شناخت: خدامیان آرانی، مہدی، 1353 -
مصنف کا عنوان اور عنوان: خدا کی آغوش میں / مہدی خدامیان آرانی.ترجمہ: مولانا صادق عباس
اشاعت کی تفصیلات: لاہور: موسسۃ آل البیت علیه السلام ، 1397.
ظہور: 111 ص.
سیلاب: انسٹی ٹیوٹ اندیشه سبز شیعه؛ دفتر چهارم.
شابک : 10000 ریال : 978-964-2594-63-4 ؛ 30000 ریال (چاپ چهارم)
فہرست کی حیثیت: آؤٹ سورسنگ
نوٹ: بائبلص.[73] - 91.
موضوع : علی بن ابلایلب (اے ایس)، امام علی، 23 امیگریشن سے پہلے - 40 ھ - خلافت کا ثبوت - کہانی
موضوع : سقیفه بنی ساعده-- داستان
کانگریس کی درجہ بندی : BP223/5 /خ4د4 1387
خدا کی آغوش میں : 297/452
قومی بائبل نمبر : 2588850
ص:1
ص:2
خدا کی آغوش میں
موت کا خوف ممکن نہیں
تالیف : ڈاکٹرمھدی خدامیان آرانی
ترجمہ: مولانا صادق عباس
پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن
ناشر:موسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور
ص:3
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں
نام کتاب : خدا کی آغوش میں
تالیف : ڈاکٹرمھدی خدامیان آرانی
ترجمہ: مولانا صادق عباس
پیشکش:الفاطمہ ہاؤس واپڈا ٹاؤن
ناشر:موسسۃ آل البیت علیه السلام لاہور
تاریخ:3 جمادی الثانی 1439ہجری
ص:4
انتساب5
پیش لفظ6
خدا کی آغوش میں8
سجدہ میں گریہ کیوں ؟10
تجھے ملنے آیا ہوں16
آنسئووں کا آخری قطرہ20
ہماری طرف جلدی کرو25
اے غم وپریشانی خدا حافظ28
آیا ہوں تاکہ تمہاری مدد کروں32
اس اضطراب کے وقت کیاکروں؟40
تو سعادت مند ہوگیا45
اے میرے مولا مجھے تنہا نہ چھوڑیں51
کیا جبرائیل کی مہربان آواز سنتے ہو؟59
ص:5
ایمان کے سائے میں آسان موت62
خدا کی طرف سے دعوت نامہ66
آخری لمحہ کے لئے دعا71
فرشتے پھولوں کے گلدستہ کے ساتھ آتے ہیں76
اس مہربان دوست کی خوشبو82
ریٹائرمنٹ کی کوئی بات نہیں87
پھولوں کی شاخ فراموشی لے آتی ہے90
جنت میں اپنے گھر کو دیکھیں95
منابع و مآخذ107
ص:6
اس تحریر کو کائنات کی باعظمت ترین خاتون حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ جن کی اجازت کے بغیر ملک الموت بھی گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔اور جواس بی بی اور اس کی اولاد سے حقیقی محبت رکھتا ہے عزرائیل بھی جنت سےگلدستہ لے کر قبض روح کے لئے آتا ہے ۔
غسل میت نہ کہنا میرے غسل کو
اجل ملبوس کو مت کفن نام دو
میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئ
) شہید سبط جعفر(
ص:7
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار ممکن ہی نہیں وجود موت ہی اس کی دلیل ہے ۔ موت کا خوف انسان کے دل کو اس طرح سے دہلا دینے والا ہے کہ انسان مرنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے ۔لیکن محبت اہل بیت علیہم السلام ہی ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جو ناصرف انسان کے دل سے موت کے خوف کا خاتمہ کرتا ہے بلکہ انسان موت کی آرزو کرتا ہے ۔اس لئے کہ وہ ان ہستیوں کی زیارت کا مشتاق ہوتا ہے ۔اور وہ ہستیاں بھی اپنے پیروکاروں کے استقبال کے لئے آتی ہیں۔پس یہ موت جدائی نہیں بلکہ وصال کا سبب بنتی ہے ۔
کتاب حاضر ڈاکٹرمہدی خدامیان آرانی کی تالیف ہے جس میں آیات و روایات اہل بیت علیہم السلام کی روشنی میں جانکنی کے عالم اور موت کے منظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ انسان کے دل سے موت کا خوف ختم ہوجاتا ہے ۔
ص:8
مئولف کی یہ خصوصیت ہے کہ عوام الناس اور بالخصوص جوان حضرات کے لئے آیات و احادیث کوانتہائی سادہ اور رواں انداز میں پیش کرتے ہیں تا کہ وہ تعلیمات اسلام کو آسانی سے سمجھ کر اپنی زندگی میں اپنا بھی سکیں ۔چونکہ بات فرامین معصومین علیہم السلام کی ہے اس لئے صرف حوالہ ہی نہیں اصل حدیث کو بھی درج کردیا گیا ہے تاکہ کوئی اسے عام ذہن کا خیال بیان نہ کرسکے ۔البتہ ہمارے مخاطبین زیادہ مذہبی اسکالر یا علماء و خطباء نہیں ہیں اسی لئے روایتی علمی انداز نہیں اپنایا گیا لیکن یہ ضرور ہے کہ ان مطالب کو پڑھنے کے بعد انسان پیچیدہ مباحث کو سمجھنے کی استعداد ضرور حاصل کرسکتا ہے ۔
قارئین سے التماس ہے کہ ایک مرتبہ سورہ الحمد اور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کا ثواب مرحومہ یاسمین زہرا بنت محمد اقبال صافی کی روح کو ہدیہ فرمادیں ۔شکریہ
مولانا صادق عباس
خطیب و امام جمعہ الفاطمہ ہاوس واپڈا ٹاون لاہور
ص:9
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا آپ موت سے ڈرتے ہیں؟
میں نہیں جانتا کہ اس سوال کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟
لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد موت کے بارے میں آپ اچھا سوچنے لگیں گے۔
جی ہاں! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مومن کے لیے موت اتنی دلنشین ہو؟
چونکہ جان دیتے وقت چہاردہ معصومین علیہم السلام مومن کی ملاقات کے لیے آتے ہیں اور اس کی دلجوئی کرتے ہیں۔ذرا تصور کریں جان دیتے وقت جب اپنی آنکھ کھولیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے سرہانے پائیں!
ص:10
اور اپنے خدا کی آواز سنیں کہ جو آپ کو بہشت میں آنے کی دعوت دے رہا ہے تاکہ اس کی گود میں آرام و سکون سے بیٹھیں!
اور جب اس آوازکو سنیں کہ خداوندمتعال تمہیں بلا رہا ہے تو پھر موت کو اپنے لئے کتنا اچھا پائیں گے۔
اس کتاب میں احادیث محمد وآلِ محمد علیہم السلام آپ کی مدد کریں گی کہ جان کنی کا مرحلہ کتنا حسین ہوگا اور یقین ہوگا کہ موت فنا کی وادی نہیں بلکہ خدا کی آغوش میں جانے کا ذریعہ ہے۔
میں نے اس کتاب کو آپ کے لیے لکھا ہے اب آپ کی باری ہے کہ اسے پڑھیں اور جانیں کہ موت کتنی خوبصورت ہے۔
قم
مھدی خدامیان آرانی
ص:11
یہ کس کے گریہ کی آواز کانوں میں آرہی ہے؟
یہ کون صاحب ہیں کہ جو سجدہ میں اس طرح گریہ کر رہے ہیں؟
آؤ نزدیک جائیں
کچھ لوگ ان کے پاس جمع ہیں
ان میں سے ایک کہہ رہا ہے:
’’اے امیرالمومنین! آپ کے گریہ نے ہمارے دلوں کو دہلا دیا ہے، آپ کو کیا ہوا ہے؟‘‘
یقیناً آپ کو معلوم ہوگیا ہے کہ میں آپ کو مسجد کوفہ لے گیا ہوں تاکہ حضرت علی علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کروں۔
ص:12
سجدہ میں حضرت علی علیہ السلام کے گریہ کی آواز اس قدر بلند ہے کہ تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔
جی ہاں! یہ کیا ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں سے اس طرح آنسو جاری ہیں؟
سنو، خود حضرت علی علیہ السلام جواب دیتے ہیں: ’’میں سجدہ میں اپنے خدا کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول تھا۔ اسی حالت میں میں نے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا کہ وہ فرماتے ہیں:
’’ یا علی علیه السلام بہت مدت ہوگئی میں نے تمہیں نہیں دیکھا۔ خدا اپنے وعدے کو تمہارے بارے میں پورا کرنے والا ہے۔ ‘‘
میں جانناچاہتا تھا کہ جانوں کہ خدا نے میرے لیے کیا لطف و عنایت کی ہے۔ اسی لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا: ’’ خدا نے میرے بارے میں کیا وعدہ کیا ہے؟ ‘‘
ص:13
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں اور تمہاری زوجہ حضرت زہرا اور تمہارے بچوں کو جنت میں ایک بلند و بالا مقام عطا کروں۔‘‘
میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنے پیروکاروں سے متعلق سوال کیا کہ وہ کہاں پر ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’شیعیان ہمارے ساتھ ہوں گے اور جنت میں ان کے گھر ہمارے گھروں کے ساتھ ہوں گے۔
میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کہ میرے شیعہ کس طرح جان دیں گے؟ آپ نے فرمایا : ’’جب کوئی کسی صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے پیاس میں مبتلا ہو اسے ٹھنڈے پانی سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں آتی۔ موت تمہارے شیعوں کے لیے اس شربت سے بھی زیادہ شیریں ہے۔‘‘ (1)
ص:14
اے پروردگار! ہمیں حضرت علی علیہ السلام کے ان حقیقی شیعوں میں قرار دے تاکہ موت ہمیں بھی اس طرح میٹھی لگے ۔ پس جو کوئی حضرت علی علیہ السلام کا ہمام کی طرح حقیقی پیروکار ہوگا موت اس کے لیے اسی طرح میٹھی ہوگی۔
ص:15
کیا پسند کریں گے کہ اکٹھے کوفہ میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر جائیں؟
دیکھو! وہ بوڑھا شخص کون ہے کہ جو آہستہ آہستہ اس گھر کی طرف آرہا ہے۔ کیا سے پہچانتے ہو؟
وہ ’’حارث ہمدانی‘‘ ہے کہ جو اپنے امام سے ملنے آرہا ہے۔ کیا چاہتے ہو کہ اس کے ساتھ مل کر جائیں؟
جب حضرت علی علیہ السلام نے حارث کو دیکھا کہ اس بیماری کی حالت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے تو اس سے سوال کیا: ’’حارث! کیا وجہ بنی کہ تم یہاں اس حالت میں آئے ہو؟‘‘
ص:16
حارث نے کہا: ’’اے امیرالمومنین علیہ السلام ! آپ کی محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔‘‘ امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے حارث! کیا مجھ سے محبت کرتے ہو؟
حارث نے جواب دیا: ’’جی ہاں! خدا کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام حارث سے یہ سوال کیوں کر رہے ہیں ؟ واضح ہے کہ حارث ہمدانی کے سینہ میں عشق اہل بیت علیہم السلام ہے وگرنہ اس بیماری کی حالت میں آپ کے گھر نہ آتا۔
لیکن امام کے اس سوال میں ضرور کوئی حکمت ہوگی، مجھے صبر کرنا چاہیے ۔ امام نے جب حارث کے جواب کو سنا توفرمایا: ’’اب جبکہ مجھ سے محبت کرتے ہو، جان لو کہ چند مقامات پر مجھ سے ملاقات ہوگی
1.وہ وقت جب تمہاری زندگی کا آخری لحظہ ہوگا مجھے اپنے پاس پاؤ گے اور مجھ سے مل کر خوش ہوگے۔
ص:17
2.مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کرو گے کہ کس طرح اپنے چاہنے والوں کو سیراب کرتا ہوں، اے حارث! اس دن مجھ سے ملاقات کرکے خوش ہوگے۔
3.روز قیامت مجھ سے ملاقات ہوگی اور [حمد کا پرچم] میرے ہاتھ میں ہوگا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ پل صراط سے عبور کرو گے اور بہشت کی طرف جاؤ گے تو اس لمحہ پر بھی خوش ہوگے۔
حارث ہمدانی اس خوشی کے عالم میں امام کے گھر سے نکلے اور اسے یقین تھا کہ امام اس کی جان نکلنے کے لمحہ اس کے سرہانے پر موجود ہوں گے۔
حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنے وعدے کو پورا کیا اور حارث ہمدانی کی جان نکلتے وقت اس کو تنہا نہ چھوڑا۔(1)
ص:18
ص:19
مجھے اطلاع ملی کہ جتنا جلدی ہو سکے کفایت حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں کیونکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے ہیں۔
کفایت حسین میرے ایک اچھے دوست تھے۔ ایک مومن کہ جو ہمیشہ فقرا ٔ و نادار لوگوں کی مدد کرتے رہتے تھے۔
میں جلدی سے اس ہسپتال میں پہنچا، ان کے تمام بچے وہاں پہ موجود تھے اور گریہ کر رہے تھے۔ کیونکہ انہیں ان کے زندہ رہنے کی امید نہ تھی۔ انہیں یقین ہو رہا تھا کہ یہ ان کے والد کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔
اس دوران میری نظریں کفایت حسین کی آنکھوں پر لگی ہوئی تھیں۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں کس چیز کو ڈھونڈ رہا تھا؟
ص:20
میں ایک قطرہ آنسو کی تلاش میں تھا وہ آنسو جو کفایت حسین کی آنکھ سے جاری ہو۔ بالآخر وہ قطرہ کفایت حسین کی آنکھ سے جاری ہوگیا
آپ کی رائے میں کیا یہ غم کے آنسو ہیں؟
کیا کفایت حسین ناراحت ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں؟
شاید آپ سمجھیں کہ ان کے یہ آنسو اس لئے ہیں کہ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ ان کے تمام دوست عزیز و اقارب ان سے جدا ہو رہے ہیں اور وہ تنہا قبر و قیامت کے سفر پر جا رہے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں! یہ غم کے آنسو نہیں
یہ خوشی و سرور کے آنسو ہیں، یہ وہ خوشی ہے کہ جو آنسو کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ آپ یقیناً میری بات پر تعجب کر رہے ہوں گے!
کہ اس آخری لمحہ زندگی پر کون سی خوشی پیش آئی ہوگی کہ انسان اس قدر خوش ہو کہ آنسو جاری ہو جائیں؟
ص:21
آپ نے اب تک موت کے بارے میں یہی سنا ہوگا کہ جان نکلنے کا لمحہ انسان کی زندگی کا سخت ترین لمحہ ہوتا ہے جس وقت انسان جان دے کر اس دنیا سے آخرت کی طرف سفر کرتا ہے۔ اس لئے کہیں گے کہ مصنف سے ضرور غلطی ہوئی ہے وہ تمہارے دوست کا گریہ غم کے آنسو تھے۔
اب جب کہ ایسا ہے تو میں آپ کے لیے ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’جی ہاں! انسان جب اتنی پیاری چیز کو دیکھتا ہے تو خوشی سے آنسو بہاتا ہے۔‘‘(1)
قارئین محترم! میرے دوست کفایت حسین نے ایک عمر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت میں گزاری۔ اپنی زندگی کو اس خاندان کی خدمت میں صرف کیا، اب جبکہ سب نے اس سے منہ موڑ لیا ہے، اب جبکہ کوئی ان کے لیے کچھ نہیں
ص:22
کر سکتا، اچانک اپنی آنکھ کو کھولتا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے پاس دیکھتا ہے تو اسے حق ہے کہ خوشی کے آنسو بہائے!
میری جان قربان ہو اُن چہاردہ معصومین علیہم السلام کے پاک نور پر کہ جو ان سخت ترین لمحات میں بھی اپنے چاہنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔(1)
ص:23
ص:24
یقیناً آپ نے [ابوحمزہ ثمالی] کا نام سن رکھا ہوگا۔
وہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی تھے۔ انہوں نے ماہِ مبارک رمضان کی راتوں میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعا ہمارے لیے بیان کی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ آپ نے رمضان کی راتوں میں اس دعا کو پڑھا یا اس کے مطالب پر غور کیا ہوگا؟
اے خدایا! ہماری اُمید وں کو نا اُمید نہ کرنا، لیکن میں تیری بخشش و عفو کا اُمیدوار ہوں پس میرے گناہوں کو بخش دے۔(1)
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کے بعد ابوحمزہ حضرت محمد باقر علیہ السلام سے ملاقات کیلئے مدینہ کی طرف جاتے ہیں۔
ص:25
کوفہ سے مدینہ کا ایک طولانی سفر ہے اور وہ اس راستہ کو عشق زیارت امام علیہ السلام میں طے کر رہے ہیں۔ سفر کی سختیاں، خشک و بیاباں صحراؤں کو چیرتے ہوئے بالآخر مدینہ پہنچتے ہیں اور مدینہ کے کھجوروں کے باغات نظر آتے ہیں۔
یہ مدینہ ہے عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام کے دلوں کا کعبہ!
ابوحمزہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر کی زیات سے مشرف ہو کر مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہیں۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں، اسی لئے امام علیہ السلام کے گھر کی طرف جاتے ہیں۔
ابو حمزہ ثمالی امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور نہایت خضوع و خشوع سے امام علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھ گئے۔
ص:26
نہ جانے کیا ہوا کہ ابو حمزہ کو موت کا وقت یاد آگیا ہے شاید ان کے دل میں بھی موت کا ڈر ہے۔
اس لیے بات ہونٹوں پر لاتے ہوئے کہتے ہیں!
اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! موت آپ کے شیعوں کیلئے کیسی ہوگی؟
امام علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں:’’کیا چاہتے ہو کہ تمہیں ایک بہت بڑی خوشخبری دوں؟ جان لو! جب موت ہمارے چاہنے والوں کو آتی ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام اس کے سرہانے موجود ہوتے ہیں۔ ‘‘
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جان کنی کے وقت ہمارے شیعہ کے پاس آکر بیٹھتے ہیں ار فرماتے ہیں: ’’کیا مجھے جانتے ہو؟ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوں!‘‘
ص:27
جان لو آخرت تمہارے لئے دنیا سے بہتر ہے۔
اب ڈرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب صرف خیر و خوبی کے علاوہ کوئی تمہارے انتظار میں نہیں !
ہماری طرف تیزی سے آؤ(1)
ابوحمزہ کی آنکھ سے آنسو جاری ہوئے وہ یہ سوچ رہے تھے کہ موت شیعہ کیلئے واقعی کتنی خوبصورت اور دلنشین ہے اور یہ خوشی کی کتنی بڑی خبر ہے کہ جو ابوحمزہ ثمالی نے اب تک سنی ہے۔
ص:28
ص:29
خدایا ہمیں اس دنیا میں لانے کا مقصد کیا تھا؟
یہ زندگی مصیبتوں اور پریشانیوں سے کیوں بھری ہوئی ہے؟
یقیناً آپ نے حضرت امام علی علیہ السلام کی یہ بات سن رکھی ہوگی کہ آپ نے فرمایا: ’’یہ دنیا ایسا گھر ہے کہ جسے ہمیشہ بلا و پریشانی نے گھیرا ہوا ہے۔‘‘(1)
عجیب بات تو یہ ہے کہ انسان جتنا خدا سے قریب ہوتا ہے یہ پریشانیاں اسے زیادہ گھیر لیتی ہیں۔
آپ کی نظر میں مومن ان مشکلات میں کیوں گھرا رہتا ہے؟ خدا نے ہماری روح کو عالم ملکوت میں خلق کیا لیکن وہ جانتا تھا کہ ممکن ہے یہ انسان غرور و تکبر کا شکار ہو جائے اور یہ غرور ہی ہے کہ جو انسان کے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے۔
ص:30
اس لیے خدا وند اعلیٰ نے ہمیں اس خاکی لباس میں ڈھالااور اس دنیا میں بھیجا کہ جو بلا و پریشانیوں سے بھری پڑی ہے۔
اس دنیا میں ہماری روح کا بلا و پریشانیوں سے علاج ہوتا ہے اور وہ غرور کی بیماری آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔
آپ کو یاد ہے کہ چند روز قبل آپ سخت بیمار اور سردرد میں مبتلا تھے؟ آپ کو یاد ہے کہ ایک دن دانت کی کتنی تکلیف ہو رہی تھی؟ یہ تمام بیماریاں اس زہر کا علاج ہیں جو آپ کی روح کو غرور و تکبر سے نجات دیتی ہیں۔
جی ہاں! آپ جتنا خدا کے زیادہ نزدیک ہوں گے اس کی بارگاہ میں مقام زیادہ بلند ہوگا اتناہی زیادہ مصیبتوں نے گھیرا ہوگا۔ یہ سب اس لئے کہ آپ بارگاہ خدا کا مہمان بننا چاہتے ہیں اس لیے آپ کی روح کو ان آلودگیوں سے پاک کیا جاتا ہے۔
کیا جانتے ہیں کہ ہماری روح کیسے ان آلودگیوں سے پاک ہوتی ہے؟
ص:31
جس طرح انسان کا جسم نہانے سے صاف ہوجاتا ہے انسان کی روح بھی مصیبتوں میں گھر جانے سے پاک ہوجاتی ہے۔
پس آج کے بعد ان پریشانیوں اور تکالیف کو ایک دوسری نظر سے دیکھیں۔
بہرحال دنیا مومن کے لیے بلا و پریشانیوں کا گھر ہے، خوش نصیب ہے وہ جو اس مرحلہ زندگی کو سعادت سے گزارتا ہے اور آخرت کے سفر کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جب موت کا وقت آتا ہے ایک آواز کان میں پڑتی ہے کہ اس دنیا کے غم و مصیبت سے نجات پاگئے ہو۔(1)
جی ہاں! جب موت کا وقت آتا ہے تو مومن کی تکالیف و پریشانیوں کے خاتمے کا وقت آجاتا ہے۔ اب اس کی روح پاک ہو چکی ہے وہ
ص:32
ایک پرندے کی طرح ہےجو پنجرہ کی قید سے آزاد ہوجاتا ہے اور خدا کی دعوت پر لبیک کہتا ہے۔
مومن موت کے وقت ہر طرح کی روحی آلودگیوں سے پاک ہوجاتا ہے اب وہ عالم ملکوت میں اپنے کمال کو جاری کرتا ہے۔
ص:33
[عقبہ] حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بہت ہی قریبی اصحاب میں سے تھا۔ اور آپ علیه السلام سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ ایک دن اپنے ایک دوست [معلیٰ] کے ساتھ امام کے گھر آیا۔
امام علیہ السلام نے عقبہ سے فرمایا:
’’اے عقبہ! آگاہ رہو خداوندمتعال صرف ہمارے شیعوں کے اعمال قبول کرتا ہے اور ہمارے دشمنوں کے اعمال خدا کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتے۔ خدا کی قسم! ہمارے شیعہ جان کنی کے وقت اس منظر کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں‘‘
امام کی بات جب یہاں تک پہنچی تو خاموش ہوگئے۔
شیعہ اہل بیت علیہم السلام جان دیتے وقت کیا دیکھتا اور سنتا ہے؟
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس راز سے پردہ کیوں نہیں ہٹایا؟
ص:34
وہ تمام لوگ جو اس وقت امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھے آپ کی طرح اشتیاق رکھتے تھے کہ امام علیہ السلام کی بات مکمل ہو۔
نہ جانے کیوں امام علیه السلام کی خاموشی جاری رہی۔
عقبہ کہتا ہے میں نے امام کی خدمت میں عرض کی:
’’اے فرزند رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم! جان دیتے وقت آپ کا شیعہ کیا چیز دیکھتا ہے؟ ‘‘
امام علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ہمارا شیعہ وہی دیکھتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔ ‘‘
عقبہ نے گیارہ مرتبہ اپنے سوال کو دہرایا اور ہر مرتبہ امام علیه السلام سے صرف یہی مختصر جواب سنا۔
کیوں امام جعفر صادق علیہ السلام عقبہ کی بات کا مکمل جواب نہیں دیتے۔
ص:35
کچھ لمحات گزرے اس مرتبہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے عقبہ کو آواز دی اور فرمایا: ’’ اے عقبہ! تو نے اپنے سوال کو اتنی مرتبہ دہرایا ہے کہ جب تک اس کا جواب نہ ملے تمہیں چین نہ ہوگا۔ ‘‘
عقبہ جواب دیتا ہے : ’’اے فرزند رسول صلی الله علیه و آله و سلم خدا! آپ سے جو سنتا ہوں وہ میرا دین ہے اور میں اپنے دین پر جان دینے کے لئے حاضر ہوں۔‘‘
قارئین محترم!
دیکھیں کہ حقیقی شیعہ کیسے تھے کس قدر سمجھنے کو اہمیت دیتے تھےا ور اسے اپنے دین کا حصہ سمجھتے تھے۔
جی ہاں! ہمارے معاشرے نے دین سے کس قدر دوری اختیار کر لی ہے ۔ اُس زمانہ میں جو کوئی جتنا اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک ہوتاہے ، سننے اور سمجھنے کا شوق اس میں اتنا ہی زیادہ ہوتا۔
ص:36
اب کیا ہوگیا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ جتنا ہم اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک ہوں گے دیوانے ہو جائیں گے۔
بہرحال عقبہ امام علیه السلام کے سامنے گریہ کرنے لگا! اس کا یہ گریہ اس لئے تھا کہ امام کے کلام کو پورا سنے۔ عقبہ پر خدائی رحمت ہو تو نے کس طرح ایک شیعہ کی حقیقی تصویر پیش کی۔
اور شاید اگر امام علیه السلام اسی لمحہ عقبہ کو جواب دے دیتے تو یہ خوبصورت تصویر تاریخ میں رقم نہ ہوتی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے عقبہ کو گریہ کرتے ہوئے دیکھا اور اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہمارا شیعہ جان کنی کے وقت دو لوگوں کو دیکھے گا!‘‘
پھر عقبہ نے اپنے سوال کو دہرایا کہ آپ کا حقیقی شیعہ کن کو دیکھے گا؟
ص:37
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:
’’ہمارا شیعہ آخری لمحۂ زندگی میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کو دیکھے گا۔‘‘
عقبہ نے پوچھا: ’’کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام اُس مومن سے کلام بھی کریں گے؟‘‘
امام نے فرمایا: ’’جی ہاں! پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مومن کے سرہانے بیٹھے ہوں گے اور حضرت علی علیہ السلام ساتھ ہوں گے۔‘‘
قارئین محترم! آپ بھی جب کسی کی عیادت کیلئے جاتے ہیں تو پسند کرتے ہیں کہ اس مریض کے پاس بیٹھیں، اس سے باتیں کریں ، اس سے اچھی اچھی باتیں کریں، اسے حوصلہ و تسلی دیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے فرمایا:
ص:38
اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے فرماتے ہیں:
اے خدا کے دوست! تجھے میں بشارت دیتا ہوں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوں اور آگاہ رہو کہ میں تمہارے لئے تمام دنیا سے بہتر ہوں۔
پھررسول خدا اُٹھ جاتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام مومن کے پاس بیٹھ کر فرماتے ہیں:
اے خدا کے دوست! خوش رہو اور غم نہ کرو میں وہی علی ابن ابی طالب علیه السلام ہوں کہ جس سے تم محبت کرتے ہو۔
"میں آیا ہوں کہ تیری مدد کروں۔"(1)
میری جان آپ پر قربان ہو میرے آقا کہ اس حساس ترین وقت میں اپنے چاہنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتے!
ص:39
امام کی بات مکمل ہوئی عقبہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ لحظہ موت بھی کیسا موقع ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے نورانی چہرہ کی زیارت ہوتی ہے۔
ص:40
ص:41
انسان کی فطری ضروریات میں سے ایک ضرورت محبت کرنا ہے۔ ان معنوں میں کہ انسان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب سے اظہار محبت کرے۔
انسانی نفسیات کی یہ ضرورت ہے کہ اس کی ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں لیکن انسان اپنے سچے محبوب کو نہیں پہچان سکے اور مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ چونکہ روح ایک لطیف شے ہوتی ہے وہ انسان ایک روحانی لذت کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ آج کا انسان مشینی زندگی کا گرویدہ ہوگیا ہے۔ ٹیکنالوجی کا قیدی ہوگیا ہے۔ اسے زیادہ ضرورت ہے کہ اپنے محبوب سے زیادہ عشق کرے۔
اب بات یہ ہے کہ یہ محبوب جتنا کامل ہوگا انسان اتنا ہی کمال حاصل کرے گا۔ ہماری دینی تعلیمات میں اس نکتہ کی طرف بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کہ" اہل بیت علیه السلام سے محبت دین کی بنیاد ہے اور در حقیقت یہ
ص:42
محبت ہی دائمی سرمایہ ہے ۔ یہ دنیا و آخرت میں کام آنے والا سرمایہ ہے"(1)
چہاردہ معصومین علیہم السلام سے محبت ہی وہ گرانقدر سرمایہ ہے کہ جس کی ہمارے ہاں کثرت ہے اور ہمیں اس کا ہمیشہ شکر بجا لانا چاہیے اور اس سرمایہ کو اپنے اور معاشرے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام سے کب زیادہ محبت کرتے ہیں؟
کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث پیش کی جائے۔
امام علیه السلام نے اپنے شیعوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’جان نکلنے کا وہ لمحہ ہوتا ہے جب روح تمہارے جسم سے خارج ہو رہی ہوتی ہے۔ اس وقت تمہیں ہماری محبت کی زیادہ ضرورت ہوگی۔‘‘(2)
ص:43
اب ذرا یہ خیال کریں کہ وہ موت کا وقت آپہنچا ہے۔ عزرائیل روح قبض کرنے کیلئے آگئے ہیں۔ وہ لمحہ جب زبان بولنے کی قوت نہیں رکھتی!
اس وقت کوئی بیٹا، بیٹی، زوجہ ، دوست تمہاری مدد نہیں کر سکتے! اس وقت دنیا تمہاری نظروں میں تاریک ہو جائے گی۔ آہستہ آہستہ اس دنیا سے منہ موڑ لو اور ایک نئی دنیا میں قدم رکھو کہ جس کے بارے میں تم نہیں جانتے!
ٹھیک یہ ہی وقت ہے تیری اہل بیت علیہم السلام سے محبت و عقیدت تیری نجات کا سرمایہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ محبت و عشق اہل بیت علیہم السلام وہ عظیم خزانہ ہے جو تیرے دل میں دفن ہے۔
کیا یاد ہے کہ جب بھی محرم کا آغاز ہوتا مجالس عزا داری امام حسین علیہ السلام میں شرکت کرتے اور عشق و محبت اہل بیت علیہم السلام میں آنسو بہاتے تھے؟
ص:44
تمہیں یاد ہے کہ کس طرح تم کربلا جانے کی تمنا رکھتے تھے اور وہ زیارت بھی تمہارے نصیب میں ہوتی تھی؟
ان کاموں کا اس لمحہ بہت فائدہ ہوگا کہ جب تمہارے دل میں موت کا خوف نہ ہوگا۔ کیونکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام سے محبت و عشق کو تمہارے لیے خوف دور کرنے کا سرمایہ قرار دیا اور اس محبت کے بقیہ فوائد پر خاموشی اختیار کی؟
میں نے ایک طویل مدت اس موضوع کے بارے میں فکر کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس حساس ترین لمحہ پر محبت اہل بیت علیہم السلام سے بڑھ کر کوئی چیز ہمارے کام نہ آئے گی۔
ص:45
ص:46
میں سعید بن یسار ہوں، شہر کوفہ میں زندگی بسرکرتا ہوں اور شیعیان اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں۔ کئی مرتبہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہونے کی سعادت حاصل کی ہے اور آنحضرت سے کئی احادیث نقل کی ہیں اور تمام علماشیعہ مجھے سچا اور قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔(1)
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو زکریا کا تعارف کراؤں۔
زکریا بن سابورمیرے ایک عزیز دوست اور قابل اعتماد انسان ہیں(2)
ہم دونوں نے بہت عرصہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں زندگی بسر کی ہے اور ان کے ارشادات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی بہت کوشش کی ہے۔
ص:47
چند دنوں سے زکریا بیمار ہے میں اس کی عیادت کیلئے جاتا رہتا ہوں۔ آج ہی مجھے خبر ملی ہے کہ اس کی حالت کافی بگڑ گئی ہے۔ اس لئے میں نے جلدی سے خود کو وہاں پہنچایا۔
جب میں اس کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ اس کے بیوی بچے اس کے گرد جمع ہیں اور گریہ کر رہے ہیں۔ میں اس منظر کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا کیونکہ میرا ایک بہترین دوست ہاتھوں سے جا رہا تھا۔
میں بھی آگے بڑھا اور اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہونے لگے۔ اچانک میں نے دیکھا کہ زکریا نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا جیسا کہ کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور ایک جملہ کہا:
’’میرا ہاتھ سعادت مند ہوگیا یا علی علیه السلام ‘‘
میں اس کی بات نہ سمجھ سکا کہ اس کی مراد کیا تھی؟
ص:48
وہ کس کے ساتھ باتیں کر رہا تھا؟
وہاں پہ کوئی بھی علی نامی شخص نہ تھا۔
کچھ ہی لمحات کے بعد زکریا کی روح عالم بقا کی طرف پرواز کر گئی۔ اس کے گھر میں گریہ و نالہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جب لوگوں کو زکریا کی وفات کی خبر ملی سب اکٹھے ہوگئے۔ غسل و کفن کے بعد تدفین کے مراحل انجام دینے کےکیلئے قبرستان کی طرف چلے۔
میرے لئے یہ سوال ایک معما کے طور پر باقی رہا کہ آخری لمحاتِ زندگی میں زکریا کس سے باتیں کر رہا تھا؟
اس کی مراد اس جملہ سے کیا تھی؟
میں نے سوچا کہ مدینے جاؤں اور امام علیه السلام کی خدمت میں زیارت کا شرف حاصل کروں اور زکریا کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے متعلق پوچھوں۔
ص:49
اس بنا پر میں مدینہ کے سفر کیلئے تیار ہوا۔
قبرِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کے بعد امام علیه السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔
امام تک زکریا کی وفات کی خبر پہنچ چکی تھی۔ امام علیہ السلام نے پوچھا: مجھے بتاو کہ جان دیتے وقت زکریا کے منہ سے کیا سنا تھا؟
میں نے کہا:
’’اے میرے سردار! میں آخری لمحات میں زکریا کے پاس موجود تھا اس کا ہاتھ آگے بڑھا گویا کسی سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا۔ پھر اس نے یہ کہا:
’’ میرا ہاتھ سعادت مند ہوگیا یا علی علیه السلام ‘‘
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ص:50
’’خدا کی قسم اس لمحہ زکریا نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تھا؛ آپ نے اپنے شیعوں سے وعدہ کیا ہے کہ جان نکلتے وقت میں انہیں ملنے ضرور آؤں گا۔‘‘
خوش نصیب ہے زکریا کہ اس نے اس لمحہ میں اپنے آقا کی زیارت کی۔ میں اس نکتہ سے کیوں غافل تھا۔
زکریا نے جان دیتے وقت حضرت علی علیہ السلام سے بات کی۔
جی ہاں! اس نے اپنے ہاتھ کو اُٹھایا چونکہ حضرت علی علیہ السلام سے مصافحہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے مہربان مولا علیه السلام کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا:
میرا ہاتھ بھی سعادت مند ہوگیا یا علی علیه السلام !
اس نے اپنے مولا علیه السلام کے ہاتھ کی گرمی اور مہربانی کو محسوس کیا اور اس لئے اس جملہ سے اپنی سعادت کی خبر دی۔(1)
ص:51
ص:52
نہیں جانتا کہ سید حمیدی کو جانتے ہیں یا نہیں
سید حمیدی ایک بلند مرتبہ شاعر اور حضرت علی علیہ السلام سے عشق و محبت میں مشہور اور آپ کی شان میں شعر کہا کرتے تھے۔
وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے شعر اس قدر دلنشین اور پُرمغز اوروہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کرتے تھے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں سید شعرأ کا لقب سے نوازا تھا۔(1)
حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس کے کہے گئے اشعار لب زد عام تھے۔
ص:53
آج کل سید حمیدی بیمار ہے اور شفایابی کی کوئی اُمید نہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ اس عظیم شاعر اہل بیت علیه السلام کی عیادت کیلئے جائیں۔
اس کے گھر میں داخل ہوئے ہیں کہ تمام عزیز و اقارب ان کے گھر موجود ہیں۔
شیعیان کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی اس وقت اس کے گھر کی طرف چلے۔ آپ سے کیا چھپانا کچھ ناصبی بھی ہمارے درمیان موجود تھے۔ جو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ سید کیسے جان دیتا ہے۔
ناصبیوں کو تو جانتے ہیں؟ وہی کہ جو دل میں حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں!
نہیں جانتا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں۔
کس نے انہیں اطلاع دی ہے۔
ص:54
وہ تو سید حمیدی کے خون کے پیاسے تھے کیوں اس کی عیادت کیلئے آئے ہیں؟
شاید وہ آئے ہیں تاکہ سید حمیدی کی موت پر جشن منائیں کیونکہ سید حمیدی ان کی آنکھوں میں خار چشم تھا۔
سید حمیدی لوگوں کو فضائل علی علیہ السلام سنایا کرتا تھا اس لئے اس کی موت دشمنانِ شیعہ کے لئے خوشی کا سبب تھی۔
بہرحال موت نے تو سب کو آنا ہے۔ اب سید حمیدی بستر پر پڑے ہیں۔ لوگ ان کے چہرے کو چومتے ہیں ان سے باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ان میں بات کرنے کی ہمت نہیں۔
دیکھو دیکھو!
سید حمیدی کے چہرے پر ایک سیاہ نکتہ نمودار ہوا ہے اور آہستہ آہستہ یہ سیاہی بڑھ رہی ہے یہاں تک کہ ان کا پورا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے۔
ص:55
یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
سیدحمیدی مکتب اہل بیت علیہم السلام کا بہت زیادہ دفاع کرنے والے تھے۔ اب ان کا چہرہ کیوں سیاہ ہو رہا ہے؟
دیکھو دیکھو یہ ناصبی اس طرح کیوں خوش ہو رہے ہیں اور چیخ رہے ہیں۔
دیکھ رہے ہو سید حمیدی کا چہرہ سیاہ ہوگیا ہے؟
اس کا مولا اس کی مدد کیوں نہیں کرتا۔
ہم نے سید سے کہا تھا کہ اپنے عقیدہ کوچھوڑ دو لیکن اس نے ہماری نہ مانی اب اپنے کام کی سزا پا رہا ہے۔
سید کے تمام ساتھی پریشان ہونے لگے ارے یہ کیا ہوگیا ہے سید کا چہرہ اس طرح سیاہ کیوں ہوگیا ہے؟
ص:56
شیعہ اپنے سر کو جھکائے کھڑے ناصبیوں کے سامنے شرمندہ ہو رہے ہیں۔ سید حمیدی کے جانے کا ایک دُکھ اور پھر ناصبیوں کے جملے الامان۔
خدایا کیا کریں ان ناصبیوں کو کیا جواب دیں؟
دیکھو دیکھو سید کے چہرے پر سفید نکتہ نمودار ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اب سید کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ نورانی ہو چکا ہے۔
ہر طر ف سے آوازیں آنے لگیں ۔ دیکھو دیکھو سید کا چہرہ نورانی ہوگیا ہے۔ لوگوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ سید کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمکنے لگا۔
سید مسکرا رہے تھے۔ وہ بات کرنا چاہتے تھے۔
اس قدر شور و غل نہ کرو۔ لوگو! آرام کرو سید بات کرنا چاہتے ہیں۔
ص:57
سب لوگ خاموش ہوگئے تاکہ سید کی آخری بات سن سکیں۔ تمام لوگ قلم دوات لے آئیں اور سید کے آخری کلام کو لکھ لیں۔
کذب الزاعمون ان علیا۔۔۔۔ لن ینحی محبہ من ھنات
کتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
خداوند میرے مولا علیه السلام کے صدقہ میں میرے گناہوں سے چشم پوشی فرما!
تمام شیعہ خوش ہوگئے اور دشمنانِ اہل بیت علیه السلام شرمندہ ہونے لگےاور اپنے سر کو جھکائے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
جی ہاں حضرت علی علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو ، اپنےچاہنے والوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔ وفا نے حضرت علی علیہ السلام سے درس وفا لیا ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کو بھول جائیں؟
پھر سید نے اس طرح اپنے لبوں پر زمزمہ کیا۔
ص:58
اشھد ان لا الہ الا اللہ
اشھد ان محمداً رسول اللہ
اشھد ان علیا امیرالمومنین ولی اللہ
یوں سید نے اپنی جان سپرد کی۔
ص:59
ص:60
جبرائیل خدا کے مقرب ترین فرشتوں میں سےہے۔ وہ وحی کا امین ہے۔ اور کتب آسمانی کو انبیا کیلئے لیکر آتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے نبی پر وحی لیکر آتا تھا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ جب نزول قرآن مکمل ہوگیا تو کیا بعد میں بھی جبرائیل زمین پر نازل ہوتا ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جبرائیل صرف وحی کا کام کرتا ہے چونکہ وہ مکمل ہوگیا ہے تو جواب میں کہتے ہیں کہ اب جبرائیل زمین پر نہیں آتا؛ چونکہ ہمارے نبی آخری نبی تھے لہٰذا اب کوئی آسمانی کتاب نازل نہ ہوگی۔
البتہ یہ صحیح ہے کہ جبرائیل ہرگز وحی لیکر زمین پر نہیں آئیں گے لیکن دیگر کام کرنے کیلئے زمین پر آتے ہیں۔
ص:61
نہیں جانتا کہ آپ نے شاید سنا ہو کہ جب کوئی مومن اس دنیا سے جاتا ہے تو جبرائیل اس کے سرہانے پر نازل ہوتے ہیں۔
حتماً سوال کریں گے کہ مومن کی جان دیتے وقت جبرائیل کس لئے مومن کے سرہانے پر آتے ہیں؟
بات اس طرح ہے: عزرائیل (جو کہ انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہے) جب کسی مومن کی جان نکالنے کے لئے آتا ہے تو جبرائیل بھی اس کے ساتھ آتا ہے۔
مومن بھی دیکھتا ہے کہ جان سپرد کرنے کا وقت آگیا ہے؛ لیکن ہر چیز سے پہلے جبرائیل عزرائیل سے کہتا ہے
اے عزرائیل! یہ اب جس کی جان لینا چاہتے ہو یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے پاک خاندان سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کرو اور نرمی کے ساتھ پیش آؤ۔(1)
ص:62
جی ہاں! جبرائیل بھی آتا ہے تاکہ عزرائیل سے سفارش کرے کہ مومن کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ اب آپ خود سوچیں کہ جبرائیل کی یہ سفارش مومن کے لئے کتنی اہمیت و سکون کی بات ہے اس نازک موقع پر مومن جب جبرائیل کی محبت بھری آواز سنتا ہے تو اس کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔
ص:63
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کے ایک صحابی جان کنی کے عالم میں ہے اور اس پر یہ اوقات سختی سے گزر رہے ہیں۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے جب یہ سنا تو فیصلہ کیا فوراً اس کی عیادت کیلئے جایا جائے اور اپنے اصحاب کے ساتھ اس کی عیادت کیلئے اس کے گھر گئے۔
امام گھر میں داخل ہوئے اور اس بیمار کے سرہانے جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
’’تمہارا کیا حال ہے۔ ‘‘
اُس نے جواب میں کہا کہ موت کو سخت ترین اور دردناک ترین سمجھتا ہوں
ص:64
امام علیه السلام نے فرمایا: ’’خدا اور ہماری ولایت پر ایمان کو پختہ کرو تو موت آسان ہو جائے گی۔‘‘
یہاں پر اس شخص نے زبان پر خدائی توحید اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کے کلمات اپنی زبان پر زمزمہ کیا۔
کچھ ہی لمحات گزرے اچانک اس شخص نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: ’’یہ اللہ کے فرشتے ہیں جو جنت سے میرے لئے تحائف لائے ہیں۔ وہ آپ کے حضور کھڑے ہیں کیا آپ انہیں بیٹھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے فرشتو! تم بھی بیٹھ جاؤ۔‘‘
تمام نظریں اس شخص پر مرکوز تھیں خوش نصیب تھے کہ اس لحظہ میں اسے یہ سعادت نصیب ہوئی اور فرشتے اس کے پاس آئے۔
ص:65
کچھ دیر کے بعد اس شخص نے اپنی آنکھوں کو بند کیا۔ اچانک اس نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور امام رضا علیہ السلام سے کہا:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں کہ جو حضرت علی علیہ السلام و امام حسن و حسین علیہ السلام اور بقیہ آئمہ علیہم السلام کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے ہیں۔
یہ اس شخص کی آخری بات تھی اور چند ہی لمحات کے بعد اس کی روح پرواز کر گئی۔(1)
ص:66
ص:67
یہ بالکل فطری بات ہے کہ ہمیں اپنی موت سے خوشی نہ ہو کیونکہ موت کے آنے سے ہم اس دنیا کو چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں کہ جس کو بالکل پہچانتے ہی نہیں۔
لیکن میں یہاں پر ایک حقیقت سے پردہ اُٹھانا چاہتا ہوں۔ بھائی وہ یہ ہے کہ بالآخر تمام انسان ایک دن موت کے عاشق ہو جائیں گے۔
کتنے ایسے افراد ملے ہیں کہ جو موت کو پسند کرتے ہوں چہ جائیکہ موت کے عاشق ہوں۔
شاید آپ یہ خیال کریں کہ یہ تمام افراد جو موت کو پسند نہیں کرتے حقیقی مومن نہیں ہیں چونکہ حقیقی مومن ہی موت کو پسند کرتا ہے۔
جی ہاں! مومن کی علامت ہے کہ وہ موت کا عاشق ہو لیکن کب اور کہاں؟ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے کلام میں اس نکتہ کی
ص:68
طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جان دیتے وقت مومن موت کا عاشق ہو جاتا ہے۔
پس اب اگر ہم موت کو پسند کریں تو کوئی عیب نہیں ہے۔
اہم یہ ہے کہ آخری لحظہ پر موت کے عاشق ہو جائیں۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ آپ کو امام کا وہ فرمان بیان کروں۔
سدیر امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہے۔ ایک دن اس نے امام علیه السلام سے سوال کیا:
اے فرزند رسول صلی الله علیه و آله و سلم! میری جان آپ پر قربان میرا ایک سوال ہے کیا مومن موت کو بُرا سمجھتا ہے؟
امام علیه السلام نے فرمایا: ’’نہیں خدا کی قسم! مومن موت کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔ جب عزرائیل مومن کی جان لینے کیلئے آتا ہے ابتدأ میں مومن خوف محسوس کرتا ہے لیکن عزرائیل بات شروع کرتا ہے اور مومن
ص:69
کو مخاطب کرکے کہتا ہے: ’’نہ ڈرو، خوف نہ کھاؤ میں تمہارے باپ سے بھی زیادہ مہربانی سے پیش آؤں گا۔‘‘
اے مومن اپنی آنکھیں کھولو! دیکھو
یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، جو حضرت علی علیہ السلام ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور ان کی نسل سے بقیہ امام علیہم السلام ہیں کہ جو تم سے ملنے آئے ہیں۔
پس مومن اپنی آنکھ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ چہاردہ معصومین علیہم السلام اس کے پاس کھڑے ہیں۔
پھر ایک آواز مومن کو سنائی دیتی ہے۔
خدایا یہ کس کی آواز ہے؟
ص:70
یہ ان فرشتوں کی آواز ہے جو خداکی طرف سے یہ بات سنانے کیلئے مامور ہیں۔
جی ہاں! خداوند متعال نے حکم دیا کہ یہ فرشتہ اس کی طرف سے مومن کو یہ کہے:
اے میرے بندے! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤ تاکہ میرے اچھے بندوں (چہاردہ معصومین علیہم السلام) کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔
مومن جب اس آواز کو سنتا ہے کہ خدا اسے اپنی طرف دعوت دے رہا ہے تاکہ بہشت میں اپنا مسکن بنا سکے اور موت کو اس کا وسیلہ دیکھتا ہے تو وہ موت کا عاشق ہو جاتا ہے۔
جی ہاں! وہاں یہ ہے کہ مومن کے سامنے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں وہ جنت میں اپنا مقام دیکھتا ہے۔
ص:71
امام علیه السلام اپنے کلام کے آخر میں فرماتے ہیں:
’’اس وقت مومن کی نظر میں جان دینے سے زیادہ کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔‘‘(1)
ص:72
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص زندگی کے آخری لمحات بسر کر رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بات سن کے اُٹھے اور اپنے اصحاب کے ساتھ اس شخص کے گھر گئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس کے گھر میں داخل ہوئے اور اُس کے بستر پر جا بیٹھے لیکن وہ اس حالت میں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ کیونکہ جان کنی کی سخت ترین حالت اس پر طاری تھی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی حالت دیکھنے پر پریشان ہوئے اور عزرائیل سے فرمایا: ’’ اے عزرائیل علیه السلام! اس شخص کو اجازت دو تاکہ میں اس سے بات کر سکوں۔‘‘
ص:73
اور آپ تو جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عزرائیل کو دیکھ سکتے ہیں اور اس سے بات کر سکتے ہیں۔ عزرائیل علیه السلام نے آپ کے حکم کی تعمیل کی کیونکہ تمام فرشتوں کو حکم ہے کہ نبی کی بات پہ عمل کریں۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بات عزرائیل سے مکمل ہوئی۔ سب نے دیکھا کہ اس شخص کی حالت آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ معمول کی حالت پہ آگیا۔
اس شخص نے اپنی آنکھ کو کھولا دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے پاس بیٹھے ہیں۔ آپ کی خدمت میں سلام کیا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسکرا کر اُس کا جواب دیا اور فرمایا: کیا حال ہے؟ اس حالت میں کیا دیکھا؟
اس شخص نے کہا: ’’یارسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم! ایک عجیب منظر تھا اس حالت میں۔ ہر طرف سے اندھیرا ہی اندھیرا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس
ص:74
شخص نے اپنی زندگی میں جو گناہ انجام دئیے تھے وہ اس تاریکی کی شکل میں نمودار ہو رہے تھے اور وہ ان سے خوف و ہراس محسوس کر رہا تھا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس شخص کا جواب سنا اور فرمایا:
یہ دعا میرے ساتھ پڑھو۔
اللھم اغفرلی الکثیر من معاصیت واقبل منی ۔۔۔۔ من طاعتک
’’اے خدایا! میرے زیادہ گناہوں کو بخش اور بہت کم نیک اعمال کو قبول فرما۔‘‘
اس شخص نے اپنی زبان سے ان کلمات کو زمزمہ کیا تو وہ دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کچھ دیر صبر کیا یہاں تک کہ وہ شخص ہوش میں آگیا پھر اس سے سوال کیا کہ اس نے بے ہوشی کی حالت میں کیا دیکھا؟
ص:75
اس شخص نے جواب دیا:
یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله و سلم! ایک سفید نور کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔
یہاں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہت خوش ہوئے اور مسکرائے پھر اس کے اہل خانہ سے فرمایا:
خدانے اس کے گناہوں کو معاف کر دیا۔
کچھ ہی دیر کے بعد اس شخص کی روح پرواز کر گئی۔
امام صادق علیہ السلام نے اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: جب بھی کسی کے پاس اس حالت میں جاؤ تو اس دعا کو اس کیلئے ضرور پڑھو۔(1)
جی ہاں! دعا ہر درد کی دوا بن سکتی ہے اور اس جان کو دیتے وقت ہی بخشش طلب کرنے کا بہترین راستہ ہے۔
ص:76
آئیں اور عہد کریں کہ جب بھی ہم کسی کو جان کنی کے عالم میں دیکھیں تو گریہ و زاری کے بجائے اس کیلئے یہ دعا پڑھیں۔ خواہ وہ شخص ہمارا دوست ہو یا رشتہ دار یا ہم پر یہ وقت آئے تو ہمارے لیے اس دعا کو پڑھیں۔
ص:77
آپ سب نے شیطان کا وہ قصہ سن رکھا ہے کہ اس نے کئی سال تک خدا کی عبادت کی لیکن جب خدا نے اسے حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ حاضر نہ ہوا کہ خدا کے اس حکم کو قبول کرے اور اس وجہ سے ہمیشہ کیلئے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا۔
اس دن کے بعد سے شیطان کوشش کرتا ہے کہ انسان کے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے اور اپنے مختلف انواع و اقسام کے حیلے بہانے کرکے آدم کی اولاد کو یہ خوش بختی حاصل کرنے میں رکاوٹ ڈالے تاکہ وہ بھی گمراہی میں کھچے جائیں۔
شیطان انسان کا دشمن ہے اور ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی تمام توانائی انسان کو گمراہ کرنے میں صرف کرے۔
ص:78
البتہ خداوندمتعال نے بھی وعدہ کیا ہے کہ میرے اچھے بندے شیطان کے جال میں نہ پھنس سکیں گے۔
معلوم نہیں کہ آپ نے سنا ہے یا نہیں کہ جب ایک مومن اس دنیا سے جاتا ہے تو شیطان کی آواز بلند ہوتی ہے:
شاید آپ کہیں کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ شیطان انسانوں کی موت سے خوش ہوتا ہے۔ لیکن اب نئی بات سن رہے ہیں ایک اچھے انسان کی موت پہ شیطان گریہ کرتا ہے۔
البتہ آپ کو علم ہے کہ میں اس بات کو بغیر دلیل کے نہیں کہہ رہا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حدیث پر غور فرمائیں۔
جب ایک نیک آدمی کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو عزرائیل پانچ سو فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتا ہے اس طرح کہ ہر ایک کے پاس پھولوں کی دو ٹہنیاں ہوتی ہیں۔ یہ تمام فرشتے اس مومن کے پاس
ص:79
آتے ہیں۔ نہایت عزت و احترام سے سلام کرتے ہیں۔ ہر ایک مومن کو خدا کی طرف سے ایک خوشخبری سناتا ہے اس کے بعد وہ منظم صفوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
نہیں جانتا کہ آپ نے دیکھا ہوگا جیسے ایک غلام آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ فرشتے بھی اسی طرح مومن کی خدمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ (1)
جی ہاں یہ تمام فرشتے مومن کے احترام میں مکمل نظم و ضبط سے کھڑے ہوتے ہیں ۔ پھولوں کی خوشبو سے فضا معطر ہوجاتی ہے۔
جی ہاں خدا نے مومن کی روح قبض کرنے کیلئے اتنا اہتمام کیا ہے جیسا کہ ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ کسی دوسرے ملک کے سفر پر جاتا ہے تو فوج کا ایک خصوصی دستہ اس کا استقبال کرتا ہے۔
ص:80
آج پتہ چلا کہ مومن جب اپنے سفر ابدی پر جاتے ہوئے اس دنیا کو ترک کرتا ہے تو پانچ سو فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں۔
یہ وہ دیدہ زیب مناظر ہیں کہ جن کی آواز شیطان کے کانوں میں پڑتی ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی با ت کو مکمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب شیطان ان فرشتوں کو دیکھتا ہے کہ قبض روح کیلئے اس مومن کے گرد جمع ہیں اپنے سر پر بازو کو رکھ کر آواز لگاتا ہے اور شیطان کی اس نالہ و فریاد سے اس کے ساتھی تعجب کرتے ہیں۔‘‘
جب شیطان اور اس کا لشکر شیطان کی یہ آواز سنتا ہے تو کہتے ہیں۔
اے ہمارے سردار! تجھے کیا ہوگیا ہے اس طرح کیوں بے تاب ہو رہے ہو؟
ص:81
شیطان جوا ب دیتا ہے: کیا نہیں دیکھ رہے کہ خدا کیسے اپنے بندے کو احترام دے رہا ہے؟ دیکھو تو سہی اس کی قبض روح کیلئے کیسی تقریب سجائی ہے؟ تم کہاں تھے اس شخص کو گمراہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ اس کو خدا کے راستہ سے منحرف کیوں نہ کیا؟
اس کےچیلے جواب دیتے ہیں کہ ہم نے بھی سر توڑ کوشش کی کہ اسے گمراہ کریں؟ لیکن اس نے ہمارے وسواس پہ کبھی کان ہی نہیں دھرے۔(1)
ص:82
ص:83
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی مخصوص خصوصیات تھیں جو انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی تھیں۔
بطور مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہمیشہ ایک خوشبو تھی جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گلی سے گزرتے وہاں کے لوگوں کو اس خوشبو سے خوشی محسوس ہوتی اور فضا میں بھی وہ خوشبو پھیل جاتی اور وہ سمجھ جاتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہاں سے گزر ہوا ہے۔
روایات میں ہے کہ جتنی رقم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوشبو پر خرچ کرتے تھے وہ کھانے کی رقم سے زیادہ تھی یہ خود کو معطر رکھنے کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔
ص:84
کاش تمام مسلمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس عمل کو بھی اپنا لیتے تو انفرادی و اجتماعی روابط کتنے مضبوط ہو جاتے ۔ جو خوشبو آپ استعمال کرتے ہیں وہ آپ کے دوست کیلئے بہترین تحفہ ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ آپ نورانی تھے اس طرح کہ جہاں بھی جاتے وہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے منور ہوجاتی۔ رات کی تاریکی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ چاندنی کی طرح چمکتا تھا۔
جی ہاں! میں اور آپ اُس زمانہ میں نہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشبو کو سونگھ سکیں۔ اور آپ کے نورانی چہرہ کی زیارت کر سکیں۔ لیکن میں آپ کو ایک ایڈریس بتاتا ہوں کہ جہاں آپ اپنے مقصد کو پا سکتے ہیں۔
ص:85
جلد یا تاخیر سے موت تو ہر ایک کو آنا ہی ہے وہاں پر اپنی اس خواہش کو پورا کر سکتے ہیں۔ یقیناً آپ اپنے آپ سے کہیں گے کہ قبر کونسی جگہ ہے کہ جہاں پر میں اپنی خواہش پوری کر سکتا ہوں؟
میں جانتا ہوں کہ آپ نے کئی مرتبہ قبر کی تاریکی اور وحشت کے بارے میں سوچا ہوگا۔ لیکن اب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی بات سنیں:
جب مومن کو قبر میں رکھا جاتا ہے اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے، مومن کی قبر میں ایک دروازہ کھلنا شروع ہوجاتا ہے، مومن اس سے دیکھتا ہے۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ مومن کیا دیکھتا ہے؟
قبر تو تاریک ہی تاریک ہوتی ہے لیکن جو نور اس دروازے سے آتا ہے وہ پوری قبر کو روشن کر دیتا ہے۔
ص:86
یہ نور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے۔ اور جو خوشبو مومن سونگھتا ہے
جی ہاں! وہ خوشبو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہوتی ہے۔(1)
میری جان آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کتنے مہربان ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو سخت ترین لمحات میں بھی تنہا نہیں چھوڑتے!
اے ہمارے آقا و مولا!
کیا ہو جائے گا جب مجھے قبر میں رکھا جائے گا اور سب تنہا چھوڑ جائیں گے تو ہماری طرف بھی نظر لطف و کرم ڈال دیجئے گا۔
ص:87
ص:88
خداوند عالم نے دو فرشتوں کو ہمارے اعمال لکھنے پر مامور کیا ہے۔ ان کے نام [رقیب] اور [عتید] ہیں۔ وہ ہمارے تمام اعمال کو لکھتے ہیں۔ اور قیامت کے دن حساب و کتاب کیلئے پیش کیے جائیں گے۔
یہ دو فرشتے جب سے ہم بالغ ہوئے ہیں اپنے کام پر شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جب تک ہم زندہ رہتے ہیں ہمارے نیک اور بُرے اعمال کو درج کرتے رہتے ہیں۔
کیا آپ نے آج تک سوچا ہے کہ جب ایک شخص دنیا سے چلا جاتا ہے تو ان دو فرشتوں کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟
کیا خدا انہیں نئی ذمہ داری دے دیتا ہے ؟ یا کیا وہ بھی ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ جان لیں وہاں یہ ریٹائرمنٹ نہیں ہے بلکہ خدا انہیں ایک نئی ذمہ داری دے دیتا ہے۔
ص:89
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔
جب ایک مومن اپنی جان خدا کے آگے تسلیم کر دیتا ہے تو وہ دوفرشتے جو اعمال کے اندراج پر مامور ہوتے ہیں آسمان کی طرف پروازکرجاتے ہیں۔
وہ گریہ و زاری کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں کہتے ہیں:
خداوندا! تیرے نیک بندے کی موت کا وقت قریب آچکا ہے وہ اہلِ اطاعت و بندگی میں سے تھا۔ ہم نے اس کے کتنے ہی نیک کام دیکھے ہیں۔
خداوندا ! اب اس کے مرنے کے بعد ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
پھر ان سے خطاب ہوتا ہے
ص:90
زمین پر چلے جائیں اور قیامت کے دن تک اس کی قبر کے پاس گھر بنائیں اور میری عبادت میں مشغول رہیں اور اپنی عبادات کے ثواب کو اس کے نامہ ٔ اعمال میں اندراج کرتے رہیں۔
اور جب قیامت برپا ہوگی اس کو جنت کی طرف راہنمائی کریں اور جنت میں اس کی خدمت کریں۔(1)
ص:91
حضرت امام سجاد نے ایک حدیث میں فرمایا:
جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو خدا جنت سے دو پھولوں کی شاخیں مومن کیلئے بھیجتا ہے۔
مجھے یاد نہیں آرہا ایک دن اس حدیث کو ایک محفل میں بیان کیا تھا وہاں پہ موجود ایک شخص نے مجھ سے کہا:
’’ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ کہے اے میرے خدا مومن کی زندگی میں ایک پھول کی شاخ بھی نہیں بھیجی اب جب کہ عزرائیل جان لینا چاہتا ہے اس کیلئے پھول ہدیہ کرتے ہو۔‘‘
لیکن اگر یہ میرا دوست صبر کرتا تو اس کیلئے وہ وضاحت کرتا کہ خدا کے تمام کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور مومن کیلئے پھول بھیجنے میں ان حالات میں ان پھولوں سے بڑھ کر اس کیلئے کوئی چیز مفید نہیں ہے۔
ص:92
ان پھولوں میں سے ہر ایک کا ایک خاص اثر ہے۔
تھوڑا سا غور و فکر کریں اس دنیا میں ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے امور زندگی کو چلانے کیلئے تگ و دو اور فعالیت اقتصادی کرے۔
جی ہاں! اسلام میں اس کام کاج کو عبادت شمار کیا گیا ہے اور ایک مومن اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے کام کاج کرتا ہے۔
خوب جب ایک بندہ ٔخدا عمر بھر محنت مشقت کرتا ہے گھر، گاڑی اور دیگر وسائل زندگی جمع کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ ان سے محبت بھی کرتا ہے اور شاید ان سے جدا ہونا سخت بھی گزرے۔
کیا جانتے ہیں ان میں ایک پھولوں کی شاخ کا نام میخہ ہے؟
میخہ کا معنی بے خیال بے توجہ کرنے والا ہے۔ مومن جب اس پھول کو سونگھتا ہے تو انسان کا دل مال ِ دنیا سے دل بستگی سے بے خیال
ص:93
ہوجاتا ہے۔ اس بو کو سونگھنے کے بعد اسے مال دنیا کی طرف کوئی رغبت نہیں رہتی۔
اب مومن کو اپنے مال و متاع سے کوئی محبت نہیں ہوتی اور وہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا اور تمام اموال اس کیلئے بے وقعت ہوجاتے ہیں۔
کیا جانتے ہیں کہ دوسرے پھولوں کی شاخ کا نام کیا ہے؟
حضرت امام سجاد علیہ السلام اسے منسیہ کہتے ہیں
منسیہ یعنی بھلانے والی
کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگوں کو بھولنے کی بیماری لگ جاتی ہے اب انہیں کوئی چیز یاد ہی نہیں رہتی۔
مومن اس کو سونگھنے کے بعد فراموشی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
ص:94
البتہ ایسا نہیں ہے کہ مومن ہر چیز کو بھول جاتا ہے بلکہ جس چیز سے بھی دنیا کی بو آتی ہے اسے بھول جاتا ہے۔ میرا گھر، میری گاڑی، میری شہرت، میری حکومت، میری اولاد، میری بیوی ان سب چیزوں کو بھول جاتا ہے۔
اب اسے بھول جانا ہے کہ اس کی کوئی زندگی یا گھر تھا!
اب شیطان اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟
یقینا آپ نے سنا ہوگا کہ اس لمحہ پر شیطان بھی انسان کے پاس آتا ہے اور چونکہ جانتا ہے کہ اسے اموال دنیا سے محبت ہے ، اسی لیے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر تم نے خدا پرستی کو ترک نہ کیا تو تمہارے گھر یا گاڑی کو آگ لگا دوں گا۔
وہ لمحہ بہت ہی حساس ہوتا ہے اور کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو اسی لمحہ پر وسوسہ شیطان کی وجہ سے عاقبت بخیر نہیں ہوتے۔ لیکن خدا اس نازک موقع پر دو پھولوں کی ٹہنیاں بھیج کر مومن کی مدد کرتا ہے۔
ص:95
مومن جب ان دونوں پھولوں کو سونگھتا ہے تو مال دنیا کی ہر چیز کے بارے میں اس کی یاداشت ختم ہوجاتی ہے۔ شیطان اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور مومن آرام سے اس عالم بقا کی طرف چلا جاتا ہے اور موت اس کیلئے شیریں بن کر اجاگر ہوتی ہے۔(1)
ص:96
میں یہاں پر ایک مرتبہ پھر مومن کے جان دینے کی تصویر کو جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث میں بیان ہوئی ہے آپ کیلئے بیان کرتا ہوں تاکہ اگر آپ اہل بیت علیہم السلام کے حقیقی شیعہ ہیں تو آپ کو پتہ چل سکے کہ موت آپ کیلئے کتنی میٹھی ہے!
اس وقت جب آپ کی زبان بند ہوجاتی ہے اور آپ بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتے،اہل و عیال آپ کے گرد جمع ہو چکے ہیں، آپ ان کی آنکھوں میں آنسوؤ ں کو دیکھ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ پتہ چلتا ہے کہ سامان سفر باندھنا ضروری ہوگیا ہے ان تمام سے جدا ہونا ضروری ہے۔
تو اپنے اطراف والوں سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ بات ہی نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کی زبان کو گرہ لگ گئی ہے۔
ص:97
لیکن تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جونہی تمہاری زبان بند ہوتی ہے اسی وقت خدا کا وعدہ بھی آجاتا ہے۔
یہ خدا کا قانون ہے کہ جب مومن کی زبان بند ہوتی ہے ایک بہت بڑی دعوت کا آغاز ہوجاتا ہے۔
وہاں دیکھو!
یہ کون صاحب ہیں جو کچھ لوگوں کے ساتھ آپ کے گھر آئے ہیں۔
وہ آپ کے مہمان ہیں
ان کو پہچانا ہے یا نہیں؟
ان میں سے ایک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، دوسرے حضرت علی علیہ السلام ہیں، حضرت امام حسن و امام حسین علیہ السلام ہیں، اور ان کے دیگر امام علیہم السلام بھی آئے ہیں۔
دیکھو تو سہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بھی تشریف لائی ہیں۔(1)
ص:98
کیا انہیں سلام کرنا نہیں چاہو گے؟
آپ کو یاد ہے ایک عمر تک زیارت جامعہ میں پڑھتے تھے۔
السلام علیکم یا اہل بیت النبوۃ
اب بھی اس جملہ کو دہراؤ!
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کے دائیں طرف اور حضرت علی علیہ السلام بائیں طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ جبرائیل، اسرافیل اور عزرائیل بھی آگئے ہیں
میں نے سنا ہے کہ تم عزرائیل سے بہت ڈرتے ہو؟
عزرائیل کے آنے سے پہلے چہاردہ معصومین علیہم السلام تشریف لاتے ہیں تاکہ تمہیں خوف محسوس نہ ہو۔
جی ہاں! عزرائیل کے آنے سے پہلے وہ معصوم ہستیاں جن کے زندگی میں عاشق تھے آچکے ہیں۔
ص:99
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بھی عزرائیل سے پہلے آچکی ہیں۔
اور کیا تم ان کے بچوں کی عزاداری نہیں کرتے تھے؟
کیا تم ان کی مظلومیت پر آنسو نہیں بہاتے تھے؟
اب ان کی باری ہے کہ تمہاری مدد کریں اور کتنی اچھی مدد کرتے ہیں۔
غور سے سنیں! تمام چہادرہ معصومین علیہم السلام عزرائیل سے کہہ رہے ہیں سب ایک ہی لفظ اور بات کر رہے ہیں۔
اے عزرائیل! اس مومن کو دیکھ رہے ہو ہم سے محبت کرتا ہے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔
عزرائیل جواب میں کہتا ہے
خدا کی قسم! ان کےساتھ ایک شفیق باپ کی طرح پیش آؤں گا۔ اور ایک دلسوز بھائی کا سا برتاؤ کروں گا۔
ص:100
اب عزرائیل آپ کی طرف آتا ہے اور کہتا ہے:
اے بندہ ٔ خدا! کیا آپ کے پاس جہنم سے نجات کا پروانہ ہے؟
آپ جواب دیتے ہیں ، جی ہاں! میرے پاس محمد و آل محمد علیہم السلام سے عشق و محبت اور ولایت علی علیہ السلام کا پروانہ ہے ، جوجہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔(1)
اب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ سے بات کرتے ہیں۔
پریشان نہ ہو، خوف نہ کرو تم امان میں ہو۔
یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام ہے جو تمہارے دل کو آرام دیتا ہے اور تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال میں محو ہو جاتے ہو۔
ص:101
اور اب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر تمہاری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹا دئیے جائیں گے تو جنت میں اپنے گھر کو دیکھو گے۔
آپ اوپر سے دیکھ رہے ہوں گے ۔ اپنے بہشتی گھر کو دیکھ رہے ہوں گے۔
دیکھو، وہ طوبیٰ کے درخت کی شاخ تمہارے گھر سے آرہی ہے۔
کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس طوبیٰ کا درخت کی جڑیں کس جگہ پر ہے؟
جی ہاں! اس درخت کی جڑیں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں ہیں۔
قارئین محترم! اب تک آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جس کی جان نکل رہی ہو، اگر دیکھا ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر اوپر کی طرف دیکھتا ہے، یہ وہ موقعہ ہے کہ جب وہ چہاردہ معصومین علیہم السلام کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا ہے۔(1)
ص:102
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
یہ جنت میں تمہارا گھر ہے۔ اب تمہارے پاس اختیار ہے اگر چاہتے ہو اس دنیا میں رہ جاؤ، البتہ اگر دنیا کا انتخاب کیا تو خدا تمہیں بہت سے مال و ثروت دے گا!
لیکن تم جواب میں کیا کہو گے؟
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔
مومن اس لحظہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہے گا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اب مجھے دنیا سے سروکار نہیں ہے۔
جی ہاں! چونکہ آپ کی آنکھ نے جمال مصطفی اور اہل بیت علیہم السلام کے نور کو دیکھ لیا ہے جنت میں رہنے کا مقام دیکھ لیا ہے اب دنیا اتنی چھوٹی نظر آتی ہے کہ آپ نہیں چاہتے کہ ایک لحظہ بھی اس میں ٹھہرو!
ص:103
قارئین محترم! جب آپ کسی ایسے شخص کے پاس موجود ہوں جس کی جان نکل رہی ہو جب دیکھیں کہ وہ اپنی پلکوں کو اوپر کی جانب حرکت دیتا ہے تو توجہ رکھیں کہ وہی لمحات ہیں کہ جب وہ رسول خدا کو جواب میں کہتا ہے کہ مجھے دنیا نہیں چاہیے منفی صورت میں اس کا جواب آنکھوں کی پلکوں سے دیتا ہے اور انہیں اوپر کی جانب حرکت دیتا ہے۔(1)
پس آپ نے خود اس خوبصورت موت کو اختیار کیا ہے!
یہ ایک خدا کا قانون ہے مومن کی جان کو زور زبردستی سے نہیں لیتے بلکہ مومن شوق و رغبت سے موت کا انتخاب کرتا ہے!
اب آپ کی پیشانی پر پسینہ آتا ہے اور آنسو تمہاری آنکھ سے جاری ہوتے ہیں۔
یہ شوق کے آنسو ہیں
ص:104
یہ جدائی کے آنسو ہیں ان سے جن کے ساتھ ایک عمر بسر کی ہے۔
یہ ان عزیزوں سے محبت کے آنسو ہیں جو تمہارے جانے سے غمزدہ ہیں۔
آپ کی روح جسم سے جدا ہوتی ہے۔ یہیں سے عالم برزخ کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں۔ تمہارے جسم کو غسل کیلئے لیجایا جا رہا ہے۔غسل کے بعد کفن پہنایا جا تا ہے۔ پھر تشیع جنازہ کیلئے تیار ہوتے ہیں۔
دیکھو! تمہارے وہ دوست جو تم سے قبل دنیا سے گئے تھے تمہارے استقبال کیلئے آئے ہیں۔ انہیں یاد کرو گے یا نہیں؟
ان مومنین کی روح جو تم سے پہلے دنیا سے گئے ہیں تمہارے استقبال کیلئے آئے ہیں ۔ تم انہیں سلام کرتے ہو اور وہ تمہیں خدائی نعمات کی بشارت دیتے ہیں۔(1)
ص:105
اس طرح تمہاری نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔یہ تمہاری ایک نئی ولادت ہے۔
جی ہاں! آئمہ معصومین علیہم السلام کا موت کے وقت آنا کتنا دلنشین ہے۔
جی ہاں زندگی فقط ان سے محبت اور ان کے کردار کے مطابق زندگی بسر کرنے سے دلنشین ہوجاتی ہے۔ اور ان کی موجودگی میں جان دیتا شہد سے زیادہ میٹھا ہوجاتا ہے۔
اے پروردگار! کتنا ہی اچھا ہو کہ ہماری آخری اور سب سے بڑی خواہش کو پورا کر دینا، ہمیں ان میں سے قرار دینا جنہوں نے زندگی بھر ان کی سیرت پر عمل کیا ۔
وہ لمحہ کہ جب آنکھ کھولتے تو دیکھتے ہیں کہ چہاردہ معصومین علیہم السلام آپ کے میزبان ہیں۔
ص:106
اپنے مولا علی علیہ السلام کو اپنے پاس بیٹھا دیکھتا ہے۔ آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہوتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں
یا علی علیه السلاممولا خوش آمدید!
ص:107
ص:108
1. اختیار معرفة الرجال، الشیخ الطوسی، (460 ق)، تصحیح میرداماد الإسترابادی، تحقیق: السیّد علی الرجایی، 1404، الطبعة الأولی، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام) لإحیاء التراث.
2. أعیان الشیعة، السیّد محمّد الأمین، (1371 ق)، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
3. الإقبال الأعمال، السیّد ابن طاووس، (664 ق)، تحقیق: جواد القیومی الإصفهانی، الطبعة الأولی، مکتب الإعلام الإسلامی، قمّ.
4. الأمالی، الشیخ الطوسی، (460 ق)، الطبعة الأولی، (1414 ق)، دار الثقافة للطباعة والنشر والتوزیع، قمّ.
5. الأمالی، الشیخ المفید (413 ق)، الطبعة الثانیة 1414، دار المفید للطباعة والنشر و التوزیع، بیروت.
6. الإیقاظ من الهجعة بالبرهان علی الرجعة، الحرّ االعاملی، (1104 ق)، تحقیق مشتاق المظفّر، الطبعة الأولی، 1422 ق، دلیل ما، قمّ.
7. بحار الأنوار، العلاّمة المجلسی، (111 ق)، الطبعة الأولی، 1403 ق ، دار إحیاء التراث العربی، بیروت.
8. تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، (571 ق)، تحقیق: علی شیری، 1415، دار الفکر للطباعة والنشر والتوزیع، بیروت.
9. تفسیر أبی حمزة الثمالی، أبو حمزة الثمالی (148 ق)، جمعه ورتّبه عبد الرزاق محمّد حسین حرز الدین، الطبعة الأولی، 1420 ق، مطبعة الهادی.
10. تفسیر العیّاشی، محمّد بن مسعود العیّاشی، (320 ق)، تحقیق: الحاج السیّد هاشم الرسولی المحلاّتی، مکتبة العلمیة الإسلامیة، طهران.
11. تفسیر الفرات، فرات بن إبراهیم الکوفی، (352 ق)، تحقیق محمّد الکاظم، الطبعة الأولی، 1410 ق، مؤسّسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامی، طهران.
12. تفسیر نور الثقلین، الشیخ الحویزی، (1112 ق)، تصحیح وتعلیق: السیّد هاشم الرسولی المحلاّتی، الطبعة الرابعة، 1370 ش، مؤسّسة إسماعیلیان للطباعة والنشر والتوزیع، قمّ.
13. جامع أحادیث الشیعة، السیّد البروجردی، (1383 ق)، المطبعة العلمیة، قمّ.
14. جواهر الکلام، الشیخ الجواهری، (1266ق)، تحقیق وتعلیق: الشیخ عبّاس القوچانی، الطبعة الثانیة، 1365 ش، دار الکتب الإسلامیة، طهران.
ص:109
15. الحدائق الناضرة، المحقّق البحرانی، (186 ق)، تحقیق وتعلیق وإشراف: محمّد تقی الإیروانی، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرّسین، قمّ.
16. الخصال، الشیخ الصدوق، (381 ق)، تصحیح وتعلیق: علی أکبر الغفاری، الطبعة الأولی، منشورات جماعة المدرّسین فی الحوزة العلمیة، قمّ.
17. خلاصة الأقوال، العلاّمة الحلّی، (726ق)، الشیخ جواد القیومی، الطبعة الأولی، 1417 ق، مؤسّسة نشر الفقاهة.
18. دستور معالم الحکم، ابن سلامة، (454 ق)، الطبعة الأولی، مکتبة المفید، قمّ.
19. دعائم الإسلام، القاضی النعمان المغربی، (363 ق)، تحقیق: آصف بن علی أصغر فیضی، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام) بالأُوفسیت عن طبعة دار المعارف فی القاهرة.
20. الدعوات، قطب الدین الراوندی، (573 ق)، الطبعة الأولی، 1407 ق، مدرسة الإمام المهدی(علیه السلام)، قمّ.
21. ذخیرة المعاد، المحقّق السبزواری، (1090ق)، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام) لإحیاء التراث، طبعة حجریة.
22. رجال ابن داوود، ابن داوود الحلّی، (740 ق)، تحقیق: السیّد محمّد بحر العلوم، الطبعة الأولی، منشورات الرضی، قمّ.
23. رجال الطوسی، الشیخ الطوسی، (60 ق)، تحقیق: جواد القیومی الإصفهانی، الطبعة الأولی، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرّسین، قمّ.
24. رجال النجاشی، النجاشی، (450 ق)، الطبعة الخامسة، 1416، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجامعة المدرّسین بقمّ المقدّسة.
25. شرح الأخبار، القاضی النعمان المغربی، (363 ق)، تحقیق: محمّد الجلالی، الطبعة الثانیة، 14 ق14، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجامعة المدرّسین، قمّ.
26. شرح نهج البلاغة، ابن أبی الحدید، (656ق)، تحقیق: محمّد أبو الفضل إبراهیم، مؤسّسة مطبوعاتی إسماعیلیان، قمّ بالأُوفسیت عن طبعة دار إحیاء الکتب العربیة.
27. علل الشرائع، الشیخ الصدوق، (381ق)، تقدیم: السیّد محمّد صادق بحر العلوم، 1385ق، منشورات المکتبة الحیدریة، النجف الأشرف.
ص:110
28. عیون الحکم و المواعظ، علی بن محمّد اللیثی الواسطی، (القرن الثانی)، تحقیق: الشیخ حسین الحسینی البیرجندی، الطبعة الأولی، دار الحدیث، قمّ.
29. الغدیر، الشیخ الأمینی، (1392 ق)، الطبعة الرابعة، 1397 ق، دار الکتب العربی، بیروت.
30. الفصول المهمّة فی أُصول الأئمّة، الحرّ العاملی، (1104 ق)، تحقیق محمّد القائینی، الطبعة الأولی، 1418، مؤسّسة إسلامی إمام رضا(علیه السلام).
31. فضائل الأشهر الثلاثة، الشیخ الصدوق (381 ق) تحقیق: غلامرضا عرفانیان، الطبعة الثانیة.
32. الفهرست، الشیخ الطوسی، (460ق)، الشیخ جواد القیومی، الطبعة الأولی، 1417، مؤسّسة نشر الفقاهة.
33. قاموس الرجال، الشیخ محمّد تقی التستری، معاصر، الطبعة الأولی، 1419، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجامعة المدرّسین بقمّ المقدّسة.
34. الکافی، الشیخ الکلینی ،(329 ق)، تصحیح وتعلیق: علی أکبر الغفاری، الطبعة الخامسة، دار الکتب الإسلامیة، طهران.
35. کتاب الزهد، الحسین بن سعد الکوفی، القرن الثالث، تحقیق میرزا رضا عرفانیان، الطبعة الأولی، 1399 ق، مطبعة العلمیة، قمّ.
36. کشف الغمّة، ابن أبی الفتح الأربلی، (693ق)، الطبعة الثانیة، 1405 ق، دار الأضواء، بیروت.
37. کنز العمّال، المتّقی الهندی، (975 ق)، ضبط وتفسیر: الشیخ بکری حیانی، تصحیح وفهرسة: الشیخ صفوة السقا، مؤسّسة الرسالة، بیروت.
38. المحاسن، أحمد بن محمّد بن خالد البرقی، (274 ق)، تحقیق: سیّد جلال الحسینی، دار الکتب الإسلامیه، طهران
39. مدینة المعاجز، السیّد هاشم البحرانی، (1107 ق)، تحقیق عزّة الله المولائی الهمدانی، الطبعة الأولی، 1413، مؤسّسة المعارف الإسلامیة، قمّ.
40. مستدرک الوسائل، المیرزا النوری، (1320ق)، الطبعة الأولی، 1408 ق، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام)، قمّ.
41. مصباح الفقیه، آقا رضا الهمدانی، (1322 ق)، الطبعة الأولی، منشورات مکتبة الصدر، طهران.
42. المصباح، الکفعمی، (905 ق)، الطبعة الثالثة، 1403 ق، مؤسّسة الأعلمی للمطبوعات، بیروت.
ص:111
43. مصباح المتهجّد، الشیخ الطوسی، (460 ق)، الطبعة الأولی، مؤسّسة فقه الشیعة، بیروت.
44. معانی الأخبار، الشیخ الصدوق، (381 ق)، تصحیح وتعلیق: علی أکبر الغفاری، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرّسین، قمّ.
45. معجم رجال الحدیث، السیّد الخوئی، (411 ق)، الطبعة الخامسة، 1413 ق،، طبعة منقّحة ومزیدة.
46. مکارم الأخلاق، الشیخ الطبرسی (548 ق) الطبعة السادسة، منشورات الشریف الرضی، قمّ.
47. مناقب آل أبی طالب، لابن شهر آشوب، (588 ق)، الطبعة الأولی 1376 ق، المکتبة الحیدریة، النجف الأشرف.
48. کتاب من لایحضره الفقیه، الشیخ الصدوق، (81 ق)، تصحیح وتعلیق: علی أکبر الغفاری، الطبعة الثانیة، مؤسّسة النشر الإسلامی التابعة لجماعة المدرّسین، قمّ.
49. میزان الحکمة، محمّد الریشهری، تحقیق دار الحدیث، الطبعة الأولی، دار الحدیث.
50. نقد الرجال ، التفرشی ( القرن الحادی عشر) ، الطبعة الأولی ، 1418 ق ، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام) لإحیاء التراث .
51. نهج البلاغة، شرح: الشیخ محمّد عبده، الطبعة الأولی، 1412ق، دار الذخائر، قمّ.
52. وسائل الشیعة، الشیخ الحرّ العاملی، (1104 )، الطبعة الثانیة، 414 ق، مؤسّسة آل البیت(علیهم السلام) لإحیاء التراث، قمّ.