داعش کی تاریخ اور افکار کا ایک تنقیدی جائزہ

کتاب کی وضاحتیں

کتاب کا عنوان اور مصنف: داعش کی تاریخ اور افکار کا ایک تنقیدی جائزہ (بررسی انتقادی از تاریخ و اندیشه داعش)/تالیف: محمد ابراہیم نژاد / ترجمہ: سید عقیل افضل رضوی

مشخصات نشر: بی جا

مشخصات ظاهری: 98 ص

نظر ثانی : ریسرچ اسکالر ناظم حسین اکبر

موضوع:داعش

موضوع:تروریسم -- خاورمیانه

تعداد:5000

ایڈیشن : پہلا ،2016ء

ص:1

اشاره

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

کتاب:داعش کی تاریخ اور افکار کا ایک تنقیدی جائزہ

تالیف: محمد ابراہیم نژاد

ترجمہ: سید عقیل افضل رضوی

نظر ثانی : ریسرچ اسکالر ناظم حسین اکبر

صفحات : 98

تعداد:5000

ایڈیشن : پہلا ،2016ء

ص: 2

فہرست

مقدّمہ 5

ابو مصعب زرقاوی کون ہے؟ 10

زرقاوی کی عراق آمد اور عراق پر امریکہ کا حملہ 14

عراق میں القاعدہ کی تشکیل اور اس کے مظالم 16

شیعوں کے قتل عام پر القاعدہ قائدین کی زرقاوی پر تنقید 18

شیعہ قتل عام پر زرقاوی کے اپنے استاد ابو محمد مقدسی سے اختلافات 21

مجاہدین کونسل کی تشکیل اور زرقاوی کی ہلاکت 23

زرقاوی کے بعد عراق میں القاعدہ عراق کے توسط سے اسلامی حکومت کی تشکیل 24

ابو بکر البغدادی کی قیادت 29

ابوبکر البغدادی کی زندگی 29

شام میں جنگ اور داعش کی بنیاد 31

داعش کے عراق پر حملوں کے وقت عراق کی سیاسی صورتحال 35

داعش کی نظر میں بغدادی کی خلافت پر دلائل 41

ابوبکر البغدادی کی خلافت پر القاعدہ رہنماؤں کے اعتراض 42

ابوبکر البغدادی کی خلافت پرردِّ عمل 45

داعش کے یورپی مددگار 53

مؤسسةالفرقان، داعش میڈیا 55

ص:3

داعش کے مالی ذرائع 56

داعش کے عقائد و افکار 59

عراق کی اسلامی حکومت کا بیانیہ 65

شیعوں اور ایران کے بارے میں داعش کا موقف 74

عیسائیوں کے بارے میں داعش کی نظر 79

فلسطین اور غزہ جنگ کے بارے میں داعش کا نظریہ 81

حماس کے بارے میں داعش کی نظر 84

اخوان المسلمین کے بارے میں داعش کی نظر 86

کردوں کے بارے میں داعش کی نظر 88

امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط پر داعش کی نظر 90

داعش کے نظریات پر ایک تجزیہ 90

کتابیات 96

ص: 4

مقدّمہ

2003 ءمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے بہانے امریکہ کے عراق پر حملے کے ساتھ ہی عراق میں القاعدہ نے ابومصعب زرقاوی کی قیادت میں اپنی کاروائیاں شروع کر دیں اور بہت سے مقامات پر خودکش حملے کئے گئے۔ پبلک مقامات پر بمب

دھماکے، اسلام کے نام پر قتل و تشدد اور امریکہ کے خلاف جنگ، القاعدہ گروہ کے عراق میں اہم کارنامے تھے۔ ابو مصعب الزرقاوی 2003ءسے 2006 ءتک عراق میں القاعدہ کا سربراہ تھا وہ شیعوں کو اپنا عدو قریب (نزدیکی دشمن)گردانتا تھا اور عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف جنگ کو اپنا اصل ہدف قرار دیتا تھا۔ زرقاوی 2008ءمیں عراق میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر بمباری میں مارا گیا۔ اس کی ہلاکت کے چند ماہ بعدالقاعدہ الدولۃ الاسلامیۃ (اسلامی حکومت)میں تبدیل ہو گئی اور ابو عمر بغدادی نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی؛ لیکن ملک کے آئین کی تشکیل، سیاسی صورتحال میں بہتری اور زرقاوی جیسے کرشماتی رہنما کی کمی کی وجہ سے عراق میں القاعدہ کی کاروائیوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ لیکن 2010ءمیں ابو عمر کی ہلاکت اور ابوبکر البغدادی کے منظر عام پر آنے اور شام کی داخلی جنگ کی وجہ سے اس گروہ کی دہشتگردانہ کاروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

شام میں القاعدہ کے لیے ایمن الظواہری کے فتوے اور بعض مغربی اور علاقے کے ممالک کے پروپیگنڈے اس بات کا باعث بنے کہ عراقی القاعدہ نے شام کا رخ کیا اور شام کے مشرقی اور شمالی حصّوں پر، جن میں رقّہ شہر بھی شامل

ص:5

ہے، پر قبضہ کر لیا اور ان علاقوں میں بشار الاسد کی قانونی حکومت کی رٹ کو کمزور کر دیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شام میں القاعدہ کے مختلف گروہوں میں اختلافات

پیدا ہوگئے اور ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں عراق کی القاعدہ کی جبہۃ النصرہ کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی اور اس لڑائی میں دونوں اطراف کے بہت سے افراد ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے۔عراقی القاعدہ اور شام کی القاعدہ (جبھۃ النصرۃ ) کے اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر القاعدہ کے عالمی لیڈر ایمن الظواہری کو ثالث بننا بڑا۔ ایمن الظواہری نے شامی القاعدہ(جبھۃ النصرہ) کے حق میں فیصلہ سنایا اور ابوبکر البغدادی کو حکم دیا کہ وہ واپس عراق پلٹ جائے بصورت دیگر اس کو شام میں جبھۃ النصرہ کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔

ظواہری کی رائے داعش کے رہنما کو بالکل بھی نہ بھائی اور اس نے الظواہری کی بیعت توڑتے ہوئے کہا کہ وہ اسامہ کے علاوہ کسی کو لیڈر نہیں مانتا۔ یوں وہ القاعدہ کے علمی نیٹ ورک سے الگ ہوگیا اور داعش (الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام)تشکیل دی تاکہ دوسروں کو یہ بتا سکے کہ شام پر داعش کا قبضہ ہے اور اب وہ ایمن الظواہری کی بیعت میں نہیں ہیں۔

عملی طور پر القاعدہ کی بیت سے خارج ہوتے ہی ابوبکر البغدادی نے چھوٹی سی حکومت سے ایک بڑی چھلانگ لگائی اور اسلامی خلافت کا دعویٰ کر دیا اور خود کو خلیفہ المسلمین کا نام دیا۔ داعش کے پروپیگنڈے میں اس کو «ابوبکر الحسینی القریشی البغدادی» کے نام سے پکارا جاتا ہے تا کہ اس سے «خُلَفَاءُ اُمَّتِی

ص:6

اِثنَاعَشَرَ، کُلُّهُم مِن قُرَیش» کی معروف حدیث یاد رہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا

ابوبکر البغدادی خود کو بارہواں خلیفہ یعنی امام مہدی تصور کرتا ہے؟ اسکے لیے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کیا جانا چاہئے۔

داعش کو جاننے اور پہچاننے کے لیے پہلے القاعدہ کو جاننا ہوگا اور القاعدہ کو جاننا جہادی سلفیت کو جانے بغیر ممکن نہیں۔ جہادی سلفیت بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں مصر میں ظہور پذیر ہوئی اور جاہلیت اور جہاد کی مخصوص تشریح و تفسیر سے اس سے بہت سے تکفیری گروہوں نے جنم لیا۔

داعش کے فکری قائدین میں ابن تیمیه، محمد بن عبدالوهاب، سید قطب، سید امام (عبدالقادر عبدالعزیز)، عبدالله عَزّام، اسامه بن لادن ،ابومصعب الزرقاوی اور داعش کے موجودہ مفتی ابو همام اثری اور ابو منذر شنقیطی کا نام لیا جاسکتا ہے۔

ابو مصعب شامی کے قول کے مطابق جہادی سلفیت کی بنیاد ان عناصر سے تشکیل پائی ہے: اخوان المسلمین کے افکار میں سے بعض اصول+ سید قطب کا تحریکی اسلوب+ ابن تیمیہ اور مکتب سلفیت کی سیاسی فقہ+وہابیت کا فقہی اور عقیدتی ورثہ۔(1)؎

داعش کے عقائد کی رسمی کتاب اور داعش کی جانب سے چھپنے والی دوسری کتابوں جیسے الدولة النبویة، اعلام الانام بمیلاد دولة الاسلام، عقیدتنا و منهجنا اور

ص:7


1- ۔سوری، ابومصعب، دعوة المقاومة الاسلامیة العالمیة،ص694

قبروں کو مسمار، زیارت عاشورا، لااله الاالله کے معنیٰ، جمہوریت کے موضوعات پر مختلف کتابچوں

اور زرقاوی، ابوعمرالبغدادی، ابوبکرالبغدادی و ابومحمدعدنانی(1)؎ سبھی داعش قائدین کی تقاریر سے ابو مصعب سوری کی بات ثابت ہوجاتی ہے۔(2)؎

داعش کے تحت تسلط شام اور عراق کے تمام علاقوں میں ابن تیمیہ کی یہ عبارت نظر آتی ہے کہ «قوام الدّین بکتاب یهدی و بسیف ینصر» یعنی دین کی پائداری قرآن جیسی رہنما کتاب اور اس تلوار سے ہے جو دین کی نصرت کرتی ہے۔ اپنے سلفی افکار کو دکھانے اور بتانے کے لیے داعش محمد بن عبد الوہاب کی نواقض الاسلامکو مقبوضہ علاقوں کے در و دیوار پر نصب اور اولیائے کرام کی قبروں کو مسمار کرکے سید قطب کی پیروی کرتے ہوئے مسلح جہاد (بسیف ینصر)کو اپنی بنیادی اصل قرار دیتی ہے۔ جبکہ زرقاوی جس نے

ص:8


1- ۔ یہ تمام کتابیں اور کتابچے داعش کی حامی ویب سائٹوں پر دستیاب ہیں، نمونے کے طور پر شموخ الاسلام کی ویب سائٹ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جس نے ایمن الظواہری کی بیعت توڑتے ہوئے داعش کی بیعت کی اور داعش سے جڑے تمام مطالب کو شائع کر رہا ہے۔
2- ۔ اس حوالے سے اعتصام انسٹیٹیوٹ کی جانب سے صلیل الصوارم کے نام سے ایک کلیپ بھی موجود ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ داعش بچوں اور نوجوانوں کو قرآن کی کلاس میں نواقض الاسلام کی تدریس کر رہی ہے۔ اس طرح داعش کے زیر کنٹرول شہروں سے نشر ہونے والی کلپس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ان شاہراہوں پر محمد بن عبدالوہاب کی نواقض الاسلام نصب کی گئی ہے۔

شیعوں کو اپنا اصلی دشمن قرار دیا،

داعش نے اس کے بیانات کو اپنے برتاؤ کا نصب العین قرار دیا ہے۔

آنے والی بحثیں، عراقی القاعدہ یا نام نہاد الدولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) کی تاریخ اور عقائد پر ایک مختصر رسالہ ہے۔ لہذا سب سے پہلے ہم ابو مصعب الزرقاوی، عراق میں القاعدہ کی تشکیل میں اس کے کردار اور داعش کے افکار و نظریات پر اس کے اثرات اور آگے چل کر داعش کے اہم ترین افکار کا تجزیہ کریں گے تاکہ اس تکفیری گروہ کو بہتر طور پر جان سکیں۔

ص:9

ابو مصعب زرقاوی کون ہے؟

عراق میں القاعدہ کی پیدائش کو ہم اس کے بانی ابو مصعب زرقاوی کی انتہا پسندی میں ڈھونڈ سکتے ہیں۔

زرقاوی 1966ءکو اردن کے شہر زرقاء میں پیدا ہؤا۔ سترہ سال کی عمر میں ہائی اسکول سے نکالا گیا جس کے بعد اس کی زندگی تشدد، نشے اور شراب میں گزری۔(1)؎

1987ء میں منشیات برآمد ہونے اور ایک آدمی کو چاقو سے زخمی کر دینے کی وجہ سے اس پر جرمانہ ہؤا۔(2)؎ اس واقعے کے بعد زرقاوی کی سلفیوں سے آشنائی ہوئی اور 1989ء کو یہ افغانستان چلا گیا۔(3)؎ جس وقت یہ افغانستان پہنچا اس وقت سوویت فوجوں کے انخلاء کا عمل شروع ہو چکا تھا اور زرقاوی کو بہت تھوڑی سی مدت کے لیے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے کا موقع ملا، لیکن زرقاوی کا افغانستان میں زیادہ تر وقت انتہا پسند میگزینوں میں سے ایک کے لیے رپورٹنگ میں گزرا۔ افغانستان میں اپنے قیام کے دوران ہی زرقاوی جیسا جوان اور جلد اثر قبول کرلینے والا انسان پہلی مرتبہ القاعدہ کے قائدین سے

ص:10


1- ۔ Kirdar M.J. al-Qaida in Iraq. Center for strategic international studies. 2011:1-15
2- ۔پریزار، جان شارل، الزرقاوی الوجه الاخر للقاعده، ص37.
3- ۔ایضاً، ص39.

آشنا ہؤا۔(1)؎ پشاور میں اس کی جہادی سلفیوں جن میں ابو محمد مقدسی(2)؎ بھی شامل تھا، سے جان پہچان ہوئی اور یوں اس نے اپنی انتہا پسندی کو

اور گہرا اور افغانستان میں موجود جہادیوں سے تعلقات کو مزید بڑھایا۔

زرقاوی 1993ءکو اردن واپس چلا گیا جہاں اس نے اپنے استاد اور مرشد ابو محمد مقدسی سے دوبارہ ملاقات کی۔ اردن واپسی سے پہلے انہوں نے ہاشمی سلطنت کے خلاف اور اردن حکومت پر اعتراض کے لیے التوحید جماعت کی جو اردن کی خفیہ ایجنسی کے نزدیک «بیعت امام» کے نام سے معروف تھی، بنیاد رکھتے ہوئے جنگ کا آغاز کیا۔۔ البتّہ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے، مقدسی نے ایسے گروہ کی تشکیل میں اپنے کردار کا انکار کیا اور اس کام کو ایک ذاتی فعل قرار دیا۔(3)؎

1993 ءمیں ایک مقامی سینما گھر کے سامنے بمب دھماکے میں ناکامی پر اردن کی خفیہ ایجنسی نے مقدسی سمیت گرفتار کر لیا اور 15 سال کے لیے جیل چلا گیا۔ جیل میں رہتے ہوئے ابو محمد مقدسی نے معنوی جبکہ زرقاوی نے

ص:11


1- ۔Kirdar M.J. al-Qaida in Iraq. Center for strategic international studies. 2011:1-15.
2- ۔ابومحمد مقدسی اردنی جہادی سلفیوں کا ایک لیڈر ہے جو اس وقت اردن میں ساکن ہے۔
3- ۔http://www.aljazeera.net/ programs/today-interview/2005/7/10/أبو- محمد - المقدسی - السلفیة - الجهادیة

انتظامی لیڈر کے حوالے سے جیل سے باہر اپنے گروہ کی توسیع کی۔اس دوران زرقاوی پر سلفی افکار انتہائی شدّت کے ساتھ غالب ہوئے جس سے زرقاوی پر سلفی افکار کا بہت شدّت سے اثر ہؤا اور اپنے معنوی باپ یعنی مقدسی کے افکار سے متاثر ہوکر اس میں بھی تکفیری سوچ پیدا ہوگئی۔ حتّیٰ اپنے جیل کے آخری ایام میں وہ یوں سوچتا تھا کہ عالم دو حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے؛ ایک

ان سنّی مؤمن مسلمانوں کا عالم جو سلفیّت کی طرف مائل ہیں اور ان کے مقابلے میں کفّار کا عالم جس میں ہر گروہ شامل ہے جو فکری لحاظ سے اس سے مختلف ہو اور اس میں عیسائی، یہودی، بدھ اور تمام اسلامی فرقے شامل ہیں۔(1)؎ ایک اردنی رپورٹر،«الزرقاوی الجیل الثانی للقاعده» کتاب کا مصنّف اور زرقاوی کے ساتھ جیل میں سزا میں شریک فواد حسین کے بقول زرقاوی کی شخصیت چار حصّوں سے تشکیل پائی ہے۔ بدویتی کہ جس میں وہ بڑا ہؤا، اس کی والدہ کا اس پر اثر، جیل اور اس کا معنوی باپ یعنی مقدسی۔(2)؎

1999ءکے اوائل میں عام معافی کے تحت جیل سے رہا ہؤا(3)؎ اور دوسری مرتبہ افغانستان گیا جہاں اسامہ بن لادن کے نائبین میں سے ایک، سیف

ص:12


1- ۔پریزار، جان شارل، ص72-81.
2- ۔حسین، فواد، ص3.
3- Leiken R. S, Brooke S. Who Is Abu Zarqawi?; What we know about the terrorist leader who murdered Nicholas Berg, The Weekly Standard, 2004

العدل کے توسط سے اسامہ کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات کرنے میں کامیاب ہؤا۔(1)؎ اسامہ بن لادن اردن کی خفیہ ایجنسی کے ان سلفی قیدیوں میں نفوذ سے پریشان تھا جن کو اردن حکومت نے آزاد کیا تھا۔ چونکہ زرقاوی کے

جسم پر ٹیٹو کے نشانات بنے ہوئے تھے، اس وجہ سے اسامہ کو اس پر بھی شک تھا؛ لیکن اس وقت کے القاعدہ کے سیکیورٹی چیف، سیف العدل نے زرقاوی کی حمایت کی تھی، لہذا اسامہ نے بھی اس کی حمایت کی۔(2)؎ سیف العدل نے اسامہ بن لادن کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ زرقاوی کو 5000 ڈالر دے اور اسامہ کے قندھار میں موجود آپریشنل کیمپ سے الگ، ہرات میں ٹریننگ کیمپ بنائے۔(3)؎

2000ءمیں زرقاوی نے یورپی اور مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں میں اپنے تعلقات کو بڑھانا شروع کر دیا(4)؎ تاکہ وہ القاعدہ سے زیادہ سے زیادہ آزاد ہو کر

ص:13


1- Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the“Zarqawi Factor”. center for sterategic international studies. 2006:1-26
2- Gambill. Abu Musab al-Zarqawi and Weaver The Short, Violent Life of Abu Musab al-Zarqawi.
3- ۔ایضاً
4- ۔پریزار، جان شارل، ص 106.

کام کر سکے۔ اس سلسلے میں زرقاوی یورپ میں مقیم اردن، فلسطین اور شام کی اسلامی جماعتوں کے تارکین وطن کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔(1)؎

زرقاوی کی عراق آمد اور عراق پر امریکہ کا حملہ:

افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد، زرقاوی انصار الاسلام کے ایک کمانڈر کی مدد سے عراقی کردستان فرار کر گیا اور ملاکریکار کی قیادت میں

سرگرم سلفی گروہ «انصارالاسلام» کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ ملاکریکار نے بعض خلیجی ممالک کی جانب سے ملنے والی بڑی مالی امداد سے زرقاوی کی بھرپور حمایت کی۔(2)؎

2002ء میں ملاکریکار نے جہادی گروہوں کی کاروائیوں کی مخالفت کی جس کی پاداش میں اسے «انصارالاسلام» کی قیادت سے ہٹا دیا گیا(3)؎ جس کے بعد زرقاوی کی اہمیت کے پیش نظر اس کو گروہ کا نیا قائد بنا دیا گیا۔(4)؎ 2003 ءمیں امریکہ نے جوہری ہتھیاروں اور صدام کے زرقاوی کے تعلقات کے بہانے

ص:14


1- Gambill. Abu Musab al-Zarqawi and Weaver The Short, Violent Life of Abu Musab al-Zarqawi.
2- ۔حسین، فواد، ص10.
3- ۔پریزار، جان شارل، ص158الی 160.
4- ۔ایضاً، ص164.

عراق پر حملہ کر دیا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ نے زرقاوی کو القاعدہ اور عراقی حکومت کے درمیان رابطہ کار کے طور پر متعارف کرایا۔(1)؎

عراق میں تکفیری گروہوں کے بارے میں ایک بین الاقوامی ادارے کے تجزیے کے مطابق 2003 ءسے 2006 ء تک عراق میں ایک سو سے زائد جہادی گروہ فعال تھے۔(2)؎ اس رپورٹ کے مطابق ان میں 59 القاعدہ کے جبکہ 36 انصار السنہ کے رکن ہیں۔(3)؎

زرقاوی کی سب سے ابتدائی کاروائیوں میں امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے روضہ مبارک کے نزدیک بم دھماکہ تھا جس میں عراقی سپریم کونسل کے چیئرمین، سید محمد باقر حکیم سمیت بہت سے شیعہ شہید ہوئے۔ زرقاوی کی کوشش تھی کہ شیعوں کے خلاف بڑے بڑے دہشتگرد حملے کر کے شیعہ سنّی تفرقہ پیدا کر سکے۔

اس گروہ کی کاروائیوں کے حوالے سے بروس ہیفمن کہتا ہے:«ان گروہوں میں کسی بھی قسم کی مرکزیت، قیادت اور کوئی تنظیمی عہدہ نہیں اور

ص:15


1- ۔پریزار، جان شارل، ص135.
2- Search For International Terrorist Entities:بین الاقوامی دہشتگردوں کے موضوع پر تحقیق کرنےوالے ایک ادارے کا نام
3- Cordesman A.H, Burke A.A. Zarqawi’s Death:Temporary “Victory”or Lasting Impact. Center for Strategic and International Studies. 2006:1-12.

یہ کسی آرگنائزیشن سے زیادہ بکھرے ستاروں کی مانند ہیں». اسی طرح اس وقت کے عراقی وزیر داخلہ، عبدل الکریم العنیزی کا ان گروہوں کے بارے میں کہنا ہے:«معمولاً قائدین کو جزئی امور سے کوئی دلچسپی نہیں… یہ گروہ ایک دوسرے سے مربوط نہیں اور ان میں کوئی خاص نظم بھی نہیں پایا جاتا۔»(1)؎

عراق میں القاعدہ کی تشکیل اور اس کے مظالم:

2004ء میں بعض جہادی گروہوں کے زرقاوی کے ساتھ ملحق ہونے اور اس کی اسامہ کے ہاتھ پر بیعت کے بعد القاعدہ کی عراق میں«القاعده فی بلاد الرافدین»

کے نام سے شاخ کو رسمی طور پر تشکیل دیا گیا۔ اسی سال اکتوبر میں اس بیعت کا اعلان کر دیا۔(2)؎ اور اسامہ بن لادن نے الجزیرہ چینل پر چلنے والے آڈیو پیغام میں زرقاوی کو عراق میں اپنا باقاعدہ نمائندہ بنانے کا اعلان کیا۔ فروری 2004 ء میں زرقاوی نے رسمی طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے

ص:16


1- ۔ایضاً
2- ۔زرقاوی، ابومصعب، کلمات مضیئة، شبکه البراق، ج5، ص58؛ اسی طرح«رسالة من جندی لأمیره - إلی الشیخ أسامة بن لادن»، کے عنوان سے اس کی آڈیو فائل منبر التوحید و الجہاد ویپ سائٹ اور یو ٹیوب پر موجود ہے.

شیعوں کے خلاف فرقہ وارانہ جنگ کا اعلان کر دیا۔(1)؎ ان دنوں زرقاوی نے «هَل اَتَاکَ حَدِیثُ الرَّافِضَۃ» لکھ کر عراق کے اہل سنّت کو بر انگیختہ کیا اور شیعوں کی نسبت بہت سے جھوٹ منسوب کئے۔ وہ اس کتاب میں امام خمینیؒ کو امریکہ کے ایک جاسوس کے طور پر متعارف کراتا ہے جن کو امریکہ کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ اسلام کو ختم کر دیں۔ زرقاوی کو یہ گمان تھا کہ وہ چار صفحوں کی اس کتاب میں ان فضول قسم کی باتوں سے اس مطلب کو ثابت کر رہا ہے۔ اسی طرح اپنے ایک فضول اور گھٹیا تجزیے میں وہ شیعوں کو امریکہ کا ساتھی قرار دیتا ہے جو اس کے نزدیک شیعوں کی طرف سے بہت بڑی خیانت ہے جس سے وہ عراق کے اہل سنّت اور

اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ یہ غلط تجزیے کوئی نئی بات نہیں، اور بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ میں بہت سے متعصّب لکھاریوں نے اس قسم کی گھٹیا باتوں کو شیعوں کے ساتھ منسوب کیا اور رافض سے مراد رفض اسلام لیا، افسوس کہ زرقاوی بھی انہیں متعصّب لوگوں کے اثر سے بچ نہ سکا۔

2005 ء میں القاعدہ کے دوسرے بڑے لیڈر، ایمن الظواہری نے زرقاوی کو ایک خط لکھا جس میں عراق میں القاعدہ کا سب سے اہم ہدف امریکی فوجوں کو باہر نکالنا بتایا اور زرقاوی سے کہا کہ وہ ہر اس اقدام سے گریز کرے

ص:17


1- Cordesman A.H, Burke A.A. Zarqawi’s Death:Temporary “Victory”or Lasting Impact. Center for Strategic and International Studies. 2006:1-12.

جس سے عراقی راضی نہ ہوں۔ اس خط میں ظواہری نے زرقاوی کو خبردار کیا کہ عراق میں شیعوں کے قتل عام کے مناظر سے جہاد کے مشن پر انتہائی غلط اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔(1)؎

یہ زرقاوی ہی تھا جس نے سب سے پہلے غیر ملی یرغمالیوں کے گلے کاٹنے کی فلم کو سائبر اسپیس پر نشر کیا۔ اس ویڈیو میں اس نے امریکہ کے نکولس برگ کا سر کاٹا اور(20 ستمبر 2004 ءمیں) جیک آرمسٹرانگ اور (21 ستمبر 2004 ءمیں) جیک ہنسلے کے قتل کی ذمّہ داری قبول کی۔(2)؎ آج جو گلے کاٹنے کی ویڈیوز داعش نشر کر رہی ہے وہ زرقاوی سے

متاثر ہو کر ہی کر رہے ہیں۔ زرقاوی کے مؤثر اقدامات میں سے ایک اہم اقدام داعش کا پرچم ہے جو اس نے پہلی بار رسمی طور پر اپنے گروہ التوحید و الجہاد کے لیے قرار دیا۔

شیعوں کے قتل عام پر القاعدہ قائدین کی زرقاوی پر تنقید:

بعض رپورٹس کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذاتی اور نظریاتی لحاظ سے زرقاوی اسامہ بن لادن سے بہت مختلف تھا۔ زرقاوی اور اسامہ بن لادن میں سب سے اہم فرق اصلی دشمن (العدّو القریب و العدّو البعید) کے مسئلے میں

ص:18


1- ۔ایضاً
2- Cordesman A.H, Burke A.A. Zarqawi’s Death:Temporary “Victory”or Lasting Impact. Center for Strategic and International Studies. 2006:1-12.

تھا۔(1)؎ القاعدہ کی ترجیح امریکہ کے ساتھ جنگ تھی، جبکہ زرقاوی شیعوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھتا تھا۔(2)؎ اسی طرح زرقاوی کا یہ بھی ماننا تھا کہ اس سے زیادہ القاعدہ اس کی محتاج ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عراقی القاعدہ کو القاعدہ کی مالی امداد کی ضرورت نہیں تھی اور زرقاوی کا اسامہ کی مالی مدد سے مستغنی ہونا اس خط سے پتا چلتا ہے جو 2005 ءمیں القاعدہ نے زرقاوی کو لکھا، لیکن عراق کی القاعدہ اس خط کو جعلی قرار دیتی ہے۔(3)؎

اسی طرح ایمن الظواہری زرقاوی کو بغیر وجہ کے قتل کرنے پر یوں لکھتا ہے:

ص:19


1- ۔حسین، فواد، ص10.
2- Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the“Zarqawi Factor”. center for sterategic international studies. 2006:1-26
3- ۔امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اور جان نگروپونٹہ نے اس خط کو نشر کیا لیکن خط سامنے آنے کے فوراً بعد زرقاوی نے بغیر کسی خوف و جھجک کےاس کا انکار کر دیا۔ ابھی تک القاعدہ کے قائدین نے اس کی تائید نہیں کی جبکہ امریکی عہدیدارخط کےصحیح ہونے کی بڑے یقین کے ساتھ تائید کرتے ہیں۔ القاعدہ کی دوسری ویپ سائٹیں بھی اس خط کے بارے میں شک ظاہر کرتی ہیں۔ خط کے مضمون میں نرم اور دوستانہ لہجے کے ساتھ القاعدہ اور زرقاوی کے درمیان اختلافات کو بیان کیا جانا خط کے صحیح ہونے کے امکان کو اور بھی قوی کر دیتا ہے کیونکہ بعد میں آنے والے خطوط میں یہ مندرجات القاعدہ کے قایدین اور جہادی سلفیوں کے علما کے درمیان واضح شکل میں سامنے آئے.

عام لوگوں میں اچّھی شہرت رکھنے والے بہت سے مسلمان تمہارے شیعوں پر حملوں پر تعجّب کا اظہار کرتے ہیں۔ اہل سنّت بڑے واضح انداز میں یہ بات کرتے ہیں کہ بہت جلد تم ان کی مساجد پر بھی حملہ کرو گے۔ میری رائے یہ ہے کہ شیعوں پر حملے مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ کیا شیعوں کے ساتھ جنگ امریکیوں کا کندھوں سے بوجھ کو کم نہیں کرتی اور مجاہدین کو شیعوں کی طرف دھکیل نہیں رہی؟ کیا عراق میں شیعوں کو قتل کر کے مجاہدین اس اسلامی حکومت تک پہنچ سکتے ہیں جس کی وہ تاریخ میں کوشش کرتے رہے ہیں؟ کیوں ایک عام شیعہ کو قتل کیا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس کو اس کے جہل کی وجہ سے معاف کر دیا جائے؟ ان کو کیوں قتل کر رہے ہو؟ میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت ہم دونوں اور ایرانیوں کو ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے

گریز کرنا چاہئے۔ ہم کیوں اس بات کی اجازت دیں کہ امریکی ہمیں نشانہ بنائیں؟ مجاہدین کی یہ تحریک عام لوگوں کی حمایت کے بغیر کبھی بھی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی۔ علاوہ برایں، عوامی حمایت کی حفاظت اور افزائش سے ہی کامیابی اور شکست کا پتا چلے گا۔ اس حمایت کے نہ ہونے سے اسلامی مجاہدین کی تحریک سائے میں چلی جائے گی اور جہادی قیادت اور عہدیداروں کے درمیان لڑائی جیل کے سیاہ کنویں، لوگوں اور روشن دن سے دور محدود ہو کر رہ جائے گا۔(1)؎

ص:20


1- Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the“Zarqawi Factor”. center for sterategic international studies. 2006:1-26

ظواہری اس خط میں زرقاوی سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر اس اقدام سے پرہیز کرے جسے عراقی نہ سمجھتے یا اس کی تائید نہ کرتے ہوں اور «تحریک مجاہدین کی پلاننگ عام لوگوں کے ساتھ کرے نہ کہ لوگوں سے دور لڑائی میں مصروف رہے»۔ظواہری نے خبردار کیا کہ عراق میں ہونے والے حالیہ قتل عام کے جہادی تحریک پر بہت وسیع پیمانےپرمضر اثرات پڑے ہیں۔ وہ واضح طور پر کہتا ہے کہ زرقاوی کو «جنگی اقدامات کے برابر براہ راست سیاسی کاروائی» کی ضرورت ہے اور بتاتا ہے کہ طاقت کے علاوہ«مسلمانوں کو مطمئن اور ان کو اقتدار میں شریک کرنے» کی ضرورت ہے۔

ظواہری زرقاوی کو ایک مرتبہ پھر، اس کو اس کے حد سے زیادہ پر تشدد رویے اور کاروائیوں پر خبردار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کام سے مسلمانوں کی اکثریت کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ القاعدہ کی مکمل کامیابی کے لیے مسلمانوں کی حمایت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔(1)؎

شیعہ قتل عام پر زرقاوی کے اپنے استاد ابو محمد مقدسی سے اختلافات:

آج تک جاری باقی رہنے والے انتہائی متنازعہ اختلافات میں سے ایک اختلاف 2005 ء کے وسط میں ابو محمد مقدسی اور زرقاوی کے درمیان ظاہر ہؤا۔

ص:21


1- ۔ایضاً.

الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے مقدسی نے زرقاوی کو نصیحت کی اور کہا کہ عراق میں ہونے والے بم دھماکوں کی وجہ سے بہت سے عراقی اور شیعہ قتل ہوئے ہیں۔(1)؎ اس انٹرویو میں مقدسی نے شیعہ اور اہل سنّت عوام کو ہم مرتبہ کہا اور واضح کیا کہ ان کا قتل جائز نہیں۔ اس انٹرویو کے بعد زرقاوی نے مقدسی کو «بَیَانٌ وَتَوضِیحٌ لمَا أَثَارَهُ الشَّیخُ المَقدِسِیُّ فِی لِقَائِهِ مَعَ قَنَاةِ الجَزِیرَةِ» کے نام سے ایک خط میں جواب دیا۔ اس بیان میں زرقاوی نے مقدسی کے اس فعل کو اللہ کے دشمنوں کی ایک چال کہا اور مقدسی کو مجاہدین کی صفوں سے خارج ہونے

پر خبردار کیا۔ اس خط میں زرقاوی نے شیعہ اور سنّی عوام کی برابر ی کو اہل سنّت کے حق میں ظلم جانا اور شیعوں کو صحابہ پر سب ّبالخصوص حضرت ابوبکر، حضرت عمر پر سبّ کرنے کی وجہ سے اسلام سے خارج شمار کیا اور آخر میں مقدسی سے تقاضا کیا کہ وہ «مجاہدین کی مخالفت نہ کرے اور مقدسی کا یہ اقدام جہاد کی صفوں میں کھڑے مجاہدین پر سخت حملہ ہے۔»(2)؎

ص:22


1- ۔ایضاً
2- ۔زرقاوی، ابومصعب، کلمات مضیئه، شبکه البراق، ج5، ص326

مجاہدین کونسل کی تشکیل اور زرقاوی کی ہلاکت:

زرقاوی نے جنوری 2006ء کو چھ مسلّح گروہوں(1)؎ پر مبنی ایک کونسل تشکیل دی جس کی صدارت عبد اللہ رشید البغدادی(2)؎ نے سنبھالی۔ کونسل نے ایک بیانیہ جاری کر کے باقاعدہ اپنی کاروائی کا آغاز کیا۔(3)؎ اس بیانیہ میں مجاہدین کی کونسل کی

تشکیل کی چھے وجوہات ذکر ہوئی ہیں۔(4)؎ مجاہدین کی اس کونسل کو تشکیل پائے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ 7 جون 2006 ء کو بعقوبہ کے نزدیک امریکی فوج کے ایک حملے میں زرقاوی مارا گیا۔(5)؎

ص:23


1- ۔قاعدة الجهاد فی بلاد الرافدین (القاعده عراق)؛ جیشُ الطائفة المنصورة؛ سرایا أنْصار التّوحید؛ سرایا الجهاد الإسلامیّ؛ سرایا الغُرباء؛ کتائبُ الأهوال.
2- ۔بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ عبد اللہ رشید البغدادی ابو عمر البغدادی ہی ہے.
3- ۔اس بیانیہ کا مکمل متن منب التوحید و الجہاد کی ویب سائٹ پر آچکا ہے۔
4- ۔وہ چھے وجوہات یہ ہیں: 1. عراقی مجاہدین اور صلیبیوں اور ان کے مرتدّ اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں قیادت؛ 2.مجاہدین کی صفوں میں اتحاد؛ 3. کفّار کے ساتھ جنگ اور ان کی مکمل نابودی تک لڑائی میں اسلام کا اسلوب؛ 4. پرچم اسلم کی سر بلندی اور پرچم کفر کی نابودی کے لیے پیغمبر اکرم کی جہاد کے سلسلے میں ہدایات کی پیروی؛ 5. لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات اور شکوک کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرنا؛ 6. کفار کے مقابل مجاہدین کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے تمام مجاہدین کو کونسل میں شرکت کی دعوت.
5- Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the“Zarqawi Factor”. Center for strategic international studies. 2006:1-26

زرقاوی کے بعد عراق میں القاعدہ عراق کے توسط سے اسلامی حکومت کی تشکیل:

زرقاوی کی ہلاکت کے بعد مجاہدین کونسل نے القاعدہ عراق کی نامور شخصیت، ابو حمزہ المہاجر مصری کو القاعدہ عراق کا نیا قائد منتخب کیا۔ زرقاوی کی موت کے چند ماہ بعد مجاہدین کی شوریٰ نے ایک بیانیہ نشر کیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عراقی شہریوں پر حملوں کو محدود کر دیا ہے اور

اسی طرح ان کی طرف سے شیعوں کے لیے خطرات بھی کم ہو گئے ہیں۔ اس بات سے ایسا لگتا ہے کہ زرقاوی کے شیعوں پر حملوں پر اسامہ بن لادن اور ابو محمد مقدسی کے اعتراضات اس بات کا باعث بنے کہ زرقاوی کے جانشین ان حملوں میں کمی لائیں اور القاعدہ کے لیڈران کے احکامات پر پہلے سے زیادہ توجّہ دیں۔

15 اکتوبر 2006 ء کو مجاہدین کونسل نے اپنے ترجمان شیخ محارب الجبوری کے توسط سے ایک بیانیہ نشر کیا اور ابو عمر الہاشمی الحسینی البغدادی(1)؎

کی قیادت میں «دولةالعراق الاسلامیه»کی بعقوبہ شہر میں تشکیل کا اعلان کیا۔(2)؎

ص:24


1- ۔شموخ الإسلام ویب سائٹ جو داعش کے رسمی بیانیے(مؤسسه الفرقان و مؤسسه اعتصام) نشر کرتی ہے، نے ابو عمر البغدادی کی سوانح حیات کو «محطات من جهاد الأمیر البغدادی» کے عنوان سے نشر کیا ہے. اس کا اصلی نام حامد داوود محمد خلیل الزاوی ہے اور یہ صوبہ الانبار کے شہرحدیثه 1964 میں پیدا ہؤا.اس کا شجرہ نسب قریش کے اعرجیہ سادات سے ملتا ہے. ابوعمر البغدادی بغداد کی پولیس اکیڈمی از دانشکدۀ پولیس بغداد سے فارغ التحصیل ہؤا۔ اس کے بعد حدیثہ شہر میں پولیس کی نوکری کرتا رہا، پولیس میں بھی وہ اپنے سلفی رجحانات کی وجہ سے معروف تھا. نوّے کی دہائی میں عراق کی بعثی حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ سلفی افکار رکھنے والے افراد کو سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر 1993 میں اس کو اسی سلفی اور وہابی عقیدے کی وجہ سے پولیس کی نوکری سے نکال دیا گیاجس کے بعد ابو عمر گھریلو بجلی کے آلات کی مرمت کے کام میں مصروف ہوگیا۔ امریکہ کے عراق پر حملے اور صدام حکومت کے سقوط کے بعد اس نے حدیثہ میں امریکیوں کے ساتھ لڑائی کے لیے ایک گروہ تشکیل دیا۔ حدیثہ شہر میں ابو محمد اللبنانی اور شیخ ابو انس الشامی کے ساتھ ملاقات کے بعد بغدادی جماعت التوحید و الجهاد کی بیعت کی اور اس کے تمام افراد اس جماعت میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد زرقاوی نے اس کو دیالی شہر کا والی نامزد کیا اور اس عہدے پر کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اسے والیوں کے تنصیب کی ذمہ داری سونب دی گئی۔ زرقاوی کی موت کے بعد بغدادی کے زرقاوی اور عراق میں موجود دوسرے سلفی اور جہادی قائدین کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بنا پر، اسلامی مجلس شوریٰ نے اسے عراق کی اسلامی حکومت کی صدارت پر فائز کر دیا۔
2- ۔"الاعلان عن قیام دولة العراق الاسلامیة" کے نام سے اس بیانیے کی ویڈیو فائل انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ اس کلپ کا لنک سائٹ کی آرکائیو میں موجود ہے: https://archive.org/details/song-of-terror-main-8

عراق میں اسلامی حکومت کی تشکیل کے ردِّ عمل میں عراق کے مسلمان علماء بورڈ نے ایک بیانیہ صادر کیا اور اس کو عراق کی تقسیم کے مترادف جانا۔(1)؎

ص:25


1- http://islamtoday.net/bohooth/services/saveart-12-75625.htm

عراق کی تمام شیعہ جماعتوں اور بعض اہل سنّت جماعتوں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔ان مخالف بیانیوں کے جواب میں اس انتہاپسند گروہ نے بھی ایک بیانیہ صادر کیا جس میں آیا ہے کہ ابو عمر البغدادی کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہؤا ہے اور شوریٰ نے اسکا بطور خلیفہ اعلان کیا ہے۔(1)؎

علاقے کے دوسرے ممالک کی خاموشی، حکومت مخالف بعثی فورسز کا ان کے ساتھ ملحق ہونا اور ان کے تحت تسلّط علاقوں میں اسلامی حکومت کی تشکیل(2)؎ کے اعلان کے بعد قبائل کا ان کے ساتھ مل جانا اس بات کا باعث بنا کہ یہ عراق میں کسی حد تک مستحکم ہو گئے اور عسکری لحاظ سے انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس حاصل کر لی۔

اپنے سب سے پہلے جاری ہونے والے باقاعدہ بیان(3)؎ میں ابو عمر البغدادی نے عراق میں اسلامی حکومت کی تشکیل کی دلیل کچھ اس طرح سے بیان کی:«امریکی افواج کے عراق پر قبضے کے بعد عراق میں قومی اور مذہبی اختلافات زیادہ ہو گئے اور عراق کے شمال میں کرد اور مرکزی عراق میں شیعہ

ص:26


1- http://www.muslm.org/vb/showthread.php?209738-
2- ۔عراق کی اسلامی حکومت کے ساتھ ملنے والے قبائل یہ ہیں: عشایر الدلیم،جبور،العبید،زوبع،قیس،عزة،طی،الجنابیین،اللحیالیین،المشاهدة،الدلیمیة،بنیزید،المجمع،بنیشمر،عنزة، الصمیدع،النعیم،خزرج،بنیلهیب، البوحیات،بنیحمدان،السعدون،الغانم،الساعدة،المعاضید،الکرابلة،السلمانو الکبیسات
3- http://www.muslm.org/vb/showthread.php?209738-

طاقتور ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک کو بیرونی ممالک کی مدد حاصل تھی جبکہ ان کے پاس اپنی مستقل فوج بھی تھی، لیکن اس دوران اہل سنّت مظلوم واقع ہوئے ہیں۔

اس حکومت کو تشکیل دینے کا مقصد اہل سنّت کے حق کو ثابت کرنا ہے۔».

اس انتہا پسند گروہ نے ایک اور بیانیہ صادر کیا اور بعثی فورسز کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آکر مل جائیں۔ لیکن اپنے ساتھ ملنے کی دو شرطیں رکھیں: ایک، قرآن کریم کے تین پارے حفظ ہوں اور دوسرا ان کے عقائد کے حوالے سے ایک امتحان لیا جائے گا جس سے ان کی بعث پارٹی سے مخالفت اور بیزاری ثابت ہو سکے۔اس کے مقابلے میں عراق کی اسلامی حکومت ا نکو اپنی فوج کے مناصب پر فائز کرے گی اور پر کشش ماہانہ تنخواہ بھی ادا کرے گی۔(1)؎

اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے اس تکفیری گروہ نے اپنی خبروں کی کوریج کے لیے مؤسسةالفرقان اور مؤسسةالفجر کی داغ بیل ڈالی۔ اس کے بعد یہ دو انسٹیٹیوٹس نےاپنے مخالفین کے دلوں میں دہشت پیدا کرنے کے لیے گروہ کی خوفناک کاروائیوں کی ویڈیوز بنانی شروع کر دیں۔(2)؎

اس گروہ کے ترجمان، شیخ محارب الجبوری (3)؎نے 2009ء میں ایک بیانیہ پڑھ کر سنایا جس میں یہ آیا تھا کہ اسلامی معاشرے کے لیے امام کی تنصیب لازمی

ص:27


1- ۔ایضاً
2- ۔ایضاً
3- https://nokbah.com/~w3/?p=1274

ہے اور جیسا کہ ابن تیمیہ منہاج السّنّہمیں کہتا ہے:«ائمۀاهل سنت کے نزدیک امامت اہل شوکت کی موافقت کے ساتھ قائم اور استوار ہوتی ہے اور اہل

شوکت سے مراد اس کے زیادہ تر افراد ہیں۔ لہذا جس وقت [امام] علی [علیه السلام]کی شان و شوکت کے ساتھ بیعت ہوئی اور آپ امامت پر فائز ہوئے تو اگرچہ اہل شام نے آپ کی بیعت نہیں کی اور آپ کے ساتھ جنگ کی، لیکن آپ تمام علماء کے اجماع کے مطابق امام ہیں اور اسلامی حکومت اس وقت تک برپا نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ شوکت نہ ہو۔ لہذا جس طرح ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ اللہ کا دین ہدایت کرنے والی کتاب اور مددگار تلوار کے بغیر برپا نہیں ہو سکتا۔ (قواما لدین بکتاب یهدی و بسیف ینصر) اور بالکل یہی چیز عراق کی اسلامی حکومت میں بھی واقع ہوئی ہے۔»(1)

ص:28


1- https://nokbah.com/~w3/?p=552

ابو بکر البغدادی کی قیادت

2010ء میں ابو عمر البغدادی اور عراق کی اسلامی ریاست کے جنگ کے وزیر، ابو حمزہ مہاجر ہوائی حملے میں مارے گئے اور یوں ابوبکر البغدادی کو نیا سربراہ منتخب کیا گیا۔ 2011 ءمیں اسامہ کے

قتل ہونے پر ابوبکر البغدادی نے ایمن الظواہری(1)؎ کی حمایت کرنے کا ایک پیغام نشر کیا لیکن اس کی بیعت نہیں کی اور عراق میں اپنی مستقل حکومت کا اعلان کر دیا۔(2)؎ لیکن ابو قتادہ فلسطینی نے ابوبکر البغدادی کی خلافت کی رد میں لکھی کتاب ثیاب الخلافہ میں بغدادی کی ظواہری کے ہاتھ پر بیعت کو بڑے واضح طور پر بیان کیا ہے اور ظواہری کی بیعت نہ کرنے کے حوالے سے بغدادی اور اس کے حواریوں کے دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی ان کو القاعدہ کے امیر کی بیعت نہ کرنے پر گنہگار بھی کہا ہے۔(3)؎

ابوبکر البغدادی کی زندگی:

إبراهیم بن عواد بن إبراهیم البدری الرضوی الحسینی السامرائی،المعروف ابوبکرالبغدادی، 1971 ءکو عراق کے شہر سامرا میں پیدا ہؤا۔بغدادی خود کو

ص:29


1- http://arabic.people.com.cn/31662/7375040.html
2- http://www.islamist-movements.com/2317
3- ۔فلسطینی، ابوقتاده، ثیاب الخلافه، نخبة الفکر، ص3.

حسینی سادات کے قبیلے بوبدری کے ساتھ نسبت دیتا ہے اور اپنا شجرہ نسب جعفر کذاب کے واسطے سے امام ہادی ؑ تک جوڑتا ہے۔(1)؎

بغدادی ایک سلفی فکر رکھنے والے خاندان میں بڑا ہؤا۔ بغداد یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور کئی سال تک سامرا میں دینی علوم کی تدریس اور تبلیغ میں مشغول رہا۔(2)؎اس کی تبلیغی فعالیت کا مرکز سامرا کی مسجد احمد بن حنبل رہی۔

2004ء میں بغدادی تکفیری گروہوں کے ساتھ ملحق ہؤا اور 2006 ءمیں مجاہدین کونسل کی تشکیل کے ساتھ ہی کونسل کے شرعی بورڈ کا رکن بن گیا۔ابوبکر البغدادی نے دیالی اور سامرا میں اپنے قبیلے کے افراد میں اپنے اثر و رسوخ اور شہرت کی وجہ سے ان کی ابو عمر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی فورسز نے ابوبکر بغدادی کو 2005ءمیں گرفتار کیا۔ بغدادی چار سال تک بوکا جیل میں رہا اور 2009ءکو رہا ہؤا۔بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹھیک اسی دور میں امریکیوں نے اس کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور

ص:30


1- ۔ابی­همام بکر بن عبدالعزیز الاثری، مدالایادی لبیعة البغدادی، ص2.
2- ttp://3.bp.blogspot.com/sxhhUXajTe4/UrR1bGgoQmI/AAAAAAAACHI/RcN9IoFKxvE/s1600/BXxvoNlCUAAymZF.jpg+large.jpg

مستقبل کےاپنے ایک مہرے کے طور پر تیار کیا۔ ابوعمر البغدادی کی 2010ء میں ہلاکت کے بعدعراق کی نام نہاد اسلامی حکومت کا صدر منتخب ہؤا۔(1)؎

شام میں جنگ اور داعش کی بنیاد:

جیسے ہی شام میں جنگ شروع ہوئی تو القاعدہ کے عالمی قائد ایمن الظواہری نے ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے القاعدہ کو شام میں جہاد کی دعوت دی۔خود کو عراق کی نام نہاد اسلامی حکومت کا لیڈر کہنے والا ابو محمد الجولانی، ابوبکر البغدادی کی طرف سے شام میں بشار اسد کی حکومت کے خلاف جنگ کے لیے جبھۃ النصرہ کی تشکیل پر مامور ہؤا۔ تھوڑی سی مدت گزرنے کے ساتھ ہی خلیجی ممالک،تیونس،لیبیا،مراکش،الجیریا،یورپ اوریمن سے جبھۃ النصرہ کے ساتھ ملحق ہونے کے لیے جہادیوں نے شام کا رخ کیا۔ ان انتہا پسند جہادیوں کی وجہ سے جولانی نے بہت کم مدّت میں شام کے مشرقی اور شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔القاعدہ کی طرف سے جبھہ النصرہ کی اس قدر پذیرائی کی وجہ سے ابوبکر البغدادی کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔اس نے فوری طور پر جولانی کو ایک آڈیو کیسٹ کے ذریعے حکم دیا کہ وہ جبھہ النصرہ کو اسلامی حکومت کے تابع فرمان اعلان کرے؛ لیکن جولانی نے کوئی پیغام صادر نہ کیا۔ بغدادی نے جولانی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ کام کرے؛ لیکن جواب میں

ص:31


1- http://arabic.people.com.cn/31662/7375040.html

جولانی نے بغدادی کو کہا:«یہ اقدام شام میں فسادات اور بغاوت کے لیے بہتر نہیں اور اس حوالے سے مجاہدین کونسل کے تمام افراد کا اتّفاق نظر ہے»۔

جس وقت جولانی نے بغدادی کے ترکی اور شام میں فری فورسز کے خلاف بم دھماکے کرنے سے

انکار کیا تو بغدادی کے ذہن میں جبہہ النصرہ کو عراق کی اسلامی حکومت کے ساتھ ملانے کی سوجھی۔ اس پر اس نے جولانی کو سخت لہجے میں ایک پیغام بھیجا جس میں اسے دو میں سے ایک کو چیز کو انتخاب کرنے کو کہا، ایک عراق کی اسلامی حکومت کو قبول کرے یا جبہہ النصرہ کو تحلیل کرے اور ایک نئی جماعت تشکیل دے۔

جولانی کی طرف سے اس پیغام کو رد کئے جانے کے بعد، بغدادی اپنے ساتھیوں سمیت شام داخل ہؤا اور تین ہفتے بعد 2013 ءمیں ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے، جبہہ النصرہ کی تحلیل اور دولت الإسلامیةفی العراق والشام (داعش) کی بنیاد رکھنے کا اعلان کر دیا۔

بغدادی کے اس اقدام کے بعد جبہہ النصرہ تین دھڑوں میں تقسیم ہو گئی: آدھوں نے بغدادی کی بیعت کر لی، ایک چوتھائی جولانی کے ساتھ رہے جبکہ بقیہ اس سارے نظام سے باہر نکل گئے۔داعش کی کونسل کا ایک رکن ابوالأثیرالعبسی، ان افراد میں سے تھا جو سب سے پہلے پانچ سو جنگجوؤں کے ساتھ ابوبکر البغدادی کے ساتھ آکر مل گیا اور حلب کی لڑائیوں میں اہم کردار

ص:32

ادا کیا۔(1)؎ بغدادی کے اس اقدام کے جواب میں جولانی نے ظواہری اور القاعدہ نیٹ ورک کے ساتھ اپنی بیعت کا باقاعدہ اعلان کیا۔

اس معاملے کے کچھ ماہ گزرنے کے بعد، ظواہری نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں جبہہ النصرہ کو القاعدہ کی شام میں شاخ اور ابو محمد الجولانی کو اس کے امیر کے طور پر متعارف کرایا اور بغدادی سے کہا کہ وہ عراق واپس چلا جائے اور شام کے معاملات میں دخالت نہ کرے اور شام میں لڑائی کو جبہہ النصرہ اور جولانی کے حوالے کر دے؛ لیکن بغدادی نے «باقیةفی الشام والعراق»کے عنوان سے الظواہری کی اس درخواست کو پہلی عالمی جنگ کے حوالے سے سرحدوں کی پابندی نہ کرنے کے سائس بیکو(2)؎ معاہدے اور داعش مجاہدین کونسل کے شام میں رہنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے رد کردیا۔ بغدادی خود کو اللہ کے حکم (شام میں باقی رہنے) اور امر الٰہی کے خلاف حکم (الظواہری کے شام سے باہر نکل جانے پر مبنی حکم) کے درمیان مختار تصور کرتا تھا اور اس کے دعوے کے مطابق اس نے خدا کا شریک ٹھہرانے سے بچنے کے لیے، اللہ کے حکم کو امر الٰہی کے خلاف حکم (الظواہری کے فرمان)پرمقدّم کیا۔ اپنے فیصلے کو شرعی رنگ دینے کے لیے بغدادی نے تمام انتہا پسند فورسز سے تقاضا کیا کہ وہ

ص:33


1- http://www.lebtime.com/2014/09/13-ISIS-1.html
2- ۔سایس بیکوایک بین الاقوامی معاہدے کا نام ہے جو پہلی عالمی جنگ کے بعد اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت مغربی ممالک کے درمیان انجام پایا جس میں خلافت عثمانیہ کےتحت ممالک کی سرحدوں کیا گیا۔۔

شام آ جائیں اور نصیریہ (علویوں)، لبنان کی حزب اللہ اور شامی حکومت کے دفاع کے لیے قم، تہران اور دوسرے تمام

شہروں سے آئے شیعوں کے خلاف جنگ کریں۔آخر میں بغدادی اپنے گروہ کے لیے،سید قطب کے افکار سے متاثر اسامہ بن لادن کی تعبیر فسطاط (خیمہ)ایمان کہ جس میں کسی قسم کا نفاق نہیں، استعمال کرتا ہے اور ان تمام گروہوں اور ممالک کو فسطاط کفر(1)؎ کہتا ہے جو اس کے مخالف ہیں۔

اسی وجہ سے داعش اور جبہہ النصرہ میں باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہؤا جو 2013 ءمیں انتہائی شدت اختیار کرگئی جس میں دونوں طرف کے بہت سے افراد مارے گئے۔(2)؎ انہی اختلافات کی بنیاد پر بغدادی نے بیعت شکنی اور مجاہدین کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے پر جبہہ النصرہ کے کمانڈر اور جبہہ النصرہ کے شرعی بورڈ کے چیرمین ابوماریہ القحطانی کے مرتد ہونے کا حکم صادر کیا۔(3)؎ دوسری طرف جبہہ النصرہ کے حامیوں کے لیے بھی عراق کی اسلامی حکومت اور

ص:34


1- ۔بغدادی، ابوبکر، باقیة فی العراق و الشام، موسسه الفرقان.
2- http://www.washingtoninstitute.org/ar/policy-analysis/view/al-qaeda-disaffiliates-with-the-islamic-state-of-iraq-and-al-sham
3- http://www.al-monitor.com/pulse/ar/originals/2013/11/al-qaeda-zawahri-baghdadi-split.html

ابوبکر البغدادی کی اتباع اور اسکے ساتھ ملحق ہونا جائز نہیں تھا کیونکہ وہ شام کے ایک وسیع حصّے پر قابض ہوچکے تھے، جبکہ جبہہ النصرہ کی

شام میں زمینی فتوحات کے سبب عراق میں اسلامی حکومت کو دوبارہ طاقت حاصل ہوچکی تھی۔(1)؎

داعش کے عراق پر حملوں کے وقت عراق کی سیاسی صورتحال

شام میں جنگ کے آغاز اور مغربی اور بعض خلیجی ممالک کی طرف سے شامی حکومت کے مخالفین کی حمایت باعث بنی کہ داعش نے بھی لڑائی میں کود کر وہاں کے بہت سے علاقوں پر قبضے کرکے اچھی خاصی طاقت حاصل کر لی۔ 2013ءکی ابتداء میں عراق میں بہت سی دہشتگردانہ کاروائیاں جیسے عراقی سپریم کورٹ کے سامنے بم دھماکہ، بغداد کے اطراف میں موجود ابو غریب اور الحوت جیل پر حملہ اور «هدم الاسوار» کے عنوان سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کرانے سے، داعش نے الرمادی اور پورے فلوجہ شہر پر قبضہ کر لیا جس سے عراق میں داعش کا وجود بڑا واضح ہو کر سامنے آیا۔ 2014ء میں نوری المالکی کی حکومت کے آخری دنوں، عراق کے پارلیمانی انتخابات اور ان انتخابات میں نوری المالکی کی پارٹی کی تیسری مرتبہ فتح پرالمالکی کے شیعہ اور سنّی دونوں مخالفین اس کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہی

ص:35


1- http://www.france24.com/ar/20140203-

بات عراق میں سیاسی بحران کی باعث بنی۔عراقی حکومت کے بعض اندرونی اور بیرونی

مخالفین نے مرکزی حکومت پر دباؤ پیدا کرنے کے لیے داعش کی حمایت کی اورداعش کو ایک سنہری موقع فراہم کیا۔ داعش نے بھی بعثی فورسز کی مدد سے نینوا اور دیالی سمیت عراق کے پچاس فیصد سنّی آبادی کے علاقوں پر اپنا تسلّط قائم کر لیا اسی طرح صوبہ نینوا کا مرکز موصل بھی بڑی آسانی اور موصل کے گورنر کی خیانت کی وجہ سے داعش کے قبضے میں چلا گیا۔ عراق کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے بھی حکومت پر دباؤبڑھانے اور حکومت مخالفین کی حمایت کے لیے قطر اور اردن میں دو کانفرنسیں منعقد کیں۔(1)؎ اتنی بڑی کامیابی کے بعد داعش نے خود کو بغداد پر قبضہ کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کیا لیکن اچانک شیعوں اور بعض اہل سنّت کے اتحاد اور ہمفکری سقوطِ بغداد کے سامنے آڑے آگئی اور داعش کی پیش قدمی رک گئی۔یہاں پر بعض سیاستدانوں کی خیانت جن میں عراق سپیکر پارلیمنٹ اور کردوں کی خوشی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے عراق کے حالات کو داعش کے حق میں موڑ دیا اور ان سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیئے۔(2)؎

ان علاقوں پر اپنے قبضہ اور شام میں اپنے علاقوں کو عراق کے ساتھ جوڑنے کے ساتھ ہی داعش نے 29

جون 2014ء، پہلی رمضان المبارک کو ا

ص:36


1- ۔نشر ترجمان، پایش فکری و فرهنگی جهان اسلام، شماره10، ص80 و 87.
2- ۔کردوں کی چشم پوشی، خوشی اور مسعود بارزانی کی جانب سے عراقی کردستان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کے اعلان کے لیے دیکھیں: کردپریس، محمد هادی فرکے مقالات.

اسلامی خلافت اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ متعارف کرادیا۔(1)؎ اپنی تقریر میں «هذاوعداللّه»، کے نام سے داعش کے رسمی ترجمان، ابو محمد العدنانی نے داعش کے پرچم کو توحید کا پرچم کہا جو حلب سے لیکر دیالی تک لہرا چکا اور اس حکومت میں مسلمان معزّز اور کفّار ذلیل، اہل سنّت کی عزّت اور اہل بدعت ذلیل و خوار ہوئے ہیں اور بے شک قیدی تلوار کی تیزی سے آزاد ہوئے۔مسلمانوں سے عدنانی کی مراد داعشی، کفّار سے مراد شیعہ اور قیدیوں سے مراد القاعدہ کے وہ ارکان تھے جو عراق کی جیلوں میں قید تھے۔(2)؎

عدنانی سورت نور کی آیت 55 (3)؎کی بنیاد پر خلافت، فرمانبرداری اور سیکیورٹی کو اللہ کے تین وعدے شمار کرتا ہے جو اللہ کی عبودیت اور شرک کے مرتکب نہ ہونے سے ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ عدنانی ہر اس حکومت کو طاغوت کی حکومت قرار دیتا ہے جس میں یہ شرائط موجود نہ ہوں اور اللہ کے اس وعدے کو پورا ہونے کے لیے ان شرائط پر عملدرآمد ضروری ہے۔وہ آیت شریفہ میں بیان ہوئی

خلافت کی حقیقت کو خلقت کا مقصد اور انبیاء و رسل اور

ص:37


1- http://sadaalayam.com/archives/5043
2- http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/06/29/urgent-isis-declares-caliphate
3- ۔(وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُم فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِینَهُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(

آسمانی کتابوں کے نزول کے حتمی مقصد کے طور پر تفسیر کرتا ہے اور اللہ کے دین اور عدل کو برپا کرنا اور ظلم کو ختم کرنا،خلافت قائم کرنے کا ہدف بیان کرتا ہے۔ آیت میں بیان شدہ خلافت کو مطلق گردانتے ہوئے اور سورت منافقون کی 8 ویں آیت(1)؎ کے مطابق حقیقی عزت کو پیغمبر اکرمﷺ اور مؤمنین کے لیے جانتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ اصل عزّت اور ایمان داعشیوں کے پاس ہے جو دشمن کے مقابل ہمیشہ کامیاب ہیں۔

آگے چل کر عدنانی داعش کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے بارے اظہار خیال کرتا ہے اور ان اقدامات میں عدل، حدود کو جاری کرنا، شریعت اور مساجد(2)؎ میں اسلامی دروس کو برپا کرنا ہے اور آخر میں کہتا ہے کہ بس ایک واجب باقی ہے جو داعش کے توسّط سے ادا ہوگا اور وہ خلافت ہے جو کہ واجب کفائی ہے اور اس سلسلے میں امّت ابھی تک گنہگار رہی ہے۔

عدنانی سورت بقرہ

ص:38


1- ۔وَلِلَّهِ الْعِزَّةُوَلِرَسُولِهِ و َلِلْمُؤْمِنِینَ.
2- ۔عدل، حدود اور ایسی شریعت کو برپا کرنا جس کے بارے میں داعش کا یہ دعوٰی ہے کہ یہ وہی ظلم و ستم ہے جو اس نے اپنے دشمنوں پر ڈھایا ہے۔ شیعوں، یزیدیوں، علویوں اور عیسائیوں پر حملوں اور ان کی جان، مال اور ناموس کو پامال کرنے والے داعشیوں کے بارے میں کسی قسم کی بات نہیں کرتا بلکہ ان کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ بچّوں کو قتل کریں اور خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے لوگوں کے گلے کاٹیں۔ داعش کے عدل کا مطلب سوائے اپنے مخالفین کی جان، مال اور ناموس کو غارت کرنے کے کچھ بھی نہیں۔

کی 30 ویں آیت(1)؎ کی طرف اشارہ اور تفسیر قرطبی کا حوالہ دیتے ہوئے، اس آیت کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ خلافت برپا کرنا اور خلیفہ کی اطاعت اور پیروی پر سبھی مسلمانوں کا اجماع ہے۔ آخرمیں عدنانی خلافت کے قیام کے لیے داعش کی مجاہدین کونسل کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے: مجاہدین کونسل کے پاس اس الٰہی فریضے کو جو فراموش کیا جا چکا تھا، کوئی عذر نہیں تھا اور خلافت کو برپا نہ کرنے میں سبھی مسلمان گنہگار واقع ہوئے ہیں۔ بنابریں، اس گناہ سے بچنے اور اہل حلّ و عقد (مجاہدین کونسل) کے فیصلے کے مطابق، کونسل نے خلافت کا اعلان اور بغدادی (سامرا میں پیدا اور پلا بڑھا اور بغداد سے تعلیم حاصل کی) کے بطور خلیفہ کی بیعت کا اعلان کیا اور بغدادی نے بھی اس بیعت کو قبول کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر جگہ مسلمانوں کا امام اور خلیفہ ہو چکا ہے۔ لہذا عراق اور شام کا نام رسمی خط و کتابت میں حذف ہوگا اور اور اس بیانیے کے صادر ہونے سے فقط دولت اسلامی کا نام ہی کافی ہوگا۔ آگے چل کر عدنانی تمام امارتوں، گروہوں، تنظیموں اور تحریکوں کو اس خلافت کی

موجودگی میں غیر شرعی قرار دیتا ہے اور تمام مسلمانوں حتیٰ جہادی گروہوں کے لیے یہ واجب جانتا ہے کہ وہ اپنے پرچم ہٹائیں اور داعش کے خلیفہ کی بیعت کریں وگرنہ وہ گناہ کے مرتکب ہونگے۔ اہل سنّت کی کتب سے بعض روایات کا حوالہ دیتے ہوئے،

عدنانی خلیفہ کی پیروی کے وجوب، پہلے برپا ہونے والی خلافت کی

ص:39


1- ۔وَإِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیفَةً.

اطاعت کو ترجیح اور اس سب سے پہلے قائم ہونے والی خلافت کے تمام خلافتوں اور خلفاء پر مقدّم ہونا قرار دیتا ہے۔ اس بنیاد پر سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ داعش خلیفہ کی بیعت کریں اور داعش خلافت کے ماتحت رہیں اور صحیح بخاری میں معاویہ سے منقول ایک روایت جس میں خلافت کو قریش کے ساتھ مخصوص کیا گیا، کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ بغدادی میں خلیفہ ہونے کی تمام شرائط موجود ہیں۔(1)؎

اس پیغام میں موجود نکات میں سے ایک دلچسپ نکتہ، داعش کی خلافت کو آخر الزّماں حکومت قرار دینا ہے۔ وہ دعا کرتا ہے کہ خدا کرے داعش وہ خلافت ہو جو اپنا پرچم حضرت عیسٰی بن مریم کے سپرد کرے۔(2)؎

داعش کی خلافت کو دوسرے تمام گروہوں اور جہادی علماء کے نزدیک تائید حاصل نہ ہونے اور اسکے نتیجے میں اس کے غیر شرعی ہونے کے جواب میں عدنانی سورت ہود کی آیات 118 اور 119 کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ قرآن کے برخلاف، ان گروہوں میں ہمیشہ تفرقہ رہتا ہے اور یہ کسی ایک مسئلے پر اکٹھے نہیں ہوتے۔ یہ داعش ہے جو قرآن کی طرف سے بیان کردہ رحمت کی وجہ سے امر واحد پر اکٹھی اور متّحد ہے۔

اسی طرح القاعدہ اور دوسری جہادی تنظیموں کی طرف سے اس اعتراض کہ داعش نے خلافت کے اعلان میں ان کے ساتھ مشورہ نہیں کیا، کے جواب

ص:40


1- ۔العدنانی،ابومحمد،هذاوعدالله،موسسه البتارالاعلامیه
2- ۔ایضاً

میں عدنانی کہتا ہے: امریکہ، انگلینڈ اور فرانس نے داعش کی حکومت کو قبول کر لیا جبکہ تم لوگ اعتراف نہیں کرتے۔عدنانی ان تنظیموں کو خیانت کار، دنیا پرست، اقتدار کی لالچی اور داعش کی دشمن قرار دیتا ہے اور اپنی بعض تقاریر میں ایمن الظواہری کو جہاد کے راستے سے گمراہ کہتا ہے۔ شام کے علویوں اور سیکولر حکام کو مرتدّ کہتا ہے۔(1)؎

داعش کے بعض حامی ابوبکر البغدادی کی خلافت کو ثابت کرنے کے لیے کتابیں لکھتے، اور لوگوں کی خلیفہ اوّل اور سوّم کے بیعت کا حوالہ دیتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سب لوگوں کا خلیفہ کی بیعت کرنا واجب نہیں، بلکہ قوم کے سردار خلیفہ کی بیعت کر لیں یہی کافی ہے اور اسی طریقے سے تمام لوگوں پر ابوبکر البغدادی کی اطاعت کرنا واجب ہے۔(2)؎

ابوبکر البغدادی کی خلافت کی توجیہ کرنے کے لیے، داعشی افغانستان میں طالبان کی حکومت ایسی خلافت کہتے ہیں جو کا ملّا عمر نے صرف افغانستان کی حدود کے لیے اعلان کیا اور بقیہ ممالک اس کا حصّہ نہیں ہیں، جبکہ ایمن الظواہری کے بارے میں ان

کا یہ دعوی ہے کہ اس نے کبھی خلافت کا دعوٰی نہیں کیا۔

ص:41


1- ۔العدنانی، ابومحمد، هذا وعدالله، موسسه البتار الاعلامیة.
2- ۔ابی جعفر الحطاب، عضو هیئت شرعی انصارالشریعه تونس، بیعت الامصار للامام المختار، ص6 و 19- 23 و 32.

داعش کی نظر میں بغدادی کی خلافت پر دلائل

بغدادی کی خلافت کو ثابت کرنے کے لیے داعش کے ایک مفتی ابو ہمام اثری نے ایک رسالہ شائع کیا (1)؎جس میں بغدادی کی دو فضیلتیں ذکر کیں جن کی وجہ سے اثری اس کو خلافت کا اہل قرار دیتا ہے۔ پہلی فضیلت ابوبکر بغدادی کا نسب ہے۔اس رسالے میں بغدادی کو امام ہادیؑ کے بیٹےجعفر کذاب کے واسطے سے اہل بیتؑ میں شمار کرتا ہے اور اہل بیتؑ کی فضیلت میں احادیث ذکر کرکے ابوبکر بغدادی کو ان فضائل کے اہل کے طور پر متعارف کراتا ہے۔

بغدادی کی دوسری فضیلت اس کا فقیہ ہونا ہے۔ اس رسالے میں کیے گئے دعوے کے مطابق بغدادی کے پاس قانون کی ڈگری، قرآنی مطالعات میں ماسٹرز اور فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری موجود ہے۔(2)؎ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ جہادی گروہوںمیں بغدادی ایک گمنام شخصیت کا مالک تھا اور اس نے کبھی بھی کوئی کتاب نہیں لکھی اور ابھی تک اس کی نشر ہونے والے تقاریر میں بھی اس کی علمیت کی کوئی علامت نظر

نہیں آتی۔اسی طرح جہادی سلفیوں جیسے مقدسی، ابو قتادہ فلسطینی، طرطوسی اور دوسرے جہادیوںمیں کوئی بھی بغدادی کو عالم کہتا ہے نہ ہی اس کو فتوا دینے کا اہل جانتا ہے۔

ص:42


1- ۔الاثری، ابی­همام بکر بن عبدالعزیز، مدالایادی لبیعة البغدادی، 1434ق.
2- ۔ایضاً، ص 4

ابوبکر البغدادی کی خلافت پر القاعدہ رہنماؤں کے اعتراض

جہادی سلفیوں کا اہم ترین مصنّف، ابو قتادہ فلسطینی ابوبکر البغدادی کی خلافت کے دعوے کو رد کرتے ہوئے «ثیاب الخلافه» کے عنوان سے ایک کتاب لکھتا ہے اور اس میں داعش کے دو انحرافات کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس کی نظر میں داعش کا پہلا انحراف اس گروہ کی جانب سے خلافت کی غلط تفسیر کی طرف پلٹتا ہے۔ابو قتادہ داعشی مفتیوں(1)کے اس عقیدے کی کہ خلافت ایک شخص کی بیعت سے بھی برقرار ہو سکتی ہے اور اس کے لیے قرآن میں کوئی واضح حکم نہیں آیا، نفی کرتا ہے اور داعشیوں کے اس دعوے کو باطل شمار کرتا ہے۔(2)؎

ابو قتادہ کے نزدیک داعش کا دوسرا انحراف تکفیر میں غلو ہے جس کو اس تنظیم کی طرف سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اپنے اور داعش کے ایک مفتی کے درمیان

ہونے والے ایک مناظرے کا حوالہ دیتے ہوئے، ابو قتادہ کہتا ہے:

ص:43


1- ۔جس دوران ابوقتادہ انگلینڈ میں جیل میں تھا تو انگلینڈ حکومت نے اسے داعش کے رہنماؤوں سے ملاقات کا موقع دیا۔ اس وقت جب وہ اردن کی ایک جیل میں قید ہے اس کا انٹرویو لینا ممکن ہے۔
2- ۔الفلسطینی، ابوقتاده، ثیاب الخلافه، نخبة الفکر، ص3.

داعش ان تمام تنظیموں اور افراد کو جو انکے نام نہاد خلیفہ کی بیعت نہ کریں، کافر قرار دیتی ہے، حتّیٰ وہ لوگ یا تنظیمیں جہادی سلفیوں ہی کی کیوں نہ ہوں۔(1)؎

ابو قتادہ کی نظر میں داعش کے اندر یہ انتہا پسندانہ سوچ خود داعش میں موجود بعض معروف عناصر کی وجہ سے آئی ہے جو اس قسم کی سوچ کو دین کا کم علم رکھنے والے جوانوں میں فروغ دے رہے ہیں اور ان عناصر میں داعش کا رسمی ترجمان عدنانی شامل ہے۔(2)؎

ابوقتادہ کی نظر میں داعش کی طرف سے خلافت کا دعوٰی محض اقتدار اور سیاسی فائدے کے لیے ہے جس کا نتیجہ شام میں موجود انتہا پسند گروہوں میں اختلافات کا پیدا ہونا ہے۔ابو قتادہ بغدادی کے اس دعوے کو بھی سفید جھوٹ قرار دیتا ہے جس میں اس نے ظواہری کی بیعت نہ کرنے کا کہا تھا اور بغدادی اور اس کے حواریوں کے اس فعل کو ظواہری کی بیعت توڑنے کے مترادف جانتا ہے۔(3)؎ آگے چل کر وہ اپنی بات کی تائید کے لیے ابن تیمیہ کے قول کا حوالہ دیتا ہے کہ خلافت اور امامت ایک انسانی امر ہے، اور اس کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرمﷺ کسی

شخص کی خلافت کی وصیت کرتے ہیں اور لوگ آپ کے بعد کسی دوسرے شخص کو خلافت کے لیے منتخب کر لیتے ہیں تو امام

ص:44


1- ۔ایضاً، ص 5
2- ۔ایضاً
3- ۔ایضاً، ص 8

وہی ہوگا جس کی لوگوں نے بیعت کی ہے،(1)؎ اگرچہ لوگ پیغمبرﷺ کی وصیت پر عمل نہ کرکے گنہگار ہوئے ہیں، لہذا ابوبکر البغدادی کی خلافت غیر شرعی ہے۔

ابو قتادہ فلسطینی کے جواب میں ابو ہمام اثر اپنے ایک رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ ابوبکر البغدادی میں خلافت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں(2)؎

اور اہلسنّت اور جہادی تنظیموں کی جانب سے بغدادی کی بیعت نہ کرنے سے خلافت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اثری(اشعری،قرطبی،ایجی اورابن حزم) جیسے علمائے اہل سنت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انہوں نےسب لوگوں اور علماء کی خلافت میں بیعت کو شرط قرار نہیں دیا اور ابن تیمیہ بھی اسی نظر کا دفاع کرتے ہیں۔(3)؎

ابوبکر البغدادی کی خلافت پرردِّ عمل

ابوبکر البغدادی کے خلافت کا دعویٰ کرنے پر جہادی تنظیموں کے دو قسم کے ردِّ عمل سامنے آئے:بعض نے اس اقدام کی تائید کی اور حتّیٰ بغدادی کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت بھی کی جبکہ جہادیوں

کی زیادہ تر تنظیموں نے اس اقدام کے خلاف موقف اختیار کیا اور اس کو غیر شرعی قرار دیا۔

ص:45


1- ۔ایضاً، 15-20.
2- ۔الاثری، ابی­همام بکر بن عبدالعزیز، مدالایادی لبیعه البغدادی، ص10.
3- ۔ایضاً، ص11-12.

مصر کی انصار بیت المقدس(1)؎، شام کی جیش الصحابہ،(2)؎ یمن(3)؎ اور سعودیہ کی القاعدہ،(4)؎الجزائر، (5)؎تیونس،(6)؎ لیبیا اور اردن کی انصار الشریعہ(7)؎ اور خراسان کی القاعدہ کے بعض سربراہوں نے ابوبکر البغدادی کی بطور خلیفہ کے بیعت کی مخالفت کی۔(8)؎ تیونس کی انصار الشریعہ کے رکن، ابو جعفرالحطاب

نے «بیعةالامصارللامام المختار»اور جہادی سلفی عالم، ابو منذر الشنقیطی (9)؎نے

ص:46


1- ۔http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/07/01/isis-overshadows-al-qaeda
2- ۔ bbc.co.uk/arabic/middleeast/2014/08/140816_iraq.shtml
3- ۔http://bbc.co.uk/arabic/middleeast/2014/08/140816_iraq.shtml
4- ۔http://mareeb.net/vb/showthread.php?t=107178
5- ۔http://www.aawsat.com/home/article/160681
6- ۔http:// bbc.co.uk/arabic/middleeast/2014/08/140816_iraq.shtml
7- ۔http://mendharim.net/index.php?option=com_contentview=articleid=2074:qq------q-qcatid=1:2013-08-10-19-14-08Itemid=232
8- ۔http://www.aawsat.com/home/article/160681
9- ۔http://islamion.com/news/15931 -

«رفع الملام عن مجاهدی دولةالاسلام فی العراق والشام» کے عنوان سے کتاب لکھ کر داعش کے کارناموں کی حمایت کی۔ ابوالزہرا اثری«القول الصافی فی صحة بیعة ابی بکر البغدادی» نامی ایک کتاب لکھتا ہے اور دلائل ذکر کرنے کے بعد داعش کی حمایت کرتا ہے۔

اس کے مقابلے میں القاعدہ کے بہت سے بڑے لیڈروں نے ابوبکر البغدادی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے عمل کو جہادی سلفیوں کے بنیادی اصولوں کے خلاف اور مجاہدین کی صفوں میں تفرقہ کا باعث قرار دیا ہے۔ ابو محمد المقدسی نے بغدادی کی خلافت کو باطل قرار دیا۔ اپنے ایک بیانیہ میں مقدسی نے داعش کے کارناموں کو سلفی علماء کے خلاف جانا ہے اور اس گروہ کو مجاہدین کی صفوں میں تفرقہ کا باعث قرار دیا ہے۔(1)؎

ابو قتادہ فلسطینی بھی داعش تنظیم پر حملہ آور ہوتے ہوئے ان کو گمراہ اور تکفیر کے حوالے سے غلو کا شکار قرار دیتا ہے۔ ابو قتادہ بغدادی کو جہیمان العتیبی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے، اس کو ایک نا قابل اعتماد خلیفہ جانتا ہے۔ابو قتادہ نے اس خلافت کے غیر

شرعی ہونے اور ابو محمد المقدسی کی درخواست پر «ثیاب الخلافه» کتاب لکھی۔(2)؎

ص:47


1- ۔http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/07/12/maqdisi-isis-islamic-state-calls
2- ۔http://altagreer.com/%D8%AA%D9%82%D8%

اپنے ایک آڈیو پیغام جو القاعدہ کے چینل مؤسسةالسحاب کی جانب سے نشر ہؤا، القاعدہ کے عالمی لیڈر، ایمن الظواہری نے القاعدہ کے داعش کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے کا انکار کیا اور کہا:«القاعده، داعش کے اعمال و کردار سے بیزار ہے۔»(1) شام کے سلفی عالم اور جبہہ النصرہ کے حامی، عدنان عرعور نے داعش کو خوارج جانا اور ان کو عصر حاضر کے تکفیری قرار دیا۔ انٹرنیٹ پر نشر ہوئی اپنی ایک فلم میں عرعور نے داعشیوں کے قتل کا فتویٰ دیتے ہوئے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے۔(2)؎

سعودیہ کے مفتی اعظم اور کبار العلماء بورڈ کے چیئرمین، عبدالعزیز آل شیخ نے «تبصرةوذکرٰی» کے نام سےچھپنے والے اپنے بیانیہ میں داعش کو خوارج عصر کہا ہے جو امّت اسلامی کے درمیان تفرقہ کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو وحدت کی طرف دعوت دیتے ہوئے داعش سے بچنے کی درخواست کی ہے۔آل شیخ نے داعش کی جانب سے قتل

عام کی مذمت کی اور ان کو تکفیر میں غلو کرنے والے قرار دیا ۔(3)؎

ص:48


1- ۔http://www.al-akhbar.com/node/199979
2- ۔http://www.elmarada.org/video/latest/aeraour-wasted-blood-daash
3- ۔ttp://murajaat.reasonedcomments.org/2014/08/081901-wahhabism.html.VCq4HhbjFYE

عبد العزیز الطریفی نے بھی داعش کی خلافت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کو رد کیا اور کہا:« اس وقت شام میں کوئی بڑی حکومت نہیں اور جو بھی یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے شام میں حکومت قائم کر رکھی ہے، بہت بڑی جہالت کا شکار ہے»۔(1)؎ سینئرجہادی سلفی، ابو بصیر طرطوسی نے ایک بیانیہ صادر کیا جس میں ابو محمد عدنانی، کہ جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جہاد کے لیے داعش کے ساتھ ملحق ہونے کی دعوت دی، کے بیانات کو رد کرتے ہوئے اسے دھوکے باز کہا اور تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔خائن اور دھوکے باز کی مذمّت میں وارد ہوئئ نبی اکرمﷺکی احادیث کا ذکر کرتے ہوئے، طرطوسی نے مسلمانوں کو داعش کی پیروی سے منع کیا۔(2)؎

سلفی عالم اور جبہہ النصرہ کا حامی، عبد اللہ محمد المحیسنی اپنے ٹویٹر پیج پر داعش کی خلافت کو رد

کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ خلافت بغیر شورٰی کے ہے اور نبوی نہیں بلکہ استبدادی طریقہ کار ہے۔ محیسنی کی نظر میں اس خلافت کو علما اور

ص:49


1- ۔ ttps://da3ich.wordpress.com/2014/07/01/%D9%81%D8
2- ۔http://www.abubaseer.bizland.com/refutation.htm

مجاہدین کونسل کی تائید حاصل نہیں اوریہ خلافت غیر شرعی ہے، اور داعش شام کے ایک محدود علاقے میں قابض ہےاس کی خلافت جائز نہیں۔(1)؎

حکومت شام کی مخالف 9 اسلامی تنظیموں نے ایک بیانیہ صادر کیا جس میں داعش کو خوارج کہا اور سات پیراگراف پر مشتمل اس بیانیہ میں اس خلافت کو باطل قرار دینے کے لیے دلائل ذکر کیے۔(2)؎

سعودی وہابی عالم، عبد العزیز الفوزان نے داعش کو دین سے خارج اور مجرم تنظیم قرار دیا اور ان کو ظالم، بے گناہ مسلمانوں کی قاتل اور ان کی تکفیر کرنے والی جماعت کہا۔(3)؎

جبہہ النصرہ کے رہنماء، ابو محمد الجولانی نے داعش کے اقدامات کے ردِّ عمل میں ایک آڈیو پیغام ریکارڈ کرایا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ شام میں ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جائے تا کہ اسلام کے احکامات کو جاری کیا جاسکے۔ اس کی نظر میں

بغدادی کی خلافت غیر شرعی اوراس کو علمائے اسلام اور مجاہدین کونسل کی تائید حاصل نہیں۔(4)؎

ص:50


1- https://twitter.com/mhesne
2- ۔https://da3ich.wordpress.com/2014/07/01/%D8%A8%D9%8
3- ۔https://twitter.com/Abdulazizfawzan
4- ۔http://sadaalayam.com/archives/5043

ایران کے اہلسنّت علما نے بھی اپنی تقاریر، نماز جمعہ کے خطبات یا داعش کے خلاف بیانیے جاری کر کے اپنا موقف واضح کیا اور اس تنظیم کو خوارج اور اصل اسلام سے گمراہ کہا ہے۔(1)؎

فری سیرین آرمی کے رسمی ترجمان نے کئی ملین شامی عوام کی داعش کی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس خلافت کو جھوٹی خلافت قرار دیا اور کہا کہ اتنی بڑی تعداد کی مخالفت کے باوجود داعش کس طرح شام میں اپنی خلافت کا دعویٰ کر سکتی ہے۔(2)؎

کویت کے سلفی مبلّغ، شیخ حامد العلی جنہوں نے جہاد کے بارے میں متعدد فتاوٰی اور کتابیں

لکھی ہیں، نے ایمن الظواہری کا دفاع اور اس کی نسبت داعش کی جانب سے کی گئی توہین کو رد کرتے ہوئے، بغدادی کی خلافت کو باطل قرار دیا۔ حامد العلی ان پہلے افراد میں سے ہے جس نے ابو عمر البغدادی کے ہاتھوں دولةالعراق الإسلامیة کی تشکیل کے وقت،

اس قسم کی حکومت کے باطل ہونے پر دلائل پیش کیے اور ان کے خلاف موقف اختیار کیا۔(3)؎ القاعدہ

ص:51


1- ۔http://www.farsnews.com/printable.php?nn=13930331000892
2- ۔http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/07/01/isis-overshadows-al-qaeda
3- ۔http://www.islamrevo.com/2014/08/blog-post_20.html

رہنماءمؤسسةالسحاب (اصل القاعدہ کے شعبہ ذرائع ابلاغ) کے چیئرمین، عزام الامر کا ان افراد میں شمار ہوتا ہے جس نے زرقاوی اور ابو عمر البغدادی کے دور میں بھی ان کی مخالفت کی تھی اور بن لادن کو متعدد خطوط لکھے جن میں عراق کی اسلامی حکومت کو القاعدہ کے اصولوں سے منحرف اور ایک انتہا پسند اور غالی تحریک قرار دیا۔بغدادی کی خلافت کے اعلان پر عزام نے بھی اس خلافت کی مخالفت کی اور اس کو غیر شرعی قرار دیا۔(1)؎

مسلم علماء ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی زیرِصدارت اور قرباغی کے تعاون سے ایک بیانیہ شائع کیا جس میں اسلامی خلافت اور نبوی اسلوب کو دنیا کے تمام مسلمانوں کی آرزو قرار دیا اور اعلان کیا کہ اس طرح کی خلافت کو برقرار کرنے کے لیے ساری امّت کے اتفاق اور ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آگے چل کر اس میں داعش کی خلافت کے خلاف دلائل پیش کرکے اس کو باطل قرار دیا۔(2)؎

عراق کے مسلم علماء بورڈ نے بھی اپنے 1003نمبر ایک بیانیہ میں داعش کی طرف سے

اسلامی خلافت کے اعلان کے اقدام کو عراق کی وحدت کو ختم اور ملک کو تقسیم کرنے کے مترادف جانا۔ بیانیہ میں اس بات کی ضرورت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ حکومت قائم کرنے کے لیے امن و سلامتی جیسے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو داعش کے زیرِ تسلّط علاقوں میں مسلسل

ص:52


1- ۔http://www.islamrevo.com/2014/08/blog-post_20.html
2- ۔https://da3ich.wordpress.com/2014/07/05/%

لڑائیوں کی وجہ سے ممکن نہیں اور ان کی حکومت زیادہ تر لوگوں کو نقصان دینے کی باعث بنے گی۔ مسلم علماء بورڈ نے دلائل ذکر کرکے اس بیعت کو باطل اور داعش حکومت کو غیر رسمی قرار دیا۔(1)؎

اپنے اوپر خارجی ہونے کے الزام کے جواب میں داعش نے «تبصیرالمحاجج بالفرق بین الدولةالاسلامیةوالخوارج« کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔(2)؎ اس کتاب کے مصنّف، ابو بکر اثر نے داعش اور پہلی سعودی حکومت کا موازنہ پیش کیا

کہ جس کے زمانے میں اہلسنّت علماء کی ایک کثیر تعداد نے وہابیت کی مخالفت کی اور ان کو خوارج بھی کہا۔

بنابریں سلفی اور وہابی علماء کی یہ کوشش ہے کہ اپنے پروردہ اور اپنے افکار کے مطابق تربیت یافتہ جوانوں کی مدد سے داعش کو خود سے منسوب ہونے سے بچیں اور ان سے بیزاری اختیار کریں۔

داعش کے یورپی مددگار

بعض رپورٹس کے مطابق، تین ہزار سے زائد افراد داعش کے ساتھ ملحق ہوچکے ہیں، جن میں 900

افراد کے ساتھ فرانس سب سے پہلے، پھر انگلینڈ

ص:53


1- ۔https://da3ich.wordpress.com/2014/07/01/ تعلیق-هیئة-علماء-المسلمین-فی-العراق-عل/
2- ۔الاثری،ابیهمام،تبصیرالمحاججبالفرقبینالدولهالاسلامیةوالخوارج،ص3.

500 اور جرمنی 400 افراد کے ساتھ سرفہرست ہیں۔(1)؎ لیکن زندگی کی بہترین آسائشوں اور بعض کے پاس اعلیٰ ڈگریاں بھی پائی جانے کے باوجود وہ کیا اسباب ہیں جن کی بنا پر ان لوگوں نے یہ ہجرت کی؟ یورپی مسلمانوں کی داعش کے ساتھ ملحق ہونے کی سب سے اہم وجہ وہ نفرت ہے جس کا سالوں سے یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے ان نوجوانوں میں انتقام لینے کا ایک جذبہ پیدا ہؤا اور یہ لوگ داعش کے ساتھ ملحق ہوئے۔دوسری وجہ مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور یورپی ممالک میں معنویت کا فقدان ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک کی جانب سے وہابیت کو سکول اور مدارس بنانے کی اجازت دینا، ابو قتادہ فلسطینی(2)؎ کی موجودگی میں القاعدہ کے لندن میں دفتر قائم کرنا، ابو عطا نامی شخص کے ذریعے بہت سے جرمن مسلمان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنا، وہ اہم وجوہا ت ہیں جن کی وجہ سے یہ نوجوان داعش کی طرف کھچے چلے

گئے۔(3)؎ یورپی نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی داعش کی ایک اہم روش وہ ویڈیو پیغامات ہیں جو داعش میں شامل یورپی باشندے اپنی زبانوں (جرمن، انگریزی، فرانسیسی اور …) میں دوسرے

ص:54


1- ۔ http://www.aa.com.tr/ar/news/385322
2- ۔پریزار، جان شارل، ابومصعب الزرقاوی الوجه الآخرللقاعده، ص107.
3- http://classic.aawsat.com/details.asp?section=4issueno=11627 article=588641.VMCdLy74WKE

یورپی نوجوانوں کو خطاب کر کے سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں۔ اسی طرح

اپنے تحت تسلط علاقوں میں شریعت کے نفاذ اور جنگجوؤں کی روزمرّہ کی زندگی کی ویڈیو کلپس بھی نشر کرتے ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی نعمتوں، معنویت اور خوشحالی سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ان کو یہ نئی زندگی داعش کے ساتھ مل جانے اور جہاد میں شامل ہونے سے حاصل ہوئی ہے اور وہ خدا سے اور بھی نزدیک ہو گئے ہیں۔

مؤسسةالفرقان، داعش میڈیا

مؤسسةالفرقان کی تشکیل کی فکر 2006 ءکے اواخر میں عراق میں ابو عمر البغدادی کی قیادت میں اسلامی حکومت کی تشکیل کے وقت ہوئی۔ حال ہی میں عراق میں مارا جانے والا داعش کا ترجمان، محارب عبد اللطیف الجبوری (ابو عبد اللہ) مؤسسةالفرقان کا پہلا چیئرمین تھا جبکہ سعودی باشندہ، ناصر الغامدی وائس چیئرمین ہو کر اس کی مدد کرتا تھا۔ جبوری کے قتل ہونے کے بعد، غامدی، الفرقان کا چیئرمین بن گیا۔

غامدی کو فلم اسمبلنگ اورپروڈکشن، اشتہارات، مختلف پروگرام نشر کرنےاور آڈیو اور ویڈیو کلپس تیار کرنے کے سافٹ ویئرکی امپلی منٹیشن میں خاصی مہارت حاصل ہے۔

فرقان انسٹیٹیوٹ کے بعض اہم اشتہارات: صلیل الصوارم (4 قسطیں)،هدی وبشری للمؤمنین،تاجالوقار،قوافل الشهداء(2قسطیں)،فرسان الشهادة(5قسطیں)،حصادالمنهزمین فی بلادالرافدین، عامان

ص:55

لدولةالإسلام،کتائب کردستان فی دولةالعراق الإسلامیة ، فرحةالمسلمین بقیام دولةالموحدین ، و صیادوا الکاسحات و علی منهاج النبوه و ...

داعش کی میڈیا سرگرمیوں پر زیادہ تر سعودی عرب کے سلفیوں کا کنٹرول ہے، کیونکہ ان کی زبان اور قلم فصیح ہیں اور ابوبکر البغدادی کی حمایت کے لیے بیان کا ادب، استدلال اور شرعی حیلوں سے یہ لوگ خوب واقف ہیں۔(1)؎ شام میں پیدا اور امریکہ میں پلنے والا احمد ابو سمرہ داعش کے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہے جس کا کام امریکی اور یورپی شہریوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے ساتھ جوڑنا ہے۔(2)؎

داعش کے مالی ذرائع

داعش پر اقتصادی پابندیوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتویں بند میں داعش کے ذرائع آمدن کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:

1۔ خیراتی ادارے اور افراد، جیسے داعش کا رسمی ترجمان، ابو محمد العدنانی جو شام ہی کا رہنے والا اور بہت امیر شخص ہے، داعش کی مدد کرتے ہیں۔

ص:56


1- http://ynewsiq.com/index.php?aa=newsid22=4207.VBHb8GPjFYF
2- ynewsiq.com/index.php?aa=newsid22=8626.VBHv62PjFYE

2۔ داعش نے عراق اور شام کے شمالی حصّوں (رقّه،دیرالزور،الحسکه،تکریت،موصل اور دیالی) پر قبضہ کر لیا ہے وہاں سے تیل نکال کر اور بلیک مارکیٹ میں سستے داموں بیچ کر، داعش ڈھیر ساری دولت اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پٹرولیم اورپیٹروکیمیکل

مصنوعات اورشمالی شام میں پاورپلانٹس سےبجلی کی فروخت داعش کی آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ہے۔

3۔ اپنے زیر قبضہ بینکوں سے پیسوں کی چوری؛ صرف موصل کے مرکزی بینک سے داعش نے 420 ملین

ڈالر چوری کیے۔

4۔ دریائے فرات کے دونوں طرف، حلب، رقہ اور دیر الزور کے اطراف کی ہزاروں ایکڑ زمین، اسی طرح حکومتی اداروں اور موقوفہ زمینیں بھی داعش

کے قبضے میں چلی گئیں اور داعش لوگوں سے ان کا کرایہ وصول کرتی ہے۔(1)؎

5۔ خلیجی ممالک جن میں سب سے اوپر سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات داعش کے اصل حامی ہیں۔(2)؎ خلیجی ممالک کے دولت مند سلفی جہادیوں کی مالی معاونت بھی داعش کا ایک اہم ذریعہ آمدن ہے۔(3)؎

ص:57


1- http://www.alaan.tv/news/world-news/111765/security-council-imposes-sanctions-isis-nusra-front
2- http://www.alquds.co.uk/?p=183432
3- http://www.dostor.org/633556

6۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق، داعش عراق کی شمالی سرحدوں پر ترک اور بھارتی باشندوں کو اغوا کر کے ان کی آزادی کے لیے ان کے ممالک کے سفارتخانوں سے تاوان وصول کرتی ہے۔(1)؎

7۔ بعض آثار قدیمہ کے شرک ہونے کے اعتقاد کی بنیاد پر، داعش ان کو بموں سے اڑا دیتی ہے، لیکن آجکل آثار قدیمہ کا سمگلنگ مافیا داعش کے ساتھ رابطے بنا کر ان سے یہ آثار خریدتا اور پھر یورپی اور ایشین ممالک میں بیچتا ہے۔(2)؎

8۔ ایک اہم نکتہ جس کی وجہ سے داعش زیادہ طاقتور ہوئی اور افسوس کے ساتھ اقوام متحدہ کی

سلامتی کونسل نے جان بوجھ کر اس کا ذکر نہیں کیا، وہ امداد ہے جو داعش کو یورپ، امریکہ، سعودی عرب، قطر اور ترکی کی جانب سے شام کی قانونی حکومت کے خلاف جنگ کے لیے ملتی ہے۔ اس وقت شیعوں کی طاقت کو کمزور اور ان کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے سبھی اپنی تمام ترطاقت کے ساتھ داعش اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کی امداد کے لیے اکٹھے ہو گئے، لیکن سید حسن نصر اللہ کے بقول کہ داعش نے اپنی سرخ لکیر عبور کر لی ہے، اس کا نام بلیک لسٹ میں چلا گیا ہے اور داعش کی مدد کرنے والے 40 ممالک ایک دم سے داعش کے دشمن بن گئے ہیں۔ ایسا کیا ہؤا کہ کل کے

ص:58


1- http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/04/16/iraq-isis-money
2- http://ynewsiq.com/index.php?aa=newsid22=9705iraq

دوست، آج دشمن بن گئے؟ وجہ صرف یہ تھی کہ کل تک داعش کا دفاع کرنے والوں کے مفادات کو خطرہ در پیش تھا۔

داعش کے عقائد و افکار

عراقی القاعدہ کا رسمی اور باقاعدہ عقائد نامہ زرقاوی کے دورے سے مربوط ہے جو«عقیدتناومنهجنا» کے نام سے شائع ہؤا اور یہ دو حصّوں پر مشتمل تھا: مذہبی افکار، مذہبی اسلوب۔ یہی عقائد نامہ دوبارہ داعش نے اپنے اقدامات کی اساس اور بنیاد قرار دیتے ہوئے شائع کیا ہے(1)؎ جس کے اہم نکات کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔

1۔ «شہادتین کہہ دینا کافی نہیں، اور اگر کوئی اسلام کے نواقض میں سے کسی ایک کا بھی مرتکب ہؤا تو وہ کافر ہے؛ اگرچہ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے»۔ بنابریں داعشیوں کی نظر میں شہادتین کہنا کافی نہیں اور عمل اسلام کا جزو ہے اور وہی تعریف ہے جو خارجیوں کے لیے کی جاتی ہے۔

2۔ ہمارا ایمان ہے کہ سنّت پیغمبر وحی ثانی ہے اوریہ قرآن کی تشریح و تفسیر کرتی ہے اور ہم صحیح سنّت سے کسی بھی دوسرے شخص کی بات کی طرف تجاوز نہیں کریں گے اور ہر چھوٹی بڑی بدعت سے پرہیز کریں گے۔

ص:59


1- http://www.tawhed.ws/r?i=ygz0yz64

پیغمبر کی محبّت واجب اور اللہ سے قرب کا سبب ہے، آپ کی دشمنی کفر و نفاق ہے اور ہم اپنے پیغمبر کی محبت کی وجہ سے ان کے اہل بیت سے پیار کرتے اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور ان کے سلسلے میں غلوّ نہیں کرتے۔

4۔ خلقت آدمؑ سے لیکر روز قیامت تک کا سب سے بڑا فتنہ دجّال کا فتنہ ہے، ہمارا حضرت عیسیٰؑ پر ایمان ہے اور خلفائے راشدین کے سیرت نبی کی طرف رجوع پر ہمارا ایمان ہے۔

5۔ ایک موحد قوم کےاللہ تعالی کے واسطے اور شافعین کی شفاعت سے آگ سےنجات پانے پر ہمارا ایمان ہے اور بے شک شفاعت ایک حق ہے اس کے لیے جس کو اللہ کا اذن ملا ہو اور اللہ اس کے قول سے راضی ہو، ہم نبی کی شفاعت پر ایمان رکھتے ہیں اور بے شک قیامت کے دن ان کے لیے مقام محمود ہے۔

6۔ ہر وہ شخص جو شہادتین کہے اور ہمارے لیے اسلام کو ظاہر کرے اور اسلام مخالف کام نہ کرے، ہم اس کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کریں گے۔

7۔ روافض (شیعہ) مشرک اور مرتد ہیں۔

8۔ مسلمانوں کی سرزمین میں جب تک کفریہ قوانین کا غلبہ ہے، ہم اس سرزمین کے کفر پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کا لازمہ وہاں پر رہنے والے افراد کی تکفیر ہے، اور اس کی دلیل یہ نہیں ہے کہ وہاں اسلامی حکومت غائب اور مرتدوں کا غلبہ اور ان کا حکومت پر قبضہ ہے، اور ہم غلات کے اس قول«لوگوں

ص:60

میں اصل کفر مطلق ہے» کو قبول نہیں کرتے بلکہ ہر کوئی اپنے حال کے مطابق ہے، بعض مسلمان اور بعض کافر۔

9۔ مختلف پرچموں، قوم پرستی،حب الوطنی،کمیونسٹ اوربعثی جیسے متنوع مذاہب کی بنیاد پر ہم مغرب پسند لوگوں کے کفر پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا واضح کرف ہے جو اسلام کے خلاف اور دین سے خارج کر دینے والا ہے۔

10۔ ہم شرک کی ہر صورت کو نابود اور اس کے ہر وسیلے کو حرام قرار دینے پر ایمان رکھتے ہیں اس صحیح روایت کی بنیاد پر جو صحیح مسلم میں ابی الہیاج اسدی سے نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے امیر المؤمنین سے فرمایا:میں تم کو اس چیز کی طرف بھیج رہا ہوں جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے، وہ یہ کہ ہر شبیہ کو نابود کرو اور ہر اس قبر کو جو بلند ہو، زمین سے ملا دو۔

11۔ جہاد تا روز قیامت جاری رہے گا اور اس میں ہر گز تاخیر نہیں ہوگی۔ کیونکہ تاخیر سے جہاد کی مصلحت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مال غنیمت حاصل ہو تو شرع کے حکم کے مطابق اہل جہاد میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر مجاہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرے اگرچہ وہ اکیلا ہی کیوں نہ رہ جائے۔

12۔

اگر کوئی کافر مسلمانوں کی حرمت پر غالب آجائے تو اس وقت جہاد عین واجب ہے اور اس کی کوئی شرط نہیں اور ایمان لانے کے بعدکوئی چیز بھی ایسے قاہر دشمن، کہ جس نے دین اور دنیا کو فاسد کر دیا ہو، کو دور کرنے سے زیادہ واجب تر نہیں ہے۔

ص:61

13۔ مرتدین(شیعہ اور سیکولر) کا کفر بالاجماع اصل کفر سے بھی زیادہ بدتر ہے، لہذا ہمارے نزدیک مرتدوں کو قتل کرنا اصل کافر کو قتل کرنے سے اولیٰ ہے۔

14۔ دین قرآن ،جو ہدایت کرتا ہے اور مددگار تلوار کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ پس ہمارا جہاد تلوار، دلیل اور بیان کے ساتھ ہے۔

15۔ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی دعوت دے یاہم پر طعنہ زنی کرے یا ہم خلاف تلوار اٹھائے وہ محارب شمار ہو گا۔

16۔ سیکولرحکام اور بادشاہی نظام جو کہ پارلیمنٹ اور قبائلی قوانین کا نتیجہ ہیں، ان کی طرف رجوع کرنا قرآن کی اس آیت کے مطابق، اسلام کی خلاف

ورزی ہے:((وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَاأَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الْکَافِرُونَ))(1)؎

17۔ جو بھی یہ دعویٰ کرے کہ وہ رسول خدا، اہل بیت مطہر اور اصحاب کبار میں سے خلفاء اور تمام صحابہ کے مقام پر پہنچ گیا ہے، اس کا یہ دعویٰ اس کے کفر اور ارتداد کا باعث ہے۔

18۔

بے شک مختلف پرچموں، قوم پرستی،حب الوطنی،کمیونسٹ اوربعثی جیسے متنوع مذاہب کی بنیاد پر ہم مغرب پسند لوگوں کے کفر پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا واضح کرف ہے جو اسلام کے خلاف اور دین سے خارج کر دینے والا ہے۔اور وہ تمام لوگ جو اس سیاسی عمل کا حصہ بنیں جیسے مطلق، دلیمی،

ص:62


1- ۔سوره مائده، آیه 44.

ہاشمی پارٹیز اور دوسرے وہ تمام لوگ جو غیر خدا کے حکم کو اللہ کے دین کی جگہ پر لانے اور صلیبیوں، شیعوں اور تمام اللہ کے دشمن مرتدوں کو اللہ کے مومن بندوں پر مسلّط کریں، سب مرتدّ ہیں۔اسلامی پارٹی (طارق الہاشمی کی پارٹی) کا اسلوب کفر اور ارتداد کا طریقہ ہے۔ ان کے طریقہ کار اور طرز عمل میں اور کفار و مرتدوں جیسے جعفر اور ایاد علاوی کی پارٹیز کے اسلوب میں کوئی فرق نہیں، اور وہ عام لوگ جو اس حکومت میں شامل ہوئے ہیں، جب تک ان پر شرعی حجّت تمام نہ ہوجائے، ہم ان کے کفر کا حکم نہیں کریں گے۔

19۔ وہ تمام لوگ جو قابضین کو ہر لحاظ (خوراک، لباس، علاج وغیرہ)سے امداد فراہم کریں کہ جس سے ان قابضین کو تقویت اور طاقت حاصل ہو، کافر اور مرتد ہیں اور ان کا خون مباح ہے اور ہم ان کو اپنا ہدف بنائیں گے۔

20۔ اندلس کے سقوط سے مسلمانوں پر اللہ کی راہ میں جہاد عین واجب ہے تا کہ وہ مسلمانوں کے شہروں کو قبضے سے چھڑائیں اور کفر خدا کے بعد سب سے بڑا گناہ، اللہ کی راہ میں جہاد سے ایسے وقت پر منع کرنا ہے کہ جب یہ عین واجب ہو چکا ہو۔ ابن حزم کہتا ہے:کفر خدا کے بعد سب سے بڑا گناہ اللہ کی راہ میں جہاد سے منع کرنا ہے۔

21۔ مسلمانوں کی ایسی سرزمین جس میں کفار کے قوانین رائج اور ان قوانین کو غلبہ حاصل ہو اور اسلام کے قوانین جاری نہ ہوں، اس کا حکم کفار کی سرزمین والا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے رہنے والے کافر ہیں۔ اور چونکہ اس وقت تمام اسلامی سرزمینوں پر طاغوتی نظام حاکم ہیں، لہذا ہم ان

ص:63

تمام ممالک کے حکام اور ان کی فوجوں کو مرتد شمار کرتے ہیں اور ان کو قتل کرنا، صلیبی قابضین کے قتل سے زیادہ واجب ہے۔

22۔ طاغوت کی پولیس اور مرتدوں کو اور ہر وہ چیز جو ان دونوں کے ساتھ منسلک ہو کو قتل کرنا واجب ہے، جیسے:تیل کی تنصیبات اور ہر وہ عمارت اور انسٹیٹیوٹ جس کے بارے میں یہ پتا چل جائے کہ

طاغوت نے اس جگہ کو اپنے قیام کے لیے منتخب کر رکھا ہے، کوتباہ کرنا۔

23۔ آج، اسلامی حکومت میں موجود اہل کتاب اور صابئین کا حکم، دشمن کا حکم ہے اور یہ اہل ذمّہ شمار نہیں ہونگے، کیونکہ ان لوگوں نے مختلف صورتوں میں اپنا وعدہ توڑا ہے۔ بنابریں، اگر ان کو امن و امان چاہیئے تو انہیں اسلامی حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا ہوگا اور وہ شرائط جو انہوں نے پہلے توڑی ہیں، متوقف ہو جائیں گی۔

ص:64

عراق کی اسلامی حکومت کا بیانیہ

زرقاوی کے بعد، القاعدہ کے سربراہ ابو عمر البغدادی نے 2007 ءمیں ایک بیانیہ شائع کرتے ہوئے، اس انتہا پسند گروہ کے عقائدکو 19 پیراگرافوں میں ذکر کیا ہے جن میں سے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔(1)؎ ان قوانین کا مطالعہ کر کے ہم ان کی اس

تکفیری ماہیت کو بھی سمجھ سکیں گے جس کو صرف وہ خود ہی قبول کرتے ہیں اور دوسروں کو اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، مرتد، مشرک اور کافر کہتے ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ بہت جلدی دوسرے لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور دوسروں ، چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، معمولی سی دلیل کی بنا پر جائز بلکہ واجب

القتل سمجھتے ہیں۔ ان کے بہانوں میں ایک بہانہ کہ فلاں نے قابضوں اور سیکولر افراد کی مدد کی ہے، وہ لوگوں کے مال و ناموس پر قبضہ کرتا ہے۔ آئندہ بحث میں داعش کے ان عقائد کو بیان کیا جائے گا جو انہوں نے اپنے، عراق کی اسلامی حکومت اور القاعدہ عراق کے بیانیوں میں بیان کیے ہیں۔

ص:65


1- ۔بغدادی، ابوعمر، قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِن رَبِّی، نخبة الاعلام الجهادی؛ دیکھیں: https://nokbah.com/~w3/?p=1264 اس تقریر کی آڈیو فائل بھی یوٹیوب پر بھی اسی لینک پر موجود ہے اور یوٹیوب پر «هذه عقیدة الدولة الاسلامیة فی العراق و الشام» کے عنوان سے موجود ہے۔

1۔ ہم شرک کی ہر صورت کو نابود اور اس کے ہر وسیلے کو حرام قرار دینے پر ایمان رکھتے ہیں اس صحیح روایت کی بنیاد پر جو صحیح مسلم میں ابی الہیاج اسدی سے نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:میں تم کو اس چیز کی طرف بھیج رہا ہوں جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے، وہ یہ کہ ہر شبیہ کو نابود کرو اور ہر اس قبر کو جو بلند ہو، زمین سے ملا دو۔

داعشی اس شاذ روایت(1)؎ کے ساتھ استدلال کرتے ہوئےاولیائے الہیٰ کی قبروں کو یہ خیال کرتے ہوئے مسمار کرتے ہیں کہ یہ قبریں شرک کی باعث ہیں۔ حالانکہ قرآن اصحاب کہف کے بارے میں فرماتا ہے: ((...فَقَالُواابْنُواعَلَیْهِم بُنْیَانًا...))(2)؎اس

آیت میں قبر پر عمارت بنانے کی تائید کی گئی ہے۔اسی طرح ابو الہیاج کی یہ حدیث تاریخ کےساتھ بھی مطابقت نہیں رکھتی؛ کیونکہ تاریخ کی کسی بھی کتاب میں یہ نہیں ملتا کہ حضرت علیؑ نے کوئی بھی قبر مسمار کی ہو، بلکہ اس کے برعکس، تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ جب صحابہ نے ایران، شام اور مصر کو فتح کیا تو کسی بھی قبر کو مسمار نہیں کیا، بلکہ شام میں حضرت ابراہیم ؑاور شوش میں حضرت دانیال ؑکی قبروں کا احترام کیا۔ دوسرا یہ کہ خود پیغمبرﷺکو ان کے گھر میں دفن کیا گیاجو خود ایک عمارت تھی۔ بنابریں، ایک مجعول حدیث کا سہارا لیکر اور ایک غلط تفسیر کے ذریعے کروڑوں

ص:66


1- ۔سیوطی سے نقل ہؤا ہے کہ ابوالهیاج سے صرف یہی ایک روایت کتابوں میں ملتی ہے۔ دیکھیں: رضوانی،سلفی گری وپاسخ به شبهات،ص593
2- ۔سورہ کهف، آیت 21.

مسلمانوں کو مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اولیاء اللہ کی بے احترامی اور مسلمانوں کی دل آزاری کی جاسکتی ہے۔

2۔ ہمارے عقیدے کے مطابق، رافضی (شیعہ) ایک مشرک اور مرتد گروہ ہے جو بہت سے ظاہری شعائر کی تطبیق کا انکار کرتے ہیں، لہذا کوئی بھی شیعہ

مسلمان نہیں ہے اور ان کا قتل کرنا جائز بلکہ واجب ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابن تیمیہ کے غلط تجزیات اور کج فہمیوں کہ جن کی کوئی بنیاد ہے نہ کوئی اساس،کے ساتھ داعشیوں نے مذہبی جنگ شروع کر رکھی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے مفاد میں کھیل رہے ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای کے بقول، یہ لوگ جاہل ہیں، اور افسوس کے ساتھ ان کے جہل کی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، انشاء اللہ امید ہے کہ یہ اپنے جہل سے باہر آجائیں گے۔

3۔وہ اہل سنّت گنہگار مسلمان جو قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، زنا کرتے، شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں، اس وقت تک کافر نہیں جب تک ان چیزوں کو حلال نہیں مانتے۔

4۔ ایمان کے بارے میں ہمارا نظریہ غالی خوارج اور انتہا پسند اہل مرجئہ کے درمیان ہے۔ جو شخص شہادتین کہتا ہے اور اپنے اسلام کو آشکار کرتا ہے اور اسلام کی خلاف ورزی نہیں کرتا، ہم اس کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کریں گے۔ اور اس کے باطن کو اللہ کے سپرد کریں گے۔

ص:67

بے شک کفر کی دو قسمیں ہیں: کفر اکبر اور کفر اصغر۔ کفر کا حکم اس شخص پر لاگو ہوگا جو اپنے قول، فعل یا عقیدے سے کفر کو کسب کرتا ہے؛ لیکن ایک شخص پر کفر اور اس کے جہنّم میں ہمیشہ باقی رہنےکا حکم لگانا اس بات پر موقوف ہے کہ اس کے کفر کی شرائط ثابت ہوں اور موانع بھی موجود نہ ہوں۔

داعشیوں کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کے عقائد کو بغیر دیکھے سمجھے قبول کیا ہے؛ کیونکہ اسلام کے مخالف وہ چیزیں (نواقض الاسلام)(1)؎ جو محمد بن عبد الوہاب نے بیان کی ہیں اور جنہیں آج داعش نے اپنے زیر تسلط علاقوں کے ہر گلی کوچے میں لگا رکھا ہے، انہیں اسلام کے بڑے علما نے واضح طور پر اسلام کی خلاف ورزی شمار نہیں کیا، جبکہ سلفیوں کے غلط تصوّر اور ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں نے ان کو اسلام کی خلاف ورزی جانا ہے۔

5۔ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا، وہ طاغوت کہ جس کے احکام اور قوانین پارلیمنٹ اور قبائل کے قوانین ہیں، اسلام کی خلاف ورزی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:((وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَاأَنزَل َاللّهُ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الْکَافِرُونَ))(2)؎

ص:68


1- ۔داعش کے نزدیک نواقض اسلام وہی نواقض ہیں جو وہابیت کے نزدیک ہیں اور محمد بن عبد الوہاب کی کتاب نواقض الاسلام محمد بن عبدالوهاب میں پائے جاتے ہیں۔ شفاعت اور اولیاء اللہ کی ارواح سے مدد طلب کرنا ان نواقض اسلام میں سے ایک ہیں جن کے باعث انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
2- ۔ سورہ مائده، آیه 44.

سلفی جہادیوں پر تعجّب ہے کہ وہ اس آیت کو اسلامی حکام اور اسلامی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے لوگوں کے کفر پر دلیل سمجھتے ہیں؛ لیکن اس آیت کے بعد کی دو آیات کو نہیں دیکھتے جس میں فرمایا گیا:((وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَاأَنزَل َاللّهُ فَأُوْلَئِکَ هُمُ

الْفَاسِقُونَ)) (1)؎ اور ((وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَاأنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ))۔(2)؎

6۔ پیغمبر اکرمؐ کی تکریم و تعظیم واجب اور آپﷺ پر دوسروں کو مقدّم کرنا حرام ہے اور جو کوئی بھی یہ دعویٰ کرے کہ وہ آپﷺ، اہل بیت مطہر اور آپﷺ کے اصحاب کبار جن میں خلفا اور تمام صحابہ شامل ہیں، کے مقام پر پہنچ گیا ہے، ایسا شخص کافر اور مرتد ہوجاتا ہے، بنابریں شیعہ اور وہ صوفیا جو اپنے بڑوں کے صحابہ کے برابر یا ان سے بھی بلند تر مقامات کے قائل ہیں، سب کافر ہیں۔

7۔ بے شک مختلف پرچموں، قوم پرستی،حب الوطنی،کمیونسٹ اوربعثی جیسے متنوع مذاہب کی بنیاد پر ہم مغرب پسند لوگوں کے کفر پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا واضح کرف ہے جو اسلام کے خلاف اور دین سے خارج کر دینے والا ہے۔اور وہ تمام لوگ جو اس سیاسی عمل کا حصہ بنیں جیسے مطلق، دلیمی، ہاشمی پارٹیز اور دوسرے وہ تمام لوگ جو غیر خدا کے حکم کو اللہ کے دین کی جگہ پر

ص:69


1- ۔سورہ مائده، آیه 47.
2- ۔سورہ مائده، آیه 45.

لانے اور صلیبیوں، شیعوں اور تمام اللہ کے دشمن مرتدوں کو اللہ کے مومن بندوں پر مسلّط کریں، سب مرتدّ ہیں۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے: ((وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِهِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَ إِنْ أَطَعْتُمُوهُم ْإِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ))۔(1)؎اسلامی پارٹی (طارق الہاشمی کی پارٹی)

کا اسلوب کفر اور ارتداد کا طریقہ ہے۔ ان کے طریقہ کار اور طرز عمل میں اور کفار و مرتدوں جیسے جعفر اور ایاد علاوی کی پارٹیز کے اسلوب میں کوئی فرق نہیں، اور وہ عام لوگ جو اس حکومت میں شامل ہوئے ہیں، جب تک ان پر شرعی حجّت تمام نہ ہوجائے، ہم ان کے کفر کا حکم نہیں کریں گے۔

8۔ وہ تمام لوگ جو قابضین کو ہر لحاظ (خوراک، لباس، علاج وغیرہ)سے امداد فراہم کریں کہ جس سے ان قابضین کو تقویت اور طاقت حاصل ہو، کافر اور مرتد ہیں اور ان کا خون مباح ہے اور ہم ان کو اپنا ہدف بنائیں گے۔

9۔ اندلس کے سقوط سے مسلمانوں پر اللہ کی راہ میں جہاد عین واجب ہے تا کہ وہ مسلمانوں کے شہروں کو قبضے سے چھڑائیں اور کفر خدا کے بعد سب سے بڑا گناہ، اللہ کی راہ میں جہاد سے ایسے وقت پر منع کرنا ہے کہ جب یہ عین واجب ہو چکا ہو۔ ابن حزم کہتا ہے:کفر خدا کے بعد سب سے بڑا گناہ اللہ کی راہ میں جہاد سے منع کرنا ہے۔

ص:70


1- ۔سورہ انعام، آیه 121.

10۔ مسلمانوں کی ایسی سرزمین جس میں کفار کے قوانین رائج اور ان قوانین کو غلبہ حاصل ہو اور اسلام کے قوانین جاری نہ ہوں، اس کا حکم کفار کی سرزمین والا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے رہنے والے کافر ہیں۔ اور چونکہ اس وقت تمام اسلامی سرزمینوں پر طاغوتی نظام حاکم ہیں، لہذا ہم ان تمام ممالک کے حکام اور ان کی فوجوں کو مرتد شمار کرتے ہیں اور ان کو قتل کرنا، صلیبی قابضین کے قتل

سے زیادہ واجب ہے۔ یاد رہے کہ ہم ہر اس طاقت کے ساتھ جو عراق کی اسلامی حکومت کے ساتھ جنگ کرے گی، اگرچہ وہ نام سے عربی یا اسلامی ہی کیوں نہ ہو، جنگ کریں گے، اور ان کو نصیحت کریں گے کہ وہ باز رہیں تاکہ وہ قابضین کے لالچ کی قربانی نہ بنیں۔

11۔ طاغوت کی پولیس اور مرتدوں کو اور ہر وہ چیز جو ان دونوں کے ساتھ منسلک ہو کو قتل کرنا واجب ہے، جیسے:تیل کی تنصیبات اور ہر وہ عمارت اور انسٹیٹیوٹ جس کے بارے میں یہ پتا چل جائے کہ طاغوت نے اس جگہ کو اپنے قیام کے لیے منتخب کر رکھا ہے، کوتباہ کرنا۔

12۔ آج اسلامی حکومت میں موجود اہل کتاب اور صابئین کا حکم، دشمن کا حکم ہے اور یہ اہل ذمّہ شمار نہیں ہونگے، کیونکہ ان لوگوں نے مختلف صورتوں میں اپنا وعدہ توڑا ہے۔ بنابریں،اگر ان کو امن و امان چاہیئے تو ان اسلامی حکومت کے ساتھ ایک نیا

معاہدہ کرنا ہوگا اور وہ شرائط جو انہوں نے پہلے توڑی ہیں، متوقف ہو جائیں گی۔

ص:71

13۔ بے شک میدان عمل میں مصروف جہادی ہمارے دینی بھائی ہیں اور ہم ان پر کفر اور فسق کا الزام نہیں لگاتے؛ مگر وہ لوگ جنہوں نے وقت کے واجب یعنی ایک پرچم تلے جمع ہونا، کی مخالفت کی وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

14۔ قیدیوں(جہادی سلفی قیدیوں)کی رہائی اور مسلمانوں (جہادی سلفیوں) کی سرحدوں کی کفار

(شیعوں اور سیکولر حکام)کی جنگ کر کے حفاظت واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:«قیدیوں کو آزاد کرو، اپنے گھر والوں کی کفالت کی طرح ان کے گھر والوں کی کفالت کوہم واجب سمجھتے ہیں» آپ نے یہ بھی فرمایا: «جو بھی جنگ کے لیے تیار ہو، وہ ایسے شخص کی مانند ہے جس نے جنگ کی ہواور جس نے اپنے گھر میں ایک جنگجو رکھا، ایسے ہی ہے جیسے اس نے جنگ کی ہو۔»۔

15۔ لوگوں کو دین کی تعلیم دینا واجب ہے۔ اگرچہ بعضی دنیاوی لذتیں کھونی ہی کیوں نہ پڑیں اور دنیاوی علوم میں سے ہر وہ جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اس کا سیکھنا واجب اور اس کے علاوہ جب تک شرع کی حد کے اندر ہو ، مباح ہے۔ ہر وہ علم جو لوگوں کو بدی کی طرف دعوت دے اور اس برائی کی انجام دہی میں مدد گار ہو،حرام ہے؛ جیسے ڈش انٹینا۔ خواتین پر چہرے کا چھپانا، بے حجابی سے دوری اور عفت و طہارت کی پابندی شرعی واجب ہے۔

ابو عمر البغدادی کے دور میں عراق کی اسلامی حکومت کے شرعی بورڈ کا ناظر الامور، عثمان بن عبد الرّحمان التمیمی،عراق کی اسلامی حکومت کے فرائض کی

ص:72

کچھ اس طرح سے تشریح کرتا ہے: زمین پر توحید کا پرچار،اور شرک (جیسے استغاثہ جو کہ شرک جلی ہے) کا خاتمہ، حکومت کے قوانین خدا کی طرف سے نازل کردہ قوانین کے مطابق ہوں (قومی پارلیمنٹ کے قوانین کے خلاف)، اسلامی حکام اور ججوں کی تنصیب کر کے اسلامی احکام کا نفاذ اور

اجرا، اسلامی حکومت کی حفاظت اور اس کی سرحدوں کا دفاع، حدود کا نفاذ، دشمن کوبھگانا، صدقہ و زکات اور دشمنوں سے مال غنیمت حاصل کرنا اور بیت المال کے دوسرے امور، مارے جانے والوں کے خاندانوں ، فقراء اور نیاز مند لوگوں کی امداد کرنا۔(1)؎

مختلف تنظیموں اورپارٹیوں کے قائدین کو وہ تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا گروہ مرتد ہے۔یہ گروہ قابضین کی طرف رجحان اور ان کے اتحادی ہونے کی وجہ سے داعش کے دشمن ہیں اور ان کا قتل کرنا واجب ہے اور ان کی عراق میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوسرا گروہ، گمراہ کہلاتا ہے۔ یہ گروہ عملاً قابضین کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ ان کی گمراہی کی دلیل یا وجہ ان کے پیروکاروں میں بدعت اور گمراہی ہے۔تیسرا گروہ وہ افراد ہے جنہوں نے قابضین کے مقابلے میں قیام کیا اور ان کے خلاف بر سرِ پیکار ہوئے۔ایسے افراد کی نسبت اسلامی حکومت کا موقف ان کو نصیحت کرنا اور عراق کی اسلامی حکومت کے ساتھ ملحق ہونے کی دعوت دینا ہے۔(2)؎

ص: 73


1- http://www.muslm.org/vb/showthread.php?209738-
2- ۔ایضاً

شیعوں اور ایران کے بارے میں داعش کا موقف

داعش کےکرشماتی لیڈر کےعنوان سےزرقاوی نے«القاعده فی بلادالرافدین» کی تشکیل کے بعد شیعوں کو اپنا سب سے پہلا دشمن قرار دیا اور باقاعدہ طور پر شیعوں کو خیانت کار اور منافق کہا۔سبھی شیعوں کو کافر قرار دیا اور ان سب کو قتل کرنا جائز جانا۔(1)؎ اپنے نام کے ساتھ منسوب کتاب «هل اتاک حدیث الرّافضه» میں زرقاوی، عبداللہ بن سبا کو شیعوں کا بانی کہتا ہے جس نے امّت اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اپنے وقت کے خلیفہ کے خلاف قیام کیا، کہ جس قیام کے نتیجے میں حضرت عثمان قتل ہوئے، وہ شیعوں کو ابن سبا کا پیروکار کہتا ہے۔

اپنی اس کتاب میں زرقاوی شیعوں کے تمام فرقوں (بارہ امامی،زیدیه،اسماعیلی اور دوسرے شیعہ فرقوں) کے اہل سنّت کے ساتھ پوری تاریخ میں ہونے والے واقعات اور برتاؤ کا جائزہ لیتا ہے اور شیعوں پر بہت سے بہتان اور تہمتیں منسوب کرتے ہوئے بہایئت کو بھی شیعوں کا ایک فرقہ قرار دیتا ہے۔ اس کتاب میں زرقاوی، اپنے گمان کے مطابق، قرآن کریم کی آیات، سنّت نبوی اور ماسبق علمائے اہل سنّت کے فتووں کو پیش کرکے شیعوں کے تمام فرقوں کی تکفیر کا قائل ہؤا ہے۔ زرقاوی ضعیف تاریخی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے شیعوں کو تاریخ میں ہمیشہ یہود و نصاریٰ کا

اتحادی کہتا ہے کہ

ص:74


1- ۔زرقاوی، ابومصعب، کلمات مضیئه، ج5، ص525.

جنہوں نے اس اتحاد کے ذریعے اہل سنّت کو نابود کرنے کی کوشش کی ہے،جبکہ ظاہراً یہ لوگ اہل سنّت کے ساتھ وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن باطن میں یہ اہل سنّت کو اپنا اصلی دشمن سمجھتے ہیں؛ لہذا شیعوں اور اہل سنّت میں وحدت کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔ اپنی اس کتاب میں ضعیف احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے، زرقاوی شیعوں کو حتّیٰ اہل بیتؑ کا بھی دشمن قرار دیتا ہے اور امام حسینؑ کے قتل کی ذمّہ داری بھی انہیں پر ڈالتا ہے جنہوں نے امام کو دھوکہ دے کر کوفے دعوت دی اور پھر ان کو قتل کر دیا اور پھر اسی قتل کو شیعوں نے اہل سنّت کی گردن پر ڈال دیا۔ زرقاوی کا یہ عمل اصل القاعدہ کی پالیسی کے سراسر مخالف تھا جو مذہبی اختلافات سے پرہیز کرتی تھی۔(1)؎

اسی بہانے پر کہ شیعہ عراق کے اہل سنّت کو ختم کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں، زرقاوی

اپنی اور اہل سنّت کی مساجد کے تحفّظ کے لیے شیعوں کو قتل کرنے کی توجیہ پیش کرتا اور کہتا کہ اگر ہم شیعوں کو نہ ماریں گے تو اہل سنّت کے علماء، اساتذہ، ڈاکٹر

اور ماہرین ان کے ہاتھوں قتل ہونگے۔ وہ یہ دعویٰ کرتا

ص:75


1- ۔مثال کے طور پر اسامہ بن لادن کی دار العلوم پاکستان میں دیوبندیوں اور دوسرے مذاہب کے بارے میں تقاریر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ وہ تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائیں ملا عمر کے ساتھ جو کہ خود دیوبندی تھا، بیعت پر وہابی علما نے بہت سے اعتراضات کئے اور انہوں نے اس بیعت کو مشرکین کے ساتھ بیعت قرار دیا، کیونکہ دیوبندی صوفی سوچ اور عمل رکھنے کی وجہ سے وہابیوں کی نظر میں بدعتی ہیں۔

تھا کہ سنّی خواتین کو اغوا کیا جا چکا ہے اور شیعہ پولیس ابو غریب میں اہل سنّت خواتین کے ساتھ زیادتی کی مرتکب ہوئی ہے۔

زرقاوی نے دھمکی سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اور 2005ء میں ایک بیانیے میں شیعوں کے خلاف مکمل جنگ کا اعلان کیا۔ اس بیانیے میں آیا ہے:

یہ بیانیہ عراق کے تمام سنّیوں کو دعوت ہے: نیند سے بیدار ہوں اور لاپرواہ نہ ہوں۔ تم لوگ ایک طویل مدت تک سوئے رہے ہو۔ اہل سنّت کو نابود کرنے کے پہیے متحرّک ہو چکے ہیں جو اب رکیں گے نہیں۔ یہ پہیہ تمہارے گھر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ بین النہرین کی القاعدہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے؛ کیونکہ ابن علقمی کی اولاد اور صلیبیوں کے کاسہ لیسوں نے اہل سنّت کے خلاف مکمل جنگ شروع کر دی ہے۔ ہماری تنظیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پورے عراق میں شیعہ رافضیوں کے خلاف ایک مکمل جنگ جہاں بھی ممکن ہو شروع کرے۔(1)؎

إِن تَنتَهُواْفَهُوَخَیْرٌلَّکُمْ(2)؎کے عنوان سے 2007 ءمیں اپنی تقریر میں ابو عمر البغدادی نے شیعوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: « تم لوگ چونکہ قابض کافروں کے ساتھ کھڑے ہو، لہذا تمہارا کفر زیادہ ہو گیا ہے اور تم دین سے جدا ہو گئے ہو حتیّ اصیل قبائل کی

اولادیں بھی فرس (ایرانیوں) اور ان کے کافر اور

ص:76


1- Kirdar M.J. "alqaeda in Iraq".
2- ۔البغدادی، ابوعمر، ان تنتهوا فهو خیر لکم، موسسه نخبه: https://nokbah.com/~w3/?p=483

مرتد پیروکار گروہوں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور یہ وہ بد نما داغ ہے جو تاریخ میں تمہاری پیشانی پر لگا ہے۔ تم نے ہمیشہ تاریخ میں اہل سنّت کے خلاف اللہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے».

ابو عمر البغدادی نے ایرانیوں کو ابن علقمی خائن(1)؎ کی اولاد کے عنوان سے خطاب کرتے اور شیعوں کو

عبد اللہ بن سبا یہودی کے ساتھ نسبت دیتے

ص:77


1- ۔ابن علقمی،آخری عباسی خلیفہ معتصم کا وزیر تھا۔ بغداد پر ہلاکو خان کے حملے کی خبر علقمی تک پہنچی۔ پہلے مرحلے میں اس نے عباسی خلیفہ کو مشورہ دیا کہ وہ ہلاکو خان کو بیش قیمت تحائف کی پیش کش کرے تا کہ ہلاکوعباسیوں کے دار الخلافہ بغداد پر قبضہ کرنے کے ارادے کو ترک کردے، لیکن خلیفہ کے بعض حواریوں نے اسے اس کام سے منع کیا اور ایسے ظاہر کیا کہ جیسے وزیر یہ تحائف اپنے لیے لینے کے چکّر میں ہے۔ لہذا خلیفہ نے کم قیمت تحائف ہلاکو خان کے پاس بھیجے۔ ہلاکو خان نے ان تحائف کو اہمیت نہ دی اور حکم دیا کہ یہ تحائف خلیفہ کو واپس کر دیئے جائیں اور پھر بغداد پر حملے کا حکم دیا۔ وزیر اپنے خاندان کے مشورے کے ساتھ منگولوں کے کیمپ میں چلا گیا اور ہلاکو کے ساتھ گفتگو کی۔ مذاکرات کے بعد واپس بغداد گیا اور خلیفہ سے ملاقات کی اور اس سے کہا:«ہلاکو خان کے پاس جاؤ، شائد کوئی صلح وغیرہ ہوجائے اورعراق کا آدھا خراج ہلاکو خان اور آدھا تمہارا ہو جائے». خلیفه سات سو عمائدین کے ساتھ ہلاکو خان کے پاس گیا۔ ہلاکو خان نے حکم دیا کہ خلیفہ اور اس کے ساتھ چھ افراد کے علاوہ سب کو قتل کر دیا جائے۔ اس وقت معتصم عباسی، خواجهنصیرالدینطوسیاورابن علقمی کے ساتھ بغداد لایا گیا اور وہاں ہلاکو خان کے حکم کے مطابق آخری عباسی خلیفہ کو بھی قتل کر دیا گیا۔ داعشی ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے اور شیعوں کی نسبت بدگمانی کا شکار ہوتے ہوئے، ابن علقمی کے اس فعل کو عباسی خلیفہ کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ شیعوں کی وجہ سے عباسی خلافت ختم ہوئی۔ داعشی ابن علقمی کا نوری مالکی کی حکومت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اپنے جرائم کی توجیہ پیش کرتے ہیں؛ دیکھیں: http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%A7%D8

ہوئے، ان کو اہل سنّت کی مساجد مسمار کرنے، بہت سے اہل سنّٹ رہنماؤں کو قتل کرنے اور تمام اہل سنّت کے لیے تعلیمی مشکلات پیدا کرنے کےحوالے سے مورد تہمت قرار دیا ہے۔

ابو عمر البغدادی اور داعشیوں کے جواب میں ضرور کہنا چاہیئے: ایران کے اہل سنّت طلّاب اور مساجد کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے شیعہ مساجد اور طلّاب سے زیادہ ہے۔ آگے چل کر بغدادی ایران پر افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے افراد کو سوویت یونین کے خلاف جنگ میں قتل کرنے کابھی الزام لگاتا ہے اور آخر میں ایران کو عراق میں بلا واسطہ یا بالواسطہ مداخلت سے منع کرتے ہوئے کہتا ہے:« ایران کو عراق کے روافض (شیعوں) کی کسی بھی قسم کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے۔ حمایت جاری رکھنے کی صورت میں ایسی سخت جنگ برپا ہوگی کہ تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا اورہم مجوسیوں سے مربوط کسی بھی قبر چاہے وہ ایران میں ہو یا کسی اور ملک میں، باقی نہیں رہنے دیں گے۔ لہذا ہم ایران اور دوسرے ممالک کے تمام تاجروں کو

خبردار کرتے ہیں کہ وہ روافض کے ساتھ تجارت سے باز آجائیں»۔ آخر میں وہ ایران

ص:78

کے اہل سنّت سے کہتا ہے کہ وہ حکومت ایران کے خلاف قیام کریں تا کہ ان کو عراق کی القاعدہ کی حمایت حاصل ہو۔(1)؎

عیسائیوں کے بارے میں داعش کی نظر

شام کے شہر الرّقّہ پر قبضہ کرنے کے بعد، داعش نے اس شہر کے عیسائیوں کو تین میں سے کسی ایک راہ کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا؛ ایک یہ کہ اسلام لے آئیں، دوسرا یہ کہ رقّہ میں اہل ذمّہ کے عنوان سے بسے رہیں اس شرط کے ساتھ کہ داعش کی شرائط کو قبول کریں اور تیسرا راستہ یہ کہ رقّہ کو چھوڑ دیں اور حربی کافر شمار ہوں۔ اس حوالے سے ابو بکر بغدادی کی جانب سے ایک بیانیہ بھی صادر ہؤا جس کی شقیں کچھ اس طرح سے ہیں:

عیسائیوں کو کسی بھی قسم کی عبادت گاہ یا گرجا گھر بنانے کی اجازت نہیں۔ ان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی کتابوں اور صلیب کو عوامی مقامات پر ظاہر کریں اور ان کو یہ بھی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی عبادت کے دوران اپنی آواز کو بلند کریں۔ مسلمانوں کو ان

کی عبادت اور گرجا گھر کی گھنٹی کی آواز نہیں آنی چاہیئے۔ اس کی آواز صرف گرجا گھر کے اندر تک ہی محدود ہونی چاہیئے۔ انہیں حق

نہیں

کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف جاسوسی یا جاسوسوں کے ساتھ تعاون سمیت کوئی بھی اقدام کریں۔ گرجا گھر سے باہر ان کو اپنی کسی بھی عبادت کو

ص:79


1- ۔البغدادی، ابوعمر، ان تنتهوا فهو خیر لکم، موسسه نخبه؛ دیکھیں: https://nokbah.com/~w3/?p=483

ظاہر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ عیسائیوں میں سے اگر کوئی مسلمان ہونا چاہے، عیسائیوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اس کو منع کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کا احترام کریں اور دینِ اسلام کا مذاق مت اڑائیں۔ (1)؎

اسی طرح موصل پر اپنے قبضے کے بعد داعش نے موصل میں 1500 سال سے بسے عیسائیوں کی نسبت بھی اسی قسم کے احکامات صادر کیے۔ داعش نے موصل کے عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے، جزیہ کی حد معیّن کئے بغیر ذمّہ قبول کرنے اور بغیر اپنے سامان اور دولت کے موصل سے نکل جانے میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کا اختیار دیا۔ داعش نے موصل کی مساجد کے اسپیکروں سے یہ اعلان کیے کہ: « عیسائی یا اسلام قبول کریں، یا ذمّہ کی شرائط کو قبول کریں، ورنہ تیسری صورت میں ان کے پاس [21 رمضان 1435ق] تک موصل سے بغیر اپنا سامان لیے نکلنے کی مہلت ہے، اور اس کے بعد ان کا فیصلہ صرف تلوار کے ذریعے کیا جائے گا۔(2)؎

ص: 80


1- http://www.bbc.co.uk/arabic/middleeast/2014/02/140227_isis_ raqqa_syria
2- http://www.alarabiya.net/ar/arab-and-world/iraq/2014/07/19/ الم

فلسطین اور غزہ جنگ کے بارے میں داعش کا نظریہ

2009ءکو((إِنَّمَاالْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ))(1)؎ کے عنوان سے اپنی تقریر میں ابو عمر البغدادی نے کہا کہ « غزہ کے مظلوم اور غریب عوام کی مدد کرنا عین واجب ہے»۔ اپنی بات کی تائید کے لیے ، بغدادی نے پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث نقل کی: «اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو اور چاہے مظلوم»۔(2)؎ اس کی نظر میں دنیا بھر کے فلسطینیوں کے اوپر واجب ہے کہ وہ فلسطین کی مدد کریں۔ لیکن افسوس کہ ابو عمر نے فقط باتوں کی حد تک فلسطینیوں کی مدد کی اور اپنے کندھوں سے یہ ذمّہ داری اتار دی؛ کیونکہ آگے چل کر وہ کہتا ہے:«لیکن وہ ذمہ داری جو ہم پر عراق میں ہے، وہ یہ ہے کہ ہم غزہ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان کی عراق میں یہود کی مدد

کرنے والوں کے ساتھ جنگ میں توہین نہیں کریں گے اور بہت جلد امریکی قابضین کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہونگے»۔

ص:81


1- ۔البغدادی، ابوعمر، انما المؤمنون اخوة، مؤسسۀ نخبه؛ دیکھیں: https://nokbah.com/~w3/?p=463
2- ۔ابوبکر البغدادی اور داعش کی نظر کا فرق حالیہ غزہ جنگ میں ہے۔ داعش نے حالیہ جنگ میں حماس کی حکومت کے مغربی قوانین، جمہوریت اور انتخابات کے ذریعےبر سرِ اقتدار آنے کو غیر شرعی قرر دیا اور ان پر شیعوں کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا اور کہا کہ غزہ کی مدد کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ (ابو بکر البغدادی) کی طرف سے غزہ کے لیے امیر کا انتخاب کیا جائے تا کہ ان کی مدد واجب ہو۔

اسی طرح عراق کی اسلامی حکومت کی وزارت نشریات کے پہلے ویڈیو پیغام میں، ابو عمر نے عراق میں اسلامی حکومت کی تشکیل اور اس کی حمایت کو فلسطین کی حمایت سے زیادہ اہم قرار دیا؛ کیونکہ فلسطین میں موجود حکومت اسرائیل کے زیرِ نظر ہے اور حکومتی ارکان اور عوام کی مدد ممکن نہیں؛ کیونکہ یہ لوگ آئے روز قید یا قتل ہوتے ہیں، اور در حقیقت ان کی حمایت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن عراق کی اسلامی حکومت کے پاس ناصرف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ اپنے زیرِ تسلط سرزمینوں میں امن و امان برقرار رکھنے کی اہلیت و صلاحیت بھی موجود ہے اور وہ شوکت اور اتھارٹی کہ جس سے کوئی بھی حکومت باقی رہتی ہے، اس کو ثابت کیا ہے۔(1)؎ داعش کی اس قسم کی توجیہات سے اس تکفیری تنظیم کی اصل ماہیت کا بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کی اصلاً کوئی فکر نہیں اور طاقت حاصل کرنے اور دنیا کی طلب کے لیے یہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، ان کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور مسلمانوں کی ناموس کو کنیز بنا کر غلاموں کے

بازار میں بیچتے ہیں۔ وہی اعمال جو تقریباً دو سو سال قبل آل سعود نے محمد بن عبد الوہاب کے فتوے پر انجام دیے جس میں مسلمانوں کو قتل و غارت اور ان کے درمیان تفرقہ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔

ص:82


1- http://www.muslm.org/vb/showthread.php?209738D9%88%D8

قدس پر قابض اسرائیل کی غزہ کے نہتّے عوام کے ساتھ جنگ کے دوران ٹویٹر کے بہت سے یوزرز نے داعش پر تنقید کرتے ہوئے، داعش سے کہا کہ اگر وہ واقعی مسلمانوں کی عزّت اور یہود و کفار کی نابودی چاہتے ہیں تو غزہ کے عوام کی مدد کو جائیں اور صہیونی حکومت کےساتھ جنگ کریں۔ داعش نے ان اعتراضات کے جواب میں ٹویٹر پر اپنے رسمی پیج پر جواب شائع کیا(1)؎ کہ اس کا اصل جواب قرآن کریم میں ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے نزدیکی دشمن یعنی منافقین کےساتھ جنگ کرنے کو کہا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا خطرہ اصل کافروں سے بھی زیادہ ہے؛ بنابریں داعشیوں کے نزدیک ایسے مسلمان جو داعش کے افکار کو قبول نہیں کرتے، ان کا خطرہ اسرائیل سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے مطابق، تاریخ میں آیا ہے کہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ نے سب سے پہلے اہل ردہ کے خلاف جنگ کی اور قدس کی فتح کو مؤخر کیا، اور ان کے بعد عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس فتح ہؤا۔ اس بیانیہ میں داعش صلیبی جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی قدس سے پہلے مصر اور شام کے شیعوں

کے ساتھ لڑا اوراس نے قدس تک پہنچنے سے پہلے پچاس جنگیں لڑیں۔ لوگوں نے صلاح الدین ایوبی سے کہا:«تم شیعوں کے ساتھ لڑ رہےہوحالانکہ روم کے عیسائیوں نے قدس پر قبضہ کر رکھا ہے؟»۔صلاح الدین نے جواب دیا:«ایسے وقت میں کہ جب میرے پیچھے

ص:83


1- ۔داعش کے ٹویٹر پیج کو حذف کرنے کی وجہ سے یہ مطلب نیوز ویب سائٹس سے لیا گیا ہے۔

شیعہ موجود ہوں میں کس طرح صلیبیوں کے ساتھ جنگ کروں؟»۔ داعش نے اس مطلب کی طرف بھی اشارہ کیا کہ قدس اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک آل نفطویہ، آل صباح (امیر کویت)، آل نہیان (متحدہ عرب امارات کا امیر) اور اس جیسے بتوں کے ہاتھوں سے نجات نہیں مل جاتی۔(1)؎

داعش کے ایک یمنی حامی نے سوشل میڈیا پر ان اعتراضات کے جواب میں حماس اور اخوان المسلمین پر تنقید کی اور کہا:« وہ جاہلیت کے پرچم تلے جنگ کر رہے ہیں؛ بنابریں قاتل اور مقتول دونوں جہنّمی ہیں؛ کیونکہ داعش کی بیعت نہ کرنے پر غزہ بھی ایک غیر اسلامی ملک ہے اور حماس ایک شیعہ تحریک یا کم ازکم شیعوں کی موردِ حمایت ہے اور جب تک مسلمانوں کے خلیفہ کی بیعت نہ ہو، غزہ کی حمایت حرام ہے۔غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام کی اصل ذمّہ دار حماس ہے»۔

حماس کے بارے میں داعش کی نظر

2008ءمیں غزہ میں ابو النوّر مقدسی کی قیادت میں غزہ کے سلفیوں کے حماس حکومت کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے غزہ میں سلفیوں کے مرکز یعنی مسجد ابن تیمیہ پر راکٹ سے حملہ کیا گیا اور مسجد کو کافی نقصان پہنچا۔ اس اقدام کے بعد تمام جہادی سلفیوں جن میں ابو محمد المقدسی اور القاعدہ نے موقف

ص:84


1- http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/07/07/isis-statement-saudi-israel

اختیار کرتے ہوئے اس کے خلاف بیانیے صادر کیے۔ حماس کے اس اقدام کی وجہ سے بہت سی سلفی تحریکوں کے درمیان حماس کے ساتھ زیادہ اختلافات وجود میں آئے۔ داعش کے خلافت کے اعلان کے بعد سب سے پہلے بغدادی کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کرنے والا ایک گروہ غزہ کے سلفی تھے کہ جنہوں نے«انصارالدّولةالاسلامیة فی بیت المقدس»کے نام سے اپنی تنظیم کا اعلان کیا۔انصارالدولةالاسلامیة نے اپنے ایک بیان میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ان کو ظالم اور مسلمانوں کے دشمن قرار دیا جو اپنی کفار کے ساتھ دوستی کی وجہ سے کافر ہو چکے ہیں اور کہا کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے جہاد کے فریضے کو ادا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اس تنظیم نے

اس بیانیہ میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی کو موت کی دھمکی دیتے ہوئے لکھا:« بہت جلد ہم تمہیں ذبح کریں گے»، اور مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس تنظیم نے کہا:« ہم وہ تنظیم نہیں کہ جس کے قائدین سیاسی مفادات کے

لیے اپنا دین بیچ دیں اور شرک آمیز پارلیمنٹوں میں داخل ہوں اور کافروں اور شیعہ رہنماؤں کے ساتھ دوستانہ روابط برقرار کریں، بلکہ سیرت النبی کے مطابق اور سلف صالح کی اساس پر دین حق کی تلاش میں ہیں۔ ہم ابو النور المقدسی اور ابو الولید السعیدنی، معتز دغمش اور اشرف صباح ابو البراء المقدسی کے فرزند ہیں»(1) غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران فیس بوک اور ٹویٹر پر

ص:85


1- http://alplatformmedia.com/vb/showthread.php?t=52832 شموخ الاسلام سائٹ

ایک فلم نشر ہوئی جس سے پتا چلتا ہے کہ داعش کے بعض حامیوں نے فلسطین کے پرچم کو اپنے پاؤں تلے روندا اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے داعش کا پرچم بلند کیا۔(1)؎ افسوس کے ساتھ بعض شیعہ ویب سائٹس نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے داعش کے حامی ان سلفیوں کے اس اقدام کو حماس کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے غلطی سے لکھ دیا کہ حماس نے داعش کی حمایت کر دی ہے۔

اخوان المسلمین کے بارے میں داعش کی نظر

«عذراًامیرالقاعده» کےعنوان سے اپنی تقریر میں عراق کی اسلامی حکومت کے رسمی ترجمان، عدنانی نے القاعدہ کے امیر کے موقف پر بعض اعتراضات

اٹھائے۔ایمن الظواہری پر عدنانی کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض، ظواہری کی مصر میں حالیہ اتفاقا اور مارشل لاء میں مرسی کی حمایت ہے۔ اس پیغام میں عدنانی ظواہری سے کہتا ہے کہ وہ مرسی اور اس کی پارٹی (اخوان المسلمین) سے بیزاری کا اظہار کرے اور ان کو رد کرے۔ آگے چل کر عدنانی کہتا ہے کہ مرسی مرتد ہے اور اس نے اپنی فوجوں کو صحرائے سینا میں یہودیوں کے ساتھ جنگ کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کے لیے

ص:86


1- http://kofiapress.net/main/news/49648

بھیجا، اور اپنے ٹینکوں اور جہازوں کے ذریعے مسلمانوں کے گھر تباہ کیے۔(1) وہ مزید کہتا ہےکہ: «اس مرتد (یعنی مرسی) نے صحرائے سینا کے قیدیوں کے عدالت کے لیے ایک عیسائی جج کو مقرر کیا تا کہ ان کی موت کے پروانے لکھ سکے۔[ ایمن الظواهری] تم کیو ں خیال نہیں کرتے اور اس کو مظلوم سمجھتے اور اس کی مدد کرتے ہو؟»۔(2)؎

داعش کے حامیوں نے اس وقت فیس بوک اور ٹویٹر پر اپنے بیانات دیے کہ مصر داخل ہونے کی صورت میں وہ پہلا شخص جو قتل ہوگا وہ مرسی ہوگا۔ ان کے

اس اقدام کی وجہ مرسی اور اخوان المسلمین کا کفر تھا جس کے وہ جمہوری قوانین اور انتخابات کو قبول کرنے اور مسلمانوں کو اس اقدام کے ذریعے رسوا کرنے سے مرتکب ہوئے تھے۔(3)؎

مصر میں داعش کی حامی تنظیم ہونے کے ناطے، انصار بیت المقدس نے اپنے ایک بیانیے میں سیسی کے مارشل لاء کے بعد لوگوں کی زندگی کو ظلم و

ص:87


1- ۔عدنانی نے مرسی کی صحرائے سینا میں موجود جہادی سلفیوں کے ساتھ لڑائی کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے متعدد مرتبہ مرسی کے دورِ حکومت میں مصر میں تخریبی کاروائیاں کیں۔
2- http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/05/12/isis-zawahiri-egypt-army-sisi-morsi
3- http://arabic.cnn.com/middleeast/2014/05/12/isis-zawahiri-egypt-army-sisi-morsi

بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ سیسی کے آنے سے لوگوں کا خون بہا، گھر تباہ ہوئے اور لوگوں کا مال غارت ہؤا۔ حتّیٰ بچوں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہ کیا گیا اور فوج کی صحرائے سینا میں جارحیت اور بھی بڑھ گئی اور یہ سارے اقدامات اسرائیل کی سلامتی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہیں۔(1)؎

کردوں کے بارے میں داعش کی نظر

جلال طالبانی اور مسعود بارزانی کو «رأسکفر» کا لقب دیتے ہوئے، ابو عمر بغدادی نے اپنی ایک تقریر میں ان کو کمیونیزم اور مغرب سے متاثر ہونے کے ماحول کو فروغ دینے والے افراد کے طور پر متعارف کرایا ہے اور کہتا ہے: انہوں نے اسلامی تعلیم اور

تربیت کی راہ پر ہل چلایا ہے اور ایسا کام کیا ہے کہ لوگوں میں نماز کو ترک کرنا عام ہو گیا ہے۔ بغدادی ان پر علماء کی توہین کا الزام بھی لگاتا ہے اور کہتا ہے: تم نے علماء کو کفر و ارتداد کی حمایت پر مجبور کر دیا ہے اور تمہارے حکم کے انکار کی صورت میں تم ان کو قید میں ڈال دیتے ہو۔بغدادی ان پر کردستان میں بد عنوانی، فساد اور بے حجابی کے فروغ کا الزام بھی لگاتا ہے اوران کو کرد شہروں میں قحبہ خانوں،شراب نوشی کی دکانوں اور یہودی مصنوعات کے پھیلاؤ پر منع کرتا ہے۔

ص:88


1- http://alplatformmedia.com/vb/showthread.php?t=42409

کردستان کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے، بغدادی کہتا ہے: «روزی کمانا تکفیر کے موانع میں سے کوئی مانع نہیں اور نہ ہی کفار اور مرتدین کےساتھ دوستی کرنے کا جواز۔ پیغمبر کے دور میں صحابہ کو ہر قسم کے فقر کا سامنا رہا اور انہوں نے تین سال تک شعب میں بھوک برداشت کی جبکہ وہ کافر بھی نہیں ہوئے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ مؤمنین کا امتحان لیتا ہے۔((وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔))(1)؎کردوں کے اپنے کردی قوم کی نسبت تعصب کے حوالے سے بغدادی پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث، جس میں آپ نے فرمایا: «عصبیت وقومیت کو ترک کردو»،میں عصبیت کو پیغمبر اکرم کا واضح حکم قرار دیتا ہے، ایک ایسا حکم جس میں کوئی استثناء نہیں۔آگے چل کر بغدادی کہتا ہے کہ قومیت

ملّت کو کفر اور عصبیت کی طرف لے جاتی ہے اور کہتا ہے کہ عصبیت عربوں، ترکوں اور ایرانیوں کی وہی جاہلیت ہے۔کردستان کے عوام کو «صلاح الدین ایوبی کی اولاد» کہ جس نے صلیبیوں اور مصر و شام کے مجوس شیعوں کو شکست دی، کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے بغدادی ان سے کہتا ہے کہ اپنی سرحدوں کو ختم کرتے ہوئے اسلامی حکومت کےساتھ مل جاؤ۔ آخر میں عراق کے ترکمنوں کو اسلام کے ہیرو اور اپنے ایمان سے رومیوں کو شکست دینے

ص:89


1- ۔سوره بقره، آیت 15.

والے کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عراق کے ترکمان کو سلام بھیجا جائے۔(1)؎

امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط پر داعش کی نظر

عراق اور امریکہ کے درمیان سیکیورٹی معاہدے کو ابو عمر بغدادی القاعدہ عراق کے خودکش حملوں کا نتیجہ مانتے ہوئے کہتا ہے:«بشارت ہے عراق کے اہلسنّت کے لیےکہ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بش کے اس معاہدے کو مکمل طور پر ناکام نہیں کیا جاتا»۔(2)؎ وہ ان حملوں کا ہدف، اہل سنّت کی

عزّت اور ان کے خاندانوں کی حمایت، تمام مرتدوں کو ختم اور کفر کی بنیادوں کو نابود کرنا، صلیبیوں کو قتل کرنا اور ان کے فوجیوں اور کمانڈروں کو ختم کرنا ، مجاہدین کی طاقت کو اکٹھا ہونا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم کرنا قرار دیتا ہے۔

داعش کے نظریات پر ایک تجزیہ

پہلا نکتہ؛داعش نے اپنی غلطیوں کی توجیہ کے لیے، عراق اور شام میں موجود فضا کو شیعہ سنّی جنگ کی طرف دھکیل دیا اور وہاں کے اور پوری دنیا کے

ص:90


1- ۔البغدادی، ابوعمر، ان تنتهوا فهو خیر لکم، موسسه نخبه؛ دیکھیں.: https://nokbah.com/~w3/?p=483
2- ۔البغدادی، ابوعمر، فتح من الله و نصر قریب، منبر التوحید و الجهاد

اہل سنّت کے ناپختہ لیکن پر جوش جوانوں کے احساسات بھڑکا کر ان کو اپنی اور موت کی جانب کھینچا۔داعش کے رہنما بعض غلطیوں کو بڑھا چڑھا کراور یہ کہ شیعوں نے عراق کے اہل سنّت پر ظلم کیے، اپنی بقا کی کوششیں کر رہے ہیں؛ لہذا، ہمیں ان کے جال میں پھنس کر مذہبی لڑائی میں سے بچنا چاہیئے کیونکہ ایسی جنگ میں اصل فاتح امریکہ اور مات کھانے والے شیعہ اور سنّی ہوں گے۔

دوسرا نکتہ؛ شیعہ اور اہل بیتؑ کے پیروکار تاریخ میں ہمیشہ اپنے شیعہ ہونے کی وجہ سے حکام وقت کے ظلم و ستم کے شکار رہے ہیں؛ لیکن ہم نے اہل بیتؑ سے یہ سیکھا ہے کہ ان جفاؤں کی محبت، تعاون اور باہمی بات چیت کے ذریعے تلافی کریں اور اگر اسلامی جمہوریہ ایران وحدت اور ایک دوسرے کو قریب لانے کی بات کرتا ہے، تو یہ دھوکہ ہے اور نہ ہی ریاکاری یا کوئی اور چیز، بلکہ ہم نے اپنے اہل بیتؑ

سے یہ سیکھا ہے کہ اپنے دشمن کی عیادت کے لیے جائیں۔ ان کی تشیع جنازہ اور باجماعت نماز میں شرکت کریں تا کہ وہ کہہ اٹھیں:«هذاجعفری»،«هذاادب جعفر»۔ بنابریں، ہم نے وحدت اور تقریب کی بیش بہا قیمت دھوکہ دہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے اکابر کے نایاب فرامین پر عمل کے لیے ادا کی ہے اور ہمیں اس بات پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں۔

تیسرا نکتہ؛ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اوپر یہ واجب سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں کی جان کی حفاظت کے لیے کوشش کرے اور اس کام

ص:91

کے لیے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے توقع۔ یہ بات ہمیں اسلام نے سکھائی اور سب سے پہلے اہل بیتؑ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ ایران جہاں بھی کسی مسلمان کی مظلومیت کی آواز سنتا ہے، بغیر کسی لالچ یا توقع کے اس کی حفاظت کرتا ہے۔اس وقت ایران ایک شیعہ ملک ہے اور وہ تنہا ملک ہے جو سنّی فلطینیوں کے لیےبھاری قیمت ادا کر رہا ہے، لیکن نہ ہی کوئی احسان کر رہا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی توقع۔

چوتھا نکتہ؛ داعشی خود کو جہادی کہتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے اور اپنی دینی بھائی کو قتل کرتے ہیں اور ان کی ناموس اور مال کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کونسا جہاد ہے جس میں ان مجاہدین سے مشرک آسائش میں ہیں لیکن مسلمانوں اور مؤمنین خوف میں؟ کیا اس وقت رسول خداؐ داعشیوں سے راضی ہیں اور کیا یہ لوگ واقعاً

اسلام کے فائدے میں کام کر رہے ہیں، یا یہ کہ دشمن کے کام آرہے ہیں؟ شاید کچھ دیر کی فکر ان کو ان کے اس راستے سے الگ کردے۔

آخری بات یہ کہ شیعہ خوارج دوراں کے مقابلے میں اسی روش اور اسلوب کو عمل میں لائیں جو امام علیؑ نے خوارج کے مقابلے میں اختیار کی تھی۔امام علیؑ نے خوارج سے فرمایا: « اگرہم سے سروکار نہیں رکھو گے تو ہمارا بھی تمہارے ساتھ کوئی سروکار نہیں۔ اگر ہمارے ساتھ جنگ کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور اگر ہمارے دشمن کے ساتھ جنگ کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے»۔ یہ وہی روش اور اسلوب ہے جس

ص:92

کو رہبر معظم نے داعش اور ان جیسی تنظیموں کے بارے میں متعدد مقامات بالخصوص امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ ہمارے اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ ہمارا اصل دشمن امریکہ ہے جو ان کی پشت پر بیٹھا ہے۔ خیال رہے کہیں ہم دشمن کے نفع میں نہ کھیل رہے ہوں۔ ہمیں اپنا راستہ گم نہیں کرنا چاہیئے اور اپنی صلاحیتوں اور سرمائے کو دشمن کے مفاد میں استعمال نہ ہونے دیں۔ عالم بشریت کے نجات دہندہ، اس مہدی ؑکے ظہور کی امید کے ساتھ جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ص: 93

کتابیات

1. الاثری، ابی همام (بی تا). تبصیرالمحاجج بالفرق بین الدولة الاسلامیة و الخوارج، موسسة الهمّة.

2. (بی تا). مدالایادی لبیعه البغدادی، موسسة الهمة.

3. الحطاب، ابی جعفر (بی تا). بیعت الامصار للامام المختار، أنصار الشریعة بتونس و مؤسسة البیارق الإعلامیة.

4. بغدادی، ابوعمر (بی تا). قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِن رَبِّی، نخبة الاعلام الجهادی.

5. (بی تا). ان تنتهوا فهو خیر لکم، موسسه نخبه.

6. (بی تا). انما المؤمنون اخوه، مؤسسۀ نخبه.

7. (بی تا). فتح من اللّه و نصر قریب، سایت منبر التوحید و الجهاد.

1. (بی تا). باقیة فی العراق و الشام، موسسة الفرقان.

2. پریزار، جان شارل (2006). الزرقاوی الوجه الآخر للقاعده، بیروت: دارالعربیه للعلوم.

3. حسین، فواد (بی تا). الزرقاوی الجیل الثانی للقاعده، پی ڈی ایف فائل کا ایڈریس:

ص:94

4. www.e-prism.org/images/Zarqawi_-_Al-Jil_Al-thani.pdf

5. حوار مع الشیخ ابومصعب الزرقاوی، موسسة الفرقان:

6. www.tawhed.ws/a?a=ieai4cxy

7. کردپریس، محمد هادی فر کے مقالات.

8. رضوانی، علی اصغر (1390). سلفی گری و پاسخ به شبهات، قم: مسجدجمکران.

9. زرقاوی، ابومصعب (2006). کلمات مضیئه، شبکة البراق الاسلامیه.

10. سوری، ابی مصعب (بی تا). دعوة المقاومة العالمیة الاسلامیه، منتشرشده در:

11. www.tawhed.ws/a?a=hqkfgsb2

12. العدنانی، ابومحمد (بی تا). هذا وعدالله، موسسة البتار الاعلامیه.

13. -- (2015). عقیدتنا و منهجنا، موسسة الهمة.

14. فلسطینی، ابوقتاده (2014). ثیاب الخلافة، موسسه نخبه الفکر.

15. پایش فکری و فرهنگی جهان اسلام، شماره10، نشر ترجمان.

انگریزی کتب

1. Kirdar M.J. alqaeda in iraq. center for sterategic international studies. 2011:1-15.

ص:95

2. Leiken R. S, Brooke S. Who Is Abu Zarqawi?; What we know about the terrorist leader who murdered Nicholas Berg, The Weekly Standard, 2004

3. Cordesman A.H, Burke A.A. The Islamists and the“Zarqawi Factor”. center for sterategic international studies. 2006:1-26

4. Gambill. Abu Musab al-Zarqawi and Weaver The Short, Violent Life of Abu Musab al-Zarqawi.

5. Cordesman A.H, Burke A.A. Zarqawi’s Death:Temporary “Victory”or Lasting Impact. Center for Strategic and International Studies. 2006:1-12.

ویب سائٹس

6. https://archive.org

7. http://alplatformmedia.com

8. http://kofiapress.net

9. http://wiki.ahlolbait.com

10. http://www.alarabiya.net

11. http://www.radiosawa.com

12. http://ynewsiq.com

13. http://www.alaan.tv

14. http://www.dostor.org

ص:96

15. http://www.alquds.co.uk

16. http://www.tawhed.com

1. http://ar.wikipedia.org

2. http://www.bbc.co.uk/arabic

3. http://al-shorfa.com/ar

4. http://www.aawsat.com

5. http://mendharim.net

6. http://mareeb.net

7. http://islamion.com

8. http://altagreer.com

9. http://www.al-akhbar.com

10. http://www.elmarada.org

11. http://murajaat.reasonedcomments.org

12. https://da3ich.wordpress.com

13. http://www.abubaseer.bizland.com

14. https://twitter.com

15. http://www.farsnews.com

16. http://www.islamrevo.com

17. http://www.muslm.org

18. http://islamtoday.net

19. https://nokbah.com

20. http://arabic.people.com

ص:97

21. http://www.washingtoninstitute.org/ar

22. http://www.al-monitor.com

23. http://www.france24.com

24. http://sadaalayam.com

25. http://arabic.cnn.com

26. http://www.islamist-movements.com/

27. http://3.bp.blogspot.com

28. http://www.shafaaq.com

29. http://www.lebtime.com/

30. http://www.aljazeera.net

31. www.youtube.com

1. http://mojaheden1.mihanblog.com

ص:98

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109