا کبھی کسی شخص کو نا امید نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس کو اس بات کا علم و یقین ہونا چاہیے کہ اس کی امید صرف خداوندمتعال ہے اور یہ بھی

اعتماد رکھتاہو کہ

ص: 94


1- ۔ سورۂ اعراف ، آیت156 ۔
2- ۔ سورۂ غافر ، آیت7۔
3- ۔ مفاتیح الجنان ، شیخ عباس قمی ، تعقیبات عام ، ص15 ۔

خداوندمتعال کا فضل،

بخشش اور رحمت اتنی وسیع ہے کہ انسان کے گناہ خواہ جس قدر بھی ہوں، وہ جتنا بھی گناہگار ہو خداوندمتعال اسے بخش دے گا ؛ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ خدا کی پناہ میں آئے اور اس سے مغفرت طلب کرے۔

1۔ خفیر:”خفرت الرجل

اخفرہ خفراً“۔ میں نے اس کی حمایت کی اور اس کو پناہ دی۔ لہذا” خفیر“

کا معنی پناہ دینے والا، حمایت کرنے والا اور عذاب سے منع کرنے والا ہے۔

2۔ وفودک:”وفود وافد“ کی جمع ہے ؛ داخل ہونے والا۔

3۔ عفو اور مغفرت میں فرق: عفو لغت میں مٹا دینا اور محو کرناہے؛ لیکن”مغفرت “ غفر

سے ہے یعنی چھپانا اور مخفی کرنا؛ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ مغفرت کی نسبت عفو میں لطف و کرم زیادہ ہے ؛کیوں کہ خداوندمتعال کے غفور ہونے کا معنی یہ ہے

کہ وہ گناہوں کو چھپاتا ہے اور چھپانے کا لازمہ عفو اور محو کرنانہیں ہے؛ اگرچہ ممکن ہے کہ استعمال کے موقع پر یہ دونوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوں۔ (1)

خدا کی بارگاہ میں انسان کی شرمندگی

اللھم انک امرتنی فترکتُ، و نھیتنی فرکِبتُ، و سوّل لی الخطا خاطر السُّوءِ ففرّطتُ و لا استشھد علی صیامی نھاراً، و لا استجیر بتہجری قمری دلیلاً، و لا تثنی علیّ باحیآئھا سنّۃ، حاشاٰ فروضک التی من ضیّعھا ھلک، و لستُ اتوسل الیک بفضل نافلۃ مع کثیر ما اغفلتُ من وظآئف فروضک، و تعدّیت عن مقامات حدودک الی حُرمات انتھکتھا،

ص: 95


1- ۔ نور الانوار فی شرح الصحیفہ ، سید نعمت اللہ جزائری ، ص157 ؛ فروق اللغویۃ ، ابی ھلال العسکری ، ص195

و کبآئر ذُنوب اجترحتھا کانت عافیتک لی من فضآئحھا ستراً۔

و ھذا مقام من استحییٰ لنفسہ منک، و سخط علیھا، و رضی عنک، فتلقّاک بنفس خاشعۃ، و رقبۃ خاضعۃ، و ظھر مُثقل من الخطایا، واقفاً بین الرّغبۃ الیک و الرّھبۃ منک، و انت اولیٰ من رجاہُ،و احقّ من خشیہ و اتّقاہ، فاعطنی یا ربّ ما رجوتُ، و آمنّی ما حذرت، و عُد علیّ بعآئدۃ رحمتک، اِنّک اکرم المسئولین ؛

اے اللہ ! تو نے مجھے اطاعت کاحکم دیا مگر میں اسے بجا نہ لایا اور برے اعمال سے مجھے روکا، مگر میں ان کا مرتکب ہوتا رہا۔ اور برے خیالات نے جب گناہ کو خوش نما کر کے دکھایا تو میں نے تیرے احکام میں کوتاہی کی۔

میں روزے رکھ کر کسی دن کو گواہ نہیں بنا سکتا ہوں اور نماز شب پڑھ کر رات کو اپنی سِپر نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کسی سنت کو میں نے زندہ کیا ہے کہ اس سے حمد و ثنا کی توقع کروں سوائے تیرے واجبات کی ادائگی کے جو انہیں ضائع کرے بہر صورت ہلاک و تباہ ہو گا۔

اور نوافل کثرت سے بھی تجھ سے توسل نہیں کرسکتا چوں کہ تیرے واجبات کی متعدد شرائط سے غفلت کرتا رہا،

اور تیرے احکام کی حدود سے تجاوز کرتا ہوا محارم شریعت کا دامن چاک کرتا رہا،گناہان صغیرہ کا مرتکب ہوتا رہا ان کی رسوائیوں سے صرف تیری عفو و رحمت سے بچتا رہا۔

ص: 96

یہ میرا مقام اس شخص

جیسا ہے جو تجھ سے شرم و حیا کرتے ہوئے اپنے نفس کو برائیوں سے روکتا ہو،

اور اس پر ناراض ہو اور تجھ سے راضی ہو اور تیرے سامنے خوف زدہ دل،خمیدہ گردن

اور گناہوں سے بوجھل پیٹھ کے ساتھ، امید و خوف کی حالت میں کھڑا ہ۔

اور تو ان سب سے زیادہ سزاوار ہے جن سے اس نے آس لگائی اور ان سب سے زیادہ حق دار ہے جن سے وہ ہراساں اور خائف ہوا۔

اے میرے پروردگار! جب یہی حالت میری ہے تو مجھے بھی وہ چیز مرحمت فرما،جس کا میں امید وار ہوں اور اس چیز سے مطمئن کر جس سے خائف ہوں اور اپنی رحمت کے انعام سے مجھ پر احسان فرما۔ کیوں کہ

تو ان تمام لوگوں سے کہ جن سے سوال کیا جاتا ہے، زیادہ سخی و کریم ہے۔

تشریح

انسان کی خداوندمتعال سے شرمندگی دو پہلوؤں سے ہوتی ہے۔

1۔ اپنے نیک اعمال پر انسان انحصار نہیں کرتا کیوں کہ ان اعمال کو خدا کی بندگی کے مقابلہ میں کچھ نہیں سمجھتا۔

2۔اپنے برے اعمال اور خداوندمتعال کی حدود کا لحاظ نہ کرنے سے آگاہ ہو چکا ہے اور وہ پشیمان نیز سر تسلیم خم کیےہے۔

اسی لیےخضوع و خشوع کے ساتھ سر جھکائے خداوندمتعال کی بارگاہ میں آیا ہے۔ اپنے آپ کو قصور وار

سمجھنا ایک اچھی حالت ہے لہذا دعا میں ہے ۔

ص: 97

” لا تخرجنی من التقصیر”(1) خدا وندا! مجھے اعمال میں اپنے کو مقصر جاننے کی حالت سے خارج نہ کرنا۔

یہ حالت خشوع اور دل شکستگی خداوندمتعال کی عنایت کا سبب ہے اور ان بہترین حالات میں سے ایک ہے جن میں عنایات الہٰی شامل حال ہوتی ہیں۔

1۔سوّل لی الخطاء خاطر السّوء:“تسویل“۔کسی چیز کی ایسی زیب و زینت جو انسان کو اپنی طرف کھینچے۔ شیطان کے حربوں میں سے ایک تسویل ہے یعنی دنیا اور ان چیزوں کو جو حقیقت میں خوبصورت نہیں ہیں انسان کے سامنے بنا سنوار کر پیش کرتا ہے تا کہ دھوکہ دے سکے۔

خاطر السّوء:”خاطر“وہ چیز جو انسان کے دل میں خطورکرتی ہے۔ خواطر کی چار قسمیں ہیں:1۔ خاطر ربانی۔2۔

خاطر ملکی جسے” الہام“بھی کہا جاتا ہے۔3۔خاطر نفسانی4۔ خاطر شیطانی۔آخری دو قسمیں” خاطر سوء“ اور پہلی دو” خاطر خیر “ کے مصادیق ہیں۔ عبارت کا معنی یہ ہے: برے خیال نے خطا اور گناہ کو میرے لیے خوبصورت بناکر پیش کیا اور مجھے دھوکہ دیا اور پھر اس کے ارتکاب کی طرف کھینچ کر لے گیا۔

2۔ لا استشھد علی صیامی نھاراً:اس جملہ اور اس کے بعد والے جملات سے مراد یہ ہے کہ حقیقت میں میرے پاس کوئی عبادت نہیں کہ جس پر اعتماد کروں اور اس کو رحمت اور بخشش کا وسیلہ قرار دوں کیوں کہ پہلی بات یہ کہ جو عبادت ہم انجام دیتے ہیں وہ خداوندمتعال کے مقام ربوبیت کے لائق نہیں۔جس طرح خداوندمتعال

ص: 98


1- ۔ اصول کافی ، ج2 ، ص579 ۔

کی نعمتوں کی شکر گزاری کسی سے ممکن نہیں بلکہ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ اپنی قدرت و طاقت کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عبادت کو انجام دینے کی توفیق بھی خدا کی عنایت اور لطف ہے اور یہ خود ایک اور نعمت ہے جو شکر کی ضرورت مند ہے ۔

اور نہ صرف اپنی عبادت پر ناز نہیں کرنا چاہیے اورنہ ہی خدا وندمتعال پر اپنا حق سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں بندگی کی توفیق دی اور حقیقت میں اس کا ہماری گردن پر حق ہے تا کہ ہم اس کی عبادت کریں۔ پس یہ عبادت ایسی نہیں کہ

جسے اپنی طرف سے خداوندمتعال کی بارگاہ میں پیش کر سکیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم بعض ایسے گناہوں کے مرتکب ہو تے ہیں جو نیک اعمال کی نابودی کا سبب ہیں۔

پس ہم کس منہ سے خداوندمتعال کی بارگاہ میں جائیں؟ صرف خضوع و خشوع،شکستہ دلی، امید اور رغبت ہی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہواجا سکتاہے اور اس کے در پر سر جھکایا جا سکتا ہے۔

3۔تہجد:“ھجود“:

یعنی سونا اور جاگنا اس میں دو متضاد معنی ہیں یہاں پر مراد سحر کے وقت نماز شب کے لیے بیدار ہونا ہے۔

4۔ لاتُثنی علیّ:یعنی ثناء اور تعریف کرنااس میں کسی کی مدح اور اچھی یاد اس طرح سے کرنا کہ یہ یاد اس کی بزرگی کی علامت شمار ہو۔ لہٰذامعنی یہ ہوا کہ رات عبادت میں جاگ کر گزارنے پر میری مدح نہیں ہوئی۔ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو عمل مدح و ثناء کے لائق تھا اسے میں نے انجام ہی نہیں دیا۔

ص: 99

5۔ وظائف فروضک:واجبات کے صحیح اور قبول ہونے کے آداب و شرائط۔ ”فروض“ایسے امور جن کا ترک کرنا عذاب کا سبب ہے اور اس کے مقابلے میں”سنت“ اور ”نفل“ ہیں،کہ جن کا بجا لانا ضروری نہیں اور ان کا ترک کرنابھی عذاب کا سبب نہیں بنتا۔

6۔حدودک:“حد“یعنی

ایک ایسی چیز جو دو چیزوں کو آپس میں ملانے سے روکتی ہے:”حدود الہی“یہی احکام

وشریعت الہٰی جو واجب ہے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

7۔اِنتھکتھا: یہ کلمہ،“ھتک السّترھتکاً”،سے ہے اس کامعنی پردے کو پھاڑا، آبرو ریزی، رسوائی ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ان محرمات کی حد بندی کو توڑا جنہیں انجام دینے سے مجھے روکا گیا تھا۔

8۔ اِجترحتھا: ”اجتراح“

یعنی کسب کرنا، حاصل کرنا اور انجام دینا۔

9۔ عافیتک لی من فضائحھا ستراً:“فضائح“” فضیحۃ“ کی جمع ہے۔ فضح یفضح

فضحاً رسو ا کیا، ظاہر کیا، یہ دو معنی آپس میں بے ربط نہیں ہیں، کیوں کہ رسوائیاں بالآخر ظاہر ہی ہو جاتی ہیں۔ یہاں ” فضائح “ سے مراد گناہوں کی رسوائیاں ہیں۔

”عافیت“ یعنی خداوندمتعال کابلا، عذاب، رنج، بیماری سے اپنے بندے کی حفاظت ہے۔

معنی یہ ہوا کہ

رسوائیوں، گناہوں اور عیوب کے ظاہر ہونے پر خداوندمتعال کا پردہ ڈالنا۔

ممکن ہے یہ مراد ہو کہ ہمیں گناہ سے محفوظ رکھ تا کہ اس گناہ کرنے کے اثرات کے نتیجہ میں ہم رسوا نہ ہوں۔

ص: 100

خداوند متعال کا پردہ پوشی کرنا

اللّھم و اذ سترتنی بعفوک، و تغمّدتنی بفضلک فی دار الفناء بحضرۃ الاکفا ء فاجرنی من فضیحات دار البقاء عند مواقف الاشھاد، من الملائکۃ المقربین، والرّسل المکرّمین، الشّھداء والصالحین، من جار کنت اکاتمہ سیّئاتی، و من ذی رحم کنت احتشم منہ فی سریراتی۔

لم اثق بھم ربّ فی الستر علیّ، ووثقت بک ربّ فی المغفرۃ لی، و انت اولیٰ من وُثق بہ، و اعطیٰ من رُغب الیہ، و اراف من استُرحم، فارحمنی۔

اے اللہ! جب کہ تو نے مجھے اپنے دامنِ عفو میں چھپا لیا ہے اور سب کے درمیان اس دارِ فنا میں فضل و کرم کا جامہ پہنایا ہے۔ پس دارِ بقا کی رسوائیوں سے بھی پناہ دے۔ اس مقام پر جہاں مقر ب فرشتے،معزز اور باوقار پیغمبر،شہید و صالح افراد سب حاضر ہوں گے۔ انہی میں کچھ تو ہمسائے ہوں گے جن سے میں اپنی برائیوں کو چھپاتا رہا ہوں اور کچھ عزیز و اقارب ہوں گے جن سے میں اپنے پوشیدہ کاموں میں شرم وحیا کرتا رہا ہوں۔ اے میرے پروردگار!میں نے اپنی پردہ پوشی کے راز میں ان پر بھروسا نہیں کیا لیکن مغفرت کے بارے میں اےپروردگار! تجھ پر اعتماد کیا ہے اور تو ان تمام لوگوں سے جن پر اعتماد کیا جاتا ہے زیادہ اعتماد کا سزاوارہے اور ان سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہے کہ جن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، اور ان سب سے زیادہ مہربان ہے جن سے رحم کی التجا کی جاتی ہے لہٰذا مجھ پر رحم فرما۔

ص: 101

تشریح

انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو اچھا پیش کرے؛ لہذا جب نا شائستہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ انہیں چھپائے، یا اگر اس کے کچھ عیوب ہیں تو انہیں دوسرے سے مخفی رکھے۔ پس وہ خامیوں اور گناہوں کے ظاہر ہونے پر حسّاس نظر آتا ہے اور یہی حسّاسیت ایک ایسا عامل ہے جو اس کو گناہ اور خطا سے روک سکتا ہے ،کیوں کہ اگر اس کا آخرت پر ایمان ہے اور وہ یہ جانتاہے کہ وہ اپنے گناہوں اور عیبوں کو چھپانےکی خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے ایک دن اس کے یہ گناہ آشکار ہو جائیں گے اور قیامت کے دن گواہوں کے سامنے رسوا ہو گا تو اس صورت میں وہ گناہ اور خطا سے بازرہےگا۔

1۔ تغمّدنی:” غمد“ سے ہے اس کا معنی پردہ پوشی کرنا، مخفی رکھنااور ڈھانپ دینا ہے ”تغمدہ اللہ برحمتہ “ خدا نے اس کو اپنی رحمت میں چھپا لیا، یعنی رحمت الہی نے اس کے تمام وجود کو گھیر لیا۔

2۔حضرۃ الاکفاء:”حضرۃ“حاضرہونا،حضور،محضر،موجودگی،موجود ہونا ”اکفاء“ کفؤ کی جمع ہے مثل، مساوی، برابر، ہمتا۔

3۔مواقف الاشھاد: مواقف، موقف کی جمع ہے اس کا معنی کھڑا ہونا یا ٹھہرنے کی جگہ ہے اشھاد شاھد کی جمع ہے صاحب اور اصحاب کی طرح ابن فارس مقاییس اللغۃ میں لکھتے ہیں:” شھد“؛”اصل یدلّ علی حضور و علم و اعلام”(1)

ص: 102


1- ۔ معجم مقاییس اللغۃ ، ابن فارس ، ج3 ، ص221 ؛ ”شھد“ تین معنوں پر دلالت کرتا ہے ؛ حاضر ہونا، اطلاع حاصل کرنا اور اعلان کرنا۔

لیکن توجہ رہے کہ ” کلمۂ شھد“ کبھی بذریعہ حرف اور کبھی بغیر حرف کے متعدی ہوتا ہے۔ جب متعدی ہوجائے تو اس کے معانی بھی بدل جاتے ہیں۔

الف: اگر شھد بغیر حرف کے متعدی ہو تو اس کا معنی یہ ہو گا ؛ اطلاع پیدا کرنا، مشاہدہ کرنا،حاضر ہونا ہے، آیت مبارکہ کے مثل:(...واللہ یشھد اِنّھم لکٰذبون۔(1)خدا کے

شاھد ہونے سے مراد اس کا عالم اور آگاہ ہونا ہےیادوسری آیت میں ذکر ہوا ہے: والّذین لا یشھدون الزّورَ...(2)

یہاںشہادت حاضر ہونے کے معنی میں ہے۔

ب: اگر یہ علی کے ساتھ متعدی ہو تو اس کا معنی گواہی دینا ہے اور شاھد یعنی گواہ

؛ صاحب کتاب اقرب المواردلکھتے ہیں:”شھد علی کذا: اخبر بہ خبراً قاطعا“اس کا مطلب صرف کسی بات کی یقینی خبر دینا یا آگا ہ کرناہی نہیں ہے ؛ بلکہ آگاہ کرنے کے علاوہ گواہی دینا بھی ہے۔جیسےآیۂ کریمہ میں ذکر ہوا ہے:(یوم تشھد علیھم

السنتھم و ایدیھم و ارجلھم بما کانوا یعملون ) (3) اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شہادت کا معنی انسان کے اعضاء کا روز قیامت گواہی دینا ہے۔

ج: اگر حرف با کے ساتھ متعدی کریں تو اس کا معنی”قسم کھانا“ہو گا۔

ص: 103


1- ۔ حشر ، آیت 11 ۔
2- ۔ فرقان ، آیت72 ۔
3- ۔ نور ، آیت 24 ۔

مذکورہ بالا معانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اشھاد کادقیق معنی امام سجاد علیه السلام کے نورانی کلام

میں کیا ہو سکتا ہے ؟ کیا شاہدافراد روز قیامت فقط آگاہ لوگ ہی ہیں یا

آگاہی کے علاوہ یہ افراد گواہی بھی دیں گے ؟

آیت گویاہے کہ:(...و یقول الاشھٰد ھٰؤلآء الّذین کذبوا علی ربّھم...)(1) اور گواہ

لوگ کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہد لوگ گواہ بنیں گے کیوں کہ یہ آیت گواہی دیتی ہے کہ ایک خاص گروہ ہے جو جھوٹ بولتے ہیں۔

4۔ اکاتمہ: اس کا مصدر ”کتم “ ہے،مخفی رکھنا، چھپانا ؛

5۔ احتشم منہ:میں اس سے شرم و حیا کرتا ہوں۔

خداوند متعال کی نعمتوں کو یاد کرنا

اللھم و انت حدرتنی مآءً مھیناً، من صلب متضایق العظام حرج المسالک الی رحم ضیّقۃ، سترتھا بالحُجب، تصرّفنی حالاً عن حال حتّی انتھیت بی الی تمام الصورۃ، و اثبتَّ فیّ الجوارح کما نعتّ فی کتابک ( نُطفۃ ثمّ علقۃ ثم عظاماً ثم کسوتَ العظام لحماً، ثم انشاتنی خلقاً آخر ) کما شئتَ۔

حتی اذا احتجتُ الی رزقک، و لم استغن عن غیاث فضلک جعلتَ لی قوتاً من فضل طعام و شراب اجریتہ لاَمتک التی اسکنتنی جوفھا، و اودعتنی قرار رحمھا، و لو تکلنی یا ربّ فی تلک الحالات الی حولی، او

ص: 104


1- ۔ ھود ، آیت18 ۔

تضطرُّنی الیٰ قوّتی، لکان الحول عنّی معتزلاً، و لکانت القوّۃ منّی بعیدۃ، فغذوتنی بفضلک غذاءَ البرّ اللطیف، تفعل ذلک بی تطوّلاً علیّ الیٰ غایتی ھذہ لا اعدم برّک، و لا یُبطئُ بی حُسنُ صنیعک، و لا تتاکّد مع ذلک ثقتی فاتفرّغ لما ھو احظیٰ لی عندک۔

قد ملک الشیطان عنانی فی سوءِ الظّن و ضعف الیقین، فانا اشکو سوءَ مجاورتہ لی، و طاعۃ نفسی لہ، و استعصمک من ملکتہ، و اتضرّعُ الیک فی صرف کیدہ عنّی، و اسالک فی ان تسھّل الی رزقی سبیلاً۔

فلک الحمد علیٰ ابتد ائک بالنّعم الجسام، و الھامک الشّکر علی الاحسان و الانعام، فصلّ علیٰ محمد و آلہ، و سھّل علیّ رزقی، و ان تُقنّعنی بتقدیرک لی، و ان تُرضینی بحصّتی فیما قسمتَ لی، و ان تجعل ما ذھب من جسمی و عُمری فی سبیل طاعتک، انّک خیر الرّازقین۔

اے اللہ!جب میں حقیر وناقابل ذکر پانی تھا تو تو نے مجھے باپ کی جڑی ہوئی ہڈیوں اور تنگ راہوں کے

صلب سے پردوں میں چھپے ہوئے تنگ وتاریک رحم میں،ایک نطفہ کی صورت میں اتارا

وہاں تو مجھے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے اس حد تک پہنچا دیا کہ میری صورت مکمل ہو گئی۔ پھر مجھ میں اعضاء و جوارح ودیعت کیے جیسا کہ تو نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ:”(میں)پہلے نطفہ تھا پھر منجمد خون ہوا پھر گوشت کا لوتھڑا، پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ پھر ان ہڈیوں پر گوشت کی تہیں چڑھا دیں پھر جیسا تو نے چاہا ایک دوسری طرح کی مخلوق بنا دیا“۔

ص: 105

اور جب میں تیری روزی کا محتاج ہوا،

تیرے لطف و احسان کی محتاجی سے بے نیاز نہ رہ سکا تب تو نے بچے ہوئے کھانے پینے میں سے جسے تو نے اپنی کنیز(میری ماں) کے لیے جاری کیا تھا اور جس کے شکم میں ٹھہرا تھا اور مجھے جس کے رحم کے حوالے کیا تھا، میری روزی کا سامان فراہم کر دیا۔

اے میرے پروردگار! ان حالات میں اگر تو مجھے میری تدبیر پر چھوڑ دیتا یا میری قوت کے حوالے کر دیتا تو تدبیر مجھ سے کنارہ کش اور قوت مجھ سے دور رہتی۔ مگر تو نے اپنے فضل و احسان سے ایک شفیق و مہربان کی طرح میری پرورش کا اہتمام کیا جس کا تیرے فضل بے پایاں کی بدولت اس وقت تک سلسلہ جاری ہے کہ میں تیرے حسن سلوک سے کبھی محروم رہانہ تیرے احسانات میں کبھی تا خیر ہوئی۔لیکن اس کے باوجود یقین و اعتماد قوی نہ ہوا کہ میں صرف اسی کام کے لیے وقف ہو جاتا جو تیرے نزدیک میرے لیے زیادہ سودمند ہے۔

[اس بے یقینی کا سبب یہ ہے کہ] بد گمانی اور کمزور یقین کی وجہ سے میری باگ شیطان کے ہاتھ میں ہے۔اس میں اس کی غلط محبت اور اپنے نفس کی فرماں برداری کا اب شکوہ کرتا ہوں اور اس کے تسلط سے تیرے دامن میں پناہ ڈھونڈتا ہوں۔

اور تجھ سے عاجزانہ

التجا کرتا ہوں کہ اس کے مکر و فریب کا رخ مجھ سے موڑ دے۔ اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری روزی کی آسان سبیل پیدا کر دے۔

تیرے ہی لیے حمد و ستائش ہے کہ تو نے خود سے بڑی نعمتیں عطا کیں اور احسان و انعام پر ( دل میں ) شکر کا جذبہ پیدا کیا۔

اے ا للہ!محمد اور ان کی پاک

آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میرے لیے روزی کو سہل و آسان کر دے اور جو اندازہ میرے لیے معین کیا ہے اس پر قناعت کی توفیق دے جو حصہ

ص: 106

میرے لیے طے کیا ہے اس پر مجھے راضی کر دے جو جسم کام میں آچکا اور جو عمر گزر چکی ہے اسے اپنی اطاعت کی راہ میں قرار سے کہ بلا شبہ تو اسباب رزق مہیا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

تشریح

اس پیرائے میں انسان کی خلقت و آفرینش ( نطفہ،جنین وغیرہ) کے ابتدائی مراحل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان مراحل کے بیان کرنے کا ہدف مندرجہ ذیل اہم نکات کی طرف توجہ دلانا ہے:

1۔انسان پر خداوندمتعال

کا احسان اس کی نعمتوں کی یاد دہانی،وہ احسان و لطف جس کی وجہ سے خداوندمتعال نے مادہ منویہ سے بدل کر خوبصورت شکل دی اور پھر عقل اور جذبات عطاکرکے انسان کی خلقت فرمائی۔

2۔اس نعمت کی شکرگزاری اور اس کی حفاظت کی طرف متوجہ کیا گیاہے تاکہ جس خاک کو خداوندمتعال نے افلاک تک پہنچنے کی صلاحیت عطا کی ہے انسان اس کی نا شکری کی وجہ سے اسے دوبارہ خاک میں تبدیل نہ کرے۔

3۔ انسان اس حقیقت کی طرف متوجہ رہے کہ جس طرح اس کی مادی شکل و صورت خداوندمتعال کا لطف ہے اسی طرح اس کی روح اور سیرت بھی لطف الہٰی سے خالی نہیں ہے اور روح کا یہ پہلو اس کو شوق دلاتا ہے کہ وہ کمال نفس کی طرف حرکت کرے جان لے کہ جس خدا نے اسے پست ترین

مادی شکل و صورت سے اعلیٰ شکل کی طرف ارتقاء بخشا ہے، وہ اسے نفس کے پست ترین حالات سے بلند ترین حالات کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔

ص: 107

اس کے بعد امام علیه السلام نے”عروج “ و ” زوال“ کے دو مرحلوں کو بیان کیا ہے:

پہلا مرحلہ وہ ہے جس

میں انسان اپنی لگام شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور اس کا فرماں بردار

بن جا تا ہے خدا کی نسبت سو ء ظن اور یقین میں سستی کی وجہ سے ہلاکت

کا شکار ہو جاتا ہے۔

دوسرا مرحلہ عروج و کمال کا ہے اس میں انسان شیطان کے چنگل سے نکل کر خداوندمتعال کامطیع ہوجاتا ہے ۔لہذا شکر،قناعت اور راضی برضا رہنے جیسے اعلیٰ اوصاف کا حامل ہو جاتا ہے۔(...قلیل من عبادی الشکور، میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں )(1)

1۔حدرتنی:تو نے

نازل کیا”حدرت السّفینۃ“یعنی

کشتی کو ہموار سطح سے پانی میں نیچے کی طرف لانا، ایک چیز کا اوپر سے

نیچے کی طرف لانا:

2۔ما ءًمھیناً:کم قدر و قیمت، گھٹیا، کم ارزش پانی۔

3۔ حرج

المسالک:“ حرج “:”حرج“سے صفت مشبھہ ہے اس کا معنی تنگی یا تنگ جگہ ہے۔

4۔علقۃ:جماہوا خون اور یہ پہلی حالت ہے جس میں نطفہ تبدیل ہوتا ہے۔

5۔ مضغۃ: گوشت کا ٹکڑا۔

6۔ من فضل تمام:“ فضل “ یہاں پر”فضلہ“ کے معنی میں ہے یعنی اضافی یابقایا چیز۔یہاں مراد خون حیض ہے،جو رحم میں موجود بچے کے لیے مخصوص غذا ہے اور اس میں سے کچھ

ص: 108


1- ۔ سورۂ سباء آیت 13 ۔

سینے کے دودھ میں تبدیل ہو جاتا ہے اس وقت تک کے لیے کہ جب بچہ شکم مادر سے باہر آتا ہےاور اس سے بہرہ مند ہو۔

7۔ اُحظی: زیادہ فائدہ دینے والا، یہ صفت تفضیل ہے اس کی اصل حظ ہے جس کا معنی فائدہ ہے۔

8۔ ملکتہ:اس کی قدرت ( اس کا مسلط ہونا ) اس تسلط کا نتیجہ مجھے غلام بناناہے،

ابن فارس،مقاییس اللغۃ میں لکھتے ہیں:ملک:”اصل صحیح یدلّ علی قوّۃ فی الشیء و صحّۃ“ملک ایک ایسی صحیح اصل ہے جو کسی چیز میں موجود قوت وطاقت پر دلالت کرتی ہے“۔(1)

9۔ الجسام: جسیم

کی جمع ہے جس کا معنی ہے:بڑا، بزرگ۔

10۔ ما ذھب من جسمی وعمری فی سبیل طاعتک: اس عبارت کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

1۔: ایسے گناہ جو میں نے گذشتہ دور میں انجام دیئے ان کو نیکیوں میں تبدیل کر دے تا کہ میں اس آیت کا مصداق بن جاؤں:

(... فاولئک یبدّل اللہ سیّآتھم حسنٰت...(2)۔

ص: 109


1- ۔ معجم مقاییس اللغۃ ، ج5 ، ص351۔
2- ۔ فرقان ، آیت70؛ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

2۔: یہاں فعل ماضی کا معنی مستقبل ہے فعل ماضی سے فعل مستقبل کی طرف پلٹنےکی وجہ اس کا حتمی طور پر واقع ہونا ہے،

یعنی جو کچھ میری عمر اور جسم سے باقی بچا ہے، اسے اپنی اطاعت میں قرار دے۔

خدا سے آتش جہنم کی پناہ مانگنا

اللھم انّی ا عوذ بک من نار تغلّظت بھا علی من عصاک،و توعّدت بھا من صدف عن رضاک، و من نار نورھا ظلمۃ، و ھیّنھا الیم، و بعیدھا قریب، و من نار یاکل بعضھا بعض، و یصول بعضھا علی بعض، و من نار تذر العظام رمیما

و تسقی اھلھا حمیما و من نار لا تبقی علی من تضرّع الیھا، ولا ترحم من استعطفھا، ولا تقدر علی التّخفیف عمّن خشع لھا واستسلم الیھا، تلقی سکّاھا باحرّما لدیھا، من الیم النّکال و شدید الوبال۔

و اعوذبک من عقاربھا الفاغرۃ افواھھا، و حیّاتھا الصالقۃ باَنیابھا، و شرابھا یقطع امعاء و افئدۃ سکانھا، و ینزع قلوبھم، و استھد یک لما باعدمنھا، و اخّر عنھا۔

الّلھم صلّ علی محمد و آلہ، و اجرنی منھا بفضل رحمتک، و اقلنی عثراتی بحسن اقالتک، ولا تخذلنی یا خیر المجیرین، انّک تقی الکریھۃ و تعطی الحسنۃ، و تفعل ما ترید و انت علی کلّ شیء قدیر۔

بار الہا:! میں اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس کے ذریعے تو نے اپنے نافرمانوں کی سخت گرفت کی ہے جو تیری رضا و خوشنودی سے رخ موڑ لے اسے اس آگ سے ڈرایا اور دھمکایا ہے۔ اس آتش جہنم سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس کی روشنی اندھیرا ہے، جس کا آسان اور مختصرہونا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے اور جو

ص: 110

دور ہونے کے باوجود قریب ہے۔ اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس کا ایک حصہ دوسرے کو نگل لیتاہے اور ایک شعلہ دوسرے پر حملہ آور ہو کراسے اچک لیتا ہے۔ اور اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں جو ہڈیوں کو بوسیدہ و خاکستر کر دے گی اور دوزخیوں کو کَھولتاپانی پلائے گی۔ اور اس آگ سے پناہ کا طالب ہوں جو گڑگڑانے والوں پر ترس نہیں کھائے گی ان پر رحم نہیں کرے گی جو اس کے سامنے عاجزی و انکساری اورگریہ و زاری کرے گا۔ اور خود کو اس کے حوالے کردے گا۔ یہ آگ ان پر کسی طرح بھی عذاب میں کمی نہ کرے گی بلکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ درد ناک عذاب اور شدید عقاب کے شعلوں میں اپنے رہنے والوں کو گھیر لے گی۔

بارالہا! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جہنم کے بچھوؤں سے کہ جن کے منہ کھلے ہوئے ہوں گے اور ان سانپوں سے جو دانتوں کو پیس پیس کر پھنکار رہے ہوں گے،اور اس کے کھولتے ہوئے پانی سے جو انتڑیوں اور دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور ( سینوں کو چیر کر ) دلوں کو نکال لے گا۔خدایا! میں تجھ سے توفیق مانگتا ہوں ان باتوں کی جو اس آگ سے مجھے دور کریں، اور اسے مجھ سے دور ہٹا دیں۔

خداوندا!محمد اور ان کی پاک آل ؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنی رحمت فراواں کے ذریعہ اس آگ سے پناہ دے اور حسنِ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے میری لغزشوں کو معاف کردے اور مجھے محروم و ناکام نہ کر۔اے پناہ دینے والوں میں سب سے بہتر پناہ دینے والے۔

خدایا !تو بندوں کوسختی اور مصیبت سے بچاتا اور اچھی نعمتیں عطا کرتا ہے اور جو چاہے وہ کرتا ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

ص: 111

تشریح

انسان دو لا متناہی

چیزوں کی طرف حرکت کرتا ہے، ایک لا محدود نعمتیں اور دوسری لامحدودبلائیں اور جہنم قیامت کا ایسا چہرہ ہے جو بے انتہا بلا ہے۔

جہنم شیطان کی دعوت کا انجام ہے، جیسا کہ ہم سولہویں دعا میں پڑھتے ہیں:

”انا حینئذ موقن بانّ منتھی دعوتک الی الجنۃ، و منتھی دعوتہ ( الشیطان ) الی النّار“(1)

جہنم گناہکاروں کی جگہ

ہے ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے کہ جنہوں نے خدا کی رضایت سے منہ پھیر ا ہوا ہے لہذا جہنم کا عذاب (نعوذباللہ) خدا وندمتعال کی جانب سے انسان کے حق میں زیادتی نہیں ہے چوں کہ یہ عذاب اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔

بلکہ ظلم کی نشانی خود انسان اپنی طرف آپ ہے۔ اس کے لیے سولہویں دعا میں یوں ذکر ہوا ہے:

”فان تعذّبنی غیر ظالم لی “(2)

امام سجاد علیه السلام نے اس حصہ میں آتش جہنم کے اوصاف بیان کیے اور اس سے حفاظت کےلیے خدا کی رحمت میں پناہ مانگی ہے۔

1۔ تغلّظت:کسی سے سختی سے پیش آنا یا سخت پکڑ کرنا” غلظ الشی ء“ وہ چیز سخت ہو گئی، یہ معنی نرمی اور ملایمت کے برخلاف ہے۔

ص: 112


1- ۔ دعا 16 ، فقرہ 24 ؛ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ تیری دعوت کا انجام جنت ہے اور اس( شیطان )کی پکار کا انجام آتش جہنم ہے “۔
2- ۔ اگر تو مجھے عذاب بھی کرے گا تو میرے لیے تو ہرگز ظالم نہیں ہو گا۔

2۔ صد ف:نکل گیا، پھر گیا، منہ موڑنے کے معنی میں ہے۔

3۔ ھیّنھا:” ھیّن“ آسان، سھل اور چھوٹا کے معنی میں ہے۔

4۔ یصول:حملہ کرتا ہے اس کی اصل”صولۃ“ سے ہے،” صولۃ السلطان“ یعنی بادشاہ کی قدرت اور غلبہ۔

5۔ تذر العظام رمیماً:“تذر“ چھوڑ دیتے ہیں، ترک کر دیتے ہیں اور یہ فقط ”وذر۔یذر۔ وذراً “کے مادہ سے ہے۔ اس معنی کے ساتھ فقط مضارع اور امر کی صورت میں استعمال ہوتا ہے اور ماضی، مصدر اور اسم فاعل کی صورت میں استعمال نہیں کیا جاتا،اسی لیے ”وذر“نہیں کہتے بلکہ اس کے بجائے” ترک “استعمال کرتے ہیں۔(1)

” رمیم “: پرانی چیز کا ریزہ ریزہ ہو جانا، ہڈیوں کا بوسیدہ ہو جانا۔

6۔حمیما :کھولتا

ہوا پانی،یہ آیت(لھُم شرابٌ من حمیم...) کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہے۔(2)

7۔الوبال: عاقبت کی بدی۔براانجام

8۔الفاغرۃ:(الفاتحہ)کے مترادف ہے یعنی کھولنے والا، یہاں کھلے منہ کے معنی میں ہے۔

9۔حیّاتھاالصّالقۃ بأنیابھا:”حیات “ حیّہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے”سانپ“یا اژدھا۔

”الصّالقۃ“مارنے والا،نقصان پہنچانے والا،ڈسنے ”انیاّب“دانتوں کی تیز نوک، ڈسنے والے دانت، یا ڈنگ مارنے والی جگہ“ کو کہتے ہیں۔

ص: 113


1- ۔ اقرب الموارد ، ج2 ، ص 1440 ۔
2- ۔ انعام ۔ ص 70 ۔

10۔امعاء:”معا “ کی جمع ہے جس کا معنی ” آنتیں“ ہیں۔

11۔ینزع:”نزع شی ء“ ”من مکانہ نزعاً“سے ہے:کسی چیز کو اس کی جگہ سے اکھاڑنے کے معنی میں ہے۔

12۔اّقلنی عثراتی:(اقالۃ)فسخ کرنااورمعاھدہ توڑنا یا ختم کرنا۔یہاں پریہ لفظ گناہوں اور لغزشوں سے در گزر کرنے کے معنی میں مجازی طور پر استعمال ہوا ہے۔ فسخ ایک طرح درگزر کرنا ہے کیوں کہ معاملے کا فسخ کرنا در حقیقت نظر انداز کرنا اور در گزر کرنا ہی ہے۔

رسول خدا اور ان کے خاندان پاک پر بے شمار درود

اللّھم صلّ علیٰ محمدوآلہ اذا ذُکرالابرار، وصلّ علی محمد وآلہ مااختلف اللیل والنھار،صلاۃ لاینقطع مددھا،ولایُحصیٰ عددھا،صلاۃ تشحن الھوآء،وتملاالارض والسمآء۔

صلی اللہ علیہ حتی یرضیٰ،وصلی اللہ علیہ وآلہ بعدالرضا،صلاۃ لاحدلھا ولا منتھیٰ،یا ارحم الراحمین۔

اے اللہ!جب بھی نیکو

کاروں کا ذکر آئے تو محمد (ص) اور ان کی آل پاک ؑ پر رحمت نازل فرما اور جب تک شب و روز کے آنے جانے کا سلسلہ قائم رہے تو محمد اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما۔ ایسی رحمت جو فضائے عالم کو پُر کر دے اور زمین و آسمان کو بھر دے۔

ص: 114

خدا ان پر رحمت نازل کرے اس حد تک کہ کہ وہ خوش ہو جائیں اور خوشنودی کے بعد بھی اُن پر اور اُن کی آل پر رحمت نازل کرتا رہے ایسی رحمت جو لا متناہی ہو۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے!۔

تشریح

صلوات اوردرودوسلام ہماری دینی ثقافت کا ایک حصہ ہے ؛ کیوں کہ قرآن میں ہے کہ خداوندمتعال اور ملائکہ پیغمبراکرم پر صلوات ودرود بھیجتے ہیں اور مؤمنین کو بھی حکم ہوا ہے کہ آں حضرت پر صلوات بھیجیں (1)۔

علامہ طبرسی نےتفسیر مجمع البیان میں ایک حدیث کعب ابن عجزہ سے آیت صلوات کی تفسیر نقل کی ہے کہ

راوی کے بقول: جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے رسول سے عرض کیا: ہم آپ پر سلام کرنا تو جانتے ہیں لیکن ہم آپ پر صلوات بھیجنا نہیں جانتے پیغمبر اکرم نے فرمایا: یوں پڑھیں:

الّلھم صلّ علی محمد و آل محمد کما صلّیت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید،و بارک علی محمد و آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید۔(2)

اس صلوات کی حقیقت اور اس کے آثار کیا ہیں؟سورۂ احزاب میں ہے۔(ھوالّذی یصلّی علیکم و ملآئکتہ، لیخرجکم من الظلمٰت الی النّور و کان بالمؤمنین رحیماً)۔(3)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتاہے کہ کسی پر خدا کا صلوات بھیجنا، گویا اس کو تاریکی سے نور کی طرف لانے کا سبب ہے۔ درحقیقت یہ ایک قسم کا لطف و کرم ہے جودرجات میں ترقی کا

ص: 115


1- ۔ احزاب ، 56 ۔
2- ۔ مجمع البیان ، طبرسی ، ج ، 4 ، ص 369 ۔
3- ۔ سورۂ احزاب ، آیت 43 / وہی تم پر رحمت و صلوات بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔ تاکہ تمہیں تا ریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ مومنوں کے بارے میں بڑا مہربان ہے “۔

سبب ہے۔ ہم عالَم ظلمات کے

مکینوں کے لیے صلوات ظلمت سے نور کی طرف آناہے جبکہ رسول خدا اور ان کے پاک خاندان کے لیے جو عالم نور کے مکین ہیں درجات کی ترقی کا سبب ہے وہ اپنے مراتب نوری میں ترقی کرتے ہیں کیوں کہ نوری مراتب کی حدود نہیں ہیں بالا تر مرتبہ نور، نیچے والے نوری مقام سے زیادہ نورانی ہے”... نُور علیٰ نُور ...یہ نور

پر نور ہے “۔ (1)

صحیفہ کی دعاؤں میں،

صلوات کے آثار بیان ہوئے ہیں۔ رسول خدا کے لیے اور ہمارے لیے جو ان کے اوپر درود بھیجتے ہیں اس کے کیا آثار مرتب ہوتے ہیں ؟ اور اسی طرح صلوات کی وجہ اور اقسام کیا ہیں جو دلچسپ مطالب بیان ہوئے ہیں ان میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔پیغمبر اور ان کے خاندان پر خداوندمتعال کادرود بھیجنا، بلند ترین فیوضات اور عظیم درجات کے لیے ہے۔

و صل اللھم علی محمد و آلہ صلوۃ

تبلّغہ بھا افضل ما یأمل من خیرتک و فضلک و کرامتک؛

ص: 116


1- ۔ سورۂ نور ، آیت 35

اے خدا!محمد اور ان کی آل ؑ پر صلوات نازل فرما، ایسا درود جو انہیں اس بہترین چیز تک پهنچا دے

جو وہ تیرے فضل و کرم اور بھلائی سے امید رکھتے ہیں۔

ربّ صلّ علی محمد و آلہ صلاۃ

ترضیہ و تزید علی رضاہ؛ اے خدا!محمدو آل محمد پر صلوات نازل فرما جو انہیں راضی کر دے اور ان کی رضا و خوشنودی میں اضافہ کر دے۔(1)

ربّ صلّ علی محمد و آلہ صلاۃ تجزل لھم بھا من نحلک وکرامتک و تکمل لھم الاشیاء من عطایاک و نوافلک، و توفّرعلیھم الحظّ من عوائدک و فوائدک؛

خدایا!محمد و آل محمد پر ایسی رحمت نازل فرما جس کے ذریعہ ان کے عطیہ اور عزت وکرامت میں اضافہ ہو، اور اپنی عطا اور انعامات ان پر مکمل کردے اور اپنی نعمتوں اور احسانات میں ان

کا کثیرحصہ قراردے۔(2)

2۔ پیغمبر اکرم نے ہماری اور دیگر انسانوں کی ھدایت کے لیے جو زحمات اٹھائی ہیں اس پر ان کا شکریہ ادا کرنااور ہماری طرف سے ان پر درود بھیجنا یہ قدردانی کی علامت ہے۔

اللھم صلّ علی محمدوآلہ کماھدیتنا بہ،وصلّ علی محمد و آلہ کما استنقذتنا بہ... ؛

خدایا!محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ان کے ذریعے ہمیں ہدایت فرمائی۔اور خداوندا!محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ان کے ذریعے ہمیں نجات دی۔(3)

ص: 117


1- ۔ دعا 47 ، فقرہ 52 ۔
2- ۔ دعا 47 ، فقرہ 57 ۔
3- ۔ دعا 31 ، فقرہ 30 ۔

3۔ جو صلوات رسول خدا اور ان کے خاندان پر بھیجی جاتی ہے،مرتبہ کے لحاظ سے اعلیٰ ترین دعا ہے اور اس کے لیے کوئی حدنہیں ہے۔مندرجہ ذیل دعاؤں کا اشارہ اسی مطلب کی طرف ہے:

47۔58۔133۔ 48 3۔ 13 24۔ 27 18۔

4۔ صلوات بھیجنا ہمارے لیے دنیا و آخرت میں آثار و برکات کا باعث ہے، ان میں سے ہم بعض جملات کو ذکر کرتے ہیں:

اللھم صلّ علی محمد نبیّناوآلہ... صلاۃتبلّغنابرکتھا،وینالنانفعھا، ویستجاب لھا دعاؤنا؛

خدایا!محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما ایسی رحمت جس کی برکتیں ہم تک پہنچیں اور اس کا نفع ہمارے شامل حال ہو اور اس کی وجہ سے ہماری دعا مستجاب ہو۔(1)

اللھم صلّ علی محمد وآلہ... صلاۃ تشفع لنایوم القیامۃ ویوم الفاقۃالیک؛

خدایا!محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو روز قیامت اور منزل ِ فقر و احتیاج میں ہماری شفاعت کر ے۔(2)

لہٰذا محمد‘ اور ان کی آل علیهم السلام پر صلوات۔

1۔تشحن الھواء:” تملأ“: پر کرنا، زمین و آسمان کا پُرہونا۔ یہ درود وسلام کے بکثرت ہونے کے لیےکنایہ ہے۔

ص: 118


1- ۔ دعا 45 ، فقرہ56 ۔
2- ۔ دعا 31 ، فقرہ 30 ۔

2۔حتی یرضی:ضمیر غائب پیامبر کی طرف لوٹ رہی ہے اور اس عبارت کا مفہوم سینتالیسویں دعا کے فقرہ 52 میں موجود ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ یہ مطلب اس آیت کی طرف اشارہ ہے ”و لسوف یعطیک ربّک فترضیٰ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔(1)

کہتے ہیں یہ آیت ہم انسانوں کو زیادہ امید دلاتی ہے کیوں کہ پیامبر اکرم راضی نہیں ہوں گے کہ ان کی امت میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں جائے۔ (2)

ص: 119


1- ۔ الضحی ، 5 ۔
2- ۔ فیض کاشانی ، تعلیقات علی الصحیفۃ ، ص72 ۔

ص: 120

دوسری فصل

متن شناسی 2

ص: 121

ص: 122

بیالیسویں دعا ؛ ختم قرآن کے وقت دعا

قرآن کی کلی خصوصیات

اللھم انّک اعنتنی علیٰ ختم کتابک الذی انزلتہ نوراً، و جعلتہ مھیمناً علی کلّ کتاب انزلتہ، و فضّلتہ علی کلّ حدیث قصصتہ و فرقاناً فرّقتَ بہ بین حلالک و حرامک، و قرآناً اعربت بہ عن شرائع احکامک، و کتاباً فصّلتہ لعبادک تفصیلاً، و جعلتہ نوراً نھتدی من ظُلم الضّلالۃ و الجھالۃ باتّباعہ، و شفاءً لمن انصت بفھم التّصدیق الی استماعہ، و میزان قسط لا یحیف عن الحقّ لسانہ، و نور ھدیً لا یطفاعن الشّاھدین برھانہ، و عَلَمَ نجاۃ لا یضلّ من امّ قصد سنّتہ، و لا تنال ایدی الھلکات من تعلّق بعُروۃ عصمتہ۔

بار الہا! تو نے اپنی کتاب کے ختم کرنے پر میری مدد فرمائی۔ وہ کتاب جسے تو نے نور بنا کر اتارا اور تمام قطب آسمانی پر اسے گواہ بنایا اور ہر اس کلام پر جسے تو نے مخلوق کے لیے بیان فرمایا اسے فوقیت بخشی اور حق و باطل پر حد فاصل قرار دیا جس کے ذریعے حلال و حرام الگ کر دیے۔ وہ قرآن جس کے ذریعے اپنی شریعت اور احکام واضح کیے، وہ کتاب جسے تو نے

ص: 123

اپنے بندوں کے لیے شرح و تفصیل سے بیان کیا اور وہ وحی ( آسمانی) جسے اپنے پیغمبر پر نازل فرمایا۔ یہ ایسا نور ہے جس کی پیروی سے ہم گمراہی اور جہالت کی تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتے ہیں۔یہ اس شخص کے لیے شفا ہے جو یقین اور فہم سے اس کی باتوں پر کان دھرے، عدل و انصاف کا ترازو ہے جس کا کانٹا حق سے اِدھر اُدھر نہیں جاتا۔ ایسا نور ہدایت ہے جس کی دلیل و برہان کی روشنی ( توحید و نبوت کی ) گواہی دینے والوں کے لیے بجھی نہیں۔ ایساپرچم نجات ہے جو اس کے صراط مستقیم پر چلنے کا ارادہ کرے

وہ گمراہ نہیں ہوتا۔اور جو اس مضبوط رسی کو تھام لے وہ ہلاکتوں کی دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔

تشریح

صحیفہ ٔسجادیہ میں قرآن سے متعلق سب سے زیادہ مطلب اسی دعا میں بیان ہوا ہے، اگرچہ دعا نمبر 44، 45، 47، 48 اور 52 میں بھی قرآن کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے کچھ مطالب بیان ہوئے ہیں لیکن اختصارکےساتھ۔ان مطالب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد علیه السلام نے شروع میں قرآن اور اس کے معارف سے متعلق جس خطرے کا احساس کیا وہ قرآن پر عمل نہ کرنا ہے، اس کتاب الہی کو چھوڑ دینا اور اس کے حقائق و معارف کو محو کرنا ہے، دعائے عرفہ میں فرمایا:

”و لا تجعلنی للظالمین ظھیراً و لا لھم علیٰ محو کتابک یداً و نصیراً ؛ مجھے ظالموں کا پشت پناہ اور اپنی کتاب کو برباد کرنے میں ان کا مددگار نہ بننے دینا “۔ (1)

اور عید قربان کے دن کی دعا میں فرماتے ہیں:

ص: 124


1- ۔ دعا نمبر 47 ، فقرہ 132 ۔

”و خلفائک مغلوبین مقھورین مبتزّین، یَرون حُکمک مبدّلاًوکتابک منبوذاً؛ تیرے منتخب بندے اور جانشین، مغلوب اور مظلوم ہو گئے اور ان کا حق ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور آج

وہ تیرے احکام کو بدلا ہوا اور تیری کتاب کو پس پشت ڈالا ہوا دیکھ رہے ہیں “۔ (1)

مزید اس دعا اور دیگر دعاؤں میں قرآن کی بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں،جیسے یہ انسان کے لیے خداوندمتعال کی طرف بڑھنے کا دستور ہے ؛ قرآن کبھی بھی ایسے معلّم اور مبیّن سے جدا نہیں ہے صرف تلاوت پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ آیات کے فہم اور اس پر عمل کے ساتھ ہونی چاہیے لہذا امام سجاد علیه السلام صحیفہ کو دعا اور تعلیم کا اسلوب بناتےہیں، اور دعا کے ضمن میں اہم حقائق اور علوم و معارف کی تعلیم دیتے ہیں۔

1۔الذی انزلتہ نوراً:اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔” و انزلنا الیکم نورا ً مبیناً، ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے“۔(2)

اس نور کی خصوصیات میں سےیہ ہے کہ خود بھی روشن ہے اور دوسروں کو بھی روشنی دیتا ہے یعنی ایک ایسا نور ہے جو انسان کو سعادت وکمال اور قرب الہٰی اور کمال تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

2۔مھیمنا:اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے:“ و انزلنا الیک الکتٰب بالحق مصدّ قًا لما بین یدیہ من الکتٰب و مھیمنًا علیہ...، اے رسول !ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق پر مبنی

ص: 125


1- ۔ دعا نمبر 48 ، فقرہ 9 ۔
2- ۔ سورۂ نساء آیت 174 ۔

ہے اور اپنے سے پہلے والوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر گواہ اور حاکم ہے“(1)۔

لفظ”مھیمن“ خدا وند متعال کے اسماء میں سے ایک ہے جو قرآن میں ہے اور قرآن کا وصف بھی ہے قرآن کا مھیمن ہونا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (1) شاہد اور گواہ۔ (2) مؤتمن۔ (3) رقیب اور حافظ۔

اہل لغت کہتے ہیں:” مھیمن“

اصل میں ”امن“ سے( مؤیمن )تھا اس کا ہمزہ (ھا) میں تبدیل ہوگیا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل ( ھیمن )ہے” ھیمن الطائر“( اذ رفرف علی فراخہ ) جب اس نے اپنے چوزے کے لیے پر پھیلائے اور یہ چوزے کی حفاظت ونگہداری کی طرف اشارہ ہے۔(2)

3۔أعربت:( کشفت و أ ظھرت) تو نے ظاہر کیا اور اظہار کیا۔

4۔شفاء لمن أنصت بفھم التصدیق الی استماعہ:( انصات)خاموش ہونا یہاں پر اس کا معنی ہے اور سننے کے لیے خاموش ہونا ہے۔

” فہم التصدیق“سمجھنا بعض اوقات تصدیق اور یقین کے ساتھ ہے اور بعض اوقات تکذیب اور انکار کے ساتھ ہے ،کیوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو حقیقت جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن اس کی تصدیق

نہیں کرتے اور انکار کرتے ہیں جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: ”یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا“ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔(3)

ص: 126


1- ۔ سورۂ مائدہ آیت 48 ۔
2- ۔ رجوع کریں: شرح صحیفہ کاملہ ، میر داماد ، ص ، 333 ، 334 ؛ شرح اسماء الحسنی ، فخر رازی ، ص ، 192 ، 193؛ مجمع البیان ،طبرسی ، ج 2 ص 202۔
3- ۔ سورۂ نحل ، آیت 83 ۔

یہاں پر ایسا فہم مطلوب ہے جو یقین اور تصدیق کے ساتھ ہو۔

قرآن شفاء اور علاج ہے لیکن کس کے لیے ؟

اور کس قسم کی بیماری اور درد کے لیے ؟

دواء اس شخص کے لیے مفید ہے جو بیماری کو سمجھے کہ وہ کس قسم کی بیماری ہے اور اس بیماری سے صحت یابی کا طالب ہو۔یہ قرآن اس انسان کے لیے شفا بخش ہے جو اپنی روح کی سلامتی اور اپنے نفس امارہ کے علاج کی جستجو میں ہو اور قرآن کو اپنا معالج سمجھے، اور اس کی آیات پر دل و جان سے توجہ دے اور یہ پہلے سوال کا جواب ہے جو اسی دعا کی عبارت سے ملتا ہے۔

اب رہا دوسرا سوال کہ

قرآن کس قسم کی بیماری کا علاج کرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 176 میں مذکور ہے:

”فان فیہ شفاء من اکبر الدواء وھو الکفر و النفاق، والغی و الضلال“قرآن کفر ونفاق اور ضلالت و گمراہی جیسی مھلک بیماریوں،فکری انحرافات اورعملی گمراہیوں کا علاج کرتا ہے۔(1)

5۔لایحیف عن الحق لسانہ:لایحیف،لا یمیل۔حق اور سچائی سے منحرف اور دور نہیں ہوتا۔

” لسانہ“ اس جگہ سے مرادتر ازو کادرمیانی کانٹا ہے۔

6۔من امّ قصد سُنَّتِہ:” اَمّ “کسی شے کا قصد کیا،

ص: 127


1- ۔نہج البلاغہ ، تصحیح صبحی صالح ، خطبہ 176 ، ص 252 ۔

”قصد“ ؛ میانہ روی، استقامت، منحرف نہ ہونا،اعتدال ”سنت “ طریقہ اور واضح راستہ، روش، خلاصہ یہ کہ جو کوئی قرآن کے سیدھے اور معتدل راستے کا ارادہ کرے۔

تلاوت قرآن کا حق

”اللھم فاذ افدتنا

المعونۃ علی تلاوتہ، و سھّلتَ جواسی َ السنتنا بحسن عبارتہ، فاجعلنا ممّن یرعاہ حقّ رعایتہ، و یدین لک باعتقاد التّسلیم لمحکم آیاتہ، و یفزع الی الاقرار بمتشابھہ

و موضحات بیّناتہ؛بارالہا! اب جب کہ تو نے تلاوت قرآن کی ہمیں توفیق مرحمت فرما ئی اور اس کے حسنِ ادائگی کے لیے ہماری زبان کی گرہیں کھول دیں تو پھر ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی پوری طرح حفاظت و نگہداشت کرتے ہوں اور اس کی محکم آیتوں کے اعتراف و تسلیم کی پختگی کے ساتھ تیری اطاعت کرتے ہوں اور متشابہ آیتوں اور روشن و واضح دلیلوں کے اقرار کے سائے میں پناہ لیتے ہوں۔

تشریح

قرآن کا ہدف صرف تلاوت نہیں ہے بلکہ تلاوت ایمان، فہم اور عمل میں اضافہ کانام ہے۔تلاوت قرآن کے حروف کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے حدود کی حفاظت بھی کرنی چاہیے۔

دعا کے اس فقرے میں امام علیه السلام نے تلاوت کاتین چیزوں کے ساتھ ہونا لازمی سمجھا ہے(1)قرآن کی رعایت کرنا اور اس کے ساتھ

عہد وپیمان کرنا (2) قرآن کی محکم آیات کے مقابلے میں تسلیم ہونا ان کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا (3) قرآن کی متشابہ

ص: 128

آیات کا اقرار اور ان کی غلط تاویلات نہ کرنا ۔

امام علیه السلام نے صحیفے کی دعا نمبر 47 میں قرآن کی تلاوت کے بارے میں ایک اہم نکتہ بیان فرمایا ہے:

اللھم اجعل رھبتی عنہ تلاوۃ کتابک، پرودگارا!میرے خوف کی حالت کو اپنی کتاب کی تلاوت کے وقت قرار دینا۔(1)

(1) افدتنا المعونۃ: ” افادہ

“ بخشش، فائدہ پہنچانا، سودمند،

”المعونۃ “: نصرت و مدد کرنا۔

2۔جو اسی

اَ لستنا:” جواسی“” جاسی“کی جمع ہے جس کی اصل (جسا یجسا جسوء) سخت ہونا،غضب ناک اور خشک ہونا، جو اسی” السنہ“ کی طرف اضافہ ہے یعنی نحوی اعتبار سے صفت کا موصوف کی طرف اضافہ ہونا لہذا اس کا معنی ہوا یعنی ہماری سخت اور خشک زبانیں۔

3۔ یرعاہ حقّ رعایتہ:قرآن کاخیال رکھنا، اس کا احترام ملحوظ رکھنا،اس کے ساتھ کیے گئے عہد وپیمان پر ثابت قدم رہنا۔جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے اور سینتالیس نمبرجملے میں ہے کہ امام علیه السلام کے زمانےمیں قاری اور حافظ تو بہت زیادہ تھے، لیکن قرآن کریم کے

ص: 129


1- ۔دعا ، 47 فقرہ 122 ۔

پابند بہت کم تھے، یعنی قرآن ان کی عملی زندگی میں شامل نہیں تھا اور انہوں نے خدا کی کتاب کو عملاً

چھوڑ دیا تھا۔

اسی وجہ سے امام علیه السلام خدا وندمتعال سے تلاوت قرآن کا حق ادا کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔

قرآن کا خیال رکھنے کی کئی صورتیں ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

1۔کثرت تلاوت:

قرآن مجید کی کثرت تلاوت۔ انسان کے اندر خواہ نا خواہ اپنا اثر چھوڑتی ہے اور اسے آگاہی اور بیداری عطا کرتی ہے۔ روایت میں ذکر ہوا ہے کہ تین چیزیں خداوند متعال کی بارگاہ میں شکایت کریں گی۔

الف۔ ایسی مسجد جس میں نماز نہ پڑھی جائے۔ ب۔ ایسا عالم جو نادان وجاہل افراد کے درمیان موجود ہو اور وہ اس کی طرف رجوع نہ کریں۔ ج۔ ایسا قرآن جس کے اوپر گرد و غبار پڑا ہو اور اس کی تلاوت نہ کی جائے۔(1)

2۔ قرآن کے ساتھ انس:امام سجاد علیه السلام ارشاد فرماتے ہیں:

”لو مات ما بین المشرق والمغرب لما ا ستوحشت بعد ان یکون القرآن معی“

اگر مشرق ومغرب والے سب مر جائیں اور صرف قرآن میرے پاس ہو تو مجھے کسی قسم کی (تنہائی سے)وحشت نہ ہوگی۔(2)

ص: 130


1- ۔ اصول کافی ۔ ج ، 2 ، ص ، 643 ، وسائل الشیعہ ، شیخ حر عاملی ، ج ، 5 ، ص 201 ۔
2- ۔ اصول کافی ، ج ، 2 ، ص 602 ۔

3۔ قرآن کا سیکھنا اور سکھانا۔

4۔ قرآن کے معانی میں تدبر و تفکر کرنا۔

5۔ قرآن پر عمل اور اس کے احکام کی پیروی کرنا۔

یہ پانچ مصداق امام علیه السلام کی دعاؤں میں متفرق طور پر بیان ہوئے ہیں۔

4۔ یدین لک: ( ینقادلک

) تمہارے لیے فرماں بردار ہو جائے۔

5۔لمحکم آیاتہ:محکم

یعنی پختہ،مضبوط اور واضح، اس سے مراد ایسی آیات ہیں جن کا معنی واضح ہے اور ان سے مختلف قسم کے معانی نہیں لیے جا سکتے۔

6۔بمتشابھہ:”متشابہ“ ایک ایسی آیت جس کے معنی کے بارے میں بہت سے احتمالات دئیے جا سکتے ہیں اور غوروفکر کے بعد اس کا صحیح معنی سمجھنا چاہیے۔

قرآن اور اس کے حاملین [ علماء]

اللّھم انّک انزلتہ علی نبیّک محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ مجملا، و الھمتہ علم عجائبہ مکمّلا، وورّثتنا علمہ مفسّرا، و فضّلتنا علی من جھل علمہ، و قوّیتنا علیہ لترفعنا فوق من لم یطق حملہ۔

اللّھم فکما جعلت قلوبنا لہ حملۃ، و عرّفتنا برحمتک شرفہ و فضلہ، فصلّ علی محمّد الخطیب بہ، و علی آلہ الخزّان لہ، واجعلنا ممّن یعترف بانّہ من عندک حتّی لا یعارضنا الشّک فی تصدیقہ، ولا یختلجنا الزّیغ عن قصد طریقہ۔

ص: 131

اللّھم صل علی محمد و آلہ، و اجعلنا ممّن یعتصم بحبلہ، و یاوی من المتشابھات الی حرز معقلہ و یسکن فی ظل جناحہ، و یھتدی بضوء صباحہ، و یقتدی بتبلّج اسفارہ و یستصبح بمصباحہ، ولا یلتمس الھدیٰ فی غیرہ۔

اے اللہ! تو نے اسے اپنے پیغمبر محمد پر بطور اجمال اتارا اور اس عجائب و اسرار کا پورا پورا علم انہیں عطا کیا اور اس کے علم تفصیلی کا ہمیں وارث قرار دیا اور جو اس کا علم نہیں رکھتے ان پر ہمیں فضیلت دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنے کی قوت بخشی تا کہ جو اس کے حقائق کے متحمل نہیں ہو سکتے ان پر ہماری فوقیت و برتری ثابت کر دے۔

اےاللہ! جس طرح تو نے ہمارے دلوں کو قرآن کا حامل بنایا اور اپنی رحمت سے اس کے ٖفضل و شرف سے آگاہ کیا، یونہی قرآن کے خطیب حضرت محمد پر، اور ان کی آل ؑ پر جو قرآنی خزانوں کے مالک ہیں رحمت نازل فرما۔اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ تیری جانب سے ہے تا کہ اس کی تصدیق میں ہمیں شک و شبہ لاحق نہ ہو اور اس کے سیدھے راستے سے روگردانی کا خیال بھی نہ آنے پائے۔

اے اللہ!حضرت محمد اور ان کی آل ؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی رسی سے بندھے ہیں اور مشتبہ امور میں اس کی محکم پناہ گاہ کا سہارا لیتے اور اس کی ٹھنڈی چھاؤںمیں سکھ کاسانس لیتے ہیں اور اس کی صبح درخشاں کی روشنی سے ہدایت پاتے ہیں اور اس کے درخشاں نور کی پیروی کرتے اور اس چراغ سے چراغ جلاتے ہیں اس کے علاوہ کسی سے ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔

ص: 132

تشریح

قرآن جو ہدایت کی کتاب ہے کبھی بھی اپنے حاملین وعلما سے جدا نہیں ہوتی یعنی یہ کتاب ہدایت ہادی کے ساتھ ہے جو اس کتاب کا عالم اور حامل ہے جیسے علم الطب کی کتاب کے لیے طبیب کا ہونا ضروری ہے اور طبیب کے بغیر کتاب سمجھنا نیز اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہوتا یہ وہ حقیقی مطلب ہے جس پر قرآن اور روایت دونوں گواہ ہیں۔ سورۂ نحل آیت نمبر 44 میں یوں ذکر ہوا ہے۔”... و انزلنا الیک الذکر لتبیّن للناس ما نُزّل الیھم...“ اے رسول!ٓپ پرہم نے ذکر (قرآن) اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں(1)۔نیز قرآن میں بعثت کا ہدف تین چیزوں میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے ایک کتاب و حکمت کی تعلیم ہے۔(2) لہذا معلوم ہوا کہ قرآن کے حقائق اور معارف کی تعلیم حتمی طور پردی جانی

چاہیے اور یہ اہم وظیفہ حقائق کے جاننے والے عالم کے ذمے ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس قرآن کا معلم اور واضح کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟قرآن کی تصریح کے مطابق قرآن کے سب سے پہلے معلم خود رسول اللہ ہیں اور آپ کے بعد آپ کے اہل بیت علیهم السلام ہیں کیوں کہ حدیث ثقلین کے علاوہ قرآن کی آیت بھی اس مطلب کو بیان کرتی ہے ۔

ص: 133


1- [1]سورۂ نحل آیت 44 ۔
2- ۔ سورۂ جمعہ آیت 2 ۔

سورۂ واقعہ میں یوں ذکر ہواہے:(انہ لقرآن کریم فی کتٰب مکنون۔لا یمسّہ الّا المطھَّرون) یہ قرآن یقیناً بڑی تکریم والا ہے جو ایک محفوظ کتاب میں ہے جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔(1) یہاں پر کتاب مکنون تک پہنچنا صرف”مطھرون “ کے لیے ممکن ہے، یہاں پر (متطھرون)کی تعبیر استعمال نہیں ہوئی کہ جس سے ظاہری پاکیزگی ( وضو اورغسل) مراد ہوتی ہے

اور نہ ہی” طاھرون“ یعنی پاک لوگوں کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، بلکہ (مطھرون)کا لفظ ہے جو اسم مفعول کا صیغہ ہے یعنی پاک شدہ لوگ۔ قرآنی لغت کے مطابق ”مطھرون

“ صرف ایک گروہ کو کہا گیا ہے جو اہل بیت علیهم السلام پیامبر ہیں۔

کیوں کہ آیت تطھیر میں اس طرح مذکور ہے:”...انّما یُرید اللہ لِیُذھِب عَنکُم الرّجسَ اَھل البیت و یطھّرکُم تطھیراً “ اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اے اہل بیت علیهم السلام ! آپ سے دور رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔(2)

پس اہل بیت رسول وہی” مطھرون“ ہیں کہ جن کی قرآنی حقائق تک رسائی ہے اور سورۂ عنکبوت کی اس آیۂ شریفہ میں بھی اشارہ ہوا ہے کہ”بل ھُو ءَایٰت بیّنٰت فی صُدور الّذین اُوتُواالعلمَ...” بلکہ یہ روشن نشانیاں ان کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔(3) قرآن کی حقیقت ان کے سینوں میں ہے جنہیں قرآن نے”اوتواالعلم “ کہا ہے۔

ص: 134


1- ۔ سورۂ واقعہ ، آیت 77 ۔ 79 ۔
2- ۔ سورۂ احزاب ، آیت 33 ۔
3- ۔ سورۂ عنکبوت ، آیت 49 ۔

اگر قرآن میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علما اور”اوتواالعلم“ میں فرق ہے۔ ”اوتواالعلم“ وہ ہیں کہ جنہیں خداوندمتعال نے علم دیا ہے اور ان تمام آیات اور دعا کے جملوں سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جسےامام علیه السلام نے پیش کیا ہے:

قرآنی عجائب کا علم تو نے پیغمبر گرامی پر الہام کیا اور اس علم کو ہمیں بھی ارث میں دیا۔

(1)۔ انزلتہ... مجملاً، و الھمتہ علم عجائبہ مکملاً:

قرآن مجید پیغمبر گرامی پر اسی طرح نازل ہوا جس طرح (بغیر کسی شرح و تفصیل کے)ابھی موجود ہے۔قرآن کےحقائق کا علم اور مطالب کی تفصیل مکمل طور پر آپ کے قلب مبارک پر الھام ہوئی ۔ جیسا کہ سورۂ جمعہ کی دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر گرامی کی ایک فضیلت لوگوں پر قرآن تلاوت کرنا ہے ،یعنی قرآن جو پیغمبر پر نازل ہوا ہے اسے

پیغمبراکرم انہیں ابلاغ کریں۔ آپ کی دوسری فضیلت اسی نازل شدہ قرآن کی تعلیم دینا اور اس کی وضاحت کرنا ہے اس کےلیے تفصیلی علم اور قرآنی آیات کے حقائق

جاننا ضروری ہیں ۔

میر دامادنے دعا کے اس جملے کی تشریح میں فرمایا:

اے خدا! تونے پیغمبر پر نبوت کے اعتبارسے اجمالی طور پر اور ولایت کے اعتبار سے تفصیلی طور پرعجائب کا علم الھام کیا ہے۔ نبوت کا مقام و مرتبہ،در حقیقت اس چیز کا ابلاغ اور پہنچانا ہوتا ہے جو نازل ہوئی ہے ( تبلیغ التنزیل ) جس میں حقائق پوشیدہ اور مستور

ص: 135

ہوتے ہیں ( ادماج الحقائق)، لیکن ولایت کا مرتبہ و مقام تاویل کا جاننا اور رازوں کا کشف کرنا ہے، لہذا پیغمبر کی ولایت ان کی نبوت کے مقام سے بلند تر ہے۔(1)

2۔ورّثتنا علمہ مفسرا:قرآن کے تمام حقائق جو رسول خدا پر الھام ہوئے بطور ارث اہل بیت علیهم السلام کو ملے امام سجاد علیه السلام صحیفہ کی 47ویں دعا میں اس کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

صلّ علی اطائب اہل بیتہ الّذین اخترتھم لامرک و جعلتھم خزنۃ علمک، و حفظۃ دینک و خلفائک فی ارضک، خدا وندا!پیغمبر کے ان طیب و طاہر اہل بیت علیهم السلام پر رحمت نازل فرما جنہیں تو نے اپنے امر کے لیے منتخب کیا اپنے علم کا خزانہ، اپنے دین کا محافظ اور زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے۔(2)

سید ابن طاؤس نےیہ دعا اپنی کتاب اقبال میں ماہ رمضان کی دعاؤں کے ضمن میں نقل کی ہے اور اس سے پہلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہےجس کا بیان کرنا یہاں مناسب ہے۔وہ کہتےہیں:اس فصل میں ایسی عبارات ہیں جوپیغمبر اورائمہ علیهم السلام کے ساتھ مخصوص ہیں اور اگر کوئی دوسرا ان عبارات کی تلاوت کرے تو وہ ا پنی حالت کی مناسبت سے انہیں اپنی زبان پر جاری کرے۔ اور وہ عبارت” ورثتنا علمہ“سے لے کر ” فصلّ علی محمد ...“ تک ہے۔(3)

ص: 136


1- ۔ شرح صحیفہ ، محمد باقر میر داماد ، ص 336 ۔
2- ۔ دعا نمبر 47 ، فقرہ 56 ۔
3- 2۔ اقبال الاعمال ،سید ابن طاؤس، ص267۔

یعنی”ورثتنا علمہ“ کےبجائے ”ورثت اوصیاءہ علمہ مفسر“ کہیں۔

سید نعمت اللہ جزائرینے اپنی شرح میں اس نظریے کو علامہ مجلسیکی طرف نسبت دی ہے ،لیکن خود اس نظریے کے حامی

نہیں ہیں۔کیوں کہ آپ معتقد ہیں کہ الفاظ نقل کرنے اور ان پر تا حد ممکن عمل کرنے میں مکمل طور پر حفاظت کاثبوت دینا چاہیے۔(1)

ظاہراً آپ کا نظر یہ یہ ہے کہ اس قسم کی عبارات انشا کے قصد سے نہ پڑھی جائیں،بلکہ صرف نقل قول کی نیت سے قرائت ہو۔

3۔حملتہ: رسول خدا‘ سے منقول حدیث میں یوں بیان ہوا ہے کہ:

حملۃ القرآن عرفاء اھل الجنۃ: حاملین قرآن،اہل بہشت کے عرفاء ہیں۔4

دعا کے اس جملہ میں حمل قرآن سے مراد اس کے معانی اور علوم ہیں۔

کیوں کہ امام علیه السلام نے قلب کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی ہمارے قلب کو قرآن کا حامل قرار دے۔

4:لایختلجنا الزیغ“ لا یختلجنا“ ”لا ینتزعنا“ خارج نہ کرے،منحرف نہ کرے کھینچ نہ لے جائے۔ ”الزیغ“: شک، حق سے روگردان ہونا۔

5:یعتصم بحبلہ:”حبل “: رسی،عھد،ذمہ اور امان کے معنی میں بھی ذکر ہوا ہے؛ روایات میں ”حبل“کا اطلاق تین چیزوں پر کیا گیا ہے (1)قرآن(2)امام (3)دین۔ یہ تینوں لازم وملزوم ہیں۔

ص: 137


1- ۔ نور لانوار فی شرح الصحیفہ،نعمت اللہ الجزائری، ص14۔

قرآن کو ”حبل“ یعنی رسی

نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ رسی ایک ایسا وسیلہ ہے جوکسی چیز کو نیچے سے اوپر کھینچتی ہے، قرآن ایک ایسی رسی ہے جو تاریکی میں پڑے ہوئے مقید انسانوں کو گمراہی سے عالم نور کی طرف کھینچتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس رسی کو مضبوطی سے تھاما جائے۔

6:یاوی من المتشابہات الی حرزمعقلہ:”الحرز“:پرامن اورمضبوط جگہ، ”المعقل“پناہ گاہ اور قلعہ۔

”الحرز“”معقل“پناہ گاہ اور قلعہ۔ حرز کامعقل کی طرف اضافہ یعنی ایسی جگہ جو قلعے کے ساتھ ہو۔یہاں اضافہ یا

بیانیہ ہےیعنی ایسا حرز کہ معقل ہو یا اضافہ لامیّہ ہے یعنی ایسا حرز جو معقل کے لیے قرار دیا گیا ہے۔

یہ متشابہات اور حرز کے بارے میں دو احتمال دیے گئے ہیں۔

1:اگر(متشابہات سے مراد متشابہ آیات ہو ں تو”حرز“ سے مراد محکم آیات ہیں اور یہاں رجوع کرنا یا پلٹانے کا معنی کرنا ہو گا۔کیوں کہ آیہ ٔکریمہ میں مذکور ہے :(... منہ آیات محکمٰت ھنّ امّ الکتاب و اخر متشٰبھٰت...) جس کی بعض آیات محکم واضح ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔(1)

ص: 138


1- ۔سورۂ آل عمران ، آیت 7۔

آیات محکمات کو” امّ الکتاب“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مفسرین کے بقول ”امّ الکتاب “کا معنی یہ ہے کہ متشابہات کو ان کی طرف پلٹایا جائے جیسے اولاد ماں کی طرف رجوع کرتی ہے اس کی طرف پلٹتی ہے اور ماں اس اولاد کی ابتدا اوراصل ہے۔

ممکن ہے ”متشابہات“ سے مراد شبہات اور مشکوک امور ہوں یعنی وہی تاریکی، نادانی اور گمراہی۔ اس صورت میں”

حرز“ سے مراد قرآن ہے۔

جس کے نور سے ہدایت پانے کے لیے اس قسم کے ”حرز“سے پناہ لینی ضروری ہے۔ پیغمبرگرامی سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: فاذا التبست علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن فانّہ شافع مشفّع،جب فتنے تم پر تاریک راتوں کی طرح چھاجائیں تو تم قرآن کی پناہ حاصل کرنا۔ بے شک یہ ایسا شافع ہے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی (1)۔

7۔تبلّج اسفار:”تبلّج“: یعنی”بلج الصبح بلوجاَ“۔ یہ ” تبلج وابتلج“ سےہے جس کا معنی ہے اصناء واشرق: یعنی روشن اور واضح ہوگیا۔

” اسفارہ“: ”اسفرالصبح اسفاراً “سے ہے اوضح وانکشف:یعنی صبح کے وقت سورج کے نور نے روشن کیا۔تاریکی ختم کرنے اور سطح زمین روشن کرنے والا ہے۔ نور قرآن کو سورج کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہ صرف رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے چھٹکارا دلاتا اور فضا روشن کرتاہے بلکہ حق کے ظہور اور راہ ہدایت کا سبب بھی بنتا ہے۔

ص: 139


1- ۔ اصول کافی ، ج2 ، ص 606 ۔

قرآن انسان کے کمال کا زینہ ہے

اللھم و کما نصبت بہ محمداً علما للدّلالۃ علیک، و انہجت بآلہ سُبُل الرّضا الیک، فصلّ علی محمد و آلہ، واجعل القرآن وسیلۃً لنا الی اشرف منازل الکرامۃ، و سُلّماً نعرج فیہ الی محلّ السلامۃ، وسبباً نجزی بہ النجاۃ فی عرصۃ القیامۃ، و ذریعۃً نقدم بھا علی نعیم دار المقامۃ۔

بار الہا ! جس طرح

تو نے اس قرآن کے ذریعہ محمد کو اپنی رہنمائی کا نشان بنایا ہے اور ان کی آلؑ

کے ذریعہ اپنی رضا اور خوشنودی کی راہیں آشکارکی ہیں،یوں ہی محمد اور ان کی آل ؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمارے لیے قرآن کو عزّت و بزرگی کی بلند پایہ منزلوں تک پہنچنے کا وسیلہ اور سلامتی کے مقام تک بلند ہونے کا زینہ نیز میدان محشر میں نجات کو جزا میں پانے کا سبب اور محل قیام ( جنت ) کی نعمتوں تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دے۔

تشریح

چوں کہ انسان کےآگے بڑھنے کی کوئی حد اور انتہاء نہیں اور قرآن انسان کے لیے ایک ایسی غیبی کتاب ہے جوخداوندمتعال کی طرف حرکت کرنے کا مکمل پروگرام ہے۔قرآن کی مدت ختم ہونے کی کسی تاریخ کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور یہ کتاب بشریت کے تمام ادوار حیات کے لیے نازل کی گئی ہے اور ایک ایسی سیڑھی ہے جو لامتناھی ابدی سزا کے لیے بنائی گئی ہے۔

1۔ انہجت بآلہ سبل الرضا الیک:” انہجت“:” اوضحت“ یعنی روشن اور واضح کیا۔

ص: 140

انسانی نفس کے تین مرتبے ہیں: امارہ،

لوّامہ اورمطمئنہ(1)نفس مطمئنہ:جس نے شیطانی وسوسوں اور ہوا ئے نفس کے چنگل سے رہائی پالی ہے اور آرام وسکون تک پہنچ چکا ہے یہ نفس کا سب سے بلند مرتبہ ہے اور اس کے کمال کی علامت اسی مرتبہ کا مطمئن ہونا ہے اس مرتبے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو رضا کا مقام حاصل ہے یعنی وہ خدا سے راضی ہے اور خداوند متعال بھی اس سے راضی ہے۔

دینی نظام میں فردی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے حرکت کی بنیاد یہ ہے کہ خدا وندمتعال کی رضا یت کو مرکز و محور قرار دیا جائے۔ یعنی حرکت کا دارومدار رضایت الہٰی پر ہے۔ انسان کی گفتار ورفتار اور فکر اس طرح سے منظم ہو کہ اس کا محور خداوندمتعال کی خوشنودی ہو۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ خدا وندمتعال کی رضایت حاصل کرنا کیوں کرممکن ہے ؟

اس کے لیے ضروری ہے کہ حاملین قرآن کی بحث میں جو مطالب بیان ہوئے وہ مد نظر رہیں۔ یہ حقائق خداوندمتعال کی رضایت کی نشاندہی کرتے ہیں ان میں سے ایک قرآن ہے ایسی کتاب جو خداوندمتعال کی طرف سے نازل شدہ ہے اور دوسری چیز انسان کامل ہے جو قرآن کا حامل ہے،یعنی ایسا انسان جو باطنی پاکیزگی کے اس مرتبے تک پہنچ چکا ہے جس میں ہوائے نفس کو اس نے ختم کردیا ہے اور مقام اطمینان کا حامل ہے۔ اورجو کچھ بھی کہتا ہے اور انجام دیتاہے وہ ہوائے نفس کی وجہ سے نہیں بلکہ رضائے خدا کی بنیاد پر ہے اسی لیے تمام مراتب میں عصمت کا حامل ہے اور اس کا قول وفعل اور تقریر حجت ہے کیوں کہ اس کا فعل اور تقریر

ص: 141


1- ۔ نفس امارہ: یہ برائی کا حکم دیتا ہے،نفس لوامہ: یہ مرتبے میں نفس امارہ سے بالا تر ہے اور چاہتا ہے کہ اچھا رہے اور اگر کوئی برائی اس سے ہوجائے تو اپنے آپ کو سرزنش اور ملامت کرتا ہے۔

(سکوت )رضائے الہیٰ کاانکشاف کرتی ہے،پس حدیث ثقلین میں جن دو گراں قدر چیزوں(قرآن و عترت) کے بارے میں ذکر ہواہے کہ ان سے تمسک کریں یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دو چیزیں خدا وندمتعال کی رضا یت کے راستوں میں سے ہیں۔

امام سجاد علیه السلام صحیفہ کی سینتالیسویں دعا میں فرماتے ہیں:

”وجعلتھم (اھل البیت) الوسیلۃ الیک و المسلک الی جنّتک؛انہیں(اہل بیت علیهم السلام ) کو اپنی بارگاہ کے لیے وسیلہ اور اپنی جنت کا راستہ بنا دیا ہے۔“(1)

2۔ سلّم:زینہ۔

3۔ ذریعۃ: وسیلہ ۔

قرآن اور انسان سازی

اللھم صلّ علی محمد و آلہ، و احطط بالقرآن عنّا ثِقل الاوزار،و ھب لنا حسن شمائل الابرار، و اقف بنا آثار الّذین قاموا لک بہ آناءَ اللیل و اطراف النّھار، حتّی تُطھّرنا من کل دَنس بتطھیرہ و تقفوبنا آثار الّذین استضآؤوا بنورہ، و لم یلھھم الامل عن العمل فیقطعھم بخدع غرورہ۔

اللھم صل علی محمد و آلہ، واجعل القرآن لنا فی ظُلم اللیالی مؤنساً، و من نزغات الشیطان و خطرات الوساوس حارِساً، وَ لِاقدامنا عن نقلھا الی المعاصی حابساً، و لاَلسنتنا عن الخوض فی الباطل من غیر ما آفۃ مخرساً، و لجوارحنا عن اقتراف الآثام زاجراً، و لما طوت الغفلۃ عنّا من تصفّح الاعتبار ناشراً، حتی توصل الی قلوبنا فھم عجائبہ، و

ص: 142


1- ۔ صحیفۂ سجادیہ ، دعا 47 ، فقرہ 56 ۔

زواجر امثالہ الّتی ضَعُفتِ الجبال الرّواسی علی صلابتھا عن احتمالہ۔

اللھم صلّ علی محمد و آلہ، و ادم بالقرآن صلاح ظاھرنا،واحجب بہ خَطَرات الوساوس عن صحّۃ ضمائرنا، و اغسل بہ درَن قلوبنا علآئق اوزارنا، و اجمع بہ منتشر امورنا، و ارو بہ فی موقف العرض علیک ظما ھواجرنا، واکسنا بہ حلل الامان یوم الفزع الاکبر فی نُشُرنا۔

اللھم صلّ علی محمد و آلہ، واجبُر بالقرآن خلّتنا من عدم الاملاق، و سُق الینا بہ رغد العیش و خصب سعۃ الارزاق، و جنّبنا بہ الضّرائب المذمومۃ و مدانی الاخلاق، واعصمنا بہ من ھوّۃ الکفر و دواعی النّفاق، حتّی یکون لنا فی القیامۃ الی رضوانک و جنانک قآئداً، و لنا فی الدنیا عن سخطک و تعدّی حُدودک ذائداً و لما عندک بتحلیل حلالہ و تحریم حرامہ شاھداً۔

اے اللہ!محمد اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ گناہوں کا بھاری بوجھ ہمارے سر سے اتار دے اور نیک و صالح لوگوں کے اچھے خصائل و عادات ہمیں مرحمت فرما اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلا جو تیرے لیے رات کے لمحوں اور صبح و شام کی گھڑیوں میں قرآن کو

اپنا دستور العمل بناتے ہیں(اس کی تلاوت،اس میں تدبر اور اس پر عمل کرتے ہیں) تاکہ اس کی تطہیرکے وسیلہ سے تو ہمیں ہر آلودگی سے پاک کر دے اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلا، جنہوں نے اس کے نور سے روشنی حاصل کی ہے۔اور امیدوں نے انہیں عمل سے غافل نہیں ہونے دیا کہ انہیں اپنے فریب کی نیرنگیوں سے تباہ کر دیں۔ اے اللہ! محمد اور

ص: 143

ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کو رات کی تاریکیوں میں ہمارا مونس بنا اور شیطان کے مفسدوں اور دل میں گزرنے والے وسوسوں سے نگہبانی کرنے والا قرار دے۔اسے ہمارے قدموں کو نافرمانیوں کی طرف بڑھنے سے روک دینے والا اور ہماری زبانوں کو باطل پیمائیوں سے بغیر کسی مرض کے گنگ کر دینے والا ،ہمارے اعضاء کو ارتکاب گناہ سے باز رکھنے والا اور ہماری غفلت و مدہوشی نے جس دفتر عبرت و نصیحت اندوزی کو تہ کر رکھا ہے، اسے پھیلانے والا قرار دے تاکہ اس کے عجائب و رموز کی حقیقتوں اور اس کی متنبہ کرنے والی مثالوں کو کہ جنہیں اٹھانے سے پہاڑ اپنے استحکام کے باوجود عاجز آچکے ہیں، ہمارے دلوں میں اتار دے۔

اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ ہمارے ظاہر کو ہمیشہ صلاح و رشد سے آراستہ رکھ اور ہمارے ضمیر کی فطری سلامتی سے غلط تصوّرات کی دخل اندازی کو روک دے اور ہمارے دلوں کی کثافتوں اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھو دے اور اس کے ذریعہ ہمارے پراکندہ امور کی شیرازہ بندی کر اور میدان حشر میں ہماری جھلستی ہوئی دوپہروں کی تپش و تشنگی بجھا دے اور سخت خوف و ہراس کے دن جب قبروں سے اٹھیں تو ہمیں امن و عافیت کے جامے پہنا دے۔

اے اللہ!محمد اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ فقر و احتیاج کی وجہ سے ہماری خستگی و بدحالی کا تدارک فرما، زندگی کی آسائش اور فراخ روزی کی آسودگی کا رخ ہماری جانب پھیر دے اور بُری عادات نیز پست اخلاق سے ہمیں دور کر دے اور کفر کے گڑھے ( میں گرنے سے ) اور نفاق انگیز چیزوں سے بچا لے تاکہ وہ ہمیں قیامت میں تیری خوشنودی و جنت کی طرف بڑھانے والا اور دنیا میں تیری ناراضگی اور حدود شکنی سے

ص: 144

روکنے والا ہو اور اس امر پر گواہ ہو کہ جو شے تیرے نزدیک حلال تھی اسے حلال جانا اور جوشے حرام تھی اسے حرام سمجھا۔

تشریح

دعا کے اس حصے میں قرآن کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ کس طرح یہ انسانی زندگی کے لیے ایک دستور اور انسان سازہے۔

انسان کے معنوی پہلو کی تربیت کے لیے قرآن سے بہرہ مند ہونے کو بیان کیا گیا ہے، یہ موضوع چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جس کا محور انسان کی تربیت اورنشوو نماہے۔

1۔انسان کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنے والوں کے مرحلہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیوں کہ آرزؤں اور خواہشات جیسی کوئی بھی رکاوٹ انسان کے کمال کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ اس مرتبے کے مراحل درج ذیل ہیں۔

1لف:1۔ انسانی قدموں سے گناہوں کی زنجیریں کھولنا جوانسانی ہدایت میں سد راہ ہیں۔

ب: صالحین کے طریقۂ کار اور اخلاق کاحامل ہونا۔

ج:ان لوگوں کی پیروی جو اپنے تمام اوقات قرآن کے سائے میں گزار تے ہیں۔

2۔فہم کے مرتبے تک رسائی اور قرآنی معارف و عجائب کی دل سے شناخت:قرآنی حقائق سمجھنا ایسی بات نہیں جو صرف سوچنے سے حاصل ہوجائے کیوں کہ اس قسم کا فہم ایک ایسی معرفت ہے جو صرف دل سے حاصل ہوتا ہے اور جب تک دل اس خاص پاکیزگی اور طہارت تک نہ پہنچے تو قرآن کے رموز وحقائق

ص: 145

تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے اعضا ء و جوارح اور حواس پانی کی ایسی نہریں ہیں جو ہمارے دل کے دریا پر جاری ہوتی ہیں اور یہ پانی حقیقی دانش کا راز ہے اور اب اگر ان نہروں کو اچھی طرح صاف وشفاف کیا جائے تو اس میں موجود پانی سرمایۂ حیات ہے گویا اپنے اعضاء، حواس اور اپنے عمل کے کنٹرول سے حقیقی شناخت اور آمادہ دل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو یہ پانی بدبودار اور استعمال کے قابل نہیں ہوگا، یعنی حقیقی علم ودانش نہ فقط دل کو روشن نہیں کرے گا بلکہ اپنے اعمال کو کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے دل میں شک وشبھہ اور وسوسہ ایجاد کردے گا دل کی تاریکی اور کدورت اسی حالت کی طرف اشارہ ہے۔ مقدس شریعت نے جو انسان کو اعمال اور اعضاء وجوارح کی حفاظت کا پابند بنایا ہے،مزید باطل وگناہ کی راہ پر چلنے سے منع فرمایا ہے تاکہ انسان دل کی پاکیزگی کی طرف راغب ہو۔ طہارت اور دل کی پاکیزگی سے مبدا و معاد کی حضوری معرفت تک پہنچ جائے۔

قابل ذکر ہے کہ ذہنی شناخت کا ایک خاص طریقہ ہے جسے صحیح تفکر بھی کہتے ہیں اور جب تک اس صحیح طریقۂ کار کو استعمال نہ کیا جائے تو حاصل شدہ علم معتبر نہیں ہوتا۔ دل کی شناخت کا بھی اپنا ایک خاص طریقہ ہے،کیوں کہ معرفت قلبی دل میں حقیقت کے انعکاس کی صورت ہوتی ہے اور جب تک دل کا آئینہ شفاف نہ ہو تو غیبی حقائق منعکس نہیں کرسکتا۔

3۔ طہارت اور دل کی سلامتی:کمال کی طرف بڑھنے کا تیسرا راستہ پاکیزگی اور دل کی سلامتی ہے اور اس کا اثر یہ ہے کہ شخص ( لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون )کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ قیامت جوکہ خوف کا وقت ہے اور سب ایک دوسرے سے گریزاں ہیں اس کے دل میں کسی قسم کا خوف و ہر اس نہیں ہے، کیوں کہ

ص: 146

طہارت و پاکیزگی اور دل کی سلامتی کے ساتھ خداوندمتعال کی دوستی کے محبوب مقام تک پہنچ چکا ہے اب اسے کسی چیز کا خوف نہیں ہے۔

4۔ معیشت کی اصلاح اور زندگی:چوتھے حصے میں امام علیه السلام نے معیشت کی اصلاح اور زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ عرفانی مطالب کے درمیان اس مطلب کا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معیشت کا انتظام انسان کی اخروی اور معنوی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی لیے امام علیه السلام نے خداوندمتعال سے وسعت رزق کی درخواست کی ہے نیز اس حصے میں دوقسم کے انحراف سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ انسان کو ان تمام مراحل میں ان دو قسم کے انحرافات سے بچنا چاہیے اور جب تک اس دنیا سے کوچ نہ کرجائے

ممکن ہے کہ یہ دو خطرے اس کے دامنگیر ہوجائیں ،وہ دوانحراف مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔عقیدتی پہلو سے انحراف کہ اسے ”کفرونفاق“سے تعبیر کیا گیا ہے۔

2۔اخلاقی پہلو سے انحراف اور یہ غیر مہذب اخلاقی عادات کا حامل ہونا ہے۔ یہ ایک طبیعی بات ہے کہ رضائے

الٰہی کے راستے پر چلنا،بہشت تک پہنچنا اور خداوندمتعال کے عذاب سے دور ہونا اسی صورت میں ممکن ہے جب ان دو خطرات سے پرہیز کیا جائے۔

1۔احطط...الاوزار”حطّ یحط حطّا“سے ہے نیچے آنا، کم ہونا۔

”الاوزار“”وزر“کی جمع ہے اس کا معنی گناہ ہے کیوں کہ گناہ انسان کے کندھوں پر ایک سنگین وزن کی طرح ہے اسی وجہ سے اس کو”وزر“سے تعبیر کیا گیا ہے۔کلمہ”حط“اس کے لیے موزوں ہے یعنی گناہوں کی سنگینی کو ہمارے کاندھوں سے اتار دے۔

2۔ شمائل الَابرار: شمائل،طبائع،اخلاق۔

ص: 147

3۔ واقف بنا ”قفوالرجل اذاتبعت اثرہ“سے ہے میں اس کے نقش قدم پر چلا عبارت کا معنی یوں ہے کہ ہمیں ان کا پیروکار قرار دے ۔

4۔قاموالک بہ:کسی چیز کے لیےقیام کرنا اور اس کے بر پا کرنے کے لیے کوشش اور سختی تحمل کرنا۔ مجمع البحرین میں”قیام“ کا معنی یوں بیان ہوا ہے۔

قام بالامر اذا جد وتجلّد،جب بھی کسی چیز کی کوشش کرے اور اس کی خاطر سختی اور رنج کا متحمل ہو۔اس دعا میں عبارت کامعنی یہ ہے: وہ لوگ جنہوں نے تیری خاطر تمام اوقات قرٓان کے لیے وقف کردیے یعنی قرآن کی تلاوت، اس کے معنی میں تدبر اور اس پر عمل کرنے میں گزارے۔

5۔ نزغات ”نزغۃ“کی جمع ہے جس کی اصل ”نزغ“ہے بمعنی فساد اور وسوسہ۔

6۔من غیر ما آفۃ:”ما“ اس جملہ میں زائدہ ہے: عبارت کا معنی یہ ہے کہ زبان کا بند ہوجانا، یہ گنگ ہونا بیماری کی وجہ سے یا بے اختیار نہ ہوکہ ایسی صورت میں کوئی فضیلت نہیں اور اس پر کسی قسم کا ثواب بھی نہیں۔یہ حالت اختیار کے ساتھ ہونی چاہیے یعنی اپنی زبان کو بند رکھیں نہ یہ کہ خود بخود بند ہوجائے۔

7۔ لماطوت الغفلۃ عنّا من تصفّح الاعتبار ناشرا۔”طوت“”طی“سے ہے بمعنی لپیٹنا، چھپانا اور اس کا متضاد” نشر“ہے اس کا معنی کھولنا اور پھیلانا ہے۔

تصفّح” نگاہ ڈالنا اور جستجو کرنا۔

” الاعتبار“ عبرت اور نصیحت کے معنی میں ہے۔

ص: 148

اس فقرے میں غفلت(بے خبری) کے مقابلے میں عبرت ( بینا اورباخبرہونا)اور ”نشر“ کے مقابلے میں”طی“ ہے۔(1)

غفلت کا کام حقیقت کو چھپانا ہے جب کہ عبرت حقیقت کو ظاہر کرتی ہے،غفلت نابینائی اور عبرت بنادیتی ہے۔

8۔زواجر امثالہ”زواجر“ زاجر کی جمع ہے بمعنی مانع اور یہ صفت کا موصوف کی طرف اضافہ ہے” الامثال الزاجرۃ“کیوں کہ قرآن کی مثالوں میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ گناہ کے ارتکاب اور ہوائے نفس کی پیروی سے روکتی ہے۔

9۔ الرّواسی:”راسیہ“

کی جمع ہے ثابت قدم اور محکم۔

10۔احتمالہ:اٹھاناحمل کرنا یہ فقرہ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے:

”لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لراَیتہ خاشعاً متصدّعاً من خشیۃ اللہ و تلک الامثال نضربھا للنّاس لعلّھم یتفکرون “(2)

اس آیت سے مراد سنگدلی پر انسان کی سرزنش کرنا ہے اور قرآن کی تلاوت کے دوران اس کےخضوع وخشوع اورمعانی میں کمی نہ کرنے پر توجہ دلانا ہے۔

11۔ درن قلوبنا:” درن“ یعنی میل اور آلودگی۔یہاں پر قساوت قلب، گناہ اور غفلت کی حالت کو ظاہری طور پر آلودگی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ظاہری میل اور آلودگی نہ فقط افراد کی بیزاری کا سبب ہے بلکہ انسان کی سلامتی کو بھی خطرےسے دوچار کرتی ہے۔ قلبی اور باطنی آلودگی بھی اسی طرح ہے یعنی ان فرشتوں اور پاکیزہ

ص: 149


1- ۔ مجمع 1لبحرین ،طریحی ، ج 6 ص 141 ۔
2- ۔ سورۂ حشر ، آیت 21 ۔

انسانوں کی نفرت کا سبب ہے۔ جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں مزید یہ باطنی آلودگی اور انسان کے دل کی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

12۔ ظما ھو اجرنا”ظماء“تشنگی، پیاس۔ ”ہواجر“”ہاجرہ“ کی جمع ہے اس کا معنی ہے دوپہر کا وہ وقت جب گرمی اور حرارت کی شدت ہوتی ہے۔

راغب اپنی کتاب مفردات میں یوں رقم طراز ہیں:یہ وہ وقت ہے جب شدید گرمی کی وجہ سے چلناپھرنا ممکن نہیں ہوتا۔کیوں کہ لوگ ایسے وقت سے دور بھاگتے ہیں، اسی لیے اسے” ھاجرۃ“ کہتے ہیں۔(1)

13۔ نشور:” نشر“ کی جمع ہے موت کے بعد زندگی کی طرف لوٹنا۔

14۔خلّتنا:”حاجتنا“

ہماری حاجتیں۔

15۔الاملاق: فقر،کسی چیز کا نہ ہونا۔

16۔ رغد العیش: زندگی اور معیشت کا اچھا اور دلچسپ ہونا ۔

17۔ خصب: اصل میں اس کا معنی زیادہ گھاس ہے اور یہاں بہت زیادہ خیر و برکت کی طرف اشارہ ہے۔

18۔الضرائب المذمومۃ:”الضرائب“”ضریبۃ“کی جمع ہےعادت،سرشت اور اخلاق کے معنی میں ہے۔

ص: 150


1- ۔ المفرادات ، راغب اصفہانی ، ص537 ۔

19۔ مدانی الاخلاق:”مدانی“”دنائت“سے ہے یعنی ذلت و پستی، اخلاق سے گری ہوئی باتیں یا براا خلاق۔

20۔ ھوۃ الکفر:”ھُوّۃ“عمیق گڑھا اور کفر کو یہاں پر گہرے گڑھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور تشبیہ کی وجہ تاریکی، تنگی اور کفر سے چھٹکارے کا مشکل ہوناہے۔

21۔ ذائداً:”مانعاً“ رکاوٹ۔

قرآن اور موت و قیامت کی سختیاں

اللھم صلّ علی محمد و آلہ و ھوّن با لقرآن عند الموت علی انفسنا کرب السیاق و جھد الانین، و ترادف

الحشارج (... اذا بلغت التّراقی۔ و قیل من راق )و تجلّیٰ ملک الموت لقبضھا من حجب الغیوب، و رماھا عن قوس المنایا باسھم وحشۃ الفراق۔ وداف لھا من ذعاف الموت کاَساًمسمومۃ المذاق، ودنا منّا الی الآخرۃ رَحیل و انطلاق،و صارت الاعمال قلائد فی الاعناق، و کانت القبور ھی الماویٰ الی میقات یوم التّلاق۔

اللھم صلّ علی محمد وآلہ،و بارک لنا فی حُلُول دار البلیٰ و طول المُقامۃ بین اطباق الثّریٰ، واجعل القبور بعد فراقِ الدنیا خیر منازلنا،و افسح لنا برحمتک فی ضیق ملاحدنا، ولا تفضحنا فی حاضری القیامۃ بموبقات آثامنا،و ارحم بالقرآن فی موقف العرض علیک ذلّ مقامنا و ثبّت بہ عند اضطراب جسر جھنم یوم المجاز علیھا زلّل اَقدامنا، و نجّنا بہ من کلّ کرب یوم القیامۃ، و شدائد ِ اھوال یوم الطّامّۃ، و بیّض وُجوھنا

ص: 151

یوم تسودّ وجوہ الظلمۃ فی یوم الحسرۃ ِ و الندامۃ، و اجعل لنا فی صدور المؤمنین وُدّا،و لا تجعل الحیاۃ علینا

نَکَداً۔

اے اللہ!محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس قرآن کے وسیلہ سے موت کے وقت نزع کی اذیتوں؛ کراہنے کی سختیوں اور جان کنی کی لگاتار ہچکیوں کو ہم پر آسان فرما جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے اور کہا جائے کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے(جو کچھ تدارک کرے) اور ملک الموت غیب کے پردے چیر کر قبض روح کے لیے سامنے آئے اور موت کی کمان میں فراق کی دہشت کے تیر جوڑ کر اپنے نشانہ کی زد پر رکھ لے اور موت کے زہریلے جام میں زہر ہلا ہل گھول دے اور آخرت کی طرف ہمارا چل چلاؤ اور کوچ قریب ہو نیز ہمارے اعمال ہماری گردن کا طوق بن جائیں اور قبریں روز حشر کی ساعت تک آرام گاہ قرار پائیں۔

اے اللہ!محمد اور اس کی آل پر رحمت فرما اورکہنگی اوربوسیدگی کے گھر(قبر) میں اترنے اور مٹی کی تہوں میں مدت تک پڑے رہنے کو ہمارے لیے مبارک قرار دینا اور دنیا سے منہ موڑنے کے بعد قبروں کو ہمارے لیے اچھا گھر بنا نا اور اپنی رحمت سے ہمارے لیے قبر کی تنگی کو کشادہ کر دینا۔

حشر کے عام اجتماع کے سامنے ہمارے مہلک گناہوں کی وجہ سے ہمیں رسوا نہ کرنا۔ اعمال کے پیش ہونے کے مقام پر ہماری ذلت و خواری کی وضع پر رحم فرمانا اور جس دن جہنم کے پل پر سے گزرنا ہو گا، تو اس کے لڑکھڑانے کےوقت ہمارے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو جما دینا اور قیامت کے دن ہمیں اس کے ذریعے ہر اندوہ اور روز حشر کی سخت

ہولناکیوں سے نجات دینا، اور جب کہ حسرت و ندامت کے دن ظالموں کے چہرے سیاہ

ہوں گے ہمارے چہروں کو نورانی کرنا اور مؤمنین کے دلوں

ص: 152

میں ہماری محبت پیدا کر دے اور زندگی کو ہمارے لیے دشوار گزار نہ بنا۔

وضاحت:

یہاں پر موت کی سختیوں اور مشکلات کو بیان کیا گیا ہےموت وہ تلخ جام ہے جس کو ہر ایک کو پینا ہے ایک ایسی واقعیت جو دو خصوصیات کی حامل ہے۔

1۔ تمام تعلقات اور مال و دولت سے جدائی۔

2۔ وہ تمام اعمال جو اس نے اپنی پوری زندگی میں انجام دیے ان سے عدم جدائی۔اس کے اعمال نامہ کو اس کی گردن میں آویزاں کیا جائے گا تاکہ ان کا جواب دے۔مسٔلہ صرف موت پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ابدی زندگی تک پہنچنے کے لیے قبر اور قیامت کی سختیوں کو بھی طے کرنا پڑے گا۔

امام سجاد علیه السلام موت اور اس کے بعد کے مراحل میں قرآن کے کردار کے متعلق اشارہ کرتے ہیں۔

پہلا مرحلہ:موت کی سختی

اور جان کنی ہے قرآن اس مرحلہ میں تمام سختیوں کو آسان کرنے والا ہے۔ یہ عبارت

”ھوّن بالقرآن“ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں قرآن سے رابطہ برقرار کیا ہو اوراس پرعمل بھی کیا ہو تو وہ یہ مرحلہ آسانی سے طے کر سکتا ہے اور یہ قرآن ہی ہے جو اس کے سخت ترین مرحلوں میں مدد کرتا ہے۔

دوسرا مرحلہ: یہ موت کے بعد کا مرحلہ ہے دعائے حزین میں امام سجاد علیه السلام کی تعبیر کے مطابق موت سے زیادہ مصیبت اور مشکل مراحل موت کے بعد ہیں لہذا امام علیه السلام اس دعا میں(وراحم با

ص: 153

لقرآن) کی تعبیر کو لائے ہیں، یعنی موت کے بعد کے مراحل میں ہم مدد کےزیادہ محتاج ہیں جہاں

انسان کے باطنی اوصاف اور اعمال کی جوابدہی ہے فقط قرآن ہے جو رحمت کے نزول کا سبب ہے اور ان تمام مراحل میں انسان کی کامیابی کا باعث ہے۔

سب سے اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہےکہ امام علیه السلام نے اس دعا میں موت کے بعد کی سختیوں اور مصیبتوں کو بیان کیا ہے اور خدا وند متعال سے قرآن کے وسیلہ سے ان سختیوں کی آسانی کے لیے التجأ کی ہے صحیفہ ٔ سجادیہ کی چوتھی دعا میں امام علیه السلام نےموت کو شیرین، رحمت الہی اور مغفرت کی کلید شمارکیا ہے۔ وہ مٹھاس جس کا انسان اپنی

پوری زندگی مشتاق تھا۔ لیکن ایسی موت تبھی ہو گی جب انسان نے اعمال صالح

انجام دئیے ہوں۔ قرآن کا پیغام بھی یہی ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ ساتھ

اعمال صالح کی طرف اپنے آپ کو راغب کرے اور یہ اعمال صالح در حقیقت وہی اطاعت الہٰی ہے۔ قرآن کے ساتھ اس قسم کے تمسک کے نتیجے میں موت اور اس کے بعد والی تمام سختیوں کو خوبصورت ترین اور شیر ین ترین واقعیت کی شکل میں انسان کے لیے تبدیل ہو جائیں گی۔

1۔ھوّن۔

آسان کرنا

2۔ کرب السیاق” کر ب“ غم و اندوہ۔

”السیاق“”ساق یسوق سیاقا،،سے ہے پیچھے سےہنکانا ”ساق المریض“ مریض کی جان کنی کی حالت ” کرب السیاق“ جان نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا غم۔

صحیفہ ٔسجادیہ کی چوتھی دعا میں مذکورہے:

ص: 154

وتھوّن علیھم کل کرب یحل بھم یوم خروج الانفس من ابدانھا،بدن سے جان نکلنے کے وقت جو بھی غم و اندوہ ان پر وارد ہو اسےدور کرنا۔

3۔ جھدالانین”جھد“ رنج اور مشقت۔

”انین“”ان الرجل من الوجع یثن انینًا“ سے ہے مرد نے آہ بھری اور درد و رنج کی شدت سے فریاد بلند کی۔

4۔ ترادف الحشارج” ترادف“ردیف میں اور پے درپے ہونا۔

” حشارج “” حشرجۃ“ کی جمع ہے ایک ایسی آواز جو موت کے وقت مرنے والے شخص کے گلے میں گھومتی ہے۔

5۔التراقی”الترقوۃ“کی جمع ہے گدی کےاوپر والی ہڈی اور”بلغت النفوس التراقی“ اس عبارت کا معنی جان کا گلے تک پہنچنا ہے یہ عبارت کنایہ ہے اس شخص کے لیے جو موت سے روبروہو تاہے۔

6۔قیل: من راقِِ:” راقِِ“”رقی“سے اسم فاعل ہے ابن فارس معجم مقاییس اللغۃ میں کہتے ہیں:

”رقی اصول ثلاثۃ متباینۃ

احدھا: الصعود الآخر :عوذۃ یتعوّذبھا،والثالث:بقعۃ من الارض“۔

رقی کے تین مختلف اصول ہیں: ان میں ایک صعود بمعنی اوپر جانا دوسرا تعویذ اور تیسرا زمین کا ٹکڑا ۔(1)

ص: 155


1- ۔ معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج 2 ص 426 ۔

اگر” راقی“ کا معنی صعود اور اوپر جانالیں تو اس عبارت میں معنی یہ ہوگاکہ: کیا کوئی راقی یا اوپر لے جانے والا ہے جو اس کی روح اوپر لے جائے ؟ اور اسے اس حالت سے خارج کردے۔

لیکن اگر اس شخص کے معنی میں لیں جو بیماری سے بہبود کے لیے تعویذدیتا ہے تو یہاں راق سے مراد طبیب ہو گا بلکہ اس عبارت کے سیاق کو دیکھتے ہوئے یہ معنی مناسب ہے کہ اس کا معنی یوں ہو:کیا کوئی ایسا طبیب ہے جو اس کا علاج کرے؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت امام محمد باقر علیه السلام سے نقل ہوئی ہے:(انّ ذ لک ابن آدم اذا دخل بہ الموت قال: ھل من طبیب ؟)(1)۔

7۔المنایا” المنیہ“کی جمع ہے اس کا معنی موت ہے۔ اس عبارت میں موت کو ایسی کمان سے تشبیہ دی گئی ہے جو جدائی کے وحشت ناک تیر انسان کی طرف پھینکتی ہے۔

8۔داف لھا من ذعاف الموت: ”داف یدوف دوفاً و اداف الدوا“ ”خلطہ“: ایک چیز کو مخلوط کرنا یا ایک چیز کو اس کے ساتھ ملانا”الذعاف“زہر”طعام مذعوف“ زہر آلود کھانا اور بعض کے بقول” ذعاف“خالص زہر کو کہتے ہیں۔

9۔قلائد فی الاعناق:” قلائد“قلادہ کی جمع ہے: ایک ایسا گردن بند جسے شخص اپنی گردن میں آویزاں کرتا ہے اس عبارت کا اشارہ اس طرف ہے:(و کل انسٰن الزمنٰہ طٰئرہ فی عنقہ... )(اور ہم نے ہر

ص: 156


1- ۔ کافی ، محمد ابن یعقوب کلینی ، ج 3ص259، یہ حضرت آدم علیه السلام کے فرزندکے متعلق ہے جب اس پر موت آتی ہے تو کہتا ہے کیا کوئی طبیب ہے۔

انسان کا نامۂ اعمال اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔)(1) یہ کنایہ ہے کہ انسان کے اعمال اس سے جدا نہیں ہوتے جس طرح گلے کا ہار گردن سے جدا

نہیں ہوتا۔

10۔الماَوی: اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور اسے ملاقات ودیدار کا دن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن

آسمان والے زمین والوں کا دیدار کریں گے یا اولین و آخرین ایک دوسرے کا دیدار کریں گے یا یہ کہ انسان خدا وند متعال کے ساتھ اپنے عمل کے ہمراہ اور ظالم مظلوم کے ساتھ ملاقات کریں گے۔

11۔دار البِلیٰ:”بِلیٰ“”بلی الثوب بِلیٰ و بَلا ء“سے ہے کہ جس کا معنی کہنہ لباس یا کہنہ گھر ہے پرانے گھر سے مراد قبر ہے کیوں کہ انسان کا جسم اس جگہ فرسودہ اور خاک میں تبدیل ہو جائے گا۔

12۔المقامۃ:مصدر ہے جس کا معنی ٹھہرنا یا اقامت ہے۔

13۔اَطباق الثری:”الثری“ نم دار زمین

”اطباق“طبق کی جمع ہے مثل سبب اور اسباب اور ( طباق ) کے وزن پر بھی اس کی جمع ذکر ہوئی ہے:نقل جبل و جبال اور اس سے مراد طبقہ اور لباس ہے۔

14۔افسح:”فسح یفسح فسحاً“سے ہے جس کا معنی وسعت اور گشادگی ہے۔

15۔ضیق ملاحدنا:”ضیق“ تنگی ۔

” ملاحد“”ملحد“ کی جمع ہے جس کا معنی” لحد“ ہے یعنی قبر کا گڑھا۔

ص: 157


1- ۔سورۂ اسراء آیت 13 ۔

16۔حاضری القیامۃ بموبقات آثامنا:اصل میں”حاضرین“ تھا چوں کہ القیامہ کی طرف اضافہ ہوا ہے لہذااس کا نون حذف ہو گیا ہے، یعنی بہت سارے لوگ قیامت کے دن حاضر ہوں گے۔

”موبقات“”موبقہ“ کی جمع ہے باب افعال سے اسم فاعل ہے” وبق و بوقا و موبقا“کے مادہ سے ہے بمعنی ہلاک ہونا لہذا موبق کا معنی ہلاک کرنے والاہے۔

”آثام“ اثم کی جمع ہے گناہ کے معنی میں ہے۔ یہ ترکیب صفت کا موصوف کی طرف اضافہ ہے، یعنی آثام موبقہ: ایسے گناہ جو انسان کی ہلاکت یا نابودی کا سبب بنتے ہیں۔

17۔یوم الطّامّۃ:” طامہ“ ؛ ایسی بلا جو تمام مصیبتوں سے بالاتر ہے،”طمّ الاناء طمّا“ کے مادہ سے ہے ؛ ظرف کو پُر کیا۔ اور کیوں کہ قیامت کے دن کی مصیبت ہر طرح کی ہے اسی لیے اسے”یوم الطّامّۃ“کہا گیا ہے۔

18۔تسودّ وجوہ الظّلمۃ:ممکن ہے چہرے کی سیاہی سے مراد، انسان کی خواری اور خسارہ والی حالت ہو۔

19۔ نکداً: دشواری اور سختی۔

رسول خدا پر درود و سلام

اللھم صلّ علی محمد عبدک و رسولک کما بلّغ رسالتک، و صدع بأمرک، و نصح

لعبادک، اللھم اجعل نبینا۔ صلواتک علیہ و آلہ۔ یوم القیامۃ اقرب النبیین منک مجلسا، و امکنھم منک شفاعۃ و اجلّھم عندک قدراً، و اوجھھم عندک جاھًا۔

اللھم صلّ علی محمد وآل محمد، و شرّف بنیانہ، و عظّم برھانہ، و ثقّل میزانہ، و تقبّل شفاعتہ و قرّب وسیلتہ و بیّض وجھہ و اتم ّ نورہ، و ارفع درجتہ و احینا علی سنّتہ، و توفّنا علی ملّتہ،وخذبنا منھاجہ، واسلک بنا سبیلہ، واجعلنا من اھل طاعتہ، واحشرنا فی زمرتہ، و اوردنا حوضہ، و اسقنا بکاسہ۔

ص: 158

وصلّ اللھم علی محمد و آلہ صلاۃ تبلّغہ بھا افضل ما یامل من خیرک و فضلک و کرامتک، انک ذو رحمۃ واسعۃ و فضل کریم

اللھم اجزہ بما بلّغ من رسالتک، و ادّی من آیاتک، و نصح لعبادک، و جاھد فی سبیلک، افضل ما جزیت احدا من ملائکتک المقرّبین، انبیائک المرسلین المصطفین، والسلام علیہ وعلی آلہ الطیبین الطاھرین و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

اے اللہ!محمد جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ان پر رحمت نازل فرما ؛جس طرح انھوں نے تیرا پیغام پہنچایا، تیری شریعت کو واضح طور پر پیش کیا اور تیرے بندوں کی خیر خواہی و نصیحت کی۔

اے اللہ!ہمارے نبی حضرت محمد کو قیامت کے دن تمام نبیوں سے منزلت کے لحاظ سے مقرب تر، شفاعت کے لحاظ سے بر تر، قدر و منزلت کے لحاظ سے بزرگ تر اور جا ہ و مرتبت کے لحاظ سے ممتاز تر قرار دے ۔

اے اللہ، محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ان کی عزت و شرف کو بلند فرما، ان کی دلیل و برھان کو عظیم اور ان کے میزان ( عمل کے پلّہ ) کو بھاری کر دے۔ ان کی شفاعت

قبول فرما اور ان کی منزلت اپنے سے قریب کر، ان کے چہرے روشن، ان کے نور

کامل، اور ان کے درجے بلند فرما۔ ہمیں انہی کے آئین پر زندہ رکھ اور انہی کے دین پر موت دے اور انہی کی شاہراہ پر گامزن کر اور انہی کے راستے پر چلا اور ہمیں ان کے فرما ں بردار وں میں سے قرار دے اور ان کی جماعت میں محشور کر اور ان کے حوض پر اتار اور ان کے ساغر سے سیراب فرما۔

اے اللہ ! محمد اور ان کی آل ؑ پر ایسی رحمت نازل فرماکہ جس کے ذریعے انہیں بہترین نیکی، فضل اور عزت تک پہنچا دے جس کے وہ امید وار ہیں۔ اس لیے کہ تو وسیع رحمت اور عظیم

ص: 159

فضل و احسان کا مالک ہے۔اے اللہ! انہوں نے جو تیرے پیغامات کی تبلیغ کی، آیتوں کو پہنچایا۔ تیرے بندوں

کو پندو نصیحت کی اور تیری راہ میں جہاد کیا، ان سب کی انہیں ایسی جزا دے جو ہر اس جزا سے بہتر ہو جو تو نے مقرب فرشتوں اور برگزیدہ مرسل نبیوں کو عطا کی، ان پر اور ان کی پاک و پاکیزہ آل ؑ پر سلام ہو اور اللہ تعالی کی رحمتیں و برکتیں ان کے شامل حال ہو ں۔

تشریح

صحیفہ ٔسجادیہ کی دعاؤں کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات دعا کے وسط و

آخر میں ذکر ہوئی ہے۔ یہ دعا دوسری دعاؤں سے مختلف نہیں ہے ؛ لیکن رسول خدا کی یاد اور ان پر درود اس دعا کاخاص موضوع ہے ، کیوں کہ قرآن رسول خدا کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور آپ اس کے ابلاغ ووضاحت میں بہت رنج و درد کے متحمل ہوئے،تا کہ لوگوں کو جہالت اور گمراہی سے نور ہدایت اور دانائی کی طرف دعوت دیں۔ لہذا

ضروری ہے کہ رسول خدا کا ذکر ہو اور آں حضرت پر درود وسلام بھیجا جائے۔

ص: 160

1۔صدع باَمرک:”صدع “؛ اصل میں اس کا معنی شیشے اور پتھرجیسی سخت چیزوں کو توڑنا ہے اور چوں کہ توڑنے کا لازمہ الگ کرنا ہے اور بعض مقامات میں کسی چیز کو آشکار کرنا ہے۔ بنا بر این یہ کلمہ جدا کرنے اور آشکار کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ”صدع بالحق“؛یعنی حق کو آشکار کیا لہذا یہا ں دعا میں بھی آشکار کرنے کا معنی ہے یعنی تمہارے فرمان کو آشکار کیا۔

2۔قرّب وسیلتہ:”وسیلہ“ ایسی چیز جو انسان کو اس کے ہدف اور مطلوب تک پہنچاتی ہے۔ راغب اصفہانی المفرادات میں وسیلے کی حقیقت کے بارے میں کہتے ہیں” خداوندمتعال کی جانب وسیلہ علم و عبادت اور شریعت کے احکام پر عمل در آمد کا الہٰی راستہ ہے۔(1)

فیض کاشانینے صحیفۂ سجادیہ کے اپنے تعلیقات میں”وسیلہ“ کو خداوندمتعال کے نزدیک آں حضرت کی منزلت اور درجے سے تعبیر کیاہے۔ اس بنا پر عبارت ” قرّب وسیلۃ“ کا معنی یہ ہے کہ خداوندمتعال آں حضرت کو اس منزلت تک پہنچائے جو اس نے آں حضرت کے لیے مخصوص کی ہے۔علامہ مجلسینے بحارالانوار میں تفسیر علی ابن ابراہیم سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ جس میں ” وسیلے“ کی حقیقت بیان کی گئی ہے ؛ پیغمبر گرامی نے فرمایا:اذا ساَلتم اللہ فاسئلوا لی الوسیلۃ، فساَلنا النبیّ عن الوسیلۃ؟ فقال ھی درجتی فی الجنۃ... ؛جب بھی خداوندمتعال سے درخواست کرو تو

ص: 161


1- ۔ المفرادات ، راغب اصفہانی ، ص523۔ 524۔

میرے لیے وسیلے کی درخواست کرو، پیغمبر گرامی سے پوچھا گیا: وسیلہ کیا ہے ؟ آں حضرت نے فرمایا: بہشت میں میرا درجہ ہے...۔(1)

ص: 162


1- ۔ بحار الانوار ، ج7 ، ص326 ۔

تیسری فصل

متن شناسی:باونویں دعا

ص: 163

ص: 164

متن شناسی

باونویں دعا: اللہ تعالی کے حضور انکساری و عاجزی کے اظہار پر حضرت علیه السلام کی دعا

خدا کے لیے خاکساری

ربّ افحمتنی

ذنوبی، و انقطعت مقالتی، فلا حجّۃ لی، فانا الاسیر ببلیّتی، المرتھن بعملی،

المتردّد فی خطیئتی المتحیّر عن قصدی، المنقطع بی۔

قد اوقفت نفسی موقف الاذلّاء المذنبین، موقف الاشقیاء المتجرّئین علیک، المستخفّین بوعدک، سبحانک ایّ جراۃ

اجترات علیک، و ایّ تغریر غرّرت بنفسی؟!

مولای! ارحم کبوتی لحرّ وجھی و زلّۃ قدمی و عد بحلمک علی جھلی، باحسانک علی اساءتی فانا المقرّ بذنبی، المعترف بخطیئتی، و ھذہ یداتی و ناصیتی استکین بالقود من نفسی، ارحم شیبتی و نفاد ایّامی، واقتراب اجلی، و ضعفی و مسکنتی و قلّۃ حیلتی۔

مولای!وارحمنی اذا انقطع من الدنیا اثری، و امّحی من المخلوقین ذکری و کنت فی المنسیین کمن قد نسی۔

ص: 165

مولای !” وارحمنی عند تغیر صورتی و حالی اذا بلی جسمی و تغّرقت اعضائی و تقطّعت اوصالی “یا غفلتی عما یراد بی مولای وارحمنی فی حشری و نشری واجعل فی ذلک الیوم مع اولیآئک موقفی وفی

احبائک مصدری و فی جوارک مسکنی یا ربّ العالمین۔

اے میرے پروردگار!میرے گناہوں نے مجھے ( عذر خواہی سے ) چپ کرا دیا ہے، میری گفتگو بھی دم توڑ چکی ہے۔ تو اب میں کوئی عذر و حجت نہیں رکھتا۔ اس طرح میں اپنے رنج و مصیبت میں گرفتار اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی، اپنے گناہوں میں حیران و پریشان، مقصد سے سرگرداں اور منزل سے دور افتادہ ہوں۔

میں نے اپنے کو ذلیل

گنہگاروں کے موقف پر لا کھڑا کیا ہے اور ان بدبختوں کے موقف پر جو تیرے مقابلہ میں جرأت دکھانے والے اور تیرے وعدہ کو سرسری سمجھنے والے ہیں۔

پاک ہے تیری ذات۔ میں نے کس جرأت و د لیری کے ساتھ تیرے مقابلہ میں جرأت کی ہے اور کس تباہی و بربادی کے ساتھ اپنی ہلاکت کا سامان فراہم کیا ہے؟!۔

اے میرے مالک! میرے منہ کے بل گرنے اور قدموں کے ٹھوکر کھانے پر رحم فرما اور اپنے حلم سے میری جہالت و نادانی کو اور اپنے احسان سے میری خطاء و بد اعمالی کو بخش دے اس لیے کہ میں اپنے گناہوں کا مقرّ اور اپنی خطاؤں کا معترف ہوں۔یہ میرا ہاتھ اور میری پیشانی کے بال

( تیرے قبضۂ قدرت میں ) ہیں۔میں نے عجز و سرافکند گی کے ساتھ اپنے کو قصاص کے لیے پیش کر دیا ہے۔

بار الہا! میرے بڑھاپے، زندگی کے دنوں کے بیت جانے،موت کے سر پر منڈلانے اور میری ناتوانی، عاجزی اور بے چارگی پر رحم فرما۔

ص: 166

اے میرے مالک!جب دنیا سے میرا نام و نشان مٹ جائے اور ان لوگوں کی طرح جنہیں بھلا دیا جاتا ہے میں بھی بھلا دئیے جانے والوں میں سے ہو جاؤں تو مجھ پر رحم فرما نا۔

اےمیرے مالک!میری صورت و حالت کے بدل جانے کے وقت جب میرا جسم کہنہ، اعضاء درہم برہم اور جوڑ و بند الگ الگ ہو جائیں تو مجھ پر ترس کھانا۔ ہائے میری غفلت و بےخبری اس سے جو اب

میرے لیے چاہا جا رہا ہے۔

اے میرے مولا!حشر و نشر کے ہنگام مجھ پر رحم کرنا اور اس دن میرا قیام اپنے دوستوں کے ساتھ اور میری واپسی اپنے دوستداروں کے ہمراہ اور میری منزل اپنی ہمسائگی میں قرار دینا۔ اے تمام جہانوں کے پروردگار۔

تشریح

ذلّت اصل میں نرم اور تسلیم ہو جانے کے معنی میں ہے اور ایسی صفت ہے جو خاکساری کی علامت ہے اس صفت کا حامل شخص آخر کار اپنے مدّ مقابل کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔یہ مفہوم تنہا معنی نہیں دیتا یہ اپنے معنی کے لیے کسی دوسرےکا محتاج ہے

جیسےعلم اور عشق جب تک کسی دوسرے کے ساتھ نہ ملیں اپنے معنی پیدا نہیں کرتے

اور اصطلاح میں ان مفاہیم کو ” ذات اضافہ“ میں شمار کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب تک معلوم نہ ہو علم کی شکل و صورت نہیں بنتی اور جب تک معشوق نہ ہو عشق پیدا نہیں ہوتا، ” ذلت“ بھی اسی طرح دوسری چیز کی محتاج ہے۔ ان اوصاف اور مفاہیم کی اہمیت دوسری طرف موجود شخص کے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر عشق کا مثبت یا منفی ہونا

معشوق سے متعلق ہے یا علم کی اہمیت اس کے معلوم کے ساتھ وابستہ ہے ورنہ صرف عشق کو نیک یا بد

ص: 167

نہیں کہہ سکتے۔ ذلت بھی اس طرح ہے اس کی اہمیت کے لیے اس کے مقابل کی تحقیق کرنی پڑے گی۔ اگر یہ ذلت خداوند متعال کے حقوق کے مقابلے میں تسلیم ہونا ہے تو یہ ذلت انسان کے بہترین صفات میں سے ہے کہ جس کو مثبت ذلت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ وہی حالت ہے جو خدا کے ساتھ ہر قسم کے رابطہ( عبادت، دعا، شکر گزاری، استغفار وغیرہ ) میں موجود ہو یہ صفت اس رابطے کو خالص بناتی ہے اور خدا کے سامنے اعتراض کے بجائے انسان عذر خواہی زبان پر لاتا ہے اور عبادت میں احسان جتانے کے بجائے انسان شرمساری کا انداز اپناتا ہے۔یہ وہ ذلت ہے جو عزت پر ختم ہوتی ہے کیوں کہ یہ ذلت انسان کو خداوندمتعال کے سامنے تسلیم اور اطاعت کی طرف لے جاتی ہے اور خداوندمتعال کی اطاعت انسان کی دنیا و آخرت میں سر بلندی کا سامان ہے۔

اگر انسان ایسی حالت کے سامنے سرتسلیم خم کرے جو باطل امر ہو ( جیسے دنیا اور اس کی شہوات ) تو اس صورت میں یہ ذلت نفس کی بدترین صفات میں سے ایک ہو گی کہ جسے منفی ذلت کہا جاتا ہے۔ ایسی ذلت انسانی شخصیت کی پستی کا سبب بنتی ہے کیوں کہ دنیا کے مقابلے میں سرتسلیم خم کرنا شیطان یا نفسانی خواہشات کا اسیر ہونا اور خداوندعالم کی نافرمانی کرنا ہے اور یہ چیز انسان کو پستی کی طرف لے جاتی ہے۔

1۔اَفحمتنی:” فحم “ کے مادہ سے ہے، جواب دینے کی قدرت نہ رکھنا ”فحم الصبّی“ بچہ اس قدر رویا کہ اس کی آواز بند ہو گئی ”اِفحام “ دوسرے کو دلیل وغیرہ سے خاموش کرانا۔یہاں گناہ سبب بنتے ہیں کہ گناہ کار شخص جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا نہ ہی اپنے نفع میں دلیل قائم کر کے گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔

2۔المرتَھَن بعملی:” المرتھن “ اسم مفعول” رھن “کے مادہ سے ہے قید اور گروی کے معنی میں ہے۔اس عبارت کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے عمل کا گروی ہے اس معنی کا اشارہ اس آیت کریمہ کی

ص: 168

طرف ہے؛”...کُلّ امرئ بما کَسَبَ رھین“( ہر انسان اپنے عمل کا گروی ہے )(1)رھن کی اصطلاح اس جگہ استعمال ہوتی ہے جہاں دَین، قرض کا مطالبہ کیا جارہا ہو اور معمولاً قرض کے مقابلہ میں جو چیز گروی کے طور پر دی جاتی ہے اسے”مرھون“یا” مرتَھن“ کہتے ہیں۔

یہاں پر عمل قرض کی طرح ہے اور انسان کا نفس”مرتھن“کے مانند ہے اور جب تک انسان قرض ادا نہ کرے، گروی کی حالت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ انسان اور اس کے اعمال بھی ایسے ہی ہیں۔ جب تک نیک عمل یا عمل صالح انجام دے گویااپنا قرض ادا کیا ہے،کیوں کہ خداوند متعال فقط عمل صالح قبول کرتا ہے اور فقط عمل صالح ہے جو خداکی طرف صعود کرتا ہے(2) اگر کسی کا نیک عمل نہ ہو تو اس نے اپنے نفس کو برائی کے ذریعے قید کر لیا ہے۔بنا بر این دعا کی عبارت ایک طرح سےبرائی کا اعتراف ہے۔

3۔ المتحیّر عن قصدی:”قصد “ مستقیم ؛ سیدھا ہونا اور ٹیڑھا نہ ہونا۔

4۔المنقطع بی:مجہول ہے

اسےکہا جاتا ہے جو سفر میں باقی رہ گیا ہو جس کا زاد راہ تمام ہو گیا ہو یا جس کی سواری کانقصان ہوجا ئے کہ دونوں ہی صورت میں آگے بڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

5۔غرّرت نفسی: اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا اور میں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا۔

ص: 169


1- ۔ سورۂ طور ، آیت 21 ۔
2- ۔ سورۂ فاطر ، آیت 10 ، الیہ یصعد الکلم الطیب و العمل الصالح یرفعہ۔

6۔کبوتی:”کبا، یکبو، کَبواً اور کُبُوّاً لوجھہ“ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ یہاںسقوط اور عقوبت و عذاب میں گرنا ہے۔

7۔حُرّوجھی:” حُرّ الوجہ“چہرے کے رخسار کو کہتے ہیں۔ایسی حالت جو منہ کے بل خاک پر گر پڑے، ایک ایسی حالت جس میں انسان ذلت، رنج و درد کا احساس کرے اور مدد کا محتاج ہو، اسی وجہ سے

گناہ میں مبتلا ہونے کی حالت کو زمین پر منہ کے بل گرنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔

8۔ اَلقود: بمعنی قصاص ہے جرم کے بدلے برابر کا بدلہ ہے۔ضایع شدہ چیز کے برابر شے کا مطالبہ کیا جاتا ہے یہاں پر اس کا معنی مطلق سزا ہے۔

9۔اَوصالی:”وصِل“ کی جمع ہے واو مضموم یا مکسور ہے: مفصل، ہڈیوں کے جوڑ کی جگہ کو کہتے ہیں۔

10۔ حشری و نشری:”حشر“ لغت میں کسی گروہ کو ان کے گھروں سے باہر نکالنے کے معنی میں ہے اور ان کو جنگ کی طرف ڈھکیلنا وغیرہ ہے جیسے قیامت کے دن کھڑے ہوں گے ۔

” نشر “مرنے کے بعد زندگی کی طرف لوٹنا ۔

دعا کے اسباق

دعا کے آثار انسان کے وجودپر بہت زیادہ ہیں اور اس کو بہت زیادہ درس سکھاتی ہے، ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ص: 170

1۔انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے نفس کی اصلاح کی فکر میں رہے ؛ کیوں کہ نفس کی اصلاح ہمیشگی اور آخرت کی اصلاح کےدرپے ہے ۔

2۔ اگر انسان اپنے آپ کو پست تر دیکھے گا تو بلند تر ہو جائے گا اور اپنے آپ کو بہت زیادہ گناہگار سمجھے گا تو تقویٰ و پرہیزگاری کی طرف زیادہ قدم بڑھائے گا، کیوں کہ نفس کی اصلاح کی راہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ناقص اور مقصر سمجھے اورپروان چڑھنے کا اہم ترین عامل وسبب یہ ہے کہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی طرف توجہ رہے اور کمال کی طرف بڑھنے کا جذبہ باقی رہے۔

3۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو فریب و دھوکہ نہ دے اور دنیا کا دل دادہ نہ ہو جائے کیوں کہ فرصت کے سنہرے لمحات اور جوانی وغیرہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی نہیں ہے۔

4۔ انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ موت کی یاد میں رہے اور تمام حالات میں امید کے سایہ میں حرکت کرے اور اپنے اعمال سے ڈرے اور خداوندمتعال کی رحمت کا امیدوار رہے۔

5۔ انسان کو چاہیے کہ ہر حال میں خداوندمتعال کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

ص: 171

ص: 172

منابع و مآخذ

ص: 173

ص: 174

1۔قرآن کریم [ترجمہ حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی]۔

2۔نہج البلاغہ[ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی]۔

3۔صحیفہ ٔ سجادیہ [ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین ]۔

4۔آداب الصلاۃ، سید روح اللہ امام خمینی، بی نا، بی تا، بی جا۔

5۔الارشاد، محمدابن محمد مفید (شیخ)، مکتبۃ بصیرتی، قم، بی تا۔

7۔اصول کافی، محمدابن یعقوب کلینی،تصحیح علی اکبر غفاری، مکتبۃ الصدوق، تہران، 1381ش۔

6۔اقبال الاعمال،علی ابن موسیٰ ابن طاؤس، ج2، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، 1367ش۔

7۔الاما م الصادق علیه السلام والمذاہب الاربعہ، اسد حیدر، ج 2؛دارالکتاب العربی، بیروت، 1390ق۔

8۔امام سجاد علیه السلام جمال نیایشگران، احمد ترابی،تحقیق گروہ تاریخ اسلام، بنیاد پژوہشہای اسلامی مشہد1379ش۔

10۔اقرب الموارد،سید الخوری الشرتونی، بی نا، بیروت، بی تا۔

11۔بحارالانوار علامہ محمد باقرمجلسی، داراحیاء التراث العربی، بیروت، چھاپ سوم، 1403ق۔

ص: 175

12۔پژوہشی در تاریخ حدیث شیعہ مجید معارف، مؤسسہ فرہنگی ہنری ضریح،تہران چھاپ اول 1374ش۔

13۔تاریخ زندگانی چہاردہ معصوم علیهم السلام ،سید مہدی شمس الدین،دارالنشر قم، چھاپ اول، بی تا۔

14۔ تاریخ یعقوبی احمدیعقوبی، دارصادر،بیروت،بی تا۔

15۔ترجمہ وشرح صحیفہ ٔ سجادیہ،علامہ ابوالحسن شعرانی، کتابفروشی اسلامیہ،تہران بی تا۔

16۔ترجمہ وشرح صحیفہ ٔ سجادیہ،سید احمد فہری، مفید، تہران چھاپ اول 1370 ش۔

17۔ترجمہ وشرح صحیفہ ٔ سجادیہ، علی نقی فیض الاسلام، بی نا، تہران، 1375ش۔

18۔تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیہ، محمد مرتضی ٰ فیض کاشانی، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام چھاپ اول، 1366ش۔

19۔تفصیل وسائل الشیعہ، شیخ محمدا بن حسن حر عاملی، قم، چھاپ اول، 1409ق۔

20۔حاشیہ مکاسب، محمد اصفہانی، چھاپ سنگی، بی نا، بی جا، بی تا۔

21۔الحکمۃ المتعالیہ فی الاسفارالعقلیۃ الاربعۃ، صدرالدین شیرازی ( ملاصدرا) مکتبۃ المصطفوی، قم، چھاپ دوم، 1368ش۔

22۔حیات فکری وسیاسی امامان شیعہ،رسول جعفریان،انصاریان،قم،چھاپ پنجم، 1323ق۔

23۔خدا،انسان،جہان در نہج البلاغہ، محمد تقی جعفری (علامہ)، مقالہ بنیادنہج البلاغہ،تہران، بی تا۔

24۔الدلیل الی موضوعات الصحیفۃ السجادیہ،محمد حسین مظفر، جامعہ مدرسین،قم، 1362ش۔

ص: 176

25۔الذریعۃ الی ٰ تصانیف الشیعہ،محمدحسن تہرانی(آغا بزرگ)مطبعۃ القضاء،نجف، 1378ق۔

26۔رجال النجاشی، احمدنجاشی، جامعہ مدرسین، قم، بی تا۔

27۔زندگانی تحلیلی پیشوایان ما، ادیب عادل، ترجمہ: اسداللہ مبشری، دفتر نشرفرہنگ اسلامی، تہران، 1361ش۔

28۔شرح الصحیفۃ السجادیۃ، سید محمد باقر استرآبادی ( میرداماد)، تحقیق سید مہدی رجائی، نشر مہدیہ میرداماد، اصفہان،1406ق۔

29۔الصحیفۃ الثالثہ السجادیۃ،عبداللہ افندی اصفہانی، نشر مکتبۃ الثقلین،قم،1400ق۔

30۔الصحیفۃ الخامسۃ السجادیۃ، سید محسن عاملی (امین ) مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین علیہ السلام، اصفہان 1371ش۔

31۔الصحیفۃ الرابعۃ السجادیۃ،حسین نوری، مکتبۃ الثقلین، قم، چھاپ اول، 1398ش۔

32۔الصحیفۃ السجادیۃ عن نسخۃ عتیقۃ کتب عام 416ق،تحقیق:کاظم مدیرشانہ چی،بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس،مشہد،چھاپ اول، 1371ش۔

33۔الطبقات الکبیر، محمدابن سعد واقدی، تصحیح: ادوارسخو، مؤسسہ نصر، تہران، بی تا۔

34۔عوالم العلوم والمعارف و الاحوال، عبداللہ بحرانی اصفہانی، مدرسۃ الامام المہدی عج، قم، چھاپ اول، 1366ش۔

35۔الغدیر،عبدالحسین امینی ( علامہ) دارالکتاب العربی، بیروت، چھاپ پنجم، 1403ق۔

36۔غررالحکم ودررالحکم، عبدالواحد آمدی، ترجمہ محمد علی انصاری، بی، تہران، 1335ش۔

37۔الفروق اللغویۃ، ابی ہلال عسگری، مکتبۃ بصیرتی، قم،1353ش۔

ص: 177

38۔فرہنگ جامع، احمدسیاح، کتابفروشی اسلام، بی جا، چھاپ14، بی تا۔

39۔الفہرست ،محمدا بن حسن طوسی ( شیخ) بی نا، بی جا، بی تا۔

40۔فی ظلال الصحیٖفۃ السجادیۃ، محمد جواد مغنیہ، تحقیق سامی الغریری، دارالکتاب اسلامی،چھاپ اول، بی جا، 1423ق۔

41۔قاموس الصیحفۃ ، سید ابوالفضل حسینی، بی نا، بی جا، 1398ق۔

42۔مجمع البحرین، فخرالدین طریحی، المکتبۃ المرتضویہ، تہران، چ 2، 1395ق۔

43۔مجمع البیان فی تفسیر القرآن، فضل ابن حسن طبرسی، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی، قم،1403ق۔

44۔المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، محمد فواد عبدالباقی، اسماعیلیان، قم، بی تا۔

45۔معجم مقاییس اللغۃ، احمد ابن فارس،تحقیق:عبدالسلام ہارون، دفترتبلیغات اسلامی،قم، 1404ق۔

46۔مفاتیح الجنان، عباس محدث قمی، بی نا، بی جا، بی تا۔

47۔المفردات فی غریب القرآن، حسین ابن محمد اصفہانی (راغب )،المکتبۃ المرتضویۃ، تہران، بی تا۔

48۔نورالانوارفی شرح الصحیفۃ السجادیۃ، سید نعمت اللہ جزایری، بی نا، چھاپ سنگی، بی جا، 1316ق۔

ص: 178

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109