حج کی رسومات (علی الحسینی السیستانی فتویٰ)

کتاب کی وضاحتیں

نردجیکرن:حسینی سیستانی، علی، 1309-

کتاب کا عنوان و مصنف : مناسک ا لحج/فتاوی علی الحسینی السیستانی.

نردجیکرن اشاعت:قم: مکتب آیه الله العظمی السیدالسیستانی، 1426ق. =2005م. =1384.

نوٹ:اردو

صفحات کی تعداد: 372 صفحه

موضوع:حج.

موضوع:فقه جعفری-- رساله علمیه.

شناسه افزوده:دفتر حضرت آیت الله العظمی سیستانی دام ظله

ص: 1

اشاره

ص: 2

مناسک حج

*اردو*

ص: 3

مناسک ا لحج

فتاوی علی الحسینی السیستانی

ص: 4

وجوب حج

هر صاحب شرائط مکلف پر حج واجب هی اور اس کا واجب هونا قرآن اور سنت قطعیه سی ثابت هی۔ (شرائط کا بیان آگی آئی گا) ۔

حج ارکان دین میں سی ایک رکن هی اور اس کا وجوب ضروریات دین میں سی هی۔حج کی وجوب کا اقرار کرتی هوئی اس کا ترک کرنا گناه کبیره هی جب که خود حج کا انکار اگر کسی غلطی یا شک و شبه کی وجه سی نه هو تو کفر هی۔ پروردگار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هی:

ص: 5

و لله علی الناس حج البیت من استطاع الیه سبیلا و من کفر فان الله غنی عن العالمین

اور لوگوں پر واجب هی که محض خدا کی لیی خانه کعبه کا حج کریں جنهیں وهاں تک پهنچنی کی استطاعت هو۔ اور جس نی استطاعت کی باوجود حج سی انکار کیا تو خدا ساری جهاں سی بی نیاز هی۔ (آل عمران آیت 97) شیخ کلینی رحمة الله علیه معتبر ذرائع سی حضرت امام جعفر صادق سی روایت کرتی هیں که امام نی فرمایا: جو شخص حج الاسلام کیی بغیر مرجائی جب که اس کا حج نه کرنا کسی قطعی ضرورت، بیماری یا حکومت کی طرف سی رکاوٹ کی وجه سی نه هو تو اس کی موت یهودی یا نصرانی کی موت هوگی۔

اس موضوع پر بهت زیاده روایتیں هیں جو حج کی وجوب پر

ص: 6

دلالت کرتیں هیں مگر هم اختصار کی خاطر ان کو پیش نهیں کر رهی هیں ۔ اور اپنی مقصد کی خاطر مذکوره بالا آیت اور روایت پر هی اکتفا کر رهیں هیں۔

شریعت مقدسه میں هر مکلف پر حج ایک مرتبه واجب هی جسی حج الاسلام کها جاتا هی۔ بعض اوقات ممکن هی که حج ایک یا زیاده مرتبه واجب هو جائی مثلا کسی کی بدلی حج کرنی یا اجیر وغیره بننی کی صورت میں ۔جس کا بیان آگی آئی گا۔

مسئله نمبر 1۔

جب شرائط ثابت هونی کی صورت میں حج واجب هوجائی تو حج واجب فوری هی۔ لهذا استطاعت کی پهلی سال هی حج کی ادائیگی واجب هی چنانچه اگر مکلف پهلی سال حج نه کری تو دوسری سال انجام دی ۔ اسی طرح آئنده سالوں میں عدم

ص: 7

ادائیگی کی صورت میں وجوب باقی رهی گا ۔حج کی واجب فوری هونی کی دو صورتیں هیں:

1۔ جیسا که علماء میں مشهور هی که واجب فوری هونا شرعی هی۔

2۔ احتیاط کی بنا پر واجب فوری هونا عقلی هی تا که واجب میں بلا عذر تاخیر کی وجه سی عذاب کا مستحق نه هو۔

ان میں سی پهلی صورت احوط اور دوسری صورت اقوی هی لهذا اگر یه اطمینان نه هونی کی باوجود که آئنده حج انجام دوں گا پھر بھی جلدی نه کری تو اگر بعد میں انجام دی بھی دی تو گستاخ قرار پائی گا اور عدم ادائیگی کی صورت میں گناه کبیره کا مرتکب هوگا۔

(1) جب حج واجب هو جائی تو اس کی مقدمات و وسائل کو

ص: 8

اس طرح تیار کرنا ضروری که حج کو وقت پر ادا کیا جا سکی۔ اگر قافلی متعدد هوں اور اطمینان هو که جس کی ساتھ بھی جاؤں گا حج ادا هوجائیگا تو مکلف کو اختیار هی که جس کی ساتھ مرضی هو جائی اگر چه بهتر یه هی که جس کی ساتھ زیاده اطمینان هو اس کی ساتھ جائی اور ایسی قافلی کی ساتھ تاخیر کرنا جائز نهیں هی سوائی اس کی که اطمینان هو که دوسرا قافله مل جائی گا جس کی ساتھ جانا اور حج کرنا ممکن هوگا اسی طرح خشکی، بحری اور هوائی راستی سی جانی کی باری میں بھی یهی حکم هی۔

(3) اگر استطاعت هونی کی بعد اسی سال حج پر جانا واجب هوجائی اور کوئی شخص اس اطمینان کی ساتھ که تاخیر کی باوجود اسی سال حج کر سکی گا جانی میں تاخیر کری لیکن اتفاقا کسی تاخیر کی وجه سی حج نه کر سکی تو تاخیر کرنی میں معذور شمار

ص: 9

هوگا اور اظهر یه هی که حج اس کی ذمه ثابت نه هو گا اسی طرح دوسری ان تمام موارد میں اگر کسی اتفاق کی وجه سی حج نه سکی تو معذور سمجھا جائی گا بشرطیکه اس کی طرف سی کوئی کوتاهی اور کمی نه هوئی هو۔

شرائط وجو ب حج

1۔بلوغت: نابالغ پر حج واجب نهیں هی چاهی وه قریب بلوغ بھی کیوں نه هو لهذا اگر بچه حج کری تو یه حج ،حج الاسلام کی کفایت نه کری گا اگر چه اظهر یه هی که اسکا حج صحیح هی۔

(4) جب ایک بچه گھر سی حج کرنی کی لیی نکلی اور میقات پر احرام باندھنی سی پهلی بالغ هو جائی اور مستطیع بھی هو جائی چاهی استطاعت اسی جگه حاصل هوئی هو تو بلا اشکال اس کا حج ،

ص: 10

حج الاسلام شمار هوگا اسی طرح اگر احرام باندھی سی پهلی مزدلفه وقوف سی پهلی بالغ هو جائی تو اپنی حج کو تمام کری اور اقوی یه هی که یه حج بھی حج الاسلام شمار هوگا۔

(5) اگر کوئی اپنی آپ کو نابالغ سجھتی هوئی مستحب حج کری اور حج کی بعد یا حج کی درمیان پته چلی که وه بالغ هی تو یه حج ،حج الاسلام شمار هوگا لهذا اسی کو کافی سمجھی ۔

(6) ممیز بچی پر حج کرنا مستحب هی لیکن بعید نهیں که اس کا حج صحیح هونی میں اس کی ولی کی اجازت شرط هو جیسا که فقهاء کی درمیان مشهور هی۔

(7) بالغ شخص کی حج کی صحیح هونی میں والدین کی اجازت مطلقا ضروری نهیں هی لیکن اگر اس کی مستحب حج پر جانی سی ماں پاب میں سی کسی ایک کو اذیت هو مثلا اگر وه راستی

ص: 11

میں پیش آنی والی خطرات سی ڈرتی هوں اور اس بناپر انهیں اذیت هو تو اس شخص پر حج کی لیی جانا جائز نهیں هی۔

(8) غیر ممیز بچه یا بچی کی ولی کی لئی مستحب هی که وه ان کو حج کرائی اس طرح که ان کو احرام باندھی، ان کو تلبیه کهلوائی اور اگر وه سیکھنی کی قابل هوں تو انهیں سکھائی (یعنی جو بھی انهیں کهنی کو کهی وه کهه سکیں) اور اگر سکھانی کی قابل نه هوں تو خود ان کی جانب سی تلبیه کهی اور احرام والی شخص کا، جن چیزوں سی بچنا واجب هی بچی کی ولی کی لیی جائز هی که اگر وه فخ کی راستی سی جارها هو تو مقام فخ تک بچی کی سلی هوئی کپڑی یا جو ان کی حکم میں آئی انهیں اتارنی میں تاخیر کری ، افعال حج میں سی جنهیں یه بچه یا بچی انجام دی سکتی هوں اس کو انجام دینی کو کهی اور جو انجام

ص: 12

نه دی سکتی هوں ان کو خود ولی اس کی نیابت میں انجام دی، ان کو طواف کرائی، صفا و مروه کی درمیان سعی کرائی، عرفات اور مشعر میں وقوف کرائی، اگر بچه یا بچی رمی (کنکر مارنی) کرنی پر قادر هو تو اسی رمی کرنی کو کهی اور قادر نه هو تو اس کی طرف سی خود رمی کری نماز طواف پڑھی، سر مونڈھی اور دیگر اعمال کا بھی حکم یهی هی۔

(9) غیر ممیز بچی کا ولی بچی کو احرام پهنا سکتا هی چاهی خود احرام پهنی هوئی بھی هو۔

(10) اظھر یه هی که غیر ممیز بچی کا ولی، جس کی لیی بچی کو حج کرانا مستحب هی، وه شخص هی جس کی پاس بچی کی دیکھ بھال اور سرپرستی کا اختیار هو، چاهی وه ما ں باپ هوں یا کو ئی اور اس کی تفصیل "کتاب النکاح" میں بیان هوئی هی ۔

ص: 13

(11) بچی کی حج کی اخراجات اگر عام اخراجات سی زیاده هوں تو زائد مقدار ولی کی ذمی هوگی لیکن اگر بچی کی حفاظت کی خاطر یا مصلحتا ساتھ جانا ضروری هو اور حج کی اخراجات، سفر کی اخراجات کی نسبت زیاده هوں تو بچی کی مال سی صرف سفر کی اخراجات لیی جا سکتی هیں ،حج کرانی کی اخراجات نهیں ۔

(12) غیر ممیز بچی کی قربانی کا خرچه ولی کی ذمه هی اسی طرح بچی کی شکار کا کفاره بھی ولی کی ذمه هی لیکن وه کفارات جو موجبات کفاره کو عمدا انجام دینی کی وجه سی هوتی هیں ظاهر یه هی که بچی کی انجام دینی کی وجه سی نهیں هوتی چاهی بچه ممیز کیوں نه هو لهذا ان کفارات کی ادائیگی نه ولی کی ذمه هی اور نه هی بچه کی مال سی نکالنا واجب هی۔

ص: 14

2۔ عقل: دیوانی شخص پر حج واجب نهیں هی لیکن جسی دیوانگی کی دوری پڑتی هوں اور اس کی ٹھیک هونی کا زمانه اتنا هو که حج سی متعلق ابتدائی امور اور افعال حج انجام دی سکتا هو مزید یه که مستطیع بھی هو تو اس پر حج واجب هی چاهی باقی اوقات میں دیوانه رهی اسی طرح دیوانگی ایام حج میں هوتی هی تو واجب هی که صحت کی حالت میں نائب مقرر کری ۔

3۔ آزادی:

4۔استطاعت: اس میں چند چیزیں معتبر هیں:

(الف) وقت وسیع هو یعنی مقدس مقامات (مکه) پر جانی اور واجب اعمال انجام دینی کی لئی وقت کافی هو لهذا اگر مال یا باقی شرائط ایسی وقت میں حاصل هوں که مکه جانی اور واجب اعمال بجا لانی کی لئی وقت کافی نه هو یا وقت تو وسیع هو لیکن

ص: 15

اتنی زحمتیں هوں جو عام طور پر برداشت نهیں کی جاتیں هوں تو حج واجب نهیں هوگا اس صورت میں مال کو اگلی سال تک سنبھالنی کی واجب هونی سی متعلق حکم مسئله 39 میں دیکھیں۔ (ب) جسمانی صحت اور توانائی رکھتا هو لهذا اگر بیماری یا بڑھاپی کی وجه سی مقامات مقدسه (مکه) جانی کی قدرت نه رکھتا هو یا سفر کر سکتا هو مگر وهاں مثلا شدید گرمی کی وجه اتنی مدت ٹھر نه سکتا هو که اعمال حج انجام دی سکی یا وهاں ٹھرنا اس کی لئی شدید زحمت اور تکلیف کا سبب بنتا هو تو اس پر خود حج پر جانا واجب نهیں لیکن مسئله 63 میں مذکوره تفصیل کی مطابق نائب بنانا واجب هو جائی گا۔

(ج) راسته خالی هو یعنی راسته کھلا اور پر امن هو لهذا راستی میں کوئی ایسی رکاوٹ یا جان و مال و عزت کا خطره نه هو جس کی وجه

ص: 16

سی میقات یا دوسری مقدس مقامات تک پهنچنا، نا ممکن هو ورنه حج واجب نهیں هوگا یه جانی کا حکم هی جبکه واپسی کا مفصل حکم آگی آئی گا۔ واپسی کی خرچی کی تفصیل مسئله (22) کی طرح، احرام باندھنی کی بعد، بیماری، دشمنی یا کسی اور وجه سی مکلف کا مقدس مقامات کی زیارت کو نه جا سکنی سی متعلق مخصوص احکام کا ذکر، انشاء الله مصدود و محصور کی بحث میں هوگا۔

(13) اگر حج کی لئی دو راستی هوں دور والا پر امن اور نزدیک والا پر خطر هو تو اس صورت میں حج ساقط نهیں هوگا بلکه پر امن راستی سی حج پر جانا واجب هو گا چاهی وه راسته دور والا هی هو لیکن اگر دور والی راستی سی جانی کی وجه سی کئی شهروں سی گزرنا پڑی اور عام تاثر یه نه هو که راسته کھلا اور پر امن هی تو

ص: 17

اس پر حج واجب نهیں هوگا۔

(14) اگر کسی کی پاس اپنی شهر میں مال هو جو حج پر جانی کی وجه سی ضائع هو جای گا اور اس مال کا ضائع هونا اس شخص کی لئی بهت زیاده ضرر اور نقصان کا باعث بنی تو حج پر جانا واجب نهیں هی۔

اگر حج کو انجام دینا حج سی زیاده اهم واجب یا حج کی مساوی واجب کی چھوٹنی کا سبب بنی (مثلا ڈوبتی هوئی یا جلتی هوئی شخص کو بچانا واجب هی) تو حج کو چھوڑ کر زیاده اهم واجب کام انجام دی اور اگر حج کی وجه سی حج کی مساوی واجب کام چھوٹ رها هو تو مکلف کو اختیار هی چاهی حج کری یا دوسری واجب کو انجام دی بعینه یهی حکم هی که جب حج کو انجام دینا ایسی حرام کام کو انجام دینی پر موقوف هو که جس

ص: 18

سی بچنا حج سی زیاده اهم یا حج کی مساوی هو۔

(15) اگر کوئی شخص حج کی وجه سی کوئی اهم کام چھوٹ جانی یا ایسا حرام کام که جس سی بچنا حج سی اهم هو انجام دی کر حج کری تو گویا که یه شخص اهم واجب کو چھوڑنی اور حرام کام کو سرانجام دینی سی گنهگار هوگا مگر ظاهر هی که اس کا حج ،حج الاسلام شمار هو

گا بشرطیکه باقی تمام شرائط موجود هوں ۔یه حکم ان دو شخص میں فرق نهیں رکھتا که جس شخص پر حج پهلی سی واجب هو یا جس کی استطاعت کا پهلا سال هو ۔

(16) اگر راستی میں کوئی دشمن موجود هو که جسی هٹانا پیسی دینی پر موقوف هو تو اگر پیسی دینی کی وجه سی زیاده نقصان اٹھانا پڑی تو دشمن کو پیسی دینا واجب نهیں هی اور اس سی حج ساقط هو

ص: 19

جائی گا۔ ورنه پیسی دینا واجب هوگا لیکن دشمن کو راضی کرنی اور راسته کھولنی کی لیی پیسی دینا واجب نهیں هی۔

(17) اگر سفر حج مثلا صرف بحری راستی پر منحصر هوجائی اور عقلاء کی نزدیک اس سفر میں غرق یا مرض لاحق هونی یا اسی طرح کا کوئی اور مسئله یا پریشانی و خوف لاحق هو جانی کا احتمال هو که جسی برداشت کرنا مشکل هو اور علاج بھی ممکن نه هو تو وجوب حج ساقط هوجائیگا۔ لیکن اگر اس کی باوجود حج کیا جائی تو اظهر یه هی که حج صحیح هوگا۔

(د) نفقه (اخراجات) جسی زاد و راحله بھی کها جاتا هی، رکھتا هو۔ زاد سی مراد هر وه چیز جس کی سفر میں ضرورت هو مثلا کھانی پینی یا دوسری ضروریات سفر کی چیزیں، اور راحله سی مراد سواری هی۔ زاد و راحله کی لیی لازم هی که وه انسان کی حیثیت کی

ص: 20

مطابق هوں۔ یه ضروری نهیں که خود راحله رکھتا هو بلکه کافی که اتنی مقدار میں مال (چاهی نقد رقم هو یا کسی اور صورت میں) رکھتا هو جس سی زاد و راحله مهیا کر سکی ۔

(18) سواری کی شرط اس وقت هی جب اس کی ضرورت هو لیکن اگر کوئی شخص بغیر زحمت و مشقت پیدل چل سکتا هی اور پیدل چلنا اس کی شان کی خلاف بھی نه هو تو پھر سواری کی شرط نهیں ۔

(19) ضروریات سفر اور سواری کا معیار وه هی جو فعلا موجود هو لهذا کسی پر استطاعت اس جگه حاصل هونی میں هی جهاں انسان مقیم هی نه که اسکی آبائی شهر میں، لهذا اگر مکلف تجارت یا کسی اور وجه سی کسی دوسری شهر جائی اور وهاں ضروریات سفر اور سواری یا اتنی نقدی مهیا هو که حج کر سکی تو حج واجب هو

ص: 21

جائی گا اگر چه وه اپنی شهر میں هوتا تو مستطیع نه هوتا۔

(21) مکلف کی اگر کوئی جائداد هو جسی صحیح قیمت پر خریدنی والا نه مل رها هو اور حج کرنا اس کو بیچنی پر موقوف هو تو بیچنا واجب هی چاهی کم قیمت پر بیچنا پڑی لیکن اگر کم قیمت پر بیچنا زیاده نقصان کا باعث هو تو واجب نهیں هی۔ اگر حج کی اخراجات استطاعت والی سال کی نسبت آئنده سال زیاده هوں مثلا اس سال سواری کا کرایه زیاده هو تو حج کو آئنده سال تک ملتوی کرنا جائز نهیں هی جیسا که گزشته مسائل میں بیاں هو چکا هی که حج کو استطاعت کی سال میں ادا کرنا واجب هی ۔

(22) حج کی واجب هونی میں واپسی کا خرچ اس وقت شرط هی جب حاجی وطن واپس آنی کا اراده رکھتا هو۔ لیکن اگر اراده نه هو اور کسی دوسری شهر میں رهنی کا اراده هو تو ضروری هی که

ص: 22

اس شهر میں واپسی کا خرچه رکھتا هو چنانچه وطن واپسی کا خرج رکھنا ضروری نهیں هی۔ اسی طرح جس شهر میں جانا چاهتا هی اگر اس کا خرچ اپنی شهر سی زیاده هو تو اس شهر کا خرچ رکھنا ضروری نهیں بلکه اپنی وطن واپس لوٹنی کا خرچ حج کی واجب هونی کی لیی کافی هی۔ سوائی اس کی که (دوسری) شهر میں رهنی پر مجبور هو (تو اس دوسری شهر تک پهنچنی کا خرچ شرط قرار پائی گا)۔

(ه) رجوع به کفایه یعنی حج سی واپس آکر اپنی اور اپنی اهل و عیال کی خرچ کا انتظام اس طرح کر سکتا هو که مبادا وه دوسروں کی مدد کی محتاج نه هو جائیں یا زحمت و مشقت میں نه پڑ جائیں۔ خلاصه یه هی که مکلف کو حج پر جانی کی وجه سی اپنی یا اپنی اهل وعیال کی فقر و تنگدستی میں مبتلا هونی کا خوف نه هو

ص: 23

چنانچه اس شخص پر حج واجب نهیں هی جو صرف ایام حج میں کما سکتا هو اور اگر وه حج پر چلا جائی تو کسب معاش نهیں کر پائی گا جس کی وجه سی پورا سال یا بعض ایام میں زندگی کی اخراجات کو پورا نهیں کر سکی گا۔ اسی طرح اس شخص پر بھی حج واجب نهیں هی جس کی پاس اتنا مال هو جو حج کی اخراجات کی لیی تو کافی هو لیکن وهی مال اسکی اور اس کی عیال کی گزاری کا ذریعه هو اور وه اپنی شان کی مطابق کسی اور ذرائع سی مال نه کما سکتا هو اس مسئله سی یه واضح هو جاتا هی که حج کی لیی ضروریات زندگی کی چیزیں بیچنا واجب نهیں هی اور نه هی جو کیفیت اور کمیت (مقدار) کی لحاظ سی اس کی حیثیت کی مطابق هوں لهذا اگر رهائشی گھر، عمده لباس اور گھر کا اثاثه حیثیت کی مطابق هوں اور اسی طرح کسب معاش

ص: 24

میں کام آنی والی آلات کاریگری یا کتابیں جو اهل علم کی لیی لازمی هوں تو ان کو بیچنا واجب نهیں هی خلاصه یه هی که جو چیز انسان کی زندگی کی لیی ضروری هو اور حج کی خاطر ان کی استعمال سی زحمت و مشقت کا سامنا هو تو ان چیزوں کی وجه سی مکلف مستطیع نهیں هوگا۔ لیکن اگر مذکوره چیزیں ضرورت سی اتنی زیاده هوں جو حج کی خرچ کی لیی کافی هوں یا اگر کافی نه بھی هوں لیکن دوسرا مال موجود هو جس کو ملا کر حج کا خرچ پورا کیا جا سکتا هو تو یه شخص مستطیع شمار هوگا اور اس پر حج واجب هوگا چاهی ضرورت سی زیاده چیزوں کو بیچ کر حج کی اخراجات پوری کرنا پڑیں۔ بلکه اگر کوئی بڑا گھر رکھتا هو جسی بیچ کر اس سی کم قیمت پر ایسا گھر مل سکتا هو جسمیں وه اور اسکی اهل و عیال بغیر زحمت اور تکلیف کی زندگی گزار سکتی هوں اور زائد رقم حج

ص: 25

پر جانی اور آنی اور اهل و عیال کی خرچی کی لیی کافی هو یا اگر کافی نه هو لیکن کچھ مال ملا کر کافی هو تو بڑی گھر کو بیچ کر حج پر جانا واجب هوگا۔

(23) اگر ضرورت کی ایسی چیز جسی بیچ کر حج پر جانا واجب نه هو تو جب ضرورت کچھ عرصی بعد ختم هو جائی تو حج واجب هوجائیگا۔ چاهی اسی بیچ کر جانا پڑی۔ مثلا عورت کی پاس زینت کی لیی زیور هوں جن کی اسی ضرورت هو اور بعد میں بڑھاپی یا کسی اور وجه سی ضرورت نه رهی تو اس صورت میں حج واجب هی چاهی اسی زیورات بیچ کر جانا پڑی ۔

(24) اگر کسی کا ذاتی مکان هو اور اسی رهنی کی لی ایسی جگه مل جائی جسمیں بغیر تکلیف یا کسی حرج کی زندگی گزار سکتا هو مثلا وقف والی جگه هو جسمیں وه ره سکتا هو اور اس کی هاتھ سی نکل

ص: 26

جان کا خوف نه هو تو جب گھر کی قیمت حج کی اخراجات کی لیی کافی هو یا اگر کافی نه اور دوسرا مال موجود هو جسی ملا کر اخراجات حج پوری کیی جا سکتی هوں، تو حج کرنا واجب هی چاهی اپنی گھر کو بیچنا پڑی، کتب علمی اور دوسری ضرورت کی چیزیں بھی اسی حکم میں هیں۔

(25) اگر کوئی سفر حج کا پورا خرچه رکھتا هو اور گھر، شادی کی ضرورت یا دوسری وسائل زندگی کی ضرورت یا کوئی اور ضرورت هو تو اگر حج پر مال خرچ کرنا تکلیف کا سبب بنی تو حج واجب نهیں گا، ورنه واجب هو گا۔

(26) اگر انسان کا اپنا مال کسی کی ذمه قرض هو اور تمام اخراجات حج یا بعض اخراجات حج کی لیی اس مال کی ضرورت تو درج ذیل صورتوں میں اس پر حج واجب هوگا:

ص: 27

(الف) قرض کی مدت تمام هو چکی هو اور مقروض قرض دینی پر آماده هو ۔

(ب) قرض کی مدت پوری هو چکی هو اور مقروض رقم دینی میں ٹال مٹول کر رها هو یا قرض ادا نه کر رها هو اور اسی ادائیگی پر مجبور کرنا ممکن هو چاهی حکومتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا پڑی۔

(ج) مقروض انکار کر رها هو ار قرض ثابت کرکی وصول کرنا ممکن هو یا ثابت کرنا ممکن نه هو مگر اسکا بدل وصول کرنا ممکن هو ۔

(د) مقروض قرض کو قبل از وقت ادا کر دی لیکن اگر یه ادائیگی مقروض کی اس مفروضی پر موقوف هو که قرض کا جلدی ادا کرنا خود مقروض کی مفاد میں هی ۔جیسا که اکثر ایسا هوتا هی تو ایسی صورت میں قرض خواه پر حج واجب نهیں هوگا۔

ص: 28

درج ذیل صورتوں میں اگر قرض کی مقدار کو اس سی کمتر قیمت پر فروخت کرنا ممکن هو اور یه کمی قرضدار کی لیی بڑی نقصان کا سسب بھی نه هو اور اس کی فروخت سی حاصل هونی والی رقم حج کی اخراجات کی لیی کافی هو جاهی کچھ اور مقدار کو ملانی سی هی کیوں نه هو تو اس پر حج واجب هی لیکن اگر یه صورتیں موجود نه هوں تو اس پر حج واجب نهیں ۔

(الف) ایسا قرض جس کی مدت پوری هوئی هو لیکن مقروض اس کی ادائیگی کی استطاعت نه رکھتا هو ۔

(ب) ایسا قرض جس کی مدت پوری هو چکی هو مگر قرض دار ادا نهیں کر رها اور وصولی کی لیی مجبور بھی نهیں کیا جا سکتا یا ایسا کرنا قرض خواه کی لیی مشقت اور تکلیف کا باعث هو ۔

(ج) ایسا قرض جس کی مدت پوری هو چکی هو اور مقروض اس

ص: 29

قرض کا انکار کر دی اور اسی پورا وصول کرنا یا اس کا عوض حاصل کرنا بھی ممکن نه هو یا قرضخواه کی لیی مشقت آور تکلیف کا سبب بنی ۔

(د) قرض کی مدت پوری نه هو اور اس کی ادائیگی کو مقرره میعاد تک موخر کرنا مقروض کی فایدی میں هو اور وه اسی میعاد سی پهلی ادا بھی نه کر سکتا هو۔

(27) پیشه ور افراد مثلا لوهار، معمار، بڑھئی وغیره جن کی آمدنی اپنی اور اپنی گھر والوں کی خرچی کی لیی کافی هو تو ان پر حج واجب هو جائیگا ۔

(28) جو شخض وجوهات شرعیه مثلا خمس اور زکوة وغیره پر زندگی بسر کرتا هو اور عام طور پر اس کی اخراجات بغیر مشقت کی پورا هونا یقینی هوں تو اگر اس کو اتنی مقدار میں مال مل جائی جو

ص: 30

اس کی حج کی اخراجات اور سفر اور اس کی دوران گھر والوں کی خرچی کی لی کافی هو تب بعید نهیں که اس پر حج واجب هو جائیگا اور اسی طرح اس شخص پر جس کی پوری زندگی کی اخراجات کا کفیل و ذمه دار کوئی اور شخص هو یا اس شخص پر، جو اپنی پاس موجود مال سی حج کری تو حج سی پهلی اور بعد کی زندگی میں کوئی فرق پیدا نهیں هو تو حج واجب هو جائیگا۔

(29) اگر کوئی شخص اتنی مقدار مال کا مالک بنی جو حج کی اخراجات کی لیی کافی هو مگر اسکی ملکیت متزلزل هو تو اگر یه شخص اتنی قدرت رکھتا هی که جس سی مال ملا هی اسکا حق فسخ ختم کردی چاهی اس مال میں منتقل کرنی والی تصرف کی وجه سی یا ایسی تصرف کی وجه سی جو مال میں تبدیلی پیدا کردی تو ظاهر هی که یه استطاعت ثابت هو جائی گی مثلا هبه اور بخشش

ص: 31

میں جو واپس هونی کی قابل هوں تو ایسا هی حکم هی۔ لیکن اگر حق فسخ ختم نه کر سکتا هو تو استطاعت مشروط هوگی که وه شخص جسی مال ملا هی فسخ نه کری۔ لهذا اگر اعمال حج تمام هونی سی پهلی یا بعد میں مال دینی والی نی فسخ کردیا تو پته چلی گا که شروع سی هی استطاعت نهیں تھی تو ظاهر یه هی که اس قسم کلی متزلزل ملکیت کی صورت میں حج کی لیی نکلنا واجب نهیں هی سوائی اس کی که انسان کو اطمینان هو نه که احتمال که فسخ نهیں کری گا ۔

(30) مستطیع کی لیی یه واجب نهیں هی که وه اپنی هی مال سی حج کری لهذا اگر مال خرچ کیی بغیر یا دوسری کی مال سی خواه غصب شده هو حج کری تو کافی هی۔ لیکن اگر طواف یا نماز طواف میں ستر پوشی کرنی والا کپڑا غصبی هو تو احوط یه که اس پر

ص: 32

اکتفا نه کری اگر قربانی کی رقم غصبی هو تو حج نهیں هوگا۔ لیکن اگر قربانی ادھار خریدی اور پھر اسکی رقم غصبی مال سی ادا کری تو اس صورت میں حج صحیح هوگا۔

(31) کسب وغیره کی ذریعی سی اپنی آپ کو حج کی لیی مستطیع بنانا واجب نهیں هی لهذا اگر کوئی کسی کو مال هبه کرتا هی جو سفر حج کی لیی کافی هو تو مال کا قبول کرنا واجب نهیں هی اسی طرح اگر کوئی کسی کو خدمت کی لیی اجیر بنانا چاهی اور وه اس اجرت سی مستطیع هو جائی تو چاهی خدمت کرنا اس کی شان کی خلاف بھی نه هو پھر بھی قبول کرنا واجب نهیں هی لیکن اگر کوئی سفر حج کی لیی اجیر هو اور اس کی اجرت سی وه مستطیع هو جائی تو اس پر حج واجب هوگا۔

(32) اگر کوئی نیابتی حج کی لیی اجیر بنی اور اجرت کی وجه سی

ص: 33

خود بھی مستطیع هو جائی تو اگر حج نیابتی کو اسی سال انجام دینی کی شرط هو تو پهلی حج نیابتی انجام دی اور اگلی سال تک اسکی استطاعت باقی رهی تو اس پر حج واجب هوگا ورنه نهیں ۔ اگر حج نیابتی اسی سال انجام دینی کی شرط نه هو تو پهلی اپنا حج انجام دی۔ سوائی اس صورت کی که اطمینان هو که آئنده سال وه اپنا حج انجام دی سکی گا (تو اپنا حج پهلی بجا لانا واجب هی)۔

(33) اگر کوئی شخص اتنی مقدار قرض لی جو حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو اس پر حج واجب نهیں هی چاهی بعد میں قرض ادا کرنی پر قادر هو۔ لیکن اگر قرض ادا کرنی کی مهلت اتنی زیاده هو که عقلا اس لمبی مدت کی وجه سی قرض کو قابل اعتبار نهیں سمجھتی هوں تو حج واجب هو جائی گا۔

(34) اگر کسی کی پاس اتنا مال هو جو حج کی اخراجات کی

ص: 34

لیی کافی هو اور اس مال کی برابر قرض بھی هو یا قرض ادا کرنی پر وه مال حج کی اخراجات کی لیی کافی نه رهی تو اظهر یه هی که اس پر حج واجب نهیں هی۔ اس سی فرق نهیں پڑتا که قرض کا وقت پورا هو چکا هو یا ابھی مدت پوری نه هوئی هو سوائی اس کی که قرض ادا کرنی کی مهلت زیاده هو مثلا 50 سال که عقلا اسی قابل اعتبار نهیں سمجھتی هوں۔ اس سی فرق نهیں پڑتا که قرض پهلی هو اور مال بعد میں حاصل هو یا مال پهلی هو اور قرض بعد میں حاصل هو مگر یه که مقروض هونی میں اس سی کوتاهی نه هوئی هو ۔

(35) اگر کسی شخص پر خمس یا زکوة واجب هو اور اسکی پاس اتنی مقدار میں مال هی که اگر خمس یا زکات ادا کردی تو حج کی ا خراجات کی لیی کافی نه رهی تو اس پر خمس یا زکوات ادا کرنا

ص: 35

واجب هوگا۔ اور حج واجب نهیں هوگا۔ اس سی فرق نهیں پڑتا که خمس و زکات اسی مال پر واجب هو یا اس سی پهلی پر واجب تھا اور مال اب ملا هو۔

(36) اگر کسی پرحج واجب هو اور اس خمس و زکات یا اور کوئی واجب حق هو تو ضروری هی که اسی ادا کری چونکه سفر حج کی وجه سی انکی ادائیگی میں تاخیر نهیں کر سکتا۔ اگر طواف یا نماز طواف میں ساتر یا قربانی کی قمیت میں پر خمس واجب هو تو اس کا حکم وهی هی جو غصبی مال کا حکم هی جو مسئله نمبر30 میں بیان هو چکا هی ۔

(37) اگر کسی کی پاس کوئی مال موجود هو اور اسی معلوم نه هو که یه مال حج کی اخراجات کی لیی کافی هی یا نهیں تو احیتاط واجب کی بنا پر تحقیق کرنا واجب هی ۔

ص: 36

(38) اگر کسی کی پاس اس کی دسترس سی باهر اتنا مال هو جو حج کی اخراجات کی لیی کافی هو یا دوسرا مال ملاکر جو اس کی پاس موجود هو اگر اس مال میں تصرف کرنی یا کسی کو وکیل بنا کر بیچنی پر قادر نه هو تو اس پر حج واجب نهیں هی ورنه واجب هی ۔

(39) اگر کوئی سفر حج کا خرچه رکھتا هو اور حج کی زمانی میں حج پر جانی پر قادر هو تو اس پر حج واجب هوجائیگا۔ اگر یه اس مال میں اتنا تصرف کری جس کی وجه سی اس کی استطاعت ختم هو جائی اور یه که اس کا جبران و تدارک بھی نه کر سکتا هو اور اس کی لیی واضح هو جو که حج کی زمانی من حج پر جانی پر قادر تھا تو اظهر یه هی که حج اس کی ذمه ثابت هوجائیگا لیکن اگر اسکی لیی واضح نه هو که زمانه حج میں حج پر جانی پر قادر تھا تو اظهر یه هی که حج

ص: 37

اسکی ذمه ثابت نهیں هوگا۔

پهلی صورت میں جب مال میں سی اتنا خرچ کر دی جس کی وجه سی استطاعت ختم هو جائی جیسی مال کو کم قیمت پر بیچ دی یا هدیه کر دی تو یه تصرف صحیح هو گا لیکن اگر زحمت و مشقت سی بھی حج پر جانی پر قادر نه هو تو گنهگار هوگا۔

(40) ظاهر یه هی اخراجات سفر اور سواری کا اس کی اپنی ملکیت میں هونا شرط نهیں هی لهذا اگر اسکی پاس ایسا مال هو جسی خرچ کرنی کی اسی اجازت هو اور یه مال حج کی اخراجات کی لیی کافی هو اور دوسری شرائط بھی موجود هوں تو حج واجب هو جائی گا لیکن حج پر جانا اس وقت واجب هوگا جب مال کو استعمال کرنی کی اجازت شرعا واپس نه لی لی جا سکتی هو یا اطمینان هو که اجازت واپس نهیں لیگا۔

ص: 38

(41) جس طرح حج کی هونی میں اخراجات سفر اور جاتی وقت سواری کا هونا شرط هی اسی طرح اعمال حج کی پورا هونی تک ان کا باقی رهنا بھی شرط هیں لهذا اگر حج پر جانی سی پهلی یا سفر کی دوران مال ضائع هو جائی تو حج واجب نهیں هوگا اور مال کی ضائع هونی سی پته چلتا هی که یه شخص شروع سی هی مستطیع نهیں تھا۔ اسی طرح اگر کوئی مجبورا کوئی قرضه اس کی ذمه آجائی مثلا غلطی سی کسی کا مال تلف هوجائی اور یه اس مال کا ضامن هو۔ چنانچه اسی یه مال دینا پڑی تو اس پر حج واجب نهیں هوگا لیکن اگر جان بوجھ کر کسی کا مال تلف کردی تو حج ساقط نهیں هوگا بلکه حج اس کی ذمی باقی رهی گا۔ لهذا اس پر حج واجب هوگا چاهی اسی زحمت و مشقت هی کیوں نه برداشت کرنا پڑی اور اگر اعمال حج انجام دینی کی بعد یا

ص: 39

دوران میں واپسی کا خرچه تلف هوجائی تو اس سی یه ظاهر نهیں هوتا که یه شخص شروع سی هی مستطیع نهیں تھا بلکه اس کا یه حج کافی هوگا اور بعد میں اس پرحج واجب نهیں هوگا۔

(42) اگر کسی کی پاس حج کا خرچه تھا لیکن وه یه نهیں جانتا تھا که یه حج کی لیی کافی هی یا اس سی غافل تھا یا وجوب حج کو نهیں جانتا تھا یا وجوب حج سی غافل تھا پھر مال کی ضائع هونی اور استطاعت کی ختم هونی کی بعد اس کو پته چلا یا یاد آیا تو اگر اپنی نه جاننی اور غفلت میں معذور تھا یعنی اس میں اس کی کوتاهی نهیں تھی تو حج اس کی ذمه ثابت نهیں هو گا ورنه ظاهر یه هی که اگر باقی تمام شرائط پائی جاتی تھیں تو اس پر حج ثابت اور واجب هو جائی گا ۔

(43) جس طرح اخراجات اور سواری کی موجود هونی سی

ص: 40

استطاعت پیدا هو جاتی هی اسی طرح اگر کوئی اخراجات سفر اور سواری یا اس کی قیمت بخشش کری تو اس سی بھی استطاعت پیدا هو جائی گی اگر اس سی فرق نهیں پڑتا که دینی والا ایک شخص هو یا کئی شخص هوں لهذا اگر کوئی یه پیشکش کری که وه حج کی لیی اخراجات سفر سواری اور گھر والوں کا خرجه فراهم کرنا اور اس کی قول پر اطمینان هو تو حج واجب هو جائی گا۔ اسی طرح اگر کوئی مال دی تا که اسی حج میں خرچ کیا جائی اور وه مال حج پرآنی ا ور جانی اور گھر والوں کی خرچی کی لیی کافی هو تو حج واجب هو جائی گا ۔چاهی جو مال دیا جا رها هی اس کا مالک بنا دی یا صرف اس کو استعمال کرنی کی اجازت دی۔ لیکن متزلزل ملکیت (یعنی جو شرعا واپس لی جا سکتی هو) استعمال کرنی کی اجازت کا حکم مسئله

ص: 41

نمبر 29 اور 30 میں بیان هو چکا هی۔ اگر حج کی اخراجات کی ایک مقدار موجود هو اور باقی مقدار کوئی بخش دی تو حج واجب هو جائی لیکن اگر صرف جانی کی اخراجات دی اور واپسی کی اخراجات نه هوں تو مسئله نمبر 22 میں موجود تفصیل کی مطابق حج واجب نهیں هو گا۔ اسی طرح اگر اهل و عیال کا خرچه نه دیا جائی تو اس پر حج واجب نهیں هوگا سوائی اسکی که انکا خرچه خود رکھتا هو یا حج پر نه جانی کی باوجود ان کی اخراجات برداشت نه کرسکتا هو یا بغیر اخراجات کی گھر والوں کو چھوڑنی کی وجه سی حرج و مشقت میں نه پڑتا هو اور گھر والوں کا نفقه اس پر واجب نه هو ۔

(44) اگر مرنی والا کسی دوسری کی لئی مال کی وصیّت کری تا که وه اس سی حج انجام دی اور مال اس کی حج اور

ص: 42

اهل و عیال کی اخراجات کی لئی کافی هو تو مسئله 43 میں موجود تفصیل کی مطابق وصیت کرنی والی کی مرنی کی بعد حج اس پر واجب هو جائی گا اسی طرح اگر مال کو حج کی لئی وقف یا نذر کیا جائی یا وصیت کی جائی اور واقف کا متولّی یا نذر کرنی والا یا وصی یه مال کسی کو بخش دی تو اس پر حج واجب هو جائی گا۔

(45) رجوع به کفایت جس کی معنی شرط پنجم میں بیان هو چکی هیں، بخشش سی پیدا هونی والی استطاعت میں شرط نهیں هی لیکن اگر اس کی آمدنی صرف ایام حج میں هو اور وه اس آمدنی سی پوری سال کی اخراجات کو پورا کرتا هو اور اگر وه حج کرنی جائی تو پورا یا کچھ ایام کی اخراجات کو پورا کرنی کی صلاحیت نه رکھتا هو تو اس پر حج واجب نهیں هو گا سوائی اس کی که اس

ص: 43

کو اس وقت کا خرچ بھی دی دیا جائی اگر کسی کی پاس کچھ مال پهلی سی موجود هو جو حج کی اخراجات کی لئی کافی نه هو اور باقی مقدار کوئی اسی بخشش دی تو اظهر یه هی که حج کی واجب هونی میں رجوع به کفایت معتبر هوگا۔

(46) اگر ایک شحص کسی کو مال دیدی که وه اس سی حج انجام دی تو اس کو قبول کرنا واجب هی لیکن اگر مال دینی والا حج کرنی یا نه کرنی کا اختیار دی یا مال دی اور حج کا ذکر نه کری تو ان دونوں صورتوں میں مال کو قبول کرنا واجب نهیں هی۔

(47) بخشش سی پیدا هونی والی استطاعت میں قرض مانع نهیں هوتا (یعنی قرض کی باوجود انسان بخشش کی وجه سی مستطیع هو سکتا هی) لیکن اگر حج پر جانی سی قرض وقت پر ادا نه کیا جا سکتا هو تو چاهی قرض کی مدت تمام هو چکی هو یا ابھی باقی

ص: 44

هو حج پر جانا واجب نهیں هی۔

(48) اگر مال کچھ افراد کو دیا جائی که ان میں سی کوئی ایک حج کر لی تو جو پهلی قبول کر لی صرف اس پر حج واجب هوگا دوسری افراد پر واجب نهیں هوگا اور اگر کوئی بھی قبول نه کری اگر چه قدرت رکھتی هوں تو ظاهر یه هی که حج کسی پر بھی واجب نهیں هوگا۔

(49) جس شخص کو مال دیا جا رها هی اس پر حج اس صورت میں واجب هوگا که اتنی مقدار میں مال دیا جائی که اس کی مستطیع هونی کی صورت میں جو حج کا پهلا فریضه بنتا هو اسی انجام دی سکی ورنه واجب نهیں هوگا مثلا اگر کسی کا فریضه حج تمتع هو اور اسی حج افراد یا قران کی لئی مال دیا جائی یا اسی طرح کی کوئی بھی صورت هو تو اس پر قبول کرنا واجب نهیں هی اسی طرح

ص: 45

جو شخص حج اسلام انجام دی چکا هو اس پر بھی قبول کرنا واجب نهیں هی لیکن اگر کسی کی ذمه حج اسلام باقی اور وه تنگدست هو چکا هو اور اس کو مال دیا جائی تو اگر قبول کیی بغیر حج انجام نه دی سکتا هو تو قبول کرنا واجب هی اسی طرح وه شخص جس پر نذر وغیره کی وجه سی حج واجب هو اور مال کو قبول کیی بغیر حج انجام دینی پر قادر نه هو تو اس پر بھی قبول کرنا واجب هی۔

(50) اگر کسی کو حج کی لئی مال دیا جائی اور وه مال سفر کی دوران ضائع هو جائی تو وجوب حج ساقط هو جائی گا لیکن اگر سفر کو اپنی مال سی جاری رکھنی پر قادر هو یعنی اس جگه سی حج کی استطاعت رکھتا هو تو حج واجب هو جائی گا اور یه حج حج الاسلام شمار هوگا مگر وجوب کی لئی شرط هی که واپسی پر اپنی

ص: 46

اور اپنی گھر والوں کی اخراجات کو پورا کرسکی۔

(51) اگر ایک شخص دوسری سی کهی که میری نام پر قرض لی کر اپنا حج انجام دو اور بعد میں قرض کو ادا کر دینا تو دوسری شخص پر قرض لینا واجب نهیں هی لیکن اگر پهلا شخص قرض لی کر دی تو پھر اس پر واجب هو جائی گا ۔

(52) ظاهر یه هی که قربانی کی قیمت مال بخشنی والی کی ذمه هی لهذا مال بخشنی والا قربانی کی قیمت کی علاوه باقی اخراجات حج دی تو مال لینی والی پر حج واجب هونیمیں اشکال هی سوایی اس کی که قربانی کو اپنی مال سی خریدنی پر قادر هو اور قربانی پر خرچ کرنی سی اسی تکلیف و تنگدستی کا سامنا نه هو تو حج واجب هو جائی ورنه قبول کرنا واجب نهیں هی۔ لیکن ظاهر یه هی که کفارات مال لینی والی پر واجب هیں ۔

ص: 47

(53) حج بدل (وه حج جو کسی کی مال دینی کی وجه سی واجب هو جائی) حج الاسلام کی لیی کافی هی لهذا بعد میں اگر مستطیع هو بھی جائی تو دوسری مرتبه حج واجب نهیں هوگا۔

(54) مال بخشنی والی کی لیی جائز هی که وه اپنا مال واپس لی لی چاهی دینی والی نی احرام باندھا هو یا نه باندھا هو لیکن اگر احرام باندھنی کی بعد واپس لی تو اظهر یه هی که اگر مال لینی والی کی لیی تکلیف و تنگدستی کا باعث نه هو تو چاهی مستطیع نه بھی هو تو حج کو پورا کری اور حج مکمل کرنی اور واپس آنی کی تمام اخراجات مال بخشنی والی ذمه هونگی لیکن اگر مال بخشنی والا راستی میں مال واپس لی تو صرف واپسی کا خرچ مال بخشنی والی کی ذمه هوگا۔

(55) اگر کسی کو زکات فی سبیل الله کی حصه سی دی جائی وه

ص: 48

اسی حج پر خرچ کری اور اسمیں مصلحت عامه بھی هو اور احوط کی بنا پر حاکم شرع اجازت بھی دی دی تو اس پر حج واجب هو جائی گا اور اگر سهم سادات سی یا زکات کی سهم فقراء سی کسی کو مال دیا جائی اور شرط رکھی جائی که اسی حج پر خرچ کری گا تو یه شرط صحیح نهیں هی اور اس سی استطاعت بذلی حاصل نهیں هوتی۔

(56) اگر کوئی بخشش شده مال سی حج کری اور بعد میں پته چلی که وه مال تو غصبی تھا تو یه حج حج اسلام شمار نهیں هو گا اور مال بخشنی والی سی اپنی مال کا مطالبه کری لهذا اگر مال دینی والا مال لینی والی سی اپنا مال حاصل کر لیتا هی تو اگر مال لینی والی کو اس مال کی غصبی هونی کا علم پهلی سی نه هو تو وه بخشش کرنی والی سی مطالبه کرنی کا حق رکھتا هی بصورت

ص: 49

دیگر مطالبی کا حق نهیں رکھتا۔

(57) اگر کوئی مستطیع نه هو مگر پھر بھی مستحب حج اپنی لیی یا کسی اور کی لیی اجرت پر یا بغیر اجرت کی انجام دی تو اسکا یه حج حج الاسلام شمار نه هوگا لهذا اس کی بعدجب بھی مستطیع هو حج انجام دینا واجب هی ۔

(58) اگر کسی کو یقین هو که میں مستطیع نهیں هوں اور مستحب کی عنوان سی حج کری مگر نیت یه هو که اس وقت جو میری ذمه داری هی اسی انجام دی رها هوں پھر بعد میں معلوم هو که میں مستطیع تھا تو وه حج حج الاسلام کی لیی کافی هی اور دوباره حج کرنا واجب نهیں هی۔

(59) اگر زوجه مستطیع هو تو حج کرنی کی لیی شوهر کی اجازت ضروری نهیں اور نه هی شوهر کی لیی جائز هی که وه حج الاسلام

ص: 50

کی لیی یا کسی اور واجب کی لیی لیکن اگر حج کا وقت وسیع هو تو بیوی کو پهلی قافلی سی روک سکتا هی۔ طالق رجعی والی عورت جب تک عدت میں هی بیوی کا حکم هی ۔

(60) جب عورت مستطیع هو جائی اور اس کی جان کو خطره نه هو تو محرم کا ساتھ هونا شرط نهیں هی اگر جان کا خطره هو تو ضروری هی که کوئی ایسا شخص ساتھ هو جس کی وجه سی اس کی جان محفوظ هو چاهی اس شخص کو اجرت دینا پڑی اور البته اجرت دینی پر قادر هو ورنه اس پر حج واجب نهیں هی ۔

(61) اگر کوئی شخص نذر کری مثلا هر سال عرفه کی دن کربلا میں حضرت امام حسین کی زیارت کری گا اور بعد میں مستطیع هو جائی تو اس پر حج واجب هو جائی گا اور نذر ختم هوجائی گی اور یهی حکم هر اس نذر کا هی جو حج سی متصادم هو رهی هو ۔

ص: 51

(62) اگر مستطیع شخص خود حج کرنی پر قادر هو تو اسی خود حج کرنا هوگا لهذا اگر کوئی دوسرا شخص اجرت پر یا بغیر اجرت کی اس کی طرف سی حج کری تو کافی نهیں هی ۔

(63) اگر کسی پر حج واجب هو جائی مگر بڑھاپی یا بیماری کی وجه سی خود انجام دینی پر قادر نه هو یا تکلیف کا باعث هو اور آئنده بغیر تکلیف کی حج ادا کرنی کی امید بھی نه هو تو حج کی لیی کسی کو نائب بنانا واجب هی اسی طرح جو شخص ضرورت مند هو مگر اعمال حج خود انجام دینی پر قادر نه هو یا خود انجام دینا حرج و تکلیف کا سبب هو تو وه شخص بھی کسی کو نائب بنائی جس طرح حج کو فورا انجام دینا واجب هی اسی طرح نائب بنانا بھی واجب فوری هی ۔

(64) اگر مستطیع شخص (کسی عذر کی وجه سی) خود حج انجام دینی

ص: 52

پر قادر نه هو اور نائب اس کی جانب سی حج کری اور وه مستطیع شخص مر جائی جب که اس کا عذر باقی هو تو نائب کا حج کافی هوگا۔ اگر چه حج اسکی ذمه مستقر هی کیوں نه هو ۔ لیکن اگر مرنی سی پهلی عذر ختم هو جائی تو احوط یه هی که اگر خود حج کرسکتا هی هو تو خود کری ۔ اگر نائب کی احرام باندھنی کی بعد اسکا عذر ختم هو جائی تو خود اس پر حج کرنا واجب هی ۔ اگر چه احوط یه هی که نائب بھی اعمال حج پوری کری ۔

(65) اگر کوئی خود حج انجام نه دی سکتا هو اور نائب بنانی پر بھی قادر نه هو تو حج ساقط هو جائیگا۔ لیکن اگر حج اس کی ذمه واجب هو چکا تھا تو اس کی مرنی کی بعد حج کی قضا کرانا واجب هی۔ ورنه قضاء واجب نهیں هی۔ اگر نائب بنایا ممکن تھا لیکن نائب نه بنائی اور مر جائی تو اس کی طرف سی قضاء

ص: 53

کرانا واجب هی۔

(66) اگر نائب بنانا واجب هو اور نائب نه بنائی لیکن شخص بلا معاوضه اس کی جانب سی حج انجام دی تو یه حج کافی نهیں هوگا اور احتیاط کی بناپر نائب بنانا واجب رهی گا۔

(67) اگر نائب بنانی کی بابت واضح هو که میقات سی نائب بنانا کافی هی اور اپنی شهر سی نائب بنانا ضروری نهیں هی۔

(68) جس شخص کی ذمه حج واجب هو اور وه حج کیاحرام کی بعد حرم میں مر جائی تو یه حج الاسلام سی کفایت کریگا چاهی اس کا حج تمتع هو، قران هو یا افراد اور اگر عمره تمتع کی درمیان مرجائی تب بھی حج کی لیی کافی هی اور اس کی قضا واجب نهیں هی اور اگر اس سی پهلی مرجائی تو قضا کرانا واجب هی چاهی احرام کی بعد حرم میں داخل هونی سی پهلی مری یا

ص: 54

حرم میں داخل هونی کی بعد بغیر احرام کی اور ظاهر یه که حکم حج الاسلام کی لیی مخصوص هی اور وه حج جو نذر یا افساد (کسی کی حج کی باطل هونی) کی وجه سی واجب هوئی هوں ان پر یه حکم جاری نهیں هوگا بلکه عمره مفرده میں بھی یه حکم جاری نهیں هوتا۔ اس بناپر ان میں سی کسی ایک پر بھی کافی هونی کا حکم نهیں لگایا جا سکتا۔ اگر کوئی احرام کی بعد مرجائی اور حج اس کی ذمه گذشته سالوں سی واجب نه تو وه حرم میں داخل هونی کی بعد مر جائی تو اس کا حج، حج الاسلام شمار هوگا لیکن اگر حرم میں داخل هونی سی پهلی مر جائی تو ظاهر یه هی که اس کی طرف سی قضا واجب نهیں هی ۔

(69) مستطیع کافر پر حج واجب هی لیکن جب تک کافر هی اس کا حج صحیح نهیں هوگا اگر استطاعت ختم هونی کی بعد مسلمان هو

ص: 55

تو حج اس پر واجب نهیں هی ۔

(70) مرتد (جو اسلام سی پھر جائی) پر حج واجب هی لیکن اگر ارتداد کی حالت میں حج کری تو یه حج صحیح نهیں هی لیکن توبه کرنی کی بعد حج کری تو صحیح هی اور اقوی یه هی که مندرجه بالا حکم مرتد فطری کی لیی بھی هی ۔

(71) اگر کوئی غیر شیعه مسلمان حج کری اور بعد میں شیعه هو جائی تو دوباره حج کرنا واجب نهیں هی لیکن یه حکم اس صورت میں هی که اپنی مذهب کی مطابق صحیح حج کیا هو۔ اسی طرح اگر اسی نی مذهب شیعه کی مطابق حج ادا کیا هو اور قصد قربت حاصل هوگئی هو تو حج صحیح هوگا ۔

(72) جب کسی پر حج واجب هو اور وه اسی انجام دینی میں سستی اور تاخیر سی کام لی یهاں تک که اس کی استطاعت ختم

ص: 56

هو جائی تو جس طرح سی بھی ممکن هو حج کو ادا کرنا واجب هی چاهی مشقت و زحمت برداشت کرنا پڑی ۔اگر حج سی پهلی مر جایْ تو واجب هی که اس کی ترکه سی حج کی قضا کریں اور اگر کوئی اس کی قضا مرنی کی بعد بغیر اجرت کی اس کی طرف سی حج انجام دی تو بھی صحیح هوگا۔

حج کی وصیت

جو شخص مرنی کی قریب هو اس کی ذمه حج الاسلام هو تو اگر اس کی پاس اتنی مقدار میں مال هو جو حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو اس پر لازم هی که ایسا انتظام کری که اسی اطمینان هو جائی که اس کی مرنی کی بعد اس کی جانب سی

ص: 57

حج ادا کیا جائی گا یا وه گواهوں کی موجودگی میں وصیت کری ۔ لیکن اگر اس کی پاس مال موجود نه هو اور احتمال هو که اس کی مرنی کی بعد کوئی شخص بلا معاوضه اس کی طرف سی حج کری تب بھی وصیت کرنا واجب هی کسی کی ذمه حج واجب هو اور وه مرجائی تو واجب هی که حج کی قضا اس کی اصل ترکه میں سی کرائی جائی چاهی اس نی وصیت نه کی هو اور اسی طرح اگر اس نی وصیت تو کی هو مگر حج کی اخراجات کو ثلث مال (ایک تهائی) سی مخصوص نه کیا هو تو اس صورت میں بھی حج کی اخراجات کو اصل ترکه سی لیا جائی گا۔ اور اگر حج کی وصیت بھی کی هو اور اس کی اخراجات کو مال کی ایک تهائی حصی سی لینی کی شرط بھی کی هو تو اگر تهائی مال حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو واجب هی که حج کو ثلث مال سی کرایا جائی

ص: 58

اور باقی وصیتوں پر حج مقدم هوگا اور ثلث مال حج کی اخراجات کی کافی نه هو تو کمی کو اصل ترکه سی پورا کیا جائی گا ۔

(74) اگر کوئی شخص جس پر حج واجب هو مر جائی اور اس کا کچھ مال کسی اور کی پاس امانت کی طور رکھا هو تو کها گیا هی که امین شخص کو احتمال هو که اگر ورثاء کو واپس کر دی گا تو ورثا مرحوم کی جانب سی حج انجام نهیں دیں گی تو امین کی لی جائز هی بلکه واجب هی که وه خود یا کسی کو نائب بناکر مرحوم کی جانب سی حج انجام دی اور اگر مال حج کی اخراجات سی زیاده هو تو باقی مال ورثاء کو واپس کردی ۔ لیکن یه حکم اشکال سی خالی نهیں هی ۔

(75) اگر کوئی شخص جس کی ذمه حج الاسلام هو مر جائی اور اس پر خمس واجب هو یا زکات اور ترکه (وه مال جو مرنی والا

ص: 59

چھوڑ کر مرتا هی) کم هو جس مال پر خمس یا زکات واجب هو اس مال سی خمس یا زکات نکالا جائی گا اور اگر خمس و زکوة اس کی ذمه هوں مگر وه مال موجود نه هو جس پر خمس و زکات واجب تھا تو پھر حج مقدم هوگا اور اگر اس کی ذمه کوئی قرض هو تو بعید نهیں هی که قرض حج پر مقدم هو جائی ۔

(76) اگر کوئی مر جائی اور اس کی ذمه میں حج الاسلام واجب هو جب تک حج مرنی والی باقی هو ۔ اس کی ورثا کو ترکه میں ایسا تصرف جائز نهیں هو نیت کی قضا حج کی منافی هو اور اس سی فرق نهیں پڑتا که حج کی اخراجات ترکه سی کم هوں تو زائد رقم کا تصرف کرنی میں کو ئی حرج نهیں هی چاهی اس تصرف کی وجه سی زائد مقدار ضائع هو جائی ۔

(77) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام هو اور اس کا ترکه حج

ص: 60

کی اخراجات کی لیی کافی نه هو تو اگر اس کی ذمه کوئی قرض یا خمس و زکوة هو تو واجب هی که اس کا ترکه اس کی ادائیگی پر خرچ کیا لیکن اگر کوئی قرضه وغیره نه هو تو اس کا ترکه اس کی ورثا کی لی هوگا اور ورثا پر واجب نهیں که حج کی ادائیگی کی لیی اخراجات حج کو اپنی مال سی پورا کریں ۔

(78) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام واجب هو تو اس کی مرنی کی بعد اس کا نائب بنانا اس کی وطن سی ضروری نهیں هی ۔بلکه میقات حتی که مکه کی قریب ترین میقات سی نائب بنانا بھی کافی هی اگر چه احوط یه هی که اس کی اپنی وطن سی نائب بنانا چاهیی اگر مرنی والی کا ترکه حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو کسی بھی میقات سی نائب بنایا جا سکتا هی بلکه جس میقات سی اجرت و خرچه کم هو اس میقات سی نائب

ص: 61

بنایا جائی ۔ اگر چه احتیاط مستحب یه هی که که اگر مال کافی هو تو اس کی شهر سی نائب بنایا جائی اس صورت میں زائد اجرت اس کی بالغ ورثا کی رضامندی سی ان کی مال سی دی جائی گی نه که نا بالغ ورثا کی حصه سی ۔

(79) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام اور اس کا ترکه حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو احتیاط واجب یه هی که حج ادا کرنی میں جلدی کرنی چاهی اس کی مال سی کسی کو اجرت پر حج کی لیی بھیجنا پڑی۔ اگر پهلی سال میقات سی اجیر نه ملی تو احتیاط واجب یه هی که اس کی وطن سی نائب و اجیر مقرر کریں اور اگلی سال تک تاخیر نه کریں چاهی معلوم هو که اگلی سال میقات سی اجیر مل جائی گا۔ اور اس صورت میں (جب نائب کو وطن سی مقرر کریں) میقات سی زائد خرچه نابالغ ورثا

ص: 62

کی حصه سی نهیں لیا جا سکتا۔

(80) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام اور اس کا ترکه حج کی اخراجات کی لیی کافی هو اور حج (بدل کی لیی) نائب معمول سی زیاده قیمت پر هی ملنا ممکن هو تو احیتاط واجب یه هی که زیاده قیمت دی کر نائب بنایا جائی اور ورثا میراث کا حصه زیاده کرنی کی لیی آئنده سال تک تاخیر نهیں کر سکتی لیکن اس صورت میں معمول سی زیاده قیمت کو نابالغ ورثا کی حصه سی نهیں لیا جا سکتا ۔

(81) اگر مرنی کی بعض ورثا اقرار کریں که اس پر حج اسلام واجب تھا اور باقی ورثا اس کا انکار کریں تو صرف اقرار کرنی والوں پر واجب هی که مال وراثت کی نسبت سی اپنی مال میں سی حج کی لیی خرچه دیں (مثلا اگر اقرار کرنی والوں کی حصی

ص: 63

نصف ارث آیا هو تو حج کی لیی اخراجات کا نصف خرچه دیں) لهذا مقدار حج کی اخراجات کی لیی کافی هو چاهی کسی اور کی ملانی کی وجه سی پوری هو رهیں هوں یا کسی اور طرح سی حج کی اخراجات کی لیی کافی هو تو نائب بنانا واجب هوگا ورنه نهیں اور اقرار کرنی والوں پر اپنی حصی سی یا اپنی دوسری مال سی کمی کو پورا کرنا واجب نهیں هی ۔

(82) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام هو اور کوئی بلا معاوضه اس کی جانب سی حج انجام دی تو کافی هی اور ورثاء کی لئی مرنی والی کی مال سی نائب بنانا واجب نهیں هی اسی طرح اگر مرنی والا ایک تهائی مال سی حج کی وصیت کرکی مری اور کوئی شخص بلا معاوضه اس کی جانب سی حج کو انجام دیدی تو کافی هی اور ایک تهائی مال سی نائب بنانا واجب نهیں هی لیکن

ص: 64

حج کی اخراجات کی برابر مال کو ایک تهائی مال میں سی ورثه نهیں دیا جائی گا بلکه مرنی والی کی نظر میں جو نیکی کا کام هو اس میں صرف کیا جائی گا ۔

(83) اگر مرنی والی کی ذمه حج الاسلام هو اور اس نی اپنی شهر سی نائب بنانی کی وصیت کی هو تو اس کی شهر سی نائب بنانا واجب هی لیکن میقات کی نسبت زائد اخراجات کو ایک تهائی مال سی ادا کیا جائی گا اور اگر حج کی وصیت کری لیکن جگه کا معین نه کری تو میقات سی نائب بنانا کافی هی مگر یه که کو ئی ایسی علامت یا قرینه هو جس سی ظاهر هو کی مرنی والی کا اراده اپنی شهر سی نائب بنانی کا تھا مثلا مرنی والا حج کی لئی اتنی مقدار معین کری جو اس کی شهر کیلئی کافی هو (تو اس کی ارادی کی مطابق عمل کیا جائی )

ص: 65

(84) اگر مرنی والا اپنی شهر سی حج کرنی کی وصیت کری لیکن وصی یا وارث میقات سی نائب بنائیں تو اگر مرنی والی کی مال سی نائب کو خرچه دیا هو تو اجاره باطل هوگا لیکن اجیر کی حج انجام دینی پر مرنی والا بری الذمه هو جائی گا ۔

(85) اگر مرنی والا کسی دوسری شهر سی حج کی وصیت کری مثلا وصیت کری که نجف سی کسی کو نائب بنایا جائی تو اس وصیت پر عمل کرنا واجب هی اور میقات سی زائد اخراجات کو تهائی مال سی لیا جائی گا۔

(86) اگر مرنی والا وصیت کری که اس کی جانب سی حج الاسلام انجام دیا جائی اور اس کی لئی اجرت معین کری تو اس پر عمل کرنا واجب هی لهذا اگر اجرت معمول کی مطابق هو تو مرنی والی کی اصل مال سی ادا کی جائی گی،

ص: 66

ورنه معمول سی زائد مقدار کو تهائی مال سی ادا کیا جائی

(87) اگر مرنی والا کسی ایسی مال معین سی حج کی وصیت کری جس کی باری میں وصی کو معلوم هو که اس مال پر خمس اور زکوة واجب هی تو وصی پر واجب هی که پهلی خمس نکالی اور پھر باقی مال حج پرخرچ کری اور اگر باقی مال حج کی اخراجات کیلئی کافی نه هو تو ضروری هی اصل مال سی کمی کو پورا کری بشرطیکه وصیت حج الاسلام کی هو لیکن اگر وصیت تعدّد مطلوب کی بناء پر هو یعنی وصیت کرنی والی کی نظر میں دو چیزیں هوں ایک یه که کوئی کار خیر انجام پائی اور دوسری یه که وه کار خیر حج هو تو مرنی والی کی نظر میں جو بھی کار خیر هو مال اس پر خرچ کیا جائی او راگر وصیت تعدّد مطلوب کی بناء پر نه هو تو مال معین سی بچنی والی مقدار ورثاء میں تقسیم هو گی۔

ص: 67

(88) اگر مرنی والی کی طرف سی حج کی لیی نائب بنانا واجب هو جائی چاهی وصیت کی وجه سی یا کسی اور وجه سی، اور وه شخص (مثلا وصی یا وارث) جس پر نائب بنانا واجب تھا غفلت کری یا مال ضائع هو جائی تو یه شخص ضامن هوگا اور اس پر اپنی مال سی نائب بنانا واجب هی ۔

(89) اگر یه معلوم هو جائی که میت کی ذمه حج واجب هی اور یه پته نه چلی که اس نی انجام دیا تھا یا نهیں تو قضا کرانا واجب هی اور اس کی اخراجات اصل مال سی لیی جائیں گی ۔

(90) حج کی لیی صرف مرنی والا نائب بنانی سی بری الذمه نهیں هوتا لهذا اگر پته چلی که نائب نی حج نهیں کیا تو چاهی کسی عذر کی وجه سی یا بغیر کسی عذر کی تو دوسرا نائب بنانا واجب هی اور اس کی اخراجات اصل مال سی ادا کیی جائیں گی ۔ اگر

ص: 68

پهلی اجرت مرنی والی کی مال سی دی هو اور اس کو واپس لینا اگر ممکن هو تو واپس لیا جائی ۔

(91) اگر اجیر متعدد هوں تو اظهر یه هیکه ایسی شخص کو اجیر بنایا جائی که جس کا نائب بننا مرنی والی کی شان و حیثیت کی منافی نه هو چاهی دوسرا کم قیمت پرجانی پر راضی هو اور نائب ایک تهائی مال سی بنایا جا رها هو اور چاهی ورثا کی حصی میں کمی هو رهی هو اور وه راضی نه هوں لیکن یه حکم اس صورت میں مشکل هی جب درج بالا طریقی سی اجیر بنانا دوسری مالی واجبات مثلا قرض و زکوة جو مرنی والی کی ذمه هوں یا غیر مالی واجبات جن کی مرنی والی نی وصیت کی هو ،سی متصادم هو ۔

(92) نائب مرنی والی کی شهر سی یا میقات سی نائب بنانا

ص: 69

واجب هی اور اس میں وارث کی تقلید یا اجتهاد کو مدنظر رکھا جائی نه که مرنی والی کی لهذا اگر مرنی والی کا اعتقاد یه هو که اپنی شهر سی حج واجب هی جبکه وارث اعتقاد یه هو که میقات سی بھی نائب بنانا جائز هی تو وارث پر واجب نهیں هی که وه مرنی والی کی شهر سی نائب بنائی ۔

(93) اگر مرنی والی ذمه حج الاسلام هو مگر اس کی میراث و ترکه نه هو تو وارث پر نائب بنانا واجب نهیں لیکن مستحب هی خصوصا مرنی والی کی اقربا کیلیی مستحب هی که وه مرنی والی کو بری الذمه کرائیں۔

(94) اگر مرنی والا حج کی وصیت کری اور معلوم هو که یه حج الاسلام هی تو اگر ایک تهائی مال سی حج کرانی کی وصیت نه کی هو تو پھر حج کی اخراجات کو اصل مال سی لیا جائی گا اور

ص: 70

اگر معلوم هو که جس حج کی وصیت کی هی وه حج االاسلام نهیں هی یا حج االاسلام هونی میں شک هو تو پھر حج کی اخراجات ایک تهائی ما ل سی لیی جائی گی۔

(95) اگر مرنی والا حج کی وصیت کری اور کسی خاص شخص کو اس کی لیی معین کری تو وصیت پر عمل کرنا واجب هی اور اگر یه خاص شخص معمول سی زیاده اجرت طلب کر رها هو اور حج، حج الاسلام هو تو پھر معمول سی زیاده اجرت ترکه کی ثلث (تهائی) مال سی ادا کی جائی گی اور اگر یه بھی ممکن نه هو تو اگر وصیت تعدد مطلوب کی بنا پر هو (یعنی وصیت سی مرنی والی کی غرض یه هو که حج انجام پائی اور اسی خاص شخص کی توسط سی انجام پائی یعنی دونوں چیزیں هوں) یا حج الاسلام کی وصیت کی گئی هو تو پھر کسی ایسی شخص کو نائب بنانا چاهیی جو

ص: 71

معمول کی مطابق اجرت لی رها هو۔

(96) اگر مرنی والا حج کی وصیت کری اور اس کی لیی مال بھی معین کری مگر کوئی اس قیمت پر جانی کی لیی راضی نه هو تو اگر حج، حج الاسلام هو اصل مال سی کمی کو پورا کیا جائی گا۔ اور اگر حج ،حج الاسلام کی علاوه هو اور وصیت تعدد کی مطلوب کی بناپر هو یعنی وصیت سی میت کی غرض دو چیزیں هوں ایک یه که کوئی کار خیر انجام پائی اور دوسری یه که کارخیر حج هو تو اس مال معین کو میت کی نظر میں جو کار خیر تھی اس پر خرچ کیا جائی گا ۔ورنه وصیت باطل هی اور یه مال معین میراث کا حصه شمار هوگا ۔

(97) اگر کوئی اپنا گھر اس شرط پر بیچی که خریدار اس قیمت کو اس کی مرنی کی بعد حج پر خرچ کری تو گھر کی قیمت میراث

ص: 72

کا حصه شمار هوگی اور اگر حج، حج الاسلام هو تو شرط لازم هو جائی گی اور تو اس پر واجب هی که گھر کی قیمت کو حج کی اجرت میں صرف کری لیکن اجرت معمول کی مطابق هو ورنه زیاده مقدار کو ثلث مال سی لیا جائی گا۔ اور اگر حج، حج الاسلام کی علاوه هو تب بھی شرط لازم هی اور حج کی پوری اجرت کو ایک تهائی مال سی لیا جائی گا اور اگر ایک تهائی مال حج کی اخراجات کی لیی کافی نه هو تو زائد مقدار میں شرط لازم نهیں هوگی۔

(98) اگر کوئی اپنا گھر کسی کو اس شرط پر دی دی که وه اس کی مرنی کی بعد اس کی طرف سی حج کرائی گا تو یه معاهده صحیح اور لازم هی (یعنی اس پر عمل کرنا ضروری هی) اور یه گھر مالک کی ملکیت سی خارج هو جائی گا اور اس گھر کو میراث میں شمار نهیں کیا جائی چاهی حج مستحب بھی هو اور وصیت کا حکم

ص: 73

اس گھر پر جاری نهیں هوگا یهی حکم اس وقت بھی هی جب کوئی اپنا گھر کسی اور کی ملکیت میں اس شرط پر دی که وه اس کی مرنی کی بعد وه اس کو بیچ کر گھر کی قیمت سی اس کی جانب سی حج کرائی گا یه صورتیں صحیح اور لازم هیں چاهی وه جس چیز کو بیچ کر شرط کیا هی۔ مستحب عمل هی هو اور وارثوں کا گھر پر کوئی حق نهیں هوگا۔ اگر وه شخص جس پر شرط کی تھی شرط کی مخالفت کری تو ورثاء معامله ختم کرنی کا حق نهیں رکھتی لیکن مرنی والی کا سر پرست چاهی وه وصی هو حاکم شرع معامله ختم کر سکتا هی اور اگر مرنی والی کا سرپرست معامله ختم کردی تو مال مرنی والی کی ملکیت میں لوٹ آئی گا اور میراث کا حصه بن جا ئی گا ۔

(99) اگر وصی (وه شخص جس کی نام وصیت کی گئی هو) مر

ص: 74

جائی اور پته نه چلی که وصی نی مرنی سی پهلی کسی کو نائب مقرر کیا هی یا نهیں تو اصل مال سی نائب بنانا واجب هی بشرطیکه حج، حج الاسلام هو لیکن اگر حج الاسلام کی علاوه کوئی اور حج هو تو پھر ثلث مال سی نائب بنایا جائی گا۔ اور اگر ولی نی حج کی مقدار کی مطابق مال لیا هو اور وه مال موجود بھی هو تو اس کو واپس لیا جائی گا۔ چاهی یه احتمال هو که وصی نی اپنی مال سی نائب بنا دیا هوگا اور بعد میں اپنی مال کی بدلی مرنی والی کی مال سی لیی هوں گی۔ اور اگر مال موجود نه هو تو وصی ضامن نهیں هوگا اس لیی که احتمال هی که بغیر کوتاهی کی مال ضائع هو گیا هو ۔

(100) اگر وصی سی لاپرواهی کی بغیر مال ضائع هو جائی تو وه ضامن نهیں هوگا اور اگر حج، حج الاسلام هو تو واجب هی که باقی

ص: 75

ترکه سی نائب بنایا جائی ۔حج الاسلام کی علاوه حج هو تو باقی ثلث مال سی نائب بنایا جائی اگر باقی مال ورثا میں تقسیم هو چکا هو تو ان کی حصی کی نسبت اجرت کی لیی واپس لیاجائی گا۔ یهی حکم اس صورت میں بھی هی جب کوئی حج کی لیی نایب بنی اور حج ادا کرنی سی پهلی مر جای اور اس کا ترکه نه هو اور اگر هو اس سی واپس لینا ممکن نه هو ۔

(101) اگر وصی سی نائب مقرر کرنی سی پهلی مال ضائع هو جائی اور پته نه چلی که ولی سی لاپرواهی هوئی هی یا نهیں تو وصی سی اس مال کی بدلی مال لینا جائز نهیں هی ۔

(102) اگر مرنی والا حج الاسلام کی علاوه کسی حج کی لیی مال معین کی وصیت کری اور احتمال هو که یه مال معین ایک تهائی

ص: 76

مال سی زیاده هی تو اس مقدار مال کو ورثاء کی اجازت کی بغیر صرف کرنا جائز نهیں هی ۔

نیابت کی احکام

(103) حج کی لیی نائب میں چند شرائط کا هونا معتبر هی ۔

(1) بلوغ، نابالغ بچی کا کسی دوسری کی لیی حج الاسلام یا کوئی دوسرا واجب حج کرانا کافی نهیں هی۔ بلکه بنابر احوط ممیز بچه کا (یعنی اچھی بری کی تمیز رکھنی والا) بھی یهی حکم هی لیکن مستحبی حج میں بعید نهیں که ولی کی اجازت سی ممیز بچه کا نائب بننا صحیح هو ۔

(2) عقل، دیوانی شخص کو نائب بنانا کافی نهیں هی چاهی

ص: 77

دیوانگی مستقل هو یا کبھی کبھی اس کا دوره پڑتا هو اور وه دوری کی حالت میں حج کری البته سفیه کو نائب بنانی میں کوئی حرج نهیں هی۔

(3) ایمان، ائمه کی امامت کی منکر غیر مومن کو نائب بنانا کافی نهیں هی اور اگر وه هماری مذهب کی مطابق حج کری تب بھی بنابر احوط کافی نهیں هی۔

(4) فارغ الذمه، یعنی نائب جانتا هو که جس سال اس نی نیابت کا حج انجام دینا هی اس سال اس کی ذمه کوئی اور واجب حج نهیں هی یا اس سی غافل نهیں هو لیکن اگر وجوب کو نه جانتا هو یا اس سی غافل هو تو ایسی شخص کو نائب بنانی میں کوئی حرج نهیں هی۔ یه شرط اجاره کی صحیح هونی کی شرط هی نه که نائب کا حج صحیح هونی کی ۔

ص: 78

لهذا اس صورت میں جب که نائب پر حج واجب هو اور وه کسی کی طرف سی حج کری تو جس کا حج کری گا وه بری الذمه هو جائی گا لیکن نائب طی شده اجرت کی بجائی معمول کی مطابق اجرت کا مستحق هوگا۔

(104) نائب میں عدالت کی بجائی حج انجام دینی کی باری میں منوب عنه (جس کی نیابت میں حج کر رها هی) کا مطمئن هونا معتبر هی ناقابل اطمئنان نائب کا حج انجام دینی کی باری میں خبر کو کافی سمجھنی میں اشکال هی۔

(105) منوب عنه (جس کی طرف سی حج کر رها هی) کا بری الذمه هونی کی لیی نائب کا صحیح طرح سی حج کرنا معتبر هی لهذا نائب کیلیی ضروری هی که وه اعمال و احکام حج کو صحیح طرح سی جانتا هو یا کسی دوسری شخص کی راهنمائی سی اعمال حج کی

ص: 79

ادائیگی کی وقت هی جان لی جب شک هو که نائب اعمال حج کو صحیح طرح سی بجا لایا هی یا نهیں چاهی یه شک اس وجه سی هو که خود نائب کا اعمال حج کو صحیح طرح سی جاننا مشکوک هو تو بعید نهیں که حج کو صحیح سجھا جائی۔

(106) ممیز بچی کی نیابت کی جا سکتی هی جس طرح دیوانه شخص کی، بلکه دیوانه شخص کو اگر دیوانگی کا دوره کھبی کھبی پڑتا هو اور معلوم هو که همشیه ایام حج میں دیوانگی کا دوره پڑتا هی تو صحت کی حالت میں نائب بنانا واجب هی۔ اسی طرح اس صورت میں بھی بنانا واجب هوگا جب صحتمندی کی حالت میں حج اس پر واجب هو چکا هو چاهی مرتی وقت دیوانگی کی حالت میں هو ۔

(107) نائب اور منوب عنه کا ایک جنس هونا ضروری نهیں هی۔ لهذا عورت کی طرف سی مرد اور مرد کی طرف سی عورت

ص: 80

کا نائب بننا صحیح هی۔

(108) صروره (جو پهلی مرتبه حج کر رها هو) غیر صروره اور صروره دونوں کی طرف سی نائب بن سکتا هی چاهی نائب یا منوب عنه مرد هو یا عورت کها گیا هی که صروره کو نائب بنانا مکروه هی لیکن یه کراهت ثابت نهیں هی بلکه ایسی شخص کی لیی جو مالی استطاعت کی باوجود خود حج نه کرستا هو بعید نهیں هی که صروره کو نائب بنانا اولی اور بهتر هو ،جیسا که وه شخص جس پر حج واجب اور ثابت هو چکا هو اور وه مر جائی تو اولی اور بهت یه هی که صروره کو اس کی طرف سی نائب بنایا جائی۔

(109) منوب عنه کا مسلمان هونا شرط هی لهذا کافر کی طرف سی نیابت صحیح نهیں هی اگر کافر حالت استطاعت میں مر جائی اور اس کی وارث مسلمان هوں تو ان پر واجب نهیں

ص: 81

هی که اس کی طرف سی حج کرائیں۔ اسی طرح اگر ناصبی هو تو اس کی نیابت بھی جائز نهیں هی سوائی اس کی که وه ناصبی، باپ هو، باپ کی علاوه باقی رشته داروں کی جانب سی نائب بنانی میں اشکال هی۔ لیکن حج انجام دی کر اس کا ثواب ان کو هدیه کرنی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

(110) زنده شخص کی مستحبی حج میں نیابت کی جا سکتی هی چاهی اجرت لی کر هو یا بغیر اجرت کی۔ اسی طرح اگر واجب حج هو اور خود انجام دینی سی معذور هو تو جیسا که پهلی بیان هو چکا هی نائب بنانی میں کوئی حرج نهیں هی لیکن اس کی علاوه زنده شخص کی نیابت جائز نهیں هی مرده شخص کی طرف سی هر حالت میں نیابت جائز هی چاهی اجرت لی کر هو یا بغیر اجرت کی چاهی، واجب حج هو یا مستحب ۔

ص: 82

(111) نیابت کی صحیح هونی میں نیابت کا قصد ضروری هی یعنی منوب عنه کو کسی بھی طرح سی مشخص و معین کری البته نام لی کر معین کرنا ضروری نهیں هی تاهم تمام مواطن و موافق میں ایسا کرنا مستحب هی ۔

(112) جس طرح کسی کا نیابتی حج اجرت لی کر یا مفت انجام دینا صحیح هی اسی طرح جعاله یا کسی عقد و معامله میں شرط کرنی یا کسی اور طرح سی بھی نیابت صحیح هی ۔

(113) ظاهر هی که نائب کی شخصیت اسی شخص کی طرح هی جو خود اپنا حج کر رها هو مگر بعض اعمال حج کو بالکل مقرره طریقی سی صحیح طور پر انجام نه دی سکتا هو۔ لهذا نائب کا حج بعض موقعوں پر صحیح هوگا اور منوب عنه بری الذمه هوگا جبکه دوسری موارد میں باطل هوگا۔ لهذا اگر عرفات میں وقوف اختیاری سی عاجز

ص: 83

هو اور وقوف اضطراری انجام دی تو اس کا حج صحیح هوگا اور منوب عنه بری الذمه هو جائی گا ۔ لیکن اگر دونوں وقوف سی عاجز هو تو اس کا حج باطل هی اور ایسی شخص کو نائب بنانا جس کی باری میں پهلی سی معلوم هو که یه عمل اختیاری انجام نه دی سکی گا احتیاط کی بنا پر جائز نهیں هی۔ یهاں تک که بلا معاوضه بھی اگر کسی کی طرف سی حج کری تو اس کی عمل پر اکتفا کرنا مشکل هی۔ البته ایسی شخص کو نائب بنانی میں کوئی حرج نهیں جس کی باری میں معلوم هو که وه محرمات احرام مثلا سائی میں رهنا یا کوئی اور حرام کام میں سی کسی کا مرتکب هوگا چاهی عذر کی وجه سی یا بغیر کسی عذر کی اسی طرح اس شخص کو بھی نائب بنانی میں کوئی حرج نهیں جس کی باری میں معلوم هو که ایسی واجبات حج کو چھوڑ دی گا جن کی وجه سی

ص: 84

حج کی صحت پر ضرر نهیں پهنچتا، چاهی انهیں جان بوجھ کر چھوڑا جائی مثلا طواف النساء یا گیارهویں اور بارهویں شب کو منی میں رهنا۔

(114) اگر نائب احرام باندھنی سی پهلی مر جائی تو منوب عنه بری الذمه نهی هوگا۔ لهذا اگر نائب بنانا ضروری هی تو کسی اور شخص کو نائب بنایا جائی۔ لیکن احرام باندھنی اور حرم میں جانی کی بعد مرا هو تو احوط یه هی که منوب عنه بری الذمه هو جائی گا اور اس حکم میں حج الاسلام اور دوسری حج برابر هیں لیکن یه حکم اس وقت هی جب نائب اجرت لی کر حج پر گیا هو اور اگر اجرت کی بغیر حج کر رها هو تو پھر منوب عنه کا بری الذمه هونا اشکال سی خالی نهیں هی ۔

(115) اگر اجیر احرام باندھنی اور حرم میں داخل هونی کی بعد

ص: 85

مر جائی جبکه میت کو بری الذمه کرنی کی لیی نائب بنایا هو تو یه اجیر پوری اجرت کا مستحق هوگا لیکن اگر اسی اعمال حج انجام دینی کی لیی نائب و اجیر بنایا هو اور اجاره میں ایک سی زیاده چیزوں کو مدنظر رکھا گیا هو۔ (یعنی دو مقاصد هوں ایک تو ذمه سی بری هو جائی اور دوسرا اعمال انجام پائیں) تو پھر جتنی اعمال انجام دیی هوں ان کی نسبت سی اجرت کا مستحق هوگا۔ (مثلا ایک تهائی اعمال انجام دیی هوں تو ایک تهائی اجرت کا مستحق هوگا) لیکن اگر اجیر (نائب) احرام سی پهلی مر جائی تو اجرت میں سی کچھ نهیں ملی گا۔ البته اگر عمل کی مقدمات بھی اجاره (معامله) میں داخل هوں یعنی اجاره سی دو چیزیں مقصود هوں ایک اعمال انجام پانا اور دوسرا مقدمات انجام پانا تو اس وقت جتنی مقدار کو انجام دیا هو اتنی اجرت کا مستحق

ص: 86

هوگا۔

(116) اگر کسی کو شهر سی حج کرنی کی لیی اجیر بنایا جائی اور راسته معین نه کیا جائی تو اجیر کو اختیار هی که جس راستی سی چاهی جائی اور اگر راسته معین کیا گیا هو تو خلاف ورزی جائز نهیں هی۔ لیکن اگر اجیر خلاف ورزی کرکی اعمال حج انجام دی اور راسته اجاره میں شرط نه هو اور اجاره کا حصه هو تو اجیر پوری اجرت کا مستحق هوگا اگر راسته کو اعمال حج کا جز سمجھ کر اجاره کیا هو تو اس وقت نائب بنانی والی کو حق حاصل هوگا اور فسخ کرنی کی صورت میں اجیر ان اعمال کی جن کو انجام دی چکا هو معمول کی مطابق اجرت لی گا نه که راسته طی کرنی کی اجرت اور اگر معامله ختم نه کری تو پھر پوری طی شده اجرت کا مستحق هوگا۔ لیکن نائب بنانی والی کو اجیر سی طی

ص: 87

شده راستی سی نه جانی کی صورت میں بقایاجات واپس لینی کا حق حاصل هی ۔

(117) اگر کوئی معین سال میں کسی کا حج خود انجام دینی کی لیی نائب بنی تو اسی سال میں دوسری شخص کا حج خود انجام دینی کی لیی نائب نهیں بن سکتا۔ لیکن اگر دونوں اجاروں کی سال جدا هوں یا کسی ایک میں یا دونوں میں خود انجام دینی کی شرط نه هو تو دونوں اجاری صحیح هوں گی۔

(118) جو شخص کسی معین سال میں کسی کا حج انجام دینی کیلیی اجیر بنی تو جائز نهیں که وه نائب بنانی والی کی رضامندی کی بغیر اس حج کو معین سال سی پهلی یا بعد میں انجام دی۔ چنانچه اگر تاخیر کردی تو اگر چه منوب عنه (جس کی جانب سی حج کیا هو) بری الذمه هو جائی گا لیکن نائب بنانی والی کو معامله ختم

ص: 88

کرنی کا حق هوگا۔ یعنی اجاره ختم کرنی کی صورت میں اجیر کسی اجرت کا حقدار نهیں هوگا اور یه اسی صورت میں هی که جب اجاره معین شده سال میں حج کرنی کا هو۔ لیکن اگر اجاره تو حج کرنی کا هو اور سال محض شرط هو تو نائب معمول کی مطابق اجرت کا مستحق هوگا۔ بلکه اجاره ختم نه کرنی کی صورت میں اجیر طی شده اجرت کا مستحق هوگا۔ اس کی برعکس اگر اجاره معین شده سال میں حج کرنی کا هو اور اجیر اس کی خلاف ورزی کری تو اس نتیجه میں بچنی والی رقم کا مطالبه کرنیکا حق نائب بنانی والی کو حاصل هی۔

اسی طرح اگر اجیر حج کو معین سال سی پهلی انجام دی دی اور جس حج کی لیی اجاره کیا هو وه حج الاسلام هو تو منوب عنه فارغ الذمه هو جائی گا اگر چه اجیر نی معینه سال سی پهلی انجام

ص: 89

دیا هو تو اب چونکه منوب عنه تو فارغ الذمه هو گیا هی لهذا معین شده سال میں حج انجام دینا ممکن هی نهیں تو اجرت سی متعلق حکم وه هی جو قبل ازیں تاخیر کی صورت میں هو چکا هی۔ اور اگر ایسا نه هو یعنی مستحب حج انجام دینی کی لیی اجیر بنایا گیا هو که مثلا آئنده سال حج انجام دی اور اجیر اسی سال انجام دیدی تو اگر اجاره معین شده سال میں حج کرنیکا هو تو اجیر اجرت کا مستحق نهیں هوگا بلکه واجب هی که حج معینه شده سال میں انجام دی اور اگر اجاره میں سال محض شرط هو تو بھی یهی حکم هی بشرطیکه اجر نی اس شرط کو ختم نه کیا هو اور اگر کر دیا هو تو پھر اجیر طی شده قیمت کا مستحق هوگا۔

(119) اگر اجیر دشمن کی روکنی یا بیماری کی وجه سی اعمال حج انجام نه دی سکی تو اس کا حکم خود اپنا حج انجام دینی والی

ص: 90

انسان کی طرح هی جو دشمن یا بیماری کی وجه سی اپنا حج انجام نه دی سکی جس کی تفصیل آگی آئی بیان هوگی۔ لهذا اگر حج کا اجاره اسی سال کی لیی مقید هو تو اجاره فسخ هو جائی گا اور اگر اسی سال سی مقید نه هو تو حج اس کی ذمه باقی رهی گا۔ لیکن اگر سال کا یقین شرط کی صورت میں هو تو امیر بنانی والی کو خیار تخلف (شرط کی خلاف ورزی کی بنا پر اختیار) حاصل هو جائی گا۔

(120) اگر نائب کوئی ایسا کام انجام دی جس کی وجه سی کفاره واجب هوتا هو تو کفاره اپنی مال سی ادا کری گا۔ چاهی پیسی لی کر نائب بنا هو یا بغیر پیسوں کی ۔

(121) اگر کسی کو حج کی لیی معین اجرت پر نائب بنایا جائی اور اجرت حج کی اخراجات سی کم نکلی تو اجیر پر اجرت پوری

ص: 91

کرنا واجب نهیں هی، اسی طرح حج کی اخراجات سی زیاده نکلی تو واپس لنیی کا حق بھی نهیں رکھتا۔

(122) اگر کسی کو واجب یا مستحب حج کی لیی نائب بنایا جائی اور نائب اپنی حج کو مشعر سی پهلی جماع کی ذریعی فاسد کر دی تو اس پر واجب هی که حج کو مکمل کری اور اس حج سی منوب عنه بری الذمه هو جائی گا لیکن نائب پر واجب هو جائی گا که آئنده سال حج کری اور ایک اونٹ کفاره بھی دی۔ تا هم ظاهر یه هی که اجیر اجرت کا مستحق هوگا چاهی آئنده سال عذر کی وجه سی یا بغیر عذر کی حج نه بھی کری۔ بلا معاوضه حج کرنی والی کا بھی یهی حکم هی۔ فرق صرف یهی هی که مستحق اجرت نهیں هی ۔

(123) ظاهر یه هی که اجیر حج انجام دینی سی پهلی اجرت کا تقاضا

ص: 92

کرنیکا حق رکھتا هی چاهی حج سی پهلی اجرت دینی کی شرط واضح نه بھی کی هو اس لیی که اس شرط پر قرینه موجود هی اور وه یه که عام طور پر اجرت پهلی دی جاتی هی کیونکه اجیر کی لیی اجرت لینی سی پهلی حج پر جانا اور عمل بجا لانا ممکن نهیں هوتا۔

(124) اگر کوئی خود حج کرنی کی لیی نائب بنی تو اسی حق نهیں هی که نائب بنانی والی کی اجازت کی بغیر کسی دوسری کو نائب بنائی لیکن اگر اجاره کی ذریعی عمل اپنی ذمه لی اور خود انجام دینی کی شرط نه کری تو پھر اس کی لیی جائز هی که اس حج کی لیی کسی دوسری کو نائب بنائی ۔

(125) اگر کسی کو وسیع وقت میں حج تمتع کی لیی نائب بنایا جائی اور اتفاقا وقت تنگ هو جائی اور نائب حج عمره کو حج افراد سی بدل کر حج افراد انجام دی اور بعد میں عمره مفرده انجام دی

ص: 93

تو منوب عنه بری الذمه هو جائی گا۔ اور اگر اجاره عمره تمتع اور حج تمتع کی اعمال انجام دینی کا هو تو نائب اجرت کا مستحق نهیں هوگا لیکن منوب عنه کو بری الذمه کرنی کا هو تو مستحق هوگا۔

(126) مستحبی حج میں ایک شخص کئی افراد کا نائب بن سکتا هی لیکن واجب حج میں ایک شخص ایک یا دو سی زیاده کا نائب نهیں بن سکتا سوائی اس صورت کی که جب دو یا دو سی زیاده افراد پر حج مشترک طور پر واجب هوا هو مثلا دو افراد منت مانیں که اگر همارا کام هو گیا تو هم مل کر کسی کو حج پر بھیجیں گی، اس صورت میں دونوں کی لیی اپنی جانب سی ایک شخص کو حج پر بھیجیں گی، اس صورت میں دونوں کیلیی اپنی جانب سی ایک شخص کو نائب بنا کر بھیجنا جائز هی ۔

ص: 94

(127) مستحب حج میں کئی افراد ایک هی شخص کی نیابت کر سکتی هیں چاهی منوب عنه زنده هو یا مرده اور چاهی نائب اجرت لی کر حج کر رها هو یا بغیر اجرت کی۔ اسی طرح واجب حج میں بھی ایک شخص پر متعدد حج واجب هوں۔ مثلا کسی زنده یا مرده شخص پر دو حج واجب هوں اور دونوں نذر سی واجب هوئی هوں یا مثلا ایک حج الاسلام هو اور دوسرا نذر سی واجب هوا هی تو کئی افراد ایک شخص کی نیابت کرنا جایز هی یعنی ایک کو حج الاسلام کی لیی دوسری کو دوسری حج کی لیی بنایا جا سکتا هی ۔اسی طرح ایک شخص کی جانب سی دو افراد کو ایک کو واجب حج کیلیی اور دوسری کو مستحب حج کی لیی نائب بنانا جائز هی۔ بلکه بعید نهیں هی که اس احتمال کی بنا پر که ایک شخص کا حج ناقص هو سکتا هی احتیاط کی خاطر ایک شخص کی طرف سی ایک واجب

ص: 95

حج کیلیی دو نائب بنانا جائز هو۔

(128) طواف فی نفسه مستحب هی لهذا طواف میں جائز هی که مرنی والی کی طرف سی نیابت کی جائی اسی طرح اگر زنده (منوب عنه) مکه میں نه هو یا مکه میں هو لیکن خود طواف نه کر سکتا هو تو اس کی طرف سی بھی نیابت کرنا جائز هی۔

(129) نائب نیابتی حج کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد اپنی جانب سی یا کسی اور جانب سی عمره مفرده کر سکتا هی جس طرح که اپنی یا کسی اور کی جانب سی طواف کرنی میں کوئی حرج نهیں هی۔

ص: 96

مستحب حج

(130) جس شخص کی لیی حج کرنا ممکن هو اسی چاهیی که وه حج کری چاهی وه استطاعت نه بھی رکھتا هو یا حج الاسلام انجام دی چکا هو۔ بلکه اگر ممکن هو تو هر سال حج کرنا مستحب هی۔

(131) مناسب هی که مکه سی آتی وقت دوباره حج کی لیی آنی کی نیت هو، بلکه بعض رویات میں وارد هی نه آنی کی نیت کرنا موت کو قریب کرتا هی۔

(132) مستحب هی که جس میں استطاعت نه هو اسی حج کرایا جائی ۔جس طرح حج کی لیی قرض کرنا مستحب هی جب ادا

ص: 97

کرنی کا اطمینان هو اسی طرح حج میں زیاده خرچ کرنا بھی مستحب هی۔

(133) فقیر کی لیی جائز هی که جب اس کو سهم فقراء میں سی زکات دی جائی تو اس کو مستحب حج پر خرچ کری ۔

(134) شادی شده عورت کی لیی مستحب حج کی لیی شوهر کی اجازت ضروری هی۔ طلاق رجعی کی عدت گزارنی والی کی لیی بھی یهی حکم هی لیکن طلاق نائب والی عورت کی لیی شوهر کی اجازت معتبر نهیں هی۔ اور جس عورت کا شوهر مرگیا هو اس کی لیی عده وفات میں حج کرنا جائز هی۔

ص: 98

عمره کی اقسام

(135) عمره بھی حج کی طرح کبھی واجب هوتا هی اور کبھی مستحب اور عمره یا مفرده هوتا هی یا تمتع ۔

(136) حج کی طرح عمره بھی هر صاحب شرائط مستطیع پر واجب هی اور حج کی طرح واجب فوری هی لهذا عمره کی استطاعت رکھنی والی پر چاهی وه حج کی استطاعت نه بھی رکھتا هو عمره واجب هی۔ لیکن ظاهر یه هی که جس کا فریضه حج تمتع هو اور اس کی استطاعت نه رکھتا هو بلکه عمره مفرده کی استطاعت رکھتا هو تو اس پر عمره مفرده واجب نهیں هی لهذا ایسی شخص کی مال سی

ص: 99

عمره مفرده کی لیی نائب بنانا جو مستطیع هوگیا هو اور ایام حج سی پهلی مر جائی واجب نهیں هی۔ اسی طرح حج کی لیی اجیر بننی والی پر حج نیابتی کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد عمره مفرده انجام دینا واجب نهیں هی اگر چه عمره کی استطاعت رکھتا هو۔ لیکن مناسب هی که ان موارد میں احیتاط کو ترک نه کری اسی طرح وه شخص جو حج تمتع کری تو یقینا اس پر عمره مفرده واجب نهیں هی ۔

(137) سال کی هر مهینی میں عمره مفرده کرنا مستحب هی اور دو عمروں کی درمیاں تیس دن کا وقفه ضروری نهیں هی۔ لهذا ایک ماه کی آخر اور دوسری ماه کی اول میں عمره کرنا جائز هی ایک مهینی میں دو عمری کرنا چاهی اپنی طرف سی یا کسی اور کی طرف سی جائز نهیں هی۔ تا هم دوسرا عمره رجاء انجام دینی میں

ص: 100

کوئی حرج نهیں هی۔ اسی طرح اگر ایک عمره اپنی لیی اور دوسرا عمره کسی اور کی طرف سی یا دونوں عمری دو مختلف افراد کی طرف سی هوں تو پھر ایک ماه میں دو عمری کرنی میں کوئی حرج نهیں هی۔ عمره مفرده اور عمره تمتع کی درمیان تیس دن فاصله هونی کی شرط میں اشکال هی۔ وه شخص جو ذی الحجه میں عمره تمتع کرنی کا اراده رکھتا هو که اعمال حج کی بعد عمره مفرده انجام دی گا تو اس کی لیی احوط یه هی که عمره کو ماه محرم تک تاخیر کری۔ اسی طرح وه شخص جو عمره مفرده شوال میں کری اور اراده رکھتا هو که اس کی بعد عمره تمتع انجام دی گا، اس کی لیی احوط یه هی که عمره اسی مهینی میں انجام نه دی۔ عمره مفرده کو عمره تمتع اور حج تمتع کی درمیان انجام دینی میں ظاهر یه هی که عمره تمتع باطل هو جاتا هی لهذا عمره تمتع دوباره کرنا ضروری هی۔

ص: 101

لیکن اگر حج کی لیی یوم ترویه (8 ذی الحجه) تک مکه میں رهی تو جو اس وقت عمره مفرده انجام دی چکا هی وه عمره تمتع شمار هوگا اور اس کی بعد حج تمتع کری۔

(138) جس طرح عمره مفرده استطاعت کی وجه سی واجب هو جاتا هی اسی طرح نذر، قسم اور عهد وغیره بھی واجب جاتا هی۔

(139) ذیل میں چند چیزوں کی علاوه عمره مفرده اور عمره تمتع کی اعمال مشترک هیں جن کی تفصیل آگی آئیگی۔

1۔ عمره مفرده میں طواف النساء واجب هی جب که عمره تمتع میں واجب نهیں هی ۔

2۔ عمره تمتع صرف حج کی مهینوں میں انجام دیا جا سکتا هی جو شوال، ذی القعده اور ذی الحجه هیں جب که عمره مفرده کو سال کی

ص: 102

کسی مهینه میں انجام دیا جاسکتا هی تاهم ماه رجب میں فضیلت هی ۔

3۔ عمره تمتع کی احرام سی باهر آنا صرف تقصیر (کچھ بال کٹوانا) پر منحصر هی جب که عمره مفرده کی احرام سی تقصیر سی بھی باهر آ سکتی هیں اور حلق (بال منڈوانی) سی بھی تاهم حلق افضل هی یه حکم مردوں کی لیی هی جب که عورتوں کی لیی تقصیر معین هی چاهی عمره تمتع کی احرام سی باهر آنا هو یا عمره مفرده کی ۔

4۔ عمره تمتع اور حج تمتع ایک هی سال میں انجام دینا واجب هی جس کی تفصیل آئیگی۔ جبکه عمره مفرده میں یه واجب نهیں هی۔ لهذا جس شخص پر حج افراد و عمره مفرده واجب هو وه ایک سال میں حج اور دوسری سال میں عمره کر سکتا هی۔

ص: 103

5۔ اگر کوئی شخص عمره مفرده میں سعی سی پهلی حجامت کر لی تو بغیر اشکال کی اس کا عمل باطل هوجائیگا اور دوباره انجام دینا واجب هوگا یعنی آئنده ماه تک مکه میں رکی اور پھر سی عمره کری، جب که عمره تمتع میں اگر سعی سی پهلی جماع کری تو اس کا حکم جدا هی جیسا که مسئله 220 میں آئی گا۔

(140) عمره مفرده کی لیی احرام ان هی میقاتوں سی باندھنا واجب هی جهاں سی عمره تمتع کا احرام باندھا جاتا هی میقات کا بیان آگی آئیگا۔ لیکن اگر مکلف مکه میں هو اور عمره مفرده کا اراده کری تو اس کی لیی جائز هی که حرم سی باهر نزدیک ترین مقام مثلا حدیبیه، جعرانه یا تنعیم سی احرام باندھی اس کی لیی میقات جاکر احرام باندھنا واجب نهیں هی تاهم جس شخص نی اپنا عمره مفرده سعی سی پهلی جماع کی وجه سی باطل کر دیا هو

ص: 104

اسی کسی ایک میقات پر جاکر احرام باندھنا پڑیگا اور احوط یه هی که حرم سی باهر نزدیک ترین مقام سی احرام باندھنا کافی نهیں هوگا جیسا که مسئله 223 میں تفصیلا آئی گا۔

(141) مکه میں بلکه حرم میں بھی بغیر احرام کی داخل هونا جائز نهیں هی۔ لهذا اگر کوئی حج کی مهینوں (شوال، ذی القعده، ذی الحجه) کی علاوه کسی مهینی میں داخل هونا چاهی تو اس پر واجب هی که عمره مفرده کا احرام باندھی۔ سوائی ان لوگوں کی جو مسلسل کام کی لیی آتی جاتی هیں۔ مثل لکڑهارا اور چرواها وغیره۔ اسی طرح ایسی لوگ جو عمره تمتع، حج تمتع یا عمره مفرده انجام دی کر مکه سی باهر جائیں، ان کی لیی اسی مهینه میں احرام کی بغیر مکه میں جانا جائز هی۔ عمره تمتع کی بعد اور حج تمتع سی پهلی مکه سی باهر آنی والوں کا حکم مسئله 153میں آئی گا ۔

ص: 105

(142) جو شخص حج کی مهینوں (شوال، ذی القعده، ذی الحجه) میں عمره مفرده انجام دی اور یوم ترویه (8ذی الحجه) تک مکه میں رهی اور حج کا قصد کری تو اس کا عمره، عمره تمتع شمار هوگا لهذا وه حج تمتع کری اس حکم میں واجب اور مستحب حج کا فرق نهیں ۔

حج کی قسمیں

(143) حج کی تین قسمیں هیں۔ تمتع، افراد اور قران۔ حج تمتع ان افراد کا فریضه هی جن کی وطن اور مکه کی درمیان سوله فرسخ سی زیاده فاصله هو جبکه افراد و قران مکه کی رهنی والوں اور ان لوگوں کا فریضه هی جن کی وطن اور مکه میں سوله فرسخ سی کم

ص: 106

فاصله هو ۔

(144) جن کا فریضه حج تمتع هو ان کی لیی حج افراد و قران اور اسی طرح جن کا فریضه قران و افراد هو ان کی لیی حج تمتع کافی نهیں هی لیکن کبھی کھبی حج تمتع والی کا فریضه تبدیل هو کر حج افراد هو جاتا هی جس کا ذکر آگی آئیگا اور یه حکم حج الاسلام کا هی جب که مستحب حج نذر کرده اور وصیت کرده وه حج جن کی قسم معین نه کی هو تو دور والوں اور قریب والوں کو تینوں اقسام حج میں اختیار هی اگر چه حج تمتع افضل هی۔

(145) دور کا رهنی والا اگر مکه میں رهائش اختیار کر لی تو جب وه تیسری سال میں داخل هوگا فریضه تمتع سی تبدیل هو کر افراد یا قران هو جائی گا۔ لیکن تیسری سال میں داخل هونی سی پهلی اس پر حج تمتع واجب هوگا اور اس حکم میں اس سی فرق نهیں

ص: 107

پڑتا که وه مکه میں رهائش سی پهلی مستطیع هوا هی اور حج اس پر واجب هوا هی یا رهائش کی دوران مستطیع هوا هی اور حج اس پر واجب هوا هی اسی طرح اس سی بھی فرق نهیں پڑتا که مکه کو وطن قرار دی کر یا قرار نه دی کر رهائش اختیار کری اور یهی حکم ان افراد کیلیی بھی هی جو مکه کی اطراف سوله فرسخ میں رهائش اختیار کریں ۔

(146) اگر کوئی شخص مکه میں رهائش اختیار کری اور اپنا فریضه تبدیل هونی سی پهلی حج تمتع کرنی کا اراده کری تو کها گیا هی اس کی لیی حرم سی باهر قریب ترین مقام سی احرام باندھنا جائز هی لیکن یه قول اشکال سی خالی نهیں هی اور احوط یه هی که وه کسی میقات پر جاکر احرام باندھی، بلکه احوط یه هی که ان شهر والوں کی میقات پر جائی ۔ ظاهر یه هی که یه حکم هر اس

ص: 108

شخص کا هی جو مکه میں هو اور حج تمتع کا اراده کرنا چاهی حج مستحب هی هو ۔

1۔ حج تمتع ۔

(147) یه حج دو عبادتوں حج اور عمره سی مل کر بنتا هی۔ کبھی کبھی صرف حج کو حج تمتع کهتی هیں حج تمتع میں عمره تمتع کو پهلی انجام دینا واجب هی ۔

(148) عمره تمتع میں پانچ چیزیں واجب هیں۔

1۔ کسی ایک میقات سی احرام باندھنا جس کی تفصیل آگی آئیگی ۔

2۔ خانه کعبه کی گرد طواف کرنا۔

3۔ نماز طواف

4۔ صفا مروه کی درمیان سعی کرنا ۔

ص: 109

5۔ تقصیر۔ یعنی سر، داڑھی یا مونچھوں کی کچھ بال کٹوانا۔

جب حاجی تقصیر انجام دیدی تو احرام سی فارغ هو جاتا هی لهذا احرام کی وه چیزیں جو اس پر حرام هوئی تھیں وه اس پر حلال هو جائیں گی ۔

(149) مکلف پر واجب هی که نویں ذی الحجه کی نزدیک هونی پر خود کو اعمال حج کی لیی تیار کری ۔

واجبات حج تیره هیں جو که درج ذیل هیں:

1۔ مکه سی احرام باندھنا جس کی تفصیل آگی آئیگی ۔

2۔ وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجه کی دن زوال آفتاب کی بعد غسل اور ظهر و عصر کی اکٹھی نماز ادا کرنی کی بعد سی لی کر غروب آفتاب تک عرفات کی مقام پر قیام کری۔ عرفات مکه سی چار فرسخ کی فاصلی پر هی ۔

ص: 110

3۔ وقوف مزدلفه یعنی شب عید قربان کی کچھ حصی سی طلوع آفتاب سی کچھ پهلی تک مزدلفه (مشعر ) میں قیام کرنا۔ مزدلفه عرفات و مکه کی درمیان ایک جگه کا نام هی۔

4۔ رمی جمره عقبه (کنکر مارنا) عید قربان کی دن منی کی مقام پر رمی کرنا، منی مکه سی تقریبا ایک فرسخ کی فاصلی پر هی ۔

5۔ عید کی دن یا ایام تشریق (11،12،13ذی الحجه) میں منی کی مقام قربانی کرنا ۔

6۔ سر منڈوانا یا سر، داڑھی یا مونچھوں کی کچھ بال کاٹنا (حلق یا تقصیر) اور اس کی بعد احرام کی وجه سی حرام هونی والی چیزیں حلال هو جائیں گی سوائی احیتاط واجب کی بنا پر عورت، خوشبو اور شکار کی ۔

7۔ مکه واپس آنی کی بعد خانه خدا کی زیارت کا طواف کرنا ۔

ص: 111

8۔ نماز طواف ادا کرنا۔

9۔ صفا و مروه کی درمیان سعی کرنا۔ اس عمل کی بعد خوشبو بھی حلال هو جائی گی ۔

10۔ طواف النساء ۔

11۔ نماز طواف النساء۔ اس عمل کی بعد عورت (بیوی) بھی حلال هوجائیگی ۔

12۔ گیاره اور باره کی رات منی میں گزارنا بلکه بعض صورتوں میں تیرھویں کی شب بھی منی میں گزارنا جس کا ذکر آگی آئی گا۔

13۔ رمی جمرات گیاره اور باره کو دن کی وقت تینوں جمرات (اولی، وسطی اور عقبه) کو کنکریاں مارنا بلکه اظهر یه هی که جو شخص تیرھویں رات منی میں گزاری وه تیرھویں کی دن بھی

ص: 112

رمی کری۔ (150) حج تمتع میں ذیل میں درج چیزیں شرط هیں:

1۔ نیت۔ یعنی حج تمتع کو ادا کرنی کی نیت کری لهذا اگر کسی دوسری حج کی نیت کری یا نیت میں تردد کری تو یه حج صحیح نهیں هوگا۔

2۔ عمره اور حج دونوں کو حج کی مهینوں (شوال، ذی القعده، ذی الحجه) میں انجام دی لهذا اگر عمره کا ایک حصه شوال سی پهلی انجام دی تو عمره صحیح نهیں هوگا۔

3۔ عمره اور حج ایک هی سال میں انجام دینا ضروری هی لهذا اگر ایک سال عمره تنتع اور دوسری سال حج تمتع انجام دی تو حج تمتع صحیح نه هوگا اس سی فرق نهیں پڑتا که اگلی سال تک مکه میں قیام کری یا عمره کی بعد وطن واپس لوٹ جائی اور دوباره آئی اور اس سی بھی فرق نهیں پڑتا که عمره کی بعد، تقصیر کی

ص: 113

بعد احرام کھول دی یا آئنده سال تک حالت احرام میں باقی رهی۔

4۔ حالت اختیار میں حج کا احرام شهر مکه سی باندھی اور بهترین مقام مسجدالحرام هی لیکن اگر کسی وجه سی مکه سی حرام نه باندھ سکی تو جهاں سی ممکن هو وهاں سی باندھ لی۔

5۔ ایک شخص کی طرف سی عمره تمتع اور حج تمتع کی تمام اعمال ایک هی شخص انجام دی سکتا هی۔ لهذا اگر دو افراد کو اس طرح سی نائب بنایا جائی که ایک کو عمره تمتع کی لیی اور دوسری کو حج کی لیی تو یه صحیح نهیں هوگا۔ چاهی منوب عنه زنده هو یا مرده اسی طرح اگر ایک هی شخص عمره و حج دونوں کری لیکن عمره ایک کی جانب سی اور حج دوسری کی جانب سی تو یه بھی صحیح نهیں هوگا۔

ص: 114

(151) مکلف کا عمره تمتع کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد حج تمتع ادا کیی بغیر مکه سی نکلنا بنابر احوط جائز نهیں هی سوائی اس کی که اسی کوئی کام هو چاهی وه ضروری نه بھی هو تا هم اعمال حج کی فوت هونی کا خوف نه هو لهذا اسی معلوم هو که وه مکه واپس آکر حج کیلیی احرام باندھ سکی گا تو اظهر یه هی که بغیر احرام کی مکه سی نکلنا جائز هی ورنه حج کی لیی احرام باندھ کر اپنی کام کی لیی جائی اس صورت میں ظاهر یه هی که اس پر مکه واپس آنا واجب نهیں هی بلکه وه اپنی جگه سی هی عرفات جا سکتا هی۔ اگر کوئی عمره تمتع انجام تو اس کی لیی حالت اخیتار میں حج تمتع کو چھوڑنا جائز نهیں هی۔ چاهی حج مستحب هی هو لیکن اگر حج انجام دینا ممکن نه هو تو احوط یه هی که عمره تمتع کو عمره مفرده قرار دی کر طواف النساء انجام دی۔

ص: 115

(152) اظهر یه هی که حج تمتع کرنی والی کیلیی عمره کی اعمال مکمل کرنی سی پهلی مکه سی باهر جانا جائز هی جبکه مکه واپس آنا ممکن هو اگر چه احوط یه هی که نه جائی۔

(153) عمره تمتع کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد مکه سی باهر کسی دوسری جگه جانا حرام هی نه که ان نئی محلوں میں جو اب شهر مکه کا حصه شمار هوتی هیں اور قدیم محلوں کا حکم رکھتی هیں لهذا حاجی کا عمره تمتع کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد ان نئی محلوں میں کسی کام سی یا بغیر کام کی جانا جائز هی۔

(154) جب حاجی عمره تمتع کی اعمال سی فارغ هونی کی بعد بغیر احرام کی مکه سی باهر جائی تو اس کی دو صورتیں هیں:

(1) جس مهینی میں عمره کیا تھا اس کی تمام هونی سی پهلی اگر مکه واپس آئی تو ضروری هی که احرام کی بغیر مکه میں داخل هو

ص: 116

اور مکه سی حج تمتع کا احرام باندھ کر عرفات جائی۔

(2) جس مهینی میں عمره کیا هو اس کی ختم هونی کی بعد مکه واپس آئی تو ضروری هی که مکه واپس آنی کیلیی عمره کا احرام باندھی۔

(155) جس شخص کا فریضه حج تمتع هو اگر حج افراد یا قران انجام دی تو اس کا فریضه ساقط نهیں هوگا اس حکم سی وه شخص مستثنی هی جو عمره تمتع شروع کری لیکن پورا کرنی کا وقت باقی نه رهی۔ اور یه شخص اپنی نیت کو حج افراد کی طرف پھیر لی اور حج کی بعد عمره مفرده بجا لائی وقت اتنا تنگ هو جس کی وجه سی حج افراد کی طرف عدول جائز هوتا هیو اس میں فقهاء کا اختلاف هی اظهر یه هی که عدول اس وقت واجب هوگا جب عرفه کی دن زوال آفتاب سی پهلی عمره کی اعمال کو پورا نه کر

ص: 117

سکتا هو لیکن اگر زوال آفتاب سی پهلی اعمال کو مکمل کرنا ممکن هو چاهی یوم ترویه (8 ذی الحجه) میں یا اس کی بعد تو اس صورت میں عدول کا جائز هونا اشکال سی خالی نهیں هی۔

(156) وه شخص جس کا فریضه حج تمتع هو اور وه عمره کا احرام باندھنی سی پهلی جانتا هو که وه عرفات کی دن زوال آفتاب تک عمره کی اعمال مکمل نهیں کر سکی گا تو اس کا افراد یا قران کی طرف عدول کرنا کفایت نهیں کری گا۔ بلکه اگر حج اس کی ذمه قرار پائی تو اس پر واجب هی که وه آئنده سال حج تمتع انجام دی۔

(157) اگر کوئی وسیع وقت میں حج تمتع کا احرام باندھی لیکن طواف اور سعی میں جان بوجھ کر عرفه کی دن زوال آفتاب تک تاخیر کری تو اس کا عمره باطل هوجائیگا اور اظهر یه هی که حج افراد

ص: 118

کی طرف عدول کرنا کافی نهیں هوگا اگر چه احوط یه هی که رجاء حج افراد کی اعمال انجام دی بلکه طواف نماز طواف سعی اور حلق یا تقصیر کو عمره میں بنابر احوط عمومی نیت (یعنی حج افراد اور عمره مفرده دونوں کو شامل کرنی والی) سی انجام دی ۔

2۔ حج افراد ۔

جیسا که پهلی بیان هو چکا هی که حج تمتع کی دو جز هیں ایک عمره تمتع اور دوسرا حج۔ اس کا پهلا جز دوسری جز سی ملا هوا هی اور عمره، حج پر مقدم کیا جاتا هی۔ جبکه حج افراد خود ایک مستقل عمل هی اور جیسا که بتایا جا چکا هی یه مکه اور اس کی اطراف سوله فرسخ میں رهنی والوں کا فریضه هی اور مکلف کو اخیتار هی که حج افراد انجام دی یا قران۔ جب مکلف حج افراد کی ساتھ عمره مفرده بھی انجام دی سکتا هو تو مستقل طور پر عمره مفرده بھی

ص: 119

واجب هو جائی گا۔ لهذا اگر کوئی حج افراد و عمره میں سی کوئی ایک عمل انجام دی سکتا هو تو صرف وه عمل واجب هوگا جو خود انجام دی اور اگر ایک وقت میں ایک عمل کو انجام دی سکتا هو اور دوسری وقت میں دوسری عمل کو تو اس پر واجب هی که ان اوقات میں اپنی فریضه کو انجام دی۔ اگر ایک هی وقت میں دونوں کو انجام دینا ممکن هو تو دونوں کو انجام دینا واجب هی۔ اس صورت میں فقهاء کی درمیان مشهور هی که حج افراد کو عمره مفرده سی پهلی انجام دی اور یهی احوط هی ۔

(158) حج افراد اور حج تمتع کی تمام اعمال درج ذیل چند چیزوں کی علاوه مشترک هیں۔

(1) حج تمتع میں عمره اور حج کو حج کی مهینوں (شوال، ذی القعده اور ذی الحجه) میں ایک هی سال میں انجام دینا معتبر هی جیسا که

ص: 120

پهلی بیان هو چکا هی جبکه حج افراد میں واجب نهیں هی ۔

2۔ حج تمتع میں قربانی واجب هی جبکه افراد میں نهیں هی۔

3۔ طواف کو سعی اور وقوف عرفات و مشعر سی پهلی انجام نه دیا جائی سوائی کسی عذر کی جیسا که مسئله 412 میں آئی گا ۔ جب که افراد میں جائز هی۔

4۔ حج تمتع کا احرام مکه سی باندھا جاتا هی۔ جبکه افراد کا احرام کسی ایک میقات سی باندھا جاتا هی ۔ یه مسئله میقات کی بحث میں آئیگا۔

5۔ عمره تمتع کا حج تمتع سی پهلی انجام دینا واجب هی۔ جبکه حج افراد میں ایسا نهیں۔

(159) مستحب حج کا احرام باندھنی والی کی لیی عمره تمتع کی طرف عدول کرنا جائز هی۔ لهذ اگر وه تقصیر کری اور احرام

ص: 121

کھول دی لیکن اگر سعی کی بعد تلبیه پڑھ چکا هو تو پھر عمره تمتع کی طر ف عدول نهیں کر سکتا۔

(160) حج افراد کا احرام باندھ کر مکه میں داخل هونی والی کی لیی مستحب طواف کرنا جائز هی لیکن جس مورد میں عمره تمتع کی طرف عدول کرنا جائز هو اور یه عدول کا قصد نه رکھتا هو تو احوط اول یه هی که وه نماز طواف سی فارغ هونی کی بعد دوباره تلبیه کهی۔ یه احتیاط واجب طواف میں بھی جاری هوگی ۔

3۔ حج قران۔

(161) حج قران حج افراد کی ساتھ تمام پهلو میں مشترک هی۔

سوائی اس کی که حج قران میں احرام باندھتی وقت حاجی کو قربانی ساتھ رکھنا هوتی هی اور اسی لیی اس پر قربانی واجب هی۔ حج قران میں احرام تلبیه کهنی کی علاوه اشعار (حیوان پر

ص: 122

علامت لگانا) اور تقلید (حیوان کی گردن میں کسی چیز کا لٹکانا) سی بھی منعقد هو سکتا هی اور جب کوئی حج قران کا احرام باندھ لی تو اس کی لی حج تمتع کی طرف عدول جائز نهیں هی۔

احرام کی میقات

اسلامی شریعت مقدسه نی احرام باندھنی کی لیی چند جگهیں مقرر کی هیں جهاں سی احرام باندھنا واجب هی اور اسی جگه کو میقات کهتی هیں ۔ جن کی تعداد نو هی ۔

1۔ ذوالحلیفه ۔

یه مدینه کی نزدیک واقع هی، یه مدینه میں رهنی والوں اور هر اس شخض کی لیی هی جو مدینه کی راستی حج کی لیی جانا چاهیں۔

ص: 123

احوط یه هی که احرام مسجد شجره سی نباندھا جائی کیونکه مسجد سی باهر باندھا هوا احرام کافی نهیں هی۔ چاهی وه مسجد کی مقابل، دائیں، بائیں کھڑی هو کر باندھا جائی سوائی اس عورت کی جو حالت حیض میں هو یا حائضه کا حکم رکھتی هو۔

(162) بلا کسی عذر یا بیماری یا کمزوری کی ذوالحلیفه (مسجد شجره ) سی جحفه تک احرام باندھنی میں تاخیر کرنا جائز نهیں هی۔

2۔ وادی عقیق۔

یه اهل عراق، نجد اور هر اس شخص کی لیی هی جو اس کی راستی حج کی لیی جائی ۔ اسکی تین حصی هیں:

پهلی حصی کو مسلخ دوسری کو غمره اور تیسری کو ذات عرق کهتی هیں۔ احوط اولی یه هی که تقیه، بیماری یا کوئی اور رکاوٹ نه هو تو حاجی کو ذات عرق پهنچنی سی پهلی احرام باندھ لینا چاهیی ۔

ص: 124

(163) کها گیا هی که تقیه کی حالت میں ذات عرق سی پهلی لباس اتاری بغیر چھپ کر احرام باندھنا جائز هی اور جب ذات عرق پهنچ جائی تو اپنی کپڑی اتار کر احرام باندھ لی اور اس پر کفاره بھی واجب نهیں هی۔ هاں یه قول اشکال سی خالی نهیں هی ۔

3۔ حجفه ۔

یه اهل شام، مصر اور مغرب والوں بلکه هر اس شخص کا میقات هی جو اس راستی سی گزری حتی که بنابر اظهر اس شخص کا بھی جو ذوالحلیفه سی گزر کر آیا هو لیکن کسی وجه سی یا بغیر کسی وجه کی احرام نه باندھ سکا هو ۔

4۔ یلملم ۔

یه اهل یمن اور هر اس شخص کا میقات هی جو اس راستی سی

ص: 125

آئی، یلملم ایک پهاڑی کا نام هی ۔

5۔ قرن منازل

یه طائف اور اس راستی آنی والوں کا میقات هی گزشته چار میقاتوں میں احرام وهاں موجود مسجد سی باندھنا ضروری نهیں هی بلکه هر اس جگه سی جس پر میقات کا نام صادق آئی احرام باندھا جا سکتا هی ۔ اور اگر اسی یقین نه هو سکی تو اس سی پهلی نذر کرکی احرام باندھ سکتا هی کیونکه یه حالت اختیاری میں بھی جائز هی ۔

6۔ مذکوره میقاتوں میں سی کسی ایک کا متوازی ۔

یه ان لوگوں کی لیی هی جو ان راستوں سی آ رهی هوں جهاں سی مذکوره بلا مواقیت نه آتی هوں۔ چنانچه اس وقت ان میقاتوں کی متوازی سی احرام باندھا جا سکتا هی ۔

ص: 126

متوازی میقات سی وه جگه مراد هی که اگر انسان قبله رخ هو کر کھڑا هو تو مذکوره بالا میقاتوں میں سی کوئی اس کی سیدھی یا الٹی هاتھ میں اس طرح پڑی که اگر متوازی میقات سی گزر جائی تو مذکوره میقات اس کی پشت میں آئیگی ۔

متوازی میقات کی پهچان کی لیی عرفا تصدیق کافی هی، عقلی طور سی تحقیق اور غور فکر ضروری نهیں هی۔ اگر حاجی اپنی راستی میں ایسی دو جگهوں سی گزری جن میں سی هر ایک میقات کی متوازی هو تو احوط اور اولی یه هی که پهلی جگه سی احرام باندھی۔

7۔ مکه

جس طرح یه حج تمتع کا میقات هی اسی طرح مکه اور اطراف مکه میں رهنی والوں کی لیی یه افراد و قران کا میقات بھی هی

ص: 127

چاهی ان کا فریضه اهل مکه کی فریضی کی طرف منتقل هوا هو یا نهیں لهذا ان کی لیی حج افراد و قران کی لیی مکه سی احرام باندھنا جایز هی ۔ اگر چه عورت کی علاوه مرد کی لیی بهتر یه هی که وه کسی میقات مثلا جعرانه پر جا کر احرام باندھی احوط اولی یه هی که پیغمبر صلی الله علیه واله و سلم کی زمانی میں جو مکه تھا وهاں سی احرام باندھا جائی تاهم اظهر یه هی که نئی محلوں سی بھی احرام باندھا جا سکتا هی سوائی ان حصوں کی جو حرم سی باهر هیں ۔

8۔ محل رهائش

یه ان کا میقات هی جن کی رهائش گاه میقات کی نسبت مکه سی زیاده قریب هو، ان کی لیی اپنی گھر سی احرام باندھنا جائز هی اور میقات جانا ضروری نهیں هی۔

ص: 128

9۔ ادنی حل (مثلا حدیبیه، جعرانه اور تنعیم)

یه عمره مفرده کی لیی میقات هی ان لوگوں کی لیی جو حج قران و افراد سی فارغ هونی کی بعد عمره مفرده کرنا چاهتی هوں۔ بلکه هر اس شخص کی لی جو مکه میں هو اور عمره مفرده کرنا چاهتا هو ۔ سوائی اس صورت میں جو مسئله 140 میں گزر چکی هی۔

میقات کی احکام

(164) میقات سی پهلی احرام باندھنا جائز نهیں هی۔ لهذا حالت احرام میں میقات سی گزر جانا کافی نهیں هی بلکه ضروری هی خود میقات سی احرام باندھا جائی، سوائی مندرجه ذیل صورتوں کی:

ص: 129

1۔ میقات سی پهلی احرام کی نذر کری۔ لهذا نذر کی وجه سی میقات سی پهلی احرام باندھنا صحیح هوگا۔ اور میقات سی دوباره احرام باندھنا یا گزرنا ضروری نهیں هی۔ بلکه ایسی راستی سی مکه جانا بھی جائز هی جس میں میقات نه آئیں۔ اس میں واجب یا مستحب حج یا عمره مفرده هونی سی فرق نهیں پڑتا لیکن اگر احرام حج یا عمره مفرده کی لیی هو تو اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری هی که احرام حج کی مهینوں سی پهلی نه هو جیسا که پهلی بیان هو چکا هی۔

2۔ جب رجب میں عمره مفرده کا قصد کری اور خوف هو که اگر احرام باندھنی میں تاخیر کری گا یا میقات تک پهنچنی کا انتظار کری گا تو رجب میں عمره ادا نهیں کر سکی گا تو اس کی لی میقات سی پهلی احرام باندھنا جائز هی۔ اور عمره ماه رجب کا هی

ص: 130

شمار هوگا۔ چاهی باقی اعمال شعبان میں انجام دی اور اس حکم میں واجب یا مستحب عمره میں فرق نهیں هی۔

(165) مکلف کو جب میقات پر پهنچنی کا یقین هو جائی یا دلیل موجود هو تو واجب هی که احرام باندھی اور اگر اس کو میقات پر پهنچنی کا شک هو تو احرام باندھنا جائز نهیں هی۔

(166) اگر کوئی میقات سی پهلی احرام باندھنی کی لیی نذر کری اور پھر نذر کی مخالفت کرتی هوئی میقات سی احرام باندھی تو اس کا احرام باطل نهیں هوگا۔ تاهم اگر اس نی جان بوجھ کر مخالفت کی هو تو نذر توڑنی کا کفاره اس پر واجب هو جائی گا۔

(167) قبل از میقات کی طرح بعد از میقات بھی احرام باندھنا جائز نهیں هی۔ لهذا جو شخص حج یا عمره کرنا یا مکه اور حرم میں

ص: 131

داخل هونا چاهی اس کی لیی اختیاری حالت میں بغیر احرام میقات سی گزرنا جائز نهیں هی۔ چاهی آگی دوسرا میقات موجود هو ۔ چنانچه اگر کسی میقات سی گزر جائی تو ممکنه صورت میں واپس لوٹنا واجب هی۔ تاهم اس حکم سی وه مستثنی هی جو ذوالحلیفه سی بلا عذر احرام کی بغیر گزر کر حجفه پهنچ جائی لهذا اظهر یه هی که اس شخص کی لیی حجفه سی احرام باندھنا کافی هی۔ لیکن گنهگار هوگا۔ احوط یه هی که مکلف متوازی و مقابل میقات سی بھی بغیر احرام کی نه گزری اگر چه بعید نهیں که آگی کوئی اور میقات موجود هو تو متوزای میقات سی بغیر احرام کی گزرنا جائز هو ۔ ایسا مسافر جو حج و عمره یا حرم اور مکه میں داخل هونی کا اراده نه رکتھا هو بلکه باهر هی اس کا کام کی سلسلی سی آنا جانا هو ۔ اگر میقات سی گزرنی کی بعد حرم میں داخل

ص: 132

هونی کا اراده کری تو اس کی لیی عمره مفرده کی لیی ادنی حل (حرم سی باهر نزدیک ترین مقام) سی حرام باندھنا جائز هی۔

(168) مذکوره بالا صورت کی علاوه اگر مکلف جان بوجھ کر میقات سی بغیر احرام کی گزری تو دو صورتیں بنیں گی۔

1۔ میقات تک واپسی کی ممکنه صورت میں واپس جا کر میقات سی احرام باندھنا واجب هی چاهی حرم کی اندر سی واپس جایا جائی یا باهر سی لهذا ایسا کرنی سی بغیر اشکال کی عمل صحیح هوگا۔

2۔ میقات تک ممکنه صورت نه هو تو چاهی حرم کی اندر هو یا باهر اور اندر هونی کی صورت میں باهر آ سکتا هو یا نهیں، اظهر یه هی که حج باطل هی اور میقات کی علاوه کسی اور جگه سی

ص: 133

احرام کافی نهیں هوگا۔ مستطیع هونی کی صورت میں آئنده سال حج کی ادائیگی واجب هوگی۔

(169) مسلئه 167 میں موجود صورت کی علاوه اگر مکلف بھولنی، بی هوشی، مسلئه نه جاننی یا میقات کو نه پهنچاننی کی وجه سی بغیر احرامِ میقات سی گزر جائی تو اس مسئله کی درج ذیل چار صورتیں هیں:

1۔ اگر میقات واپس جانا ممکن هو تو واجب هی که میقات واپس جا کر میقات سی احرام باندھی۔

2۔ حرم میں جا چکا هو اور میقات تک جانا ممکن نه هو لیکن حرم سی باهر جانا ممکن هو تو لازم هی که حرم سی باهر جائی اور وهاں سی احرام باندھی اور اولی یه هی که حرم سی جتنا دور هونا ممکن هو اتنا دور جا کر احرام باندھی ۔

ص: 134

3۔ حرم میں داخل هو چکا هو اور حرم سی باهر جانا ممکن نه هو تو اس پر واجب هی که جهاں پر هو وهاں سی احرام باندھی چاهی مکه میں داخل هو چکا هو ۔

4۔ حرم سی باهر هو اور میقات تک واپس جانا ممکن نه هو تو اس صورت میں جتنا ممکن هو اتنا واپس جائی اور پھر احرام باندھی۔

مذکوره چار صورتوں میں اگر مکلف نی بیان شده وظائف پر عمل کیا تو اس کا عمل صحیح هوگا۔ احرام کو میقات سی پهلی یا بعد میں باندھنی والا شخص خواه لا علمی یا بھول کی وجه سی ایسا کری، تارک احرام کا حکم رکھتا هی ۔

(170) اگر حائضه مسئله نه جاننی کی وجه سی میقات سی احرام نه باندھی اور حرم میں داخل هو جائی تو احوط یه هی که اگر

ص: 135

میقات تک واپس نهیں جا سکتی تو حرم سی باهر جائی اور وهاں سی احرام باندھی بلکه اس صورت میں احوط یه هی که جتنا ممکن هو اتنا حرم سی دور ج اکر احرام باندھی بشرطیکه اس کا یه عمل حج کی چھوٹ جانی کا سبب نه بنی اور اگر یه اس کی لیی ممکن نه هو تو وه اس کی لیی دوسروں کی ساتھ برابر هی اور اس کا حکم وهی هی جو مسئله 169 میں بیان هو چکا هی ۔

(171) اگر کسی کا عمره باطل هو جائی خواه اس کی وجه احرام کا باطل هونا هو تو ممکنه صورت میں اس کی قضا کرنا واجب هی اور اگر دوباره انجام نه دی خواه اس کی وجه تنگی وقت هو تو اس کا حج باطل هو جائی گا اور ضروری هی که آئنده سال دوباره حج کری ۔

(172) فقهاء کی ایک گروه کا کهنا هی که اگر مکلف بھول

ص: 136

جائی یا لاعملی کی وجه سی بغیر احرام کی عمره کری تو اس کا عمره صحیح هی۔ لیکن یه قول اشکال سی خالی نهیں هی اور اس صورت میں احوط یه هی که اگر ممکن هو تو قبل ازیں مذکوره طریقی کی مطابق دوباره عمره کری۔

(173) سابقه مسئلوں میں بیان هو چکا هی که اگر کسی کا گھر مکه سی دور هو اور وه شخص حج کرنا چاهی تو پهلی طی پانچ میقاتوں میں سی کسی ایک سی عمره کا احرام باندھنا واجب هی ۔ لهذا اگر اس کا راسته میقاتوں سی گزرتا هو تو کوئی اشکال نهیں هی۔ لیکن اگر اس کا راسته کسی میقات سی گزرتا هو تو جیسا که آج کی زمانی میں بیشتر حجاج جده ایرپورٹ پر اترتی هیں، ان میں سی بعض حاجی مدینه منوره جانی پر اعمال حج و عمره کو ترجیح دیتی هیں۔ جب که معلوم هی که جده میقات نهیں هی۔ بلکه متوازی

ص: 137

میقات هونا بھی ثابت نهیں هی اور نه هی اطمئنان هی لهذا اس صورت میں حجاج ذیل تین صورتوں میں سی کسی ایک انتخاب کریں:

1۔ نذر کا احرام اپنی وطن یا بعض مواقیت کی گزرنی سی پهلی باندھ لیں۔ اس میں کوئی اشکال نهیں هی جب سورج کا سائی میں هونا لازم نه آتا هو مثلا سفر رات کا هو اسی طرح بارش سی بچنا مقصود نه هو ۔

2۔ جده سی کسی میقات یا متوازی میقات پر جائی یا ایسی جگه جائی جو میقات کی پیچھی هو اور وهاں سی نذر کرکی احرام باندھی مثلا رابغ جو حجفه کی پیچھی هی اور مشهور شهر هی جو عام راستی سی جده سی ملا هوا هی اور حجفه کی نسبت یهاں تک پهنچنا آسان هی۔

ص: 138

3۔ جده میں هی نذر کرکی احرام باندھ لی بشرطیکه معلوم هو خواه سرسری طور پر هی سهی که حرم اور جده کی درمیان ایک میقات کا متوازی حصه موجود هی جیسا که وه حصه حجفه سی متوازی و مقابل هونا بعید نهیں هی۔ البته اگر اس بات کا صرف احتمال هو اور علم نه هو تو ایسی شخص کی لیی جده میں نذر کرکی احرام بندھنا جائز نهیں هی۔ لیکن اگر حاجی جده آئی اور میقات یا میقات کا حکم رکھنی والی جگه پر جانی اراده رکھتا هو اور بعد میں نه جا سکی تو اس صورت میں جده سی نذر کرکی احرام باندھنا جائز هی اور اظهر یه هی که اس صورت میں حرم میں داخل هونی سی پهلی احرام کی تجدید کرنا لازم نهیں هی۔

(174) جیسا که پهلی بیان کیا جا چکا هی که حج تمتع کرنی والی پر واجب هی که حج تمتع کا احرام مکه سی باندھی لهذا اگر جان بوجھ

ص: 139

کر حج تمتع کا احرام کسی اور جگه سی باندھی تو اس کا احرام صحیح نهیں هوگا۔ چاهی مکه میں احرام باندھ کر داخل هو ۔ لهذا اگر ممکن هو تو پھر سی مکه سی احرام باندھی ورنه حج باطل هوگا۔

(175) اگر حج تمتع کرنی والا مکه سی احرام بھول جائی تو ممکنه صورت میں مکه جانا واجب هی۔ ورنه جس جگه هی وهیں سی احرام باندھ لی چاهی عرفات میں هی هو اور اس کا حج صحیح هوگا۔ یهی حکم اس شخص کا هی جسی مسئله معلوم نه هو ۔

(176) اگر کوئی حج کی احرام کو بھول جائی اور اعمال حج کرنی کی بعد یاد آئی تو اس کا حج صحیح هوگا اور جو شخص مسئله نه جانتا هو اس کا بھی یهی حکم هی۔

ص: 140

احرام کا طریقه

احرام میں تین چیزیں واجب هیں:

1۔ نیت۔ یعنی مکلف اراده کری که عمره یا حج قربة الی الله انجام دوں گا۔ نیت میں معتبر نهیں که اعمال کو تفصیل سی جانتا هو بلکه اجمالی معرفت بھی کافی هی۔ لهذا اگر نیت کرتی وقت مثلا عمره میں جو کچھ واجب هی تفصیلا نه جانتا هو تو ایک ایک عمل کو رساله عملیه یا قابل اعتماد شخص سی سیکھ کر انجام دینا کافی هی۔

نیت میں چند چیزیں معتبر هیں:

ص: 141

1۔ قصد قربت و قصد اخلاص، جیسا که ساری عبادتوں میں ضروری هیں۔

2۔ خاص جگه سی احرام کی نیت کرنا، اس کی تفصیل میقاتوں میں بیان هو چکی هی۔

3۔ احرام کو معین کرنا که عمره کا هی یا حج کا اور حج کی صورت میں معین کرنا که حج تمتع کا هی یا قران کا اور کسی کی جانب سی حج کر رها هو تو نیابت کا قصد کرنا اور کسی جانب سی قصد نه کرنا هی کافی هوگا که عبادت خود اس کی جانب سی هی ۔ اظهر یه هی که جو حج نذر کی وجه سی واجب هوا هو اس کی ساقط هونی کی لیی کافی هی که نذر کرده عمل اس کی انجام شده عمل پر منطبق هو جائی اور اس کا صحیح هونا حج نذر هونی پر موقوف نهیں هی۔ جس طرح اس شخص کیلیی جو حج کری تو اس حج کو حج اسلام

ص: 142

سمجھنی کی لیی یهی کافی هی که جو حج الاسلام اس پر واجب تھا وه اس عمل پر جسی یه بجا لایا هی منطبق هو جائی اور مزید کسی قصد کی ضرورت نهیں هی۔

(177) نیت کی صحیح هونی کی لیی معتبر نهیں که زبان سی کهی اگر چه مستحب هی جس طرح قصد قربت میں دل سی گزارنا معتبر نهیں هی بلکه داعی کافی هی (یعنی عبادت پر ابھارنی والی چیز قربت خدا و ۔ ۔ ۔) جیسا که دوسری عبادات میں داعی کافی هی۔

(178) احرام کی صحیح هونی میں محرمات احرام کو ترک کرنی کا عزم اول سی آخر تک هونا معتبر نهیں هی۔ اس بناء پر محرمات کو انجام دینی کا عزم هو پھر بھی احرام صحیح هوگا۔ لیکن عمره مفرده کی احرام کی دوران اگر کوئی اپنی بیوی سی، سعی

ص: 143

سی فارغ هونی سی پهلی، جماع کا اراده رکھتا هو یا جماع کرنی میں متردد هو تو ظاهر یه هی که اس کا احرام باطل هی اور بناء بر احوط استمناء کا بھی یهی حکم هی۔ اگر احرام کی وقت جماع یا استمناء کو ترک کرنی کا عزم هو مگر بعد میں اس عزم پر باقی نه رهی یعنی احرام کی بعد دونوں افعال میں سی کسی ایک کو انجام دینی کا قصد کری تو اس کا احرام باطل نهیں هوگا۔

2۔ تلبیه۔ تلبیه اس طرح کهی ۔ لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک اور احوط اولی هی که اس جملی کا اضافه کری۔ ان الحمد و النعمة لک والملک، لا شریک لک۔ اور جائز هی که اس جملی کی آخر میں لبیک کا اضافه کری اور یوں کهی لا شریک لک لبیک ۔

(179) نماز میں تکبیرة الاحرام کی طرح تلبیه کی الفاظ بھی سیکھنا

ص: 144

اور صحیح ادا کرنا ضروری هی۔ خواه کسی دوسری شخص کی مدد سی صحیح ادا کر سکی۔ لیکن اگر کسی کو تلبیه یاد نه هو اور کوئی پڑھانی والا بھی نه هو تو جس طرح سی ادا کر سکتا هو ادا کری۔ بشرطیکه اتنا غلط نه هو که عمومی طور پر تلبیه هی نه سمجھا جائی اور اس صورت میں احوط یه هی که جمع کری یعنی دوسری زبان کی حروف مگر عربی زبان میں تلبیه پڑھی، ترجمه بھی پڑھی اور کسی کو تلبیه پڑھنی کی لیی نائب بھی بنائی ۔

(180) کسی حادثی میں گونگا هونی والا شخص اگر تلبیه کی الفاط کی کچھ مقدار ادا کر سکتا هو تو جتنی مقدار تلبیه کهه سکتا هی کهی اور اگر بالکل ادا نه کر سکتا هو تو تلبیه کو دل سی گزاری اور دل سی گزارتی وقت اپنی زبان اور هونٹوں کو حرکت دی اور اپنی انگلی سی اس طرح اشاره کری که گویا الفاظ تلبیه کی تصویر پیش

ص: 145

کر رها هی۔ لیکن وه شخص جو پیدائشی گونگا هو یا پیدائشی گونگی کی طرح هو تو وه اپنی زبان اور هونٹوں کو اس طرح حرکت دی جس طرح تلبیه کهنی والا شخص حرکت دیتا هی اور اس کی ساتھ انگلی سی بھی اشاره کری۔

(181) غیر ممیز بچی کی طرف سی دوسرا شخص تلبیه کهی۔

(182) حج تمتع، عمره تمتع، حج افراد اور عمره مفرده کی احرام بغیر تلبیه کی نهیں باندھی جا سکتی۔ لیکن حج قران کا احرام نه صرف تلبیه بلکه اشعار (جانور پر علامت لگانا) اور تقلید (جانور کی گلی میں کوئی چیز لٹکانا) سی بھی باندھا جا سکتا هی ۔ اشعار اونٹ کی قربانی کی لیی مخصوص هی جبکه تقلید تمام جانوروں میں مشترک هی۔ اولی و بهتر یه هی که اونٹ کی قربانی میں اشعار و تقلید کو جمع کیا جائی اور حج قران کرنی والا اگر اپنی احرام کو شعار یا تقلید

ص: 146

سی باندھی تو احوط اولی یه هی که تلبیه بھی کهی۔

تلیبه یه هی که اونٹ کی کوهان کو ایک طرف سی چیر کر خون آلوده کیا جائی تا که معلوم هو که یه قربانی هی اور احوط یه هی که دائیں حصه کو چیرا جائی لیکن اگر قربانی کیلیی اونٹ زیاده هوں تو ایک شخص دو اونٹوں کی درمیان میں کھڑا هو کر ایک اونٹ کی دائیں اور دوسری کی بائیں جانب سی کوهان کو چیرنا جائز هی ۔

تقلید یه هی که حاجی رسی یا چمڑی کا پٹه یا نعلین یا اسی طرح کی کوئی چیز قربانی کی گردن میں لٹکائی تا که پته چلی که یه قربانی هی ۔ بعید نهیں هی که تقلید کی بجائی تجلیل کافی هو اور تجلیل یه هی که حاجی کپڑی یا اسی طرح کی کسی چیز سی قربانی کو ڈھانپ دی تا که معلوم هو که یه قربانی هی ۔

ص: 147

(183) احرام کی صحیح هونی میں حدث اصغر یا اکبر سی پاک هونا شرط نهیں، چنانچه وه شخص جو حدث اصغر یا اکبر کی وجه سی محدث هوا هو مثلا مجنب، حائض اور نفساء وغیره تو اس کا احرام صحیح هی۔

(184) تلبیه یا حج قران کرنی والی کی لیی اشعار یا تقلید کی منزل سیدھی هی جیسی نماز پڑھنی والی کی لیی تکبیرة الاحرام کی هی ۔ لهذا تلبیه یا حج قران کی صورت میں اشعار و تقلید کی بغیر احرام نهیں باندھا جا سکتا۔ چنانچه اگر کوئی احرام کی نیت کرکی احرام باندھ لی اور تلبیه کهنی سی پهَلی محرمات احرام میں سی کسی کا مرتکب هو تو نه گنهگار هی اور نه هی اس پر کفاره واجب هوگا ۔

(185) افضل یه هی که جو مسجد شجره سی احرام باندھی وه تلبیه

ص: 148

کو اول بیدا، جو ذی الحلیفه کی آخر میں هی اور جهاں سی زمین هموار هوتی هی، تک تاخیر کری ۔ اگر چه احوط هه هی که تلبیه کهنی میں جلدی کری (یعنی میقات میں کهی) اور بلند آواز میں کهنی میں بیداء تک تاخیر کری یه حکم مرد کی لیی هی جب که عورت کو کسی بھی مقام پر تلبیه کنهی کی لیی آواز کو بلند نهیں کرنی چاهیی۔

دیگر میقاتوں سی احرام باندھنی والوں کی لیی اولی و بهتر یه هی که چند قدم چلنی تک تلبیه کو تاخیر کریں اسی طرح مسجد الحرام سی احرام باندھنی والوں کیلیی اولی و بهتر یه هی که تلبیه کو رقطا تک تاخیر کریں۔ رقطا ردم سی پهلی کا مقام هی۔ ردم مکه میں ایک جگه کا نام هی جسی آجکل مدعی کهتی هیں۔ جو مسجد راعیه کی قریب کا مقام هی اور مسجد جن سی پهلی کا مقام هی ۔

ص: 149

(186) تلبیه ایک دفعه کهنا واجب هی جب که زیاده کهنا بلکه جتنی مرتبه کهه سکتا هو اس کا تکرار کرنا مستحب هی اور عمره تمتع ادا کرنی والی کی لیی احوط یه هی که جب پرانی مکه کی گھروں کی مقام تک پهنچی تو تلبیه کهنا بند کردی اور پرانی مکه کی گھروں کا مقام اس شخص کیلیی جو مکه کی اوپری جانب سی مدینه کی راستی آئی اس کی حد عقبه مدینین هی اور جو شخص مکه کی نچلی حصه سی آئی ۔ اس کی حد عقبه ذی طوی هی۔ اسی طرح عمره مفرده انجام دینی والی کی لیی احوط یه هی که اگر وه حرم کی باهر سی داخل هو تو حرم میں داخل هوتی وقت تلبیه کهنا بند کردی لیکن اگر اس نی ادنی حل کی مقام سی احرام باندھا هو تو پھر مکه کی گھروں کو نظر آنی کی جگه سی تلبیه کهنا بند نه کری اور کسی بھی حج کا ادا کرنی والا تلبیه کو عرفه کی دن

ص: 150

زوال کی وقت بند کر دی۔

(187) اگر کوئی احرام کی دو کپڑی پهننی کی بعد اور اس جگه سی گزرنی سی پهلی جس جگه تلبیه کهنی میں تاخیر کرنا جائز نهیں هی شک کری که تلبیه کهی هی یا نهیں تو سمجھی که نهیں کهی اور اگر تلبیه کهنی کی بعد شک کری که صحیح تلیبه کهی هی یا نهیں تو سمجھی که صحیح تلبیه کهی هی۔

3۔ احرام کی دو کپڑوں (لنگ اور چادر) کا پهننا۔ مگر انهیں اس لباس کو اتارنی کی بعد پهنا جائی جس کا پهننا احرام والی پر حرام هی۔ اس سی بچی مستثنی هیں اور بجی لباس اتارنی میں مقام فخ تک تاخیر کر سکتی هیں۔ جب که وه اس راستی سی جارهی هوں ۔

ظاهر یه هی که ان دو کپڑوں کو پهننی کا کوئی طریقه معتبر نهیں هی

ص: 151

چنانچه ایک جس طرح چاهی لنگ کی طور پر استعمال کری اور دوسری کو چادر کی طور پر بغل سی نکال کر کندھی پر ڈال لی یا کسی بھی طرح سی اوڑھی اگر چه احوط یه هی که جس طرح عام طور پر ان کپڑوں کو استعمال کیا جاتا هی اسی طرح استعمال کری ۔

(188) اظهر یه هی که احرام کی دو کپڑوں کا پهننا واجب هی اور احرام کی درست ثابت هونی میں بطور شرط نهیں هی۔

احیتاط یه هی که لنگ اتنا هو که ناف سی لی کر زانو تک چھپالی اور چادر اتنی هو که دونوں کندھوں، دونوں بازوں اور کمر کا کافی حصه چھپالی۔ احتیاط واجب یه هی که احرام کو نیت اور تلبیه سی پهلی پهنی اور اگر نیت اور تلبیه کو احرام سی پهلی انجام دی تو احوط اولی یه هی که احرام کی بعد دوباره نیت اور تلبیه کا اعاده

ص: 152

کری۔

(190) اگر کوئی مسئله نه جاننی کی بنا پر یا بھول کر قمیض پر احرام باندھ لی تو قمیض اتار دی، اس کا احرام صحیح هوگا۔ بلکه اظهر یه هی که اگر جان بوجھ کر قمیض کی اوپر احرام باندھ لی تب بھی اس کا احرام (قمیض اتارنی کی بعد ) صحیح هوگا۔

لیکن اگر احرام کی بعد قمیض پهن لی تو اس کا حرام بغیر شک کی صحیح هی ۔ تاهم لازم هی که قمیض پھاڑ دی اور پاؤں کی طرف سی اتار دی ۔

(191) حالت احرام میں خواه شروع میں یا بعد میں سردی یا گرمی سی بچنی کی لیی یا کسی دوسری وجه سی دو کپڑوں سی زیاده پهننی میں اشکال نهیں هی۔

(192) احرام کی کپڑی میں جو شرائط معتبر هیں جو نمازی کی

ص: 153

لباس میں معتبر هیں۔ چانچه لازم هی که احرام کی لباس میں خالص ریشم یا درندوں کی اجزاء نه هوں بلکه احوط یه هی که کسی بھی حرام گوشت جانور کی اجزا اور سونی کی تاروں کا بنا هوا نه هو اسی طرح ضروری هی که پاک هو تا هم جو نجاست نماز میں معاف هی وه احرام میں بھی معاف هی ۔

(193) احوط یه هی که لنگ ایسی کپڑی کا نه هو جس سی بدن ظاهر هو بلکه بدن کو چھپانی والا هو مگر یه شرط چادر میں معتبر نهیں هی ۔

(194) لباس احرام میں احوط اولی یه هی که دونوں کپڑی بنی هونی هوں اور چمڑی کھال اور کمبل کی طرح نه هوں ۔

(195) مردوں کیلئی لنگ اور چادر پهننا واجب هی جب که عورتوں کیلئی جائز هی که وه اپنی عام لباس پر احرام باندھ سکتی

ص: 154

هیں بشرطیکه ان میں ذکر شده شرائط موجود هوں ۔

(196) اگر چه ریشم کا لباس پهننا صرف مردوں پر حرام هی اور عورتوں پر حرام نهیں هی۔ مگر احوط یه هی که عورتوں کی احرام کا کپڑا بھی ریشم کا نه هو بلکه احوط یه هی که عورتیں حالت احرام میں خالص ریشم کی کوئی بھی چیز نه پهنیں۔ مگر یه که ضرورت هو جیسی گرمی یا سردی سی حفاظت کی لیی پهننا پڑی ۔

(197) اگر احرام باندھنی کی بعد ایک یا دونوں کپڑی نجس هو جائیں۔ تو احوط یه ی که اس کو پاک کرنی یا تبدیل کرنی میں جلدی کری ۔

(198) احرام کی کپڑوں کو هر وقت پهنی رکھنا ضروری نهیں هی ۔ چنانچه چادر کو کندھی سی هٹانی میں خواه ضرورت کی تحت

ص: 155

هٹائی یا بلا ضرورت کی۔ کوئی اشکال نهیں هی۔ اسی طرح جب دوسری چادر میں شرائط موجود هوں تو بدلا بھی نهیں جا سکتا هی ۔

احرام میں ترک کی جانی والی چیزیں

گذشته مسائل میں بیان هوا که تلبیه اور تلبیه کا حکم رکھنی والی چیزوں (مثلا اشعار و تقلید حج قران میں) کی بغیر احرام نهیں باندھا جا سکتا چاهی نیت بھی کر لی جائی۔

جب مکلف احرام باندھ لی تو ذیل میں درج پچیس چیزیں اس پر حرام هو جاتی هیں:

(1) خشکی کی جانور کا شکار

(2 ) جماع کرنا

ص: 156

(3) عورت کا بوسه لینا

(4) عورت کو مس کرنا

(5) عورت کو دیکھنا اور چھیڑ چھاڑ کرنا

(6) استمناء

(7) عقد نکاح

(8) خوشبو لگانا

(9) مردوں کی لئی سلا هوا یا ایسا لباس پهننا جو سلی هوئی کی حکم میں هو

(10) سرمه لگانا

(11) آئینه دیکھنا

(12) مردوں کی لئی بند جوتی یا موزی پهننا

(13) فسوق (جھوٹ بولنا، مغلظات بکنا)

ص: 157

(14) بحث و جھگڑا کرنا ایسا طرز عمل اختیار کرنا جو کسی مومن کی لئی اهانت کا باعث هو

(15) جسم کی جوئیں وغیره مارنا

(16) آرائش کرنا بننا سنورنا

(17) بدن پر تیل ملنا

(18 ) بدن کی بال صاف کرنا

(19) مردوں کیلئی سر ڈھانپنا اسی طرح پانی میں سر ڈبونا اور یه عورتوں پر بھی حرام هی

(20 ) عورتوں کا اپنی چهری کو چھپانا

(21) مردوں کا سائی میں رهنا

(22) جسم سی خون نکالنا

(23) ناخن کاٹنا (24) ایک قول کی مطابق دانت نکالنا

ص: 158

(25) هتھیار لی کر چلنا

1۔ خشکی کی جانور کا شکار

(199) محرم کی لئی خشکی کی جانوروں کا شکار کرنا، هلاک کرنا زخمی کرنا یا ان کی کسی عضو کو توڑنا بلکه کسی قسم کی اذیت جائز نهیں اسی طرح محل ّ (جو حالت احرام میں نه هو) کی لئی بھی حرم میں حیوانات کو اذیت پهنچانا جائز نهیں یهاں خشکی کی جانور سی مراد وه جانور هیں جو جنگلی هوں چاهی اس وقت کسی وجه سی پالتو هوگئی هوں اور ظاهر یه هی که اس حکم میں حلال و حرام گوشت جانور میں فرق نهیں۔

(200) محرم کی لئی خشکی کی جانور کو شکار کرنی میں کسی اور کی مدد کرنا بھی حرام هی خواه دوسرا شخص محرم هو یا محل یهاں

ص: 159

تک که اشاره وغیره کی ذریعی بھی مدد کرنا حرام هی بلکه احوط یه هی که محرم شخص هر اس کام میں جو خود محرم پر حرام هیں جو مسئله (199) میں بیان هوئی کسی دوسری کی مدد نه کری۔

(201) محرم کی لئی جائز نهیں هی که وه شکار کو اپنی پاس محفوظ رکھی چاهی احرام سی پهلی خود اس نی کیا هو یا کسی اور نی حرم میں کیا هو یا حرم سی باهر۔

(202) محرم کیلئی شکار کا کھانا جائز نهیں چاهی محل نی حرم سی باهر شکار کیا هو اسی طرح محل کی لئی بھی اس حیوان کا گوشت کھانا جسی محرم (احرام والی شخص نی سی شکار کیا هو، خواه شکار کو مارا هو یا شکار کرکی ذبح کیا هو بنابر احوط حرام هی نیز محل پر اس حیوان کا گوشت کھانا بھی حرام هی جسی کسی محرم یا کسی اور شخص نی حرم میں شکار یا ذبح کیا هو ۔

ص: 160

(203) بری جانوروں کا بھی وهی حکم هی جو خود جانوروں کا حکم هی ۔ چنانچه بعید نهیں که اس حیوان کی انڈی کو کھانا، توڑنا اور اٹھانا بھی محرم پر حرام هی۔ لهذا احوط یه هی که انڈوں کی اٹھانی کھانی اور توڑی میں بھی کسی کی مدد بھی نه کری۔

(204) جیسا که بیان هوا هی که یه مسائل خشکی کی جانوروں کی لیی مخصوص هیں اور ٹڈی بھی انهیں میں سی هی ۔ لیکن دریائی جانوروں کی شکار میں کوئی حرج نهیں هی۔ دریائی حیوانات سی مراد وه جانور هیں جو صرف پانی میں زندگی گزارتی هوں مثلا مچھلی، خشکی اور پانی دونوں میں زندگی گزارنی والی جانوروں کا شمار خشکی کی جانوروں میں هوگا۔ اگر چه اظهر یه هی که وه حیوان جس کی خشکی کی هونی میں شک هو، اس کا شکار کرنی میں کوئی حرج نهیں هی۔

ص: 161

(205) جس طرح خشکی کی جانور کا شکار حرام هی اسی طرح هلاک کرنا، خواه شکار نه بھی کری حرام هی اس حکم سی چند چیزیں مستثنی هیں ۔

1۔ پالتو جانور چاهی کسی وجه سی وحشی بن گئی هوں مثلا بھیڑ، گائی، اونٹ اور پرندی جو مستقل طور اڑ نهیں سکتی مثلا مرغ، چینی مرغ وغیره کو ذبح کرنا محرم کی لیی جائز هی۔ اسی طرح ان حیوانات کو بھی ذبح کرنا جائز هی جن کی پالتو هونی کا احتمال هو ۔

2۔ اجگر اور سانپ وغیره جن سی محرم کو اپنی جان کا خطره هو، مارنا جائز هی ۔

3۔ درنده صفت پرندی جو حرم کی کبوتروں کو اذیت دیں ان کو مارنا جائز هی ۔

ص: 162

4۔ زهریلا سیاه سانپ بلکه هر خطرناک سانپ، بچھو اور چوها، ان کو هر هال میں مارنا جائز هی اور ان کو مارنی میں کوئی کفاره نهیں هی۔ مشهور قول کی بناپر شیر مستثنی هی۔ مزید بر آں جن درندوں سی جان کا خوف نه هو ان کو مارنی سی کفاره واجب هو جاتا هی اور ان کا کفاره ان کی قیمت هی۔

(206) محرم کی لئی کوی اور شکاری باز کو تیر مارنا جائز هی اور اگر وه تیر لگ جانی سی مر جائیں تو کفاره واجب نهیں هی۔

شکار کی کفارات

(207) اگر محرم شتر مرغ کو هلاک کر دی تو ایک اونٹ کفاره دینا هوگا اگر جنگلی گائی کو ماری تو ایک گائی کا کفاره دی بنابر

ص: 163

احوط وحشی گائی کو بھی مارنی کا بھی یهی حکم هی هرن اور خرگوش کی مارنی پر ایک بکری دی بنابر احوط لومڑی کو مارنی کا بھی یهی حکم هی۔

(208) جو شخص ایسی جانور کا شکار کری جس کا کفاره اونٹ هو اور اس کی پاس اتنا مال نه هو جس سی اونٹ خرید سکی تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب هی اور هر مسکین کو ایک مدّ (تقریبا 750گرام) کھانا دی اور اگر اس پر بھی قادر نه هو تو (18) روزی رکھی اگر وه ایسا جانور هو که جس کا کفاره گائی هو اور گائی خریدنی کی پیسی نه هوں تو تیس مسکینوں کو کھانا کھلائی اور کھانا نه کھلا سکتا هو (9) روزی رکھی اگر وه ایسا جانور هو جس کا کفاره بکری هو اور اگر بکری نه خرید سکتا هو تو (10) مسکینوں کو کھانا کھلائی اور یه بھی نه کر سکی تو 3 دن روزی رکھی۔

ص: 164

(209) قطاة، چکور اور تیتر کو مارنی پر بھیڑ کا ایسا بچه جو دودھ چھوڑ کر گھاس چرنا شروع کر دی بطور کفاره دینا واجب هی چڑیا، چنڈول اور ممولا وغیره مارنی پر اظهر یه هی که ایک مد طعام دی اور مذکوره پرندوں کی علاوه کبوتر یا کوئی اور پرنده مارنی پر ایک دنبه کفاره دی اور ان کی بچی کو مارنی پر ایک بکری کا بچه یا بھیڑ کا بچه کفاره دی اور انڈی که جس میں بچه حرکت کر رها هو، کا بھی یهی حکم هی اور اگر انڈی میں بچه هو جو حرکت نه کر رها هو تو ایک درھم کفاره دی بلکه بنابر احوط اگر انڈی میں بچه نه بھی هو تو بھی ایک درھم کفاره دی ایک ٹڈی کی قتل پر ایک کھجور یا مٹھی بھر طعام کفاره دی اور مٹھی بھر طعام دینا افضل هی اور اگر متعدد ٹڈیاں هوں تو کفاره بھی متعدد هو جائی گا لیکن اگر عمومی طور پر وه بهت زیاده شمار هوں تو کفاره پھر ایک بکری

ص: 165

دینا هوگا۔

(210) جنگلی چوهی، خار پشت اور سوسمار (گوه) وغیره مارنی پر بکری کا بچه اور صحرائی چھپکلی مارنی پر مٹھی بھر کفاره دی ۔

(211) زنبور (شهد کی مکھی) کو عمدا مارنی پر کچھ مقدار طعام کفاره دی تاهم اذیت سی بچنی کی لئی مارنی پر کوئی کفاره نهیں هی۔

(212) اگر محرم حرم سی باهر شکار کری تو اس کو هر حیوان کی مطابق کفاره دینا هوگا اور جن حیوانات کی لئی کفاره معیّن نه هو تو ان کی بازار میں موجوده قیمت کفاره کی طور پر دی اور اگر کسی حیوان کو محل (بغیر احرام والا) شخص مار دی تو اس کی قیمت کفاره دی سوائی شیر کی اظهر یه هی که اس کا کفاره ایک میں ڈھا دینا هوگا اور اگر محرم حرم میں شکار کری تو اسی دونوں

ص: 166

کو جمع کر کی دینا هوگا۔

(213) محرم کی لئی ایسی راستی کو ترک کرنا جس پر ٹڈی زیاده هوں واجب هی اور اگر ایسا نه کر سکی تو تو پھر ان کی مارنی میں کوئی حرج نهیں هی۔

(214) اگر کچھ لوگ جو که حالت احرام میں هوں مل کر شکار کریں تو ان میں سی هر ایک کو علیحده کفاره دینا پڑی گا ۔

(215) شکار کئی گئی جانور کا گوشت کھانی کا کفاره اور شکار کرنی کا کفاره برابر هی چنانچه اگر کسی نی حالت احرام میں شکار کیا اور پھر اس کو کھا لیا تو دو کفاری واجب هوں گی ایک شکار کا، دوسرا کھانی کا۔

(216) محرم کی علاوه اگر کوئی اور شخص شکار کو لی کر حرم میں داخل هو تو اس پر واجب هی که اسی چھوڑ دی۔ چنانچه

ص: 167

اگر وه نه چھوڑی اور وه مر جائی تو اس پر کفاره دینا واجب هی مسئله نمبر 201 میں بیان شده تمام صورتوں میں احرام باندھتی وقت شکار کو ساتھ رکھنا حرام هی ۔ چنانچه اگر اس نی آزاد نه کیا اور وهیں مرگیا تو کفاره دی اور احوط یه هی که خواه حرم میں داخل هونی سی پهلی بھی مرجائی تب بھی کفاره دی۔

(217) حیوان کا شکار یا اس کا گوشت کھانی پر کفاره واجب هو جاتا هی اور اس سی فرق نهیں پڑتا که یه فعل جان بوجھ کر کری یا بھول کر یا لاعلمی کی وجه سی سرزد هوا هو ۔

(218) شکار کی تکرار سی کفاره بھی مکرر هو جاتا هی۔ چاهی اس کی وجه غلطی یا بھول یا لاعلمی هو اسی طرح بغیر احرام والا شخص عمدا حرم میں اور محرم شخص متعدد احراموں میں شکار کا تکرار کریں تو کفاره بھی مکرر هو جائی گا۔ لیکن اگر محرم عمدا ایک

ص: 168

هی احرام میں شکار کی تکرار کری تو صرف ایک کفاره واجب هو جائی بلکه یه ان افراد میں سی هوگا جن کی باری میں خدانی کها که و من عاد فینتقم الله منه یعنی جو تکرار کری گا الله اس سی انتقام لی گا۔

2۔ جماع

(219) محرم پر عمره تمتع کی دوران، عمره مفرده کی دوران اور اثنائی حج نماز طواف النساء سی پهلی جماع کرنا حرام هی۔

(220) اگر عمره تمتع کرنی والا عمدا اپنی بیوی سی جماع کری تو چاهی قبل (آگی) میں کری یا دبر (پیچھی) میں کری اگر سعی کی بعد کیا هو تو اس کا عمره باطل نهیں هوگا تا هم کفاره واجب هوگا اور بنابر احوط کفاری میں ایک اونٹ یا ایک گائی دی اور اگر سعی سی فارغ هونی سی پهلی جماع کری تو اس کا کفاره

ص: 169

بھی وهی هی جو بیان هو چکا اور احوط یه هی که اپنا عمره تمام کری پھر اس کی بعد حج کری اور پھر آئنده سال ان کو دوباره انجام دی۔

(221) اگر حج کی لئی احرام باندھنی والا جان بوجھ کر اپنی بیوی کی ساتھ مزدلفه کی وقوف سی پهلی جماع کری خواه قبل میں کری یا دبر میں، تو اس پر کفاره واجب هی اور واجب هی که اس حج کو پورا کری اور آئنده سال اس کا اعاده کری خواه حج واجب هو یا مستحب، عورت کا بھی یهی حکم هی که اگر وه احرام کی حالت میں هو اور حکم کو جانتی هو اور اس عمل پر راضی هو تو اس پر کفاره واجب هی اور ضروری هی که حج کو پورا کرکی آئنده سال اس کا اعاده کری لیکن اگر عورت کی ساتھ زبردستی کی گئی هو تو اس پھر کچھ واجب نهیں هی اور شوهر پر دو

ص: 170

کفاری واجب هیں جماع کا کفاره ایک اونٹ هی اور اگر اونٹ نه دی سکی تو ایک بکری کفاره دی اور اس حج میں واجب هی که شوهر و بیوی جدا جدا رهیں یعنی دونوں اس وقت تک ایک جگه جمع نه هوں جب تک کوئی تیسرا موجود نه هو یهاں تک که دونوں اعمال حج سی فارغ هو جائیں حتی که منی کی اعمال سی بھی فارغ هو کر اس جگه جائیں جهاں جماع کیا تھا لیکن اگر کسی اور راستی سی آئیں (یعنی جماع کی جگه اس راستی میں نه هو) تو جائز هی که اعمال تمام هونی کی بعد وه ایک ساتھ آئیں اسی طرح دوباره کیی جانی والی حج میں بھی جماع کرنی والی جگه پر پهنچنی سی لی کر منی میں ذبح کرنی تک دونوں کا جدا رهنا واجب هی بلکه احوط یه هی که اس وقت تک جدا رهیں جب تک که تمام اعمال حج سی فارغ هو کر واپس اس جگه آ جائیں جهاں جماع هوا

ص: 171

تھا۔

(222) اگر محرم عمدا وقوف مشعر کی بعد اور طواف النساء سی پهلی اپنی بیوی سی جماع کری تو سابقه مسئله میں بیان شده کفاره واجب هی لیکن حج کا اعاده کرنا واجب نهیں اور یهی حکم هی اگر طواف النساء کا چوتھا چکر مکمل کرنی سی پهلی جماع کری لیکن اگر چوتھا چکر مکمل هونی کی بعد هو تو کفاره بھی واجب نهیں هی۔

(223) اگر محرم عمره مفرده میں عمدا اپنی بیوی سی جماع کری تو سابقه بیان شده کفاره اس پر واجب هی اور سعی کی بعد جماع کرنی پر اس کا عمره باطل نهیں هوگا لیکن اگر سعی سی پهلی کری تو اس کا عمره باطل هو جائی گا چنانچه واجب هی که اگلی مهینی تک مکه میں رهی اور مشهور پانچ میقاتوں میں سی کسی ایک

ص: 172

میقات سی عمره کا اعاده کرنی کی لئی احرام باندھی، بنابر احوط ادنی حل سی احرام باندھنا کافی نهیں هی اور یه بھی احوط هی که باطل هونی والی عمره کو بھی مکمل کر ی۔

(224) اگر محل (بغیر احرام والا) شخص اپنی احرام والی بیوی کی ساتھ جماع کری تو اگر بیوی راضی هو تو عورت پر واجب هی که ایک اونٹ کفاره دی۔ لیکن اگر راضی نه هو بلکه مجبوری هو تو کچھ واجب نهیں هی اور احوط هی که شوهر اپنی بیوی پر واجب هونی ولی کفاری کا نقصان ادا کری یعنی کفاری کی قیمت ادا کری ۔

(225) اگر محرم شخص لاعلمی کی وجه سی یا بھول کی وجه سی اپنی بیوی سی جماع کری تو اس کا عمره اور حج صحیح هی اور اس پعر کفاره بھی واجب نهیں هی۔ یه حکم کفاره کا موجب بننی

ص: 173

والی محرمات انجام دینی میں بھی جاری هوگا۔ جن کی تفصیل آگی آئی گی۔ یعنی لاعلمی یا بھول کی وجه سی محرم ان محرمات کا مرتکب هو تو اس پر کفاره واجب نهیں هوگا۔ تا هم مندرجه ذیل بعض موارد مستثنی هیں:

1۔ حج یا عمره میں طواف کرنا بھول جائی۔ یهاں تک که اپنی شهر واپس آ کر اپنی بیوی سی مجامعت کری ۔

2۔ عمره تمتمع میں سعی کی کچھ مقدار بھول جائی اور یه سمجھتی هوئی که سعی مکمل هوگئی هی احرام سی فارغ هو جائی ۔

3۔ اگر بلا وجه اپنی سر یا داڑھی پر هاتھ پھیری جس کی وجه سی ایک سغ زیاده بال گر جائیں۔

4۔ اگر کوئی لاعملی کی وجه سی خوشبودار تیل یا جسمیں خوشبو ملائی گئی هو اپنی بدن میں ملی ان سب کا حکم اپنی جگه پر آئی گا۔

ص: 174

3۔ عورت کا بوسه لینا۔

(226) محرم کا لذت کی اراده سی اپنی بیوی کا بوسه لینا جائز نهیں هی۔ چنانچه اگر اس نی لذت سی بوسه لیا اور منی نکل گئی تو اونٹ کفاره واجب هو جائی گی اور اگر منی خارج نه هو تو بعید نهیں که ایک گوسفند کا کفاره واجب هو اگر لذت سی بوسه لیا هو احتیاط واجب یه هی که ایک بکری کفاره دی ۔

(227) اگر محل (بغیر احرام والا) شخص اپنی بیوی کا بوسه لی تو احتیاط یه هی که ایک بکری کفاره د ی۔

4۔ عورت کو مس کرنا۔

محرم کا شهوت کی ساتھ اپنی بیوی کو مس کرنا، اٹھانا یا اپنی بازؤں میں بھیچنا جائز نهیں هی اور اگر کسی نی ایسا کیا تو لازم هی که ایک بکر ی کفاره دی خواه منی خارج هو یا نه هو۔ لیکن

ص: 175

اگر ایسا کرنا لذت کی لیی نه هو تو کفاره واجب نهیں هی۔

5۔ عورت کو دیکھنا اور چھیڑ چھاڑ کرنا۔

(229) محرم کی لیی جائز نهیں که اپنی بیوی کی ساتھ چھیڑ چھاڑ کری چنانچه اگر ایسا کرنی سی منی خارج هو جائی تو ایک اونٹ کفاره دی اور اگر اونٹ نه دی سکتا هو تو ایک بکری دی اگر شوهر کو معلوم هو که شهوت سی دیکھنی کی وجه سی منی خارج هو جائی گی تو واجب هی که وه نه دیکھی بلکه احوط اولی یه هی که جاهی منی خارج هو یا نه هو شهوت سی اپنی بیوی کی طرف نگاه نه کری۔ چنانچه شهوت کی نظر سی بیوی کو دیکھنی پر اگر منی خارج هو تو احوط یه هی که کفاره دی جو که ایک اونٹ هی ۔ لیکن اگر منی خارج نه هو یا بغیر شهوت کی دیکھنی پر منی خارج هو تو پھر کفاره واجب نهیں هی۔

ص: 176

(230) اگر محرم اجنبی عورت کو ایسی نگاه سی دیکھی جو اس کی لیی جائز نهیں هی اور منی نه نکلی تو کفاره واجب نهیں هی اور اگر منی نکل آئی تو لازم هی که کفاره دی اور احوط یه هی که اگر مالدار هو تو ایک اونٹ کفاره دی اور اگر متوسط هو تو ایک گائی اور اظهر یه هی که ایک فقیر کو ایک بکری کفاره دی۔

(231) محرم کا اپنی بیوی کی ساتھ بیٹھنی یا باتیں کرنی سی لذت حاصل کرنا جائز هی اگر چه احوط یه هی که محرم اپنی بیوی سی هر قسم کی لذت حاصل کرنی کو ترک کری ۔

6۔ استمناء ۔

(232) استمنا ء کی چند اقسام هیں:

1۔ عضو تناسل کو هاتھ سی ملنا یا کسی اور چیز سی مطلقا حرام هی۔ حج میں اس کا حکم وهی هی جو جماع کا اور عمره مفرده میں

ص: 177

بھی بنابر احوط اس کا حکم یهی هی۔ لهذا اگر محرم مذکوره عمل کو احرام حج میں مشعر کی وقوف سی پهلی انجام دی تو لازم هی که کفاره دی اور اس حج کو تمام کری اور آئنده سال اس حج کا اعاده بھی کری اگر عمره مفرده میں سعی سی فارغ هونی سی پهلی یه عمل انجام دی تو احتیاط واجب کی بناپر کفاره دی۔ اس عمره کو تمام کرکی اگی ماه اس کا اعاده بھی کری ۔

2۔ اپنی بیوی کی بوسه لینی، چھونی، دیکھنی یا چھیڑ چھاڑ کی ذریعی استمناء وهی حکم رکھتا هی جو گزشته مسئله میں بیان هو چکا هی ۔

3۔ عورت سی متعلق باتیں سننی سی یا اس کی اوصاف یا اس کی خیال و تصور کرنی سی استمناء کرنا بھی محرم پرحرام هی۔ لیکن اظهر یه هی که موجب کفاره نهیں هی ۔

ص: 178

7۔ نکاح کرنا۔

(233) محرم کا نکاح کرنا یا کسی دوسری کا نکاح پڑھنا جائز نهیں هی چاهی دوسرا آدمی محرم هو یا نه هو ،چاهی نکاح دائمی هو یا غیر دائمی اور مذکوره تمام صورتوں میں عقد باطل هی ۔

(234) اگر محرم کا کسی عورت سی نکاح کر دیا جائی اور وه اس کی ساتھ جماع کری تو اگر یه لوگ حکم شرعی بلحاظ موضوع جانتی تھی تو محرم، عورت اور نکاح خواں پر ایک ایک اونٹ کفاره واجب هی اور اگر ان میں سی بعض حکم شرعی بلحاظ موضوع جانتی هوں اور بعض نه جانتی هوں تو جو نهیں جانتی تھی ان پر کفاره واجب نهیں هوگا اس سی فرق نهیں پڑتا که نکاح خواں اور عورت محرم تھی یا نهیں ۔

(235) فقها کی درمیان مشهور هی که محرم کی لیی کسی نکاح

ص: 179

کی محفل میں شریک هونا جائز نهیں هی حتی که بنابر احوط اولی نکاح پر گواهی بھی نه دی خواه احرام باندھنی سی پهلی نکاح کی محفل میں شریک هوا هو ۔

(236) احوط اولی یه هی که محرم نکاح کی لیی پیش کش بھی نه کری تاهم طلاق رجعی میں محرم رجوع کر سکتا هی۔ جس طرح طلاق دینا بھی جائز هی۔

8۔ خوشبو لگانا۔

(237) محرم کی لیی خوشبو کا استعمال حرام هی چاهی سونگھی، کھانی، ملنی، رنگ یا بخارات لینی کی صورت میں هو اسی طرح ایسا لباس پهننا بھی حرام هی جس میں خوشبو کی اثرات باقی هوں۔ خوشبو سی مراد هر وه چیز هی جس سی جسم، لباس یا خوراک کو خوشبودار کیا جائی ۔ مثلا مشک عنبر، ورس اور

ص: 180

زعفران وغیره۔ اظهر یه هی که محرم تمام معروف خوشبوؤں مثلا گل محمدی، گل یاسمین، گل رازقی وغیره سی اجتناب کری تاهم خلوق کعبه (خاص قسم کی خوشبو) کو سونگھنی سی اجتناب کرنا یا اس کو جسم پر یا لباس پر ملنی سی پرهیز کرنا واجب نهیں هی۔ خلوق کعبه ایک عطر هی جو که زعفا اور دوسری چیزوں سی بنایا جاتا هی اور اس سی کعبه معظمه کو معطر کیا جاتا هی۔

(238) ریاحین کو سونگھنا محرم کی لیی حرام هی چاهی وه ریاحین هو جن سی عطر تیار کیا جاتا هی مثلا یاسمیں، گلاب وغیره یا ان کی علاوه دوسری پودی ریاحین ایسی جڑی بوٹیاں هیں جن سی خوشبو آتی هی اور انهیں سونگھنی کی لیی استعمال کرتی هیں۔ اظهر یه هی که بعض صحرائی خودرو سبزیوں کی خوشبو کو سونگھنا حرام نهیں هی مثلا شیح (ایک قسم کی گھاس هی) اذخر

ص: 181

(خوشبودار گھاس) خزامی (ایک خوشبودار پودا) کا سونگھنا اشکال نهیں رکھتا۔ لیکن خوشبودار پھلوں اور سبزیوں مثلا سیب، به (ایک قسم کا پھل) اور طودینه کو کھانا محرم کی لیی جایز هی۔ لیکن احوط یه هی که کھاتی وقت انهیں نه سونگھی یهی حکم خوشبودار تیل کا هی چنانچه اظهر یه هی که مهک دار تیل جو کھانی میں استمال هوتا هی اور عام طور پر رطرات میں شمار نهیں هو اس کا کھانا جائز هی لیکن احوط یه هی کھاتی وقت نه سونگھی۔

(239) صفا و مروه کی درمیان سعی کرتی وقت اگر وهاں عطر بیچنی والی موجود هوں تو محرم کا اپنی آپ کو خوشبو سی بچانا واجب نهیں هی لیکن سعی کی علاوه اس پر واجب هی که خوشبو سونگھنی سی اپنی آپ کو بچائی سوائی خصوق کعبه کی سونگھنی سی، جیسی مسئله 237 میں بیان هوا هی که کعبه کی خوشبو

ص: 182

سونگھنی میں کوئی حرج نهیں هی۔

(240) اگر محرم عمدا کوئی خوشبودار چیز کھائی یا ایسا لباس پهنی جس میں خوشبو کا اثر باقی هو تو احتیاط واجب یه هی که ایک بکرا کفاره دی لیکن ان دو موارد کی علاوه خوشبو کا استعمال پر کفاره واجب نهیں هی۔ لیکن اگر چه احوط یه هی که کفاره دی۔

(241) محرم کا بدبو کی وجه سی اپنی ناک کو بند رکھنا حرام هی۔ تاهم اس مقام سی تیزی سی گذر جانی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

9۔ مرد کی لیی سلا هوا یا ایسا لباس پهننا جو سلی هوئی لباس کی حکم آتا هو ۔

(242) محرم کی لیی جائز نهیں که ایسا لباس پهنی جس میں بٹن یا ایسی چیز هو جو بٹن کا کام دی سکتی هو (یعنی ایسی چیز جس کا

ص: 183

ایک حصه دوسری حصه سی بٹن یا کسی ایسی چیز سی ملا هوا هو) اسی طرح زره کی طرح لباس کا پهننا بھی جائز نهیں هی (یعنی ایسا لباس جس میں آستین، گریبان هو اور سر کو گریبان اور هاتھوں کو آستینوں سی نکالی) اسی طرح پاجامه اور اس جیسی چیزوں مثلا پتلون وغیره کو شرمگاه کی چھپانی کی لیی پهننا جائز نهیں هی۔ سوائی اس کی که ان میں بٹن نه هوں ۔ اور احتیاط واجب یه هی که عموما استعمال هونی والی لباس مثلا قمیض، قبا، جبه اور دوسری عربی لباس نه پهنی خواه ان میں بٹن لگی هوئی هوں یا نه هوں۔ لیکن مجبوری کی حالت میں قمیض یا کسی ایسی چیز کا اپنی کندھوں پر قبا کی طرح ڈالنا، قبا کو الٹا کرکی پهننا، قبا کی آستینوں سی اپنا هاتھ نکالی بغیر پهننا جائز هی۔ مذکوره حکم میں لباس کی سلی هوی، بنی هوی یا تهدار هونی

ص: 184

سی فرق نهیں پڑتا۔ محرم کی لیی پیسوں کی تھیلی کا کمر سی باندھنا جائز هی۔ چاهی سلی هوئی هو ۔ مثلا همیان (وه چیز جسمیں پیسی رکھ کر کمر سی باندھا جاتا هی) اور منطقه (ایسا کمربند جسی مخلتف مقاصد کی لیی کمر سی باندھا جاتا هی) اسی طرح هرنیا کی مرض میں مبتلا محرم فتق بند (ایسا کمر بند جو مریض انتڑیوں کو نیچی آنی سی روکتا هی) چاهی سلا هو بوقت ضرورت استعمال کر سکتا هی۔ اسی طرح محرم کی لیی سوتی وقت یا اس کی علاوه اپنی جسم کو (سوائی سر کی) سلی هوئی لحاف وغیره کی ڈھانپنا جائز هی۔

(243) احوط یه هی که محرم اپنی لنگ کو اپنی گردن میں ڈال کر نه باندھی بلکه کسی جگه پر بھی نه باندھی اور سوئی وغیره سی بھی اسی مضبوط نه کری بلکه بنابر احوط چادر میں بھی گره نه لگائی

ص: 185

لیکن سوئی وغیره سی چادر کو مضبوط و محکم کرنی میں کوئی حر ج نهیں هی۔

(244) عورت کی لیی حالت احرام میں سوائی دستانوں کی هر قسم کا سلا هوا لباس پهننا جائز هی ۔

اگر محرم عمدا ایسا لباس پهنی جس کا پهننا اس کی لیی جائز نهیں تھا تو واجب هی که ایک بکری کفاره دی بلکه احوط یه هی که اگر مجبورا پهنی تب بھی کفاره دی۔ اگر اس نی کئی مرتبه اس لباس کو پهنا یا یک مشت کئی لباس پهنی هوں تو ان کی عدد کی مطابق کفاره دی مثلا کچھ کپڑوں کو ایک دوسری کی اوپر ایک هی مرتبه پهنی جب که وه مختلف لباس هوں تب بھی ان کی تعداد کی برابر کفاره دی۔

ص: 186

10۔ سرمه لگانا

(246) سرمه لگانی کی دو صورتیں هیں:

1۔ سیاه سرمه لگانا ایسا سرمه لگایا جائی جسی عرف عام میں زینت شمار کیا جاتا هو تو اظهر یه هی که محرم کی لیی زینت کی خاطر سرمه لگانا حرام هی۔ بلکه احوط یه هی که اگر زینت کی لیی نه بھی لگائی تب بھی حرام هی۔ لیکن بحالت مجبوری مثلا بطور دوائی سرمه لگانی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

2۔ سیاه سرمه یا ایسا سرمه که جو زینت کی لی استعمال هوتا هی ان دونوں قسم کی سرمه کی علاوه کوئی اور سرمه لگائی تو اگر زینت کی لیی نه لگائی تو کوئی حرج نهیں هی ورنه احوط یه هی که اس سرمه کو بھی نه لگائی ۔ تمام صورتوں میں سرمه لگانی پر کفاره واجب نهیں هی اگر چه حرام سرمه لگانی کی صورت میں

ص: 187

بهتر هی که ایک بکری کفاره دی ۔

11۔ محرم کی لیی زینت کی خاطر آئینه دیکھنا جائز نهیں هی لکین کسی دوسری غرض مثلا اپنی چهری کی زخم پر مرهم لگانی کی لئی یا چهره پر وضو کی لیی پانی پهچنی سی رکاوٹ تلاش کرنی کیلیی یا ڈرائیور کا پیچھی آنی والی گاڑی کو دیکھنی کی لیی یا کسی اور ضرورت کی لیی آئینه دیکھنا جائز هی اور تمام صورتوں میں وه چیزیں جو صاف شفاف هوں اور آئینه کا کام دی سکتی هوں آئینه کا حکم رکھتی هیں ۔ وه شخص زینت کی لیی آئینه دیکھی تو اس کی لیی مستحب هی که وه تلبیه دوباره کهی۔ تاهم عینک لگانی میں کوئی حرج نهیں هی تاهم اگر چشمه لگانی میں عرفا زینت شمار هو تو اس سی اجتناب کرنا چاهیی ۔

ص: 188

12۔ مردوں کی لیی جوتی یا موزی پهننا۔

(248) محرم مرد کی لیی ایسی چیز پهننا حرام هی جو اس کی پاؤں کی اوپر کا تمام حصه ڈھانپ لی مثلا بوٹ اور موزی ۔ سوائی مجبوری کی مثلا مرد کو هوائی چپل ایسی هی کوئی اور چپل نه مل سکی اور مجبورا بوٹ پهننا پڑی لیکن احوط یه هی که اوپر کا حصه پھاڑ کر پهنی تاهم ایسی چیز پهننا جائز هی جو پاؤں کی بعض حصوں کو چھپائی ۔ اسی طرح بوٹ و موزی وغیره پهنی بغیر پاؤں کی اوپر کی حصی کو چھپانا مثلا بیٹھ کر چادر کو اپنی پاؤں پر لپیٹنا جائز هی ۔ بوٹ یا اس جیسی چیزوں کو پهننی سی کفاره واجب نهیں هی ۔

چاهی مجبورا پهنی یا بغیر مجبوری کی لیکن موزی یا اس جیسی چیز کو عمدا پهننی سی بنابر احوط کفاره واجب هو جائیگا جو که ایک بکری

ص: 189

هی۔ عورتوں کی لیی بوٹ یا موزی یا اس جیسی کوئی اور چیز جو پاؤں کی اوپر کی حصی کو چھپا دی پهننی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

13۔ فسوق (جھوٹ بولنا، گالی گلوچ کرنا اور فخر و غرور کرنا)

(249) فسوق میں جھوٹ بولنا، گالی دینا اور فخر کرنا شامل هی اگر چه فسوق هر حال میں حرام هی مگر حالت احرام میں اس کی حالت تاکیدی هی ۔ فخر کرنی سی مراد یه هی که کوئی اپنی حسب و نسب، مال، رتبه یا اس جیسی چیزوں پر فخر کری ۔ فخر اس وقت حرام هی جب اس کی سبب سی کسی مومن کی توهین یا تحقیر هو رهی هو ورنه حرام نهیں هی ۔ نه محرم پر اور نه غیر محرم پر، فسوق کا استغفار کی علاوه اور کچھ کفاره نهیں هی اگر چه احوط یه هی که ایک گائی کا کفاره دی۔

ص: 190

14۔ جدال (بحث و جھگڑا کرنا)

(250) محرم کا اس طرح سی بحث یا جھگڑا کرنا جس میں الله کی قسم کھا کر کسی چیز کو ثابت کیا جائی یا کسی چیز کا انکار کیا جائی حرام هی۔ اظهر یه هی که قسم میں صرف ان دو لفظوں بلی والله یا لا والله کا لحاظ کرنا معتبر نهیں هی بلکه ذات حقیقی کی قسم هو تو کافی هی چاهی اسم مخصوص الله کی ذریعی قسم کھائی یا اس کی علاوه کسی اور اسم سی اور چاهی قسم لا، یا، بلی، سی شروع هو یا نه هو، اسی طرح حاهی قسم عربی زبان میں کھائی یا کسی اور زبان میں، الله کی نام کی علاوه کسی اور مقدس نام کی قسم کا کوئی اعتبار نهیں هی چه جائی که کوئی یوں کهی که میری جان کی قسم ایسا هی ایسا نهیں هی۔ اسی طرح خبر دینی کی علاوه قسم کا کوئی اثر نهیں هی مثلا کسی سی التماس کرنی کی لیی قسم

ص: 191

کھانا اور کهنا که الله کی قسم مجھی فلاں چیز دی دو، خود اپنی ارادی کی تاکید کی لیی قسم کھانا که میں مستقبل میں یه کام کرونگا اور یوں کهنا که الله میں فلاں چیز تمهیں دونگا، فقها کا کهنا هی که سچی قسم میں جدال متحقق هونی میں قسم کا تین مرتبه پی در پی تکرار کرنا ضروری هی ۔ ورنه جدال متحقق نهیں هوگا تاهم یه قول اشکال سی خالی نهیں هی اگر چه احوط اس کی خلاف میں هی یعنی ایک مرتبه میں بھی جدال متحقق هو جائی گا اور جھوٹی قسم میں جدال کی متحقق هونی میں بلا اشکال تعدد معتبر نهیں هی ۔

(251) حرمت جدال سی هر وه مورد مستثنی هی که جهاں قسم کو ترک کرنی سی مکلف کو نقصان هو رها هو جیسی قسم کو ترک کرنی کی وجه سی اس کا حق ضائع هو جائی گا ۔

ص: 192

(252) اگر جدال کرنی والا تین مرتبه پی در پی سچی قسم کھائی تو اس پر ایک بکری کفاره واجب هو گی اور تین مرتبه سی زیاده تکرار کرنی کی وجه سی متعدد کفاره نهیں هوگا۔ لیکن اگر تین یا زیاده مرتبه قسم کھانی کی بعد پھر تین یا زیاده مرتبه قسمیں کھائی تو ان دو صورتوں میں کفاره بھی متعدد هو جائیگا ۔ اگر ایک جھوٹی قسم کھائی تو ایک مرتبه پر ایک بکری اور دو مرتبه پر دو بکری اور تین مرتیبه قسم کھانی پر ایک گائی کفاره واجب هی تین مرتبه سی زیاده قسم کھانی پر کفاره نه دیا هو تو ایک هی کفاره واجب هوگا۔ تاهم دوسری مرتبه جھوٹی قسم کا کفاره دینی کی بعد تیسری مرتبه جھوٹی قسم کھانی پر ایک بکری هی کفاره هوگی نه که گائی ۔

15۔ جسم کی جوئیں مارنا۔

(253) محرم کی لیی جوئیں مارنا اور بنابر احوط اپنی لباس یا

ص: 193

جسم سی نکال کر باهر پھیکنا جائز نهیں هی۔ تاهم جسم کی ایک جگه سی پکڑ کر دوسری جگه چھوڑنی میں کوئی حرج نهیں هی۔ اگر کوئی جوؤں کو مار دی یا پھینک دی تو احوط اولی یه هی که مٹھی بھر کھانا کفاره دی۔ احوط یه هی که اگر مچھر، کھٹمل اور ان جیسی جانور محرم کو ضرر نه پهچائیں تو ان کو بھی نه ماری لیکن اظهر یه هی که انهیں اپنی قریب آنی سی روکنا جائز هی۔ اگر چه احوط یه هی که اس کو بھی ترک کری۔

16۔ آرائش کرنا (بناؤ سنگھار کرنا)

(254) احوط یه هی که محرم مرد اور عورت اپنی آپ کو هر اس چیز سی بچائیں جو عموما زینت شمار هوتی هی۔ خواه زینت کا قصد کری یا نه کری ویسی تو عام طور پر مهندی لگانا بھی زینت میں شمار هوتا هی لیکن اگر مهندی لگانا زینت میں شمار نه هوتا هو مثلا

ص: 194

علاج کی غرض سی استعمال کی جائی تو کوئی حرج نهیں هی۔ اسی طرح احرام باندھنی سی پهلی لگانی میں کوئی حرج نهیں هی۔ چاهی اس کی اثرات احرام باندھنی تک باقی رهیں ۔

(255) زینت کی بغیر انگوٹھی پهننی میں کوئی حرج نهیں هی ۔ چنانچه انگوٹھی پهننا ایک مستحب عمل هونی کی وجه سی یا گم هونی سی بچانی کی لیی، طواف کی چکروں کو شمار کرنی کی لیی یا اسی طرح کی کسی اور کام کی لیی هو تو کوئی حرج نهیں تاهم احوط یه هی که زینت کی لیی نه پهنی ۔

(256) محرم عورت کی لیی زینت کی نیت سی زیوارات پهننا حرام هی بلکه احوط یه هی که اگر زینت شمار هوتی هوں تو زینت کی نیت کی بغیر بھی نه پهنی تاهم اتنی مقدار میں زیورات پهننا جنهیں وه عام طور پر احرام سی پهلی پهنتی تھی اس حکم سی

ص: 195

مستثنی هی لیکن احوط اولی یه هی که زیورات پهن کرا اپنی شوهر یا دوسری محرم مردوں کو نه دکھائی مذکوره بالا تمام موارد میں اگر کوئی زینت کری تو کوئی کفاره واجب نهیں هی ۔

17۔ تیل لگانا۔

(257) محرم کی لیی تیل لگانا حرام هی چاهی وه خوشبودار نه بھی هو لیکن خوشبودار تیل کھانا جائز هی چاهی وه تیل اچھی خوشبو والا هو جیسا که مسئله 238 میں بیان هوا محرم کی لیی بغیر خوشبو کا تیل بغیر دوا کی استعمال کرنا جائز هی بلکه ضرورت و مجبوری کی وقت خوشبودار تیل چاهی اس کی خوشبو طبیعی هو یا ملائی گئی هو استعال کرنا بھی جائز هی ۔

(258) عمدا خوشبودار تیل اس کی خوشبو خواه طبیعی هو یا غیر طبیعی استعمال کرنی کا کفاره ایک بکری هی اور اگر تیل لا علمی

ص: 196

کی وجه سی استعمال کیا جائی تو دونوں تیلوں کا کفاره بنابر احوط ایک فقیر کو کھانا کھلانا هی ۔

18۔ بدن کی بال صاف کرنا ۔

(259) محرم کا اپنی یا کسی دوسری کی بدن سی بال صاف کرنا جائز نهیں هی چاهی دوسرا بغیر احرام کی هی کیوں نه هو اور چاهی مونڈ کر صاف کری یا اکھاڑ کر اس حکم میں بالوں کی کم یا زیاده هونی میں کوئی فرق نهیں هی بلکه ایک بال کا کچھ حصه مثلا آدھا بال کاٹنا جائز نهیں هی لیکن اگر سر میں جوئیں زیاده هونی کی وجه سی اسی اذیت اور تکلیف هوتی هو تو پھر سر منڈوانا جائز هی۔ اسی طرح سی اگر ضرورت هو تو بال صاف کرنا بھی جائز هی وضو یا غسل اور تیمم یا نجاست سی پاک هونی یا ایسی رکاوٹ کو دور کرتی وقت جو جسم سی چپکی هوئی هو حدث یا

ص: 197

خبث طهارت سی مانع بن رهی هو یا کسی اور ضرورت کی وقت اگر بال گریں تو کوئی حرج نهیں هی جبکه وه اس کا قصد نه رکھتا هو ۔

(260) بغیر ضرورت کی سر منڈوانی کا کفاره ایک بکری یا تین دن کی روزی یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا هی۔ هر مسکین کا طعام دو مد (یعنی تقریبا 1500 گرام کی برابر هی) اگر محرم اپنی دنوں بغلوں کی نیچی کی بالوں کو نوچ کر نکالی تو ایک بکری کا کفاره دی اور احوط یه هی که اگر ایک بغل کی نیچی کی بال نوچ کر نکالی تب بھی ایک بکری کا کفاره دی۔ اگر داڑھی یا کسی اور جگه کی بال نکالی تو ایک مسکین کو مٹھی بھر کھانا دی۔

مذکوره بالا موارد میں اگر کوئی مونڈھنی یا نوچ کر نکالنی کی علاوه کسی اور طرح سی بال نکالی تو احوط یه هی که اس کا بھی یهی

ص: 198

حکم هی۔ اگر محرم کسی دوسری کا سر مونڈی تو دوسرا سر مونڈوانی والا حالت احرام میں هو یا بغیر احرام کی تو محرم پر کوئی کفاره واجب نهیں هی ۔

(261) محرم کی لیی اس طرح سر کھجانی میں که جب بال نه گریں یا خون نه نکلی کوئی حرج نهیں هی۔ یهی حکم بدن کھجانی کا بھی هی۔ اگر محرم بلا وجه اپنی سر یا داڑھی پر هاتھ پھیر ی اور ایک یا کچھ بال گر جائیں تو مٹھی بر کھانا صدقه دی اور اگر وضو کرتی وقت کچھ بال گریں تو اس پر کچھ واجب نهیں هی ۔

19۔ مردوں کی لیی سر ڈھانپنا۔

(262) محرم مرد کی لیی مقنع یا کپڑی یا دوپٹی وغیره سی اپنا پورا سر یا کچھ حصه ڈھانپنا جائز نهیں هی بلکه احوط یه هی که گیلی مٹھی یا جھاڑی وغیره کی ذریعی بھی سر نه ڈھانپی تاهم مشک کا

ص: 199

تسمه یا سر درد کی وجه سی سر پر رومال باندھنی میں کوئی حرج نهیں هی۔ اس مسئله میں سر سی مراد بال اگنی کی جگه هی اور اقرب یه هی که اس میں دونوں کان بھی شامل هیں ۔

(263) بدن کی کسی حصی مثلا هاتھوں سی سر ڈھانپنا جائز هی لیکن بهتر یه هی که اس سی بھی اجنتاب ضروری هی ۔

(264) محرم کی لیی پوری سر کو پانی یا بنابر احوط کسی اور چیز میں ڈبونا جائز نهیں هی۔ اب ظاهر هی که اس حکم میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نهیں هی اور سر سی مراد گردن کی اوپر کا پوراحصه هی ۔

(265) احوط یه هی که اگر محرم سر کو چھپائی تو ایک بکری کفاره دی اور جن موارد میں سر چھپانا جائز نهیں هی یا مجبورا سر چھپائی تو ظاهر یه هی که کوئی کفاره واجب نهیں هی ۔

ص: 200

20۔ عورتوں کی لیی چهری کا چھپانا۔

(266) حالت احرام میں عورتوں کی لیی برقعه، نقاب یا چهری سی چپکنی والی چیز سی چهره چھپانا حرام هی چنانچه احوط یه هی که اپنی چهری یا چهری کی کچھ حصی کو بھی کسی چیز سی نه چھپائی تاهم سوتی وقت اور نماز میں سر چھپاتی وقت مقدمه کی طور پر جب سر پر موجود چادر کو لٹکانی سی نه چھپ سکتا هو تو چهری کا کچھ حصه ڈھانپنی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

(267) حالت احرام میں عورت اپنی چادر کو لٹکا کر، نامحرم سی پرده کر سکتی هی یعنی سر پر موجود چادر کو اپنی ناک بلکه گردن کی مقابل تک کھینچ لی اور اظهر یه هی که چادر کی اس حصی کو هاتھ وغیره سی چهری سی دور رکھنا واجب نهیں هی اگر چه احوط

ص: 201

هی ۔

(268) احوط اولی یه هی که چهره ڈھانپنی کا کفاره ایک بکری هی۔

21۔ مردوں کا سائی میں رهنا

(269) سائی میں هونا دو طرح سی تصور کیا جا سکتا هی:

1۔ متحرک اشیاء مثلا چھتری، محمل کی چھت، گاڑی یا هوائی جهاز کی چھت وغیره کی زیر سایه چلنا، جب که سایه دار چیز مذکوره مثالوں کی طرح اس کی سر کی اوپر هوں تو محرم مرد پر حرام هی خواه وه سوار هو یا پیدل تاهم بادل کی نیچی کھڑا هونا جائز هی لیکن اگر سایه دار چیز اس کی سیدھی طرف مثلا سامنی یا پیچھی هو تو ظاهر یه هی که پیدل شخص کی لیی ایسا سایه جائز هی لهذا محمل یا گاڑی کی سائی میں چلنا محرم مرد کی لی جائز هی اور سوار کی لیی احتیاط یه هی که وه اس سی پرهیز کری سوائی

ص: 202

اس کی که عام سورج سی بچنی کا نه هو یعنی وه چیز کھلی هوئی گاڑی کی دیوار میں محرم مرد کی کسی ایک طرف هوں اور اتنی چھوٹی هو که محرم کا سر اور سینه اس سی نه چھپتا هو ۔

2۔ ثابت اور غیر متحرک اشیاء مثلا دیواریں، درخت و پهاڑ یا انهیں جیسی کسی اور چیز کی سائی میں هو نامحرم مرد کی لیی بنا بر احوط جائز هی خواه سوار هو یا پیدل ۔ اسی طرح محرم کا اپنی هاتھوں سی اپنی آپ کو بچانا سورج کی تپش سی بچانا جائز هی اگر چه احوط اس کو ترک کرنی میں هی ۔

(270) سائی میں هونی سی مراد اپنی آپ کو سورج سی بچانا هی اور احوط یه هی که اس حکم میں سورج کی ساتھ بارش کو بھی شامل کیا جائی لیکن اظهر یه هی که هوا، سردی، گرمی یا ان جسیی دوسری چیزوں سی اپنی آپ کو بچانا جائز هی لیکن احتیاط

ص: 203

اس میں بھی ترک کرنی میں هی۔ چنانچه بنابر احوط رات کی وقت بارش نه هونی کی صورت میں محرم کی لیی چھت والی گاڑی یا کسی اور چیز میں سوار هونی میں کوئی حرج نهیں هی۔ اگر چه یه سواری محرم شخص کو هوا سی بچا رهی هو ۔

(271) زیر سایه هونی کی جو حرمت بیان هوئی هی وه حالت سفر سی مخصوص هی۔ لهذا اگر محرم کسی جگه پهنچی اور اس جگه کو رهنی کی لیی منتخب کری یا نه کری مثلا دوران سفر آرام کرنی یا دوستوں سی ملاقات کرنی یا کسی اور وجه سی رکی تو اس وقت سائی میں رهنی میں اشکال نهیں هی۔ لیکن اس صورت میں که جب یه کسی جگه پهنچنی اور رهنی کی لیی قرار دی مگر چاهتا هو که اپنی کاموں کو انجام دینی کی لیی ادھر ادھر جائی مثلا مکه میں پهنچی اور چاهتا هو که طواف سعی کرنی کی بعد

ص: 204

مسجد الحرام جائی یا مثلا منی پهنچی اور قربان یا رمی جمرات کی لیی جانا چاهتا هو تو اس صورت میں اس کی لیی چھت والی گاڑی میں یا چھتری سی سر پر سایه کرنا جائز هی یا نهیں؟ اس کی جواز کا حکم دینا کافی مشکل هی ۔ چنانچه احتیاط کو ترک نهیں کرنا چاهیی ۔

(272) اگر محرم اپنی آپ کو سورج سی بجائی تو اس پر کفاره واجب هی اور ظاهر یه هی که کفاره واجب هونی میں اختیاری حالت اور مجبوری کی حالت هونی میں فرق نهیں هی ۔ لهذا اگر کوئی بار بار سائی میں چلی تو اظهر یه هی که هر احرام کی لیی ایک کفاره دی۔ اگر چه هر دن کی لیی ایک کفاره بنابر احوط کافی هی اور کفاره میں ایک بکری کافی هی ۔

22۔ جسم سی خون نکالنا۔

ص: 205

احوط یه هی که محرم کی لیی اپنی جسم سی خون نکالنا جائز نهیں هی۔ سوائی کسی مجبوری یا ضرورت کی گر چه فصد کھولنی، حجامت، دانت نکلوانی، جسم کو کھجانی یا کسی اور وجه سی۔ لیکن اظهر یه هی که مسواک کرنا جائز هی چاهی اس کی وجه سی خون نکلی احوط اولی یه هی که بغیر ضرورت کی خون نکالنی کا کفاره ایک بکری هی ۔

23۔ ناخن کاٹنا۔

محرم کی لیی ناخن کاٹنا جائز نهیں هی۔ اگر چه کچھ مقدار میں کاٹی، سوائی کسی مجبوری و ضرورت کی مثلا ناخن باقی رکھنی میں اذیت و تکلیف هوتی هو ۔ یعنی اگر ناخن کا کچھ حصه ٹوٹ گیا هو اور باقی حصه میں درد هو رها هو تو باقی ناخن کو کاٹنا بھی جائز هی ۔

ص: 206

(274) هاتھ یا پاؤں کا ایک ناخن کاٹنی کا کفاره ایک مد یعنی تقریبا 750 گرام کھانا هی ۔ چنانچه اگر دو ناخن کاٹی تو کفاره دو مد طعام اور اسی طرح نو ناخنوں تک (ناخن کاٹنی کی لحاظ سی کفاره هوگا) لیکن اگر هاتھ اور پاؤں کی پوری ناخن متعدد نشتوں میں کاٹی تو کفاره دو بکریاں (ایک هاتھ اور دوسری پاؤں کی ناخنوں کی لیی) هوگا اور اگر ایک هی نشست میں کاٹی تو پھر ایک بکری کفاره واجب هوگا ۔

(275) اگر محرم ایسی شخص کی فتوی پر عمل کرتی هوئی ناخن کاٹی جس نی ناخن کاٹنی کی جائز هونی کا فتوی غلطی سی دیا هو اور کاٹتی هوئی خون نکل آئی تو احوط یه هی که کفاره فتوی دینی والی پر واجب هی ۔

ص: 207

24۔ دانت نکلوانا ۔

(276) بعض فقهاء نی محرم کی لیی دانت نکلوانا حرام قرار دیا هی چاهی خون نه بھی نکلی اور اس کا ایک دنبه کفاره واجب هی۔ لیکن اس حکم کی دلیل میں تامل هی بلکه بعید نهیں هی که یه کام جائز هو ۔

25۔ اسلحه رکھنا۔

(277) محرم کی لیی اسلحه پهننا بلکه بنابر احوط اس طرح ساتھ رکھنا که مسلح شمار هو جائز نهیں هی۔ اسلحه سی مراد هر وه چیز جو عموما اسلحه کهلاتی هی مثلا تلوار، بندوق، تیر وغیره تاهم زره سپر وغیره حفاظتی آلات هیں نه که اسلحه ۔

(278) محرم کی پاس اسلحه هونی میں جبکه اس نی پهنا هوا نه هو کوئی حرج نهیں هی ۔ اسی طرح اسلحه ساتھ رکھنا جبکه عرفا

ص: 208

مسلح شمار نه هوتا هو کوئی حرج نهیں هی لیکن پھر بھی ترک کرنا احوط هی ۔

(297) حالت اختیاری میں اسلحه رکھنا حرام هی لیکن وقت ضرورت مثلا دشمنی یا چوری کا خوف هو تو جائز هی ۔

(280) بغیر ضرورت کی اسلحه ساتھ رکھنی کا کفاره ایک دنبه هی۔ ابتک محرم پر حرام هونی والی چیزیں بیان هوئی هیں۔ ذیل میں حرم میں حرام هونی والی امور بیان کیی جا رهیں هیں:

ص: 209

محرمات حرم

1۔ خشکی کی حیوانات کا شکار کرنا جیسا که مسلئه 199 میں بیان هوا هی ۔

2۔ حرم میں اگنی والی کسی چیز کو اکھاڑنا یا کاٹنا خواه وه درخت هو یا کوئی اور چیز لیکن معمول کی مطابق چلنی سی گھاس اکھڑنی یا جانور یا کھانی کیلیی جانور کو حرم میں چھوڑنی میں کوئی حرج نهیں هی لیکن حیوانات کیلیی ذخیره کرنی کی لیی گھاس نهیں توڑی جا سکتی هی چاهی وه جانور اونٹ هی کیوں نه هو۔ درست ترین قول کی مطابق گھاس وغیره اکھاڑنی یا توڑنی کی حکم

ص: 210

سی چند چیزیں مستثنی هیں:

(الف) اذخر ۔ جو مشهور خوشبودار گھاس هی ۔

(ب) کھجور اور دوسری پھلدار درخت ۔

(ج) وه درخت یا گھاس جسی خود لگایا هو یعنی اپنی ملکیت میں یا کسی دوسری کی ملکیت میں هو۔

(د) وه درخت یا گھاس جو کسی کی گھر میں اگیں لیکن اس کی ملکیت میں آنی سی پهلی اس گھر میں موجود درخت اور گھاس وغیره کا حکم باقی تمام درختوں اور گھاس کی حکم جیسا هی۔

(281) وه درخت جس کی جڑیں حرم میں اور شاخیں حرم سی باهر هوں یا ایسا درخت جس کی جڑیں حرم میں هوں اور شاخیں باهر هوں وه پورا درخت حرم میں شمار هوگا۔

(282) درخت اکھاڑنی کا کفاره اس درخت کی قیمت هی اور

ص: 211

درخت کی کچھ حصی کو کاٹنا کا کفاره کچھ حصی کی قیمت هی گھاس کو کاٹنی یا اکھاڑنی کا کوئی کفاره نهیں هی ۔

3۔ حرم کی باهر کسی پر ظلم کرکی حرم میں پناه لینی والی شخص پر حد، قصاص یا تعزیر جاری کرنا جائز نهیں هی لیکن ظالم کو کھانا اور پانی نه دیا جائی۔ نه هی اس سی بات چیت کی جائی اور نه هی اس سی خرید و فرخت کی جائی نه هی اس کو کوئی پناه یا جگه دی جائی یهاں تک که وه حرم سی باهر آنی پر مجبور هو جائی اور پھر اسی پکڑ کر اسی اس کی جرم کی سزا دی جائی ۔

4۔ ایک قول کی مطابق حرم میں پڑی هوئی کسی چیز کو اٹھانا حرام هی جبکه اظهر یه هی که سخت مکروه هی ۔ چنانچه اگر کوئی شخص حرم میں پڑی هوئی چیز اٹھالی اور اس پر کوئی ایسی علامت نه هو جس کی وجه سی اسی اس کی مالک تک پهنچایا جا

ص: 212

سکی تو اسی اپنی ملکیت میں لینا جائز هی خواه وه چیز ایک درهم یا اس سی زیاده مالیت کی هی کیوں نه هو۔ لیکن اگر اس پر کوئی ایسی علامت هو جس کی وجه سی اسی اس کی مالک تک پهنچا یا جا سکتا هو اور اس کی مالیت ایک درهم سی کم هو تو اعلان کرنا واجب نهیں هی اور احوط یه هی که اس کی مالک کی طرف سی صدقه کردی اگر اسی قیمت ایک درهم یا اس سی زیاده هو تو پھر پورا ایک سال تک اعلان کرنا واجب هی اور اس کی باوجود مالک نه ملی تو احوط یه هی که مالک کی طرف سی صدقه کردی۔

ص: 213

کفاری کی جانور ذبح کرنی کی جگه

(283) اگر محرم پر عمره مفرده میں شکار کی وجه سی کفاره واجب هو تو جانور کو مکه مکرمه میں، اگر عمره تمتع یا حج کی احرام میں شکار کری تو کفاری کی جانور کو منی میں ذبح کری۔ جب شکار کی علاوه کسی اور وجه سی کفاره واجب هو جائی تو احتیاط کی بنا پر یهی حکم هی ۔

(284) اگر محرم پر شکار یا کسی اور وجه سی (جانور ذبح کرنی کا) کفاره واجب هو جائی اور وه اسی کسی عذر یا بغیر عذر کی مکه یا منی میں ذبح نه کری تو اظهر یه هی که کسی بھی جگه ذبح کرنا جائز هی ۔

ص: 214

کفاره کا مصرف (کفاره خرچ کرنی کی جگه)

محرم پر واجب هونی والی کفارات کو فقراء و مساکین پر صدقه کرنا واجب هی اور احوط یه هی که کفاره دینی والا اس میں سی کچھ نه کھائی اور اگر خود کھالی تو احتیاط یه هی که جس مقدار من کھایا هو اس کی قیمت فقراء میں صدقه کری ۔

ص: 215

طواف

عمره تمتع میں دوسرا واجب عمل طواف هی طواف کو عمدا چھوڑنی سی حج باطل هو جاتا هی چاهی اس حکم کا علم هو یا نه هو اور حکم سی ناآشنا شخص پر بنابر احوط ایک اونٹ کفاره هوگا۔ طواف ترک کرنی کا مطلب یه هی که طواف انجام دینی میں اتنی تاخیر کی جائی که عرفه کی دن زوال سی پهلی اعمال عمره ادا نه کیی جا سکیں۔ اظهر یه هی که اگر عمره باطل هو جائی تو احرام بھی باطل هو جاتا هی چنانچه عمره تمتع سی حج افراد میں طرف عدول و رجوع کرنا کافی نهیں هی۔ اگر چه احوط هی ۔ یعنی حج افراد کی اعمال انجام دیی جائیں بلکه احوط یه هی که طواف،

ص: 216

نماز طواف، سعی، حلق یا تقصیر کو حج افراد و عمره تمتع کی عمومی نیت سی انجام دی که ان دو میں سی جو واجب هی اسی انجام دی رها هوں۔

شرائط طواف

طواف میں چند چیزیں شرط هیں:

1۔ نیت ۔ طواف قربت کی نیت اور خضوع کی ساتھ خدا کا حکم اور بندگی کی بجا آوری کی لیی انجام دی۔ طواف میں عبادت کو معین کرنا بھی معتبر هی جیسا که حرام کی نیت کی مسئله میں بیان هو چکا هی ۔

ص: 217

2۔ طهارت ۔ حدث اکبر و اصغر سی پاک هو، چنانچه عمدا یا لا علمی یا بھول کر حالت حدث میں کیا هوا طواف باطل هی ۔

(285) اگر طواف کی دوران حدث صادر هو جائی تو اس کی چند صورتیں هیں:

(1) چوتھا چکر مکمل کرنی سی پهلی هو تو طواف باطل هو جائیگا چنانچه پاک هونی کی بعد طواف دوباره انجام دینا ضروری هی بلکه اظهر یه هی که چوتھی چکر کی نصف تک پهنچنی کی بعد بھی اگر حدث صادر هو تب بھی طواف باطل هی اور دوباره انجام دینا ضروری هی ۔

(ب) چوتھا چکر مکمل هونی کی بعد غیر اختیاری طور پر حدث صادر هو تو اپنا طواف قطع کرکی طهارت کری اور بعد از طهارت اپنا طواف وهیں سی شروع کرکی مکمل کری جهاں

ص: 218

سی چھوڑا تھا۔

(ج) چوتھا چکر مکمل هونی کی بعد اختیاری طور پر حدث صادر هو تو احوط یه هی که طهارت کی بعد اس طواف کو پورا کری اور اس کا اعاده بھی کری ۔

(286) اگر طواف شروع کرنی سی پهلی طهارت میں شک هو تو اگر جانتا هو که پهلی طهارت پر تھا اور بعد میں حدث کی صادر هونی میں شک هو تو اس شک کی پرواه نه کی جائی ورنه طواف سی پهلی طهارت کرنا واجب هی ۔

(287) طواف سی فارغ هونی کی بعد طهارت میں شک هو تو شک کی پرواه نه کی جائی، تاهم طواف کو دوباره انجام دینا احوط اور نماز طواف کی کئی طهارت کرنا واجب هی ۔

(288) اگر مکلف کسی عذر کی وجه سی وضو نه کر سکتا هو اور عذر

ص: 219

کی زائل هونی کی امید بھی نه هو تو تیمم کرکی طواف انجام دی اور اگر تیمم بھی نه کر سکتا هو تو اس پر اس شخص کا حکم جاری هوگا جو طواف کرنی پر قادر نه هو اگر امید نه هو که تیمم کر سکی گا تو طواف کی لئی نائب بنانا ضروری هی اور احوط یه هی که خود بغیر طهارت کی طواف کری ۔

(289) حائض اور نفساء پر ایام ختم هونی کی بعد اور مجنب شخص پر طواف کی لئی غسل کرنا واجب هی اور اگر غسل نه کر سکتی هوں اور امید بھی نه هو که غسل کر سکیں گی تو پھر تیمم کرکی طواف انجام دیں نیز احوط اولی یه هی که کسی کو طواف کی لئی نائب بنا دیا جائی اگر تیمم بھی نه کر سکتا هو اور امید بھی نه هو که بعد میں تیمم کر سکی گا تو کسی کو طواف کی لئی نائب بنانا هی معین هی ۔

ص: 220

(290) اگر کوئی عورت احرام کی دوران یا احرام سی پهلی یا بعد میں مگر طواف سی پهلی حائض هو جائی اور اتنا وقت هو که ایام حیض گزرنی کی بعد اور حج کا وقت آنی سی پهلی وه اعمال عمره کو بجا لا سکی تو پاک هونی کی بعد غسل کرکی اعمال عمره انجام دی اور اگر اتنا وقت نه هو تو اس کی دو صورتیں هیں:

1۔ احرام سی پهلی یا احرام کی باندھتی وقت حیض آئی تو اس کا حج، حج افراد میں تبدیل هو جائی گا چنانچه حج افراد مکمل کرنی کی بعد اگر ممکن هو تو عمره مفرده انجام دی ۔

2۔ احرام حج کی بعد حیض آئی تو احوط یه هی که پهلی صورت کی طرح عمره تمتع حج افراد میں بدل دی اگر چه ظاهر یه هی که عمره تمتع پر بھی باقی رهنا جائز هی یعنی طواف اور نماز طواف کی

ص: 221

بغیر عمره تمتع کی اعمال انجام دی اس کی بعد سعی اور تقصیر کری اور پھر حج کیلئی احرام باندھ کر منی میں اعمال انجام دینی کی بعد مکه واپس آکر حج کی طواف سی پهلی عمره کا طواف اور نماز طواف کی قضاء انجام دی اگر عورت کو یقین هوکه اس کا حیض باقی رهی گا اور وه طواف نهیں کر سکی گی یهاں تک که منی سی واپس آ جائی اور اس کا سبب خواه قافلی والوں کا عدم صبر هی کیوں نه هو، چنانچه طواف اور نماز طواف کیلئی نائب بنائی اور پھر سعی کو خود انجام دی ۔

(291) اگر عورت طواف کی دوران حائض هو جائی تو اگر چوتھا چکر مکمل هونی سی پهلی حیض آئی تو طواف باطل هوگا اور اس کا حکم وهی هی جو گزشته مسئله میں بیان هوا اگر چوتھا چکر مکمل هونی کی بعد حیض آئی تو جتنا طواف وه کر چکی هی

ص: 222

وه صحیح هوگا اور اس پر واجب هی که حیض سی پاک هونی اور غسل کرنی کی بعد اسی مکمل کری نیز احوط اولی یه هی که اس طواف کو مکمل کرنی کی بعد اس کا اعاده بھی کری یه حکم وقت کی وسیع هونی کی صورت میں هی، اگر وقت تنگ هو تو سعی اور تقصیر کرکی حج کی لئی احرام باندھی اور باقی طواف کی قضاء جیسا که پهلی بھی بیان هوا منی سی واپس آکر حج کی طواف سی پهلی انجام دی ۔

(292) اگر عورت طواف کی انجام دینی کی بعد مگر نماز طواف سی پهلی حیض دیکھی تو اس کا طواف صحیح هوگا اور یه عورت پاک هونی اور غسل کرنی کی بعد نماز طواف انجام دی اگر وقت تنگ هو تو پھر سعی اور تقصیر کرکی حج کی طواف سی پهلی نماز طواف کی قضاء انجام دی ۔

ص: 223

(293) اگر عورت کو طواف اور نماز طواف کی بعد پته چلی که وه حائضه هی اور یه نه جانتی هو که حیض طواف سی پهلی یا دوران طواف یا نماز طواف سی پهلی یا نماز طواف کی بعد آیا هی تو طواف اور نماز طواف کو صحیح سمجھی اگر یقین هو که حیض طواف سی پهلی یا دوران نماز آیا هی تو اس کا وهی حکم هی جو گذشته مسئله میں بیان هوا ۔

(294) اگر عورت عمره تمتع کیلئی احرام باندھی اور اعمال کو انجام دینا بھی ممکن هو اور یه جاننی که بعد میں حائض هونی اور وقت کی کمی کی وجه سی اعمال انجام نهیں دی سکی گی اعمال کو انجام نه دی اور حائض هو جائی نیز حج سی پهلی اعمال عمره انجام دینی کا وقت بھی نه بچی تو ظاهر یه هی که اس کا عمره بھی باطل هو جائی گا اور اس کا حکم بھی وهی هی جو احکام طواف

ص: 224

کی شرو ع میں بیان هو چکا هی ۔

(295) مستحب طواف میں حدث اصغر سی پاک هونا معتبر نهیں هی اسی طرح قول مشهور کی بناء پر حدث اکبر سی بھی پاک هونا معتبر نهیں هی لیکن نماز طواف طهارت کی بغیر صحیح نهیں هی ۔

(296) وه شخص جو کسی عذر کی وجه سی کسی خاص طریقی سی طهارت کرتا هو وه اپنی اسی طهارت پر اکتفا کری مثلا جبیره والا شخص یا وه شخص جو اپنا پیشاب یا پاخانه نه روک سکتا هو، اگر چه مبطون (جو پاخانه نه روک سکی) کیلئی احوط یه که اگر ممکن هو تو جمع کری یعنی خود بھی خاص طریقی سی طهارت کرکی طواف اور نماز انجام دی اور کسی کو نائب بھی بنائی۔

وه عورت جسی استحاضه آئی تو اگر اس کا استحاضه ''قلیله'' هو تو

ص: 225

طواف اور نماز طواف کی لئی ایک ایک وضو، ''متوسطه'' هو تو دونوں کیلئی ایک ایک وضو علاوه ایک غسل اور اگر ''کثیره'' هو تو دونوں کیلئی ایک ایک غسل کری اور اگر حدث اصغر سی پاک هو تو وضو کی ضرورت نهیں هی ورنه احوط اولی یه هی که وضو بھی کری ۔

3۔ خبث سی طهارت

تیسری چیز جو طواف میں معتبر هی وه خبث سی پاک هونا هی چنانچه نجس لباس یا بدن میں طواف صحیح نهیں هی احوط یه هی که ایک درهم سی کم خون جو نماز میں معاف هی وه طواف میں معاف نهیں هی اسی طرح چھوٹی لباس مثلا جوراب وغیره کی نجاست جو که نماز کیلئی مضر نهیں لیکن طواف کیلئی مضر هی وه نجاست بھی طواف کیلئی مضر هی جس کی ساتھ نماز مکمل نهیں

ص: 226

هو سکتی لیکن متنجس چیز کو طواف کی حالت میں اٹھانی میں کوئی حرج نهیں هی چاهی نجاست کم لگی هو یا زیاده ۔

(297) اگر حالت طواف میں بدن یا لباس پر زخم یا پھوڑی کا خون لگا هو جب که زخم یا پھوڑا ابھی صحیح نه هوا هو اور پاک یا تبدیل کرنا بهت زیاده تکلیف کا سبب هو اسی طرح بحالت مجبوری بدن یا لباس نجس هو تو کوئی حرج نهیں هی اور اگر پاک یا تبدیل کرنی میں بهت سی مشقت یا تکلیف نه هو تو احوط یه هی که نجاست کو دور کرنا واجب هی ۔

(298) اگر کسی کو اپنی بدن یا لباس کی نجس هونی کا علم نه هو اور طواف کی بعد پته چلی تو اس کا طواف صحیح هی اور اعاده کرنا ضروری نهیں هی۔ اسی طرح جب نجاست کا نماز طواف سی فارغ هونی کی بعد پته چلی جب که نماز سی پهلی اس

ص: 227

نجاست کی موجود هونی کا شک نه هو یا پهلی سی شک هو مگر تحقیق کر چکا هو اور نجاست کا پته نه چلا هو تو نماز طواف بھی صحیح هوگی لیکن اگر کسی کو پهلی سی نجاست کا شک هو اور اس نی تحقیق بھی نه کی هو اور پھر نماز کی بعد اسی نجاست کا پته چلی تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز دوباره پڑھی ۔

(299) اگر کوئی شخص بھول جائی که اس کا بدن یا لباس نجس هی اور اسی طواف کی بعد یاد آئی تو اظهر یه هی که اس کا طواف صحیح هی اگر چه اعاده کرنا احوط هی نماز طواف کی بعد یاد آئی تو اگر اس کا بھولنا لاپرواهی کی وجه سی هو تو احوط یه هی که نماز دوباره پڑھی۔ ورنه اظهر یه هی که اعاده ضروری نهیں هی ۔

(300) اگر دوران طواف بدن یا لباس کی نجس هونی کا پته چلی

ص: 228

یا طواف سی فارغ هونی سی پهلی اس کا بدن یا لباس نجس هو جائی تو اگر موالات عرفی منقطع کیی بغیر نجاست دور کرنا ممکن هو چاهی اس کی لیی ستر پوشی کی معتبر مقدار کا لحاظ رکھتی هوئی نجس کپڑا اتارنا پڑی یا پاک کپڑا میسر هونی کی صورت میں نجس کپڑا اتار کر پاک کپڑا پهننا پڑی دونوں صورتوں میں نجاست دور کرکی طواف پورا کری اور اس کی بعد کوئی ذمه داری باقی نهیں ره جاتی ورنه احوط یه هی که طواف بھی پورا کری اور نجاست دور کرنی کی بعد اس کا اعاده بھی کری، اعاده اس صورت میں کری جب که نجاست کا علم یا نجاست کا لگنا چوتھا چکر مکمل کرنی سی پهلی هو اگر چه اعاده کرنا مطلقاً واجب نهیں هی ۔

ص: 229

4۔ مردوں کا ختنه شده هونا ۔

طواف میں چوتھی شرط مردوں کا ختنه شده هونا هی ۔ احوط بلکه اظهر یه هی که ممیز بچی میں بھی یه شرط معتبر هی لیکن غیر ممیز بچه میں جسی اس کا ولی طواف کرائی ۔ اس شرط کا معتبر هونا ظاهر هی اگر چه اس صورت میں بھی احوط یه هی که اسی معتبر سمجھا جائی ۔

(301) محرم خواه بالغ هو یا ممیز بچه اگر ختنه شده نه هو تو اس کا طواف کافی نهیں هوگا۔ لهذا ختنه کی بعد دوباره طواف نه کری تو احوط یه هی که طواف مطلقا ترک کرنی والی کی حکم میں هوگا اور طواف کی ترک کرنی والی کی احکام جو آئنده بیان هونی والی هیں اس پر بھی جاری هوں گی ۔

(302) ایسا شخص جس کا ختنه نه هوا هو اور وه مستطیع هو جائی

ص: 230

تو اگر اسی سال ختنه کرکی حج پر جا سکتا هو تو حج پر جائی ورنه ختنه کرنی تک حج میں تاخیر کری۔ اگر ختنه کرانا کسی نقصان، رکاوٹ، تکلیف یا کسی اور وجه سی ممکن نه هو تو حج ساقط نه هوگا لیکن احوط یه هی که حج عمره میں خود بھی طواف کری اور کسی کو نائب بھی بنائی اور نماز طواف نائب کی طواف کی بعد پڑھی ۔

5۔ شرمگاه کو چھپانا۔

احوط یه هی که حالت طواف میں بھی اتنی هی مقدار میں شرمگاه کو چھپانا واجب هی جتنی مقدار کا نماز میں، اولی بلکه احوط یه هی که جو نمازی کی لباس کی شرائط معتبر هیں ساتر (وه چیزیں جن سی شرمگاه کو چھپایا جائی) میں، بلکه طواف کرنی والی کی تمام لباس میں ان شرائط کا خیال رکھا جائی ۔

ص: 231

واجبات طواف

طواف میں آٹھ چیزیں معتبر هیں:

1۔2 هر چکر کو حجر اسود سی شروع کرکی اسی پر ختم کرنا۔ ظاهر یه هی که یه شرط اس وقت حاصل هوگی جب حجر اسود کی جس حصی سی چکر شروع کیا جائی وهیں پر ختم کری۔ اگر چه احوط یه هی که ابتدا و انتهاء میں اپنی بدن کو تمام حجر اسود سی گزاری۔ اس احتیاط کی لیی کافی هی که حجر اسود سی کچھ پهلی کھڑا هو جائی اور طواف کی نیت اس جگه سی کی جائی جهاں سی حقیقت میں حجر اسود سی سامنا هو رها هو۔ پھر خانه کعبه کی گرد سات مرتبه چکر لگائی جائیں اور آخری چکر کی اختتام پر حجر

ص: 232

اسود سی یه نیت کرتی هوئی تھوڑا آگی تک جائی که طواف معتبر مقام سی پورا هو جائی۔ اس طرح یقین هو جائیگا که حقیقت میں حجر اسود جس جگه سی شروع هونا تھا اور جهاں ختم هونا تھا وه اس عمل سی حاصل هو گیا هی۔

3۔ طواف کرتی وقت خانه کعبه کو اپنی بائیں طرف قرار دی چنانچه اگر دوران طواف کسی رکن کو بوسه دینی یا رش کی وجه سی کعبه کی طرف رخ یا پشت هو جائی یا کعبه دائیں جانب قرار پائی تو اتنی مقدار طواف میں شمار نهیں هوگا۔ کعبه کو بائیں طرف قرار دنیی میں ظاهر هی که اگر عرفا یه کها جائی که کعبه حاجی کی بائیں طرف هی تو کافی هی جیسا که نبی کریم (ص) کی سواری پر طواف کرنی سی ظاهر هی هوتا هی۔ لهذا جب جسم کعبه کی چاروں ارکان اور حجر اسمعیل کی دو سروں سی گزر رها

ص: 233

هو تو جسم کو بائیں جانب کعبه کی طرف کرنی میں دقت اٹھانی بدن کو موڑنی کی ضرورت نهیں هی ۔

4۔ حجر اسمعیل کو بھی طواف میں شامل کرنا یعنی حج اسمعیل کی باهر سی چکر لگایا جائی نه هی اس کی اوپر سی گزری اور نه هی اندر سی ۔

5۔ طواف کرنی والا دیوار کعبه اور اس کی اطراف میں موجود چبوتری (شازروان) سی هٹ کر چلی ۔

6۔ کعبه کی گرد سات چکر لگانا، سات سی کم کافی نهیں هونگی اگر کوئی جان بوجھ کر سات سی زیاده چکر لگائی تو اس کا اطواف باطل هو جائگا۔ جس کا بیان بعد میں آئی گا۔

7۔ ساتوں چکر اس طرح سی لگائی جائیں که عرفا اسی پی در پی شمار هوں یعنی بغیر زیاده توقف کی ایک کی بعد ایک بجا لایا

ص: 234

جائی۔ اس حکم سی کچھ موارد مستثنی هیں۔ جس کا بیان بعد میں آئی گا ۔

8۔ طواف کرنی والا اپنی ارادی اور اختیار سی کعبه کی گرد چکر لگائی اگر رش یا کسی اور وجه سی کچھ مقدار بی اختیاری کی وجه سی بجا لائی تو یه کافی نهیں هوگا اور اس کا جبران اور تدارک کرنا ضروری هی ۔

(303) فقهاء کی درمیان مشهور هی که کعبه اور مقام ابراهیم کی درمیان چکر لگایا جائی۔ جس کا فاصله ساڑھی چھبیس هاتھ هی (12/2میٹر) چونکه حجر اسمعیل کو طواف کی اندر رکھنی کی وجه سی حجر اسماعیل کی جانب سی زیاده نهیں هی لیکن بعید نهیں که طواف اس حصی سی زیاده میں بھی جائز هو مگر کراهت کی ساتھ خصوصاً اس شخص کی لیی جو اس مقدار میں طواف

ص: 235

نه کر سکتا هو یا اس مقدار میں اس کیلیی طواف کرنا حرج و مشتقت کا باعث هو لیکن اگر اس مقدار میں طواف کرنا ممکن هو تو احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا بهتر هی۔

مطاف (وه جگه جهاں طواف کیا جائی) سی خارج هونا ۔

(304) اگر طواف کرنی والا مطاف سی خارج هو کر کعبه میں داخل هو جائی تو اس کا طواف باطل هو جائی گا جو دوباره کرنا هوگا۔ اگر آدھی طواف کی بعد مطاف سی باهر هو تو بهتریه هی که پهلی اس طواف کو پورا کری اور پھر دوباره طواف کری ۔

(305) اگر کوئی مطاف سی نکل کر چبوتری سی (شازروان) پر جلی تو اتنی مقدار میں طواف باطل هوگا چنانچه اتنی مقدار کا تدارک و جبران کرنا ضروری هی۔ احوط اولی یه هی که اتنی مقدار تدارک اور طواف پورا کرنی کی بعد یه طواف دوباره

ص: 236

بھی کری۔ اسی طرح احوط اولی یه هی طواف کرنی والا دوران طواف اپنی هاتھ سی کعبه کی دیوار تک ارکان وغیره کو چھونی کی لییی نه پھلائی ۔

(306) اگر طواف کرنی والا حج اسمعیل کی اندر چلا جائی چاهی مسئله نه جاننی کی وجه سی یا بھول کر تو اس کا یه چکر باطل هو جائی گا اور ضروری هی که اسی دوباره انجام دی۔ احوط یه هی که طواف پورا کرنی کی بعد دوباره انجام دی۔ حجر اسمعیل کی اوپر سی گزرنی کا بنابر احوط وه حکم هی جو حکم اندر جانی کا هی نیز احوط یه هی که طواف کرتی وقت حجر اسمعیل کی دیوار هاتھ نه رکھی۔

طواف کو توڑنا اور طواف کی چکروں کا کم هونا۔

(307) مستحب طواف کی طرح واجب طواف بھی کسی

ص: 237

ضرورت و مجبوری سی بلکه بنابر اظهر بلا ضرورت و مجبوری بھی توڑنا جائز هی ۔

(308) اگر واجب طواف چوتھا چکر پورا هونی سی پهلی بغیر کسی وجه کی توڑا جائی تو طواف باطل هو جائی گا اور دوباره بجا لانا ضروری هی لیکن اگر چوتھا چکر پورا کرنی کی بعد توڑا جائی تو احوط یه هی که اس طواف کو بھی پورا کری اور دوباره بھی انجام دی۔ تاهم مستحب طواف میں که جهاں سی توڑا گیا هو وهیں سی شروع کرکی پورا کری۔ چاهی چو تھی چکر سی پهلی توڑی یا بعد میں جب تک که عرفا موالات ختم نه هو جائی ۔

(309) اگر عورت کو دوران طواف حیض آ جائی تو واجب هی که طواف توڑ کر فورا مسجد الحرام سی باهر نکل جائی اور اس طواف کا حکم مسئله نمبر 291 میں بیان هو چکا هی۔ اسی طرح

ص: 238

اگر طواف کرنی والی سی دوران طواف حدث سرزد هو جائی یا دوران طواف اسی بدن یا لباس کی نجس هونی کا پته چل جائی تو اس کا حکم مسئله نمبر 285 اور تین سو میں بیان هو چکا هی ۔

(310) اگر بیماری یا اپنی یا کسی مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنی کی لیی کوئی اپنا واجب طواف کر چوتھا چکر سی پهلی توڑی تو ظاهر یه هی که طواف باطل هی اور دوباره کرنا ضروری هی ۔ لیکن اگر چوتھی چکر کی بعد توڑی تو اظهر یه هی که طواف صحیح هوگا لهذا واپس آکر جهاں سی توڑا تھا وهیں سی شروع کری اور احوط یه هی که اسی پورا کرنی کی بعد دوباره بھی بجا لائی تاهم مستحب طواف میں جائز هی که جهاں سی چھوڑا تھا وهیں سی شروع کری چاهی چوتھی چکر سی پهلی چھوڑا هو۔

ص: 239

(311) طواف کی دوران آرام کرنا بیٹھنا یا لیٹنا جائز هی لیکن ضروری هی که اتنی دیر بیٹھی یا لیٹی که تسلسل کا تاثر ختم نه هو۔ چنانچه اتنی دیر لیٹنی یا بیٹھنی سی تسلسل ٹوٹ جائی تو طواف باطل هو جائی گا لهذا پھر سی شروع کرنا ضروری هی ۔

(312) اگر کوئی واجب نماز کو وقت پر پڑھنی کی لیی یا نماز کو جماعت سی پڑھنی کی لیی یا نافله نماز کو پڑھنی کی لیی جب که اس کا وقت تنگ هو طواف توڑی تو جهاں سی طواف چھوڑا هی نماز کی بعد وهیں سی شروع کری چاهی طواف واجب هو یا مستحب اور چاهی چوتھی چکر سی پهلی چھوڑا هو یا بعد میں اگر چه احوط یه هی که جب طواف چوتھی چکر سی پهلی چھوڑا هو تو اس طواف کو پورا کرکی دوباره طواف کری ۔

(313) اگر طواف میں بھولی سی کمی هو جائی اور تسلسل

ص: 240

ختم هونی سی پهلی یاد آجائی تو کمی کو پورا کری اور اس کا طواف صحیح هوگا۔ اسی طرح اگر تسلسل ختم هونی کی بعد یاد آئی اور ایک یا دو یا تین چکر بھولا هو تو انهیں بجا لائی اور اس کا طواف بھی صحیح هو جائی گا۔ اگر خود انجام دینی) پر قادر نه هو چاهیی اس لیی که اپنی شهر واپس آکریاد آیا هو تو کسی کو نائب بنائی۔ لیکن اگر تین سی زیاده چکر بھول گیا هو هو تو واپس جا کر جتنی چکر کم هوں انهیں انجام دی۔ احوط یه هی که اس طواف کو پوراکرنی کی بعد دوباره بھی انجام دی ۔

طواف میں زیادتی

طواف میں زیادتی کی پانچ صورتیں هیں:

1۔ طواف کرنی والا زیادتی کو اس طواف یا دوسری طواف کا جز نه سمجھی یعنی سات چکر پوری کرنی کی بعد مستحب کی

ص: 241

نیت سی ایک اور چکر انجام دینی سی طواف باطل نهیں هوگا۔

2۔ طواف شروع کرتی وقت هی یه اراده هو که زائد حصی کو اس طواف کی جز کی نیت سی انجام دی گا تو اس صورت میں اس کا طواف باطل هی اور ضروری هی که طواف کو دوباره انجام دی۔۔ اسی طرح اگر طواف کی دوران اس قسم کا اراده کری اور کچھ حصه زیاده انجام دی تو یهی حکم هی لیکن اگر زیاده حصه نیت کی بعد انجام نه دی تو نیت کرنی سی پهلی والی چکر کی باطل هونی میں اشکال هی ۔

3۔ زائد چکر اس نیت سی کری که جس طواف سی فارغ هوا هی یه اس کا جز هی جبکه عرفا موالات ختم نه هوا هو یعنی طواف سی فارغ هونی کی بعد زاید چکر کی جز هونی کا قصد کری تو اظهر یه هی که طواف باطل هی ۔

ص: 242

4۔ زائد چکر اس نیت سی کری که یه دوسری طواف کا جز هی اور پھر دوسری طواف کا کوئی بھی جز بجا نه لائی تو اس صورت میں نه هی زیادتی وجود میں آیئگی اور نه هی قران هوگا لیکن بعض صورتوں میں ممکن هی که اس وجه سی طواف کرنی والی کو قصد قربت حاصل نه هونی کی وجه سی اس کا طواف باطل بھی هو سکتا هی مثلا کوئی شخص قران کی نیت رکھتا هو جو که حرام هی اور جانتا بھی هو که قران کی وجه سی طواف باطل هو جاتا هی تو اس صورت میں قصد قربت ثابت نهیں اگرچه اتفاقا عملی طور پر قران بھی واقع نه هو ۔

(314) اگر سهوا طواف میں چکر زیاده هو جائی اور رکن عراقی تک پهنچنی کی بعد یاد آئی تو زائد چکر کو باقی چکروں کی ساتھ ملا کر طواف کو پورا کری۔ بنابر احوط یه هی که طواف واجب یا

ص: 243

مستحب کا تعین کیی بغیر یعنی مطلقا قصد قربت سی انجام سی دی اور اس کی بعد چار رکعت نماز پڑھی افضل بلکه احوط یه هی که دونوں نمازوں کو جدا جدا پڑھی یعنی دو رکعت سعی سی پهلی واجب طواف کی نیت سی اور دو رکعت سعی کی بعد مستحب طواف کی نیت سی اسی طرح اگر رکن عراقی تک پهنچنی سی پهلی یاد آئی تو بھی بنا بر احوط یهی حکم هی ۔

چکروں کی تعداد میں شک

(315) چکروں کی تعداد یا چکروں کی صحیح هونی کی باری میں شک طواف کی بعد یا موقع گزر جانی کی بعد شک هو تو اس شک کی پرواه نه کی جائی۔ اسی طرح اگر تسلسل کی ختم هونی

ص: 244

یا نماز طواف شروع کرنی کی بعد شک هو تو اس کی بھی پرواه نه کی جائی ۔

(316) اگر سات چکروں کا یقین هو اور زیاده کی بار ی میں شک هو که یه آٹھواں چکر تھا تو ایسی شک کی پرواه نه کی جائی اور یه طواف صحیح هوگا لیکن اگر یه شک آخری چکر پورا هونی سی پهلی هو تو اظهر یه هی که طواف باطل هی چنانچه احوط یه هی که رجاء اسی بھی پورا کری اور دوباره بھی انجام دی ۔

(317) اگر چکر کی اختتام یا چکر کی دوران شک کری که تیسرا چکر هی یا چوتھا، پانچواں هی یا چھٹا یا سات چکروں سی کم کا شک هو تو طواف باطل هو جائی گا حتی که اگر چکر کی اختتام پر چھ اور سات کا شک هو جائی تب بھی احوط یه هی که طواف باطل هی اگر اسی طرح سات سی کم یا زیاده کا شک هو مثلا

ص: 245

آخری چکر کا چھٹا، ساتواں یا آٹھواں هونی میں شک هو تب بھی طواف باطل هی ۔

(318) اگر کسی کو چھ اور سات میں شک هو اور حکم نه جاننی کی وجه سی وه چھٹا سمجھتی هوئی اپنا طواف تمام کری اور اس کی جهالت، جبران و تدارک کا وقت ختم هونی تک برقرار رهی تو بعید نهیں که اس کا طواف صحیح هو ۔

(319) طواف کرنی کی لیی جائز هی که اگر اس کی ساتھی کو اس کی چکروں کی تعداد کا یقین هو تو وه اس کی بات پر اعتماد کر سکتا هی ۔

(320) اگر کوئی عمره تمتع میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دی تو چاهی حکم و مسئله جانتا هو اور طواف اور عمره کی باقی اعمال روز عرفه کی زوال آفتاب تک انجام دینا ممکن نه هو تو اس کا

ص: 246

عمره باطل هوگا چنانچه احوط یه هی که اگر مسئله نه جانتا هو تو ایک اونٹ کفاره بھی دی جیسا که اس کا ذکر طواف کی باب میں گذر چکا هی۔ اگر حج میں جان بوجھ کر طواف چھوڑ دی تو خواه مسئله جانتا هو یا نه جانتا هو اور اس کا طواف کا جبران کرنا بھی ممکن نه هو تو اس کا حج باطل اور اگر مسئله نه جاننی کی وجه سی چھوڑا هو تو ایک اونٹ کفاره دینا بھی ضروری هی ۔

(322) اگر بھول کر طواف چھوڑ دی اور اس کا وقت ختم هونی سی پهلی یاد آجائی تو اس کا تدارک و جبران کری اور اظهر یه هی که سعی بھی طواف کی بعد دوباره انجام دی۔ اگر وقت ختم هونی کی بعد یاد آئی مثلا عمره تمتع کا طواف وقوف عرفات تک بھولا رهی یا حج کا طواف ماه ذی الحجه تمام هونی تک یاد نه آئی تو طواف کی قضا واجب هی اور احوط یه هی که

ص: 247

سعی بھی طواف کی بعد دوباره انجام دی ۔

(323) اگر کوئی طواف بھول جائی یهاں تک که وطن واپس پهنچ کر اپنی بیوی سی مجامعت کر لی تو واجب هی که اگر حج کا طواف بھولا هو تو ایک قربانی منی بھیجی اور اگر عمره کا طواف بھولا هو تو ایک قربانی مکه بھیجی اور دنبه کی قربانی کافی هی۔

(324) اگر بھولا هوا طواف اس وقت یاد آئی جب خود طواف انجام دی سکتا هو تو طواف کی قضا بجا لائی چاهی احرام اتار چکا هو تاهم دوباره احرام باندھنی کی ضرورت نهیں هی لیکن اگر مکه سی نکل جانی کی بعد یاد آئی تو مکه میں داخل هونی کی لیی احرام باندھنا ضروری هی۔ سوائی ان حالتوں کی جن کا بیان مسئله 141 میں هو چکا هی ۔

(325) وه چیزیں جو محرم پر حرام تھیں اور جن کا حلال هونا

ص: 248

طواف پر موقوف تھا وه طو اف بھولنی والی پر اس وقت تک حلال نهیں هونگی جب تک وه خود یا اس کا نائب طواف کی قضا نه کری ۔

(326) اگر مکلف کسی بیماری، هڈی ٹوٹنی یا کسی اور وجه سی خود طواف نه کر سکتا هو اور نه هی کسی کی مدد سی انجام دی سکتا هو تو واجب هی که اسی طواف کروایا جائی یعنی کوئی دوسرا شخص اسی کندھوں پر اٹھا کر طواف کرائی یا کسی گاڑی وغیره میں بیٹھا کر طواف کرائی، احوط اولی یه هی که طواف کرتی وقت حاجی کی پاؤں زمین کو چھو رهی هوں۔ اگر اس طرح سی بھی طواف کرنا ممکن نه هو تو واجب هی که اگر نائب بنا سکتا هو تو نائب بنائی جو اس کی جانب سی طواف کری۔ اگر نائب نه بنا سکتا هو مثلا بیهوش هو تو اس کا ولی یا کوئی اور شخص

ص: 249

اس کی جانب سی طواف کری یهی حکم نماز طواف کا بھی هی لهذا اگر مکلف قدرت رکھتا هو توتو خود نماز پڑھی اور اگر خود نه پڑھ سکتا هو تو کسی کو نائب بنائی۔ (حائض اور نفساء کا حکم شرائط طواف میں بیان هو چکا هی)۔

نماز طواف

عمره تمتع میں تیسرا واجب نماز طواف هی ۔

یه دو رکعت نماز هی جو طواف کی بعد پڑھی جاتی هی۔ یه نماز نماز فجر کی طرح هی لیکن اس کی قرائت میں بلند آواز یا آهسته سی پڑھنی میں اختیار هی اور واجب هی که یه نماز مقام ابراهیم کی قریب پڑھی جائی اور اظهر یه هی که مقام ابراهیم کی پیچھی

ص: 250

پڑھنا ضروری هی۔ اگر مقام ابراهیم کی قریب پیچھی کی طرف پڑھنا ممکن نه تو احوط یه هی که مقام ابراهیم کی نزدیک دائیں یا بائیں طرف پڑھی یا اس کی پیچھی دور کھڑی هوکر پڑھی۔ اگر یه بھی ممکن نه هو تو ان دو جگهوں میں سی جهاں ممکن هو وهاں پڑھی اور احوط اولی یه هی که مقام ابراهیم کی پیچھی جتنی قریب میں نماز پڑھنا ممکن هو جائی بهتر هی۔

بناء بر احوط اولی بعد میں سعی کی لیی وقت تنگ نه هونی کی صورت میں مقام ابراهیم کی نزدیک یا اس کی پیجھی نماز پڑھنا ممکن هو تو اسی چاهیی که دوباره نماز پڑھی ۔

یه واجب طواف کا حکم هی جب که مستحب طواف میں مکلف کو حق هی حتی که اختیاری طو ر پر بھی که مسجد میں جس جگه چاهی نماز پڑھی ۔

ص: 251

(327) جو شخص جان بوجھ کر نماز طواف نه پڑھی، احوط یه هی که اس کا حج باطل هی ۔

(328) احوط یه هی که طواف کی بعد فورا نماز طواف پڑھی جائی یعنی عرفا طواف اور نماز طواف میں فاصله نه هو۔

(329) اگر نماز طواف بھول جائی اور وه اعمال جو ترتیب میں اس کی بعد هیں مثلا سعی کی بعد اسی یاد آئی تو نماز طواف پڑھی اور جو اعمال انجام دی چکا هو ان کا دوباره انجام دینا ضروری نهیں هی اگر چه تکرار کرنا احوط هی لیکن اگر سعی کی دوران یاد آجائی تو سعی چھوڑ کر مقام ابراهیم کی پیچھی نماز پڑھی اور پھر سعی کو جهاں سی چھوڑا تھا وهاں سی شروع کرکی تمام کری۔ اگر مکه سی نکل جانی کی بعد یاد آئی تو اگر مشقت و زحمت کا باعث نه هو تو احوط یه هی که واپس جاکر نماز

ص: 252

کو اس جگه پر پڑھی ورنه جهاں یاد آئی وهیں پڑھ لی۔ حرم جاکر پڑھنا ضروری نهیں هی خواه لوٹنا ممکن هو ۔ جو شخص مسئله نه جاننی کی وجه سی نماز طواف نه پڑھی اس کا حکم وه هی جو نماز بھول جانی والی کا هی اور جاهل قاصر و مقصر کی حکم میں فرق نهیں هی ۔

(330) اگر کوئی مر جائی اور اس پر نماز طواف واجب هو اور قضا نمازوں کی باب میں مذکوره شرائط موجود هوں تو اس کا بڑا بیٹا اس کی قضا انجام دی ۔

(331) اگر نماز کی قرائت میں اعراب کی غلطی هو اور وه اس کی درستگی نهیں کر سکتا هو تو اس غلطی کی ساتھ سوره حمد کا پڑھنا کافی هی بشرطیکه زیاده مقدار اچھی قرائت کی ساتھ پڑھ سکتا هو ۔

لیکن اگر زیاده قرائت درست قرائت کی ساتھ نهیں پڑھ سکتا تو

ص: 253

احتیاط یه هی که اپنی اس قرائت کی ساتھ پوری قران میں جو درست قرائت کر سکتا هو قرائت کری اور اگر یه نا ممکن هو تو تسبیحات پڑھی ۔

اگر وقت کی تنگی کی وجه سی پوری قرائت درست نهیں کر سکتا تو جتنی زیاده مقدار درست کر سکتا هو تو اسی کو پڑھی۔ اگر اس کی زیاده مقدار بھی درست قرائت نه کر سکی تو قرآن کی وه آیات جن کی قرائت درست پڑھ سکتا هی پڑھی مگر اتنا پڑھی که عرف میں اسی قرآئت قرآت کها جا سکی اور اگر یه بھی نهیں کر سکتا تو تسبیحات کا پڑھنا کافی هی۔ یه جو کچھ بیان هوا هی وه سوره حمد کی باری میں اور سوره حمد کی بعد والی سوره کی باری میں ظاهر یه هی که جس شخص نی اسی یاد نهیں کیا یا یاد نهیں کر سکتا اس پر واجب نهیں هی اور مذکوره حکم هر اس شخص کی لیی

ص: 254

هی جو صحیح قرآئت نهیں کر سکتا هی۔ چاهی نه سیکھنی میں مقصر هی کیوں نه هو لیکن مقصر هونی کی صورت میں احوط اولی یه هی که مذکوره طریقی سی نماز پڑھی اور جماعت کی ساتھ بھی پڑھی نیز اپنی طرف سی کسی کو نائب بنائی جو اس کی طرف سی نماز ادا کری ۔

(332) اگر قرائت میں اعراب کو صحیح ادا نه کر سکتا هو اور نه جاننی میں معذور هو تو اس کی نماز صحیح هوگی اور دوباره نماز پڑھنی کی ضرورت نهیں هی ۔اور اس پر بھول کر نماز طواف چھوڑ دینی والی کی احکام جاری گا۔

ص: 255

سعی

عمره تمتع کا چوتھا واجب سعی هی ۔

سعی کو قصد قربت اور خلوص سی ادا کرنا معتبر هی ۔ شرمگاه کو چھپانا یا حدث و خبث سی پاک هونا شرط نهیں تاهم بهتر یه هی که طهارت کو ملحوظ خاطر رکھا جائی۔

(333) سعی کو طواف اور نماز طواف کی بعد انجام دینا چاهیی لهذا اگر کوئی طواف یا نماز طواف سی پهلی انجام دی تو طواف اور نماز کی بعد دوباره انجام دینا واجب هی ۔ وه شخص کو طواف بھول جائی اور اسی سعی کی بعد اسی یاد اسکا حکم

ص: 256

بیان هو چکا هی ۔

(334) سعی کی نیت میں یه معین کرنا معتبر هی که یهج عمره کی سعی هی یا حج کی ۔

(335) سعی میں سات چکر هیں ۔پهلا چکر صفا سی شروع هو مروه پر هی جب که دوسرا چکر مروه سی شروع هو کر صفا پر ختم هوتا هی اور تیسرا چکر پهلی چکر کی طرح هوگا اسی طرح چکروں کو شمار کیا جائی گا۔

یهاں تک که ساتواں چکر مروه پر ختم هوگا هر چکر صفا و مروه کی درمیان کا پورا راسته طی کرنا معتبر هی اور ان پهاڑیوں پر چڑھنا واجب نهیں اگر چه اولی اور احوط هی ۔ اسی طرح احوط هی که اس بات کو مد نظر رکھا جائی که حقیقت میں پورا راسته طی کرتی هوئی مروه کی ابتدائی حصی تک جائی اور باقی چکر بھی

ص: 257

اس طرح مکمل کری ۔

(336) اگر کوئی مروه سی سعی شروع کری چاهی بھولی سی شروع کری پھر بھی جو چکر اس نی لگایا هی وه بیکار هوگا اور ضروری هی که سعی کو پھر سی شروع کری ۔

(337) سعی میں پیدل چلنا معتبر نهیں هی بلکه حیوان یا کسی اور چیز پر سوار هو کر بھی سعی کی جا سکتی هی ۔ لیکن افضل چلنا هی ۔

(338) سعی سی متعارف راستی سی آنا اور جانا معتبر هی۔ لهذا اگر کوئی غیر متعارف راستی سی مسجدالحرام یا کسی اور راستی سی جائی یا آئی تو یه کافی نهیں هی۔ تاهم بالکل سیدھا یا جانا یا آنا معتبر نهیں هی ۔

(339) مروه کی طرف جاتی هوئی رخ صفا کی طرف اور مروه

ص: 258

سی صفا کی طرف جاتی هوئی صفا کی طرف رخ هونا ضروری هی۔ لهذا اگر کوئی مروه کی طرف جاتی هوئی پشت کر لی یا صفا طرف واپس آتی هوئی صفا کی جانب پشت کری تو یه کافی نییں هی لیکن آتی یا جاتی هوئی دائیں بائیں یا پیچھی دیکھنی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

(340) احوط یه هی که طواف کی طرح سعی میں بھی موالات عرفی کو ملحوظ رکھا جائی تاهم صفا یا مروه یا ان کی درمیانی راستی میں آرام کی لیی بیٹھنی میں کوئی حرج نهیں هی۔ اگر چه احوط یه هی که صفا اور مروه کی درمیان تھکنی کی علاوه نه بیٹھا جائی۔ اسی طرح سعی کو روک کر نماز افضل وقت میں پڑھنا اور نماز کی بعد سعی جو دوباره وهیں سی شروع کرنی میں کوئی حرج نهیں هی۔ سعی کو کسی ضرورت کی بغیر کسی ضرورت کی لیی توڑنا

ص: 259

بھی جائز هی۔ لیکن اگر تسلسل خراب هو جائی تو احوط یه هی که اس سعی کو بھی مکمل کری اور دوباره بھی انجام دی ۔

احکام سعی

سعی ارکان حج میں سی ایک رکن هی لهذا اگر کوئی مسئله نه جانتی هوئی یا خود سعی کی باری میں علم نه رکھنی کی وجه سی جان بوجھ کر سعی کو اس وقت تک ترک کردی که اعمال عمره کو عرفه کی دن زوال آفتاب سی پهلی تک انجام دینا ممکن نه هو تو اس کا حج باطل هی۔ اس کا حکم وهی هی جو اس طرح طواف کو چھوڑ دینی والی کا حکم هی جو طواف کی باب میں بیان هو چکا هی ۔

ص: 260

(341) اگر بھول کر سعی چھوٹ جائی تو جب بھی یاد آئی خواه اعمال حج سی فارغ هونی کی بعد یاد آئی سعی ادا کی جائی اگر خود ادا کرنا ممکن نه هو یا حرج و مشقت و زحمت جو تو کسی دوسری کو سعی کی لیی نائب بنایا جائی اور دونوں صورتوں میں حج صحیح هوگا ۔

(342) جو شخص سعی کو اس کی وقت مقرره پر انجام دینی پر قادر نه هو اور کسی کی مدد سی بھی سعی نه کر سکتا هو تو واجب هی که کسی کی مدد طلب کری تا که وه دوسرا شخص اسی کندھوں پر اٹھا کر یا کسی گاڑی وغیره نهیں بیٹھا کر سعی کرائی۔ اگر اس طرح سی بھی سعی نه کر سکتا هو تو کسی کو سعی کی لیی نائب بنائی اور نائب بنانی پر قادر نه هو مثلا بیهوش هو تو اس کا ولی یا کوئی اور شخص اسی جانب سی سعی انجام دی، اس طرح اس

ص: 261

کا حج صحیح هوگا ۔

(343) طواف اور نماز طواف سی فارغ هونی کی بعد احتیاط کی بناء پر سعی میں جلدی کی جائی۔ اگر چه ظاهر یه هی که رات تک تاخیر کرنا جائز هی تا که تھکن دور هو جائی یا گرمی کی شدت کم هو جائی۔ بلکه اقوی یه هی که بغیر سبب کی بھی رات تک تاخیر کرنا جائز هی لیکن حالت اختیار میں اگلی دن تک تاخیر کرنا جائز نهیں هی۔

(344) سعی میں چکروں کی زیاده هونی کا وهی حکم هی جو طواف میں چکروں زیاده هونی کا هی لهذا طواف کی باب میں مذکوره بیان کی مطابق سعی میں بھی جان بوجھ کر زیادتی کی جائی تو سعی باطل هو گی۔ لکین اگر مسئله نه جانتا هو تو اظهر یه هی که زیادتی کی وجه سی سعی باطل نهیں هوگی اگر چه احوط یه هی که سعی

ص: 262

دوباره انجام دی جائی۔

(345) اگر غلطی سی سعی میں اضافه هو جائی تو سعی صحیح هوگی اور ایک چکر یا اس سی زیاده اضافه هو تو مستحب یه هیکه اس سعی کی بھی سات چکر پوری کیی جائیں تاکه یه پهلی سعی کی علاوه مکمل سعی هو جائی چنانچه اس کی سعی کا اختتام صفا پر هوگا۔

(346) اگر کوئی جان بوجھ کر سعی کی چکروں کو کم یا زیاده انجام دی جاهی مسئله جانتی هوئی یا نه جانتی هوئی تو اس کا حکم اس شخص کی حکم کی طرح هی جو جان بوجھ کر سعی کو چھوڑ دی جس کا بیان پهلی هو چکا هی۔ لیکن اگر بھول کر کمی هو جائی تو اظهر یه هی که جب یاد آجائی تو اس وقت اس کمی کو پورا کری چاهی وه ایک چکر هو یا ایک سی زیاده چکر هوں اگر سعی کا وقت ختم هونی کی بعد یاد آئی مثلا عمره تمتع کی سعی میں

ص: 263

کمی عرفات میں یاد آئی کیا حج کی سعی میں کمی کی طرف۔ ماه ذی الحجه گزرنی کی بعد متوجه هو تو یه که کمی کو پورا کرنی کی بعد سعی کو بھی دوباره انجام دی جائی۔ اگر خود انجام نه دی سکتا هو یا خود انجام دینی میں زحمت و مشقت هو تو کسی نائب بنانی اور احتیاط یه هی که نائب بھولی هوئی چکر کا جبران بھی کری سعی بھی دوباره انجام دی ۔

(347) اگر کسی سی عمره تمتع کی سعی میں بھول کر کمی هو جائی اور یه شخص یه سمجھتی هوئی که سعی سی فارغ جو گیا هی احرام کھول دی تو احوط یه هی که ایک گائی کفاره دی اور بیان شده ترتیب کی مطابق سعی کو مکمل کری ۔

ص: 264

سعی میں شک

سعی کا موقع گذرنی کی بعد اگر سعی کی چکروں کی تعداد یا ان کی صحیح هونی کی باری میں شک هو تو اس شک کی پرواه نه کی جائی مثلا عمره تمتع میں تقصیر کی بعد سرعی کی چکروں کی تعداد یا صحیح هونی کا شک یا حج میں طواف النساء شروع هونی کی بعرد شک هو تو اس شک کی پرواه نه کی جائی۔ اگر سعی سی فارغ هونی کی بعد هی چکروں کی زیاده هونی کی باری میں شک هو تو سعی کو صحیح سمجھا جائی ۔ اگر چکروں کی کم هونی کا شک تسلسل ختم هونی سی پهلی هو تو سعی باطل هوگی بلکه احتیاط کی بناپر تسلسل ختم هونی کی بعد شک هو تب بھی سعی باطل هو گی۔

ص: 265

(348) اگر چکر کی اختتام پر زیاده هونی کا شک هو مثلا مروه پهچ کر شک هو که یه ساتواں چکر تھا یا نواں تو اس شک کی پرواه نه کی جائی اور یه سعی صحیح هوگی۔ اگر چکر کی دوران یه شک هو تو سعی باطل هی اور واجب هی که سعی پھر سی شروع کی جائی ۔

(349) سعی کی دوران شک کا حکم وهی هی جو طواف کی دوران چکروں کی تعداد میں شک کا حکم هی چنانچه سعی کی دوران چکرواں کی تعداد کی شک سی هر صورت میں سعی باطل هی ۔

ص: 266

تقصیر

عمره تمتع میں پانچواں واجب تقصیر هی ۔

تقصیر میں قصد قربت اور خلوص معتبر هی تقصیر کا مطلب یه هی که حاجی اپنی سر، داڑھی یا مونچھوں کی کچھ بال کاٹی ۔اظهر یه هی که کاٹنی کی بجائی نوچنا کافی نهیں هی۔ فقهاء کی درمیان مشهور هی که هاتھ پاؤں کا کوئی ناخن کاٹنی سی بھی تقصیر وجود میں آ جاتی هی لیکن احوط یه هی که ناخن کاٹنی کو کافی نه سمجھا جائی اور بال کاٹنی تک اس کو کاٹنی میں تاخیر کی جائی۔

(350) عمره تمتع کی احرام کو صرف تقصیر هی کی ذریعی کھولا جا سکتا هی۔ سر منڈوانا کافی نهیں هی بلکه سر منڈوانا حرام هی لهذا کوئی جان بوجھ کر سر مونڈھ لی تو ضروری هی که ایک بکری

ص: 267

کفاره دی بلکه احوط اولی یه هی که چاهی جان بوجھ کر نه بھی مونڈھی تب بھی کفاره دی۔

(351) اگر کوئی سعی کی بعد اور تقصیر سی پهلی اپنی بیوی ساتھ جان بوجھ کر همبستری کری تو ایک اونٹ کفاره دی جیسا که تروک احرام کی بحث میں بیان هوا۔ لیکن حکم شرعی نه جانتی هوئی یه فعل انجام دی تو اظهر یه هی که اس پر کفاره واجب نهیں هوگا ۔

(352) تقصیر کو سعی کی بعد انجام دینا چاهی لهذا سعی کو مکمل هونی سی پهلی تقصیر انجام دینا جائز هی ۔

(353) سعی کی بعد تقصیر فورا انجام دینا واجب نهیں اور جائز هی که تقصیر کو کسی بھی جگه انجام دی خواه سعی کی جگه پر یا اپنی گھر میں یا کسی اور جگه ۔

ص: 268

(354) اگر کوئی جان بوجھ کر تقصیر چھوڑ دی اور پھر حج کی لیی احرام باندھ لی تو ظاهر هی که اس کا عمره باطل هو جائی گا اور اس کا حج، حج افراد میں تبدیل هو جائی لهذا اگر حج کی بعد اگر ممکن هو تو عمره مفرده کری اور احوط یه هی که اگلی سال دوباره حج انجام دی۔

(355) جب عمره تمتع میں محرم شخص تقصیر انجام دی تو جو چیزیں احرام کی وجه سی حرام هوئیں تھیں حلال هو جائیں گی حتی که اظهر یه هی که سر منڈوانا بھی حلال هو جائی گا اگر چه احوط یه هی که عید الفطر سی تیس دن گزرنی تک سر مونڈنی سی اجتناب کری۔ اگر کوئی یه جانتی هوئی بھی عمدا سر مونڈھی تو احوط اولی یه هیی که ایک قربانی کفاره دی ۔

ص: 269

(357) عمره تمتع میں طواف النساء واجب نهیں هی لیکن رجاء کیا جا سکتا هی۔

احرام حج

پهلی بیان هو چکا هی که حج کی واجبات تیره هیں جن کا اجمالا ذکر کیا گیا اور اب ان کی تفصیل بیان کی جارهی هی۔

1۔ احرام

احرام۔ حج کا اول وقت ترویه کی دن (8 ذی الحجه) زوال کا وقت هی۔ تاهم بوڑھی اور بیمار شخص کو جب هجوم کا خوف هو تو ان کی لیی جائز هی که ترویه کی دن سی پجلی دوسری لوگوں کی نکلنی سی پهلی احرام باندھ کر مکه سی نکل جائیں۔ اسی طرح وه شخص جس کی لیی طواف حج کو دو وقوف سی پهلی انجام دینا

ص: 270

جائز هی۔ مثلا وه عورت جسی حیض کا خوف هو تو اس کی لیی بھی پهلی احرام باندھنا جائز هی۔ پهلی بیان هو چکا هی که عمره تمتع سی فارغ هونی کی بعد کسی وقت بھی حج کی احرام میں مکه سی کسی کام کی لیی باهر جانا جائز هی مذکوره موقعوں کی علاوه بھی تین دن پهلی بلکه اظهر یه هی که تین دن سی پهلی بھی احرام باندھنا جائز هی ۔

(398) جس طرح عمره تمتع کرنی والی کی لیی تقصیر سی پهلی حج کی لیی هرام باندھنا جائز نهیں هی اسی طرح حج کرنی والی کی لیی بھی حج کی احرام کو اتارنی سی پهلی عمره مفرده کی لیی احرام باندھنا جائز بهیں هی حاجی پر طواف النساء کی علاوه کچھ باقی نه رها هو تب بھی بنابر احوط احتیاط حج کا احرام اتارنی سی پهلی عمره مفرده کا احرام نهیں باندھ سکتا۔

ص: 271

(359) جو شخص اختیاری طور پر یوم عرفه کی وقوف کا پورا وقت عرفه میں حاصل کر سکتا هو اس کی لیی جائز نهیں هی که وه احرام باندھنی میں اتنی دیر کری که پھر عرفه کی وقوف کا وقت پورا حاصل نه کر سکی ۔

(360) حج اور عمره کی احرام کا طریقه واجبات اور محرمات میں ایک هی هی صرف نیت کا فرق هی ۔

(361) واجب هی که احرام مکه سی باندھا جائی جیسا که میقاتوں کی بحث میں بیان هوا۔ احرام باندھنی کی سب سی افضل جگه مسجد الحرام هی اور مستحب هی که مقام ابراهیم یا حجر اسمعیل میں دو رکعت نماز پڑھنی کی بعد احرام باندھا جائی ۔

(362) جو شخص بھول کر یا حکم شرعی نه جاننی کی وجه سی

ص: 272

احرام کو چھو ڑ دی یهاں تک که مکه سی باهر چلا جائی پھر اسی یاد آئی یا مسئله کا پته چلی تو اس پر مکه واپس جانا واجب هی خواه عرفات سی واپس جانا پڑی اور پھر مکه سی احرام باندھی۔ اگر وقت تنگ هونی یا کسی اور وجه سی واپس نه جا سکتا هو تو جهاں هو وهیں سی احرام باندھ لی ۔یهی حکم هی جب وقوف عرفات کی بعد یاد آئی یا مسئله پته چلی خواه مکه واپس جانا اور وهاں سی احرام باندھنا ممکن هو اگر یاد هی نه آئی یا مسئله هی پته نه چلی یهاں تک که حج سی فارغ هو جائی تو حج صحیح هو گا ۔

(363) اگر کوئی احرام کو واجب جانتی هوئی جان بوجھ کر چھوڑ دی یهاں تک که عرفات میں وقوف کا وقت بھی اسکی وجه سی ختم هو جائی تو اس کا حج باطل هو گا۔ لیکن اگر وقوف، جو که رکن هی، اس کی ختم هونی سی پهلی احرام کا جبران کر

ص: 273

لی تو اگر چه گنهگار هوگا تاهم اس کا حج باطل نهیں هوگا۔

(364) احتیاط یه هی که حج تمتع کرنی والا شخص حج کا احرام باندھنی کی بعد اور عرفات سی نکلنی سی پهلی مستحب طواف نه کری اور اگر کوئی مستحب طواف کری تو احو ط اولی یه هی که طواف کی بعد دوباره تلبیه کهی ۔

ص: 274

وقوف عرفات

حج تمتع کی واجبات میں دوسرا واجب وقوف عرفات هی۔ جسی قربة الی الله اور خلوص نیت سی انجام دینا چاهیی۔ وقوف عرفات سی مراد یه هی که حاجی عرفات میں موجود هو اس سی فرق نهیں پڑتا که سواری کی حالت میں هو پیاده، متحرک هو یا حالت سکون میں ۔

(365) میدان عرفات کی حدود عرنه، ثوبه اور نمره کی میدان سی ذی المجاز تک اور مازین کی آخر موقف (وقوف کی جگه) تک هی۔ البته یه خود حدود عرفات هیں اور وقوف کی جگه سی خارج هی ۔

ص: 275

(366) ظاهر یه هی که رحمت نامی پهاڑی وقوف کی جگه میں شامل هی لیکن پهاڑی کی دامن میں بائیں جانب قیام کرنا افضل هی۔

(367) وقوف میں معتبر یه هی که وهاں سی رهنی کی نیت سی ٹھری پس اگر حاجی اول وقت میں وهاں ٹهرنی کی نیت کری مثلا آخر تک سوتا رهی یا بیهوش رهی تو یه کافی هی۔ لیکن اگر نیت سی پهلی سوتا رهی یا بیهوش رهی تو وقوف ثابت نهیں هوگا۔ اسی طرح اگر وقوف کی نیت کرکی وقوف کا پورا وقت سوتا رهی یا بیهوش رهی تو اس وقوف کی کافی هونی میں اشکال هی ۔

(368) واجب هی که نویں ذی الحجه کو عرفات میں حاضر هو اور بنا بر احتیاط زوال آفتاب کی ابتدا سی غروب تک وهاں رهی

ص: 276

اظهر یه هی که زوال سی اتنی دیر تاخیر کر سکتا هی که غسل کرکی ظهر و عصر کی نماز ملا کر پڑھ لی۔ اگر چه اس پوری وقت میں وهاں رهنا واجب هی اور کوئی جان بوجھ کر چھوڑی تو گنهگار هوگا مگر یه که یه رکن نهیں هی۔ یعنی اگر وقوف کی وقت اگر کچھ مقدار چھوڑ دی تو اس کا حج باطل نهیں هوگا۔ تاهم اگر کوئی اختیار پورا وقوف چھوڑ دی تو اس کا حج باطل هو جائی گا۔ لهذا وقوف میں سی جو رکن هی وه فی الجمله (یعنی کچھ مقدار قیام) رکن هی (نه که پورا وقوف)۔

(369) اگر کوئی شخص بھول کر یا لاعلمی کی وجه سی کسی اور عذر کی وجه سی عرفات کی اختیاری قیام (دن میں قیام) کو حاصل نه کر سکی تو اس کی لیی وقوف اضطراری هی۔ شب عید ضروری هی اور اس کا حج صحیح هوگا اور اگر جان بوجھ کر وقوف

ص: 277

اضطراری کو چھوڑ دی تو حج باطل هو جائیگا۔ یه حکم اس وقت هی که جب اس کی لیی وقوف اضطراری کو اس طرح سی حاصل کرنا ممکن هو که اس کی وجه سی طلوع آفتاب سی پهلی وقوف مشعر ختم نه هوتا هو۔ لیکن اگر عرفات میں وقوف اضطراری سی وقت مقرره وقوف مشعر کی ختم هونی کا خوف هو تو صرف وقوف مشعر پر اکتفا کرنا واجب هی اور اس کا حج صحیح هوگا۔

(370) جان بوجھ کر غروب آفتاب سی پهلی عرفات سی باهر جانا حرام هی لیکن اس کی وجه سی حج باطل نهیں هوتا چنانچه اگر کوئی جاکر واپس آجائی تو اس کا کفاره واجب نهیں هی ورنه ایک اونٹ کفاره واجب هوگا۔ جسی عید دن قربان کی دن نحر کری ۔ احوط یه هی که اونٹ کو منی میں قربان کری نه که مکه میں اگر

ص: 278

قربانی کرنا ممکن نه هو تو مکه میں یا راستی میں یا گھر واپس آکر اٹھاره روزی رکھی۔ احوط اولی یه هی که روزی پی در پی رکھی یهی حکم اس شخص کیلیی هی بھی هی جو بھول کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی عرفات سی باهر نکلی۔ لهذا جب بھی اسی یاد آئی یا مسئله پته چلی اس پر عرفات میں واپس جاننا واجب هی او اگر واپس نه جائی تو احوط یه هی که کفاره دی۔

(371) چونکه حج کی بعض اعمال مثلا وقوف عرفات و مشعر، رمی جمرات اور منی میں رات گزارنی کی لیی دن اور رات مخصوص هیں تو مکلف کا وظیفه یه هی که وه اس مهینی کی چاند کی باری میں تحقیق کری تاکه اعمال حج کو ان کی مخصوص دن یا رات میں ادا کر سکی۔ جب ان مقدس مقامات کی قاضی کی نزدیک چاند ثابت هو جائی اور وه اس کی مطابق حکم کری،

ص: 279

جب که چاند کا ثابت هو ان قوانین شرعیه کی مطابق نه هو تو بعض فقهاء نی کها هی که قاضی کا حکم اس شخص کی لیی حجت هی اور قابل عمل هی جسی احتمال هو که یه حکم واقع کی مطابق هی لهذا اس مکلف کیلیی ضروری هی که وه اس حکم کی اتباع کری اور چاند کی ثابت هونی کی آثار سی مربوط حج کی اعمال مثلا وقوف عرفات و مشعر اور منی میں رات گزارنا وغیره کو حکم کی مطابق انجام دی چنانچه اگر اس نی حکم کی مطابق عمل کیا تو اس کا حج صحیح هوگا ورنه باطل هوگا۔ بعض فقهاء نی یهاں تک فرمایا هی که تقیه کی سبب اس وقت قاضی کی حکم کی اتباع کرنا کافی هی جب حکم کی واقع کی مطابق هونی کا احتمال نه هو لیکن چونکه دونوں قول انتهائی مشکل هیں لهذا اگر مکلف کی لیی اعمال حج کو ان کی شرعی طریقی سی ثابت شده وقت

ص: 280

خاص میں انجام دینا ممکن هو اور وه انجام دی تو بنا بر اظهر اس کا حج مطلقا صحیح هوگا ۔ لیکن اگر اعمال حج کو کسی بھی عذر کی وجه سی اس طرح انجام نه دی اور وقوف میں قاضی کی حکم کی پیروی بھی نه کری تو اس کا حج باطل هونی میں کوئ شک نهیں هی۔ اگر قاضی کی حکم کی اتباع کری تو اس کا حج صحیح هونی میں اشکال هی ۔

وقوف مزدلفه (مشعر)

حج تمتع کی واجبات میں سی تیسرا واجب وقوف مزدلفه هی ۔ مزدلفه اس جگه کا نام هی جسی مشعر الحرام کهتی هیں اس وقوف کی حدود مازمین سی حیاض اور وادی محسر تک هیں یه مقامات موقوف کی حدود هیں۔ خود وقوف کی جگه میں شامل نهیں هیں۔

ص: 281

سوائی اس وقت کی جب هجوم زیاده هو اور وقوف کی جگه تنگ هو رهی هو تو اس وقت جائز هی که مازین کی طرف سی اوپر جائیں (مازمین عرفات اور مشعر الحرام کی درمیان ایک گھاٹی کا نام هی)۔

(372) حج کرنی والی پر عرفات سی نکلنی کی بعد واجب هی که شب عید سی صبح تک کچھ وقت مزدلفه میں قیام کری احوط یه هی که مزدلفه میں طلوع آفتاب تک رهی۔ اگر چه اظهر یه هی که مزدلفه سی وادی محسر جانی کی لیی طلوع سی کچھ پهلی نکلنا جائز هی تاهم وادی محسر سی منی کی طرف طلو ع آفتاب سی پهلی جانا جائز نهیں هی ۔

(373) مذکوره تمام وقت اختیاری طور پر مزدلفه میں رهنا واجب هی۔ مگر یه که وقوف میں سی جو رکن هی وه کچھ مقدار میں ٹھرنا

ص: 282

هی چنانچه اگر کوئی شب عید کا کچھ حصه مزدلفه میں رهی پھر وهاں سی طلوع آفتاب سی پهلی نکل جائی تو اظهر یه هی که اس کا حج صحیح هوگا۔ لیکن اگر مسئله جانتی هوئی نکلی تو اس پر ایک بکری کفاره هوگی۔ اور مسئله نه جانتی هوئی نکلی تو اس پر کفاره واجب نهیں هی۔ اس طرح اگر طلوع فجر و طلوع آفتاب کی درمیان کچھ مقدار مزدلفه میں رهی اور کچھ مقدار نه رهی خواه جان بوجھ کر نه رها هو اس کا حج صحیح هی اور کفاره بھی واجب نهیں هی اگر چه که گنهگار هوگا۔

(374) مزدلفه میں وقت مقرره میں وقوف (قیام کرنا) واجب هی اس حکم سی بعض افراد مثلا خائف عورتیں، بچی، بوڑھی اور مریض جیسی کمزور لوگ اور وه لوگ جو ان افراد کی امور کی سرپرستی کرتی هوں مستثنی هیں لهذا ان افراد کی لیی شب

ص: 283

عید مزدلفه میں رهنی کی بعد طلوع فجر سی پهلی منی کی لیی روانه هونا جائز هی۔

(375) وقوف مزدلفه کی لیی قصد قربت اور خلوص نیت معتبر هیں یه بھی معتبر هی که ارادی و اختیار سی وهاں رهی جیسا که وقوف عرفات میں بیان هو چکا هی ۔

(376) جو شخص مزدلفه میں وقوف اختیاری (شب عید سی طلوع آفتاب تک رهنا) بھولنی یا کسی اور وجه سی حاصل نه کر سکی تو وقوف اضطراری عید کی دن طلوع آفتاب سی زوال کی درمیان کچھ دیر وهاں رهنا کافی هوگا۔ اگر کوئی وقوف اضطراری کو جان بوچھ کردی تو اس کا حج باطل هوگا۔

ص: 284

دونوں یا کسی ایک وقوف کو حاصل کرنا

پهلی بیان هو چکا هی که وقوف عرفات اور وقوف مزدلفه میں سی هر ایک کی دو قسمیں هیں وقوف اختیاری اور وقوف اضطراری، اگر مکلف دونوں وقوف اختیاری حاصل کری تب بھی کوئی اشکال نهیں هی اور اگر وقوف اختیاری کسی عذر کی وجه سی حاصل نه کر سکی تو اس کی چند صورتیں هیں:

1۔ دونوں وقوف کی اختیاری و اضطراری میں سی کوئی حاصل نه هو تو حج باطل هی اور واجب هی که اس حج کی احرام سی عمره مفرده انجام دیا جاهی اگر یه حج حج الاسلام تھا اور واجب هی که اگر استطاعت باقی هو یاحج اس کی ذمه ثابت و واجب هو چکا هو تو آینده سال دوباره حج کری ۔

ص: 285

2۔ عرفات کا وقوف اختیاری اور مزدلفه کا وقوف اضطراری حاصل هو۔

3۔ عرفات کا وقوف اضطراری اور مزدلفه کا وقوف اختیاری حاصل هو درج بالا دونوں صورتوں میں بلا اشکال حج صحیح هی ۔

4۔ عرفات کا وقوف اضطراری حاصل هو تو اظهر یه هی که حج صحیح هی اگر چه احوط هی که اگلی سال دوباره حج کیا جائی جیسا که پهلی صورت میں ذکر هوا ۔

5۔ صرف مزدلفه کا وقوف اختیاری حاصل هونی کی صورت میں بھی حج صحیح هی ۔

6۔ صرف مزدلفه کا وقوف اضطراری حاصل هو تو اظهر یه هی که حج باطل هو جائی گا اور عمره مفرده میں تبدیل هو جائی گا ۔

7۔ صرف عرفات کا وقوف اختیاری حاصل هر تو اظهر یه هی که

ص: 286

حج باطل هو جائی گا اور عمره مفرده میں تبدیل هو جائی گا اس حکم سی یه مورد مستثنی هی که جب حاجی مزدلفه کی وقت اختیاری میں منی جاتی هوئی مزدلفه سی گزری لیکن مسله نه جاننی کی وجه سی وهاں قیام کی نیت نه کری تو اگر وهاں سی گزرتی هوی ذکر خدا کیا هو تو بعید نهیں که اس کا حج صحیح هو ۔

8۔ صرف عرفات کا وقوف اصطراری حاصل هوا هو تو اس کا حج باطل هوگا اور عمره مفرده میں تبدیل هو جائی گا ۔

منی اور اس کی واجبات

حاجی پر واجب هی که وقوف مزدلفه کی بعد منی جانی کی لیی نکلی تا که وه اعمال جو منی میں واجب هیں انهیں انجام دی سکی اور یه تین اعمال هیں جن کی تفصیل درج ذیل هی:

ص: 287

رمی جمراه عقبه (جمره عقبه کو کنکر مارنا)

واجبات حج میں سی چوتھا واجب عید قربان کی دن جمره عقبه کو کنکر مارنا هی اس میں چند چیزیں معتبر هیں:

1۔ قصد قربت اور خلوص نیت ۔

2۔ رمی سات کنکروں سی هو، اس سی کم کافی نهیں، اسی طرح کنکروں کی علاوه کسی اور چیز سی مارنا بھی کافی نهیں هی ۔

3۔ ایک ایک کرکی سات کنکر ماری جائیں چنانچه ایک هی مرتبه میں دو یا زیاده کنکر مارنا کافی نهیں هی ۔

4۔ جو کنکر جمره تک پهنچی وهی شمار هوگا چنانچه جو کنکر جمره تک نه پهنچی وه شمار نهیں هوگا۔

5۔ کنکر پھینکنی کی وجه سی جمره تک پهنچی، چنانچه جمره پر رکھ دینا کافی

ص: 288

نهیں هی ۔

6۔ کنکر کو پھینکنا اور جمره تک پهنچنا حاجی کی پھینکنی کی وجه سی هو چنانچه اگر کنکر حاجی کی هاتھ میں اور حیوان یا کسی اور انسان کی ٹکرانی کی وجه سی کنکر جمره کو لگ جائیی تو یه کافی نهیں هی اسی طرح اگر حاجی کنکر پھینکی اور وه حیوان یا کسی انسان پر جا گری اور اس کی حرکت کرنی کی وجه سی جمره کو لگ جائی تو کافی نهیں هی ۔ لیکن کنکر اپنی راستی میں کسی چیز کو لگ کر پھر جمره کو لگی مثلا کنکر سخت زمیں کو لگ کر پھر جمره کو لگی تو ظاهر یه هی که یه کافی هی ۔

7۔ رمی هاتھ سی کری پس اگر منه سی یا پاؤں سی کری تو کافی نهیں هی اسی طرح احوط یه هی که کسی آلی سی مثلا غلیل وغیره کی ذریعی سی رمی کرنا کافی نهیں هی ۔

ص: 289

8۔ رمی طلوع آفتاب سی غروب آفتاب کی درمیان هو، تاهم عورتیں اور وه تمام افراد جن کی لیی مشعر سی رات نکلنا جائز هی شب عید رمی کر سکتی هیں ۔

(377) کنکروں میں دو چیزیں معتبر هیں :

1۔ اگر کسی کو کنکر لگنی میں شک هو تو وه سمجھی که نهیں لگا سوائی اس کی که شک موقع گزرنی کی بعد هو مثلا قربانی کی بعد یا حلق کی بعد یا رات شروع هونی کی بعد شک هو ۔

(378) کنکروں میں دو چیزیں معتبر هیں:

1۔ کنکروں حرم کی حدود سی سوائی مسجد الحرام اور مسجد الخیف کی، اٹھائیں جائیں۔ افضل یه هیں که مشعر سی اٹھایا جائی ۔

2۔ بنابر احتیاط کنکر پهلی سی استعمال شده نه هوں یعنی کنکروں کو

ص: 290

پهلی رمی کی لی استعمال نه کیا گیا هو، مستحب هی که کنکر رنگدار، نقطه دار اور نرم هوں نیز حجم کی لحاظ سی انگلی کی پور کی برابر هوں جسی رمی کر نی والا کھڑا هو کر اور با طهارت هو کر رمی کری ۔

379۔ اگر جمره کی لمبائی کو بڑھایا جائی اور اس زائد مقدار پر رمی کی کافی هونی میں اشکال هی احوط یه هی که جمره کی پهلی جو مقدار تھی اسی پر رمی کی جائی اگر پرانی مقدار پر رمی کرنا ممکن نه هو تو خود زائد مقدار پر رمی کی جائی اور پرانی مقدار پر رمی کرنی کی لئی کسی کو نائب بھی بنایا جائی اس مسئله میں مسئله جاننی اور نه جاننی اور بھول جانی والی میں فرق نهیں هی ۔

380۔ اگر کوئی بھولنی یا مسئله نه جاننی یا کسی اور وجه سی عید کی دن رمی نه کری تو جب یاد آئی یا عذر دور هو جائی تو رمی

ص: 291

انجام دی اگر یه عذر رات میں دور هو تو ضروری هی که دن تک تاخیر کری جس کا بیان جمروں کی رمی کی بحث میں آئی گا ظاهر یه هی که عذر دور هونی کی بعد جبران کرنا اس وقت واجب هی جب حاجی منی میں بلکه مکه میں هو حتی که اگر عذر و سبب تیرهویں ذی الحجه کی بعد دور هو اگر چه احوط یه هی که اس صورت میں رمی کو آئنده سال خود یا نائب کی ذریعی دوباره انجام دی اگر مکه سی نکلنی کی بعد عذر زائل هو تو مکه واپس جانا واجب نهیں هی بلکه احوط اولی یه هی که آئنده سال خود یا نائب کی ذریعی رمی انجام دی ۔

381۔ اگر کوئی بھول جانی یا مسئله نه جاننی کی وجه سی عید کی دن رمی نه کری پھر اسی طواف کی بعد یاد آئی یا مسئله پته چلی اور وه رمی انجام دی تو دوباره طواف کرنا واجب نهیں

ص: 292

هی تاهم احتیاط یه هی که اسی دوباره انجام دی اور اگر رمی کو بھولنی یا مسئله نه جاننی کی علاوه کسی اور وجه سی چھوڑا هو تو ظاهر یه هی که اس کا طواف باطل هوگا، لهذا رمی کرنی کی بعد طواف کو دوباره انجام دینا واجب هی ۔

منی میں قربانی

قربانی کرنا حج تمتع کی واجبات میں سی پانچواں واجب هی اس میں قصد قربت اور خلوص معتبر هی قربانی یوم عید سی پهلی نه کری سوائی اس شخص کی جسی خوف هو چنانچه خائف شخص کیلئی شب عید قربانی کرنا جائز هی احتیاط کی بناء پر قربانی رمی کی بعد کرنا واجب هی لیکن اگر کوئی بھول کر یا مسئله نه

ص: 293

جاننی کی وجه سی قربانی رمی سی پهلی کری تو اس کی قربانی صحیح هوگی اور دوباره کرنا ضروری نهیں هی۔ واجب هی که قربانی منی میں هو تاهم اگر حاجیوں کی زیاده هونی اور جگه کم هونی کی وجه سی منی میں قربانی کرنا ممکن نه هو تو بعید نهیں هی که وادی محسر میں قربانی کرنا جائز هو اگر چه احوط یه هی که ایام تشریق (11،12، 13 ذی الحجه) کی آخر تک منی میں قربانی نه کر سکنی کا جب تک یقین نه هو اس وقت تک وادی محسر میں قربابی نه کی جائی ۔

382۔ احتیاط یه هی که قربانی عید قربان کی دن هو اگر چه اقوی یه هی که قربانی کو ایام تشریق کی آخر تک تاخیر کرنا جائز هی احتیاط یه هی که رات حتی که ایام تشریق کی آخر تک تاخیر کرنا جائز هی احتیاط یه هی که رات حتی که ایام تشریق کی درمیانی راتوں میں بھی قربانی نه کی جائی سوائی اس شخص کی جسی

ص: 294

خوف هو ۔

383۔ اگر مستقل طور پر قربانی کرنی پر قادر هو تو ایک قربانی ایک شخص سی کفایت کری گی اور اگر اکیلا شخص قربانی پر قادر نه هو تو اس کا حکم مسئله 396 میں آئی گا ۔

384۔ واجب هی که قربانی کا جانور اونٹ، گائی یا بکری وغیره هو اونٹ کافی هوگا جب وه پانچ سال مکمل کرکی چھٹی سال داخل هو چکا هو ،گائی اور بکری بنا بر احوط اس وقت کافی هوں گی جب دو سال مکمل کرکی تیسری سال میں داخل هو چکی هوں اور دنبه اس وقت کافی هوگا جب سات مهینی پوری کرکی آٹھویں مهینی میں داخل هو جائی۔ اگر قربانی کرنی کی بعد پته چلی که جانور مقرره عمر سی چھوٹا تھا تو کافی نهیں هوگی اور قربانی دوباره کرنی پڑی گی قربانی کی جانور کا سالم الاعضاء هونا معتبر

ص: 295

هی چنانچه کانا، لنگڑا، کان کٹا یا اندر سی سینگ ٹوٹا هوا هو تو کافی نهیں هی اپاهج، خصی جانور بھی کافی نهیں هی، سوائی اس کی که غیر خصی جانور نه مل رها هو، معتبر هی که جانور عرفا کمزور نه هو اور احوط اولی یه هی که مریض یا ایسا جانور نه هو جس کی بیضتین (انڈی) کی رگیں یا خود بیضتین دبائی هوئی هو، اتنا بوڑھا بھی نه هو که اس کا بھیجا نه هو لیکن اگر اس کی کان چیری هوئی یا سوراخ والی هوں تو کوئی حرج نهیں هی ۔ اگر چه احوط یه هی که یه بھی سالم هو ۔ احوط اولی یه هی که قربانی کا جانور پیدائشی طور پر سینگ دار هو اور بغیر دم والا نه هو ۔

(385) اگر کوئی قربانی کا جانور صحیح و سالم سمجھ کر خریدی اور قمیت دینی کی بعد عیب دار ثابت هو تو ظاهر هی که اس جانور کو کافی سمجھنا جائز هی ۔

ص: 296

(386) اگر قربانی کی دنوں (عید کا دن اور ایام تشریق) میں شرائط والا کوئی جانور (مثلا اونٹ گائی و بکری وغیره) نه ملی تو احوط یه هی که جمع کری یعنی جانور مل رها هو اسی ذبح کری اور قربانی کی بدلی روزی بھی رکھی یهی حکم اس وقت بھی هی جب اس کی پاس فاقد الشرائط جانور (جسمیں پور شرائط نه پائیں جائیں) کی پیسی هوں۔ اگر باقی ماه ذی الحجه میں شرائط والا جانور ممکن هو تو احوط یه هی که دو چیزوں (فاقد الشرائط جانور کی قربانی کی بدلی روزی) کی ساتھ اس کو ملائی ۔

(387) اگر جانور کو موٹا سمجھ کر خریدا جائی اور بعد میں وه کمزور نکلی تو یهی جانور کافی هی خواه قربانی سی پهلی پته چلی یا بعد میں لیکن اگر خود اس کی پاس مثلا دنبه هو اور اس گمان سی یه موٹا هی ذبح کری مگر بعد میں پته چلی که وه کمزور تھا تو احوط یه هی یه

ص: 297

قربانی کافی نهیں هوگی ۔

(388) اگر جانور ذبح کرنی کی بعد شک هو که جانور شرائط والا تھا یا نهیں تو اس کی شک کی پرواه نه کی جائی اگر ذبح کی بعد شک هو که قربانی منی میں کی هی یا کسی اور جگه تو اس جگه تو اس کا بھی یهی حکم هی لیکن اگر خود ذبح کرنی میں شک هو که ذبح کیا بھی تھا که نهیں تو اگر موقع گذرنی کی بعد حلق یا تقصیر کی بعد شک هو تو اس شک کی پرواه نه کی جائی اگر موقع گذرنی سی پهلی هی شک هو تو قربانی کرنی هوگی۔ اگر جانور کی کمزور هونی کی باری میں شک هو اور قصد قربت کی ساتھ اس امید پر که جانور ذبح کیا جائی که کمزور نهیں هی اور ذبح کرنی کی بعد پته چلی که واقعی کمزور نهیں تھا تو یه قربانی کافی هوگی ۔

(389) اگر کوئی حج تمتع کی قربانی کی لیی صحیح جانور خریدی اور

ص: 298

خریدنی کی بعد مریض یا عیب دار هو جائی یا کوئی عضو ٹوٹ جائی تو اس جانور کا کافی هونا مشکل هی بلکه اس پر اکتفا کرنا صحیح نهیں هی احوط یه هی که جانور کو بھی ذبح کری اور اگر اسی بیچ دی تو اس کی قیمت کو صدقه کردی ۔

(390) اگر قربانی کی لیی خریدا گیا جانور گم هو جائی اور نه ملی نیز اور پته نه چلی که کسی نی اس کی جانب سی قربانی کی هی تو واجب هی که دوسرا جانور خریدی اور دوسرا جانور ذبح کرنی سی پهلی، پهلا جانور مل جائی تو پهلی جانور کو ذبح کیا جائی اور دوسری میں اختیار هی چاهی ذبح کری یا نه کری اور وه اس کی دوسری اموال کی طرح هی، تاهم احوط اولی یه هی که اسی بھی ذبح کری۔ اگر پهلا جانور دوسری کو ذبح کرنی کی بعد ملی تو احوط یه هی پهلی والی جانور کو بھی ذبح کری ۔

ص: 299

(391) اگر کسی کو دبنه ملی اور وه جانتا هو که یه قربانی کی لیی هی اگر اس کی مالک سی گم هو گیا هی تو اس کی لیی جایز هی که اس کی مالک کی جانب سی اسی ذبح کردی اگر اس جانور کی مالک کو اس قربانی کا علم هو جائی تو وه اس کو کافی سمجھ سکتا هی۔ جس کو جانور ملا هو اس کی لیی احوط یه هی که وه اسی ذبح کرنی سی پهلی بارھویں ذی الحجه کی عصر تک اعلان کری ۔

(392) وه شخص جسی قربانی کی ایام میں جانور نه ملی جبکه اس کی قیمت موجود هو تو احوط یه هی که قربانی کی بدلی میں روزی بھی رکھی اور اگر ممکن هو تو ماه ذی الحجه میں قربانی بھی کری، چاهی اس کی لیی کسی قابل اطمینان شخص کو پیسی دینی پڑیں که وه آخر ذی الحجه جانور خرید کر اس کی جانب سی قربانی کر دی اور اگر ذی الحجه تمام هو جائی اور جانور نه ملی تو اگلی سال اس

ص: 300

کی جانب سی قربانی کری۔ تاهم بعید نهیں هی که که صرف روسروں پر اکتفا کرنا جائز هو اور ایام تشریق گذرنی کی بعد قربانی ساقط هو جائی ۔

(393) اگر کوئی شخص قربانی کا جانور حاصل نه کر سکتا هو اور نه هی اس کی قیمت رکھتا هو تو قربانی کی بدلی میں دس روزی رکھی ان میں سی تین ذی الحجه میں بنابر احوط 7،8،9 کو رکھی اور اس سی پهلی نه رکھی اور باقی سات روزی اپنی وطن واپس جانی کی بعد رکھی۔ مکه میں یا راستی میں رکھنا کافی نهیں اگر مکه سی واپس نه جائی مکه میں هی قیام کری تو پھر اسی چاهیی که اتنا صبر کری که اس کی ساتھی اپنی شهر پهنچ جائیں یا ماه ذی الحجه تمام هو جائی پھر یه روزی رکھی پهلی تین روزی پی در پی رکھنا معتبر هی جبکه باقی سات میں معتبر نهیں هی اگر

ص: 301

چه احوط هی که اسی طرح پهلی تین روزوں میں یه بھی معتبر هی که عمره تمتع کا احرام باندھی کی بعد رکھی، چنانچه اگر احرام سی پهلی روزی رکھی تو کافی نهیں هوں گی ۔

(394) وه مکلف جس پر دوران حج تین دن روزی رکھنا واجب هو اگر تینوں روزه عید سی پهلی نه رکھ سکی تو بنا بر احتیاط 8 اور 9 اور ایک دن منی سی واپس آ کر روزه رکھنا کافی نهیں هوگا افضل یه هی که وه ان روزوں کو ایام تشریق ختم هونی کی بعد شروع کری اگر چه اس کیلئی جائز هی که اگر وه تیرھویں ذی الحجه سی پهلی منی سی واپس آ جائی تو تیرھویں ذی الحجه سی شروع کری بلکه اظهر یه هی که اگر منی سی تیرھویں ذی الحجه کو بھی آئی تب بھی شروع کر سکتا هی ۔

احوط اولی یه هی که ایام تشریق کی بعد فورا روزی رکھی اور

ص: 302

بغیر عذر کی تاخیر نه کری اگر منی سی واپس آنی کی بعد روزی نه رکھ سکتا هو تو راستی میں یا اپنی وطن پهچ کر روزی رکھ لی احوط اولی یه هی که ان تین روزوں اور سات روزوں، جو اس نی وطن واپس آ کر رکھنا هی، کو جمع نه کری اگر محرم کا چاند نظر آنی تک یه تین روزی نه رکھ سکی تو پھر روزه ساقط هو جائیں گی اور آئنده سال قربانی کرنا معین هو جائی گا۔

395۔ جس کیلئی قربانی کرنا ممکن نه هو اور نه هی اس کی پاس قربانی کیلئی پیسی موجود هوں اور حج میں تین روزی رکھی اور قیام قربانی گذرنی سی پهلی قربانی کرنی پر قادر هو جائی تو احتیاط واجب یه هی که قربانی کری ۔

396۔ اگر اکیلی قربانی کرنی پر قادر نه هو لیکن کسی کی ساتھ مل کر قربانی کر سکتا هو تو احوط یه هی که کسی کی ساتھ مل کر قربانی

ص: 303

بھی کری اور مذکوره ترتیب کی مطابق روزه بھی رکھی ۔

397۔ اگر جانور ذبح کرنی کیلئی کسی کو نائب بنایا جائی اور شک هو که نائب نی اس کی جانب سی قربانی کی هی یا نهیں تو یهی سمجھا جائی که قربانی نهیں کی اور اگر نائب خبر دی که قربانی کر دی هی لیکن اطمینان نه آئی تو اکتفا کرنا مشکل هی ۔

398۔ جو شرائط قربانی کی جانور میں معتبر هیں وه کفاری کی جانور میں معتبر هوں گی ۔

399۔ ذبح یا نحر جو واجب هی چاهی حج کی قربانی هو یا کفاره اس میں خود ذبح یا نحر کرنا واجب نهیں هی بلکه اختیاری حالت میں بھی کسی دوسری کو نائب بنانا جائز هی تاهم ضروری هی که ذبح کی نیت نائب کری اور قربانی کرنی والی پر نیت کرنا شرط

ص: 304

نهیں هی اگر چه احوط هی که وه بھی نیت کری نائب کیلئی مسلمان هونا ضروری هی ۔

حج تمتع کی قربانی کا مصرف

احوط اولی یه هی که نقصان ده نه هونی کی صورت میں حج تمتع کرنی والا اپنی قربانی کی کچھ مقدار کھائی چاهی کم مقدار هی کھائی، قربانی کا ایک تهائی حصه اپنی یا اپنی گھر والوں کیلئی مخصوص کرنا جائز هی اسی طرح جائز هی که اس کی دوسری ایک تهائی حصی کو جس مسلمان کو چاهی هدیه دی اور تسیرا تهائی حصه احتیاط واجب کی بناء پر مسلمان فقراء کو صدقه دی اگر صدقه دینا ممکن نه هو یا زیاده زحمت و مشقت کا سبب هو تو صدقه دینا ساقط هو جائی گا یه واجب نهیں هی که قربانی کا گوشت خود

ص: 305

فقیر هی کو دیا جائی بلکه اس کی وکیل کو بھی دیا جا سکتا هی چاهی قربانی کرنی والا فقیر کا وکیل هی هو وکیل اپنی موکل کی اجازت سی اس گوشت میں تصرف مثلا ھبه فروخت یا واپس کر سکتا هی اگر منی میں موجود افراد میں سی کسی کو گوشت کی ضرورت نه هو تو گوشت کو منی سی باهر لی جانا جائز هی ۔

400۔ وه تهائی حصه جو صدقه دی رها هو اور وه تهائی حصه جو ھدیه دی رها هو انهیں جدا کرنا شرط نهیں هی بلکه صرف وصول شرط هی چنانچه اگر تهائی مشاع کو صدقه کری اور فقیر وصول کر لی خواه پوری جانور کو قبضی میں لینی کی وجه سی تو یه کافی هی اور تهائی ھدیه کی صورت بھی یهی هی ۔

401۔ صدقه و ھدیه کو قبضی میں لینی والوں کیلئی جائز هی که اس حصی میں جس طرح سی چاهی تصرف کری لهذا وه اسی کسی

ص: 306

غیر مسلم کو بھی دی سکتی هیں ۔

402۔ اگر کوئی جانور کی قربانی کری اور بعد میں وه چوری هو جائی یا کوئی زبردستی اس سی چھین لی تو قربانی کرنی والا ضامن نهیں هی لیکن اگر مالک خود اسی چھین لی تو قربانی کرنی والا ضامن نهیں هی لیکن اگر مالک خود اسی ضائع کر دی چاهی غیر مستحق کو دینی کی وجه سی تو احوط یه هی که فقراء کی حصی کا ضامن هوگا ۔

3۔ حلق یا تقصیر

حج کی واجبات میں سی چھٹا واجب حلق یعنی سر مونڈھنا اورتقصیر یعنی کچھ بال کاٹنا هی اس میں قصد قربت اور اخلاص معتبر هی اس عمل کو عید کی دن سی پهلی حتی که شب عید میں

ص: 307

بھی انجام دینا جائز نهیں هی سوائی اس شخص کی جسی خوف هو لهذا اس کی لئیی احوط یه هی که جمره عقبه کی رمی اور قربانی کی جانور کی حصول کی بعد انجام دی احوط اولی یه هی که ذبح و نحر کی بعد انجام دی البته عید قربانی کی دن کی وقت سی آگی تاخیر نه کی جائی اگر رمی سی پهلی یا قربانی کا جانور حاصل کرنی سی پهلی بھول کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی حلق یا تقصیر انجام دی تو کافی هوگا اور دوباره انجام دینا ضروری نهیں هی ۔

403۔ مرد کو حلق و تقصیر میں اختیار هی البته حلق افضل هی سوائی اس شخص کی که جس نی جوؤں سی بچنی کی خاطر شهد یا گوند سی سر کی بالوں کو چپکایا هو یا جس نی سر کی بالوں کو جمع کرکی باندھ کر لپیٹا هوا هو یا پهلی مرتبه حج پر گیا هو تو ان کیلئی

ص: 308

احتیاط واجب یه هی که یه حلق کو اختیار کریں ۔

405۔ جو شخص حلق کرنا چاهتا هو اور جانتا هو که اگر حجام سی حلق کرائی گا تو وه زخمی کر دی گا تو اسی چاهیی کی انتهائی باریک مشین سی سر مونڈوائی یا اگر اسی حلق و تقصیر میں اختیار هو تو پهلی تقصیر کرائی اور پھر اگر چاهی تو استری سی سر مونڈوائی اگر اس بیان شده حکم کی مخالفت کری تو بھی کفایت کری گا، اگر چه گنهگار هوگا ۔

406۔ خنثی مشکله نی اگر نه اپنی بالوں کو چپکایا هو نه الجھا کر باندھا هو یا اس کا پهلا سال نه هو تو اس پر تقصیر واجب هی ورنه پهلی تقصیر کری اور احوط یه هی که اس کی بعد حلق بھی کری ۔

407۔ جب محرم حلق یا تقصیر انجام دی تو وه چیزیں جو احرام

ص: 309

کی وجه سی حرام هوئیں تھیں حلال هو جائیں گی سوائی بیوی خوشبو اور بنا بر احوط شکار کی، ظاهر یه هی که حلق و تقصیر کی بعد بیوی جو حرام هی تو صرف جماع حرام نهیں هی بلکه باقی تمام لذتیں بھی حرام هیں جو احرام کی وجه سی حرام هوئیں تھیں البته اقوی یه هی که تقصیر یا حلق کی بعد کسی عورت سی عقد نکاح پڑھنا یا نکاح پر گواه بننا جائز هی۔ 408۔ واجب هی که حلق و تقصیر منی میں هو اور اگر حاجی جان بوجھ کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی منی میں انجام نه دی اور باهر چلا جائی تو اس پر واجب هی که منی واپس جائی اور وهاں حلق یا تقصیر انجام دی بنا بر احوط بھولنی والی کا بھی یهی حکم هی اگر واپس جانا ممکن نه هو یا بهت مشکل هو تو جهاں موجود هو وهیں پر حلق یا تقصیر انجام دی اور اپنی بال ممکن هو تو منی بھیجی جو شخص

ص: 310

جان بوجھ کر منی کی علاوه کسی اور جگه حلق یا تقصیر انجام دی تو یه کافی هوگا لیکن اگر ممکن هو تو واجب هی که اپنی بال منی بھیجی ۔

409۔ اگر کوئی بھول کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی حلق یا تقصیر انجام نه دی اوراعمال حج سی فارغ هونی کی بعد آئی یا مسئله پته چلی تو حلق یا تقصیر انجام دی اظهر یه هی که طواف و سعی کو دوباره کرنا ضروری نهیں هی اگر چه احوط هی ۔

حج کا طوا ف، نماز طواف اور سعی

واجبات حج میں سی ساتواں آٹھواں اور نواں واجب طواف، نماز طواف اور سعی هیں ۔

ص: 311

410۔ حج کی طواف، نماز طواف اور سعی کی طریقی اور شرائط هیں جو عمره کی طواف، نماز طواف اور سعی میں بیان کی جا چکی هیں ۔

411۔ مستحب هی که طواف حج عید قربانی کی دن انجام دیا جائی اور بنا بر احوط گیارھیوں ذی الحجه سی زیاده تاخیر نه کی جائی اگرچه ظاهر یه هی که تاخیر کرنا جائز هی بلکه ایام تشریق سی کچھ مقدار دیر کرنا بلکه آخری ذی الحجه تک تاخیر کا جائز هونا قوت سی کالی نهیں هی

412۔ احوط یه هی که حج کی دو وقوف عرفات و مزدلفه سی پهلی حج کی طواف نماز طواف اور سعی کو انجام نه دیا جائی اگر کوئی مسئله نه جاننی کی وجه سی پهلی انجام دی تو کافیهونی میں اشکال هی اگرچه وجه سی خالی نهیں هی ۔

ص: 312

درج بالا حکم سی بعض موارد مسثنی هیں:

1۔ وه عورتیں جنهیں حیض یا نفاس آنی کا خوف هی ۔

2۔ بوڑھا شخص مریض زخمی اور وه افراد جن کیلئی مکه واپس آنا مشکل هو یا وه افراد جن کیلئی هجوم وغیره کی وجه سی واپس آ کر طواف کرنا مشکل هی ۔

3۔ وه شخص جو کسی ایسی چیز سی ڈرتا هو جس کی وجه سی وه مکه واپس نهیں آ سکی گا ۔ چنانچه درج بالا افراد کیلئی طواف نماز طواف اور سعی کو احرام حج کی بعد دونوں وقوف سی پهلی انجام دینا جائز هی احوط اولی یه هی که اگر بعد میں آخری ذی الحجه تک ممکن هو تو دوباره بھی انجام دیں ۔

413۔ طواف حج کو دونوں وقوف کی بعد انجام دینی والی کیلئی ضروری هی که وه طواف کو حلق و تقصیر کی بعد انجام دی

ص: 313

تو طواف کو دوباره انجام دینا واجب هی اور ضروری هی که ایک بکری کفاره دی ۔

414۔ جو شخص حج میں طواف نماز طواف اور سعی خود انجام دینی سی عاجز هو تو اس کا وهی حکم هی جو عمره میں یه اعمال انجام نه دی سکنی والی کا هی جو مسئله 326 اور342 میں بیاں هوا وه عورت جسی حیض یا نفاس آ جائی اور اتنا ٹھهرنا که پاک هو کر طواف بجا لائی ممکن نه هو تو اس کیلئی ضروری هی که طواف اور نماز طواف کی لئی کسی کو نائب بنائی بنائی پھر نائب کی طواف کی بعد سعی کو خود انجام دی ۔

415۔ حج تمتع کرنی والی پر طواف نماز طواف اور سعی سی فارغ هو جانی کی بعد خوشبو بھی حلال هو جائی گی جبکه بیوی مسئله 407 میں موجود تفصیل کی مطابق اور احوط کی بناء پر شکار

ص: 314

حرام رهیں گی ۔

416۔ جس شخص کیلئی طواف اور سعی کی آدائیگی دونوں وقوف سی پهلی جائز هو اور وه طواف اور سعی دونوں وقوف سی پهلی انجام دی تو ایسی شخص کیلئی خوشبو اس وقت تک حلال نهیں هوگی جب تک که وه منی کی اعمال مژلا رمی و ذبح و حلق یا تقصیر انجام نه دیدی ۔

طواف النساء

واجبات حج میں سی دسواں اور گیارھواں واجب طواف النساء اور اس کی نماز هی یه دونوں اگر چه واجب هیں لیکن رکن نهیں هیں اس لئی اگر انهیں جان بوجھ کر چھوڑ بھی دیا جائی

ص: 315

تب بھی حج باطل نهیں هوتا ۔

417۔ طواف النساء مردوں اور عورتوں سب پر واجب بی چنانچه اگر کوئی مرد اسی چھوڑ دی تو اس کی بیوی اس پر حرام هو جائی گیا ور اگر عورت اسی چھوڑ دی تو اس کا شوهر اس پر حرام هو جائی گا نیابتی حج میں نائب طواف النساء کو منسوب عنه جس کی جانب سی حج کر رها هی، کی جانب سی انجام دینه که اپنی جانب سی ۔

418۔ طواف النساء اور اس کی نماز کی شرائط اور طریقه وهی هی جو حج کی طواف اور اس کی نماز کا هی صرف نیت کا فرق هی ۔

419۔ وه شخص جو طواف النساء اور اس کی نماز خود انجام نه دی سکتا هو اس کا حکم وهی هی جو عمره کو طواف اور اس کی

ص: 316

نماز خود انجام نه دی سکنی والی کا هی جو که مسئله 326 میں بیان هو چکا هی ۔

420۔ جو شخص چاهی مسئله جانتا هو یا نه جانتا هو جان بوجھ کر یا بھولنی کی وجه سی طواف النساء انجام نه دی تو اس کا جبران و تدارک کرنا واجب هی اور جبران کرنی سی پهلی اس کی بیوی اس پر حلال نهیں هوگی لهذا اگر خود انجام دینا ممکن نه هو یا بهت مشکل هو تو جائز هی که کسی کو نائب بنایی نائب کی اس کی جانب سی طواف انجام دینی پر اس کی بیوی اس پر حلال هو جائی گی اگر یه شخص طواف النساء کی جبران سی پهلی مر جائی اور اس کا ولی یا کوئی اور اس کی جانب سی طواف کی قضاء کری تو کوئی اشکال نهیں هی ورنه احوط یه هی که اس کی بالغ ورثا کی اجازت سی ان کی مال سی قضاء کرائی جائی ۔

ص: 317

421۔ طواف النساء کو سعی سی پهلی انجام دینا جائز نهیں هی چنانچح اگر کوئی طواف النساء کو عمدا سعی سی پهلی انجام دی تو ضروری هی که سعی کی بعد دوباره انجام دی لیکن اگر حکم شرعی نه جاننی یا بھول کر ایسا کیا هو تو اظهر یه هی که کفایت کری گا اگر چه دوباره آدائیگی احوط هی ۔

422۔ مسئله 412 میں مذکور افراد کیلئی طواف النساء کو دونوں وقوف سی پهلی انجام دینا جائز هی لیکن منی کی اعمال مثلا رمی ذبح اور حلق یا تقصیر سی پهلی ان کیلئی بیوی حلال نهیں هو گی ۔

423۔ اگر عورت حائض هو جائی اور قافله اس کی طهارت کا انتظار نه کری نیز قافلی سی جدا هونا بھی ممکن نه هو تو اس کیلئی

ص: 318

جائز هی که طواف النساء کو چھوڑ کر قافلی کی ساتھ وطن واپس آ جائی تاهم احوط یه هی که کسی کو طواف النساء اور اس کی نماز کیلئی نائب بنائی اگر طواف النساء کا چوتھا چکر پورا هونی کی بعد حیص آئی تو اس کی لئی جائز هی که باقی کو چھوڑ کر قافلی کی ساتھ واپس آ جائی اور احوط یه هی که باقی طواف اور اس کی نماز کیلئی کسی کو نائب بنائی ۔

424۔ طواف النساء کی نماز بھول جانی کا وهی حکم هی جو عمره کی طواف کی نماز کو بھول جانی کا هی جو مسئله 429 میں بیان هو چکا هی ۔

425۔ مرد کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینی پر اس کی بیوی اور اسی طرح عورت کا طواف النساء اور اس کی نماز انجام دینی پر اس کا شوهر حلال هو جائیں گی احوط یه هی که شکار

ص: 319

تیرھویں ذی الحجه زوال آفتاب تک حرام رهی گا اوراس کی بعد احرام کی وجه سی حرام هونی والی تمام چیزیں حلال هو جائیں گی ۔

منی میں رات گزارنا

واجبات حج میں سی بارھواں واجب منی میں گیاره اور باره کی رات گزارنا هی اس میں قصد قربت اور خلوص نیت معتبر هی اگر حاجی عید کی دن طواف اور سعی کرنی کیلئی مکه جائی تو منی میں رات گزارنی کیلئی واپس آنا واجب هی حالت احرام میں شکار سی اجتناب نه برتنی والی شخص پر تیرھویں ذی الحجه کی شب بھی منی میں گزارنا واجب هی اسی طرح وه شخص بھی که جس نی اپنی بیوی سی نزدیکی کی هو بناء بر احوط تیرھویں ذی

ص: 320

الحجه کی شب منی میں گزاری مذکوره اشخاص کی علاوه باقی حجاج کیلئی جائز هی که باره تاریخ کو ظهر کی بعد منی سی باهر چلی جائیں لیکن اگر وهاں رکیں یهاں تک که تیرھویں رات آ جائی تو ضروری هی که تیرھویں کی رات بھی طلوع فجر تک وهیں گزاریں ۔

426۔ اگر منی سی نکلنی کیلئی اپنی جگه سی سفر کا آغاز کیا جائی لیکن هجوم وغیره کی وجه سی غروب سی پهلی منی کی حدود سی باهر نه جایا جا سکی تو اگر رات منی میں گزارنا ممکن هو تو منی میں قیام کری لیکن اگر ممکن نه هو یا حرج و شدید تکلیف کا باعث هو تو منی سی نکلنا جائز هی تاهم بناء بر احتیاط ایک دنبه کفار دی ۔

427۔ قبل ازیں ذکر شده سبب کی علاوه یه معتبر نهیں هی که منی میں پوری رات گزاری جائی چنانچه اول شب سی نصف

ص: 321

شب تک قیام کی بعد منی سی جایا جا سکتا هی لیکن اگر اول شب یا اس سی پهلی کوئی نکلی تو ضروری هی که طلوع فجر سی پهلی بلکه بناء بر احتیاط نصف شب سی پهلی منی واپس آ جائی جو شخص اول شب سی نصف شب تک منی میں قیام کی بعد نکلی اس کیلئی احوط اولی یه هی که طلوع فجر سی پهلی مکه میں داخل نه هو ۔

428۔ منی میں رات گزارنا جن افراد پر واجب هی ان میں سی درج ذیل چند لوگ مستثنی هیں:

1 ۔ وه شخص جس کیلئی منی میں رات گزارنا زحمت اور تکلیف کا باعث هو یا اسی اپنی جان مال یا عزت کا خطره هو ۔

2۔ وه شخص جو منی سی اول شب یا اس سی پهلی نکل جائی اور مکه میں آدھی رات سی پهلی عبادت میں مشغول هو کر طلوع

ص: 322

فجر تک تمام وقت ضروری حاجات مثلا کھانی پینی کی علاوه عبادت میں گزارنی کی وجه سی واپس نه آ سکی ۔

3۔ وه جو مکه سی منی جانی کیلئی نکلی اور عقبه مدینین سی گزر جائی تو اس کیلئی جائز هی که راستی میں منی پهنچنی سی پهلی سو جائی ۔

4۔ وه لوگ جو مکه میں حاجیوں کو پانی پهنچاتی هیں ۔

429۔ جو منی میں رات نه گزاری اس پر هر رات کی بدلی ایک دنبه کفاره واجب هی مذکوره چار گروهوں میں سی دوسری تیسری اور چوتھی پر کفاره واجب نهیں هی لیکن پهلا گروه بنابر احوط کفاره دی اسی طرح وه شخص بھی کفاره دی جو بھولنی یا مسئله نه جاننی کی وجه سی رات منی میں نه گزاری ۔

430۔ جو شخص منی سی جا چکا هو اور پھر تیرھویں شب کسی

ص: 323

کام سی منی واپس پهچ جائی تو اس پر یه رات منی میں گزارنا واجب نهیں هی ۔

رمی جمرات

واجبات حج میں سی تیرھواں واجب تین جمرات اولی وسطی اور جمره عقبه کو رمی کرنا (کنکر مارنا) هی واجب هی که رمی گیارھویں اور بارھویں ذی الحجه کو کی جائی اور تیرھویں شب منی میں گزارنی والوں پر بنی بر احوط تیرھویں ذی الحجه کی دن میں بھی رمی کرنا واجب هی حالت اختیار میں خود رمی کرنا واجب هی اور نیابت کافی نهیں هو گی۔

431۔ واجب هی که رمی جمره اولی سی شروع کری پھر جمره

ص: 324

وسطی کو اور پھر جمره عقبه کو رمی کری اگر بھول یا مسئله نه جاننی کی وجه سی اس سی مختلف عمل کری تو ضروری هی که پھر وهیں سی رمی شروع کری جهاں سی ترتیب حاصل هو جائی لیکن اگر پهلی جمره کو چار کنکر مارنا شروع کر دی تو پهلی والی کو باقی تین کنکر مارنا کافی هی اور دوسری جمره کو دوباره کنکر مارنا ضروری نهیں هی ۔

432۔ وه واجب چیزیں جو واجبات حج کی چوتھی واجب جمره عقبه کی رمی کی ذیل میں بیان هوئیں تینوں جمرات کی رمی میں بھی واجب هی ۔

433۔ واجب هی که رمی جمرات دن کی وقت کی جائی اس حکم سی چرواهی اور هر وه شخص جو خوف بیماری یا کسی اور وجه سی دن کی وقت منی میں نه ره سکتا هو مستثنی هیں چنانچه

ص: 325

ان افراد کیلئی هر دن کی رمی اس دن کی رات میں کرنا جائز هی لیکن اگر هر شب میں بھی ممکن نه هو تو تمام راتوں کی رمی ایک شب میں کرنا جائز هی۔

434۔ جو شخص گیاره تاریخ کو دن کی وقت بھول کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی رمی نه کری تو واجب هی که گیاره تاریخ کو اس کی قضا کری اور جو باره تاریخ کی رمی کو بھول کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی نه کر سکی تو وه تیره تاریخ کو اس کی قضاء کری احوط یه هی که جان بوجھ کر رمی نه کرنی والی کا بھی یهی حکم هی بناء بر احتیاط ادا اور قضا میں فرق رکھی اور قضا کو ادا سی پهلی انجام دی احوط اولی یه هی که قضا کو دن کی شروع میں اور ادا کو زوال کی وقت انجام دی ۔

(435) جو شخص جان بوجھ کر یا مسئله نه جاننی کی وجه سی رمی

ص: 326

جمرات کو انجام نه دی اور پھر مکه میں اسی یاد آئی یا مسله پته چلی تو واجب هی که منی واپس جائی اور وهاں رمی کری۔ اگر دو یا تین دن کی رمی چھوڑ دی تو احوط یه هی که جس دن کی رمی پهلی چھوٹی هو اس کی قضا پهلی انجام دی اور دونوں کی رمی کی درمیان کچھ فاصله رکھی۔ اگر مکه سی نکلنی کی بعد یاد آئی یا مسئله کا پته چلی تو رمی بجا لانی کی لیی واپس جانا لازم نهیں هی تاهم احوط اولی یه هی که اگر اگلی سال خود حج پر جائی تو قضا کری اور اگر خود نه جائی تو اس کی قضا کی لیی نائب بنائی ۔

(436) وه شخص جو خود رمی نه کر سکی مثلا مریض هو تو کسی کو نائب بنائی تو بهتر یه هی که اگر ممکن هو تو رمی کی وقت وهاں موجود هو اور نائب اس کی سامنی رمی انجام دی ۔ اگر نایب

ص: 327

اس کی جانب سی رمی انجام دی اور خود رمی کا وقت ختم هونی سی پهلی عذر ختم هونی سی مایوس هو اور اتفاقا عذر ختم هو جائی تو احوط یه هی که خود بھی رمی کری۔ لیکن جو شخص نائب نه بنا سکتا هو مثلا بیهوش هو تو تو اس کا ولی یا کوئی شخص اس کی جانب سی رمی کری۔

(437) جو شخص ایام تشریق (11،12،13ذی الحجه) میں جان بوجھ کر رمی چھوڑ دی تو اس کا حج باطل نهیں هوگا، احوط یه هی که اگر آئنده سی خود حج کری تو خود ورنه نایب کی ذریعی اس کی قضا کری ۔

مصدود کی احکام

(438) مصدود وه شخص هی که جسی دشمن یا کوئی اور احرام باندھنی کی بعد حج کی اعمال کی بجا آوری کی لیی مقدس

ص: 328

مقامات پر جانی سی رو کی ۔

(439) جس شخص کو عمره مفرده سی روکا جائی اگر وه قربانی کو اپنی ساتھ لایا هو تو اس کی لیی قربانی کی ذبح یا نحر کرنی کی ذریعی احرام کو اسی جگه پر کھولنا جائز هی جهاں اسی روکا گیا هو ۔ اگر قربانی کا جانور ساتھ نه لایا هو اور احرام کھولنا چاهتا هو تو ضروری هی که قربانی کا جانور حاصل کری اور اسی ذبح یا نحر کرکی احرام کھولی، بنابر احتیاط قربانی کیی بغیر احرام نه کھولی احتیاط واجب یه هی که دونوں صورتوں میں ذبح یا نحر کی ساتھ حلق یا تقصیر بھی انجام دی۔ وه شخص جسی عمره تمتع کی ساتھ ساتھ حج سی بھی روکا جائی تو اس کا وهی حکم هی جو اوپر بیان هوا هی ۔ لیکن اگر اس کو دونوں وقوف کی بعد کعبه جانی سی روکا جائیی تو بعید نهیں هی که اس کا فریضه ،حج افراد، میں تبدیل

ص: 329

هو جائی گا۔

(440) وه شخص جسی حج تمتع سی روکا جائی اگر دونوں وقوف یا صرف ایک وقوف مشعر سی روکا جائی تو احتیاط یه هی که طواف، سعی، حلق اور ذبح کرکی احرام کھول دی۔ اگر صرف طواف اور سعی کرنی سی روکا جای اور نایب بنانا ممکن نه هو تو چنانچه احرام کھولنا چاهتا هو تو احوط یه هی که قربانی کری اور حلق اور تقصیر انجام دی۔ لیکن اگر نایب بنانا ممکن هو تو بعید نهیں هی نائب بنانا کافی هو لهذا اپنی طواف اور سعی کی لیی نایب بنائی اور نایب کی طواف کرنی کی بعد نماز طواف خود پڑھی ۔ اگر اعمال بجا لانی کی لیی منی میں پهنچنی سی روکا جائی تو اگر نائب بنانا ممکن هو تو رمی اور قربانی کی لیی نائب بنائی اور پھر حلق یا تقصیر انجام دی، اگر ممکن هو تو

ص: 330

اپنی بال منی میں بھیج دی پھر باقی اعمال انجام دی ۔ لیکن اگر نایب بنانا ممکن نه هو تو قربانی کرنا واجب نهیں هوگا۔ لهذا قربانی کی بدلی روزی رکھی۔ اسی طرح رمی واجب نهیں رهی گی ۔ تاهم احتیاط یه هی که رمی اگلی سال خود یا نائب کی ذریعی انجام دی۔ اب باقی تمام اعمال مثلا حلق یا تقصیر و اعمال کو مکه میں انجام دی اور ان اعمال سی فارغ هونی کی بعد تمام محرمات اس پر حلال هو جائیں گی حتی که زوجه بھی حلال هو جائی گی اور کسی چیز کی ضرورت نهیں هی ۔

(441) جسی حج یا عمره سی روکا جائی اور قربانی کرنی کی وجه سی وه احرام کھول دی تو یه حج و عمره کافی نهیں هوگا بلکه اگر وه حج اسلام انجام دینا جاهتا هو اور اسی روکا جائی اور وه قربان کی وجه سی احرام کھول دی تو اس پر واجب هی اگر استطاعت

ص: 331

باقی هو یا حج اس کی ذمی ثابت هو تو آئنده سال حج پر جائی ۔

(442) اگر منی میں رات گزارنی اور رمی جمرات کرنی سی روک دیا جائی تو اس سی حج متاثر نهیں هوگا چنانچه اس شخص پر مصدود کا حکم جاری نهیں هوگا۔ لیکن اگر اس کی لیی رمی کی لیی نائب بنانا ممکن هو تو کسی کو نائب بنائی ورنه احوط اولی یه هی که آئنده سال خود یا نائب کی ذریعی اس کی قضا کری ۔

(443) مصدود شخص جو قربانی کری اس میں اس سی فرق نهیں پڑتا که قربانی کا جانور اونٹ، گائی یا بکری هو ۔ اگر قربانی کرنا ممکن نه هو تو احوط یه هی که اس کی بدلی 10 دن روزی رکھی ۔

(444) اگر حج کی لیی احرام پهننی والا وقوف مشعر سی پهلی اپنی بیوی سی مجامعت کری تو واجب هی که اپنی حج کو پورا

ص: 332

کری اور دوباره بھی بجا لائی ۔ جیسا که محرمات احرام میں بیان هوا هی۔ پھر اگر اس کو حج تمام کرنی سی روکا جائی تو اس پر مصدود کی احکام جاری هوں گی۔ لکین احرام کھونی کی لیی قربانی دینی کی علاوه اس پر

محصور کی احکام

(445) محصور وه شخص هی که جو احرام باندھنی کی بعد اعمال حج یا عمره کی ادائیگی کی لیی مرض یا کسی اور وجه سی مقدس مقامات تک پهنچ نه سکی ۔

(446) اگر کوئی شخص عمره مفرده یا عمره تمتع میں محصور هو جائی اور احرام کھولنا چاهیی تو اس کا فریضه هی که قربانی یا اس کی

ص: 333

قیمت اپنی ساتھیوں کی ساتھ بھیجی اور ان سی وعده لی که قربانی کو وقت معین میں مکه میں انجام دیں گی اور پھر جب وقت معین آ جائی تو یه شخص جهاں کهیں پر هی یا تقصیر کری اور احرام کھول دی۔ لیکن اگر ساتھی نه هونی کی وجه سی قربانی یا اس کی قیمت بھیجنا ممکن نه هو تو اس کی لیی جائز هی که جهاں هو وهیں پر قربانی کری اور احرام کھول دی ۔ اگر حج میں محصور هو جائی تو اس کا حکم وهی هی جو اوپر بیان هوا هی مگر قربانی کو منیٰ میں عید کی دن کرنی کو کهی۔

مذکوره موارد میں محصور پر بیوی کی علاوه باقی تمام چیزیں حلال هو جائیں گی اور بیوی اس وقت تک حلال نهیں هوگی جب تک حج یا عمره میں طواف اور صفا و مروه کی درمیان سعی انجام نه دی۔

ص: 334

(447) اگر کوئی عمره کی احرام کی بعد بیمار هو جائی اور قربانی کو مکه بھجوا دی اور پھر اس قدر تندرست هو جائی که خود سفر کرنا اور قربانی سی پهلی مکه میں پهنچنا ممکن هو تو اسی چاهیی که خود مکه میں پهنچی اور اگر اس کا فریضه عمره مفرده هو تو عرفه کی دن زوال آفتاب سی پهلی اعمال کو مکمل کر سکتا هو تو کوئی اشکال نهیں هی ورنه ظاهر یه هی که ا س کا حج افراد میں تبدیل هو جائی گا۔ دونوں صورتوں میں اگر قربانی نه بھیجی اور صبر کری یهاں تک که اس کی بیماری کم هو جائی اور یه خود سفر کرنی پر قادر هو جائی تب بھی یهی حکم هی۔

(448) اگر حج کی احکام کی بعد حاجی بیمار هو جائی اور قربانی بھیجنی کی بعد بیماری کم هو جائی اور گمان هو که حج هو جائی گا تو اعمال حج میں شامل هونا واجب هی چنانچه اگر دنوں وقوف یا

ص: 335

صرف وقوف مشعر حاصل هو تو جیسا که بیان هوا اس کا حج هو گیا لهذا اعمال حج اور قربانی انجام دی۔ لیکن اگر کوئی بھی وقوف حاصل نه کر سکی تاهم اس کی پهنچنی سی پهلی اس جانب سی قربانی ادا نه کی گئی هو تو اس کا حج عمره مفرده میں تبدیل هو جائی گا اور اگر اس کی جانب سی قربانی ادا کر دی گئی هو تو یه تقصیر یا حلق انجام دی اور بیوی کی علاوه باقی تمام چیزیں اس پر حلال هو جائیں گی۔ بیوی اس وقت تک حلال نهیں هوگی جب تک حج اور عمره میں طواف اور سعی بجا نه لائی لهذا اگر انهیں انجام دی گا تو عورت بھی حلال هو جائی گی۔

(449) اگر حاجی بیماری یا کسی اور وجه سی طواف و سعی کی لیی نهیں پهنچ سکتا هو تو اس کی لیی نائب بنانا جائز هی ۔ اور نائب کی طواف کی بعد نماز طواف خود انجام دی ۔ اگر منیٰ

ص: 336

میں جاکر وهاں کی اعمال انجام دینی سی محصور هو تو رمی اور ذبح کی لیی نائب بنائی اور حلق یا تقصیر انجام دی ممکن هو تو اپنی بال منیٰ بھیجی ۔ اس کی بعد باقی تمام اعمال انجام دی اور اس کا حج پورا هو جائی گا۔

(450) اگر کوئی محصور هو جائی اور اپنی قربانی بھجوا دی اور اس سی پهلی که قربانی اپنی جگه پهنچی اس کی سر میں تکلیف هو تو اس کیلیی سر مونڈھنا جائز هی ۔ لهذا اگر سر مونڈھی تو واجب هی که جس جگه هو وهیں ایک بکری ذبح کری یا تین دن روزی رکھی یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائی هر مسکین کو دو مد هر مد تقریبا 750 گرام کھانا دی ۔

(251) حج یا عمره میں محصور هونی والا اگر قربانی بھجواکر احرام کھول دی تو اس کا حج یا عمره ساقط نهیں هوگا لهذا حج اسلام

ص: 337

انجام دینی والا اگر محصور هو جائی اور قربانی بھیج کر احرام کھول دی تو اس پر واجب هی که اگر استطاعت باقی هو یا حج اس کی ذمه ثابت هو چکا هو تو اگلی سال حج اسلام بجا لائی۔

(452) اگر محصور کی پاس قربانی یا اس کی پیسی نه هوں تو وه اس کی بدلی دس روزی رکھی۔

(453) اگر محرم کی لیی حج یا عمره کی اعمال کی ادائیگی کی لیی مقدس مقامات تک خود جانا محصور و مصدود هونی کی علاوه کسی اور وجه سی ممکن نه هو تو اگر عمره مفرده کی لیی احرام باندھنا هو تو اس کی لیی جائز هی که وه جس جگه هو وهیں قربانی کری اور بنا پر احتیاط اس کی ساتھ حلق یا تقصیر انجام دی کر احرام کھول دی ۔ اسی طرح جب عمره تمتع کا احرام هو اور حج کو حاصل کرنا بھی ممکن نه هو تو یهی حکم هی ورنه ظاهر یه هی که اس

ص: 338

کا فریضه حج افراد میں تبدیل هو جائی گا۔ اگر طواف و سعی کی مقام تک پهنچنا یا منی کی اعمال بجا لانی کیلیی منی جانا ممکن نه هو تو اس کا وهی حکم هی جو مسئله 449 میں بیان هو چکا هی ۔

(454) فقهاء کی ایک گروه کا کهنا هی که حج یا عمره کرنی والا جب قربانی ساتھ نه لائی اور اس نی خدا سی شرط کی هو که اگر اعمال حج مکمل کرنی سی معذور هو گیا تو احرام کھول دونگا اور پھر کوئی عذر پیش آ جائی مثلا بیماری دشمنی یا کسی اور وجه سی کعبه یا وقوف کی جگهوں پر نه پهچ سکی تو اس شرط کی نتیجه میں عذر پیش آنی پر، احرام کھول سکتا هی اور تمام چیزیں اس پر حلال هو جائیں گی اور احرام کھولنی کی لیی قربانی دینا اور حلق و تقصیر کرنا ضروری هوگا۔ اسی طرح اگر کوئی محصور هو جائی تو بیوی کی حلال هونی کی لیی طواف و سعی واجب نهیں هیں

ص: 339

یه قول اگر چه وجه سی خالی نهیں هی مگر احتیاط واجب یه هی که جب محصور یا مصدود هو جائی تو جو احکام احرام کھولنی کی لیی بتائی گئی هیں ان کی رعایت کری اور شرط کی نتیجه محل هونی پر مذکوره آثار مرتب نه کری ۔

یهاں تک واجبات حج کو بیان کیا گیا اب هم حج کی آداب بیان کریں گی۔ فقهاء نی حج کی لیی بهت زیاده آداب ذکر کئی هیں جن کی گنجایش اس مختصر سی کتاب میں نهیں هی لهذا هم چند آداب بیان کرنی پر اکتفا کریں گی:

یه جان لینا چاهیی که مذکوره آداب میں سی بعض کا مستحب هونا قاعده تسامح فی ادلته السنن پر مبنی هی چنانچه ضروری هی که انهیں رجاء مطلوبیت کی نیت سی انجام دیا جائی نه که کسی اور نیت

ص: 340

سی، یه شارع مقدس سی وارد هوئی هیں یهی حکم مکروهات میں بھی هی جو آگی بیان کئی جائیں گئی ۔

مستحبات احرام

1۔ احرام پهننی سی پهلی بدن کو پاک صاف کرنا، ناخن کاٹنا، مونچھوں کی تراش خراش کرنا زیر بغل اور زیر ناف بالوں کو صاف کرنا مستحب هی ۔

2۔ جو شخص حج کرنا چاهتا هو وه ابتداء ذیعقده سی اور جو عمره مفرده کرنا چاهتا هی وه ایک مهینه پهلی سی سر اور داڑھی کی بال بڑھائی۔ بعض فقهاء اس کی واجب هونی کی قائل هیں انکا قول اگر چه ضعیف هی مگر احوط هی ۔

3۔ احرام کی لیی میقات سی غسل کرنا اور اظهر یه هی که

ص: 341

حائض و نفسا کی لیی بھی یه غسل کرنا صحیح هی۔ اگر میقات پر پانی نه ملنی کا خوف هو اس سی پهلی غسل کری پھر اگر میقات میں پانی مل جائی تو دوباره غسل کری۔ اگر غسل کرنی کی بعد حدث اصغر صادر هو یا ایسی چیز کھائی یا پهنی جو محرم پر حرام هو تو دوباره غسل کری جو غسل دن میں کری گا وه اگلی شب تک کافی هوگا اور جو رات میں غسل کریگا وه اگلی دن کی آخر تک کافی هی ۔

4۔ احرام کی دو کپڑی پهنی ۔

5۔ دونوں کپڑ ی سوتی هوں ۔

6۔ نماز ظهر کی بعد احرام باندھی اور اگر نماز ظهر کی بعد نه باندھ سکتا هو تو کسی اور واجب نماز کی بعد باندھی ورنه دو رکعت نافله نماز پڑھنی کی بعد باندھی جب که چھ رکعت افضل

ص: 342

هی۔ پهلی رکعت میں سورة الحمد اور سورة توحید اور دوسری رکعت میں سورة الحمد کی بعد سورة الکافرون پڑھی ۔ نماز سی فارغ هو کر خدا کی حمد و ثناء کری اور رسول اکرم (ص) اور ان کی پاک آل پر درود بھیجی۔

7۔ احرام کی نیت کو زبان سی تلفظ کری اور نیت کی الفاظ تلبیه کی ساتھ ملائی ۔

8۔ مرد تلبیه بلند آواز میں کهیں ۔

9۔ حالت احرام میں نیند سی بیدار هو کر هر نماز کی بعد سوار هوتی وقت سواری سی اترتی وقت ٹیلی کی اوپر چڑھتی هوئی یا اترتی هوئی سوار شخص سی ملاقات کی وقت اور سحر کی وقت تلبیه کو کثرت سی پڑھنا مستحب هی چاهی محرم مجنب یا حائض هو ۔ عمره تمتع کرنی والا تلبیه کو اس وقت تک

ص: 343

کهتا رهی جب تک اسی پرانی مکه کی گھر نظر نه ائیں اور حج تمتع میں عرفه کی دن زوال تک تلبیه کهتا رهی جیسا که مسئله 186 میں بیان هو چکا هی ۔

مکروهات احرام

احرام میں چند چیزیں مکروه هیں:

1۔ سیاه کپڑی سی احرام باندھنا بلکه احوط هی که اسی ترک کریں چونکه احرام میں سفید کپڑا افضل هی ۔

2۔ زرد رنگ کی بستر اور تکیه پر سونا ۔

3۔ میلی کپڑی سی احرام باندھنا تاهم اگر احرام باندھنی کی بعد میلا هو تو بهتر هی که جب تک احرام کی حالت میں هی اسی نه دھوئی البته احرام بدلنی میں کوئی حرج نهیں هی ۔

ص: 344

4۔ منقش یا اس جیسی کپڑی سی احرام باندھنا ۔

5۔ احرام سی پهلی مهندی لگانا جب که اس کا اثر احرام کی وقت تک باقی رهی ۔

6۔ حمام میں جانا، اولی بلکه احوط یه هیکه محرم اپنی جسم کو نه ملی اور نه گھسی ۔

7۔ کسی کی پکارنی کی جواب میں لبیک کهنا، بلکه اسی ترک کرنا احوط هی ۔

حرم میں داخل هونی کی مستحبات

حرم میں داخل هوتی وقت چند چیزیں مستحب هیں:

1۔ حرم پهچ کر سواری سی اترنا اور داخل هونی کی لیی غسل کرنا ۔

ص: 345

2۔ حرم میں داخل هوتی وقت جوتی اتار کر انهیں خضوع و خشوع کی نیت سی هاتھ میں پکڑنا ۔

حرم میں داخل هوتی وقت دعا کا پڑھنا:

اللھم انک قلت فی کتابک المنزل ۔ ۔ ۔ ۔ تا آخر

4۔ حرم میں داخل هوتی وقت اذخر (خوشبودار گھاس) میں سی کچھ مقدار کا چبانا ۔

مکه مکرمه اور مسجد الحرام میں داخل هو نی کی آداب

جو شخص مکه میں داخل هونا چاهتا هو اس کی لیی مستحب هی که مکه میں داخل هونی سی پهلی غسل کری اور سکون و وقار کی ساتھ داخل هو ۔ مدینی کی راستی سی آنی والی کی لیی

ص: 346

مستحب هی که وه مکه کی بالائی سمت سی داخل هو اور جاتی وقت مکه کی زیریں سمت والی راستی سی باهر جائی ۔

مستحب هی که مسجد الحرام میں ننگی پیر سکون و وقار اور خشوع کی ساتھ باب بنی شیبه سی داخل هو ۔ اگر چه یه دروازه مسجد کی توسیع هونی کی وجه سی پته نهیں چلتا مگر بعض افراد کا کهنا هی که یه باب السلام کی مقابل هی چنانچه بهتر یه هی که باب السلام سی داخل هو کر یهاں تک که ستونوں سی گزر جائی ۔

مستحب هی که مسجد کی دروازه پر کھڑی هو کر یه کهی:

السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاته بسم الله و بالله و من الله و ما شاء الله والسلام علی انبیاء الله و رسله والسلام علی رسول الله والسلام علی ابراهیم خلیل الله والحمد الله رب العالمین۔

ص: 347

نماز طواف کی آداب

نماز طواف میں پهلی رکعت میں سوره الحمد کی بعد سوره توحید اور دوسری رکعت میں سوره الحمد کی بعد سوره کافرون پڑھنا مستحب هی نماز سی فارغ هو کر خدا کی حمد و ثناء کری اور محمد صلی الله علیه وآله و سلم و آل محمد علیهم السلام پر درود بھیجی اور خدا سی قبولیت کی دعا کری ۔

امام صادق علیه السلام سی مروی هی که آپ نی نماز طواف کی بعد سجده کیا اور سجده میں فرمایا:

سجد وجھی لک تعبدا ورقا، لااله الا انت حقا حقا، الاول قبل کل شئی، والاخر بعد کل شئی، و ھا انا ذابین یدیک ناصیتی بیدک، و

ص: 348

اغفرلی انه لا یغفر الذنب العظیم غیرک، فاغفرلی فانی مقر بذنوبی علی نفسی، ولا یدفع الذنب العظیم غیرک ۔

مستحب هی که صفا جانی سی پهلی آب زم زم پیی اور کهی:

اللهم اجعله علما نافعا، و رزقا واسعا، و شفاء من کل داء و سقم ۔

اگر ممکن هو تو نماز طواف کی بعد آب زم زم کی کنویں کی طرف آئی اور اس سی ایک یا دو ڈول آب زم زم لی اور اس میں سی کجھ پانی پی کر باقی اپنی سر کمر اور پیٹ پر ڈالی اور یه دعا پڑھی:

اللهم اجعله علما نافعا، و رزقا واسعا، و شفا من کل داء و سقم ۔

پھر حجر اسود کی طرف آئی اور وهاں سی صفا کی طرف روانه هو جائی ۔

ص: 349

سعی کی آداب

مستحب هی که سکون اور وقار کی ساتھ حجر اسود کی مقابل دروازی سی صفا کی طرف جائی اور جب صفا پر چڑھی تو کعبه کی طرف دیکھی اور اس رکن کی طرف متوجه هو جس میں حجر اسود هی اور الله کی حمد ثناء کری اور اس کی نعمتوں کو یاد کری پھر سات مرتبه الله اکبر سات مرتبه الحمد لله اور سات مرتبه لا اله الا الله کهی اور پھر تین مرتبه کهی:

لا اله الا الله وحده لا شریک له، له الملک وله الحمد، یحیی و یمیت، و ھو علی کل شئی قدیر ۔

پھر محمد صلی الله علیه آله وسلم اور آل محمد علیهم السلام پر درود بھیجی اور پھر تین مرتبه کهی:

ص: 350

الله اکبر الحمد لله علی ما ھدانا، والحمد لله علی ما اولانا، والحمد لله الحی القیوم، والحمد لله الحی الدائم ۔

پھر تین مرتبه کهی:

اشھد ان لا اله الا الله و اشھد ان محمدا عبده و رسوله، لا نعبد الا ایاه، مخلصین له الدین و لو کره المشرکین ۔

پھر تین مرتبه کهی:

اللھم انی اسئلک العفو و العافیة والیقین فی الدینا و الاخرة

پھر تین مرتبه کهی:

اللھم آتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة وقنا عذاب النار

پھر سو مرتبه الله اکبر سو مرتبه لااله الا الله سو مرتبه الحمد لله اور سو مرتبه سبحان الله کھی اور پھر یه دعا پڑھی:

لا اله الا الله و حده وحده، انجز وعده، و نصر عبده، و غلب الاحزاب

ص: 351

وحده فله الملک، و له الحمد، وحده وحده، اللھم بارک لی فی الموت و فیما بعد الموت، اللھم انی اعوذبک من ظلمة القبر و وحشته، اللھم اظلنی فی ظل عرشک یوم لا ظل الا ظلک ۔

پھر تکرار کی ساتھ اپنی دین، اپنی آپ کو اور اپنی گھر والوں کو الله کی سپرد کری اور کهی:

استودع الله الرحمن الرحیم الذی لا تضیع و دائعه دینی و نفسی و اھلی، اللھم استعملی علی کتابک و سنة نبیک، و توافنی علی ملة و اعذنی من الفتنة ۔

پھر تین مرتبه الله اکبر کهه کر اسی دوباره دو مرتبه پڑھی اور پھر ایک مرتبه تکبیر کهه کر پھر اسی دوباره پڑھی اور اگر یه پورا ممکن نه هو تو جتنا ممکن هو اتنا پڑھی امیرالمومنین علیه السلام سی مروی هی که جب آپ صفا پر چڑھتی تھی تو کعبه رخ هو کر هاتھ بلند کرکی یه دعا

ص: 352

پڑھتی تھی:

اللھم اغفرلی کل ذنب اذنبته قط، فان عدت فعد علی بالمغفرة، فانک انت الغفور الرحیم، اللھم افعل بی ما انت اهله، فانک ان تفعل بی ما انت اهله ترحمنی، وان تعذبنی فانت غنی عن عذابی، و انا محتاج الی رحمتک فیا من انا محتاج الی رحمته ارحمنی، اللھم لا تفعل بی ما اھله، فانک ان تفعل بی ما انا اھله تعذبنی و لن تظلمنی، اصبحت اتقی عدلک ولا اخاف جورک، فیما ھو عل لا یجور ارحمنی ۔

چھٹی امام علیه السلام سی مروی هی که آپ نی فرمایا:

اگر تم چاھتی هو که تمھارا مال زیاده هو تو صفا پر زیاده ٹھرو مستحب هی که سعی سکون اور وقار کی ساتھ کی جائی یهاں تک که پهلی مناره کی مقام تک پهنچی اور وهاں سی دوسری مناره کی طرف

ص: 353

ھروله یعنی تیز تیز چلی لیکن عورتوں کی لی ھروله مستحب نهیں هی وهاں سی سکون اور وقار سی چلتی هوئی مروه پر چڑھی اور اوپر پهچ کر وهی اعمال انجام دی جو صفا پر انجام دئی تھی اور اسی طرح مروه سی صفا واپس لوٹی اگر سوار هو کر سعی کر رها هو تو دونوں مناروں کی درمیان سواری کو تھوڑا تیز کری اور مناسب هی که گریه طاری کرنی کی کوشش کری اور بارگاه الهی میں گڑ گڑا کر کثرت سی دعا کری ۔

ص: 354

احرام سی وقوف عرفات تک کی آداب

جب حج کی لئی احرام باندھ کر مکه سی باهر نکلی تو راسی میں آواز بلند کئی بغیر تلبیه کهی ابطح پر پهچ کر آواز کو بلند کری اور منی کی طرف متوجه هو کر یه کهی:

اللھم ایاک ارجو، ایاک ادعو، فبلغنی املی، و اصلح لی عملی ۔

پھر سکون و وقار سی ذکر خدا کرتی هوئی منی جائی اور منی پهچ کر یه دعا پڑھی:

الحمد الله الذی اقد منیھا صالحا فی عافیة و بلغنی ھذا المکان ۔

پھر یه دعا پڑھی

اللھم و ھذه منی، و ھی مما مننت به علی اولیائک من المناسک، فاسئلک علی محمد آل محمد، و ان تمن علی فیھا بما مننت علی

ص: 355

اولیائک و اهل طاعتک، و انما انا عبدک و فی قبضتک ۔

حاجی کی لئی مستحب هی که شب عرفه الله کو اطاعت گزاری کرتی هوئی منی میں گزاری افضل یه هی که عبادت میں مشغول رهی خصوصا مسجد خیف میں نماز پڑھنی کی بعد طلوع شمس تک تعقیبات پڑھی اور پھر عرفات طرف جائی۔ طلوع آفتاب سی پهلی بھی منی سی نکلنی میں کوئی حرج نهیں هی ۔جب عرفات کی طرف متوجه هو تو یه دعا پڑھی:

اللھم الیک صمدت، و ایاک اعتمدت، و وجھک اردت، فاسئلک ان تبارک لی فی رحلتی، و ان تقضی لی حاجتی، وان تجعلنی ممن تباھی به الیوم من ھو افضل منی ۔

پھر عرفات پهنچنی تک تلبیه کهی ۔

ص: 356

وقوف عرفات کی آداب

وقوف عرفات کی مستحبات بهت سی هیں۔ جن میں سی چند بیان کیی جا رهیں هیں:

1۔ حالت وقوف میں با طهارت هونا ۔

2۔ زوال کی وقت غسل کرنا ۔

3۔ دعا اور الله کی طرف متوجه هونی کی لیی اپنی کو هر چیز سی فارغ کر دینا ۔

4۔ پهاڑ کی دامن میں الٹی هاتھ کی طرف وقوف کرنا ۔

5۔ نماز ظهر و عصر کو ایک اذان اور دو اقامت کی ساتھ جمع کر کی پڑھنا ۔

6۔ جتنا ممکن هو منقول دعاؤں کو پڑھنا، اهم منقول دعائیں

ص: 357

افضل هیں ۔ منقول دعاؤں میں سی ایک دعا، عرفه کی دن امام حسین علیه السلام کی دعا هی۔ اس دعا کی باری میں روایت هی که بشر و بشیر جو غالب اسدی کی فرزند تھی کهتی هیں که عرفات میں جب عصر کا وقت هوا هم امام حسین علیه السلام کی قریب تھی امام حسین علیه السلام اهل بیت کی جوانوں اور ماننی والوں کی ساتھ حالت خشوع و خضوع اور سکون کی ساتھ اپنی خیمه سی باهر تشریف لائی اور پهاڑ کی دائیں جانب رو بقبله کھڑی هو کر اپنی هاتھ کو چهره مبارک کی برابر تک اس طرح بلند کیا جیسی کوئی مسکین کھانا مانگ رها هو اور پھر اس دعا کو پڑھا ۔

ص: 358

وقوف مزدلفه کی آداب

یه بهت زیاده هیں هم ان میں سی چند بیان کریں گی:

1۔ عرفات سی سکون اور وقار کی ساتھ استغفار کرتی هوئی روانه هوں اور سیدھی هاتھ کی طرف سرخ ٹیلی کی قریب پهچ کر یه دعا پڑ ھیں:

اللھم ارحم مرقفی و زد فی عملی و سلم لی دینی و تقبل مناسکی

2۔ معتدل رفتار کی ساتھ چلنا

3۔ نماز مغرب و عشاء کو مزدلفه میں ایک اذان اور اقامت کی ساتھ پڑھنا چاهی ایک تهائی رات گزر جائی ۔

4۔ راستی کی دائیں طرف وادی کی درمیان پهچ کر مشعر کی قریب سواری سی اتر جائی اور پهلی مرتبه حج کرنی والی کی

ص: 359

لیی مستحب هی که مشعر الحرام کی زمین پر پیر رکھی۔

5۔ رات عبادت اور منقوله و غیر منقوله دعاؤں میں گزاری، منقوله دعاؤں میں سی ایک دعا یه هی:

اللھم ھذه جمع، اللھم انی اسئلک ان تجمع لی فیھا جوامع الخیر، اللھم لا تویسنی من الخیر الذی سئلتک ان تجمعه لی فی قلبی و اطلب الیک ان تعرفنی ما عرفت اولیایک فی منزلی ھذا، و ان تقینی جوامع الشر ۔

6۔ صبح تک طهارت میں رهی پھر نماز فجر ادا کرکی خدا کی حمد و ثنا کری اس کی نعمتوں کو اور محبتوں کو یاد کری اور نبی کریم پر درود بھیجی اور یه دعا پڑھی:

اللھم رب المشعر الحرام فک رقبتی من النار و اوسع علی من رزقک الحلال و دراعنی شر فسقة الجن والانس، اللھم انت خیر

ص: 360

مطلوب الیه و خیر مدعو و خیر مسئول و لکل وافد جائزآة فاجعل جائزت فی موطنمی ھذا ان تقلیلنی عثرتی و تقبل معذرتی وان تجاثز عن خطیئتی، ثم الجعل التقوی من الدنا زادی ۔

7۔ مزدلفه سی رمی کی لیی سات کنکر اٹھائی ۔

8۔ جب وادی محسر سی گزرنی لگی تو سو قدم تیز تیز چلی اور یه دعا پڑھی:

اللھم سلم لی عھدی و اقبل توبتی و اجب دعوتی و اخلفنی بخیر ممن ترکت بعدی ۔

رمی جمرات کی مستحاب

رمی جمرات میں چند چیزیں مستحب هیں:

1۔ کنکر مارتی وقت با طهارت هونا

ص: 361

2۔ جب کنکر هاتھ میں پکڑی تو یه دعا پڑھی:

اللھم هذه حصیاتی فاحصھن الی وارفعھن فی عملی

3۔ هر کنکر پھینکتی وقت یه دعا پڑھی:

الله اکبر، اللھم ادحر عنی الشیطان، اللھم تصدیقا بکتابک و علی سنة نبیک، اللھم اجعله حجا مبرور و عملا مقبولا و سیعا مشکورا و ذنبا مغفورا

4۔ کنکر مارنی والا جمره عقبه سی دس یا پندره هاتھ کی فاصلی پر کھڑا هو ۔

5۔ جمره عقبه کو سامنی اور پشت به قبله کھڑی هو کر کنکر مارنا جب که جمره اولی و وسطی کو قبله رخ هوکر کنکر مارنا ۔

6۔ کنکر کو انگوٹھی پر رکھ کر انگشت شهادت کی ناخن سی پھیکنا ۔

ص: 362

7۔ منی میں اپنی خیمه میں واپس آکر یه دعا پڑھنا:

اللھم بک وثقت و علیک توکلت فنعم الرب و نعم المولی و نعم النصیر

قربانی کی آداب

قربانی میں چند چیزیں مستحب هیں ۔

1۔ قربانی کی لیی اونٹ یا گائی ورنه نر دنبه هونا چاهیی۔

2۔ جانور موٹا هونا چاهیی۔

3۔ ذبح یا نحر کرتی وقت یه دعا پڑھی:

وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا و ما انا من المشرکین، ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمیں لا

ص: 363

شریک له و بذالک امرت و انا من المسلمین، اللھم منک و لک بسم الله والله اکبر، اللھم تقبل منی ۔

4۔ ذبح خود کری اور اگر یه ممکن نه تو چھری پر هاتھ رکھی اور ذبح کرنی والا اس کا هاتھ پکڑ کر ذبح کری ورنه ذبح کرتی هوئی دیکھی اور اگر اپنا هاتھ ذبح کرنی والی کی هاتھ پر رکھی تو کوئی حرج نهیں هی ۔

حلق سر مونڈھوانی کی مستحبات

حلق میں درج ذیل مستحبات هیں:

1۔ سر کو دائیں طرف سی منڈوانا شروع کری اور حلق کی وقت یه دعا پڑھی:

ص: 364

اللھم اعطنی بکل شعرة نورا یوم القیامة

2۔ منی میں اپنی خیمه میں اپنی بال دفن کری ۔

3۔ حلق کی بعد داڑھی اور مونچھوں کی تراش خراش کری اور اپنی ناخن کاٹی ۔

حج کی طواف اور سعی کی آداب

عمره کی طواف، نماز طواف اور سعی کی، جو آداب بیان هوئی وهی آداب حج کی طواف، نماز طواف اور سعی کی بھی هیں عید کی دن طواف کرنا مستحب هی جب مسجد کی دروازی پر کھڑا هو تو یه دعا پڑھی:

اللھم اعنی علی نسکک و سلمنی له و سلمه لی، اسئلک مسالة العلیل

ص: 365

الذلیل المعترف بذنبه، ان تغفر لی ذنوبی و ان ترجعنی بحجتی، اللھم انی عبدک والبلد بلدک، والبیت بیتک، جئت اطلب رحمتک واوم طاعتک متبعا لامرک راضیا بقدر، اسئلک مسالة المضطر الیک، المطیع لامر ک المشفق من عذابک، الخائف لعقوبتک، ان تبلغنی عفوک و تجیرنی من النار برحمتک ۔

پھر حجر اسود کی پاس آئی اور اسی مس کرکی هاتھ کو بوسا دی اور اگر یه بھی ممکن نه هو تو حجر اسود کی سامنی کھڑا هو کر تکبیر کهی اور وه دعا پڑھی جو مکه آنی کی بعد طواف کی وقت پڑھی تھی جس کا بیان، مکه مکرمه اور مسجد الحرام کی داخل هو نی کی آداب، میں هو چکا هی ۔

ص: 366

ایام منیٰ کی آداب

ایام تشریق میں منیٰ میں قیام کرنا اور وهاں سی باهر نه جانا مستحب هی حتی که مستحب طواف کی لیی بھی باهر نه جایا جائی، منی میں پندره نمازوں کی بعد تکبیر کهنا مستحب هی اور پندره نمازوں میں پهلی نماز عید کی دن ظهر کی نماز هی ۔ باقی مهینوں میں دس نمازوں کی بعد تکبیر مستحب هی ۔ بهتر هی که تکبیر اس طرح سی کهی جائی الله اکبر الله اکبر لااله الا الله و الله اکبر ولله الحمد الله اکبر علی ما ھدانا الله اکبر علی ما رزقنا من بھیمۃ الانام والحمد لله علی ما ابلانا ۔

مستحب هی که فریضه و نافله نمازوں کو مسجد خیف میں پڑھی ابو حمزه ثمالی نی پانچویں امام علیه السلام سی روایت نقل کی هی که

ص: 367

آپ نی فرمایا که جس نی منی سی باهر جانی سی پهلی مسجد خیف می سو رکعت نماز پڑھی اسی ستر سال کی عبادت کا ثواب ملی گا اور جو وهاں سو مرتبه سبحان الله کهی گا تو اس کی لیی ایک غلام آزاد کرنی کا ثواب لکھا جائی گا۔ جو سو مرتبه لااله الا الله کهی گا تو اس کا ثواب ایسا هی که جیسی کسی کو موت سی نجات دینی کا ثواب هی اور جو سو مرتبه الحمد الله کهی گا اس کو عراقین کی خراج جتنا مال راه خدا میں صدقه کرنی کی برابر ثواب ملی گا ۔

مکه معظمه کی آداب

مکه میں درج ذیل چند چیزیں مستحب هیں:

1۔ کثرت سی ذکر خدا کرنا اور قرآن پڑھنا

2۔ مکه میں ایک قرآن ختم کرنا

ص: 368

3۔ آب زم زم پی کر یه پڑھنا چاهیی:

اللھم اجعله علما نافعا و رزقا واسعا و شفاء من کل داء سقم

پھر یه دعا پڑھی:

بسم الله و بالله والشکر لله

4۔ کثرت سی کعبه کو دیکھنا

5۔ کعبه کی دس طواف کرنا، تین ابتداء شب میں، تین آخر شب میں، دو فجر کی بعد اور دو ظهر کی بعد ۔

6۔ مکه میں قیام کی دوران 360 طواف کرنا اور اگر یه ممکن نه تو 52 طواف کرنا اور اگر یه بھی ممکن نه هو تو جتنی طواف ممکن هو اتنی طواف کری۔

پهلی مرتبه حج کرنی والی کی لیی کعبه میں داخل هونا مستحب هی که داخل هونی سی پهلی غسل کری اور داخل هوتی

ص: 369

وقت یه دعا پڑھی:

اللھم انک قلت و من دخله کان آمنا، فآمنی من عذاب النار

اس کی بعد دنوں ستونوں کی درمیان سرخ پھتر پر دو رکعت نماز پرھی پهلی رکعت میں فاتحه کی بعد سوره حم سجده اور دوسری رکعت میں سوره حمد کی بعد پوری قرآن سی کوئی بھی 55 آیات پڑھی ۔

8۔ کعبه کی چاروں کونوں میں نماز پڑھی اور نماز کی بعد کهی:

اللھم من تهیا او تعبا او اعد او استعد لوفادة الی ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

مستحب هی که کعبه سی نکلتی وقت تین مرتبه تکبیر کی بعد کهی:

اللھم لا تجھد بلائنا، ربنا ولا تشمت بنا اعدآئنا، فانک انت الضآر النافع

ص: 370

پھر باهر آئی اور کعبه رخ هو کر سیڑھیوں کو اپنی بائیں جانب قرار دی کر سیڑھیوں کی نزدیک دو رکعت نماز پڑھی۔

طواف وداع

جو شخص مکه سی رخصت هونا چاهی اس کیلی مستحب هی که وه طواف وداع بجا لائی اور هر چکر میں ممکن هو تو حجر اسود اور رکن یمانی کو مس کری اور جب مستجار تک پهنچی تو جو مستحبات صفحه 335 پر بیان هو چکی هیں، انهیں بجا لائی اور خدا سی دعا کری پھر حجر اسود کو مس کری اور اپنی شکم کو خانه کعبه سی ملا دی اور اپنا ایک هاتھ حجر اسود پر اور دوسرا هاتھ دروازی کی طرف رکھی پھر خدا کی حمد و ثنا بجا لائی اور پیغمبر اور ان کی

ص: 371

آل پر درود بھیجی اور کهی:

اللھم صل علی محمد عبدک و رسولک و نبیک و امینک و حبیبک و نجیک و خیرتک من خلقک، اللھم کما بلغ رسالاتک و جاھد فی سبیلک و صدع بامرک و اوذی فی جنبک و عبدک حتی اتاه الیقین، اللھم اقلبنی مفلحا منجحا مستجابا لی فافضل ما یرجع به احد من وفدک من المغفرة والبرکۃ والرحمۃ والرضوان والعافیۃ ۔

اور مستحب هی که باب الحناطین سی نکلی جو رکن شامی کی سامنی هی اور خدا سی دوباره آنی کی توفیق طلب کری اور مستحب هی که نکلتی وقت ایک درهم کی کھجور خرید کر فقراء کو صدقه دی۔

ص: 372

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109