علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں)

مشخصات کتاب

سرشناسه: کنگره جهانی جریان های افراطی و تکفیری از دیدگاه علمای اسلام (نخستین: 1393: قم)

عنوان قراردادی: چکیده مقالات کنگره جهانی جریان های افراطی و تکفیری از دیدگاه علمای اسلام. اردو

عنوان و پدیدآور: علمائ اسلام کی نظر می افراطی اور تکفیری جماعتو (سلسلو) کی عالمی کانفرنس کے متعلق تحریر شد (مضامین کا خلاص)/ به سفارش مهدی فرمانیان؛ به سفارش کنگره جهانی جریان های افراطی و تکفیری از دیدگاه علمای اسلام

مشخصات نشر: قم: دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (ع)، 1393.

مشخصات ظاهری: 208ص.

وضعیت فهرست نویسی: فیپا

یادداشت: اردو

موضوع: تکفیر – کنگره ها

موضوع: تکفیر – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

موضوع: وهابیه – عقاید – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

موضوع: سلفیه – عقاید – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

موضوع: مجتهدان و علما - نظریه درباره تکفیر – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

موضوع: مجتهدان و علما - نظریه درباره وهابیه – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

موضوع: مجتهدان و علما - نظریه درباره سلفیه – مقاله ها و خطابه ها – چکیده ها

رده بندی کنگره: 1393 3046م 9ک/ 3/225 BP

رده بندی دیوئی: 466/297

شماره کتاب شناسی: 9329746601

علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں)

کی عالمی کانفرنس

قم، شہداء روڈ، کوچہ 22 کے کنارے پر، بلاک 618۔

ٹیلفون نمبر: 37842141-025

ایمیل ایڈریس: info@makhateraltakfir.com

ویب سائٹ: www.makhateraltakfir.com

علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں)کی عالمی کانفرنس

کے متعلق تحریر شدہ مضامین کا خلاصہ

تدوین و جمع آوری:علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں)کے متعلق عالمی کانفرنس

بہ اہتمام:مهدی فرمانیان

پبلشر: دارالإعلام لمدرسة اهل البیت:

ترجمه:فرودس احمد میر - سید اعجاز حسین موسوی

صفحہ تزئین و آرائش: محبوب محسنی

سرورق:محمد مهدی اسعدی

ناظم طباعت:سید محمد موسوی

نوبت اشاعت: پہلا ، 2014

تعداد: 500 جلد

اشاعت و جلد سازی: کمال الملک

قیمت: 12000 تومان

اس کتاب کے جملہ حقوق ادارۂ کانفرنس کیلئے محفوظ ہیں

ص:1

اشاره

بسم الله الرحمن الرحیم

ص:2

ص:3

علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں)کی عالمی کانفرنس

کے متعلق تحریر شدہ مضامین کا خلاصہ

قم/2014م

ص:4

ص:5

کانفرنس منعقِدین کا عملہ

علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں (سلسلے)

کانفرنس کے رئیس اعلی: حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی(دام ظله)

کانفرنس کے علمی مدیر اعلی: حضرت آیت الله العظمی سبحانی(دام ظله)

عملہ کے سرپرست اور علمی مدیر اعلی کے قائم مقام: حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید مهدی علی زاده موسوی

علمی کمیٹی کے مدیر اعلی: حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر مهدی فرمانیان

علمی کمیٹی کے مجری: محترم المقام جناب محمد علی موحدی پور

داخلی اہلسنت برادران کے مضامین کے مسئول: حجت الاسلام و المسلمین محمد رضا خوشخو

علمی کمیٹی دفتر کے مسئول: محترم المقام جناب سید محمد مهدی عمادی

مضامین کی موافقت و ہماہنگی کرانے کے مسئول: محترم المقام جناب عباس صادقی خواه

تصحیح سرپرست : محترم المقام جناب ابوالفضل طریقه دار

گروہ اول: افراطی اور تکفیری جماعتوں کی نسب شناسی کمیٹی

مدیر: حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر مهدی فرمانیان

سرپرست : محترم المقام جناب محمد حسن بهشتی

علمی کمیٹی کے ممبران:

حجت الاسلام و المسلمین اسد علیزاده

ڈاکٹر محمد الله اکبری

حجت الاسلام و المسلمین مهدی پیشوایی

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر جباری

حجت الاسلام و المسلمین جبرئیلی

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹرسید لطف¬الله جلالی

ڈاکٹر داداش نژاد

استاد علی اصغر رضوانی

حجت الاسلام و المسلمین محمد¬طاهر رفیعی

استاد قاسم صفری (جوادی)

ص:6

حجت الاسلام و المسلمین حمیدرضا مطهری

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر ملک مکان

حجت الاسلام و المسلمین نیکزاد

حجت الاسلام و المسلمین محمدهادی یوسفی غروی

گروہ دوم: تکفیری افکار کی حقیقت یابی کمیٹی

مدیر: آیت الله حسینی قزوینی

سرپرست : حجت الاسلام و المسلمین حبیب عباسی

علمی کمیٹی کے ممبران:

حجت الاسلام و المسلمین محمدجواد ابوالقاسمی

استاد سید رضا بطاط

حجت الاسلام و المسلمین فلاح الدوخی

حجت الاسلام و المسلمین حسین رجبی

حجت الاسلام و المسلمین اکبر روستایی

آیت الله نجم الدین طبسی

حجت الاسلام و المسلمین محمدجعفر طبسی

حجت الاسلام و المسلمین سید محمد یزدانی۔

گروہ سو م: افراطی اور تکفیری جماعتیں اور ان کے سیاسی اثرات

مدیر: حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹرمنصور میراحمدی

سرپرست: محترم المقام جناب مختار شیخ حسینی

علمی کمیٹی کے ممبران:

ڈاکٹر شهروز ابراهیمی

ڈاکٹر محمد پزشکی

ڈاکٹر حسین پوراحمدی

ڈاکٹر مسعود پورفرد

ڈاکٹر محمد علی حسینی زاده

ڈاکٹر صادق حقیقت

ڈاکٹر رضا خراسانی

ڈاکٹر محمد ستوده

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید کاظم سید باقری

ص:7

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محمود شفیعی

ڈاکٹر عبدالوهاب فراتی

ڈاکٹر ناصر قربان نیا

محترمہ ڈاکٹر نجمه کیخا

ڈاکٹر شریف لک زایی

ڈاکٹر عنایت الله یزدانی

حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر یزدانی مقدم۔

گروہ چہارم: شدت پسندی اور تکفیر سے نجات بخش راہِ حل اور مقابلہ کی تجزیاتی و تحقیقاتی کمیٹی

مدیر: محترم المقام جناب ڈاکٹر حسن بیگی

سرپرست: محترم المقام جناب ڈاکٹر سید جواد امینی

علمی کمیٹی کے ممبران:

ڈاکٹر اکبر استرکی

ڈاکٹر سیامک باقری

ڈاکٹر هادی جمشیدیان

ڈاکٹر حمید رضا حاتمی

ڈاکٹر علیرضا خراشادی زاده

محترم المقام جناب محمدرضا خسروی

ڈاکٹر سید محمود رضا شمس دولت آبادی

حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن دهقان

محترم المقام جناب حمید رحمتی

محترم المقام جناب بهرام رضایی

محترم المقام جناب محمود زرین ماه

محترم المقام جناب عباس عظیمی کیا

محترم المقام جناب مجید فقیه

ڈاکٹر سید ضیاءالدین قاضی زاده

محترم المقام جناب علیرضا کیقبادی

محترم المقام جناب علی محمد رضایی

محترم المقام جناب احمد مزینانی

ص:8

محترم المقام جناب مهدی مزینانی

ڈاکٹر عبدالله هندیانی۔

بین الاقوامی عملہ کے مسئول: حجت الاسلام و المسلمین سید محمود وزیری

بین الاقوامی مسئول کے معاون: حجت الاسلام والمسلمین محمد رضا خوشخو

بین الاقوامی دفتر کے مسئول: محترم المقام جناب مرتضی احمدی

اجرائی عملہ کے مسئول: حجت الاسلام و المسلمین سید محمدعلی موسوی نسب

مرکزی دفتر کے مسئول:محترم المقام جناب سید جمال الدین طباطبایی

دفتر کے مسئول: محترم المقام جناب سید محمد باقر باقریان موّحد

مرکزی دفتر کے خطوط کے مسئول: محترم المقام جناب محمد مهدی فضلی

مالی امور کے مسئول: محترم المقام جناب ابوالفضل سعادتی

ویب سائٹ کے مسئول: حجت الاسلام والمسلمین سید مصطفی طباطبایی شیرازی

ٹیکنولوجی کے مسئول: محترم المقام جناب مجتبی تمیمی

داخلی مہمانان و مدعوین کمیٹی کے مسئول: حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر ضیایی

تقافتی - تبلیغی کمیٹی کے مسئول: حجت الاسلام و المسلمین علی مولایی

میڈیا کمیٹی کے مسئول: محترم المقام جناب ابوالفضل صالحی

سکونت و اقامت کمیٹی کے مسئول: محترم المقام جناب سید رضا حسینی۔

ص:9

فهرست مطالب

از حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی - (دام ظله )؛ کانفرنس کے رئیس اعلی 11

مقدمه از علمی مدیر اعلی حضرت آیت الله العظمی سبحانی(دام ظله) 13

مقدمہ 17

پہلی جلد کے مضامین کا خلاصہ 21

دوسری جلد کے مضامین کا خلاصہ 45

تیسری جلد کے مضامین کا خلاصہ 65

چوتھی جلد کے مضامین کا خلاصہ 85

پانچویں جلد کے مضامین کا خلاصہ 125

چھٹی جلد کے مضامین کا خلاصہ 149

ساتویں جلد کے مضامین کا خلاصہ 167

آٹھویں جلد کے مضامین کا خلاصہ 187

ص:10

ص:11

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم

از حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی - (دام ظله ) کانفرنس کے رئیس اعلی

ہمارا دور، اسلام اور مسلمین کیلئے دردناک اور پیچیدہ حوادث اور خطرناک فتنوں کا زمانہ ہے۔ اس کا سرچشمہ ود چیزیں ہےہیں: بیرونی دشمنانِ اسلام کی سازش اور اندرونی منافقین کی مدد و ہمکاری۔

ان میں سب سے ایک خطرناک مسئلہ، تکفیریوں اور افراطی جماعتوں کا فتنہ ہے جو حالیہ سالوں میں داعش وغیرہ کے نام کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

تکفیر کا فتنہ کہا سے وجود میں آیا ؟، کس وسیلہ اور ذریعہ سےاس نے رشد و ترقی کی ہے؟ ، اس کی وسعت کے اسباب کیا ہیں؟، اسے ختم و خاموش کرنے کا طریقہ اور راہِ حل کیا ہیں؟۔ ان میں ہر ایک مسئلہ قابل بحث اور غور طلب ہے۔ یقیناً سیاسی اور فوجی پروگرام اور طریقہ کار، تنہا ان فتنوں کو ختم کرنے کیلئے کافی اور مؤثر نہیں ہے، اگرچہ وہ صداقت سے بھی انجام دئے جائیں!۔

اسلام کے بزرگ علماء کو چاہیے کہ اس غلط فکر کی جڑوں کو صحیح منطق اور معقول فکر سے قطع کریں اور جوانوں کو ان کی طرف جذب ہونے سے روکیں!۔

اس بنا پر، یہ طے کیا گیا کہ بعض آگاہ اور ہمدرد مفکرین کی مدد سے ’’ علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں (سلسلے) ‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس تمام اسلامی مذاہب کے مفکرین کی شرکت پر مشتمل منعقد کی جائے ۔ اس معاملہ کے متعلق دقیق مطالعہ و بحث انجام دیں اور اس کا نتیجہ دوسروں کے سامنے پیش کریں ۔ تاکہ اس طرح عام مسلمین کی آشنائی اور واقفیت سے ان شاء اللہ یہ فتنہ خاموش و ختم ہوجائے!۔ جو ان مضامین کے مجموعہ میں مطالعہ فرما رہے ہیں وہ اس تحقیق و مطالعہ کا ایک حصہ ہے!۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ

قم ۔ حوزہ علمیہ

ناصر مکارم شیرازی

ذی الحجه 1435 قمری،بمطابق ماہ ستمبر2014 عیسوی۔

ص:12

ص:13

مقدمه از علمی مدیر اعلی حضرت آیت الله العظمی سبحانی(دام ظله)

تکفیری موجود کی بنیادیں اور اس کی تشکیل یابی کی علت!

عالمی کانفرنس:’’علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں (سلسلے)‘‘

ایمان اور کفر دو متضایف مفہوم و لفظ ہیں کہ ایک کے سوچنے سے ، دوسرا لفظ بھی ذہن میں آجاتا ہے۔ فلسفہ میں اس حالت کو، ’’تضایف‘‘ کہا جاتا ہے۔

لفظِ ’’ایمان‘‘ کا معنی تصدیق اور یقین کرنا ہے، اور لفظِ ’’کفر‘‘ ستر اور کبھی انکار کے معنی میں ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں ایمان سے مراد، زمانے کے نبی اور اس کی رسالت کی تصدیق کرنا، جبکہ کفر سے مراد اس طرح کے انسان کی دعوت نظر انداز کرنا ، یا اس کا انکار کرنا ہے۔

آسمانی معلمین کی دعوت کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں جب کوئی پیغمبر مبعوث و منتخب ہوتا تھا ، وہ اپنی دعوت دلائل سے قابل اثبات بناتا تھا۔ اس وقت کا معاشرہ دو جماعتوں’’مؤمن اور کافر‘‘ میں تقسیم ہوتا تھا۔ جو فرد پیغمبر کی دعوت قبول کرتا تھا ، وہ مؤمن جبکہ جو شخص اس کے پیغام و کلام کو تسلیم نہیں کرتا تھا، وہ کافر کہلایا جاتا تھا۔

اصول کی دعوت میں تمام انبیاء کا لائحہ عمل ایک ہی رہا ہے اور اس میں اختلاف نہیں تھا۔ مؤمن گروہ ان تمام دعوتوں میں ایسے افراد تھے جو ایسے خداوند پر ایمان لاتے تھے جو خالق، مدبر اور مدیر ہے ۔ اس کے علاوہ کسی کو اپنا معبود نہیں مانتے تھے اور اپنے زمانے کے پیغمبر کی رسالت و بنوت کو تہہ دل سے قبول کرتے تھے۔

جب ارادۂ الہی سے رسول ختم مرتبت کی بعثت اور انتخاب معین ہوا،تو پیغمبراکرم(ص) افراد کے ایمان کو دو ایسے جملوں کی شکل میں قبول کرتے تھے جو ان کے اندرونی یقین اور عقیدہ کی حکایت کرتا تھا۔ یعنی ہر شخص یا ہر گروہ جو «لا اله الا الله، محمد رسول الله» کہتا تھا وہ اسلام کے خیمہ میں داخل ہوجاتا تھا اور کفر کے دائرے سے فاصلہ لیتا تھا۔

دوسری طرف سے، کلمۂ اخلاص کا اقرار و اعتراف جس میں خداوند کے بغیر ہر موجود کی الوہیت کا انکار کرنا لازمی ہے، وہ مزید تین طرح کے اقرار پر مشتمل ہے: 1۔ خالقیت میں توحید؛ 2۔ تدبیر میں توحید؛ 3۔ عبادت میں توحید۔ اسلئے کہ یہ تین قسم خدائے کائنات کی خصوصیتیں ہیں نہ اس کے مخلوق کی!۔

ص:14

اس کے علاوہ، ہر خدائی دعوت کی بنیاد کو آخرت پر ایمان تشکیل دیتا تھا۔ لہذا طبیعی طور پر اخروی حیات کا اعتراف توحید اور رسالت کی طرح، ایمان کے ایک بنیادی عنصر ہے ۔ جو کلمۂ اخلاص میں بھی مضمر ہے!۔

رسول اکرم (ص) کی تاریخ میں ’’عام الوفود‘‘ کے نام سے ایک باب موجود ہے۔ یعنی وہ سال جس میں دور و نزدیک سے ہزاروں افراد نے انفرادی اور یا گروہی شکل میں شہر مدینہ کی طرف رخ کیا اور آنحضرت(ص) پر ایمان لایا۔ مذکورہ دو جملہ کہنے سے جس سے ان کا حقیقی اعتقاد معلوم ہوتا تھا، مسلمان کہا جاتا تھا۔ اس کے متعلق سورہ مبارکہ ’’نصر‘‘ کی آیات نازل ہوئی، جس میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ، وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ‘‘۔ان جماعتوں کی طرف اسلام کی قبولیت فقط ان دو جملوں کے کہنے سے اانجام پاتی تھی اور کلامی یا فقہی مسائل کا ذکر اس وقت نہیں ہوتا تھا، جیسے کہ ان سے ہرگز روز قیامت میں خداوند کا مقام اور یا روئیت ِ خدا، قرآن کریم کا حادث یا قدیم ہونا وغیرہ کے بارے میں سوال نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت خاتم المرسلین (ص) پر ان کا اجمالی ایمان کافی تھا ،اور انہیں اس طرح کے مسائل بیان کرنے سے وہ بے بیاز کرتا تھا ۔ اسی طرح انبیاء اور اولیاء سے توسل کرنا، ان کی قبور کے کنارے میں نماز پڑھنا اور اولیائے الہی کی قبور کی زیارت کرنا وغیرہ کا جائز ہونا زیر بحث نہیں تھے!۔

تکفیری فتنہ کا آغاز

عصر حاضر میں ایک شدت پسند اور دین محمدی(ص) کے اصول اور عقائد سے ناآشنا جماعت، گویا اسلام اور ایمان اپنے لئے ذخیرہ کیا ہے اور تمام مسلمانوں کے درمیان، صرف ایک چھوٹی سی جماعت کو مؤمن قرار دیتے ہیں ، جبکہ باقی سب دوسروں کو کافر اور جائز القتل شمار کرتے تھے۔ اس قسم کی تکفیر کی اصل ابن تیمیہ (728 ق۔) کے زمانے میں اور اس کے بعد شدت پسند وہابیوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کے اقدام اور عمل کی شدت ابن تیمیہ سے زیادہ ہے۔ کیونکہ ابن تیمیہ بیشتر لفظِ بدعت استعمال کرتا تھا، لیکن یہ گروہ بدعت کی جگہ ، لفظِ کفر بروئ کار لاتے ہیں اور تکفیر کا ضابطہ، مذکورہ مسائل میں اپنے افکار سے ناہماہنگئ اور عدم موافقت قرار دیتے ہیں!۔

وہ لوگ شدت سے انبیاء اور اولیائے الہی کے قبور کی محافظت کے مخالف ہیں اور زیارتی مقامات کو بت پرستی کا مظہر شمار کرتے ہیں!۔ درحالیکہ تاریخ اسلام کے دوران گذشتہ انبیاء کی قبریں فلسطین، اردن، شام اور عراق میں ہمیشہ محفوظ تھیں ۔ مسلمین گروہ گروہ ان کی زیارت

ص:15

کیلئے جاتے تھے ۔ اور کوئی بھی اس طرح کے اقدام کو توحید کے مخالف بیان نہیں کرتا تھا۔

حتی جس دن بیت المقدس عمر بن خطاب کے ہاتھوں فتح ہوا، ہرگز اس نے ان مقامات کی انہدامی کا حکم نہیں دیا، بلکہ ان کی حفاظت اور آراستگی میں گذشہ لوگوں کے طریقہ کار کی تائید کی!۔

طول تاریخ میں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد، تمام موحدّین رسول اکرم (ص) سے متوسل ہوئے ہیں تاکہ ان کی دعا اور حاجت ، آنحضرت کی شفاعت سے قبول ہوجائے۔ لیکن یہ گروہ اس طرح کے توسل کو بتوں سے مشرکین کے توسل کے ساتھ مساوی جانتے ہیں۔ درحالیکہ ان دو قسم کے توسل کی حقیقیت ایک دوسرے سے جدا ہے، اور ان کے درمیان زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے!۔

شدت پسندتکفیر

اس گروہ کے سابقہ افراد کی تکفیر، بیشتر تحریری اور زبانی حد تک تھی۔ لیکن تند مزاج اور افراطی وہابیوں کے دور سے تکفیر میں شدت پسندی کا رنگ ایجا د ہوا۔ وہ لوگ ہمیشہ ’’نجد‘‘ کے شہر ،گاؤں ،قصبات اور اطرافی علاقوں پر حملہ کرتے تھے۔ جتنا بھی ان کی طاقت میں ہوتا تھا، لوٹ مار کرتے تھے اور اس طریقہ سے اپنی اقتصادی طاقت میں اضافہ کرتے تھے!۔

اس مسلک کے بانی اور اس کے جانشینوں کے جرائم کی آشنائی کیلئے وہابیوں کے متعلق دو معتبر تاریخی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے: ایک ’’تاریخ ابن غنام‘‘ اور دوسرا ’’تاریخ ابن بشر‘‘، دونوں کتابیں بہت پہلے نشر ہوئی ہے اور رعلماء و مفکرین کیلئے قابل توجہ رہی ہے!۔

اس بارے میں بحث مختصر کرکے ان ود مصرعوں کے ساتھ اپنی بات اختتام کرتا ہوں۔

شرح این هجران و این خون جگر این زمان بگذار تا وقت دگر

اس فراق و جدائی اور اس خون جگر کی شرح و داستاں اس وقت رہنے دے ، اور کسی وقت بیان کروں گا۔

سابقہ اشتراکی روس کی سرخ پوست فوجیوں کے توسط سے افغانستان پر قبضہ کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا کہ اس سرزمین پر کفر کی طاقت ختم کرنے کیلئے، علاقہ میں مسلم جوانوں کے عسکری جذبہ اور جہادی روح استعمال کیا جائے تاکہ اسلامی ممالک سے دشمن کو دور کیا جائے۔ یہ پالیسی ایک نظر سے بہتر اور خدا پسند تھی، لیکن ان افراد میں متقی عالم اور جہاد کے احکام سے آشنا قائد کا فقدان تھا جو ان کی صحیح سمت میں ہدایت و رہبری کرتا، لہذا آخر کار مجاہدین کی کوشش کا سلسلہ دوسری طریقہ سے جاری رہا۔ ان میں بعض افراد نے شدت پسند وہابیوں سے متأثر ہوکر تمام اسلامی حکومتوں اور ان میں موجود ملتوں کی تکفیر کی۔ بد قسمتی

ص:16

سے ابتداء میں یہ اقدام اسرائیلی صہیونیوں کے مقابلہ میں ثابت قدم اور استقامت کرنے والے ممالک پر حملہ سے شروع ہوا ۔ نیز قدس آزاد کرنے کے بجائے سوریہ اور عراق ممالک کے تعمیرات نابود کرنے میں لگ گئے۔ بچوں، خواتین، سن رسیدہ افراد، فقراء و بیچارہ افراد اور غیر جانبدار افراد کے ساتھ ان کی زور زبردستی اور شدت پسندی ایسی تھی کہ دنیا میں اسلام کا چہرہ بہت مخدوش اور خراب کیا اور اب مغرب میں کوئی اسلام کے بنسبت اپنی رغبت کا اظہار نہیں کرتا ہے!۔

اس جماعت کے پست اعمال اور وحشیانہ اقدامات کہاں ، اور وحی الہی کہاں!۔ جہاں خداوند متعال فرماتا ہے: ’’ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ ‘‘(آل عمران/159) ۔ نیز رسول رحمت (ص) ایک حدیث میں فرماتے ہیں: ’’ إنّ الرفقَ لا یکونُ فی شیء إلّا زانه، ولایُنزَعُ مِن شیء إلّا شأنه ‘‘ (صحیح مسلم، ج8، ص22)؛ مہربانی اور نرمی جس چیز سے بھی مل جائے ، اسے مزیّن بناتی ہے اور جس چیز سے وہ لی جائے، وہ چیز تباہ و برباد ہوتی ہے!۔

کانفرنس کی انعقاد کا سبب

ان سخت و افسوناک حالات میں، حوزہ علمیہ قم میں معزز مرجعیت نے طے کیا کہ ایک اجلاس ’’علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتوں (سلسلوں) کے متعلق عالمی کانفرنس ‘‘ کے زیر عنوان ،اس گروہ اور ان کے اعمال کے نتائج متعارف کرانے کیلئے منعقد کیا جائے۔ اس کے متعلق علمائے اسلام اور محققین سے یہ تقاضا کیا گیا کہ اس شرمناک تکفیر کی

حقیقت یابی ، اصلیت کی وضاحت نیز اس سے نجات یابی کے طریقہ کار اور راہِ حل کیلئے قلم فرسائی کریں۔ مفکرین نے اس دعوت کا استقبال کیا ، جس کے نتیجہ میں جو مضامین کانفرنس کے دفتر کو حاصل ہوئے ، ان میں بیشتر مضامین قابل تمجید اور بہترین مطالب پر مشتمل ہیں۔ اس بنا پر یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو چاپ و نشر کیا جائے اور مقامی اور غیر ملکی صاحب نظر اور عزیز مہمانوں کی خدمت میں دیئے جائے تاکہ اس طریقہ سے یہ زہریلا پھوڑا اور مخفی خطرناک وائرس پھیلنے اور عام ہونے سے روکنے کی ایک خدمت و کوشش کی ہو!۔

آخر پر کانفرنس کمیٹی اور دفتر کے محترم اعضاء کی دن رات محنت اور جدوجہد کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی انتھک زحمات کا احترام و قدر کرتے ہیں ، نیز ان تمام افراد سے جنہوں نے یہ معنوی اور علمی ماحول ایجاد کیا ہے، شکریہ کرتے ہیں!۔

قم - جعفرسبحانی

8/6/93، بمطابق 30 اگست 2014 عیسو

ص:17

مقدمہ

(یَاأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِی السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِینٌ) (بقره208)

تاریخ اسلام میں ، مسلمانوں کے درمیان بہت ساری جنگیں رونما ہوئی ہیں۔لیکن خوارج اور حالیہ چند صدیوں میں تکفیری جماعتوں کے علاوہ، کم ہی کسی فرقہ نے دوسرے مسلمانوں کو کافر ٹہرایا ہو۔ اس کا حوالہ دیکر، اہل قبلہ کے جان، مال اور ناموس کو جائز و مباح جانتے ہیں۔ فرقۂ خوارج تکفیر کے علمدار تھے، لیکن آخری تین صدیوں میں ان سے زیادہ شدت پسند وہابیوں نے تکفیر کا پرچم ہاتھ میں لیا ہے۔ توحید کی دعوت کا بہانہ سے بہت سارے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی ہیں اور اسلامی تعمیرات اور آثار جو مقدس اور مسلم تہذیب کی پہچان تھی، مسمار کردیا ہے!۔

تکفیر سے مقابلہ کی خاطر بزرگ علمائے اسلام کی متعدد کوششوں کے باوجود، افسوس سے موجودہ زمانے میں عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں تکفیری جماعتوں کے رشد اور وسعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ گروہ جو جرائم انجام دیتے ہیں ، جس کا نمونہ تاریخ اسلام میں کم ہی مل سکتا ہے۔ سر قلم کرنا، آگ لگانا، پائمال کرنا، ناموس کی عصمت دری، اموال کی مسماری اور مقدس تعمیرات کی انہدامی، ان مجرمانہ کاروائیوں کے نمونے ہیں جس کے وہ اسلام کے نام پر مرتکب ہوتے ہیں!۔

دوسری طرف سے، مسلم بزرگ علماء کا قتل کرنا، مقدس اور تہذیبی اسلامی مقامات ویران کرنا، اسلام کے نام پر جہاد نکاح جیسے فحش اور حرام اعمال انجام دینا وغیرہ سے دنیائے اسلام کے مجسمہ پر ناقابل جبران حملات وارد کئے ہیں!۔

اسلامی ممالک کی جغرافیا کے مد نظر ان جماعتوں کی کم و زیادہ موجودگی ،سارے اسلامی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسے کہ ایشیا میں جبہۃالنصره، داعش، القاعده، جندالعدل و حزب التحریر ، افریقہ میں بوکو حرام، الشباب، انصار السنه و انصارالشریعه ، نیز دیگر متنوع و متعدد جماعتیں سب دنیائے اسلام میں بحران موجود ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں!۔

ص:18

یہ مسئلہ کہ اس طرح کی صورتحال کن عوامل و اسباب کا نتیجہ ہے، اس کیلئے وسیع بحث کی ضرورت ہے جس کا مضامین کے مجموعہ میں مفصل اشارہ ہوا ہے۔ البتہ مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا خوف دلانے کی سازش ، اور اس کے نتیجہ میں اسلام مخالف ماحول تیار کرنے میں مغرب کا ہاتھ ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عالم مغرب جسے دنیا میں اسلام کی تیزی سے ہورہی ترقی کا سامنا ہے، آج کل اس نے اسلام کے خلاف اسلام کی پالیسی شروع کی ہے!۔ افراطی اور شدت پسند جماعتوں کی حمایت سے اور مذہبی اختلافات کی آگ بھڑکانے سے ، مسلمین کی طاقت اور قوت کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ دوسری طرف سے، مسلمین کا برا اور شدت پسند چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے!۔

اسی طرح توحیدو شرک، ایمان و کفر،بدعت اور ان جیسے مشابہ مفاہیم کے انحرافی مطالعہ و فہم سے مسلمانوں کو تکفیر کے دلدل میں پھنسایا ہے۔ اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تکفیری جماعتوں کے جرائم اور انہدامی کاروائیاں اتنی وسیع اور بی وقفہ رہی ہیں کہ عالم اسلام میں ان کے کارنامہ اور طریقہ کار کے خلاف نفرت اور مخالفت کی ایک لہر ایجاد ہوئی ہے!۔

اس سلسلہ اور فکر سے عالمانہ اور شفاف مقابلہ کیلئے یہ ضروری تھا کہ علماء اور مفکرین اس کی حقیقت یابی اور نجات بخش طریقہ کار پر تحقیق و قلم فرسائی کریں۔ اسی بنا پر عالمی کانفرنس ’’علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں‘‘عالم تشیع کے مرجع ، حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی ( ادام الله ظله) کی نظارت اور مفید و قابل قدر رہنمائیوں سے یہ کوشش عمل میں آئی کہ تکفیر سے مقابلہ کیلئے دنیائے اسلام کی علمی صلاحیتوں کو ممکنہ حد تک بروئے کار لایا جائے۔ اس کام کیلئے ، چار علمی کمیٹیاں ذیلی عناوین کے تحت تشکیل پائی:

1۔ تکفیری جماعتوں کی نسب شناسی ؛

2۔ تکفیری جماعتوں کی حقیقت یابی؛

3۔ تکفیری جماعتیں اور سیاست؛

4۔ تکفیری جماعتوں سے نجات بخش راہِ حل اور مقابلہ ۔

پہلے موضوع میں تکفیری سلسلوں و جماعتوں کی نسب شناسی اور خاندانی پس منظر کی بحث و تحقیق انجام پائے گی۔ اس کمیٹی میں تاریخ اسلام کے دوران تکفیر کی بنیاد، اس کا سرچشمہ اور اس کے مصادیق کا جائزہ لیا جائے گا۔

ص:19

دوسرے موضوع میں اسلامی خالص عقائد سے منحرف عقیدہ اور تکفیری فہم و مطالعہ حاصل کرنے کی حقیقت یابی کی جائے گی۔ اس کمیٹی میں ان سلسلوں اور جماعتوں کے اعتقادی اصول اور دلائل کی وضاحت اورتنقید ، نیز اسلامی فکر کے بنسبت ان میں انحرافی مسائل کی حقیقت بیان کی جائےگی!۔

تیسرے موضوع میں تکفیری سلسلوں اور جماعتوں کی سیاسی ترقی اور وسعت کے علل و اسباب، نیز ان کے روابط ، وابستگیاں اور اہداف کا جائزہ لیا جائے گا!۔

اور چوتھے موضوع میں تکفیری مشکل سے نجات کیلئے سیاسی، اجتماعی، ثقافتی اور دینی راہِ حل اور طریقہ کاروں پر بحث و گفتگو پیش ہوگی۔

جو مضامین اس مجموعہ میں جمع آوری کئے گئے ہے، وہ مذکورہ مسائل اور موضوعات کے بارے میں عالم اسلام کے مفکرین اور علماء کے نظریات و آراء اور بیانات کا ماحصل ہے۔

اسی طرح سمینار کے علمی فائدے کیلئے زیادہ سے زیادہ ، مفکرین کی طرف سے مستقل تحقیقات انجام پائی ہیں مختصراً ان کی تفصیل ہوں ہے:

1۔ علمائے اسلام کی نظر میں تکفیر: اس تحقیق میں تکفیر کے انکار اور باطل ہونے میں اسلامی مذاہب اور فرقوں کا نظر یہ بیان ہواہے ۔ نیز یہ کوشش کی گئی ہے گذشتہ صدیوں سے لیکر آج تک، اہل قبلہ کی تکفیر حرام ہونے کے متعلق علماء اور مفکرین کے نظریات جمع آوری اور نقل کئے گئے ہیں!۔

2۔ عرب ممالک میں اسلامی زیارتی مقامات کی مسماری: اس تحقیق میں عالم اسلام کے مقدس اور تہذیبی مقامات منہدم کرنے میں تکفیری جماعتوں کا سیاہ کارنامہ بیان ہوا ہے۔نیز اس تحقیق میں زیارت گاہوں کے ویران کرنے سے قبل و بعد کی تصاویر بھی ہمراہ رکھی گئی ہے!۔

3۔ مسلمین کا قتل جائز ہونے میں تکفیری جماعتوں کے فتاوی: تکفیری گروہ غلط فہمی اور انحراف کی وجہ سے، کبھی ایسے فتوی صادرکرتے ہیں جو کسی بھی فقہی قاعدہ و قانون کے مطابق نہیں ہے اور مکمل طور پر اسلامی تعلیات کے دائرے سے خارج ہے۔ اس مجموعہ میں ان سلسلوں اور جماعتوں کے تکفیری فتاوی کی جمع آوری کا کام انجام دیا گیا ہے۔

4. تکفیر کے متعلق کتابوں کا تعارف: تکفیر کے بارے میں تحریر شدہ کتابوں کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق بہت زیادہ علمی کتابیں موجود ہیں۔ اس تحقیق میں ان

ص:20

تألیفات کی توضیح و توصیف کا کام ہوا ہے جو تکفیر اور تکفیر کے انکار کے متعلق تحریر ہوئی ہے!۔

5۔ شدت پسند وہابیوں کی تنقید کا مجموعہ: وہابیت کے اندر ایسی جماعتیں موجود ہیں جو مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ شدت پسند وہابیوں کی تنقید کا موسوعہ علمائے اسلام کے تحریرات کا ایک مجموعہ ہے جس میں اس سلسلے کی پیدائش کے زمانے سے، ان کے اعتقادی اصول اور بنیادوں کی تنقید و تحلیل انجام دی گئی ہے!۔

بیشک جس چیز سے مجموعہ مضامین زیادہ سے زیادہ مفید اور اسی طرح اس ’’علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں (سلسلے) ‘‘ نامی عالمی کانفرنس کی مستقل تحقیقات بہتر ثابت ہوئی ہے، وہ حضرت آیت الله العظمی سبحانی( ادام الله ظلہ) کا علمی تسلط ہے جنہوں نے ہمیشہ مؤثر راہنمائیوں سے سمینار کی علمی کمیٹیوں کی مدد فرمائیں ہے!۔

اسی طرح علمی کمیٹی کے مدیر اعلی حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر فرمانیان کے شگر گذار ہیں ، جنہوں نے مضامین کے حصول، نظم اور ترتیب میں بہت زیادہ تکالیف اٹھائیں ہے ، نیز علمی کمیٹیوں کے محترم مدیران ، حجج اسلام: قزوینی، میراحمدی، فرمانیان اور جناب ڈاکٹر امینی کا بھی شکریہ کرتے ہیں۔

امید ہے کہ معراجع کرام اور علمائے اسلام کی مجاہدانہ کوششوں کے زیر سایہ ،عالم اسلام کی تقریب و وحدت اور ہم فکری نیز دنیائے اسلام میں فتنۂ تکفیر ریشہ کن اور نابود ہونے کا مشاہدہ کریں!۔

اسٹاف سرپرست اور علمی مدیر اعلی کے قائم مقام

عالمی کانفرس: ’’علمائے اسلام کی نظر میں افراطی اور تکفیری جماعتیں(سلسلے)‘‘

سید مهدی علیزاده موسوی

22/6/1393،بمطابق 13 ستمبر 2014 عیسوی

ص:21

پہلی جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:22

ص:23

القاعدہ کے دھشت گردی کے اضافہ میں عبد اللہ عزام کے جہادی افکار کا اثر

محمد طاہر رفیعی (1)

القاعدہ کے تمام اعضاء کا تعلق اہل سنت و الجماعت سے ہے اور ان کے مسلک میں اسلام کی تعریف افراط و تعصب سے پر پے اور ان کا ضد شیعہ میلان بنیادی وھابی و سلفی افراطی افکار کا نتیجہ ہے جو مجموعی طور پر مصر، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان کی مختلف شخصیات و احزاب سے متاثر ہیں۔ جن میں عبد اللہ عزام جس کا شمار مصر و فلسطین کے جھادی رہنماوں میں ہوتا ہے جو افغانستان کے متحدہ روس کے جہاد کے زمانہ میں اس علاقہ میں سر گرم عمل تھا، اس کا شمار القاعدہ کے تاثیر گذار رہبروں اور اعضاء کی شکل گیری کے سلسلہ میں مھم ترین رہبروں میں ہوتا ہے، اس کا بیان سادہ اور قلم سلیس و روان ہے اور وہ جہاد کے بارے میں لکھی گئی بہت سی کتابوں کا مصنف اور تقریروں اور بیانات کا خالق ہے، مختلف اسلامی ممالک سے مجاہدین کو جذب کرنے کے عمل میں اس کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، یہی وہ افراد تھے جو بعد میں القاعدہ کے عضو بنے، عبد اللہ عزام کے جہادی تفکرات، جو القاعدہ کی طرف سے ہونے والی دھشت گردانہ کاروائیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنے، کی اہمیت کا اندازہ لگانا اس مقالہ کا مھم ترین مسئلہ ہے۔

کلیدی الفاظ: عبد اللہ عزام، القاعدہ، جہاد، بن لادن۔


1- مقالہ نگار المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سطح 4 کے فارغ التحصیل و امام خمینی اعلی تعلیمی و تحقیقی ادارہ کے اسلامک اسٹڈیز کے پوسٹ گریجوئیٹ ہیں ۔

ص:24

تکفیری گروہوں کی جنایتوں کے اضافہ میں ابن تیمیہ کے افکار کا اثر

مجید فاطمی نژاد (1)

دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم اقوام ان دنوں تکفیری دھشت گرد گروہ کےسفاکانہ حملوں کے شاہد ہیں، جو سلفی و وھابی علماء کے تند عقاید اور غربی و عربی ممالک کی حمایت سے اسلامی ریاستوں میں پھیلتے جا رہے ہیں، اس مقالہ میں ابن تیمیہ کے افکار و نظریات، عقاید و سر سخت احکام اور عصر حاضر کے جہادی و افراطی گروہوں پر اس کی تاثیر کے بارے میں تحیقی پیش کی گئی ہے، اس تحقیق کے نتیجہ میں جو بات سامنے آئی ہے وہ اسلامی ممالک کے موجودہ بحران میں اور خاص طور پر موجودہ دہائی میں ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کا کردار رہا ہے۔ اس نے سلفیوں کے بعض بنیادی مسائل کی تشکیل و تدوین نو جیسے باب اجتہاد کا کھول دینا اور ظاہر گرایی کی ترویج اور عقل و منطق کی مخالفت اور سلف کے بعض اعتقادی مسائل میں سخت گیری جیسے توحید، شرک اور توحید کا صرف توحید عبادی تک محدود و منحصر کر دینا اور تکفیر کے دائرہ میں وسعت پیدا کر دینا اور اسی طرح سے اپنے افراطی عقاید کو اپنے مخالفین خاص طور پر شیعوں سے مقابلہ سے مرتبط کر دینا، سبب بن گیا کہ وہ جلد بازی میں منفعلانہ و عجولانہ اقدام کا شکار ہو گئے۔

تاریخ کے صفحات میں محمد بن عبد الوھاب جیسے اور بعض عصر حاضر کے موجودہ تکفیری انہیں افراطی افکار و نظریات اور ابن تیمیہ کی روش سے استفادہ کرتے ہوئے، اسلامی دنیا کو شدت پسندی، تحجر و فتنہ کی آگ کے حوالے کر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم آج اسلام کے نام پر اسلامی ممالک کے مختلف علاقوں میں بہت ہی وحشیانہ جرم و جنایت کا نظارہ کر رہے ہیں، جیسے شام، عراق، افغانستان، پاکستان، سومالیہ و ۔ ۔ ۔ ۔

کلیدی الفاظ: ابن تیمیہ، افراطی گری، تکفیر، گروہ ھای جہادی و تکفیری، رافضہ۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی ادارہ کے محقق ہیں ۔

ص:25

کربلا و نجف میں تفکیری وہابیوں کے مظالم دورہ اول پر تاکید کے ساتھ

احمد کوثری (باغچقی) (1)

وہابیوں نے اسلامی دولت و نظام کی سر براہی کے حصول اور حرمین شریفین مکہ و مدینہ پر اپنا پرچم لہرانے کی راہ میں شدید مالی حمایت کا شدت سے احساس کر رہے تھے، انہوں نے اس ثروت کو حاصل کرنے کا بھترین راستہ عراق و مقدس روضوں پر قبضہ کی شکل میں دکھائی دیا، اس لئے کہ ایرانی شیعہ بادشاہوں خاص طور پر نادر شاہ درانی (افشار) جو ان مقامات مقدسہ کا بہت خیال رکھتا تھا اور ڈھیروں سرمایہ ان سے مخصوص کرتا تھا، لہذا انہوں نے محمد بن عند الوہاب کے اس حکم کے مطابق جس میں اس نے مزارات مقدسہ کے انہدام کا فتوی دیا تھا، نجف و کربلا پر حملہ کرکے انہیں تاراج کیا، جس میں کربلا پر حملہ و تاراج اور نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ کی بے حرمتی اور روضہ کی املاک و اموال کے غارت کے ساتھ عوام کے قتل و غارت اور ان کی ناموس کی آبرو ریزی میں وحشیانہ رخ اپنایا۔ انہوں نے نجف اشرف پر قبضہ کے سلسلہ میں جب کئی بار حملہ کیا مگر انہیں اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ زیر نظر مقالہ میں وہابیت کے ان جرائم و جنایات کو بیان کیا گیا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے ان مقدس شہروں کربلا و نجف میں انجام دیئے۔

کلیدی الفاظ: وہابیوں کی جنایتیں، کربلا پر حملہ، نجف پر حملہ، وہابیوں کا قتل و غارت، مقامات مقدسہ کا انہدام۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی ادارہ کے محقق اور مذاہب اسلامی موضوع کے پوست گریجوئیٹ ہیں۔

ص:26

احمد بن حنبل اور تکفیر کے سلسلے میں ان کا نظریہ

حسن اسکندری (1)

احمد بن حنبل سلفی افکار و نظریات کے معنوی و مجازی پدر ہونے کے باوجود سیاسی گفتار و رفتار میں اپنے مخالفین پر تنقید کے معاملے میں ایک جدید نظریہ کے حامل تھے۔ وہ حکومت و قدرت کے طلبگار نہیں تھے لیکن اپنے مخالفوں جیسے جھمیہ فرقہ کے بارے میں تکفیر کا استعمال کیا اور قرآن مجید کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں کو بھی کافر سجمھتے تھے، البتہ متوکل کے تخت خلافت پر متمکن ہونے کے باوجود، جو احمد بن حنبل پر فریفتہ تھا، انہوں نےاپنے مخالفوں سے انتقام لینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی دھشت گردی کے سلسلہ میں نظری و عملی توجیہ پیش کی۔ سلفی اپنے بعض عقاید میں، جیسے توسل و تبرک کا انکار، احمد بن حنبل سے مخالف نظریہ رکھتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں احمد بن حنبل کے تکفیری افکار و نظریات کی تحقیق کی گئی ہے اور سلفیوں کے ساتھ بعض اختلافات کا ذکر کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ: احمد بن حنبل، تکفیر، جھمیہ، خلق قرآن، زندیق، نفی عقل، متکلمان، توسل، سلفیہ۔


1- . مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی ادارہ کے محقق ہیں ۔

ص:27

اسلامی تہذیب و تمدن میں مذہبی عمارتوں و آثار کا کردار

قادر سعادتی (1)

مذہبی عمارتیں اور آثار، اسلام کی مجسم تاریخ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی ترقی و ارتقاء کا راز ہیں۔ یہ آثار معماری، خطاطی و نقاشی اور دوسرے اسلامی ہنر کی جلوہ گاہ ہیں اور صرف یہی نہیں یہ ثقافتی و تہذیبی اقدار کی بہترین تفریح گاہیں ہیں اور اسلام کی غنی ثقافت کو آنے والی نسلوں تک پہچانے کا بہترین راستہ و ذریعہ ہیں اور یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی زندگی سے عبرت حاصل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں لہذا دنیا کے ہر گوشے میں ان کا تحفظ کرنا اور ان کے بقاء کے لئے سعی و کوشش کرنا، اصیل اسلامی تہذیب و تمدن و اقدار کی حفاظت کا سبب بنے گا۔

کلیدی الفاظ: تمدن اسلامی، ہنرھای اسلامی، تاریخ تمدن، اماکن مذہبی۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت نامی ادارہ کے محقق ہیں ۔

ص:28

ابن تیمیہ کی نطر میں موانع تکفیر مسئلہ جہل کی تاکید کے ساتھ

عبد المحمد شریفات (1)

آج کے دور کی ایک بڑی مصیبت جس کا اسلامی معاشرے شکار ہیں، خاص طور پر جوانوں کو جس نے تحت تاثیر قرار دیا ہے وہ مسئلہ تکفیر ہے۔ یہ نا تجربہ کار، کم خرد و فکری تعصب کو حامل جوان جنہوں نے مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی لئے حلال اور مباح سمجھ لیا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو دوسروں کی خوبصورت دنیا کی خاطر آگ لگا رہے ہیں، مسلمانوں کی آنکھوں سے نیند اڑا دی ہے اور عرصہ حیات کو ان پر تنگ کر دیا ہے۔

افسوس کہ یہ لوگ، دوسروں پر کفر کا الزام ابن تیمیہ جیسے بعض علماء کے فتووں کی بنیاد پر لگا رہے ہیں جبکہ ابن تیمیہ فکری اعتبار سے اس بات کا قائل ہے۔ جبکہ تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے اور کافر وہ ہے جو خدا و رسول اور ان تعلیمات آشکار کا انکار کرے جو رسول خدا (ص) لائے تھے۔

ابن تیمیہ کا ماننا ہے: بعض کوتاہ فکر و جاہل افراد نے تکفیر کو اپنا لیا ہے اور اہل تاویل پر کفر کی نسبت لگا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے اعمال نہ کسی صحابی نہ انجام دئیے ہیں نہ کسی تابعی و علماء مسلمین نے، اور چاروں مشہور مذاہب کے علماء میں سے بھی کسی کا یہ نظریہ نہیں تھا، بلکہ ان کے نظریات اس کے بر خلاف ہیں، لہذا ہوا و ہوس اور اس بنیاد ہر کہ ہمارے مخالف ہیں افراد کے بارے میں کفر کی نسبت سے پرہیز کرنا چاہیے، اگر چہ وہ ہمیں تکفیر کریں اور ہمارے خون کو حلال و مباح سمجھیں۔

ابن تیمیہ معتقد ہیں: عام نمازی اہل ایمان ہیں، اگر چہ ان کا عقیدہ مختلف ہے حتی کہ اگر وہ غلط عقیدہ پر ہی کیوں نہ ہوں، وہ اسلام کی بنیاد و مسلمان ہونے کی شرط صرف اللہ کے ایک ہونے


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت نامی ادارہ کے محقق ہیں۔

ص:29

اور پیغمبر خاتم کی رسالت کو مانتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ فقط شھادتین و ارکان اسلام و ضروریات دین کا انکار کفر کا سبب بن سکتا ہے۔

ابن تیمیہ تکفیر مطالق و تکفیر معین کے درمیان فرق کے قائل ہیں، تکفیر مطلق کے اطلاق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی یہ عقیدی رکھتا ہو، یا اس طرح کا عمل انجام دے، وہ کافر ہے، اس لئے کہ ممکن ہے کہ تکفیر معین کے شرائط اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔ یہی سبب ہے کہ تکفیر معین میں نہایت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے تا کہ محکم دلیل اور معتبر ثبوت کی بنیاد پر جب تک کسی کے کفر کا یقین پیدا نہ کر لیں، تب تک اس کے کفر کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔

ابن تیمیہ کا ماننا ہے کہ مسائل دین میں سے کسی مسئلہ کا قطعی ہونا اور اس کا علم نہ ہونا ایک نسبی امر ہے۔ لہذا اس بنیاد پر کہ کسی کی طرف کفر کی نسبت نہیں دی جا سکتی ہے کہ اسے کسی مسئلہ میں اختلاف ہے جبکہ علماء اسے قطعی سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ کسی امر کے قطعی ہونے کا تعلق اس کے مقدمات سے ممکن ہو سکتا ہے جو دوسروں کے یہاں ثابت نہ ہو، جیسے جہل کی مثال ہو سکتی ہے۔ اعتقادی مسائل میں صحابہ کی عدم آگاہی ظاہر ہوئی مگر پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم نے کسی کی طرف تکفیر کی نسبت نہیں دی ۔

لیکن افسوس ہے کہ ابن تیمیہ عملی میدان میں اور ان قواعد کی تطبیق میں غلطی کر بیٹھے ہیں اور بعض افراد بلکہ بعض گروہ کو تکفیر کر بیٹھے ہیں، جسے بعض تکفیری گروہوں اور جاہل جوانوں نے موجودہ زمانہ میں اپنی دلیل بنا لی ہے۔

کلیدی الفاظ: ابن تیمیہ، تکفیر، تکفیر مطلق و معین، جہل، اسلام و کفر ۔

ص:30

وہابیوں کے موانع تکفیر نظریہ کی تحقیق، مانعیت تاویل پر تاکید کے ساتھ

حسین قاضی زادہ (1)

نواقض اسلام کا ارتکاب، کفر و خروج از اسلام کا سبب بنتا ہے، لکین اس حکم کو اس وقت اجراء اور عملی شکل دی جا سکتی ہے کہ جب موانع تکفیر موجود نہ ہو، تکفیر کے لئے موانع مثلا جہل، خطا، اکراہ و زبردستی اور تاویل بیان ہوئے ہیں۔ ان مذکورہ موانع میں سے تاویل کا مانع ہونا دو جہت سے اہمیت کا حامل ہے۔ اول: مذاہب اسلامی کے درمیان مبانی و منابع اور دلائل کے اختلاف کا پایا جانا جو دینی مسائل میں مختلف اجتہاد و تاویلات کا باعث بنتا ہے اور تاویل کے لئے ماحول فراہم کرتا ہے۔ دوم: مانعیت تاویل نے مسائل اصلی و فرعی کے ایک بڑے حصہ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے، تاویل کرنے والے، جب تک ان کے پاس دلائل موجود ہوتے ہیں وہ اساسی ترین اصول اسلام سے لے کر فرعی ترین فروع فقہی میں معذور و ماجور ہونگے، کتاب خدا، سنت و سیرہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و امیر المومنین علیہ السلام و صحابہ و بزرگان دین، تمام حضرات اس تاویل کے وسعت پر دلیل ہیں۔

کلیدی الفاظ: نواقض اسلام، تکفیر مطلق، تکفیر معین، موانع تکفیر، تاویل ۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی ادارہ کے محقق ہیں۔

ص:31

تکفیر اہل قبلہ کی حرمت کے بارے میں وہابی تکفیری نظریات کا آیات و روایات سے موازنہ

سید محمد یزدانی (1)

قرآن کریم کے نظریہ کے مطابق، کسی مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کے سلسلہ میں کفر و شرک کی نسبت دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اور اس بہانے سے ان کی جان و مال پر حملہ کرے، بلکہ اگر کوئی اسلام کا اظہار کرتا ہے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کھلے دل سے اس کی بات کو قبول کریں اور اسے مسلمان سمجھیں۔ قرآن مجید کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ انسان کے ظاہری احوال و گفتار اعتبار رکھتے ہیں اور اگر کسی فرد سے اس کے مسلمان ہونے کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی نشانی بھی ظاہر ہو جیسے سلام کرنا، تو اس سے اس کے مسلمان ہونے کا حکم جاری ہوگا اور اس کا خون و مال محترم ہے۔

قرآن کریم نے نہایت صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے یا کافر کے الفاظ استعمال نہ کریں۔

اہل سنت کی کتابوں میں موجود صحیح روایات کے مطابق، جس کسی نے اپنے بھائی کو کافر خطاب کیا ایسا ہے گویا اس نے اسے قتل کر دیا ہے، اس کے خون میں شریک ہے، اور یہ کفر کی نسبت دینا خود اس کی طرف پلٹ جائے گا، لیکن یہ وہابی بغیر کسی دلیل و سند کے تمام مسلمانوں کو فقط توسل و استغاثہ کے ہہانے کافر، مشرک و محدور الدم سمجھتے ہیں۔ ان سندوں کے مطابق جو وہابیوں کی کتابوں میں موجود ہیں، محمد بن عبد الوہاب میں دو اہم خصلتیں تھیں:

1۔ تکفیر تمام اہل زمین۔

2۔ بے گناہ افراد کا خون بہانے کی جرئت۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی ادارہ کے محقق ہیں۔

ص:32

یہ لوگ حتی کہ اس بات کے مدعی ہیں کہ اگر کسی نے محمد بن عبد الوہاب کے خاندان کی اطاعت نہ کی تو وہ جہنم میں جائے گا اور یہ افکار آیات و سند کے اعتبار سے معتبر روایات کے منافی ہیں۔

مسئلہ کا بیان و تحقیق کا دائرہ

سالہا سال سے بہت سے اسلامی ممالک میں آشوب و نا امنی کا دور رورہ ہے۔ ایک گروہ نے دوسرے اسلامی مذاہب کو کافر کہہ کر ان کے خون کو مباح سمجھ لیا ہے اور شرک و بدعت کے بہانے دوسرے فرقوں کے خلاف اسلحہ اٹھا لیا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور دلچسب بات یہ ہے کہ وہ صرف خود کو بر حق اور صحیح مانتے ہیں باقی سب کو باطل، اور ان فرقوں کے ماننے والوں کا قتل کرنا واجب جانتے ہیں اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے انہیں قتل کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں ہم اس مسئلہ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن و احادیث کے مطابق، جسے تکفیری گروہ مانتے ہیں، کسی مسلمان کو کافر کہنا اور اس کا قتل کرنا جائز نہیں ہے اور ہر وہ انسان جو زبان سے کلمہ پڑھے اس کا جان، مال اور ناموس محترم ہے۔

آگے کی بحث میں ان کتابوں سے جو محمد بن عبد الوہاب اور وہابیوں کے بڑے علماء نے یہاں متعبر ہے، ثابت کروں گا کہ یہ لوگ ان افراد کو جو وہابی مذھب کو نہیں مانتے کافر و محدور الدم سمجھتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ قرآن اور سنت پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کے بر خلاف ہے۔

اہمیت تحقیق

امنیت و سکون تمام ممالک کے لئے ہر طرح کی دینی و دنیوی ترقی کی بنیاد ہے۔ دین اسلام امن و سکون کے لئے بیحد اہمیت کا قائل ہے اور امن و امان کو غارت کرنے والے کو محارب اور مفسد فی الارض مانتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بہت سے تکفیری، اصیل اسلامی تعلیمات سے پوری طرح سے آگاہ نہیں ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ تکفیری تفکر، اسلامی و قرآنی نظریہ ہے۔

لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم آیات و روایات سے جنہیں وہ قبول کرتے ہیں، استدلال کر کے ان کی فکری اصلاح کریں اور اسلامی معاشروں میں امن و سکون کے قیام میں مدد کریں۔

کلیدی الفاظ : ایمان، اسلام، تکفیر، وہابیت۔

ص:33

تکفیری گروہوں کے بارے میں اہل سنت مفکرین کے تنقیدی نظریات

علی رضا میرزایی (1)

تکفیری گروہوں اور تنظیموں کا تقلق سعودی عربیہ کے ان بعض حنبلی علماء سے ہے جو اپنے مخصوص نقطہ نظر کی توجیہ کے لئے، خاص طور پر شیعہ دشمنی میں اہل سنت والجماعت ہونے کے عنوان سے اس بحث سے سوء استفادہ کرتے ہیں۔ یہ اقلیت اپنی اس روش کے باوجود آج تک نہ صرف یہ کہ اہل سنت الجماعت میں کسی اجماع و اتحاد کی تشکیل میں ناکام رہی ہے بلکہ اہل سنت کے بے غرض و آزاد اندیش تحقیق کرنے والے علماء نے بھی ان تکفیری افکار کے سلسلے میں رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں تکفیری افکار و گروہوں کے مخالف اہل سنت کے ان بے شمار علماء و دانشمندوں میں سے جند معروف افراد کا انتخاب اور ان کی تنقید کے محور کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ تکفیر مخالف تحریک کو سلیمان بن عبد الوھاب، زینی دحلان، زاھد کوثری، فرحان مالکی، رمضان البوطی و علی السقاف کی تائید حاصل ہے۔ مذکورہ تمام حضرات کا شمار اہل سنت والجماعت کے نامور متفکرین میں ہوتا ہے۔ تکفیری افکار و نظریات پر تنقید اور اس کے ضمن میں ایک متعہد اسلامی افکار و نظریات کے سلسلے کی بیناد پر (اس گروہ کی تشکیل کے راز میں ایک پیغام مضمر ہے اور وہ اسلامی اتحاد) آشکار انحراف کے مقابلے میں یہ تین مھم نکتوں میں پائی جاتی ہے: 1۔ تکفیری عناصر کے اہل سنت کے عنوان کو ناحق مصادرہ کرنے کی راہ میں مانع ایجاد کرنا۔ 2۔ اہل سنت کے شیعوں و دوسرے مخالفین کے خلاف ایک اجماع کے قیام کی مخالفت کرنا۔ 3۔ تکفیری عناصر کے خود کو حق پر ہونے کا دعوی کرنا اور اپنے مخالفین کی طرف شرک و کفر و انحراف کی نسبت دینا، قانع کرنے والا نہیں ہے۔

کلیدی الفاظ: تکفیر، سلفیہ، اھل سنت و جماعت، متسلف، متمذھب، ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوھاب۔


1- مقالہ نگار ادیان و مذاھب یونیورسٹی میں مذاھب اسلامی موضوع کے ریسرچ اسکالر، شھید محلاتی اعلی تعلیمی ادارہ کی علمی کمیٹی کے رکن ہیں۔

ص:34

منابع اہل سنت سے ماخوذ سماع موتی کی روایی دلائل کا جائزہ

سعید ملک محمد (1)

نفیسہ فقیہی مقدس (2)

سماع موتی کے مسئلہ پر ابتداء سے ہی اسلامی تعلیمات میں بعض حضرات نے تعجب کا اظہار کیا ہے اور کیوں اور کیسے کے ذریعہ ایک گروہ نے اظہار ابہام کیا، حالانکہ یہ بحث برجستہ موضوعات اور ایک دراز عرصہ سے متفکرین کے یہاں چیلینج اور محافل و مجامع علمی میں متقارب و متقابل نظریوں کے تصادم کی آماجگاہ رہا ہے۔ جو بات متون و مستندات اسلامی کے مطالعہ اور تحقیق سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ مختصر مخالفین کو چھوڑ دیا جائے تو باقی سب اس مسئلہ پر متفق الرای ہیں۔ اس قلیل گروہ نے بھی زیادہ تر عالم پس از مرگ کے اس جہان مادہ سے ارتباط کے بارے میں بحث کی ہے اور سماع موتی کے سلسلے میں اظہار خیال کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں مثبت و توصیفی و تحلیلی انداز و روش کو اپنایا ہے۔ اہل سنت و جماعت و متون اسلامی اور اس کے بارے میں جدید و مدون نظریات اور دلائل کی تحقیق و مطالعہ سے سر انجام سماع موتی کی بحث کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ: سماع موتی، رد سلام، خطاب المیت، حیات الانبیاء، حیات برزخی ۔


1- مقالہ نگار عرفان و تصوف کے موضوع پر پی ایچ، ڈی، اور مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نامی ادارہ میں گروہ اخلاق کی ہیڈ ہیں۔
2- مقالہ نگار تفسیر تطبیقی کے موضوع پر پی ایچ، ڈی، علوم و فرھنگ اسلامی ریسرچ سینٹر کے محقق اور ولایت چینل سے وابستہ ہیں۔

ص:35

مشرق وسطی کے جدید تکفیری دہشت گردوں کا تعارف، ایک تحلیل

(بعض توسعہ طلب افکار و علائم کے مد نظر)

عبدالوہاب فراتی (1)

ولی محمد احمدوند (2)

مہدی بخشی شیخ احمد (3)

مشرق وسطی میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ رونما ہو رہا ہےاس وقت اس کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ظاہرا توسعہ و ارتقاء کے علائم کے فقدان، خاص طور پر ڈموکریسی کے نہ ہونے، اور افراطی اسلام گرایی کے اضافہ میں ایک محکم و مضبوط ارتباط پایا جاتا ہے اور جہادی گروہوں و تنظیموں اور ان کی جنگوں نے انہیں علائم کے فقدان کے سبب رونق حاصل کی ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ ڈیموکریسی کو بڑھاوا دینا اور توسعہ و ترقی کے بعض علائم میں تعمیق عوام کو ان جہادی گروہوں سے دور کر سکتی ہے اور انہیں قانع کر سکتی ہے کہ زندگی کا بہترین آئیڈیل، سہل انگاری و سیاسی مدارا ہے۔ افغانستان و عراق میں ڈیموکریسی کی تبدیلی کی رفتار اس بات کی تائید کرتی ہے۔ یہی دلیل ہے کہ علوم سیاسی کے بعض محققین کا ماننا ہے کہ مڈل ایسٹ میں جہادیوں کی جنگ میں اضافہ کا تعلق ان ممالک کی پس ماندگی و عقب افتادگی سے ہے۔ مذہبی جذبات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں سعی کی گئی ہے کہ اسی نظریہ اور توسعہ و ترقی کے علائم کی تاثیر کے مطالعہ میں تکفیری گروہوں و تنظیموں کے ظہور اور ان کی وسعت کے بارے میں ہے اور اس سلسلہ میں موجود علائم کا مقایسہ کیا جا سکے۔

کلیدی الفاظ: دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی، توسعہ کے علائم، ڈیموکریسی، مشرق وسطی کی تکفیری تحریکیں ۔


1- مقالہ نگار فرھنگ و اندیشہ اسلامی ریسرچ سینٹر میں اسسٹینٹ پروفیسر ہیں۔
2- مقالہ نگار فرھنگ و اندیشہ اسلامی ریسرچ سینٹر کے محقق ہیں۔
3- مقالہ نگار اردبیل آزاد یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں۔

ص:36

دھشت گرد تکفیری گروہ جند اللہ کے اقدامات و اعتقادات کا تجزیہ و تنقید

شریف لک زایی (1)

رضا لک زایی (2)

زیر نظر مقالہ میں، جند اللہ نامی دھشت گرد تکفیری تنظیم، جس کا سرغنہ عبد الملک ریگی ہے، جس نے اسلامی ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں اور خاض طور پر صوبہ سیستان و بلوچستان میں دھشت گردانہ کاروائیاں انجام دی ہیں، جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں، کے عملی اقدامات اور ان کے اعتقادات کا تنقیدی تجزیہ گیا ہے۔

اس گروہ کی دھشت گردانہ کاروائیوں کے بخش میں، اس صوبہ کے شمالی علاقہ تاسوکی سے لے کر ان کے شب عاشور کے خود کش حملے تک، جو ضلع چابھار کے جنوب میں کئے گئے، زاھدان کے خود کش حملے، جو مسجد امام علی بن ابی طالب علیہ السلام اور جامع مسجد میں کئے گئے کو بیان کیا گیا ہے۔

افکار کے بخش میں، دھشت گردوں کے افکار و عقاید مثلا شیعوں کو مشرک سمجھنا، شیعوں کے بارے میں تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنا، امام حسین کی عزاداری کو حرام ماننا، عید نوروز کے بدعت ہونے کا عقیدہ رکھنا، شیعوں کو امام حسین کا قاتل سمجھنا و ۔ ۔ ۔ کے سلسلے میں تحقیق و تنقید کی گئی ہے۔

اس مقالہ کی روش توصیفی و تحلیلی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ماخوذ نظریاتی افکار پر استوار ہے۔ سعی کی گئی ہے کہ دھشت گردوں کے وعووں کو قرآن کریم اور اھل سنت و الجماعت کی روایات سے مورد تنقید قرار دیا جائے، اسی سبب سے اس مقالہ کا مقصد ان


1- مقالہ نگار، اسلامی علوم و ثقافت تحقیقاتی سینٹر نامی ادارہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں.
2- مقالہ نگار، المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تحقیقاتی سینٹر کے محقق ہیں، قابل ذکر ہے کہ وہ پانچ ماہ تک دھشت گرد گروہ جند اللہ کے قبضے میں اغوا کے طور پر رہ چکے ہیں اور انہوں نے ان پانچ ماہ کی داستان اپنی ایک کتاب میں، جس کا نام تاسوکی ایک اغوا شدہ کی سر گذشت، تحریر کی ہے۔ چوتھا ایڈیشن، قم ، بوستان کتاب، 1391 شمسی)

ص:37

کے تعارف اور دھشت گردانہ کاروائیوں کے علاوہ ان کے اعمال و اقدام کے اھل سنت کے اقدام اور ان کی تعلیمات سے جدا ہونے پر تاکید کی گئی ہے اور ضمنا ان کے اعمال کے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی ہونے کی طرف تاکید کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ: ٹروریزم، سیستان و بلوچستان، جند اللہ گروه -

ص:38

بیداری اسلامی کے تبدیلی والے ماحول میں تکفیری گروہ القاعدہ کے مستقبل پر ایک تحلیل

سید محمد مہدی حسینی فائق (1)

گیارہ ستمبر کے حادثہ کو گزرے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، مختلف محافل میں یہ بات شائع ہو چکی ہے کہ جنگ کے میدان میں القاعدہ کو اپنے دشمن جس کی کمان یو ایس اے کے ہاتھوں میں تھی، شکست ہو چکی ہے۔ حلانکہ اس کے باوجود اس گروہ کے بعض کامیاب و ناکام اقدام نے ہوشمندی، انطباق و اثر گذاری کی داستان رقم کی ہے۔ مغربی ممالک نے اس کے مقابلہ کی راہ میں القاعدہ کے عضو جذب نہ کرنے اور فکری تاثیر گذاری ختم کرنے کی سالہا سال کی کوشش کے با وجود نچلے درجہ کے جہاد اور القاعدہ کی ہدایت گر آئیڈیا لاجی اب بھی اعضاء کو جذب کر رہی ہے اور وہ مختلف ہٹھکنڈوں سے اپنی آئیڈیا لوجی کو بڑھاوا دینے اور دہشت گردانہ افراط گرایی کی ترویج میں استفادہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں میں سے ایک عرب اسلامی ممالک، مشرق وسطی اور شمال افریقا میں ایک طرح کے انقلاب کی تشکیل ہوئی ہے جسے بیداری اسلامی یا بہار عربی کے نام سے شہرت حاصل ہے، اس بیداری اسلامی نے ایسی فضا ایجاد کی کہ جس میں تمام احزاب و گروہ (اسلام گرا، نیشنلیسٹ، کمیونیسٹ و ۔۔۔) کے لئے فعالیت کا راستہ فراہم ہو گیا۔ ان گروہوں میں، القاعدہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس لئے کہ اسے اسلامی افراط گرایی و بنیاد پرستی میں اسے نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے اور وہ ہمیشہ اپنے انواع و اقسام کے کاموں اور اپنے ماننے والوں کے کارناموں کی وجہ سے میڈیا اور عوام کے ذہنوں میں چھایا رہتا ہے اور مغربی ممالک نے اس سے مقابلہ اور اس کی بربادی کے لئے کافی پیسا خرچ کیا ہے۔ بیداری اسلامی کے آغاز میں، مسلم عوام میں اسلام خواہی اور ڈیموکریسی کی لہر اٹھی۔ (اور عوام کی متضاد خواہشیں اور مختلف نعرے، مختلف آئیڈیا لوجی اور القاعدہ کے اہداف) جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ القاعدہ اپنی آخری سانسیں


1- مقالہ نگار اندیشہ سیاسی اسلام کے موضوع پر پی ایج، ڈی کا مقالہ تدوین کر رہے ہیں۔

ص:39

لے رہا ہے۔ اس مسئلہ نے بن لادن کے قتل سے زیادہ اس تنظیم پر بوجھ ڈالا، لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا کہ اس گروہ میں ایک خاص انعطاف و قابلیت پائی جاتی ہے اور کسی حد تک اس نے خود کو جدید حالات کے تحت ڈھال لیا ہے۔ اس مقالہ میں سعی کی گئی ہے کہ کتب خانوں میں موجود منابع اور اس بارے میں موجود تحقیقات سے استفادہ کے ذریعہ القاعدہ پر بیداری اسلامی سے پڑنے اثرات کا جائزہ لیا جائے ۔ اس تحقیق میں ہمارے دو متغیر عنوان ہیں ایک بیداری اسلامی جو ایک مستقل متغیر ہے اور دوسرے القاعدہ جو ایک وابستہ متغیر ہے، جس کے بارے میں بحث کی جائے گی۔ اس کے ضمن میں سعی کی گئی ہے کہ بیداری اسلامی کے مختلف ابعاد اور القاعدہ پر پڑنے والے محتمل اثر کے ساتھ بعض دوسرے احتمالات کو بیان کیا جائے۔

ص:40

انڈویشیا میں اسلامی بنیاد پرستی کا ظہور

سید محمد حسین خادمی (1)

اسلامی انتہا پسندی کا آغاز، گذرے تیس برسوں میں مشرقی ایشیاء کے جنوب میں ہوا، اس علاقہ کے اسلام کے پیروکار، معتدل اور غیر متعصب مسلمان کی صورت میں پہچانے جاتے تھے، لیکن آخری دو دہائیوں میں سیاسی مشکلات کے سبب اندونزی میں کچھ عوامل کے سبب اسلامی شدت پسند پھر سے فعال ہو گئے اور دوسرے گروہوں سے جدا ہوگئے ،ایسے ماحول میں اسلام شدت پسند تکفیری گروہ کو بھی پھیلنے کے لئے حالات فراہم ہو گئے، تکفیری گروہ اور دوسرے اسلامی شدت پسند گروہ میں فرق ہے جیسے حد سے زیادہ جنبۂ دینی، جزم گرایی، نفی تکثر گرایی وغیرہ۔ اس تحقیق میں وہ مذہبی تحریکیں کہ جو اسلامی شدت پسندی کے پیکر میں ’’سوھارتو‘‘ کے بعد اندونزی میں وجود میں آئیں ان کے بارے میں جستجو اور بررسی کی جائے گی۔ ضمناً، مشکلات اور اندونزی کے داخلی بحران اور اسی طرح خارجی عوامل کے اثرات کی بھی تحقیق اور بررسی ہوگی جو کہ اس ملک میں موثر ثابت ہوئے ہیں، یہ تحقیق اس بات کا پتہ دے گی کہ اس ملک میں تکفیری سد باب کا بہترین طریقہ مضر عناصر کا ختم کرنا ہے۔ اس تحقیق میں جن منابع سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں اکثر مضامین اور مقالات ہیں کہ جس کو انگلش اور اندونزی زبان میں محققین نے شائع کیا ہے۔

کلیدی الفاظ: اسلامی بنیاد پرستی، جنوب شرق ایشیہ، تکفیر، افراطی گری، وہابیت ۔


1- مقالہ نگار باقر العلوم یونیورسٹی کے پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔

ص:41

تکفیری فتاوی صادر ہونے کے اسباب اور اسلامی دنیا پر اس کے نتائج کا تجزیہ و تحلیل

محمد عثمانی (1)

اسلامی ممالک میں تکفیری گروہوں کے کاموں نے سخت بحران کا ماحول پیدا کر دیا ہے، اس کا سب سے بڑا نتیجہ مسلمانوں کے قتل عام کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس تحریک کے رشد و ارتقاء میں بہت سے فکری و سماجی عوامل دخیل ہیں جن کا نتیجہ اس صورت میں نکلتا ہے۔ تکفیری گروہوں کے نظری مبنا اور عملی دہشت گردانہ کاروائیوں کی بنیاد ان بعض سلفی و وہابی فقہاء کے فتوی کا صدور ہے جس کو اس گروہ نے اپنی توجیہ کا ذریعہ بنایا ہے اور یہی فتوی ان کے دہشت گردانہ کاموں میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان تکفیری فتووں کی گہرائی میں جانے اور اس کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی ریاستوں میں ان تحریکوں کے قوام میں ان فتووں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔

ان تکفیری گروہوں کے پاس جس طرح سے میدان عمل کے لئے افراد کی کثرت موجود رہی ہے ویسے ہی ان کے افکار و نظریات کی پیدائش و تبیین کے لئے ایسے اہل نظر افراد کی ضرورت رہی ہے جو ان کے اس طرح کے دہشت گردانہ عمل و اقدام کی توجیہ کر سکیں۔ زیر نظر مقالہ میں جہان اسلام میں تکفیری فتاوی کی پیدایش کے اسباب کی تلاش میں سلفی فقہاء کے فتاوی کا دوسرے اسلامی گروہوں کی تکفیر میں اہم کردار رہا ہے اور ایسے فتووں کے عینی و ذہنی اسباب کے سلسلے میں تحقیق کی گئی ہے اور اس بارے میں نقد و تنقید کے جدید عملی نظریہ سے استفادہ کرتے ہوئے اس فرضیہ پر تحقیق انجام دی گئی ہے کہ یہ تکفیری فتاوی بعض فرضیوں، جہان مادہ کی روشوں اور سلفی فقہاء کی ایک خاص فکر کی بنیاد پر دئیے گئے ہیں جن کے صدور کے بعد ان گروہوں کے رشد و ترقی کا ماحول فراہم ہو گیا ہے۔ اس مقالہ میں ان فتاوی کے وجود میں آنے کے اسباب اور جہان اسلام پر رو نما ہونے والے ان کے نتائج کا تنقید کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ: سلفی گری، تکفیر، افراط، دہشت گردی، فتوی۔


1- مقالہ نگار پالیٹیکل سائنس کے پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔

ص:42

تکفیری افکار کے علاج اور روک تھام کے سلسلے میں قرآن کریم کی روش

وحید خورشیدی (1)

قرآن مجید میں جن مسائل کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک مسلمانوں کی طرف تکفیر کی نسبت دینا ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کے لئے ایسے راستوں کی نشان دہی کی ہے جن کی مدد سے وہ اس خطرہ سے دوسرے مسلمان کی جان کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ قرآن شریف کی بتائی ہوئی روشوں میں سے ایک، کسی دوسرے مسلمان جو ظاہری اعتبار سے اسلام پر عمل کرتا ہو، کو کافر کہنے میں جلدی نہ کرنا ہے۔ اسی طرح سے قرآن کریم دوسرے مسلمانوں کے اسلام کے بارے میں شک نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے، مسلمانوں کے دو گروہوں کو، جن میں جنگ ہو رہی ہو، انہیں ایمان کی صفت سے متصف کرتا ہےاور نزاع کی صورت میں دونوں فریق کو صلح کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں کے خون کی عظمت کا بیان، تکفیر کے علاج کی ایک روش ہے جسے قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں آیات الہی میں بحث و گفتگو کے ذریعہ، قرآن شریف کی تکفیر سے منع کرنے کی روش کو بیان کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ: روش قرآن کریم، علاج، تکفیر، عدم شک، ایمان، اصلاح، خون مسلمان۔


1- مقالہ نگار دار الاعلام لمدرسۃ اھل البیت علیهم السلام نامی تحقیقاتی ادارہ کے محقق اور شیعہ شناسی موضوع میں ماسٹڑز ڈگری یافتہ ہیں۔

ص:43

تکفیری سلفیوں کی کاروائیاں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے موقع

محمد علی رنجبر (1)

تکفیریوں کے یہ جدید گروہ، جو در اصل قدامت پسند متعصب سابق سلفی و وھابی افکار سے متاثر ہیں، اسلامی ریاستوں بلکہ دنیا کے تمام ممالک اور خطے کے لئے بڑا خطرہ ہیں، اس خطرہ نے اسلامی ملکوں میں بیداری اسلامی کے فورا بعد ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے، اس سلسلے میں کتابیں، مقالات لکھے جا چکے ہیں، لیکن محافل علمی میں جس بات کی طرف کمتر توجہ مبذول کی گئی ہے وہ اس حالات سے پیش آنے والے مواقع ہیں جو تکفیری تنظیموں کے اقدام سے وجود میں آئیں ہیں، خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے جو حقانیت شیعہ کا پرچم دار اور مقاومت کا مرکز ہے۔ انہیں باتوں کے مد نظر اس مقالہ میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ تکفیریوں کے ان کاموں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے کون سے مواقع فراہم کئے ہیں، مزید یہ سعی کی گئی ہے کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام و حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کی سیرت سے درس لیتے ہوئے، جنہوں نے اموی تکفیریوں کے وحشیانہ رفتار و اعمال کو حضرت سید الشھدا علیہ السلام کے لئے ایک غنیمت موقع بنا لیا اور اپنے زمانہ کے بعض افراد کے لئے بصیرت اور امویوں کے نفاق میں پوشیدہ چہروں کو برملا کر دیا اور اپنی حقانیت کو ثابت کر دیا۔ زیر نظر مقالہ میں موجودہ حالات کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک غنیمت موقع میں تبدیل کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔ انواع و اقسام کے وحشیانہ و غیر اسلامی کارنامے جو اس گروہ نے انجام دیئے ہیں، نے دنیا بھر کے شیعوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک بہترین موقع فراہم کر دیا ہے تا کہ وہ نرم حربوں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعہ ان کے نفاق آلود چہرہ کو دنیا کے سامنے پہچنوائیں اور اسی ضمن میں رضاکارانہ طور پر عوام کی ایک فوج تشکیل دی جائے جس میں شیعہ و اعتدال پسند سنی اہل سنت حتی کہ غیر مسلموں کے اتحاد سے ان کے خلاف علنی طور پر قیام کا جا سکے۔ دوسرے


1- مقالہ نگار حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل اور امام خمینی اعلی تعلیمی و تحقیقی ادارہ میں پالیٹیکل سائنس کے ریسرچ اسکالر ہیں ۔

ص:44

لفظوں میں نرم و سخت حیلوں اور حربوں کے استعمال سے اس بحران اور خطر سے دنیا کی عوام کو تکفیری عناصر کے شر سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ موجودہ حالات جس میں سعودی عرب نے خود کو تکفیری تنظیموں کے سب سے بڑے حامی کے طور پر روشناس کرایا ہے، مختصر کار کردگی کے ساتھ خطے اور دنیا کے ممالک سے اتحاد تشکیل دے کر آل سعود اور سعودی حکومت کے خلاف ایک جھانی اجماع ایجاد کیا جا سکتا ہے۔

کلیدی الفاظ: سلفی گری، وھابیت، تکفیر گرایی، اسلامی جمہوریہ ایران، عام ڈپلومیسی، نرم قدرت، امنیت-

ص:45

دوسری جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:46

ص:47

تکفیری گروہ کیوں اور کیسے وجود میں آئے اور گزشتہ دہائی میں ان کے قدرت پانے کے دلائل

مھدی فرمانیان (1)

اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب و تمدن کے وارد ہونے کے ساتھ ہی اور سن انیس سو پچیس عیسوی میں عثمانی سلطنت کے زوال و اختتام کے بعد اہل سنت و جماعت نے اسلامی خلافت کی تجدید نو و تشکیل نو کے لئے بیحد سعی و کوشش کی اور اسی وجہ سے اسلامی ریاستوں میں بہت سے گروہ و تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ھندوستان کی تحریک خلافت اور مصر کی اخوان المسلمین تنظیموں سے لے کر گزشتہ نصف صدی میں وجود میں آنے والے جہادی گروہ، ان سب کے سب کا مقصد اسلامی خلافت کا احیاء کرنا تھا، لیکن گیارہ ستمبر دو ہزار ایک عیسوی کے بعد سے اس خطہ میں امریکا کی موجودگی اور ان کے حملے نے نہ صرف یہ کہ علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ تکفیری گروہوں کے اضافے کا سبب بن گیا۔ یہ تنظیمیں نہ صرف یہ کہ اسلامی ممالک میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی ان کا وجود ظاہر ہو چکا ہے، افسوس کہ امریکا کے وجود نے چاہے وہ عمدا ہو یا سہوا، تکفیری افکار و فتنوں کے اضافہ کا سبب بنا اور جس ہدف کے لئے انہوں نے اس خطے پر لشکر کشی کی تھی، وہی ان کے خلاف گیا۔

کلیدی الفاظ: تکفیری تحریکیں، امریکا۔


1- مقالہ نگار، ادیان و مذاہب یونیورسٹی قم کے اسلامک کالج کے پروفیسر اور پرنسپل ہیں۔

ص:48

جہیمان العتیبی، اخوان سعودی و سلفی جہادی تحریکیں

یاسر قزوینی حائری (1)

یکم محرم 1400 ھجری قمری میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، ایک گروہ نے، جس کے رہبر کا نام جہیمان العتیبی تھا، حرم شریف مکہ پر امام مہدی ہونے کا دعوی کرتے ہوئے قبضۃ کر لیا، یہ قبضہ دو ہفتہ تک رہا، یہاں تک کہ آخر میں سعودی پولس نے خارجی فوجوں کی مدد اور ایک خونی معرکہ کے بعد اس گروہ کو شکست دے کر اس کے رہبر کو قتل کر دیا، اس مقالہ کا مقصد اس طرح کے اور اس جیسے دوسرے واقعات جو اس سے پہلے یا بعد میں وجود میں آئے ہیں، ان کی تحقیق کرنا ہے۔ یہ اس حالت میں ہے کہ مختلف دلائل سے جن میں امام مہدی ہونے کا دعوی اور آل سعود حاکم کا منشاء بھی شامل ہے و ۔ ۔ ۔ اس طرح کا واقعہ ایک عجیب و غریب داستان کی طرح لیا جاتا ہے جس کا کسی چیز سے کوئی ربط نہیں ہوتا، اسی طرح سے جہیمان العتیبی گروہ کا تاریخی و نظریاتی پس منظر، اخوان سعودی و اہل حدیث کے ساتھ ایک طرف سے اور سلفی جہادی و ان کا مھم رہبر یعنی ابو محمد المقدسی دوسری طرف، یہ تحریک افغانستان کے جہاد اور کویت کی اسلام گرایی سے تعلق رکھتی ہے، خاص طور پر دکتر عبد اللہ النفیسی کے سلسلہ میں تحقیق دی جائے گی۔ مختلف شواہد کی موجودگی کے مد نظر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جہیمان گروہ ایک اچانک رو نما ہونے والی تحریک نہیں ہے بلکہ اسے سلفی جہادیوں کے مراحل تکوین کا ایک مرحلہ شمار کیا جا سکتا ہے۔

کلیدی الفاظ: جہیمان العتیبی، السلفیۃ الجہادیۃ، مہدویت، حرم مکی، تکفیر۔


1- مقالہ نگار تہران یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کی علمی کمیٹی کے رکن ہیں۔

ص:49

افغانستان و شبہ قارہ ہند میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کے اسباب و علل

محمد طاہر رفیعی (1)

اسلامی ممالک گزشتہ دو صدیوں، اور خاص طور پر گزشتہ چند دہائیوں میں، مختلف افکار و نظریات کے متعدد گروہوں و تنظیموں کی تاسیس و تشکیل و رشد و ارتقاء کے گواہ رہے ہیں، ان سب میں افراطی و تکفیری بد ترین و خطرناک ترین گروہ ہے جو اس عرصہ میں وجود میں آیا ہے۔یہ اس حال میں ہے کہ کسی انسان کی طرف بغیر کسی سبب کے کفر کی نسبت دینا اور انہیں قتل کرنا، نہ دینی مبانی و اصول سے سازگاری رکھتا ہے اور نہ ہی دینی رہنماء و بزرگ مسلم علماء اس کی تائید کرتے ہیں، لہذا اس طرح کے گروہوں اور تنظیموں کی تشکیل و تاسیس اور اسلامی ریاستوں میں ان کی وسعت کے اسباب و علل کے بارے میں تحقیق کرنا بیحد اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں افغانستان و شبہ قارہ ھندوستان کے مھم ترین افراطی و تکفیری گروہوں اور تنظیموں کے سلسلے میں اجمالی اطلاعات حاصل کرنا، ان کی تشکیل و رشد کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے، خاص طور پر آج جبکہ ہم مذہبی اختلافات کی وسعت اور مدارس دینی کے اضافے اور چاروں طرف سے خارجی حملوں کا مشاہد کر رہے ہیں، بے یہ ساری چیزیں تکفیری عناصر و گروہ کی تشکیل اور رشد میں بے تاثیر نہیں ہو سکتی ہیں۔

کلیدی الفاظ: تکفیر، تکفیری، افراطی گری، تکفیری تحریکیں، شبہ قارہ، افغانستان۔


1- مقالہ نگار المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی کے سطح 4 کے فارغ التحصیل و امام خمینی اعلی تعلیمی و تحقیقی ادارہ کے اسلامک اسٹڈیز کے پوسٹ گریجوئیٹ ہیں ۔

ص:50

تیونس میں سلفیت و وہابیت اور اس کا مستقبل

عنایت اللہ یزدانی (1)

مصطفی قاسمی (2)

تیونس میں موجود تکفیری تحریکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1۔ سلفی علمی، 2۔ سلفی اصلاحی، 3۔ سلفی جہادی۔ سلفی گروہوں میں سے ایک گروہ اسلامی شرع و احکام دینی کی بنیاد پر قوانین کی تدوین کا خواہشمند ہے، جہادی گروہ، مالکی مذہب کو لے کر شدید تعصب کا شکار ہے اور وہابی رجحان بھی اس گروہ میں شدت سے پایا جاتا ہے۔ النھضۃ، تیونس کا مھم ترین اسلام گرا گروہ ہے جس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی منزلت کو بر قرار رکھے اور اس کی تقویت کے لئے اپنے سیکولر رقباء کے مقابلہ میں سلفیوں، خاص طور پر سلفی علمی کو اپنی طرف جذب کرے۔ البتہ دوسری طرف بین الاقوامی فشار کے سبب یہ گروہ بعض سلفیوں کے مقابلہ میں، خاص طور پر سلفی جہادی، سخت موقف اختیار کرتا ہے۔ نکتہ مھم یہ کہ تیونس کا معاشرہ بھی اپنے سہل انگاری والے رویہ کے سبب ہمیشہ کی طرح سلفی گروہوں کے ساتھ سخت ٹکراو رکھتا ہے۔ تیونس کے معاشرہ کی فضا و ماحول کے پیش نظر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہادی تحریکیں اور تیونس کے قدامت پسند سلفیوں کے سبب، جو وہابیت کے مرتبہ کی اسلامی خلافت کی خواہش رکھتے ہیں، اس ملک میں کوئی عمدہ و مھم اثر ظاہر نہیں ہوگا، بلکہ اس میں سے سب ایک اخلال ایجاد کرنے والے گروہ کی شکل میں ظاہر ہوں گے، البتہ معتدل سلفی گروہ دوسرے تمام معتدل اسلامی گروہوں کی مدد سے، اپنے تند رو رقباء کے مقابلہ میں زیادہ اثر دار موجودگی درج کرائے گا۔

کلیدی الفاظ: سلفی گری، سلفی تحریکیں، سلفی گروہ، النہضۃ، تونس۔


1- مقالہ نگار اصفہان یونیورسٹی کے شعبہ پالیٹیکل سائنس کے بین الاقوامی روابط عامہ کے اسسٹینٹ ہیں۔
2- مقالہ نگار اصفہان یونیورسٹی کے شعبہ پالیٹیکل سائنس میں بین الاقوامی روابط عامہ کے موضوع کے ریسرچ اسکالر ہیں۔

ص:51

شیعوں کے کفر اور ان کے خون کے حلال ہونے کے بارے میں سپاہ صحابہ کے نظریات کی تحقیق و تنقید

علی ملا موسی میبدی (1)

تکفیری گروہوں کی ایک تنظیم جس کی تاسیس پاکستان میں ہوئی، جس کا نام انجمن سپاہ صحابہ تھا، جس کا مقصد پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے شیعوں کے بڑھتے ہوئے نفوذ، اثر و رسوخ کو کم کرنا تھا۔ اس تنظیم کے رہنما کتاب، مجلات اور اپنے طرفداروں کے درمیان تقریروں کے ذریعہ شیعوں کے کفر کا ذکر کرتے تھے اور پاکستان میں شیعہ و اہل سنت کے درمیان مذھبی جنگ و فتنہ کی آگ کو ہوا دیتے تھے۔ شیعوں کو کافر کہنے اور ان کے قتل و غارت کے سلسلے میں سپاہ صحابہ گروہ کی سب سے عمدہ دلیل، شیعوں پر صحابہ کے کفر کا الزام لگانا، شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دینا اور خاتمیت کے مسئلے کی نسبت دینا تھا۔ ان کے گمان کے مطابق کہ اس جہت سے کہ شیعہ صحابہ کو کافر کہتے ہیں، قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اور اپنے اماموں کے بارے میں غلو کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ختم نبوت کے عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اور اس طرح کے عقاید کا کفر ہونا علماء اسلام کے نزدیک مسلم ہے۔ لہذاشیعہ اس طرح کے عقاید رکھنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ حالانکہ یہ جو ساری چیزیں بیان ہوئی ہیں شیعوں کے عقاید سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان تمام امور میں سے کوئی بھی چیز، جن سے سپاہ صحابہ کو شیعوں سے اختلاف ہے، ضروریات دین میں سے نہیں ہے کہ جن کا انکار کفر کی وجہ بن سکتا ہے۔

کلیدی الفاظ: سپاہ صحابہ، تکفیر شیعیان، تکفیر صحابہ، خاتمیت، تحریف قرآن۔


1- مقالہ نگار مذاھب اسلامی اعلی تعلیمی ادارہ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

ص:52

وھابیوں کی طرف سے مسلمانوں کی تکفیر کے مسئلہ کی تحقیق و تنقید

مھدی پیشوایی

وھابیت کی پیدائش کے ساتھ ہی کفر و ایمان و توحید و شرک، ان کے اصلی و مرکزی اعتقادات میں سے تھے، وھاہی و سلفی، توحید و شرک کی ایک خاص طرز کے ساتھ اور اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابق تعریف کرتے ہیں اور اس بات کو ثابت کئے بغیر اس کی تفسیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اعتبارات و جہات سے فرقہ خوارج سے شباہت رکھتے ہیں، ان دونوں گروہ میں شباہت کی مھم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ہی فقط خود کو مسلمان سمجھتے ہیں اور دوسرے تمام مسلمانوں کی طرف کفر کی نسبت دیتے ہیں۔ اسی طرح سء وہ ایمان کے دائرہ کو نہایت تنگ اور کفر کے دائرہ کو بیحد وسیع کرنے پیش کرتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں وہ معیار و حد بندی جو وھابی و سلفی کفر و ایمان کے بارے میں کرتے ہیں، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور بزرگ مسلم علماء کے اقوال سے استناد کرتے ہوئے ان پر تنقید کی گئی ہے، ان کی جنایتوں اور قتل و غارت کے کچھ نمونوں کو پیش کیا گیا ہے جن کی بنیاد توحید و شرک کی غلط تعریف کا نتیجہ ہے۔

کلیدی الفاظ: شرک، ایمان، کفر، وہابیت، تکفیر۔

ص:53

سلفی و وہابی روش شناسی کے اصول

ابوالفضل غفاری (1)

معاصر سلفی گروہ کی روش کی خصوصیات نے، اس طرز تفکر کو ایک مخصوص معرفتی و عملی حالت مین قرار دیا ہے جو اہل سنت و جماعت کے افکار و نظریات سے مختلف ہے، اور جس نے نظر و عمل کی دنیا میں متفاوت نتیجوں کو بخشا ہے۔ سلفیوں و وہابیوں کی مھم ترین تعلیمات کے پیش نظر یعنی بغیر کسی واسطہ کے قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا خود اپنے آپ میں بنیاد پرستی و ریڈیکالیزم کو اسلامی ممالک میں اندرونی و بیرونی طور پر زندہ کر دینا ہے۔ سلفیوں کی روش کی پہچان و شناخت، خاص طور پرجہادی سلفی، جنہوں نے سلف صالح اور افراطی ظاہر گرائی پر تکیہ کرتے ہوئے عقل سے ناتہ توڑ لیا، جس کے نتیجہ میں نہایت اہم سیاسی و سماجی و ثقافتی تبدیلیاں وجود میں آئیں، جن میں سب سے مھم نا خواستہ شدت و تعصب جہاد کے نام پراس گروہ کی طرف سے تولید ہو کر معرض وجود میں آیا۔ اس مقالہ میں سلفیوں کی روش شناختی کی تاریخ، سلفی گری کے اصول اور معاصر سلفی تحریکوں کی ماہیت اور اس کے نتائج پر بحث کی گئی ہے، جس کے حساب سے، سلفیوں کی روش شناسی کے اصولوں کے مطابق خود یہ اصول نا خواستہ دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں جو اصل عملی جہاد کے عنوان کے تحت آتے ہیں۔

کلیدی الفاظ: روش شناسی، سلفیہ، بنیاد پرستی و ریڈیکالیزم، دہشت، جہاد ۔


1- مقالہ نگار باقر العلوم یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے ریسرچ اسکالر ہیں ۔

ص:54

تکفیری وہابیوں کی خوارج سے شباہت اور ان کا حکم

محمد جواد حاجی قاسمی

زیر نظر مقالہ میں، ابتداء میں اہل سنت و الجماعت علماء کے بیانات کو لفظ خوارج کے وہابی و سلفی تکفیری گروہوں پر تطبیق و انطباق کے سلسلہ میں بحث و گفتگو و تحقیق کی گئی ہے، اس کے بعد وہابیت اور خوارج میں پائے جانے والے ظاہری مشترکات اور مسلمانوں کے قتل و خون ریزی کے بارے میں عقیدہ رکھنے کی سیرت، اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ اسلامی ممالک گناہوں کے سبب سے شرک آلود ملکوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، نئے حدود و تعزیرات کی بنیاد ڈالنا اور ان کے علاوہ دوسری تمام شباہتوں کو بیان کیا گیا ہے اور آخر میں علماء اہل سنت کا خوارج کے حکم میں سلسلے میں اختلاف، ان کی روایات اور مختلف مبانی و اصول کے مطابق مثلا تکفیر، تضلیل و قتل کے حکم کے بارے میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ: وہابیت، تکفیر، خوارج، بلاد کفر، گناہ کبیرہ، شرک، توحید ۔

ص:55

تقلیدی افکار و تکامل کے سلسلہ میں مذاہب اسلامی اور سلفی تکفیری نظریہ

و تکفیر مذاہب کے بارے میں سلفی نظریہ

اکبر روستایی

منجملہ مطالب میں سے ایک جس کی ضرورت عقلی اعتبار سے ثابت ہو چکی ہے وہ ہر علم کے ماہر کی طرف رجوع کرنا ہے اور عقلی اعتبار سے اس مسئلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام الناس مختلف امور کی انجام دہی کے لئے اس کے ماہر کے پاس رجوع کرتے ہیں۔ لہذا دینی مسائل بھی اس کلیہ اور قاعدہ سے مستثنی نہیں ہیں اور احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئےاس میدان کے ماہر یا مجتہد جامع الشرایط کے پاس رجوع کرنا ایک طبیعی امر ہے اور اس مسئلہ میں شیعہ و سنی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے حتی کہ علماء اہل سنت نے اس بارے میں اجماع ہونے کا دعوی کیا ہے، لیکن اس درمیان میں وہابیوں کو تمام مسلمانوں سے اختلاف ہے، البتہ وہابیوں کی باتیں اس سلسلہ میں بہت زیادہ مضطرب متن کا شکار ہیں، زیر نظر مقالہ میں ابتدا میں تشکیل مذاہب اسلامی اور تقلید کے بارے میں ان کے نظریات و تکامل کے بارے میں سلفی تکفیریوں کے نظریات کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی بیان شدہ باتوں پر وارد ہونے والے اعتراضات کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد تقلید کے سلسلہ میں علماء اہل سنت کے نظریات کو بیان کیا گیا ہے پھر سلفی تکفیری افکار پر ان علماء کے نظریات کی روشنی میں تنقید کی گئی ہے۔

کلیدی کلمات: تقلید، احکام شرعی، مجتہد، سلفیان تکفیری۔

ص:56

اسلام، صلح و دوستی، رافت و رحمت کا دین

علی جان محمدی (قرہ باغی) (1)

اسلام، صلح و صفا کا دین اور رحمت و مہربانی کا منادی ہے اور قرآن کریم نے اسلام کے اس زندہ جاوید منشور کو صلح و اصلاح ایجاد کرنے والے انسان کی سماجی زندگی کی ضرورتوں میں سے مانا ہے اور ہمیشہ اس بات کی تاکید ہے۔ قرآن مجید اور اہل بیت علیهم السلام کی روایات کے مطابق مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور انہیں چاہیے کہ قرآن و احادیث کے سایہ میں وہ اپنے طایفہ و فرقہ کے اختلافات سے پرہیز کریں اور صلح و دوستی کی راہ پر گامزن ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی معاشرہ میں اقوام و مذاہب کی کثرت اور ان کے درمیان اختلاف کا پایا جانا ایک قطعی و فطری امر ہے۔ مگر یہ چیز سبب نہیں بننا چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف ہو، یہی سبب ہے کہ قرآن مجید نے اسلامی فرقوں کے درمیان صلح کے متحقق کرنے کے راستے بتائے ہیں اور اس سے بڑھ کر ملت اسلامیہ کے درمیان صلح کی راہوں کی بیان کیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں ابتداء میں ان آیات کریمہ کا ذکر کیا گیا ہے جن میں صلح کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں مفسرین کے نظریات کی وضاحت کے ساتھ فریقین کی روایات کا جائزہ لیا گیا ہے اور دوسرے بخش میں اسلامی مذاہب کے درمیان اور عالمی سطح پر ادیان کے درمیان ایجاد صلح کی راہوں کے بارے میں قرآن کریم کے نقطہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔

صلح و اصلاح کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ روشن و واضح ہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک مکروہ نظریہ، تکفیری نظریہ ہے جو ساتویں صدی ھجری قمری میں ابن تیمیہ کے ذریعہ سے منظر عام پر آیا ہے، اس نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں مسلمانوں کے تمام عقاید پر سوال اٹھائے اور مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا اور ان کے کافر و مرتد و زندیق ہونے کا فتوی دے دیا۔ اس


1- مقالہ نگار المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی کے سطح چار کے فارغ التحصیل، حضرت ولی عصر (ع) تحقیقاتی سینٹر، مدرسہ عالی فقہ و معارف اسلامی اور حج و زیارت کمیٹی قم میں محقق ہیں۔

ص:57

کے معاصر علماء نے اس کی اس فتوی کی مزمت کی، محمد بن عبد الوہاب نے بھی بارہویں صدی ھجری قمری میں آل سعود کی مدد سے ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو احیاء و زندہ کیا اور دنیا کے سامنے پیش کر دیا اور اس کی بنیاد پر ایک بار پھر مسلمانوں پر کفر کا فتوی لگایا گیا، جو آج یہ فکر بعض گروہوں میں پائی جاتی ہے اور کبھی اس فکر کے حامیوں کے ذریعہ مختلف وحشی و درندہ صفت گروہوں (وہابیت، القاعدہ، طالبان، داعش) کا ظہور ہوتا ہے اور مسلمانوں کو صرف ان کے عقاید سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے قتل و غارت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ابن تیمیہ کے زمانے سے لیکر آج تک اپنے فتووں میں اسلامی مذاہب کے کفر کا حکم دیتے ہیں، خاص طور پر شیعوں کے خلاف، اور ہمیشہ اسلامی دنیا میں فتنہ و آشوب کا باعث بنتے ہیں، ہم نے کفر کے ان فتاوی کے کچھ نمونوں کا تذکرہ اس مقالہ کے آخر میں کیا ہے، جس سے ان فتووں کا قرآن و احادیث کی تعلیمات صلح کے مخالف ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

کلیدی کلمات: صلح، دوستی، رحمت، رافت، اہمیت صلح، صلح کی راہیں۔

ص:58

تکفیری جماعت اور تشدد پسند سیاست

منصور میر احمدی (1)

علی اکبر ولد بیگی

دنیائے اسلام میں واقع ہونے والی جدید اجتماعی و سیاسی تبدیلیوں کے دامن میں تکفیری منصوبے کا ظاہر ہونا ایک خاص قسم کی سیاست کی نشاندہی کرتا ہے، جس کو دور حاضر کی تحریری دنیا میں تشدد پسند سیاست کا نام دیا گیا ہے۔ تشدد پسند سیاست، سیاست کی ایک ایسی قسم ہے جس کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے تمام تشدد آمیز ہتھکنڈوں کو اختیار کرنا جائز سمجھتی ہے جن کے ذریعے وہ اپنی مطلوبہ آرزوؤں اور خواہشات تک پہنچ سکے۔ یہ تکفیری منصوبہ ایک ایسے نظریے کے تحت کام کر رہا ہے جو موجودہ دور میں واقع ہونے والے تمام امور کو نا مناسب جانتا ہے، اور اپنی تشدد پسندی کو ہر مرحلے پر جائز قرار دیتے ہوئے اپنے مخالفین کے تمام اقدامات کے خلاف اور اپنی تمام خواہشات کی دستیابی کے لئے جد و جہد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، دنیاوی سیاست پر حاکم تمام قواعد و قانون کی جانب وہ ایک افراطی نقطہ نظر سے نگاہ کرتے ہیں۔ ایسے نظریے کے نتیجہ میں صرف ایک باطل اور تشدد پسند فکر سیاسی و اجتماعی حلقے میں ظاہر ہو گی جو ان کے سیاسی نظریے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے ۔یہ مقالہ تکفیری منصوبے کے تمام سیاسی و اجتماعی طرفداروں کے نظریات کا تجزیہ کرے گا اور ان کے خاص سیاسی نقطہ نظر کو واضح کرے گا۔ مصنف کی نظر میں اس قسم کی سیاست ایک خاص معنوی نظام کے سبب وجود میں آئی ہے جس کو اس مقالے میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ضمن میں ان کے سیاسی افکار پر اس کے اثرات کا بھی جائزہ کیا جائے گا۔

کلیدی کلمات: تکفیری منصوبہ بندی، تشدد پسند سیاست، معنوی نظام، افراط گری، حلقہ تشدد۔


1- مقالہ نگار شھید بھشتی یونیورسٹی میں شعبہ پالیٹیکل سائنس کے اسسٹینٹ پروفیسر ہیں۔

ص:59

آئیڈیل حکومت کے بارے میں سلفی تکفیری گروہ کا نظریہ

محمد اسماعیل نباتیان (1)

سلفی و وہابی تحریکیں اگر چہ اھل سنت و جماعت کے طرز تفکر پر پروان چڑھی و رشد پائی ہیں مگر خلافت راشدہ کے احیاء کے ارمان کے پیش نظر اور موجودہ صورت سے نکلنے کے نظری و عملی راستوں پر تمرکز اور اسے سلف صالح کے زمانے کے اعتقادی و سیاسی و سماجی اعتبارات سے تبدیل کرنے کے خیال میں اس نے اھل سنت سے فاصلہ بنا لیا ہے تا کہ ان کے نظریات حکومت، اہل سنت کے نظریہ سے ممتاز ہو سکے۔ سلفی تکفیری تحریکوں کی نظر میں آئیڈیل حکومت کا نظریہ، ماڈل، طریقہ عمل کی بنیاد شدید طور پر ماضی کی حکومتوں اور خلافت راشدہ پر استوار ہے، یہاں تک کہ سیاسی جہاد اور انتخاب اہل حل و عقد کے حصول کے سلسلے میں بھی اسی شیوہ و روش سے کام لیا گیا ہے۔ وہ معاصر اسلامی تفکرات کے آئیڈیل نظام حکومت کے بر خلاف، مبانی و اصول کے سلسلے میں جدید بشری تجربات کی بیحد سختی سے مخالفت کرتے ہے اور انہوں نے متعصبانہ و متحجرانہ طرز فکر اور تعصب سے مملو ظاہر گرایانہ نقطہ نظر کی بنیاد پر آیات و روایات کی اپنی مرضی کے مطابق تفسیر کرکے ایک غیر جوابدہ و استبدادی ماڈل اور شریعت کے قوانین کو بنیاد بنا کر ڈالی ہے، جس کی انہوں نے خود اپنی رای کے مطابق تفسیر و تعریف کی ہے اور عوام الناس کو اس حکومت میں صرف ذمہ داریاں دی گئیں ہیں اور وہ جدید نظریات و طرز تکفر کو شدت سے رد کرتے ہیں، خاص طور پر اس حکومت میں عوام کے کردار کو رد کرتے ہیں۔

کلیدی کلمات: سلفی، تکفیری، حکومت، خلافت، جہاد ۔


1- مقالہ نگار حوزہ علیمیہ قم کے فارغ التحصیل و انقلاب اسلامی کے موضوع پر پی ایچ، ڈی ہیں.

ص:60

داعش اور ان کا علنی تشدد، دین کی غیر عاقلانہ فہم اور جدید ٹیکنالوجی سے خلط کرنا

محمود شفیعی

داعش، دولتِ اسلامی عراق و شام کا اسمِ مخفف ہے۔ یہ گروہ سوریہ اور عراق کے ایک حصے کی تباہی کے بعد عراقی القاعدہ کی ایک شدت پسند جماعت کے ذریعہ ابوبکر بغدادی کی قیادت میں ظاہر ہوا اور اب اس کا نام ’’دولتِ اسلامی‘‘ کے نام سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس گروہ کی طرح طرح کی غیر منطقی بربریت، وحشی گری، اخلاقی اصول کی خلاف ورزیاں، سب کی سب ایک مسلسل اور وسیع شکل میں عوامی منتظمین اور بے گناہ شہریوں کے خلاف منظر عام پر آ رہی ہیں، جس نے عراق اور سوریہ بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے مرد و عورت، کمسن و بزرگ، سب کو دہشت و درندگی کا شکار بنا دیا ہے۔ اس کے با وجود، ہماری اس تحقیق کا اصل مقصد ان وجوہات کو واضح کرنا ہے جن کی بناء پر یہ گروہ، جو بظاہر دیانت داری اور ایمان کا دعوے دار ہے، ان تمام وحشی امور کو اپنے ہم وطنوں، مومنوں، اور شیعیان عراق و شام کے خلاف کفر و الحاد کی تہمت لگا کر انجام دیتا ہے جو کہ دینی، عقلی، انسانی اور وجدانی اعتبار سے بے اساس و بے دلیل ہیں۔ اس تحقیق میں جس فرضیہ کو مد نظر رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ داعش نے جدید تکنیکی ترقیوں کی طرف راغب ہو کر، اور اپنے ناپاک رابطوں کو ناقص و نا مکمل دینی عقائد کے مجموعے کے ساتھ متحد کر کے، عقلی اور انسانی معاشرے کی تجرباتی دقتوں کے ہمراہ، ایک ایسا میدان فراہم کیا ہے جس میں جدید تکنیکی ترقیوں کے سہارے داعش کی جانب سے شیعیت اور اہل سنت ہی نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ اس فرضیہ کو ثابت کرنے کی غرض سے ہم نے چند موضوعات پر بحث کی ہے۔ سب سے پہلے ان اہم دینی تعلیمات اور تعبیرات کا تجزیہ کیا گیا ہے جو القاعدہ کے قدیم و جدید سربراہوں کی وحشی گری میں اثر انداز ثابت ہوئی ہیں۔ اس موضوع کے ضمن میں ہم نے 'کفر و ایمان' اور 'جہاد' جیسی دو اساسی بحثوں کا ماضی سے عصر حاضر تک مکمل تجزیہ کیا ہے۔ اسی طرح، القاعدہ اور داعش کے ان رجحانات کی طرف توجہ دی ہے جو ان تنظیموں نے سخت افزار "ہارڈ ویرز" اور نرم افزار "سافٹ ویرز" کی

ص:61

مجازی انٹرنیٹ کی دنیا کے لئےظاہر کیے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں، دینی تعلیمات اور تکنیکی رجحانات کے رد عمل پر بحث کی گئی ہے جو ان کی دنیاوی زندگی میں اثر انداز نظر آئے۔ نیز داعش کی دنیاوی زندگی کی وہ خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں جن کے نتیجہ میں انہوں نے شیعیان عراق اور سوریہ کے خلاف غیر انسانی اقدامات انجام دیے۔ اس جگہ پر ہم نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ تمام تشدد جو ان کی جانب سے کیے گئے ہیں وہ سب کے سب ان کی غیر عاقلانہ دنیاوی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے قابل فہم ہیں۔ اختتام میں ہم نے بحث کو سمیٹتے ہوئے اس کے نتائج پیش کیے ہیں اور کچھ ثقافتی نصیحتیں ذکر کی ہیں جن پر عمل کر کے ہم ان کی افراط گری اور دینی تشدد پسندی کو جڑ سے ختم کر سکتے ہیں۔

کلیدی کلمات: داعش، کفر و ایمان، جہاد، تکنیکی ترقی، دنیاوی زندگی، تشدد۔

ص:62

تکفیری تحریکوں کے رشد و ارتقاء میں بین الاقوامی طاقتوں کا کردار اور اسلامی دنیا پر اس کے نتائج

مختار شیخ حسینی

محمد جواد خلیلی

سلفی تکفیری گروہ کی تشکیل و رشد میں، جو آج اسلامی دنیا کی مھم ترین مشکل میں تبدیل ہو چکا ہے، مختلف اسباب و عوامل کار فرما رہے ہیں۔ اس تحریک کے داخلی اسباب و افکار پر تاکید سے اس تکفیری گروہ کی بہت ساری حقیقتوں کی نشان دہی ہو جاتی ہے۔ البتہ اس تحریک کی جامع تحلیل اس کے تاریخی و موجودہ پس منظر میں اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ جب متغیر استعمار اور بین الاقوامی طاقتوں کو بھی اس تحریک و گروہ کی تقویت و توسیع میں شامل کیا جائے۔ تاریخی اعتبار سے تکفیری سلفی نظریات کا سلسلہ محمد بن عبد الوہاب کی رہبری میں، آل سعود کے سیاسی اقتدار کے لئے بریتانیا کی ہدایت و حمایت کے ساتھ اور خلافت عثمانی سے مقابلہ کے لئے وجود میں آیا۔ اور اس تحریک نے شبہ جزیرہ سعودی عرب میں ہمیشہ بریتانیا کے منافع کے پیش نظر عمل کیا ہے۔ افغانستان میں سرد جنگ کے دوران بھی متحدہ روس سے مقابلہ کے لئے امیریکا کی القاعدہ کو حمایت ایسی ہی تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی حلقہ نے اس تحریک کی ظرفیت سے اپنے استعماری منافع کے لئے فائدہ اٹھایا۔ موجودہ دور میں بھی یہ بین الاقوامی بڑی طاقتیں ان تکفیری گروہوں کے بعض اسلامی ممالک جیسے عراق و شام میں رشد و ارتقاء میں حمایت کر رہی ہیں۔

تکفیری تفکر میں رشد و ارتقاء نے استعماری طاقتوں کے لئے ان کے منافع کے لحاظ سے ایک بہترین موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ ان کے رشد کے سبب اسلامی ممالک کے بعض خطوں میں ان کی حمایت کر رہے ہیں اور بعض میں علاقوں میں ان سے مقابلہ و جنگ کر رہے ہیں۔ اس انتخابی رویہ کے ساتھ، استعماری طاقتوں بعض ادوار میں ان تکفیری تحریکوں کی حمایت کی ہے اور بعض دوسرے ادوار میں ان کی دہشت گردانہ حملوں اور کاروائیوں کا حوالہ دے کر، لشکر کشی کا بہانہ فراہم کر لیا اور دہشت گردی سے مقابلہ کے نام پر ان اسلامی ممالک پر حملہ کا موقع فراہم کر لیا۔

ص:63

زیر نظر مقالہ میں بڑی طاقتوں کے تکفیری تحریکوں کے رشد و توسیع میں تاریخی کردار کا جائزہ کیا گیا ہے اور ان دو متغیر کے ایک دوسرے سے رابطے اور جہان اسلام پر ان کی تاثیر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

کلیدی کلمات: سلفی فری، استعمار گران، اسلام، القاعدہ، وہابیت، امیریکا۔

ص:64

مشرق وسطی میں افراطی اسلام گرائی سے ٹکراو میں فتح و شکست کی فکر سے باہر کی اسٹریٹیجیز

حامد اسفندیاری/ حسین پور احمدی

افراطی تحریکیں جنہیں اسلامی سے موسوم کیا جاتا ہے، ان کے رشد و ترقی کے اسباب میں سے ایک وہ مواقع ہیں جو ظاہری طور پر ان سے بھی پہلے ان بازی گر صاحبان فکر کو فراہم کئے گئے ہیں جیسے مشرق وسطی میں حصول قدرت کے مواقع، سعودی عرب و قطر جو سلفی و وہابی تحریکوں کے اصلی حامی و مددگار ہیں، نے ان کی حمایت کے ذریعہ اس فراق میں ہیں کہ وہ اس خطہ میں نظام قدرت و اقتدار کو شیعوں سے مقابلہ میں سنیوں کی طرف موڑ سکیں۔ اس عرصہ میں سعودی حکومت نے خطہ میں موجود اپنے تمام اتحادی ممالک کے ساتھ سعی کی ہے کہ مالی توانائیوں کے خرچ و مغربی ممالک اور امیریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجی روابط بر قرار کرکے تشیع سے مقابلہ کے ہدف کو میڈل ایسٹ میں اپنی اصلی سیاست و کارگردگی کو خطہ و بین الاقوامی طور پر ظاہر کرے۔ خطہ کی موثر بازی گر طاقتوں کے ساتھ اس طرز عمل کے ساتھ، افراط گرایی سے مقابلہ کی راہ میں خطہ کی طاقتوں کے ساتھ ہم فکری کی اسٹریٹیجی، کبھی بھی عملی نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ بنیاد پرست تحریکوں کی حمایت، اس بازی گر گروہ کو فتح کی سند دے کر مقابلہ کے لئے بھیجنا در اصل رقیب و مقابل گروہ کی کامیابی میں شمار کیا جائے گا۔ دینی افراط گرایی سے مقابلہ کا موثر راہ حل، انہیں ان کی حمایت سے خارج کر دینا ہوگا، خطے میں موجود صاحبان اقتدار کو فتح و شکست کے مواقع کی فکر سے باہر نکلنا ایک موثر طریقہ عمل کے عنوان سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ دینی افراط گرایی کو وضاحت، و بہتر شکل و نظم کے ساتھ جس میں بازی گر طاقتوں کی ذمہ داریوں پر تاکید کی گئی ہو، ان پر فشار ڈال کر خارج کیا جائے۔ اس تحقیق میں روش کتب خانہ سے استفادہ کے ذریعہ اور اسی طرح انٹر نیٹ کی مدد سے سعی کی گئی ہے کہ مشرق وسطی میں افراطی اسلام گرایی سے ٹکراو کے مقابلہ میں فتح و شکست کے فکر سے باہر نکل کر خطہ میں موجود طاقتوں کے سلسلہ میں ہار جیت سے خارج ہونے کی شرطوں اور اسٹریٹیجی کا تعارف کرایا جائے۔

کلیدی کلمات: افراط گرایی، مڈل ایسٹ، اسلام، فتح شکست

ص:65

تیسری جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:66

ص:67

دوسروں کی تکفیر کا فتنہ

مولابخش مبارکی (1)

عالم اسلام کی سب سے دردناک ایک مصیبت اور المیہ فتنۂ تکفیر ہے۔ طولانی مدت سے بعض جماعتیں اسلام کے نام پر بہت زیادہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں اور غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خوف اور وحشت کی لہر ایجاد کی ہے۔ تکفیری موجود کا چند مراحل میں جائزہ لیا جانا چاہیے:

1۔ تکفیری سلسلہ تشکیل پانے کا زمانہ۔

2۔ عصر حاضر میں تکفیری سلسلے اور جماعتیں۔

3۔ قرآن میں اسلام و کفر کا معیار۔

4۔ قرآن میں کفر کے اسباب۔

5۔ علمائے اسلام کی نظر میں اہل قبلہ کافر ٹہرانے کا حرام ہونا!۔

اہم کلمات: فتنهٔ تکفیر، اسلام و کفر، علمائے اسلام، سماع موتی۔


1- .(دینی مدرسہ دارالعلوم شعبہ آهوران چاتف کے مدیر)۔.

ص:68

علمائے اسلام کی نظر میں اہل قبلہ کو کافر ٹہرانےکا حرام ہونا!

مولوی نذیر احمد سلامی

اس مضمون کا اصلی سوال یہ ہے کہ: کیا داعش وغیرہ جیسی تکفیری جماعتوں کے پاس کوئی شرعی جواز ہے اور کیا کتاب و سنت و علمائے اسلام کی نظر میں ان کے اسلامی خلافت کی تشکیل کے دعوی کا دفاع کیا جاسکتا ہے؟!۔

داعش، جبہہ النصرہ اور دیگر ساری تکفیری جماعتیں جو اسلامی خلافت کا بہانہ بنا کر بے گناہ عام لوگوں کے خون بہانے، شہر، گھر، مساجد اور عبادتگاہوں کے مسماری سے اپنے ہاتھ آلودہ کررہے ہیں، سادہ لوح لوگوں کے دینی اور مذہبی احساسات کا غلط استعمال کرتے ہیں، نیز اپنے مغربی رہبران و حکماء کی اچھی خدمت کر کے نہایت ہی بری و ذلت آور انسانی، اخلاقی اور اسلامی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ کتاب و سنت اور مسلم علماء و مفکرین کی نگاہ میں ان جماعتوں کے اقدامات اور نظریات کے صحیح اور باطل ہونے کا جائز ہ لیا جائے!۔

اس مضمون میں آیات، روایات اور مسلم فقہاء، محدثین اور علماء کے فتاوی کی تشریح سے یہ امر ثابت ہوا ہے کہ اہل قبلہ کو کافر ٹہرانا ایک ناپسند عمل ہے اور شرعی اصول و تعلیمات کے خلاف کام ہے۔ اسلامی جہاد کے بہانے سے مسلمین کا قتل کرنا، زمین، شہر، عبادت گاہیں اور مساجد کی مسماری ایک شیطانی کام ہے جس کا سارا فائدہ قابض حکومت اسرائیل اور نقصان اسلامی امت کو ہوتا ہے۔

تکفیریوں کا نظیریہ باطل اور غیر شرعی ہونے کیلئے کتاب و سنت اور بزرگ مفتیوں کے فتاوی سے حاصل شدہ معتبر اسناد پیش کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ داعش اور دیگر تکفیری گروہ ، ایک امریکی، اسرائیلی اور عربی رابطہ و پیوند ہے، پہلے سے معین شدہ اہداف یعنی علاقہ اور اسلامی ممالک میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ، اور ایران اور اخوان المسلمین کا اثر و رسوخ روکنا ہے!۔

اہم کلمات: تکفیر،داعش، تکفیر کا فتوی، کتاب و سنت، فقهاء اور محدثین۔

ص:69

تکفیری سلسلوں اور جماعتوں کے اعتقادی اصول و دلائل!

مولوی عبدالصمد کریم زائی

قرآن کریم اور رسول اکرم(ص) کی روایات کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مسلمین کو کافر ٹہرانا قرآن کریم کی آیات، نبوی روایات، پیغمبر اکرم(ص) اور اصحاب کی سیرت اور علمائے اسلام کے نظریات و فتاوی کے خلاف ہے۔ اور اس کی کوئی بھی عقلی اور شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ نیز آسانی سے مسلمانوں کو نہ کافر ٹہرایا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا جانا چاہیے!۔ مسلمانی کا سب سے ابتدائی اور کم درجہ ، خداوند متعال کی وحدانیت اور رسول اکرم(ص) کی رسالت کا اقرار کرنا و گواہی دینا ہے۔ لہذا مفسرین، فقہاء اور مفکّرین کے عام اقوال کی بنا پر ، اس شخص کا خون اور مال محفوظ و محترم ہے، اور کسی کو بھی اس پر حملہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی تکفیر خطرناک نتائج کا حامل ہے: جیسے کہ کافر ٹہرائے گئے شخص کے جان و مال کا مباح و حلال ہونا، اس کی بیوی کا حرام ہونا، اپنے رشتہ داروں سے اس کا میراث نہ لینا وغیرہ۔ اس مضمون میں توحید و شرک، ایمان و کفر، بدعت و سنت اور سماع موتی (اموات کی قوتِ سماعت ہونا یا نہ ہونا)جیسے تکفیری وہابیوں کے اہم ترین اعتقادی اصول و دالائل کا ذکر ہوا ہے اور دیگر اسلامی مذاہب سے ان کا تطبیقی موازنہ پیش کر کے تکفیری فکر کا تنقیدہ جائزہ لیا گیا ہے!۔

اہم کلمات: توحید و شرک، ایمان و کفر، سماع موتی، تکفیری وہابی، بدعت و سنت۔

ص:70

تکفیری مذاہب کی نظر میں ایمان اور کفر کا تطبیقی جائزہ!۔

مولوی عبدالواحد خواجوی

اسلامی ممالک میں تکفیری جماعتوں کا ظاہر ہونا اور ان کے توسط سے دوسرے مسلمانوں کو کافر ٹہرانا، یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن سے موجودہ زمانے میں عالم اسلام اس میں گرفتار ہوا ہے۔ تکفیری جماعتیں شرک، کفر، بدعت وغیرہ جیسے الفاظ کا غلط استعمال کرکے مسلمانوں کو کفر کی تہمت دیتے ہیں۔ لیکن قرآن اور روایات میں اسلام اور کفر کے معنی کے جائزے سے، ان کے عقائد کا باطل ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔ لہذا تاریخ میں علمائے اسلام نے مسلمین کی تکفیر کے اقدام کو رد کیا ہے اور اسلام کا معیار شہادتین کا اقرارو اعتراف قرار دیا ہے۔ تکفیر ی فکرسے دنیائے اسلام کو برے نتائج کا سامنا ہوگا، جو اسلامی خوف و وحشت کی تبلیغ اور دشمنانِ اسلام کا غلط فائدہ اٹھانے کا باعث بنے گا۔ آیات اور روایات کے مطابق اس مشکل سے نجات کا تنہا راہ حل تکفیری جماعتوں کے مقابلہ میں اتحاد مسلمین ہے!۔

اہم کلمات: ایمان و کفر، اسلامی معیار، تکفیری سلسلے اور گروہ، وحدت اسلامی۔

ص:71

علمائے اسلام کی نظر میں اہل قبلہ کی تکفیر کا حرام ہونا۔

مولوی جواد روحانی لاشاری

موجودہ زمانے میں تکفیری جماعتیں بہت سارے مسلمانوں کو مشرک اور کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ طریقہ کار اہل سنت علماء کے اقوال سے مخالف و متضاد ہے۔ اہل سنت علماء نے ہمیشہ اہل قبلہ کو مسلمان جانا ہے اور مسلمین کو کافر ٹہرانے سے دوری اختیار کی ہے۔ یہ بات اہل سنت علماء کے کلام میں دقت سے دریافت ہوتی ہے!۔ اس مضمون میں موضوع کے متعلق مسلم علماء کے اقوال جمع آوری ہوئی ہے!۔

اہم کلمات: ایمان، اسلام، کفر، مرتد ہونا، اہل قبلہ، فرقے، وہابیت وغیرہ۔

ص:72

اسلامی مذاہب کے نکتۂ نظر سے توسل کا تطبیقی جائزہ اور وہابیت کے خطاؤں کی تنقید

سید عبدالقادر حسینی

ایک اہم مسئلہ جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد ہونے کا باعث بنا ہے، وہ مسئلہ توسل ہے!۔ توسل کی بنیاد دینی عقائد میں ملتی ہے، لیکن اسلام کی وسعت اور مختلف مذاہب و مکاتب کی موجودگی کے مد نظر طبیعی طور پر اس میں متنوع و متعدد شکلیں وجود میں آئی ہیں۔ توسل کے بارے میں بہت ساری آیات اور روایات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ نظریاتی سطح پر توسل کے متعلق بہت زیادہ روایات اور اقوال سے قطع نظر کرکے، ایسی بہت ساری روایات بھی ملتی ہے جو ابتدائی صدیوں میں مسلم عوام کے درمیان توسل کے عملی نمونے پیش کرتےہیں!۔ اسلامی مصادر کے دقیق و عمیق مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ توسل کی مختلف قسمیں ہے۔ اس کی بعض قسموں کے جائز و صحیح ہونے پر سارے علمائے اسلام کا اتفاق نظر ہے، جبکہ بعض دوسری قسمیں ممنوع ہے اور مزید بعض قسموں پر اختلاف ہے۔زندگی کے بعد نبی، نبی کے آثار، نبی اور اولیای خدا کے دعا سے توسل کرنا، توسل کی اختلافی قسموں میں شمار ہوتی ہے!۔

آٹھویں صدی میں ابن تیمیہ نے توسل کی بعض قسموں کو قابل اشکال قرار دیا اور مسلمین کے درمیان بڑا اختلاف ایجاد کیا۔ محمد بن عبد الوہاب نے بارہویں صدی میں اس میں شدت لائی اور یہ مسئلہ مسلمانوں کے درمیان ایسے اختلاف کا باعث بنا کہ موجودہ زمانے میں عالم اسلام کے اندر بعض مسلمانوں کے انکار اور کافر ٹہرانے کا آلہ کار بنا ہے، نیز دنیائے اسلام کو ناقابل جبران نقصانات پہونچائےہیں!۔ اس تحریر میں توسل کی لفظی بحث کے بعد، اس کے متعلق قرآن، روایات اور سیرتِ مسلمین کی نظر بیان ہوئی ہے اور آخر میں متعلقہ شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے!۔

اہم کلمات: توسل، آیات، روایات، اهل سنت، اهل بیت، ابن تیمیه۔

ص:73

اسلامی مذاہب اور تکفیری جماعتوں کی نظر میں ایمان اور کفر کا تطبیقی جائزہ!

محمود بن الخیاط (1)

عصر حاضر میں مسلمانوں کی تکفیر کا سلسلہ عالم اسلام کی ایک اہم مشکل شمار ہوتی ہے جس نے بہت سارے مظلوم اور بے گناہ مسلمانوں کا دامن گھیرا ہے۔ اس مضمون میں قرآن و سنت اور بعض علمائے اسلام کی نظر سے مسئلہ اسلام و کفر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان آگاہی سے اور شرائط قبول کر کے اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے ، لہذا ہم کسی کو آسانی سے کفر کی تہمت و نسبت نہ دیں کیونکہ قرآن اور سنت کی نگاہ میں تکفیر کے مصادیق و نمونے بیان ہوئے ہیں!۔

اہم کلمات: تکفیر (کافر ٹہرانا)، اسلام، قرآن اور سنت، علمائے اسلام۔


1- . امام شافعی سقز دینی علوم کے مدیر و استاد.

ص:74

قرآن کی نظر میں دوسروں کی تکفیر۔

احمد سارمی (1)

دین اسلام صلح اور امن و سکون کا پیغام لانے والا ہے۔ اس دین نے ظہور کیا تاکہ لوگوں کو جہالت اور نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کے نور کی ہدایت کرے!۔

خداوند متعال نے کافر سے مسلمان کو جدا قرار دینے کیلئےایک ظاہری نشانی بیان کی ہے،جو شہادتین (2) کہنا ہے۔ تاکہ جو شخص بھی ان کا اقرار و اعتراف کرے، وہ مسلمان ہے اور جو فرد بھی ان کا انکار کرے، وہ کافر ہے!۔

پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے میں مسلمین اصول و فروع امور کیلئے ایک طریقہ ٔکار پر عمل کرتے تھے، لیکن زیادہ دیر نہ ہوئی کہ ایک بڑا فتنہ رونما ہوا ، جس میں بعض مسلمانوں نے اسلام کی غلط فہمی و غیر صحیح نظر کی وجہ سے، گنہگار مسلمانوں کو کافر ٹہرایا!۔

اس فتنہ و اختلاف کا نومولود، دن بدن بڑتا گیا، یہاں تک کہ بعض دینی بزرگان کو بھی کافر قرار دیا گیا۔ کچھ مدت کے بعد یہ آگ خاموش ہوئی اور یہ مہلک فکر بکھر گئی۔ لیکن حقیقی اور خالص اسلامی تعلیمات کے بنسبت بعض مسلمانوں کی کم آگاہی کی وجہ سے، دوبارہ اس فکر نے استکبار کے فریب خوردہ افراد کے آستین سے اپنا سر باہر نکالا۔ ایک فریب خوردہ جماعت نے اس طرح کے افکار و عقائد کی طرف رجحان پیدا کیا ۔ انہوں نے اپنے سابقہ افراد سے بھی آگے قدم رکھا، بلکہ بعض خوارج کے افراطی و شدت پسند نظریات کے اصول کی بنا پر ، جو بھی ان سے ملحق نہیں ہوتا اور ان کے عقائد قبول نہیں کرتا ہو، وہ بھی کافر ہے۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں قرآن ، سنت، ائمہ اور مجتہدین کی نظر سے تکفیری فکر کا جائزہ لیا گیا ہے اور مسلمین کافر ٹہرانے کے علل و اسباب اور اسلامی معاشرے میں اس کے نتائج بیان ہوئے ہیں۔ نیز اس مشکل سے


1- دینی مدرسہ کے استاد۔
2- اشهدان لا اله الا الله وان محمداً رسول الله

ص:75

نجات کے راہِ حل اور طریقہ کاروں کا اشارہ ہوا ہے اور تکفیری جماعتوں کے مقابلہ میں علمائے اسلام کی ذمہ داری بھی مختصراً ذکر ہوئی ہے!۔

اہم کلمات: قرآن، رسول اکرم(ص)، اسلام، ائمه، مجتهدین، تکفیر(کافر ٹہرانا)، تفسیق (فاسق قرار دینا)، متکلمین۔

ص:76

کتاب و سنت کی نظر میں اہلِ قبلہ کو کافر ٹہرانے کا حرام ہونا۔

عبدالطیف عرب تیموری

اسلام کی وسعت اور بہت سارے انسانوں کے قلوب اس روشن دین کی طرف جذب و ملحق ہونے سے، کفر اور استکبار کے ستون میں زلزلہ آیا۔ اسی وجہ سے عالم کفر نے ٹھان لیا کہ عالم اسلام کے مقابلہ میں اپنی پوری طاقت سے کھڑا ہوجائے گا اور کسی بھی فتنہ، سازش اور اختلاف سے دوری نہیں کرے گا۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تکفیر کا بیج چھڑکنے سے اسلام اور مسلمین کا چہرہ کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔ اس مضمون میں اہل سنت و شیعہ کے تفسیری، حدیثی اور تاریخی مصادر کی بنا پر کتاب و سنت کی نظر میں اہل قبلہ کی تکفیرکے حرام ہونے کا جائزہ لیا گیا ہے اور دنیائے اسلام میں تکفیر کے اثرات ذکر کرنے کے علاوہ، استکباری سازش کی ناکامی اور دنیا کے مسلمانوں کی بیداری بیان کرنے کی کوشش ہوئی ہے!۔

اہم کلمات: تکفیر، کتاب و سنت، اهل قبله، صحابه۔

ص:77

قرآن اور سنت کی نظر میں توسل

عبدالسلام کریمی (1)

وہ ایک مسئلہ جس میں وہابیت کا سارے مسلمانوں سے اختلافِ نظر ہے، مسئلہ توسل ہے۔ توسل کی بعض قسموں کے جائز ہونے پر اکثر مسلمین اور بعض دیگر قسموں کے جائز نہ ہونے پر تمام مسلمین کا اتفاقِ نظر ہے۔ البتہ وہ توسل کی قسمیں جہاں پر اختلاف موجود ہے، عالم برزخ میں پیغمبر اکرم(ص) اور اولیائے خدا کے مقام، دعا اور آثار سے توسل کرنا ہے، جسے وہابیت بدعت یا غیر شرعی قرار دیتی ہے۔ لیکن عمومی قرآنی آیات، صحیح نبوی روایات، اصحاب و مسلمین کی سیرت اور اہل سنت کے عظیم علماء کے واضح اقوال کے مطابق ، حتی پیغمبر اکرم(ص) اور اولیائے خدا کی رحلت کے بعد بھی، ان کے مقام، دعا اور آثار سے توسل کرنا جائز ہے!۔

اہم کلمات: توسل، توسل کے بارے میں علماء کے جملات، استغاثہ، توحید اور شرک کا معیار۔


1- . دینی مدرسہ اور یونیورسٹی میں استاد۔

ص:78

اسلام، صلح، دوستی ، مہربانی اور رحمت کا دین ۔

غلام یحیی شاہ مردی

دین اسلام جس کی تعلیمات ترقی طلب اور کمال پذیر ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے بشر کی ہدایت، رشد و ترقی کیلئے صادر ہوئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے معاشرے میں صلح و سکون کی موجودگی اور تشویش و اضطراب سے دوری کی بہت زیادہ اہمت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں یہ بات بخوبی معلوم ہوسکتی ہے کہ صلح و امن اوراخوت و برادری ایجاد و برقرار کرنا اجتماعی امور کی سرفہرست میں ہے۔نیز جہاں تک ممکن ہوسکے اختلاف اور لڑائی سے دوری اختیار کی جائے اورصرف ان مواقع پر جہاں منفعت طلب افراد کے مقابلہ میں کوئی دوسرا راہ حل موجود نہ ہو، وہاں پر جنگ و جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ اس مضمون میں دین مبین اسلام میں صلح و امن، محبت و دوستی اور رحمت کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کریں گےاور کلامی و عقیدتی اصول کی بنیاد پر متعلقہ شبہات کا جواب دیں گے!۔

اہم کلمات: اسلام، صلح و امن، دوستی، محبت و مودت، رحمت، اصلاح ذات البین۔

ص:79

اسلام، صلح، دوستی ، مہربانی اور رحمت کا دین

حاج خلیل صیادی

ماضی میں ہمیشہ ایسی جماعتیں نمودار ہوئی ہیں جو اسلام اور اس کی برقراری کے نام پر، انسانوں کی نسل کشی سے اپنے ہاتھ رنگین کرتے تھے کیونکہ اُن کے عقائد ، اِن جماعتوں کے عقائد کے ساتھ مساوی نہیں ہے!۔ وہ لوگ اپنے مجرمانہ اعمال و اقدامات جائز و قابل قبول ٹہرانے، نیز اپنے پیروکاروں کو قانع کرانے کیلئے مجبور تھے کہ قرآنی آیات کا حوالہ دیں اور سند و دلیل کے طور پر انہیں پیش کریں!۔ ان میں بعض گروہ اور پیروکار جہالت کی وجہ سے ان پست اور ذلیل اعمال کے شکار ہوگئے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اعمال خداوند متعال کے پاس قبول و مأجور ہے۔ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا(سورہ مبارکہ کہف/104)۔ قرآنی آیات سے ان افراد کا سامنا مکمل طور پر انتخابی اور اقتباسی شکل میں ہوتا تھا ۔ وہ صرف ان آیات کو اپنا سرلوحہ قرار دیتے تھے جن میں جنگ، قتل اور جہاد کا ذکر ہواہے۔ وہ ان آیات کا جائزہ لیئے اور انہیں عام قرآنی نظام اور اسلامی روح کے ساتھ تطبیق دئے بغیر، ان کا حوالہ دیتے تھے۔ وہ آیات جن میں دوسرے ادیان ماننے والوں کے ساتھ صلح و امن، اتحاد و معائدہ، مہربان و امن پسند کردارذکر ہوا ہے، انہیں نظر انداز کرتے تھے یا ان کے منسوخ و باطل ہونے کے قائل ہوجاتے تھے۔ وہ افراد اسلام کی شدت پسند اور خون بہانے کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور اسلام کی خدمت کرنے کے بجائے اس کی خیانت کرتے تھے۔ اس مضمون میں وہ آیات جن کا یہ افراد اپنے اغراض کامیاب بنانے اور اپنے اعمال کو جائز قرار دینے کیلئے حوالہ دیتے ہیں، ذکر کر کے ان کا جائزہ لیا جائے گا!۔

اہم کلمات: اسلام، صلح و امن، دوستی، رحمت و مہربانی۔

ص:80

تکفیر اور اسلامی حقوق بشر

آبتین امیری (1)

عالم اسلام میں مسئلہ تکفیر ایک بڑی ، وسیع مشکل اور تمام اسلامی مذاہب کیلئے خطرے میں تبدیل ہوا ہے۔ اسلام کا خشک و ظاہری مطالعہ اور اسلامی ممالک میں جہالت، بے علمی اور فقیری جیسے بعض اجتماعی نامنظم مسائل کے نتیجہ میں روزمرّہ تکفیریوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بنا پر ، اس موجود کے مقابلہ کیلئے علماء کا اتحاد ضروری بن جاتا ہے!۔

تکفیری فکر نہ صرف مسلمین کیلئے خطرہ ہے، بلکہ اس کا خطرہ ساری بشریت کیلئے بھی شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس فکر کے اصول کی بنیاد پر زندگی اور آزادی وغیرہ جیسے تمام انسانی حقوق پائمال ہوجاتے ہیں، جن حقوق پر سارے انسانوں کا اتفاق ِ نظر ہے۔ جن کا قرآن اور سنتِ نبوی نے ہرحال میں دفاع کیا ہے ،مسلم حتی غیر مسلم عوام کے جان و مال اور عزت ہمیشہ محترم قرار دیا ہے، وہ سب حقوق تکفیری جماعتوں کے توسط سے پائمال ہوجاتے ہیں!۔

اہم کلمات: اسلامی حقوق بشر، حقوق انسانی کو برخلافی، تکفیراسلامی وحدت۔


1- . عمومی حقوق موضوع میں ایم۔ اے ۔

ص:81

اسلام، صلح، دوستی ، مہربانی اور رحمت کا دین ۔

عبد اللہ دریایی صلغی

اسلام کے نام پر تکفیری جماعتیں، دوسرے مسلمین کو کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف نہایت ہی برے، سفّاک، اور شدت پسند جرائم اور مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ درحالیکہ ان میں کسی بھی اقدام و طریقہ کار کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام مہربانی، رحمت اور دوستی و محبت کا دین ہے، اور تکفیری گروہوں کے سخت و شدت پسند کردار کا اسلامی قانون مہربانی و رأفت سے دور کا بھی کوئی رابطہ نہیں ہے!۔

اہم کلمات: تکفیری جرائم و مظالم، اسلام میں مہربانی اور رحمت، اسلامی اصول سے تکفیری رویہ کا تضاد۔

ص:82

کتاب و سنت اور علمائے اسلام کی نظر میں اہل قبلہ کی تکفیر کا حرام ہونا۔

عید محمد عرب بیاس آبادی

موجودہ زمانے میں تکفیری جماعتیں مسلمین کے جان اورمال کو مباح و حلال قراردیتے ہیں ، آسانی سے ان کا خون بہاتے ہیں اور ان کا مال لوٹتے ہیں۔ درحالیکہ قرآن، سنت اور علماء کے اقوال کی رو سے مسلمین کو کافر ٹہرانا ایک غیر شرعی اور ناقابل بخشش گناہ ہے!۔

اہم کلمات: تکفیراہل قبلہ کی تکفیر، اہل قبلہ کی تکفیر کا جائز نہ ہونا۔

ص:83

مشرق وسطی علاقہ کے نقشہ کی تبدیلی میں تکفیری جماعتوں کا کردار

بہروز خیریہ (1)

موجودہ زمانے کا ایک اہم مسئلہ، علاقہ میں تکفیری جماعتوں کا ظہور اور دنیا کی مختلف جگہوں پر ان کا پھیلاؤ ہے۔ یہاں تک کہ ان گروہوں کا تیزی سے وسیع پھیلاؤ اور دنیا کے اکثر جگہوں پر ان کی فوجی کاروائیوں سے، کسی حد تک طاقتوں کے توازن اور عالمی نظم و نظام کو متأثر و متضررکیا ہے!۔ نیز چونکہ ان کے اکثر اقدامات اسلامی ممالک اور مسلمین کی دائرئے زندگی میں انجام پاتے ہیں، لہذا اسلامی ممالک کو ہی اس کے زیادہ دردناک اور مصیبت بھرے نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے!۔

لیکن تکفیری جماعتوں کے پشت پردہ، بڑی استعماری طاقتوں کا ہاتھ ہے، جو مسلمین کے درمیان اختلاف ایجاد، مختلف فرقوں میں تکفیری فکر کی ترویج، اور اسلامی ممالک میں اپنے تکفیری عاملین اور واسطوں کے ذریعہ اسلامی تہذیب کے آثار کی انہدامی سے، مشرق وسطی پر قبضہ اور مسلم ممالک میں جدائی اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں!۔ اس سازش کو وہ ’’مشرق وسطی کی پالیسی و منصوبہ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ تکفیری گروہ مغربیوں کی طرف سے اس سازش کو عملی و اجراء کرنے کیلئے آلہ کار ہیں!۔

اس مضمون میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ اس مسئلہ کے جزئیات بیان کرکے، علاقائی جغرافیا پر اس طرزِ فکر کے اثرات کا جائزہ پیش کریں۔

اہم کلمات: اسلام، تکفیر، تکفیری جماعتیں، علاقہ کے نقشہ کی تبدیلی، جدید مشرق وسطی۔


1- . فارسی زبان اور ادبیات میں بی۔ ایچ۔ ڈی.

ص:84

اسلامی مذاہب اور تکفیری جماعتوں کی نظر میں ایمان اور کفر کا تطبیقی جائزہ!

سید معصوم عبداللهی

موجودہ زمانے میں عالم اسلام تکفیری جماعتوں کی خطرناک مشکل میں گرفتار ہوا ہے۔ہر دن دنیا کے کسی نہ کسی جگہ پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان تکفیری فکر کی تشکیل یابی اور اس کی ترویج کے علل و اسباب کے مد نظر، تمام مسلمین پر لازم ہے کہ اس سے مقابلہ کے طریقہ کاروں کو اختیار کرکے اس فکر کی جڑیں نابود کریں ۔ اسی تناظر میں عوام کے درمیان علماء کی طرف سے اعتدال پسندی کی تبلیغ، مسلمانوں کی علم و آگاہی کی سطح میں اضافہ کرنا اور وحدت کی فکر ترویج کرنا زیادہ مؤثر و مفید رہے گا!۔

اہم کلمات: تکفیر سے مقابلہ، وحدت، اعتدال پسندی، تکفیر سے لڑنا۔

ص:85

چوتھی جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:86

ص:87

انقلابی تحریکوں اور تکفیری و دہشت گرد جماعتوں کے درمیان فرق۔

احمد مصطفی (1)

علا حسن مصطفی (2)

حالیہ برسوں میں دنیائے عرب و اسلام میں حکمرانوں اور بادشاہوں کے ظلم وستم کے جواب اور ردِ عمل میں بڑی تبدیلیوں اور تحریکیوں کا مشاہدہ ہوا ہے۔ یہ تحریکیں،انقلابی تحریکیں یا اسلامی بیداری ہیں جو آزادی، اجتماعی عدالت اور مساوات پر مشتمل لوگوں کے غصب شدہ حقوق کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔ یہ مطالبات اور تقاضات ، خواہ شہری ہوں یا اسلامی، اجمالی حد تک وہ شریعت اسلامی کے اصول کے مطابق اور اسی کے ماتحت میں رہے ہیں!۔

یہ تحریکیں بعض مسائل کے عکس العمل میں تشکیل پائیں، مختلف ممالک کے معاشروں میں قلیل افراد کا زیادہ سے زیادہ اموال اور دولت سے بہرہ مند ہونا، جس میں بااکثریت جماعتوں کے توسط سے دوسرے افراد کو کنار کیا گیا۔ یا کسی ایک خاص قومی یا مذہبی جماعت کا غلبہ اور قبضہ کرنا یا دوسری جماعتوں میں ان کا محور بننا اور تمام طاقت اور دولت اپنے کنٹرول اور انحصار میں رکھنا وغیرہ ۔

ہم ان تحریکوں کو (اس قسم کی حقیقت و شناخت کی وجہ سے ) انقلابی تحریکیں اور اسلامی بیداری کہتے ہیں۔ ایک اور طرف سے، دوسری تحریکیں ظاہر ہوئی ہیں؛ یہ تحریکیں تنگ نظری اور انحصار طلبی خصوصیت کے ساتھ تشکیل پائی ہیں جن کی بنیاد، مخصوص ممالک کے منافع حاصل کرنا، معین سیاسی ہدف کا تعقّب کرنا، مشرق وسطی کے علاقہ میں بعض گروہوں اور تنظیموں کی نابودی اور انہیں سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی میدان سے باہر دھکیلنا وغیرہ جیسے اہداف پر استوار ہے۔ یہ تحریکیں ایسے جماعتوں کی شکل میں سامنے آئیں جنہوں نے


1- افریقی ترقیاتی مطالعات کے ممبر، اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی محقق و مشاور، آزاد مؤلف، بین الاقوامی قضاوت اور اختلافات حل کرنے کیلئے متبادل وسائل کے خارجی روابط کے مسؤول ، رسمی مترجم۔
2- خدمات اور سہولیات کے شعبوں میں اقتصادی صاحب نظر اور مشاور، سیاسیت میں فعّال۔

ص:88

دین کے نام پر مشرق وسطی کے عوام کو دھوکہ دیا اور اس علاقہ پر غالب و سوار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنی مطلوبہ و گمشدہ چیز غیر معتدل اور شدت پسند دین میں دریافت کی تاکہ اپنی سخت صورتحال اور اقتدار میں موجودگی نہ ہونے سے بعض ممالک کو اپنا ہدف قرار دیں اور وہاں کے لوگوں سے انتقام لے لیں!۔ دوسرے علمی اور حیاتی مسائل سے ان جماعتوں کی نا آگاہی ، دین کے نام پر ان اقدامات کیلئے جذب و شریک ہونا جن سے وہ خود کو کوئی نقصان نہیں پہنچانتے ہیں، بلکہ معاشرے، ادیان اور عقائد کو ایک ساتھ حملہ کا شکار بناتے ہیں!۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم دہشت گرد یا تکفیری تحریکوں اور جماعتوں کے نام سے یاد کرتے ہیں!۔

ص:89

تکفیری جماعتوں سے اسلام کی مخالفت (اسلام ستیزی)کا ارتباط ۔

محمد خلیل

وہ تکفیری گروہ جو حالیہ برسوں میں بعض عرب، اسلامی ، افریقائی اور حتی یورپی ممالک میں وجود آئے ہیں ، انہوں نے اسلام کا ایسا چہرہ پیش کیا ہے جو ایک پائمال شدہ، کاذب اور باطل شبہات سے بھری صورت ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ غیرمسلم لوگ اسلام کا چہرہ تکفیریوں میں دریافت کرنے لگے ہیں ۔ اس طرح کہ اس تصویر اور چہرے کو اسلام کی سب سے صحیح اور واقعی شکل شمار کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اسلام سے مزید متنفر و بیزار ہوئے ہیں اور اب اسلام کی تنقید کرتے ہیں۔ اس مضمون میں تکفیری جماعتوں نیز ان کی ترویج اور استحکام میں استعماری اور مغربی طاقتوں کے رول کا جائزہ لیا گیا ہے اور تکفیریوں کی فکر یہودی ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ میڈیا اور سیاسی و اقتصادی مسائل کے بذریعہ اختلاف ڈالنے اور مسلمین کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانے کے خاطر، صہیونیزم کی کاروائیاں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے وہ تکفیری جماعتوں کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ مضمون نگار کی نظر میں اسلامی بیداری اپنے ہدف کی پٹری سے منحرف ہوگئی ہے ۔ علم و حکمت، وعظ و نصیحت سے خداوند کی دعوت دینے کی راہ کنار چھوڑ دی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ اور دشمنی کا راستہ اپنایا ہے۔ اس مضمون میں تکفیری جماعتوں کی فکر و منطق اور اصول بیان کرنے کے ضمن میں، اسلامی معاشروں پر تکفیری گروہوں کے اجتماعی اور سیاسی آثار ، نیز ان سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کار و راہ حل ذکر ہوئے ہیں!۔

ص:90

اسلام، مسلمین اور عالم انسانیت کے خلاف تکفیری جماعتوں کے خطرات۔

محمد علی کیوہ

اسلامی امت آج کل شدت پسند تکفیری تلوار سے مجروح ہے۔ اس زخم کے علاج کیلئے ضروری ہےامت کیلئے تکفیری جماعتوں کے خطرات اوران کی تشکیل یابی کے علل و اسباب کا جائزہ لیا جائے۔

ص:91

تکفیری فکر اور مجرمانہ تکفیر میں فرق (فکری اور عملی تکفیر)

جعفر محمد حسین فضل الله

وہ عملی تکفیر جو قتل اور جرم کا باعث بن جائے، دو دلیلوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ تکفیر کا فکر و عقیدہ کی حد سے آگے بڑھکر کسی شخص کو کافر ٹہرانا۔ دوسرے یہ کہ ماحول کی ایسی حالات جس میں تکفیری فرد رشد ونمو کرتا ہے۔ صرف واحد حقیقت ہونے کے عقیدہ کا لازمہ ایک فکر کی حقانیت قبول کرنا اور اس کے خلاف ہر فکر کو باطل قرار دینا ہے۔ طبیعی طور پر اگر ایک فکر میں اسلام قبول کرنےکی ایسی شرط ہو،کہ وہ دوسرے افکار جن میں وہ شرط موجود نہ ہو، تو وہ کفر کے حکم میں شامل ہوں گے!۔ اسی طرح جیسےکہ قرآن نے بھی بعض افکار کو کفر قرار دیا ہے ، لیکن فکر و عقیدہ کی تکفیر اور مفکّر و صاحب فکر کی تکفیر میں فرق ہے۔ قرآنی آیات کے مضمون میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بعض افکار و عقائد کو کفر شمار کیا ہے ، البتہ انہی کافروں کو کبھی ان کی خوبیوں اور سلوک کی وجہ سے مذمت اور کبھی تعریف و تمجید کی ہے۔ معصومین (ع) کی تاریخ سے بھی یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ وہ بھی کافروں کے افکار و عقائد باطل قرار دیتے تھے، لیکن ان افکار کے صاحبان و مفکرین سے علمی تبادلہ اور اجتماعی معاملات انجام دیتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی روایات کا صحیح درک و سمجھ اور ان کا دقیق جائزہ نہ ہونے ، نیز عقل بروئے کار نہ لانے کی جہ سے روایات کا سطحی مطالعہ کیا جاتا ہے اور تکفیر کو فکر و عقیدہ کے مرحلہ سے شخص کی تکفیر کے مرحلہ میں جاری کیا جاتا ہے۔ اخلاقی خصوصیات اور تربیتی مراحل باعث بنتے ہیں کہ ایک فرد پاکیزگی کو صرف اپنی فکر و عقیدہ میں پاسکے اور دوسرے افکار و عقائد اور ان کے رکھنے والوں کو نجس و باطل شمار کرے ۔ جو پھر دوسروں کے حذف اور نابود کرنے کا سبب بنتا ہے۔ افکار و عقائد کے رشد و ترقی کیلئے تحقیق کا ماحول فراہم کرنا اور معاشرہ میں مختلف افکارو عقائد پیش کرنے کی اجازت دینا، وحشیانہ اور مجرمانہ تکفیرروکنے کاباعث بنے گا!۔

ص:92

اسلامی معاشروں کیلئے تکفیر کا خطرہ

صلاح الدین سنوسی

اسلامی معاشرے میں تکفیر کی وجہ سے ناگوار اور قابل افسوس حوادث کے ظاہر ہونے سے،مسئلہ تکفیر اور اس کے خطرے کی بحث ضروری ہے!۔ تکفیر کی اصل لفطِ کفر ہے جس کا مطلب اعتقاد نہ رکھنا، یا خدا اور پیغمبر حضرت محمد صلی الله علیه و اله و سلم کا انکار نیز دین کی ضروریات کا انکار ہے۔ اس سے مراد کسی کو کفر کی نسبت دینا ہے۔ قرآن اور حدیث اس مطلب کی شہادت دیتے ہے کہ جس شخص نے شہادتین کہا ہو، وہ مسلمان ہے اور کسی کو بھی اسے کافر جاننے کا حق نہیں ہے۔ ممکن ہے مطلق وعام صورت میں کوئی کفر کی فکر ہو، لیکن اس کے رکھنے والے کو کافر نہیں ٹہرا سکتے، مگر یہ کہ اس کیلئے حجت و دلیل مکمل ہوئی ہو۔ البتہ یہ کام بھی بعض دینی علماء اور مفتیوں کے ہاتھوں ممکن ہے!۔ صدر اسلام میں تکفیر وجود آیا اور اسی طرح مختلف گروہوں اور جماعتوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ان کی فکر آپس میں مختلف ہے لیکن ان کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ کیونکہ دونوں اپنے حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کے خلاف بغاوت کی دعوت دیتے ہیں۔ درحالیکہ اسلام نے شدت سے مسلمین کی تکفیر کے بارے میں خبردار کیا ہے اور علماء نے بھی کہا ہے: کسی کو تکفیر نہیں کیا جانا چاہیے، مگر یہ کہ دن میں روشن آفتاب سے زیادہ واضح یقینی دلائل سے اس کا کفر ثابت ہوجائے۔ کیونکہ تکفیر تفرقہ و اختلاف، گمراہی و انحراف ، شریعت کے مقاصدمیں غفلت و تحریف اور اسلام کی ترویج میں مانع و مشکل کا سبب بنتا ہے!۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ تکفیر کے خطرہ سے پوری امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے۔ امت کیلئے اعلان کیا جائے کہ تکفیر دشمنوں کی سازش اور منصوبہ کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح تکفیر کا رواج روکنے کیلئے فقہ اور عقائد کا دوبارہ جائزہ لینے کا اقدام کیا جائےاور معاشرے میں اسلامی مشترکہ نکات کی بنیاد پر اعتدال پسندی رائج کی جائے!۔

ص:93

اسلام اور مسلمین کے خلاف تکفیری جماعتوں کے خطرات

عبد المجید عمار

اسلامی امت کا سب سے خطرناک موجود تکفیر ہے جس کا آغاز خوارج سے ہوا اور امت مسلمہ کے تفرقہ و اختلاف کا باعث بنا۔ یہاں تک کہ عباسی دور میں لوگوں کو مشغول کرنے کیلئے اختلافات شدید ہوگئے۔ اس کے بعد احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور عبد الوہاب ایک مثلث کے تین زاویہ و دائرے بن کر سامنے آئیں جنہوں نے امت کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اس موجود کے جانب قدم بڑھایا۔ اس بنا پر تکفیری موجود نے تین مرحلے طے کئے ہے اور اس وقت چوتھے دور میں چل رہا ہے۔

ا۔ خوارج کا مرحلہ۔

ب۔ فقہی مذاہب اور کلامی و اعتقادی جنگ ظاہر ہونے کا مرحلہ۔

ج۔ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کا مرحلہ۔

موجودہ زمانے میں بہت زیادہ جماعتیں موجود ہیں کہ جنہیں تکفیری گروہوں کے عنوان سے زیر بحث قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس فکر سے مقابلہ کیلئے ضروری ہے کہ علمائے اسلام کے درمیان عملی جلسات اور نشست و برخاست تشکیل دی جائے تاکہ وہ مشترکہ قواعد و قوانین اخذ کریں ، کافر اور مسلمان ایک دوسرے سے جدا کریں۔ اسی طرح کتابچہ تحریر کرنے، سٹیلیٹ چینل اور اجتماعی چینل کی تأسیس ، کانفرنس و اجلاسات اور گروہی کام منعقد کرنے سے اس خطرے سے مقابلہ کا اقدام کریں!۔

ص:94

تکفیری جماعتیں اور اسلامی مقامات و تعمیرات کی مسماری

(عراق میں بطور نمونہ)

ندا علیوی لعیبی عبودی

اسلامی گنبد ، درگاہ، قبور اور تعمیرات منہدم و مسمار کرنا موجودہ زمانے سے شروع نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو وہابی جماعت نے اپنی تحریک کی ابتداء سے ہی شرک کے مظاہر ویران کرنے کے بہانے سے اپنے کاروائیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے۔ نیز داعش جیسے ان کے ناجائز فرزندبھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی شعائر و مظاہر کی توہین اور مسماری کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں تکفیری جماعتوں کے جرائم ، نیز سوریہ اور دیگر اسلامی ممالک مخصوصاً عراق میں بہت ساری درگاہوں اور اولیاء کی قبور پائمالی و انہدامی کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان اقدامات کی منفی اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں پر اس نکتہ پر توجہ دی گئی ہے کہ اسلامی آثار کی مسماری میں تکفیری جماعتوں سے مقابلہ کیلئے اسلامی ممالک کی حکومتوں اور ملتوں کے درمیان وحدت اور ہم دلی و ہم فکری ایجاد کرنے کے علاوہ ، اسلامی ثقافتی ، تاریخی آثار اور مقامات کی طرف خاص توجہ دینی چائیے ۔ اور وہ ملتوں اور حکومتوں کے درمیان ایک قابل قدر و احترام وراثت و دولت میں تبدیل ہونے چایئے!۔

ص:95

تکفیر

مہدی رعد

تاریخ اسلام میں امیر المؤمنین(ع) کے زمانے سے لیکر آج تک تکفیری سلسلہ کا مشاہدہ ہوتا رہا ہے جو خوارج سے شروع ہوا تھا اور ہمارے زمانے کی تکفیری جماعتوں تک پہنچا ہے، جس کا آغاز اخوان المسلمین سے ہوا ہے۔ دوسروں کو کفر کا حکم دینا ایک اہم مسئلہ ہے جس سے اسلام نے اجتناب اور دوری کی تاکید کی ہے اور اسے دلائل کے ساتھ مشروط کر کے واضح کردیا ہے۔ لیکن بعض افراد نے اسلام کی ناسمجھی اور دلائل و نصوص کے ظاہر میں متوقف ہونے کی وجہ سے تکفیر کا اقدام کیا ہے۔ درحالیکہ اس کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں ایجاد ہونےوالے اثرات سے غافل رہے ہیں۔ تکفیر ممکن ہے دینی یا سیاسی یا فکری ہوسکتی ہے۔ بعض افراد نے تکفیر کے معاملہ میں افراط اور بعض نے تفریط سے کام لیا ہے ، جبکہ بعض افراد نے اس میں اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ لیکن مسئلہ تکفیر میں افراط اور شدت پسندی کو تمام مسلمانوں کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ لوگوں کے درمیان بے دینی کی وسعت ، اسلام پر عمل کرنے سے حکومتوں کا ممنوع کرنا، اسلام پسند افراد سے وحشیانہ سلوک کرنا اور مسلمانوں کی دینی تعلیمات کی سطحی و کمزور ہونا ، یہ سب تکفیری موجود رونما ہونے کے باعث بنے ہیں۔ تکفیری جماعتوں میں ہندوستان و پاکستان کی جماعت اسلامی ، اخوان المسلمین، القاعده، جہادی سلفی جماعتیں، تکفیر و هجرت گروہ، الطلیعه سلفی جهادی اور جمعیة العدل و الاحسان وغیرہ جیسی جماعتوں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ تکفیری موجود کے علاج و مقابلہ کیلئے اجتماعی اور تعلیمی اسٹیچوٹ، تبلیغی اور اصلاحی سینٹر، اجتماعی مدارس، نشریاتی ادارے اور ثقافتی ادارے، علم و اعتدال کی ثقافت کی وسعت، نیز معاشرہ کی مشکلات کے راہ حل و طریقہ کاروں کا جائزہ لے لیں۔ تاکہ مسلمین داخلی لڑائیوں اور اختلافات کے بجائے صہونیزم اور مغرب سے مقابلہ کرنے کی فکر کریں!۔

ص:96

تکفیری سلسلہ اور خارجی رجحان کی پیدائش کی کیفیت۔

احمد راسم النفس

عالم اسلا م میں درپیش مسائل کی درست و بہتر تحلیل و تجزیہ کیلئے تکفیر کے تاریخی سابقہ کی شناخت لازمی ہے۔ تاریخ اسلام اور تکفیر کے ماضی میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تکفیر دو اہم شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے:

اول: سلطہ پسند اور حکومت محور تکفیر: یہ تکفیر حکمرانوں کی طرف سے اپنی حکومتی ستون کے استحکام، مخالفین کی سرکوبی اور اپنی غلطیوں و خطاؤں کے دفاع کیلئے ، اسے وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس قسم کی تکفیری فکر کی تاریخ سقیفہ بنی ساعدہ میں ملتی ہے ۔ جہاں سقیفہ کی کمیٹی تشکیل پانے اور ابوبکر خلافت کیلئے منتخب ہونے کے بعد، اس کے مخالفین اسے زکات نہیں دیتے تھے، تو انہیں اہل ردہ اور کافر کے نام سے متعارف کراتے تھے۔ ان کے دولت ، خون اور ناموس جائز ہوجاتا تھا۔ پھر سلطہ پسند تکفیر ، بنی امیہ کے طریقہ کار سے آگے چلی ۔ حالیہ صدیوں میں آل سعود اور وہابیوں نے اپنی حکومت کی حفاظت کیلئے یہ طریقہ استعمال کیا۔ بعد میں مصر اور دوسرے ممالک کے سیاسی جماعتوں نے بھی یہ حربہ بروئے کار لایا۔

دوم: خوارج کی تکفیر: خوارج دینی تعلیمات اور احکام کی اپنی غلط فہمی و منحرف فکر کی وجہ سے عام لوگوں کو کافر ٹہراتے تھے۔ اس قسم کی فکر کا سرچشمہ صدر اسلام کے خوارج اورنہروانیوں میں ملتا ہے ۔ طول تاریخ میں بعض افراد اس قسم کی تکفیر استعمال کرتے تھے۔ موجودہ زمانے میں بعض وہابی تکفیری اور مزید دوسری تکفیری جماعتیں اسی قسم کی تکفیری فکر کا تسلسل ہے!۔

عصر حاضر میں وہ تکفیری گروہ جن کی اصل و بنیاد شدت پسند اور تکفیری سیاسی افکار میں موجود ہے، اور خوارج کے افراطی عقائد کی بھی پیروی کرتے ہیں، انہوں نے یہ دو قسم کی تکفیر ایک ساتھ آپس میں ملائی ہے، اور طاقت و اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنی غلط فہمیوں کے استعمال سے، مختلف ممالک میں مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں!۔

اہم کلمات: تکفیر، حکومتی سطح کی تکفیر ، خوارج کی طرف سے تکفیر ، خوارج، وهابی لوگ۔

ص:97

اسلامی تہذیب اور تکفیری جماعتیں

نازیہ علی صالح

بعض مغربی محققین نے دعوی کیا ہے کہ اسلامی قوانین فقط بہت زیادہ پہلے ماضی میں اجراء ہوتے تھے اور موجودہ زمانے میں قابل اجراء نہیں ہے!۔ اس کے علاوہ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلامی تہذیب، پسماندگی اور جہالت کی تہذیب ہے اور یہ تہذیب وثقافت تلوار اور ایک رہزن جماعت کے قبضوں کی وجہ سے پھیلا ہے جو ایک کلمہ پر متحدہوئے ہیں۔ نیز مسلمانوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ ساری دنیا کو فتح کر کے اسے ایک شہنشاہیت میں تبدیل کریں ، تا کہ اس میں اسلامی احکام شدت پسندی اور مضبوطی سے لوگوں پر لاگو و جاری کرسکیں!۔ (گراهام، 2006، تصحیح1، ص 11)۔

لیکن اس کے جواب میں ، ایک اور مغربی محققین گروہ نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق و تحلیل میں بیان کیا کہ کس طرح سے اسلام علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ ، ماضی کی طرح قابل توجہ و لائق تائید باقی رہا ہے،یہاں تک کہ ایک انفرادی و منحصر دین کی شکل میں تبدیل ہوا ہے۔ نیز مفہوم عقل و روح کی ترکیب سے دوسرے ادیان سے ممتاز بنا ہے۔ انہوں نے وضاحت سے کہا ہے کہ یہ اسلام ہی تھا جس نے موجودہ جدید عالم اور ماڈرن دنیا وجود میں لائی ہے ۔ جیسے کہ گراہام اپنی کتاب میں یوں کہتا ہے : ’’کس طرح اسلام نے جدید دنیا کو خلق و ایجاد کیا‘‘، نیز پوروپ اور مغربی اقوام کو رنسانس و انقلاب کا ارادہ عطا کیا!۔

مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوند نے کامیابی کا یقینی وعدہ دیا ہے اور اس عہد سے ان مسلمانوں کو طاقت و قدرت بخشی ہے جو اسلام کی خدمت میں اپنی توانائی بروئے کار لانا چاہتے ہیں تاکہ اسلام کا یہ پیغام آگے جاری رہ سکے!۔ اسی دلیل کی وجہ سے یہ کامیاب دین ، اُسی طرح ساری دنیا میں اپنی زندگی گذار رہا ہے۔ گراہام جیسے یہ محققین مغرب کو یہ اعتراف کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اعلان کریں : ’’اب وہ وقت پہنچا ہے کہ فراموش کردہ حقائق اب یاد لائیں(اور حقیقت سے گریز نہ کریں)، جتنا مصری اور یونانی مغرب سے رابطہ رکھتے ہیں، اتنا

ص:98

اسلام بھی مغرب سے تعلق رکھتا ہے۔ہم جدید تاریخ لکھنے کے دور میں ہے کہ آخر کار ہم اپنے ذہن سے یہ صاف کریں گے کہ کس چیز نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کیا ہے ، نیز دوبارہ سے سیکھیں گے کہ ہم لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ارسطو کے فرزندان کے طور پرآپس میں کیا مشترکہ امور رکھتے ہیں!۔ ‘‘(گراهام، 2006، تصحیح1، ص 182)۔

جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر تہذیب کی تاریخ میں اپنا مخصوص طریقہ اور راستہ رہا ہے۔ اسلامی تہذیب ابتداء سے ہی واضح طور پر، انسان کی اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو ہدف قرار دیکر، حقیقی انسانی ترقی تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرنے کا قادر و قابل رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس تہذیب کو کچھ مسائل اور چلینجوں کا سامنا ہوا، جیسے کہ استعمار طلب فکر سے مقابلہ، جس فکر سے مسلم ممالک کے درمیان تفرقہ اور اختلاف ایجاد ہوا ۔

ان تمام مسائل و مشکلات کے باوجود ایران کے اسلامی انقلاب جیسے اسلامی بیداری کا ایک نمونہ مشاہدہ کرتے ہیں جس نے بین الاقوامی سطح پر علمی ترقی میں قدم رکھا ہے اور اب وہ علاقہ کی دوسری اسلامی بیداری جماعتوں کیلئے سرلوحہ اور نمونۂ عمل شمار ہوتا ہے!۔

تین دہائی گذرنے کے بعد اسلامی ممالک میں، اسلامی بیداری رونما اور درخشاں ہونا شروع ہوئی ہے۔ لیکن اس دوران مغربی شہنشاہی نظام نے اسلام کے دوبارہ چمکنے اور وسیع ہونے میں ممانعت ایجاد کرنا شروع کی۔ جس طرح پہلے بھی اسلام کی ترقی میں مانع بن گئے ، اور اسی تناظر میں وہابیت نامی جدید فرقہ کا دامن تھاما۔ فرقہ وہابیت اپنی تعلیمات میں سلفی رجحان اور ماضی کی طرف واپسی کی دعوت دیتاہے اور دوسرے مذاہب کو رد و انکار کرتا ہے۔ یہ مسئلہ اس فرقہ کو تکفیری جماعت میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس گروہ نے اسلام خطرے میں ڈالا ہے ، کیونکہ دینا کے لوگوں کے سامنے اسلام کو دہشت گرد دین کے طور پر پیش کرتے ہیں!۔

کیا ممکن ہے یہ وہابی تکفیری جماعت اپنے آخری ہدف تک پہنچ جائے گی ، یا یہ کہ اسلامی مفکرین اور علماء اسلام کو نجات دلوا سکتے ہیں!۔

اس تحریر میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ اس مسئلہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تحلیل کر کے حقیقت تک پہنچ جائیں!۔

اہم کلمات: اسلامی تہذب و تمدن، رنسانس، فرقہ ٔ وہابیت، تکفیری جماعت، اسلامی بیداری۔

ص:99

تونس میں النھضہ فکر اور دوسرے مقامی صاحب فکر جماعتوں کے درمیان سلفی رجحان اور تکفیر!

ڈاکٹر پیترو لانگو

تونس کی اسلامی فکری جماعتوں کے مطالبات اور اہداف کی شناخت کیلئے تحقیق و جستجو کرنا ضروری ہے۔مضمون نگار نے کوشش کی ہے تونس میں اسلامی جماعتوں اور تکفیری جماعتوں کے ظہور و ترقی ، اور ان کے درمیان روابط ، مسائل اور اختلافی امور بیان کرے۔ مضمون نگار کی نظر میں تونس میں تکفیری جماعتوں کی تشکیل، سابقہ حکومتوں کے جبری سکیولار نظام کی وجہ سے عمل میں آئی ہے!۔

ص:100

کون شخص اسلامی جدّت پسندی کی رہنماہی کرتا ہے؟!۔ (مصداقی نمونہ لیبی)

انریکہ گلوپینی

تکفیری جماعتوں کا ایک کام، مختلف ممالک میں اولیائے الہی کے مزار و قبور کی مسماری ہے۔ وہ لوگ ظاہر میں توحید کا پرچم لیکر یہ اقدام انجام دیتے ہیں، لیکن ان افکار و عقائد کے پشت پردہ، اسلامی دشمن، یہودیت اور صہیونیزم بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ اس قسم کی توحید (استاد اور قائد کے بغیر والی توحید) کی ترویج، اولیائے الہی جو تقوا اور ظلم ستیزی کے آئیڈیل و نمونہ ہیں، ان کی قیادت کے انکار سے یہ چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی ویب سائٹوں اور اسٹلیٹ چینلوں کے ذریعہ سے، خود کو ان قائدین کی جگہ بٹھا لیں اور مسلمانوں کے افکار و عقائد کی نظارت و ہدایت اپنے ہاتھ میں لے لیں!۔

وہ لوگ خرافات کے مقابلہ کی تبلیغ سے، اسلامی تہذیب کے آثار منہدم کرتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی اطلاعاتی سرویسوں اور ایجنسیوں کی مدد سے مختلف ممالک میں عوام کو اسلامی اقدار اور معنوی قائدین کے خلاف بغاوت کرنے پر اکساتے ہیں۔ نیز مسلمین کی جدّت پسندی کے نعرے سے انہیں اپنے حقیقی اسلام کی پہچان سے دور و جدا کرتے ہیں۔ ان کاروائیوں کے روشن نمونے لیبی اور دوسرے ممالک میں قابل مشاہدہ ہیں!۔

اہم کلمات: قبور و مزار منہدم کرنا، تکفیر، جدّت پسندی، عالمی استکبار۔

ص:101

قرآن کریم اور معاشرے میں صلح پسند باہمی زندگی

أ۔ د۔ وجدان فریق عناد

قرآن کریم اور اسلامی تہذیب انسانوں کی گفتگو اور صلح پسند باہمی زندگی پر زور دیتا ہے۔ زبان، رنگ، ثقافت، فکر اور آئین ،کوئی بھی اسلام کی نظر میں صلح اور باہمی زندگی کے درمیان حائل نہیں ہے۔ بلکہ قرآن کریم اس پر زور دیتا ہے کہ ہر قوم یا ہر اہل رنگ و زبان خداوند کے نیک اور مقرّب بندوں میں ہوسکتا ہے۔ نیز ہر کسی سے، ہر دین و آئین سے ،صلح اور نرمی و مہربانی کے ساتھ گفتگو ہوسکتی ہے۔ اسی تناظر میں اہل کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ موجود مشترکہ امور پر اتحاد و عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے، اور اختلافی مسائل پر بہترین بحث و گفتگو ’’مجادلہ احسن‘‘ کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم تہذیبوں کے درمیان صلح، سکون و امنیت اور گفتگو کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ، توحید جیسے اپنے بنیادی اور عقلانی اصول و عقائد نظر انداز و ترک نہیں کرتا ہے۔ نیز عقلی استدلال سے امتوں کو یہ اصول قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے!۔

دوسری تہذیبوں اور ادیان سے سلوک و برتاؤ کرنے کے متعلق قرآنی طریقہ کار کے مد نظر مسلمانوں پر لازم ہے کہ نشریات، میڈیا، انٹرنیٹ ، یونیورسٹیوں اور علمی مضامین وغیرہ جیسے مختلف میدانوں میں دوسری تہذیبوں اور اقوام سے صلح پسند گفتگو اور تبادلۂ خیال کا اہتمام کریں!۔

اہم کلمات: گفتگو، تہذیبوں کی گفتگو، قرآن میں صلح، باہمی زندگی۔

ص:102

سلفیت فکر و نظر کے متعلق موجودہ مطالعہ

احسان محمد عارضی

پوری تاریخ میں ہر سلسلہ اور گروہ کچھ عقائد اور اصول کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے ۔ تکفیری جماعتیں بھی اس قاعدہ سے جدا نہیں ہے۔ اس بنا پر اس مضمون میں تکفیری گروہوں کے اصول کے جائزے سے یہ نتیجہ حاصل ہوا ہے کہ تکفیری وہابیوں کے عقیدہ و نکتۂ نظر میں تضاد موجود ہے، جو تضاد زندگی کی حقیقت اور انسان پر ان کی اجباری فکر و منطق، سلفی عقل و فکرکی اپنے احکام میں شدت پسندی کے درمیان ہے، اور جب ایسا فرد زندگی کی واقعیت کا سامنا کرتا ہے تو اس سے سختی و تکلیف محسوس کرتا ہے۔

ص:103

شرعی دلیل و برہان اور فقہ خود ساختہ کے درمیان تکفیری فقہ۔

ڈاکٹر عبد الامیر کاظم زاهد۔

تمام اسلامی مذاہب میں دوسروں کی تکفیر کرنا اور کافر ٹہرانا، سنگین اور سخت امر ہے کہ فقہاء نے اس کے متعلق نہایت ہی احتیاط سے کام لیاہے۔ خوارج کے بغیر، تمام اسلامی فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی گناہ انسان کو ایمان کے دائرے سے باہر نہیں کرتا ہے ، نیز ایمان ایک اعتقادی اور قلبی مسئلہ ہے۔ لہذا مذاہب کے فقہاء نے تاکید کرتے ہیں کہ تکفیر کا حکم فقط اس صورت میں جائز ہے کہ جب وہ یقینی دلائل (نہ قیاس اور استحسان وغیرہ) سے ثابت ہوجائے اور اس کی کوئی مخالف دلیل بھی موجود نہ ہو، نیز کفر نہ ہونے کا شبہہ اور تأویل، جہل اور اکراہ (مجبوری) کا احتمال وغیرہ بھی درمیان میں پایا نہ جاتا ہو، توتکفیر کا حکم جائز ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے مسلمان ہونے پر بہت ہی ضعیف اور کم احتمال بھی ہو، تو اس صورت میں بھی تکفیر جائز نہیں ہے۔ مذہبی فقہاء اسلامی فرقوں کی تکفیر کے انکار و غیر جائز ہونے پر تاکید کرتے ہیں۔ ایک عقیدہ اور مذہب کے لوازمات، اس مذہب کا جزء نہیں ہے۔ نیز ایک عقیدہ کے لوازم کی وجہ سے کسی شخص کو کافر نہیں ٹہرایا جاسکتا ہے۔ ان کی نظر میں مطلق تکفیر کا لازمہ تکفیر معین نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے معین تکفیر میں جہل، تأویل اور اکراہ وغیرہ جیسے موانع و مسائل در پیش ہوں!۔

طول تاریخ میں تکفیر اور اس کے شرائط و قواعد پر بعض افراد کے ہاتھوں جدید عناصر و اصول اضافہ کئے گئے، مثال کے طور پر ابن تیمیہ نے مسئلہ بدعت کو تکفیر کے ساتھ ملایا اور اس کے نتیجہ میں کفر کے دائرہ وسیع کردیا ہے۔ پھر آگے وہابیت نے ان تبدیلیوں کا دامن مزید وسیع کر کے اس کی راہ کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ شدت پسند سلفی رجحان مصر منتقل ہونے، نیز سیاسی افراطی افکار سے ان تفکرات و عقائد مل جانے سے، تکفیری جماعتیں جود میں آگئے۔ جو اپنے ہاتھ میں دوسروں کو تکفیر کرنے کے بہت زیادہ بہانے و احکام رکھے ہیں!۔

ص:104

قرآن کریم اور اسلامی ثابت عقائد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جماعتوں نے اپنے خود ساختہ اور سلیقہ کا فقہ بنایا ہے جس کا ایک مسئلہ کفر کا دائرہ وسیع کرنا ہے ۔ نیز اسلامی یقینی و واضح اصول و قواعد پائمال کرکے دوسروں کی تکفیر کرتے ہیں!۔

اہم کلمات: تکفیری فقہ، تکفیر، اسلامی مذاہب کی نظر میں تکفیر، تکفیر کا انکار۔

ص:105

علمائے اسلام کی نظر میں فتوی اور اہل قبلہ کی تکفیر حرام ہونے میں اس کا کردار۔

شیخ علاء محمد سعید

تکفیر، کسی فرد یا خاص افراد کو کافر جاننے کے معنی میں ہے۔ اس بنیاد پر تکفیر ایک قسم کا فتوی شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کا حکم اور فتوی ایک فرد یا متعدد افرادکے جان، مال اور عزت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ افسوس سے آج کے زمانے میں بعض افراد دوسروں کے کفر کا فتوی دیتے ہیں جو فتوی دینے کے لازمی شرائط کے حامل نہیں ہیں۔ اس بنا پر فتوی کی بحث، اس کے شرائط اور تکفیر سے متعلقہ دیگر مباحث پر گفتگو کرنا ضروری اور اہم کام ہے!۔

ص:106

قوت حسّ اور تکفیری ثقافت

عبدالحسین عبدالرضا العمری

تکفیری جماعتوں کے غلط و غیر صحیح عقائد کا مصدر و سرچشمہ، قرآن و سنت نہیں ہے، بلکہ وہ غلط افکار و عقائد، قرآن و سنت کے مطالعہ و مراجعہ میں ان کے غلط طریقہ کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ اس مضمون میں ا س مسئلہ کی وضاحت بیان ہوگی!۔

ص:107

معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار

ابتسام محمّد عامری

طولانی مدت سے عراقی خواتین اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں اپنا معمولی کردار ادا کررہی ہیں۔ بعض افراد نے اس مسئلہ کو محسوس اور درک کیا اور اس کے متعلق سیاسی اور اجتماعی آشنائی بڑھانے کیلئے کوشش کی۔ عراق میں خواتین کے بنسبت دو اہم نظریہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا گروہ قدیمی ، سنتی اور شدت پسند ہے جو معاشرے میں خواتین کی موجودگی اور کوشش و تلاش کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔ دوسرا گروہ داعش جیسا جہادی سلفی ہے جو عورتوں کو خودکش کاروائیوں کیلئے سپاہی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انہیں سیاسی مسائل اور حکومت حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں!۔

ص:108

انسانی حقوق اور اس کے فکری سلسلے

محمد طی

دین مبین اسلام،انسان کیلئے عظیم اور قابل قدر مقام کا قائل ہے ۔ نیز اس کے حقوق و اختیارات بیان کئے ہے، ان پر حملہ و غارت کرنا حرام اور غیر شرعی قرار دینا ہے۔ موجودہ زمانے میں تکفیری جماعتیں جو صرف خود کو مسلمان جانتے ہیں، بہت سارے حقوق کی برخلافی و ضائع کرتے ہیں اور احکام الہی کے برخلاف سلوک و برتاؤ کرتے ہیں!۔

ص:109

اسلامی قوانین کی ناآگاہی، شدت پسندی اور تکفیری فکر کا سبب

حسن مزیو

اسلام، رحمت اور مہربانی کا دین ہے۔ تکفیری جماعتوں کا ظہور ایک بڑی مصیبت اور تکلیف دہ آفت ہے جس میں دین مبین اسلام کے جان گرفتار ہوئی ہے۔ تکفیری جماعتیں صرف خود کو مسلمان جانتے ہیں اور اپنے مخالفین کو کافر قرار دیتے ہیں۔ مخالفین سےتکفیریوں کا شدت پسند اور مجرمانہ سلوک عالمی میڈیا میں منعکس و نشر ہوتا ہے۔ اس برتاؤ کی اسلامی منطق و فکر سے مطابقت نہیں ہے اور یہ اسلامی قوانین کی جہالت و ناآشنائی کی وجہ سے ایجاد ہوا ہے۔

ص:110

اسلام، صلح، مہربانی، محبت اور رحمت کا دین

عبد اللہ الشریف الحسنی

تمام انبیاء الہی اسلام کی تبلیغ کیلئے آئے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام کی بنیاد محبت اور مہربانی پر استوار ہے۔ اس مضمون میں بہت ساری متعلقہ آیات و روایات کا ذکر یہ ثابت کرنے کیلئے ہوا ہے کہ اسلام، صلح، مہربانی اور محبت کا دین ہے۔ راہ خدا میں جہاد، متجاوزوں اور غاصبوں کے حملہ کا جواب دینے کیلئے، اور ظلم و ستم کی دیواریں توڑنے کیلئے ہےجو عوام اور خداوند کی عطا کردہ آزادی سے بہرہ مند ہونے کے درمیان حائل بنے ہیں۔ نہ کہ جہاد لوگوں کو زبردستی اپنا دین چھوڑنے اور اسلام لانے کیلئے ہے۔ اسلامی حکومت تمام زمانوں میں مہربانی اور صلح کا مظہر رہی ہے۔ اس وجہ سے تکفیری جماعتیں اسلام کے نام پر اسلام ہی نابود کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا دفاعی اور ثقافتی سطح پر مقابلہ ہونا چاہئے!۔

ص:111

تکفیریوں کی تکفیر

ادریس ہانی

القاعدہ اور داعش جیسی دہشتگرد جماعتوں نے ان افراد پر جو ان کی نظر میں کافر اور مرتد تھے، شدت پسندی بروئےکار لاکر ، مغرب کی بلاواسطہ اور بالواسطہ متعدد خدمات انجام دیں۔ شاید ان میں سب سے اہم خدمت یہ تھی کہ مغربی دنیا کو مضبوط دلیل ہاتھ میں دی کہ وہ ان جماعتوں کی کاروائیوں کے ذریعہ اسلام کی وحشی اور خونخوار تصویر پیش کریں!۔ وہ سب فتنہ، خوف اور ایسی تقسیم و اختلاف کے باعث بن گئے جو عالم اسلام کی اجتماعی دنیا میں وجود میں لائی ہیں۔ اس مضمون میں ان تکفیری گروہوں کی تشکیل میں مغربی سیاستوں اور سازشوں ، نیزان جماعتوں سے اپنے منافع کیلئے غلط استعمال کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مضمون نگار کے مطابق داعش جیسے تکفیری گروہوں کیلئے سعودی عرب ایک بہترین اسٹراٹیجک علاقہ ہے ۔ ان کے افکار و عقائد جہمیان کے افکار کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس مضمون میں بحث ہوئی ہے کہ کس طرح تکفیری جماعتوں نے شدت پسندی کی طرف رخ کیا اور ان کے اصول و عقائد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز اسلامی شناخت ختم ہونے کا ڈر، عثمانی بادشاہیت کی ناکامی کے بعد اسلامی خلافت ایجاد کرنا اور ان جماعتوں کے افکار کا وہابی فکر و عقیدہ سے ایک ساتھ مل جانا جیسے عوامل و اسباب کا بھی اشارہ ہوا ہے۔خلافت ایجاد کرنے کی پالیسی سے یہ بات منعکس ہوتی ہے کہ اس میں منافع کا رول اور دشمن کی سیاسی سازش کیا رہی ہے؟!۔ نیز پیسوں کے ذریعہ مختلف مواقف و پالیسیاں و پروگرام خرید کر وحشیانہ کاروائیوں کی نظارت و رہنمائی اپنے ہاتھ میں لے لیں تاکہ مغربی دنیا اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں!۔

ص:112

تکفیری افکار کے اصول اور ان کا سرچشمہ

لطیف موسی الجمنی

موجودہ زمانے میں عالم اسلام کا قلب و مرکز تکفیری جماعتوں کے جرائیم سے درد و رنج میں مبتلاء ہے۔ ان کا سرچشمہ، اصول اور عقائد ، تکفیری وہابیت کے اصول سے لئے گئے ہیں۔ اس مضمون میں عقل کی حجیت و قبولیت، گذشتگان و سلف کی مرجیعت، ایمان، کفر، بدعت، سنت اور سماع موتی (اموات کی قوتِ سماعت ہونا یا نہ ہونا)وغیرہ کے بارے میں تکفیریوں کے سب سے اہم اصول و عقائد کا جائزہ لیا گیا ہے، اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ ان میں تناقض و تضاد موجود ہے اور وہ ضعیف و سست اصول ہیں۔ ان کے عقائد خوارج کے مشابہ ہیں اور ان کے افکار اور اعمال کو دین کے حکم میں شمار نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ اسلام کی بنیاد محبت و رحمت اور مہربانی پر قائم ہے نہ کہ شدت پسندی اور وحشیانہ پن پر!۔

ص:113

علاقائی اور عالمی تبدیلیاں، اور عراق میں داعش کے داخلہ کے علل و اسباب

اسامہ مرتضی سعیدی

گروہ داعش، ایک جدید ظاہر شدہ تکفیری جماعت ہے جو عراقی اقتدار اور عوام کے خلاف مجرمانہ اور شدت پسند کاروائیوں میں مشغول ہے۔ داعش جیسا موجود مختلف پہلووں سے قابل تحقیق و تحلیل ہے۔ اس مضمون میں علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں اور حوادث، نیز عراق میں گروہ داعش کے داخلہ کا جائزہ لیا گیا ہے!۔

ص:114

مخلوقات کی شرارت (اور مجرمانہ اقدامات)۔

ماجد بن أحمد العطیۃ۔

تکفیری جماعتوں کا کارنامہ سیاہ اور سخت سنگین ہے۔ وہ شدت پسند سلوک ، مجرمانہ اقدامات اور اپنے مخالفین کے انسانی اور شرعی حقوق کی پائمالی کی وجہ سے مجرم اور شرور ہیں۔ بیشک انہیں حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ اور منحرف شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں ان کی شرارت و اقدامات کی شدت پسندی کے دلائل کی وضاحت بیان ہوئی ہے!۔

ص:115

مذہبی شدت پسندی اور اسٹراٹیجک قبضہ کے درمیان تکفیری تحریکیں

محمد کبیر

عصر حاضر میں شدت پسندی اسلامی معاشرہ کی ایک بڑی بنیادی اجتماعی اور نفسیاتی مشکل شمار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ اس موجود کی تحقیق سے ان کی پہچان و شناخت کو دوبارہ جانا جائے اور ان کے معرفت کے مصادر و وسائل اور فکری اصول و بنیادیں معین کی جائے۔ اعتدال پسند گروہ کے مد نظر جو اپنا رابطہ صحیح دین سے متعارف کراتے ہیں،وہ افراطی رجحان اور شدت پسندی کو ایک فکری جمود و پسماندگی قرار دے سکتے ہیں۔ جو بیمار کی طرح تین نفسیاتی مراحل (عقلی مرتبہ، احساسی مرتبہ اور کرداری مرحلہ) میں ظاہر ہوتی ہے۔ شدت پسندی ایسے اقتصادی اور اجتماعی شرائط کا نتیجہ ہے جسے اقتصادی قدرت نے ایجاد کیا ہے ، اور یہ صہیوینی شہنشاہیت کے منصوبہ کا ایک اقدام ہے ۔ اس طرح کہ علاقہ اور مقامی طاقتیں اس کے ساتھ ہمکاری اور سمجھوتہ کرتے ہیں تاکہ معاشرے کی ہم آہنگی اور وحدت کو شکار بنائیں!۔ افراطی رجحان، شدت پسندی اور دہشت گردی ، انفرادی اور عمومی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن ایسے اجتماعی حالات کیلئے جو سماج کی بنیادی عناصر میں موجود ہوتی ہے، ایجاد کئے جاتے ہیں۔ نیز حکومتیں انہیں سیاسی میدانوں میں داخل کرکے، ان کی وسعت کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں!۔ اس مضمون میں افراطی رجحان اور شدت پسندی کے مہلک اور ویران کن اثرات کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اعتدال پسندی اور شدت پسندی کے درمیان فرق، صرف رتبہ میں ہے نہ کہ قسم اور دلیل و بنیاد میں۔ لہذا یہ طرزِ فکر اور ان دو کے فکری مصادر ایک ہی ہے۔ جیسے کہ مسئلہ تکفیر کے متعلق، در اصل دونوں قسم کے دینی نظریہ کے اصول میں بنیادی رکن مسئلہ تکفیر ہے ، جو دونوں میں برابر موجود ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ شدت پسندوں میں وہ آشکار و عام ہے لیکن اعتدال پسندوں کے اندر مخفی اور پوشیدہ ہے!۔

ص:116

تکفیری جماعتیں اور مسئلہ فلسطین

راغدہ محمد المصری

تکفیری گروہ داعش اور دیگر تکفیری جماعتوں کی کاروائیاں او راقدامات، اسرائیلی منصوبہ اور سازش کی خدمت میں ختم ہوجاتی ہیں۔ عرب حکومتوں سے جنگ، نیز وحشت و خوف ایجاد کرنا، ناامنی رائج کرنا، یہ سب تکفیری جماعتوں کے اقدامات میں شمار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سے اسرائیل ہمیشہ اس کوشش میں لگا ہے کہ اپنے مخالف عرب حکومتوں کو ناامن بنائے، جدید مشرق وسطی کی تشکیل اور عرب ممالک کو تقسیم کرے!۔ اس بنیاد پر داعش کے سارے اقدامات ، اسرائیلی چاہت اور سیاست کے مطابق انجام پارہے ہیں!۔

ص:117

تکفیری جماعتیں اور اسلامی ممالک میں داخلی جنگوں کی آگ بھڑکانے سے استعماری منصوبوں کی خدمت کرنا

سید ابراہیم التباخ

سیاسی اختلافات اسلام کی پہلی صدی سے رونما ہوئے ہیں۔ لیکن ہرگز اس منحوس اور ناپاک جنگ کی حد تک جس کے موجودہ دور میں ہم گواہ ہیں، تمام تاریخی زمانوں اور حوادث میں نہیں پہنچے ہیں۔ نیز اس طرح اسلامی معاشروں کے جسم اور نظام کو ٹکڑے ٹکڑے میں تبدیل نہیں کیا ہے۔ موجودہ جنگیں اور لڑائیاں دوسرے کسی منصوبہ سے سیراب ہورہے ہیں۔ اس طرح کہ حتی ان لڑائیوں میں استعمال شدہ آلات و وسائل اور طریقہ کار ، اسلامی پوری تاریخ کی لڑائیوں کے وسائل و طریقہ کاروں سے مختلف اور الگ ہیں۔ اس مضمون میں مذہبی ، قبائلی اور قومی جنگوں کی ایجاد،نیز اسلامی معاشرے کے داخلی اور اجتماعی ہم آہنگی اور اتحاد کی نابودی میں تکفیری جماعتوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تکفیری گروہوں کی طرف سے بڑی استکباری طاقتوں کے منصوبوں کیلئے خدمت اور ہمکاری کرنا، تاکہ وہ اسلامی ممالک میں داخلی جنگوں کی آگ شعلہ ور کرکے دنیا پر قبضہ کرنے اور اپنے اقتدار لاگو کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کی بھی بحث پیش کی گئی ہے!۔

ص:118

تکفیری جماعتیں ، عالمی استکباری منصوبوں اور سیاستوں کے آئینہ میں!۔ (مصداقی نمونہ: سوریہ)

مختار خماس

استکباری طاقتیں، دنیا پر اقتدار اورسلطہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ عرب کی قومی تحریکوں کے عروج پر پہنچنے سے اور ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے، استکبار کے مقابلہ میں ثابت قدمی و مقاومت اور مخالفت کا چہرہ سامنے آیا۔ جو میدان کارزار میں بعض کامیابیاں بھی حاصل کرسکا اور استکباری طاقت اور مداخلت میں کمی ایجاد کی۔ تکفیری جماعتیں مخالفت اور مقاومت سے دشمنی (مقاومت کو شکست دینے کا بہترین وسیلہ )کی وجہ سے مقاومت کے اصلی دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر تکفیری گروہوں کے تشکیل پانے او رباقی رہنے میں مدد کرنا، محور مقاومت کمزور کرنے کیلئے عالمی استکبار کا ایک اہم منصوبہ ہے!۔

ص:119

مجرمانہ تکفیر، فریب سےقتل کرنا، دین حنیف اسلام کے قوانین سے انحراف نیز منفور اور خوفناک دہشت گردی کی وسعت کا آغاز

محمد کامل سعادت شریف

افراطی و شدت پسند تکفیر، ایک شرمناک اور خطرناک موجود ہے۔ جس نے ہمیشہ جان نکالنے اور درد دلانے والے مصائب و آفات اسلام کے جسم اور مسلمین کیلئے ایجاد کئے ہیں۔ تکفیری جماعتیں صرف اپنے دینی لوگوں کو مسلمان جانتے ہیں اور اپنے مخالف مسلمانوں کو بیہودہ بہانوں کی وجہ سے، اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ تکفیریوں کا یہ اقدام اور دھوکہ سے بھرا دعوی، ایک بڑا اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اس منحوس اور نامبارک موجود کے اثرات میں تقدس و احترام کی پائمالی، مسلمین کے درمیان کینہ اور تفرقہ کا ظہور، بے گناہ اور شہادتین کا اقرار کرنے والے مسلمین کا قتل عام وغیرہ شامل ہیں۔ اس مضمون میں شدت پسنداور مجرمانہ تکفیر، اس کے اسباب، نتائج اور اس کا علاج جیسے مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے!۔

ص:120

دہشت گردی !۔ (مفہوم، علل و اسباب، مصادر و منابع ، علاج و راہِ حل)

تغرید رشید کاظم

ایک ایسا اہم لفظ جس کے ذریعہ سے مغربی دنیا اسلامی ممالک پر اپنے حملات کا دفاع کرسکے اور دوسرے ممالک کا قبضہ اور تجاوز کرنے کا بہانہ بنا سکے ، وہ لفطِ دہشت گردی اور ٹیریریزم ہے۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں دہشت گردی کی لفظی بحث اور اس کے علل و اسباب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز اس کے خطرات و نقصانات کی بھی تحلیل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک عراق میں دہشت گردی کی تحقیق و تحلیل بیان ہوئی ہے جس نے بعثی حکومت کی مدد سے اپنی موجودگی اور شناخت حاصل کی تھی۔ نیز اسلام کی نظرمیں اس سے مقابلہ کا سب سے اہم طریقہ، تربیتی ، ثقافتی اور فکری میدانوں میں تلاش و کوشش کرنا ہے جو تمام تربیتی مراکز، نشریات ومیڈیا کے اداروں، ثقافتی مراکز، دینی شخصیّات، علماء، سماج شناس بزرگان اور سیاستدان کی ہمکاری سے ممکن ہوسکتا ہے!۔

ص:121

عرب ممالک اور عالم اسلام میں تکفیری موجود، علل واسباب اور طریقہ کار

عبدالقادر محمد طاهر قحّه

تکفیری موجود جوطولانی مدت سے اور صدر اسلام کے زمانے سے اسلام اور مسلمین کی جان پر سوار ہوا ہے۔نیز اس نے اسلام اور مسلمین کیلئے ناقابل جبران نقصانات ایجاد کئے ہے۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں صدر اسلام سے لیکر آج تک تکفیری سلسلہ کے جائزے ، نیز ماہر نفسیات کے انکشافی و حاصل کردہ معلومات کے مد نظر یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کہ اس طرح کے شدت پسند اور افراطی مزاج کے افکار اور عقائد خوارج کی طرف سے وجود میں آئے تھے، اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے خاندانوں اور وراثتی جین (Gene)کے ذریعہ سے ان کے نواسوں میں منتقل ہوگئے ۔ اس بنا پر مضمون نگار کی نظر میں شدت پسندی اور تکفیر سے مقابلہ کا تنہا راہِ حل ، علمی اور دینی لحاظ سے ان افراد اور جماعتوں کے ماضی میں دوبارہ مطالعہ اور تحقیق کرنا ہے۔ اس کے بغیر ، اسلحہ اور طاقت جیسے دوسرے طریقہ کار استعمال کرنا بھی دائمی شکل میں مؤثر اور مفید ثابت نہیں ہوں گے۔ اس مضمون میں عالم اسلام میں تکفیر اور شدت پسندی کے بعض علل و اسباب ، نیز مغربی دنیا کا اپنے منافع کیلئے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کا اشارہ کیا گیا ہے، اور اس سے مقابلہ کا واحد راہِ حل، مسلمین کے درمیان اتحاد اور محبت ایجاد کرنا اور ہر قسم کے اختلاف و تفرقہ ڈالنے اور دشمنی سے دوری کرنا ہے۔ اس مشکل کا سب سے آسان طریقہ مضبوط گفتگو، مذاکرہ اور مناظرہ ہے تاکہ سب کو متفقہ راہِ حل ، قابل قدر کوششوں اور نیک اردوں سے قانع کرسکیں!۔

ص:122

تکفیری بحران پرغالب و کامیاب ہونے کیلئے عالم اسلام کے طریقہ کار

ابراہیم کروماہ

موجودہ زمانے میں تکفیری جماعتوں نے مسلمین اور دنیائے اسلام کیلئے بہت سارے مسائل، مشکلات، خطرات اور نقصانات ایجاد کئے ہیں۔ اس بنا پر تکفیری بحران سے مقابلہ کرنے کے راہِ حل اور طریقہ کاروں کا جائزہ لینا ، ایک اہم اور لازمی بحث ہے کہ جس کا اقدام کیا جانا چاہیے!۔

ص:123

پاکستان میں مسئلہ تکفیر اور اس سے مقابلہ کا راہِ حل!

منور حسین الساجدی

ملکِ پاکستان تکفیری جماعتوں اور جنگجوؤں کیلئے کاروائیوں کا ایک سب سے اہم میدان اور پناہ گاہ شمار ہوتی ہے۔ اس ملک میں تکفیری جماعتوں نے ہمیشہ قتل، عام اجتماعی کشت و کشتار، بمب بلاسٹ اور مقامی مسلمانوں پر حملہ اور لوٹ مار وغیرہ کا اقدام کیا ہے۔ مختلف گروہ، تکفیری فکر وسیع ہونے کے اسباب و دلائل، کاروائیوں کا کارنامہ نیز اقتصاد اور امنیت میں ان کا رول کی شناخت ، اس کے علاوہ تکفیری جماعتوں کی مصیبت سے راہِ نجات کی شناخت، یہ سب اہم مطالب و مباحث ہے جن کی ہمیں اطلاع ہونی چاہیے!۔ اس مضمون میں ان مباحث کی وضاحت ہوگی!۔

ص:124

ص:125

پانچویں جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:126

ص:127

سید قطب کی نگاہ میں مسئلہ تکفیر

مجید فاطمی نژاد (1)

مسلمین کے درمیان مسئلہ تکفیر، عالم اسلام کا ایک اہم ، پیچیدہ اور سنگین ترین مسئلہ ہے۔ تکفیر کے ممانعت میں بہت زیادہ نقل شدہ روایات اور بعض علماء و مفکرین کی تحریر کردہ کتابوں کے باوجود ، موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ اپنے عروج تک پہنچا ہے۔ اسی تناظر میں، بعنوان ایک افراطی جہاد طلب لیڈر ’’سید قطب‘‘ کے افکار اہم رول نبھاتے ہے۔ اسی وجہ سے اس مضمون میں مسلمین کو کافر ٹہرانے کے متعلق سید قطب کے افکار کے اصول و دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اور یہ نتیجہ حاصل ہوا ہے اگرچہ انہوں نے بہت سارے مسلمین کی تکفیر کا حکم دیا ہے، لیکن پیش کردہ شواہد و دلائل کی بنا پر یہ حکم تکفیر مطلق ہے ، نہ کہ معین و خاص تکفیر جس پر تکفیر کے فقہی احکام جاری ہوجائے۔ اس بنا پر مسئلہ تکفیر کے متعلق سید قطب کے تمام کلمات و بیانات ، قابل تأویل و تفسیر ہے۔

اہم کلمات: سید قطب، مسلمین کی تکفیر، خدواند متعال کی حاکمیت، مسلمین کی جاہلیت۔


1- . مدرسہ اہل البیت (ع) کے دار الاعلام تحقیقاتی سینٹر میں محقق.

ص:128

مسلمین کی تکفیر اور قتل کرنے میں ’’القاعدہ‘‘ کے کلامی اصول و دلائل!۔

محمد طاہر رفیعی (1)

آخری چند دہائیوں کے دوران عالم اسلام میں مختلف نکتۂ نظروں کے حامل چھوٹی او ربڑی اسلامی جماعتوں کی تشکیل یابی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس طرح کہ ان میں بعض معتدل مزاج نظریہ کے ہمراہ، کوشش کرتے ہیں اسلامی ممالک کے درمیان دیگر دنیا کے ممالک کے ساتھ حداکثر ہم آہنگی و ہمراہی ایجاد کریں، لیکن ان کے مقابلہ میں، ایسی بعض جماعتیں ہیں جو عالمی نظام کے سامنے کسی قسم کی نرمی دکھانا قبول نہیں کرتے ہیں اور فقط و فقط اسلامی قوانین و پروگرام عملی و اجراء ہونے کی ضرورت پر ، وہ بھی اپنی خاص تفسیر کے ساتھ تاکید کرتے ہیں۔ ’’سلفیہ‘‘ بطور عام، ’’القاعدہ‘‘ بطور خاص کے ذمہ ، دوسری قسم کی جماعتوں کی وکالت و نیابت ہے۔ اس تحریر میں القاعدہ کے شدت پسند اعمال کی دینی حقیقت جاننے کی غرض سے ان کے کلامی اصول و دلائل کی شناخت کی اہمیت جیسے اہم موضوع کا جائزہ لیا جائے گا!۔

اہم کلمات: القاعدہ، بن لادن، عبد اللہ، عزام، کلامی اصول و دلائل، تکفیر۔


1- . المصطفی یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم، امام خمینی تعلیمی و تحقیقی سینٹر میں دین شناسی میں ایم۔ اے کے طالبعلم.

ص:129

شاه ولی الله دهلوی کے افکار خاصکر مسئلہ تکفیر کا جائزہ

احمد رضا باوقار زعیمی

’’ شاه ولی الله دهلوی‘‘ برصغیر کی عظیم فکری شخصیات میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ شاه ولی الله دهلوی، ایک معتدل مزاج فرد تھے اور صحیح اور منقول روایات میں، درست و معقول احادیث کے علاوہ فقہاء اور محدثین کے اقوال اور نظریات کی جمع آوری انجام دیتے تھے اور ان میں ایسے اقوال اور نظریات انتخاب کرتے تھے جنہیں سارے علماء قبول رکھتے تھے۔ اختلافی مواقع پر سب سے صحیح قول و نظریہ انتخاب واختیار کرتے تھے۔ وہ مسلمین کے درمیان موجود اختلاف و تفرقہ کے خطرے سے آگاہ کرنے کے علاوہ مسئلہ وحدت کی تاکید کرتے تھے۔ مسلمانوں میں تکفیری فکر کا وجود، مسئلہ وحدت کی طرف عدم توجہی اور اس کے متعلق دین کی تاکیدی فرمائشات نظرانداز کرنے سے آیا ہے۔ اس مضمون میں یہ کوشش کریں گے کہ شاه ولی الله دهلوی کے بعض افکار و نظریات کا اشارہ کرنے کے ضمن میں، مسئلہ تکفیر کی خاص نکتۂ نگاہ سے تجزیہ وتحلیل پیش کریں!۔

اہم کلمات: شاه ولی الله دهلوی، تکفیر، وحدت، مسلمین۔

ص:130

ابوحنیفہ کے کلام و کردارکے آئینہ میں اموی حکماء

علی اکبر شریفی

موجودہ مضمون میں، توصیفی تحلیلی طریقہ سے یہ کوشش کریں گے کہ امویوں کا سامنا کرنے میں ’’ابو حنیفہ ‘‘ کے نظری اور عملی مواقف کے مختلف اقسام کا تعارف کرائیں۔ نظری سطح پر، ابو حنیفہ اموی سلسلہ ٔ خلافت کو ابتداء سے ہی غیر جائز اور باطل قرار دیتے ہیں، اور معاویہ (اموی دور کا پہلاخلیفہ اور بانی) کو باغی اور ناحق سمجھتے ہیں۔ عملی سطح پر بھی، اموی مخالف قیاموں و تحریکوں کی حمایت کرنے سے لیکر رسول اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) کے بنسبت اس کی عقیدت و مثبت نگاہ ، نیز اس خاندان کی فضائل گوئی اور اسی طرح علویوں سے بہتر و خوش سلوکی تک، یہ سارے امور ابوحنیفہ کے اموی مخالف مواقف کی سرفہرست میں ہیں!۔ نیز دیگر اسباب کی بنا پر مسئلہ ٔامامت اور خلافت میں ابوحنیفہ کے شیعہ طرز کے افکار اور رجحانات ، اس کے اموی مخالف اور علوی موافق طریقہ کار اختیار کرنے کی بنیادی دلیل ہے ، جس کا مضمون کے آخر میں جائزہ لیا گیا ہے!۔

اہم کلمات: اموی ، خلافت، معاویه، ابوحنیفه، اهل بیت(ع)، علوی۔

ص:131

تعلیمات وحی کے نظام میں عبادت کےمعنی کی شناخت اور مسلمین سے کفر و شرک کی تہمت دور کرنا!

فتح اللّہ نجارزادگان (1)

بعض افراد استغاثہ، توسل اور قبور و روضوں سے شفاعت طلبی کی وجہ سے ، مسلمین کو عبادت میں شرک اور دین سے خارج ہونے کا فتوی دیتے ہیں۔ اور اس فتوی سے تکفیری افراد کیلئے ایک مضبوط بہانہ فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ مسلمین کے مرتد ہونے اور قتل کا حکم دیں!۔ یہاں پر ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیونکہ مذکورہ امور عبادت میں شرکت کا باعث بنتے ہے؟۔ اس کے جواب کیلئے اصطلاحی عبادت کی تعریف معلوم ہونی چاہیے!۔

اس مضمون میں ’’عبادت‘‘ کے متعلق شیعہ و سنی مفسرین کے نظریات ذکر کرنے کے ضمن میں، ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور عقلی و نقلی دلائل کے مد نظر عبادت کا معنا ’’پروردگار (رب) کے دربار میں اطاعت کا احساس اور خضوع و تسلیم ہونا‘‘ ہوا ہے۔ لہذا اس طرح عبادت شفابخش زندگی و موت کے گرد نہیں گھومتی ہے بلکہ خداوند کے ربوبیت (پروردگاری اور پالنے والے )کے دائرے میں قرار پاتی ہے۔ اگر عابدو خاضع، جس سے دعا و التماس کرتا ہے یا شفاعت مانگتا ہے، اس کی ربوبیت کے کسی شان ومقام کا قائل نہ ہوگا، اس وقت تک ہرگز اس کا کام عبادت نہیں ہے، اگرچہ شفاعت کرنے والا مردہ (یا بالفرض بی جان پتھر) ہو۔ اور اگر اسے ربوبیت کا کوئی مقام دیا، تو معمولی سا خضوع و خشوع اس کے سامنے دکھائے (اگرچہ شفاعت کرنے والا زندہ ہو)، وہ عبادت میں شرک ہے۔ لیکن چونکہ مسلمین اہل قبور کیلئے ہرگز ربوبیت کی کوئی شان و مقام کے قائل نہیں رہے ہیں، تو انہیں مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا!۔

اہم کلمات: عبادت، پروردگار (رب)، عبادت میں شرک، توسل، استغاثہ، تکفیری افراد۔


1- علوم قرآن و حدیث میں پی ۔ ایچ۔ ڈی، تہران یونیورسٹی کے استاد

ص:132

نفاق اور تکفیر کے درمیان ارتباط کا جائزہ!

رحیم نوبہار (1)

اس مضمون میں اس واقعیت کے مد نظر کہ تکفیر اور مذہبی تحمل نہ ہونا، ہمیشہ یا اکثر طور پر ایک قسم کے شخصی اور اجتماعی نفاق کا باعث بنتا ہے۔ دینی مصادر میں عقلی طریقہ سے نفاق کے مذموم ہونے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ کافر ٹہرانا اودینی و مذہبی تحمل نہ ہونابھی،سخت مذموم و منفی امر ہے۔ اس مضمون میں تکفیری فکر کی ثقافتی اور ذہنی وجوہات پر توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکفیر کس طرح ایمان حتی معرفت اور عملی سلوک کے دائرے میں رسوخ کرتا ہے۔ ایک طرف سے اخلاق اور دوسری طرف سے دینی علم و معرفت کی نورانیت کو تباہ کرتا ہے۔ تکفیری افکار کی عمل پر مبالغہ بھری تاکید اور دین کے باطنی اور معنوی پہلووں کے انکار میں اس ظاہرپسندی کا رول ذکر ہوا ہے اور آخر پر تکفیر ی موجود کے منفی صورتوں سے مقابلہ کیلئے طریقہ کار پیش ہوئے ہیں!۔

اہم کلمات: تکفیر، نفاق، بدعت، ظاہر پرست۔


1- . دینی حوزوی محقق،اور شہید بہشتی یونیورسٹی کے ماتحت علم حقوق کالج کی علمی کمیٹی ممبر.

ص:133

تکفیری سلفیوں کی نظر میں تقلید

حسین توانا (1)

تمام چاروں مذاہب اپنے مذہب کے امام سے مخصوص تقلید کے قائل ہیں۔ لہذا حنفی لوگ کبھی بھی احمد حنبل اور دیگر باقی ائمہ کی تقلید نہیں کریں گے، نیز اسی طرح شافعی لوگ بھی صرف محمد بن ادریس شافعی کی تقلید کریں گے اور ان کے مجتہدین فقط اپنے مذہب میں اجتہاد کرتے ہیں۔ لیکن وہابیوں اور تکفیری سلفیوں نے اس عقیدہ کو تحمل و قبول نہیں کیا اور تقلید کا ہی انکار کردیا ، بلکہ حتی موجودہ زمانے میں بھی اجتہاد کے قائل ہوئے ہیں۔ ابن تیمیہ تمام مسلمانوں پر امکان کی صورت میں اجتہاد واجب قرار دیتا ہے۔۔۔ ۔ اصول و فروع دین میں اہل سنت کے مذاہب کو گذشتہ صالح بزرگان (سلفِ صالح) کے خلاف جانتا ہے اور ان بزرگان کا مذہب ، اشعری اور ماتریدی اقوال و نظریات کے برخلاف متعارف کراتا ہے، یہاں تک کہ ان مذاہب کے نظریات کو شرک سمجھتا ہے اور ان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسلام کے منکر و اسلام سے خارج قرار دیتا ہے۔ اس مضمون میں مؤلف نے چار مذاہب کی تقلید کے متعلق تکفیری سلفیوں کی نظر تین قسموں میں بیان کی ہے: شرک کی بنا پر، بدعت کی بنا پر اور حرام ہونے (حرمت) کی بناپر۔ اس کے بعد ان کی دلائل کی تنقید پیش کی ہے اور آخر کار، تقلید کے جائز ہونے کے دلائل بیان کی ہے؛ یعنی: قرآنی آیات، عقلاء کی سیرت، مسلمین کی سیرت، اجماع اور عسروحرج (ضرر و مشکل)۔ تکفیری سلفی افراد کے اس فکر کے مقابلہ میں ، دیوبندی جیسے بعض سلفی گروہوں نے اس تکفیری عقیدہ کی دنیا میں شدت سے مخالفت کی ہے۔ اس کے کچھ نمونے اس مضمون میں ذکر ہوئے ہے۔ مضمون نگار نے آخر پر الفوزان نامی وہابی کا ایک کلام نقل و اس کی تنقید بیان کی ہے۔

اہم کلمات: تکفیری سلفی گروہ، تقلید، اجتهاد، چار مذاہب (مذاهب اربعه)، وهابیت۔


1- مدرسہ اہل البیت علیهم السلام کے دار الاعلام تحقیقاتی سینٹر میں محقق اور اسلامی مذاہب میں ایم۔ ایے کے طالبعلم.

ص:134

اسلامی فرقوں اور تکفیری جماعتوں کی نظر میں بدعت و سنت

فریدہ اصغری (1)

سنت اور بدعت ایسے دو لٖفظ ہے جو ہمیشہ علمی اور دینی محفلوں میں ذکر ہوتے رہے ہیں اور مسلم مفکرین نے ان کے معنی اور مصادیق کے بارے میں بحث اور تبادلۂ خیال کیا ہے۔ بارہویں ہجری کی صدی میں وہابیت کے ظہور سے، ان لفظوں نے جدید معنی اور مصادیق پیدا کئے۔ تکفیریوں نے بغیر تحقیق کے، جس چیز کا بھی تاریخ اسلام کی چند ابتدائی دہائی میں سابقہ نہیں رہا ہے، اسے ’’بدعت ‘‘ قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے انجام دینے کی وجہ سے بدعت گذار اور کافر کہتے ہیں!۔

سوال: اس تحقیق میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش ہوئی ہے کہ کیا ہر وہ چیز جو صدر اسلام میں سابقہ نہیں رکھتی ہے، بدعت ہے؟!۔

فرضی جواب: قرآن کریم اور مسلمین کی قبول کردہ سنت میں مذکور شرائط کے مد نظر، اگر کسی جدید عمل کا انجام دینا، شریعت میں مداخلت نہ ہو اور شرعی دلیل کے اطلاق، عمومیت اور یا مضمون و مفہوم میں موجود ہو، تو وہ اصطلاحی بدعت نہیں ہوگی!۔

ہدف: بدعت کے بہانے سے مسلمین کی تکفیر سے روکنے کیلئے تکفیریوں کے دلائل باطل قرار دینا، نیز مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہم دلی و ہم فکری ایجاد کرنا، سارے اسلامی ممالک میں امن و امان اور صلح وسکون برقرار کرنا، یہ سب اسلامی و انسانی معاشرے کی موجودہ ضرورت ہے!۔

طریقہ: اس طرح کا عظیم ہدف دریافت و حاصل کرنا، قرآن کریم کی آیات ، معتبر و صحیح اور سارے اسلامی فرقوں کی قبول کردہ سنت نیز تمام زمانوں میں مسلمین کی سیرت کے مطابق ممکن ہے!۔


1- . اسلامی حقوق کے فقہ و اصول میں ایم۔ اے، جامعہ الزہرا(س) کی فارغ التحصیل.

ص:135

نتیجہ: قرآن کریم کی آیات اور معتبر و صحیح سنت جسے حتی وہابی بھی قبول کرنے پر مجبور ہیں، اسی طرح تمام ادوار میں مسلمانوں کی سیرت کی بنیاد پر، ہر نئی اور جدید چیز بدعت نہیں ہے۔

اہم کلمات: بدعت، سنت، بدعت گذار (بدعت ایجاد کرنے والا)، تکفیری وہابیت۔

ص:136

تکفیری جماعتیں اور خواتین کے حقوق

محبوبه کوہستانی

موضوع کی وضاحت:

مختلف معاشروں میں طولانی مدت سے خواتین، ان کی بنسبت خامیاں اور ضروری اقدامات مفکرین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں خواتین کے مسائل اور محدودیت کے متعلق ، قابل توجہ اجتماعی افکار ، نظریات اور مباحث تحریر ہوئے ہیں۔ مختلف زمانوں میں خواتین، مردوں کے ہاتھوں مختلف طرح کے شدت پسند اعمال کے شکار ہوئی ہیں اور ہمیشہ اس طرح مظالم اور صنفی تبعیض کے مقابلہ میں متعدد تحریکیں وجود میں آتی رہی ہیں۔ ان اعمال کا دائرہ صلح اور جنگ کے وقت وسیع ہوجاتا ہے اور افسوس سے جنگ اور لڑائیوں کے زمانے میں خواتین کے خلاف ان اعمال میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے!۔

اس تحریر میں بنیاد پرست ، تکفیری جماعتیں اور خواتین کے آلہ کاراستعمال کے درمیان رابطہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بنیاد پرست خواتین کے بارے میں کیا کہتے ہیں، ان کی تقدیر پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں اور کس طرح بنیاد پرست جماعتیں خواتین کو اپنی فکری اعمال کیلئے قربان و استعمال کرتے ہیں؟!، ان جیسے امورکی اس موضوع میں تحلیل و تجزیہ ہوگا۔ ان جماعتوں کے ذریعہ خواتین کا آلہ کار کے طور پر استعمال کی مختلف صورتیں چند عناوین کے ذیل میں قابل تحقیق ہے۔ ایک شکل یہ ہے کہ، ان گروہ میں ان عورتوں کا عضو و ممبر بننا، اور دہشت گرادنہ اقدامات اور خودکش کاروائیوں میں متحرک عناصر کے عنوان سے ان کا استعمال کرنا۔ دوسری حالت یہ ہے کہ، اپنے دائرۂ اختیار کے ماتحت مسلم و غیر مسلم خواتین پر مختلف قسم کی محدویت ایجا د و اجراء کرنا، جو بیشتر حصول علم اور شغل جیسے انسانی و اجتماعی حقوق اور عمومی طور پر معاشرے میں ان کی موجودگی کی ممانعت میں ظاہر ہوتی ہے۔ آخر کار ایک اور شکل یہ ہے کہ، زبردستی شادی، عصمت دری اور جنگجوؤں کو جنسی خدمات فراہم کرنے کی صورت میں خواتین کا مختلف جنسی استعمال کرنا۔ عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ

ص:137

ہردن خواتین، ان سلسلوں اور جماعتوں کے طرح طرح کی مختلف و جدید شدت پسند اعمال و سختیوں کا شکار بنتی ہیں اور یہ سلسلہ ماضی کی طرح برابر جاری ہے!۔

خواتین کے بنسبت بنیاد پرست جماعتوں کا غیر انسانی سلوک چند فرضوں پر استوار ہے۔

ایک طرف سے، ان جماعتوں کے پیروکار خواتین کو اقتصادی شعبہ میں مؤثر و مفید عنصر نہیں سمجھتے ہیں، لہذا ان کی نظر میں خواتین کی انفرادی اور اجتماعی صلاحیتیں اجاگر یا پیشرفت کرانے ، اور علم حاصل کر نے یا تعلیم جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس فکر کی بنا پر، عورت کی بنیادی اور اصلی ذمہ داری شوہر کی مکمل اطاعت کرنا، اسے تمکین و رضایت فراہم کرنا،فرزند پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا ہے۔ دوسری طرف سے، ان جماعتوں کے بہت سارے قائدین اور پیروکارخواتین کو فتنہ و فساد کا سبب سمجھتے ہیں، لہذا اجتماعی شعبوں میں ان کی موجودگی روکنے کیلئے مختلف قسم کی محدودیت عمل میں لاکر، ان کی کوشش یہ ہے کہ فساد اور فحشاء پھیلنے سے روک سکیں ، اپنی نظر کے مطابق اسلامی احکام پرعمل کرسکیں اور اس طرح سو فیصد ایک اسلامی معاشرے کی بنیاڈ ڈال سکیں!۔ لیکن ایک اور طرف سے، اس نکتۂ نظر کے بجائے ان جماعتوں کے بعض رہبروں کا عقیدہ یہ ہے کہ خواتین اس قسم کے اقدامات میں شرکت کرنے سے خواہ وہ جنگجوؤں کو جنسی خدمات فراہم کرنے کی شکل میں ہو یا ان جماعتوں کی کاروائیوں میں نمایاں شرکت کی شکل میں ہو، ہر صورت میں وہ اخروی و جاوید سعادت کو حاصل کریں گی!۔

اس مضمون میں پہلے خواتین کے حقوق ضائع و سلب کرنے میں بنیاد پرست جماعتوں کے اس قسم کے اقدامات کے بعض نمونوں کی مختصر تشریح بیان کریں گے۔ پھر عالمی اسناد کی تحقیق ، بین الاقوامی جزائی حقوق کی نظر میں انسانی حقوق کے عالمی نظام میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں گے۔ آخر میں ان اقدامات کے مقابلہ میں عالمی اداروں اور ان کی کاروائیوں کے رول کی بھی تحلیل و تجزیہ بیان کریں گے!۔

اہم کلمات: بنیادپرستی (بنیاد گرائی)، دہشت گردی، تکفیری سلسلے اور جماعتیں، عالمی حقوق، خواتین کے حقوق صائع و سلب کرنا، جنسی زبردستی۔

ص:138

عصر حاضر میں سیاسی اسلام اور سلفی رجحان سے اس کی فرق!۔

محمود فلاح (1)

موجودہ زمانے میں "سیاسی اسلام اور سلفی رجحان" زیادہ استعمال ہونے والی دو اصطلاح ہیں۔ ان دو اصطلاح میں آپس میں مختلف لحاظ سے فرق ہے اور دونوں کی یہ فرق جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ اس مضمون میں ان اصطلاحوں کی فرق کی وجہ،دونوں کے متعلق مواقع اور مشکلات و مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے!۔


1- حوزہ علمیہ قم کے محصل اور علوم سیاسی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم.

ص:139

قتل کرنا، دہشت گردی اور بشر دوستانہ حقوق!۔

مہزاد صفاری نیا (1)

عالمی نظام کو بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصہ میں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کے مقابلہ میں خاص دہشت گردی اقدامات کے متعلق معائدوں کا ایک مجموعہ اور حکومتوں کی طرف سے مسؤلیت قبول کرکے، عکس العمل دکھایا۔ دوسری عبارت میں، دہشت گردی کے متعلق قانون تصویب کیا جو ابتداءمیں صرف غیرفوجی افراد کیلئے مؤثر اقدامات پر مشتمل تھا، اور بتدریج اس میں وسعت آئی ، یہاں تک کہ فوجی کارکنان اور اداروں کے خلاف بعض دہشت گردانہ اعمال کو بھی شامل کیا گیا۔ اس مضمون میں ہم یہ کوشش کریں گے کہ بین الاقوامی قانون تصویب کرنے اور بشر دوستانہ حقوق کے درمیان موجود تحرّک و تلاش کا جائزہ لینے کے علاوہ، دہشت گردی کے ساتھ جنگ میں موجود کمی و نواقص بیان کریں!۔

اہم کلمات: قتل کرنا (ٹیریر)، دہشت گردی، اندرونی اور عالمی مسلح لڑائیاں اور جنگ، بشر دوستانہ حقوق۔


1- . پردیس البرز تہران یونیورسٹی میں عمومی بین الاقوامی حقوق میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم.

ص:140

اسلامی رجحان کے مقابلہ میں ایک اہم مسئلہ و چلینج کے عنوان سے تکفیری جماعتوں کے رشد سے لاحق خطرات و مشکلات کی شناخت!۔

شهروز ابراهیمی (1)

علی اصغر ستوده (2)

اسلامی رجحان و رغبت، ایسا مسئلہ ہے جو آخری چند صدیوں میں عالم اسلام میں ایک سب سے مرکزی و قابل توجہ بدلاؤ میں تبدیل ہوا ہے ، اور سنۂ 1979 عیسوی میں ایران میں اسلامی انقلاب کے ظہور سے، وہ مغربی لیبرل ڈموکریسی کے مقابلہ میں ایک سیاسی دینی نظام کا ماڈل پیش کرنے کیلئے زیادہ با صلاحیت اور طاقتور بنا ہے!۔ مشرق وسطی میں آخری حوادث و تبدیلیوں ’’عرب ممالک میں انقلاب‘‘ کے آغاز سے یہ موقعہ فراہم ہوا کہ ایرانی اسلامی جمہوری کا سیاسی نظام، مغربی دنیا سے وابستہ ظالم حکومتوں کی جگہ مناسب متبادل کے طور پرسامنے آجائے!۔ لیکن اس فرصت کو مشرق وسطی میں مقامی اور غیرمقامی طاقتوں کی طرف سے دنیوی و معنوی حمایت ملنے والی تکفیری جماعتوں کے ظہور و رشد سے سخت مسئلہ کا سامنا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں اس تحقیق کا مرکز موجودہ مسائل و چلینجز سے لاحق خطرات و مشکلات کی شناخت اور ان سے مقابلہ کیلئے راہِ حل پیش کرنا ہے۔ اس مضمون کا اہم و مرکزی سوال یہ ہے کہ: علاقہ اور عالم اسلام میں اسلامی رجحان و تمائل کی پیشرفت پر، تکفیری جماعتوں کے پھیلاؤ سے کیا منفی اثر پڑے گا؟!۔ تکفیری گروہوں کے رشد سے اسلامی رجحان کو دوبنیادی اعتبار سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا: ا ۔ اسلامی معاشروں میں شیعہ و سنی بنیاد پر تقسیم کرنا؛ 2۔ سلفی تکفیری جماعتوں کے جمود پرست ، شدت پسند سلوک سے متأثر ہوکر، مغربی لیبرل ڈموکریسی کے مقابلہ میں ایک متبادل کے عنوان سے اسلامی رجحان کی دلچسپی اور جذابیت میں کمی واقع ہونا۔ اس مضمون میں طریقۂ تحقیق، توصیفی و تحلیلی ہے اور اطلاعات کی جمع


1- اصفہان یونیورسٹی کے علوم سیاسی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور علمی کمیٹی ممبر.
2- گیلان یونیورسٹی میں بین الاقوامی موضوع میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم.

ص:141

آوری کتابی و انٹرنیٹ کے مصادر سے حاصل ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں اسلام رجحان کے سامنے تکفیری سلسلوں وجماعتوں سے لاحق خطرات و مشکلات دور کرنے کی خاطر، ایسےراہ حل پیش ہوئے ہیں جو دو طریقوں میں قابل تحلیل ہے: ایک یہ کہ اسلامی گروہوں اور ممالک کے درمیان وسیع ڈیپلومیسی روابط برقرار کرنا، اور دوسرے یہ کہ تکفیری جماعتوں کے پھیلاؤ سے سخت و شجاعانہ فوجی مقابلہ کرنا!۔

اہم کلمات: تکفیری سلسلے و جماعتیں، علاقائی طاقتیں ، عالمی طاقتیں، اسلامی انقلاب، سیاسی اسلام۔

ص:142

قائد انقلاب امام خامنہ ای کی نگاہ میں تکفیری جماعتوں کے خطرات کی شناخت اور ان سے مقابلہ کے طریقہ کار!

علیرضا دانشیار (1)

اس تحقیق میں قائد انقلاب امام خامنہ ای کی نگاہ میں تکفیری سلسلوں اور جماعتوں سے لاحق خطرات کی شناخت تین سطحوں: عقائد، اخلاق اور سلوک و عملی طریقہ کار میں بیان ہوئی ہے۔ اسی لحاظ سے قائد انقلاب کی نظر میں تکفیری جماعتوں سے لاحق خطرات و مشکلات سے نجات اور مقابلہ کے طریقہ کار کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ عقائد اور اعتقادات کی سطح پر، تکفیری جماعتوں کے پاس ، توحید، شرک اور دوسرے سارے دینی مفاہیم کا مطالعہ و فہم ناقص ، بدعت آمیز اورغیر معقول ہے۔ اخلاقی زمرے میں ، ان کی سب سے اہم خصوصیت ’’جہالت‘‘، بے علمی اور ایک قسم کی اندرونی برائی ہے جو انہیں حقیقت سے دوری، بے پرہیزگاری اور برائیوں اور تباہی کے دلدل میں سقوط کرنے کا باعث بنی ہے۔ سلوک اور عملی طریقہ کار کے میدان میں،انفرادی لیول پر ان کی سب سے اہم خصوصیت جنگ و مخالفت طلبی، شدت پسندی، فساد کی ترویج، قتل اور آخرکار جرائم اور خون بہانا ہے۔ جبکہ اجتماعی سطح پر، ان کی اہم ترین خصوصیت مسلمین کے درمیان تفرقہ و اختلاف کی آگ شعلہ ور کرنا، تہذیب و ثقافت کی نابودی اور اسلامی دشمنوں کی حمایت و تقویت کرنا قرار دیا جاسکتا ہے!۔

مذکورہ مسائل کے مطابق، تکفیری گروہوں سے لاحق خطرات اور مشکلات سے نجات بخش طریقہ کار و راہ حل، دو سطحوں ’’فکری ثقافتی اور سیاسی‘‘ میں بیان ہوئے ہیں۔ فکری و ثقافتی زمرے میں، ان خطرات سے مقابلہ کیلئے یہ اشارہ ہوسکتا ہے کہ امت اسلامی کو اسلامی مذاہب کی گفتگو اور تقریب و وحدت، شیعہ اور اہل سنت کے درمیان موجود مشترکہ امور پر افہام و تفہیم، اختلاف ایجاد کرنے اوراسے شدت دینے والے عناصر سے دوری، قرآن کی طرف واپسی ،نیز تفرقہ


1- معارف اسلامی یونیورسٹی قم میں اسلامی انقلاب مطالعات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم، المصطفی بین الاقوامی یونیورسٹی کے شعبہ ٔتحقیقات کےمحقق(سیاسی مطالعات و اسلامی انقلاب) اورحوزه علمیه قم میں محصّل.

ص:143

روکنے اور دنیائے اسلام کے اتحاد کے متعلق قرآنی آئیڈیالوجی کا دقیق مطالعہ وغیرہ انجام دینا لازمی ہے!۔ سیاسی راہ ِ حل کے طور پر ،مسلمین کے درمیان ہم فکری اور وحدت، دشمن کی شناخت اور اسے باطل قرار دینے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اس طرح خطرات کی شناخت اور ثقافتی اور سیاسی لیول پر ہم فکری و ہم آہنگی والے راہ حل بروئے کار لانے سے ، عالم اسلام میں تکفیری سلسلوں اور جماعتوں کی وجود نابود کیا جاسکتا ہے!۔

اہم کلمات: خطرات و مشکلات کی شناخت، تکفیری سلسلے اور جماعتیں، عقائد، اخلاق، سلوک و عملی کردار، طریقہ کار و راہِ حل

ص:144

پاکستان میں متحرک تکفیری جماعتیں اور ان سے مقابلہ کے طریقہ کار!

سید توقیر عباس کاظمی (1)

پاکستان بیسویں صدی میں ایک جدید ملک بن کر سامنے آیا ہے جو سنۂ 1947 عیسوی میں ہندوستان سے جدا ہوا اور ایک اسلامی مستقل ملک بنا۔ سلفی اور تکفیری جماعتوں کی افراطی فکر جو اپنے عقیدہ کے مخالف تمام اسلامی مذاہب کو کافر ٹہراتے ہیں اور ان کے خلاف شدت پسند اقدامات کے مرتکب ہوتے ہیں، یہ فکر ستّرویں کی دہائی کے اواخر میں بعض سابقہ پاکستانی حکمرانوں کے توسط سے اس ملک میں داخل ہوئی اور پھر وہاں وسیع سطح پر پھیلی!۔

اس تکفیری سلسلہ نے سنۂ 1980 عیسوی (ایرانی اسلامی انقلاب کے ابتدائی سالوں)میں تنظیمی شکل میں اپنی کاروائی کا آغاز کیا ۔ اس دوران پہلی تکفیری تنظیم ’’سپاہ صحابہ‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ کچھ مدت بعد ، ’’لشکر جنہگوی‘‘ کے عنوان سے اس کی دوسری جماعت تشکیل پائی۔ اس کے بعد سنۂ 2006 عیسوی میں ایک اور تکفیری گروہ ’’پاکستانی تحریک طالبان‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ ان تینوں تکفیری جماعتوں نے ابھی تک پاکستان میں بھی جہاد کے نام سے نہایت ہی پست اور ذلت آور جرائم انجام دئے ہیں، اس طرح کہ اس ملک میں شیعہ اور سنی دونوں ان منحوس جماعتوں سے تنگ آئے ہیں!۔

پاکستان میں متحرک تکفیری سلسلہ مختلف منافع و اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے کہ ان میں معاشرے پر تکفیری افکار زبردستی جاری کرنا، آنے والی نسلوں تک شیعہ ثقافت منتقل ہونے سے روکنا، سیاسی لیول پر مکتب شیعہ کی ترقی روکنا، شیعوں کے درمیان ایرانی اثر و رسوخ سے مقابلہ کرنا اور سماج میں اہل شیعہ کمزور کرنے کیلئے کوشش کرنا وغیرہ جیسے بعض امور کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے!۔


1- حوزہ علمیہ میں محصّل ور المصطفی یونیورسٹی کے محقق.

ص:145

پاکستان میں تکفیری جماعتوں کے کارنامہ کی فہرست لمبی ہے کہ تکفیری افکار کی وسعت کیلئے کوشش کرنا، شیعہ نمایاں مفکرین کا قتل کرنا، بمب بلاسٹ کرکے قتل عام کرنا اور خودکش حملات انجام دینا وغیرہ ان کی بعض کاروائیاں شمار کی جاسکتی ہے!۔

پاکستانی عوام کی سیاسی اور اجتماعی صورتحال کے مد نظر، اس ملک میں متحرک تکفیری جماعتوں کے ساتھ مقابلہ کیلئے متعدد مفید و عملی طریقہ کار اور راہ حل موجود ہیں جنہیں تین طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

الف) پاکستانی حکومت کیلئے عملی طریقہ کار: تکفیری کاروائیوں کو ختم کرنے کیلئے مضبوط سیاسی ارادے کا حامل ہونا، حکومتی مقامات پر موجود تکفیری افکار رکھنے والے افراد کی برکناری، یونیورسٹیوں میں تعلیم اور میڈیا پر مکمل نظارت رکھنا۔

ب) پاکستانی عام مسلمین کیلئے عملی طریقہ کار:اسلام کے اصول و بنیادوں کی مکمل آشنائی اور ان کے بنسبت عملی ضمانت و ذمہ داری، تکفیری جماعتوں اور ان کی سازشوں کی آگاہی اور تکفیری جماعتیں اور ان کے برے منافع و اغراض متعارف کرنا۔

ج) پاکستانی شیعوں کیلئے عملی طریقہ کار: ملکی و قومی سطح پر مکتب شیعہ کے خالص و حقیقی عقائد و تعلیمات نشر کرنا، مکتب تشیع کے متعلق تہمتوں کے مقابلہ میں مضبوط تدابیر و راہ حل ایجاد کرنا، سیاست اور حکومتی دائرہ کار میں متحرک موجودگی اور اسلامی وحدت و ہم آہنگی کیلئے کوشش کرنا

اہم کلمات: پاکستان، تکفیری سلسلے و جماعتیں، شیعہ ، اہل سنت۔

ص:146

تکفیری جماعتوں کے سلوک و کردار کا مستقبل

مصطفی حسینی گلکار

تکفیری سلسلے و گروہ ہمیشہ اسلامی معاشرے کی طرف سے محکوم و مردود ٹہرائے گئے ہیں۔ لیکن ان کے ظہور و سقوط کے دور کے متعلق سماج کو مطلع رکھنے کیلئے،علمائے اسلام کی دائمی کوشش لازمی ہے تاکہ ہر دور میں ان سے مقابلہ کے طریقہ کار سے وہ آشنا ہوجائے۔ اس بارے میں یہ نظرانداز نہ کیا جائے کہ تکفیریوں کا فکری مصدر ایسا ہے جس کا اصلی ہدف ماضی کی طرح ، حال اور مستقبل میں بھی ظاہر ہونے والاہے۔ اسی وجہ سے تکفیری فکر سے مقابلہ اصلی درد و ضرورت ہوگی!۔

دوسری طرف سےمستقبل کی تحقیق بعنوان علم، ایک مستقل اجتماعی اور علمی اقدام ہے، البتہ متعدد علوم کا کام حتی کسی علمی شعبہ سے بالاتر ، دیگر علوم کے ہمراہ اضافی و مفید علمیت کا مقام دیا جاسکتا ہے اور تجزیہ وتحلیل نیز انسانی و اجتماعی علوم کے مسائل کے راہ حل کیلئے مضبوط آلہ کار بن سکتا ہے۔

اس مضمون میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ سناریو طریقہ ( بعنوان ایک مستقبل کی تحقیق کا اہم وسیلہ) سے تکفیری فکر اور اس سے مقابلہ کا جائزہ لیا جائے۔

تکفیری جماعتوں کے تجزیہ وتحلیل کا مطلب یہ ہے کہ درپیش واقعی غیر یقینی امور ، تکفیری فکر کا انتشار اور ان کے بنسبت میڈیا کا عکس العمل موجود ہیں۔ دوسری عبارت میں یہ کہ (مستقل فرض کی بنا پر) یہ دو عنصر، اس طریقہ کی چار قسموں کا دائرہ مشخص کرنے کے علاوہ، تکفیری جماعتوں سے عالم اسلام کے مقابلہ کی مختلف صورتیں معین کرسکتے ہیں!۔

یہ سناریو طرزِ تحقیق یہاں پر تکفیری سلسلوں کا آج اور کل سامنا کرنے میں، فیصلہ کرنے والے افراد اور اہل علم و سیاست کو درپیش موجود مبہم امور کی وضاحت کرتی ہے ، اور اس کے علاوہ اس مسئلہ کے متبادل احتمالات معین کر کے، تکفیری اقدامات سے مقابلہ کیلئے راہ حل پیش کرتی ہے!۔

ص:147

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سناریو طریقے اپنے اجزاء کے درمیان معقول ارتباط برقرار کرکے ، نیز مسئلہ کی وسیع تصویر کی مدد سے اسلامی فرقوں اور علماء کے درمیان اتحاد اور ہم فکری ایجاد ہونے کیلئے قانع کرنے کی بڑی طاقت ہاتھ میں دیتے ہیں تاکہ تکفیری جماعتوں کے خلاف اقدام کیا جائے!۔

اہم کلمات: مستقبل کی تحقیق، تکفیری فکر، سناریو، اسلامی فرقوں کا اتفاق (وحدت و اتحاد)، میڈیا اور اجتماعی اقدام۔

ص:148

ص:149

چھٹی جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:150

ص:151

وہابی سلفی اور جہادی سلفی جماعتوں کی نظر میں مسئلہ تکفیر کا جائزہ

مجید فاطمی نژاد

وہابی علماء کے درمیان مسئلہ تکفیر کی تبدیلی تین مراحل میں قابل تحلیل و بیان ہے: ا۔ مسلمین کی تکفیر کا ابتدائی ، منظم کرنے نیز اس کے لئے موقعہ فراہم کرنے کا مرحلہ ، جو ’’ابن تیمیہ‘‘ او اس کے شاگردوں کے توسط سے انجام پایا۔ 2 ۔ تکفیر میں افراط و زیادتی اور مسلمین کا قتل عام کا مرحلہ جو ’’محمد بن عبد الوہاب‘‘ کے ذریعہ عمل میں آیا۔ 3۔ وہابی افراطی جماعتوں کے جرائم سے اپنے نجات و دوری کے لئے افراطی مواقف و نظریات سے واپسی کا مرحلہ۔ تمام ان تینوں مرحلوں میں، کفر و ایمان کا ضابطہ اموات سے مدد طلبی اور قبور سے توسل کرنے پر استوار ہے۔ جبکہ ’’معین‘‘ اور غیر معین تکفیر کے معیار میں فرق ہے ، لیکن محمد بن عبد الوہاب نے ’’مطلق‘‘ تکفیر کی جگہ، ’’معین‘‘ تکفیر اور ’’کفر اکبر‘‘ کے بجائے، ’’کفر اصغر‘‘ قرار دیکر اس مسئلہ کا سبب بنا کہ تکفیری معاملہ میں شدت پسند ی و زیادتی اپنے اوج تک پہنچ گئی اور بہت زیادہ جرائم انجام دئے گئے۔ جہادی سلفی علماء جو خداوند کے اقتدار پر تاکید کرتے ہیں، حاکم سے کسی بھی طرح کی مدد اور اس کی اطاعت کو کفر کا ضابطہ قرار دیا ہے اور اسلامی معاشرے کو جاہل قرار دیکر ، مسلمین کے تکفیر کے لئے راستہ ہموار کیا ہے۔ انجام شدہ جائزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے وہ لوگ معین تکفیر کے درپی نہیں رہے ہیں بلکہ ان کی تکفیر بیشتر سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے رہی ہے!۔ لہذا ان کے بیانات معین تکفیر پر جاری نہیں کئے جاسکتے۔ تکفیری افراطی جماعتیں جو اپنے اغراض حاصل کرنے کے لئے خو دکو جہادی سلفیہ کے نام سے متعارف کراتے ہیں، در اصل وہ محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار ہیں جنہوں نے اعتقادی، سیاسی اور اجتماعی پہلوؤں میں مطلق تکفیر کے بدلے میں معین تکفیر کا استعمال کیا ہے اورسلفیہ خود وہابی جہادی میں تبدیل ہوئے ہیں ۔ لیکن موجودہ شرائط و مصالح کی ضرورت کی وجہ سے ، وہ اپنے آپ کو ’’سید قطب‘‘ کے افکار یا دوسرے جہادی مفکرین کے پیروکار قرار دیتے ہیں!۔

اہم کلمات: ابن تیمیه اور وہابی علماء، سید قطب اور جہادی علماء، تکفیری جماعتیں، ایمان اور کفر، مطلق اور معین تکفیر۔

ص:152

افغانستان میں طالبانی تکفیری جماعت اور ان کے جرائم

عبدالمؤمن امینی

طالبانی تکفیری تحریکی سلسلہ کے افکار اور تشکیل یابی کی بنیاد کے جائزے سے یہ معلوم ہوا کہ اس گروہ نے شریعت کی یقینی رجحان (یعنی اپنے مسلک کو واحد حقیقت سمجھ کر اس پر یقین کامل رکھنا)اور سطحی فکر اور معمولی آشنائی کے ہمراہ، وہابی عقائد کو پشتو قبیلہ کی سنت کے ساتھ ملایا ہے نیز شدت پسندی اور وحشیانہ سلوک سے ان کو دینی تعلیمات کی شکل میں افغانی مسلم عوام پر زبردستی جاری کیا!۔

موجودہ تحقیق میں ابتداء میں وہابی علماء کی موجودگی اور ان کے توسط سے افٖغانستان سے ملتی پاکستانی سرحدی ملحقہ علاقوں میں قبائل کے درمیان مذہبی مدارس کی بنیاد ڈالنے کی توضیح پیش کی گئی ہے اور پھر طالبانی مذہبی فکر کی بنیاد اور تشکیل یابی کے جائزے سے روشن ہوا ہے کہ اس جماعت کےعقائد ، پاکستان کےمذہبی تکفیری پشتو علماءسے حاصل شدہ ہے ۔ نیز قومی امنیت کا فقدان، جنگجو رہبروں میں باصلاحیت افراد کا نہ ہونا، خشک عقائد اور مذہبی تأثیر پذیری وغیرہ سے افغانستان میں اس گروہ کے بنیادی و مرکزی وجود کے ظہور و تشکیل کا موقعہ فراہم ہوا۔ طالبان کے رشدو ترقی اور وسعت میں سعودی عرب اور امریکہ کی مالی، سیاسی اور فوجی معاونت کا مؤثر رول رہا ہے۔ اسی وجہ سے طالبانی عقائد اور فکری اصول و معیار، پاکستان اوردنیا کے دوسری علاقوں میں موجود تکفیری وہابی جماعتوں کی طرح ، عقل کی مخالفت، فکری جمود، عقیدہ و قومیت کے مخالفین کو کافر ٹہرانا اور توسل و استغاثۃ کو حرام قرار دینا وغیرہ ہے۔ نیز معاشرے میں خواتین کی اہمیت کا انکار کرنا، ان سے افسوسناک اور ضد اسلامی سلوک کرنا، تہذیب و ثقافت کے خلاف مسلسل لڑنا، ملک میں علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی مخالفت کرنااور غیر انسانی طریقہ کار اور وحشیانہ سلوک سے دسیوں ہزار شیعہ اور غیر پشتو اقوام کا سر قلم کرنا اور انہیں سزا دینا وغیرہ ان کی کاروائیوں میں شامل ہے۔ نیز انہوں نے مزار شریف اور بامیان میں نسل کشی حادثہ ایجاد کرکے، افغانستان میں وسیع سطح پر قومی صفایا اور شیعہ کشی کا غیر انسانی کام شروع کیا ہے!۔

اہم کلمات: طالبان، جرم ، تکفیر، پشتو قبیلہ، افغانستان، شیعہ، نسل کشی ، اعتقادی اصول و بنیادیں۔

ص:153

ابتدائی حنبلیوں کے درمیان دین کے نام سے شدت پسند ی

حسن اسکندری

حنبلی مذہب چوتھی اور پانچویں قمری صدی کے دوران اسلامی ممالک کے مرکز، بغداد میں ایک متحرک اہم اسلامی مذہب تھا۔ انہوں نے معتزلہ اور آل بویہ کے برسراقتدار آنے سے بڑے خطرے کا احساس کیا اور ان کے اثر و رسوخ روکنے میں مشغول ہوگئے۔ معتزلہ اور شیعہ کا اثر روکنے کے لئے بغاوت، گھروں میں داخل ہونا، لڑائی اور قتل کرنا وغیرہ ان کے بعض اقدامات میں شمار ہوتےہیں!۔ بعض مواقع پر اہل سنت مفکرین و علما ء کو بھی مکتب شیعہ کی رغبت کی وجہ سے، مار پیٹ کا شکار بناتے تھے۔ اسلامی مذاہب خاصکر شیعہ کے ساتھ حنبلیوں کی لڑائی اور مجادلہ کا اہم ترین موضوع، صفات اور عبادت میں توحید، صحابہ کی توہین، قرآن اور امامت کی تحریف وغیرہ مسائل تھے!۔

اہم کلمات: حنابلہ، احمد بن حنبل، شیعہ، بغداد، چوتھی صدی، بربہاری، معز الدولہ۔

ص:154

شیعیانِ اہل بیت علیهم السلام کے بنسبت ابن تیمیہ کا نفرت انگیز نظریہ

میرزایی

ابن تیمیہ اور اس کے طرفداروں کا طریقہ کار اور ان کی فکر پانچ ستون یعنی پانچ ’’حرف ت ‘‘ پر استوار ہے: تہمت، توہین، تحقیر(حقارت کرنا)، تہدید(دھمکی دینا اور ڈرانا) اور تکفیر (کافر ٹہرانا)۔ وہ لوگ خود کو سلفی، حقیقی دیندار، دینی خلوص کے پابند ، جبکہ دوسرے فرقوں اور مذاہب بالخصوص خاندانِ رسول اکرم (ص) کے شیعوں کو دین سے منحرف متعارف کراتے ہیں۔ ابن تیمیہ کی کتابیں اس متعصب اور خشک فکر کا سرچشمہ ہے۔ وہ دین کی اپنی تنگ نظر تفسیر اور دینی دلائل و متون کے متعلق اپنے خاص نظریہ کی وجہ سے، مسلم معاشرہ کے اختلاف اور مؤمنین کے درمیان نفرت ایجاد ہونے کا باعث بنا۔ اس نے اسلامی معاشروں کے متوقع اتحاد کو سب سے بڑا نقصان پہونچا کر ، عالم کفر کی قابل ذکر مدد و خدمت کی ہے۔ وہ سب تکفیری لگام کے توسط سے، اپنے مخالفین کی نہایت ہی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور پھر حقِ دفاع کے بغیر انہیں سخت سے سخت سزا دیتے ہیں۔ اس تحریر میں اہل بیتِ رسول اکرم (ص)اور شیعوں کے بنسبت ناقابل دفاع نفرت کے متعلق ابن تیمیہ کے مخصوص نظریات اور طریقہ کار کا جائزہ لا گیا ہے اور تمام مسلمین اور خداوند کی عطا کردہ عقل کے پاس قبول کردہ دینی منطق و معیار کے مطابق ان کی تنقید کی گئی ہے!۔

اہم کلمات: ابن تیمیه، وهابیت، شیعیان، تکفیر، دینی خلوص، تهمت۔

ص:155

سنتِ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور مسلمین کی تکفیر۔

علی رضا سبحانی

موجود زمانے میں جب فتنۂ تکفیر کے مسئلہ نے عالم اسلام حتی اس کے علاوہ کی بہت ساری جگہوں اپنے دامن میں گرفتار کیا ہے، تو مناسب ہے کے مسلم علماء، مفکرین اور علوم اسلامی کے محققین، اس موضوع کے متعلق سیمنار منعقد کرکے اس کے مختلف پہلوؤں کی بحث اور تحلیل و تحقیق انجام دیں!۔

اس مضمون میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور شیعہ و سنی علماء کی نظر میں تکفیر کی اہمیت اور استعمال کی جگہ روشن کی جائے اور آخر میں اہل بیت علیهم السلام کی نظر میں سارے اسلامی فرقوں سے صلح آمیز اور پر امن زندگی پیش ہوئی ہے!۔

ص:156

فقہی مذاہب کی نظر میں مسئلہ بدعت کے احکام

محمد ہادی میہن دوست

اسلامی مذاہب میں کسی بھی نے بدعت کی شدید حرمت پر شک نہیں کیا ہے حتی بعض نے اس کی حرام ہونے کو دین کی ضرورت جاننا ہے!۔ اس کے باوجود چونکہ بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام و قوانین صحیح اور واضح طور پر روشن نہیں ہوئے ہے، لہذا طول تاریخ میں کسی نہ کسی وقت بدعت سے مقابلہ کرنے کے نام پر، کبھی افراط اور کبھی تفریط کا طریقہ اپنایا گیا ہے اور بہت سارے بے گناہ مسلمان کافر اور فاسق ٹہرائے (تکفیر و تفسیق) گئے ہیں، حتی کبھی ان کا خون بہایا گیا ہے۔ اس طرح بدعت کے حرام ہونے کا مسئلہ جس کی تأسیس کا ہدف دینی اصلول اور بنیاد کو انحرافات سے تحفظ بخشنا تھا، وہ دشمنانِ اسلام کے لئے مداخلت اور سازش کا ہتھیار بن گیا ہے۔ اس تحقیق میں مضمون نگار کی کوشش یہ رہی ہے کہ فقہی مذاہب کی نظر میں بدعت کی لفظی بحث، اس کے قوانین و اصول ، نیز مشابہ اصطلاحوں سے اس کی فرق روشن کرے اور موجودہ ضرورت کے مطابق اس کے احکام بیان کرے!۔

اہم کلمات: بدعت، البدعه، البدع، ابداع، تشریع (قانون وضع و تصویب کرنا)، احداث (جدید مشکل و مسئلہ پیش آنا)۔

ص:157

رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی سیرت میں مخالفین کے ساتھ رحمت بھرا اور مہربان سلوک

عبدالحسین ابراهیمی سرو علیا

اسلام صلح کا دین اور پیغمبر رحمت صلی الله علیه و آله و سلم اس کا پیغام و خبرد ینے والے ہیں۔ اسلام میں بنیادی و ابتدائی قانون، انسانی اور فطری اصول کی رعایت کرنا اور مؤمنین اور معاشرے میں تمام افراد کے درمیان صلح اور محبت و دوستی کی تاکید کرنا ہے۔ قرآنی آیات اور نبوی سیرت کی تحقیق سے، (مثبت) سمجھوتہ اور مہربان سلوک کی ضرروت و تاکید واضح طور پر دیکھتے ہیں اور یہ نتیجہ دریافت کرتے ہیں کہ ان کا ہدف مخالف کے ساتھ صلح، سمجھوتہ اور بخشش برقرار کرنا رہا ہے۔ اسلام میں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی صلح اور مصالحت کے علاوہ ، دشمن، مشرکین اور مخالفین کے ساتھ بھی صلح قبول کرنے پر تاکید ہوئی ہے۔

رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم دشمنوں کے مقابلہ میں جنگ کو آخری طریقہ و راہ ِ حل قرار دیتے تھے اور اس وقت جہاد کا اقدام کرتے تھے جب تمام صلح پسند طریقے ناممکن ہوجاتے تھے۔ تاریخ اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) کے بہت زیادہ صلح ، نیز جنگ کے قبل و بعد دشمنوں ، مشرکین اور مخالفین سے مہربان سلوک ، اسلام میں صلح و مہربانی پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس تحریر میں بعض قرآنی آیات و تاریخی نمونوں کا جائزہ لیکر مخالفین سے رحیم و مہربان نبوی سیرت، خاصکر جنگوں میں ان کے سلوک کا تجزیہ وتحلیل پیش کریں گے!۔

اہم کلمات: عفو، رحمت، رأفت و مہربانی، جنگ، پیغمبر (ص)کی سیرت، پیغمبر (ص) کے مخالفین۔

ص:158

اسلامی ممالک کی پسماندگی پر تکفیری سلسلوں کے سیاسی اور اجتماعی اثرات

سید کاظم سیدباقری (1)، محمد حسنی (2)، بتول ملاشفیعی (3)

اسلامی تہذیب میں سلفی اور تکفیری افکار کا طولانی سابقہ موجود ہے۔ لیکن تقریباً آخری پچاس سالوں سے، وہ سارے تصورات اور خیالات ’’سلسلہ و گروہ‘‘ میں تبدیل ہونے سے ، دنیائے اسلام کے لئے خطرات و مسائل کا آغاز ہوا ہے۔ اگرچہ اسلامی ممالک کی پسماندگی کا سبب فقط ایک ہی نہیں ہے، لیکن افسوس سے ان جماعتوں کے افکار اور غیر معقول سلوک سے یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی پسماندگی اور اس کے تسلسل و استمرار کا ایک اہم سبب رہا ہے۔ اس تحریر میں اس اصلی سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اسلامی معاشروں کی پسماندگی پر تکفیری جماعتوں کے کیا سیاسی اور اجتماعی اثرات عائد و حاوی ہوں گے؟!۔

مضمون کے مفروضہ میں اس بات کی تاکید ہوئی ہے کہ اسلامی نکتۂ نظر سے، عقلی رجحان، اجتماعی ہم فکری، لائق افراد کی رہبری، ہمہ جانبہ امنیت و حفاظت، مثبت و منطقی تبادلۂ خیال اور گفتگوئیں، جوابدہ حکومتیں اور شہری حقوق کی پابندی جو مطلوب ترقی کے لئے لازم ہے، ان سب عناصر کے باوجود ان تکفیری جماعتوں کے نتائج چند امور میں قابل بیان و تحلیل ہے : نظم و نظام کی خلاف ورزی، مذہبی تفرقہ اور اجتماعی جدائی کی وسعت،ناامنی، قتل و کشتار اور شدت پسند ی کی ترویج، عقلانی ماحول اور منطقی گفتگو کے مواقع کی نابودی، ظالم حکومتوں کا برسر اقتدار آنا وغیرہ ۔ ان سب کا اسلامی ممالک کی ترقی نہ کرنے اور پسماندگی میں مرکزی رول رہا ہے!۔

اہم کلمات: تکفیری سلسلے اور جماعتیں، اسلامی ممالک کی پسماندگی ۔


1- ۔ اسلامی ثقافتی و فکر ی تحقیقی سینٹر کے ایسوکیٹ پروفیسر ۔
2- ۔ کلام اسلامی میں ایم۔ اے۔
3- ۔ تفسیر قرآن کریم میں ایم، اے۔

ص:159

امریکی خارجی سیاسیت میں القاعدہ کی نشیب و فراز!

خلوصی

القاعدہ کی تشکیل کی بنیاد افغانستانی جہاد میں موجود ہے۔ اس گروہ سے ریاستھای متحدہ امریکہ کے ارتباط کے متعلق، سیاسی بڑے حوادث اور اتفاقات نے پالیسی ساز عنصر کے طور پر عمل کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تین بڑے حوادث ، یعنی افغانستان پر قبضہ، اشتراکی روس(سابقہ سوویت یونین ) کا زوال اور اسلامی بیداری نے اس جماعت سے ہمکاری و تبادلہ اور تصادم و مقابلہ کرنے میں مغربی اسٹراٹیجک اور پالیسی طے کی ہے۔ امریکہ نے القاعدہ کے بارے میں تین وسیع پالیسیاں، تین دوروں میں بروئے کار لائی ہے۔ عرب کے سلفی جنگجوؤں سے تعاون و تبادلہ اور ان کی حمایت کی پالیسی اس وقت در پیش قرار دی جب وہ اشتراکی روس کی طرف سے افغانستانی قبضہ کے خلاف مقابلہ میں تھے۔ اس پالیسی میں امریکہ نے کوشش کی کہ علاقہ کے ممالک کے تعاون سے، افغانستان میں اقتدار کی لڑائی کو آگے بڑھائے۔ مصر، سعودی عرب اور پاکستان اس جنگ میں امریکہ کے اصلی اتحادی کے عنوان سے اشتراکی روس کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور ان ممالک اور دیگر اسلامی ممالک سے بہت زیادہ جوانوں کو جہاد کے لئے دعوت دی گئی!۔

اشتراکی روس کے سقوط کے بعد امریکہ نے القاعدہ سے مقابلہ و مخالفت کی پالیسی اپنائی اور اس کا ہدف امریکی غیرت و اقتدار ایجاد کرنا تھا جس میں سوویت یونین کی جگہ اسے نیا دشمن متعارف کراتا تھا۔ اس مرحلہ میں القاعدہ سے امریکی مقابلہ بیشتر میڈیائی سطح پر تھا ، جس میں القاعدہ کو پسماندگی و غیر انسانی رجحانات میں غرق شدہ ایک افراطی گروہ کے عنوان سے پیش کرتا تھا۔ تیسرے مرحلہ میں امریکہ کی پالیسی القاعدہ سے تبادلہ اور مقابلہ پر استوار ہے جو اسلامی بیداری سلسلہ کی تشکیل یابی کے بعد وجود میں آئی۔ افغانستان میں مقابلہ اور مشرق وسطی میں تبادلہ کی پالیسی اختیار کی جبکہ دونوں جیوپولتیک اور سیاسی جغرافیا اہمیت کے حامل ہے۔ تکفیری نظام پہلی دور میں روسی مخالف شکل میں تھا، دوسرے دور میں مغرب مخالف اور تیسرے دور میں شیعہ مخالف اور سلفی مخالف صورت میں موجود ہے۔ اس ترتیب

ص:160

سے امریکہ نے ابتداء میں ہمکاری و تعاون، اس کے بعد مقابلہ و تصادم اور آخر کار پہلے دو مرحلوں کی ترکیب کے ساتھ تعاون اور تصادم کی شکل میں دو جیو اسٹراٹیجک علاقوں میں اس گروہ سے (سیاسی شطرنج کا )کھیل کھیلا تاکہ علاقہ میں اپنے اقتدار و حاکمیت کی حفاظت کرسکے!۔

اہم کلمات: ریاستھای متحدہ امریکہ ، القاعدہ ، عبد اللہ عزام، اسامہ، جہاد، افغانستان۔

ص:161

دار العلوم دیوبند کی سیاسی اور اجتماعی وراثت اور برصغیر ہند میں تحریک ’’دیوبندیہ‘‘

علی¬محمد طرفداری (1)، سعید طاوسی مسرور (2)

تحریک ’’دیوبندیہ‘‘ برصغیر ہند میں تیرہویں ہجری (انیسویں عیسوی)کے دوسرے پچاس سالوں میں کی ایک وسیع اسلامی تحریک ہے جو اسلامی شریعت مکمل اجراء کرنے اور برطانیوی استعمار کے خلاف جہاد کے لئے تشکیل پائی اور اس کے بعد بتدریج سیاسی مسائل و حوادث میں داخل ہونے، وسیع اور مؤثر فقہی مکتب ایجاد کرنے کے ہمراہ، چودہویں صدی (بیسویں عیسوی) کے دوران پاکستان، افغانستان، مرکزی ایشا اور مشرقی جنوبی ایشیا میں اسلام پسند تحریکوں کی تشکیل یابی میں اہم رول نبھایا۔ تحریک دیوبندیہ کا نام ، ہندوستان کے ایک قدیم شہر مشرقی دہلی کے شمال میں واقع دیوبند شہر سے لیا گیا ہے۔ یہ تحریک، ’’دار العلوم دیوبند‘‘ نامی بہت زیادہ مؤثر دینی مدرسہ کی وسیع دینی اور سیاسی کاروائیوں کے نتیجہ میں وجود میں آئی۔ یہ مدرسہ برصغیر کی اسلامی فکر کی تاریخ میں ماضی اور موجودہ زمانے میں نمایاں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دار العلوم دیوبند کا فقہی مکتب، ’’شاہ ولی اللہ دہلوی ‘‘ کی تعلیمات اور ’’سید احمد بریلوی‘‘ کی تحریک سے تحت تأثیر قرار پاکر برطانیوی استعمار کے خلاف لڑتا تھا، اور اسی وجہ سے برصغیر ہند میں بتدریج اسلامی تحریک تشکیل دے سکا جو آنے والی صدی میں، حتی ’’طالبان‘‘ جیسی اسلام پسند اور افراطی جماعتوں کے ظہور کا باعث بھی بنا۔ اس مضمون میں دار العلوم دیوبند کے سیاسی اور اجتماعی وراثت ، اور برصغیر ہند کی سیاسی اور اجتماعی تبدیلیوں میں دیوبندیہ فقہی مکتب کا کردار اور تحریک دیوبندیہ کی تشکیل جیسے مسائل کا جائزہ لیا جائے گا۔

اہم کلمات: برصغیر ہند کے مسلمین، دیوبند دار العلوم، دیوبندیہ تحریک، اسلامی فقہی مکتب، اسلامی بنیاد پرست، برصغیر ہند کا تقسیم ہونا، افغانستان ، طالبان۔


1- آزاد اسلامی یونیورسٹی کی علمی کمیٹی کے ممبر، شعبہ علوم و تحقیقات تهران، گروه تاریخ۔
2- تهران یونیورسٹی میں تاریخ اسلام کے بی۔ ایچ۔ ڈی طالبعلم۔

ص:162

غلو کرنے والی افراطی اقلیت سے مقابلہ، تکفیری جماعتوں سے بہانہ واپس لینے کا ایک طریقہ کار!

ید اللہ حاجی زادہ

شیعہ کافر ٹہرانے کی بنیادی امور کے تجزیہ و تحلیل ا ور ان کے اسباب کی شناخت، خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پر جو سوال در پیش ہےوہ یہ ہے کہ: کیوں تکفیری جماعتیں اہل شیعہ کو کفر کا حکم دیتے ہیں اور اس خطرناک موجود سے مقابلہ کا طریقہ کار کیا ہے؟!۔ شیعوں کی تکفیر کا حکم دینے والے افراد کے نظریہ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان میں سے بہت سارے افراد اہل شیعہ کو نامناسب تہمتیں دیتے ہیں اور اسی وجہ سے اس طرح کے شدت پسند فتوی صادر کرتے ہیں، لیکن بعض مواقع پر شیعوں سے منسوب افراطی غلو کرنے والی جماعت بھی ایسی رہی ہے جنہوں نے اس مشکل کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ در اصل غلو کرنے والے اور افراطی لوگ اپنی شدت پسند اور تیز باتوں اور کبھی کبھار مجھے کچھ نہیں معلوم کہنے سے، تکفیر کیلئے ضروری بہانے پیش کرتے ہیں۔ تکفیری جماعتوں کے خطرناک موجود سے مقابلہ کا طریقہ کار،اہل شیعہ سے منسوب افراطی قلیل افراد کی جماعت سے مقابلہ کرنا اور ان سے برائت اور دوری اختیار کرنا ہے!۔

اہم کلمات: غلو و افراط، غالی و افراطی اقلیت ، ائمہ علیهم السلام ، غلو کرنے والوں سے مقابلہ کا طریقہ کار، تکفیری جماعتیں!۔

ص:163

اسلامی بنیاد پرستی (اصول پسندی) کی تشکیل یابی اور وسعت کے علل و اسباب کا سیاسی جغرافیائی جائزہ!۔(مصداقی نمونہ: تکفیری جماعت داعش)

یحیی میرشکاران، عبدالله هندیانی، سید علی عبادی نژاد، علی اصانلو

محیط و ماحول کے ایسے شرائظ اور خصوصیات جو انسان کے ہاتھ میں سرزمین کی وجہ سے حاصل ہوتے ہے، عالمی جغرافیائی میدان میں رقابت اور مقابلہ کے ایجاد ہونے کا اصلی سبب ہے۔ انسان کے ماضی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ طاقتوں کی حرکت کا سلسلہ زندگی کی خصوصیات اور خوبیوں کے حامل علاقوں کے جانب رہی ہے ۔ نیز عالمی اور علاقائی تنازعات اور لڑائیاں ان مواقع کے حصول کے لئے ہی رہی ہے!۔

ایشیائی مغربی جنوب کے جغرافیائی علاقہ کی خصوصیات اور خوبیاں ہمیشہ ساکنین اور بیرونی طاقتوں کے درمیان جنگ اور لڑائی کی اصلی وجہ رہی ہے۔ ان تنازعات کا مجموعہ اس علاقہ کے خاص سیاسی جغرافیا تشکیل پانے کا سبب بنا ہے ۔ اس علاقہ کی بعض خصوصیات میں جغرافیائی ،تاریخی سابقہ کے بغیر سیاسی حکومتوں اور تحریکوں کی تشکیل یابی ہے اور ان کے اجتماعی نظام کی طرف توجہ نہ کرنا ہے جو عام طور پر مقبولیت کے بحران اور سیاسی سسٹم سے ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔ یہ مسئلہ مخالف نظام جماعتوں کی ایجاد کی وجہ بنی ہےجو اپنے ثقافتی ، جغرافیائی شکل کے مد نظر، یہ کوشش کرتے ہیں کہ بنیاد پرست افکار کے رشد و پرورش سے اپنے اہداف آگے لیجاسکے!۔

ان وسیع اور خطرناک جماعتوں میں ایک ایسی جماعت جس نے اس علاقہ کا ایک حصہ اپنے ساتھ مشغول کیا ہے، وہ داعش تکفیری گروہ ہے جو وسعت اور پیشروی کی حالت میں ہے ،جس نے ایک سیاسی حکومت تشکیل دینے کی فکر کے ہمراہ، اپنی موجودگی ’’عراق اور شامات کی اسلامی حکومت‘‘کے عنوان سے اعلان کیا ہے اور اپنی فکری بنیاد، دین اسلام کے دوسرے فرقوں کی تکفیر پر ڈالی ہے!۔

دینی مفکرین نے ان کے فکری دعوی کا جائزہ لیا ہے ، لیکن اس تحقیق میں توصیفی ،تحلیلی طریقہ سے یہ کوشش ہوئی ہے کہ سیاسی جغرافیا کے اسباب، عوامل اور عناصر جو اس سلسلہ اور

ص:164

جماعت کو تشکیل اور ترقی دینے والے اجزاء ہے ، ان کی شناخت اور تجزیہ و تحلیل پیش کریں،تا کہ اس طرح سے ان کی تشکیل کا ماحولی اور فضائی نمونہ حاصل ہوسکے!۔

محققین نے ان جماعتوں کے ظہور اور سقوط کی وجہ طرزِ فکر اور اجتماعی سسٹم جیسے اسباب قرار دئے ہیں، لیکن ابھی تک ان سلسلوں اور جماعتوں کا سیاسی ، جغرافیائی جائزہ نہیں لیا گیا ہے جو اس تحقیق میں انجام پایا ہے۔ اسی وجہ سے ایسی تحلیل کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں موجود سرزمینی اور اجتماعی سسٹم اس فکر اور جماعت کی تشکیل اور وسعت کا سب سے اہم سبب ہے اور ان جماعتوں کے دوبارہ تشکیل نہ پانے کے لئے، محیط و فضا (جغرافیااور سرزمنیوں )کی سیاست میں تبدیلی لانا اور مقامی (علاقہ پسند) اختیارات خود وہاں کے باشندوں کو سپرد کرنا، یہ معقول اور مناسب راہ حل ثابت ہوسکتا ہے!۔

اہم کلمات: محیط کی سیاسی جغرافیا، بنیاد پرستی، تکفیری جماعتیں، داعش۔

ص:165

جہادی سلفی فکر کے اجتماعی شناخت کے امنیت مخالف عکس الاعمال

ہادی معصومی زارع

ہر مکتب کی نظری بنیادیں اور اصول(وجود، معرفت اور طریقہ کی شناخت)خاص سلوک، عمل اور عکس العمل کے ظاہر و ایجاد ہونے کا موقعہ فراہم کرتے ہے کہ مخصوص طرح سے اس مکتب کے پیروکار دوسرے فکری مکاتب سے جدا ہوجاتے ہے۔ لہذا سلفی رجحان بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہوگا!۔

سلفی رجحان کی شناختِ وجود اور خود اس مکتب کا ’’وجود‘‘ کے بنسبت خاص نکتۂ نگاہ جو کہ ’’خود(سلفی لوگ)_دشمن(غیرسلفی لوگ)‘‘ کی تبعیض آمیز تقسم پر استوار ہے، یہ دوسرے لوگوں کے خلاف اس فرقہ کے پیروکاروں کی طرف سے، امنیت مخالف اورشدت پسند سلوک ایجاد کرنے اور آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ جس سے مختلف معاشروں کو بہت زیادہ مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک وسیع جمع بندی میں ، اس طرح کی شناختِ وجود کے اہم ترین امنیت مخالف عکس العمل ، معین سلوک اور عملی اقدامات میں پیدا کرسکتے ہیں جیسے کہ نظری اور عملی لحاظ سے دوسروں کی نفرت و مخالفت (دگر ستیزی) یا دوسروں کے خلاف فکری اور عملی سطح پر شدت پسند مخالفت ،خدائی انسانی فطری امور نابود کرنے سے خود کی مخالفت یا خوو سے جنگ و نفرت (خود ستیزی)، معاشرے کی مخالفت و نفرت اور اجتماعی اخلاق و آداب و سلوک کی مخالفت (جامعہ ستیزی)، اجتماعی ماحول شدت پسند و افراطی بنانا اور آخر کار سرحد مخالف فعالیت انجام دینا (مرز ستیزی)وغیرہ !۔

اہم کلمات: عکس العمل، وجود کی شناخت، دوسروں کی مخالفت و نفرت(دگرستیزی)، خود کی مخالفت و نفرت(خودستیزی)، شدت پسند ی ، جہادی سلفی رجحان۔

ص:166

ص:167

ساتویں جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:168

ص:169

مشرقی افریقہ خاصکر سومالی میں القاعدہ کی پیدائش اور وسعت کی کیفیت و تفصیل

حسن اسکندری

القاعدہ ،افریقہ کی کسی بھی جگہ سے زیادہ ،مشرقی افریقہ اور اس کے شمالی حصہ میں ، کامیاب رہا ہے۔ مشرقی وسطی خاصکر شبہ ٔجزیرہ عرب کے ساتھ کسی حد تک اس علاقائی ہمسایگی ، اس کی مؤثر سرحدیں اور حکومتوں کی نااہلی و ناکامی ، او راس کے نتیجہ میں ہتھیار کی خرید و فروخت میں آسانی، اسی طرح القاعدہ کے وسائل اور اعضاء کی آسان نقل مکانی جیسے امور اس علاقہ میں القاعدہ کے رشد و پیشرفت کے بعض علل و اسباب قرار دئے جا سکتے ہیں۔ القاعدہ نے اپنے اصلی مرکز کی بنیاد 1990 دہائی کے اواخر میں سوڈان میں ڈالی اور حکومت کی طرف سے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے زمانے تک وہ اپنا کام وہاں جاری رکھے تھے۔ لیکن اس گروہ کے اقدامات اسی ملک تک محدود نہیں تھے بلکہ مشرقی افریقہ میں بھی ، کینیا اور تنزانیا میں موجود امریکی سفارتخانوں میں متعدد بمب نصب کرنا، اسی طرح اسرائیلی چارٹر کے جہاز پر راکٹ حملہ کرنا وغیرہ جیسے کام انجام دئے ہیں۔ اس زمانے میں حکومت نے کسی معمولی حد تک ، اور مسلم افراطی جماعتوں نے اسلامی محاکم اتحادیہ کے زیر نام ، سخت اور خوف و دہشت صورت میں شریعت اسلام جاری کرنے سے ، سومالی مقامی عوامی ناراضگی کا سبب بن گئے!۔

ص:170

مضمون کا عنوا ن: بوکوحرام

محمد جواد امید (1)

وہ جماعت بوکوحرام کہلاتی ہے جو عصر حاضر کی شدت پسند سلفی سلسلہ کا ایک گروہ ہے۔ ملکِ نیجریہ کی بنیاد 2002 عیسوی میں محمد یوسف کے ہاتھوں پڑی اور آج تک بمب دہماکہ، اغواکاری اور قتل و غارت جیسے سیاہ کرتوت باقی چھوڑے ہیں !۔ یہ گروہ نیجریہ میں مغربی کلچر ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس ہدف کیلئے وہ مسلمانوں کے خلاف مختلف خطرناک اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ اس تحریک کا القاعدہ کے ساتھ آشکار طور پر رابطہ ہے اور ان سے فوجی مدد حاصل کرتے ہیں ۔ یہ جماعت ایک دہشت گرد تنظیم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ بوکوحرام اور اس کی جرائم کی پیدائش کے طریقہ کار کو بیان و واضح کیا جائے!۔

اہم کلمات :بوکو حرام، قتل، اغواکرنا، بمب بلاسٹ کرنا۔


1- . موسسه دارالاعلام لمدرسة اهل البیت کے طالبعلم،

ص:171

پیدائش سے سقوط تک اخوان التوحید کے مظالم کا کارنامہ

محسن عبدالملکی

اخوان التوحید، ایسی ایک تکفیری جماعت ہے جو سنۂ 1912 عیسوی میں ، عربستان متحد بنانے کیلئے عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے کوششوں کے دوران ہی ، اس علاقہ میں نمودار ہوئی اور 1930 عیسوی میں اس کا خاتمہ ہوا۔ تحریک اخوان التوحید کی تاریخی اسناد و کتب کے مطابق انہوں نے بہت سارے ہم عصر ہمسایہ مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور ان کے بنسبت قتل، ذبح،اموال کی غارت گری جیسے خطرناک اور شدت پسند اقدامات انجام دئے۔ اس مضمون میں پیدائش سے سقوط تک اخوان التوحید کے شدت پسند اقدامات کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش ہوئی ہے !۔

اہم کلمات : اخوان، اخوان التوحید، اخوان التوحید کے جرائم، عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود، فیصل الدَّویش، سلطان بن نجاد ۔

ص:172

افغانتان میں تکفیری سلسلے کی شناخت

سید محمد علی احسانی

افغانستان میں تکفیری سلسلہ کا زمانہ گذشتہ صدی میں پایا جاتا ہے، جس زمانے میں اس دقت کے افغانی بادشاہ ، عبدالرحمن نے اس تکفیری جماعت کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ لوگ درباری مولوی یا دربار کے پیروکار اور ہندوستان میں دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے ۔ عبدالرحمن نے ان کی تکفیری فکر اپنے منافع کے مطابق پائی ، لہذا ان کے ذریعہ افغانی شیعوں کے خلاف کفرنامہ تحریر کیا اور سارے افغانی اہل سنت کو شیعوں کے خلاف تیار کرکے ایسے مظالم و جرائم انجام دئے جو ایک مضمون میں بیان نہیں کئے جاسکتے !۔ قتل عام، عصمت دری، جنگی مال غنیمت کے نام پر شیعوں کو غلام بنانا، لوگوں کی عورتیں اور بیٹیوں کو لیجانا اور انہیں پشتو اقوام کے درمیان فروخت کرنا، فوت شدہ افراد اور بعض اسیروں کے بدن کو قطع قطع کرنا، یہ سب عبد الرحمن کے ماتحت اس شدت پسند جماعت کے بعض مظالم و غیر انسانی اقدامات ہیں!۔

افغانستان میں دوسری تکفیری جماعت ’’طالبانی تکفیری گروہ ‘‘ ہے جو موجودہ دور میں باضابطہ منظم تیار کردہ تکفیری جماعت ہے ۔ طالبان کی بھی فکری بنیاد مکتب دیوبند میں ملتی ہے، لیکن اس کے اکثر تکفیری و خطرناک افکار ، دیوبند کی جمعیت العلماء، سپاه صحابه، جهنگوی وغیرہ جیسی سیاسی اور افراطی جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ اسے وهابیت اثرات نے پوری طرح سیراب کیا ہے ۔ افغانستان میں طالبانی تکفیری شدت پسند جماعت نے اہل شیعہ جیسے مخالفین کو کافر قرار دینے کا اقدام کیا ہے اورقتل عام، ٹریر، فوت شدہ افراد کے جسم پائمال اور قطع قطع کرنے جیسے مظالم سے اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں !۔

اہم کلمات: عبدالرحمن، تکفیری سلسلہ اور جماعت، مولوی، دینی پیشہ وری، شیعیان، قتل عام، طالبان،ٹریر.

ص:173

کتاب و سنت کے مطالعہ میں تکفیری جماعتوں کے طریقہ کی شناخت

علی فتحی

شریعت اسلامی کے سب سے بنیادی منبع قرآن کریم اور سنت نبوی کا فہم و مطالعہ منظم رہا ہے اور اس کے اپنے خاص قواعد و ضوابط موجود ہے ۔ اسی وجہ سے فقط فرقہ وارنہ تعصب کی خاطر، مشخص قانون و قاعدہ اور صحیح طریقہ اختیار کئے بغیر قرآنی آیات اور روایات کا حوالہ دینا، شخصی تفسیر (تفسیر بالرای )کا واضح نمونہ ہے ، جو بہت زیادہ مذموم و مردود کام ہے۔ تکفیری جماعت افراطی نقل بیانی اور چند آیات کے ظاہر کلام کی بنا پر ان کی مفسِّر آیات سے قطع نظر، اور اسی طرح کبھی کبھی قرآنی آیات سے انتخابی و اقتباسی تفسیر سے، دوسروں کو شرک اور بدعت کی تہمت دیتےہیں۔ کتاب و سنت کے مطالعہ میں تکفیری جماعتوں کی شدید ظاہر پسندی کے ساتھ ساتھ بے قاعدہ نقل بیانی کی وجہ سے سلفی جماعتیں اس سمت کی طرف چلے گئے کہ ظاہری ، یک طرفہ اور سطحی معانی پر اکتفا کیا جائے اور اپنے مخالفین کو مختلف بے بنیاد و جھوٹے بہانوں کی بنا پر بدعت ، شرک اور کفر کی نسبت و تہمت دی جائے !۔ اس تحریر میں کتاب و سنت کے فہم و مطالعہ میں سلفی تکفیری جماعتوں کے طریقہ کاروں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ سلفی تکفیری گروہ دینی فہم و اجتہاد میں مشخص شدہ اصول و قوانین کے زیادہ پابند نہیں ہے بلکہ اکثر و بیشتر اپنے منافع کے تناظر میں قرآن و سنت کی تفسیر و وضاحت کرتےہیں!۔

اہم کلمات : تکفیری جماعت، طریقہ کار کی شناخت ، گذشتگان کا مطالعہ و فہم ، سلفیه، وهّابیت، قرآن، سنت۔

ص:174

تکفیری دہشت گردی کا سنت نبوی و اسلامی جہاد سے رابطہ اور حوالہ دینے کا جائزہ

علی الهی خراسانی

دہشت گردی کی سب سے عمومی خصوصیت شدت پسند ی یا اس کے استعمال کی دھمکی دینا ہے !۔ بنیادپرست تکفیری جن کا دشمن سے سامنا کرنے کا طریقہ اپنے علاوہ سب کو حتی دوسرے اسلامی مذاہب کو کافر قرار دینا ہے، وہ اپنی اکثر طاقت دہشت گردی کے عملی اقداموں میں استعمال کرتے ہیں۔

فَتک، اغتیال و اِرهاب ایسی اصطلاحیں ہیں جو اس دور میں خوف اور دہشت گردی مفہوم کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔چنانچہ اسلامی مذاہب کے فقہ میں سیرتِ نبوی مصدر و مرجع کا مقام ہے، لہذا دہشت گردی کے بنسبت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی سنت (قول، عمل اور سکوت با رضایت)، تاریخی اور فقہی اعتبار سے یہاں پر مورد بحث قرار پایئ ہے!۔

رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے دور میں مسلمانوں کے ہاتھوں ابوعَفَک، عصماء بنت مروان، کعب بن اشرف، ابن سنینه و ابورافع کا قتل ایسے مسائل ہیں جو دہشت گردی کے نمونہ کے طور پر پیش ہو سکتی ہے ، نیز اسے سوال و اشکال قرار دیا جاسکتا ہے جس کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس قسم کے اعمال و طریقہ کار کس طرح پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کی اہم و بنیادی فرمائش سے منطقی اور عقلی رابطہ ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ : إن الإسلام قید الفتک۔

اسی طرح اس بات کا ذکر لازمی ہے کہ ابتدائی جہاد، دفاعی جہاد اور شہادت طلب کاروائیوں سے تکفیری دہشت گردانہ قتل کا کسی قسم کا کوئی رابطہ موجود نہیں ہے۔

اہم کلمات: دہشت گردی و ٹیریریزم، تکفیری شدت پسند ی ، سنت نبوی، اسلامی جهاد ، شرعی دفاع۔

ص:175

سید قطب کے سلفی تکفیری افکار کے بنسبت متضاد نظریات کا جائزہ

حامد علی اکبر زاده

سید قطب ایک اسلامی مفکّر ہے کہ جن کے افکار نے عالم اسلام میں مختلف اثرات ڈالے ہیں۔ اس نے مفہوم ایمان کی عمل پسند تعریف ، اور عصر حاضر کے مسلمانوں کا کافر ہونا، ایک اسلامی معاشرے (دارالسلام) کے حصول کیلئے مسلح جہاد کی ٖضرورت ، جاہل سماج (دارالحرب)سے نجات جیسےمباحث پیش کی۔ جن سے ایک طرف، جماعۃ الھجره والتکفیر اور تحریک القاعده جیسے جماعتوں کی پیدائش کا سامان فراہم ہوا ۔ دوسری طرف سے سعودی عرب جیسے علاقائی ممالک میں، ان کے تحریروں میں بعض اظہارات اور محمد قطب جیسے ان کے بعض پیروکاروں کے مواقف کی تأثیر مکمل طور پر الگ و جدا رہی ہے ، جو اعتدال پسند سلفی جماعتوں نیز تکفیری وہابی گروہوں کے درمیان اختلاف ایجاد ہونے کا باعث بنی ہے ۔ در اصل سید قطب کے طرفدار کاملاً دو مختلف سمتوں کی طرف حرکت کررہے ہیں ، ایک گروہ معتدل مزاج کا حامل ہے جبکہ دوسری جماعت نے تکفیر اور شدت پسندی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ لیکن دونوں گروہ اپنے فکری مرکز و بنیاد سید قطب قرار دیتے ہیں اور ان کے تحریرات و بیانات کا حوالہ دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر لگتا ہے کہ اخوان المسلمین سلسلہ اور مصر میں سید قطب کی انقلابی شخصیت بن جانا، قید کی وجہ سے ان کی فکری تبدیلی، ان کی طرفداری کا دعوی کرنے والوں کے ذریعہ ان کے افکار سے افراطی تفسیر کرنا ، اور خود ان کے بعض متضاد اور شدت پسند بیانات جیسے مسائل کا اس طرح کے متضاد اور مخالف نظریات کی پیدائش میں اہم کردار رہا ہے!۔ اس تحقیق میں مسئلہ تکفیر کے متعلق سید قطب کے نظریہ کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے سلفی تکفیری افکار کے بنسبت متضاد نظریات پر جدید تجزیہ و تحلیل پیش کرنے کو کوشش کی گئی ہے!۔

اہم کلمات: سید قطب،تکفیر،ایمان،سلفی۔

ص:176

ماتریدوں اور (ابن تیمیه کے عقائد کی بنیاد پر) سلفیوں کی نظر میں عقل کی حجیت(اعتبار و قبولیت) کے بارے میں تطبیقی جائزہ

حمزه علی بهرامی (1)

ایک اصل و دلیل جو مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقوں کی پیدائش اور اختلاف کا باعث بنی ہے، وہ احکام و تعلیمات معلوم اور دریافت کرنے میں عقل کے معتبر اور قابل قبول ہونے کے متعلق خاص قسم کا نکتۂ نظر ہے۔ اس مضمون میں حنفی مذہب ماتریدوں اور ابن تیمیه کے عقائد کی بنا پر حنبلی مذہب وہابیوں کے نکتۂ نگاہ سے چند کلامی مسائل میں، عقل کی حجیت کے متعلق تطبیقی جائزہ پیش کیا جائے گا، اور آخر میں یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ماتریدی مسلک عقل کو شناخت اور حکم کا ایک مصدر قرار دیتے ہیں ۔ وہ دینی احکام و تعلیمات کی دریافت میں عقل کے حداکثر اعتبار و قبولیت کے قائل ہیں۔ اس گروہ کے مطابق شریعت کا ثابت ہونااور خداوند عالم کا علم عقلی دلیل پر استوار ہے۔ وہ خداوند متعال ، اس کی صفات اور وحدانیت (توحید) ثابت کرنے کیلئے عقلی دلائل کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر چہ یہ گروہ عقل کے حداکثر اعتبار و حجیت قبول کرتے ہیں ، لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ بہت سارے شرعی مسائل صرف نقلی دلائل سے حاصل ہوتے ہیں، جہاں عقل کا کوئی رول نہیں ہے!۔

لیکن ابن تیمیہ کی نظر میں عقل تکلیف کی شرط ہے، نہ اس کا سبب۔ لہذا اس پر عمل کرنے کا نہ کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے ترک کرنے کا کوئی عذاب ۔ ابن تیمیہ عقل اور عقلی معلومات و نتائج کو بے اعتبار و ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ نقلی دلائل کی طرفداری و تائید کرتا ہے۔ اس کے عقیدہ کی بنا پر گذشتہ علماء نہ صرف نقلی دلائل میں سارے ممتاز صاحب نظر ہیں، اور احادیث و روایات میں ان کا فہم و دریافت دوسروں سے زیادہ مکمل ہے، بلکہ عقلی امور میں بھی زیادہ آگے اور صحیح راہ و طریقہ سے زیادہ قریب ہیں۔ اس بنا پر ان کی ہمہ جانبہ پیروی و اطاعت میں ہی راہِ نجات موجود ہے!۔ ابن تیمیہ اور اس کے طرفداروں کی انتخابی طریقہ ٔکار اس


1- اصفهانی یونیورسٹی کے کمیٹی

ص:177

بات کی دلیل ہے کہ غلط وسائل اور مواقع سے دین کی جانب آگئے۔ عقائد میں عقل کے اعتبار اور قبولیت میں اس گروہ کا اکثر اہلسنت اور ماتریدوں سے واضح اختلاف پایا جاتا ہے!۔

اہم کلمات: عقل، حجیت(اعتبار و قبولیت)، ماتریدی، ابن تیمیه، وہابی۔

ص:178

شیعہ کافر ٹہرانے (تکفیر) کے متعلق تکفیری جماعتوں کی سب سے اہم دلائل کی تحلیل و تنقید!

راضیه علی اکبری / اعظم خوش صورت موفق

تکفیری جماعتیں، اسلام کے بنیادی اصول اور تعلیمات کی طرف واپسی کا ہدف ہاتھ میں لیکر، اس بات کا دعوی کرتے ہیں تاریخ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے بعد دینی تعلیمات اور احکام میں بہت زیادہ انحرافی مسائل پیدا ہوئے ہیں، لہذا جس چیز نے بھی حقیقی اسلام کے چہرے کو چھپایا ہے، اسے ہٹایا او ر ختم کیا جائے!۔ اس طرح سے یہ لوگ فقہی اور کلامی نظریات کی بنیاد پر صرف خود کو حقیقی اور اصلی اسلامی جماعت قرار دیتے ہیں اور دیگر مسلمین کے اعمال و طریقہ کار ،فقط اپنے ساتھ متفق عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے، ان کو شرعی اصول و معیاروں کے مخالف جانتے ہیں۔ اور انہیں کفر وشرک اور دین سے خارج ہونے کی تہمت دیتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کے قتل کرنے اور خون بہانے کیلئے اقدام کرتے ہیں۔ اسی مسٔلہ کے مدنظر اس تحقیق میں تحلیلی تفصیلی طریقہ سے، مکتب شیعہ کا فر ٹہرانے میں تکفیری جماعتوں کی پیش کردہ سب سے اہم دلائل (جیسے شیعوں میں غلو و افراط ہونا، نیز ان کااپنے ائمہ کے مقام ِالوہیت و خدائی ،اصحاب کے ذریعہ سے قرآن کی تحریف، تقیہ اور مقدس مقامات کی اہانت کا قائل ہونے) کی تحلیل و تنقید بیان ہوئی ہے۔ ان دلائل کے جائزے سے تکفیری جماعتوں کے فکرو نظریہ اور عمل و طریقہ کار باطل ثابت ہوجاتے ہیں!۔ اسلئے کہ اہل شیعہ اور اہل سنت میں تمام فقہاء اور متکلمین اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اہل قبلہ اور مسلمان جو شہادتین (خداوند اور نبوت کی شہادت)کا اقرار کرے ، دین کے کسی ٖضروری رکن کا انکار کئے بغیر، اسے کافر ٹہرایا نہیں جاسکتا ہے !۔ چنانچہ اہل شیعہ شہادتین کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دین کے کسی ضروری رکن کے منکر نہیں ہیں۔ لہذا تکفیری جماعتوں کا شیعوں کی تکفیر، فقہی اور کلامی دلیل پر استوار نہیں ہے اور ان کااقدام و طریقہ کار دین اسلام کی تعلیمات اور احکام کے مخالف ہے!۔

اہم کلمات: تکفیر، تکفیری جماعتیں، شیعه، قرآن کی تحریف، غلو و افراط، مقدس مقامات کی توہین ، تقیه۔

ص:179

جدید سلفی پسندی کی تعریف و حقیقیت اور ایران کی اسلامی جمہوری پر اس کے سیاسی اثرات

رضا خراسانی (1)

اسلامی بیداری کے باعث ایجاد شدہ تبدیلیاں اور علاقائی رقابت ایک طرف سے، اوردوسری طرف سے علاقہ اور دنیا میں اسلامی جمہوری (اپنی روزبروز بڑھتی طاقت کی صلاحیتوں اور چھ سپر پاور ممالک سے آخری معائدے کی وجہ سے اس )کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہونے کے سبب بعض مغربی اور عرب ممالک ، خاصکر سلفی جماعتوں کی تشویش اور ناراضگی کا باعث بن گئے۔ جس کی وجہ سے ایران کو جدید چلیجز ، مسائل اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی اثنا ء میں جدید سلفی پسند جماعتیں وجود میں آئیں، جو بعض بڑی طاقتوں اور بعض علاقائی عرب ممالک کے شیوخ و حکماء کی مخفی اور آشکار حمایت کی وجہ سے، ان خطرات کی نظارت و رہبری کرتے ہیں۔ وہ بعض خود ساختہ مذہبی اختیارات اور صلاحیتوں، نیز جہاد جیسی بعض دینی تعلیمات سے غلط فائدہ اٹھانا اور دیگر ممالک میں ان کی وسعت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ جدید سلفی رجحان نے مغربی ثقافت اور تہذیب سے مقابلہ کرنے کے بجائے اسلامی فرقوں ، جس کی سرفہرست میں شیعہ اور اسلامی جمہوری ہے،کے خلاف لڑنا شروع کیا ہے۔ اس بنا پر ان جماعتوں، ان کے خطرات، سیاسی نتائج و اثرات کی شناخت، نیز موجودہ زمانے میں اس سلفیزم کے بنسبت اسلامی جمہوری کے مطلوبہ لازمی اقدامات کی اطلاع کی بھی خاص اہمیت ہے۔ اس تحریر کی ابتداء میں سلفی پسندی کی لفظی اور مفہومی بحث کے بعد جدید سلفی رجحان اور اس کی سیاسی خصوصیات کو متعارف اور بیان کیا گیا ہے!۔ پھر اسلامی جمہوری پر اس کے سیاسی اثرات و مسائل کا جائزہ اور آخر میں اس سلسلہ سے مقابلہ اور اسے کنٹرول کرنے کے متعلق ایران کیلئے مطلوبہ لازمی اقدامات کا مختصر جائزہ پیش ہوا ہے!۔

اہم کلمات: سلفی پسندی، جدید سلفی پسندی،اسلامی بیداری ،قومی امنیت ،سیاسی اسلام ، هرمنوتیک(مختلف طرز کا مطالعہ اور اخذِ نتائج)۔


1- شهید بهشتی یونیورسٹی میں شعبہ علوم سیاسی کےعلمی کمیٹی ممبر۔

ص:180

انٹرنیٹ کی دنیا اور سٹلیٹ چینلوں میں تکفیری جماعتوں کی موجودگی

مسعود پورفرد (1)

اس مضمون میں جدید اجتماعی تحریکوں کے نظریہ اور اس میں انٹرنیٹ کی اجتماعی چینلوں کا کردار کے مدنظر، اس اصلی سؤال کا جواب دینے کی کوشش ہوئی ہے کہ عالم اسلام کی عوامی اسلامی بیداری تحریک کو نقصان پہنچاننے اور علاقہ میں اس کی جگہ تکفیری جماعتیں متبادل قرار دینے کے غرض سے، بعض انٹرنیٹ میڈیا اور سوشل چینلوں نے کونسے سے سیاسی اور اجتماعی خطرات و نقصانات اور قابل تشویش مسائل ایجاد کئے ہیں؟!۔ اس سؤال کے جواب میں یہ فرضیہ پیش ہوا ہے کہ انٹرنیت کی اجتماعی چینلوں کا رول، اگرچہ سیاسی مشارکت بڑھانے میں اور شہری مفہوم اور مختلف شہری مسائل کی تبدیلی ، نیز عالم اسلام میں سیاسی اور اجتماعی تبدیلیوں کیلئے مناسب مواقع فراہم کرنے میں مؤثر رہا ہے، لیکن ساتھ میں اسی حد تک ان تحریکوں اور تنظیموں کیلئے سیاسی اور اجتماعی مسائل و خطرات بھی کھڑے کئے ہیں!۔

اہم کلمات: اسلامی بیداری کی تحریک ، سلفی شدت پسند تنظیمیں ، انٹرنیٹ کی اجتماعی چینلز، تکفیری میڈیا، فیس بوک،ٹویٹر۔


1- سیاسی مطالعات انجمن کے ممبر اور اسلامی ثقافتی اور فکری تحقیقی مرکز کے اسٹینٹ پروفیسر۔

ص:181

اسلامی معاشروں میں جمہوری رجحان اور شدت پسندی

حسین پوراحمدی (1)، علی اکبر بازوبندی (2)

آخری سالوں میں شدت پسند ی اور افراطی رجحان میں رشد و اضافہ کی وجہ سے یہ علمی اور یونیورسٹیوں ، نیز اسی طرح حکومتی پالیسی ساز کے اکثر اجلاسوں اور مباحث کا اہم موضوع بن گیا ہے!۔ اس کے تجزیہ وتحلیل میں مختلف طرح کے نظریات پیش ہوئے ہیں، جن میں ہر ایک اس موضوع کے کسی خاص حصہ کا جائزہ بیان کرتا ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثہ کے بعد، امریکی ایوانوں کی پالیسی ساز اجلاسوں میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیاکہ اس موجود سے مقابلہ کرنے کی راہ جمہوریت بحال اور برقرار کرنا ہے!۔ وہاں یہ تصور کیا گیا کہ مشرق وسطی کے ممالک میں جمہوریت کی پیشرفت اور استحکام سے القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے رجحان اور جذابیت میں کمی ہوگی اور اس طرح ان میں شامل ہونے کا موقعہ ختم ہوگا!۔ بعد میں آنے والی تبدیلیوں سے معلوم ہوا کہ یہ سوچ ’’ جمہوریت کے فقدان اور افراطی رجحان کے درمیان بلاواسطہ رابطہ ہے‘‘،یقینی اور واحدسبب نہیں ہے ،اگرچہ اس کی موجودگی پر بعض شواہد ملتے ہیں۔ لیکن ایسے دیگر دلائل موجود ہیں جو اس کے برعکس مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ لہذا ان میں سے کسی ایک کو واحد اور منحصر سبب قرار نہیں دیا جاسکتا!۔

اہم کلمات: افراطی رجحان، جمہوریت ایجاد کرنا، مشرق وسطی کا علاقہ، جمہویرت کا فقدان۔


1- 1. شهید بهشتی یونیورسٹی میں اسسٹینٹ پروفیسر اور علمی کمیٹی ممبر۔
2- 2. شهید بهشتی یونیورسٹی میں بین الاقوامی ارتباطات موضوع میں پی۔ایچ۔ ڈی کے طالبعلم۔

ص:182

عالم اسلام میں سلفی تکفیری جماعتوں کی کاروائیوں سے خاموش خطرات و مسائل سے مقابلہ کے اسٹراٹیجک طریقہ کار

محمد جهانی (1)

اسلامی دنیا میں فتنہ، تفرقہ اور اختلاف کی سب سے ایک اہم علت تکفیری سلفی رجحان کا ظہور ہے۔ خصوصی طریقہ کار اور سابقہ آئیڈیالوجی اور شناخت سے اس سلسلہ نے ایک مذہبی اور اعتقادی مطلق العنان نظام اختیار کیا ہے۔انہوں نےاپنےبغیر، قابل ملاحظہ مسلمین بالخصوص شیعوں کو’’ غیر اور جدا ‘‘ قرار دیا ہے ۔ نیز ’’شیعہ سنی اختلاف‘‘ کی شدت پر استوار عالم اسلام کے دو مرکزی حصہ کرنے سے ، اپنا خاص نظریہ ’’ہم ان کے مقابلہ میں‘‘ مستحکم کیا ہے ، جن سے دنیائے اسلام کی وحدت میں رخنہ پیدا ہونے کے علاوہ مذہبی اختلاف کی ایجاد سے اسلامی معاشروں کی حالات خراب ہوسکتی ہے ، اور جس کے نتیجہ میں اسلامی ممالک کی صلح و امنیت کو خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس تحقیق کا ہدف، عالم اسلام میں سلفی تکفیری جماعتوں کی کاروائی سے ایجاد شدہ خاموش خطرات سے مقابلہ کے سیاسی طریقہ کار اور اسٹراٹیجک راہ حل تدوین کرنا ہے۔ اس کی ابتداء میں قائد انقلاب کی نظر میں سلفی تکفیری جماعتوں کی کاروائی سے پیدا شدہ خاموش اہم خطرات شمار کئے گئے ہیں، پھر فیلڈ اور میدان میں سروے کے علاوہ SWOT طریقہ سے مختلف مثبت ، منفی نقاط ، مواقع اور خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے ، اور عالم اسلام میں سلفی تکفیری جماعتوں کی کاروائی سے خاموش خطرات سے مقابلہ کے مختلف طریقہ کار، ج۔1۔1 کی ذریعہ پیش کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مصفوفہ اسٹراٹیجک پروگرامنگ (QSPM) طریقہ سے پیش کردہ راہ حل کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ حاصل شدہ نتائج کے مطابق تکفیری جماعتوں کا سامنا کرنے میں ج۔ ا۔ ا اور عالم اسلام کی صورتحال دفاعی انداز میں ہے ، لہذا داخلی کمزور مسائل کم کرنے کے خاطر ، نیز


1- . جامع امام حسین یونیورسٹی میں محقق۔

ص:183

سلفی تکفیری جماعتوں کے اقدامات سے ایجاد شدہ خاموش خطرات سے مقابلہ کرنے کےلئے مناسب راہ حل اور طریقہ تدوین اور اجراء کیا جائے!۔

اہم کلمات: راہ حل، تکفیر، خاموش خطرات و مسائل ، سلفی پسندی۔

ص:184

متحرک سلفی رجحان : بین الاقوامی امنیت کیلئے خطرہ اور سکیورٹی چلیج

هادی معصومی زارع

سلفی رجحان اور تکفیری رجحان کا مسئلہ انٹرنیشنل سکیورٹی اور بین الاقوامی امینت کیلئے ایک اہمترین خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے ، جس کا علاقہ کی حالات ناامن بنانے میں خاصکر آخری دہائی میں اہم رول رہا ہے!۔

اسی اثناء میں مختلف تحقیقات اور جائزے سے بات معلوم ہوتی ہے کہ سلفی جماعتوں کی شدت پسند طریقہ کے استحکام میں دو اہم مسئلوں کا دخل رہا ہے۔ پہلا یہ کہ ان گروہوں کے دوسروں کو کافر ٹہرانے کے نکتہ نظر کی طرف جاتا ہے، جو مکتبِ ابن تیمیہ اور اس کے طرفداروں کے دوسروں کو مخالف و دشمن اور باطل ماننے والے افکار سے سیراب ہوتا ہے۔ دوسرا سبب بھی ان جماعتوں کی متحرک ہونے اور تیز اور اضافی فعالیت میں تلاش کرنا چاہئے ، جو جہاد اور شرک کی مخالفت جیسے دعوی کرنے والے اقدار سے تشکیل پایا ہے!۔

تکفیری جماعتوں کی طرف سے کئے گئے بہت سارے علاقائی اور عالمی دہشتگردانہ اقدامات کے جائزہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کاروائیوں کی پلاننگ، رہبری اور اجراء کرنے میں ، بیرونی اور غیرمقامی سلفیوں کی ناقابل انکار وسیع موجودگی اور مرکزی رول رہا ہے!۔ نمونہ کے طور پر 2003 سے 2007 تک عراق میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش کاروائیوں میں پچاسی (85) فیصد بیرونی سلفیوں اور غیر عراقی القاعدہ کمانڈروں کی رہبری کے ماتحت انجام دیا گیا جبکہ صرف بارہ فیصد اس طرح کے اقدامات عراقی افراد کے ذریعہ عمل میں آئے !۔ یہ صورتحال سوریہ کے موجودہ بحران میں بھی مشاہدہ ہورہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس ملک کی جنگ میں ساری دنیا سے دسیوں ہزاز سے زیادہ سلفی جنگجو اور دہشت گرد موجود ہیں!۔

بہرحال عربستان میں پیدائش سے ہی تکفیری جماعتوں کا بین الاقوامی اور بغیر سرحد ی موجود بننے اور ان کے متحرک ہونے میں چار اہم دور طے کئے ہیں اور زمانے کے ساتھ ساتھ رشد کیا ہے!۔ پہلا دور آل سعود اور محمد بن عبد الوھاب کے ساتھ معائدہ و وفاداری،اور نجف ، کربلا، نجد اور طایف جیسے شہروں پر حملہ کرنے سے شروع ہوتا ہے!۔ دوسرا دور سابق اشتراکی روس کا

ص:185

افغانستان پر حملہ سے اور عرب افغانیوں کی ظہور سے ایجاد ہوتا ہے!۔ تیسرا دور عراق پر امریکی حملہ سے پیدا ہوا ، جبکہ چوتھا دور بھی سوریہ کے موجودہ بحران کے بعد تشکیل پانے لگا ہے!۔

یہی مسئلہ تکفیری رجحان کی وسعت سرحدوں سے باہر جانے اور انٹرنیشل بننے کا سبب بنا ہے، اور جس کے نتیجہ میں سلفی دہشت گردی کو بین الاقوامی خطرہ قرار دیا جاسکتا ہے اور اسے ایک علاقائی بلکہ عالمی سب سے اہم ایک سکیورٹی خطرہ اور چلینج کے طور پر مدنظر و زیر بحث رکھا جاسکتا ہے!۔

اہم کلمات: سلفی رحجان، بغیر سرحد و بارڈر، خطرہ اور چلینج، امنیت اور سکیورٹی، متحرک و فعال ہونا۔

ص:186

ص:187

آٹھویں جلد کے مضامین کا خلاصہ

ص:188

ص:189

لنبان میں تکفیری جماعتوں کے مجرمانہ اقدامات۔

رسول ظرافت (1)

تکفیری سلفی¬¬¬رجحان دوسرے مذاهب کو کافر قرار دیکر،عالمی استکبار کے منافع اور اہداف کے سمت حرکت کررہی ہے!۔ اس گروہ کی بیشتر کاروائیاں مسلمین کے قتل و خون بہانے اور مذہبی مقامات کی مسماری پر مشتمل ہے!۔ اس تحقیق کا موضوع لبنان میں بیداری اسلامی کے ابتداء سے ان کے جرائم ہے !۔ اس تحریر میں مقدمہ اور لبنان میں سلفی پسندی کی موجودگی بیان کرنے کے بعد، ان کے اہمترین جرائم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کا جائزہ لیا گیاہے!۔

اہم کلمات: سلفی پسندی، تکفیری(دوسروں کو کافر ٹہرانے والے گروہ)، جرم، لبنان۔


1- ادیان و مذاهب یونیورسٹی میں کلامی مذاہب موضوع میں پی۔ ایچ، ڈی کے طالبعلم۔

ص:190

عراق میں وہابیت کے ظہور سے عصر حاضر تک تکفیری سلسلوں اور گروہوں کے اقدامات اور کاروائیاں

مرتضی علیزاده نجار

عراق ایک ایسا ملک ہے جو آخری سالوں میں تکفیری جماعتوں خاصکر ’’القاعدہ‘‘ اور ’’داعش‘‘ کے حملوں کا شکار رہا ہے اور ان کی طرف سے بہت سارے نقصانات اور مسائل کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے!۔ یہ تکفیری گروہ ،’’وہابیت ‘‘ کے التقاطی دور کا تسلسل ہیں، جس نے سید قطب کے زمانے سے عسکری کاروائیاں عملی طور پر مصر سے شروع کی اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اسے مختلف شاخوں اور جماعتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’القاعدہ‘‘ بھی اسی کی ایک شاخ ہےجو افغانستان میں تشکیل پائی اور اس کے بعد اپنی کاروائیوں کا دائراہ وسیع کرتے ہوئے عراق جیسے دیگر ممالک میں داخل ہوئی!۔ عراق میں القاعدہ کی موجودگی کے نتیجہ میں داعش نامی دوسری جماعت نمودار ہوئی۔ یہ سارے گروہ وہابیت سے لیکر القاعدہ اور داعش تک عراق میں ہمیشہ مسلح حملات، قتل، بمب بلاسٹ اور خودکش کاروائیوں کے ذریعہ ہولناک اور خطرناک جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بے انتہا شدت پسندی اور بے رحمی سے لاتعداد انسانوں کا خون بہایا ہے ۔ دوسرے ادیان اور مذاہب خاصکر شیعہ مذہب کے مقدس امور و عقائد کی بے حرمتی کی اور بہت سارے مقدس مقامات اور قبور مسمار کئے!۔ان جماعتوں نے حتی خواتین اور بچوں پر بھی رحم نہیں کیا اور بہت زیادہ کو اپنی شہوت اور شدت پسند ی کا شکار بنایا۔ موجودہ تحریر میں ان سلسلوں اور جماعتوں کے ماضی اور تشکیل یابی کی جزئیات کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ عراق میں تکفیری گروہوں کے بعض جرائم کی تعداد و تٖفصیلات بیان ہوئی ہے!۔

اہم کلمات: تکفیری سلسلے اور جماعتیں ، جرم کی تعدا د و تفصیلات، عراق، وہابیت ، القاعده، داعش۔

ص:191

داعش

عبدالمحمد شریفات

وہ جماعتیں جوشدت پسند ی اور خون بہانے میں مشہور ہیں، ان میں ایک داعش ہے۔ یہ بین الاقوامی تنظیم تقریباً دوسری تیرہ جماعتوں اور تنظیموں سے تشکیل پائی ہے۔ اس کے اکثر اعضاء بیرون ممالک مخصوصاً سعودی عرب کے سلفی افراد پر مشتمل ہے۔ ابو مصعب زرقاوی (2004 تا 2006) کے زیر قیادت’’جماعۃ التوحید اور الجھاد‘‘کی تشکیل کے ساتھ داعش کا آغاز ہوا۔ پھر اس کی مرنے کے بعد ’’ابو حمزہ المھاجر‘‘ (2006 تا 2010) ’’القاعدة فی بلاد الرافدین‘‘ نامی تنظیم کی قیادت کیلئے منتخب کیا گیا۔ 2006 کے اواخر میں أبو عمر البغدادی (2006 تا 2010) کی رہبری میں داعش کی عراقی اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد ، عراقی رسمی حکومت کے ایک اہم اور سخت سکیورٹی کاروائی میں وہ مارا گیا۔ اس کے بعد قیادت کی لگام ابوبکر بغدادی (2010 تا بہ امروز) کے ہاتھ میں منتقل ہوئی۔ اس تنظیم کا خلاصہ پہلے عراق اور پھر سوریہ میں اسلامی خلافت احیاء اور شریعت کا قانون نافذ کرنے میں کیا جاسکتا ہے!۔

شیخ ایمن ظواهری نے واضح کیا کہ داعش، القاعدہ کا ہی سلسلہ ہے اور اس سے الگ کوئی نئی تنظیم نہیں ہے ۔ اسی طرح نہ اس کی طرف سے مأمور ہے جس طرح بعض دیگر افراد کا دعوی ہے۔ البتہ صرف یہ کہ داعش کو بہت سارے اقدامات میں خطا اور ناکامیابی کا سامنا ہوا ہے، جس کے باعث القاعدہ نے رسمی طور پر اسے خود سے الگ اور جدا قرار دیا۔

داعش کے عقیدہ اور ہدف ’’اسلامی خلافت کی تشکیل اور برقراری‘‘کے لحاظ سے القاعدہ سے کوئی فرق نہیں ہے ، بلکہ صرف بعض امور کی درجہ بندی اور غنائم کی تقسم وغیرہ میں اس سے اختلاف ہے۔ جو القاعدہ سے داعش کا جدا ہونے کے تصور کا باعث بنا ہے، درحالیکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ البتہ علاقہ میں استعماری طاقتوں خاصکر امریکہ نے اپنے فرماندار نوکروں (قطر اور ترکیہ ) کے توسط سے دہشت گردی ایجاد کرنے کے غرض سے فوجی سپاہی کی فراہمی، اسٹراٹیجک اور سیاسی مدد ،اور حتی فوجی تعاون پوشیدہ نہیں ہے!۔ اس کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں کو جنگجو فراہم کرنے میں امریکہ کا بہت زیادہ مؤثر رول ہے۔ یہ کام خاصکر ’’بوکا‘‘ نامی واضح اور

ص:192

مشخص زندان جیسے عراقی قید خانوں میں ہوتا ہے ،جہاں القاعدہ اور تکفیریوں کی عراقی اسلامی حکومت کیلئے افراد لئے جاتے ہیں!۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعوں اور اہل سنت کے درمیان مذہبی جنگ ایجاد کی جائے اور ایران کے منافع اور اثرو رسوخ کو نقصان پہنچایا جائے، نیز اس طرح مذہبی جنگ اور تہذیبی جنگ کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔ جس کے عملی ہونے میں وہ طولانی مدت سے انتظار میں تھے!۔ تاکہ اس طرح پھر اسرائیل کی حفاظت اور امنیت کی خاطر علاقہ میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کریں!۔ البتہ افسوس سے مشرق وسطی کی بعض حکومتوں خاصکر سعودی عرب دہشت گرد جماعتوں اور تنظیموں کی مدد کرنے کے علاوہ ، نطریاتی لحاظ سے بھی اس طرح کے پروگرام اور پالیسی کی نظارت و رہبری کررہے ہیں!۔

اہم کلمات: داعش ،ابوبکر بغدادی ،ابومصعب زرقاوی، داعش کے مالی وسائل ، داعش کا سسٹم۔

ص:193

اسلامی تاریخی کتب اور مصادر میں حضرت رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)، امام علی بن ابیطالب(علیه السلام) و سبطین(امام حسن و امام حسین علیهما السلام) کی مہربانی و نرمی ، محبت، امن و صلح طلب اخلاق ورفتار کے بعض نمونے!

مرضیه همدانی زاده

محمد صادق واحدی فرد

اس تحریر میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ عظیم الشان رسول الله(صلی الله علیه وآله وسلم)، شیعوں کے پہلےامام اور اہل سنت کے چوتھے خلیفہ امیرامؤمنین علی (علیه السلام) اور امام حسن و امام حسین (علیهما السلام) کی مہربانی و نرمی ، محبت، صلح و امن طلب اخلاق ورفتار کے بعض نمونے بیان کئے جائے۔ یہ تحقیق تاریخی سندی طور پر لکھی گئی ہے اوراس میں قدیم مصادر خاصکر اہل سنت کی کتب سے حاصل شدہ اطلاعات کی تحلیل و تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس تحریر کا ہدف مذاہب میں تقریب اور وحدت کی برقراری ہے تاکہ خاص کر ہمارے علاقہ میں سابقہ پسماندہ واپسی کی چند جانبہ سازش اور عالمی استکبار کو ناکام بنایا جائے !۔

اہم کلمات: پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت، امام علی بن ابیطالب(ع) کی سیرت، امام حسن بن علی(ع) کی سیرت ، امام حسین بن علی(ع) کی سیرت۔

ص:194

تکفیری سلفیوں کی نگاہ میں دینی تعلیمات اور احکام کے مطالعہ اور دریافت(استنباط) میں عقل کا کردار!

احمد سعادت (1)

موجودہ دور میں سلفی گروہ سب سے بے عقلانی اسلامی فرقہ مانا جاتا ہے جو دین کے مطالعہ و فہم میں عقل کی حیثیت کو بے اعتبار سمجھتے ہیں اور فقط دین کی نقلی دلائل کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے مناسب ہے کہ سلفیوں کی نظر میں دینی تعلیمات اور احکام کے مطالعہ و فہم میں عقل کے رول کے متعلق ولوچہ مختصر ہی سہی، علمی جائزہ پیش کیا جائے۔ یہ تحقیق در اصل اُس مسئلہ کیلئے ایک جواب ہے۔ اس کے ابتداء میں مختصراً ہر موضوع کے متعلق اہل سنت کی نظر میں بحث پیش کرنے کے بعد سلفی نکتۂ نظر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح سے ہر بحث کی اہمیت معلوم ہوگی اور دعوی بھی واضح ہوگا۔ اسی طرح مثبت اور منفی نقاط بھی خودبخودشکار ہوجائے گے۔ سلفی فکری نظام کی بنیاد دو اہم شرعی مصادر یعنی ’’کتاب ‘‘اور ’’سنت‘‘ کو نہایت ہی زیادہ اہتمام کرنے اور مطالعہ و دریافت میں ایک نمایاں طریقہ کار یعنی ’’سابقہ بزرگان(سلف)‘‘ کی روش پر تشکیل پاتی ہے!۔

سلفی افراد دینی دلائل و نصوص کے فہم و دریافت میں عقل کے کردار کے بارے میں حل نہ ہونے والے ایک تضاد کے شکار ہوئے ہیں ۔ ایک طرف سے غوروفکرکرنے پر قرآنی آیات اور نبوی روایات کی زیادہ تاکید کی وجہ سے بعض نے دینی تعلیمات کے دریافت کرنے میں عقل کی بے نظیر اہمیت کو یقینی قرار دیا ہے اور عقل کو شرعی دلیل کے برابر جانا ہے۔ لیکن دوسری طرف سے اس کے برعکس ، اکثر مواقع پر بالخصوص دینی احکام اور تعلیمات کی دریافت کیلئے اصول و قواعد استعمال کرنے کے وقت، عقل کو معمولی اہمیت دیتے ہیں اور کبھی کبھی حتی یقینی اور روشن عقلی مطالب کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ لوگ متضاد شکل میں اگرچہ نظری طور پر ، قیاس،


1- فلسفه اسلامی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کے طالبعلم، المصطفی انٹرنیشنل یونیوسٹی شعبہ ٔگرگان کے استاد اور شعبہ تحقیقات کے معاون۔

ص:195

استحسان اور استصلاح کو اپنے اجتہاد اور استنباط کے اصول و قواعد میں قرار دیتے ہیں، لیکن ایسے محدود کرنے والے شرائط پیش کرتے ہیں جن سے ان اجتہادی طریقہ کاروں میں عقل کی حیثیت بہت کم ہوتی ہے۔ جس سے یہ اصول، متون اور دلائل میں زیادہ محدود فقہی قواعد کی حیثیت پیدا کرلیتے ہیں اور اس طرح سے ’’مفید و مؤثر اجتہادی اصول‘‘، ’’اضافی اور غیرضروری قواعد‘‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیں!۔

اہم کلمات:سلفی، سلفیه، عقل، قیاس، استحسان، استصلاح، دینی تعلیمات اور احکام کی دریافت اور استنباط۔

ص:196

تکفیری رجحان کا نفسیاتی جائزہ!

آرش کازرانی (1)

جسم کی ذہنی اور فکری پہلو میں رقابت کا لازمہ ، یقینیت اور وسواس کا رجحان، اور اسی طرح اس کے عملی اور واقعی میدان میں اختلاف کا نتیجہ، اقتدار پسندی اور شدت پسندی ہے۔ اس طرح کے شرایط میں یقیناً واحد شکار’’صبر و استقامت‘‘ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں توصیفی ۔ تحلیلی طریقہ سے تکفیری رجحان کے ظاہر و باطن(پوستہ و مغز ) کے رابطہ کا جائزہ لیا جائے گا۔ جدید زمانے کی سلطہ طلبی کی حالت میں، مذہبی صورت نے سوماٹوٹوپیک (somatotopic)کنٹرول ہٹا کے افراد کو یہ موقعہ فراہم کیا کہ مذہی پہچان کے دفاع میں دینی جذبہ و احساس کو کچھ شعلہ ور کریں ۔ لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ مذاہب ایک قسم کی افسردگی و عدم توازن کی حالت (Schizoaffective disorder) میں جمع ہوگئے۔ جلدی غصہ ہونا اور واقعیت پسندی کو جمود اور فکری تعصب کے ساتھ بروئے کار لانے لگے ، تاکہ اپنے وجود کا دفاع کرتے ہوئے رقیب کے وجود کو منہدم کریں۔ ماہر نفسیات یونگ اس قسم کے افراد ’’ برون گرایان متفکر‘‘ (2) کو دقیقاً تعصب، جمود ہونے اور واقعیت سے بہرہ مند نہ ہونے کی وجہ سے ،انہیں سیاست کیلئے مناسب قرار نہیں دیتا ہے۔ مختلف صاحبان نظران کی نگاہ میں تکفیریوں نے اپنے لئے متعدد عناوین مخصوص و منتخب کئے ہیں۔ جس میں آیزیک، آدرونو، لاسول، ہیمانس اور ویرسما وغیرہ ماہر نفسیات و صاحبان نظر کے مختلف اقوال قابل ذکر ہے جن کا مضمون میں اشارہ ہوا ہے۔ ظاہری (پوستہ) سطح پر ہر عنوان کے ذیل میں، تعصّب و خشک مغزی، خود کو معیار قرار دینا، زور زبردستی، لوگوں کو تکلیف پہنچانا، ویران و نابود کرنا، شدت پسندی، اپنی خاص شناخت، طاقتوں کے سامنے مطیع ہونا اور دو طرز کی فکر وغیرہ ، جیسے صفات قابل ذکر ہے۔


1- شیراز یونیورسٹی میں کلنیکل نفسیات (Clinical Psychology) میں ایم۔ اے کے طالبعلم۔
2- برون گرائی: بیرونی موجودات سے مانوس ہونا اور بغیر ڈر و شرم و کسی مشکل کے دوسروں کے ساتھ زندگی کرنا، جو درون گرائی کے خلاف ہے، کہ جس میں انسان معمولاً تنہائی پسندکرتا ہے اور آسانی سے دوسروں کے ساتھ زندگی نہیں گذارتا وغیرہ۔

ص:197

باطنی (مغز) سطح پر، دو پہلو موجود ہے جو آپس میں تعاون کرتے ہیں۔ پہلا روح و روان کا پہلو ہے کہ جس کی سطح میں محبت کی شدید کمی، شدت پسند ی یا غفلت شعاری کی تربیت جو حقارت کے احساس کا باعث بنتی ہے، خود کا شیفتہ و عاشق بننا اور موت کی رغبت کا غلبہ ہونا وغیرہ جیسے مسائل پائے جاتے ہیں ، البتہ کامل پسندی، فکر وعمل کی انشقاق پذیری جیسے بعض شناخت و معرفت کے عناصر بھی قابل مشاہدہ ہے۔ جو دوسرے پہلو، پوسٹ ماڈرن کی رقابتی ماحول میں، اس کے ساتھ مبادلہ و تعاون سے غیرواقعی پہچان اور شدت پسندی پر ختم ہوجاتے ہیں۔ لہذا تکفیری رجحان کے علل و اسباب سمجھنے کیلئے روح ، جسم و جہان دونوں کا ایک ہی وقت زیر غور قرار دئے جائے۔ اس باطل سلسلے پر غلبہ کیلئے حقیقی صبر و ایمان کا دامن تھامنا چاہیے، نیز تربیت و تذکیہ سے انسانوں کی صبر کی طاقت بڑھائی جائے۔ دینی تعلیمات کی تاکید امید اور محبت آمیز بیان اور سلوک پر استوار ہونی چاہیے تاکہ ملنے و کھلنے کا جذبہ ظاہر ہوجائے!۔

اہم کلمات: تکفیری رجحان، غیرواقعی شناخت، تعصّب، شدت پسندی، حسد، موت کی رغبت کا غلبہ ہونا ، خود کا شیفتہ و عاشق بننا، صبر و استقامت کا بحران، محبت کی کمی۔

ص:198

تقیہ، شیعوں کو کافر ٹہرانے کا بہانہ۔

بلال شاکری

بعض اہل اسنت کے پاس شیعوں کو کافر قرار دینے کا ایک اہم بہانہ، مسئلہ تقیہ ہے!۔ ابن تیمیہ نے شیعوں کو تقیہ جائزاور شرعی جاننے کے عقیدہ کی وجہ سے انہیں کافر، ملحد اور منافق کے نام سے خطاب کیا ہے ، اور ان کی اس خصوصیت کو یہودیوں سے شباہت دی ہے۔ اس کی نظر میں، یہ مسئلہ نفاق کی ایک قسم ہے۔ لہذا شیعوں کے بارے میں اس طرح کے بیانات کا اظہارکرتا رہا ہے۔ اس کے بعد دوسرے افراد نے بھی اس طریقہ کار کو جاری رکھا، درحالیکہ تمام اسلامی مذاہب نے موجودہ (خاص و عام) دلائل کی بنیاد پر اس طرح کے تقیہ کو جائز اور شرعی ہونے کو قبول کیا ہے!۔ اس تحریر میں تقیہ اور نفاق دونوں موضوع کا جائزہ لینے کے علاوہ، ان کے پورے شرائط بیان ہوئے ہیں۔ دلائل کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے پاس تقیہ کرنا جائز ہے۔ نیز آخر میں مسلم روابط میں اس طرح کے تقیہ عملی ہونے کے اسباب اور اس قسم کے تقیہ کو کم کرنے کے طریقہ کار بیان ہوئے ہیں!۔

اہم کلمات: تقیہ، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے پاس تقیہ کرنا، تقیہ کے جائز اور شرعی جاننے کے دلائل۔

ص:199

جدید دینی طرز فکر کے مقابلہ میں سلفی رجحان۔

سید صادق حقیقت (1)

آخری دو دہاہیوں میں سلفی پسندی متعدد جماعتوں اور رجحانات میں تقسیم ہوئی ہے، اس طرح کہ اس دوران سیاسی اور اجتماعی مواقع نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ اس طرح متون پر توجہ دینے کا رجحان (متن گرائی)اور مختلف مسائل و مواقع کے عامل قرار دینے کا رجحان (زمینہ گرائی)، ان دونوں کی ہمکاری سے سلفی پسندی کی اصل اور عصر حاضر میں بین الاقوامی سیاست میں اس کے کردار کی تحلیل بیان ہوسکتی ہے۔ درحالیکہ سلفی گری گذشتہ صالح بزرگان کی سنت کی طرف واپسی کا ہدف لئے بیٹھے ہیں۔ جدید دینی طرزِ فکر میں دین کا ایسا مطالعہ پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے جو کم از کم انسانی عقل، جدید زمانے اور حقوق بشر کے تقاضوں کے ساتھ زیادہ مناسب ہو۔ سلفی رجحان اپنی مختلف قسموں میں دو اعتبار سے جدید دینی طرزِ فکر کے مقابلہ میں کھڑا ہوتی ہے: عقلی رجحان کی ضرورتوں کے بنسبت پیروی کی کیفیت اور جدّت پسندی کی اصول تحمل کی کیفیت۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل زمانہ جدید دینی طرزِ فکر کے فائدے ، جبکہ سلفی پسندی کے نقصان میں ہوگا!۔

اہم کلمات: سلفی رجحان، جدید دینی طرزِ فکر، عقلی رجحان، جدّت پسندی، متون پر توجہ دینے کا رجحان اور مختلف مسائل و مواقع کے عامل قرار دینے کا رجحان (متن گرائی و زمینہ گرائی)۔


1- . حوزوی محقق اور علوم سیاسی کے ایسوکیٹ پروفیسر۔

ص:200

دہشت گردی بیان کرنے والے طریقہ کاروں کا جدید تنقیدی جائزہ(نمونۂ مطالعہ: داعش)

سلمان احمدوند

مریم مختاری

دہشت گردی اور ٹیریریزم ایک مبہم اور پیچیدہ موجود ہے۔ جس نے اپنے اکثر نابود کرنے والے وحشی اور شدت پسند اقدامات سے بہت سارے ممالک کو سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور سکیورٹی ویران کن مسائل اور اثرات سے روبرو کیا ہے!۔ دہشت گردی پیچیدہ حقیقت حامل ہونے کے علاوہ مختلف شکلیں رکھتی ہے اور ہر بار ایک خاص چہرے میں ظاہر ہوتی ہے؛ اجتماعی قتل عام ، اغوا کاری، جہاز ہاہجیک کرنا، بمب بلاسٹ کرنا وغیرہ ۔ یہ بات کہ دہشت گردی سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی وغیرہ تبدیلیوں کا محرک کے عنوان سے ، نیز انقلاب، جنگ اور بغاوت جیسے معروف سیاسی امور کا متبادل بنا ہے، قابل غور و فکر ہے!۔ اس مضمون میں ٹیرر (قتل کرنا)، ٹیریریزم (دہشت گردی) کی تعریف ، اس مفہوم کو بیان کرنے والے طریقہ کاروں کا جدید تنقیدی جائزہ پیش ہوا ہے ۔ نیز داعش جماعت (عراق اور شام کی اسلامی حکومت) کے دہشت گردانہ اقدامات کی تجزیہ و تحلیل انجام دی گئی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ گروہ داعش بڑے فرقہ وارنہ اور عقیدتی اختلاف کے ساتھ حرکت کرتا ہے، جس اختلاف کیلئے بعض علاقائی حکومتوں اور یورپی ممالک کی بعض جماعتوں نے اقدام کیا ہے، نیز گروہ داعش اپنے جہادی، سلفی، تکفیری اور دہشت گردانہ مواقف و نطریات پر اصرار کے ساتھ عراق اور شام میں طاقت کا توازن بگھاڑنا اور اسلامی خلافت احیاء کرنا چاہتا ہے۔ یہ مسئلہ (مذہبی اور سیاسی طریقہ کار)اس تحقیق میں بیان ہوگا!۔

اہم کلمات: ٹیرر (قتل کرنا)، ٹیریریزم (دہشت گردی)، طریقہ کار، داعش۔

ص:201

سیاسی جغرافیا کی نظر میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کے علل و اسباب!۔

غلامرضامقامی مقیم (1)

اسلامی ممالک میں آخری سالوں کے دوران بہت زیادہ دہشت گرد فرقے اور جماعتیں وجود میں آئی ہیں۔ ان کی تشکیل میں مؤثر علل و اسباب کے متعلق بہت زیادہ لکھا بھی گیا ہے۔ لیکن اس تحقیق میں جدید نگاہ سے ان کے اسباب کا میدانی اور سیاسی جغرافیائی لحاظ سے جائزہ لیا جائے گا۔ اس بنا پر ابتداء میں کتابی مطالعہ کے طریقہ سے اور تاریخی اور جغرافیائی اسناد کی تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تکفیریوں نے ہندوستان و چین سے لیکر مغربی افریقہ کے شمال تک کا علاقہ اپنے زیر اثر قرار دیا ہے اور جغرافیائی مسائل کے تعدّد و تنوّع کی وجہ سے ، سارے ممالک میں ان کی موجودگی مساوی نہیں ہے۔ عراق اور سوریہ جیسے بعض ممالک میں ان کا حضور وسیع سطح پر ہے ، اردن اور یمن جیسے ممالک میں متوسط حد تک ہے اور ترکیہ جیسے بعض ممالک میں موجودہ زمانے میں ان کی موجودگی زیادہ قابل مشاہدہ نہیں ہے!۔ سیاسی جغرافیا کی رو سے تکفیری جماعتوں کی تشکیل اور وسعت کے اہمترین اسباب و دلائل یوں ہیں: ہلال خضیب جیسا زرخیز علاقہ، جبری سیاسی سرحدیں ، مختلف اقوام ، مذہبی اور دینی اقلیتیں، عالم بڑی طاقتوں کی سیاسی رقابت ، قلب و مرکز زمین کے ساتھ ہمسایگی، عالمی اسٹراٹیجک علاقات، اقتصادی بحران، طبیعی اغراض وغیرہ کی موجودگی جیسے سب سے اہم مؤثر جغرافیائی اسباب و دلائل ہیں!۔

ان جماعتوں سے مقابلہ کیلئے مندرجہ ذیل امور راہ حل کے طور پر پیش کئےجاتے ہیں: ان کی کاروائیوں کا جغرافیائی جامع نقشہ تیار کرنا، اسلامی ممالک کے درمیان وحدت کی برقراری کیلئے تلاش کرنا، عوامی حکومتوں کی حمایت کرنا، ڈیپلومیسی اقدامات میں وسعت دینا، سرحدوں کے اندر اور باہر ان گروہوں کی کا روائیاں کنٹرول کرنے اور ناکامیاب بنانے میں فوج اور پولیس فورسز کو ہوشیار اور تیار رہنا، ان سے مشغول ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کیلئے معائدے طے


1- علوم پایہ دامغان یونیوسٹی میں اسسٹینٹ پروفیسر۔

ص:202

کرنا، ثقافتی اقدامات میں وسعت لانا، بارڈر کنٹرول کیلئے جدید طریقے استعمال کرنا، اسلامی ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی تنظییں تشکیل دینا اور تکفیریوں کے میدانی ارتباط روکنا!۔

اہم کلمات: تکفیری جماعتیں، سیاسی جغرافیا، مشرق وسطی، شمالی افریقہ، دہشت گرد گروہ۔

ص:203

تکفیری جماعتوں کےاقدامات کے بنسبت بین الاقوامی مسؤولیت پر غور و فکر

بہرام مستقیمی

مورخۂ 19 جنوری 2014 کو ایرانی وزیر خارجہ نے بیان دیاکہ : ایسے پختہ ثبوت موجود ہیں جن سے مشرق وسطی میں تکفیری دہشگردی کے حامیوں کے اغراض معلوم ہوجاتے ہیں!۔ عراق، یمن، لبنان ، سوریہ اور دیگر ممالک میں تکفیریوں کے جرائم کے حامیوں کے خطرناک رول کے بارے میں، ایران مضبوط اسناد بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں دے گا!۔ شدت پسند تکفیری جماعتوں کے رہبران نے عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے ساتھ ساتھ، قتل عام کے ہولناک حوادث وجود میں لائے ہیں۔ تکفیری گروہوں کے جرائم کے متعلق یہ سؤال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اس کی ذمہ داری صرف مرتکب افراد، یعنی تکفیری جماعتوں کے اعضاء اور قائدین پر عائد ہوتی ہے یا یہ کاروائیاں انجام پانے والے ممالک میں وہاں کی حکومتوں اور یا ان کے حامی دیگر حکومتوں کو بھی مسؤول قرار دیا جائے؟!۔ اسی طرح کیا ان کاروائیوں کے مجرمین اور مذکورہ حکومتیں فقط ذمہ دار ہیں یا بین الاقوامی نظام کیلئے بھی کوئی مسؤولیت قبول کی جائے!۔ اس سوال کے جواب کیلئے، ابتداء میں تکفیری جماعتوں کی اقدامات غلط ہونے کو ثابت کیا جائے ، اس وقت یہ معلوم کیا جائے کہ ان گروہوں کے اعمال، رکن کی اہمیت کاعمل ہے یا حکومت کے ماتحت واحد رکن عمل، اجرائی رسمی مقام، اجرائی رکن، باغی تحریک یا خصوصی شخص ہے؟!، اور یہ کہ ان میں ہر ایک حالت کی ذمہ داری کس شخص یا اشخاص پر عائد ہوتی ہے؟۔ اسی طرح تحقیق کی جائے ان جرائم کے بنسبت حکومتوں اور انٹرنیشنل نظام کی کیا مسؤلیت بنتی ہے؟!۔

اہم کلمات: تکفیری جماعت، جرائم، مسئولیت، حکومت، رکن، اجرائی رکن ، اجرائی رسمی مقام ، باغی تحریک، مخصوص فرد، بین الاقوامی نظام، حمایت کی ذمہ داری۔

ص:204

تکفیری سلسلہ کی جامع تحلیل و تجزیہ اور اس سے مقابلہ کے طریقہ کاروں کا ایک خاکہ پیش کرنا

حسینعلی رمضانی (1)، مهدی جمشیدی (2)، سعید زمانی (3)، حمید خسروی (4)

دنیا مختلف موجودات سے بھری پڑی ہے جس میں یہ سارے یہ ایک مشترکہ خصوصیت رکھتے ہیں کہ یہ پیدائش سے لیکر ختم ہونے تک ایک سفر طے کرتے ہیں!۔ ان موجودات کا پیدا ہونا، باقی رہنا، رشد و نموکرنا اور وسعت پانا، یہاں تک کہ فنا اور نابودی کے مرحلہ تک پہنچ جانا، ان سب مراحل کے علل و اسباب کی تحقیق و تحلیل کرنا ایک علمی کام ہے، جو مختلف علوم کے مفکرین کے توسط سے انجام پاتا ہے۔مستقبل کی خبراور پیش بینی کے خاطر ایک عمومی قاعدہ حاصل کرنے کیلئے معقول و منطقی توضیح و تفصیل کے مراحل طے کرنا ایک علمی اقدام ہے۔ طبیعی اور فیزیکل علوم میں یہ کام زیادہ دشوار نہیں ہے، لیکن علوم انسانی میں خاصکر سیاسی حفاظتی امور کیلئے یہ کام بہت زیادہ سخت ہے!۔ اس کیلئے ایک موجود کی جامع و منظم اور پیچیدگی کی تبدیلی کی شناخت لازمی ہے اوراس قسم کے موجودات میں اِس شعار’’مسئلہ کو بہتر سمجھنا خود اس مسئلہ کے نصف مراحل کا حل ہے‘‘ کو سرلوحہ قرار دینے کے ذریعہ، نظامند اورسسٹمیٹک شناخت حاصل کرنا ضروری ہے!۔ موجودات کے ارتباطات میں پوشیدہ قاعدہ یعنی عدم سے وجود اور نہ ہونے سے ہونے کا مرحلہ طے کرنا بھی علوم انسانی اور اجتماعی محققین کی ایک ذمہ داری ہے!۔


1- امام حسین علیه السلام یونیوسٹی کی علمی کمیٹی ممبراورشهید مطهری کالج کی شعبۂ تحقیقات کے معاون ؛ مضمون نگار، مسؤول
2- اسٹراٹیجک مدیریت میں پی۔ ایچ ۔ ڈی، اور شهید مطهری کالج کے پرنسپل۔
3- ثقافتی نظاموں کے پی۔ ایچ ۔ ڈی کے طالبعلم اور شهید مطهری کالج کے استاد۔
4- اسٹراٹیجک مطالعات میں ایم۔ اے اور شهید مطهری کالج کے استاد۔

ص:205

ایک حفاظتی امر جس سے موجودہ زمانے میں عالم اسلام اور شاید بین الاقوامی نظام کو خطرہ لاحق ہے، وہ نظریاتی اور مصداقی لحاظ سے تکفیری جماعتوں کے بنسبت دین اسلام کے انحرافی اور افراطی مطالعات اور دریافت کا وجود میں آنا ہے۔ نظریاتی مرحلہ سے گذر کر ، اصول و اقدار اور اعمال کے مرحلہ میں اس طرح داخل ہوناکہ وہ بے رحم اور غیرانسانی کردار کا باعث بن جائے ، یہ ان گروہوں کی نمایاں خصوصیت ہے!۔ نیز شاید اس پیچیدگی کے باوجود، ان کی تہہ تک پہنچنا حفاظتی اور سلامتی شعبہ کے محققین کیلئے کچھ سخت ہوگا۔ ان تمام مسائل کے باوجود، اس معاملہ میں محققین نے اجتہادی رویہ کے ہمراہ اس موجود کی جامع تجزیہ و تحلیل کا عملی خاکہ تیار کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے مختلف مسائل کی شناخت کے بعد اس سے مقابلہ کیلئے مفید طریقہ کار پیش کرنے کا اقدام کریں گے!۔

اہم کلمات: ماڈل و خاکہ، تحلیل، جامع تحلیل، توضیح و تفصیل، تکفیری جماعت،طریقہ کار۔

ص:206

تکفیری فکر کی پیدائش اور وسعت نیز اس سے مقابلہ کے راہِ حل کا جائزہ

محمد رضا وحیدی نژاد

شدت پسند اور افراطی تکفیری موجود امت مسلمہ اور اسلامی مذاہب کےخلاف ایک بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے۔ افسوس ہےیہ بات قبول کی جائے کہ اس منحوس اور پست موجود میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ اگر یہ کنٹرول اور قابو نہ کیا جائے، تو مزید نقصانات اور جرائم کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ تکفیری جماعتیں قابو کرنے کیلئے پہلے ان کی پیدائش اور ظہور کی علل و اسباب کی شناخت حاصل کی جائے۔ جہالت و نادانی، بد ظنّی، شدت پسندی، جاہلانہ تعصب اور استعمار کی حمایت جیسے اسباب کی وجہ سے تکفیری گروہ رونما ہوئےہیں جن کا جائزہ لینا چاہیے!۔

ص:207

تکفیری جماعت کے خطرے کا سامنا کرنے کیلئے عالم اسلام میں ہم فکری عملی ہونے کا جائزہ

محسن محمدی الموطی

موجودہ مضمون میں دنیائے اسلام کے منافع اور مصالح کے خلاف بڑی شدت والے خطرے کے عنوان سے، تکفیری سلسلہ کے خطرے کی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور (بین الاقوامی ارتباطات میں معاشرے کے مسائل و نظام کی بنا پر نظریہ پرداز ) ایک گروہ کی نظر میں اس خطرے سے سامنا کرنے میں ہم فکری عملی ہونے کی ممکنہ مقدار بھی بیان ہوئی ہے۔ اور یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ تکفیری گروہ کے بنسبت ایک مشترکہ فہم و دریافت اور اس کے خطرات سے مقابلہ کیلئے خاص طریقہ کار تیار ہوسکتا ہے تاکہ خالص اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ہم فکر ہونے ، خلاصہ یہ کہ تکفیریوں کا سامنا کرنے میں مشترکہ شناخت و چہرہ کی تشکیل پر کوشش کی جائے ۔ نیز اس طرح سے حتی اس خطرے کو اسلامی مشترکہ شناخت اور عالم اسلام کی ہم فکری تشکیل دینے کیلئے ایک فرصت و موقعہ میں تبدیل کیا جائے۔ اس بات کی اصلی دلیل یہ ہے کہ تکفیری جماعتوں کا سلسلہ، ایک ایسا سلسلہ ہے جو نہ ہی شیعہ عقائد و اصول سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی اہل سنت کے عقائد و اصول سے اس کا کوئی رابطہ ہے!۔ لہذا اس سلسلہ کے مقابلہ میں ایک مشترکہ سوچ کی ایجاد میں احتمالی کامیابی کا لازمہ، پہلے شیعہ و اہل سنت کے اسلامی مشترکہ عقائد و احکام و تعلیمات کا جائزہ لینا اور جدید مطالعہ کرنا ہے!۔ جو خود بخود مشترکہ اسلامی شناخت کی تشکیل یابی میں مددگار ثابت ہوگا۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ یہ کام بین الاقوامی ارتباطات میں (مذکورہ گروہ کے مخالف نظریہ پرداز)عقل پسند گروہ کے نظریہ کے برخلاف ہوگا، ان کی نظر میں حکومتوں کا اتحاد دنیوی منافع یا کسی خاص خطرے کے بنسبت عکس العمل کے فائدہ کے لحاظ سے ہوتا ہے ، اور خطرے کی وجہ یا اپنا فائدہ ختم ہونے کے بعد، اس اتحاد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ ابتدائی مکتب فکر کی نظر میں چونکہ یہاں پر مشترکہ فکر اور شناخت کی بنا پر ممالک کی ہم فکری و وحدت مدنظر ہے ، لہذایہ نکتہ نظر

ص:208

مضبوط اور طولانی مدت تک باقی رہ سکتا ہے، حتی تکفیریوں کے خطرے سے پیدا شدہ ناامنی کے اسباب دور ہونے کے بعد بھی ، یہ ہم فکری دیگر مسائل اور امور کیلئے جاری و باقی رہ سکتی ہے!۔

اہم کلمات: تکفیری جماعت ، سلفی پسندی، وہابیت، عالم اسلام کی ہم فکری، دنیائے اسلام کی وحدت، سازہ انگاری (ابتدائی مکتب فکر جو ذکر ہوا ہے)۔

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109