شناخت: خدامیان آرانی، مہدی، 1353 -
مصنف کا عنوان اور عنوان: داستان ظہور:ظہور امام زمان علیه السلام کی برکات / مہدی خدامیان آرانی.ترجمہ: مولانا صادق عباس
اشاعت کی تفصیلات: لاہور: موسسۃ آل البیت علیه السلام ، 1397.
ظہور: [136] پی ٹیبل: 14.5 × 21.
فراسٹ: کاموں کا مجموعہ؛ 2.
آئی ایس بی بی: 50000 Rials978-600-8449-21-8:
فہرست کی حیثیت: FAPA (پانچویں ایڈیشن)
نوٹ: پچھلا پرنٹ: وسط، 1392.
نوٹ: پانچویں ایڈیشن.
نوٹ: بائبلگرافی: پی. [135] - 136.
ایک اور عنوان: وقت کے امام کی آمد کی خوبصورتی، عجلالله تعالی فرجه الشریف.
موضوع: محمد بن حسن (اے آر)، بسم اللہ امام، 255 ھ. کہانی
موضوع: محمد بن حسن، امام علیہ السلام - فکشن
موضوع: Muhammad ibn Hasan, Imam XII -- Fiction
موضوع: مہدیزم - پیدائش
کانگریس کی درجہ بندی: BP224 /خ34د2 1396
کی درجہ بندی دیویی: 297/462
قومی کتابچہ نمبر: 4746770
ص:1
داستان ظہور:(ظہور امام زمان علیه السلام کی برکات)
تالیف: ڈاکٹر مھدی خدامیان آرانی
ترجمہ: مولانا صادق عباس
پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن
ناشر:موسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور
ص:2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں
تالیف: ڈاکٹر مھدی خدامیان آرانی
ترجمہ: مولانا صادق عباس
پروف ریڈنگ:مقصودحسین علوی
پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن
ناشر:مئوسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور
تاریخ اشاعت: شعبان المعظم 1439 ہجری
ص:3
سخن مترجم5
سخن مئولف8
مکہ کا چاند کعبہ کی طرف آرہا ہے9
سید محمد شہید ہونا16
آباد گھر کہاں ہے 22
تین سو تیرہ افراد آجاتے ہیں28
پرچم جو کہ بولتا ہے34
تلوار کہ پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردے43
کعبہ کے پاس کیا ہورہا ہے50
شیطان کی آواز کاسنائی دینا54
لشکرسفیانی کا زمین میں دھنس جانا57
دس ہزار کے لشکر کا آنا63
ناصرین امام علیه السلام67
نہ جلنے والا لباس اور حیرت انگیز عصا71
ص:4
ہزاروں فرشتوں کا مدد کےلئے آنا78
وہ کہ جو دوبارہ زندہ ہوئے84
لشکرامام زمانہ علیه السلام کا نعرہ ؟88
زخمیوں کی طبی امداد92
اس بڑے پتھر کو لائو95
لشکر امام کا مکہ واپس لوٹنا98
مہتاب کے دشمنوں سے انتقام102
کوفہ کی جانب104
سفیانی کا توبہ کرنا109
ایک سخت جنگ کا سامنا113
فلسطین کی طرف روانگی118
کوفہ کی طرف واپسی127
زمین پر جنت131
آخری بات136
ص:5
اقوام عالم ایک منجی عالم بشریت کے انتظار میں ہیں ۔اور ہر کوئی اپنے عقیدے اور فہم وفراست کے مطابق اپنی مشکلات کے حل کے کسی ہستی کے منتظر ہیں کہ جس کے آنے سےزندگی میں بہتری آئے گی ۔
امت مسلمہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت امام مھدی آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ فرمائیں گے ،ان کے ظہور کے بعد پوری دنیا پر اسلام کی حکومت ہوگی اور دنیا حقیقی امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گی۔
اسلامی کتب تاریخ واحادیث میں اس کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے ۔ لیکن اسلامی متون سے زمانہ ظہور کو اس طرح سے نکالنا کہ پڑھنے والوں کوبوریت بھی محسوس نہ ہو اور زمانہ ظہور کا اشتیاق بھی بڑھے جناب آقائے ڈاکٹر مھدی خدامیان آرانی کا خاصہ ہے کہ وہ اتنی خوبصورت منظر کشی کرتے ہیں، کہ پڑھنے والا تاریخ اور مستقبل میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے ۔اور حال میں اپنے آپ کو اس کی آمادگی کے لئے تیار کرتاہے۔
ص:6
کتاب حاضر بھی مصنف کی ان تصانیف سے ہے کہ جسے تمام لوگ بالخصوص نوجوان پڑھنا چاہتے ہیں ۔اور امیدوں کے اس مرکز کے زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
چونکہ موضوع اتنا وسیع ہے لہذا ہرواقعہ کو ایک مختصر سی کتاب میں سمویا بھی نہیں جاسکتا ،اور اگر اس کے بارے میں مصنف کی نظر میں تاریخی حوالاجات بھی نہ ہوں تو وہ اس کو ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داستان ظہور پر یہ ایک نہ تو جامع کتاب ہے اور نہ ایک کتاب ہوسکتی ہے پس اس کو پڑھنے سے انسان یہ دعا کرسکتا ہے کہ اسے بھی زندگی میں یہ ایام دیکھنے کو ملیں جس میں خدا کی سرزمین پر خدا کی حکومت اور خداکے منتخب کردہ شخصیات کی حکومت ہو۔
اس کتاب کی تدوین واشاعت میں الفاطمہ ہاؤس کی تعمیر وترقی ،آبادکاری میں حصہ لینے والے اور نمازی حضرات کی دعا ؤں کا خاص اثر ہے کہ جس کی بدولت بندہ ناچیز کو توفیق نصیب ہوئی ہے کہ یہ کتاب حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ولادت باسعادت کے پر مسرت موقع پر
ص:7
مکمل ہوسکی۔اور جناب ظل جعفر زیدی صاحب کی حوصلہ افزائی سے اس کی اشاعت کے مقدمات فراہم ہوسکے ۔خدا وند منان ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
قارئین سے التماس ہے کہ ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کا ثواب جملہ مومنین ومومنات بالخصوص بیگم و سید غلام عباس زیدی،بیگم و سید ناظر حسین ،شہید سید فاضل حسین۔شہید سید عادل حسین سید جمیل حسین ولد سید غلام عباس،بیگم و سید ،مختاراحمد زیدی،بیگم و سید انصار احمد زیدی،بیگم و سید غلام اصغر زیدی،ارجمند خاتون بنت محمد احسن،سید رضی الحیدر زیدی ،سید وصی حیدر زیدی،بیگم و سید انصار رضا زیدی،سید محمد رضا زیدی،سید وقار حیدر ولد سید ذوالفقار حیدر،علامہ سید اظہر حسن زیدی کی روح کو ہدیہ فرمادیں ۔ آمین یارب العالمین
صادق عباس
خطیب و امام جمعہ الفاطمہ ہاﺅس
واپڈا ٹاﺅن
ص:8
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرا ایک دوست سفر پر گیا تھا، میں اس کامنتظر تھا، آپ اس کے منتظر تھے، وہ بھی منتظر تھا!
سب بہار کی آمد کے منتظر تھے اور اسے دیکھنے کےلئے، لمحات گن رہے تھے۔ میں نے قلم کو ہاتھ میں لیا؛ ایک سال ،سینکڑوں کتابوں میں اپنے گمشدہ کو ڈھونڈتا رہا۔
میں چاہتا ہوں اس کے آنے کی تصویر کشی کروں ؛ وہ تصویر کہ جو معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوئی ہیں وہ خوبصورت تصویر جو آپ کو اس کے آنے کا دیوانہ کر دے۔
آپ کے لیے اس کتاب کو لکھنے کےلئے سو سے زائد کتب کا مطالعہ کیا اب آپ کی باری ہے کہ اس کتاب کو پڑھیں تاکہ آپ کے دل میں ظہور امام کے شوق میں اضافہ ہو اور یاد رکھیں کہ آپ کا ظہور کتنے ہی دلوں کو اُمیدوار بنا دیتا ہے۔ مھدی خدامیان آرانی، قم المقدس
ص:9
اس کتاب کو کیوں ہاتھ میں لیا ہے اور کس انگیزہ سے اس کا مطالعہ کر رہے ہیں؟
کیا جانتے ہیں کہ میں آپ کو ایک دور دراز سفر میں لے کر جا رہا ہوں؟
اے میرے بہترین ہمسفر! آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ مستقبل میں چلیں! وہ مستقبل کہ جسے سب دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں آپ کو اس دور میں لے کر جا رہا ہوں کہ جب امام زمانہ علیه السلام ظہور کریں گے؛ جی ہاں! میری بات زمانہ ظہور سے متعلق ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ اس زمانہ کے حالات کو آپ کے لیے بیان کروں، کیا تیار ہیں؟
یقینا کئی بار سنا ہے کہ خدا کا وعدہ بہت نزدیک ہے۔ پس اٹھو اور میرے ساتھ مکہ چلو ۔۔۔
آج 20 ذی الحج ہے۔
ص:10
میں اور آپ شہر مکہ میں کعبہ کے پاس کھڑے ہیں ظہور امام تک چند دن باقی ہیں۔
امام زمانہ دس محرم الحرام کو کعبہ میں ظہور کریں گے۔(1)
دیکھو دیکھو! کعبہ کس قدر خوبصورت جلوہ دکھا رہا ہے!
کیا کعبہ کا طواف کرنا چاہیں گے؟
ارے مسجد الحرام اتنی خالی خالی کیوں ہے؟
سنا ہے کہ خانہ خدا میں بہت جمع غفیر ہوتاہے کبھی بھی خانہ خدا میں خلوت (ہجوم کا نہ ہونا) نہیں ہوتی۔
آج جگہ اتنی خالی خالی کیوں ہے؟
کیا لوگوں کا کعبہ سے عشق و محبت کم ہو گیا ہے۔
مکہ امن کا گھر ہے؛ لیکن آج ”سفیانی“ کے سپاہیوں نے اس شہر کا محاصرہ کیا ہوا ہے اسی وجہ سے شہر میں بہت تھوڑے لوگ ہیں۔(2)
اے میرے ہمسفر! کیا ”سفیانی“ کو جانتے ہیں؟
ص:11
کیا اس کے بارے میں آپ کو کچھ بتاﺅں؟
”سفیانی“امام زمانہ علیه السلام کے دشمنوں میں سے ایک ہے اور اس کا قیام ظہور امام کی علامات میں سے بیان ہوا ہے۔(1)
تقریباً پانچ ماہ قبل اس نے Syria(شام) میں فوجی انقلاب برپا کیا ہے اور اس ملک کی حکومت پہ قبضہ کیا ہے۔ پھر عراق پہ حملہ کیا اور شہر کوفہ پر قبضہ کرلیا اور اس شہر میں بہت زیادہ خون خرابہ کیا اور بہت سے بے گناہ شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔(2)
سفیانی نے ایک لشکر مدینہ بھیجوایا ہے اور اس شہر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اب سفیانی شہر مکہ پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے؛ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ امام زمانہ علیه السلام اسی شہر سے ظہور کریں گے۔
اس نے حکم دیا ہے کہ کچھ سپاہی مکہ جائیں اور اس شہر کا محاصرہ کر لیں۔ اب شہر مکہ سفیانی کے قبضہ میں ہے۔
میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو رہا ہے کہ امام زمانہ علیه السلام اور ان کے ساتھی کیسے اس شہر کا محاصرہ توڑیں گے؟
ص:12
سفیانی کی فوج بڑی سختی سے آنے جانے والے راستوں کو کنٹرول کررہی ہے۔ تیار ہو جاﺅ۔
ہمیں بھی شہر سے نکل جانا چاہیے ، اوراس جگہ جانا چاہیے کہ جہاں سے چاند اس شہر میں داخل ہو گا۔ وہاں دیکھو!
کیا اُس تیس سالہ جوان کو دیکھ رہے ہو شکل و صورت سے ایک چرواہا لگتا ہے؟ اس کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی ہے آہستہ آہستہ سفیانی کی فوج کے درمیان سے گزر رہا ہے، بڑی عجیب بات ہے!
سفیانی کی فوج تو کسی کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی کیوں اس جوان کو روک نہیں رہے؟
نہیں جانتا اسے پہچانا یا نہیں؟
میری جان اس پہ قربان!
یہ جوان، وہی میرے اور آپ کے مولا ہیں کہ جو حکم خدا سے ایک چرواہے کی شکل میں شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔(1)
ص:13
وہ دور سے آ رہے ہیں۔ وہ یمن سے مدینہ گئے حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے شہر میں قیام کیا اور مدینہ پر سفیانی کے حملہ کی وجہ سے وہاں سےنکلے ہیں اور اب مکہ پہنچے ہیں۔(1)
اُن کی نورانی صورت چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی ہے۔(2)
ان کے دائیں جانب دیکھو ان کی گالوں پر ایک تل ،ستارے کی طرح چمک رہا ہے۔(3)
یہ جوان حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے فرزند ہیں آئے ہیں تاکہ اپنے نانا کے دین کو زندہ کریں۔(4)
امام زمانہ شہر مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور اس شہر کے پہاڑوں میں قیام کرتے ہیں۔
شہر مکہ، خدا اور کعبہ کا شہر، اور خدا پرستی کا محور ہے چونکہ امام کا مقصد کفر کا خاتمہ ہے اسی لیے وہ اپنی تحریک کا آغاز مکہ سے کرتے ہیں۔
ابھی امام زمانہ علیه السلام کے ظہور میں کچھ وقت باقی ہے امام پہلے مکہ اس لیے آئے ہیں تاکہ ابتدائی کاموں کو انجام دے سکیں۔
ص:14
ص:15
ص:16
آج پچیس ذی الحج ہےامام زمانہ علیه السلام علیه السلامکے ظہور میں پندرہ دن باقی ہیں۔
اے میرے پیارے ہمسفر! کیا آپ اتفاق کرتے ہیں کہ ”کوہ ذی طویٰ“ کے اطراف میں جائیں؟(1)
یقینا دعائے ندبہ میں اس جملہ کو بہت زیادہ پڑھا ہو گا۔
" ابرضوی امام عندھا ام ذی طویٰ"
اب اٹھو کوہ ذی طویٰ چلتے ہیں جب کعبہ سے مدینہ کی طرف پانچ کلو میٹر چلتے ہیں تو اس پہاڑ کے پاس پہنچتے ہیں۔
دیکھو! امام کے دس اصحاب اس پہاڑ پر جمع ہوئے ہیں۔(2)
شاید کہیں امام کے تو تین سو تیرہ اصحاب ہیں پس یہ دس افراد ہی کیوں؟
یہ افراد امام کے خاص افراد ہیں جو پہلے امام کی خدمت میں پہنچے ہیں۔
لیکن وہ تین سو تیرہ افراد چودہ دنوں کے بعد مکہ آئیں گے۔
ص:17
امام زمانہ کوہ ذی طویٰ پر کھڑے ہیں اور منتظر ہیں کہ خدا کی طرف سے انہیں ظہورکی اجازت ملے۔(1)
کیا جانتے ہیں ،کہ جوعباامام زمانہ علیه السلام علیه السلامکے کندھوں پر ہے ،یہ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی عباہی ہے؟
آپ کے سر پر جو عمامہ دیکھ رہے ہیں یہ وہی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کا عمامہ ہے۔(2)
سنو!
امام زمانہ اپنے اصحاب سے کہتے ہیں: ایک شخص کو مکہ بھیجنا چاہتا ہوں۔(3)
ایک بہت اہم کام ہے۔
کون امام زمانہ علیه السلام کا نمائندہ بن کر مکہ کے لوگوں کی طرف جائے گا؟
اب امام اپنے ایک چچا زادبھائی کا اس اہم کام کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا نام ”سید محمد“ ہے امام انہیں حکم دیتے ہیں کہ مکہ کے لوگوں کے پاس جاﺅ اور انہیں میرا پیغام پہنچاﺅ۔
ص:18
کیا اس پیغام کو سننا چاہتے ہیں؟
غور سے سنو! امام کا پیغام یہ ہے۔ ” میں مہربان خاندان اور نسل پیغمبر سے ہوں اور آپ کو خدا کے دین کی نصرت کی دعوت دے رہا ہوں اے مکہ کے لوگوں میری مدد کرو“۔(1)
آپ تو جانتے ہیں کہ امام زمانہ علیه السلام کو مکہ کے لوگوں کی مدد کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ظہور کا وقت نزدیک ہے جلد ہی خدا کا وعدہ پورا ہو گا اور لاکھوں فرشتے ان کی مدد کو آ جائیں گے۔
پس امام مکہ کے لوگوں سے کیوں مدد مانگ رہے ہیں؟
امام انہیں دعوت دے رہے ہیں تاکہ راہ راست کی ہدایت پا جائیں تو اس صورت میں اس شہر میں کسی کا خون نہ بہے گا۔
جی ہاں! وہ مہربان امام ہیں اور اسی لیے تمام صداقت سے مکہ کے لوگوں کو نصرت کی دعوت دے رہے ہیں۔
دیکھو! سید محمد جانے کے لیے تیار ہیں وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کیونکہ انہیں ایک اہم ذمہ داری دی گئی ہے۔
ص:19
وہ اپنے امام اور دیگر ساتھیوں سے خدا حافظی کرتے ہیں اور مسجد الحرام کی طرف جاتے ہیں۔
میں تھوڑا سا پریشان ہوں مکہ کے لوگ اس جوان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟
چند گھنٹوں کے بعد بھی سید محمد کی کوئی خبر نہیں آ رہی میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خدایا سید محمد نے کیوں دیر کر دی ہے؟
کچھ دیر کے بعد ایک شخص نہایت پریشان حالت میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے وہ آ کر بتاتا ہے کہ سید محمد مسجد الحرام میں داخل ہوئے آپ کا پیغام مکہ کے لوگوں کو پہنچایا لیکن مکہ کے لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں کعبہ کے پاس شہید کر دیا۔(1)
آخر کس جرم میں قتل کیا؟
کیا یہ شہرامن ،حرم الٰہی نہیں ہے؟ کیا یہاں پر حیوانات تک کو بھی امن حاصل نہیں ہے؟
ص:20
امام کے نمائندہ نے لوگوں سے کیا کہہ دیا ہے کہ اس کو مظلومانہ انداز میں قتل کر دیا ہے؟
یہ وہی شہید ہیں کہ جنہیں احادیث میں (نفس ذکیہ) کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔یقینا اس کا معنی جاننا چاہتے ہیں؟
نفس ذکیہ یعنی بے گناہ اور پاک شخص جو مظلومانہ قتل کیا جائے۔(1)
ص:21
ص:22
یہ مکہ ہے شب نہم محرم،
عالم تشیع حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب بادفاکی شہادت کا غم منا رہا ہے۔ طے پایا ہے کہ خدا کی طرف سے اجازہ ظہور دیا جائے لیکن اس کام کو خاص پراہتمام سے انجام دیا جائے گا۔
ظہور کی اجازت کے بعد سیاہی و تاریکی کی حکومت کا خاتمہ ہو گا اور روشنائی کا سورج طلوع ہو گا۔
آج کی رات انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں خدا کا حکم صادر ہوتا ہے اگرچہ ہم ابھی تک مکہ میں خانہ خدا کے پاس ہیں لیکن آج رات چوتھے آسمان کی طرف سفر بھی کرنا ہے۔
ارے چوتھے آسمان پر کیا ہو رہا ہے؟ صبر کرو ابھی بتاتا ہوں۔
ہمیں ” بیت المعمور“ کے پاس بھی جانا ہے۔
یقینا کہیں گے کہ بیت المعمور کہاں ہے؟
ص:23
جس طرح ہم کعبہ کو خدا کا گھر سمجھتے ہیں اس کا طواف کرتے ہیں۔ خدا نے اس کعبہ کے اوپر چوتھے آسمان پر بھی ایک گھر بنایا ہے جہاں فرشتے طواف کرتے ہیں۔(1)
” بیت المعمور" یعنی "آباد گھر"امام زمانہ علیه السلام کے ظہور کی اجازت اسی گھر سے صادر ہو گی اور تمام دنیا آباد ہو جائے گی اسی لیے دنیا کی آبادی "آباد گھر " (بیت المعمور) سے شروع ہو گی۔
بس آج کی رات میرے ساتھ چوتھے آسمان پر بھی جانا ہو گا۔
یقینا جانتے ہیں کہ خدا نے قرآن کریم میں سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ ہم ابھی چوتھے آسمان پر جانا چاہتے ہیں۔
اچھا دیکھو! کیا دیکھ رہے ہو؟ تمام انبیاءیہاں جمع ہیں یہاں پر آپ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں پر کچھ مومنین بھی ہیں۔
تمام انتظار کر رہے ہیں سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
ص:24
ادھر دیکھو، کیا دیکھتے ہیں۔
فرشتے چند نورانی منبر وں کو ” بیت المعمور“ کی طرف لا رہے ہیں۔(1)
اچھی طرح دیکھو کتنے نورانی منبر ہیں ان منبروں کی تعداد کتنی ہے؟
درست ہے چار نورانی منبر ہیں!
حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم، حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام کو دیکھو کس انداز سے ان منبروں پر بیٹھے ہیں۔
مومنین، فرشتوں اور انبیاءمیں کتنا شوق و اشتیاق ہے۔
اسی دوران آسمان کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔(2)
حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم دعا کرنا چاہتے ہیں اپنے خدا کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہیں۔ تمام فرشتے، انبیاءان کے ساتھ ہمنوا ہوجاتے ہیں۔
غور سے سنو آپ بھی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی با ت سن سکتے ہیں۔
ص:25
حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اس طرح فرماتے ہیں: خدایا تو نے اپنے نیک بندوں کو زمین پر حکومت کا وعدہ کیا ہے اس وعدہ کو پورا کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔(1)
تمام فرشتے، انبیاءبھی اس بات کو زمزمہ کرتے ہیں۔
دیکھو حضرت پیغمبر اکرم، امام علی ، امام حسن و امام حسین علیہم السلام منبروں پر ہی سجدہ میں چلے گئے ہیں۔ وہ سجدہ میں یوں کہتے ہیں: خداوندا! ظالموں پر سختی فرما کیونکہ انہوں نے تیری حدود کو توڑا ہے تیرے دوستوں کو قتل اور اچھے لوگوں کو ذلیل کیا ہے۔(2)
اے میرے پیارے ہمسفر! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان باتوں سے کیا مراد ہے۔ جب خانہ وحی خدا کو آگ لگائی گئی دختر رسول کو شہید کیا گیا اس دن خدا کی حرمت ٹوٹ گئی۔
جس دن امام حسین پیاسے شہید کیے گئے اہل ایمان کی ذلت شروع ہو گئی۔ جی ہاں حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلماچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح خدا سے اذن ظہور لینا ہے۔ یہ جان کر آپ کو عجیب لگے گا کہ آنحضرت
ص:26
کے منبر پر آنے سے قبل خداوند عالم ایک فرشتہ کو آسمان سے دنیا پر بھیجتا ہے۔(1)
میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اس کام کی علت کو سمجھوں۔
جی ہاں! حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اس وقت تک منبر سے نیچے نہیں آتے جب تک امام زمانہ علیه السلام کو اذن ظہور نہ ملے۔
اور خداوندعالم نے بھی اپنے حبیب کی خوشی کے لیے فرشتہ کو پہلے آسمان دنیا پر بھیجا تاکہ جونہی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی دعا تمام ہو یہ فرشتہ جتنی جلدی ممکن ہو سکےامام زمانہ علیه السلام کو حکم ظہور کا حکم نامہ دے سکے۔
حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے اس سجدہ میں اس طرح خدا سے بات کی اور اپنے دل سےغم کو نکالا کہ جس کے بعد ظہور میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جا سکتی۔
ص:27
ص:28
اگر غور کریں تو دیکھیں گے کہ مکہ کے لوگ کسی اہم مسئلہ کے بارے میں آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔
کیا آپ بھی چاہتے ہیں ان کی باتوں سے آگاہی حاصل کریں؟
کل رات تین سو تیرہ افراد مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور صبح تک مشغول عبادت رہے۔(1)
وہ مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور تمام نگاہوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیاہے۔(2)
مکہ کے لوگ تعجب کرتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کیسے اپنے آپ کو مکہ پہنچایا ہے کیونکہ شہر مکہ کا سفیانی کی فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے۔(3)
عجیب ہے کہ ان تمام جوانوں کا لباس بھی ایک جیسا ہے۔
ص:29
سب کی قد و قامت بھی ایک جیسی ہے، جیسے کوئی فوجی دستہ ہو ہر لحاظ سے منظم، جو کوئی بھی ان کو دیکھتا ہے مبہوت ہو جاتا ہے۔(1)
ان جوانوں کا مکہ میں آنا ایک راز ہے کہ کوئی نہیں جانتا۔
یہ جوان دنیا کے مختلف حصوں سے ایک لمحہ میں مکہ پہنچ جاتے ہیں۔
وہ، حکم خدا سے ” طی الارض“ کے ذریعہ مکہ آئے ہیں۔
شاید پوچھیں کہ طی الارض کیا ہے؟
اگر ایک لمحہ میں بغیر کوئی وسیلہ نقلیہ استعمال کرتے ہوئے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں تو اس کو طی الارض کہا جاتا ہے۔
جی ہاں! اصحاب امام زمان حیرت انگیز معجزت رونما کرتے ہوئے مکہ آئے ہیں۔
جی ہاں امام زمانہ علیه السلام کا ظہور ان تین سو تیرہ افراد سے وابستہ ہے ، خدا کاارادہ یہ تھا کہ وہ ایک لمحہ میں مکہ میں جمع ہوجائیں۔(2)
ص:30
جو کوئی بھی خدا کے اسم اعظم کو جانتا ہو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔امام زمان خدا کو اس اسم اعظم کی قسم دیتے ہیں ،تین سو تیرہ اصحاب پلک جھپکتے ہی مکہ میں جمع ہوجاتے ہیں۔(1)
اب آپ اس راز سے آگاہ ہو گئے ہیں لیکن مکہ کے لوگوں کا تعجب باقی ہے۔ وہ مسجد الحرام میں جمع ہو کر ان کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں: کہ کیسے یہ جوان مکہ میں داخل ہوئے ہیں؟
اس طرف دیکھو! وہ شخص عمائدین مکہ کی طرف جا رہا ہے وہ کون ہے؟ اور کیوں لوگوں کو چیرتا ہوا جا رہا ہے؟
وہ براہِ راست گورنر مکہ کے پاس جاتا ہے سلام کرتا ہے اور کہتا ہے:
کل رات عجیب و غریب خواب دیکھا ہے اس لیے بہت ڈرا ہوا ہے۔ (2)
گورنر مکہ اس کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے: ”اپنا خواب مجھے بتاﺅ“۔
وہ شخص اس طرح کہتا ہے: خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بادل ظاہر ہوا اور آہستہ آہستہ زمین کی طرف آ رہا ہے یہاں تک کہ کعبہ میں پہنچ جاتا ہے
ص:31
ان بادلوں میں دیکھا ہے جن کے سبز پر ہیں کافی دیر تک کعبہ کا طواف کرتے ہیں پھر شرق و غرب عالم کو پرواز کر جاتے ہیں۔ (1)
جو کوئی بھی اس بات کو سنتا ہے سوچ میں پڑھ جاتا ہے۔
کیا اس خواب اور ان تین سو تیرہ افراد کے گروہ میں کوئی ربط ہے؟
شہر مکہ میں ایک شخص ہے کہ جو خواب کی تعبیر بتاتا ہے اس سے پوچھتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر بتاﺅ۔
وہ تھوڑی دیر سوچتا ہے پھر کہتا ہے: خدا کے لشکروں میں سے ایک لشکر اس شہر میں داخل ہو گیا ہے اور آپ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔(2)
مکہ کےتمام لوگ سوچ میں گم ہو جاتے ہیں جی ہاں، یہ لشکر وہی جوان ہیں کہ جو کل رات مکہ میں داخل ہوا ہے۔
فطری ہے کہ مکہ کے لوگوں کو ان جوانوں پر غصہ آئے؛ کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ اہل بیت علہیم السلام اور ان کے پیروکاروں کو تمام دنیا پر عزت دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مکہ کے لوگ پہلا فیصلہ کیا کریں گے؟
ص:32
آپ نے صحیح گمان کیا وہ ان تین سو تیرہ افراد کو گرفتار کریں گے لیکن خدا ان کے دلوں پر خوف مسلط کر دے گا۔
مجھے ان لوگوں کی سادہ لوحی پر ہنسی آتی ہے کہ اب بھی شیعہ دشمنی کی سوچ رکھتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ اب شیعہ کی مظلومیت کا دور ختم ہو گیا ہے۔
بزرگان مکہ میں سے ایک شخص ان کے اضطراب کو دیکھتے ہوئے کہتا ہے جن جوانوں کو میں نے دیکھا ہے ان کے چہرے نورانی اور اہل عبادت ہیں انہوں نے ابھی تک کوئی غلط کام ہی نہیں کیا تو کیوں ڈر رہے ہیں؟(1)
مکہ کے لوگ غروب آفتاب تک ان جوانوں کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس قدر ڈرتے ہیں کہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ رات ہو جاتی ہے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔(2)
ص:33
ص:34
شب عاشور ہے اور کل امام زمانہ علیه السلام ظہور کریں گے!
آج کی رات زمانہ غیبت ختم ہو جائے گا شہر مکہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن کعبہ کے اطراف نور ہے آج کی رات کوئی بھی مسجد الحرام نہیں آیا۔ (1)
اس جوان کو دیکھ رہے ہیں جو کعبہ کی دیوار کے ساتھ دعا میں مشغول ہے نہیں جانتا وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے۔
کیا چاہتے ہیں کہ اس کے نزدیک ہو کر اسے دیکھیں؟
وہ امام زمانہ علیه السلام ہیں کہ کعبہ کے پاس دعا میں مشغول ہیں اور اپنے خدا کے ساتھ راز و نیاز کر رہے ہیں۔
کیا جانتے ہیں کہ حقیقی مضطر وہ ہے کہ جس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے ظاہر کی خدا اصلاح کرتا ہے۔(2)
ص:35
خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: امن یجیب المضطر اذا دعا ہ و یکشف السوء
کون مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی سختیوں کو دور کرتا ہے۔(1)
اب آپ سے ایک اہم سوال پوچھتا ہوں: کیا جانتے ہیں کہ امام زمانہ علیه السلام کیسے سمجھتے ہیں ان کی دعا قبول ہوئی ہے؟
وہ کیسے سمجھیں کہ قیام کریں؟
کیا جانتے ہیں کہ غیبت کے اختتام آخری لمحات میں کون سے حوادث رونما ہوں گے؟
اگر غور کریں تو دیکھیں گے کہ امام کے ساتھ ایک پرچم بھی ہے۔(2)
میرے خدایا! وہ پرچم خود بخود کھل رہا ہے۔(3)
اس پرچم پر لکھا ہے ”البعة للّٰہ“ یعنی جو کوئی بھی اس پرچم کی بیعت کرے گا درحقیقت وہ خدابیعت کی کرے گا۔(4)
ایک آواز کانوں میں آ رہی ہے یہ کس کی آواز ہے؟
ص:36
امام دعا میں مصروف ہیں کوئی شخص بھی وہاں پر نہیں ہے پس یہ کون بول رہا ہے؟
اے ولی خدا قیام کریں!
میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہوں شاید اس بولنے والے کو دیکھ سکوں۔ عجیب! یہ وہی پرچم ہے کہ جو خدا کی قدرت سے بول رہا ہے۔
میرے ہم سفر! تعجب نہ کریں کیاامام زمانہ علیه السلام کا مقام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ نہیں ہے؟
کیا درخت خدا کے حکم سے نہیں بولتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام نہ ہوتے تھے؟
یہاں یہ پرچم بھی خدا کے حکم سےامام زمانہ علیه السلام سے بات کرے گا۔
امام کی تلوار کو دیکھو خود بخود غلاف سے باہر آ رہی ہے اور امام کے ساتھ بات کرتی ہے: اے ولی خدا قیام کریں۔(1)
دیکھو مسجد الحرام کس قدر نورانی ہو گئی ہے!
ص:37
کتنا خوبصورت سماں ہے فرشتے گروہ در گروہ آ رہے ہیں ان کے درمیان وہ فرشتے بھی ہیں جنہوں نے جنگ بدر میں حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی مدد کی تھی۔(1)
مسجد فرشتوں کی طولانی صفوں سے بھر جاتی ہے ان کے درمیان خدا کے دو بڑے فرشتے جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام بھی موجود ہیں۔
جبرائیل علیہ السلام کمال احترام سے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے میرے سیدو سردار! اب آپ کی دعا قبول ہو گئی ہے۔(2)
یہاں پرامام زمانہ علیه السلام اپنے ہاتھ کو چہرے پر پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
” خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں کہ جس نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اور ہمیں زمین کا وارث قرار دیا“ (3)
امام جبرائیل علیہ السلام کی بات سننے کے بعد کس طرح خدا کی حمد و شکر بجا لاتے ہیں۔
ص:38
پس مجھے اور آپ کو بھی خدا کا شکر بجا لانا چاہیے کہ غیبت کے دور کا خاتمہ ہوا اور ظہور کی صبح طلوع ہوئی۔
آپ کی نظر میں ظہور کے وقت امام کا پہلا کام کیا ہے؟
جواب ایک کلمہ سے بڑھ کر نہیں نماز
جی ہاں! امام خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہیں۔(1)
شاید امام اجازہ ظہور کے بعد بطور شکرانہ نماز پڑھتے ہیں اور شاید وہ نماز کے ساتھ خدا سے مدد طلب کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک بہت طولانی راستہ ہے کہ جہاں خدا کی مدد کی ضرورت ہے جب نماز مکمل ہو جائے گی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے ساتھیوں کو بلائیں گے:
اے میرے ساتھیو! اے وہ جنہیں خدا نے میرے ظہور کے لیے ذخیرہ کیا ہے میرے ساتھ آ جاﺅ۔
دیکھو، دیکھو!
اصحاب امام ایک کے بعد ایک خود کو مسجد الحرام میں پہنچا رہے ہیں۔
وہ سب کعبہ کے دروازے کے پاس جمع ہو رہے ہیں۔
ص:39
اب امام دیوار کعبہ کے ساتھ کھڑے اپنے اصحاب کے ساتھ پہلا خطاب فرمائیں گے۔
آپ اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں:
بقیة اللّٰہ خیر لکم ان کنتم مومنین (سورہ ھود،آیت 86(
پھر فرماتے ہیں :" میں بقیۃ اللہ ہوں اور حجت خدا ہوں"(1)
میں جانتا ہوں کہ آپ بقیة اللہ کا معنی جاننا چاہتے ہیں۔
یقینا جانتے ہیں کہ بعض افراد نے قیمتی اشیاءکو جمع کیا ہوتا ہے اور انہیں محفوظ جگہ پر رکھا ہوتا ہے وہ چیزیں ان کا ذخیرہ ہوتی ہیں۔ خدا نے بھی اپنے لیے ذخیرہ جمع کیا ہے، اس نے لوگوں کو ہدایت کے لیے بہت سے انبیاءکو بھیجا۔ تمام انبیاءنے اپنی سعی و کاوش انجام دی لیکن الٰہی حکومت تشکیل نہ پا سکی کیونکہ لوگوں کی آمادگی نہ تھی۔
امام زمانہ خدا کے ذخیرہ ہیں تاکہ پوری دنیا پر خدا کی حکومت قائم کریں۔
جی ہاں، امام بقیة اللہ ہیں وہ خدا کا ذخیرہ ہیں وہ تمام انبیاءکی یاد گار ہیں کتنا خوبصورت منظر ہے ایک شمع اور تین سو تیرہ پروانے۔
ص:40
کیا اُس نور کے ستون کو دیکھ رہے ہیں؟
امام کے اصحاب کے سروں پر ایک نور کا ستون آسمان کی طرف جا رہا ہے۔
یہ ستون کتنا نورانی ہے سب اس کے نور کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ خدا کا معجزہ اور ظہور کی علامت ہے تمام لوگ اس نور کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل خوش ہو جاتے ہیں۔ (1)
امام کے اصحاب ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہیں میں ان کے درمیان اپنے محبوب سے نظریں ہٹا نہیں سکتا۔
دیکھو تو سہی ! امام کی بائیں آستین پرخون کے سرخ نشان دیکھ رہے ہیں؟
ارے امام کا لباس خون آلودہ کیوں ہے؟ کیا انہیں کوئی چوٹ لگی ہے؟
نہیں یہ تو سرخ خون نظر آ رہا ہے یہ ایک علامت ہے یہ بہت پرانا خون ہے یہ آپ کو جنگ احد کے زمانہ میں لے جائے گا۔
ص:41
یہ خون کی سرخی بہت سال پرانی میراث ہے یہ پیغمبر اکرم صلی صلی الله علیه و آله و سلم کے لبوں سے جاری ہونے والا خون ہے۔ جب جنگ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور خون آپ کے کپڑوں پر لگا ۔
آج اسی لباس کو ان کے بیٹے نے زیب تن کیا ہے۔(1)
ص:42
ص:43
صبح کی اذان کا وقت ہو رہا ہے امام کے تمام اصحاب نماز صبح کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ نماز برپا ہوتی ہے صبح کی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے خدا کے ساتھ مناجات کایہی بہترین وقت ہے۔
نماز کے بعد آپ کے اصحاب آپ کی بیعت و عہد و پہچان کرنا چاہتے ہیں۔
امام کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہیں اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔
کیاسفیداس نور کو دیکھ رہے ہیں کہ جو امام کے ہاتھ سے چمک رہا ہے؟
وہ کتنا زیادہ نور ہے اس کے باوجود کسی آنکھ کو تکلیف نہیں دے رہا۔ (1)
غور کرو! امام کے دوسرے ہاتھ میں کیا نظر آ رہا ہے؟ گویا یہ ایک خط امام کے ہاتھوں میں ہے۔
ص:44
جی ہاں! یہ عہد و پہچان ہے کہ جو انبیاءنےامام زمانہ علیه السلام کے ساتھ کیا ہے
انبیاءنے یہ عہد حضرت علی علیہ السلام کو دیا ہے۔ پھر اس کو امام حسن علیہ السلام نے ارث میں لیا ہے اسی طرح ایک امام سے ہوتے ہوئے دوسرے امام اور ابامام زمانہ علیه السلام کے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔(1)
امام اپنے دائیں ہاتھ کو آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے۔
کیا جانتے ہیں کہ اس امام کی کیا مراد ہے؟
امام اس آیت کو پڑھتے ہیں: ان الذین یبا یعونک انما یبا یعون اللّٰہ
” وہ جو آپ کے ہاتھ پہ بیعت کرے گا گویا خدا کی بیعت کر رہا ہے۔" (2)
جی ہاں! امام کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔
اچھی طرح دیکھو کیاآپ پہچان سکتے ہو کہ سب سے پہلے امام کے ہاتھ میں کون ہاتھ دے رہا ہے؟
ص:45
یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں جو جھک کر امام کے ہاتھوں کا بوسہ لے رہے ہیں اور ان کی بیعت کر رہے ہیں اس کے بعد تمام فرشتے امام کی بیعت کریں گے۔(1)
اب امام کے دوستوں (اصحاب) کی بیعت کرنے کی باری ہے۔
امام ان سے مخاطب ہوتے ہیں: " تمہیں برائیوں اور گناہوں سے بچنا ہو گا اور ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو اور کبھی زمین پر بے گناہ خون نہ بہاﺅ، مال و دولت دنیا کو جمع کرنے سے پرہیز کرواپنی خوراک اور رہن سہن سادہ ہو۔(2)
البتہ اگر اصحاب امام ان شرائط کو قبول کر لیں ,امام سے وعدہ بھی کریں کہ ہرگز کوئی غیر ان کا ہم نشیں نہ ہو گا۔
اصحاب امام ان شرائط کو قبول کرتے ہیں اور امام کی بیعت کرتے ہیں۔
اے میرے ہمسفر! ذرا ان باتوں پر غور کرو۔
ص:46
ٹھیک ہے کہ یہ تین سو تیرہ افراد مستقبل میں دنیا کے حکمران ہوں گے ان میں سے ہر ایک کسی ملک کا حاکم ہو گا لیکن امام سے عہد کیا ہے کہ سادگی اپنائیں گے۔
بلاوجہ وہ اس مقام تک نہیں پہنچے کہ جو امام کے اصحاب اور نمائندے بنے ہیں۔
یہ عہد جو امام نے اپنے اصحاب کے ساتھ کیا ہے اس عدالت کا ایک نمونہ ہے جس کی سب انتظار کر رہے ہیں۔
جی ہاں!امام زمانہ علیه السلام اپنے اصحاب سے بیعت لیتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کریں۔(1)
دیکھو! آسمان سے ایک تلوار نازل ہو رہی ہے۔(2)
تمام تین سو تیرہ افراد کے لیے ایک خاص تلوار نازل ہوتی ہے۔
ہر کوئی اپنی تلوار کو اٹھاتا ہے کوئی بھی غلطی سے دوسرے کی تلوار نہیں اٹھاتا۔ کیونکہ ہر تلوار پر اس کا نام لکھا ہوتا ہے۔
ص:47
عجیب ہے کہ ہر تلوار پر ہزارکوڈ ورڈ لکھے ہیں۔ جن سے ایک ہزار دوسرے مطلب سمجھے جاتے ہیں۔(1)
وہ ہر کلمہ سے ہزار دیگر کلمات سمجھتے ہیں خدا نے اصحاب امام کے لیے ان کلمات کو تیار کیا ہے تاکہ مختلف اوقات میں ان کلمات سے استفادہ کریں۔
تعجب یہ ہے کہ اصحاب امام ان تلواروں سے دشمن کے خلاف کیسے جنگ کریں گے ان کے دشمنوں کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود ہے؟
ان میں سے ایک کے پاس جاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں۔
وہ اپنی تلوار مجھے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے دیکھوں۔
میں اس تلوار کو ہاتھ میں لیتا ہوں کوشش کے باوجود یہ تشخیص نہیں دے سکتا کہ وہ کس چیز کی بنی ہوئی ہے۔
وہ کہتا ہے: کیا جانتے ہو اس تلوار سے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کیا جا سکتا ہے؟
جی ہاں یہ تلوار اتنی قدرت رکھتی ہے کہ اگر کس پہاڑ پر بھی ماری جائے تو اس کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔(2)
ص:48
کئی مرتبہ لوگ مجھ سے سوال کرتے تھے کہ امام زمانہ علیه السلام کیسے ایک تلوار سے پوری دنیا پراقتدار حاصل کریں گے؟
آج مجھے اس کا جواب ملاہے،اگر اصحاب امام کی تلوار پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے ،پس تو امام کی تلوار کیا کیا کر سکتی ہوگی؟
جی ہاں! امام کے ہر کمانڈر کے ہاتھ میں ایہ ایک انتہائی ترقی یافتہ اسلحہ جو تلوار کی شکل میں ہے کہ جو کسی لوہے سے بنا ہوا نہیں بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
اس اسلحہ میں کیا خصوصیت چھپی ہوئی ہے؟
نہیں جانتا صرف یہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرتی ہے۔
اس اسلحہ کو خدا نے بنایا ہے اور خدا کا ہاتھ تو سب کے ہاتھوں سے بلند ہے۔
ص:49
ص:50
اب جبکہ سورج نکل آیا ہے مکہ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ مسجد الحرام میں کچھ خاص خبریں ہیں۔
وہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں: یہ کون ہے کہ جو کعبہ کے پاس کھڑا ہے اور کچھ لوگوں نے اسے گھیرا ہوا ہے؟
اس دوران ہر جگہ آواز آتی ہے۔(1)
غور سے سنو! یہ جبرائیل علیہ السلام کی آواز ہے: اے لوگو! یہ مھدی آل محمد ہیں ان کی پیروی کرو۔(2)
تمام لوگ اس آواز کو سنتے ہیں۔(3)
عجیب یہ ہے کہ ہر کوئی اس آواز کو اپنی زبان میں سنتا ہے اگر عرب ہے تو عربی میں اگر فارس ہے تو فارسی میں، اگر پاکستانی ہے تو اُردو میں۔(4)
جب لوگ اس آواز کو سنتے ہیں تو ایک دوسرے سے ظہور کے بارے میں بات کرتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ خدا کا وعدہ پورا ہو گیا ہے۔(5)
ص:51
مکہ کے لوگ یہ آواز سننے کے بعد مسجد الحرام کی طرف بڑھتے ہیں تاکہ دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔
وہ دیکھتے ہیں کہ اصحاب امام علیه السلام، امام علیه السلام کے ساتھ جمع ہیں۔
اب امام لوگوں کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں آپ کی رائے میں امام کی پہلی بات کیا ہو گی؟
امام کعبہ کے پاس جا کر دیوار کعبہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں۔
" اے لوگو! میں مھدی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کا بیٹا ہوں جو کوئی آدم، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد کو دیکھنا چاہتا ہے مجھے دیکھے۔ اے لوگو! میں تم سے مدد طلب کرتا ہوں کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ " (1)
اب مکہ کے لوگوں کو بہت بڑا امتحان پیش آ جاتا ہے باوجود اس کے کہ امام ہزار سال سے زیادہ عمر رکھتے ہیں لیکن ایک جوان کی شکل میں ظہور کرتے ہیں۔(2)
ص:52
مکہ کے لوگ شک و تردید میں ہیں کچھ لوگ یقین نہیں کرتے کہ یہ وہی مھدی ہیں۔(1)
وہ چالاکی کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ امام کو قتل کر دیں لیکن بھول گئے ہیں کہ امام کے کتنے باوفا اصحاب ہیں جنہوں نے عہد کیا ہے کہ آخری سانس تک امام کا دفاع کریں گے۔(2)
جب لوگ دیکھتے ہیں کہ امام کے اصحاب دفاع کے لیے تیار ہیں تو پشیمان ہو جاتے ہیں اور مسجد الحرام کو ترک کر دیتے ہیں۔
ص:53
ص:54
ایک مدت کے بعد لوگوں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز کو سنا ہے ان کے دل امام کی طرف مائل ہو چکے ہیں سب چاہتے ہیں کہ امام کو دیکھیں۔ (1)
ٹھیک ہے کوفہ و مدینہ ابھی تک سفیانی کے قبضہ میں ہے لیکن اگر ان دو شہروں میں جائیں تو دیکھیں گے کہ سفیانی کے سپاہی اپنے کمانڈر کے حق ہونے میں شک کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سفیانی کی قید سے چھٹکارہ پا کر امام کے ساتھ مل جائیں۔
شیطان چونکہ انسانوں کی سعادت کا دشمن ہے چاہتا ہے کہ ہر طریقہ سے لوگوں کو گمراہ کرے اب بھی لوگوں کو دھوکہ دینے کی سوچ رہا ہے کہ لوگ امام کے ساتھ نہ مل سکیں۔
وہ جانتا ہے کہ امام زمانہ علیه السلام کے ظہور کے بعددنیا پر خدا کے نیک لوگوں کی حکومت ہو گی اور برے لوگوں کے لیے زمین پر ٹھکانہ نہ ہو گا۔
ص:55
اسی لیے جب غروب آفتاب کا وقت ہوتا ہے شیطان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ شیطان بلند آواز سے پوری دنیا کے لوگوں سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے اے لوگو! آگاہ رہو کہ سفیانی اور اس کے اصحاب برحق ہیں۔ (1)
تمام لوگ اس آواز کو سنتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ شیطان کی آواز ہے کچھ گمراہ جو جاتے ہیں وہ شیطان کا دھوکہ کھا جاتے ہیں اورامام زمانہ علیه السلام سے بےزاری کا اظہار کرتے ہیں۔(2)
مجھے ان لوگوں پر افسوس ہو رہا ہے کہ کیسے شیطان کے جال میں پھنس گئے ہیں۔
آئمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات میں آیا ہے۔
کہ زمانہ ظہور میں دو آوازیں بلند ہوں گے۔
پہلی آواز کہ طلوع آفتاب کے نزدیک ہے کانوں میں پڑے گی جو جبرائیل علیہ السلام کی آواز ہے اور غروب کے وقت جو آواز سنائی دے گی وہ شیطان کی آواز ہے۔
ص:56
شیعہ چونکہ پہلے سے اس بات کو جانتے ہیں لہٰذا دھوکہ نہ کھائیں گے وہ جانتے ہیں کہ حکومت عدل بہت نزدیک ہے۔(1)
ص:57
آج چودہ محرم کی رات ہے شہر مکہ کا آسمان بھی مہتابی ہے (چاند کی روشنی سے دمک رہا ہے) امام کے ظہور کی چوتھی رات ہے شہر مکہ میں آرام و سکون ہے البتہ شہر سے باہر سفیانی کی فوج نے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ (1)
لشکر سفیانی ڈرتا ہے کہ شہر میں داخل ہو اور امام کے لشکر کے ساتھ جنگ کرے۔
وہ انتظار کر رہے کہ مدینہ سے ان کے مدد گار بھی آ جائیں تاکہ امام کے ساتھ جنگ کر سکیں۔ آج کی رات مدینہ سے سفیانی کے تین لاکھ سپاہی مکہ کی جانب حرکت کرتے ہیں سفیانی نے انہیں حکم دیا ہے کہ شہر مکہ پر قبضہ کرو، کعبہ کو منہدم ،اور امام کو قتل کر دو یہ سفیانی کا منصوبہ ہے۔(2)
جی ہاں!امام زمانہ علیه السلام کے پاس تو صرف تین سو تیرہ سپاہی ہیں کیسے وہ تین لاکھ سے زائد فوج کا مقابلہ کریں گے؟
میں جانتا ہوں کہ خدا ہرگز اپنے ولی کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
ص:58
سفیانی کا لشکر مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوتا ہے مدینہ سے خارج ہونے کے بعد سر زمین ”بیدا“ میں مستقر ہوتا ہے۔(1)
کیا جانتے ہیں کہ سر زمین ”بیدا“ کہاں ہے؟
تقریباً مدینہ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے پندرہ کیلومیٹر باہر نکلیں تو ”بیدا“ نامی جگہ آتی ہے۔
تھوڑی سی رات گزرتی ہے۔
وہ کون مرد ہے جو آہستہ آہستہ اس سمت آ رہا ہے؟
دیکھو! ظاہر سے لگتا ہے کہ وہ اہل مکہ نہیں ہے وہ کسی اور راستہ سے آ رہا ہے۔ وہ شخص امام کا پوچھتا ہے گویا اسے کوئی اہم کام ہے۔ امام کے ساتھی اسے امام کے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
وہ شخص آ کر کہتا ہے: اے میرے آقا! مجھے آپ کو ایک خوشخبری سنانے کا حکم دیا گیا ہے ایک فرشتے نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کے پاس آﺅں۔(2)
ص:59
میں اس ماجرا کو نہیں جانتا، اس شخص کی بات سے تعجب کرتا ہوں کیسے ممکن ہے کہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے فرشتوں کو دیکھا ہے؟
امام جو کہ ہر چیز سے آگاہ ہیں کہتے ہیں بتاﺅ: اپنی بات مجھے بتاﺅ۔
وہ شخص امام کو مخاطب کر کے کہتا ہے:
میں آیا ہوں کہ آپ کو اطلاع دوں کہ سفیانی کالشکرنابود ہو گیا ہے میں اور میرا بھائی سفیانی کے لشکر میں تھے اور سفیانی کے حکم پر مکہ پر قبضہ کرنے کے لیے نکلے تھے جب سرزمین بیدا پہنچے تو رات کی تاریکی چھا گئی اسی لیے اس صحرا میں قیام کیا۔
اچانک اس بیابان میں ایک آواز سنائی دی: اے صحرا بیدا اس ظالم قوم کو اپنے اندر نگل لو۔(1)
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تمام سپاہی اس میں گڑ ھ گئے فقط میں او ر میرا بھائی باقی بچے اس فوج کا کوئی نام و نشان باقی نہیں بچا ، میں اور میرا بھائی مبہوت رہ گئے۔
ص:60
اچانک ایک فرشتہ نمودار ہوا اور میرے بھائی کو آواز دی اور کہا: اب سفیانی کے پاس جاﺅ اور اس بات کی خبر دو اس کا لشکر زمین نے نگل لیا ہے۔ پھر وہ میری طرف مخاطب ہوا اور کہا: مکہ جاﺅامام زمانہ علیه السلام کو اس کے دشمنوں کی نابودی کی اطلاع دو اور توبہ کرو۔(1)
اب میرے لیے بہت سی چیزیں واضح ہو گئی ہیں۔
جی ہاں! خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دشمن امام زمانہ علیه السلام کو نابود کر دیا۔
وہ شخص چونکہ اپنے کیے پر پشیمان ہے جب امام مہربان کو دیکھتا ہے توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔
کیا جانتے ہیں کہ جس فرشتہ نے اس شخص کے ساتھ بات کی کون تھا؟
وہ آواز جو صحرائے ”بیدا“ میں بلند ہوئی کیا تھی؟
وہ جبرائیل علیہ السلام تھے کہ جو حکم خدا سے آئے تھے کہ اس لشکر کو نابود کریں۔ (2)
ص:61
لشکر سفیانی چاہتا تھا کہ کعبہ کو خراب کرے اورامام زمانہ علیه السلام کے ساتھ جنگ کرے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اور زمین کے اندر دفن ہو گیا۔ (1)
سفیانی کے لشکر کی تباہی کی خبر ہر جگہ پھیل گئی اور جنہوں نے پہلے سے مکہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اس خبر کو سنتے ہی فرار کر گئے۔
سفیانی شہر کوفہ میں ہے اس خبر کے سنتے ہی اس کا جسم خوف سے کانپنے اور مکہ پر حملہ کی سوچ اپنے دماغ سے نکال دی۔
ص:62
ص:63
مکہ کے لوگ جب سفیانی کے لشکر کی تباہی کی خبر سنتے ہیں بہت ڈر جاتے ہیں اسی لیے شہر میں سکون ہو جاتا ہے اب کوئی امام سے دشمنی کرنے کی نہیں سوچتا۔
امام کی عالمی حکومت کا دارالخلافہ شہر کوفہ ہے میں انتظار کر رہا ہوں کہ کوفہ کی جانب سفر کروں۔
میں سننا چاہتا ہوں کہ امام کب کوفہ کی جانب روانہ ہوں گے، امام کے ایک قریبی صحابی کے پاس جاتا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں امام کوفہ کی جانب کیوں روانہ نہیں ہو رہے؟
وہ جواب میں کہتا ہے: امام انتظار کر رہے ہیں کہ ان کا تمام لشکر مکہ میں آ جائے۔
جی ہاں، جس وقت جبرائیل علیہ السلام نے آواز دی اور لوگوں کو امام کی جانب دعوت دی بہت سے لوگ مکہ کی جانب چل دیے انہیں مکہ کی
ص:64
جانب دعوت دی گئی ہے اور ان کی ذمہ داری ہے کہ امام کے ساتھ ملحق ہوں۔(1)
کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ پرندے کس طرح اپنے گھونسلوں میں پناہ لیتے ہیں؟
یہ لوگ بھی اسی طرح مکہ کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور امام کی خدمت میں حقیقی آرام پاتے ہیں۔(2)
خدا کا ارادہ یہ ہے کہ امام اس دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ سے خارج ہوں۔(3)
اگر مکہ سے نکلیں تو دیکھیں گے کہ شیعہ کس شوق کے ساتھ مکہ کی جانب بڑھ رہے ہیں جیسے کوئی مقابلہ منعقد ہو رہا ہو کہ کون سب سے پہلے امام کی خدمت میں حاضر ہو گا۔(4)
یہ وہ شوق ہے کہ جو خداوند عالم نے شیعوں کے دل میں رکھا ہے کہ انہیں اس طرح بے قرار رکھا ہے۔(5)
ص:65
وہ مقدس عشق کے ساتھ بیابانوں کو گزارتے ہوئے راہ امام میں تمام سختیوں کو برداشت کر رہے ہیں۔(1)
آپ خود جانتے ہیں کہ تین سو تیرہ افراد کس طرح مکہ میں داخل ہوئے وہ طی الارض کے ذریعہ مکہ میں داخل ہوئے اس لیے کہ وہ کمانڈر ہیں اور مستقبل قریب میں پوری دنیا میں امام کے نمائندے ہوں گے۔(2)
لیکن یہ دس ہزار لوگامام زمانہ علیه السلام کا لشکر ہیں وہ قائم آل محمد کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔
ص:66
ص:67
آہستہ آہستہ دس ہزار لشکر کی تعداد پوری ہو رہی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت مہربان ہیں گویا کہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔(1)
اے میرے ہمسفر! کیا اجازت دیں گے کہ ان افراد کی خصوصیات کے بارے میں بات کریں؟
وہ امام کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور امام کی بات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔(2)
بہادر اور نڈر لوگ ہیں ان کے دل میں ذرہ برابر خوف نہیں جی ہاں! امام کو بھی بہادر اور یقین کامل والے افراد کی ضرورت ہے کمزور دل اور سست عقیدہ والے لوگ اس راستہ پر نہیں چل سکتے؟
لشکر امام کے افراد کا عقیدہ اور ایمان اتنا مضبوط ہے کہ شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا یہ پختہ ایمان والے شہر میں جو حق و حقیقت کے ساتھ ہیں۔ (3)
ص:68
اگر رات کو ان کے پاس جائیں ،تو دیکھیں گے وہ عبادت میں مصروف ہیں ان کے گریہ و مناجات کی آوازیں سنائی دیتی ہیں دن میں بہادر شیروں کی طرح میدان میں آتے ہیں اور انہیں کسی چیز کا نہ کوئی خوف ہے نہ ڈر۔
شہادت کی دعا کرتے ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ امام کی رکاب میں شہید ہوں جی ہاں! اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہے کہ انسان اپنی جان امام پر قربان کر دے۔(1)
کیا اس فانی دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی خواہش ہو سکتی ہے؟
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ خواہش ہے۔
یقینا انسان کی زندگی ان اہداف کے ساتھ کتنی لذت بخش ہو جاتی ہے۔
بہر حال اصحاب امام ، امام کے گرد جمع ہیں اور سخت ترین شرائط میں امام کے ساتھ ہیں۔(2)
کافی ہے کہ امام انہیں حکم دیں اس وقت دیکھیں کہ یہ کس طرح حکم امام یہ عمل کرتے ہیں۔(3)
ص:69
خدا نے انہیں اچھی جسمانی طاقت دی ہے کہ اپنے امام کا دفاع کر سکیں ۔(1)
جب وہ کسی سر زمین سے گزرتے ہیں تو وہ زمین دوسری زمینوں پر فخر کرتی ہے کہ صحابی امام اس پر سے گزرا ہے۔(2)
تمام مخلوقات اصحاب امام کی فرمانبردار ی کرتی ہیں حتیٰ کہ پرندے اور وحشی جانور بھی۔(3)
ص:70
ص:71
اب امام کے تمام اصحاب مکہ جمع ہو گئے ہیں وہ آئے ہیں تاکہ امام پر اپنی جان قربان کریں۔
امام جنگی لباس پہن کر مدینہ کی جانب روانگی کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ امام کا جنگی لباس وہی حضرت یوسف کی قمیض ہے؟
ارے امام نے یہ لباس کیوں پہنا ہے؟
کیاآپ جانتے ہیں کہ امام کا یہ لباس کوئی معمولی لباس نہیں ہے بلکہ یہ وہ لباس ہے جیسے آگ نہیں لگ سکتی۔(1)
تعجب نہ کریں آئیں آپ کو تاریخی واقعہ سناتا ہوں۔
حضرت یوسف کی قمیض دراصل حضرت ابراہیم کی قمیض تھی۔
جب نمرود نےچاہا تھا کہ خدا پرستی کے جرم میں حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالے، حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر آئے تاکہ توحید کے پرچم دار
ص:72
کی مدد کریں وہ جنت سے ان کے لیے لباس لائے۔جس کی وجہ سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلا سکی۔(1)
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ لباس ان کی اولاد کو وراثت میں ملا اور حضرت یوسف تک پہنچ گیا اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی روشنی کا باعث بنا۔
یہ لباس نسل بہ نسل ہوتا ہوا پیغمبر اسلام تک پہنچا اور پھر بعد میں آئمہ معصومین علیہم السلام کو ایک دوسرے سے وراثت میں ملا۔(2)
اب واضح ہوا کہ کیوں خدا نے اس لباس کوامام زمانہ علیه السلام تک محفوظ رکھا؟
اے میرے ہمسفر! کیا اس زمانہ میں نمرود کی آگ کوئی معمولی آگ تھی؟
اس آگ کے شعلے آسمان سے لگ رہے تھے۔
نمرود نے اس آگ کو جلانے کے لیے اپنے تمام امکانات سے استفادہ کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے درمیان پھینک دیا ؛لیکن خدا نے اپنے نبی کو اس لباس کے ذریعہ بچایا اور آج وہ لباس امام کے پاس ہے
ص:73
امام روانہ ہونے کے لیے تیار ہو گئے، میں دیکھ رہا تھا کہ امام کس اسلحہ کو دشمنوں کے ساتھ جنگ کے لئے اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
امام کے پاس اسلحہ کی بجائے ایک چھڑی ہے!
میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ اس فوج کے کمانڈر نے اپنے ساتھ اس لکڑی کی چھڑی کو کیوں رکھا ہے؟
آخر آج کی جنگ تو توپ ٹینک جہاز اور میزائل کی ہے جتنا بھی سوچتا ہوں جواب نہیں ملتا اسی لیے امام کے ایک صحابی سے پوچھتا ہوں امام نے اسلحہ کی جگہ اس چھڑی کو کیوں اٹھا رکھا ہے؟
وہ مجھے جواب دیتا ہے کہ امام کے ہاتھ میں جو چھڑی ہے یہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہے۔(1)
باوجود کہ یہ چھڑی ہزاروں سال قبل ایک درخت سے توڑی گئی تھی لیکن ابھی تک تر و تازہ ہے جیسا کہ ابھی درخت سے کاٹی گئی ہو۔(2)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ جادو میں زیادہ مہارت رکھتے تھے ۔
ص:74
آج کی اصطلاح میں وہ سحرو جادوگری کا دور تھا۔ لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی چھڑی کو پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گئی اور ان کے تمام سانپوں کو نگل لیا۔
آج انسان جتنی مرضی ترقی کرےامام زمانہ علیه السلام اسی چھڑی سے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
یہ عصا بھی تعجب خیز ہے امام اس کے ساتھ جو حکم دیں گے وہ انجام پائے گا۔
ابھی پتہ چلا کہ یہ عصا جو امام کے پاس ہے یہ امام کے ساتھ باتیں بھی کرتی ہے۔(1)
جی ہاں! اب تک انسان نے جو کچھ بنایا ہے ٹینک، توپ، جہاز، میزائل کافی ہے کہ امام اس کو حکم دے اور ان تمام چیزوں کو کنٹرول کرلے۔ (2)
قرآن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے بارے میں بات کی ہے کہ اس عصاپر جادو و سحر کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ اس نکتہ کو تو قبول کرتے
ص:75
ہیں کہ قرآن جو بات کہتا ہے وہ ذہن سے دور نہ ہو گی پس اس عصا سےبھی ٹینک، توپ، میزائل اور جہاز کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
اس زمانہ میں ہنر جادو تھا آج جو کچھ بھی ہے خدا کے حکم سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
کیا جانتے ہیں کہ جب امام اس عصا کو زمین پر پھینکیں گے وہ عصا کس چیز میں تبدیل ہو جائے گی؟
میں نہیں جانتا کہ کس لفظ کا استعمال کروں؟
کیا کہہ سکتا ہوں کہ وہ کس پڑے اژدھا میں تبدیل ہو جائے گی؟
ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ نہ کہہ دیں مصنف نے بھی کیا عجیب و غریب باتیں شروع کرد ی ہیں ۔ میں واقعتا نہیں جانتا کہ کیا کہوں؟
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زبان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
آپ تو ان کی بات کو قبول کرتے ہیں آپ نے فرمایا: " جب ہمارے قائم اس عصا کو زمین پہ ماریں گے وہ زمین کو چیر دے گی اور بہت بڑا گڑھا
ص:76
جس کا فاصلہ زمین و آسمان تک ہو گا نمودار ہو گا جو کوئی اس کے مقابلہ میں ہو گا اس میں گر جائے گا۔(1)
یقینا خدا کس حکمت کے ساتھ اس عصا کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور پھر اپنے آخری ولی کی مدد کرے گا۔(2)
ص:77
ص:78
دیکھو! اصحاب امام کس نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے ہیں اور منتظر ہیں کہ انہیں روانگی کا حکم دیا جائے اس جوان کو دیکھ رہے ہیں کہ جو لشکر سے آگے نورانی پرچم کو اٹھائے کھڑا ہے؟
کیا اسے جانتے ہیں؟
وہ شعیب بن صالح اس عظیم لشکر کےعلمدار ہیں۔(1)
ان کے ہاتھ میں جو یہ پرچم ہے کیا اس پرچم کو پہچانتے ہو؟ یہ وہی پرچم ہے جسے حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم جنگ بدر میں لائے تھے۔(2)
کیا جانتے ہو کہ یہ پرچم صرف دو مرتبہ استعمال ہوا ہے؟
پہلی مرتبہ جب جبرائیل علیہ السلام اس پرچم کو حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے لیے لائے اور انہوں نے جنگ بدر میں اس کو کھولا اور لشکر اسلام کو کامیابی نصیب ہوئی۔
ص:79
حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے اس پرچم کو سمیٹ کر رکھ دیا اور کسی بھی جنگ میں نہ کھولا اور پھر حضرت امام علیؓ کے حوالہ کر دیا انہوں نے بھی اس پرچم کو صرف جنگ جمل میں کھولا اور پھر کبھی استعمال نہ کیا۔(1)
کیا جانتے ہیں کہ یہ پرچم دنیاوی، روئی، پٹ سن اور حریر کا بنا نہیں بلکہ یہ پرچم بہشتی گھاس کا بنا ہوا ہے۔(2)
یہ پرچم اس قدر نورانی ہے کہ مشرق و مغرب کوروشن کر سکتا ہے۔ (3)
جب یہ پرچم کھولا جائے گا دشمن اس سے خوف و ہراس کھائیں گے اور کوئی اقدام نہ کر سکیں گے۔(4)
اور دوسری طرف یہ پرچم اصحاب امام کے دلوں میں ایسی شجاعت پیدا کر دے گا کہ ان کے دلوں میں کسی قسم کا خوف ہی نہ رہے گا۔(5)
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس پرچم کی لکڑی بھی جنت سے آئی ہے جب بھی امام اپنے دشمن کو نابود کرنا چاہیں تو کافی ہے کہ صرف اس پرچم کی طرف اشارہ کریں اور وہ حکم خدا سے ہلاک ہو جائیں۔(6)
ص:80
کیاآپ جانتے ہیں ،کہ جب اس پرچم کو کھولا جائے گا فرشتوں کے سات دستے امام کی مدد کے لیے آئیں گے؟
پہلا دستہ: ان فرشتوں کا جنہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں مدد کی ۔
دوسرا دستہ: وہ فرشتے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدد کے لئے آئے۔
تیسرا دستہ: وہ فرشتے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے جب دریائے نیل حکم خدا سے شق ہوا اور قوم بنی اسرائیل نے عبور کیا۔
چوتھا دستہ: وہ فرشتے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آسمان پہ گئے۔
پانچواں دستہ: وہ چار ہزار فرشتے جو ہمیشہ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی رکاب میں رہتے تھے۔
چھٹا دستہ: تین سو تیرہ فرشتے جنہوں نے جنگ بدر میں حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی مدد کی۔
ص:81
ساتواں دستہ: وہ فرشتے کہ جو کربلا میں امام حسین کی مدد کے لیے آئے۔
ان تمام فرشتوں کی تعداد تیرہ ہزار تین سو تیرہ ہے کہ جوامام زمانہ علیه السلام کی مدد کے لیے آئیں گے۔(1)
اگر اس لشکر کے دائیں جانب دیکھیں تو آپ کو جبرائیل علیہ السلام اور بائیں طرف میکائیل علیہ السلام نظر آئیں گے۔(2)
تمام زمینی و آسمانی طاقتیں آپ کے حکم کے انتظار میں ہیں۔
جب امام کا لشکر روانہ ہو گا دشمنوں کے دل میں عجیب خوف و ہراس ہو گا یہی دلیل ہے کہ لشکر ہمیشہ کامیاب ہو گا۔(3)
جی ہاں جو لوگ نور خدا کے ساتھ دشمنی کرنا چاہتے ہیں ان کو عجیب خوف محسوس ہو گا لیکن جو کئی سالوں سے نور خدا کی جستجو میں ہوں گے ان کے دلوں میں محبت پیدا ہو گی وہ اس آسمانی تحریک سے خوف نہ کھائیں گے بلکہ ہر لمحہ خواہش کریں گے کہ حضرت مھدی کی حکومت تشکیل پائے تاکہ حقیقی عدالت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔(4)
ص:82
ص:83
ص:84
تمام روانگی کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں لشکر کو منظم گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
ان کے درمیان ایک سات افراد پر مشتمل گروہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں آگے بڑھ کر ان میں سے ایک سے پوچھتا ہوں۔
ان میں سے ایک نے اپنے آپ کو (تلمیخا) کے نام سے تعارف کرایا ہے۔ (1)
نہیں جانتا کہ آپ اسے پہچانتے ہیں یا نہیں؟
"تلمیخا"اصحاب کہف میں سے ایک کا نام ہے وہی سات افراد جن کا قصہ قرآن میں آیا ہے۔
کیاآپ نےسورہ کہف کو پڑھا ہے؟
ص:85
وہ سات خداپرست انسان جو اپنے زمانہ کے طاغوت ) ظالموں (کے خوف سے غار میں پناہ لیتے ہیں اور تین سو سال سے زیادہ اس غار میں سوئے رہے۔
شاید کہیں کہ جناب مصنف آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں؟
آپ کے ہوش و حواس کہاں ہیں؟
یہ نہ ہو کہ خیالاتی ہو گئے ہیں؟ اصحاب کہف کو دنیا سے گئے ہزاروں سال ہو گئے ہیں آخر ان کو لشکرامام زمانہ علیه السلام میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
میں یہاں یہ فقط ایک جملہ کہوں گا:
کیا آپ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کو نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا:
”جب بھی ہمارے قائم قیام کریں گے خداوند اصحاب کہف کو زندہ کرے گا“ (1)
جی ہاں! قائم آل محمد کے لشکر میں بہت سے افراد ایسے ہوں گے جو مرنے کے بعد خدا کے حکم سے زندہ ہو کر امام کی نصرت کریں گے۔
ص:86
ایک اور وہاں پر ”مقداد“ ہیں۔
وہ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور حضرت علیؓ کے بہترین صحابی ہیں اب حکم خدا سے دوبارہ زندہ ہوتے ہیں۔(1)
ایک اور جابر بن عبداللہ انصاری ہیں وہ بھی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے قریبی ترین صحابی اور حضرت امام محمد باقر علیه السلام کے زمانہ تک زندہ رہے ہیں۔
وہی کہ جو روز ”اربعین“ کربلا آئے دریائے فرات پہ غسل کیا اور شہدائے کربلا کی قبور کی زیارت کی وہ اب زندہ ہیں تاکہ شہدائے کربلا کا انتقام لیں ۔(2)
میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ جو عالم برزخ میں تھے اور جب امام زمان نے ظہور کیا فرشتہ ان کے پاس آیا اور اطلاع دی زمانہ ظہور آ گیا ہے اٹھو اور اپنے امام کی مدد کے لیے دوڑو۔(3)
ص:87
ص:88
امام زمانہ علیه السلام نے اپنے لشکر کا پروگرام طے کر رکھا ہے ان کا پہلا مقصد شہر مدینہ کو ظالموں کےقبضہ سےنجات دلانا ہے۔
ٹھیک ہے کہ لشکر سفیانی کے تین لاکھ سپاہی بیابان ”بیدا“ میں غرق ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک سفیانی کے طرفدار مدینہ میں باقی ہیں اور اس شہر میں قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
غور کرو! کیا اس آواز کو سن رہے ہو؟
کوئی بھی اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز نہ اٹھائے۔(1)
یہ امام کا حکم ہے کہ جو لشکر کو سنایا جاتا ہے۔
یہ دنیا کا واحد لشکر ہے جسے راشن کی ضرورت نہیں ہے!
کیا ایسا ممکن ہے کہ دس ہزار سے زائد کا لشکر سعودی عرب کی اس گرمی میں اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان نہ رکھے۔
امام اپنے لشکر کی پیاس کے لیے کیا انتظام کیے ہوئے ہیں؟
ص:89
کیا ہوجاتااگر کوئی اپنے ساتھ کچھ کھانے پینے کی چیزیں اٹھا لے؟
اے میرے دوست! کیا میرے ساتھ اس لشکر کے ہمراہ جانا چاہتے ہیں؟
آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیں بھی اس حکم پر عمل کرنا ہو گا اور اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز نہ لینا ہو گی۔
ظاہر ہےآپ بھی اس سفر میں جانا چاہتے ہیں؟ لیکن وعدہ کریں کہ جب آپ کو پیاس لگے گی تو مجھ سے پانی نہ مانگیں گے۔
حق کا بڑا لشکر روانگی کے لیے تیار ہے۔
ہر لشکر کا کوئی نہ کوئی نعرہ ضرور ہوتا ہے آپ کی نظر میں اس لشکر کا کیا نعرہ ہو گا؟
سنو! یہ سارا لشکر ایک ہی آواز لگا رہاہے: یا لثا رات الحسین اے خونخواہان حسین۔(1)
امام جانتے ہیں کہ صدیوں سے شیعہ امام حسین علیہ السلام پر آنسو بہا رہے ہیں ۔
ص:90
جی ہاں! یہ نام امام حسین علیہ السلام ہے کہ جو دلوں کو منقلب کر دیتا ہے۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس لشکر نے اپنا نعرہ امام حسین علیہ السلام کی خونخواہی کیوں رکھا ہے جبکہ ہزار سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے یزید اور اس کے فوجی بھی مر گئے ہیں ؟
یہ خدا کا ایک قانون ہے کہ اگر کسی مظلوم کا خون دنیائے مشرق میں گرے اور جو مغرب میں ہو وہ اس سے راضی ہو تو وہ بھی اس جرم میں شریک شمار ہو گا۔(1)
اگرچہ یزید اور یزیدی مر گئے ہیں لیکن آج بھی بہت سے گروہ ہیں کہ جو یزیدی کاموں پہ افتخار کرتے ہیں!
سفیانی اور اس کے سپاہی یزید کے راستہ پر گامزن ہیں اگر یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا ہے آج سفیانی جو شہر کوفہ میں ہے، جو کوئی بھی امام حسین کا نام لیتا ہے اسے شہید کر دیتا ہے۔(2)
ص:91
ص:92
عورتوں کا ایک گروہ عفت وحیاکے کمال کے ساتھامام زمانہ علیه السلام کے لشکر کے ساتھ ہے۔ آپ سوال کریں گے کہ یہ لشکر جنگ کے لیے جا رہا ہے
پس یہ عورتیں کیوں جا رہی ہیں؟
کیا آپ نے سنا ہے کہ جب بھی حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم جنگ کے لیے جاتے ،کچھ عورتیں بھی آپ کے ساتھ ہوتیں کہ جو زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کےلئے ساتھ جاتی تھیں؟اب امام بھی سیرت ح حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر چلنا چاہتے ہیں کچھ عورتوں کو زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اطلاع دی ہے کہ اس لشکر میں حضرت سمیہ بھی ہیں وہی جو حضرت عمار یاسر کی ماں ہیں اور اسلام کی پہلی شہید عورت۔(1)
ص:93
وہ شیردل عورت تھیں جو ابو جہل کے ظلم و ستم کی وجہ سے شہید ہوئیں ;لیکن اپنے عقیدہ وایمان سے دستبردار نہ ہوئیں۔(1)
اب خدا انہیں اس استقامت کا اجر دے رہا ہے اس لیے انہیں زندہ کیا ہے تاکہ اسلام کی عزت کو دیکھ سکیں۔
ان عورتوں میں ایک ”اُم ایمن“ بھی ہیں کیا انہیں جانتے ہیں؟
اُم ایمن جنگ احد، حنین اور خیبر میں لشکر اسلام کے ساتھ تھیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔
اب وہ بھی خدا کے حکم سے زندہ ہوتی ہیں تاکہ فرزند حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے لشکر کے سپاہیوں کی مرہم پٹی کر سکیں۔
ص:94
ص:95
امام اپنے ایک صحابی کو مکہ کا گورنر بنا کر اپنا جانشین مقرر کرتے ہیں اور مدینہ روانگی کا حکم صادر کرتے ہیں۔(1)
لشکر امام مدینہ کی طرف گامزن ہے۔
موسم بہت گرم ہے آہستہ آہستہ ہر ایک پر پیاس کا غلبہ ہو رہا ہے ۔
میں بھی بہت پیاسا ہوں یہ سوچ رہا تھا کہ اس صحرا میں پانی کہاں سے تلاش کروں۔ کیا آپ بھی پیاسے ہیں؟
امام بھی اپنے ساتھیوں کی بھوک و پیاس کو دیکھتے ہیں حکم دیتے ہیں کہ لشکر کو اس جگہ روک دیا جائے۔
یہ بیایان جگہ ہے ہر طرف ریت ہی ریت نہ کوئی درخت نہ کوئی سایہ اور اوپر سے صحرا کی گرمی
اِدھر کیا ہو رہا ہے؟ کیوں تمام نظریں ادھر لگی ہیں؟
امام نے حکم دیا ہے کہ اس بڑے پتھر کو لایا جائے۔
ص:96
یہ پتھر کہاں تھا؟
گویا جب سےمکہ سے روانہ ہوئے ہیں یہ پتھر بھی اس لشکر کے ساتھ ہے۔
اب امام اپنی عصا اس پتھر پر مارتے ہیں اچانک سب پکارتے ہیں پانی! پانی!
کتنا ٹھنڈا اور میٹھا پانی اس پتھر سے جاری ہو جاتا ہے! اس پتھر اور عصا کا کیا ماجرا ہے؟
اصل ماجرا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں لوٹ جاتا ہے ،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کسی بیابان میں پیاس میں گرفتار ہو گئی، نزدیک تھا کہ سب پیاس سے ہلاک ہو جائیں، پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عصاکو ایک پتھر پر مارا وہاں سے بارہ چشمے جاری ہوئے۔
پوری قوم بنی اسرائیل جس کی تعداد چھ لاکھ افراد سے زیادہ تھی اس پانی سے سیراب ہوئے اب وہی پتھرامام زمانہ علیه السلام کے سامنے ہے۔(1)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کایہ پتھرامام زمانہ علیه السلام کو وراثت میں ملا ہے، جی ہاں آپ تمام انبیاءکے وارث ہیں۔(2)
ص:97
پانی جو اس پتھر سے جاری ہوتا ہے پیاس کو بھی مٹاتا ہے اور بھوک کا خاتمہ بھی کرتا ہے۔(1)
ص:98
ابھی ہم مکہ سے زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ ایک ناخوشگوار خبر ملی۔
امام کو یہ اطلاع دی گئی کہ مکہ کے لوگوں نے بغاوت کر دی ہے اور مکہ کے گورنر کو قتل کر دیا ہے۔(1)
اب امام حکم دیتے ہیں کہ لشکر کو واپس مکہ پہنچایا جائے۔
مکہ کے لوگوں کو اطلاع ملتی ہے وہ جانتے ہیں کہ اس لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس بنا پر گریہ) روتے ہوئے ( کرتے ہوئے، امام کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتے ہیں:'' اے مھدی آل محمد، ہماری توبہ قبول کر لیں" (2)
آپ کیا سمجھتے ہیں امام ان کی توبہ قبول کر لیں گے؟
جی ہاں! آپ صحیح سمجھے ،جی ہاں وہ اسی کے بیٹے ہیں کہ جب ان کی نظر ابن ملجم پر پڑی اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا: میرے بیٹے اس
ص:99
کے ساتھ مہربانی سے پیش آﺅ اس کے ساتھ نیکی کرو ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکا پیاسا رہے۔(1)
حضرت امام علی علیہ السلام کو جب سر میں ضرب لگ چکی تو آپ اپنے بچوں کو قاتل کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں!
امام زمانہ علیه السلام بھی حضرت امام علی علیہ السلام کے بیٹے ہیں ۔وہ تمام مکہ کے لوگوں کو معاف کرتے ہیں!
سچ ہے، ایسی کونسی حکومت ہے جو اتنی محبت والفت سے پیش آتی ہے؟
کیا آج تک آپ نے سنا ہے کہ کسی شہر کے لوگوں نے بغاوت کی ہو گورنر کو قتل کیا ہو ؛ لیکن حکومت نے انہیں معاف کر دیا ہو؟
وہ لوگ جو لوگوں کوامام زمانہ علیه السلام کے ظہور سے ڈراتے ہیں نادانستہ طور پہ دشمن کے کھیت کو سیراب کرتے ہیں۔
نادانستہ طور پر ،ہم یہ عمل کیوں کریں؟
ص:100
کیوں نہ ہم لوگوں میں امام کے شوق دیدار میں اضافہ کریں، تاکہ وہ ظہور کا انتظار کریں ، اگر ہم لوگوں کو امام سے ڈرائیں گے تو یہ وہی چیز ہے کہ جو مکتب تشیع کے دشمن چاہتے ہیں۔
ہمارےامام زمانہ علیه السلام خدا کی رحمت و لطف کے مظہر ہیں۔ وہ آئیں گے تاکہ دنیا میں بھائی چارے میں اضافہ ہو۔(1)
بہر حال امام ،مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کر تےہیں؛ ایک اور شخص کو گورنر مقرر کرنے کے بعد پھر مدینہ کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔(2)
ابھی مکہ سے کچھ ہی دور ہوئے تھے کہ خبر ملی :لوگوں نے ایک مرتبہ پھر بغاوت کردی ہے اور نئے گورنر کو بھی قتل کر دیا ہے۔
امام اس مرتبہ فیصلہ کرتے ہیں کہ شہر مکہ کو ظالموں کے وجود سے پاک کیا جائے، آپ اپنے چند ساتھیوں کو مکہ بھیجتے ہیں تاکہ اس شہر میں امن و امان قائم کریں۔(3)
ص:101
ص:102
امام زمانہ کا لشکر شہر حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے نزدیک ہو رہا ہے۔
اگرچہ سفیانی کے لشکر کی ایک بہت بڑی تعداد بیابان ”بیدا“ میں غرق ہو چکی ہے لیکن ابھی تک مدینہ پر اس کا کنٹرول ہے۔
انہوں نے شہر مدینہ میں بہت زیادہ ظلم و ستم کیے ہیں مسجد نبوی اور حرم رسول کو ویران کر دیا ہے۔
لشکر امام شہر مدینہ میں داخل ہوتا ہے اور اس شہرپر امام کاکنٹرول ہوجاتا ہے۔ امام مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہیں اور اس کی تعمیر کا حکم دیتے ہیں۔
جی ہاں! یہ مدینہ شہر ہے غم و اندو کا شہر!
یہ مدینہ ہی تھا کہ جب لوگوں نے خانہ وحی کو آگ لگائی ،ابھی بھی اس شہر سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، قدم قدم پر مظلومیت زہراءکے نشان باقی ہیں۔
ص:103
امام اپنی مظلوم ماں کا انتقام لینا چاہتے ہیں اگر کل خانہ زہراءکو آگ لگائی گئی ،آج خدا کے حکم سے انہیں زندہ کیا جائے گا تاکہ انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔(1)
یہاں پر ہر شیعہ کا دل خوشی سے مسرور ہو جاتا ہے۔
امام شہر مدینہ کے بعد کوفہ کی جانب روانہ ہوتے ہیں چونکہ خدا نے حکومت مھدی کا دارالخلافہ کوفہ کو قرار دیا ہے۔
ص:104
کیا آپ نےسید حسنی کا نام سنا ہے؟
وہ امام حسن علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ہیں کہ جو خراساں میں قیام کریں گے اور لوگوں کوامام زمانہ علیه السلام کی طرف دعوت دیں گے۔
سید حسنی نے سنا ہے کہ کوفہ سفیانی کے کنٹرول میں ہے اس لیے اپنی فوج کوکوفہ کی جانب روانہ کرتے ہیں تاکہ سفیانی کو شکست دے کر کوفہ کو آزاد کرائیں۔
انہوں نے سیاہ رنگ کے پرچم کو اپنے لیے منتخب کیا ہے اور بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں۔(1)
جب سفیانی کو اس کی اطلاع ملتی ہے وہ کوفہ کو چھوڑ دیتا ہے اور یہ شہر سید حسنی کے ہاتھوں فتح ہو جاتا ہے۔(2)
سفیانی کا کوفہ سے فرار ایک جنگی تکنیک ہے؛ کیونکہ اس کی اصلی جنگ امام زمانہ علیه السلام کے ساتھ ہے ،اسی لیے وہ اپنی قوت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
ص:105
ابھی کوفہ نہیں پہنچے کہ خبر ملتی ہے کہ کوفہ کو سید حسنی نے فتح کر لیا ہے۔
اب لشکر حق آسانی سے اس شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔
میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ مسجد کوفہ کو دیکھوں میں لمحات گن رہا ہوں کہ جتنا جلدی ہو سکے کوفہ میں داخل ہوں؛ لیکن لشکر رک جاتا ہے۔
اب کیا ہو گیا ہے؟
امام حکم دیتے ہیں کہ لشکر کو کوفہ سے باہر ہی روک دیا جائے۔
اس طرف دیکھیں!
سید حسنی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں عرض ادب و سلام کرتے ہیں۔ وہ اپنے امام پہ محکم اعتقاد رکھتے ہیں؛ لیکن اپنے ساتھیوں کے یقین کو بڑھانے کی خاطر امام کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں: " اگر آپ مھدی آل محمد ہیں اپنی امامت کی نشانیاں دکھائیں'' (1)
شاید آپ کہیں کہ امامت کی نشانی کیا ہے؟
ص:106
سید حسنی کی مراد عصاء موسیٰ علیہ السلام اور حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کا عمامہ اور انگوٹھی ہےامام زمانہ علیه السلام سید حسنی جس چیز کا تقاضا کرتے ہیں دکھاتے ہیں۔
سید حسنی اللہ اکبر، اللہ اکبر کی آوازیں بلند کرتے ہیں۔
سب دیکھتے ہیں اور وہ امام کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہیں۔(1)
بعد میں سید حسنی کہتے ہیں:'' اے فرزند رسول خدا آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں'' (2)
سید حسنی امام کے ساتھ بیعت کرتے ہیں اور عہد و پیمان کرتے ہیں۔ جب اس کے ساتھی یہ منظر دیکھتے ہیں وہ بھی امام کی بیعت کرتے ہیں۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ امام شہر کوفہ میں داخل ہوں امام اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد کوفہ میں مستقر ہوتے ہیں اس مسجد میں جگہ جگہ خیمہ نصب کرتے ہیں۔(3)
آج پہلی رات تھی جب لشکر امام مسجد کوفہ میں آیا تھا وہ صبح تک اپنے خدائے مہربان کے ساتھ راز و مناجات میں رہے۔
ص:107
کیا جانتے ہیں اس مسجد میں ایک مستحب نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔(1)
چند روز گزر جاتے ہیں۔۔۔
پتہ چلتا ہے کہ امام اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ کوفہ کے اطراف کے بیابانوں میں جاتے ہیں پس ہم بھی ان کے ساتھ جاتے ہیں تاکہ دیکھیں کیا ہوتا ہے کچھ دیر چلنے کے بعد امام بیابان کے وسط میں رکتے ہیں اپنے اصحاب کو گڑھا کھودنے کا حکم دیتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد پتہ چلتا ہے کہ زمین کے اندر سے اسلحہ ملتا ہے!
جی ہاں یہ وہ اسلحہ ہے کہ جو خدا نےامام زمانہ علیه السلام کے لیے تیار کیا ہے۔ (2)
امام اپنے ساتھیوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس اسلحہ کو شہر کوفہ میں لے جائیں اور اپنے سپاہیوں میں تقسیم کر دیں۔ اصحاب امام اس اسلحہ کو لے کر کوفہ لوٹ آتے ہیں۔
ص:108
ص:109
اس مدت کے دوران جب امام کوفہ میں تھے ستر ہزار لوگ امام مھدی کے لشکر سے آ ملے ہیں۔ (1)
امام کا اصل مقصد عدالت اور امن و امان کا قیام کرنا ہے اسی لیے آپ سفیانی سے جنگ کے لیے جاتے ہیں یہ خبر سفیانی کو بھی ملتی ہے۔
سفیانی سوچ میں پڑ جاتا ہے اسے تین لاکھ کے لشکر کی یاد آتی ہے کہ بیابان ”بیدا“ میں زمین میں دھنس گئے وہ ڈر رہا ہے کہ کہیں خود بھی ایسی ہی سر نوشت کا شکار نہ ہو جائے۔
اب ،سفیانی توبہ کرنے اور اپنی جان بچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔
کیا امام اس کی توبہ کوقبول کرلیں گے؟
دیکھو ! یہ سفیانی اپنے لشکر سے جدا ہو کرتنہا امام کی خدمت میں آرہا ہے چونکہ وہ اکیلا آیا ہے اس کے پاس اسلحہ نہیں ہے اصحاب امام اسے ملنے کی اجازت دیتے ہیں۔(2)
ص:110
سفیانی امام کے پاس آ کر بات کرتا ہے۔
میں بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں کہ دیکھوں کہ نتیجہ کیا ہوتا ہے،کیا امام اس کو قبول کر لیتے ہیں۔
کوئی بھی بھلا نہیں سکتا کہ سفیانی نے بہت زیادہ قتل وغارت کی ہے اور ہزاروں شیعوں کو شہید کیا ہے۔
کیامیں صحیح دیکھ رہا ہوں؟ یہ سفیانی امام کی بیعت کر رہا ہے!امام نےسفیانی کی توبہ کو قبول کرلیا ہے۔
میری جان آپ پر قربان اے مہربان امام۔
آپ اس قدر مہربان ہیں کہ ہزاروں شیعوں کے قاتل کو بھی بخش دیتے ہیں!
پس کیوں کچھ جھوٹے لوگ ،لوگوں کو آپ کی تلوار سے ڈراتے ہیں؟ کیوں میں ان جھوٹی باتوں کو قبول کرتا رہا ہوں؟ کیوں؟
اب سفیانی امام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے لشکر کی طرف واپس آتا ہے۔ جب وہ اپنے لشکر سے ملتا ہے تو اس کے سپاہی کہتے ہیں۔
ص:111
....جناب کمانڈر !آپ کے کام کا انجام کیا ہوا؟
....میں نے ہتھیار ڈال دیے اور امام کی بیعت کر لی ہے۔(1)
....کتنی بڑی غلطی کر ڈالی ہے اور اپنے لیے ذلت کو خرید لیا ہے۔
....تمہاری مراد کیا ہے؟
....آپ اتنے بڑے لشکر کے کمانڈر ہیں ہم سب آپ کے حکم کے تابع ہیں؛
لیکن اب آپ ایک سپاہی سے زیادہ نہیں اب اپنے کمانڈر کی اطاعت کریں۔ (2)
جی ہاں سفیانی کے سپاہی ا س کی کمزوریوں سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں وہ قدرت کا پیاسا ہے وہ اس کے ان جذبات سے کھیلتے ہیں۔
سفیانی تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں ڈوب جاتا ہے لیکن سفیانی کے سپاہیوں کی باتیں اپنا اثر دکھا چکی ہیں بالآخر وہ اپنے فیصلہ پر پریشمان ہو جاتا ہے۔
ص:112
اب وہ امام کے ساتھ اپنی بیعت کو توڑ دیتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ شہر کوفہ پر حملہ کر کے امام کے ساتھ جنگ کرے۔(1)
ص:113
سفیانی بہت مغرور ہو گیا ہے ؛کیونکہ اس کے سپاہیوں کی تعداد امام کے لشکر سے دو گنا زیادہ ہے۔ وہ اصحاب امام کی تعداد سےآگاہ ہے!
....دس ہزار سپاہی مکہ سے امام کے ساتھ آتے ہیں۔
....بارہ ہزار سپاہی سید حسنی کے ساتھ خراساں سے آتے ہیں۔
....ستر ہزار کوفہ سے لوگ امام کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں۔
جبکہ سفیانی کی فوج میں ایک لاکھ ستر ہزار سپاہی موجود ہیں اسے قطعی طور پر کامیابی کا یقین ہے اس لیے وہ کوفہ کی جانب روانہ ہوتا ہے۔(1)
وہ نہیں جانتا کہ ہزاروں فرشتے ،ہمارے مولا کی رکاب مین ان کی مدد کر رہے ہیں۔
اب امام کو پتہ چلتا ہے کہ سفیانی جنگ کےلئے کوفہ کی جانب آ رہا ہے۔ (2)
ص:114
لشکر امام کوفہ سے باہر اپنی پوزیشن لے لیتا ہے۔اب دونوں لشکر آمنے سامنے ہیں۔امام لشکر سفیانی کے پاس جاتے ہیں ان کو سمجھاتے ہیں۔
سفیانی کے ساتھی امام سے کہتے ہیں: جس راستے سے آئے ہیں واپس چلے جائیں۔(1)
امام اپنی بات ان سے جاری رکھتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں: کیا جانتے ہو کہ میں پیغمبر کا بیٹا ہوں۔
نہیں جانتا کیا ہوتا ہےسفیانی ابھی جنگ سے گریز کرتا ہے ، شاید اس لیے کہ ابھی پوری طرح جنگ کے لیے تیار نہیں ہے یا حملہ کرنے کی پوری تیاری نہیں ہے کیونکہ اسں نے امام کی باتوں کو سنا ہے اور احتمال ہے کہ امام کی باتوں کا اثر اس پر ہوا ہے۔
سفیانی چاہتا ہے کہ کچھ دنوں کے لیے جنگ کو موخر کر دے تاکہ امام کی باتوں کا اثر زائل ہو جائے وہ عقب نشینی کا حکم دیتا ہے اور صورتحال پر امن ہو جاتی ہے۔
ص:115
روز جمعہ کا سورج طلوع کرتا ہے امام کو اطلاع ملتی ہے کہ سفیانی نے امام کے ایک صحابی کو شہید کردیا ہے۔
گویا سفیانی کوفہ پر حملہ کا ارادہ رکھتا ہے۔(1)
امام دفاع کے لیے تیار ہو جاتے ہیں سخت جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
سفیانی جنگ کا آغاز کرتا ہے اور امام کے کچھ ساتھی شہید ہو جاتے ہیں خوش نصیب ہیں وہ جو اپنی آرزو کو پہنچے۔ اب خدا کا وعدہ پورا ہوتا ہے سفیانی میدان کے درمیان کھڑا ہے اور اپنے سپاہیوں کی کثرت سے خوش ہے۔
اچانک وہ دیکھتا ہے کہ ایک ایک کر کے اس کے سپاہی گرتے ہیں۔ سفیانی نہیں جانتا کہ فرشتے امام کی مدد کے لیے آ گئے ہیں۔ سفیانی ہرگز گمان نہیں کرتا تھا کہ اس کے سپاہی اس طرح گرنا شروع ہو جائیں گے۔
سفیانی جب ان حالات کو دیکھتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ مقابلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ چند ساتھیوں کے ساتھ ملکر راہ فرار اختیار کرتا ہے۔(2)
کیا آپ نے ”صیاح“ کا نام سنا ہے؟
ص:116
وہ امام کے لشکر کا ایک سپاہی ہے وہ چند سپاہیوں کے ساتھ مل کر سفیانی کا پیچھا کرتا ہے اور بالاخر اس کو گرفتار کر لیتا ہے۔
مغربین کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے نماز کے بعد سفیانی کو امام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
سفیانی امام کو مخاطب کر کے کہتا ہے: مجھے مہلت دیں۔
امام اپنے اصحاب کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: آپ کی رائے اس کے بارے میں کیا ہے؟ میں نے عہد کیا ہے کہ ہر کام کرنے میں آپ کی رائے کو بھی شامل کروں۔
اصحاب امام مشورہ کرتے ہیں اور بالآخر فیصلہ کرتے ہیں کہ سفیانی کو سزا دی جائے اس نے بہت سے شیعہ لوگوں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کیا ہے۔پیمان شکنی بھی کی ہے۔
اس طرح سفیانی کو اس کے کیے کی سزا مل جاتی ہے اور دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے شر سے محفوظ ہو جاتی ہے۔(1)
ص:117
ص:118
سفیانی کی ہلاکت اور اس کے لشکر کی تباہی کے بعد امام فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنے لشکر کو پوری دنیا میں بھیجیں۔
تین سو تیرہ افراد میں سےہر ایک کو ضروری احکامات کے بعد پوری دنیا کے مختلف حصوں میں روانہ کیا جاتا ہے۔
امام فرماتے ہیں کہ جہاں بھی جائیں اور ان کے لیے کوئی نیا مسئلہ در پیش ہو کہ جس کا حل انہیں معلوم نہ ہو تو اپنی ہتھیلی پر نگاہ کریں؛ اس طرح انہیں اس کا جواب مل جائے گا۔(1)
اب خدا حافظی کا وقت ہے!
یہ تین سو تیرہ با وفا اصحاب امام سے جدا ہوتے ہیں۔
یہاں پر امام ہر ایک کو اپنے پاس بلاتے ہیں اپنے ہاتھ کو ان کے سینہ پر پھیرتے ہیں۔(2)
کیا اس کام کی علت (وجہ) جانتے ہیں؟
ص:119
یہ تین سو تیرہ افراد پوری دنیا میں امام کے نمائندے ہیں اور ان میں تمام خوبیوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ امام کے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرنے سے ان کی ذمہ داری کو بہتر انداز میں انجام دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تمام اصحاب اپنے گروہوں کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں تاکہ جلد از جلد پوری دنیا پر مھدوی حکومت تشکیل پا سکے۔(1)
امام کے اصحاب کے پاس عجیب و غریب قدرت ہے حتیٰ کہ پانی کے اوپر بھی چل سکتے ہیں اسی لیے دریاﺅں کو عبور کرنے کے لیے انہیں کسی کشتی کی ضرورت نہیں۔(2)
امام کسی کو فلسطین نہیں بھیجتے۔تو آپ تعجب کرتے ہیں اور وجہ پوچھتے ہیں۔
دیکھو امام خود فلسطین جا رہے ہیں ،کیونکہ وہاں یہ اہم واقعات رونما ہوں گے پس امام کا وہاں ہونا ضروری ہے۔
ص:120
اس بنا پر امام چند اصحاب کے ساتھ بیت المقدس قدس کی طرف روانہ ہوتے ہیں کچھ دونوں کے بعد امام بیت المقدس پہنچ جاتے ہیں۔
اور چند روز اس شہر میں قیام کرتے ہیں یہاں تک کہ روز جمعہ آ جاتا ہے۔
اور آپ نہیں جانتے کہ وہ روز جمعہ کتنا اہم اور تاریخ ساز دن ہے ! اس دن کچھ عیسائی اس شہر میں جمع ہوں گے اور ایک اہم واقعہ رونما ہو گا۔
جمعہ کا دن آ جاتا ہے کتنا عظیم اجتماع ہے تمام منتظر ہیں۔
اِدھر دیکھو! سر کو اٹھاﺅ اور آسمان کی طرف دیکھو۔
کیا اس سفید بادل کو دیکھ رہے ہیں؟ وہ جوان کون ہیں جو اس پر سوار ہے۔
کیا ان دو فرشتوں کو دیکھتے ہو جو ان کے ساتھ کھڑے ہیں؟ (1)
وہ بادل زمین کی طرف آ رہا ہے بیت المقدس میں ایک شوروغل برپا ہے!
شاید وہ جوان،حضرت عیسی ہیں !
جی ہاں ! آپ کا گمان صحیح ہے ،وہ حضرت عیسی ہی ہیں ۔
ص:121
وہ سفید بادل قدس کے پاس رکتا ہے اور حضرت عیسی اس سے اترتے ہیں ۔
عیسائی خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور ان کی طرف بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں ہم آپ کے یارو مددگار ہیں۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انہیں کیا جواب دیں گے؟
حضرت عیسی فرماتے ہیں : " تم میرے مددگار نہیں ہو " (1)
تمام عیسائی تعجب کرتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی طرف توجہ کیے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔
وہ کہاں جا رہے ہیں؟ اِدھر دیکھو!
امام زمانہ مسجد الاقصیٰ کے محراب میں کھڑے ہیں ان کے تمام اصحاب ان کے پیچھے صف میں کھڑے ہیں اور وقت نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام محراب کی جانب پڑھتے ہیں امام کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیںامام زمانہ علیه السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
ص:122
اے عیسیٰ علیہ السلام آپ آگے کھڑے ہوں اور ہمارے امام جماعت بنیں۔(1)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں: میں زمین پہ آپ کا وزیر بننے آیا ہوں نہ کہ امام میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔(2)
نماز برپا ہوتی ہے ،تمام عیسائی تعجب سے دیکھتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے ساتھ نماز میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔
یہاں پر بہت سے عیسائی مسلمان ہو جاتے ہیں اور امام کے ساتھیوں کے ساتھ ملحق ہو جاتے ہیں۔
اے میرے ہمسفر! امام کا یہاں پر ایک اور بھی پروگرام ہے اور وہ صندوق مقدس کا معاملہ ہے۔
کیا جانتے ہیں کہ صندوق مقدس کیا ہے؟
یقینا آپ نے سنا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئے ان کی ماں نے ان کو ایک صندوق میں رکھا اور دریا کے سپرد کر دیا۔
ص:123
وہ صندوق اس وقت امام کے پاس ہے اور اس وقت وہ اس صندوق کو اپنے ساتھ لائے ہیں شاید یہ صندوق یہودیوں کی ہدایت کا سبب بن جائے!
کیا جانتے ہیں کہ یہ صندوق یہودیوں کے نزدیک کتنا مقدس ہے؟
کیا جانتے ہیں کہ یہ صندوق یہودی کے مقدس ترین تبرکات میں سے ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات سے قبل اصلی تو رات کو مٹی کی لوح پہ لکھا تھا اور اسے اس صندوق میں رکھا تھا اور اپنے جانشین ”یوشع“ کے حوالہ کیا تھا۔
جب تک یہ صندوق ان یہودیوں کے درمیان تھا وہ عزت والے تھے؛لیکن جب سے وہ صندوق ان کے ہاتھوں سے گیا ان کی عزت بھی ختم ہو گئی۔
جی ہاں! انہوں نے اس صندوق کی حرمت کا خیال نہ رکھا خدا نے اس صندوق کو ان سے لے لیا۔(1)
ص:124
اچھا ہے ایک اور سوال بیان کرتا ہوں: کیا جانتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر بنی اسرائیل اس دنیا سے گئے تو کون ان کے جانشین ہوئے؟
جس کے پاس یہ صندوق ہوتا، وہ بعد والا نبی ہوتا اور یہودی اس کے سامنے تسلیم خم ہوتے۔(1)
اب امام کا ارادہ یہ ہے کہ اس صندوق کو یہودیوں کو دکھائیں۔
جب یہودی اس گمشدہ صندوق کو دیکھیں گے تو تعجب کریں گے ایک کثیر تعداد امام پر ایمان لے آئے گی کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جس کے پاس یہ صندوق میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لو۔(2)
ایک بہت تھوڑی تعداد حق کو قبول کرنے سے اجتناب کرے گی۔ امام ان کے ساتھ جنگ کریں گے اور انہیں شکست دیں گے۔
اب بیت القدس میں امام کا کام مکمل ہو جاتا ہے اور امام کوفہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
ص:125
ص:126
ص:127
خبریں ملتی ہیں کہ ایک کے بعد ایک ملک امام کے اصحاب کے ہاتھوں فتح ہو رہا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بہت سے ملک بغیر کسی مزاحمت کے امام کی حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں اور حکومت عادلانہ مھدوی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اصحاب امام نے صرف تیرہ شہروں اور گروہوں سے جنگ کی ہے۔(1)
جی ہاں پوری دنیا میں ایک حکومت تشکیل پا چکی ہے۔(2)
دنیا کے ہر کونے میں توحید پرستی کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں میں اہل بیت کی محبت پیدا ہو رہی ہے۔(3)
دنیا کا صرف ایک ہی دین اسلام ہے اور یہ وہی وعدہ ہے کہ جو خدا نے اپنے نبی کے ساتھ کیا تھا۔(4)
ص:128
اسی دن جب امام نے مکہ میں ظہور کیا تھا سے لے کر آج تک عالمی حکومت کے قیام میں صرف آٹھ ماہ گزرے ہیں۔(1)
اب امام اپنے اسلحہ کو زمین پہ رکھتے ہیں کیونکہ ہر جگہ امن و امان قائم ہو گیا ہے۔
امام کوفہ میں سکونت اختیار آتے ہیں اور یہ شہر عالمی حکومت کا دارالحکومت بن جاتا ہے۔
مسجد کوفہ میں اب لوگوں کی گنجائش نہیں ہے اسی لیے امام شہر کوفہ میں چند دیگر مساجد بنانے کا اقدام کرتے ہیں۔(2)
امام مسجد سہلہ کو اپنے گھر کے طور پر انتخاب کرتے ہیں۔ یہ مسجد حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم کا گھر بھی رہی تھی۔(3)
ٹھیک ہے کہ پوری دنیا امام کے اختیار میں ہے دنیا کی تمام دولت امام کے پاس ہے، لیکن ان کی زندگی بہت ہی سادہ ہے۔(4)
ص:129
جی ہاں! امام اپنے دادا حضرت علی علیہ السلام کی سنت پہ عمل کرتے ہیں کہ جو اپنی حکومت کے دوران سادہ ترین لباس اور غذا استعمال کرتے تھے۔
امام جہاں بھی جاتے ہیں سایہ ان کے سر پر رہتا ہے یہ بادل ایک خوبصورت آواز دیتا ہے: یہ مھدی ہیں۔(1)
جتنا بھی وقت گزرتا ہے امام کی جوانی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور آپ ہرگز بوڑھے نہیں ہوتے۔(2)
ص:130
ص:131
اب چاہتا ہوں کہ بتائوں ظہور کے زمانہ کے وقت زندگی کیسی ہو گی، کیا سننا پسند کریں گے؟
آپ کو زمانہ ظہور کی تمام خوبیاں اس طرح نظر آئیں گی:
اس زمانہ میں تمام خوبیاں اکٹھی ہوں گی۔(1)
تمام اہل آسمان اور زمین خوشی و انسباط میں ہوں گے؛ کیونکہ عدل کی حکومت قائم ہے۔(2)
ظلم و ستم کا نام و نشان نہ ہوگا۔
لوگوں میں فقر و غربت کا خاتمہ ہو چکا ہے صدقہ دینے کو فقیر نہ ملےگا۔ (3)
تمام لوگ دنیا کی بجائے عبادت کے عاشق ہیں اور اپنے کمال کو خدا کی بندگی میں تلاش کرتے ہیں اور ہرگز گناہ نہیں کرتے۔(4)
فرشتے انسانوں پہ سلام کرتے ہیں ان کے ساتھ معاشرت کرتے ہیں۔
ص:132
جی ہاں! لوگوں کے دل پاک ہو گئے ہیں لوگ فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ (1)
خدا لوگوں پہ رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے تمام لوگوں کی عقل کامل ہو جاتی ہے۔(2)
علم ودانش عام ہوگئی ہے اور انسان کا علم اور ترقی دس گنا بڑھ گئی ہے ۔ (3)
خدا وند متعال نے لوگوں کی قوت بینائی اور سماعت میں اضافہ کردیا ہے یہاں تک کہ لوگ پوری دنیا سے بغیر کسی وسیلہ کہ امام کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور بات بھی سن سکتے ہیں (4)
جو لوگ امام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں فرشتے انہیں کوفہ لے جاتے ہیں پھر واپس اپنے وطن پہنچا دیتے ہںں۔(5)
مومن اس قدر مقام پا لیتے ہیں کہ امام ہر ایک کو ایک لاکھ فرشتوں میں اپنا نمائندہ قرار دیتا ہے۔(6)
پوری دنیا میں کوئی بیمار نظر نہیں آتا سب لوگ صحت و سلامتی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔(7)
ص:133
پوری دنیا میں کہیں بھی اختلاف نظر نہیں آتا اور ہرقوم قبیلہ کے لوگ آرام و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔(1)
کوئی کسی کے ساتھ دشمنی و حسادت نہیں کرتا ہر ایک صمیم قلب سے دوسرے کو پسند کرتا ہیں۔(2)
اس زمانے میں دوستیاں سچی ہیں امام کے حکم پر دوست کو دوست سے وراثت ملتی ہے۔(3)
پوری دنیا میں امن قائم ہو گیا ہے اس طرح کہ وحشی درندے بھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے حتیٰ کہ بھیڑیا بھی بھیڑ پہ حملہ نہیں کرتا۔(4)
خدا کی رحمت میں اضافہ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے۔ (5)
یہ وہی خوبصورت ظہور ہے کہ تمام انبیاءالٰہی جس کے منتظر تھے وہ ظہور کہ جو تمام انسانوں کے دلوں کی آواز تھا۔(6)
ص:134
ص:135
ص:136
اے جان جہاں، اے چھپے ہوئے خزانے تم پر سلام ہو۔
اب پتہ چلا ہے کہ آپ کا ظہور کتنا خوبصورت ہے ہم بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ تشریف لائیں ہم پہ نوازش فرمائیں اور ہماری پیاس کو سیراب کریں۔