توضیح المسائل مرجع عظیم الشان آقای سید علی حسینی سیستانی کی ساٹٹ

کتاب کی وضاحتیں

اکثریت: حسینی سیستانی، علی، 1309

مصنف کا عنوان اور عنوان: الاسلامی کی تشریح / فتوی علی حسینی سیستانی کے مطابق

اشاعت کی تفصیلات: قوم: آفیس آف گرینڈ آیت اللہ الیسستانی، 1425 عدد [1383].

ظہور: ص 630

ISBN: 964-484-066-66 9000 زبانی؛ 964-484-066-66 9000 زبانی

فہرست کی حیثیت: پچھلا کیٹلاگ

موضوع: جعفری فقہ - عملی علاج

مضمون: شیعہ فاطاس - 14 ویں صدی

اضافی ID: گرینڈ آیت اللہ سیستانی ڈدامزئی آفس

کانگریس کی درجہ بندی: بی پی183 / 9 / H47T9 1383

Dewey درجہ بندی: 297/3422

قومی بائبلگرافک نمبر: M83-15970

ص:1

اشاره

ص:2

ص:3

ص:4

ص:5

ص:6

ص:7

ص:8

ص:9

ص:10

ص:11

ص:12

ص:13

ص:14

ص:15

ص:16

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین

والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیآء والمرسلین

محمد و اٰلہ الطیبین الطاھرین

واللعنۃ الدآئمۃ علی اعدآئھم اجمعین

من الآن الی قیام یوم الدین

احکام تقلید

(مسئلہ 1 ) ہر مسلمان کے لئے اصول دین کو از روئے بصیرت جاننا ضروری ہے کیونکہ اصول دین میں کسی طور پر بھی تقلید نہیں کی جاسکتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اصول دین میں کسی کی بات صرف اس وجہ سے مانے کہ وہ ان اصول کو جانتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہو اور اس کا اظہار کرتا ہو اگرچہ یہ اظہار از روئے بصیرت نہ ہو تب بھی وہ مسلمان اور مومن ہے۔ لہذا اس مسلمان پر ایمان اور اسلام کے تمام احکام جاری ہوں گے لیکن "مسلمات دین" کو چھوڑ کر باقی دینی احکامات میں ضروری ہے کہ انسان یا تو خود مجہتد ہو یعنی احکام کو دلیل کے ذریعے حاصل کرے یا کسی مجہتد کی تقلید کرے یا از راہ احتیاط اپنا فریضہ یوں ادا کرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ دار پوری کردی ہے۔ مثلا اگر چند مجتہد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چند دوسرے کہیں کہ حرام نہیں ہے تو اس عمل سے باز رہے اور اگر بعض مجتہد کسی عمل کو واجب اور بعض مستجب گردانیں تو اسے بجالائے۔ لہذا جو اشخاص نہ تو مجتہد ہوں اور نہ ہی احتیاط پر عمل پیرا ہوسکیں اور ان کے لئے واجب ہے کہ مجتہد کی تقلید کریں۔

2۔ دینی احکامات میں تقلید کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجتہد کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ اور ضروری ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جائے وہ مرد۔ بالغ۔عاقل۔شیعہ اثنا عشری۔ حلال زادہ۔ زندہ اور عادل ہو۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل وہ شخص ہے جو تمام واجب کاموں کو بجالائے اور تمام حرام کاموں کو ترک کرے۔ عادل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھا شخص ہو اور اس کے اہل محلہ یا ہمسایوں یا ہم نشینوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں۔

اگر یہ بات اجملاً معلوم ہو کہ در پیش مسائل میں مجتہد کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ اس

ص:17

مجتہد کی تقلید کی جائے جو "اعلم" ہو یعنی اپنے زمانے کے دوسرے مجتہدوں کے مقابلے میں احکام الہی کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو۔

3۔ مجتہد اور اعلم کی پہچان تین طریقوں سے ہوسکتی ہے۔

* (اول) ایک شخص کو جو خود صاحب علم ہو ذاتی طور پر یقین ہو اور مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

* (دوم) دو اشخاص جو عالم اور عادل ہوں نیز مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کا ملکہ رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں بشرطیکہ دو اور عالم اور عادل ان کی تردیدنہ کریں اور بظاہر کسی کا مجتہد یا اعلم ہونا ایک قابل اعتماد شخص کے قول سے بھی ثابت ہوجاتا ہے۔

* (سوم) کچھ اہل علم (اہل خبرہ) جو مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں، کسی کے مجتہد یا اعلم ہونے کی تصدیق کریں اور ان کی تصدیق سے انسان مطمئن ہوجائے۔

4۔ اگر در پیش مسائل میں دو یا اس سے زیادہ مجتہدین کے اختلافی فتوے اجمالی طور پر معلوم ہوں اور بعض کے مقابلے میں بعض دوسروں کا اعلم ہونا بھی معلوم ہو لیکن اگر اعلم کی پہچان آسان نہ ہو تو اخوط یہ ہے کہ آدمی تمام مسائل میں ان کے فتووں میں جتنا ہو سکے احتیاط کرے (یہ مسئلہ تفصیلی ہے اور اس کے بیان کا یہ مقام نہیں ہے)۔ اور ایسی صورت میں جبکہ احتیاط ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا عمل اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہو۔ جس کے اعلم ہونے کا احتمال دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر دونوں کے اعلم ہونے کا احتمال یکساں ہو تو اسے اختیار ہے ( کہ جس کے فتوے پر چاہے عمل کرے)۔

5۔ کسی مجتہد کا فتوی حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں

* (اول) خود مجہتد سے (اس کا فتوی) سننا۔

* (دوم) ایسے دو عادل اشخاص سے سننا جو مجتہد کا فتوی بیان کریں۔

* (سوم) مجتہد کا فتوی کسی ایسے شخص سے سننا جس کے قول پر اطمینان ہو

* (چہارم) مجتہد کی کتاب (مثلاً توضیح المسائل) میں پڑھنا بشرطیکہ اس کتاب کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو۔

ص:18

6۔ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ مجتہد کا فتوی بدل چکا ہے وہ کتاب میں لکھے ہوئے فتوے پر عمل کر سکتا ہے اور اگر فتوے کے بدل جانے کا احتمال ہو تو چھان بین کرنا ضروری نہیں۔

7۔ اگر مجتہد اعلم کوئی فتوی دے تو اس کا مقلد اس مسئلے کے بارے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کر سکتا۔ تاہم اگر ہو (یعنی مجتہد اعلم) فتوی نہ دے بلکہ یہ کہے کہ احتیاط اس میں سے ہے۔ کہ یوں عمل کیا جائے مثلا احتیاط اس میں ہے کہ نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک اور پوری سورت پڑھے تو مقلد کو چاہئے کہ یا تو اس احتیاط پر، جسے احتیاط واجب کہتے ہیں، عمل کرے یا کسی ایسے دوسرے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے جس کی تقلید جائز ہو۔ (مثلاً فالاً علم)۔ پس اگر وہ (یعنی دوسرے مجتہد) فقط سورہ الحمد کو کافی سمجھتا ہو تو دوسری سورت ترک کی جاسکتی ہے۔ جب مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں کہے کہ محل تامل یا محل اشکال ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

8۔ اگر مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں فتوی دینے کے بعد یا اس سے پہلے احتیاط لگائے مثلاً یہ کہے کہ کس نجس برتن کو پانی میں ایک مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ تین مرتبہ دھوئے تو مقلد ایسی احتیاط کو ترک کر سکتا ہے۔ اس قسم کی احتیاط کو احتیاط مستجب کہتے ہیں۔

9۔ اگر وہ مجتہد جس کی ایک شخص تقلید کرتا ہے فوت ہو جائے تو جو حکم اس کی زندگی میں تھا وہی حکم اس کی وفات کے بعد بھی ہے۔ بنا بریں اگر مرحوم مجتہد، زندہ مجتہد کے مقابلے میں اعلم تھا تو ہو شخص جسے در پیش مسائل میں دونوں مجتہدین کے مابین اختلاف کا اگرچہ اجمالی طور پر علم ہو اسے مرحوم مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا ضروری ہے۔ اور اگر زندہ مجتہد اعلم ہو تو پھر زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں تقلید سے مراد معین مجتہد کے فتوے کی پیروی کرنے (قصد رجوع) کو صرف اپنے لئے لازم قرار دینا ہے نہ کہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔

10۔ اگر کوئی شخص کسی مسئلے میں ایک مجتہد کے فتوے پر عمل کرے، پھر اس مجتہد کے فوت ہوجانے کے بعد وہ اسی مسئلے میں زندہ مجتہد کے فتوے پر عمل کرلے تو اسے اس امر کی اجازت نہیں کہ دوبارہ مرحوم مجتہد کے فتوے پر عمل کرے۔

11۔ جو مسائل انسان کو اکثر پیش آتے رہتے ہیں ان کو یاد کر لینا واجب ہے۔

ص:19

12۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آئے جس کا حکم اسے معلوم نہ تو لازم ہے کہ احتیاط کرے یا ان شرائط کے مطابق تقلید کرے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن اگر اس مسئلے میں اسے اعلم کے فتوے کا علم نہ ہو اور اعلم اور غیر اعلم کی آراء کے مختلف ہونے کا مجملاً علم ہو یا تو غیر اعلم کی تقلید جائز ہے۔

13۔ اگر کوئی شخص مجتہد کا فتوی کسی دوسرے شخص کو بتائے لیکن مجتہد نے اپنا سابقہ فتوی بدل دیا ہو تو اس کے لئے دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا ضروری نہیں۔ لیکن اگر فتوی بتانے کے بعد یہ محسوس ہو کہ (شاید فتوی بتانے میں) غلطی ہوگئی ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ اس اطلاع کی وجہ سے وہ شخص اپنے شرعی وظیفے کے خلاف عمل کرے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر جہاں تک ہوسکے اس غلطی کا ازالہ کرے۔

14۔ اگر کوئی مکلف ایک مدت تک کسی کی تقلید کیے بغیر اعمال بجا لاتا رہے لیکن بعد میں کسی مجتہد کی تقلید کرلے تو اس صورت میں اگر مجتہد اس کے گزشتہ اعمال کے بارے میں حکم لگائے کہ وہ صحیح ہیں تو وہ صحیح متصور ہوں گے ورنہ طابل شمار ہوں گے۔

احکام طہارت

مطلق اور مضاف پانی

15۔ پانی یا مطلق ہوتا ہے یا مضاف۔ "مُضَاف" وہ پانی ہے جو کسی چیز سے حاصل کیا جائے مثلاً تربوز کا پانی (ناریل کا پانی) گلاب کا عرق (وغیرہ)۔ اس پانی کو بھی مضاف کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے آلودہ ہو مثلا گدلا پانی جو اس حد تک مٹیالا ہو کہ پھر اسے پانی نہ کہا جاسکے۔ ان کے علاوہ جو پانی ہو اسے "آپ مُطلَق" کہتے ہیں اور اس کی پانچ قسمیں ہیں۔ (اول) کر پانی (دوم) قلیل پانی (سوم) جاری پانی (چہارم) بارش کا پانی (پنجم) کنویں کا پانی۔

کُر پانی

ص:20

16۔ مشہور قول کی بنا پر کُر اتنا پانی ہے جو ایک ایسے برتن کو بھر دے جس کی لمبائی،چوڑائی اور گہرائی ہر ایک ساڑھے تین بالشت ہو اس بنا پر اس کا مجموعہ ضرب 8۔7۔42 ( 87 ء 42) بالشت ہونا ضروری ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اگر چھتیں بالشت بھی ہو تو کافی ہے۔ تاہم کرُ پانی کا وزن کے لحاظ سے تعین کرنا اشکال سے خالی نہیں ہے۔

17۔ اگر کوئی چیز عین نجس ہو مثلاً پیشاب یا خون یا وہ چیز جو نجس ہو گئی ہو جسیے کہ نجس لباس ایسے پانی میں گر جائے جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس کے نتیجے کی بو، رنگ یا ذائقہ پانی میں سرایت کر جائے تو پانی نجس ہوجائے گا لیکن اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو نجس نہیں ہوگا۔

18۔ اگر ایسے پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ جس کی مقدار ایک کُرکے برابر ہو نجاست کے علاوہ کسی اور چیز سے تبدیل ہو جائے تو وہ پانی نجس نہیں ہوگا۔

19۔ اگر کوئی عین نجاست مثلاً خون ایسے پانی میں جاگرے۔ جس کی مقدار ایک کُر سے زیادہ ہو اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے تو اس صورت میں اگر پانی کے اس حصے کی مقدار جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ایک کُر سے کم ہو تو سارا پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر اس کی مقدار ایک کُر یا اس سے زیادہ ہو تو صرف وہ حصہ نجس متصور ہوگا جس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔

20۔ اگر فوارے کا پانی (یعنی وہ پانی جو جوش مار کر فوارے کی شکل میں اچھلے) ایسے دوسرے پانی سے متصل ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو تو فوارے کا پانی نجس پانی کو پاک کر دیتا ہے لیکن اگر نجس پانی پر فوارے کے پانی کا ایک ایک قطرہ گرے تو اسے پاک نہیں کرتا البتہ اگر فوارے کے سامنے کوئی چیز رکھ دی جائے۔ جس کے نتیجے میں اس کا پانی قطرہ قطرہ ہونے سے پہلے نجس پانی سے متصل ہو جائے تو نجس پانی کو پلک کر دیتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ فوارے کا پانی نجس پانی سے مخلوط ہو جائے۔

21۔ اگر کسی نجس چیز کو ایسے نل کے نیچے دھوئیں جو ایسے (پاک) پانی سے ملا ہوا ہو جس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور اس چیز کی دھوون اس پانی سے متصل ہو جائے۔ جس کی مقدار کرُ کے برابر ہو تو وہ دھوون پاک ہوگی۔ بشرطیکہ اس میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہو اور نہ ہی اس میں عین نجاست کی آمیزش ہو۔

ص:21

22۔ اگر کُر پانی کا کچھ حصہ جم کر برف بن جائے اور کچھ حصہ پانی کی شکل میں باقی بچے جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو تو جونہی نجاست اس پانی کو چھوئے گی وہ نجس ہو جائے گا اور برف پگھلنے پر جو پانی سے بنے گا وہ بھی نجس ہوگا۔

23۔ اگر پانی کی مقدار ایک کُر کے برابر ہو اور بعد میں شک ہو کہ آیا اب بھی کُر کے برابر ہے یا نہیں تو اس کی حیثیت ایک کُر پانی ہی کی ہوگی۔ یعنی وہ نجاست کو بھی پاک کرے گا اور نجاست کے اتصال سے نجس بھی نہیں ہوگا۔اس کے برعکس جو پانی کُر سے کم تھا اور اگر اس کے متعلق شک ہو کہ اب اس کی مقدار ایک کُر کے برابر ہوگئی ہے یا نہیں تو اسے ایک کُر سے کم ہی سمجھا جائے گا۔

24۔ پانی کا ایک کُر کے برابر ہونا دو طریقوں سے ثابت ہوسکتا ہے۔ (اول) انسان کو خود اس بارے میں یقین یا اطمینان ہو (دوم) دو عادل مرد اس بارے میں خبر دیں۔

قلیل پانی

25۔ ایسے پانی کو قلیل پانی کہتے ہیں جو زمین سے نہ ابلے اور جس کی مقدار ایک کُر سے کم ہو۔

26۔ جب قلیل پانی کسی نجس چیز پر گرے یا کوئی نجس چیز اس پر گرے تو پانی نجس ہوجائے گا۔ البتہ اگر پانی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ اس نجس چیز سے ملے گا نجس ہو جائے گا لیکن باقی پاک ہوگا۔

27۔ جو قلیل پانی کسی چیز پر عَین نجاست دور کرنے کے لئے ڈالا جائے وہ نجاست سے جدا ہونے کے بعد نجس ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح وہ قلیل پانی جو عین نجاست کے الگ ہوجانے کے بعد نجس چیز کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اس سے جدا ہو جانے کے بعد بنا بر احتیاط لازم مطلقاً نجس ہے۔

28۔ جس قلیل پانی سے پیشاب یا پاخانے کے مخارج دھوئے جائیں وہ اگر کسی چیز کو لگ جائے تو پانچ شرائط کے ساتھ اسے نجس نہیں کرے گا۔

(اول) پانی میں نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا نہ ہوا ہو۔ (دوم) باہر سے کوئی نجاست اس سے نہ آملی ہو۔ (سوم) کوئی اور نجاست (مثلاً خون) پیشاب یا پاخانے کے ساتھ خارج نہ ہوئی ہو۔ (چہارم) پاخانے کے ذرے پانی میں دکھائی نہ دیں (پنجم) پیشاب یا پاخانے کے مخارج پر معمول سے زیادہ نجاست نہ لگی ہو۔

ص:22

جاری پانی

جاری پانی وہ ہے جو زمین سے اُبلے اور بہتا ہو۔ مثلاً چشمے کا پانی۔

29۔ جاری پانی اگرچہ کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو نجاست کے آملنے سے تب تک نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔

30۔ اگر نجاست جاری پانی سے آملے تو اس کی اتنی مقدار جس کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے نجس ہے۔ البتہ اس پانی کا وہ حصہ جو چشمے سے متصل ہو پاک ہے خواہ اس کی مقدار کُر سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ ندی کی دوسری طرف کا پانی اگر ایک کُر جتنا ہو یا اس پانی کے ذریعہ جس میں (بُو، رنگ یا ذائقے کی) کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی چشمے کی طرف کے پانی سے ملا ہوا ہو تو پاک ہے ورنہ نجس ہے۔

31۔ اگر کسی چشمے کا پانی جاری نہ ہو لیکن صورت حال یہ ہو کہ جب اس میں سے پانی نکال لیں تو دوبارہ اس کا پانی اُبل پڑتا ہو تو وہ پانی، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا یعنی اگر نجاست اس سے آملے تو نجس ہوجاتا ہے۔

32۔ ندی یا نہر کے کنارے کا پانی جو ساکن ہو اور جاری پانی سے متصل ہو، جاری پانی کا حکم نہیں رکھتا۔

33۔ اگر ایک ایسا چشمہ ہو جو مثال کے طور پر سردیوں میں اُبل پڑتا ہو لیکن گرمیوں میں اس کا جوش ختم ہوجاتا ہو اسی وقت جاری پانی کے حکم میں آئے گا۔ جب اس کا پانی اُبل پڑتا ہو۔

34۔ اگر کسی (تُرکی اور ایرانی طرز کے) حمام کے چھوٹے حوض کا پانی ایک کُر سے کم ہو لیکن وہ ایسے "وسیلئہ آب" سے متصل ہو جس کا پانی حوض کے پانی سے مل کر ایک کُر بن جاتا ہو تو جب تک نجاست کے مل جانے سے اس کی بُو، رنگ اور ذائقہ تبدیل نہ ہوجائے وہ نجس نہیں ہوتا۔

35۔ حمام اور بلڈنگ کے نلکوں کا پانی جا ٹنٹیوں اور شاوروں کے ذریعے بہتا ہے اگر اس حوض کے پانی سے مل کر جو ان نلکوں سے متصل ہو ایک کُر کے برابر ہو جائے تو نلکوں کا پانی بھی کُر پانی کے حکم میں شامل ہوگا۔

ص:23

36۔ جو پانی زمین پر بہہ رہا ہو۔ لیکن زمین سے اُبل نہ رہا ہو اگر وہ ایک کُر سے کم ہو اور اس میں نجاست مل جائے تو وہ نجس ہو جائے گا لیکن اگر وہ پانی تیزی سے بہہ رہا ہو اور مثال کے طور پر اگر نجاست اس کے نچلے حصے کو لگے تو اس کا اوپر والا حصہ نجس نہیں ہوگا۔

بارش کا پانی

37۔ جو چیز نجس ہو اور عین نجاست اس میں نہ ہو اس پر جہاں جہاں ایک بار بارش ہو جائے پاک ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر بدن اور لباس پیشاب سے نجس ہو جائے تو بنابر احتیاط ان پر دوبار بارش ہونا ضروری ہے مگر قالین اور لباس وغیرہ کا نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہلکی بوندا باندی کافی نہیں بلکہ اتنی بارش لازمی ہے کہ لوگ کہیں کہ بارش ہو رہی ہے۔

38۔ اگر بارش کا پانی عین نجس پر برسے اور پھر دوسری جگہ چھینٹے پڑیں لیکن عین نجاست اس میں شامل نہ ہو اور نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ بھی اس میں پیدا نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے۔ پس اگر بارش کا پانی خون پر برسنے سے چھینٹے پڑیں اور ان میں خون کے ذرات شامل ہوں یا خون کی بُو، رنگ یا ذائقہ پیدا ہوگیا ہو تو وہ پانی نجس ہوگا۔

39۔ اگر مکان کی اندرونی یا اوپری چھت پر عین نجاست موجود ہو تو بارش کے دوران جو پانی نجاست کو چھو کر اندرونی چھت سے ٹپکے یا پرنالے سے گرے وہ پاک ہے۔ لیکن جب بارش تھم جائے اور یہ بات علم میں آئے کہ اب جو پانی گر رہا ہے وہ کسی نجاست کو چھو کر آرہا ہے تو وہ پانی نجس ہوگا۔

40۔ جس نجس زمین پر بارش برس جائے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اگر بارش کا پانی زمین پر بہنے لگے اور اندرونی چھت کے اس مقام پر جا پہنچے جو نجس ہے تو وہ جگہ بھی پاک ہو جائے گی بشرطیکہ ہنوز بارش ہو رہی ہو۔

41۔ نجس مٹی کے تمام اجزاء تک بارش کا مُطلَق پانی پہنچ جائے تو مٹی پاک ہوجائے گی۔

42۔ اگر بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہو جائے خواہ ایک کُرسے کم ہی کیوں نہ ہو بارش برسنے کے وقت وہ (جمع شدہ پانی) کُر کا حکم رکھتا ہے اور کوئی نجس چیز اس میں دھوئی جائے اور پانی نجاست کی بُو، رنگ یا ذائقہ قبول نہ کرے تو وہ نجس چیز پاک ہو جائیگی۔

ص:24

43۔اگر نجس زمین پر بچھے ہوئے پاک قالین (یادری) پر بارش برسے اور اس کا پانی برسنے کے وقت قالین سے نجس زمین پر پہنچ جائے تو قالین بھی نجس نہیں ہوگا اور زمین بھی پاک ہوجائے گی۔

کُنویں کا پانی

44۔ ایک ایسے کنویں کا پانی جو زمین سے اُبلتا ہواگرچہ مقدار میں ایک کُر سے کم ہو نجاست پڑنے سے اس وقت تک نجس نہیں ہوگا۔ جب تک اس نجاست سے اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ بدل نہ جائے۔ لیکن مستجب یہ ہے کہ بعض نجاستوں کے گرنے پر کنویں سے اتنی مقدار میں پانی نکال دیں جو مفصل کتابوں میں درج ہے۔

45۔ اگر کوئی نجاست کنویں میں گر جائے اور اس کے پانی کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے تو جب کنویں کے پانی میں پیدا شدہ یہ تبدیلی ختم ہو جائے گی پانی پاک ہو جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ یہ پانی کنویں سے اُبلنے والے پانی میں مخلوط ہو جائے۔

46۔ اگر بارش کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوجائے اور اس کی مقدار ایک کُرسے کم ہو تو بارش تھمنے کے بعد نجاست کی آمیزش سے وہ پانی نجس ہوجائے گا۔

پانی کے احکام

47۔ مضاف پانی (جس کے معنی مسئلہ نمبر 15 میں بیان ہوچکے ہیں) کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرتا۔ ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔

48۔ مضاف پانی کی مقدار اگرچہ ایک کُر کے برابر ہو اگر اس میں نجاست کا ایک ذرہ بھی پڑجائے تو نجس ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ایسا پانی کسی نجس چیز پر زور سے گرے تو اس کا جتنا حصہ نجس چیز سے متصل ہوگا۔ نجس ہوجائے گا اور جو متصل نہیں ہوگا وہ پاک ہوگا مثلاً اگر عرق گلاب کو گلاب دان سے نجس ہاتھ پر چھڑ کا جائے تو اس کا جتنا حصہ ہاتھ کو لگے گا نجس ہوگا اور جو نہیں لگے گا وہ پاک ہوگا۔

49۔ اگر وہ مُضاف پانی جو نجس ہو ایک کُر کے برابر پانی یا جاری پانی سے یوں مل جائے کہ پھر اسے مضاف پانی نہ کہا جاسکے تو وہ پاک ہو جائے گا۔

ص:25

50۔ اگر ایک پانی مطلق تھا اور بعد میں اس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مضاف ہو جانے کی حد تک پہنچا ہے۔ انہیں تو وہ مطلق پانی متصور ہوگا یعنی نجس چیز کو پاک کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی صحیح ہوگا اور اگر پانی مضاف تھا اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مطلق ہوا یا نہیں تو وہ مضاف متصور ہوگا یعنی کسی نجس چیز کو پاک نہیں کرے گا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہوگا۔

51۔ ایسا پانی جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ مطلق ہے یا مضاف، نجاست کو پاک نہیں کرتا اور اس سے وضو اور غسل کرنا بھی باطل ہے۔ جونہی کوئی نجاست ایسے پانی سے آملتی ہے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار ایک کُر ہی کیوں نہ ہو۔

52۔ ایسا پانی جس میں خون یا پیشاب جیسی عین نجاست آپڑے اور اس کی بو، رنگ یا ذائقے کو تبدیل کر دے نجس ہوجاتا ہے خواہ وہ کُر کے برابر یا جاری پانی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر اس پانی کی بُو، رنگ یا ذائقہ کسی ایسی نجاست سے تبدیل ہوجائے جو اس سے باہر ہے مثلاً قریب پڑے ہوئے مُردار کی وجہ سے اس کی بُو بدل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ نجس ہو جائے گا۔

53 وہ پانی جس میں عین نجاست مثلاً خون یا پیشاب گر جائے اور اس کی بُو، رنگ یا ذائقہ تبدیل کر دے اگر کُر کے برابر یا جاری پانی سے متصل ہو جائے یا بارش کا پانی اس پر برس جائے یا ہوا کی وجہ سے بارش کا پانی اس پر گرے یا بارش کا پانی اس دوران جب کہ بارش ہو رہی ہو پرنالے سے اس پر گرے اور جاری ہو جائے تو ان تمام صورتوں میں اس میں واقع شدہ تبدیلی زائل ہو جانے پر ایسا پانی پاک ہوجاتا ہے لیکن قول اقوی کی بنا پر ضروری ہے کہ بارش کا پانی یا کُر پانی یا جاری پانی اس میں مخلوط ہوجائے۔

54۔ اگر کسی نجس چیز کو بہ مقدار کر پانی جلدی پانی میں پاک کیا جائے تو وہ پانی جو باہر نکالنے کے بعد اس سے ٹپکے پاک ہوگا۔

55۔ جو پانی پہلے پاک ہو اور یہ علم نہ ہو کہ بعد میں نجس ہوا یا نہیں، وہ پاک ہے اور جو پانی پہلے نجس ہو اور معلوم نہ ہو کہ بعد میں پاک ہوا یا نہیں، وہ نجس ہے۔

ص:26

56۔ کُتے، سُوّر اور غیر کتابی کافر کا جھوٹا بلکہ احتیاط مُستجب کے طور پر کتابی کافر کا جھوٹا بھی نجس ہے اور اس کا کھانا پینا حرام ہے مگر حرام گوشت جانور کا جھوٹا پاک ہے اور بلی کے علاوہ اس قسم کے باقی تمام جانوروں کے جھوٹے کا کھانا اور پینا مکروہ ہے۔

بَیتُ الخَلاء کے احکام

57۔ انسان پر واجب ہے کہ پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت اور دوسرے مواقع پر اپنی شرمگاہوں کو ان لوگوں سے جا بالغ ہوں خواہ وہ ماں اور بہن کی طرح اس کے محرم ہی کیوں نہ ہوں اور اسی طرح دیوانوں اور ان بچوں سے جو اچھے بُرے کی تمیز رکھتے ہوں چھپا کر رکھے۔ لیکن بیوی اور شوہر کے لئے اپنی شرمگاہوں کو ایک دوسرے سے چھپانا لازم نہیں۔

58۔ اپنی شرمگاہوں کو کسی مخصوص چیز سے چھپانا لازم نہیں مثلاً اگر ہاتھ سے بھی چھپالے تو کافی ہے۔

59۔ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت احتیاط لازم کی بنا پر بدن کا اگلا حصہ یعنی پیٹ اور سینہ قبلے کی طرف نہ ہو اور نہ ہی پشت قبلے کی طرف ہو۔

60۔ اگر پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت کسی شخص کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بقبلہ ہو اور وہ اپنی شرمگاہ کو قبلے کی طرف سے موڑ لے تو یہ کافی نہیں ہے اور اگر اس کے بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ شرمگاہ کو رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ موڑے۔

61۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ اِستبراَ کے موقع پر، جس کے احکام بعد میں بیان کئے جائیں گے، نیز اگلی اور پچھلی شرم گاہوں کو پاک کرتے وقت بدن کا اگلا حصہ رو بہ قبلہ اور پشت بہ قبلہ نہ ہو۔

62۔ اگر کوئی شخص اس لئے کہ نامحرم اسے نہ دیکھے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ پشت بہ قبلہ بیٹھ جائے اگر پشت بہ قبلہ بیٹھنا ممکن نہ ہو تو رو بہ قبلہ بیٹھ جائے۔ اگر کسی اور وجہ سے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ بیٹھنے پر مجبور ہو تو بھی یہی حکم ہے۔

ص:27

63۔ احتیاط مُستجب یہ ہے کہ بچے کو رفع حاجت کے لئے رو بہ قبلہ یا پشت بہ قبلہ نہ بٹھائے۔ ہاں اگر بچہ خود ہی اس طرح بیٹھ جائے تو روکنا واجب نہیں۔

64۔ چار جگہوں پر رفع حاجت حرام ہے۔

1۔ بند گلی میں جب کہ وہاں رہنے والوں نے اس کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔ 2۔ اس قطعہ زمین میں جو کسی کی نجی ملکیت ہو جب کہ اس نے اس رفع حاجت کی اجازت نہ دے رکھی ہو۔

3۔ ان جگہوں میں جو مخصوص لوگوں کے لئے وقف ہوں مثلاً بعض مدرسے 4۔ مومنین کی قبروں کے پاس جب کہ اس فعل سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہو۔ یہی صورت ہر اس جگہ کی ہے جہاں رفع حاجت دین یا مذہب کے مقدسات کی توہین کا موجب ہو۔

65۔ تین صورتوں میں مقعد (پاخانہ خارج ہونے کا مقام) فقط پانی سے پاک ہوتا ہے۔

1۔ پاخانے کے ساتھ کوئی اور نجاست (مثلاً خون) باہر آئی ہو۔

2۔ کوئی بیرونی نجاست مقعد پر لگ گئی ہو۔

3۔مقعد کا اطراف معمول سے زیادہ آلودہ ہوگیا ہو۔

ان تین صورتوں کے علاوہ مقعد کو یا تو پانی سے دھویا جاسکتا ہے اور یا اس طریقے کے مطابق جو بعد میں بیان کیا جائے گا کپڑے یا پتھر وغیرہ سے بھی پاک کیا جاسکتا ہے اگرچہ پانی سے دھونا بہتر ہے۔

66۔ پیشاب کا مخرج پانی کے علاوہ کسی چیز سے پاک نہیں ہوتا۔ اگر پانی کُر کے برابر ہو یا جاری ہو تو پیشاب کرنے کے بعد ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔ لیکن اگر قلیل پانی سے دھویا جائے تو احتیاط مُستحب کی بنا پر دو مرتبہ دھونا چاہئے اور بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ دھوئیں۔

67۔ اگر مقعد کو پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ پاخانے کا کوئی زرہ باقی نہ رہے البتہ رنگ یا بُو باقی رہ جائے تو کوئی حرج نہیں اور اگر پہلی بار ہی وہ مقام یوں دُھل جائے کہ پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہ رہے تو دوبارہ دھونا لازم نہیں۔

ص:28

68۔ پتھر، ڈھیلا، کپڑا یا انہی جیسی دوسری چیزیں اگر خشک اور پاک ہوں تو ان سے مقعد کو پاک کیا جاسکتا ہے اور اگر ان میں معمولی نمی بھی ہو جو مقعد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں۔

69۔ اگر مقعد کو پتھر یا ڈھیلے یا کپڑے سے ایک مرتبہ بالکل صاف کر دیا جائے تو کافی ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ تین مرتبہ صاف کیا جائے اور (جس چیز سے صاف کیا جائے اس کے) تین ٹکڑے بھی ہوں اور اگر تین ٹکڑوں سے صاف نہ ہو تو اتنے مزید ٹکڑوں کا اضافہ کرنا چاہئے کہ مقعد بالکل صاف ہو جائے۔ البتہ اگر اتنے چھوٹے ذرے باقی رہ جائیں جو نظر نہ آئیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

70۔ مقعد کو ایسی چیزوں سے پاک کرنا حرام ہے جن کا احترام لازم ہو (مثلا کاپی یا اخبار کا ایسا کاغذ جس پر خدا تعالی اور پیغمبروں کے نام لکھے ہوں) اور مقعد کے ہڈی یا گوبر سے پاک ہونے میں اشکال ہے۔

71۔ اگر ایک شخص کو شک ہو کہ مقعد پاک کیا ہے یا نہیں تو اس پر لازم ہے کہ اسے پاک کرے اگرچہ پیشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد وہ یمیشہ متعلقہ مقام کو فوراً پاک کرتا ہو۔

72۔ اگر کسی شخص کو نماز کے بعد شک گزرے کہ نماز سے پہلے پیشاب یا پاخانے کا مخرج پاک کیا تھا یا نہیں تو اس نے جو نماز ادا کی ہے وہ صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے اس (متعلقہ مقامات کو) پاک کرنا ضروری ہے۔

اِستِبرَاء

73۔ اِستِبرَاء ایک مستجب عمل ہے جو مرد پیشاب کرنے کے بعد اس غرض سے انجام دیتے ہیں تاکہ اطمینان ہو جائے کہ اب پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا۔ اس کی کئی ترکیبیں ہیں جن میں سے بہترین یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہوجانے کے بعد اگر مقعد نجس ہوگیا ہو تو پہلے اسے پاک کرے اور پھر تین دفعہ بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی کے ساتھ مقعد سے لے کر عضو تناسل کی جڑ تک سونتے اور اس کے بعد انگوٹھے کو عضو تناسل کے اوپر اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو اس کے نیچے رکھے اور تین دفعہ سپاری تک سونتے اور پھر تین دفعہ سپاری کو جھٹکے۔

74۔ وہ رطوبت جو کبھی کبھی عورت سے مُلاَعَبَت یا ہنسی مذاق کرنے کے بعد مرد کے آلہ تناسل سے خارج ہوتی ہے اسے مَذِی کہتے ہیں اور وہ پاک ہے۔ علاوہ ازیں وہ رطوبت جو کبھی کبھی مَنِی کے بعد خارج ہوتی ہے۔ جیسے وذی کہا جاتا

ص:29

ہے یا وہ رطوبت جو بعض اوقات پیشاب کے بعد نکلتی ہے اور جسے ودی کہا جاتا ہے پاک ہے بشرطیکہ اس میں پیشاب کی آمیزش نہ ہو۔ مزید یہ کہ جب کسی شخص نے پیشاب کے بعد اِستِبراء کیا ہو اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ پیشاب ہے یا مذکورہ بالا تین رطوبتوں میں سے کوئی ایک تو وہ بھی پاک ہے۔

75۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اِستِبراء کیا ہے یا نہیں اور اس کے پیشاب کے مخرج سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔ نیز یہ کہ اگر وہ وضو کر چکا ہو تو وہ بھی باطل ہوگا۔ لیکن اگر اسے اس بارے میں شک ہو کہ جو اِستِبراء اس نے کیا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور وہ نہ جانتا ہے کہ وہ رطوبت پاک ہے یا نہیں تو وہ پاک ہوگی اور اس کا وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

76۔ اگر کسی شخص نے اِستِبراء نہ کیا ہو اور پیشاب کرنے کے بعد کافی وقت گزر جانے کی وجہ سے اسے اطمینان ہو کہ پیشاب نالی میں باقی نہیں رہا تھا اور اس دوران رطوبت خارج ہو اور اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہوگی اور اس سے وضو بھی باطل نہ ہوگا۔

77۔ اگر کوئی شخص پیشاب کے بعد استبراء کرکے وضو کرلے اور اس کے بعد رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ پیشاب ہے یا منی تو اس پر واجب ہے کہ احتیاطاً غسل کرے اور وضو بھی کرے البتہ اگر اس نے پہلے وضو نہ کیا ہو تو وضو کر لینا کافی ہے۔

78۔ عورت کے لئے پیشاب کے بعد استبراء نہیں ہے۔ پس اگر کوئی رطوبت خارج ہو اور شک ہو کہ یہ پیشاب ہے یا نہیں تو وہ رطوبت پاک ہوگی اور اس کے وضو اور غسل کو بھی باطل نہیں کرے گی۔

رفع حاجت کے مُستَحَبّات اور مکرُوہات

79۔ ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ جب بھی رفع حاجت کے لئے جائے تو ایسی جگہ بیٹھے جہاں اسے کوئی نہ دیکھے۔ اور بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاوں اندر رکھے اور نکلتے وقت پہلے دایاں پاوں باہر رکھے اور یہ بھی مستحب ہے کہ رفع حاجت کے وقت (ٹوپی، دوپٹے وغیرہ سے) سر ڈھانپ کر رکھے اور بدن کا بوجھ بائیں پاوں پر ڈالے۔

ص:30

80۔ رفع حاجت کے وقت سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے بیٹھنا مکروہ ہے لیکن اگر اپنی شرم گاہ کو کسی طرح ڈھانپ لے تو مکروہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رفع حاجت کے لئے ہوا کہ رُخ کے بالمقابل نیز گلی کوچوں، راستوں، مکان کے دروازوں کے سامنے اور میوہ دار درختوں کے نیچے بیٹھنا بھی مکروہ ہے اور اس حالت میں کوئی چیز کھانا یا زیادہ وقت لگانا یا دائیں ہاتھ سے طہارت کرنا بھی مکروہ ہے اور یہی صورت باتیں کرنے کی بھی ہے لیکن اگر مجبوری ہو یا ذکر خدا کرے تو کوئی حرج نہیں۔

81۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا اور سخت زمین پر یا جانوروں کے بلوں میں یا پانی میں بالخصوص ساکن پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے۔

82۔ پیشاب اور پاخانہ روکنا مکروہ ہے اور اگر بدن کے لئے مکمل طور پر مضر ہو تو حرام ہے۔

83۔ نماز سے پہلے، سونے سے پہلے، مباشرت کرنے سے پہے اور انزال منی کے بعد پیشاب کرنا مستحب ہے۔

نجاسات

اشاره

84۔ دس چیزیں نجس ہیں:

1۔ پیشاب 2۔ پاخانہ 3۔ منی 4۔ مُردار۔ خون " 6، 7" کتا اور سور 8۔ کافر 9۔ شراب 10۔نجاست خور حیوان کا پسینہ۔

پیشاب اور پاخانہ

85۔ انسان کا اور ہر اس حیوان کا جس کا گوشت حرام ہے اور جس کا خون جہندہ ہے یعنی اگر اس کی رگ کاٹی جائے تو خون اچھل کر نکلتا ہے، پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔ لیکن ان حیوانوں کا پاخانہ پاک ہے جن کا گوشت حرام ہے مگر ان کا خون اچھل کر نہیں نکلتا، مثلاً وہ مچھلی جس کا گوشت حرام ہے اور اسی طرح گوشت نہ رکھنے والے چھوٹے حیوانوں مثلاً مکھی، مچھر (کھٹمل اور پسو) کا فُضلہ یا آلائش بھی پاک ہے لیکن حرام گوشت حیوان کہ جو اچھلنے والا خون نہ رکھتا ہو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے پیشاب سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے۔

ص:31

86۔ جن پرندوں کا گوشت حرام ہے ان کا پیشاب اور فضلہ پاک ہے لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے۔

87۔ نجاست خور حیوان کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔ اور اسی طرح اس بھیٹر کے بچے کا پیشاب اور پاخانہ جس نے سورنی کا دودھ پیا ہو نجس ہے جس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ اسی طرح اس حیوان کا پیشاب اور پاخانہ بھی نجس ہے جس سے کسی انسان نے بدفعلی کی ہو۔

منی

88۔ انسان کی اور ہر اس جانور کی منی نجس ہے جس کا خون (ذبح ہوتے وقت اس کی شہ رگ سے)اچھل کر نکلے۔ اگرچہ احتیاط لازم کی بنا پر وہ حیوان حلال گوشت ہی کیوں نہ ہو۔

مُردار

89۔ انسان کی اور اچھلنے والا خون رکھنے والے ہر حیوان کی لاش نجس ہے خواہ وہ (قدرتی طور پر) خود مرا ہو یا شرعی طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔

مچھلی چونکہ اچھلنے والا خون نہیں رکھتی اس لئے پانی میں مر جائے تو بھی پاک ہے۔

90۔ لاش کے وہ اجزاء جن میں جان نہیں ہوتی پاک ہیں مثلاً پشم، بال، ہڈیاں اور دانت۔

91۔ جب کسی انسان یا جہندہ خون والے حیوان کے بدن سے اس کی زندگی کے دوران میں گوشت یا کوئی دوسرا ایسا حصہ جس میں جان ہو جدا کر لیا جائے تو وہ نجس ہے۔

92۔ اگر ہونٹوں یا بدن کی کسی اور جگہ سے باریک سی تہہ (پیڑی) اکھیڑ لی جائے تو وہ پاک ہے۔

93۔ مُردہ مرغی کے پیٹ سے جو انڈا نکلے وہ پاک ہے لیکن اس کا چلکھا دھو لینا ضروری ہے۔

94۔ اگر بھیڑیا بکری کا بچہ (میمنا) گھاس کھانے کے قابل ہونے سے پہلے مرجائے تو وہ نپیر مایا جو اس کے شیردان میں ہوتا ہے پاک ہے لیکن شیردان باہر سے دھو لینا ضروری ہے۔

ص:32

95۔ بہنے والی دوائیاں، عطر، روغن (تیل،گھی) جوتوں کی پالش اور صابن جنہیں باہر سے در آمد کیا جاتا ہے اگر ان کی نجاست کے بارے میں یقین نہ ہو تو پاک ہیں۔

96۔ گوشت، چربی اور چمڑا جس کے بارے میں احتمال ہو کہ کسی ایسے جانور کا ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے پاک ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں کسی کافر سے لی گئی ہوں یا کسی ایسے مسلمان سے لی گئی ہوں۔ جس نے کافر سے لی ہوں اور یہ تحقیق نہ کی ہو کہ آیا یہ کسی ایسے جانور کی ہیں جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں تو ایسے گوشت اور چربی کا کھانا حرام ہے البتہ ایسے چمڑے پر نماز جائز ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں مسلمانوں کے بازار سے یا کسی مسلمان سے خریدی جائیں اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس سے پہلے یہ کسی کافر سے خریدی گئی تھیں یا احتمال اس بات کا ہو کہ تحقیق کر لی گئی ہے تو خواہ کافر سے ہی خریدی جائیں اس چمڑے پر نماز پڑھنا اور اس گوشت اور چربی کا کھانا جائز ہے۔

خون

97۔ انسان کا اور خون جہندہ رکھنے والے ہر حیوان کا خون نجس ہے۔ پس ایسے جانوروں مثلاً مچھلی اور مچھر کا خون جو اچھل کر نہیں نکلتا پاک ہے۔

98۔ جن جانوروں کا گوشت حلال ہے اگر انہیں شرعی طریقے سے ذبح کیا جائے اور ضروری مقدار میں اس کا خون خارج ہو جائے تو جو خون بدن میں باقی رہ جائے وہ پاک ہے لیکن اگر (نکلنے والا) خون جانور کے سانس کھینچنے سے یا اس کا سر بلند جگہ پر ہونے کی وجہ سے بدن میں پلٹ جائے تو وہ نجس ہوگا۔

99 مرغی کے جس انڈے میں خون کا ذرہ ہو اس سے احتیاط مستحب کی بنا پر پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن اگر خون زردی میں ہو تو جب تک اس کا نازک پردہ پھٹ نہ جائے سفیدی بغیر اشکال کے پاک ہے۔

100۔ وہ خون جو بعض اوقات چوائی کرتے ہوئے نظر آتا ہے نجس ہے اور دودھ کو بھی نجس کر دیتا ہے۔

101۔ اگر دانتوں کی ریخوں سے نکلنے والا خون لُعاب دہن سے مخلوط ہو جانے پر ختم ہو جائے تو اس لعاب سے پرہیز لازم نہیں ہے۔

ص:33

102۔ جو خون چوٹ لگنے کی وجہ سے ناخن یا کھال کے نیچے جم جائے اگر اس کی شکل ایسی ہو کہ لوگ اسے خون نہ کہیں تو وہ پاک اور اگر خون کہیں اور وہ ظاہر ہو جائے تو نجس ہوگا۔ ایسی صورت میں جب کہ ناخن یا کھال میں سوراخ ہوجائے اگر خون کا نکالنا اور وضو یا غسل کے لئے اس مقام کا پاک کرنا بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہو تو تیمم کر لینا چاہئے۔

103۔ اگر کسی شخص کو یہ پتہ نہ چلے کہ کھال کے نیچے خون جم گیا ہے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے گوشت نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے تو وہ پاک ہے۔

104۔ اگر کھانا پکاتے ہوئے خون کا ایک ذرہ بھی اس میں گر جائے تو سارے کا سارا کھانا اور برتن احتیاط لازم کی بنا پر نجس ہو جائے گا۔ ابال، حرارت اور آگ انہیں پاک نہیں کر سکتے۔

105۔ ریم یعنی وہ زرد مواد جو زخم کی حالت بہتر ہونے پر اس کے چاروں طرف پیدا ہو جاتا ہے اس کے متعلق اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس میں خون ملا ہوا ہے تو وہ پاک ہوگا۔

کُتا اور سُوّر

کتا اور سور جو زمین پر رہتے ہیں۔ حتی کے ان کے بال، ہڈیاں، پنجے، ناخن اور رطوبتیں بھی نجس ہیں البتہ سمندری کتا اور سور پاک ہیں۔

کافر

107۔ کافر یعنی وہ شخص جا باری تعالی کے وجود یا اس کی وحدانیت کا منکر ہو نجس ہے۔ اور اسی طرح غلات (یعنی وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام میں سے کسی کو خدا کہیں یا یہ کہیں کہ خدا، امام میں سما گیا ہے) اور خارجی و ناصبی (وہ لوگ جو ائمہ علیہم السلام سے بیر اور بغض کا اظہار کریں) بھی نجس ہیں۔

اس طرح وہ شخص جو کسی نبی کی نبوت یا ضروریات دین (یعنی وہ چیزیں جنہیں مسلمان دین کا جز سمجھتے ہیں مثلاً نماز اور روزے) میں سے کسی ایک کا یہ جانتے ہوئے کہ یہ ضروریات دین ہیں، منکر ہو۔ نیز اہل کتاب (یہودی، عیسائی اور مجوسی) بھی جو خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرار نہیں کرتے مشہور روایات کی بنا پر نجس ہیں اگرچہ ان کی طہارت کا حکم بعید نہیں لیکن اس سے بھی پرہیز بہتر ہے۔

ص:34

108۔ کافر کا تمام بدن حتی کہ اس کے بال، ناخن اور رطوبتیں بھی نجس ہیں۔

109۔ اگر کسی نابالغ بچے کے ماں باپ یا دادا دادی کافر ہوں تو وہ بچہ بھی نجس ہے۔ البتہ اگر وہ سوجھ بوجھ رکھتا ہو، اسلام کا اظہار کرتا ہو اور اگر ان میں سے (یعنی ماں باپ یا دادا دادی میں سے) ایک بھی مسلمان ہو تو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ 217 میں آئے گی بچہ پاک ہے۔

110۔ اگر کسی شخص کے متعلق یہ علم نہ ہو کہ مسلمان ہے یا نہیں اور کوئی علامت اس کے مسلمان ہونے کی نہ ہو تو وہ پاک سمجھا جائے گا لیکن اس پر اسلام کے دوسرے احکامات کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مثلاً نہ ہی وہ مسلمان عورت سے شادی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاسکتا ہے۔

111۔ جو شخص (خانوادہ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے) بارہ اماموں میں سے کسی ایک کو بھی دشمنی کی بنا پر گالی دے وہ نجس ہے۔

شراب

112۔ شراب نجس ہے۔ اور احتیاط مستجب کی بنا پر ہر وہ چیز بھی جو انسان کو مست کر دے اور مائع ہو نجس ہے۔ اور اگر مائع نہ ہو جیسے بھنگ اور چرس تو وہ پاک ہے خواہ اس میں ایسی چیز ڈال دیں جو مائع ہو۔

113۔ صنعتی الکحل، جو دروازے، کھڑکی، میز یا کرسی وغیرہ رنگنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اس کی تمام قسمیں پاک ہیں۔

114۔ اگر انگور اور انگور کا رس خود بخود یا پکانے پر خمیر ہو جائے تو پاک ہے لیکن اس کا کھانا پیینا حرام ہے۔

115۔ کھجور، منقی،کشمش اور ان کا شیرہ خواد خمیر ہو جائیں تو بھی پاک ہیں اور ان کا کھانا حلال ہے۔

116۔ "فقاع" جو کہ جو سے تیار ہوتی ہے اور اسے آب جو کہتے ہیں حرام ہے لیکن اس کا نجس ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے۔ اور غیر فقاع یعنی طبی قواعد کے مطابق حاصل کردہ "آپ جو" جسے "ماء الشعیر" کہتے ہیں، پاک ہے۔

نجاست کھانے والے حیوان کا پسینہ

ص:35

117۔ نجاست کھانے والے اونٹ کا پسینہ اور ہر اس حیوان کا پسینہ جسے انسانی نجاست کھانے کی عادت ہو نجس ہے۔

118۔ جو شخص فعل حرام سے جُنب ہوا ہو اس کا پسینہ پاک ہے لیکن احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے اور حالت حیض میں بیوی سے جماع کرنا جبکہ اس حالت کا علم ہو حرام سے جنب ہونے کا حکم رکھتا ہے۔

119۔ اگر کوئی شخص ان اوقات میں بیوی سے جماع کرے جن میں جماع حرام ہے (مثلا رمضان المبارک میں دن کے وقت) تو اس کا پسینہ حرام سے جنب ہونے والے کے پسینے کا حکم نہیں رکھتا۔

120۔ اگر حرام سے جنب ہونے والا غسل کے بجائے تیمم کرے اور تیمم کے بعد اسے پسینہ آجائے تو اس پسینے کا حکم وہی ہے جو تیمم سے قبل والے پسینہ کا تھا۔

121۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہو جائے اور پھر اس عورت سے جماع کرے جو اس کے لئے حلال ہے تو اس کے لئے احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس پسینے کے ساتھ نماز نہ پڑھے اور اگر پہلے اس عورت سے جماع کرے جو حلال ہو اور بعد میں حرام کا مرتکب ہو تو اس کا پسینہ حرام ہے جنب ہونے والے کے پسینے کا حکم نہیں رکھتا۔

نجاست ثابت ہونے کے طریقے

122۔ ہر چیز کی نجاست تین طریقوں سے ثابت ہوتی ہے:

(اول) خود انسان کو یقین یا اطمینان ہو کہ فلاں چیز نجس ہے۔ اگر کسی چیز کے متعلق محض گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہیز کرنا لازم نہیں۔ لہذا قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں جہاں لاپروا لوگ اور ایسے لوگ کھاتے پیتے ہیں جو نجاست اور طہارت کا لحاظ نہیں کرتے کھانا کھانے کی صورت یہ ہے کہ جب تک انسان کو اطمینان نہ ہو کہ جو کھانا اس کے لئے لایا گیا ہے وہ نجس ہے اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

(دوم) کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس چیز کے بارے میں کہے کہ نجس ہے وہ شخص غلط بیانی نہ کرتا ہو مثلاً کسی شخص کی بیوی یا نوکر یا ملازمہ کہے کہ برتن یا کوئی دوسری چیز جو اس کے پاس ہے نجس ہے تو وہ نجس شمار ہوگی۔

ص:36

(سوم) اگر دو عادل آدمی کہیں کہ ایک چیز نجس ہے تو وہ نجس شمار ہوگی بشرطیکہ وہ اس کے نجس ہونے کی وجہ بیان کریں۔

123۔ اگر کوئی شخص مسئلے سے عدم واقفیت کی بتا پر جان سکے کہ ایک چیز نجس ہے یا پاک مثلاً سے یہ علم نہ ہو کر چوہے کہ مینگنی پاک ہے یا نہیں تو اسے چاہئے کہ مسئلہ پوچھ لے۔ لیکن اگر مسئلہ جانتا ہو اور کسی چیز کے بارے میں اسے شک ہو کہ پاک ہے یا نہیں مثلاً اسے شک ہو کہ وہ چیز خون ہے یا نہیں یا یہ نہ جانتا ہو کہ مچھر کا خون ہے یا انسان کا توہ وہ چیز پاک شمار ہوگی اور اس کے بارے میں چھان بین کرنا یا پوچھنا لازم نہیں ۔

124۔ اگر کسی نجس چیز کے بارے میں شک ہو کہ (بعد میں) پاک ہوئی ہے یا نہیں تو وہ نجس ہے۔ اگر کسی پاک چیز کے بارے میں شک ہو کہ (بعد میں) نجس ہوگئی ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے۔ اگر کوئی شخصں ان چیزوں کے نجس یا پاک ہونے کے متعلق پتہ چلا بھی سکتا ہو تو تحقیق ضروری نہیں ہے۔

125۔ اگر گوئی شخص جانتا ہو کہ جو دو برتن یا دو کپڑے وہ استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک نجس ہو گیا ہے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ ان میں سے کون سا نجس ہوا ہے تو دونوں اس اجتناب کرنا ضروری ہے اور مثال کے طور پر اگر یہ نہ جانتا ہو کہ خود اس کا کپڑا نجس ہوا ہے یا وہ کپڑا جو اس کے زیر استمال نہیں ہے اور کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اپنے کپڑے سے اجتناب کرے۔

پاک چیز نجس کیسے ہوتی ہے؟

126۔ اگر کوئی پاک چیز کسی نجس چیز سے لگ جائے اور دونوں یا ان میں سے ایک اس قدر تر ہو کہ ایک کی ترسی دوسری تک پہنچ جائے تو پاک چیز بھی نجس ہو جائے گی اور اگر وہ اسی تری کے ساتھ کسی تیسری چیز کے ساتھ لگ جائے تو اسے بھی نجس کر دیتی ہے اور مشہور قول ہے کہ جو چیز نجس ہوگئی ہو وہ دوسری چیز کو بھی نجس کر دیتی ہے لیکن یکے بعد دیگرے کئی چیزوں پر نجاست کا حکم لگانا مشکل ہے بلکہ طہارت کا حکم لگانا قوت سے خالی نہیں ہے۔ مثلا گرادیاں ہاتھ پیشاب سے نجس ہو جائے اور پھر یہ تر ہاتھ بائیں ہاتھ کو چھو جائے تو وہ لباس بھی نجس ہو جائے گا لیکن اگر اب وہ تر لباس کسی دوسری تر چیز کو لگ جائے تو وہ چیز نجس نہیں ہوگی اور اگر تری اتنی کم ہو کہ دوسری چیز کو نہ لگے تو پاک چیز نجس نہیں ہوگی خواہ وہ عین نجس کو ہی کیوں نہ لگی ہو۔

ص:37

127۔ اگر کوئی پاک چیز کسی نجس چیز کو لگ جائے اور ان دونوں یا کسی ایک کے تر ہونے کے متعلق کسی کو شک ہو تو پاک چیز نجس نہیں ہوتی۔

128۔ ایسی دو چیزیں جن کے بارے میں انسان کو علم نہ ہو کہ ان میں سے کون سی پاک ہے اور کون سی نجس اگر ایک پاک تر چیز ان میں سے کسی ایک چیز کو چھو جائے تو اس سے پرہیز کرنا ضروری نہیں ہے لیکن بعض صورتوں میں مثلاً دونوں چیزیں پہلے نجس تھیں یا یہ کہ کوئی پاک چیز تری کی حالت میں ان میں سے کسی ایک کو چھو جائے (تو اس سے اجتناب ضروری ہے)۔

129۔ اگر زمین، کپڑا یا ایسی دوسری چیزیں تر ہوں تو ان کے جس حصے کو نجاست لگے گی وہ نجس ہو جائے گا اور باقی حصہ پاک رہے گا۔ یہی حکم کھیرے اور خربوزے وغیرہ کے بارے میں ہے۔

130۔ جب شیرے، تیل، (گھی) یاایسی ہی کسی اور چیز کی صورت ایسی ہو کہ اگر اس کی کچھ مقدار نکال لی جائے تو اس کی جگہ خالی نہ رہے تو جوں ہی وہ ذرہ بھر بھی نجس ہوگا سارے کا سارے نجس ہو جائے گا اگر اس کی صورت ایسی ہو کہ نکالنے کے مقام پر جگہ خالی رہے اگر چہ بعد میں پر ہی ہو جائے تو صرف وہی حصہ نجس ہوگا جسے نجاست لگی ہے۔ لہذا اگر چوہے کی مینگنی اس میں گر جائے تو جہاں وہ مینگنی گری ہے وہ جگہ نجس اور باقی پاک ہوگی۔

131۔ اگر مکھی یا ایسا ہی کوئی اور جاندار ایک ایسی تر چیز پر بیٹھے جو نجس ہو اور بعد ازاں ایک تر پاک چیز پر جابیٹھے اور یہ علم ہو جائے کہ اس جاندار کے ساتھ نجاست تھی تو پاک چیز نجس ہو جائے گی اور اگر علم نہ ہو تا پاک رہے گی۔

132۔ اگر بدن کے کسی حصے پر پسینہ اور وہ حصہ نجس ہو جائے اور پھر پسینہ بہہ کر بدن کے دوسرے حصوں تک چلا جائے تو جہاں جہاں پسینہ بہے گا بدن کے وہ حصے نجس ہو جائیں گے لیکن اگر پسینہ آگے نہ بہے تو باقی بدن پاک رہے گا۔

133۔ جو بلغم ناک یا گلے سے خارج ہو اگر اس میں خون ہو تو بلغم میں جہاں خون ہوگا نجس اور باقی حصہ پاک ہوگا لہذا اگر یہ بلغم منہ یا ناک کے باہر لگ جائے تو بدن کے جس مقام کے بارے میں یقین ہو کہ نجس بلغم اس پر لگا ہے نجس ہے اور جس جگہ کے بارے میں شک ہو کہ وہاں بلغم کا نجاست والا حصہ پہنچا ہے یا نہیں تو وہ پاک ہوگا۔

ص:38

134۔ اگر ایک ایسا لوٹا جس کے پیندے میں سوراخ ہو۔ نجس زمین پر رکھ دیا جائے اور اس سے پانی بہنا بند ہوجائے تو جو پانی اس کے نیچے جمع ہوگا، وہ اس کے اندر والے پانی سے مل کر یکجا ہو جائے تو لوٹے کا پانی نجس ہو جائے گا لیکن اگر لوٹے کا پانی تیزی کے ساتھ بہتا رہے تو نجس نہیں ہوگا۔

135۔ اگر کوئی چیز بدن میں داخل ہو کر نجاست سے جا ملے لیکن بدن سے باہر آنے پر نجاست آلود نہ ہو تو وہ چیز پاک ہے چنانچہ اگر اینما کا سامان یا اس کا پانی مقعد میں داخل کیا جائے یا سوئی، چاقو یا کوئی اور ایسی چیز بدن میں چبھ جائے اور باہر نکلنے پر نجاست آلود نہ ہو تو نجس نہیں ہے۔ اگر تھوک اور ناک کا پانی جسم کے اندر خون سے جا ملے لیکن باہر نکلنے پر خون آلود نہ ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے.

احکام نجاسات

136۔ قرآن مجید کی تحریر اور ورق کو نجس کرنا جب کہ یہ فعل بے حرمتی میں شمار ہوتا ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہو جائے تو فورا پانی سے دھونا ضروری ہے بلکہ اگر بے حرمتی کا پہلونہ بھی نکلے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر کلام پاک کو نجس کرنا حرام اور پانی سے دھونا واجب ہے۔

137۔ اگر قرآن مجید کی جلد نجس ہو جائے اور اس سے قرآن مجید کی بے حُرمتی ہوتی ہو تو جلد کو پانی سے دھونا ضروری ہے۔

138۔ قرآن مجید کو کسی عین نجاست مثلاً خون مُردار پر رکھنا خواہ وہ عین نجاست خشک ہی کیوں نہ ہو اگر قرآن مجید کی بے حرمتی کا باعث ہو تو حرام ہے۔

139۔ قرآن مجید کو نجس روشنائی سے لکھنا خواہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو اسے نجس کرنے کا حکم رکھتا ہے۔ اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پانی سے دھو کر یا چھیل کر یا کسی اور طریقے سے مٹا دینا ضروری ہے۔

140۔ اگر کافر کو قرآن مجید دینا بے حرمتی کا موجب ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآن مجید واپس لے لینا واجب ہے۔

141۔ اگر قرآن مجید کا ورق یا کوئی ایسی چیز جس کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر اللہ تعالی کا یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) یا کسی امام علیہ السلام کا نام لکھا ہو بیت الخلاء میں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور اسے دھونا واجب ہے خواہ اس

ص:39

پر کچھ رقم ہی کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔ اور اگر اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت تک اس بیت الخلاء کو استعمال نہ کیا جائے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ گل کر ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح اگر خاک شفابیت الخلاء میں گرجائے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے، اس بیت الخلاء کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

142۔ نجس چیز کا کھانا پینا یا کسی دوسرے کو کھلانا پلانا حرام ہے لیکن بچے یا دیوانے کو کھلانا پلانا بظاہر جائز ہے اور اگر بچہ یا دیوانہ نجس غذا کھائے پیئے یا نجس ہاتھ سے غذا کو نجس کر کے کھائے تو اسے روکنا ضروری نہیں۔

143۔ جو نجس چیز دھوئی جاسکتی ہو اسے بیچنے اور ادھار دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے نجس ہونے کے بارے میں جب یہ دو شرطیں موجود ہوں تو خریدنے یا ادھار لینے والے کو بتانا ضروری ہے۔

(نجس چیز) کو کھانے یا پینے میں استعمال کرے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو بتانا ضروری نہیں ہے مثلاً لباس کے نجس ہونے کے بارے میں بتانا ضروری نہیں جسے پہن کر دوسرا فریق نماز پڑھے کیونکہ لباس کا پاک ہونا شرط واقعی نہیں ہے۔

(دوسری شرط) جب بیچنے یا ادھار دینے والے کو توقع ہو کہ دوسرا فریق اس کی بات پر عمل کرے گا اور اگر وہ جانتا ہو کہ دوسرا فریق اس کی بات پر عمل نہیں کرے گا تو اسے بتانا ضروری نہیں ہے۔

144۔ اگر ایک شخص کسی دوسرے کو نجش چیز کھاتے یا نجس لباس سے نماز پڑھتے دیکھے تو اسے اس بارے میں کچھ کہنا ضروری نہیں ۔

145۔ اگر گھر کا کوئی حصہ یا قالین (یا دری) نجس ہو اور وہ دیکھے کہ اس کے گھر آنے والوں کا بدن، لباس یا کوئی اور چیز تری کے ساتھ نجس جگہ سے جالگی ہے اور صاحب خانہ اس کا باعث ہوا ہو تو دو شرطوں کے ساتھ جو مسئلہ 143 میں بیان ہوئی ہیں ان لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کر دینا ضروری ہے۔

146۔ اگر میزبان کو کھانا کھانے کے دوران پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو دونوں شرطوں کے مطابق جو (مسئلہ 143 میں) بیان ہوئی ہیں ضروری ہے کہ مہمانوں کو اس کے متعلق آگاہ کر دے لیکن اگر مہمانوں میں سے کسی کو اس بات کا علم ہو

ص:40

جائے تو اسکے لئے دوسروں کو بتانا ضروری نہیں۔ البتہ اگر وہ ان کے ساتھ یوں گھل مل کر رہتا ہو کہ ان کے نجس ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی نجاست میں مبتلا ہو کر واجب احکام کی مخالف کا مرتکب ہوگا تو ان کو بتانا ضروری ہے۔

147۔ اگر کوئی ادھار لی ہوئی چیز نجس ہو جائے تو اسکے مالک کو دو شرطوں کے ساتھ جو مسئلہ 143 میں بیان ہوئی ہیں آگاہ کرے۔

148۔ اگر بچہ کہے کہ کوئی چیز نجس ہے یا کہے کہ اس نے کسی چیز کو دھو لیا ہے تو اس کی بات پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر بچے کی عمر مکلف ہونے کے قریب ہو اور وہ کہے کہ اس نے ایک چیز پانی سے دھوئی ہے جب کہ وہ چیز اس کے استعمال میں ہو یا بچے کا قول اعتماد کے قابل ہو تو اس کی بات قبول کر لینی چاہئے اور یہی حکم ہے جب کہ بچہ کہے کہ وہ چیز نجس ہے۔

مُطہّرات

اشاره

149۔ بارہ چیزیں ایسی ہیں جو نجاست کو پاک کرتی ہیں اور انہیں مطہرات کہا جاتا ہے۔

1۔ پانی 2۔ زمین 3۔ سورج 4۔ استحالہ 5۔ انقلاب 6۔ انتقال 7۔ اسلام 8۔ تبعیت 9۔ عین نجاست کا زائل ہو جانا 10۔ نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء 11۔ مسلمان کا غائب ہوجانا 12۔ ذبح کئے گئے جانور کے بدن سے خون کا نکل جانا۔

ان مطہرات کے بارے میں مفصل احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

پانی

150۔ پانی چار شرطوں کے ساتھ نجس چیز کو پاک کرتا ہے۔

1۔ پانی مطلق ہو۔ مضاف پانی مثلاً عرق گلاب یا عرق بید مشک سے نجس چیز پاک نہیں ہوتی۔

2۔ پانی پاک ہو۔

ص:41

3۔نجس چیز کو دھونے کے دوران پانی مضاف نہ بن جائے۔ جب کسی چیز کو پاک کرنے کے لئے پانی سے دھویا جائے اور اس کے بعد مزید دھونا ضروری نہ و تو یہ بھی لازم ہے کہ اس پانی میں نجاست کی بو، رنگ یا ذائقہ موجود نہ ہو لیکن اگر دھونے کی صورت اس سے مختلف ہو (یعنی وہ آخری دھونا نہ ہو) اور پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ بدل جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً اگر کوئی چیز کُر پانی یا قلیل پانی سے دھوئی جائے اور اسے دو مرتبہ دھونا ضروری ہو تو خواہ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ پہلی دفعہ دھونے کے وقت بدل جائے لیکن دوسری دفعہ استعمال کئے جانے والے پانی میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو وہ چیز پاک ہو جائے گی۔

4۔ نجس چیز کو پانی سے دھونے کے بعد اس میں عین نجاست کے ذرات باقی نہ رہیں۔

نجس چیز کو قلیل پانی یعنی ایک کُر سے کم پانی سے پاک کرنے کی کچھ اور شرائط بھی ہیں جن کا ذکر کیا جا رہا ہے:

151۔ نجس برتن کے اندرونی حصے کو قلیل پانی سے تین دفعہ دھونا ضروری ہے اور کُر یا جاری پانی کا بھی احتیاط واجب کی بنا پر یہی حکم ہے لیکن جس برتن سے کُتے نے پانی یا کوئی اور مائع چیز پی ہو اسے پہلے پاک مٹی سے مانجھنا چاہئے پھر اس برتن سے مٹی کو دُور کرنا چاہئے، اس کے بعد قلیل یا کُر یا جاری پانی سے دو دفعہ دھونا چاہئے۔ اسی طرح اگر کُتے نے کسی برتن کو چاٹا ہو اور کوئی چیز اس میں باقی رہ جائے تو اسے دھونے سے پہلے مٹی سے مانجھ لینا ضروری ہے البتہ اگر کتے کا لعاب کسی برتن میں گر جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر اسے مٹی سے مانجھنے کے بعد تین دفعہ پانی سے دھونا ضروری ہے۔

152۔ جس برتن میں کتے نے منہ ڈالا ہے اگر اس کا منہ تنگ ہو تو اس میں مٹی ڈال کر خوب ہلائیں تاکہ مٹی برتن کے تمام اطراف میں پہنچ جائے۔ اس کے بعد اسے اسی ترتیب کے مطابق دھوئیں جس کا ذکر سابقہ مسئلے میں ہو چکا ہے۔

153۔ اگر کسی برتن کو سوّر چاٹے یا اس میں سے کوئی بہنے والی چیز پی لے یا اس برتن میں جنگلی چوہا مر گیا ہو تو اسے قلیل یا کُر یا جاری پانی سے ساتھ مرتبہ دھونا ضروری ہے لیکن مٹی سے مانجھنا ضروری نہیں۔

154۔ جو برتن شراب سے نجس ہو گیا ہو اسے تین مرتبہ دھونا ضروری ہے۔ اس بارے میں قلیل یا کُر یا جاری پانی کی کوئی تخصیص نہیں۔

ص:42

155۔ اگر ایک ایسے برتن کو جو نجس مٹی سے تیار ہوا ہو یا جس میں نجس پانی سرایت کر گیا ہو کُر یا جاری پانی میں ڈال دیا جائے تو جہاں جہاں وہ پانی پہنچے گا برتن پاک ہو جائے گا اور اگر اس برتن کے اندرونی اجزاء کو بھی پاک کرنا مقصود ہو تو اسے کُر یا جاری پانی میں اتنی دیر تک پڑے رہنے دینا چاہئے کہ پانی تمام برتن میں سرایت کر جائے۔ اور اگر اس برتن میں کوئی ایسی نمی ہو جو پانی کے اندرونی حصوں تک پہنچنے میں مانع ہو تو پہلے اسے خشک کر لینا ضروری ہے اور پھر برتن کو کُر یا جاری پانی میں ڈال دینا چاہئے۔

156۔ نجس برتن کو قلیل پانی سے دو طریقے سے دھویا جا سکتا ہے۔

(پہلا طریقہ) برتن کو تین دفعہ بھرا جائے اور ہر دفعہ خالی کر دیا جائے۔

(دوسرا طریقہ) برتن میں تین دفعہ مناسب مقدار میں پانی ڈالیں اور ہر دفعہ پانی کو یوں گھمائیں کہ وہ تمام نجس مقامات تک پہنچ جائے اور پھر اسے گرا دیں۔

157۔ اگر ایک بڑا برتن مثلا دیگ یا مٹکا نجس ہو جائے تو تین دفعہ پانی سے بھرنے اور ہر دفعہ خالی کرنے کے بعد پاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر اس میں تین دفعہ اوپر سے اس طرح پانی انڈیلیں کہ اس کی تمام اطراف تک پہنچ جائے اور ہر دفعہ اس کی تہہ میں جو پانی جمع ہو جائے اس کو نکال دیں تو برتن پاک ہو جائے گا۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوسری اور تیسری بار جس برتن کے ذریعے پانی باہر نکالا جائے اسے بھی دھولیا جائے۔

158۔ اگر نجس تانبے وغیرہ کو پگھلا کر پانی سے دھو لیا جائے تو اس کا ظاہری حصہ پاک ہو جائیگا۔

159۔ اگر تنور پیشاب سے نجس ہو جائے اور اس میں اوپر سے ایک مرتبہ پانی ڈالا جائے کہ اس کی تمام اطراف تک پہنچ جائے تو تنور پاک ہو جائے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ یہ عمل دو دفعہ کیا جائے۔ اور اگر تنور پیشاب کے علاوہ کسی اور چیز سے نجس ہوا ہو تو نجاست دور کرنے کے بعد مذکورہ طریقے کے مطابق اس میں ایک دفعہ پانی ڈالنا کافی ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ تنور کی تہہ میں ایک گڑھا کھود لیا جائے جس میں پانی جمع ہو سکے پھر اس پانی کو نکال لیا جائے اور گڑھے کو پاک مٹی سے پُر کر دیا جائے۔

ص:43

160۔ اگر کسی نجس چیز کو کُر یا جاری پانی میں ایک دفعہ یوں ڈبو دیا جائے کہ پانی اس کے تمام نجس مقامات تک پہنچ جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی اور قالین یا دری اور لباس وغیرہ کو پاک کرنے کے لئے اسے نچوڑنا اور اسی طرح سے ملنا یا پاوں سے رگڑنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر بدن یا لباس پیشاب سے نجس ہو گیا ہو تو اسے کُر پانی میں دو دفعہ دھونا بھی لازم ہے۔

161۔ اگر کسی ایسی چیز کو جو پیشاب سے نجس ہو گئی ہو قلیل پانی سے دھونا مقصود ہو تو اس پر ایک دفعہ یوں پانی بہا دیں کہ پیشاب اس چیز میں باقی نہ رہے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی۔ البتہ لباس اور بدن پر دو دفعہ پانی بہانا ضروری ہے تاکہ پاک ہو جائیں۔ لیکن جہاں تک لباس، قالین، دری اور ان سے ملتی جلتی چیزوں کا تعلق ہے انہیں ہر دفعہ پانی ڈالنے کے بعد نچوڑنا چاہئے تاکہ غسالہ ان میں سے نکل جائے۔ (غسالہ یا دھون اس پانی کو کہتے ہیں جو کسی دھوئی جانے والی چیز سے دُھلنے کے دوران یا دھل جانے کے بعد خود بخود یا نچوڑ نے سے نکلتا ہے۔)

162۔ جو چیز ایسے شیر خوار لڑکے یا لڑکی کے پیشاب سے جس نے دودھ کے علاوہ کوئی غذا کھانا شروع نہ کی ہو اور احتیاط کی بنا پر دو سال کا نہ ہو نجس ہو جائے تو اس پر ایک دفعہ اس طرح پانی ڈالا جائے کہ تمام نجس مقامات پر پہنچ جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ مزید ایک بار اس پر پانی ڈالا جائے۔ لباس، قالین اور دری وغیرہ کو نچوڑنا ضروری نہیں۔

163۔ اگر کوئی چیز پیشاب کے علاوہ کسی نجاست سے نجس ہو جائے تو وہ نجاست دور کرنے کے بعد ایک دفعہ قلیل پانی اس پر ڈالا جائے۔ جب وہ پانی بہہ جائے تو وہ چیز پاک ہو جاتی ہے۔ البتہ لباس اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کو نچوڑ لینا چاہئے تاکہ ان کا دھوون نکل جائے۔

164۔ اگر کسی نجس چٹائی کو جو دھاگوں سے بنی ہوئی ہو کُر یا جاری پانی میں ڈبو دیا جائے تو عین نجاست دور ہونے کے بعد وہ پاک ہو جائے گی لیکن اگر اسے قلیل پانی سے دھویا جائے تو جس طرح بھی ممکن ہو اس کا نچوڑنا ضروری ہے (خواہ اس میں پاوں ہی کیوں نہ چلانے پڑیں) تاکہ اس کو دھوون الگ ہو جائے۔

ص:44

165۔ اگر گندم، چاول، صابن وغیرہ کا اوپر والا حصہ نجس ہو جائے تو وہ کُر یا جاری پانی میں ڈبونے سے پاک ہو جائے گا لیکن اگر ان کا اندرونی حصہ نجس ہو جائے تو کُر یا جاری پانی ان چیزوں کے اندر تک پہنچ جائے اور پانی مطلق ہی رہے تو یہ چیزیں پاک ہو جائیں گی لیکن ظاہر یہ ہے کہ صابن اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کے اندر آب مطلق بالکل نہیں پہنچتا۔

166۔ اگر کسی شخص کو اس بارے میں شک ہو کہ نجس پانی صابن کے اندرونی حصے تک سرایت کر گیا ہے یا نہیں تو وہ حصہ پاک ہوگا۔

167۔ اگر چاول یا گوشت یا ایسی ہی کسی چیز کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو کسی پاک پیالے یا اس کے مثل کسی چیز میں رکھ کر ایک دفعہ اس پر پانی ڈالنے اور پھر پھینک دینے کے بعد وہ چیز پاک ہو جاتی ہے اور اگر کسی نجس برتن میں رکھیں تو یہ کام تین دفعہ انجام دینا ضروری ہے اور اس صورت میں وہ برتن بھی پاک ہو جائے گا لیکن اگر لباس یا کسی دوسری ایسی چیز کو برتن میں ڈال کر پاک کرنا مقصود ہو جس کا نچوڑنا لازم ہے تو جتنی بار اس پر پانی ڈالا جائے اسے نچوڑنا ضروری ہے اور برتن کو الٹ دینا چاہئے تاکہ جو دھوون اس میں جمع ہو گیا ہو وہ بہہ جائے۔

168۔ اگر کسی نجس لباس کو جا نیل یا اس جیسی چیز سے رنگا گیا ہو کُر یا جاری پانی میں ڈبویا جائے اور کپڑے کے رنگ کی وجہ سے پانی مضاف ہونے سے قبل تمام جگہ پہنچ جائے تو وہ لباس پاک ہو جائے گا اور اگر اسے قلیل پانی سے دھویا جائے اور نچوڑنے پر اس میں سے مضاف پانی نہ نکلے تو وہ لباس پاک ہو جاتا ہے۔

169۔ اگر کپڑے کو کُر یا جاری پانی میں دھویا جائے اور مثال کے طور پر بعد میں کائی وغیرہ کپڑے میں نظر آئے اور یہ احتمال نہ ہو کہ یہ کپڑے کے اندر پانی کے پہنچنے میں مانع ہوئی ہے تو وہ کپڑا پاک ہے۔

170۔ اگر لباس یا اس سے ملتی جلتی چیز کے دھونے کے بعد مٹی کا ذرہ یا صابن اس میں نظر آئے اور احتمال ہو کہ یہ کپڑے کے اندر پانی کے پہنچنے میں مانع ہوا ہے تو وہ پاک ہے لیکن اگر نجس پانی مٹی یا صابن میں سرایت کر گیا ہو تو مٹی اور صابن کا اوپر والا حصہ پاک اور اس کا اندرونی حصہ نجس ہو گا۔

171۔ جب تک عین نجاست کسی نجس چیز سے الگ نہ ہو وہ پاک نہیں ہوگی لیکن اگر بو یا نجاست کا رنگ اس میں باقی رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ لہذا اگر خون لباس پر سے ہٹا دیا جائے اور لباس دھو لیا جائے اور خون کا رنگ لباس پر باقی بھی رہ

ص:45

جائے تو لباس پاک ہو گا لیکن اگر بو یا رنگ کی وجہ سے یہ یقین یا احتمال پیدا ہو کہ نجاست کے ذرے اس میں باقی رہ گئے ہیں تو وہ نجس ہوگی۔

172۔ اگر کُر جاری پانی میں بدن کی نجاست دور کر لی جائے تو بدن پاک ہو جاتا ہے لیکن اگر بدن پیشاب سے نجس ہوا ہو تو اس صورت میں ایک دفعہ سے پاک نہیں ہوگا لیکن پانی سے نکل آنے کے بعد دوبارہ اس میں داخل ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر پانی کے اندر ہی بدن پر ہاتھ پھیرلے کہ پانی دو دفعہ بدن تک پہنچ جائے تو کافی ہے۔

173۔ اگر نجس غذا دانتوں کی ریخوں میں رہ جائے اور پانی منہ میں بھر کر یوں گھمایا جائے کہ تمام نجس غذا تک پہنچ جائے تو وہ غذا پاک ہو جاتی ہے۔

174۔ اگر سر یا چہرے کے بالوں کو قلیل پانی سے دھویا جائے اور وہ بال گھنے نہ ہوں تو ان سے دھوون جدا کرنے کے لئے انہیں نچوڑنا ضروری نہیں کیونکہ معمولی پانی خود بخود جدا ہو جاتا ہے۔

175۔ اگر بدن یا لباس کو کوئی حصہ قلیل پانی سے دھوتے جائے تو نجس مقام کے پاک ہونے سے اس مقام سے متصل وہ جگہیں بھی پاک ہو جائیں گی جن تک دھوتے وقت عموماً پانی پہنچ جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ نجس مقام کے اطراف کو علیحدہ دھونا ضروری نہیں بلکہ وہ نجس مقام کو دھونے کے ساتھ ہی پاک ہو جاتے ہیں۔ اور اگر ایک پاک چیز ایک نجس چیز کے برابر رکھ دیں اور دونوں پر پانی ڈالیں تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ لہذا اگر ایک نجس انگلی کو پاک کرنے کے لئے سب انگلیوں پر پانی ڈالیں اور نجس پانی یا پاک پانی سب انگلیوں تک پہنچ جائے تو نجس انگلی کے پاک ہونے پر تمام انگلیاں پاک ہو جائیں گی۔

176۔ جو گوشت یا چربی نجس ہو جائے دوسری چیزوں کی طرح پانی سے دھوئی جاسکتی ہے۔ یہی صورت اس بدن یا لباس کی ہے جس پر تھوڑی بہت چکنائی ہو جو پانی کو بدن یا لباس پہنچنے سے نہ روکے۔

177۔ اگر برتن یا بدن نجس ہو جائے اور بعد میں اتنا چکنا ہو جائے کہ پانی اس تک نہ پہنچ سکے اور برتن یا بدن کو پاک کرنا مقصود ہو تو پہلے چکنائی دور کرنی چاہئے تاکہ پانی ان تک (یعنی برتن یا بدن تک) پہنچ سکے۔

178۔ جو نل کُر پانی سے متصل ہو وہ کُر پانی کا حکم رکھتا ہے۔

ص:46

179۔ اگر کسی چیز کو دھویا جائے اور یقین ہو جائے کہ پاک ہوگئی ہے لیکن بعد میں شک گزرے کہ عین نجاست اس سے دور ہوئی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ اسے دوبارہ پانی سے دھولیا جائے اور یقین کر لیا جائے کہ عین نجاست دور ہوگئی ہے۔

180۔ وہ زمین جس میں پانی جذب ہو جاتا ہو مثلاً ایسی زمین جس کی سطح ریت یا بحری پر مشتمل ہو اگر نجس ہو جائے تو قلیل پانی سے پاک ہو جاتی ہے۔

181۔ اگر وہ زمین جس کا فرش پتھر یا اینٹوں کا ہو یا دوسری سخت زمین جس میں پانی جذب نہ ہوتا ہو نجس ہو جائے تو قلیل پانی سے پاک ہو سکتی ہے لیکن ضروری ہے کہ اس پر اتنا پانی گرایا جائے کہ بہنے لگے۔ جو پانی اوپر ڈالا جائے اگر وہ کسی گڑھے سے باہر نہ نکل سکے اور کسی جگہ جمع ہو جائے تو اس جگہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جمع شدہ پانی کو کپڑے یا برتن سے باہر نکال دیا جائے۔

182۔ اگر معدنی نمک کا ڈلا یا اس جیسی کوئی اور چیز اوپر سے نجس ہو جائے تو قلیل پانی سے پاک ہوسکتی ہے۔

183۔ اگر پگھلی ہوئی نجس شکر سے قند بنالیں اور اسے کُر یا جاری پانی میں ڈال دیں تو وہ پاک نہیں ہوگی۔

زمین

184۔ زمین پاوں کے تلوے اور جوتے کے نچلے حصہ کو چار شرطوں سے پاک کرتی ہے۔

(اول) یہ کہ زمین پاک ہو۔

(دوم) احتیاط کی بنا پر خشک ہو۔

(سوم) احتیاط لازم کی بنا پر نجاست زمین پر چلنے سے لگی ہو۔

(چہارم) عین نجاست مثلاً خون اور پیشاب یا متنجس چیز مثلاً متنجس مٹی پاوں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصے میں لگی ہو وہ راستہ چلنے سے یا پاوں زمین پر رگڑنے سے دور ہو جائے لیکن اگر عین نجاست زمین پر چلنے یا زمین پر رگڑنے سے پہلے ہی دور ہو گئی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر پاک نہیں ہوں گے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ زمین مٹی یا پتھر یا انیٹوں کے فرش یا

ص:47

ان سے ملتی جلتی چیز پر مشتمل ہو۔ قالین و دری وغیرہ اور چٹائی، یا گھاس پر چلنے سے پاوں کا نجس تلوا یا جوتے کا نجس حصہ پاک نہیں ہوتا۔

185۔ پاوں کا تلوا یا جوتے کا نچلا حصہ نجس ہو تو ڈامر پر یا لکڑی کے بنے ہوئے فرش پر چلنے سے پاک ہونا محل اشکال ہے۔

186۔ پاوں کے تلوے یا جوتے کے نچلے حصے کو پاک کرنے کے لئے بہتر ہے کہ پندرہ ہاتھ یا اس سے زیادہ فاصلہ زمین پر چلے خواہ پندرہ ہاتھ سے کم چلنے یا پاوں زمین پر رگڑنے سے نجاست دور ہوگئی ہو۔

187۔ پاک ہونے کے لئے پاوں یا جوتے کے نجس تلوے کا تر ہونا ضروری نہیں بلکہ خشک بھی ہوں تو زمین پر چلنے سے پاک ہو جاتے ہیں۔

188۔ جب پاوں یا جوتے کا نجس تلوا زمین پر چلنے سے پاک ہو جائے تو اس کی اطراف کے وہ حصے بھی جنہیں عموماً کیچڑ وغیرہ لگ جاتی ہے پاک ہو جاتے ہیں۔

189۔ اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھ کی ہتھیلی یا گھٹنا نجس ہو جائیں جو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا ہو تو اس کے راستے چلنے سے اس کی ہتھیلی یا گھٹنے کا پاک ہو جانا محل اشکال ہے۔ یہی صورت لاٹھی اور مصنوعی ٹانگ کے نچلے حصے، چوپائے کے نعل، موٹر گاڑیوں اور دوسری گاڑیوں کے پہیوں کی ہے۔

190۔ اگر زمین پر چلنے کے بعد نجاست کی بو یا رنگ یا باریک ذرے جو نظر نہ آئیں پاوں یا جوتے کے تلوے سے لگے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ کہ زمین پر اس قدر چلا جائے کہ وہ بھی زائل ہو جائیں ۔

191۔ جوتے کا اندرونی حصہ زمین پر چلنے سے پاک نہیں ہوتا اور زمین پر چلنے سے موزے کے نچلے حصے کا پاک ہونا بھی محل اشکال ہے لیکن اگر موزے کا نچلا حصہ چمڑے یا چمڑے سے ملتی جلتی چیز سے بنا ہو (تو وہ زمین پر چلنے سے پاک ہو جائے گا)۔

سورج

192۔ سورج ۔ زمین، عمارت اور دیوار کو پانچ شرطوں کے ساتھ پاک کرتا ہے۔

ص:48

(اول) نجس چیز اس طرح تر ہو کہ اگر دوسری چیز اس سے لگے تو تر ہو جائے لہذا اگر وہ چیز خشک ہو تو اسے کسی طرح تر کر لینا چاہئے تاکہ دھوپ سے خشک ہو۔

(دوم) اگر کسی چیز میں عین نجاست ہو تو دھوپ سے خشک کرنے سے پہلے اس چیز سے نجاست کو دور کر لیا جائے۔

(سوم) کوئی چیز دھوپ میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ پس اگر دھوپ پردے، بادل یا ایسی ہی کسی چیز کے پیچھے سے نجس چیز پر پڑے اور اسے خشک کر دے تو وہ چیز پاک نہیں ہوگی البتہ اگر بادل اتنا ہلکا ہو کہ دھوپ کو نہ رو کے تو کوئی حرج نہیں۔

(چہارم) فقط سورج نجس چیز کو خشک کرے۔ لہذا مثال کے طور پر اگر نجس چیز ہوا اور دھوپ سے خشک ہو تو پاک نہیں ہوتی۔ ہاں اگر ہوا اتنی ہلکی ہو کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ نجس چیز کو خشک کرنے میں اس نے بھی کوئی مدد کی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

(پنجم) بنیاد اور عمارت کے جس حصے میں نجاست سرایت کر گئی ہے دھوپ سے ایک ہی مرتبہ خشک ہو جائے۔ پس اگر ایک دفعہ دھوپ نجس زمین اور عمارت پر پڑے اور اس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اور دوسری دفعہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سامنے والا حصہ پاک ہوگا اور نچلا حصہ نجس رہے گا۔

193۔ سورج، نجس چٹائی کو پاک کر دیتا ہے لیکن اگر چٹائی دھاگے سے بنی ہوئی ہو تو دھاگے کے پاک ہونے میں اشکال ہے۔ اسی طرح درخت، گھاس اور دروازے، کھڑکیاں سورج سے پاک ہونے میں اشکال ہے۔

194۔ اگر دھوپ نجس زمین پر پڑے، بعد ازاں شک پیدا ہو کہ دھوپ پڑنے کے وقت زمین تر تھی یا نہیں یا تری دھوپ کے ذریعے خشک ہوئی یا نہیں تو وہ زمین نجس ہوگی۔ اور اگر شک پیدا ہو کہ دھوپ پڑنے سے پہلے عین نجاست زمین پر سے ہٹادی گئی تھی یا نہیں یا یہ کہ کوئی چیز دھوپ کو مانع تھی یا نہیں تو پھر بھی وہی صورت ہوگی (یعنی زمین نجس رہے گی)۔

195۔ اگر دھوپ نجس دیوار کی ایک طرف پڑے اور اس کے ذریعے دیوار کی وہ جانب بھی خشک ہو جائے جس پر دھوپ نہیں پڑی تو بعید نہیں کہ دیوار دونوں طرف سے پاک ہو جائے۔

استحالہ

ص:49

196۔ اگر کسی نجس چیز کی جنس یوں بدل جائے کہ ایک پاک چیز کی شکل اختیار کرلے تو وہ پاک ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر نجس لکڑی جل کر راکھ ہو جائے یا کتا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے۔ لیکن اگر اس چیز کی جنس نہ بدلے مثلاً نجس گیہوں کا آٹا پیس لیا جائے یا (نجس آٹے کی) روٹی پکالی جائے تو وہ پاک نہیں ہوگی۔

197۔ مٹی کا لوٹا اور دوسری ایسی چیزیں جو نجس مٹی سے بنائی جائیں نجس ہیں لیکن وہ کوئلہ جو نجس لکڑی سے تیار کیا جائے اگر اس میں لکڑی کی کوئی خاصیت باقی نہ رہے تو وہ کوئلہ پاک ہے۔

198۔ ایسی نجس چیز جس کے متعلق علم نہ ہو کہ آیا اس کا استحالہ ہوا یا نہیں (یعنی جنس بدلی سے یا نہیں) نجس ہے۔

انقلاب

99 اگر شراب خود بخود یا کوئی چیز ملانے سے مثلا سر کہ اور نمک ملانے سے سرکہ بن جائے تو پاک ہو جاتی ہے۔

200۔ وہ شراب جو نجس انگور یا اس جیسی کسی دوسری چیز سے تیار کی گئی ہو یا کوئی نجس چیز شراب میں گر جائے تو سرکہ بن جانے سے پاک نہیں ہوتی۔

201۔نجس انگور، نجس کشمش اور نجس کھجور سے جو سرکہ تیار کیا جائے وہ نجس ہے۔

202۔ اگر انگور یا کھجور کے ڈنٹھل بھی ان کے ساتھ ہوں اور ان سے سرکہ تیار کیا جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اسی برتن میں کھیرے اور بینگن وغیرہ ڈالنے میں بھی کوئی خرابی نہیں خواہ انگور یا کھجور کے سرکہ بننے سے پہلے ہی ڈالے جائیں بشرطیکہ سرکہ بننے سے پہلے ان میں مشہ نہ پیدا ہوا ہو۔

203۔ اگر انگور کے رس میں آنچ پر رکھنے سے یا خود بخود جوش آجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے اور اگر وہ اتنا ابل جائے کہ اس کا دو تہائی حصہ کم ہوجائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے تو حلال ہو جاتا اور مسئلہ (114) میں بتایا جا چکا ہے کہ انگور کا رس جوش دینے سے نجس نہیں ہوتا۔

204۔ اگر انگور کے رس کا دو تہائی بغیر جوش میں آئے کم ہوجائے اور جو باقی بچے اس میں جوش آجائے تو اگر لوگ اس انگور کارس کہیں، شیرہ نہ کہیں تو احتیاط لازم کی بنا پر وہ حرام ہے۔

ص:50

205۔اگر انگور کے رس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ جوش میں آیا ہے یا نہیں تو وہ حلال ہے لیکن اگر جوش میں آجائے اور یہ یقین نہ ہو کہ اس کا دو تہائی کم ہوا ہے یا نہیں تو وہ حلال نہیں ہوتا۔

206۔ اگر کچے انگور کے خوشے میں کچھ پکے انگور بھی ہوں اور جو رس اس خوشے سے لیا جائے اسے لوگ انگور کا رس نہ کہیں اور اس میں جوش آجائے تو اس کا پینا حلال ہے۔

207۔ اگر انگور کا ایک دانہ کسی ایسی چیز میں گر جائے جو آگ پر جوش کھارہی ہو اور وہ بھی جوش کھانے لگے لیکن وہ اس چیز میں حل نہ ہو تو فقط اس دانے کا کھانا حرام ہے۔

208۔ اگر چند دیگوں میں شیرہ پکایا جائے تو جو چمچہ جوش میں آئی ہوئی دیگ میں ڈالا جا چکا ہو اس کا ایسی دیگ میں ڈالنا بھی جائز ہے جس میں جوش نہ آیا ہو۔

209۔ جس چیز کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کچے انگوروں کا رس ہے یا پکے انگوروں کا اگر اس میں جوش آجائے تو حلال ہے۔

انتقال

210۔ اگر انسان کا خون یا اچھلنے والا خون رکھنے والے حیوان کا خون کوئی ایسا حیوان جس میں عرفا خون نہیں ہوتا اس طرح چوس لے کہ وہ خون اس حیوان کے بدن کا جز ہو جائے مثلاً مچھر، انسان یا حیوان کے بدن سے اس طرح خون چوسے تو وہ خون پاک ہو جاتا ہے اور اسے انتقال کہتے ہیں۔ لیکن علاج کی غرض سے انسان کا جو خون جونک چوستی ہے وہ جونک کے بدن کا جز نہیں بنتا بلکہ انسانی خون ہی رہتا ہے اس لئے وہ نجس ہے۔

211۔ اگر کوئی شخص اپنے بدن پر بیٹھے ہوئے مچھر کو مار دے اور وہ خون جو مچھر نے چوسا ہو اس کے بدن سے نکلے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ خون پاک ہے کیونکہ وہ خون اس قابل تھا کہ مچھر کی غذا بن جائے اگرچہ مچھر کے خون چوسنے اور مارے جانے کے درمیان وقفہ بہت کم ہو۔ لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس خون سے اس حالت میں پرہیز کرے۔

اسلام

ص:51

212۔ اگر کوئی کافر "شہادتین" پڑھ لے یعنی کسی بھی زبان میں اللہ کی واحدانیت اور خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی نبوت کی گواہی دیدے تو مسلمان ہوجاتا ہے۔ اور اگرچہ وہ مسلمان ہونے سے پہلے نجس کے حکم میں تھا لیکن مسلمان ہو جانے کے بعد اس کا بدن، تھوک، ناک کا پانی اور پسینہ پاک ہو جاتا ہے لیکن مسلمان ہونے کے وقت اگر اس کے بدن پر کوئی عین نجاست ہو تو اسے دور کرنا اور اس مقام کو پانی سے دھونا ضروری ہے بلکہ اگر مسلمان ہونے سے پہلے ہی عین نجاست دور ہو چکی ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اس مقام کو پانی سے دھو ڈالے۔

213۔ ایک کافر کے مسلمان ہونے سے پہلے اگر اس کا گیلا لباس اس کے بدن سے چھو گیا ہو تو اس کے مسلمان ہونے کے وقت وہ لباس اس کے بدن پر ہو یا نہ ہو احتیاط واجب کی بنا پر اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

214۔ اگر کافر شہادتین پڑھ لے اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہوا ہے یا نہیں تو وہ پاک ہے۔ اور اگر یہ علم ہو کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا۔ لیکن ایسی کوئی بات اس سے ظاہر نہ ہوئی ہو جو توحید اور رسالت کی شہادت کے منافی ہو تو صورت وہی ہے (یعنی وہ پاک ہے) ۔

تبعیت

215۔ تبعیت کا مطلب ہے کوئی نجس چیز کسی دوسری چیز کے پاک ہونے کی وجہ سے پاک ہونے کی وجہ سے پاک ہو جائے ۔

216۔ اگر شراب سرکہ ہو جائے تو اس کا برتن بھی اس جگہ تک پاک ہو جاتا ہے جہاں تک شراب جوش کھا کر پہنچی ہو اور اگر کپڑا یا کوئی دوسری چیز جو عموماً اس (شراب کے برتن) پر رکھی جاتی ہے اور اس سے نجس ہو گئی ہو تو وہ بھی پاک ہو جاتی ہے لیکن اگر برتن کی بیرونی سطح اس شراب سے آلودہ ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ شراب کے سرکہ ہو جانے کے بعد اس سطح سے پرہیز کیا جائے۔

217۔ کافر کا بچہ بذریعہ تبعیت دو صورتوں میں پاک ہو جاتا ہے۔

ص:52

1۔ جو کافر مرد مسلمان ہو جائے اس کا بچہ طہارت میں اس کے تابع ہے۔ اور اسی طرح بچے کی ماں یا دادی یا دادا مسلمان ہو جائیں تب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اس صورت میں بچے کی طہارت کا حکم اس سے مشروط ہے کہ بچہ اس نو مسلم کے ساتھ اور اس کے زیر کفالت ہو نیز بچے کا کوئی کافر رشتہ دار اس بچے کے ہمراہ نہ ہو۔

2۔ ایک کافر بچے کو کسی مسلمان نے قید کر لیا ہو اور اس بچے کے باپ یا بزرگ (دادا یا نانا وغیرہ) میں سے کوئی ایک بھی اس کے ہمراہ نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں بچے کے تبعیت کی بنا پر پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ جب باشعور ہو جائے تو کفر کا اظہار نہ کرے۔

218۔ وہ تختہ یا سل جس پر میت کو غسل دیا جائے اور وہ کپڑا جس سے میت کی شرمگاہ ڈھانپی جائے نیز غسال کے ہاتھ غسل مکمل ہونے کے بعد پاک ہو جاتے ہیں۔

219۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو پانی سے دھوئے تو اس چیز کے پاک ہونے پر اس شخص کا وہ ہاتھ بھی پاک ہو جاتا ہے جس سے وہ اس چیز کو دھوتا ہے۔

220۔ اگر لباس یا اس جیسی کسی چیز کو قلیل پانی سے دھویا جائے اور اتنا نچوڑ دیا جائے جتنا عام طور پر نچوڑا جاتا ہو تا کہجس پانی سے دھویا گیا ہے اس کا دھوون نکل جائے تو جو پانی اس میں رہ جائے وہ پاک ہے۔

221۔ جب نجس برتن کو قلیل پانی سے دھویا جائے تو جو پانی برتن کو پاک کرنے کے لئے اس پر ڈالا جائے اس کے بہہ جانے کے بعد جو معمولی پانی اس میں باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

عین نجاست کا دور ہونا

222۔ اگر کسی حیوان کا بدن عین نجاست مثلاً خون یا نجس شدہ چیز مثلاً نجس پانی سے آلودہ ہو جائے تو جب وہ نجاست دور ہو جائے حیوان کا بدن پاک ہو جاتا ہے اور یہی صورت انسانی بدن کے اندرونی حصوں مثال کے طور پر منہ یا ناک اور کان کے اندر والے حصوں کی ہے کہ وہ باہر سے نجاست لگنے سے نجس ہو جائیں گے اور جب نجاست دور ہو جائے تو پاک ہو جائیں گے لیکن نجاست داخلی مثلاً دانتوں کے ریخوں سے خون نکلنے سے بدن کا اندرونی حصہ نجس نہیں ہوتا اور یہی حکم ہے جب کسی خارجی چیز کو بدن کے اندرونی حصہ میں نجاست داخلی لگ جائے تو وہ چیز نجس نہیں ہوتی۔ اس بنا پر

ص:53

اگر مصنوعی دانت منہ کے اندر دوسرے دانتوں کے ریخوں سے نکلے ہوئے خون سے آلودہ ہو جائیں تو ان دانتوں کو دھونا لازم نہیں ہے۔ لیکن اگر ان مصنوعی دانتوں کو نجس غذا لگ جائے تو ان کو دھونا لازم ہے۔

223۔ اگر دانتوں کی ریخوں میں غذا لگی رہ جائے اور پھر منہ کے اندر خون نکل آئے تو وہ غذا خون ملنے سے نجس نہیں ہوگی۔

224۔ ہونٹوں اور آنکھ کی پلکوں کے وہ حصے جو بند کرتے وقت ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں وہ اندرونی حصے کا حکم رکھتے ہیں۔ اگر اس اندرونی حصے میں خارج سے کوئی نجاست لگ جائے تو اس اندرونی حصے کو دھونا ضروری نہیں ہے لیکن وہ مقامات جن کے بارے میں انسان کو یہ علم نہ ہو کہ آیا انھیں اندرونی حصے سمجھا جائے یا بیرونی اگر خارج سے نجاست ان مقامات پر لگ جائے تو انہیں دھونا چاہئے ۔

225۔ اگر نجس مٹی کپڑے یا خشک قالین، دری یا ایسی ہی کسی اور چیز کولگ جائے اور کپڑے وغیرہ کو یوں جھاڑا جائے کہ نجس مٹی اس سے الگ ہو جائے تو اس کے بعد اگر کوئی تر چیز کپڑے وغیرہ کو چھو جائے تو وہ نجس نہیں ہوگی۔

نجاست کھانے والے حیوان کا استبراء

226۔ جس حیوان کو انسانی نجاست کھانے کی عادت پڑگئی ہو اس کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے اور اگر اسے پاک کرنا مقصود ہو تو اس کا استبراء کرنا ضروری ہے یعنی ایک عرصے تک اسے نجاست نہ کھانے دیں اور پاک غذا دیں حتی کہ اتنی مدت گزر جائے کہ پھر اسے نجاست کھانے والا نہ کہا جاسکے اور احتیاط مستحب کی بنا پر نجاست کھانے والے اونٹ کو چالیس دن تک ، گائے کو بیس دن تک بھیڑ کو دس دن تک، مرغابی کو کو سات یا پانچ دن تک اور پالتو مرغی کو تین دن تک نجاست کھانے سے باز رکھا جائے۔ اگرچہ مقررہ مدت گزرنے سے پہلے ہی انہیں نجاست کھانے والے حیوان نہ کہا جاسکے (تب بھی اس مدت تک انہیں نجاست کھانے سے باز رکھنا چاہئے)۔

مسلمان کا غائب ہو جانا

ص:54

227۔ اگر بالغ اور پاکی، ناپاکی کی سمجھ رکھنے والے مسلمان کا بدن لباس یا دوسری اشیاء مثلاً برتن اور دری وغیرہ جو اس کے استعمال میں ہوں نجس ہو جائیں اور پھر وہ وہاں سے چلا جائے تو اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ اس نے یہ چیزیں دھوئی تھیں تو وہ پاک ہوں گی لیکن احتیاط مستحب ہے کہ ان کو پاک نہ سمجھے مگر درج ذیل چند شرائط کے ساتھ :

(اول) جس چیز نے اس مسلمان کے لباس کو نجس کیا ہے اسے وہ نجس سمجھتا ہو۔ لہذا اگر مثال کے طور پر اس کا لباس تر ہو اور کافر کے بدن چھو گیا ہو اور وہ اسے نجس نہ سمجتھا ہو تو اس کے چلے جانے کے بعد اس کے لباس کو پاک نہیں سمجھنا چاہئے۔

(دوم) اسے علم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس چیز سے لگ گیا ہے۔

(سوم) کوئی شخص اسے اس چیز کو ایسے کام میں استعمال کرتے ہوئے دیکھے جس میں اس کا پاک ہونا ضروری ہو مثلاً اسے اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے ہوئے دیکھے۔

(چہارم) اس بات کا احتمال ہو کہ وہ مسلمان جو کام اس چیز کے ساتھ کر رہا ہے اس کے بارے میں اسے علم ہے کہ اس چیز کا پاک ہونا ضروری ہے لہذا مثال کے طور پر اگر وہ مسلمان یہ نہیں جانتا کہ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا چاہئے اور نجس لباس کے ساتھ ہی نماز پڑھ رہا ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس لباس کو پاک نہ سمجھے۔

(پنچم) وہ مسلمان نجس اور پاک چیز میں فرق کرتا ہو۔ پس اگر وہ مسلمان نجس اور پاک چیز میں فرق کرتا ہو۔ پس اگر وہ مسلمان نجس اور پاک میں لاپروائی کرتا ہو تو ضروری ہے کہ انسان اس چیز کو پاک نہ سمجھے۔

228۔ اگر کسی شخص کو یقین یا اطمینان ہو کہ جو چیز پہلے نجس تھی اب پاک ہوگئی ہے یا وہ عادل اشخاص اس کے پاک ہونے کی خبر دیں اور ان کی شہادت اس چیز کی پاکی کا جواز ہے تو وہ چیز پاک ہے اسی طرح اگر وہ شخص جس کے پاس کوئی نجس چیز ہوگئے کہ وہ چیز پاک ہوگئی ہے اور وہ غلط بیاں نہ ہو یا کسی مسلمان نے ایک نجس چیز کو دھویا ہو گویہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اسے ٹھیک طرح سے دھویا ہے یا نہیں تو وہ چیز بھی پاک ہے۔

229۔ اگر کسی نے ایک شخص کا لباس دھونے کی ذمہ دار لی ہو اور کہے کہ میں نے اسے دھو دیا ہے اور اس شخص کو اس کے یہ کہنے سے تسلی ہو جائے تو وہ لباس پاک ہے۔

ص:55

230۔ اگر کسی شخص کی یہ حالت ہو جائے کہ اسے کسی نجس چیز کے دھوئے جانے کا یقین ہی نہ آئے اگر وہ اس چیز کو جس طرح لوگ عام طور پر دھوتے ہیں دھولے تو کافی ہے۔

معمول کے مطابق (ذبیحہ کے) خون کا بہہ جانا

231۔ جیسا کہ مسئلہ 98 میں بتایا گیا ہے کہ کسی جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد اس کے بدن سے معمول کے مطابق (ضروری مقدار میں) خون نکل جائے تو جو خون اس کے بدن کے اندر باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

232۔ مذکورہ بالا حکم جس کا بیان مسئلہ 231 میں ہوا ہے احتیاط کی بنا پر اس جانور سے مخصوص ہے جس کا گوشت حلال ہو۔ جس جانور کا گوشت حرام ہو اس پر یہ حکم جاری نہیں ہو سکتا بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر اس کا اطلاق حلال گوشت والے جانور کے ان اعضاء پر بھی نہیں ہو سکتا جو حرام ہیں۔

برتنوں کے احکام

233۔ جو برتن کتے، سور یا مردار کے چمڑے سے بنایا جائے اس میں کسی چیز کا کھانا پینا جب کہ تری اس کی نجاست کا موجب بنی ہو، حرام ہے اور اس برتن کو وضو اور غسل اور ایسے دوسرے کاموں میں استعمال نہیں کرنا چاہئے جنہیں پاک چیز سے انجام دینا ضروری ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ کتے، سور اور مردار کے چمڑے کو خواہ وہ برتن کی شکل میں نہ بھی ہو استمعال نہ کیا جائے۔

234۔ سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر ان کو کسی طرح بھی استعمال کرنا حرام ہے لیکن ان سے کمرہ وغیرہ سجانے یا انہیں اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں گو ان کا ترک کر دینا احوط ہے۔ اور سجاوٹ یا قبضے میں رکھنے کے لئے سونے اور چاندی کے برتن بنانے اور ان کی خرید و فروخت کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔

235۔ استکان (شیشے کا چھوٹا سا گلاس جس میں قہوہ پیتے ہیں) کا ہولڈر جو سونے یا چاندی سے بنا ہوا ہو اگر اسے برتن کہا جائے تو ہو سونے، چاندی کے برتن کا حکم رکھتا ہے اور اگر اسے برتن نہ کہا جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

236۔ ایسے برتنوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں جن پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہو۔

ص:56

237۔ اگر جست کو چاندی یا سونے میں مخلوط کر کے برتن بنائے جائیں اور جست اتنی زیادہ مقدار میں ہو کہ اس برتن کو سونے یا چاندی کا برتن نہ کہا جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

238۔ اگر غذا سونے یا چاندی کے برتن میں رکھی ہو اور کوئی شخص اسے دوسرے برتن میں انڈیل لے تو اگر دوسرا برتن عام طور پر پہلے برتن میں کھانے کا ذریعہ شمار نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

239۔ حقے کے چلم کا سوراخوں والا ڈھکنا، چھری یا چاقو کا میان اور قرآن مجید رکھنے کا ڈبہ اگر سونے یا چاندی سے بنے ہوں تو کوئی حرج نہیں تاہم احتیاط مستحب یہ ہے کہ سونے چاندی کی بنی ہوئی عطر دانی، سرمہ دانی اور افیم دانی استمعال نہ کی جائیں۔

240۔ مجبوری کی حالت میں سونے چاندی کے برتنوں میں اتنا کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں جس سے بھوک مٹ جائے لیکن اس سے زیادہ کھانا پینا جائز نہیں۔

241۔ ایسا برتن استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ یہ سونے یا چاندی کا ہے یا کسی اور چیز سے بنا ہوا ہے۔

عبادات (وضو)

وضو

242۔وضو میں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور دونوں پاوں کے سامنے والے حصے کا مسح کیا جائے۔

243۔ چہرے کو لمبائی میں پیشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑی کے آخری کنارے تک دھونا ضروری ہے اور چوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے پھیلاو میں جتنی جگہ آجائے اسے دھونا ضروری ہے اگر اس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوٹ جائے تو وضو باطل ہے۔اور اگر انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ ضروری حصہ پورا ڈھل گیا ہے تو یقین کرنے کے لئے تھوڑا تھوڑا ادھر ادھر سے دھونا بھی ضروری ہے۔

ص:57

244۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی بہ نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو اسے دیکھنا چاہئے کہ عام لوگ کہاں تک اپنا چہرہ دھوتے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی دھو ڈالے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی پیشانی پر بال اگے ہوئے ہوں یا سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو اسے چاہئے کہ عام اندازے کے مطابق پیشانی دھو ڈالے۔

245۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی شخص کی بھوں، آنکھ کے گوشوں اور ہونٹوں پر میل یا کوئی دوسری چیز ہے۔ جو پانی کے ان تک پہنچنے میں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کر لینی چاہئے اور اگر کوئی چیز ہو تو اسے دور کرنا چاہئے۔

246۔ اگر چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دھونا کافی ہے اور ان کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں۔

247۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہے یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ بالوں کو دھوئے اور پانی جلد تک بھی پہنچائے۔

248۔ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکھوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہیں آتے دھونا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ جن جگہوں کا دھونا ضروری ہے ان میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی تو واجب ہے کہ ان اعضاء کا کچھ اضافی حصہ بھی دھو لے تاکہ اسے یقین ہو جائے اور جس شخص کو اس (مذکورہ) بات کا علم نہ ہو اگر اس نے جو وضو کیا ہے اس میں ضروری حصے دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں نہ جانتا ہو تو اس وضو سے اس نے جو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔

249۔ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھوں اور اسی طرح چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئے جائیں تو وضو باطل ہوگا۔

250۔ اگر ہتھیلی پانی سے تر کر کے چہرے اور ہاتھوں پر پھیری جائے اور ہاتھ میں اتنی تری ہو کہ اسے پھیرنے سے پورے چہرے اور ہاتھوں پر پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔ ان پر پانی کا بہنا ضروری نہیں۔

251۔ چہرہ دھونے کے بعد پہلے دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ کہنی سے انگلیوں کے سروں تک دھونا چاہئے۔

ص:58

252۔ اگر انسان کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پوری طرح دھولیا ہے تو یقین کرنے کے لئے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھونا بھی ضروری ہے۔

253۔ جس شخص نے چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلائی کے جوڑ تک دھویا ہو اسے چاہئے کہ وضو کرتے وقت انگلیوں کے سروں تک دھوئے۔ اگر وہ صرف کلائی کے جوڑ تک دھوئے گا تو اس کا وضو باطل ہوگا۔

254۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا ایک دفعہ دھونا واجب، دوسری دفعہ دھونا مستحب اور تیسری دفعہ یا اس سے زیادہ بار دھونا حرام ہے۔ ایک دفعہ دھونا اس وقت مکمل ہوگا جب وضو کی نیت سے اتنا پانی چہرے یا ہاتھ پر ڈالے کہ وہ پانی پورے چہرے یا ہاتھ پر پہنچ جائے اور احتیاطاً کوئی جگہ باقی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ دھونے کی نیت سے دس بار بھی چہرے پر پانی ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جب تک مثلاً وضو کرنے یا چہرہ دھونے کی نیت نہ کرنے پہلی بار دھونا شمار نہیں ہوگا۔ لہذا اگر چاہے تو چند بار چہرہ کو دھولے اور آخری بار چہرہ دھوتے وقت وضو کی نیت کر سکتا ہے لیکن دوسری دفعہ دھونے میں نیت کا معتبر ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وضو کی نیت سے نہ بھی ہو ایک دفعہ دھونے کے بعد ایک بار سے زائد چہرے یا ہاتھوں کو نہ دھوئے۔

255۔ دونوں ہاتھ دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا مسح وضو کے پانی کی اس تری سے کرنا چاہئے جو ہاتھوں کو لگی رہ گئی ہو۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جو اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔

256۔ سر کے چار حصوں میں سے پیشانی سے ملا ہوا ایک حصہ وہ مقام ہے جہاں مسح کرنا چاہئے۔ اس حصے میں جہاں بھی اور جس اندازے سے بھی مسح کریں کافی ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور عرض میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جائے۔

257۔ یہ ضروری نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً اگر کنگھا کرے تو چہرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پہنچیں تو ضروری ہے کہ وہ بالوں کی جڑوں پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے۔ اور اگر وہ چہرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصوں تک پہنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے گا یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے کو بڑھ آئے ہوں مسح کرے گا تو ایسا مسح باطل ہے۔

ص:59

258۔ سر کے مسح کے بعد وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھوں میں باقی ہو پاوں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاوں کے جوڑ تک مسح کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں پیر کا بائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے۔

259۔ پاوں پر مسح کا عرض جتنا بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین جڑی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو اور اس سے بھی بہتریہ ہے کہ پاوں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیا جائے۔

260۔ احتیاط یہ ہے کہ پاوں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگلیوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاوں کے ابھار کی جانب کھینچے یا ہاتھ پاوں کے جوڑ پر رکھ کر انگلیوں کے سروں کی طرف کھینچے۔ یہ درست نہیں کہ پورا ہاتھ پاوں پر رکھے اور تھوڑا سا کھینچے۔

261۔ سر اور پاوں کا مسح کرنے وقت ہاتھ پر کھینچنا ضروری ہے۔اور اگر ہاتھ کو ساکن رکھے اور سر یا پاوں کو اس پر چلائے تو باطل ہے لیکن ہاتھ کھینچنے کے وقت سر اور پاوں معمولی حرکت کریں تو کوئی حرن نہیں۔

262۔ جس جگہ کا مسح کرنا ہو وہ خشک ہونی چاہئے۔ اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھیلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر اس پر نمی ہو یا تری اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تری سے ختم ہو جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

263۔ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھیلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو اسے دوسرے پانی سے تر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی ڈاڑھی کی تری لے کر اس سے مسح کرنا چاہئے۔ اور ڈاڑھی کے علاوہ اور کسی جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محل اشکال ہے۔

264۔ اگر ہتھیلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اس تری سے کیا جائے اور پاوں کے مسح کے لئے اپنی ڈاڑھی سے تری حاصل کرے۔

265۔ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے۔ ہاں اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغیرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتارے جاسکیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے۔ اور تقیہ کی صورت میں موزے اور جوتے پر مسح کرنا کافی ہے۔

ص:60

266۔ اگر پاوں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے دھویا بھی نہ جاسکتا ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

ارتماسی وضو

267۔ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبو دے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا کرنا خلاف احتیاط ہے۔

268۔ ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔

229۔ اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی (یعنی ترتیبی) طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔

دعائیں جن کا وضو کرتے وقت پڑھنا مستحب ہے

270۔ جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لئے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑھے:۔

بِسِم اللہ وَ بِاللہِ وَالحَمدُ للہ الّذی حَعَلَ المَآءَ طَھُوراوّلم یَجعَلہُ نجسنا۔

جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ اجعَلنی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَھِرینَ۔

کُلّی کرنے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ لَقِّنِّی حُجَّتِی یَومَ اَلقاکَ وَاَطلِق لِسَانیِ بِذِکرِکَ نام میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے:اَللّھُمَّ لاَ تُحَرِّم عَلَیَّ رِیحَ الجَنَّۃِ واجعَلنِی مِمَّن یَّشُمُّ رِیحَھَا وَرَوحَھَا وَ طِیبَھَا۔

چہرہ دھوتے یا دُعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ بَیِض وَجھِی یَومَ تَسوَدّ الوُجُوہُ وَلَا تُسَوِدوَلاَ تُسَوِد وَجھِی یَومَ تَبیَضُّ الوُجُوہُ۔

دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ اَعطِنِی کِتَابیِ بِیَمِیِنی وَالخُلدَفِی الجِنَانِ بِیَسَارِی وَ حَاسِبنِی حِسَاباً یَّسِیراً۔

بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ لاَ تُعطِنِی کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِن وَّرَآ و ظَھِری وَلاَ تَجعَلھَا مَغلُولَۃً اِلٰی عُنُقِی وَاَعُوذُ بَکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِیّراَنِ۔

ص:61

سر کا مسح کرتے وقت یہ دُعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ غَشِنِی عَلَی الصِراطِ یَومَ تَزِل فِیہِ الاَقدَامُ وَاجعَل سَعیِی فِی مَا یُرضِیکَ عَنِّی یَاذَالجَلَالِ وَالِاکرَامِ۔

وضو صحیح ہونے کی شرائط

وضو کا صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں۔

(پہلی شرط) وضو کا پانی پاک ہو۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مُردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گھن آتی ہو اگرچہ شرعی لحاظ سے (ایسا پانی) پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔

(دوسری شرط) پانی مطلق ہو۔

271۔ نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل سے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو کہ یہ نجس یا مضاف پانی ہے۔ لہذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کرکے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔

272۔ اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضو کرے۔

(تیسری شرط) وضو کا پانی مباح ہو۔

273۔ ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ جگہ جس میں وضو کر رہا ہے غصبی ہے اور وضو کرنے کے لئے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

ص:62

274۔ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لئے وقت کیا گیا ہے یا صرف مدرسے سے طلباء کے لئے وقف ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

275۔ اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لئے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لئے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لئے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔

276۔ سرائے، مسافرخانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

277۔ بڑی نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ انسان نہ جانتا ہو کہ ان کا مالک راضی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ان نہروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا معلوم ہو کہ وہ ان سے وضو کرنے پر راضی نہیں یا ان کا مالک نابالغ یا پاگل ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان نہروں کے پانی سے وضو نہ کرے۔

278۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

(چوتھی شرط) وضو کا برتن مباح ہو۔

(پانچویں شرط) وضو کا برتن احتیاط واجب کی بنا پر سونے یا چاندی کا بنا ہوا نہ ہو۔ ان دو شرطوں کی تفصیل بعد والے مسئلے میں آرہی ہے۔

ص:63

279۔ اگر وضو کا پانی غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس سے وضو کرے اور اگر ایسا کرنا آسان نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے۔ اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پر عمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

280۔ اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرف عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔

281۔ اگر ائمۃ طاہرین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(چھٹی شرط) وضو کے اعضاء دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔

282۔ اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جاچکا ہے تو وضو صحیح ہے۔

283۔ اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔

284۔ اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی عضو نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد متعلقہ شخص کو شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔

285۔ اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحیح سالم اجزاء کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو کُر برابر پانی یا جاری

ص:64

پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔

(ساتویں شرط) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے وقت کافی ہو۔

286۔ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ متعلقہ شخص وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کرلے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لئے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔

287۔ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لئے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لئے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اسے قصد قُربت حاصل نہیں ہوگا۔

(آٹھویں شرط) وضو بقصد قربت یعنی اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیاجائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔

288۔ وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے بجا لائے تو کافی ہے۔

(نویں شرط) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سر کا اور پھر پاوں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہےکہ دونوں پاوں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاوں کا مسح دائیں پاوں کے بعد کیا جائے۔

(دسویں شرط) وضو کے افعال سر انجام دینے میں فاصلہ نہ ہو۔

289۔ اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آجائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلافاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے۔ بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت چاہے کسی عضو کو دھولے یا اس کا مسح کرلے تو اس اثنا میں اگر ان مقامات کی تری خشک ہو جائے۔ جنہیں وہ پہلے دھوچکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو تو وضو باطل ہوگا لیکن اگر جس عضو کو

ص:65

دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً جب بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔

290۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلا فاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی تپ یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری (یعنی ان جگہوں کی تری جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو) خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

291۔ وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرن نہیں لہذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے تو اس کا وضو و صحیح ہے۔

(گیارہویں شرط) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاوں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔

292۔ اگر کوئی کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو کسی دوسرے شخص سے مدد لے لے اگرچہ دھونے اور مسح کرنے میں حتی الامکان دونوں کی شرکت ضروری ہے اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اسکے لئے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے یا اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے ار اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس تری سے اس کے سر اور پاوں پر مسح کرے۔

293۔ وضو کے جا افعال بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انھیں انجام دینے کے لئے دوسروں کی مدد نہ لے۔

(بارہویں شرط) وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

ص:66

294۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسارہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے۔ اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وہ وضو کر لے اور اسےوضو کرنے سے نقصان پہنچے تو اس کا وضو باطل ہے۔

295۔ اگر چہرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔

(تیرہویں شرط) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

296۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی ہے لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔

297۔ اگر نانخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کا ہونا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لئے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائیں تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔

298۔ اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاوں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اگر اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے۔ لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔

299۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔

ص:67

300۔ جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے جلد تک پہنچے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔

301۔اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

302۔ اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جب کہ وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

303۔ اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

304۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

وضو کے احکام

305۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

306۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کئے بغیر وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ یہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا کوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔

ص:68

307۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

308۔ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گیا ہے مثلاً اس نے پیشاب کیا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وضو کرے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے البتہ دوسری نمازوں کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔

309۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو اسے چاہئے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کیس اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیا ہو انہیں اور ان کے بعد آنے والی جگہوں کو دھوئے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو کے دوران کسی عضو کے دھونے یا مسح کرنے کے بارے میں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

310۔ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔

311۔ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران شک ہو کہ آیا اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

312۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ سمجھے کہ اس کا وضو باطل ہوگیا تھا لیکن شک ہو کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا تھا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔

313۔ اگر کوئی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھ لے اور اگر اسے صرف اتنی مہلت ملے جو نماز کے واجبات ادا کرنے کے

ص:69

لئے کافی ہو تو اس دوران صرف نماز کے واجبات بجا لانا اور مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر دینا ضروری ہے۔

314۔ اگر کسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے) وضو کرکے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہو اور نماز کے دوران ایک دفعہ یا چند دفعہ اس کا پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضو کر کے وضو کر کے نماز پرھے لیکن نماز کے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو کرے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ پانی کا برتن اپنے ساتھ رکھے اور جب بھی پیشاب یا پاخانہ خارج ہو وضو کرے اور باقی ماندہ نماز پڑھے اور یہ احتیاط اس صورت میں ہے کہ جب پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کا وقفہ طویل نہ ہو یا دوبارہ وضو کرنے کی وجہ سے ارکان نماز کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ ہو۔ بصورت دیگر احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔

315۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار باریوں آتا کہ اسے وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہو تو اس کی ہر نماز کے لئے بلا اشکال ایک وضو کافی ہے بلکہ اظہر یہ ہے کہ ایک وضو چند نمازوں کے لئے بھی کافی ہے۔ ماسوا اس کے کہ کسی دوسرے حدث میں مبتلا ہوجائے۔ اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک بار وضو کرے لیکن قضا سجدے، قضا تشہد اور نماز احتیاط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہیں ہے۔

316۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وضو کے بعد فوراً نماز پڑھے اگرچہ بہتر ہے کہ نماز پڑھنے میں جلدی کرے۔

317۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو وضو کرنے کے بعد اگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہو تب بھی اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا جائز ہے۔

318۔ اگر کسی شخص کو قطرہ قطرہ پیشاپ آتا رہتا ہو تو اسے چاہئے کہ نماز کے لئے ایک ایسی تھیلی استمعال کرے جس میں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز سے پہلے نجس شدہ ذکر کو دھولے۔ علاوہ ازیں جو شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اسے چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کو دوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر باعث زحمت نہ ہو تو ہر نماز کے لئے مقعد کو دھوئے۔

ص:70

319۔ جو شخص پیشاب پاخانے کو روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو نماز میں پیشاب یا پاخانے کو روکے چاہے اس پر کچھ خرچ کرنا پڑے بلکہ اس کا مرض اگر آسانی سے دور ہو سکتا ہو تو اپنا علاج کرائے۔

320۔ جو شخص اپنا پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے صحت یاب ہونے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے وظیفہ کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضا کرے لیکن اگر اس کا مرض نماز پڑھتے ہوئے دور ہو جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہو اسے دوبارہ پڑھے۔

321۔ اگر کسی شخص کو یہ عارضہ لا حق ہو کہ ریاح روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظیفہ کے مطابق عمل کرے جو پیشاب اور پاخانہ روکنے پر قدرت رکھتے ہوں۔

وہ چیزیں جن کے لئے وضو کرنا چاہئے

322۔ چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔

(اول) واجب نمازوں کے لئے سوائے نماز میت کے ۔ اور مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔

(دوم) اس سجدے اور تشہد کے لئے جو ایک شخص بھول گیا ہو جب کہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سر زد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ سہو کے لئے وضو کرنا واجب نہیں۔

(سوم) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لئے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہو۔

(چہارم) وضو کرنے کی منت مانی ہو یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔

(پنجم) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔

(ششم) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لئے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کے لئے جب کہ متعلقہ شخص مجبور ہو کر اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی

ص:71

ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کئے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے باہر نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔

323۔ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگانا حرام ہے لیکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو تو اسے چھونے میں کوئی اشکال نہیں۔

324۔ بچے اور دیوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو چھونے سے روکنا واجب نہیں لیکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجید کی توہین ہوتی ہو تو انہیں روکنا ضروری ہے۔

325۔ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالی کے ناموں اور ان صفتوں کو چھونا جو صرف اسی کےلئے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور بہتر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور ائمہ طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام اور حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کے آسمائے مبارکہ کو بھی نہ چھوئے۔

326۔اگر کوئی شخص کو یقین ہو کہ (نماز کا) وقت داخل ہو چکا ہے اور واجب وضو کی نیت کرے لیکن وضو کرنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔

328۔ میت کی نماز کے لئے قبرستان جانے کے لئے، مسجد یا ائمۃ علیہم السلام کے حرم میں جائے کے لئے، قرآن مجید ساتھ رکھنے، اسے پڑھنے، لکھنے اور اس کا حاشیہ چھونے کے لئے اور سونے کے لئے وضو کرنا مستحب ہے۔ اور اگر کسی شخص کا وضو ہو تو ہر نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے۔ اور مذکورہ بالا کاموں میں سے کسی ایک کے لئے وضو کرے تو ہر وہ کام کر سکتا ہے جو باوضو کرنا ضروری ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔

مبطلات وضو

329۔ سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں:۔

(اول) پیشاب (دوم) پاخانہ (سوم) معدے اور آنتوں کی ہوا جو مقعد سے خارج ہوتی ہے (چہارم) نیند جس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں اور نہ کان سن سکیں لیکن اگر آنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں لیکن کان سن رہے ہوں تو وضو باطل

ص:72

نہیں ہوتا (پنجم) ایسی حالت جن میں عقل زائل ہو جاتی ہو مثلا دیوانگی، مستی یا بے ہوشی (ششم) عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد میں آئے گا (ہفتم) جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر ہر وہ کام جس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

جبیرہ وضو کے احکام

وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دو جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔

330۔ اگر وضو کے اعضا میں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسی طرح وضو کرنا ضروری ہے جسے عام طور پر کیا جاتا ہے۔

331۔ اگر کسی شخص کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا اس (چہرے یا ہاتھوں) کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور اس پر پانی ڈالنا نقصان وہ ہو تو اسے زخم یا پھوڑے کے آس پاس کا حصہ اس طرح اوپر سے نیچے کو دھونا چاہئے جیسا وضو کے بارے میں بتایا گیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر تر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہو تو تر ہاتھ اس پر کھینچے اور اس کے بعد پاک کپڑا اس پر ڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پر بھی کھینچے۔ البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔

332۔ اگر زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہڈی کسی شخص کے سر کے اگلے حصے یا پاوں پر ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو کیونکہ زخم مسح کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہو یا مسح کی جگہ کا جو حصہ صحیح و سالم ہو اس پر مسح کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپڑا زخم وغیرہ پر رکھے اور وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھوں پر لگی ہو کپڑے پر مسح کرے۔

333۔ اگر پھوڑے یا زخم یا ٹوٹی ہڈی کا منہ کسی چیز سے بند ہو اور اس کا کھولنا بغیر تکلیف کے ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسے کھول کر وضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے اور پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

334۔ اگر کسی شخص کا زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چیز سے بندھی ہوئی ہو اس کے چہرے یا ہاتھوں پر ہو اور اس کا کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو تو ضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کو دھونا ممکن ہو اسے دھوئے اور جبیرہ پر مسح کرے۔

ص:73

335۔ اگر زخم کا منہ نہ کھل سکتا ہو اور خود زخم اور جو چیز اس پر لگائی گئی ہو پاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہو اور مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم کے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف پہنچائے۔ اور اگر زخم یا اس کے اوپر لگائی گئی چیز نجس ہو اور اس کا دھونا اور زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے دھوئے اور وضو کرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے۔ اور اگر پانی زخم کے لئے مضر نہ ہو۔ لیکن زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن نہ ہو یا زخم نجس ہو اور اسے دھویا نہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

336۔ اگر جبیرہ اعضائے وضو کے کسی حصے پر پھیلا ہوا ہو تو بظاہر وضو جبیرہ سے کافی ہے لیکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو پر پھیلا ہوا ہو تو احتیاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور وضوئے جبیرہ بھی کرے۔

337۔ یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے بلکہ اگر وہ ریشم یا ان حیوانات کے اجزا سے بنی ہو جن کا گوشت کھانا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔

338۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہو اور وضو کرنے وقت اس نے تر ہاتھ اس پر کھینچا ہو تو سر اور پاوں کا مسح اسی تری سے کرے۔

339۔ اگر کسی شخص کے پاوں کے اوپر والے پورے حصے پر جبیرہ ہو لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اور کچھ حصہ پاوں کے اوپر والے حصہ کی طرف سےکھلا ہو تو جو جگہیں کھلی ہیں وہاں پاوں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔

340۔ اگر چہرے یا ہاتھوں پر کئی جیرے ہوں تو ان کا درمیانی حصہ دھونا ضروری ہے اور اگر سریا پاوں کے اوپر والے حصے پر جبیرے ہوں تو ان کے درمیانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

341۔ اگر جبیرہ زخم کے آس پاس کے حصول کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ متعلقہ شخص تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ و تیمم کی جگہوں پر ہو کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور دونوں صورتوں میں اگر جبیرہ کا ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے

ص:74

ہٹا دے۔ پس اگر زخم چہرے یا ہاتھوں پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کی دھوئے اور اگر سر یا پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کا مسح کرے اور زخم کی جگہ کے لئے جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔

342۔ اگر وضو کے اعضا پر زخم نہ ہو یا ان کی ہڈی ہوئی نہ ہو لیکن کسی دوسری وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو یا تیمم کرنا ضروری ہے۔

343۔ اگر وضو کے اعضا کی کسی رگ سے خون نکل آیا ہو اور اسے دھونا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو جبیرہ کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

344۔ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا اسے اتارنے کی تکلیف نا قابل برداشت ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے۔ لیکن اگر چپکی ہوئی چیز تیمم کے مقامات پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور اگر چپکی ہوئی چیز دوا ہو تو وہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔

345۔ غسل مس میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں غسل جبیرہ وضوئے جبیرہ کی طرح ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر مکلف شخص کے لئے ضروری ہے کہ غسل ترتیبی کرے (ارتماسی نہ کرے) اور اظہر یہ ہے کہ اگر بدن پر زخم یا پھوڑا ہو تو مکلف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر وہ غسل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھوڑے پر جبیرہ نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زخم یا پھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے۔ اور اگر بدن کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاط جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگر جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ ہو یا جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

346۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضوئے جبیرہ کے احکام کے مطابق تیمم جبیرہ کرے۔

347۔ جس شخص کو وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کرکے نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کا عذر دور نہیں ہو گا تو وہ اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر اسے امید ہو کہ آخر وقت تک اس کا عُذر دور ہو جائے گا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ انتظار کرے اور اگر اس کا عذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ

ص:75

کے ساتھ نماز ادا کرے لیکن اگر اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

348۔ اگر کوئی شخص آنکھ کی بیماری کی وجہ سے پلکیں موند کر رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیمم کرے۔

349۔ اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آیا اس کا وظیفہ تیمم ہے یا وضوئے جبیرہ تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے تیمم اور وضوئے جبیرہ دونوں بجالانے چاہئیں۔

350۔ جو نمازیں کسی انسان نے وضوئے جبیرہ سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔

واجب غسل

اشاره

واجب غسل سات ہیں : (پہلا) غسل جنابت (دوسرا) غسل حیض (تیسرا) غسل نفاس (چوتھا) غسل استحاضہ (پانچواں) غسل مس میت (چھٹا) غسل میت اور (ساتواں) و غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔

جنابت کے احکام

351۔ دو چیزوں سے انسان جُنُب ہو جاتا ہے اول جماع سے اور دوم منی کے خارج ہونے سے خواہ و نیند کی حالت میں نکلے یا جاگتے ہیں، کم ہو یا زیادہ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا متعلقہ شخص کے اختیار میں ہو یا نہ ہو۔

352۔ اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا کوئی اور چیز اور اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر متعلقہ شخص بیمار ہو تو پھر ضروری نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہوگی۔

ص:76

353۔ اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔

254۔ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔

355۔ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دُبُر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اور خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں جنب ہو جاتے ہیں۔

356۔ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

357۔ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔

358۔ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

359۔ جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہو وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔

ص:77

360۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کے لئے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔

وہ چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں

361۔ پانچ چیزیں جنب شخص پر حرام ہیں:

(اول) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ تعالی کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا۔ اور بہتریہ ہے کہ پیغمبروں، اماموں اور حضرت زہرا علیہم السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔

(دوم) مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔

(سوم) مسجد الحرام اور اور مسجدی نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر اماموں کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔

(چہارم) احتیاط لازم کی بنا پر کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے یا کوئی چیز اٹھانے کے لئے داخل ہونا۔

(پنجم) ان آیات میں سے کسی آیت کا پرھنا جن کے پرھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیتیں چار سورتوں میں ہیں (1) قرآن مجید کی 32 ویں سورۃ (آلمّ تنزیل) (2) 41 ویں سورۃ (حٰمٓ سجدہ) (3) 53 ویں سورۃ (وَالنَّجم) (4) 96 ویں سورۃ (عَلَق)

وہ چیزیں جو مجنب کے لئے مکروہ ہیں

362۔ نو چیزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہیں:

ص:78

(اول اور دوم) کھانا پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھولے اور کلی کرلے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھولے تو بھی کراہت کم ہوجائے گی۔

(سوم) قرآن مجید کی ساتھ سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہوا۔

(چہارم) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔

(پنجم) قرآنی مجید اپنے ساتھ رکھنا۔

(ششم) سونا۔ البتہ اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کرلے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔

(ہفتم) مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔

(ہشتم) بدن پر تیل ملنا۔

(نہم) احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جماع کرنا۔

غسل جنابت

363۔ غسل جنابت واجب نماز پڑھنے کے لئے اور ایسی دوسری عبادات کے لئے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت، سجدہ سہو، سجدہ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہیں ہے۔

364۔ یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے، بلکہ فقط قُربَۃ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالی کی رضا کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔

365۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کرلے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔

366۔ غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔

ص:79

ترتیبی غسل

367۔ ترتیبی غسل میں احتیاط لازم کی بنا پر غسل کی نیت سے پہلے پورا سر اور گردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ اور تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے نیچے حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفانہ کرنے میں ہے۔ اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔

368۔ اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لئے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھولے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔

369۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے سر، گردن اور جسم کا دایاں و بایاں حصہ مکمل طور پر دھولیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔

370۔ اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھوا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔

371۔ اگر کسی کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔

372۔ اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں یا بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد دائیں اور بائیں حصے کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

ارتماسی غسل

ص:80

ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دَفعی اور تَدرِیجِی۔

373۔ غسل ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے میں پورے بدن کے ساتھ پانی میں ڈبکی لگائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔

374۔ غسل ارتماسی تدریحی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے ایک دفعہ بدن کو دھونے کا خیال رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ لگائے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔

375۔ اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتہ چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔

376۔ اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لئے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی غسل کے لئے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔

377۔ جس شخص نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔

غسل کے احکام

378۔ غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے سے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہوگا۔

379۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ اسے پسینہ بھی آئے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔

380۔ غسل میں بال برابر بدن بھی اگر ان دھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔

ص:81

381۔ اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بارے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھولے۔

382۔ اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔

383۔ جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس سے پیشتر کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہ چیز ہٹ گئی ہے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔

374۔ اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتی کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔

385۔ غسل میں کہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزوشمار ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچاجا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔

386۔ وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لئے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لئے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے لہذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا ہو اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کرکے تماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔

387۔ اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والاراضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کرلے اس کا غسل باطل ہے۔

ص:82

388۔ اگر حمام والا ادھار غسل کرنے کے لئے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔

389۔ اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہوگا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمے رہے گا۔

390۔ اگر کوئی شخص مقعد کو حمام کے حوض کے پانی سے پاک کرے اور غسل کرنے سے پہلے شک کرے کہ چونکہ اس نے حمام کے حوض سے طہارت کی ہے اس لئے حمام والا اس کے غسل کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو اگر وہ غسل سے پہلے حمام والے کو راضی کر لے تو صحیح ورنہ اس کا غسل باطہ ہے۔

391۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں۔

392۔ اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حَدَثِ اصغر سرزد ہوجائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کرکے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ترتیبی سے غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی یا ارتماسی دفعی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔

393۔ اگر وقت کی تنگی کی وجہ مکلف شخص کا وظیفہ تیمم ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لئے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت سے کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے غسل کیا ہو۔

394۔ جو شخص جنیب ہو اگر وہ شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں لیکن بعد کی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔

ص:83

395۔ جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کرکے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔

396۔ اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہو تو وضو یا غسل ترتیبی کرتے وقت اسے چاہئے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے۔

397۔ جس شخص نے غسل جنابت کیا ہو ضروری نہیں ہے کہ نماز کے لئے وضو بھی کرے بلکہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی سوائے غسل اِستِخاضئہ مُتَوسِطّہ اور مستحب غسلوں کے جن کا ذکر مسئلہ 651 میں آئے گا بغیر وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

اِستِحاضَہ

اشاره

عورتوں کو جو خون آتے رہتے ہیں ان میں سے ایک خون استحاضہ ہے اور عورت کو خون استحاضہ آنے کے وقت مستحاضہ کہتے ہیں۔

398۔ خون استخاضہ زیادہ تر زرد رنگ کا اور ٹھنڈا ہوتا ہے اور فشار اور جلن کے بغیر خارج ہوتا ہے اور گاڑھا بھی نہیں ہوتا لیکن ممکن ہے کہ کبھی سیاہ یا سرخ اور گرم اور گاڑھا ہو اور فشار اور سوزش کے ساتھ خارج ہو۔

399۔ اِستِحاضہ تین قسم کا ہوتا ہے: قلیلہ، مُتَوسِطہ اور کثیرہ۔

قلیلہ یہ ہے کہ خون صرف اس روئی کے اوپر والے حصے کو آلودہ کرے جو عورت اپنی شرمگاہ میں رکھے اور اس روئی کے اندر تک سرایت نہ کرے۔

اِسِتخاضئہ مُتَوسِطہ یہ ہے کہ خون روئی کے اندر تک چلا جائے اگرچہ اس کے ایک کونے تک ہی ہو لیکن روئی سے اس کپڑے تک نہ پہنچے جو عورتیں عموماً خون روکنے کے لئے باندھتی ہیں۔

اِستِخاضہ کثیرہ یہ ہے کہ خون روئی سے تجاوز کر کے کپڑے تک پہنچ جائے۔

ص:84

اِستِخاضہ کے احکام

400۔ اِستخِاضہ قلیلہ میں ہر نماز کے لئے علیحدہ وضو کرنا ضروری ہے اور احتیاط مُستحب کی بنا پر روئی کو دھولے یا اسے تبدیل کر دے اور اگر شرمگاہ کے ظاہری حصے پر خون لگا ہو تو اسے بھی دھونا ضروری ہے۔

401۔ اِستِخاضہ مُتَوَسِطّہ میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت اپنی نمازوں کے لئے روزانہ ایک غسل کرے اور یہ بھی ضروری ہے اِستِخاضہ قلیلہ کے وہ افعال سر انجام دے جو سابقہ مسئلہ میں بیان ہو چکے ہیں چنانچہ اگر صبح کی نماز سے پہلے یا نامز کے دوران عورت کو اِستِخاضہ آجائے تو صبح کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اگر جان بوجھ کر یا بھول کر صبح کی نماز کے لئے غسل نہ کرے تو ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے اور اگر نماز ظہر اور عصر کے لئے غسل نہ کرے تو نماز مغرب و عشاء سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے خواہ خون آرہا ہو یا بند ہو چکا ہو۔

402۔ استحاضہ کثیرہ میں احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت ہر نماز کے لئے روئی اور کپڑے کا ٹکڑا تبدیل کرے یا اسے دھوئے۔ اور ایک غسل فجر کی نماز کے لئے اور ایک غسل ظہر و عصر کی اور ایک غسل مغرب و عشاء کی نماز کے لئے کرنا ضروری ہے اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان فاصلہ نہ رکھے۔ اور اگر فاصلہ رکھے تو عصری کی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر مغرب و عشاء کی نماز کے درمیاں فاصلہ رکھے تو عشاء کی نماز کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔ یہ مذکورہ احکام اس صورت میں ہیں اگر خون بار بار روئی ہے پٹی پر پہنچ جائے۔ اگر روئی سے پٹی تک خون پہنچنے میں اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عورت اس فاصلہ کے اندر ایک نماز یا ایک سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ جب خون روئی سے پٹی تک پہنچ جائے تو روئی اور پٹی کو تبدیل کرلے یا دھولے اور غسل کر لے۔ اسی بنا پر اگر عورت غسل کرے اور مثلاً ظہر کی نماز پڑھے لیکن عصر کی نماز سے پہلے یا نماز کے دوران دوبارہ خون روئی سے پٹی پر پہنچ جائے تو عصر کی نماز کے لئے بھی غسل کرنا ضروری ہے لیکن اگر فاصلہ اتنا ہو کہ عورت اس دوران دو یا دو سے زیادہ نمازیں پڑھ سکتی ہو مثلاً مغرب اور عشاء کی نماز خون کے دوبارہ پٹی پر پہنچنے سے پہلے پڑھ سکتی ہو تو ظاہر یہ ہے کہ ان نمازوں کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان تمام صورتوں میں اظہر یہ ہے کہ استخاضہ کثیرہ ہے میں غسل کرنا وضو کے لئے بھی کافی ہے۔

403۔ اگر خون اِسخاضہ کے وقت سے پہلے بھی آئے اور عورت نے اس خون کے لئے وضو یا غسل نہ کیا ہو تو نماز کے وقت وضو یا غسل کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت مستحاضہ نہ ہو۔

ص:85

404۔ مُستَحاضَہ مُتَوَسِطہ جس کے لئے وضو اور غسل کرنا ضروری ہے احتیاط لازم کی بنا پر اسے چاہئے کہ پہلے غسل کرے اور بعد میں وضو کرے لیکن مُستَحاضہ کثیرہ میں اگر وضو کرنا چاہئے تو ضروری ہے کہ وضو غسل سے پہلے کرے۔

405۔ اگر عورت کا اِسِحاضہ قلیلہ صبح کی نماز کے بعد مُتَوَسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز کے لئے غسل کرے۔ اور اگر ظہر اور عصر کی نماز کے بعد مُتَوسِطَہ ہو تو مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

406۔ اگر عورت کا استحاضہ قلیلہ یا متوسطہ صبح کی نماز کے بعد کثیرہ ہو جائے اور وہ عورت اسی حالت پر باقی رہے تو مسئلہ 402 میں جو احکام گزر چکے ہیں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء پڑھنے کے لئے ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔

407۔ مستحاضہ کثیرہ کی جس صورت میں نماز اور غسل کے درمیان ضروری ہے کہ فاصلہ نہ ہو جیسا کہ مسئلہ 402 میں گزر چکا ہے اگر نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے غسل کرنے کی وجہ سے نماز اور غسل میں فاصلہ ہو جائے تو اس غسل کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہے اور یہ مستحاضہ نماز کے لئے دوبارہ غسل کرے اور یہی حکم مستحاضہ متوسطہ کے لئے بھی ہے۔

408۔ ضروری ہے کہ مسحاضہ قلیلہ و متوسطہ روزانہ کی نمازوں کے علاوہ جن کے بارے میں حکم اوپر بیان ہو چکا ہے ہر نماز کے لئے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب، وضو کرے لیکن اگر وہ چاہے کہ، روزانہ کی وہ نمازیں جو وہ پڑھ چکی ہو احتیاط دوبارہ پڑھے یا جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے دوبارہ با جماعت پڑھے تو ضروری ہے کہ وہ تمام افعال بجالائے جن کا ذکر استحاضہ کے سلسلے میں کیا گیا ہے البتہ اگر وہ نماز احتیاط، بھولے ہوئے سجدے اور بھولے ہوئے تشہد کی بجا آوری نماز کے فورا بعد کرے اور اسی طرح سجدہ سہو کسی بھی صورت میں کرے تو اس کے لئے استحاضہ کے افعال کا انجام دینا ضروری نہیں ہے۔

409۔ اگر کسی مستحاضہ عورت کا خون رک جائے تو اس کے بعد جو پہلی نماز پرھے صرف اس کے لئے استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہے۔ لیکن بعد کی نمازوں کے لئے ایسا کرنا ضروری نہیں۔

410۔ اگر کسی عورت کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا استحاضہ کون سا ہے تو جب نماز پڑھنا چاہے تو بطور احتیاط ضروری ہے کہ تحقیق کرنے کے لئے پہلے تھوڑی سی روئی شرمگاہ میں رکھے اور کچھ دیر انتظار کرے اور پھر روئی نکال لے اور جب اسے پتہ چل جائے کہ اس کا استحاضہ تین اقسام میں سے کون سی قسم کا ہے تو اس قسم کے استحاضہ کے لئے جن افعال کا حکم دیا

ص:86

گیا ہے انہیں انجام دے۔ لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ جس وقت تک وہ نماز پڑھنا چاہتی ہے اس کا استحاضہ تبدیل نہیں ہوگا تو نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے بھی وہ اپنے بارے میں تحقیق کر سکتی ہے۔

411۔ اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق کرنے سے پہلے نماز میں مشغول ہو جائے تو اگر وہ قربت کا قصد رکھتی ہو اور اس نے اپنے وظیفے کے مطابق عمل کیا ہو مثلاً اس کا استحاضہ قلیلہ ہو اور اس نے اسحاضہ قلیلہ کے مطابق عمل کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر وہ قربت کا قصد نہ رکھتی ہو یا اس کا عمل اس کے وظیفہ کے مطابق نہ ہو مثلاً اس کا استحاضہ متوسطہ ہو اور اس نے عمل استحاضہ قلیلہ کے مطابق کیا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔

412۔ اگر مستحاضہ اپنے بارے میں تحقیق نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ جو اس کا یقینی وظیفہ ہو اس کے مطابق عمل کرے مثلاً اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہ قلیلہ ہے یا متوسطہ تو ضروری ہے کہ استحاضہ قلیلہ کے افعال انجام دے اور اگر وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس کا استحاضہ متوسطہ ہے یا کثیرہ تو ضروری ہے کہ استحاضہ متوسطہ کے افعال انجام دے لیکن اگر وہ جانتی ہو کہ اس سے پیشتر اسے ان تین اقسام میں سے کونسی قسم کا استحاضہ تھا تو ضروری ہے کہ اسی قسم کے استحاضہ کے مطابق اپنا وظیفہ انجام دے۔

413۔ اگر استحاضہ کا خون اپنے ابتدائی مرحلے پر جسم کے اندر ہی ہو اور باہر نہ نکلے تو عورت نے جو وضو یا غسل کیا ہوا ہو اسے باطل نہیں کرتا لیکن اگر باہر آجائے تو خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو وضو اور غسل کو باطل کر دیتا ہے۔

414۔ مستحاضہ اگر نماز کے بعد اپنے بارے میں تحقیق کرے اور خون نہ دیکھے تو اگرچہ اسے علم ہو کہ دوبارہ خون آئے گا جو وضو وہ کئے ہوئے ہے اسی سے نماز پڑھ سکتی ہے۔

415۔ مستحاضہ عورت اگر یہ جانتی ہو کہ جس وقت سے وہ وضو یا غسل میں مشغول ہوئی ہے خون اس کے بدن سے باہر نہیں آیا اور نہ ہی شرمگاہ کے اندر ہے تو جب تک اسے پاک رہنے کا یقین ہو نماز پڑھنے میں تاخیر کر سکتی ہے۔

416۔ اگر مستحاضہ کو یقین ہو کہ نماز کا وقت گزرنے سے پہلے پوری طرح پاک ہو جائے گی یا اندازاً جتنا وقت نماز پرھنے میں لگتا ہے اس میں خون آنا بند ہو جائے گا تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ انتظار کرے اور اس وقت نماز پڑھے جب پاک ہو۔

ص:87

417۔ اگر وضو اور غسل کے بعد خون آنا بظاہر بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم ہو کہ اگر نماز پڑھنے میں تاخیر کرے تو جتنی دیر میں وضو، غسل اور نماز بجا لائے گی بالکل پاک ہو جائے گی تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو موخر کر دے اور جب بالکل پاک ہو جائے تو دوبارہ وضو اور غسل کرکے نماز پڑھے اور اگر خون کے بظاہر بند ہونے کے وقت نماز کا وقت تنگ ہو تو وضو اور غسل دوبارہ کرنا ضروری نہیں بلکہ جو وضو اور غسل اس نے کئے ہوئے ہیں انہی کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔

418۔ مستحاضہ کثیرہ جب خون سے بالکل پاک ہو جائے اگر اسے معلوم ہو کہ جس وقت سے اس نے گذشتہ نماز کے لئے غسل کیا تھا اس وقت تک خون نہیں آیا تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں ہے بصورت دیگر غسل کرنا ضروری ہے۔ اگر اس حکم کا بطور کلی ہونا احتیاط کی بنا پر ہے۔ اور مستحاضہ متوسطہ میں ضروری نہیں ہے کہ خون سے بالکل پاک ہو جائے پھر غسل کرے۔

419۔ مستحاضہ قلیلہ کو وضو کے بعد اور مستحاضہ متوسطہ کو غسل اور وضو کے بعد اور مستحاضہ کثیرہ کو غسل کے بعد (ان دو صورتوں کے علاوہ جو مسئلہ 403 میں آئی ہیں) فوراً نماز میں مشغول ہونا ضروری ہے۔لیکن نماز سے پہلے اَذان اور اقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ نماز میں مستحب کام مثلاً قنوت وغیرہ پڑھ سکتی ہے۔

420۔ اگر مستحاضہ جس کا وظیفہ یہ ہو کہ وضو یا غسل اور نماز کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اگر اس نے اپنے وظیفہ کے مطابق عمل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرنے کے بعد فوراً نماز میں مشغول ہو جائے۔

421۔ اگر عورت کا خون استحاضہ جاری رہے اور بند ہونے میں نہ آئے اور خون کاروکنا اس کے لئے مضرنہ ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بعد خون کو باہر آنے سے روکے اور اگر ایسا کرنے میں کوتاہی برتے اور خون نکل آئے تو جو نماز پڑھ لی ہو اسے دوبارہ پڑھنے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔

422۔ اگر غسل کرتے وقت خون نہ رکے تو غسل صحیح ہے لیکن اگر غسل کے دوران استحاضہ متوسطہ استحاضہ کثیرہ ہو جائے تو از سر نو غسل کرنا ضروری ہے۔

423۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ مستحاضہ روزے سے ہو تو سارا دن جہاں تک ممکن ہو خون کو نکلنے سے روکے۔

ص:88

424۔ مشہور قول کی بنا پر مستحاضہ کثیرہ کا روزہ اس صورت میں صحیح ہوگا کہ جس رات کے بعد کے دن وہ روزہ رکھنا چاہتی ہو اس رات کو مغرب اور عشاء کی نماز کا غسل کرے۔ علاوہ ازیں دن کے وقت وہ غسل انجام دے جو دن کی نمازوں کے لئے واجب ہیں لیکن کچھ بعید نہیں کہ اس کے روزے کی صحت کا انحصار غسل پر نہ ہو۔ اسی طرح بنا بر اقوی مستحاضہ متوسطہ میں یہ غسل شرط نہیں ہے۔

425۔ اگر عورت عصر کی نماز کے بعد مستحاضہ ہو جائے اور غروب آفتاب تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ بلا اشکال صحیح ہے۔

426۔ اگر کسی عورت کا استحاضہ قلیلہ نماز سے پہلے متوسطہ یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ متوسطہ یا کثیرہ کے افعال جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے انجام دے اور اگر استحاضہ متوسطہ کثیرہ ہو جائے تو چاہئے کہ استحاضہ کثیرہ کے افعال انجام دے۔ چنانچہ اگر وہ استحاضہ متوسطہ کے لئے غسل کر چکی ہو تو اس کا یہ غسل بے فائدہ ہو گا اور اسے استحاضہ کثیرہ کے لئے دوبارہ غسل کرنا ضروری ہے۔

427۔ اگر نماز کے دوران کسی عورت کا استحاضہ متوسطہ کثیرہ میں بدل جائے تو ضروری ہے کہ نماز توڑ دے اور استحاضہ کثیرہ کے لئے غسل کرے اور اس کے دوسرے افعال انجام دے اور پھر اسی نماز کو پڑھے اور احتیاط مستحب کی بنا پر غسل سے پہلے وضو کرے اور اگر اس کے پاس غسل کے لئے وقت نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر تیمم کے لئے بھی وقت نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر نماز نہ توڑے اور اسی حالت میں ختم کرے لیکن ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے بعد اس نماز کی قضا کرے۔ اور اسی طرح اگر نماز کے دوران اس کا استحاضہ قلیلہ متوسطہ یا کثیرہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو توڑ دے اور استحاضہ متوسطہ یا کثیرہ کے افعال انجام دے۔

428۔ اگر نماز کے دوران خون بند ہو جائے اور مستحاضہ کو معلوم نہ ہو کہ باطن میں بھی خون بند ہوا ہے یا نہیں تو اگر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ خون پورے طور پر بند ہو گیا تھا اور اسکے پاس اتنا وسیع وقت ہو کہ پاک ہو کر دوبارہ نماز پڑھ سکے تو اگر خون بند ہونے سے مایوس نہ ہوئی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اپنے وظیفہ کے مطابق وضو یا غسل کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

ص:89

429۔ اگر کسی عورت کا استحاضہ کثیرہ متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ پہلی نماز کے لئے کثیرہ کا عمل اور بعد کی نمازوں کے لئے متوسطہ کا عمل بجالائے مثلاً اگر ظہر کی نماز سے پہلے استحاضہ کثیرہ متوسطہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ ظہر کی نماز کے لئے غسل کرے اور نماز عصر و مغرب و عشاء کے لئے صرف وضو کرے لیکن اگر نماز ظہر کے لئے غسل نہ کرے اور اسکے پاس صرف نماز عصر کے لئے وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز عصر کے لئے غسل کرے اور اگر نماز عصر کے لئے بھی غسل نہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز مغرب کے لئے غسل کرے اور اگر اس کے لئے بھی غسل نہ کرے اور اس کے پاس صرف نماز عشاء کے لئے وقت ہو تو نماز عشاء کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

430۔ اگر ہر نماز سے پہلے مستحاضہ کثیرہ کا خون بند ہو جائے اور دوبارہ آجائے تو ہر نماز کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

431۔ اگر استحاضہ کثیرہ قلیلہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ عورت پہلی نماز کے لئے کثیرہ والے اور بعد کی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجالائے اور اگر استحاضہ متوسطہ قلیلہ ہو جائے تو پہلی نماز کے لئے متوسطہ والے اور بعد کی نمازوں کے لئے قلیلہ والے افعال بجالانا ضروری ہے۔

432۔ مستحاضہ کے لئے جو افعال واجب ہیں اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی ترک کر دے تو اس کی نماز باطل ہے۔

433۔ مستحاضہ قلیلہ یا متوسطہ اگر نماز کے علاوہ وہ کام انجام دینا چاہتی ہو جس کے لئے وضو کا ہونا شرط ہے مثلاً اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے چھونا چاہتی ہو تو نماز ادا کرنے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے اور وہ وضو جو جماز کے لئے کیا تھا کافی نہیں ہے۔

434۔ جس مستحاضہ نے اپنے واجب غسل کر لئے ہوں اسکا مسجد میں جانا اور وہاں ٹھہرنا اور وہ آیات پڑھنا جن کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور اس کے شوہر کا اس کے ساتھ مجامعت کرنا حلال ہے۔ خواہ اس نے وہ افعال جو وہ نماز کے لئے انجام دیتی تھی (مثلاً روئی اور کپڑے کے ٹکڑے کا تبدیل کرنا) انجام نہ دیئے ہوں اور بعید نہیں ہے کہ یہ افعال بغیر غسل بھی جائز ہوں اگرچہ احتیاط ان کے ترک کرنے میں ہے۔

435۔ جو عورت استحاضہ کثیرہ یا متوسطہ میں ہو اگر وہ چاہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اس آیت کو پڑھے جس کے پڑھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے یا مسجد میں جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ غسل کرے اور اگر اس کا شوہر اس سے مجامعت کرنا چاہے تب بھی یہی حکم ہے۔

ص:90

436۔ مستحاضہ پر نماز آیات کا پڑھنا واجب ہے اور نماز آیات ادا کرنے کے لئے یومیہ نمازوں کے لئے بیان کئے گئے تمام اعمال انجام دینا ضروری ہیں۔

437۔ جب بھی یومیہ نماز کے وقت میں نماز آیات مستحاضہ پر واجب ہو جائے تو وہ چاہے کہ ان دونوں نمازوں کو یکے بعد دیگرے ادا کرے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر وہ ان دونوں کو ایک وضو اور غسل سے نہیں پڑھ سکتی۔

438۔ اگر مستحاضۃ قضا نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ نماز کے لئے وہ افعال انجام دے جو ادا نماز کے لئے اس پر واجب ہیں اور احتیاط کی بنا پر قضا نماز کے لئے ان افعال پر اکتفا نہیں کر سکتی جو کہ اس نے ادا نماز کے لئے انجام دیئے ہوں۔

439۔ اگر کوئی عورت جانتی ہو کہ جو خون اسے آرہا ہے وہ زخم کا خون نہیں ہے لیکن اس خون کے استحاضہ، حیض یا نفاس ہونے کے بارے میں شک کرے اور شرعاً وہ خون حیض و نفاس کا حکم بھی نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ استحاضہ والے احکام کے مطابق عمل کرے۔ بلکہ اگر اسے شک ہو کہ یہ خون استحاضہ ہے یا کوئی دوسرا اور وہ دوسرے خون کی علامات بھی نہ رکھتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر استحاضہ کے افعال انجام دینا ضروری ہیں۔

حیض

حیض وہ خون ہے جو عموماً ہر مہینے چند دنوں کے لئے عورتوں کے رحم سے خارج ہوتا ہے اور عورت کو جب حیض کو خون آئے تو اسے حائض کہتے ہیں۔

440۔ حیض کا خون عموماً گاڑھا اور گرم ہوتا ہے اور اس کا رنگ سیاہ یا سرخ ہوتا ہے۔ وہ اچھل کر اور تھوڑی سی جلن کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔

441۔ وہ خون جو عورتوں کو ساٹھ برس پورے کرنے کے بعد آتا ہے حیض کا حکم نہیں رکھتا۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ عورتیں جو غیر قریشی ہیں وہ پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کے دوران خون اس طرح دیکھیں کہ اگر وہ پچاس سال سے پہلے خون دیکھتیں تو وہ خون یقیناً حیض کا حکم رکھتا تو وہ مستحاضہ والے افعال بجا لائیں اور ان کاموں کو ترک کریں جنہیں حائض ترک کرتی ہے۔

ص:91

442۔ اگر کسی لڑکی کو نو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔

443۔ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بھی حیض آنا ممکن ہے اور حاملہ اور غیر حاملہ کا حکم ایک ہی ہے بس (فرق یہ ہے کہ) حاملہ عورت اپنی عادت کے ایام شروع ہونے کے بیس روز بعد بھی اگر حیض کی علامتوں کے ساتھ خون دیکھے تو اس کے لئے احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ ان کاموں کو ترک کر دے جنہیں حائض ترک کرتی ہے اور مستحاضہ کے افعال بھی بجالائے۔

444۔ اگر کسی ایسی لڑکی کو خون آئے جسے اپنی عمر کے نو سال پورے ہونے کا علم نہ ہو اور اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں تو وہ حیض نہیں ہے اور اگر اس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اس پر حیض کا حکم لگانا محل اشکال ہے مگر یہ کہ اطمینان ہو جائے کہ یہ حیض ہے ۔ اور اس صورت میں یہ معلوم ہوجائے گا کہ اس کی عمر پورے نو سال ہو گئی ہے۔

445۔ جس عورت کو شک ہو کہ اس کی عمر ساٹھ سال ہو گئی ہے یا نہیں اگر وہ خون دیکھے اور یہ نہ جانتی ہو کہ یہ حیض ہے یا نہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی عمر ساٹھ سال نہیں ہوئی ہے۔

446۔ حیض کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اور اگر خون آنے کی مدت تین دن سے بھی کم ہو تو وہ حیض نہیں ہوگا۔

447۔ حیض کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تین دن لگاتار آئے لہذا اگر مثال کے طور پر کسی عورت کو دو دن خون آئے پھر ایک دن نہ آئے اور پھر ایک دن آجائے تو وہ حیض نہیں ہے۔

448۔ حیض کی ابتدا میں خون کا باہر آنا ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورے تین دن خون نکلتا رہے بلکہ اگر شرم گاہ میں خون موجود ہو تو کافی ہے اور اگر تین دنوں میں تھوڑے سے وقت کے لئے بھی کوئی عورت پاک ہو جائے جیسا کہ تمام یا بعض عورتوں کے درمیان متعارف ہے تب بھی وہ حیض ہے۔

449۔ ایک عورت کے لئے یہ ضروری نہیں خہ اس کا خون پہلی رات اور چوتھی رات کو باہر نکلے لیکن یہ ضروری ہے کہ دوسری اور تیسری رات کو منقطع نہ ہو پس اگر پہلے دن صبح سویرے سے تیسرے دن غروب آفتاب تک متواتر خون آتا

ص:92

رہے اور کسی وقت بند نہ تو وہ حیض ہے۔ اور اگر پہلے دن دوپہر سے خون آنا شروع ہو اور چوتھے دن اسی وقت بند ہو تو اس کی صورت بھی یہی ہے (یعنی وہ بھی حیض ہے)۔

450۔ اگر کسی عورت کو تین دن متواتر خون آتا رہے پھر وہ پاک ہو جائے چنانچہ اگر وہ دوبارہ خون دیکھے تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے اور جن دنوں میں وہ پاک ہو ان تمام دنوں کو ملا کر اگر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو جن دنوں میں وہ خون دیکھے وہ حیض کے دن ہیں لیکن احتیاط لازم کی بنا پر پاکی کے دنوں میں وہ ان تمام امور کو جو پاک عورت پر واجب اور حائض کے لئے حرام ہیں انجام دے۔

451۔ اگر کسی عورت کو تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم خون آئے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ خون پھوڑے یا زخم کا ہے یا حیض کا تو اسے چاہئے کہ اس خون کو حیض نہ سمجھے۔

452۔ اگر کسی عورت کو ایسا خون آئے جس کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ زخم کا خون ہے یا حیض کا تو ضروری ہے کہ اپنی عبادات بجا لاتی رہے۔ لیکن اگر اس کی سابقہ حالت حیض کی رہی ہو تو اس صورت میں اسے حیض قرار دے۔

453۔ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے شک ہو کہ یہ خون حیض ہے یا استحاضہ تو ضروری ہے کہ حیض کی علامات موجود ہونے کی صورت میں اسے حیض قرار دے۔

454۔ اگر کسی عورت کو خون آئے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ حیض ہے یا بکارت کا خون ہے تو ضروری ہے کہ اپنے بارے میں تحقیق کرے یعنی کچھ روئی شرم گاہ میں رکھے اور تھوڑی دیر انتظار کرے۔

پھر روئی باہر نکالے۔ پس اگر خون روئی کے اطراف میں لگا ہو تو خون بکارت ہے اور اگر ساری کی ساری روئی خون میں تر ہو جائے تو حیض ہے۔

455۔ اگر کسی عورت کو تین دن سے کم مدت تک خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور تین دن کے بعد خون آئے تو دوسرا خون حیض ہے اور پہلا خون خواہ وہ اس کی عادت کے دنوں ہی میں آیا ہو حیض نہیں ہے۔

حائض کے احکام

ص:93

456۔ چند چیزیں حائض پر حرام ہیں:

1۔ نماز اور اس جیسی دیگر عبادتیں جنہیں وضو یا غسل یا تیمم کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن ان عبادتوں کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرنا ضروری نہیں جیسے نماز میت۔

2۔ وہ تمام چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں اور جن کا ذکر جنابت کے احکام میں آچکا ہے۔

3۔ عورت کی فرج میں جماع کرنا اور جو مرد اور عورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہو اور منی بھی خارج نہ ہو بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدار میں بھی دخول نہ کیا جائے نیز احتیاط کی بنا پر عورت کی دبر میں مجامعت نہ کرے خوہ وہ حائض ہو یا نہ ہو۔

457۔ ان دنوں میں بھی جماع کرنا حرام ہے جن میں عورت کا حیض یقینی نہ ہو لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو حائض قرار دے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیا ہو اور اس کے لئے ضروری ہو کہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اپنے آپ کو اتنے دن کے لئے حائض قرار دے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کو عادت ہو تو اس کا شوہر ان دنوں میں اس سے مجامعت نہیں کر سکتا۔

458۔ اگر مرد اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے، اس کا کفارہ مسئلہ 460 میں بیان ہوگا۔

459۔ حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوس و کنار کی ممانعت نہیں ہے۔

460۔ حیض کی حالت میں مجامعت کا کفارہ حیض کے پہلے حصے میں اٹھارہ چنوں کے برابر، دوسرے حصے میں نو چنوں کے برابر اور تیسرے حصے میں ساڑھے چار چنوں کے برابر سکہ دار سونا ہے مثلاً اگر کسی عورت کو چھ دن حیض کا خون آئے اور اس کا شوہر پہلی یا دوسری رات یا دن میں اس سے جماع کرے تو اٹھارہ چنوں کے برابر سونا دے اور اگر تیسری یا چوتھی رات یا دن میں جماع کرے تو نو چنوں کے برابر سونا دے اور اگر پانچویں یا چھٹی رات یا دن میں جماع کرے تو ساڑھے چار چنوں کے برابر سونا دے۔

ص:94

461۔ اگر سکہ دار سونا ممکن نہ ہو تو متعلقہ شخص اس کی قیمت دے اور اگر سونے کی اس وقت کی قیمت ہے جب کہ اس نے جماع کیا تھا اس وقت کی قیمت جب کہ وہ غریب محتاج کو دینا چاہتا ہو مختلف ہو گئی ہو تو اس وقت کی قیمت کے مطابق حساب لگائے جب وہ غریب محتاج کو دینا چاہتا ہو۔

462۔ اگر کسی شخص نے حیض کے پہلے حصے میں بھی دوسرے حصے میں بھی اور تیسرے حصے میں بھی اپنی بیوی سے جماع کیا ہو تو وہ تینوں کفارے دے جو سب مل کر ساڑھے اکتیس چنے (05ء6 گرام) ہو جاتے ہیں۔

463۔ اگر مرد کو جماع کے دوران معلوم ہو جائے کہ عورت کو حیض آنے لگا ہے تو ضروری ہے کہ فورا اس سے جدا ہو جائے اور اگر جدا نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔

465۔ اگر کوئی مرد حائض سے زنا کرے یا یہ گمان کرتے ہوئے نامحرم حائض سے جماع کرے کہ وہ اس کی اپنی بیوی ہے تب بھی احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔

466۔ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بنا پر یا بھول کر عورت سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو اس پر کفارہ نہیں۔

467۔ اگر ایک مرد یہ خیال کرتے ہوئے کہ عورت حائض ہے اس سے مجامعت کرے لیکن بعد میں معلوم ہو کہ حائض نہ تھی تو اس پر کفارہ نہیں۔

468۔ جیسا کہ طلاق کے احکام میں بتایا جائے گا عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دینا باطل ہے۔

469۔ اگر عورت کہیے کہ میں حائض ہوں یا یہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اور وہ غلط بیانی نہ کرتی ہو تو اس کی بات قبول کی جائے لیکن اگر غلط بیاں ہو تو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔

470۔ اگر کوئی عورت نماز کے دوران حائض ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔

471۔ اگر عورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ نماز کے دوران حائض ہوگئی تھی تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہے۔

ص:95

472۔ عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعد اس پر واجب ہے کہ نماز اور دوسری عبادات کے لئے جو وضو، غسل یا تیمم کرکے بجالانا چاہئیں غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جنابت کی طرح ہے اور بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔

473۔ عورت کے حیض سے پاک ہوجانے کے بعد اگرچہ اس نے غسل نہ کیا ہو اسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کرسکتا لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرم گاہ دھونے کے بعد کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرد اس سے جماع نہ کرے۔

البتہ جب تک وہ عورت غسل نہ کرلے وہ دوسرے کام جو حیض کے وقت اس پر حرام تھے مثلاً مسجد میں ٹھہرنا یا قرآن مجید کے الفاظ کو چھوٹا اس پر حلال نہیں ہوتے۔

474۔ اگر پانی (عورت کے) وضو اور غسل کے لئے کافی نہ ہو اور تقریباً اتنا ہو کہ اس سے غسل کر سکے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی صرف وضو کے لئے کافی ہو اور اتنا نہ ہو کہ اس سے غسل کیا جاسکے تو بہتر یہ ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔

475۔ جو نمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کے قضا کرے اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر جو روزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اور اس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

476۔ جب نماز کا وقت ہوجائے اور عورت یہ جان لے (یعنی اسے یقین ہو) کہ اگر وہ نماز پڑھنے میں دیر کرے گی تو خالص ہوجائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر اسے فقط احتمال ہو کہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہوجائے گی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔

477۔ اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اول وقت میں سے اتنا وقت گزر جائے جتنا کہ حدث سے پانی کے ذریعے، اور احتیاط لازم کی بنا پر تیمم کے ذریعے طہارت حاصل کرکے ایک نماز پرھنے میں لگتا اور اسے حیض آجائے تو

ص:96

اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے۔ لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی عادت کا لحاظ کرے مثلاً اگر ایک عورت جو سفر میں نہیں ہے اول وقت میں نماز ظہر نہ پڑھے تو اس کی قضا اس پر اس صورت میں واجب ہوگی جب کہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے بعد چار رکعت نماز پرھنے کے برابر وقت اول ظہر سے گزر جائے اور وہ حائض ہو جائے اور اس عورت کے لئے جو سفر میں ہو طہارت حاصل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے برابر وقت گزرجانا بھی کافی ہے۔

478۔ اگر ایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہو جائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہو کہ غسل کرکے ایک یا ایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے۔

479۔ اگر ایک حائض کے پاس (حیض سے پاک ہونے کے بعد) غسل کے لئے وقت نہ ہو لیکن تیمم کر کے نماز وقت کے اندر پڑھ سکتی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو قضا کرے۔ لیکن اگر وقت کی تنگی سے قطع نظر کسی اور وجہ سے اس کا فریضہ ہی تیمم کرنا ہو مثلاً اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرکے وہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔

480۔ اگر کسی عورت کو حیض سے پاک ہو جانے کے بعد شک ہو کہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یا نہیں تو اسے چاہئے کہ نماز پرھ لے۔

481۔ اگر کوئی عورت اس خیال سے نماز نہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعد ایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے لیکن بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا بجالانا ضروری ہے۔

482۔ حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اور کپڑے کا ٹکڑا بدلے اور وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکے تو تیمم کرے اور نماز کی جگہ پر روبقبلہ بیٹھ کر ذکر، دعا اور صلوات میں مشغول ہو جائے۔

483۔ حائض کے لئے قرآن مجید کا پڑھنا اور اسے اپنے ساتھ رکھنا اور اپنے بدن کا کوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے چھونا نیز مہندی یا اس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرنا بعض فقہای عظام کی نظر میں مکروہ شمار کیا گیا ہے۔

ص:97

حائض کی قسمیں

484۔ حائض کی چھ قسمیں ہیں :

1۔ وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک معین وقت پر حیض آئے اور اس کے حیض کے دنوں کی تعداد بھی دونوں مہینوں میں ایک جیسی ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتا ہو۔

2۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت : یہ وہ عورت ہے جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر حیض آئے لیکن اس کے حیض کے دنوں کی تعداد دونوں مہینوں میں ایک جیسی نہ ہو۔

مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے خون آنا شروع ہو لیکن وہ پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن خون سے پاک ہو۔

3۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت: یہ وہ عورت ہے جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک جیسی ہو لیکن ہر مہینے خون آنے کا وقت یکساں نہ ہو۔ مثلاً پہلے مہینے میں اسے پانچویں سے دسویں تاریخ تک، اور دوسرے مہینے میں بارھویں سے سترھویں تاریخ تک خون آتا ہو۔

4۔ مُضطَربَہ : یہ وہ عورت ہے جسے چند مہینے خون آیا ہو لیکن اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو یا اس کی سابقہ عادت بگڑ گئی ہو اور نئی عادت نہ بنی ہو۔

5۔ مُبتَدِئَہ: یہ وہ عورت ہے جسے پہلی دفعہ خون آیا ہو۔

6۔ نَاسِیَہ: یہ وہ عورت ہے جو اپنی عادت بھول چکی ہو۔

ان میں سے ہر قسم کی عورت کے لئے علیحدہ علیحدہ احکام ہیں جن کا ذکر آئندہ مسائل میں کیا جائے گا۔

1۔ وقت اور عدد کی عادت رکھنے والی عورت

ص:98

485۔ جو عورتیں وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:۔

(اول) وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں ایک مُعَیّن وقت پر خون آئے اور وہ ایک مُعَیّن وقت پر ہی پاک بھی ہو جائے مثلاً یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اسے مہینے کی پہلی تاریخ کو خون آئے اور وہ ساتویں روز پاک ہو جائے تو اس عورت کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک ہے۔

(دوم) وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مُعَیّن وقت پر خون آئے اور جب تین یا زیادہ دن تک خون آچکے تو وہ ایک یا زیادہ دنوں کے لئے پاک ہو جائے اور پھر اسے دوبارہ خون آجائے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں اسے خون آیا ہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں وہ پاک رہی ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں تمام دن جن میں اسے خون آیا اور بیچ کے وہ دن جن میں پاک رہی ہو ایک جتنے ہوں تو اس کی عادت ان تمام دنوں کے مطابق قرار پائے گی جن میں اسے خون آیا لیکن ان دنوں کو شامل نہیں کر سکتی جن کے درمیان پاک رہی ہو۔ پس لازم ہے کہ جن دنوں میں اسے خون آیا ہو اور جن دنوں میں وہ پاک رہی ہو دونوں مہینوں میں ان دنوں کی تعداد ایک جتنی ہو مثلاً اگر پہلے مہینے میں اور اسی طرح دوسرے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور پھر تین دن پاک رہے اور پھر تین دن دوبارہ خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ دن کی ہو جائے گی اور اگر اسے دوسرے مہینے میں آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس سے کم یا زیادہ ہو تو یہ عورت وقت کی عادت رکھتی ہے، عدد کی نہیں۔

486۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو خواہ عدد کی عادت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت یا اس سے ایک دو دن یا اس سے بھی زیادہ دن پہلے خون آجائے جب کہ یہ کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ بھی ہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر ابعد میں اسے پتہ چلے کہ وہ حیض کا خون نہیں تھا مثلاً وہ تین دن سے پہلے پاک ہو جائے تو ضروری ہے کہ جو عبادات اس نے انجام نہ دی ہوں ان کی قضا کرے۔

487۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے تمام دنوں میں اور عادت سے چند دن پہلے اور عادت کے چند دن بعد خون آئے اور وہ کل ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہوں تو وہ سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ مدت دس دن سے بڑھ جائے تو جو خون اسے عادت کے دنوں میں آیا ہے وہ حیض ہے اور جو عادت سے پہلے یا بعد میں آیا ہے وہ استحاضہ ہے اور جو عبادات وہ عادت سے پہلے اور بعد کے دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرنا ضروری ہے۔ اور اگر

ص:99

عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت سے کچھ دن پہلے اسے خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارا حیض ہے اور اگر دنوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اگرچہ اس میں حیض کی علامات نہ ہوں اور اس سے پہلے آنے والا خون حیض کی علامات کے ساتھ ہو۔ اور جو خون اس سے پہلے آئے وہ استحاضہ ہے اور اگر عادت کے تمام دنوں میں اور ساتھ ہی عادت کے چند دن بعد خون آئے اور کل دنوں کی تعداد ملا کر دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور اگر یہ تعداد دس سے بڑھ جائے تو صرف عادت کے دنوں میں آنے والا خون حیض ہے اور باقی استحاضہ ہے۔

488۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے کچھ دنوں میں یا عادت سے پہلے خون آئے اور ان تمام دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو وہ سارے کا سارا حیض ہے۔ اور اگر ان دنوں کی تعداد دس سے بڑھ جائے تو جن دنوں میں اسے حسب عادت خون آیا ہے اور پہلے کے چند دن شامل کرکے عادت کے دنوں کی تعداد پوری ہونے تک حیض اور شروع کے دنوں کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر عادت کے کچھ دنوں کے ساتھ ساتھ عادت کے بعد کے کچھ دنوں میں خون آئے اور ان سب دنوں کو ملا کر ان کی تعداد دس سے زیادہ نہ ہو تو سارے کا سارا حیض ہے اور اگر دس سے بڑھ جائے تو اسے چاہئے کہ جن دنوں میں عادت کے مطابق خون آیا ہے اس میں بعد کے چند دن ملا کر جن دنوں کی مجموعی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو جائے انہیں حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے۔

489۔ جو عورت عادت رکھتی ہو اگر اس کا خون تین یا زیادہ دن تک آنے کے بعد رک جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور ان دونوں خون کا درمیانی فاصلہ دس دن سے کم ہو اور ان سب دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بشمول ان درمیانی دنوں کے جن میں پاک رہی ہو دس سے زیادہ ہو۔ مثلاً پانچ دن خون آیا ہو پھر پانچ دن رک گیا ہو اور پھر پانچ دن دوبارہ آیا ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں :

1۔ وہ تمام خون یا اس کی کچھ مقدار جو پہلی بار دیکھے عادت کے دنوں میں ہو اور دوسرا خون جو پاک ہونے کے بعد آیا ہے عادت کے دنوں میں نہ ہو۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے تمام خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔

2۔ پہلا خون عادت کے دنوں میں نہ آئے اور دوسرا تمام خون یا اس کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے تو ضروری ہے کہ دوسرے تمام خون کو حیض اور پہلے کو استحاضہ قرار دے۔

ص:100

3۔ دوسرے اور پہلے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے اور ایام عادت میں آنے والا پہلا خون تین دن سے کم نہ ہو اس صورت میں وہ مدت بمع درمیان میں پاک رہنے کی مدت اور عادت کے دنوں میں آنے والے دوسرے خون کی مدت دس دن سے زیادہ نہ ہو تو دونوں میں خون حیض ہیں اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ پاکی کی مدت میں پاک عورت کے کام بھی انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔اور دوسرے خون کی وہ مقدار جو عادت کے دنوں کے بعد آئے استحاضہ ہے۔ اور خون اول کی وہ مقدار جو ایام عادت سے پہلے آئی ہو اور عرفاً کہا جائے کہ اس کی عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے تو وہ خون، حیض کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس خون پر حیض کا حکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدار جو عادت کے دنوں میں تھی یا سارے کا سارا خون، حیض کا حکم لگانے سے دوسرے خون کی بھی کچھ مقدار جو عادت کے دنوں میں تھی یا سارے کا سارا خون، حیض کے دس دن سے زیادہ ہو جائے تو اس صورت میں وہ خون، خون استحاضہ کا حکم رکھتا ہے مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی تیسری سے دسویں تاریخ تک ہو اور اسے کسی مہینے کی پہلی سے چھٹی تاریخ تک خون آئے اور پھر دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر پندرھویں تاریخ تک آئے تو تیسری سے دسویں تاریخ تک حیج ہے اور گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک آنے والا خون استحاضہ ہے۔

4۔ پہلے اور دوسرے خون کی کچھ مقدار عادت کے دنوں میں آئے لیکن ایام عادت میں آنے والا پہلا خون تین دن سے کم ہو۔ اس صورت میں بعید نہیں ہے کہ جتنی مدت اس عورت کو ایام عادت میں خون آیا ہے اسے عادت سے پہلے آنے والے خون کی کچھ مدت کے ساتھ ملا کر تین دن پورے کرے اور انہیں ایام حیض قرار دے۔ پس اگر ایسا ہو کہ وہ دوسرے خون کی اس مدت کو جو عادت کے دنوں میں آیا ہے حیض قرار دے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مدت اور پہلے خون کی وہ مدت جسے حیض قرار دیا ہے اور ان کے درمیان پاکی کی مدت سب ملا کر دس دن سے تجاوز نہ کریں۔ تو یہ سب ایام حیض ہیں ورنہ دوسرا خون استحاضہ ہے۔ اور بعض صورتوں میں ضروری ہے کہ پہلے پورے خون کو حیض قرار دے۔ نہ کہ اس خاص مقدار کو جسے پہلے خون کی کمی پورا کرنے کے لئے وہ لازمی طور پر حیض قرار دیتی ۔ اور اس میں دو شرطیں ہیں:

(اول)اسے اپنی عادت سے کچھ دن پہلے خون آیا ہو کہ اس کے باری میں یہ کہا جائے کہ اس کی عادت تبدیل ہو کر وقت سے پہلے ہو گئی ہے۔

ص:101

(دوم) وہ اسے حیض قرار دے تو یہ لازم نہ آئے کہ اس کے دوسرے خون کی کچھ مقدار جو کہ عادت کے دنوں میں آیا ہو حیض کے دس دن سے زیادہ ہو جائے مثلاً اگر عورت کی عادت مہینے کی چوتھی تاریخ سے دس تاریخ تک تھی اور اسے مہینے کے پہلے دن سے چوتھے دن کے آخری وقت تک خون آئے اور دو دن کے لئے پاک ہو اور پھر دوبارہ اسے پندرہ تاریخ تک خون آئے تو اس صورت میں پہلا پورے کا پورا خون حیض ہے۔ اور اسی طرح دوسرا وہ خون بھی جو دسویں دن کے آخری وقت تک آئے حیض کا خون ہے۔

490۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت خون نہ آئے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور وقت حیض کے دنوں کے برابر دنوں میں حیض کی علامات کے ساتھ اسے خون آئے تو ضروری ہے کہ اسی خون کو حیض قرار دے خواہ وہ عادت کے وقت سے پہلے آئے یا بعد میں آئے۔

491۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے عادت کے وقت تین یا تین سے زیادہ دن تک خون آئے لیکن اس کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں سے کم یا زیادہ ہو اور پاک ہونے کے بعد اسے دوبارہ اتنے دنوں کے لئے خون آئے جتنی اس کی عادت ہو تو اس کی چند صورتیں ہیں:

1۔ دونوں خون کے دنوں اور ان کے درمیان پاک رہنے کے دنوں کو ملا کر دس دن سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون ایک حیض شمار ہوں گے۔

2۔ دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن یا دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں دونوں خون میں سے ہر ایک کو ایک مستقل حیض قرار دیا جائے گا۔

3۔ ان دونوں خون کے درمیان پاک رہنے کی مدت دس دن سے کم ہو لیکن ان دونوں خون کو اور درمیان میں پاک رہنے کی ساری مدت کو ملا کر دس دن سے زیادہ ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور دوسرے خون کو استحاضہ قرار دے۔

492۔ جو عورت وقت اور عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے دس سے زیادہ دن تک خون آئے تو جو خون اسے عادت کے دنوں میں آئے خواہ وہ حیض کی علامات نہ بھی رکھتا ہو تب بھی حیض ہے اور جو خون عادت کے دنوں کے بعد آئے خواہ وہ

ص:102

حیض کی علامات بھی رکھتا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً اگر ایک ایسی عورت جس کی حیض کی عادت مہینے کی پہلی سے ساتویں تاریخ تک ہو اسے پہلی سے بارہویں تاریخ تک خون آئے تو پہلے ساتھ دن حیض اور بقیہ پانچ دن استحاضہ کے ہوں گے۔

2۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت

493۔ جو عورتیں وقت کی عادت رکھتی ہیں اور ان کی عادت کی پہلی تاریخ معین ہو ان کی دو قسمیں ہیں :۔

1۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر خون آئے اور چند دنوں بعد بند ہو جائے لیکن دونوں مہینوں میں خون آنے کے دنوں کی تعداد مختلف ہو۔ مثلاً اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں مہینے کی پہلی تاریخ کو خون آئے لیکن پہلے مہینے میں ساتویں دن اور دوسرے مہینے میں آٹھویں دن بند ہو۔ ایسی عورت کو چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی عادت قرار دے۔

2۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں معین وقت پر تین یا زیادہ دن آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے مع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ ہو لیکن دوسرے مہینے میں دنوں کی تعداد پہلے مہینے سے کم یا زیادہ ہو مثلا پہلے مہینے میں آٹھ دن اور دوسرے مہینے میں نو دن بنتے ہوں تو اس عورت کو بھی چاہئے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنی حیض کی عادت کا پہلا دن قرار دے۔

494۔ وہ عورت جو وقت کی عادت رکھتی ہے اگر اس کو عادت کے دنوں میں یا دادت سے دو تین دن پہلے خون آئے تو ضروری ہے کہ وہ عورت ان کا احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور اس صورت کی تفصیل مسئلہ 486 میں گزر چکی ہے۔ لیکن ان دو صورتوں کے علاوہ مثلاً یہ کہ عادت سے اس قدر پہلے خون آئے کہ یہ نہ کہا جاسکے کہ عادت وقت سے قبل ہو گئی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عادت کی مدت کے علاوہ (یعنی دوسرے وقت میں) خون آیا ہے یا یہ کہا جائے کہ عادت کے بعد خون آیا ہے چنانچہ وہ خون حیض کی علامات کے ساتھ آئے تو ضروری ہے کہ ان احکام پر عمل کرے جو حائض کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور اگر اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں لیکن وہ عورت یہ جان لے کہ خون تین دن تک جاری رہے گا تب بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر یہ نہ جانتی ہو کہ خون تین دن تک جاری رہے گا یا نہیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ کام جو مستحاضہ پر واجب ہیں انجام دے اور وہ کام جو حائض پر حرام ہیں ترک کرے۔

ص:103

495۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہے اگر اسے عادت کے دنوں میں خون آئے اور اس خون کی مدت دس دن سے زیادہ ہو اور حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کر سکتی ہو تو اخوط یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے چاہے وہ رشتہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے زندہ ہو یا مردہ لیکن اس کی دو شرطیں ہیں :

1۔ اسے اپنے حیض کی مقدار اور اس رشتہ دار عورت کی عادت کی مقدار میں فرق کا علم نہ ہو مثلاً یہ کہ وہ خود نوجوان ہو اور طاقت کے لحاظ سے قوی اور دوسری عورت عمر کے لحاظ سے یاس کے نزدیک ہو تو ایسی صورت میں معمولاً عادت کی مقدار کم ہوتی ہے اسی طرح وہ خود عمر کے لحاظ سے یاس کے نزدیک ہو اور رشتہ دار عورت نوجوان ہو۔

2۔ اسے اس عورت کی عادت کی مقدار میں اور اس کی دوسری رشتہ دار عورتوں کی عادت کی مقدار میں کہ جن میں پہلی شرط موجود ہے اختلاف کا علم نہ ہو لیکن اگر اختلاف اتنا کم ہو کہ اسے اختلاف شمار نہ کیا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور اس عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے جو وقت کی عادت رکھتی ہے اور عادت کے دنوں میں کوئی خون نہ آئے لیکن عادت کے وقت کے علاوہ کوئی خون آئے جو دس دن سے زیادہ ہو اور حیض کی مقدار کو نشانیوں کے ذریعے معین نہ کر سکے۔

496۔ وقت کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کے عالاوہ وقت میں آنے والے خون کو حیض قرار نہیں دے سکتی، لہذا اگر اسے عادت کا ابتدائی وقت معلوم ہو مثلاً ہر مہینے کی پہلی کو خون آتا ہو اور کبھی پانچویں اور کبھی چھٹی کو خون سے پاک ہوتی ہو چنانچہ اسے کسی ایک مہینے میں بارہ دن خون آئے اور وہ حیض کی نشانیوں کے ذریعے اس کی مدت معین نہ کر سکے تو چاہئے کہ مہینے کی پہلی کو حیض کی پہلی تاریخ قرار دے اور اس کی تعدا کے بارے میں جو کچھ پہلے مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اس پر عمل کرے۔ اور اگر اس کی عادت کی درمیانی یا آخری تاریخ معلوم ہو چنانچہ اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے تو ضروری ہے کہ اس کا حساب اس طرح کرے کہ آخری یا درمیانی تاریخ میں سے ایک اس کی عادت کے دنوں کے مطابق ہو۔

497۔ جو عورت وقت کی عادت رکھتی ہو اور اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور اس خون کو مسئلہ 495 میں بتائے گئے طریقے سے معین نہ کر سکے مثلاً اس خون میں حیض کی علامات نہ ہوں یا پہلے بتائی گئی دو شرطوں میں سے ایک شرط نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ تین دن سے دس دن تک جتنے دن حیض کی مقدار کے مناسب سمجھے حیض قرار دے۔ چھ یا آٹھ دنوں کو اپنے حیض کو مقدار کے مناسب سمجھنے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ساتھ دنوں کو حیض قرار دے۔ لیکن

ص:104

ضروری ہے کہ جن دنوں کو وہ حیض قرار دے وہ دن اس کی عادت کے وقت کے مطابق ہوں جیسا کہ پہلے مسئلے میں بیان کیا جاچکا ہے۔

3۔ عدد کی عادت رکھنے والی عورت

498۔ جو عورتیں عدد کی عادت رکھتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:

1۔ وہ عورت جس کے حیض کے دنوں کی تعداد یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں یکساں ہو لیکن اس کے خون آنے کے وقت ایک جیسا نہ ہو اس صورت میں جتنے دن اسے خون آئے وہی اس کی عادت ہوگی۔ مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے پانچویں تاریخ تک اور دوسرے مہینے میں گیارہویں سے پندرہویں تاریخ تک خون آئے تو اس کی عادت پانچ دن ہوگی۔

2۔ وہ عورت جسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں سے ہر ایک میں تین یا تین سے زیادہ دنوں تک خون آئے اور ایک یا اس سے زائد دنوں کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ خون آئے اور خون آنے کا وقت پہلے مہینے اور دوسرے مہینے میں مختلف ہو اس صورت میں اگر ان تمام دنوں کی تعداد جن میں خون آیا ہے بمع ان درمیانی دنوں کے جن میں خون بند رہا ہے دس سے زیادہ نہ ہو اور دونوں مہینوں میں سے ہر ایک میں ان کی تعدا بھی یکساں ہو تو وہ تمام دن جن میں خون آیا ہے اس کے حیض کی عادت کے دن شمار کئے جائیں گے اور ان درمیانی دنوں میں جن میں خون نہیں آیا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ جو کام پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو کام حائض پر حرام ہیں انہیں ترک کرے مثلاً اگر پہلے مہینے میں اسے پہلی تاریخ سے تیسری تاریخ تک خون آئے اور پھر دو دن کے لئے بند ہو جائے اور پھر دوبارہ تین دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں گیارہوں تاریخ سے تیرہویں تک خون آئے اور وہ دن کے لئے بند ہوجائے اور پھر دو بارہ تین دن خون آئے تو اس عورت کی عادت چھ دن کی ہوگی۔ اور اگر پہلے مہینے میں اس آٹھ دن خون آئے اور دوسرے مہینے میں چار دن خون آئے اور پھر بند ہو جائے اور پھر دوبارہ آئے اور خون کے دنوں اور درمیان میں خون بند ہوجانے والے دنوں کی مجموعی تعداد آٹھ دن ہو تو ظاہراً یہ عورت عدد کی عادت نہیں رکھتی بلکہ مُضطَرِبہ شمار ہوگی۔ جس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا۔

ص:105

499۔ جو عورت عدد کی عادت رکھتی ہو اگر اسے اپنی عادت کی تعداد سے کم یا زیادہ دن خون آئے اور ان دنوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو تو ان تمام دنوں کو حیض قرار دے۔ اور اگر اس کی عادت سے زیادہ خون آئے اور دس دن سے تجاوز کر جائے تو اگر تمام کا تمام خون ایک جیسا ہو تو خون آنے کی ابتدا سے لے کر اس کی عادت کے دنوں تک حیض اور باقی خون کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر آنے والا تمام خون ایک جیسا نہ ہو بلکہ کچھ دن حیض کی علامات کے ساتھ اور کچھ دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہو پس اگر حیض کی علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد اس کی عادت کے دنوں کے برابر ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کو حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے اور اگر ان دنوں کی تعداد جن میں خون حیض کی علامات کے ساتھ آیا ہو عادت کے دنوں سے زیادہ ہو تو صرف عادت کے دن حیض اور باقی دن استحاضہ ہے اور اگر حیض کے علامات کے ساتھ آنے والے خون کے دنوں کی تعداد عادت کے دنوں سے کم ہو تو ضروری ہے کہ ان دنوں کے ساتھ چند اور دنوں کو ملا کر عادت کی مدت پوری کرے اور ان کو حیض اور باقی دنوں کو استحاضہ قرار دے۔

4۔ مُضطَرِبَہ

500۔ مضطربہ یعنی وہ عورت جسے چند مہینے خون آئے لیکن وقت اور عدد دونوں کے لحاظ سے اس کی عادت معین نہ ہوئی ہو اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آئے اور سارا خون ایک جیسا ہو مثلاً تمام خون یا حیض کی نشانیوں کے ساتھ یا استحاضہ کی نشانیوں کے ساتھ آیا ہو تو اس کا حکم وقت کی عادت رکھنے والی عورت کا حکم ہے کہ جسے اپنی عادت کے علاوہ وقت میں خون آئے اور علامات کے ذریعے حیض کو استحاضہ سے تمیز نہ دے سکتی ہو تو احتیاط کی بنا پر اسے چاہئے کہ اپنی رشتہ دار عورتوں میں سے بعض عورتوں کی عادت کے مطابق حیض قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو تین اور دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ 495 اور 497 میں بیان کی گئی ہے اپنے حیض کی عادت قرار دے۔

501۔ اگر مضطریہ کو دس دن سے زیادہ خون آئے جس میں سے چند دنوں کے خون میں حیض کی علامات اور چند دوسرے دنوں کے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو اگر وہ خون جس میں حیض کی علامات ہوں تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ مدت تک نہ آیا ہو تو اس تمام خون کو حیض اور باقی کو استحاضہ قرار دے ۔ اور تین دن کم اور دس دن سے زیادہ ہو تو حیض کے دنوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جو حکم سابقہ مسئلے میں گزرچکا ہے اس کے مطابق عمل کرے اور اگر اس سابقہ خون کو حیض قرار دیئے کے بعد دس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ حیض کی علامات کی ساتھ خون آئے تو بعید نہیں کہ اس کے استحاضہ قرار دینا ضروری ہو۔

ص:106

5۔ مُبتَدِئَہ

502۔ مبتدئہ یعنی اس عورت کو جسے پہلی بار خون آیا ہو دس دن سے زیادہ خون آئے اور وہ تمام خون جو متبدئہ کو آیا ہے جیسا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے کنبے والیوں کی عادت کی مقدار کو حیض اور باقی کو ان دو شرطوں کے ساتھ استحاضہ قرار دے جو مسئلہ 495 میں بیان ہوئی ہیں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مسئلہ 497 میں دی گئی تفصیل کے مطابق تین اور دس دن میں سے کسی ایک عدد کو اپنے حیض کے دن قرار دے۔

503۔ اگر مبتدئہ کو دس سے زیادہ دن تک خون آئے جب کہ چند دن آنے والے خون میں حیض کی علامات اور چند دن آنے والے خون میں استحاضہ کی علامات ہوں تو جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو وہ سارا حیض ہے۔ لیکن جس خون میں حیض کی علامات تھیں اس کے بعد دس دن گزرنے سے پہلے دوبارہ خون آئے اور اس میں بھی حیض کی علامات ہوں مثلاً پانچ دن سیاہ خون اور نو دن زرد خون اور پھر دوبارہ پانچ دن سیاہ خون آئے تو اسے چاہئے کہ پہلے آنے والے خون کو حیض اور بعد میں آنے والے دونوں خون کو استحاضۃ قرار دے جیسا کہ مضطربہ کے متعلق بتایا گیا ہے۔

504۔ اگر مبتدئہ کو دس سے زیادہ دنوں تک خون آئے جو چند دن حیض کی علامات کے ساتھ اور چند دن استحاضہ کی علامات کے ساتھ ہو لیکن جس خون میں حیض کی علامات ہوں وہ تین دن سے کم مدت تک آیا ہو تو چاہئے کہ اسے حیض قرار دے اور دنوں کی مقدار سے متعلق مسئلہ 501 میں بتائے گئے طریقے پر عمل کرے۔

6۔ نَاسِیَہ

505۔ ناسیہ یعنی ناسیہ یعنی وہ عورت جو اپنی عادت کی مقدار بھول چکی ہو، اس کی چند قسمیں ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ عدد کی عادت رکھنے والی عورت اپنی عادت کی مقدار بھول چکی ہو اگر اس عورت کو کوئی خون آئے جس کی مدت تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ ان تمام دنوں کو حیض قرار دے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اس کے لئے مضطربہ کا حکم ہے جو مسئلہ 500 اور 501 میں بیان کیا گیا ہے صرف ایک فرق کے ساتھ اور وہ فرق یہ ہے کہ جن ایام کو وہ حیض قرار دے رہی ہے وہ اس تعداد سے کم نہ ہوں جس تعداد کے متعلق وہ جانتی ہے کہ اس کے حیض کے دنوں کی تعداد اس سے کم نہیں ہوتی (مثلاً یہ کہ وہ جانتی ہے کہ پانچ دن سے کم اسے خون نہیں آتا تو پانچ دن حیض

ص:107

قرار دے گی) اسی طرح ان ایام سے بھی زیادہ دنوں کو حیض قرار نہیں دے سکتی جن کے بارے میں اسے علم ہے کہ اس کی عادت کی مقدار ان دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی (مثلاً وہ جانتی ہے کہ پانچ دن سے زیادہ اسے خون نہیں آتا تو پانچ دن سے زیادہ حیض قرار نہیں دے سکتی) اور اس جیسا حکم ناقص عدد رکھنے والی عورت پر بھی لازم ہے یعنی وہ عورت جسے عادت کے دنوں کی مقدار تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم ہونے میں شک ہو۔ مثلاً جسے ہر مہینے میں چھ یا ساتھ دن خون آتا ہو وہ حیض کی علامات کے ذریعے یا اپنی بعض کنبے والیوں کی عادت کے مطابق یا کسی اور ایک عدد کو اختیار کرکے دس دن سے زیادہ خون آنے کی صورت میں دونوں عددوں (چھ یا سات) سے کم یا زیادہ دنوں کو حیض قرار نہیں دے سکتی۔

حیض کے متفرق مسائل

506۔ مُبتَدِئَہ، مُضطَرِبَہ، نَاسِیَہ اور عَدَد کی عادت رکھنے والی عورتوں کو اگر خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں یا یقین ہو کہ یہ خون تین دن تک آئے گا تو انہیں چاہئے کہ عبادات ترک کر دیں اور اگر بعد میں انہیں پتہ چلے کہ یہ حیض نہیں تھا تو انہیں چاہئے کہ جو عبادات بجا نہ لائی ہوں ان کی قضا کریں۔

507۔ جو عورت حیض کی عادت رکھتی ہو خواہ یہ عادت حیض کے وقت کے اعتبار سے ہو یا حیض کے عدد کے اعتبار سے یا وقت اور عدد دونوں کے اعتبار سے ہو۔ اگر اسے یکے بعد دیگرے دو مہینوں میں اپنی عادت کے برخلاف خون آئے جس کا وقت یا دنوں کی تعداد یا وقت اور ان دونوں کی تعداد یکساں ہو تو اس کی عادت جس طرح ان دو مہینوں میں اسے خون آیا ہے اس میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر پہلے اسے مہینے کی پہلی تاریخ سے ساتویں تاریخ تک خون آتا تھا اور پھر بند ہو جاتا تھا مگر دو مہینوں میں اسے دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک خون آیا ہو اور پھر بند ہوا ہو تو اس کی عادت دسویں تاریخ سے سترھویں تاریخ تک ہو جائے گی۔

508۔ ایک مہینے سے مراد خون کے شروع ہونے سے تیس دن تک ہے۔ مہینے کی پہلی تاریخ سے مہینے کے آخر تک نہیں ہے۔

ص:108

509۔ اگر کسی عورت کو عموماً مہینے میں ایک مرتبہ خون آتا ہو لیکن کسی ایک مہینے میں دو مرتبہ آجائے اور اس خون میں حیض کی علامات ہوں تو اگر ان درمیانی دنوں کی تعداد جن میں اس خون نہیں آیا دس دن سے کم نہ ہو تو اسے چاہئے کہ دونوں خون کو حیض قرار دے۔

510۔ اگر کسی عورت کو تین یا اس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں حیض کی علامات ہوں اور اس کے بعد دس یا اس سے زیادہ دنوں تک ایسا خون آئے جس میں استحاضہ کی علامات ہوں اور پھر اس کے بعد دوبارہ تین دن تک حیض کی علامتوں کے ساتھ خون آئے تو اسے چاہئے کہ پہلے اور آخری خون کو جس میں حیض کی علامات ہوں حیض قرار دے۔

511۔ اگر کسی عورت کا خون دس دن سے پہلے رک جائے اور اسے یقین ہو کہ اس کے باطن میں خون حیض نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ اپنی عبادات کے لئے غسل کرے اگرچہ گمان رکھتی ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون آجائے گا۔ لیکن اگر اس یقین ہو کہ دس دن پورے ہونے سے پہلے اسے دوبارہ خون آجائے گا تو جیسے بیان ہوچکا اسے چاہئے کہ احتیاطاً غسل کرے اور اپنی عبادات بجا لائے اور جو چیزیں حائض پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔

512۔ اگر کسی عورت کا خون دس دن گزرنے سے پہلے بند ہو جائے اور اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون حیض ہے تو اسے چاہئے کہ اپنی شرم گاہ میں روئی رکھ کر کچھ دیر انتظار کرے۔ لیکن اس مدت سے کچھ زیادہ انتظار کرے جو عالم طور پر عورتیں حیض سے پاک ہونے کی مدت کے درمیان کرتی ہیں اس کے بعد نکالے پس اگر خون ختم ہوگیا ہو تو غسل کرے اور عبادات بجا لائے اور اگر خون بند نہ ہو یا ابھی اس کی عادت کے دس دن تمام نہ ہوئے ہوں تو اسے چاہئے کہ انتظار کرے اور اگر دس دن سے پہلے خون ختم ہو جائے تو غسل کرے اور اگر دسویں دن کے خاتمے پر خون آنا بند ہو یا خون دس دن کے بعد بھی آتا رہے تو دسویں دن غسل کرے اور اگر اس کی عادت دس دنوں سے کم ہو اور وہ جانتی ہو کہ دس دن ختم ہونے سے پہلے یا دسویں دن کے خاتمے پر خون بند ہو جائے تو غسل کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر احتمال ہو کہ اسے دس دن تک خون آئے گا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک دن کے لئے عبادت ترک کرے اور دسویں دن تک بھی عبادت کو ترک کر سکتی ہے اور یہ حکم صرف اس عورت کے لئے مخصوص ہے جسے عادت سے پہلے لگاتار خون نہیں آتا تھا ورنہ عادت کے گزرنے کے بعد عبادت ترک کرنا جائز نہیں ہے۔

513۔ اگر کوئی عورت چند دنوں کو حیض قرار دے اور عبادت نہ کرے۔ لیکن بعد میں اسے پتہ چلے کہ حیض نہیں تھا تو اسے چاہئے کہ جو نمازیں اور روزے وہ دنوں میں بجانہیں لائی ان کی قضا کرے اور اگر چند دن اس خیال سے عبادات بجا

ص:109

لاتی رہی ہو کہ حیض نہیں ہے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ حیض تھا تو اگر ان دنوں میں اس نے روزے بھی رکھے ہوں تو ان کی قضا کرنا ضروری ہے۔

نفاس

514۔ بچے کا پہلا جزو ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے وقت سے جو خون عورت کو آئے اگر وہ دس دن سے پہلے یا دسویں دن کے خاتمے پر بند ہو جائے تو وہ خون نفاس ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کو نفساء کہتے ہیں۔

515۔ جو خون عورت کو بچے کا پہلا جزو باہر آنے سے پہلے آئے وہ نفاس نہیں ہے۔

516۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کی حلقت مکمل ہو بلکہ اس کی خلقت نامکمل ہو تب بھی اگر اسے "بچہ جننا" کہا جاسکتا ہے تو وہ خون جو عورت کو دس دن تک آئے خون نفاس ہے۔

517۔ یہ ہو سکتا ہے کہ خون نفاس ایک لحظہ سے زیادہ نہ آئے لیکن وہ دس دن سے زیادہ نہیں آتا۔

518۔ اگر کسی عورت کو شک ہو کہ اسقاط ہوا ہے یا نہیں یا جو اسقاط ہوا وہ بچہ تھا یا نہیں تو اس کے لئے تحقیق کرنا ضروری نہیں اور جو خون اسے آئے وہ شرعاً نفاس نہیں ہے۔

519۔ مسجد میں ٹھہرنا اور دوسرے افعال جو حائض پر حرام ہیں احتیاط کی بنا پر نفساء پر بھی حرام ہیں اور جو کچھ حائض پر واجب ہے وہ نفساء پر بھی واجب ہے۔

520۔ جو عورت نفاس کی حالت میں ہو اسے طلاق دینا اور اس سے جماع کرنا حرام ہے لیکن اگر اس کا شوہر اس سے جماع کرے تو اس پر بلا اشکال کفارہ نہیں ۔

521۔ جب عورت نفاس کے خون سے پاک ہو جائے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے اور اپنی عبادات بجالائے اور اگر بعد میں ایک یا ایک بار سے زیادہ خون آئے تو خون آنے والے دنوں کو پاک رہنے والے دنوں سے ملا کر اگر دس دن یا دس دن سے کم ہو تو سارے کا سارا خون نفاس ہے۔ اور ضروری ہے کہ درمیان میں پاک رہنے کے دنوں میں احتیاط کی بنا پر جو کام پاک عورت پر واجب ہیں انجام دے اور جو کام نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے اور اگر ان دنوں میں کوئی

ص:110

روزہ رکھا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔ اور اگر بعد میں آنے والا خون دس دن سے تجاوز کر جائے اور وہ عورت عدد کی عادت نہ رکھتی ہو تو خون کی وہ مقدار جو دس دن کے اندر آئی ہے اسے نفاس اور دس دن کے بعد آنے والے خون کو استحاضہ قرار دے۔ اور اگر وہ عورت عدد کی عادت رکھتی ہو تو ضروری ہے کہ احتیاطاً عادت کے بعد آنے والے خون کی تمام مدت میں جو کام مستحاضہ کے لئے ہیں انجام دے اور جو کام نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔

522۔ اگر عورت خون نفاس سے پاک ہو جائے اور احتمال ہو کہ اس کے باطن میں خون نفاس ہے تو اسے چاہئے کہ کچھ روئی اپنی شرم گاہ میں داخل کرے اور کچھ دیر انتظار کرے پھر اگر وہ پاک ہو تو عبادات کے لئے غسل کرے۔

523۔ اگر عورت کو نفاس کا خون دس دن سے زیادہ آئے اور وہ حیض میں عادت رکھتی ہو تو عادت کے برابر دنوں کی مدت نفاس اور باقی استحاضہ ہے اور اگر عادت نہ رکھتی ہو تو دس دن تک نفاس اور باقی استحاضہ ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو عورت عادت رکھتی ہو وہ عادت کے بعد کے دن سے اور جو عورت عادت نہ رکھتی ہو وہ دسویں دن کے بعد سے بچے کی پیدائش کے اٹھارہویں دن تک استحاضہ کے افعال بجا لائے اور وہ کام جو نفساء پر حرام ہیں انہیں ترک کرے۔

544۔ اگر کسی عورت کو جس کی حیض کی عادت دس دن سے کم ہو اپنی عادت سے زیادہ دن خون آئے تو اسے چاہئے کہ اپنی عادت کے دنوں کی تعداد کو نفاس قرار دے اور اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ دس دن تک نماز ترک کرے یا مستحاضہ کے احکام پر عمل کرے لیکن ایک دن کی نماز ترک کرنا بہتر ہے۔ اور اگر خون دس دن کے بعد بھی آتا رہے تو اسے چاہئے کہ عادت کے دنوں کے بعد دسویں دن تک بھی استحاضہ قرار دے اور جو عبادات وہ ان دنوں میں بجا نہیں لائی ان کی قضا کرے۔ مثلاً جس عورت کی عادت چھ دنوں کی ہو اگر اسے چھ دن سے زیادہ خون آئے تو اسے چاہئے کہ چھ دنوں کو نفاس قرار دے۔ اور ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں دن اسے اختیار ہے کہ یا تو عبادت ترک کرے یا استحاضہ کے افعال بجالائے اور اگر اسے دس دن سے زیادہ خون آیا ہو تو اس کی عادت کے بعد کے دن سے وہ استحاضہ ہوگا۔

525۔ جو عورت حیض میں عادت رکھتی ہو اگر اسے بچہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک لگاتار خون آتا رہے تو اس کی عادت کے دنوں کی تعداد کے برابر خون نفاس ہے اور جو خون، نفاس کے بعد دس دن تک آئے خواہ وہ اس کی ماہانہ عادت کے دنوں میں آیا ہو استحاضہ ہے۔ مثلاً ایسی عورت جس کے حیض کی عادت ہر مہینے کی بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک ہو اگر وہ مہینے کی دس تاریخ کو بچہ جنے اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت تک اسے متواتر

ص:111

خون آئے تو سترھویں تاریخ تک نفاس اور سترھویں تاریخ سے دس دن تک کا خون حتی کہ وہ خون بھی جو بیس تاریخ سے ستائیس تاریخ تک اس کی عادت کے دنوں میں آیا ہے استحاضہ ہوگا اور دس دن گزرے کے بعد جو خون اسے آئے اگر وہ عادت کے دنوں میں ہو تو حیض ہے خواہ اس میں حیض کی علامات ہوں یا نہ ہوں۔ اور اگر وہ خون اس کی عادت کے دنوں میں نہ آیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی عادت کے دنوں کا انتظار کرے اگرچہ اس کے انتظار کی مدت ایک مہینہ یا ایک مہینے سے زیادہ ہو جائے اور خواہ اس مدت میں جو خون آئے اس میں حیض کی علامات ہوں۔ اور اگر وہ وقت کی عادت والی عورت نہ ہو اور اس کے لئے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنے حیض کو علامات کے ذریعے معین کرے اور اگر ممکن نہ ہو جیسا کہ نفاس کے بعد دس دن جو خون آئے وہ سارا ایک جیسا ہو اور ایک مہینہ یا چند مہینے انہی کے ساتھ آتا رہے تو ضروری ہے کہ ہر مہینے میں اپنے کنبے کی بعض عورتوں کے حیض کی جو صورت ہو وہی اپنے لئے قرار دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جو عدد اپنے لئے مناسب سمجھتی ہے اختیار کرے اور ان تمام امور کی تفصیل حیض کی بحث میں گزر چکی ہے۔

526۔ جو عورت حیض میں عدد کے لحاظ سے عادت نہ رکھتی ہو اگر اسے بچہ جننے کے بعد ایک مہینے تک یا ایک مہینے سے زیادہ مدت تک خون آئے تو اس کے پہلے دس دنوں کے لئے وہی حکم ہے جس کا ذکر مسئلہ 523 میں آچکا ہے اور دوسری دہائی میں جو خون آئے وہ استحاضہ ہے اور جو خون اسے اس کے بعد آئے ممکن ہے وہ حیض ہو اور ممکن ہے استحاضہ ہو اور حیض قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس حکم کے مطابق عمل کرے جس کا ذکر سابقہ مسئلہ میں گزر چکا ہے۔

غسل مس میت

527۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے مردہ انسان کے بدن کو چھوئے جو ٹھنڈا ہو چکا ہو اور جسے غسل نہ دیا گیا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ اس سے لگائے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے خواہ اس نے نیند کی حالت میں مردے کا بدن چھوا ہو یا بیداری کے عالم میں اور خواہ ارادی طور پر چھوا ہو یا غیر ارادی طور پر حتی کہ اگر اس کا ناخن یا ہڈی مردے کے ناخن یا ہڈی سے چھو جائے تب بھی اسے چاہئے کہ غسل کرے لیکن اگر مردہ حیوان کو چھوئے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

528۔ جس مردے کا تمام بدن ٹھنڈا نہ ہوا ہو اسے چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا خواہ اس کے بدن کا جو حصہ چھوا ہو وہ ٹھنڈا ہو چکا ہو۔

ص:112

529۔ اگر کوئی شخص اپنے بال مردے کے بدن سے لگائے یا اپنا بدن مردے کے بالوں سے لگائے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔

530۔ مردہ بچے کو چھونے پر حتی کہ ایسے سقط شدہ بچے کو چھونے پر جس کے بدن میں روح داخل ہو چکی ہو غسل مس میت واجب ہے اس بنا پر اگر مردہ بچہ پیدا ہو اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو چکا ہو اور وہ ماں کے ظاہری حصے کو چھو جائے تو ماں کو چاہئے کہ غسل مس میت کرے بلکہ اگر ظاہری حصے کو مس نہ کرے تب بھی ماں کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنا پر غسل مس میت کرے۔

531۔ جو بچہ ماں کے مرجانے اور اس کا بدن ٹھنڈا ہو جانے کےبعد پیدا ہو اگر وہ ماں کے بدن کے ظاہرے حصے کو مس کرے تو اس پر واجب ہے کہ جب بالغ ہو تو غسل مس میت کرے بلکہ اگر ماں کے بدن کے ظاہری حصے کو مس نہ کرے تب بھی احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ بچہ بالغ ہونے کے بعد غسل مس میت کرے۔

532۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی میت کو مس کرے جسے تین غسل مکمل طور پر دیئے جاچکے ہوں تو اس پر گسل واجب نہیں ہوتا لیکن اگر وہ تیسرا عمل مکمل ہونے سے پہلے اسکے بدن کے کسی حصے کو مس کرے تو خواہ اس حصے کو تیسرا غسل دیا جا چکا ہو اس شخص کے لئے غسل مس میت کرنا ضروری ہے۔

533۔ اگر کوئی دیوانہ یا نابالغ بچہ میت کو مس کرے تو دیوانے کو عاقل ہونے اور بچے کو بالغ ہونے کے بعد غسل مس میت کرنا ضروری ہے۔

534۔ اگر کسی زندہ شخص کے بدن سے یا کسی ایسے مردے کے بدن سے جسے غسل نہ دیا گیا ہو ایک حصہ جدا ہو جائے اور اس سے پہلے کہ جدا ہونے والے حصے کو غسل دیا جائے کوئی شخص اسے مس کر لے تو قول اقوی کی بنا پر اگرچہ اس حصے میں ہڈی ہو غسل مس میت کرنا ضروری نہیں۔

535۔ ایک ایسی ہڈی کے مس کرنے سے جسے غسل نہ دیا گیا ہو خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئی ہو یا زندہ شخص کے بدن سے غسل واجب نہیں ہے اور دانت خواہ وہ مردے کے بدن سے جدا ہوئے ہوں یا زندہ شخص کے بدن سے ان کے لئے بھی یہی حکم ہے۔

ص:113

536۔ غسل مس میت کا طریقہ وہی ہے جو غسل جنابت کا ہے لیکن جس شخص نے میت کو مس کیا ہو اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔

537۔ اگر کوئی شخص کئی میتوں کو مس کرے یا ایک میت کو کئی بار مس کرے تو ایک غسل کافی ہے۔

537۔ جس شخص نے میت کو مس کرنے کےبعد غسل نہ کیا ہو اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا اور بیوی سے جماع کرنا اور ان آیات کا پڑھنا جن میں سجدہ واجب ہے ممنوع نہیں ہے لیکن نماز اور اس جیسی عبادات کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

محتضر ، میت کے احکام

اشاره

539۔ جو مسلمان محتضر ہو یعنی جاں کنی کی حالت میں ہو خواہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، اسے احتیاط کی بنا پر بصورت امکان پشت کے بل یوں لٹانا چاہئے کہ اس کے پاوں کے تلوے قبلہ رخ ہوں۔

540۔ اولی یہ ہے کہ جب تک میت کا غسل مکمل نہ ہو اسے بھی روبقبلہ لٹائیں لیکن جب اس کا غسل مکمل ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے اس حالت میں لٹائیں جس طرح اس نماز جنازہ پڑھتے وقت لٹاتے ہیں۔

541۔ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اسے احتیاط کی بنا پر رو بقبلہ لٹانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ لہذا وہ شخص جو جاں کنی کی حالت میں ہے راضی ہو اور قاصر بھی نہ ہو (یعنی بالغ اور عاقل ہو) تو اس کام کے لئے اس کے ولی کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں اس کے ولی سے اجازت لینا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے۔

542۔ مستحب ہے کہ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اس کے سامنے شَہَادتَین، بارہ اماموں کے نام اور دوسرے دینی عقائد اس طرح دہرائے جائیں کہ وہ سمجھ لے۔ اور اسکی موت کے وقت تک ان چیزوں کی تکرار کرنا بھی مستحب ہے۔

543۔ مستحب ہے کہ جو شخص جاں کنی کی حالت میں ہو اسے مندرجہ ذیل دعا اس طرح سنائی جائے کہ سمجھ لے:

"اَللّٰھُمَّ اغفِرلِیَ مِن مَّعاصِیکَ وَاقبَل مِنّی الیَسِیرَ مِن طَاعَتِک یَامَن یَّقبَلُ الیَسِیرَ وَ یَعفُو عَنِ الکَثِیرِ اقبَل مِنّی الیَسِیرَ وَاعفُ عَنّی الکَثِیرَ اِنَّکَ اَنتَ العَفُوُّ الغَفُورُ ارحَمنِی فَاِنَّکَ رَحِیم"

ص:114

544۔ کسی کی جان سختی سے نکل رہی ہو تو اگر اسے تکلیف نہ ہو تو اسے اس جگہ لے جانا جہاں وہ نماز پڑھا کرتا تھا مُستحب ہے۔

545۔ جو شخص جاں کنی کے عالم میں ہو اس کی آسانی کے لئے (یعنی اس مقصد سے کہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے) اس کے سرہانے سورہ یَسین، سُورہ صَافّات، سورہ اَحزاب، آیتُ الکُرسی اور سُورہ اعراف کی 54 ویں آیت اور سورۃ بَقَرہ کی آخری تین آیات پڑھنا مُستحب ہے بلکہ قرآن مجید جتنا بھی پڑھا جاسکے پڑھا جائے۔

546۔ جو شخص جاں کنی کے عالم میں ہو اسے تنہا چھوڑنا اور کوئی بھاری چیز اس کے پیٹ پر رکھنا اور جُنُب اور حائض کا اس کے قریب ہونا اسی طرح کے پاس زیادہ باتیں کرنا، رونا اور صرف عورتوں کو چھوڑنا مکروہ ہے۔

مرنے کے بعد کے احکام

547۔ مستحب ہے کہ مرنے کے بعد میت کی آنکھیں اور ہونٹ بند کر دیئے جائیں اور اس کی ٹھوڑی کو باندھ دیا جائے نیز اس کے ہاتھ اور پاوں سیدھے کر دیئے جائیں اور اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا جائے۔ اور اگر موت رات کو واقع ہو تو جہاں موت واقع ہوئی ہو وہاں چراغ جلائیں (روشنی کر دیں) اور جنازے میں شرکت کے لئے مومنین کو اطلاع دیں اور میت کو دفن کرنے میں جلدی کریں لیکن اگر اس شخص کے مرنے کا یقین نہ ہو تو انتظار کریں تاکہ صورت حال واضح ہو جائے۔ علاوہ ازیں اگر میت حاملہ ہو اور بچہ اس کے پیٹ میں زندہ ہو تو ضروری ہے کہ دفن کرنے میں اتنا توقف کریں کہ اس کا پہلو چاک کرکے بچہ باہر نکال لیں اور پھر اس پہلو کوسی دیں۔

غسل،کفن،نماز اور دفن کا وجوب

548۔ کسی مسلمان کا غسل، حنوط، کفن، نماز میت اور دفن خواہ وہ اثنا عشری شیعہ نہ بھی ہو اس کے ولی پر واجب ہے۔ ضروری ہے کہ ولی خود ان کاموں کو انجام دے یا کسی دوسرے کو ان کاموں کے لئے معین کرے اور اگر کوئی شخص ان کاموں کو ولی کی اجازت سے انجام دے تو ولی پر سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے بلکہ اگر دفن اور اس کی مانند دوسرے امور کو کوئی شخص ولی کی اجازت کے بغیر انجام دے تب بھی ولی سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے اور ان امور کو دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں اور اگر میت کا کوئی ولی نہ ہو یا ولی ان کاموں کو انجام دینے سے منع کرے تب بھی باقی مکلف لوگوں پر واجب کفائی ہے کہ میت کے ان کاموں کو انجام دیں اور اگر بعض مکلف لوگوں نے انجام دیا تو دوسروں پر سے وجوب

ص:115

ساقط ہو جاتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام مکلف لوگ گناہ گار ہوں گے اور ولی کے منع کرنے کی صورت میں اس سے اجازت لینے کی شرط ختم ہو جاتی ہے۔

549۔ اگر کوئی شخص تجہیز و تکفین کے کاموں میں مشغول ہو جائے تو دوسروں کے لئے اس بارے میں کوئی اقدام کرنا واجب نہیں لیکن اگر وہ ان کاموں کو ادھورا چھوڑ دے تو ضروری ہے کہ دوسرے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

550۔ اگر کسی شخص کو اطمینان ہو کہ کوئی دوسرا میت (کو نہلانے،کفنانے اور دفنانے) کے کاموں میں مشغول ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ میت کے (متذکرہ) کاموں کے بارے میں اقدام کرے لیکن اگر اسے (متذکرہ کاموں کے نہ ہونے کا) محض شک یا گمان ہو تو ضروری ہے کہ اقدام کرے۔

551۔ اگر کسی شخص کو معلوم هو که میت کا غسل یا کفن یا نماز یا دفن غلط طریقے سے هوا هے تو ضروری هے که ان کاموں کو دوباره انجام دے لیکن اگر اسے باطل هونے کا گمان هو (یعنی یقین نه هو) یا شک هو که درست تھا یا نهیں تو پھر اس بارے میں کوئی اقدام کرنا ضروری نهیں۔

552۔ عورت کا ولی اس کا شوهر هے اور عورت کے علاوه وه اشخاص که جن کو میت سے میراچ ملتی هے اسی ترتیب سے جس کا ذکر میراث کے مختلف طبقوں میں آئے گا دوسروں پر مقدم هیں۔ میت کا باپ میت کے بیٹے پر اور میت کا دادا اس کے بھائی پر اور میت کا پدری و مادری بھائی اس کے صرف پدری بھائی یا مادری بھائی پر اس کا پدری بھائی اس کے مادری بھائی پر۔ اور اسکے چچا کے اس کے ماموں پر مقدم هونے میں اشکال هے چنانچه اس سلسلے میں احتیاط کے (تمام) تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاهئے۔

553۔ نابالغ بچه اور دیوانه میت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے ولی نهیں بن سکتے اور بالکل اسی طرح وه شخص بھی جو غیر حاضر هو وه خود یا کسی شخص کو مامور کرکے میت سے متعلق امور کو انجام نه دے سکتا هو تو وه بھی ولی نهیں بن سکتا۔

554۔ اگر کوئی شخص کهے که میں میت کا ولی هوں یا میت کے ولی نے مجھے اجازت دی هے که میت کے غسل، کفن اور دفن کو انجام دوں یا کهے که میں میت کے دفن سے متعلق کاموں میں میت کا وصی هوں اور اسکے کهنے سے اطمینان حاصل هوجائے یا میت اس کے تصرف میں هو یا دو عادل شخص گواهی دیں تو اس کا قول قبول کر لینا چاهئے۔

ص:116

555۔ اگر مرنے والا اپنے غسل، کفن،دفن اور نماز کے لئے اپنے ولی کے علاوه کسی اور کو مقرر کرے تو ان امور کی ولایت اسی شخص کے هاتھ میں هے اور یه ضروری نهیں که جس شخص کو میت نے وصیت کی هو که وه خود ان کاموں کو انجام دینے کا ذمه دار بنے اور اس وصیت کو قبول کرے لیکن اگر قبول کرلے تو ضروری هے که اس پر عمل کرے۔

غسل میت کی کیفیت

556۔ میت کو تین غسل دینے واجب هیں : پهلے ایسے پانی سے جس میں بیری کے پتے ملے هوئے هوں، دوسرا ایسے پانی سے جس میں کافور ملا هوا هو اور تیسرا خالص پانی سے۔

557۔ ضروری هے که بیری اور کافور نه اس قدر زیاده هوں که پانی مضاف هو جائے اور نه اس قدر کم هوں که یه نه کها جاسکے که بیری اور کافور اس پانی میں نهیں ملائے گئے هیں۔

558۔ اگر بیری اور کافور اتنی مقدار میں نه مل سکیں جتنی که ضروری هے تو احتیاط مستحب کی بنا پر جتنی مقدار میسر آئے پانی میں ڈال دی جائے۔

559۔ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مرجائے تو اسے کافور کے پانی سے غسل نهیں دینا چاهئے بلکه اس کے بجائے خالص پانی سے غسل دینا چاهئے لیکن اگر وه حج تَمتّع کا اِحرام هو اور وه طواف اور طواف کی نماز اور سعی کو مکمل کر چکا هو یا حج قران یا افراد کے احرام میں هو اور سر منڈا چکا هو تو ان دو صورتوں میں اس کو کافور کے پانی سے غسل دینا ضروری هے۔

560۔ اگر بیری اور کافور یا ان میں سے کوئی ایک نه مل سکے یا اس کا استمعال جائز نه هو مثلاً یه که عصبی هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که ان میں سے هر اس چیز کے بجائے جس کا ملنا ممکن نه هو میت کو خالص پانی سے غسل دیا جائے اور ایک تیمم بھی کرایا جائے۔

561۔ جو شخص میت کو غسل دے ضروری هے که وه عقل مند اور مسلمان هو اور قول مشهور کی بنا پر ضروری هے که وه اثنا عشری هو اور غسل کے مسائل سے بھی واقف هو اور ظاهر یه هے که جو بچه اچھے اور برے کی تمیز رکھتا هو اگر وه غسل کو صحیح طریقے سے انجام دے سکتا هو تو اس کا غسل دینا بھی کافی هے چنانچه اگر غیر اثنا عشری مسلمان کی میت کو اس کا هم

ص:117

مذهب اپنے مذهب کے مطابق غسل دے تو مومن اثنا عشری سے ذمه داری ساقط هو جاتی هے۔ لیکن وه اثنا عشری شخص میت کا ولی هو تو اس صورت میں ذمه داری اس سے ساقط نهیں هوتی۔

562۔ جو شخص غسل دے ضروری هے که وه قربت کی نیت رکھتا هو یعنی الله تعالی کی خوشنودی کے لئے غسل دے۔

563۔ مسلمان کے بچے کو خواه وه وَلَدُالّزَنا هی کیوں نه هو غسل دینا واجب هے اور کافر اور اس کی اولاد کا غسل، کفن اور دفن شریعت میں نهیں هے اور جو شخص بچپن سے دیوانه هو اور دیوانگی کی حالت میں هی بالغ هو جائے اگر وه اسلام کے حکم میں هو تو ضروری هے که اسے غسل دیں۔

564۔ اگر ایک بچه چار مهینے یا اس سے زیاده کا هو کرساقط هو جائے تو اسے غسل دینا ضروری هے بلکه اگر چار مهینے سے بھی کم کا هو لیکن اس کا پورا بدن بن چکا هو تو احتیاط کی بنا پر اس کو غسل دینا ضروری هے۔ ان دو صورتوں کی علاوه احتیاط کی بنا پر اسے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر غسل دیئے دفن کر دینا چاهئے۔

565۔ مرد عورت کو غسل نهیں دے سکتا اسی طرح عورت مرد کو غسل نهیں دے سکتی۔ لیکن بیوی اپنے شوهر کو غسل دے سکتی هے اور شوهر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که بیوی اپنے شوهر کو اور شوهر اپنی بیوی کو حالت اختیار میں غسل نه دے۔

566۔ مرد اتنی چھوٹی لڑکی کو غسل دے سکتا هے جو ممیز نه هو اور عورت بھی اتنے چھوٹے لڑکے کو غسل دے سکتی هے جو ممیز نه هو۔

567۔ اگر مرد کی میت کو غسل دینے کے لئے مرد نه مل سکے تو وه عورتیں جو اس کی قرابت دار اور محرم هوں مثلاً ماں، بهن،پھوپھی اور خاله یا وه عورتیں جو رضاعت یا نکاح کے سبب سے اس کی محرم هو گئی هوں اسے غسل دے سکتی هیں اور اسی طرح اگر عورت کی میت کو غسل دینے کے لئے کوئی اور عورت نه هو تو جو مرد اس کے قرابت دار اور محرم هوں یا رضاعت یا نکاح کے سبب سے اس کے محرم هو گئے هوں اسے غسل دے سکتے هیں۔ دونوں صورتوں میں لباس کے نیچے سے غسل دینا ضروری نهیں هے اگرچه اس طرح غسل دینا احوط هے سوائے شرمگاهوں کے (جنهیں لباس کے نیچے هی سے غسل دینا چاهئے)۔

ص:118

568۔ اگر میت اور غَسَّال دونوں مرد هوں یا دونوں عورت هوں تو جائز هے که شرمگاه کے علاوه میت کا بقی بدن برهنه هو لیکن بهتر یه هے که لباس کے نیچے سے غسل دیا جائے۔

569۔ میت کی شرم گاه پر نظر ڈالنا حرام هے اور جو شخص اسے غسل دے رها هو اگر وه اس پر نظر ڈالے تو گناه گار هے لیکن اس سے غسل باطل نهیں هوتا۔

570۔ اگر میت کے بدن کے کسی حصے پر عین نجاست هو تو ضروری هے که اس حصے کو غسل دینے سے پهلے عین نجس دور کرے اورع اَولٰی یه هے که غسل شروع کرنے سے پهلے میت کا تمام بدن پاک هو۔

571۔ غسل میت غسل جنابت کی طرح هے اور احتیاط واجب یه هے که جب تک میت کو غسل ترتیبی دینا ممکن هو غسل اِرتماسی نه دیا جائے اور غسل ترتیبی میں بھی ضروری هے که داهنی طرف کی بائیں طرف سے پهلے دھویا جائے اور اگر ممکن هو تو احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کے تینوں حصوں میں سے کسی حصے کو پانی میں نه ڈبویا جائے بلکه پانی اس کے اوپر ڈالا جائے۔

572۔ جو شخص حیض یا جنابت کی حالت میں مر جائے اسے غسل حیض یا غسل جنابت دینا ضروری نهیں هے بلکه صرف غسل میت اس کے لئے کافی هے۔

573۔ میت کو غسل دینے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا پر حرام هے اور اگر کوئی شخص اجرت لینے کے لئے میت کو اس طرح غسل دے که یه غسل دینا قصد قربت کے منافی هو تو غسل باطل هے لیکن غسل کے ابتدائی کاموں کی اجرت لینا حرام نهیں هے۔

574۔ میت کے غسل میں غسل جبِیره جائز نهیں هے اور اگر پانی میسر نه هو یا اس کے استعمال میں کوئی امر مانع هو تو ضروری هے که غسل کے بدلے میت کو ایک تیمم کرائے اور احتیاط مستحب یه هے که تین تیمم کرائے جائیں اور ان تین تیمم میں سے ایک مَافیِ الذِّمَّه کی نیت کرے یعنی جو شخص تیمم کرا رها هو یه نیت کرے که یه تیمم اس شرعی ذمه داری کو انجام دینے کے لئے کرا رها هوں جو مجھ پر واجب هے۔

ص:119

575۔ جو شخص میت کو تیمم کرا رها هو اسے چاهئے که اپنے هاتھ زمین پر مارے اور میت کے چهرے اور هاتھوں کی پشت پر پھیرے اور احتیاط واجب یه هے که اگر ممکن هو تو میت کو اس کے اپنے هاتھوں سے بھی تیمم کرائے۔

کفن کے احکام

576۔ مسلمان میت کو تین کپڑوں کو کفن دینا ضروری هے جنهیں لنگ، کُرته اور چادر کها جاتا هے۔

577۔ احتیاط کی بنا پر ضروری هے که لنگ ایسی هو جو ناف سے گھٹنوں تک بدن کی اطراف کو ڈھانپ لے اور بهتر یه هے که سینے سے پاوں تک پهنچے اور (کُرته یا) پیراهن احتیاط کی بنا پر ایسا هو که کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اور بهتر یه هے که پاوں تک پهنچے اور چادر کی لمبائی اتنی هونی چاهئے که پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط یه هے که چادر کی لمبائی اتنی هونی چاهئے که میت کے پاوں اور سر کی طرف سے گره دے سکیں اور اس کی چوڑائی اتنی هونی چاهئے که اس کا ایک کناره دوسرے کناره پر آسکے۔

578۔ لنگ کی اتنی مقدار جو ناف سے گھٹنوں تک کے حصے کو ڈھانپ لے اور (کُرتے یا) پیراهن کی اتنی مقدار هو جو کندھے سے نصف پنڈلی ڈھانپ لے کفن کے لئے واجب هے اور اس مقدار سے زیاده جو کچھ سابقه مسئلے میں بتایا گیا هے وه کفن کی مستحب مقدار هے۔

579۔ واجب مقدار کی حد تک کفن جس کا ذکر سابقه مسئله میں هو چکا هے میت کے اصل مال سے لیا جاتا هے اور ظاهر یه هے که مستحب مقدار کی حد تک کفن میت کی شان اور عرف عام کو پیش نظر رکھتے هوئے میت کے اصل مال سے لیا جائے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که واجب مقدار سے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نه لیا جائے جو ابھی بالغ نه هوئے هوں۔

580۔ اگر کسی شخص نے وصیت کی هو که مستحب کفن کی مقدار جس کا ذکر دو سابقه مسائل میں آچکا هے اس کے تهائی مال سے لی جائے یا یه وصیت کی هو که اس کا تهائی مال خود اس پر خرچ کیا جائے لیکن اس کے مَصرَف کا تعین نه کیا هو یا صرف اس کے کچھ حصے کے مَصرَف کا تعین کیا هو تو مستحب کفن اس کے تهائی مال سے لیا جاسکتا هے۔

ص:120

581۔ اگر مرنے والے نے یه وصیت نه کی هو که کفن اس کے تهائی مال سے لیا جائے اور متعلقه اشخاص چاهیں که اس کے اصل مال سے لیں تو جو بیان مسئله 579 میں گزر چکا هے اس سے زیاده نه لیں مثلاً وه مستحب کام جو که معمولا انجام نه دیئے جاتے هوں اور جو میت کی شان کے مطابق بھی نه هوں تو ان کی ادائیگی کے لئے هرگز اصل مال سے نه لیں اور بالکل اسی طرح اگر کفن معمول سے زیاده قیمتی هو تو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نهیں لینا چاهئے لیکن جو ورثاء بالغ هیں اگر وه اپنے حصے میں سے لینے کی اجازت دیں تو جس حد تک وه لوگ اجازت دیں ان کے حصے سے لیا جاسکتا هے۔

582۔ عورت کے کفن کی ذمه داری شوهر پر هے خواه عورت اپنا مال بھی رکھتی هو۔ اسی طرح اگر عورت کو اس تفصیل کے مطابق جو طلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رَجعی دی گئی هو اور وه عدت ختم هونے سے پهلے مر جائے تو شوهر کے لئے ضروری هے که اسے کفن دے۔ اور اگر شوهر بالغ نه هو یا دیوانه هو تو شوهر کے ولی کو چاهئے که اس کے مال سے عورت کو کفن دے۔

583۔ میت کو کفن دینا اس کے قرابت داروں پر واجب نهیں گو اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پر واجب رهی هو۔

584۔ احتیاط یه هے که کفن کے تینوں کپڑوں میں سے هر کپڑا اتنا باریک نه هو که میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر آئے لیکن اگر اس طرح هو که تینوں کپڑوں کو ملا کر میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر نه آئے تو بنابر اقوی کافی هے۔

585۔ غصب کی هوئی چیز کا کفن دینا خواه کوئی دوسری چیز میسر نه هو تب بھی جائز نهیں هے پس اگر میت کا کفن غَصبی هو اور اس کا مالک راضی نه هو تو وه کفن اس کے بدن سے اتار لینا چاهئے خواه اس کو دفن بھی کیا جاچکا هو لیکن بعض صورتوں میں (اس کے بدن سے کفن اتارنا جائز نهیں) جس کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پر نهیں هے۔

586۔ میت کو نجس چیز یا خالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا (جائز نهیں) اور احتیاط کی بنا پر سونے کے پانی سے کام کئے هوئے کپڑے کا کفن دینا (بھی) جائز نهیں لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نهیں هے۔

587۔ میت کو نجش مُردار کی کھال کا کفن دینا اختیاری حالت میں جائز نهیں هے بلکه پاک مُردار کی کھال کو کفن دینا بھی جائز نهیں هے اور احتیاط کی بنا پر کسی ایسے کپڑے کا کفن دینا جو ریشمی هو یا اس جانور کی اون سے تیار کیا گیا هو جس کا گوشت

ص:121

کھانا حرام هو اختیاری حالت میں جائز نهیں هے لیکن اگر کفن حلال گوشت جانور کی کھال یا بال اور اون کا هو تو کوئی حرج نهیں اگرچه احتیاط مستحب یه هے که ان دونوں چیزوں کا بھی کفن نه دیا جائے۔

588۔ اگر میت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس هو جائے تو (نجاست لگنے سے) کفن ضائع نهیں هوتا (ایسی صورت میں) جتنا حصه نجس هوا هو اسے دھونا یا کاٹنا ضروری هے خواه میت کو قبر میں هی کیوں نه اتارا جاچکا هو۔ اور اگر اس کا دھونا یا کاٹنا ممکن نه هو لیکن بدل دینا ممکن هو تو ضروری هے که بدل دیں۔

589۔ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھ رکھا هو تو اسے دوسروں کی طرح کفن پهنانا ضروری هے اور اس کا سر اور چهره ڈھانک دینے میں کوئی حرج نهیں۔

590۔ انسان کے لئے اپنی زندگی میں کفن، بیری اور کافور کا تیار رکھنا مستحب هے۔

حَنُوط کے احکام

591۔ غسل دینے کے بعد واجب هے که میت کو حنوط کیا جائے یعنی اس کی پیشانی، دونوں هتھیلیوں، دونوں پاوں کے انگوٹھوں پر کافور اس طرح ملا جائے که کچھ کافور اس پر باقی رهے خواه کچھ کافور بغیر ملے باقی بچے اور مستحب یه هے که میت کی ناک پر بھی کافور ملا جائے۔ کافور پسا هوا اور تازه هونا چاهئے اور اگر پرانا هونے کی وجه سے اس کی خوشبو زائل هو گئی هو تو کافی نهیں۔

592۔ احتیاط مستحب یه هے که کافور پهلے میت کی پیشانی پر ملا جائے لیکن دوسرے مقامات پر ملنے میں ترتیب ضروری نهیں هے۔

593۔ بهتر یه هے که میت کو کفن پهنانے سے پهلے حنوط کیا جائے۔ اگرچه کفن پهنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حنوط کریں تو کوئی حرج نهیں هے۔

594۔ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھ رکھا هو تو اسے حنوط کرنا جائز نهیں هے مگر ان دو صورتوں میں (جائز هے) جن کا ذکر مسئله 559 میں گزر چکا هے۔

ص:122

595۔ ایسی عورت جس کا شوهر مر گیا هو اور ابھی اس کی عدت باقی هو اگرچه خوشبو لگانا اس کے لئے حرام هے لیکن اگر وه مر جائے تو اسے حنوط کرنا واجب هے۔

596۔ احتیاط مستحب یه هے که میت کو مشک،عنبر، عُود اور دوسری خوشبوئیں نه لگائی جائیں اور انهیں کافور کے ساتھ بھی نه ملایا جائے۔

597۔ مستحب هے که سَید الشهداء امام حسین علیه السلام کی قبر مبارک کی مٹی (خاک شفا) کی کچھ مقدار کافور میں ملا لی جائے لیکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نهیں لگانا چاهئے جهاں لگانے سے خاک شفا کی بے حرمتی هو اور یه بھی ضروری هے که خاک شفا اتنی زیاده نه هو که جب وه کافور کے ساتھ مل جائے تو اسے کافور نه کها جاسکے۔

598۔ اگر کافور نه مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی هو تو حنوط کرنا ضروری نهیں اور اگر غسل کی ضروری سے زیاده هو لیکن تمام سات اعضا کے لئے کافی نه هو تو احتیاط مستحب کی بنا پر چاهئے که پهلے پیشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پر ملا جائے۔

599۔ مستحب هے که (درخت کی) دو تر و تازه ٹهنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں۔

نماز میت کے احکام

600۔ هر مسلمان کی میت پر اور ایسے بچے کی میت پر جو اسلام کے حکم میں هو اور پورے چھ سال کا هو چکا هو نماز پڑھنا واجب هے۔

601۔ ایک ایسے بچے کی میت پر جو چھ سال کا نه هوا هو لیکن نماز کو جانتا هو احتیاط لازم کی بنا پر لازم کی بنا پر نماز پڑھنا چاهئے اور اگر نماز کو نه جانتا هو تو رجاء کی نیت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں اور وه بچه جر مرده پیدا هوا هو اس کی میت پر نماز پڑھنا مستحب نهیں هے۔

602۔ میت کی نماز اسے غسل دینے، حنوط کرنے اور کفن پهنانے کے بعد پڑھنی چاهئے اور اگر ان امور سے پهلے یا ان کے دوران پڑھی جائے تو ایسا کرنا خواه بھول چوک یا مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر هی کیوں نه هو کافی نهیں هے۔

ص:123

603۔ جو شخص میت کی نماز پرھنا چاهے اس کے لئے ضروری نهیں که اس نے وضو، غسل یا تیمم کر رکھا هو اور اس کا بدن اور لباس پاک هوں اور اگر اس کا لباس غصبی هو تب بھی کوئی حرج نهیں۔ اگرچه بهتر یه هے که ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھے جو دوسری نمازوں میں لازمی هیں۔

604۔ جو شخص نماز میت پڑھ رها هو اسے چاهئے که رو بقبله هو اور یه بھی واجب هے که میت کو نماز پڑھنے والے کے سامنے پشت کے بل یوں لٹا جائے که میت کا سر نماز پڑھنے والے کے دائیں طرف هو اور پاوں بائیں طرف هوں۔

605۔ احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری هے که جس جگه ایک شخص میت کی نماز پڑھے وی غصبی نه هو اور یه بھی ضروری هے که نماز پڑھنے کی جگه میت کے مقام سے اونچی یا نیچی نه هو لیکن معمولی پستی یا بلندی میں کوئی حرج نهیں۔

606۔ نماز پڑھنے والے کو چاهئے که میت سے دور نه هو لیکن جو شخص نماز میت با جماعت پڑھ رها هو اگر وه میت سے دور هو جب که صفیں باهم متصل هوں تو کوئی حرج نهیں۔

607۔ نماز پڑھنے والے کو چاهئے که میت کے سامنے کھڑا هو لیکن اگر نماز، باجماعت پڑھی جائے اور جماعت کی صفت میت کے دونوں طرف سے گزر جائے تو ان لوگوں کی نماز میں جو میت کے سامنے نه هوں کوئی اشکال نهیں هے۔

608۔ احتیاط کی بنا پر میت اور نماز پرھنے والے کے درمیان پرده یا دیوار یا کوئی اور ایسی چیز حائل نهیں هونی چاهئے لیکن اگر میت تابوت میں یا ایسی هی کسی اور چیز میں رکھی هو تو کوئی حرج نهیں۔

609۔ نماز پڑھتے وقت ضروری هے که میت کی شرمگاه ڈھکی هوئی هو اور اگر اسے کفن پهنانا ممکن نه هو تو ضروری هے که اس شرمگاه کو خواه لکڑی یا اینٹ یا ایسی هی کسی اور چیز سے هی ڈھانک دیں۔

610۔ نماز میت کھڑے هو کر اور قربت کی نیت سے پڑھنی چاهئے اور نیت کرنے وقت میت کو معین کر لینا چاهئے مثلاً نیت کرنی چاهئے که میں اس میت پر قُربهً اِلَی الله نماز پڑھ رها هوں۔

611۔ اگر کوئی شخص کھڑے هو کر نماز میت نه پڑھ سکتا هو تو بیٹھ کر پڑھ لے۔

ص:124

612۔ اگر مرنے والے نے وصیت کی هو که کوئی مخصوص شخص اس کی نماز پڑھائے تو احتیاط مستحب یه هے که وه شخص میت کے ولی سے اجازت حاصل کرے۔

613۔ میت پر کئی دفعه نماز پرھنا مکروه هے۔ لیکن اگر میت کسی صاحب علم و تقوی کی هو تو مکروه نهیں هے۔

614۔ اگر میت کو جان بوجھ کر یا بھول چوک کی وجه سے یا کسی عذر کی بنا پر بغیر نماز پڑھے دفن کر دیا جائے یا دفن کر دینے کے بعد پته چلے که جو نماز اس پر پرھی جاچکی هے وه باطل هے تو میت پر نماز پڑھنے کے لئے اس کی قبر کو کھولنا جائز نهیں لیکن جب تک اس کا بدن پاش پاش نه هو جائے اور جن شرائط کا نماز میت کے سلسلے میں ذکر آچکا هے ان کے ساتھ رَجَاء کی نیت سے اس کی قبر پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں هے۔

نماز میت کا طریقه

615۔ میت کی نماز میں پانچ تکبیریں هیں اور اگر نماز پرھنے والا شخص مندرجه ذیل ترتیب کے ساتھ پانچ تکبیریں کهے تو کافی هے۔

نیت کرنے اور پهلی تکبیر پڑھنے کے بعد کهے۔ اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ و اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ اور دوسری تکبیر کے بعد کهے : اَللّٰھُمَّ صَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور تیسری تکبیر کے بعد کهے : اَللّٰھُمَّ اغفِر لِلمُئومِنِینَ وَالمئومِنَاتِ۔

اور چھوٹی تکبیر کے بعد اگر میت مرد هو تو کهے : اَللّٰھُمَّ اغفِر لِھٰذَا المَیِّتِ۔

اور اگر میت عورت هو تو کهے: اَللّٰھُمَّ اغفِر لِھٰذَهِ المَیِّتِ اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔

اور بهتر یه هے که پهلی تکبیر کے بعد کهے : اَشھَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحدَه لَاشَرِیکَ لَه وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُه وَرَسُولُه اَرسَلَه بِالحَقِّ بَشِیرًا وَ نَذِیرًا بَینَ یَدَیِ السَّاعَۃِ۔

اور دوسری تکبیر کے بعد کهے: اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِک عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّارحَم مُحَمَّدٍا وَّ اٰل مُحَمَّدٍ کَاَفضَلِ مَاصَلَّیتَ وَبَارَکتَ وَ تَرَحَّمتَ عَلٰٓی اِبرَاحِیمَ وَاٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِید مَّجِید وَصَلِّ عَلٰ جَمِیعِ الاَنبِیَآءِ وَالمُرسَلِینَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصِّدِّیقِینَ وَجَمِیعِ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ۔

ص:125

اور تیسری تکبیر کے بعد کهے : اَللّٰھُمَّ اغفِر لِلمُئومِنِینَ وَالمُئومِنَاتِ وَالمُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ الاَحیَآءِ مِنھُم وَالاَموَاتِ تَابِع بَینَنَا وَبَینَھُم بِالخَیرَاتِ اِنَّک مجِیبُ الدَّعَوَابِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر۔

اور اگر میت مرد هو تو چوتھی تکبیر کے بعد کهے : اَللَّھُمَّ اِنَّ ھٰذَا عَبدُکَ وَابنُ عَبدِکَ وَابِنُ اَمَتِکَ نَزَلَ بِکَ وَاَنَ خَیر مَنزُولٍ بِهِ اَللَّھُمَّ اِنَّا لَانَعلَمُ اِلَّا خَیرًا وَّاَنتَ اَعلمُ بِه مِنَّا اَللَّھُمَّ اِن کَانَ مُحسِناً فَزِدفِٓی اِحسَانِه وَاِن کَانَ مُسِسئاً فَتَجَاوَزعَنهُ وَاغفِرلُه اَللَّھُمَّ اجعَلهُ عِندَ کَ فِی اَعلٰی عِلِّیینَ وَاخلُف عَلٰٓی اَھلِه فِی الغَابِرِینَ وَارحَمهُ بِرَحمهُ بِرحمَتِکَ یَآاَرحَمَ الرَّاحِمِین اور اس کے بعد پانچویں تکبیر پڑھے۔ لیکن اگر میت عورت هو تو چوتھی تکبیر کے بعد کهے : اَللَّھُمَّ اِنَّ ھٰذِهِ اَمَتُکَ وَابنَۃُ عَبدِکَ وَابنَۃُ اَمَتِکَ نَزَلَت بِکَ وَاَنتَ خَیرُ مَنزُولٍ بِه اَللَّھُمَّ اِنَّا لاَ نَعلَمُ مِنھَا اِلَّا خَیرًا وَّاَنتَ اَعلَمُ بِھَامِنَّا اَللَّھُمَّ اِن کَانَت مُحسِنَۃً فَزِد فِی اِحسَانِھَا وَاِن کَانَت مُسِیٓئَۃً فَتَجَاوَز عَنھَا وَاغفِرلَھَا اَللَّھُمَّ اجعَلھَا عِندکَ فِیٓ اَعلٰی عِلِّیِینَ وَاخلُف عَلٰٓی اَھلِھَا فِ الغَابِرِینَ وَارحَمھَا بِرحَمھَا بِرَحمَتِکَ یَآاَرحَمَ اِلرَّحِمِینَ۔

616۔ تکبیریں اوعر دعائیں (تسلسل کے ساتھ) یکے بعد دیگرے اس طرح پڑھنی چاهیئں که نماز اپنی شکل نه کھو دے۔

617۔ جو شخص میت کی نماز با جماعت پڑھ رها هو خواه وه مقتدی هی هو اسے چاهئے که اس کی تکبیریں اور دعائیں بھی پڑھے۔

نماز میت کے مُستحبات

618۔ چند چیزیں نماز میت میں مستحب هیں۔

1۔ جو شخص نماز میت پڑھے وه وضو، غسل یا تیمم کرے۔ اور احتیاط میں هے که تیمم اس وقت کرے جب وضو اور غسل کرنا ممکن نه هو یا اسے خدشه هو که اگر وضو یا غسل کریگا تو نماز میں شریک نه هو سکے گا۔

2۔ اگر میت مرد هو تو امام جو شخص اکیلا میت پر نماز پڑھ رها هو میت کے شکم کے سامنے کھڑا هو اور اگر میت عورت هو تو اسکے سینے کے سامنے کھڑا هو۔

3۔ نماز ننگے پاوں پڑھی جائے۔

ص:126

4۔ هر تکبیر میں هاتھوں کو بلند کیا جائے۔

5۔ نمازی اور میت کے درمیان اتنا کم فاصله هو که اگر هوا نمازی کے لباس کو حرکت دے تو وه جنازے کو جا چھوئے۔

6۔ نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھی جا4ے۔

7۔ امام تکبیریں اور دعائیں بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آهسته پڑھیں۔

8۔ نماز با جماعت میں مقتدی خواه ایک شخص هی کیوں نه هو امام کے پیچھے کھرا هو۔

9۔ نماز پڑھنے والا میت اور مومنین کے لئے کثرت سے دعا کرے۔

10۔ باجماعت نماز سے پهلے تین مرتبه "اَلصَّلوٰۃ" کهے۔

11۔ نماز ایسی جگه پڑھی جائے جهاں نماز میت کے لئے لوگ زیاده تر جاتے هوں۔

12۔ اگر حائض نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھے تو اکیلی کھڑی هو اور نمازیوں کی صف میں نه کھڑی هو۔

619۔ نماز میت مسجدوں میں پڑھنا مکروه هے لیکن مسجد الحرام میں پڑھنا مکروه نهیں هے۔

دفن کے احکام

620۔ میت کو اس طرح زمین میں دفن کرنا واجب هے که اس کی بو باهر نه آئے اور درندے بھی اس کا بدن باهر نه نکال سکیں اور اگر اس بات کا خوف هو که درندے اس کا بدن باهر نکال لیں گے تو قبر کو اینٹوں وغیره سے پخته کر دینا چاهئے۔

621۔ اگر میت کو زمیں میں دفن کرنا ممکن نه هو تو دفن کرنے کے بجائے اسے کمرے یا تابوت میں رکھا جاسکتا هے۔

622۔ میت کو قبر میں دائیں پهلو اس طرح لٹانا چاهئے که اس کے بدن کا سامنے کا حصه رو بقبله هو۔

623۔ اگر کوئی شخص کشتی میں مر جائے اور اس کی میت کے خراب هونے کا امکان نه هو اور اسے کشتی میں رکھنے میں بھی کوئی امر مانع نه هو تو لوگوں کو چاهئے که انتظار کریں تاکه خشکی تک پهنچ جائیں اور اسے زمین میں دفن کر دیں ورنه چاهئے

ص:127

که اسے کشتی میں هی غسل دے کر حنوط کریں اور کفن پهنائیں اور نماز میت پڑھنے کے بعد اس چٹائی میں رکھ کر اس کا منه بند کر دیں اور سمندر میں ڈال دیں کو کوئی بھاری چیز اس کے پاوں میں باندھ کر سمند میں ڈال دیں اور جهاں تک ممکن هو اسے ایسی جگه نهیں گرانا چاهئے جهاں جانور اسے فورا لقمه بنالیں۔

624۔ اگر اس بات کا خوف هو که دشمن قبر کو کھود کر میت کا جسم باهر نکال لے گا اور اس کے کان یا ناک یا دوسرے اعضاء کاٹ لے گا تو اگر ممکن هو تو سابقه مسئلے میں بیان کیے گئے طریقے کے مطابق اسے سمندر میں ڈال دینا چاهئے۔

625۔ اگر میت کو سمندر میں ڈالنا یا اس کی قبر کو پخته کرنا ضروری هو تو اس کے اخراجات میت کے اصل مال میں سے لے سکتے هیں۔

626۔ اگر کوئی کافر عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں مرا هوا بچه هو اور اس بچے کا باپ مسلمان هو تو اس عورت کو قبر میں بائیں پهلو قبلے کی طرف پیٹھ کر کے لٹانا چاهئے تاکه بچے کا منه قبلے کی طرف هو اور اگر پیٹ میں موجود بچے کے بدن میں ابھی جان نه پڑی هو تب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر یهی حکم هے۔

627۔ مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں دفن کرنا اور کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نهیں هے۔

268۔ مسلمان کو ایسی جگه جهاں اس کی بے حرمتی هوتی هو مثلاً جهاں کوڑا کرکٹ اور گندگی پھینکی جاتی هو، دفن کرنا جائز نهیں هے۔

629۔ میت کو غصبی زمین میں یا ایسی زمین میں جو دفن کے علاوه کسی دوسرے مقصد مثلاً مسجد کے لئے وقت هو دفن کرنا جائز نهیں هے۔

230۔ کسی میت کی قبر کھود کر کسی دوسرے مردے کو اس قبر میں دفن کرنا جائز نهیں هے لیکن اگر قبر پرانی هوگئی هو اور پهلی میت کا نشان باقی نه رها هو تو دفن کر سکتے هیں۔

631۔ جو چیز میت سے جدا هو جائے خواه وه اس کے بال، ناخن، یا دانت هی هون اسے اس کے ساتھ هی دفن کر دینا چاهئے اور اگر جدا هونے والی چیزیں اگرچه وه دانت، ناخن یا بال هی کیوں نه هوں میت کو دفنانے کے بعد ملیں تو احتیاط لازم کی بنا

ص:128

پر انهیں کسی دوسری جگه دفن کر دینا چاهئے۔ اور جو ناخن اور دانت انسان کی زندگی میں هی اس سے جدا هو جائیں انهیں دفن کرنا مستحب هے۔

632۔ اگر کوئی شخص کنویں میں مر جائے اور اسے باهر نکالنا ممکن نه هو تو چاهئے که کنویں کا منه بند کر دیں اور اس کنویں کو هی اس کے قبر قرار دیں۔

633۔ اگر کوئی بچه ماں کے پیٹ میں مر جائے اور اس کا پیٹ میں رهنا ماں کی زندگی کے لئے خطرناک هو تو چاهئے که اسے آسان ترین طریقے سے باهر نکالیں۔ چنانچه اگر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بھی مجبور هوں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نهیں لیکن چاهئے که اگر اس عورت کا شوهر اهل فن هو تو بچے کو اس کے ذریعے باهر نکالیں اور اگر یه ممکن نه هو تو کسی اهل فن عورت کے ذریعے سے نکالیں اور اگر یه ممکن نه هو تو ایسے محرم مرد کے ذریعے نکالیں جو اهل فن هو اور اگر یه بھی ممکن نه هو تو نا محرم مرد جو اهل فن هو بچے کو باهر نکالے اور اگر کوئی ایسی شخص بھی موجود نه هو تو پھر جو شخص اهل فن نه هو وه بھی بچے کو باهر نکال سکتا هے۔

634۔ اگر ماں مر جائے اور بچه اس کے پیٹ میں زنده هو اور اگرچه اس بچے کے زنده رهنے کی امید نه هو تب بھی ضروری هے که هر اس جگه کو چاک کریں جو بچے کی سلامتی کے لئے بهتر هے اور بچے کو باهر نکالیں اور پھر اس جگه کو ٹانکے لگا دیں۔

دفن کے مستحبات

635۔ مستحب هے که متعلقه اشخاص قبر کو ایک متوسط انسان کے قد کے لگ بھگ کھو دیں اور میت کو نزدیک ترین قبرستان میں دفن کریں ماسوا اس کے که جو قبرستان دور هو وه کسی وجه سے بهتر هو مثلاً وهاں نیک لوگ دفن کئے گئے هوں یا زیاده لوگ وهاں فاتحه پڑھنے جاتے هوں۔ یه بھی مستحب هے که جنازه قبر سے چند گز دور زمین پر رکھ دیں اور تین دفعه کرکے تھوڑا تھوڑا قبر کے نزدیک لے جائیں اور هر دفعه زمین پر رکھیں اور پھر اٹھالیں اور چوتھی دفعه قبر میں اتار دیں اور اگر میت مرد هو تو تیسری دفعه زمین پر اس طرح رکھیں که اس کا سر قبر کی نچلی طرف هو اور چوتھی دفعه سر کی طرف سے قبر میں داخل کریں اور اگر میت عورت هو تو تیسری دفعه اسے قبرکے قبلے کی طرف رکھیں اور پهلو کی طرف سے قبر میں اتار دیں اور قبر میں اتارتے وقت ایک کپڑا قبر کے اوپر تان لیں۔ یه بھی مستحب هے که جنازه بڑے آرام کے ساتھ تابوت سے نکالیں اور قبر میں داخل کریں اور وه دعائیں جنهیں پڑھنے کے لئے کها گیا هے دفن کرنے سے پهلے اور دفن

ص:129

کرتے وقت پڑھیں اور میت کو قبر میں رکھنے کے بعد اس کے کفن کی گرهیں کھول دیں اور اس کا رخسار زمین پر رکھ دیں اور اس کے سر کے نیچے مٹی کا تکیه بنا دیں اور اس کی پیٹھ کے پیچھے کچی اینٹیں یا ڈھیلے رکھ دیں تاکه میت چت نه هو جائے اور اس سے پیشتر که قبر بند کریں دایاں هاتھ میت کے دائیں کندھے پر ماریں اور بایاں هاتھ زور سے میت کے بائیں کندھے پر رکھیں اور منه اس کے کان کے قریب لے جائیں اور اسے زور سے حرکت دیں اور تین دفعه کهیں اَسمَع اِفھَم یَافُلَانَ ابنَ فُلاَنٍ ۔ اور فلان ابن فلان کی جگه میت کا اور اسکے باپ کا نام لیں۔ مثلاً اگر اس کا اپنا نام موسی اور اس کے باپ کو نام عمران هو تو تین دفعه کهیں : اِسمَع اِفھَم یَامُوسَی بنَ عِمرَانَ اس کے بعد کهیں : ھَل اَنتَ عَلَی العَھدِالَّذی فَارَقتَاَ عَلَیهِ مِن شَھَاَۃِ اَن لَّا اِلَّهَ اِلَّا اللهُ وَحدَه لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَاٰلِه عَبلُه وَرَسُولُه وَسَیِّدُالنَّبِیِینَ وَخَاتَمُ المُرسَلِینَ وَ اَنَّ عَلِیّاً اَمِیرُالمُئومِنِینَ وَسَیِّدُالوَصِیِّینَ وَاِمَلمُ نِ افتَرَضَ اللهُ طَاعَتَه عَلَی العٰلَمِینَ وَاَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَینَ وَ عَلِیَّ بِنَ الحُسَینِ وَ مُحَمَّد بنَ عَلِیٍّ وَّ جَعفَرَبنَ مُحَمَّدٍ وَّ مُوسیَ بنَ جُعفَرٍ وَّ عَلِیَّ بنَ مُوسٰی وَ مُحَمَّدَبنَ عَلِیَّ بنَ مُحَمّدٍ وَالحَسَنَ بنَ عَلِیَّ وَّالقَآئِمَ الحُجَّۃ۔ المَھدِیَّ صَلَوٰاتُ اللهِ عَلَیھِم اَئِمَّۃُ المُئومِنِینَ وَحُجَعُ اللهِ عَلَی الخَلقِ اَجمَعِینَ وَ اَئِتَمتَکَ اَئِمَّۃُ ھُدًی اَبرَارُ یَا فُلَانَ ابنَ فُلانٍ اور فلان ابن فلان کی بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کهے : اِذَّا اَتَاکَ المَلَکَانِ المُقَرَّبَانِ رَسُولَینِ مِن عِندِ اللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَسَالَاکَ عَن رَّبِکَ وَعَن نَّبِیِّکَ وَعَن دِینِکَ وَعَن کِتَابِکَ وَعَن قِبلَتِکَ وَعَن اَئِمَّتِکَ فَلاَ تَخَف وَلاَ تَحزَن وَقُل فیِ جَوَابِھِمَا اللهُ رَبِّی وَ مُحَمّد صَلَّی الله عَلَیهِ وَاٰلِه نَبِّیی وَالاِسلَامُ دِینیِ وَالقُراٰنُ کِتابِی وَالکَعبَۃُ قِبلَتِی وَاَمِیرُ المُئومِنِینَ عَلِیُّ بنُ اَبِی طَالِبٍ اِمَامِی وَالحَسَنُ بنُ عَلِیٍّ المُجتَبٰے اَمَامِی وَالحُسَینُ بنُ عَلِیٍّ الشَّھِیدُ بِکَربَلاَءَ اِمَامِی وَعَلَیٌّ زَینُ العَابِدِینَ اِمَامِی وَمُحَمَّدُ البَاقِرُ اِمِامِی وَجَعفَر الصَّادِقُ اِمَامِی وَمُوسیَ الکَاظِمُ اِمَامِی وَعَلِیُّ الرِّضَا اِمَامِی وَمُحَمَّدُ الجَوَادُ اِمَامِی وَعَلِیُّ الھَادِی اِمَامِیی وَالحَسَنُ العَسکَرِیُّ اِمَامِی وَالحُجَّۃُ المُتَظَرُ اِمَامِی ھٰٓولاَءِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیھِم اَجمَعِینَ اَئِمَّتِی وَسَاَدَتِی وَشُفَعَآئِی بِھِم اَتَوَلّٰی وَمِن اَعدَآئِھِم اَتَبَرَّاُ فِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَۃِ ثُمَّ اعلَم یَافُلانٍ اور فلان بن فلان کی بجائے میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور پھر کهے: اَنَّ الله تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نِعمَالرَّبُّ وَاَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَاٰلِه نِعمَ الرَّسُولُ وَاَنَّ عَلِیَّ بنَ اَبِی طَالِبٍ وَاَولاَدَهُ المَعصُومِینَ الاَئِمَّۃَ الاِثنَی عَشَرَنِعمَ الاَئِمَّۃُ وَاَنَّ مَاجَآءَ بِه مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَاٰلِه حَقٌّ وَّاَنَّ المَوتَ حَقٌّ وَّ سُئَوالَ مُنکَرٍ وَّ نَکِیرٍ فِی القَبرِ حَقٌّ وَّ البَعثُ حَقٌّ وَّ النُّشُورَ حِقٌّ وَّالصِّرَاطِ حَقٌّ وَّالمِیزَانَ حَقٌّ وَّ تَطَایُرَالکُتُبِ حَقٌّ وَّاَنَّ الجَنَّۃَ حَقٌّ وَّالنَّارَ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعُۃَ اٰتِیَۃٌ لاَّ رَیبَ فِیھَا وَاَنَّ اللهُ یَبعثُ مَن فِی القُبُورِ۔ پھر کهے۔ "اَفَھِمتَ یَا فُلاَنُ" اور فلان کی بجائے میت کا نام لے اور اس کے بعد کهے : ثَبَّتَکَ اللهُ بَالقَولِ الثَّابِتِ ھَدَا کَ اللهُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ عَرَّفَ اللهُ بَینَکَ وَبَینَ اَولِیَآئِکَ فِی مُستَقَرٍّ مِّن رَّحمُتِه۔ اس کے بعد کهے۔ "اَللَّھُمَّ جَافِ الاَرضَ عَن جَنبَیهِ وَاَصعِد بَرُوحِهٓ اِلَیکَ وَلَقِّه مِنکُ بُرھَاناً اَللَّھُمَّ عَفوَکَ عَفوَکَ"۔

ص:130

636۔ مستحب هے که جو شخص میت کو قبر میں اتارے وه با طهارت، برهنه سر اور برهنه پاهو اور میت کی پائنتی کی طرف سے قبر سے باهر نکلے اور میت کے عزیز اقربا کے علاوه جو لوگ موجود هوں وه هاتھ کی پشت سے قبر پر مٹی ڈالیں اور اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّااِلَیهِ رَاجِعُونَ پڑھیں۔ اگر میت عورت هو تو اس کا محرم اسے قبر میں اتارے اور اگر محرم نه هو تو اس کے عزیز و اقربا اسے قبر میں اتاریں۔

637۔ مستحب هے که قبر مربع یا مستطیل بنائی جائے اور زمین سے تقریباً چار انگل بلند هو اور اس پر کوئی (کتبه یا) نشانی لگا دی جائے تاکه پهنچاننے میں غلطی نه هو اور قبر پر پانی چھڑ کاجائے ارو پانی چھڑکنے کے بعد جو لوگ موجوده هوں وه اپنی انگلیاں قبر کی مٹی میں گاڑ کر سات دفعه سوره قدر پڑھیں اور میت کے لئے مغفرت طلب کریں اور یه دعا پڑھیں: اَللَّھُمَّ جَافِ الاَرضَ عَن جَنبَیهِ وَاَصعِد اِلَیکَ رَوحَهُ وَلَقِّه مِنک رِضوَاناًوَّاَسکِن قَبرَه مِن رَّحمَتِکَ مَا تُغنِیهِ بِه عَن رَّحمَۃِ مَن سِوَاکَ۔

638۔ مستحب هے که جو لوگ جنازے کی مشایعت کے لئے هوں ان کے چلے جانے کے بعد میت کا ولی یا وه شخص جسے ولی اجازت دے میت کو ان دعاوں کی تلقین کرے جو بتائی گئی هیں۔

639۔ دفن کے بعد مستحب هے که میت کے پس ماندگان کو پرسا دیا جائے لیکن اگر اتنی مدت گزر چکی هوکه پُرسا دینے سے ان کا دکھ تازه هو جائے تو پرسانه دینا بهتر هے یه بھی مستحب هے که میت کے اهل خانه کے لئے تین دن تک کھانا بھیجا جائے۔ ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کے گھر میں کھانا کھانا مکروه هے۔

640۔ مستحب هے که انسان عزیز اقربا کی موت پر خصوصا بیٹے کی موت پر صبر کرے اور جب بھی میت کی یاد آئے اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُونَ پڑھے اور میت کے لئے قرآن خوانی کرے اور ماں باپ کی قبروں پر جاکر الله تعالی سے اپنی حاجتیں طلب کرے اور قبر کو پخته کر دے تاکه جلدی ٹوٹ پھوٹ نه جائے۔

641۔ کسی کی موت پر بھی انسان کے لئے احتیاط کی بنا پر جائز نهیں که اپنا چهره اور بدن زخمی کرے اور اپنے بال نوچے لیکن سر اور چهرے کا پیٹنا بنا بر اقوی جائز هے۔

642۔ باپ اور بھائی کے علاوه کسی کی موت پر گریبان چاک کرنا احتیاط کی بنا پر جائز نهیں هے اور احتیاط مستحب یه هے که باپ اور بھائی کی موت پر بھی گریبان چاک نه کیا جائے۔

ص:131

643۔ اگر عورت میت کے سوگ میں اپنا چهره زخمی کرکے خون آلود کرلے یا بال نوچے تو احتیاط کی بنا پر وه ایک غلام کو آزاد کرے یا دس فقیروں کو کھانا کھلائے یا انهیں کپڑے پهنائے اور اگر مرد اپنی بیوی یا فرزند کی موت پر اپنا گریبان یا لباس پھاڑے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

644۔ احتیاط مستحب یه هے که میت پر روتے وقت آواز بهت بلند نه کی جائے۔

نماز وحشت

645۔ مناسب هے که میت کے دفن کے بعد پهلی رات کو اس کے لئے دو رکعت نماز وحشت پڑھی جائے اور اس کے پڑھنے کا طریقه یه هے که پهلی رکعت میں سوره الحمد کے بعد ایک دفعه آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سوره الحمد کے بعد دس دفعه سوره قدر پڑھا جائے اور سلام نماز کے بعد کها جائے:

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّاٰلِ مُحَمَّدٍوَّابعَث ثَوَابَھَا اِلٰی قَبرِ فُلاَنٍ۔ اور لفظ فلاں کی بجائے میت کا نام لیا جائے۔

636۔ نماز وحشت میت کے دفن کے بعد پهلی رات کو کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی هے لیکن بهتر یه هے که اول شب میں نماز عشا کے بعد پڑھی جائے۔

647۔ اگر میت کو کسی دور کے شهر میں لے جانا مقصود هو یا کسی اور وجه سے اس کے دفن میں تاخیر هو جائے تو نماز وحشت کو اس کے سابقه طریقے کے مطابق دفن کی پهلی رات تک ملتوی کر دینا چاهئے۔

نَبشِ قبر (قبر کا کھولنا)

648۔ کسی مسلمان کا نبش قبر یعنی اس کی قبر کا کھولنا خواه وه بچه یا دیوانه هی کیوں نه هو حرام هے۔ هاں اگر اس کا بدن مٹی کے ساتھ مل کر مٹی هوچکا هو تو پھر کوئی حرج نهیں۔

649۔ امام زادوں، شهیدوں، عالموں اور صالح لوگوں کی قبروں کو اجاڑنا خواه انهیں فوت هوئے سالها سال گزر چکے هون اور ان کے بدن خاک هو گئے هوں، اگر ان کی بے حرمتی هوتی هو تو حرام هے۔

650۔ چند صورتیں ایسی هیں جن میں قبر کا کھولنا حرام نهیں هے:

ص:132

ا۔ جب میت کو غصبی زمین میں دفن کیا گیا هو اور زمین کا مالک اس کے وهاں رهنے پر راضی نه هو۔

2۔ جب کفن یا کوئی اور چیز جو میت کے ساتھ دفن کی گئی هو غصبی هو اور اس کا مالک اس بات پر رضامند نه هو که وه قبر میں رهے اور اگر خود میت کے مال میں سے کوئی چیز جو اس کے وارثوں کو ملی هو اس کے ساتھ دفن هوگئی هو اور اس کے وارث اس بات پر راضی نه هوں که وه چیز قبر میں رهے تو اس کی بھی یهی صورت هے البته اگر مرنے والے نے وصیت کی هو که دعا یا قرآن مجید یا انگوٹھی اس کے ساتھ دفن کی جائے اور اس کی وصیت پر عمل کیا گیا هو تو ان چیزوں کو نکالنے کے لئے قبر کو نهیں کھولا جاسکتا هے۔ اسی طرح ان بعض صورتوں میں بھی جب زمین یا کفن میں سے کوئی ایک چیز غصبی هو یا کوئی اور غصبی چیز میت کے ساتھ دفن هو گئی هو تو قبر کو نهیں کھولا جاسکتا۔ لیکن یهاں ان تمام صورتوں کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نهیں هے۔

3۔ جب قبر کا کھولنا میت کی بے حرمتی کا موجب نه هو اور میت کو بغیر غسل دیئے یا بغیر کفن پهنائے دفن کیا گیا هو یا پته چلے که میت کا غسل باطل تھا یا اسے شرعی احکام کے مطابق کفن نهیں دیا گیا تھا یا قبر میں قبلے کے رخ پر نهیں لٹایا گیا تھا۔

4۔ جب کوئی ایسا حق ثابت کرنے کے لئے جو نبش قبر سے اهم هو میت کا بدن دیکھنا ضروری هو۔

5۔ جب میت کو ایسی جگه دفن کیا گیا هو جهاں اس کی بے حُرمتی هوتی هو مثلاً اسے کافروں کے قبرستان میں یا اس جگه دفن کیا گیا هو جهاں غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا هو۔

6۔ جب کسی ایسے شرعی مقصد کے لئے قبر کھولی جائے۔ جس کی اهمیت قبر کھولنے سے زیاده هو مثلاً کسی زنده بچے حامله عورت کے پیٹ سے نکالنا مطلوب هو جسے دفن کر دیا گیا هو۔

7۔ جب یه خوف هو که درنده میت کو چیرپھاڑ ڈالے گا یا سیلاب اسے بها لے جائے گا یا دشمن اسے نکال لے گا۔

8۔ میت نے وصیت کی هو که اسے دفن کرنے سے پهلے مقدس مقامات کی طرف منتقل کیا جائے اور لے جاتے وقت اس کی بے حرمتی بھی نه هوتی هو لیکن جان بوجھ کر یا بھولے سے کسی دوسری جگه دفنا دیا گیا هو تو بے حرمتی نه هونے کی صورت میں قبر کھول کر اسے مقدس مقامات کی طرف لے جاسکتے هیں۔

ص:133

مستحب غسل

651۔ اسلام کی مقدس شریعت میں بهت سے غسل مستحب هیں جن میں سے کچھ یه هیں:

1۔ غسل جمعه۔ اس کا وقت صبح کی اذان کے بعد سے سورج غروب هونے تک هے اور بهتر یه هے که ظهر کے قریب بجالایا جائے (اور اگر کوئی شخص اسے ظهر تک انجام نه دے تو بهتر هے که ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر غروب آفتاب تک بجالائے) اور اگر جمعه کے دن غسل نه کرے تو مستحب هے که هفتے کے دن صبح سے غروب آفتاب تک اس کی قضا بجالائے۔ اور جو شخص جانتا هو که اسے جمعه کے دن پانی میسر نه هوگا تو وه رجاء جمعرات کے دن غسل انجام دے سکتا هے اور مستحب هے که انسان غسل جمعه کرتے وقت یه دعا پڑھے۔ "اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لاَ شَرِیکَ لَه وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُه وَرَسُولُهُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاجعَلنِی مِنَ التَّوَّبِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَطَھِّرِینَ"۔

2 تا 7 ۔ ماه رمضان کی پهلی اور سترھویں رات اور انیسویں، اکیسویں اور تیئسویں راتوں کے پهلے حصے کا غسل اور چوبیسویں رات کا غسل۔

8۔9۔ عید الفطر اور عید قربان کے دن کا غسل۔ اس کا وقت صبح کی اذان سے سورج غروب هونے تک هے اور بهتر یه هے که عید کی نماز سے پهلے کر لیا جائے۔

10۔11۔ ماه ذی الحجه کے آٹھویں اور نویں دن کا غسل اور بهتر یه هے که نویں دن کا غسل ظهر کے نزدیک کیا جائے۔

13۔ اس شخص کا غسل جس نے اپنے بدن کا کوئی حصه ایسی میت کے بدن سے مس کیا هو جسے غسل دیا گیا هو۔

13۔ احرام کا غسل۔

14۔ حرم مکه میں داخل هونے کا غسل۔

15۔ مکه مکرمه میں داخل هونے کا غسل ۔

16۔ خانه کعبه کی زیارت کا غسل۔

ص:134

17۔ کعبه میں داخل هونے کا غسل۔

18۔ ذبح اور نحر کے لئے غسل۔

19۔ بال مونڈنے کے لئے غسل۔

20۔ حرم مدینه میں داخل هونے کا غسل۔

21۔ مدینه منوره میں داخل هونے کا غسل۔

22۔ مسجد نبوی میں داخل هونے کا غسل۔

23۔ نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کی قبر مطهر سے وداع هونے کا غسل۔

24۔ دشمن کے ساتھ مباهله کرنے کا غسل۔

25۔ نوزائده بچے کو غسل دینا۔

26۔ استخاره کرنے کا غسل

27۔ طلب باران کا غسل

652۔ فقهاء نے مستحب غسلوں کے باب میں بهت سے غسلوں کا ذکر فرمایا هے جن میں سے چند یه هیں 1۔ ماه رمضان المبارک کی تمام طاق راتوں کا غسل اور اس کی آخری دهائی کی تمام راتوں کا غسل اور اس کی تیسویں رات کے آخری حصے میں دوسرا غسل۔

2۔ ماه ذی الحجه کے چوبیسویں دن کا غسل۔

3۔ عید نوروز کے دن اور پندرهویں شعبان اور نویں اور سترهویں ربیع الاول اور ذی القعده کے پچیسویں دن کا غسل۔

4۔ اس عورت کا غسل جس نے اپنے شوهر کے علاوه کسی اور کے لئے خوشبو استعمال کی هو۔

ص:135

5۔ اس شخص کا غسل جو مستی کی حالت میں سوگیا هو۔

6۔ اس شخص کا غسل جو کسی سولی چڑھے هوئے انسان کو دیکھنے گیا هو اور اسے دیکھا بھی هو لیکن اگر اتفاقاً یا مجبوری کی حالت میں نظر گئی هو یا مثال کے طور پر اگر شهادت دینے گیا هو تو غسل مستحب نهیں هے۔

7۔ دور یا نزدیک سے معصومیں علیهم السلام کی زیارت کے لئے غسل۔ لیکن احوط یه هے که یه تمام غسل رجاء کی نیت سے بجالائے جائیں۔

653۔ ان مستحب غسلوں کے ساتھ جن کا ذکر مسئله 651 میں کیا گیا هے انسان ایسے کام مثلاً نماز انجام دے سکتا هے جن کے لئے وضو لازم هے (یعنی وضو کرنا ضروری نهیں هے) لیکن جو غسل بطور رجاء کیے جائیں وه وضو کے لئے کفایت نهیں کرتے (یعنی ساتھ ساتھ وضو کرنا بھی ضروری هے)۔

654۔ اگر کئی مستحب غسل کسی شخص کے ذمے هوں اور وه سب کی نیت کرکے ایک غسل کر لے تو کافی هے۔

تیمم

اشاره

سات صورتوں میں وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا چاہئے :

تیمم کی پہلی صورت

وضو یا غسل کے لئے ضروری مقدار میں پانی مہیا کرنا ممکن نہ ہو۔

655۔ اگر انسان آبادی میں ہو تو ضروری ہے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی مہیا کرنے کے لئے اتنی جستجو کرے کہ بالاخر اس کے ملنے سے ناامید ہو جائے اور اگر بیابان میں ہو تو ضروری ہے کہ راستوں میں یا اپنے ٹھہرنے کی جگہوں میں یا اس کے آس پاس والی جگہوں میں پانی تلاش کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں کی زمین ناہموار ہو یا درختوں کی کثرت کی وجہ سے راہ چلنا دشوار ہو تو چاروں اطراف میں سے ہر طرف پرانے زمانے میں کمان کے چلے پر چڑھا کر پھینکے جانے والے تیرکی 1 پرواز کے فاصلے کے برابر پانی کی تلاش میں جائے۔ ورنہ ہر طرف اندازاً دو بار پھینکے جانے والے تیر کے فاصلے کے برابر جستجو کرے۔

ص:136

656۔ اگر چار اطراف میں سے بعض ہموار اور بعض ناہموار ہوں تو جو طرف ہموار ہو اس میں دو تیروں کی پرواز کے برابر اور جو طرف نا ہموار ہو اس میں ایک تیرکی پرواز برابر پانی تلاش کرے۔

657۔ جس طرف پانی کے نہ ہونے کا یقین ہو اس طرف تلاش کرنا ضروری نہیں۔

658۔ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور پانی حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہو اور اسے یقین یا اطمینان ہو کہ جس فاصلے تک اس کے لئے پانی تلاش کرنا ضروری ہے اس سے دور پانی موجود ہے تو اسے چاہئے کہ پانی حاصل کرنے کے لئے وہاں جائے لیکن اگر وہاں جانا مشقت کا باعث ہو یا پانی بہت زیادہ دور ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ اس کے پاس پانی نہیں ہے تو وہاں جانا لازم نہیں ہے اور اگر پانی موجود ہونے کا گمان ہو تو پھر بھی وہاں جانا ضروری نہیں ہے۔

659۔ یہ ضروری نہیں کہ انسان خود پانی کی تلاش میں جائے بلکہ وہ کسی اور ایسے شخص کو بھیج سکتا ہے جس کے کہنے پر اسے اطمینان ہو اور اس صورت میں اگر ایک شخص کئی اشخاص کی طرف سے جائے تو کافی ہے۔

660۔ اگر اس بات کا احتمال ہوکہ کسی شخص کے لئے اپنے سفر کے سامان میں یا پڑاو ڈالنے کی جگہ پر یا قافلے میں پانی موجود ہے تو ضروری ہے کہ اس قدر جستجو کرے کہ اسے پانی کے نہ ہونے کا اطمینان ہو جائے یا اس کے حصول سے ناامید ہو جائے۔

661۔ اگر ایک شخص نماز کے وقت سے پہلے پانی تلاش کرے اور حاصل نہ کر پائے اور نماز کے وقت تک وہیں رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔

662۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد تلاش کرے اور پانی حاصل نہ کرپائے اور بعد والی نماز کے وقت تک اسی جگہ رہے تو اگر پانی ملنے کا احتمال ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ پانی کی تلاش میں جائے۔

ص:137

663۔ اگر کسی شخص کی نماز کا وقت تنگ ہو یا اسے چور ڈاکو اور درندے کا خوف ہو یا پانی کی تلاش اتنی کٹھن ہو کہ وہ اس صعوبت کو برداشت نہ کر سکے تو تلاش ضروری نہیں۔

1۔ مجلسی اول قدس سرہ نے مَن لاَ یَحضُرُہُ الفَقِیہ کی شرح میں تیر کے پرواز کی مقدار دو سو قدم معین فرمائی ہے۔

664۔ اگر کوئی شخص پانی تلاش نہ کرے حتی کہ نماز کا وقت تنگ ہو جائے اور پانی تلاش کرنے کی صورت میں پانی میں مل سکتا تھا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے۔

665۔ اگر کوئی شخص اس یقین کی بنا پر کہ اسے پانی نہیں مل سکتا پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ اگر تلاش کرتا تو پانی مل سکتا تھا تو احتیاط لازم کی بنا پر وضو کر کے نماز کو دوبارہ پڑھے۔

666۔ اگر کسی شخص کو تلاش کرنے پر پانی نہ ملے اور ملنے سے مایوس ہو کر تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ جہاں اس نے تلاش کیا تھا وہاں پانی موجود تھا اور اس کی نماز صحیح ہے۔

667۔ جس شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت تنگ ہے اگر وہ پانی تلاش کئے بغیر تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور نماز پڑھنے کے بعد اور وقت گزرنے سے پہلے اسے پتہ چلے کہ پانی تلاش کرنے کے لئے اس کے پاس وقت تھا تو احتیاط واجب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔

668۔ اگر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد کسی شخص کو وضو باقی ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کر دیا تو وہ دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی نہیں ملے گا یا وہ وضو نہیں کر پائے گا تو اس صورت میں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاہئے کہ اسے باطل نہ کرے لیکن ایسا شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ غسل نہ کر پائے گا اپنی بیوی سے جماع کر سکتا ہے۔

669۔ اگر کوئی شخس نماز کے وقت سے پہلے باوضو ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگر اس نے اپنا وضو باطل کر دیا تو دوبارہ وضو کرنے کے لئے پانی مہیا کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا تو اس صورت میں اگر وہ اپنا وضو برقرار رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے باطل نہ کرے۔

670۔ جب کسی کے پاس فقط وضو یا غسل کے لئے پانی ہو اور وہ جانتا ہو کہ اسے گرادینے کی صورت میں مزید پانی نہیں مل سکے گا تو اگر نماز کا وقت داخل ہو گیا ہو تو اس پانی کا گرانا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے بھی نہ گرائے۔

ص:138

671۔ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ اس پانی نہ مل سکے گا، نماز کا وقت داخل ہونے کےبعد اپنا وضو باطل کر دے یا جو پانی اس کے پاس ہو اسے گرادے تو اگرچہ اس نے (حکم مسئلہ کے) برعکس کام کیا ہے، تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہوگی لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

تیمم کی دوسری صورت

672۔ اگر کوئی شخص بڑھاپے یا کمزوری کی وجہ سے یا چور ڈاکو اور جانور وغیرہ کے خوف سے یا کنویں سے پانی نکالنے کے وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے پانی حاصل نہ کر سکے تو اسے چاہئے کہ تیمم کرے۔ اور اگر پانی مہیا کرنے یا اسے استعمال کرنے میں اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے جو ناقابل برداشت ہو تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ لیکن آخری صورت میں اگر تیمم نہ کرے اور وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہوگا۔

673۔ اگر کنویں سے پانی نکالنے کے لئے ڈول اور رسی وغیرہ ضروری ہوں اور متعلقہ شخص مجبور ہو کہ اس انہیں خریدے یا کرایہ پر حاصل کرے تو خواہ ان کی قیمت عام بھاو سے کئی گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو اسے چاہئے کہ انہیں حاصل کرے۔ اور اگر پانی اپنی اصلی قیمت سے مہنگا بیچا جا رہا ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگر ان چیزوں کے حصول پر اتنا خرچ اٹھتا ہو کہ اس کے جیب اجازت نہ دیتی ہو تو پھر ان چیزوں کا مہیا کرنا واجب نہیں ہے۔

674۔ اگر کوئی شخص مجبور ہو کہ پانی مہیا کرنے کے لئے قرض لے تو فرض لینا ضروری ہے لیکن جس شخص کو علم ہو یاگمان ہو کہ وہ اپنے قرضے کی ادائیگی نہیں کرسکتا اس کے لئے قرض لینا واجب نہیں ہے۔

675۔ اگر کنواں کھودنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو متعلقہ شخص کو چاہئے کہ پانی مہیا کرنے کے لئے کنواں کھودے۔

676۔ اگر کوئی شخص بغیر احسان رکھے کچھ پانی دے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔

تیمم کی تیسری صورت

677۔ اگر کسی شخص کو پانی استعمال کرنے سے اپنی جان پر بن جانے یا بدن میں کوئی عیب یا مرض پیدا ہونے یا موجودہ مرض کے طولانی یا شدید ہوجانے یا علاج معالجہ میں دشواری پیدا ہونے کا خوف ہو تو اسے چاہئے کہ تیمم کرے۔ لیکن اگر

ص:139

پانی کے ضرر کو کسی طریقے سے دور کر سکتا ہو مثلاً یہ کہ پانی کو گرم کرنے سے ضرور دور ہو سکتا ہو تو پانی گرم کرکے وضو کرے اور اگر غسل کرنا ضروری ہو تو غسل کرے۔

678۔ ضروری نہیں کہ کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے بلکہ اگر ضرر کا احتمال ہو اور یہ احتمال عام لوگوں کی نظروں میں معقول ہو اور اس احتمال سے اسے خوف لاحق ہو جائے تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

679۔ اگر کوئی شخص درد چشم میں مبتلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

680۔ اگر کوئی شخص ضرر کے یقین یا خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور اسے نماز سے پہلے اس بات کا پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ نہیں تو اس کا تیمم باطل ہے اور اگر اس بات کا پتہ نماز کے بعد چلے تو وضو یاغسل کرکے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔

681۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے اور غسل یا وضو کرلے، بعد میں اسے پتہ چلے کہ پانی اس کے لئے مضر تھا تو اس کا وضو اور غسل دونوں باطل ہیں۔

تیمم کی چوتھی صورت

682۔ اگر کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ پانی سے وضو یا غسل کرلینے کے بعد وہ پیاس کی وجہ سے بے تاب ہو جائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس وجہ سے تیمم کے جائز ہونے کی تین صورتیں ہیں :

1۔ اگر پانی وضو یا غسل کرنے میں صرف کر دے تو وہ خود فوری طور پر یا بعد میں ایسی پیاس لگے گی جو اس کی ہلاکت یا علالت کا موجب ہوگی یا جس کا برداشت کرنا اس کے لئے سخت تکلیف کا باعث ہوگا۔

2۔ اسے خوف ہو کہ جن لوگوں کی حفاظت کرنا اس پر واجب ہے وہ کہیں پیاس سے ہلاک یا بیمار نہ ہوجائیں۔

3۔ اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خاطر خواہ اور انسان ہو یا حیوان، ڈرتا ہو اور اس کی ہلاکت یا بیماری یا بیتابی اسے گراں گزرتی ہو خواہ محترم نفوس میں سے ہو یا غیر محترم نفوس میں سے ہو ان تین صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں پانی ہوتے ہوئے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔

ص:140

683۔ اگر کسی شخص کے پاس اس پاک پانی کے علاوہ جو وضو یا غسل کے لئے ہو اتنا نجس پانی بھی ہو جتنا اسے پینے کے لئے در کار ہے تو ضروری ہے کہ پاک پانی پینے کے لئے رکھ لے اور تیمم کرکے نماز پڑھے لیکن اگر پانی اس کے ساتھیوں کے پینے کے لئے در کار ہو تو کہ وہ پاک پانی سے وضو یا غسل کر سکتا ہے خواہ اس کے ساتھی پیاس بجھانے کے لئے نجس پانی پینے پر ہی مجبور کیوں نہ ہوں بلکہ اگر وہ لوگ اس پانی کے نجس ہونے کے بارے میں نہ جانتے ہوں یا یہ کہ نجاست سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو لازم ہے کہ پاک پانی کو وضو یا غسل کے لئے صرف کرے اور اسی طرح پانی اپنے کسی جانور یا نابالغ بچے کو پلانا چاہے تب بھی ضروری ہے کہ انہیں وہ نجس پانی پلائے اور پاک پانی سے وضو یا غسل کرے۔

تیمم کی پانچویں صورت

684۔ اگر کسی شخص کا بدن یا لباس نجس ہو اور اس کے پاس اتنی مقدار میں پانی ہو کہ ااس سے وضو یا غسل کر لے تو بدن یا لباس دھونے کے لئے پانی نہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ بدن یا لباس دھوئے اور تیمم کر کے نماز پڑھے لیکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو جس پر تیمم کرے تو ضروری ہے کہ پانی وضو یا غسل کے لئے استعمال کرے اور نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔

تیمم کی چھٹی صورت

685۔ اگر کسی شخص کے پاس سوائے ایسے پانی یا برتن کے جس کا استعمال کرنا حرام ہے کوئی اور پانی یا برتن نہ ہو مثلاً جو پانی یا برتن اس کے پاس ہو وہ غصبی ہو اور اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی پانی یا برتن نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرے۔

تیمم کی ساتویں صورت

686۔ جب وقت اتنا تنگ ہو کہ اگر ایک شخص وضو یا غسل کرے تو ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھا جاسکے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

687۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ وضو یا غسل کا وقت باقی نہ رہے تو گو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا لیکن تیمم کے ساتھ اس کی نماز صحیح ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس نماز کی قضا بھی کرے۔

ص:141

688۔ اگر کسی کو شک ہو کہ وہ وضو یا غسل کرے تو نماز کا وقت باقی رہے گا یا نہیں تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

689۔ اگر کسی شخص نے وقت کی تنگی کی وجہ سے تیمم کیا ہو اور نماز کے بعد وضو کر سکنے کے باوجود نہ کیا ہو حتی کہ جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہوگیا ہو تو اس صورت میں کہ اس کا فریضہ تیمم ہو ضروری ہے کہ آئندہ نمازوں کے لئے دوبارہ تیمم کرے خواہ وہ تیمم جو اس نے کیا تھا نہ ٹوٹا ہو۔

690۔ اگر کسی شخص کے پاس پانی ہو لیکن وقت کی تنگی کے باعث تیمم کرکے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران جو پانی اس کے پاس تھا وہ ضائع ہو جائے اور اگر اس کا فریضہ تیمم ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد کی نمازوں کے لئے دوبارہ تیمم کرے۔

691۔ اگر کسی شخص کے پاس اتنا وقت ہو کہ وضو یا غسل کرسکے اور نماز کو اس کے مستحب افعال مثلاً قامت اور قنوت کے بغیر پڑھ لے تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرلے اور اس کے مستحب افعال کے بغیر نماز پڑھے بلکہ اگر سورہ پڑھنے جتنا وقت بھی یہ بچتا ہو تو ضروری ہے کہ غسل یا وضو کرے اور بغیر سورہ کے نماز پڑھے۔

وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا صحیح ہے

692۔ مٹی، ریت، ڈھیلے اور روڑی یا پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر مٹی میسر ہو تو کسی دوسری چیز پر تیمم نہ کیا جائے۔ اور اگر متی نہ ہو تو ریت یا ڈھیلے پر اور اگر ریت اور ڈھیلا بھی نہ ہوں تو پھر روڑی یا پتھر پر تیمم کیا جائے۔

693۔ جپسم اور چونے کے پتھر پر تیمم کرنا صحیح ہے نیز اس گردوغبار پر جو قالین، کپڑے اور ان جیسی دوسری چیزوں پر جمع ہوجاتا ہے اگر عرف عام میں اسے نرم مٹی شمار کیا جاتا ہو تو اس پر تیمم صحیح ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں اس پر تیمم نہ کرے۔ اسی طرح احتیاط مستحب کی بنا پر اختیار کی حالت میں پکے جپسم اور چونے پر اور پکی ہوئی اینٹ اور دوسرے معدنی پتھر مثلاً عقیق وغیرہ پر تیمم نہ کرے۔

694۔ اگر کسی شخص کو مٹی، ریت، ڈھیلے یا پتھر نہ مل سکیں تو ضروری ہے کہ تر مٹی پر تیمم کرے اور اگر تر مٹی نہ ملے تو ضروری ہے کہ قالین، دری یا لباس اور ان جیسی دوسری چیزوں کے اندر یا اوپر موجود اس مختصر سے گردوغبار سے جو

ص:142

عرف میں مٹی شمار نہ ہوتا ہو تیمم کرے اور اگر ان میں سے کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم کے بغیر نماز پڑھے لیکن واجب ہے کہ بعد میں اس نماز کی قضا پڑھے۔

695۔ اگر کوئی شخص قالین، دری اور ان جیسی دوسری چیزوں کو جھاڑ کر مٹی مہیا کر سکتا ہے تو اس کا گرد آلود چیز پر تیمم کرنا باطل ہے اور اسی طرح اگر تر مٹی کو خشک کرے کے اس سے سوکھی مٹی حاصل کر سکتا ہے تو تر مٹی پر تیمم کرنا باطل ہے ۔

696۔ جس شخص کے پاس پانی نہ ہو لیکن برف ہو اور اسے پگھلا سکتا ہو تو اسے پگھلا کر پانی بنانا اور اس سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو۔ جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے وقت میں نماز کو قضا کرے اور بہتر یہ ہے کہ برف سے وضو یا غسل کے اعضا کو ترکرے اور اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو برف پر تیمم کرلے اور وقت پر بھی نماز پڑھے۔

697۔ اگر مٹی اور ریت کے ساتھ سوکھی گھاس کی طرح کی کوئی چیز (مثلاً بیج، پھلیاں) ملی ہوئی ہو جس پر تیمم کرنا باطل ہو تو متعلقہ شخص اس پر تیمم نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر وہ چیز اتنی کم ہو کہ اسے مٹی یا ریت میں نہ ہونے کے برابر سمجھا جاسکے تو اس مٹی اور ریت پر تیمم صحیح ہے۔

698۔ اگر ایک شخص کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر تیمم کیا جاسکے اور اس کا خریدنا یا کسی اور طرح حاصل کرنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اس طرح مہیا کرلے۔

699۔ مٹی کی دیوار پر تیمم کرنا صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ خشک زمین یا خشک مٹی کے ہوتے ہوئے تر زمین یا تر مٹی پر تیمم نہ کیا جائے۔

700۔ جس چیز پر انسان تیمم کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے اور اگر اس کے پاس کوئی ایسی پاک چیز نہ ہو جس پر تیمم کرنا صحیح ہو تو اس پر نماز واجب نہیں لیکن ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے اور بہتر یہ ہے کہ وقت میں بھی نماز پڑھے۔

ص:143

701۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ ایک چیز پر تیمم کرنا صحیح ہے اور اس پر تیمم کر لے بعد ازاں اسے پتہ چلے کہ اس چیز پر تیمم کرنا باطل تھا تو ضروری ہے کہ جو نمازیں اس تیمم کے ساتھ پڑھی ہیں وہ دوبارہ پڑھے۔

702۔ جس چیز پر کوئی شخص تیمم کرے ضروری ہے کہ وہ عصبی نہ ہو پس اگر وہ عضبی مٹی پر تیمم کرے تو اس کا تیمم باطل ہے۔

703۔ غصب کی ہوئی فضا میں تیمم کرنا باطل نہیں ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص اپنی زمین میں اپنے ہاتھ مٹی پر مارے اور پھر بلا اجازت دوسرے کی زمین میں داخل ہوجائے اور ہاتھوں کو پیشانی پر پھیرے تو اس کا تیمم صحیح ہوگا اگرچہ وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔

704۔ اگر کوئی شخص بھولے سے کریا غفلت سے غصبی چیز تیمم صحیح ہے لیکن اگر وہ خود کوئی چیز غصب کرے اور پھر بھول جائے کہ غصب کی ہے تو اس چیز پر تیمم کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

705۔ اگر کوئی شخص غصبی جگہ میں محبوس ہو اور اس جگہ کا پانی اور مٹی دونوں غصبی ہوں تو ضروری ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھے۔

706۔ جس چیز پر تیمم کیا جائے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر گردوغبار موجود ہو جو کہ ہاتھوں پرلگ جائے اور اس پر ہاتھ مارنے کے بعد ضروری ہے کہ اتنے زور سے ہاتھوں کو نہ جھاڑے کہ ساری گرد گر جائے۔

707۔ گڑھے والی زمین، راستے کی مٹی اور ایسی شور زمین پر جس پر نمک کی تہہ نہ جمی ہو تیمم کرنا مکروہ ہے اور اگر اس پر نمک کی تہہ جم گئی ہو تو تیمم باطل ہے۔

وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنے کا طریقہ

708۔ وضو یا غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں:

1۔ نیت ۔

ص:144

2۔ دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا یا رکھنا جس پر تیمم کرنا صحیح ہو۔ اور احتیاط لازم کی بنا پر دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر مارنے یا رکھنے چاہئیں۔

3۔ پوری پیشانی پر دونوں ہتھیلیوں کو پھیرنا اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر اس مقام سے جہاں سر کے بال اگتے ہیں بھنووں اور ناک کے اوپر تک پیشانی کے دونوں طرف دونوں ہتھیلیوں کو پھیرنا، اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہاتھ بھنووں پر بھی پھیرے جائیں۔

4۔ بائیں ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی تمام پشت پر اور اس کے بعد دائیں ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی تمام پشت پر پھیرنا۔

709۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کے بدلے اسے ترتیب سے کیا جائے یعنی یہ کہ ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارے جائیں اور پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے جائیں اور پھر ایک دفعہ زمین پر مارے جائیں اور ہاتھوں کی پشت کا مسح کیا جائے۔

تیمم کے احکام

710۔ اگر ایک شخص پیشانی یا ہاتھوں کی پشت کے ذرا سے حصے کا بھی مسح نہ کرے تو اس کا تیمم باطل ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے عمداً مسح نہ کیا ہو یا مسئلہ بھول گیا ہو لیکن بال کی کھال نکالنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اگر یہ کہا جاسکے کہ تمام پیشانی اور ہاتھوں کا مسح ہو گیاہے تو اتنا ہی کافی ہے۔

711۔ اگر کسی شخص کو یقین نہ ہو کہ ہاتھ کہ تمام پشت پر مسح کر لیا ہے تو یقین حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کلائی سے کچھ اورپر والے حصے کا بھی مسح کرے لیکن انگلیوں کے درمیان مسح کرنا ضروری نہیں ہے۔

712۔ تیمم کرنے والے کو پیشانی اور ہاتھوں کو پشت کا مسح احتیاط کی بنا پر اوپر سے نیچے کی جانب کرنا ضروری ہے اور یہ افعال ایک دوسرے سے متصل ہونے چاہیئں اور اگر ان افعال کے درمیان اتنا فاصلہ دے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ تیمم کر رہا ہے تو تیمم باطل ہے۔

713۔ نیت کرنے وقت لازم نہیں کہ اس بات کا تعین کرے کہ اس کا تیمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے لیکن جہاں دو تیمم انجام دینا ضروری ہوں تولازم ہے کہ ان میں سے ہرایک کو معین کرے اور اگر اس پر ایک تیمم واجب ہو

ص:145

اور نیت کرے کہ میں اس وقت اپنا وظیفہ انجام دے رہا ہوں تو اگرچہ وہ معین کرنے میں غلطی کرے (کہ یہ تیمم غسل کے بدلے ہے یا وضو کے بدلے) اس کا تیمم صحیح ہے۔

714۔ احتیاط مستحب کہ بنا پر تیمم میں پیشانی، ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ہاتھوں کی پشت جہاں تک ممکن ہو ضروری ہے کہ پاک ہوں۔

715۔ انسان کو چاہئے کہ ہاتھ پر مسح کرتے وقت انگوٹھی اتار دے اور اگر پیشانی یا ہاتھوں کی پشت یا ہتھیلیوں پر کوئی رکاوٹ ہو مثلا ان پر کوئی چیز چپکی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔

716۔ اگر کسی شخص کی پیشانی یا ہاتھوں کی پشت پر زخم ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جس کو کھولا نہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے اوپر ہاتھ پھیرے۔ اور اگر ہتھیلی زخمی ہو اور اس پر کپڑا یا پٹی وغیرہ بندھی ہو جسے کھولانہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ کپڑےیا پٹی وغیرہ سمیت ہاتھ اس چیز مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے۔

717۔ اگر کسی شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر بال ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر سر کے بال پیشانی پر آگرے ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں پیچھے ہٹا دے۔

718۔ اگر احتمال ہو کہ پیشانی اور ہتھیلیوں یا ہاتھوں کی پشت پر کوئی رکاوٹ ہے اور یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں معقول ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے تاکہ اسے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ رکاوٹ موجود نہیں ہے۔

719۔ اگر کسی شخص کا وظیفہ تیمم ہو اور خود تیمم نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے تاکہ وہ مددگار متعلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر معتلقہ شخص کے ہاتھوں کو اس کی پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر رکھ دے تاکہ امکان کی صورت میں وہ خود اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پیشانی اور دونوں ہاتھوں کی پشت پر پھیرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کو خود اس کے ہاتھوں سے تیمم کرائے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ تو تو نائب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں کو اس چیز پر مارے جس پر تیمم کرنا صحیح ہو اور پھر متعلقہ شخص کی پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر پھیرے۔ ان دونوں صورتوں میں احتیاط لازم کی بنا پر دونوں شخص تیمم کی نیت کریں لیکن پہلی صورت میں خود مکلف کی نیت کافی ہے۔

ص:146

720۔ اگر کوئی شخص تیمم کے دوران شک کرے کہ وہ اس کا کوئی حصہ بھول گیا ہے یا نہیں اور اس حصے کا موقع گزر گیا ہو تو وہ اپنے شک کا لحاظ نہ کرے اور اگر موقع نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ اس حصے کا تیمم کرے۔

721۔ اگر کسی شخص کو بائیں ہاتھ کا مسح کرنے کے بعد شک ہو کہ آیا اس نے تیمم درست کیا ہے یا نہیں تو اس کا تیم صحیح ہے اور اگر اس کا شک بائیں ہاتھ کے مسح کے بارے میں ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مسح کرے سوائے اس کے کہ لوگ یہ کہیں کہ تیمم سے فارغ ہوچکا ہے مثلاً اس شخص نے کوئی ایسا کام کیا ہو جس کے لئے طہارت شرط ہے یا تسلسل ختم ہو گیا ہو۔

722۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر وہ نماز کے پورے وقت میں عذر کے ختم ہونے سے مایوس ہو جائے تو تیمم کر سکتا ہے اور اگر اس نے کسی دوسرے واجب یا مستحب کام کے لئے تیمم کیا ہو اور نماز کے وقت تک اس کا عذر باقی ہو(جس کی وجہ سے اس کا وظیفہ تیمم ہے) تو اسی تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔

723۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر اسے علم ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر باقی رہے گا یا وہ عذر کے ختم ہونے سے مایوس ہو تو وقت کے وسیع ہوتے ہوئے وہ تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ انتظار کرے اور وضو یا غسل کرکے نماز پڑھے۔ بلکہ اگر وہ آخر وقت تک عذر کے ختم ہونے سے مایوس نہ ہو تو مایوس ہونے سے پہلے تیمم کر کے نماز نہیں پڑھ سکتا۔

724۔ اگر کوئی شخص وضو یا غسل نہ کر سکتا ہو اور اسے یقین ہو کہ اس کا عذر دور ہونے والا نہیں ہے یا دور ہونے سے مایوس ہو تو وہ اپنی قضا نمازیں تیمم کے ساتھ پڑھ سکتا ہے لیکن اگر بعد میں عذر ختم ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ نمازیں وضو یا غسل کرکے دوبارہ پڑھے اور اگر اسے عذر دور ہونے سے مایوسی نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر قضا نمازوں کے لئے تیمم نہیں کرسکتا۔

725۔ جو شخص وضو یا غسل نہ کر سکتا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ مستحب نمازیں دن رات کے ان نوافل کی طرح جن کا وقت معین ہے تیمم کرکے پڑھے لیکن اگر مایوس نہ ہو کہ آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے گا تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ نمازیں ان کے اول وقت میں نہ پڑھے۔

ص:147

726۔ جس شخص نے احتیاطاً گسل جبیرہ اور تیمم کیا ہو اگر وہ غسل اور تیمم کے بعد نماز پڑھے اور نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہو مثلاً اگر وہ پیشاب کرے تو بعد کی نمازوں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے اور اگر حدث نماز سے پہلے صادر ہو تو ضروری ہے کہ اس نماز کے لئے بھی وضو کرے۔

727۔ اگر کوئی شخص پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر تیمم کرے تو عذر کے ختم ہو جانے کے بعد اس کا تیمم باطل ہو جاتا ہے۔

728۔ جو چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں وہ وضو کے بدلے کئے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں اور جو چیزیں غسل کو باطل کرتی ہیں وہ غسل کے بدلے کئے ہوئے تیمم کو بھی باطل کرتی ہیں۔

729۔ اگر کوئی شخص غسل نہ کر سکتا ہو اور چند غسل اس پر واجب ہوں تو اس کے لئے جائز ہے کہ ان غسلوں کے بدلے ایک تیمم کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان غسلوں میں سے ہر ایک کے بدلے ایک تیمم کرے۔

730۔ جو شخص غسل نہ کر سکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کے لئے غسل واجب ہو تو ضروری ہے کہ غسل کے بدلے تیمم کرے اور جو شخص وضو نہ کر سکتا ہو اگر وہ کوئی ایسا کام انجام دینا چاہے جس کے لئے وضو واجب ہو تو ضروری ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے۔

731۔ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے تو نماز کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے تیمم کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وہ وضو نہ کرسکے تو وضو کے بدلے ایک اور تیمم کرے۔

732۔ اگر کوئی شخص غسل جنابت کے بدلے تیمم کرے لیکن بعد میں اسے کسی ایسی صورت سے دو چار ہونا پڑے جو وضو کو باطل کر دیتی ہو اور بعد کی نمازوں کے لئے غسل بھی نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وضو کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ تیمم بھی کرے۔ اور اگر وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے بدلے تیمم کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس تیمم کو مافی الذمہ کی نیت سے بجا لائے (یعنی جو کچھ میرے ذمے ہے اسے انجام دے رہا ہوں)۔

ص:148

733۔ کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے مثلاً نماز پڑھنے کے لئے وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہو تو اگر وہ پہلے تیمم میں وضو کے بدلے تیمم یا غسل کے بدلے تیمم کی نیت کرے اور دوسرا تیمم اپنے وظیفے کو انجام دینے کی نیت سے کرے تو یہ کافی ہے۔

734۔ جس شخص کا فریضہ تیمم ہو اگر وہ کسی کام کے لئے تیمم کرے تو جب تک اس کا تیمم اور عذر باقی ہے وہ ان کاموں کو کر سکتا ہے جو وضو یا غسل کرکے کرنے چاہئیں لیکن اگر اس کا عذر وقت کی تنگی ہو یا اس نے پانی ہوتے ہوئے نماز میت یا سونے کے لئے تیمم کیا ہو تو وہ فقط ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے جن کے لئے اس نے تیمم کیا ہو۔

735۔ چند صورتوں میں بہتر ہے کہ جو نمازیں انسان نے تیمم کے ساتھ پڑھی ہوں ان کی قضا کرے :

(اول) پانی کے استعمال سے ڈرتا ہو اور اس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو جنب کر لیا ہو اور تیمم کر کے نماز پڑھی ہو۔

(دوم) یہ جانتے ہوئے یا گمان کرتے ہوئے کہ اس پانی نہ مل سکے گا عمداً اپنے آپ کو جنب کر لیا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔

(سوم) آخر وقت تک پانی کی تلاش میں نہ جائے اور تیمم کرکے نماز پڑھے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ اگر تلاش کرتا تو اسے پانی مل جاتا۔

(چہارم) جان بوجھ کر نماز پڑھنے میں تاخیر کی ہو اور آخر وقت میں تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔

(پنجم) یہ جانتے ہوئے یا گمان کرتے ہوئے کہ پانی نہیں ملے گا جو پانی اس کے پاس تھا اسے گرا دیا ہو اور تیمم کرکے نماز پڑھی ہو۔

احکام نماز

اشاره

نماز دینی اعمال میں سے بهترین عمل هے۔ اگر یه درگاره الهی میں قبول هوگئی تو دوسری عبادات بھی قبول هو جائیں گی اور اگر یه قبول نه هوئی تو دوسرے اعمال بھی قبول نه هوں گے۔ جس طرح انسان اگر دن رات میں پانچ دفعه نهر میں نهائے دھوئے تو اس کے بدن پر میل کچیل نهیں رهتی اسی طرح پنج وقته نماز بھی انسان کو گناهوں سے پاک کر دیتی هے اور بهتر

ص:149

هے که انسان نماز اول وقت میں پڑھے۔ جو شخص نماز کو معمولی اور غیر اهم سمجھے وه اس شخص کو مانند هے جو نماز نه پڑھتا هو۔ رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) نے فرمایا هے که "جو شخص نماز کو اهمیت نه دے اور اسے معمولی چیز سمجھے وه عذاب آخرت کا مستحق هے" ایک دن رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) مسجد میں تشریف فرماتھے که ایک شخص مسجد میں داخل هوا اور نماز پڑھنے میں مشغول هو گیا لیکن رکوع اور سجود مکمل طور پر بجانه لایا۔ اس پر حضور (صلی الله علیه وآله) نے فرمایا که اگر یه شخص اس حالت میں مرجائے جبکه اس کے نماز پڑھنے کا یه طریقه هے تو یه همارے دین پرنهیں مرے گا۔ پس انسان کو خیال رکھنا چاهئے که نماز جلدی جلدی نه پڑھے اور نماز کی حالت میں خدا کی یاد میں رهے اور خشوع و خضوع اور سنجیدگی سے نماز پڑھے اور یه خیال رکھے که کس هستی سے کلام کر رها هے اور اپنے آپ کو خداوند عالم کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں حقیر اور ناچیز سمجھے۔ اگر انسان نماز کے دوران پوری طرح ان باتوں کی طرف متوجه رهے تو وه اپنے آپ سے بے خبر هوجاتا هے جیسا که نماز کی حالت میں امیرالمومنین امام علی ؑ کے پاوں سے تیر کھینچ لیا گیا اور آپ ؑ کو خبر تک نه هوئی۔ علاوه ازیں نماز پڑھے والے کو چاهئے که توبه و استغفار کرے اور نه صرف ان گناهوں کو جو نماز قبول هونے میں مانع هوتے هیں۔ مثلاً حسد، تکبر، غیبت، حرام کھانا، شراب پینا، اور خمس و زکوۃ کا ادا نه کرنا۔ ترک کرے بلکه تمام گناه ترک کردے اور اسی طرح بهتر هے که جو کام نماز کا ثواب گھٹاتے هیں وه نه کرے مثلاً اونگھنے کی حالت میں یا پیشاب روک کر نماز کے لئے نه کھڑا هو اور نماز کے موقع پر آسمان کی جانب نه دیکھے اور وه کام کرے جو نماز کا ثواب بڑھاتے هیں مثلاً عقیق کی انگوٹھی اور پاکیزه لباس پهنے، کنگھی اور مسواک کرے نیز خوشبو لگائے۔

واجب نمازیں

چھ نمازیں واجب هیں :

1۔ روزانه کی نمازیں

2۔ نماز آیات

3۔ نماز میت

4۔ خانه کعبه کے واجب طواف کی نماز

ص:150

5۔ باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب هیں۔

6۔ جو نمازیں اجاره، منت، قسم اور عهد سے واجب هو جاتی هیں۔ اور نماز جمعه روزانه نمازوں میں سے هے۔

روزانه کی واجب نمازیں

روانه کی واجب نمازیں پانچ هیں۔

ظهر اور عصر (هر ایک چار رکعت) مغرب (تین رکعت) عشا (چار رکعت) اور فجر (دو رکعت)

736۔ انسان سفر میں هو تو ضروری هے که چار رکعتی نمازیں ان شرائط کے ساتھ جو بعد میں بیان هوں گی دو رکعت پڑھے۔

ظهر اور عصر کی نماز کا وقت

737۔ اگر لکڑی یا کسی اور ایسی هی سیدھی چیز کو ۔۔۔جسے شاخص کهتے هیں ۔۔۔هموار زمین میں گاڑا جائے تو صبح کے وقت جب سورج طلوع هوتا هے اس کا سایه مغرب کی طرف پڑتا هے اور جوں جوں سورج اونچا هوتا جاتا هے اس کا سایه گھٹتا جاتا هے اور همارے شهروں میں اول ظهر شرعی کے وقت کمی کے آخری درجے پر پهنچ جاتا هے اور ظهر گزرنے کے بعد اس کا سایه مشرق کی طرف هو جاتا هے اور جوں جوں سورج مغرب کی طرف ڈھلتا هے سایه بڑھتا جاتا هے۔ اس بنا پر جب سایه کمی کے آخری درجے تک پهنچے اور دوباره بڑھنے لگے تو پته چلتا هے که ظهر شرعی کا وقت هوگیا هے لیکن بعض شهروں مثلاً مکه مکرمه میں جهاں بعض اوقات ظهر کے وقت سایه بالکل ختم هوجاتا هے جب سایه دوباره ظاهر هوتا هے تو معلوم هو جاتا هے که ظهر کا وقت هو گیا هے۔

738۔ ظهر اور عصر کی نماز کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک هے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عصر کی نماز کی ظهر کی نماز سے پهلے پڑھے تو اس کی عصر کی نماز باطل هے سوائے اس کے که آخری وقت تک ایک نماز سے زیاده پڑھنے کا وقت باقی نه هو کیوں که ایسی صورت میں اگر اس نے ظهر کی نماز نهیں پڑھی تو اس کی ظهر کی نماز قضا هوگی اور اسے چاهئے که عصر کی نماز پڑھے اور اگر کوئی شخص اس وقت سے پهلے غلط فهمی کی بنا پر عصر کی پوری نماز ظهر کی

ص:151

نماز سے پهلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح هے اور احتیاط مستحب یه هے که اس نماز کو نماز ظهر قرار دے اور مافی الذمه کی نیت سے چار رکعت اور پڑھے۔

739۔ اگر کوئی شخص ظهر کی نماز پرھنے سے پهلے غلطی سے عصر کی نماز پڑھنے لگ جائے اور نماز کے دوران اسے پته چلے که اس سے غلطی هوئی هے تو اسے چاهئے که نیت نماز ظهر کی جانب پھیر دے یعنی نیت کرے که جو کچھ میں پڑھ چکا هوں اور پڑھ رها هوں اور پڑھوں گا وه تمام کی تمام نماز ظهر هے اور جب نماز ختم کرے تو اس کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔

نماز جمعه کے احکام

740۔ جمعه کی نماز صبح کی نماز کی طرح دو رکعت کی هے۔ اس میں اور صبح کی نماز میں فرق یه هے که اس نماز سے پهلے دو خطبے بھی هیں۔ جمعه کی نماز واجب تخییری هے۔ اس سے مراد یه هے که جمعه کے دن مکلف کو اختیار هے که اگر نماز جمعه کی شرائط موجود هوں تو جمعه کی نماز پڑھے یا ظهر کی نماز پڑھے۔ لهذا اگر انسان جمعه کی نماز پڑھے تو وه ظهر کی نماز کی کفایت کرتی هے (یعنی پھر ظهر کی نماز پڑھنا ضروری نهیں)۔

جمعه کی نماز واجب هونے کی چند شرطیں هیں :

(اول) وقت کا داخل هونا جو که زوال آفتاب هے۔اور اس کا وقت اول زوال عرفی هے پس جب بھی اس سے تاخیر هوجائے، اس کا وقت ختم هو جاتا هے اور پھر ظهر کی نماز ادا کرنی چاهئے۔

(دوم) نماز پڑھنے والوں کی تعداد جو که بمع امام پانچ افراد هے اور جب تک پانچ مسلمان اکٹھے نه هوں جمعه کی نماز واجب نهیں هوتی۔

(سوم) امام کا جامع شرائط امامت هونا مثلاً عدالت وغیره جو که امام جماعت میں معتبر هیں اور نماز جماعت کی بحث میں بتایا جائے گا۔ اگر یه شرط پوری نه هو تو جمعه کی نماز واجب نهیں هوتی۔

جمعه کی نماز کے صحیح هونے کی چند شرطیں هیں :

ص:152

(اول) باجماعت پڑھا جانا۔ پس یه نماز فرادی ادا کرنا صحیح نهیں اور جب مقتدی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے پهلے امام کے ساتھ شامل هو جائے تو اس کی نماز صحیح هے اور وه اس نماز پر ایک رکعت کے رکوع سے پهلے امام کے ساتھ شامل هو جائے تو اس کی نماز صحیح هے اور وه اس نماز پر ایک رکعت کا اضافه کرے گا اور اگر وه رکوع میں امام کو پالے (یعنی نماز میں شامل هو جائے) تو اس کی نماز کا صحیح هونا مشکل هے اور احتیاط ترک نهیں هوتی (یعنی اسے ظهر کی نماز پڑھنی چاهئے)

(دوم) نماز سے پهلے دو خطبے پڑھنا۔ پهلے خطبے میں خظیب الله تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے نیز نمازیوں کو تقوی اور پرهیز گاری کی تلقین کرے۔ پھر قرآن مجید کا ایک چھوٹا سوره پڑھ کر (منبر پر لمحه دو لمحه) بیٹھ جائے اور پھر کھڑا هو اور دوباره الله تعالی کی حمد و ثنا بجا لائے۔ پھر حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) اور ائمه طاهرین علیهم السلام پر درود بھیجے اور احتیاط مستحب یه هے که مومنین اور مومنات کے لئے استغفار (بخشش کی دعاء) کرے۔ ضروری هے که خطبے نماز سے پهلے پڑھے جائیں۔ پس اگر نماز دو خطبوں سے پهلے شروع کر لی جائے تو صحیح نهیں هوگی اور زوال آفتاب سے پهلے خطبے پڑھنے میں اشکال هے اور ضروری هے که جو شخص خطبے پڑھے وه خطبے پڑھنے کے وقت کھڑا هو۔ لهذا اگر وه بیٹھ کر خطبے پڑھے گا تو صحیح نهیں هوگا اور دو خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فاصله دینا لازم اور واجب هے۔ اور ضروری هے که مختصر لمحوں کے لئے بیٹھے۔ اور یه بھی ضروری هے که امام جماعت اور خطیب ۔۔۔ یعنی جو شخص خطبے پڑھے۔۔۔ ایک هی شخص هو اور اقوی یه هے که خطبے میں طهارت شرط نهیں هے اگرچه اشتراط (یعنی شرط هونا) احوط هے۔ اور احتیاط کی بنا پر الله تعالی کی حمد و ثنا اسی طرح پیغمبر اکرام (صلی الله علیه وآله) اور ائمه المسلمین ؑ پر عربی زبان میں درود بھیجنا معتبر هے اور اس سے زیاده میں عربی معتبر نهیں هے۔ بلکه اگر حاضرین کی اکثریت عربی نه جانتی هو تو احتیاط لازم یه هے که تقوی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرنے وقت جو زبان حاضرین جانتے هیں اسی میں تقوی کی نصیحت کرے۔

(سوم) یه که جمعه کی دو نمازوں کے درمیان ایک فرسخ سے کم فاصله نه هو۔ پس جب جمعه کی دوسری نماز ایک فرسخ سے کم فاصله پر قائم هو اور دو نمازیں بیک وقت پڑھی جائیں تو دونوں باطل هوں گی اور اگر ایک نماز کو دوسری پر سبقت حاصل هو خواه وه تکبیرۃ الاحرام کی حد تک هی کیوں نه هو تو وه (نماز جسے سبقت حاصل هو) صحیح هوگی اور دوسری باطل هوگی لیکن اگر نماز کے بعد پته چلے که ایک فرسخ سے کم فاصله پر جمعه کی ایک اور نماز اس نماز سے پهلے یا اس کے ساتھ ساتھ قائم هوئی تھی تو ظهر کی نماز واجب نهیں هوگی اور اس سے کوئی فرق نهیں پڑتا که اس بات کا علم وقت میں هو یا وقت کے بعد هو۔ اور جمعه کی نماز کا قائم کرنا مذکوره فاصلے کے اندر جمعه کی دوسری نماز قائم کرنے میں اس وقت مانع هوتا هے

ص:153

جب وه نماز خود صحیح اور جامع الشرائط هو ورنه اس کے مانع هونے میں اشکال هے اور زیاده احتمال اس کے مانع نه هونے کا هے۔

741۔ جب جمعه کی ایک ایسی نماز قائم هو جو شرائط کو پورا کرتی هو اور نماز قائم کرنے والا امام وقت یا اس کا نائب هو تو اس صورت میں نماز جمعه کے لئے حاضر هونا واجب هے۔ اور اس صورت کے علاوه حاضر هونا واجب نهیں هے۔ پهلی صورت میں حاضری کے وجوب کے لئے چند چیزیں معتبر هیں :

(اول) مکلف مرد هو۔ اور جمعه کی نماز میں حاضر هونا عورتوں کے لئے واجب نهیں هے۔

(دوم) آزاد هونا۔ لهذا غلاموں کے لئے جمعه کی نماز میں حاضر هونا واجب نهیں هے۔

(سوم) مقیم هونا۔ لهذا مسافر کے لئے جمعه کی نماز میں شامل هونا واجب نهیں هے۔ اس مسافر می9ں جس کا فریضه قصر هو اور جس مسافر نے اقامت کا قصد کیا هو اور اسکا فریضه پوری نماز پڑھنا هو، کوئی فرق نهیں هے۔

(چهارم) بیمار اور اندھانه هونا۔ لهذا بیمار اور اندھے شخص پر جمعه کی نماز واجب نهیں هے۔

(پنجم) بوڑھا نه هونا۔ لهذا بوڑھوں پر یه نماز واجب نهیں۔

(ششم) یه که خود انسان کے اور اس جگه کے درمیان جهاں جمعه کی نماز قائم هو دو فرسخ سے زیاده فاصله نه هو اور جو شخص دو فرسخ کے سرے پر هو اس کے لئے حاضر هونا واجب هے اور اسی طرح وه شخص جس کے لئے جمعه کی نماز میں بارش یا سخت سردی وغیره کی وجه سے حاضر هونا مشکل یا دشوار هو تو حاضر هونا واجب نهیں هے۔

742۔ چند احکام جن کا تعلق جمعه کی نماز سے هے یه هیں :

(اول) جس شخص پر جمعه کی نماز ساقط هوگئی هو اور اس کا اس نماز میں حاضر هونا واجب نه هو اس کے لئے جائز هے که ظهر کی نماز اول وقت میں ادا کرنے کے لئے جلدی کرے۔

ص:154

(دوم) امام کے خطبے کے دوران باتیں کرنا مکروه هے لیکن باتوں کی وجه سے خطبه سننے میں رکاوٹ هو تو احتیاط کی بنا پر باتیں کرنا جائز نهیں هے۔ اور جو تعداد نماز جمعه کے واجب هونے کے لئے معتبر هے اس میں اور اس سے زیاده کے درمیان کوئی فرق نهیں هے۔

(سوم) احتیاط کی بنا پر دونوں خطبوں کا توجه سے سننا واجب هے لیکن جو لوگ خطبوں کے معنی نه سمجھتے هوں ان کے لئے توجه سے سننا واجب نهیں هے۔

(چهارم) جمعه کے دن کی دوسری اذان بدعت هے اور یه وهی اذان هے جسے عام طور پر تیسری اذان کها جاتا هے۔

(پنجم) ظاهر یه هے که جب امام جمعه خطبه پڑھ رها هو تو حاضر هونا واجب نهیں هے۔

(ششم) جب جمعه کی نماز کے لئے اذان دی جارهی هو تو خرید فروخت اس صورت میں جب که وه نماز میں مانع هو حرام هے اور اگر ایسا نه هو تو پھر حرام نهیں هے اور اظهر یه هے که خرید و فروخت حرام هونے کی صورت میں بھی معامله باطل نهیں هوتا۔

(هفتم) اگر کسی شخص پر جمعه کی نماز میں حاضر هونا واجب هو اور وه اس نماز کو ترک کرے اور ظهر کی نماز بجا لائے تو اظهر یه هے که اس کی نماز صحیح هوگی۔

مغرب اور عشا کی نماز کا وقت

743۔ احتیاط واجب یه هے که جب تک مشرق کی جانب کی وه سرخی جو سورج غروب هونے کے بعد ظاهر هوتی هے انسان کے سر پر سے نه گزر جائے وه مغرب کی نماز نه پڑھے۔

744۔ مغرب اور عشا کی نماز کا وقت مختار شخص کے لئے آدھی رات تک رهتا هے لیکن جن لوگوں کو کوئی عذر هو مثلاً بھول جانے کی وجه سے یا نیند یا حیض یا ان جسیے دوسرے امور کی وجه سے آدھی رات سے پهلے نماز پڑھ سکتے هوں تو ان کے لئے مغرب اور عشا کی نماز کا وقت فجر طلوع هونے تک باقی رهتا هے۔ لیکن ان دونوں نمازوں کے درمیان متوجه هونے کی صورت میں ترتیب معتبر هے یعنی عشا کی نماز کو جان بوجھ کر مغرب کی نماز سے پهلے پڑھے تو باطل هے۔ لیکن

ص:155

اگر عشا کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیاده وقت باقی نه رها هو تو اس صورت لازم هے که عشا کی نماز کو مغرب کی نماز سے پهلے پڑھے۔

745۔ اگر کوئی شخص غلط فهمی کی بنا پر عشا کی نماز مغرب کی نماز سے پهلے پڑھ لے اور نماز کے بعد اس امر کی جانب متوجه هو تو اس کی نماز صحیح هے اور ضروری هے که مغرب کی نماز اس کے بعد پڑھے۔

746۔ اگر کوئی شخص مغرب کی نماز پڑھنے سے پهلے بھول کر عشا کی نماز پڑھنے میں مشغول هو جائے اور نماز کے دوران اسے پته چلے که اس نے غلطی کی هے اور ابھی وه چوتھی رکعت کے رکوع تک نه پهنچا هو تو ضروری هے که مغرب کی نماز کی طرف نیت پھیرلے اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں عشا کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جاچکا هو تو اسے عشا کی نماز قرار دے اور ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز بجالائے۔

747۔ عشا کی نماز کا مختار شخص کے لئے آدھی رات هے اور رات کا حساب سورج غروب هونے کی ابتدا سے طلوع فجر تک هے۔

748۔ اگر کوئی شخص اختیاری حالت میں مغرب اور عشا کی نماز آدھی رات تک نه پڑھے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که اذان صبح سے پهلے قضا اور ادا کی نیت کئے بغیر ان نمازوں کو پڑھے۔

صبح کی نماز کا وقت

749۔ صبح کی اذان کے قریب مشرق کی طرف سے ایک سفیدی اوپر اٹھتی هے، جسے فجر اول کها جاتا هے جب یه سفید پھیل جائے تو فجر دوم اور صبح کی نماز کا اول وقت هے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلتے تک هے۔

اوقات نماز کے احکام

750۔ انسان نماز میں اس وقت مشغول هو سکتا هے جب اسے یقین هو جائے که وقت داخل هوگیا هے یا دو عادل مرد وقت داخل هوگیا هے یا دو عادل مرد وقت داخل هونے کی خبر دیں بلکه کسی وقت شناس شخص کی جو قابل اطمینان هو اذان پر یا وقت داخل هونے کے بارے میں گواهی پر بھی اکتفا کیا جاسکتا هے۔

ص:156

751۔ اگر کوئی شخص کسی ذاتی عذر مثلاً بینائی نه هونے یا قید خانے میں هونے کی وجه نماز کا اول وقت داخل هونے کا یقین نه کرسکے تو ضروری هے که نماز پڑھنے میں تاخیر کرے حتی که اسے یقین یا اطمینان هو جائے که وقت داخل هوگیا هے۔ اسی طرح اگر وقت داخل هونے کا یقین هونے میں ایسی چیز مانع هو جو مثلاً بادل، غبار یا ان جیسی دوسری چیزوں (مثلاً دھند) کی طرح عموماً پیش آتی هو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

752۔ اگر مذکوره بالا طریقے سے کسی شخص کو اطمینان هو جائے که نماز کا وقت هو گیا هے اور وه نماز میں مشغول هو جائے لیکن نماز کے دوران اسے پته چلے که ابھی وقت داخل نهیں هوا تو اس کی نماز باطل هے اور اگر نماز کے بعد پته چلے که اس نے ساری نماز وقت سے پهلے پڑھی هے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے لیکن اگر نماز کے دوران اسے پته چلے که وقت داخل هوگیا هے یا نماز کے بعد پته چلے که نماز پڑھتے هوئے وقت داخل هوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح هے۔

753۔ اگر کوئی شخص اس امر کی جانب متوجه نه هو که وقت کے داخل هونے کا یقین کرکے نماز میں مشغول هونا چاهئے لیکن نماز کے بعد اسے معلوم هو که اس نے ساری نماز وقت میں پڑھی هے تو اس کی نماز صحیح هے اور اگر اسے یه پته چل جائے که اس نے وقت سے پهلے نماز پڑھی هے یا اسے یه پته نه چلے که وقت میں پڑھی هے یا وقت سے پهلے پڑھی هے تو اس کی نماز باطل هے بلکه اگر نماز کے بعد اسے پته چلے که نماز کے دوران وقت داخل هوگیا تھا تب بھی اسے چاهئے که اس نماز کو دوباره پڑھے۔

754۔ اگر کسی شخص کو یقین هو که وقت داخل هوگیا هے اور نماز پڑھنے لگے لیکن نماز کے دوران شک کرے که وقت داخل هوا هے یا نهیں تو اس کی نماز باطل هے لیکن اگر نماز کے دوران اسے یقین هو که وقت داخل هوگیا هے اور شک کرے که جتنی نماز پڑھی هے وه وقت میں پڑھی هے یا نهیں تو اس کی نماز صحیح هے۔

755۔ اگرنماز کا وقت اتنا تنگ هو که نماز کے بعد مستحب افعال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھنی پڑتی هو تو ضروری هے که وه مستحب امور کو چھوڑ دے مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجه سے نماز کا کچھ حصه وقت کے بعد پڑھنا پڑتا هو تو اسے چاهئے که قنوت نه پڑھے۔

756۔ جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت هو اسے چاهئے که نماز ادا کی نیت سے پڑھے البته اسے جان بوجھ کر نماز میں اتنی تاخیر نهیں کرنی چاهئے۔

ص:157

757۔ جو شخص سفر میں نه هو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت هو تو اسے چاهئے که ظهر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھے لیکن اگر اس کے پاس اس سے کم وقت هو تو اسے چاهئے که ظهر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھے لیکن اگر اس کے پاس اس سے کم وقت هو تو اسے چاهئے که صرف عصر کی نماز پڑھے اور بعد میں ظهر کی نماز قضا کرے اور اسی طرح اگر آدھی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت هو تو اسے چاهئے که مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس کم هو تو اسے چاهئے که صرف عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر نماز مغرب پڑھے۔

758۔ جو شخص سفر میں هو اگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تین رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت هو تو اسے چاهئے که ظهر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت هو تو چاهئے که صرف عصر پڑھے اور بعد میں نماز ظهر کی قضا کرے اور اگر آدھی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت هو تو اسے چاهئے که مغرب اور عشا کی نماز پڑھے اور اگر نماز کے تین رکعت کے برابر وقت باقی هو تو اسے چاهئے که پهلے عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز بجا لائے تاکه نماز مغرب کی ایک رکعت وقت میں انجام دی جائے، اور اگر نماز کی تین رکعت سے کم وقت باقی هو تو ضروری هے که پهلے عشا کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے اور اگر عشا کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم هو جائے که آدھی رات هونے میں ایک رکعت یا اس سے زیاده رکعتیں پڑھنے کے لئے وقت باقی هے تو اسے چاهئے که مغرب کی نماز فوراً ادا کی نیت سے بجالائے۔

759۔ انسان کے لئے مستحب هے که نماز اول وقت میں پڑھے اور اس کے متعلق بهت زیاده تاکید کی گئی هے اور جتنا اول وقت کے قریب هو بهتر هے ماسوا اس کے که اس میں تاخیر کسی وجه سے بهتر هو مثلاً اس لئے انتظار کرے که نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔

760۔ جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر هو که اگر اول وقت میں نماز پڑھنا چاهے تو تیمم کر کے نماز پڑھنے پر مجبور هو اور اسے علم هو که اس کا عذر آخر وقت تک باقی رهے گا یا آخر وقت تک عذر کے دور هونے سے مایوس هو تو وه اول وقت میں تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا هے لیکن اگر مایوس نه هو تو ضروری هے که عذر دور هونے تک انتظار کرے اور اگر اس کا عذر دور نه هو تو آخر وقت میں ماز پڑھے اور یه ضروری نهیں که اس قدر انتظار کرے که نماز کے صرف واجب افعال انجام دے سکے بلکه اگر اس کے پاس مستحبات نماز مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کے لئے بھی وقت هو تو وه تیمم کرکے ان مستحبات کے

ص:158

ساتھ نماز ادا کر سکتا هے اور تیمم کے علاوه دوسری مجبوریوں کی صورت میں اگرچه عذر دور هونے سے مایوس نه هوا هو اس کے لئے جائز هے که اول وقت میں نماز پڑھے۔ لیکن اگر وقت کے دوران اس کا عذر دور هو جائے تو ضروری هے که دوباره نماز پڑھے۔

761۔ اگر ایک شخص نماز کے مسائل اور شکیات اور سهویات کا علم نه رکھتا هو اور اسے اس بات کا احتمال هو که اسے نماز کے دوران ان مسائل میں سے کوئی نه کوئی مسئله پیش آئے گا اور اس کے یاد نه کرنے کی وجه سے کسی لازمی حکم کی مخالفت هوتی هو تو ضروری هے که انهیں سیکھنے کے لئے نماز کو اول وقت سے موخر کر دے لیکن اگر اسے امید هو که صحیح طریقے سے نماز انجام دے سکتا هے۔ اور اول وقت میں نماز پڑھنے میں مشغول هو جائے پس اگر نماز میں کوئی ایسا مسئله پیش نه آئے جس کا حکم نه جانتا هو تو اس کی نماز صحیح هے۔ اور اگر کوئی ایسا مسئله پیش آجائے جس کا حکم نه جانتا هو تو اس کے لئے جائز هے که جن دو باتوں کا احتمال هو ان میں سے ایک عمل کرے اور نماز ختم کرے تاهم ضروری هے که نماز کے بعد مسئله پوچھے اور اگر اس کی نماز باطل ثابت هو تو دوباره پڑھے اور اگر صحیح هو تو دوباره پڑھنا لازم نهیں هے۔

762۔ اگر نماز کو وقت وسیع هو اور قرض خواه بھی اپنے قرض کا مطالبه کرے تو اگر ممکن هو تو ضروری هے که پهلے قرضه ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کام پیش آجائے جسے فوراً بجا لانا ضروری هو تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے مثلاً اگر دیکھے که مسجد نجس هوگئی هے تو ضروری هے که پهلے مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر مذکوروه بالا دونوں صورتوں میں پهلے نماز پڑھے تو گناه کا مرتکب هوگا لیکن اس کی نماز صحیح هوگی۔

وه نمازیں جو ترتیب سے پڑھنی ضروری هیں

763۔ ضروری هے که انسان نماز عصر، نماز ظهر کے بعد اور نماز عشا، نماز مغرب کے بعد پڑھے اور اگر جان بوجھ کر نماز عصر نماز ظهر سے پهلے اور نماز عشا نماز مغرب سے پهلے پڑھے تو اس کی نماز باطل هے۔

764۔ اگر کوئی شخص نماز ظهر کی نیت سے نماز پڑھنی شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے که نماز ظهر پڑھ چکا هے تو وه نیت کو نماز عصر کی جانب نهیں موڑ سکتا بلکه ضروری هے که نماز توڑ کر نماز عصر پڑھے اور مغرب اور عشا کی نماز میں بھی یهی صورت هے۔

ص:159

765۔ اگر نماز عصر کے دوران کسی شخص کو یقین هو که اس نے نماز ظهر نهیں پڑھی هے اور وه نیت کو نماز ظهر کی طرف موڑ دے تو جونهی اسے یاد آئے که وه نماز ظهر پڑھ چکا هے تو نیت کو نماز عصر کی طرف موڑ دے اور نماز مکمل کرے۔ لیکن اگر اس نے نماز کے بعض اجزاء کو ظهر کی نیت سے انجام نه دیا هو یا ظهر کی نیت سے انجام دیا هو تو اس صورت میں ان اجزا کو عصر کی نیت سے دوباره انجام دے لیکن اگر وه جز ایک رکعت هو تو پھر هر صورت میں نماز باطل هے۔ اسی طرح اگر وه جز ایک رکعت کا رکوع هو یا دور سجدے هوں تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل هے۔

766۔ اگر کسی شخص کو نماز عصر کے دوران شک هو که اس نے نماز ظهر پڑھی هے یا نهیں تو ضروری هے که عصر کی نیت سے نماز تمام کرے اور بعد میں ظهر کی نماز پڑھے لیکن اگر وقت اتنا کم هو که نماز پرھنے کے بعد سورج ڈوب جاتا هو اور ایک رکعت نماز کے لئے بھی وقت باقی نه بچتا هو تو لازم نهیں هے که نماز ظهر کی قضا پڑھے۔

767۔ اگر کسی شخص کو نماز عشا کےدوران شک هو جائے که اس نے مغرب کی نماز پڑھی هے یا نهیں تو ضروری هے که عشا کی نیت سے نماز ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز پڑھے۔ لیکن اگر وقت اتنا کم هو که نماز ختم هونے کے بعد آدھی رات هو جاتی هو اور ایک رکعت نماز کا وقت بھی نه بچتا هو تو نماز مغرب کی قضا اس پر لازم نهیں هے۔

768۔ اگر کوئی شخص نماز عشا کی چوتھی رکعت کے رکوع میں پهنچنے کے بعد شک کرے که اس نے نماز مغرب پڑھی هے یا نهیں تو ضروری هے که نماز مکمل کرے۔ اور اگر بعد میں مغرب کی نماز کے لئے وقت باقی هو تو مغرب کی نماز بھی پڑھے۔

769۔ اگر کوئی شخص ایسی نماز جو اس نے پڑھ لی هو احتیاط دوباره پڑھے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے که اس نماز سے پهلے والی نماز نهیں پڑھی تو وه نیت کو اس نماز کی طرف نهیں موڑ سکتا۔ مثلاً جب وه نماز عصر احتیاطاً پڑھ رها هو اگر اسے یاد آئے که اس نے نماز ظهر نهیں پڑھی تو وه نیت کو نماز ظهر کی طرف نهیں موڑ سکتا۔

770۔ نماز قضا کی نیت نماز ادا کی طرف اور نماز مستحب کی نیت نماز واجب کی طرف موڑنا جائز نهیں هے۔

771۔ اگر ادا نماز کا وقت وسیع هو تو انسان نماز کے دوران یه یاد آنے پر که اس کے ذمے کوئی قضا نماز هے، نیت کو نماز قضا کی طرف موڑ سکتا هے بشرطیکه نماز قضا کی طرف نیت موڑنا ممکن هو۔ مثلاً اگر وه نماز ظهر میں مشغول هو تو نیت کو قضائے صبح کی طرف اسی صورت میں موڑ سکتا هے که تیسری رکعت کے رکوع میں داخل نه هوا هو۔

ص:160

مستحب نمازیں

772۔ مستحب نمازیں بهت سی هیں جنهیں نفل کهتے هیں، اور مستحب نمازوں میں سے روانه کے نفلوں کی بهت زیاده تاکید کی گئی هے۔ یه نمازیں روز جمعه کے علاوه چونتیس رکعت هیں جن میں سے آٹھ رکعت ظهر کی، آٹھ رکعت عصر کی، چار رکعت مغرب کی، دو رکعت عشا کی، گیاره رکعت نماز شب (یعنی تهجد) کی اور دو رکعت صبح کی هوتی هیں اور چونکه احتیاط واجب کی بنا پر عشا کی دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنی ضروری هیں اس لئے وه ایک رکعت شمار هوتی هے۔ لیکن جمعه کے دن ظهر اور عصر کی سوله رکعت نفل پر چار رکعت کا اضافه هو جاتا هے۔ اور بهتر هے که یه پوری کی پوری بیس رکعتیں زوال سے پهلے پڑھی جائیں۔

773۔ نماز شب کی گیاره رکعتوں میں سے آتھ رکعتیں نافله شب کی نیت سے اور دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھنی ضروری هیں اور نافله شب کا مکمل طریقه دعا کی کتابوں میں مذکور هے۔

774۔ نفل نمازیں بیٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی هیں لیکن بعض فقها کهتے هیں که اس صورت میں بهتر هے که بیٹھ کر پڑھی جانے والی نفل نماز کی دو رکعتوں کو ایک رکعت شمار کیا جائے مثلاً جو شخص ظهر کی نفلیں جس کی آٹھ رکعتیں هیں بیٹھ کر پڑھنا چاهے تو اس کے لئے بهتر هے که سوله رکعتیں پڑھے اور اگر چاهے که نماز وتر بیٹھ کر پڑھے تو ایک ایک رکعت کی دو نمازیں پڑھے۔ تاهم اس کام کا بهتر هونا معلوم نهیں هے۔ لیکن رجا کی نیت سے انجام دے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

775۔ ظهر اور عصر کی نفلی نمازیں سفر میں نهیں پڑھنی چاهئیں اور اگر عشا کی نفلیں رجا کی نیت سے پڑھی جائے تو کوئی حرج نهیں هے۔

روزانه کی نفلوں کا وقت

776۔ظهر کی نفلیں نماز ظهر سے پهلے پڑھی جاتی هے۔ اور جهاں تک ممکن هو اسے ظهر کی کی نماز سے پهلے پڑھا جائے اور اس کا وقت اول ظهر سے لے کر ظهر کی نماز ادا کرنے تک باقی رهتا هے۔ لیکن اگر کوئی شخص ظهر کی نفلیں اس وقت تک موخر کر دے که شاخص کے سایه کی وه مقدار جو ظهر کے بعد پیدا هو ساتھ میں سے دو حصوں کے برابر هو جائے مثلاً شاخص کی لمبائی ساتھ بالشت اور سایه کی مقدار دو بالشت هو تو اس صورت میں بهتر یه هے که انسان ظهر کی نماز پڑھے۔

ص:161

777۔عصر کی نفلیں عصر کی نماز سے پهلے پڑھی جاتی هیں۔ اور جب تک ممکن هو اسے عصر کی نماز سے پهلے پڑھا جائے۔ اور اس کا وقت عصر کی نماز ادا کرنے تک باقی رهتا هے۔ لیکن اگر کوئی شخص عصر کی نفلیں اس وقت تک موخر کر دے که شاخص کے سایه کی وه مقدار جو ظهر کی بعد پیدا هو سات میں سے چار حصوں تک پهنچ جائے تو اس صورت میں بهتر هے که انسان عصر کی نماز پڑھے۔ اور اگر کوئی شخص ظهر یا عصر کی نفلیں اس کے مقرره وقت کے بعد پڑھنا چاهے تو ظهر کی نفلیں نماز ظهر کے بعد اور عصر کی نفلیں نماز عصر کے بعد پڑھ سکتا هے لیکن احتیاط کی بنا پر ادا اور قضا کی نیت نه کرے۔

778۔مغرب کی نفلوں کا وقت نماز مغرب ختم هونے کے بعد هوتا هے اور جهاں تک ممکن هو اسے مغرب کی نماز کے فوراً بعد بجالائے لیکن اگر کوئی شخص اس سرخی کے ختم هونے تک جو سورج کے غروب هونے کے بعد آسمان میں دکھائی دیتی هے مغرب کی نفلوں میں تاخیر کرے تو اس وقت بهتر یه هے که عشا کی نماز پڑھے۔

779۔ عشا کی نفلوں کا وقت نماز عشا ختم هونے کے بعد سے آدھی رات تک هے اور بهتر هے که نماز عشا ختم هونے کے فوراً بعد پڑھی جائے۔

780۔ صبح کی نفلیں صبح کی نماز سے پهلے پڑھی جاتی هے اور اس کا وقت نماز شب کا وقت ختم هونے کے بعد سے شروع هوتا هے اور صبح کی نماز کے ادا هونے تک باقی رهتا هے اور جهاں تک ممکن هو صبح کی نفلیں صبح کی نماز سے پهلے پرھنی چاهئیں لیکن اگر کوئی شخص صبح کی نفلیں مشرق کی سرخی ظاهر هونے تک نه پڑھے تو اس صورت میں بهتر یه هے که صبح کی نماز پڑھے۔

781۔ نماز شب کا اول وقت مشهور قول کی بنا پر آدھی رات هے اور صبح کی اذان تک اس کا وقت باقی رهتا هے اور بهتر یه هے که صبح کی اذان کے قریب پڑھی جائے۔

782۔ مسافر اور وه شخص جس کے لئے نماز شب کا آدھی رات کے بعد ادا کرنا مشکل هو اسے اول شب میں بھی ادا کر سکتا هے۔

نماز غُفیله

ص:162

783۔ مشهور مستحب نمازوں میں سے ایک نماز غفیله هے جو مغرب اور عشا کی نماز کے درمیان پڑھی جاتی هے ۔ اس کی پهلی رکعت میں الحمد کے بعد کسی دوسری سورۃ کے بجائے یه آیت پڑھنی ضروری هے: وَذَا النُّونِ اِذ ذَّھَبَ مُغَاضِباً اَن لَّن نَّقدِ عَلَیهِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ فَاستَجَبناَ لَهُ وَنَجَّینٰهُ مِنَ الغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نُنجِی المُئومِنِینَ۔ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد بجائے کسی اور سورۃ کے یه آیت پڑھے: وَ عِندَهُ مَفَاتِحُ الغَیبِ لاَ یَعلَمُهَآ اِلاَّ ھُوَ وَیَعلَمُ مَا فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَمَا تَسقُطُ مِن وَّرَقَۃٍ اِلاَّ یَعلَمُھَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِی ظُلُمٰتِ الاَرضِ وَلاَ رَظبٍ وَّلاَ یَابِسٍ اِلاَّ فِی کِتٰبٍ مُّبِینٍ ۔ اور اس کے قنوت میں یه پڑھے : اللّٰھُمّ اِنِّیٓ اَسئَلُکَ بِمَفَاتِحِ الغَیبِ الَّتِی لاَ یَعلَمُھَآ اِلاَّ اَنتَ تُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اَن تَفعَلَ بِی کَذَا وَ کَذَا۔ اور کَذَا وَ کَذَا کی بجائے اپنی حاجتیں بیان کرے اور اسکے بعد کهے : اللّٰھُمَّ اَنتَ وَلِیُّ نِعمَتِی وَالقَادِرُ عَلٰی طَلِبَتِی تَعلَمُ حَاجَتِی فَاَسئَلُکَ بِحَقِّ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ عَلِیهِ وَعِلَیھِمُ السَّلاَمُ لَمَّا قَضَیتَهَالِی۔

قبلے کے احکام

784۔ خانه کعبه جو مکه مکرمه میں هے وه همارا قبله هے لهذا (هرمسلمان کے لئے) ضروری هے که اس کے سامنے کھڑے هو کر نماز پڑھے لیکن جو شخص اس سے دور هو اگر وه اس طرح کھڑا هو که لوگ کهیں که قبلے کی طرف منه کر کے نماز پڑھ رها هے تو کافی هے اور دوسرے کام جو قبلے کی طرف منه کر کے انجام دینے ضروری هیں۔ مثلاً حیوانات کو ذبح کرنا۔ ان کا بھی یهی حکم هے۔

785۔ جو شخص کھڑا هو کر واجب نماز پرھ رها هو ضروری هے که اس کا سینه اور پیٹ قبلے کی طرف هو۔۔۔۔ بلکه اس کا چهره قبلے سے بهت زیاده پھرا هوا نهیں هونا چاهئے اور احتیاط مستحب یه هے که اس کے پاوں کی انگلیاں بھی قبله کی طرف هوں۔

786۔ جس شخص کو بیٹھ کر نماز پڑھنی هو ضروری هے که اس کا سینه اور پیٹ نماز کے وقت قبلے کی طرف هو۔ بلکه اس کا چهره بھی قبلے سے بهت زیاده پھرا هوا نه هو۔

787۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نه پڑھ سکے ضروری هے که دائیں پهلو کے بل یوں لیٹے که اس کے بدن کا اگلا حصه قبلے کی طرف هو اور اگر یه ممکن نه هو تو ضروری هے بائیں پهلو کے بل یوں لیئے که اس کے بدن کا اگلا حصه قبلے کی طرف هو۔ اور

ص:163

جب تک دائیں پهلو کی بل لیٹ کر نماز پڑھنا ممکن هوا احتیاط لازم کی بنا پر بائیں پهلو کے بل لیٹ کر نماز نه پڑھے۔ اور اگر یه دونوں صورتیں ممکن نه هوں تو ضروری هے که پشت کے بل یوں لیٹے که اسکے پاوں کے تلوے قبلے کی طرف هوں۔

788۔ نماز احتیاط، بھولا هوا سجده اور بھولا هوا تشهد قبلے کی طرف منه کر کے ادا کرنا ضروری هے اور احتیاط مستحب کی بنا پر سجده سهو بھی قبلے کی طرف منه کر کے ادا کرے۔

789۔ مستحب نماز راسته چلتے هوئے اور سواری کی حالت میں پڑھی جاسکتی هے اور اگر انسان ان دونوں حالتوں میں مستحب نماز پڑھے تو ضروری نهیں که اس کا منه قبلے کی طرف هو۔

790۔ جو شخص نماز پڑھنا چاهے ضروری هے که قبلے کی سمت کا تعین کرنے کے لئے کوشش کرے تاکه قبلے کی سمت کے بارے میں یقین یا ایسی کیفیت جو یقین کے حکم میں هو۔ مثلاً دو عادل آدمیوں کی گواهی۔۔۔ حاصل کرلے اور اگر ایسا نه کر سکے تو ضروری هے که مسلمانوں کی مسجد کے محراب سے یا ان کی قبروں سے یا دوسرے طریقوں سے جو گمان پیدا هو اس کے مطابق عمل کرے حتی که اگر کسی ایسے فاسق یا کافر کے کهنے پر جو سائنسی قواعد کے ذریعے قبلے کا رخ پهچانتا هو قبلے کے بارے میں گمان پیدا کرے تو وه بھی کافی هے۔

791۔ جو شخص قبلے کی سمت کے بارے میں گمان کرے، اگر وه اس سے قوی ترگمان پیدا کر سکتا هو تو وه اپنے گمان پر عمل نهیں کرسکتا مثلاً اگر مهمان، صاحب خانه کے کهنے پر قبلے کی سمت کے بارے میں گمان پیدا کرلے لیکن کسی دوسرے طریقے پر زیاده قوی گمان پیدا کر سکتا هو تو اسے صاحب خانه کے کهنے پر عمل نهیں کرنا چاهئے۔

792۔ اگر کسی کے پاس قبلے کا رخ متعین کرنے کا کوئی ذریعه نه هو (مثلاً قطب نما) یا کوشش کے باوجود اس کا گمان کسی ایک طرف نه جاتا هو تو اس کا کسی بھی طرف منه کرکے نماز پڑھنا کافی هے اور احتیاط مستحب یه هے که اگر نماز کا وقت وسیع هو تو چار نمازیں چاروں طرف منه کر کے پڑھے (یعنی وهی ایک نماز چار مرتبه ایک ایک سمت کی جانب منه کرکے پڑھے)۔

793۔ اگر کسی شخص کو یقین یا گمان هو که قبله دو میں میں هے ایک طرف هے تو ضروری هے که دونوں طرف منه کر کے نماز پڑھے۔

ص:164

794۔ جو شخص کئی طرف منه کر کے نماز پڑھنا چاهتا هو اگر وه ایسی دو نمازیں پڑھنا چاهے جو ظهر اور عصر کی طرح یکے بعد دیگرے پڑھنی ضروری هیں تو احتیاط مستحب یه هے که پهلی نماز مختلف سمتوں کی طرف منه کرکے پڑھے اور بعد میں دوسری نماز شروع کرے۔

795۔ جس شخص کو قبلے کی سمت کا یقین نه هو اگر وه نماز کے علاوه کوئی ایسا کام کرنا چاهے جو قبلے کی طرف منه کر کے کرنا ضروری هے مثلاً اگر وه کوئی حیوان ذبح کرنا چاهتا هو تو اسے چاهئے که گمان پر عمل کرے اور اگر گمان پیدا کرنا ممکن نه هو تو جس طرف منه کرکے وه کام انجام دے درست هے۔

نماز میں بدن کا ڈھانپنا

792۔ ضروری هے که مرد خواه اسے کوئی بھی نه دیکھ رها هو نماز کی حالت میں اپنی شرمگاهوں کو ڈھانپے اور بهتر یه هے که ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈھانپے۔

797۔ضروری هے که عورت نماز کے وقت اپنا تمام بدن حتٰی که سر اور بال بھی ڈھانپے اور احتیاط مُستحب یه هے که پاوں کے تلوے بھی ڈھانپے البته چهرے کا جتنا حصه وضو میں دھویا جاتا هے اور کلائیوں تک هاتھ اور ٹخنوں تک پاوں کا ظاهری حصه ڈھانپا ضروری نهیں هے لیکن یه یقین کرنے کے لئے که اس نے بدن کی واجب مقدار ڈھانپ لی هے ضروری هے که چهرے کی اطراف کا کچھ حصه اور کلائیوں سے نیچے کا کچھ حصه بھی ڈھانپے۔

798۔ جب انسان بھولے هوئے سجدے یا بھولے هوئے تشهد کی قضا بجا لا رها هو تو ضروری هے که اپنے آپ کو اس طرح ڈھانپے جس طرح نماز کے وقت ڈھانپا جاتا هے اور احتیاط مستحب یه هے که سجده سهو ادا کرنے کے وقت بھی اپنے آپ کو ڈھانپے۔

799۔ اگر انسان جان بوجھ کر یا مسئله نه جاننے کی وجه سے غلطی کرتے هوئے نماز میں اپنی شرم گاه نه ڈھانپے تو اس کی نماز باطل هے۔

800۔اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پته چلے که اس کی شرم گاه ننگی هے تو ضروری هے که اپنی چھپائے اور اس پر لازم نهیں هے که نماز دوباره پڑھے لیکن احتیاط یه هے که جب اسے پته چلے که اس کی شرم گاه ننگی هے تو اس کے بعد نماز کا

ص:165

کوئی جز انجام نه دے۔لیکن اگر اسے نماز کے بعد پته چلے که نماز کے دوران اس کی شرم گاه ننگی تھی تو اس کی نماز صحیح هے۔

801۔ اگر کسی شخص کالباس کھڑے هونے کی حالت میں اس کی شرمگاه کو ڈھانپ لے لیکن ممکن هو که دوسری حالت میں مثلاً رکوع اور سجود کی حالت میں نه ڈھانپے تو اگر شرمگاه کے ننگا هونے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈھانپ لے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که اس لباس کے ساتھ نماز نه پڑھے۔

802۔ انسان نماز میں اپنے آپ کو گھاس پھونس اور درختوں کے (بڑے) پتوں سے ڈھانپ سکتا هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که ان چیزوں سے اس وقت ڈھانپے جب اس کے پاس کوئی اور چیز نه هو۔

803۔ انسان کے پاس مجبوری کی حالت میں شرم گاه چھپانے کے لئے کوئی چیز نه هو تو اپنی شرم گاه کی کھال نمایاں نه هونے کے لئے گارا یا اس جیسی کسی دوسری چیز کولیت پوت کر اسے چھپائے۔

804۔ اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز ایسی نه هو جس سے وه نماز میں اپنے آپ کو ڈھانپے اور ابھی وه ایسی چیز ملنے سے مایوس بھی نه هوا هو تو بهتر یه هے که نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اگر کوئی چیز نه ملے تو آخر وقت میں اپنے وظیفے کے مطابق نماز پڑھے لیکن اگر وه اول وقت میں نماز پڑھے اور اس کا عذر آخر وقت تک باقی نه رهے تو احتیاط واجب یه هے که نماز کو دوباره پڑھے۔

805۔ اگر کسی شخص کے پاس جو نماز پڑھنا چاهتا هو اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لئے درخت کے پتے، گھاس، گارا یا دلدل نه هو اور آخرت وقت تک کسی ایسی چیز کے ملنے سے مایوس هو جس سے وه اپنے آپ کو چھپا سکے اگر اسے اس بات کا اطمینان هو که کوئی شخص اسے نهیں دیکھے گا تو وه کھڑا هو کر اسی طرح نماز پڑھے جس طرح اختیاری حالت میں رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھتے هیں لیکن اگر اسے اس بات کا احتمال هو که کوئی شخصاسے دیکھ لے گا تو ضروری هے که اس طرح نماز پڑھے که اس کی شرم گاه نظر نه آئے مثلاً بیٹھ کر نماز پڑھے یا رکوع اور سجود جو اختیاری حالت میں انجام دیتے هیں ترک کرے اور رکوع اور سجود کو اشارے سے بجالائے اور احتیاط لازم یه هے که ننگا شخص نماز کی حالت میں اپنی شرمگاه کو اپنے بعض اعضا کے ذریعے مثلاً بیٹھا هو تو دونوں رانوں سے اور کھڑا هو تو دونوں هاتھوں سے چھپالے۔

نمازی کے لباس کی شرطیں

ص:166

806۔ نماز پڑھنے والے کے لباس کی چھ شرطیں هیں :

(اول) پاک هو۔

(دوم) مُباح هو۔

(سوم) مُردار کے اجزا سے نه بنا هو۔

(چهارم) حرام گوشت حیوان کے اجزا سے نه بنا هو۔

(پنجم اور ششم) اگر نماز پڑھنے والا مرد هو تو اس کا لباس خالص ریشم اور زر دوزی کا بنا هو نه هو۔ ان شرطوں کی تفصیل آئنده مسائل میں بتائی جائے گی۔

پهلی شرط

807۔ نماز پڑھنے والے کا لباس پاک هونا ضروری هے۔ اگر کوئی شخص حالت اختیار میں نجس بدن یا نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل هے۔

808۔ اگر کوئی شخص اپنی کوتاهی کی وجه سے یه نه جانتا هو که نجس بدن اور لباس کے ساتھ نماز باطل هے اور نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

809۔ اگر کوئی شخص مسئله نه جاننے کی وجه سے کوتاهی کی بنا پر کسی نجس چیز کے بارے میں یه جانتا هو که نجس هے مثلاً یه نه جانتا هو که کافر کا پسینه نجس هے اور اس (پسینے) کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز احتیاط لازم کی بنا پر باطل هے۔

810۔اگر کسی شخص کو یه یقین هو که اس کا بدن یا لباس نجس نهیں هے اور اسکے نجس هونے کے بارے میں اسے نماز کے بعد پته چلے تو اس کی نماز صحیح هے۔

811۔ اگر کوئی شخص یه بھول جائے که اس کا بدن یا لباس نجس هے اور اسے نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے چنانچه اگر اس نے لاپروائی اور اهمیت نه دینے کی وجه سے بھلا دیا هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که وه نماز کو دوباره پڑھے

ص:167

اور اگر وقت گزر گیا هو تو اس کی قضا کرے۔ اور اس صورت کے علاوه ضروری نهیں هے که وه نماز کو دوباره پڑھے۔ لیکن اگر نماز کے دوران اسے یاد آئے تو ضروری هے که اس حکم پر عمل کرے جو بعد والے مسئلے میں بیان کیا جائے گا۔

812۔ جو شخص وسیع وقت میں نماز میں مشغول هو اگر نماز کے دوران اسے پته چلے که اس کا بدن یا لباس نجس هے اور اسے یه احتمال هو که نماز شروع کرنے کے بعد نجس هوا هے تو اس صورت میں اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتار دینے سے نماز نه ٹوٹے تو نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چیز نے اس کی شرم گاه کو ڈھانپ رکھا هو تو لباس اتار دے لیکن جب صورت یه هو که اگر بدن یا لباس پاک کرے یا اگر لباس بدلے یا اتارے تو نماز ٹوٹتی هو یا اگر لباس اتارے تو ننگا هو جاتا هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که دوباره پاک لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔

813۔جو شخص تنگ وقت میں نماز میں مشغول هو اگر نماز کے دوران اسے پته چلے که اس کا لباس نجس هے اور اسے یه احتمال هو که نماز شروع کرنے کے بعد نجس هوا هے تو اگر صورت یه هو که لباس پاک کرنے یا بدلنے یا اتارنے سے نماز نه ٹوٹتی هو اور وه لباس اتار سکتا هو تو ضروری هے که لباس کو پاک کرے یا بدلے یا اگر کسی اور چیز نے اس کی شرم گاه کو ڈھانپ رکھا هو تو لباس اتار دے اور نماز ختم کرے لیکن اگر کسی اور چیز نے اس کی شرمگاه کو نه ڈھانپ رکھا هو اور وه لباس پاک نه کر سکتا هو اور اسے بدل بھی نه سکتا هو تو ضروری هے که اسی نجس لباس کے ساتھ نماز کو ختم کرے۔

814۔کوئی شخص جو تنگ وقت میں نماز میں مشغول هو اور نماز کے دوران پته چلے که اس کا بدن نجس هے اور اسے یه احتمال هو که نماز شروع کرنے کے بعد نجس هوا هے تو اگر صورت یه هو که بدن پاک کرنے سے نماز نه ٹوٹتی هو تو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز ٹوٹتی هو تو ضروری هے که اسی حالت میں نماز ختم کرے اور اس کی نماز صحیح هے۔

815۔ ایسا شخص جو اپنے بدن یا لباس کے پاک هونے کے بارے میں شک کرے اور جستجو کے بعد کوئی چیز نه پا کر اور نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پته چلے که اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحیح هے اور اگر اس نے جستجو نه کی هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھے اور اگر وقت گزر گیا هو تو اس کی قضا کرے۔

816۔ اگر کوئی شخص اپنا لباس دھوئے اور اسے یقین هو جائے که لباس پاک هو گیا هے ، اس کے ساتھ نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پته چلے که پاک نهیں هوا تھا تو اس کی نماز صحیح هے۔

ص:168

817۔ اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس میں خون دیکھے اور اسے یقین هو که یه نجس خون میں سے نهیں هے مثلاً اسے یقین هو که مچھر کا خون هے لیکن نماز پڑھنے کے بعد اسے پته چلے که یه اس خون میں سے هے جس کے ساتھ نماز نهیں پڑھی جاسکتی تو اس کی نماز صحیح هے۔

818۔ اگر کسی شخص کو یقین هو که اس کے بدن یا لباس میں جو خون هے وه ایسا نجس خون هے جس کے ساتھ نماز صحیح هے مثلاً اسے یقین هو که زخم اور پھوڑے کا خون هے لیکن نماز کے بعد اسے پته چلے که یه ایسا خون هے جس کے ساتھ نماز باطل هے تو اس کی نماز صحیح هے۔

819۔ اگر کوئی شخص یه بھول جائے که ایک چیز نجس هے اور گیلا بدن یا گیلا لباس اس چیز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم میں وه نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر اس کا گیلا بدن اس چیز کو چھو جائے جس کا نجس هونا وه بھول گیا هے اور اپنے آپ کو پاک کئے بغیر وه غسل کرے اور نماز پڑھے تو اس کا غسل اور نماز باطل هیں ما سوا اس صورت کے که غسل کرنے سے بدن بھی پاک هو جائے۔ اور اگر وضو کے گیلے اعضا کا کوئی حصه اس چیز سے چھو جائے جس کے نجس هونے کے بارے میں وه بھول گیا هے اور اس سے پهلے که وه اس حصے کو پاک کرے وه وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل هیں ماسوا اس صورت کے که وضو کرنے اسے وضو کے اعضا بھی پاک هو جائیں۔

820۔ جس شخص کے پاس صرف ایک لباس هو اگر اس کا بدن اور لباس نجس هو جائیں اور اس کے پاس ان میں سے ایک کو پاک کرنے کے لئے پانی هو تو احتیاط لازم یه هے که بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔ اور لباس کو پاک کرکے نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نهیں هے۔ لیکن اگر لباس کی نجاست بدن کی نجاست سے بهت زیاده هو یا لباس کی نجاست بدن کی نجاست کے لحاظ سے زیاده شدید هو تو اسے اختیار هے که لباس اور بدن میں سے جسے چاهے پاک کرے۔

821۔جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوه کوئی لباس نه هو ضروری هے که نجس لباس کے ساتھ نماز پرھے اور اس کی نماز صحیح هے۔

ص:169

822۔ جس شخص کے پاس دو لباس هوں اگر وه یه جانتا هو که ان میں سے ایک نجس هے لیکن یه نه جانتا هو که کون سانجس هے اور اس کے پاس وقت هو تو ضروری هے که دونوں لباس کے ساتھ نماز پڑھے (یعنی ایک دفعه ایک لباس پهن کر اور ایک دفعه دوسرا لباس پهن کر دو دفعه وهی نماز پڑھے) مثلاً اگر وه ظهر اور عصر کی نماز پڑھنا چاهے تو ضروری هے که هر ایک لباس سے ایک نماز ظهر کی اور ایک نماز عصر کی پڑھے لیکن اگر وقت تنگ هو تو جس لباس کے ساتھ نماز پڑھ لے کافی هے۔

دوسری شرط

823۔ نماز پڑھنے والے کا لباس مباح هونا ضروری هے۔ پس اگر ایک ایسا شخص جو جانتا هو که غصبی لباس پهننا حرام هے یا کوتاهی کی وجه سے مسئله کا حکم نه جانتا هو اور جان بوجھ کر اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔ لیکن اگر لباس میں وه چیزیں شامل هوں جو تنها شرمگاه کو نهیں ڈھانپ سکتیں اور اسی طرح وه چیزیں جن سے اگرچه شرمگاه کو ڈھانپا جاسکتا هو لیکن نماز پڑھنے والے نے انهیں حالت نماز میں نه پهن رکھا هو مثلاً بڑا رومال یا لنگوٹی جو حبیب میں رکھی هو اور اسی طرح وه چیزیں جنهیں نمازی نے پهن رکھا هو اگرچه اس کے پاس ایک مباح سترپوش بھی هو۔ ایسی تمام صورتوں میں ان (اضافی)چیزوں کے غصبی هونے سے نماز میں کوئی فرق نهیں پڑتا اگرچه احتیاط ان کے ترک کر دینے میں هے۔

824۔جو شخص یه جانتا هو که غصبی لباس پهننا حرام هے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم نه جانتا هو اگر وه جان بوجھ کر غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو جیسا که سابقه مسئلے میں تفصیل سے بتایا گیا هے احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

825۔ اگر کوئی شخص نه جانتا هو یا بھول جائے که اس کا لباس غصبی هے اور اس لباس کے ساتھ نماز پرھے تو اس کی نماز صحیح هے۔ لیکن اگر وه شخص خود اس لباس کو غصب کرے اور پھر بھول جائے که اس غصب کیا هے اور اسی لباس میں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

726۔ اگر کسی شخص کو علم نه هو یا بھول جائے که اس کا لباس غصبی هے لیکن نماز کے دوران اسے پته چل جائے اور اس کی شرمگاه کسی دوسری چیز سے ڈھکی هوئی هو اور وه فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغیر غصبی لباس اتار سکتا هو تو ضروری هے که

ص:170

فوراً اس لباس کو اتار دے اور اگر اس کی شرمگاه کسی دوسری چیز سے ڈھکی هوئی نه هو یا وه غصبی لباس کو فوراً نه اتار سکتا هو یا اگر لباس کا اتارنا نماز کے تسلسل کو توڑ دیتا اور صورت یه هو که اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے جتنا وقت بھی هو تو ضروری هے که نماز کو توڑ دے اور اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے جو غصبی نه هو اور اگر اتنا وقت نه هو تو ضروری هے که نماز کی حالت میں لباس اتار دے اور "برهنه لوگوں کی نماز کے مطابق" نماز ختم کرے۔

827۔ اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کے لئے غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے یا مثال کے طور پر غصبی لباس کے ساتھ اس لئے نماز پڑھے تاکه چوری نه هوجائے تو اس کی نماز صحیح هے۔

828۔ اگر کوئی شخص اس رقم لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نه کیا هو تو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے وهی حکم هے جو غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا هے۔

تیسری شرط

829۔ ضروری هے که نماز پڑھنے والے کا لباس اور هر وه چیز جو شرم گاه چھپانے کے لئے ناکافی هے احتیاط لازم کی بنا پر جهنده خون والے مرده حیوان کے اجزاء سے نه بنی هو بلکه اگر لباس اس مرده حیوان مثلاً مچھلی اور سانپ سے تیار کیا جائے جس کا خون جهنده نهیں هوتا تو احتیاط مستحب یه هے که اس کے ساتھ نماز نه پڑھی جائے۔

830۔ اگر نجس مردار کی ایسی چیز مثلاً گوشت اور کھال جس میں روح هوتی هے نماز پڑھنے والے کے همراه هو تو کچھ بعید نهیں هے که اس کی نماز صحیح هو۔

831۔ اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چیز جس میں روح نهیں هوتی مثلاً بال اور ان نماز پڑھنے والے کے همراه هو یا اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے جو ان چیزوں سے تیار کیا گیا هو تو اس کی نماز صحیح هے۔

چوتھی شرط

832۔ ضروری هے که نماز پڑھنے والے کا لباس ۔۔۔ ان چیزوں کے علاوه جو صرف شرم گاه چھپانے کے لئے ناکافی هے مثلاً جراب ۔۔۔ جانوروں کے اجزا سے تیار کیا هوا نه هو بلکه احتیاط لازم کی بنا پر هر اس جانور کے اجزا سے بنا هوا نه هو جس کا گوشت کھانا حرام هے اسی طرح ضروری هے که نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن حرام گوشت جانور کے پیشاب،

ص:171

پاخانے، پسینے، دودھ اور بال سے آلوده نه هو لیکن اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال اس کے لباس پر لگا هو تو کوئی حرج نهیں هے۔ اسی طرح نماز گزار کے همراه ان میں سے کوئی چیز اگر ڈبیه (یا بوتل وغیره) میں بند رکھی هو تب بھی کوئی حرج نهیں هے۔

833۔ حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منه یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی هو اور اگر وه تر هو تو نماز باطل هے لیکن اگر خشک هو اور اس کا عین جزو زائل هو گیا هو تو نماز صحیح هے۔

834۔ اگر کسی کا بال یا پسینه یا منه کا لعاب نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پرلگا هو تو کوئی حرج نهیں۔ اسی طرح مردارید، موم اور شهد اس کے همراه هو تب بھی نماز پڑھنا جائز هے۔

835۔ اگر کسی کو شک هو که لباس حلال گوشت جانور سے تیار کیا گیا هے یا حرام گوشت جانور سے تو خواه وه مقامی طور پر تیار کیا گیا هو یا زر آمد کیا گیا هو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز هے۔

836۔ یه معلوم نهیں هے که سیپی حرام گوشت حیوان کے اجزا میں سے هے لهذا سیپ (کے بٹن وغیره) کے ساتھ نماز پڑھنا جائز هے۔

837۔ سمور کا لباس ( ) اور اسی طرح گلهری کی پوستین پهن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں لیکن احتیاط مستحب یه هے که گلهری کی پوستین کے ساتھ نماز نه پڑھی جائے۔

838۔ اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساتھ نماز پڑھے جس کے متعلق وه نه جانتا هو یا بھول گیا هو که حرام گوشت جانور سے تیار هوا هے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس نماز کو دوباره پڑھے۔

پانچویں شرط

839۔ زر دوزی کا لباس پهننا مردوں کے لئے حرام هے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل هے لیکن عورتوں کے لئے نماز میں یا نماز کے علاوه اس کے پهننے میں کوئی حرج نهیں هے۔

ص:172

840۔ سونا پهننا مثلاً سونے کی زنجیر گلے میں پهننا، سونے کی انگوٹھی هاتھ میں پهننا، سونے کی گھڑی کلائی پر باندھنا اور سونے کی عینک لگانا مردوں کے لئے حرام هے اور ان چیزوں کے ساتھ نماز پڑھنا باطل هے۔لیکن عورتوں کے لئے نماز میں اور نماز کے علاوه ان چیزوں کے استعمال میں کوئی حرج نهیں۔

841۔ اگر کوئی شخص نه جانتا هو یا بھول گیا هو تو اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا هے یاشک رکھتا هو اور اس کے ساتھ ناز پڑھے تو اس کی نماز صحیح هے۔

چھٹی شرط

842۔نماز پڑھنے والے مرد کا لباس حتی که احتیاط مستحب کی بنا پر ٹوپی اور ازار بند بھی خالص ریشم کا نهیں هونا چاهئے اور نماز کے علاوه بھی خالص ریشم پهننا مردوں کے لئے حرام هے۔

843۔ اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ خالص ریشم کا هو تو مرد کے لئے اس کا پهننا حرام اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل هے۔

844۔ جب کسی لباس کے بارے میں یه علم نه هو که خالص ریشم کا هے یا کسی اور چیز کا بنا هوا هے تو اس کا پهننا جائز هے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نهیں هے۔

845۔ ریشمی رومال یا اسی جیسی کوئی چیز مرد کی جیب میں هو تو کوئی حرج نهیں هے اور وه نماز کو باطل نهیں کرتی۔

846۔ عورت کے لئے نماز میں یا اس کے علاوه ریشمی لباس پهننے میں کوئی حرج نهیں هے۔

847۔ مجبوری کی حالت میں غصبی اور خالص ریشمی اور زردوزی کا لباس پهننے میں کوئی حرج نهیں۔ علاوه ازیں جو شخص یه لباس پهننے پر مجبور هو اور اس کے پاس کوئی اور لباس نه هو تو وه ان لباسوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتا هے۔

848۔ اگر کسی شخص کے پاس غصبی لباس کے علاوه کوئی لباس نه هو اور وه یه لباس پهننے پر مجبور نه هو تو اسے چاهئے که ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برهنه لوگوں کے لئے بتائے گئے هیں۔

ص:173

849۔ اگر کسی کے پاس درندے کے اجزا سے بنے هوئے لباس کے علاوه اور کوئی لباس نه هو اور وه یه لباس پهننے پر مجبور هو تو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا هے اور اگر لباس پهننے پر مجبور نه هو تو اسے چاهئے که ان احکام کے مطابق نماز پڑھنے جو برهنه لوگوں کے لئے بتائے گئے هیں۔ اور اگر اس کے پاس غیر شکاری حرام جانوروں کے اجزا سے تیار شده لباس کے سوا دوسرا لباس نه هو اور وه اس لباس کو پهننے پر مجبور نه هو تو احتیاط لازم یه هے که دو دفعه نماز پڑھے۔ ایک بار اسی لباس کے ساتھ اور ایک بار اس طریقے کے مطابق جس کا ذکر برهنه لوگوں کی نماز میں بیان هو چکا هے۔

850۔ اگر کسی مرد کے پاس خالص ریشمی یا زربفتی لباس کے سوا کوئی لباس نه هو اور وه لباس پهننے پر مجبور نه هو تو ضروری هے که ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برهنه لوگوں کے لئے بتائے گئے هیں۔

851۔ اگر کسی کے پاس ایسی کوئی چیز نه هو جس سے وه اپنی شرم گاهوں کو نماز میں ڈھانپ سکے تو واجب هے که ایسی چیز کرائے پر لے یا خریدے لیکن اگر اس پر اس کی حیثیت سے زیاده خرچ اٹھتا هو یا صورت یه هو که اس کام کے لئے خرچ برداشت کرے تو اس کی حالت تباه هو جائے تو ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برهنه لوگوں کے لئے بتائے گئے هیں۔

852۔ جس شخص کے پاس لباس نه هو اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادھار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس پر گراں نه گزرتا هو تو ضروری هے که اسے قبول کرلے بلکه اگر ادھار لینا یا بخشش کے طور پر طلب کرنا اس کے لئے تکلیف کا باعث نه هو تو ضروری هے که جس کے پاس لباس هو اس سے ادھار مانگ لے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔

853۔ اگر کوئی شخص ایسا لباس پهننا چاهے جس کا کپڑا، رنگ یا سلائی رواج کے مطابق نه هو تو اگر اس کا پهننا اس کی شان کے خلاف اور توهین کا باعث هو تو اس کا پهننا حرام هے۔ لیکن اگر وه اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کے پاس شرمگاه چھپانے کے لئے فقط وهی لباس هو تو اس کی نماز صحیح هے۔

854۔ اگر مرد زنانه لباس پهنے اور عورت مردانه لباس پهنے اور اسے اپنی زینت قرار دے تو احتیاط کی بنا پر اس کی پهننا حرام هے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنا هر صورت میں صحیح هے۔

855۔ جس شخص کو لیٹ کر نماز پرھنی چاهے اگر اس کا لحاف درندے کے اجزا سے بلکه احتیاط کی بنا پر هر حرام گوشت جانور کے اجزاء سے بنا هو یا نس یا ریشمی هو اور اسے پهناوا کها جاسکے تو اس میں بھی نماز جائز نهیں هے۔ لیکن اگر اسے محض

ص:174

اپنے اوپر ڈال لیا جائے تو کوئی حرج نهیں اور اس سے نماز باطل نهیں هوگی البته گدیلے کے استمعال میں کسی حالت میں بھی کوئی قباحت نهیں ماسوا اس کے که اس کا کچھ حصه انسان اپنے اوپر لپیٹ لے اور اسے عرف عام میں پهناوا کها جائے تو اس صورت میں اس کا بھی وهی حکم هے جو لحاف کا هے۔

جن صورتوں میں نمازی کا بدن اور لباس پاک هونا ضروری نهیں

856۔تین صورتوں میں جن کی تفصیل نیچے بیان کی جارهی هے اگر نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس نجس بھی هو تو اس کی نماز صحیح هے۔

(اول) اس کے بدن کے زخم، جراحت یا پھوڑے کی وجه سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔

(دوم) اس کے بدن یا لباس پر درهم۔ جس کی مقدار تقریباً انگوٹھے کے اوپر والی گره کے برابر هے۔ کی مقدار سے کم خون لگ جائے۔

(سوم) وه نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور هو۔

علاوه ازیں ایک اور صورت میں اگر نماز پڑھنے والے کا لباس نجس بھی هو تو اس کی نماز صحیح هے اور وه صورت یه هے که اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزه اور ٹوپی نجس هو۔

ان چاروں صورتوں کے مفصل احکام آئنده مسئلوں میں بیان کئے جائیں گے۔

857۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر زخم یا جراحت یا پھوڑے کا خون هو تو وه اس خون کے ساتھ یا اس وقت تک نماز پڑھ سکتا هے جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھیک نه هو جائے اور اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پیپ هو جو خون کے ساتھ نکلی هو یا ایسی دوائی هو جو زخم پر لگائی گئی هو اور نجس هو گئی هو تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

858۔ اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر ایسی خراش یا زخم کا خون لگا هو جو جلدی ٹھیک هو جاتا هو اور جس کا دھونا آسان هو تو اس کی نماز باطل هے۔

ص:175

859۔ اگر بدن یا لباس کی ایسی جگه جو زخم سے فاصلے پر هو زخم کی رطوبت سے نجس هو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نهیں هے لیکن اگر لباس یا بدن کی وه جگه جو عموماً زخم کی رطوبت سے آلوده هوجاتی هے اس زخم کی رطوبت سے نجس هو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں۔

860۔ اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو اس بواسیر سے جس کے مسے باهرنه هوں یا اس زخم سے جو منه اور ناک وغیره کے اندر هو خون لگ جائے تو ظاهر یه هے که وه اس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا هے البته اس بواسیر کے خون کے ساتھ نماز پڑھنا بلا اشکال جائز هے جس کے مسے مقعد کے باهر هوں۔

861۔ اگر کوئی ایسا شخص جس کے بدن پر زخم هو اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو درهم سے زیاده هو اور یه نه جانتا هو که یه خون زخم کا هے یا کوئی اور خون هے تو احتیاط واجب یه هے که اس خون کے ساتھ نماز نه پڑھے۔

862۔ اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم هوں اور وه ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک هوں که ایک زخم شمار هوتے هوں تو جب تک وه زخم ٹھیک نه هوجائیں ان کے خون کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں لیکن اگر وه ایک دوسرے سے اتنے دور هوں که ان میں سے هر زخم ایک علیحده زخم شمار هو تو جو زخم ٹھیک هو جائے ضروری هے که نماز کے لئے بدن اور لباس کو دھو کر اس زخم کے خون سے پاک کرے۔

863۔ اگر نماز پرھنے والے کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حیض کا خون لگا هو تو اس کی نماز باطل هے۔ اور احتیاط کی بنا پر نجس حیوانات مثلاً سّور، مُردار اور حرام گوشت جانور نیز نفاس اور استحاضه کی بھی یهی صورت هے لیکن کوئی دوسرا خون مثلاً انسان یا حلال گوشت حیوان کے خون کی چھینٹ بدن کے کئی حصوں پر لگی هو لیکن اس کی مجموعی مقدار ایک درهم سے کم هو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں هے۔

864۔ جو خون بغیر استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف پهنچ جائے وه ایک خون شمار هوتا هے لیکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ سے خون آلوده هو جائے تو ضروری هے که ان میں سے هر ایک کو علیحده خون شمار کیا جائے۔ پس اگر وه خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچھلی طرف هے مجموعی طور پر ایک درهم سے کم هو تو اس کے ساتھ نماز صحیح هے اور اگر اس سے زیاده هو تو اس کے ساتھ نماز باطل هے۔

ص:176

865۔ اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پهنچ جائے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پهنچ جائے تو ضروری هے که هر خون کو الگ شمار کیا جائے۔ لیکن اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون اس طرح مل جائے که لوگوں کے نزدیک ایک خون شمار هو تو اگر کپڑے کا خون اور استر کا خون ملا کر ایک درهم سے کم هو تو اس کے ساتھ نماز صحیح هے اور اگر زیاده هو تو اس کے ساتھ نماز باطل هے۔

866۔ اگر بدن یا لباس پر ایک درهم سے کم خون هو اور کوئی رطوبت اس خون سے مل جائے اور اس کے اطراف کو آلوده کر دے تو اس کے ساتھ نماز باطل هے خواه خون اور جو رطوبت اس سے ملی هے ایک درهم کے برابر نه هوں لیکن اگر رطوبت صرف خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلوده نه کرے تو ظاهر یه هے که اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں هے۔

867۔ اگر بدن یا لباس پر خون نه هو لیکن رطوبت لگنے کی وجه سے خون سے نجس هو جائیں تو اگرچه جو مقدار نجس هوئی هے وه ایک درهم سے کم هو تو اس کے ساتھ بھی نماز نهیں پڑھی جاسکتی۔

868۔ بدن یا لباس پر جو خون هو اگر وه ایک درهم سے کم هو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پیشاب کا ایک قطره اس پر گر جائے اور وه بدن یا لباس سے لگ جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نهیں بلکه اگر بدن اور لباس تک نه بھی پهنچے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس میں نماز پڑھنا صحیح نهیں هے۔

769۔ اگر نماز پڑھنے والے کو چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزه جس سے شرمگاه کو نه ڈھانپا جاسکتا هو نجس هو جائے اور وه احتیاط لازم کی بنا پر وه نجس مردار یا نجس العین حیوان مثلاً کتے (کے اجزا) سے نه بنا هو تو اس کے ساتھ نماز صحیح هے اور اسی طرح اگر نجس انگوٹھی کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو کوئی حرج نهیں۔

870۔ نجس چیز مثلاً نجس رومال، چابی اور چاقو کا نماز پڑھنے والے کے پاس هونا جائز هے اور بعید نهیں هے که مطلق نجس لباس (جو پهنا هوا نه هو) اس کے پاس هو تب بھی نماز کو کوئی ضرر نه پهنچائے (یعنی اس کے پاس هوتے هوئے نماز صحیح هو)۔

ص:177

871۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که جو خون اس کے لباس یا بدن پر هے وه ایک درهم سے کم هے لیکن اس امر کا احتمال هو که یه اس خون میں سے هے جو معاف نهیں هے تو اس کے لئے جائز هے که اس خون کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کا دھونا ضروری نهیں هے۔

872۔ اگر وه خون جو ایک شخص کے لباس یا بدن پر هو ایک درهم سے کم هو اور اسے یه علم نه هو که یه اس خون میں سے هے جو معاف نهیں هے، نماز پڑھ لے اور پھر اسے پته چلے که یه اس خون میں سے تھا جو معاف نهیں هے، تو اس کے لئے دوباره نماز پڑھنا ضروری نهیں اور اس وقت بھی یهی حکم هے جب وه یه سمجھتا هو که خون ایک درهم سے کم هے اور نماز پڑھ لے اور بعد میں پته چلے که اس کی مقدار ایک درهم یا اس سے زیاده تھی، اس صورت میں بھی دوباره نماز پڑھنے کی ضروری نهیں هے۔

وه چیزیں جو نمازی کے لباس میں مستحب هیں

873۔ چند چیزیں نمازی کے لباس میں مستحب هیں که جن میں سے تحت الحنک کے ساتھ عمامه، عبا، سفید لباس، صاف ستھرا لباس، خوشبو لگانا اور عتیق کی انگوٹھی پهننا هے۔

وه چیزیں جو نمازی کے لباس میں مکروه هیں

874۔ چند چیزیں نمازی کے لباس میں مکروه هیں جن میں سے سیاه، میلا، تنگ، شرابی کا لباس، یا اس شخص کا لباس پهننا جو نجاست سے پرهیز نه کرتا هو اور ایسا لباس پهننا جس پر چهرے کی تصویر بنی هو اس کے علاوه لباس کے بٹن کھلے هونا اور ایسی انگوٹھی پهننا جس پر چهرے کی تصویر بنی هو فقهاء کی نظر میں مکروه شمار کیا گیا هے۔

نماز کے پڑھنے کی جگه

نماز پڑھنے والے کی جگه کی سات شرطیں هیں :

پهلی شرط یه هے که وه مباح هو۔

ص:178

875۔ جو شخص غصبی جگه پر اگرچه وه قالین، تخت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں هوں، نماز پڑھ رها هو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل هے لیکن غصبی چھت کے نیچے اور غصبی خیمے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں هے۔

876۔ ایسی جگه نماز پڑھنا جس کی منفعت کسی اور کی ملکیت هو تو منفعت کے مالک کی اجازت کے بغیر وهاں نماز پڑھنا غصبی جگه پر نماز پڑھنے کے حکم میں هے مثلاً کرائے کے مکان میں مالک مکان یا اس شخص کی اجازت کے بغیر که جس نے وه مکان کرائے پر لیا هے نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔ اور اگر مرنے والے نے وصیت کی هو که اس کے مال کا تیسرا حصه فلاں کام پر خرچ کیا جائے تو جب تک که تیسرے حصے کو جدا نه کریں اس کی جائداد میں نماز نهیں پڑھی جاسکتی۔

877۔ اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا هو اور دوسرا شخص اسے باهر نکال کر اس کی جگه پر قبضه کرے اور اس جگه نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح هے اگرچه اس نے گناه کیا هے۔

878۔اگر کوئی شخص کسی ایسی جگه نماز پڑھے جس کے غصبی هونے کا اسے علم نه هو اور نماز کے بعد اسے پته چلے یا ایسی جگه نماز پڑھے جس کے غصبی هونے کو وه بھول گیا هو اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے۔ لیکن کوئی اسیا شخص جس نے خود وه جگه غصب کی هو اور وه بھول جائے اور وهاں نماز پڑھے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل هے۔

879۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که یه جگه غصبی هے اور اس میں تصرف حرام هے لیکن اسے یه علم نه هو که غصبی جگه پر نماز پڑھنے میں اشکال هے اور وه وهاں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

880۔ اگر کوئی شخص واجب نماز سواری کی حالت میں پڑھنے پر مجبور هو اور سواری کا جانور یا اس کی زین یا نعل غصبی هو تو اس کی نماز باطل هے اور اگر وه شخص اس جانور پر سواری کی حالت میں مستحب نماز پڑھنا چاهے تو اس کا بھی یهی حکم هے۔

881۔ اگر کوئی شخص کسی جائداد میں دوسرے کے ساتھ شریک هو اور اس کا حصه جدا نه هو تو اپنے شراکت دار کی اجازت کے بغیر وه اس جائداد پر تصرف نهیں کر سکتا اور اس پر نماز نهیں پڑھ سکتا۔

882۔اگر کسی شخص ایک ایسی رقم سے کوئی جائداد خریدے جس کا خمس اس نے ادا نه کیا هو تو اس جائداد پر اس کاتصرف حرام هے۔ اور اس میں اس کی نماز جائز نهیں۔

ص:179

883۔اگر کسی جگه کا مالک زبان سے نماز پڑھنے کی اجازت دے دے اور انسان کو علم هو که وه دل سے راضی نهیں هے تو اس کی جگه پر نماز پڑھنا جائز نهیں اور اگر اجازت نه دے لیکن انسان کو یقین هو که وه دل سے راضی هے تو نماز پرھنا جائز هے۔

884۔ جس متوفی نے زکوۃ اور اس جیسے دوسرے مالی واجبات ادا نه کئے هوں اس کی جائداد میں تصرف کرنا اگر واجبات کی ادائیگی میں مانع نه هو مثلاً اس کے گھر میں ورثاء کی اجازت سے نماز پڑھی جائے تو اشکال نهیں هے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وه رقم جو متوفی کے ذمے هو ادا کر دے یا یه ضمانت دے که ادا کر دے گا تو اس کی جائداد میں تصرف کرنے میں بھی کوئی اشکال نهیں هے۔

885۔ اگر متوفی لوگوں کا مقروض هو تو اس کی جائداد میں تصرف کرنا اس مردے کی جائداد میں تصرف کرنے کے حکم میں هے جس نے زکوٰۃ اور اس کی مانند دوسرے مالی واجبات ادا نه کئے هوں۔

886۔اگر متوفی کے ذمے قرض نه هو لیکن اس کے بعض ورثاء کم سن یا مجنون یا غیر حاضر هوں تو ان کے ولی کی اجازت کے بغیر اس کی جائداد میں تصرف حرام هے اور اس میں نماز جائز نهیں۔

887۔کسی کی جائداد میں نماز پڑھنا اس صورت میں جائز هے جبکه اس کا مالک صریحاً اجازت دے یا کوئی ایسی بات کهے جس سے معلوم هو که اس نے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی هے مثلاً اگر کسی شخص کو اجازت دے که اس کی جائداد میں بیھٹے یا سوئے تو اس سے سمجھا جاسکتا هے که اس نے نماز پڑھنے کی اجازت بھی دے دی هے یا مالک کے راضی هونے پر دوسری وجوهات کی بناء پر اطمینان رکھتا هو۔

888۔ وسیع و عریض زمین میں نماز پڑھنا جائز هے اگرچه اس کا مالک کم سن یا مجنون هو یا وهاں نماز پڑھنے پر راضی نه هو۔ اسی طرح وه زمینیں که جن کے دروازے اور دیوار نه هوں ان میں ان کے مالک کی اجازت کے بغیر نماز پڑھ سکتے هیں۔ لیکن اگر مالک کمسن یا مجنون هو یا اس کے راضی نه هونے کا گمان هو تو احتیاط لازم یه هے که وهاں نماز یه پڑھی جائے۔

889۔ (دوسری شرط) ضروری هے که نمازی کی جگه واجب نمازوں میں ایسی نه هو که تیز حرکت نمازی کے کھڑے هونے یارکوع اور سجود کرنے میں مانع هو بلکه احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که اس کے بدن کو ساکن رکھنے میں بھی مانع نه هو اور اگر وقت کی تنگی یا کسی اور وجه سے ایسی جگه مثلاً بس، ٹرک، کشتی یاریل گاڑی میں نماز پڑھے تو جس قدر ممکن هو

ص:180

بدن کے ٹھهراو اور قبلے کی سمت کا خیال رکھے اور اگر ٹرانسپورٹ قبلے سے کسی دوسری طرف مڑ جائے تو اپنا منه قبلے کی جانب موڑ دے۔

890۔جب گاڑی، کشتی یاریل گاڑی وغیره کھڑی هوئی هوں تو ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نهیں اور اسی طرح جب چل رهی هوں تو اس حد تک نه هل جل رهی هوں که نمازی بدن کے بدن کے ٹھهراو میں حائل هوں۔

891۔ گندم، جو اور ان جیسی دوسری اجناس کے ڈھیر پر جو هلے جلے بغیر نهیں ره سکتے نماز باطل هے۔ (بوریوں کے ڈھیر مراد نهیں هیں)۔

(تیسری شرط) ضروری هے که انسان ایسی جگه نماز پڑھنے جهاں نماز پوری پڑھ لینے کا احتمال هو۔ ایسی جگه نماز پڑھنا صحیح نهیں هے جس کے متعلق اسے یقین هو که مثلاً هوا اور بارش یا بھیڑ بھاڑ کی وجه سے وهاں پوری نماز نه پڑھ سکے گا گو اتفاق سے پوری پڑھ لے۔

892۔ اگر کوئی شخص ایسی جگه نماز پڑھے جهاں ٹھهرنا حرام هو مثلاً کسی ایسی مخدوش چھت کے نیچے جو عنقریب گرنے والی هو تو گو وه گناه کا مرتکب هوگا لیکن اس کی نماز صحیح هے۔

893۔ کسی ایسی چیز پر نماز پڑھنا صحیح نهیں هے جس پر کھڑا هونا یا بیٹھنا حرام هو مثلا قالین کے ایسے حصے جهاں الله تعالی کا نام لکھا هو۔ چونکه (یه اسم خدا) قصد قربت کرنے میں مانع هے اس لئے (نماز پڑھنا) صحیح نهیں هے۔

(چوتھی شرط) جس جگه انسان نماز پڑھے اس کی چھت اتنی نیچی نه هو که سیدھا کھڑا نه هوسکے اور نه هی وه جگه اتنی مختصر هو که رکوع اور سجدے کی گنجائش نه هو۔

894۔ اگر کوئی شخص ایسی جگه نماز پڑھنے پر مجبور هو جهاں بالکل سیدھا کھڑا هونا ممکن نه هو تو اس کے لئے ضروری هے که بیٹ کر نماز پڑھے اور اگر رکوع اور سجود ادا کرنے کا امکان نه هو تو ان کے لئے سر سے اشاره کرے۔

895۔ ضروری هے که پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله) اور ائمۃ اهل بیت علیهم السلام کی قبر کے آگے اگر ان کی بے حرمتی هوتی هو تو نماز نه پڑھے۔ اس کے علاوه کسی اور صورت میں اشکال نهیں۔

ص:181

(پانچویں شرط) اگر نماز پڑھنے کی جگه نجس هو تو اتنی مرطوب نه هو که اس کی رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس تک پهنچے لیکن اگر سجده میں پیشانی رکھنے کی جگه نجس هو تو خواه وه خشک بھی هو نماز باطل هے اور احتیاط مستحب یه هے که نماز پڑھنے کی جگه هرگز نجس نه هو۔

(چھٹی شرط) احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که عورت مرد سے پیچھے کھڑی هو اور کم از کم اس کے سجده کرنے کی جگه سجدے کی حالت میں مرد کے دو زانوں کے برابر فاصلے پر هو۔

896۔ اگر کوئی عورت مرد کے برابر یا آگے کھڑی هو اور دونوں بیک وقت نماز پڑھنے لگیں تو ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھیں۔ اور یهی حکم هے اگر ایک، دوسرے سے پهلے نماز کے لئے کھڑا هو۔

897۔ اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر کھڑے هوں یا عورت آگے کھڑی هو اور دونوں نماز پڑھ رهے هوں لیکن دونوں کے درمیان دیوار یا پرده یا کوئی اور ایسی چیز حائل هو که ایک دوسرے کونه دیکھ سکیں یا ان کے درمیان دس هاتھ سے زیاده فاصله هو تو دونوں کی نماز صحیح هے۔

(ساتویں شرط) نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگه، دو زانو اور پاوں کی انگلیاں رکھنے جگه سے چار ملی هوئی هوئی انگلیوں کی مقدار سے زیاده اونچی یا نیچی نه هو۔ اس مسئلے کی تفصیل سجدے کے احکام میں آئے گی۔

898۔نا محرم مرد اور عورت کا ایک ایسی جگه هونا جهاں گناه میں مبتلا هونے کا احتمال هو حرام هے اور احتیاط مستحب یه هے که ایسی جگه نماز بھی نه پرھیں۔

899۔ جس جگه ستار بجایا جاتا هو اور اس جیسی چیزیں استعمال کی جاتی هوں وهاں نماز پڑھنا باطل نهیں هے گو ان کا سننا اور استعمال کرنا گناه هے۔

900۔ احتیاط واجب یه هے که اختیار کی حالت میں خانه کعبه کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر واجب نماز نه پڑھی جائے۔ لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی اشکال نهیں هے۔

901۔ خانه کعبه کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر نفلی نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نهیں هے بلکه مستحب هے که خانه کعبه کے اندر هر رکن کے مقابل دو رکعت نماز پڑھی جائے۔

ص:182

وه مقامات جهاں نماز پڑھنا مستحب هے

902۔ اسلام کی مقدس شریعت میں بهت تاکید کی گئی هے که نماز مسجد میں پڑھی جائے۔ دنیا بھر کی ساری مسجدوں میں سب سے بهتر مسجد الحرام اور اس کے بعد مسجد نبوی هے اور اس کے بعد مسجد کوفه اور اس کے بعد بیت المقدس کا درجه هے۔ اس کے بعد شهر کی جامع اور اس کے بعد محلے کی مسجد اور اس کے بعد بازار کی مسجد کا نمبر آتا هے۔

903۔ عورتوں کے لئے بهتر هے که نماز ایسی جگه پڑھیں جو نا محرم سے محفوظ هونے کے لحاظ سے دوسری جگهوں سے بهتر هو خواه وه جگه مکان یا مسجد یا کوئی اور جگه هو۔

904۔ ائمه اهل بیت علیهم السلام کے حرموں میں نماز پڑھنا مستحب هے بلکه مسجد میں نماز پڑھنے سے بهتر هے اور روایت هے که حضرت امیر المومنین علیه السلام کے حرم پاک میں نماز پڑھنا دو لاکھ نمازوں کے برابر هے۔

905۔ مسجد میں زیاده جانا اور اس مسجد میں جانا آباد نه هو (یعنی جهاں لوگ بهت کم نماز پڑھنے آتے هوں) مستحب هے اور اگر کوئی شخص مسجد کے پڑوس میں رهتا هو اور کوئی عذر بھی نه رکھتا هو تو اس کے لئے مسجد کے علاوه کسی اور جگه نماز پڑھنا مکروه هے۔

906۔ جو شخص مسجد میں نه آتا هو، مستحب هے که انسان اس کے ساتھ مل کر کھانا کھائے، اپنے کاموں میں اس سے مشوره نه کرے، اس کے پڑوس میں نه رهے اور نه اس سے عورت کا رشته لے اور نه اسے رشته دے۔ (یعنی اس کا سوشل بائیکاٹ کرے)۔

وه مقامات جهاں نماز پڑھنا مکروه هے

907۔ چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروه هے جن میں سے کچھ یه هیں :

1۔ حمام

2۔ شور زمین

3۔ کسی انسان کے مقابل

ص:183

4۔ اس دروازے کے مقابل جو کھلا هو

5۔ سڑک، اور کوچے میں بشرطیکه گزرنے والوں کے لئے باعث زحمت نه هو اور اگر انهیں زحمت هو تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا حرام هے۔

6۔ آگ اور چراغ کے مقابل

7۔ باورچی خانے میں اور هر اس جگه جهاں آگ کی بھٹی هو۔

8۔ کنویں کے اور ایسے گڑھے کے مقابل جس میں پیشاب کیا جاتا هو۔

9۔ جان دار کے فوٹو یا مجسمے کے سامنے مگر یه که اسے ڈھانپ دیا جائے ۔

10۔ ایسے کمرے میں جس میں جنب شخص موجود هو۔

11۔ جس جگه فوٹو هو خواه هو نماز پڑھنے والے کے سامنے نه هو۔

12۔ قبر کے مقابل

13۔ قبر کے اوپر

14۔ دو قبروں کے درمیان

15۔ قبرستان میں۔

908۔ اگر کوئی شخص لوگوں کی رهگزر پر نماز پڑھ رها هو یا کوئی اور شخص اس کے سامنے کھڑا هو تو نمازی کے لئے مستحب هے که اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اور اگر وه چیز لکڑی یا رسی هو تو بھی کافی هے۔

مسجد کے احکام

ص:184

909۔ مسجد کی زمین، اندرونی اور بیرونی چھت اور اندرونی دیوار کو نجس کرنا حرام هے اور جس شخص کو پته چلے که ان میں سے کوئی مقام نجس هو گیا هے تو ضروری هے که اس کی نجاست کو فوراً دور کرے اور احتیاط مستحب یه هے که مسجد کے دیوار کا بیرونی حصے کو بھی نجس نه کیا جائے اور اگر وه نجس هو جائے تو نجاست کا هٹانا لازم نهیں لیکن اگر دیوار کا بیرونی حصه نجس کرنا مسجد کی بے حرمتی کا سبب هو تو قطعاً حرام هے اور اس قدر نجاست کا زائل کرنا که جس سے بے حرمتی ختم هو جائے ضروری هے۔

910۔ اگر کوئی شخص مسجد کو پاک کرنے پر قادر نه هو یا اسے مدد کی ضرورت هو جو دستیاب نه هو تو مسجد کا پاک کرنا اس پر واجب نهیں لیکن یه سمجھتا هو که اگر دوسرے کو اطلاع دے گا تو یه کام هو جائے گا تو ضروری هے که اسے اطلاع دے۔

911۔ اگر مسجد کی کوئی جگه نجس هوگئی هو جسے کھودے یا توڑے بغیر پاک کرنا ممکن نه هو تو ضروری هے که اس جگه کو کھودیں یا توڑیں جب که جزوی طور پر کھودنا یا توڑنا پڑے یا بے حرمتی کا ختم هونا ممکل طور پر کھودنے یا توڑنے پر موقف هو ورنه توڑنے میں اشکال هے۔ جو جگه کھودی گئی هو اسے پر کرنا اور جو جگه توڑی گئی هو اسے تعمیر کرنا واجب نهیں هے لیکن مسجد کی کوئی چیز مثلاً اینٹ اگر نجس هوگئی هو تو ممکنه صورت میں اسے پانی سے پاک کر کے ضروری هے که اس کی اصلی جگه پر لگا دیا جائے۔

912۔ اگر کوئی شخص مسجد کو غصب کرے اور اس کی جگه گھر یا ایسی هی کوئی چیز تعمیر کرے یا مسجد اس قدر ٹوٹ پھوٹ جائے که اسے مسجد نه کها جائے تب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر اسے نجس نه کرے لیکن اسے پاک کرنا واجب نهیں۔

913۔ ائمه اهل بیت علیهم السلام میں سے کسی امام کا حرم نجس کرنا حرام هے اگر ان کے حرموں میں سے کوئی حرم نجس هو جائے اور اس کا نجس رهنا اس کی بے حرمتی کا سبب هو تو اس کا پاک کرنا واجب هے بلکه احتیاط مستحب یه هے که خواه بے حرمتی نه هوتی هو تب بھی پاک کیا جائے۔

914۔ اگر مسجد کی چٹائی نجس هو جائے تو ضروری هے که اسے دھو کر پاک کریں اور اگر چٹائی کا نجس هونا مسجد کی بے حرمتی شمار هوتا هو اور وه دھونے سے خراب هوتی هو اور نجس حصے کا کاٹ دینا بهتر هو تو ضروری هے که اسے کاٹ دیا جائے۔

ص:185

915۔ اگر کسی عین نجاست یا نجس چیز کو مسجد میں لے جانے سے مسجد کی بے حرمتی هوتی هو تو اس کا مسجد میں لے جانا حرام هے بلکه احتیاط مستحب یه هے که اگر بے حرمتی نه هوتی هو تب بھی عین نجاست کو مسجد میں نه لے جایا جائے۔

916۔ اگر مسجد میں مجلس عزا کے لئے قنات تانی جائے اور فرش بچھایا جائے اور سیاه پردے لٹکائے جائیں اور چائے کا سامان اس کے اندر لے جایا جائے تو اگر یه چیزیں مسجد کے تقدس کو پامال نه کرتی هوں اور نماز پڑھنے میں بھی مانع نه هوتی هوں تو کوئی حرج نهیں۔

917۔ احتیاط واجب یه هے که مسجد کی سونے سے زینت نه کریں اور احتیاط مستحب یه هے که مسجد کو انسان اور حیوان کی طرح جانداروں کی تصویروں سے بھی نه سجایا جائے۔

918۔ اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ بھی جائے تب بھی نه تو اسے بیچا جاسکتا هے اور نه هی ملکیت اور سٹرک میں شامل کیا جاسکتا هے۔

919۔ مسجد کے دروازوں، کھڑکیوں اور دوسری چیزوں کا بیچنا حرام هے اور اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ جائے تب بھی ضروری هے که ان چیزوں کو اسی مسجد کی مرمت کے لئے استمعال کیا جائے اور اگر اس مسجد کے کام کی نه رهی هوں تو ضروری هے که کسی دوسری مسجد کے کام میں لایا جائے اور اگر دوسری مسجدوں کے کام کی بھی نه رهی هوں تو انهیں بیچا جاسکتا هے اور جو رقم حاصل هو وه بصورت امکان اسی مسجد کی مرمت پرورنه کسی دوسری مسجد کی مرمت پر خرچ کی جائے۔

920۔ مسجد کا تعمیر کرنا اور ایسی مسجد کی مرمت کرنا جو مخدوش هو مستحب هے اور اگر مسجد اس قدر مخدوش هو که اس کی مرمت ممکن نه هو تو اسے گرا کر دوباره تعمیر کیا جاسکتا هے بلکه اگر مسجد ٹوٹی پھوٹی نه هو تب بھی اسے لوگوں کی ضرورت کی خاظر گرا کر وسیع کیا جاسکتا هے۔

921۔ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا اور اس میں چراغ جلانا مستحب هے اور اگر کوئی شخص مسجد میں جانا چاهے تو مستحب هے که خوشبو لگائے اور پاکیزه اور قیمتی لباس پهنے اور اپنے جوتے کے تلووں کے بارے میں تحقیق کرے که کهیں نجاست تو نهیں لگی هوئی۔ نیز یه که مسجد میں داخل هوتے وقت پهلے دایاں پاوں اور باهر نکلتے وقت پهلے بایاں پاوں رکھے اور اسی طرح مستحب هے که سب لوگوں سے پهلے مسجد میں آئے اور سب سے بعد میں نکلے۔

ص:186

922۔ جب کوئی شخص مسجد میں داخل هو تو مستحب هے که دو رکعت نماز تحیت و احترام مسجد کی نیت سے پڑھے اور اگر واجب نماز یا کوئی اور مستحب نماز پڑھے تب بھی کافی هے۔

923۔ اگر انسان مجبور نه هو تو مسجد میں سونا، دنیاوی کاموں کے بارے میں گفتگو کرنا اور کوئی کام کاج کرنا اور ایسے اشعار پڑھنا جن میں نصیحت اور کام کی کوئی بات نه هو مکر وه هے۔ نیز مسجد میں تھوکنا، ناک کی آلائش پھینکنا اور بلغم تھوکنا بھی مکروه هے بلکه صورتوں حرام هے۔ اور اس کے علاوه گمشده (شخص یا چیز) کو تلاش کرتے هوئے آواز کو بلند کرنا بھی مکروه هے۔ لیکن اذان کے لئے آواز بلند کرنے کی ممانعت نهیں هے۔

924۔ دیوانے کی مسجد میں داخل هونے دینا مکروه هے اور اسی اس بچے کو بھی داخل هونے دینا مکروه هے جو نمازیوں کے لئے باعث زحمت هو یا احتمال هو که وه مسجد کو نجس کر دے گا۔ ان دو صورتوں کے علاوه بچے کو مسجد میں آنے دینے میں کوئی حرج نهیں۔ اس شخص کا مسجد میں جانا بھی مکروه هے جس نے پیاز، لهسن یا ان سے مشابه کوئی چیز کھائی هو که جس کی بو لوگوں کو ناگوار گزرتی هو۔

اذان اور اقامت

925۔ هر مرد اور عورت کے لئے مستحب هے که روزانه کی واجب نمازوں سے پهلے اذان اور اقامت کهے اور ایسا کرنا دوسری واجب یا مستحب نمازوں کے لئے مشروع نهیں لیکن عید فطر اور عید قربان سے پهلے جب که نماز با جماعت پڑھیں تو مستحب هے که تین مرتبه "اَلصَّلوٰۃ" کهیں۔

926۔ مستحب هے که بچے کی پیدائش کے پهلے دن یا ناف اکھڑے سے پهلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کهی جائے۔

927۔ اذان اٹھاره جملوں پر مشتمل هے۔

اَللّٰهُ اَکبَرُ اَللّٰهُ اَکبَرُ اَللّٰهُ اَکبَرُ اَللّٰهُ اَکبَرُ

اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ الله

ص:187

اَشھَدُ اَن مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ اَشھَدُ اَن مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ

حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ

حَیَّ عَلَی الفلاَحِ حَیَّ عَلَی الفَلاَحِ

حَیَّ عَلَی خَیرِالعَمَلِ حَیَّ عَلٰی خَیرِ العَمَلِ

اَللّٰهُ اَکبَرُ اَللّٰهُ اَکبَرُ

لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ

اور اقامت کے ستره جملے هیں یعنی اذان کی ابتدا سے دو مرتبه اَللّٰهُ اَکبَرُ اور آخر سے ایک مرتبه لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ کم هو جاتا هے اور حَیَّ عَلٰی خَیرِالعَمَلِ کهنے کے بعد دو دفعه قَدقَامَتِ الصَّلاَۃُ کا اضافه کر دینا ضروری هے۔

928۔ اَشھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَلِیُّ اللهِ اذان اور اقامت کا جزو نهیں هے لیکن اگر اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ کے بعد قربت کی نیت سے کها جائے تو اچھا هے۔

اذان اور اقامت کا ترجمه

اَللهُ اَکبَرُ یعنی خدائے تعالی اس سے بزرگ تر هے که اس کی تعریف کی جائے اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ یعنی میں گواهی دیتا هوں که یکتار اور بے مثل الله کے علاوه کوئی اور پرستش کے قابل نهیں هے۔

اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ یعنی میں گواهی دیتا هوں که حضرت محمد بن عبدالله (صلی الله علیه وآله) الله کے پیغمبر اور اسی کی طرف سے بھیجے هوئے هیں۔

اَشھَدُ اَنَّ عَلِیًّا اَمِیرَالمُئومِنِینَ وَلِیُّ اللهِ یعنی گواهی دیتا هوں که حضرت علی علیه السلام مومنوں کے امیر اور تمام مخلوق پر الله کے ولی هیں۔

حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ یعنی نماز کی طرف جلدی کرو۔

ص:188

حَیَّ عَلَی الفلاَحِ یعنی رستگاری کے لئے جلدی کرو۔

حَیَّ عَلَی خَیرِالعَمَلِ یعنی بهترین کام کے لئے جو که نماز هے جلدی کرو۔

قَدقَامَتِ الصَّلاَۃُ یعنی التحقیق نماز قائم هوگئی۔

لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ یعنی یکتا اور بے مثل الله کے علاوه کوئی اور پرستش کے قابل نهیں۔

929۔ ضروری هے که اذان اور اقامت کے جملوں کے درمیان زیاده فاصله نه هو اور اگر ان کے درمیان معمول سے فاصله رکھا جائے تو ضروری هے که اذان اور اقامت دوباره شروع سے کهی جائیں۔

930۔ اگر اذان یا اقامت میں آواز کو گلے میں اس طرح پھیرے که غنا هو جائے یعنی اذان اور اقامت اس طرح کهے جیسا لهو و لعب اور کھیل کود کی محفلوں میں آواز نکالنے کا دستور هے تو وه حرام هے اور اگر غنا نه هو تو مکروه هے۔

931۔ تمام صورتوں میں جب که نمازی دو نمازوں کو تلے اوپر ادا کرے اگر اس نے پهلی نماز کے لئے اذان کهی هو تو بعد والی نماز کے لئے اذان ساقط هے۔ خواه دو نمازوں کا جمع کرنا بهتر هو یا نه هو مثلاً عرفه کے دن جو نویں ذی الحجه کا دن هے ظهر اور عصر کی نمازوں کا جمع کرنا اور عید قربان کی رات میں مغرب اور عشا کی نمازوں کا جمع کرنا اس شخص کے لئے جو مشعرالحرام میں هو۔ ان صورتوں میں اذان کا ساقط هونا اس سے مشروط هے که دونمازوں کے درمیان بالکل فاصله نه هو یا بهت کم فاصله هو لیکن نفل اور تعقیبات پڑھنے سے کوئی فرق نهیں پڑتا اور احتیاط واجب یه هے که ان صوتوں میں اذان مشروعیت کی نیت سے نه کهی جائےبلکه آخری دو صورتوں میں اذان کهنا مناسب نهیں هے اگرچه مشروعیت کی نیت سے نه هو۔

932۔ اگر نماز جماعت کے لئے اذان اور اقامت کهی جاچکی هو تو جو شخص اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھ هو اس کے لئے ضروری نهیں که اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کهے۔

933۔ اگر کوئی شخص نماز کے لئے مسجد میں جائے اور دیکھے که نماز جماعت ختم هو چکی هے تو جب تک صفیں ٹوٹ نه جائیں اور لوگ منتشر نه هوجائیں وه اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت نه کهے یعنی ان دونوں کا کهنا مستحب تاکیدی نهیں

ص:189

بلکه اگر اذان دینا چاهتا هو تو بهتر یه هے که بهت آهسته کهے۔ اور اگر دوسری نماز جماعت قائم کرنا چاهتا هو تو هرگز اذان اور اقامت نه کهے۔

934۔ ایسی جگه جهاں نماز جماعت ابھی ابھی ختم هوئی هو اور صفیں نه ٹوٹی هوں اگر کوئی شخص وهاں تنها یا دوسری جماعت کے ساتھ جو قائم هو رهی هو نماز پڑھنا چاهے تو چھ شرطوں کے ساتھ اذان اور اقامت اس پر سے ساقط هو جاتی هے۔

1۔ نماز جماعت مسجد میں هو۔ اور اگر مسجد میں نه هو تو اذان اور اقامت کا ساقط هونا معلوم نهیں۔

2۔ اس نماز کے لئے اذان اور اقامت کهی جاچکی هو۔

3۔ نماز جماعت باطل نه هو۔

4۔ اس شخص کو نماز اور نماز جماعت ایک هی جگه پر هو۔ لهذا اگر نماز جماعت مسجد کے اندر پڑھی جائے اور وه شخص مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا چاهے تو مستحب هے که اذان اور اقامت کهے۔

5۔ نماز جماعت ادا هو۔ لیکن اس بات کی شرط نهیں که خود اس کی نماز بھی ادا هو۔

6۔ اس شخص کی نماز اور نماز جماعت کا وقت مشترک هو مثلاً دونوں نماز ظهر یا دونوں نماز عصر پڑھیں یا نماز ظهر جماعت سے پڑھی جارهی هے اور وه شخص نماز عصر پڑھے یا وه شخص ظهر کی نماز پڑھے اور جماعت کی نماز، عصر کی نماز هو اور اگر جماعت کی نماز عصر هو اور آخری وقت میں وه چاهے که مغرب کی نماز ادا پڑھے تو اذان اور اقامت اس پر سے ساقط نهیں هوگی۔

935۔ جو شرطیں سابقه مسئله میں بیان کی گئی هیں اگر کوئی شخص ان میں سے تیسری شرط کے بارے میں شک کرے یعنی اسے شک هو که جماعت کی نماز صحیح تھی یا نهیں تو اس پر سے اذان اور اقامت ساقط هے لیکن اگر وه دوسری پانچ شرائط میں سے کسی ایک کے بارے میں شک کرے تو بهتر هے که رجاء مطلوبیت کی نیت سے اذان اور اقامت کهے۔

936۔اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی اذان جو اعلان یا جماعت کی نماز کے لئے کهی جائے، سنے تو مستحب هے که اس کا جو حصه سنے خود بھی اسے آهسته آهسته دهرائے۔

ص:190

937۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کے اذان اور اقامت سنی هو خواه اس نے ان جملوں کو دهرایا هو یا نه دهرایا هو نه دهرایا هو تو اگر اس اذان اور اقامت اور اس نماز کے درمیان جو وه پڑھنا چاهتا هو زیاده فاصله نه هوا هو تو وه اپنی نماز کے لئے اذان اور اقامت کهه سکتا هے۔

938۔اگر کوئی مرد عوت کی اذان کو لذت کے قصد سے سنے تو اس کی اذان ساقط نهیں هوگی بلکه اگر مرد کا اراده لذت حاصل کرنے کا نه هو تب بھی اس کی اذان ساقط هونے میں اشکال هے۔

939۔ ضروری هے که نماز جماعت کی اذان اور اقامت مرد کهے لیکن عورتوں کی نماز جماعت میں اگر عورت اذان اور اقامت کهه دے تو کافی هے۔

940۔ ضروری هے که اقامت، اذان کے بعد کهی جائے علاوه ازیں اقامت میں معتبر هے که کھڑے هو کر اور حدث سے پاک هو کر (وضو یا غسل یا تیمم کرکے) کهی جائے۔

941۔ اگر کوئی شخص اذان اور اقامت کے جملے بغیر ترتیب کے کهے مثلاً حَیَّ عَلَی الفَلاَحِ کا جمله حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃ سے پهلے کهے تو ضروری هے که جهاں سے ترتیب بگڑی هو وهاں سے دوباره کهے۔

942۔ ضروری هے که اذان اور اقامت کے درمیان فاصله نه هو اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصله هو جائے که جو اذان کهی جاچکی هے اسے اس اقامت کی اذان شمار نه کیا جاسکے تو مستحب هے که دوباره اذان کهی جائے ۔ علاوه ازیں اگر اذان اور اقامت کے اور نماز کے درمیان اتنا فاصله هو جائے که اذان اور اقامت اس نماز کی اذان اور اقامت شمار نه هو تو مستحب هے که اس نماز کے لئے دوباره اذان اور اقامت کے اور نماز کے درمیان اتنا فاصله هو جائے که اذان اور اقامت اس نماز کی اذان اور اقامت شمار نه هو تو مستحب هے که اس نماز کے لئے دوباره اذان اور اقامت کهی جائے۔

943۔ ضروری هے که اذان اور اقامت صحیح عربی میں کهی جائیں۔ لهذا اگر کوئی شخص انهیں غلط عربی میں کهے یا ایک حرف کی جگه کوئی دوسرا حرف کهے یا مثلاً ان کا ترجمه اردو زبان میں کهے تو صحیح نهیں هے۔

ص:191

944۔ ضروری هے که اذان اور اقامت، نماز کا وقت داخل هونے کے بعد کهی جائیں اور اگر کوئی شخص عمداً یا بھول کر وقت سے پهلے کهے تو باطل هے مگر ایسی صورت میں جب که وسط نماز میں وقت داخل هو تو اس نماز پر صحیح کا حکم لگے گا که جس کا مسئله 752 میں ذکر هو چکا هے۔

945۔ اگر کوئی شخص اقامت کهنے سے پهلے شک کرے که اذان کهی هے یا نهیں تو ضروری هے که اذان کهے اور اگر اقامت کهنے میں مشغول هو جائے اور شک کرے که اذان کهی هے یا نهیں تو اذان کهنا ضروری نهیں۔

946۔ اگر کوئی شخص اقامت کهنے کے دوران کوئی جمله کهنے سے پهلے ایک شخص شک کرے که اس نے اس سے پهلے والا جمله کها هے یا نهیں تو ضروری هے که جس جملے کی ادائیگی کے بارے میں اسے شک هوا هو اسے ادا کرے لیکن اگر اس اذان یا اقامت کا کوئی جمله ادا کرتے هوئے شک هو که اس نے اس سے پهلے والا جمله کها هے یا نهیں تو اس جملے کا کهنا ضروری نهیں۔

947۔ مستحب هے که اذان کهتے وقت انسان قبلے کی طرف منه کرکے کھڑا هو اور وضو یا غسل کی حالت میں هو اور هاتھوں کو کانوں پر رکھے اور آواز کو بلند کرے اور کھینچے اور اذان کے جملوں کے درمیان قدرے فاصله دے اور جملوں کے درمیان باتیں نه کرے۔

948۔ مستحب هے که اقامت کهتے وقت انسان کا بدن ساکن هو اور اذان کے مقابلے میں اقامت آهسته کهے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے ملا نه دے لیکن اقامت کے جملوں کے درمیان اتنا فاصله نه دے جتنا اذان کے جملوں کے درمیان دیتا هے۔

949۔ مستحب هے که اذان اور اقامت کے درمیان ایک قدم آگے بڑھے یا تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائے یا سجده کرے یا الله کا ذکر کرے یا دعا پڑھے یا تھوڑی دیر کے لئے ساکت هو جائے یا کوئی بات کرے یا دو رکعت نماز پڑھے لیکن نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کلام کرنا اور نماز مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھنا (یعنی دو رکعت نماز پڑھنا) مستحب نهیں هے۔

950۔ مستحب هے که جس شخص کو اذان دینے پر مقرر کیا جائے وه عادل اور وقت شناس هو، نیز یه که بلند آهنگ هو اور اونچی جگه پر اذان دے۔

ص:192

نماز کے واجبات

اشاره

واجبات نماز گیاره هیں:

1۔ نیت 2۔ قیام 3۔ تکبیرۃ الاحرام 4۔ رکوع 5۔ سجود 6۔ قراءت 7۔ ذکر 8۔ تشهُّد 9۔ سلام 10۔ ترتیب 11۔مُوَالات یعنی اجزائے نماز کا پے در پے بجا لانا۔

951۔ نماز کے واجبات میں سے بعض اس کے رکن هیں یعنی اگر انسان انهیں بجا نه لائے تو خواه ایسا کرنا یا عمداً هو یا غلطی سے هو نماز باطل هو جاتی هے اور بعض واجبات رکن نهیں هیں یعنی اگر وه غلطی سے چھوٹ جائیں تو نماز باطل نهیں هوتی۔

نماز کے ارکان پانچ هیں :

1۔ نیت

2۔ تکبیرۃ الاحرام (یعنی نماز شروع کرتے وقت الله اکبر کهنا)

3۔ رکوع سے متصل قیام یعی رکوع میں جانے سے پهلے کھڑا هونا

4۔ رکوع

5۔ هر رکعت میں دو سجدے۔ اور جهاں تک زیادتی کا تعلق هے اگر زیادتی عمداً هو تو بغیر کسی شرط کے نماز باطل هے۔ اور اگر غلطی سے هوئی هو تو رکوع میں یا ایک هی رکعت کے دو سجدوں میں زیادتی سے احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل هے ورنه باطل نهیں۔

نِیّت

952۔ضروری هے که انسان نماز قربت کی نیت سے یعنی خداوند عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پڑھے اور یه ضروری نهیں که نیت کو اپنے دل سے گزراے یا مثلاً زبان سے کهے که چار رکعت نماز ظهر پڑھتا هوں قُربَۃً اِلَی اللهِ۔

ص:193

953۔ اگر کوئی شخص ظهر کی نماز میں یا عصر کی نماز میں نیت کرے که چار رکعت نماز پڑھتا هوں لیکن اس امر کا تعین نه کرے که نماز ظهر کی هے یاعصر کی تو اس کی نماز باطل هے۔ نیز مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر نماز ظهر کی قضا واجب هو اور وه اس قضا نماز یا نماز ظهر کو "ظهر کے وقت" میں پڑھنا چاهے تو ضروری هے که جو نماز وه پڑھے نیت میں اس کا تعین کرے۔

954۔ ضروری هے که انسان شروع سے آخر تک اپنی نیت پر قائم رهے۔ اگر وه نماز میں اس طرح غافل هو جائے که اگر کوئی پوچھے که وه کیا کر رها هے تو اس کی سمجھ میں نه آئے که کیا جواب دے تو اس کی نماز باطل هے۔

955۔ ضروری هے که انسان فقط خداوند عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھے پس جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل هے خواه یه نماز پڑھنا فقط لوگوں کو یا خدا اور لوگوں دونوں کو دکھانے کے لئے هو۔

956۔ اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصه بھی الله تعالی جل شانه کے علاوه کسی اور کے لئے بجا لائے خواه وه حصه واجب هو مثلاً سوره الحمد یا مستحب هو مثلاً قنوت اور اگر غیر خدا کا یه قصد پوری نماز پر محیط هو یا اس بڑے حصے کے تدارک سے بطلان لازم آتا هو تو اس کی نماز باطل هے۔ اور اگر نماز تو خدا کے لئے پڑھے لیکن لوگوں کو دکھانے کے لئے کسی خاص جگه مثلاً مسجد میں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاً اول وقت میں پڑھے یا کسی خاص قاعدے سے مثلاً باجماعت پڑھے تو اس کی نماز بھی باطل هے۔

تکبیرۃ الاحرام

957۔ هر نماز کے شروع میں اَللهُ اکبر کهنا واجب اور رکن هے اور ضروری هے که انسان الله کے حروف اور اکبر کے حروف اور دو کلمے الله اور اکبر پے در پے کهے اور یه بھی ضروری هے که یه دو کلمے صحیح عربی میں کهے جائیں اور اگر کوئی شخص غلط عربی میں کهے یا مثلاً ان کا اردو میں ترجمه کر کے کهے تو صحیح نهیں هے۔

958۔ احتیاط مستحب یه هے که انسان نماز کی تکبیرۃ الاحرام کو اس چیز سے مثلاً اقامت یا دعا سے جو وه تکبیر سے پهلے پڑھ رها هو نه ملائے۔

ص:194

959۔ اگر کوئی شخص چاهے که الله اکبر کو اس جملے کے ساتھ جو بعد میں پڑھنا هو مثلاً بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم سے ملائے تو بهتر یه هے که اَکبَرُ کے آخری حرف "را" پر پیش دے لیکن احتیاط مستحب یه هے که واجب نماز میں اسے نه ملائے ۔

960۔ تکبیرۃ الاحرام کهتے وقت ضروری هے که انسان کا بدن ساکن هو اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اس حالت میں تکبیرۃ الاحرام کهے که اس کا بدن حرکت میں هو تو (اس کی تکبیر) باطل هے۔

961۔ ضروری هے که تکبیر، اَلَحمد، سوره، ذکر اور دعا کم سے کم اتنی آواز سے پڑھے که خود سن سکے اور اگر اونچا سننے یا بهره هونے کی وجه سے یا شور و غل کی وجه سے نه سن سکے تو اس طرح کهنا ضروری هے که اگر کوئی امر مانع نه هو تو سن لے۔

962۔ جو شخص کسی بیماری کو بنا پر گونگا هو جائے یا اس کی زبان میں کوئی نقص هو جس کی وجه سے الله اکبر نه کهه سکتا هو تو ضروری هے که جس طرح بھی ممکن هو اس طرح کهے اور اگر بالکل هی نه کهه سکتا هو تو ضروری هے که دل میں کهے اور اس کے لئے انگلی سے اس طرح اشاره کرے که جو تکبیره سے مناسب رکھتا هو اور اگر هوسکے تو زبان اور هونٹ کو بھی حرکت دے اور اگر کوئی پیدائشی گونگا هو تو اس کے لئے ضروری هے که وه اپنی زبان اور هونٹ کو اس طرح حرکت دے که جو کسی شخص کے تکبیر کهنے سے مشابه هو اور اس کے لئے اپنی انگلی سے بھی اشاره کرے۔

963۔ انسان کے لئے مستحب هے که تکبیرۃ الاحرام کے بعد کهے :

"یَامُحسِنُ قَد اَتَاکَ المُسِٓئُ وَقَد اَمَرتَ المُحسِنَ اَن یَّتَجَاوَزَعنِ المُسِٓی اَنتَ المُحسِنُ وَاَناالمُسِیٓئُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّتَجَاوَزعَن قَبِیعِ مَا تَعلَمُ مِنِّی۔"

(یعنی) اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خدا ! یه گنهگار بند تیری بارگاه میں آیا هے اور تونے حکم دیا هے که نیک لوگ گناه گاروں سے در گزر کریں۔ تو احسان کرنے والا هے اور میں گناه گارهوں۔ محمد (صلی الله علیه وآله) اور آل محمد (علیهم السلام) کے طفیل میری برائیوں سے جنهیں تو جانتا هے در گزر فرما۔

964۔ (انسان کے لئے) مستحب هے که نماز کی پهلی تکبیر اور نماز کی درمیانی تکبریں کهتے وقت هاتھوں کو کانوں کے برابر تک لے جائے۔

ص:195

965۔ اگر کوئی شخص شک کرے که تکبیرۃ الاحرام کهی هے یا نهیں اور قرات میں مشغول هو جائے تو اپنے شک کی پروا نه کرے اور اگر ابھی کچھ نه پڑھا هو تو ضروری هے که تکبیر کهے۔

966۔ اگر کوئی شخص تکبیرۃ الاحرام کهنے کے بعد شک کرے که صحیح طریقے سے تکبیر کهی هے یا نهیں تو خواه اس نے آگے کچھ پڑھا هو یا نه پڑھا هو اپنے شک کی پروا نه کرے۔

قیام یعنی کھڑا هونا

968۔ تکبیرۃ الاحرام کهنے سے پهلے اور اسکے بعد تھوڑی دیر کے لئے کھڑا هونا واجب هے تاکه یقین هو جائے که تکبیر قیام کی حالت میں کهی گئی هے۔

969۔ اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے الحمد اور سوره کے بعد بیٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے که رکوع نهیں کیا تو ضروری هے که کھڑا هو جائے اور رکوع میں جائے۔ لیکن اگر سیدھا کھڑا هوئے بغیر جھکے هونے کی حالت میں رکوع کرے تو چونکه وه قیام متصل برکوع بجا نهیں لایا اس لئے اس کا یه رکوع کفایت نهیں کرتا۔

970۔ جس وقت ایک شخص تکبیرۃ الاحرام یا قراءت کے لئے کھڑا هو ضروری هے که بدن کو حرکت نه دے اور کسی طرف نه جھکے اور احتیاط لازم کی بنا پر اختیار کی حالت میں کسی جگه ٹیک نه لگائے لیکن اگر ایسا کرنا به امر مجبوری هو تو کوئی اشکال نهیں۔

971۔ اگر قیام کی حالت میں کوئی شخص بھولے سے بدن کو حرکت دے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگه ٹیک لگالے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

972۔ احتیاط واجب یه هے که قیام کے وقت انسان کے دونوں پاوں زمین پر هوں لیکن یه ضروری نهیں که بدن کا بوجھ دونوں پاوں پر هو چنانچه اگر ایک پاوں پر بھی هو تو کوئی اشکال نهیں۔

ص:196

973۔ جو شخص ٹھیک طور پر کھڑا هو سکتا هو اگر وه اپنے پاوں ایک دوسرے سے اتنے جدا رکھے که اس پر کھڑا هونا صادق نه آتا هو تو اس کی نماز باطل هے۔ اور اسی طرح اگر معمول کے خلاف پیروں کو کھڑا هونے کی حالت میں بهت کھلا رکھے تو احتیاط کی بنا پر یهی حکم هے۔

974۔جب انسان نماز میں کوئی واجب ذکر پڑھنے میں مشغول هو تو ضروری هے که اس کا بدن ساکن هو اور جب مستحب ذکر میں مشغول هو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے اور جس وقت وه قدرے آگے یا پیچھے هونا چاهے یا بدن کو دائیں یا بائیں جانب تھوڑی سی حرکت دینا چاهے تو ضروری هے که اس وقت کچھ نه پڑھے۔

975۔اگر متحرک بدن کی حالت میں کوئی شخص مستحب ذکر پڑھے مثلاً رکوع سجدے میں جانے کے وقت تکبیر کهے اور اس ذکر کے قصدے سے کهے جس کا نماز میں حکم دیا گیا هےتو وه ذکر صحیح نهیں لیکن اس کی نماز صحیح هے۔ اور ضروری هے که انسان اللّٰهِ وَقُوَّتِه وَاَقعدُ اس وقت کهے جب کھڑا هو رها هو۔

976۔ هاتھوں اور انگلیوں کو الحمد پڑھتے وقت حرکت دینے میں کوئی حرج نهیں اگرچه احتیاط مستحب یه هے که انهیں بھی حرکت نه دی جائے۔

977۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سوره پڑھتے وقت یا تسبیحات پڑھتے وقت بے اختیار اتنی حرکت کرے که بدن کے ساکن هونے کی حالت سے خارج هو جائے تو احتیاط مستحب یه هے که بدن کے دوباره ساکن هونے جو کچھ اس نے حرکت کی حالت میں پڑھا تھا، دوباره پڑھے۔

978۔ نماز کے دوران اگر کوئی شخص کھڑے هونے کے قابل نه هو تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور اگر بیٹھ بھی نه سکتا هو تو ضروری هے که لیٹ جائے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نه هو ضروری هے که کوئی واجب ذکر نه پڑھے۔

979۔ جب تک انسان کھڑے هو کر نماز پڑھ سکتا هو ضروری هے که نه بیٹھے مثلاً اگر کھڑا هونے کی حالت میں کسی کا بدن حرکت کرتا هو یا وه کسی چیز پر ٹیک لگانے پر یا بدن کو تھوڑا سا ٹیرھا کرنے پر مجبور هو تو ضروری هے که جیسے بھی هوسکے کھڑا هو کر نماز پڑھے لیکن اگر وه کسی طرح بھی کھڑا نه هوسکتا هو تو ضروری هے که سیدھا بیٹھ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھے۔

980۔ جب تک انسان بیٹھ سکے ضروری هے که وه لیٹ کر نماز پڑھے اور اگر وه سیدھا هو کر نه بیٹھ سکے تو ضروری هے که جیسے بھی ممکن هو بیٹھے اور اگر بالکل نه بیٹھ سکے تو جیسا که قبلے کے احکام میں کها گیا هے ضروری هے که دائیں پهلو لیٹے اور دائیں پهلو پر نه لیٹ سکتا هو تو بائیں پهلو پر لیٹے۔ اور احتیاط لازم کی بنا پر ضروری که جب تک دائیں پهلو پر لیٹ سکتا هو بائیں پهلو پر نه لیٹے اور اگر دونوں طرف لیٹنا ممکن نه هو تو پشت کے بل اس طرح لیٹے که اس کے تلوے قبلے کی طرف هوں۔

ص:197

981۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پرھ رها هو اگر وه الحمد اور سوره پڑھنے کے بعد کھڑا هوسکے اور رکوع کھڑا هو کر بجا لا سکے تو ضروری هے که کھڑا هو جائے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جائے اور اگر ایسا نه کر سکے تو ضروری هے که رکوع بھی بیٹھ کر بجالائے۔

982۔ جو شخص کرنماز پڑھ رها هو اگر وه نماز کے دوران اس قابل هو جائے که بیٹھ سکے تو ضروری هے که نماز کی جتنی مقدار ممکن هو بیٹھ کر پڑھے اور اگر کھڑا هوسکے تو ضروری هے که جتنی مقدار ممکن هو کھڑا هو کر پڑھے لیک جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نه هوجائے ضروری هے که کوئی واجب ذکر نه پڑھے۔

983۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رها هو اگر نماز کے دوران اس قابل هو جائے که کھڑا هوسکے تو ضروری هے که نماز کی جتنی مقدار ممکن هو کھڑا هو پڑھے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نه هو جائے ضروری هے که کوئی واجب ذکر نه پڑھے۔

984۔ اگر کسی ایسے شخص کو جو کھڑا هو سکتا هو یه خوف هو که کھڑا هونے بیمار هو جائے گا یا اسے کوئی تکلیف هوگی تو وه بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا هے اور اگر بیٹھنے سے بھی تکلیف کاڈر هو تو لیٹ کر نماز پڑھ سکتا هے۔

985۔اگر کسی شخص کو اس بات کی امید هو که آخر وقت میں کھڑا هو کر نماز پڑھ سکے گا اور وه اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت میں کھڑا هونے پر قادر هو جائے تو ضروری هے که وه دوباره نماز پڑھے لیکن اگر کھڑا هو کر نماز پڑھنے سے مایوس هو اور اول وقت میں نماز پڑھ لے بعد ازاں وه کھڑے هونے کے قابل هو جائے تو ضروری نهیں که دوباره نماز پڑھے۔

986۔ (انسان کے لئے) مستحب هے که قیام کی حالت میں جسم سیدھا رکھے اور کندھوں کو نیچے کی طرف ڈھیلا چھوڑ دے نیز هاتھوں کو رانوں پر رکھے اور انگلیوں کو باهم ملا کر رکھے اور نگاه سجده کی جگه پر مرکوز رکھے اور بدن کو بوجھ دونوں پاوں پر یکساں ڈالے اور خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑا هو اور پاوں آگے پیچھے نه رکھے اور اگر مرد تو پاوں کے درمیان تین پھیلی هوئی انگلیوں سے لے کر ایک بالشت تک کا فاصله رکھے اور اگر عورت هو تو دونوں پاوں ملا کر رکھے۔

قراءت

ص:198

987۔ ضروری هے که انسان روزانه کی واجب نمازوں کی پهلی اور دوسری رکعت میں پهلے الحمد اور اس کے بعد احتیاط کی بنا پر کسی ایک پورے سورے کی تلاوت کرے اور وَالضَّحٰی اور اَلَم نَشرَح کی سورتیں اور اسی طرح سوره فیل اور سوره قریش احتیاط کی بنا پر نماز میں ایک سورت شمار هوتی هیں۔

988۔ اگر نماز کا وقت تنگ هو یا انسان کسی مجبوری کی وجه سے سوره نه پڑھ سکتا هو مثلاً اسے خوف هو که اگر سوره پڑھے گا تو چور یا درنده یا کوئی اور چیز اسے نقصان پهنچائے گی یا اسے ضروری کام هو تو اگر وه چاهے تو سوره نه پڑھے بلکه وقت تنگ هونے کی صورت میں اور خوف کی بعض حالتوں میں ضروری هے که وه سوره نه پرھے۔

989۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر الحمد سے پهلے سوره پڑھے تو اس کی نماز باطل هوگی لیکن اگر غلَطی سے الحمد سے پهلے سوره پڑھے اور پڑھنے کے دوران یاد آئے تو ضروری هے که سوره کو چھوڑ دے اور الحمد پڑھنے کے بعد سوره شروع سے پڑھے۔

990۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سوره یا ان سے کسی ایک کا پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں جانے کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے۔

991۔ اگر رکوع کے لئے جھکنے سے پهلے کسی شخص کو یاد آئے که اس نے الحمد اور سوره نهیں پڑھا تو ضروری هے که پڑھے اور اگر یه یاد آئے که سوره نهیں پڑھا تو ضروری هے که فقط سوره پڑھے لیکن اگر اسے یاد آئے که فقط الحمد نهیں پڑھی تو ضروری هے که پهلے الحمد اور اس کے بعد دوباره سوره پڑھے اور اگر جھک بھی جائے لیکن رکوع حد تک پهنچنے سے پهلے یاد آئے که الحمد اور سوره یا فقط سوره یا فقط الحمد نهیں پڑھی تو ضروری هے که کھڑا هو جائے اور اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔

992۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر فرض نماز میں ان چار سوروں میں سے کوئی ایک سوره پڑھے جن میں آیه سجده هو اور جن کا ذکر مسئله 361 میں کیا گیا هے تو واجب هے که آیه سجده پڑھنے کے بعد سجده کرے لیکن اگر سجده لائے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے اور ضروری هے که اسے دوباره پڑھے اور اگر سجده نه کرے تو اپنی نماز جاری رکھ سکتا هے اگرچه سجده نه کرکے اس نے گناه کیا هے۔

ص:199

993۔اگر کوئی شخص بھول کر ایسا سوره پڑھنا شروع کر دے جس میں سجده واجب هو لیکن آیه سجده پر پهنچنے سے پهلے اسے خیال آجائے تو ضروری هے که اس سوره کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سوره پڑھے اور آیه سجده پڑھنے کے بعد خیال آئے تو ضروری هے که جس طرح سابقه مسئله میں کها گیا هے عمل کرے۔

994۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کسی دوسرے کو آیه سجده پڑھتے هوئی سنے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن احتیاط کی بنا پر سجدے کا اشاره کرے اور نماز ختم کرنے کے بعد اس کا سجده بجالائے۔

995۔ مستحب نماز میں سوره پڑھنا ضروری نهیں هے خواه وه نماز منت ماننے کی وجه سے هی واجب کیوں نه هوگئی هو۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسی مستحب نمازیں ان کے احکام کے مطابق پڑھنا چاهے مثلاً نماز وحشت که جن میں مخصوص سورتیں پڑھنی هوتی هیں تو ضروری هے که وهی سورتیں پرھے۔

996۔ جمعه کی نماز میں اور جمعه کے دن ظهر کی نماز میں پهلی رکعت میں الحمد کے بعد سوره جمعه اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سوره منافقوں پڑھنا مستحب هے۔ اور اگر کوئی شخص ان میں سے کوئی ایک سوره پڑھنا شروع کر دے تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سوره نهیں پڑھ سکتا۔

997۔ اگر کوئی شخص الحمد کے بعد سوره اخلاص یا سوره کافروں پڑھنے لگے تو وه اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سوره نهیں پڑھ سکتا البته اگر نماز جمعه یا جمعه کے دن نماز ظهر میں بھول کر سوره جمعه اور سوره منافقون کی بجائے ان دو سورتوں میں سے کوئی سوره پڑھے تو انهیں چھوڑ سکتا هے اور سوره جمعه اور سوره منافقون پڑھ سکتا هے اور احتیاط یه هے که اگر نصف تک پڑھ چکا هو تو پھر ان سوروں کو نه چھوڑے۔

998۔ اگر کوئی شخص جمعه کی نماز میں یا جمعه کے دن ظهر کی نماز میں جان بوجھ کر سوره اخلاص یا سوره کافرون پڑھے تو خواه وه نصف تک نه پهنچا هو احتیاط واجب کی بنا پر انهیں چھوڑ کر سوره جمعه اور سوره منافقوں نهیں پڑھ سکتا ۔

999۔ اگر کوئی شخص نماز میں سوره اخلاص یا سوره کافرون کے علاوه کوئی دوسرا سوره پڑھے تو جب تک نصف تک نه پهنچا هو اسے چھوڑ سکتا هے اور دوسرا سوره پڑھ سکتا هے۔ اور نصف تک پهنچنے کے بعد بغیر کسی وجه کے اس سوره کو چھوڑ کر دوسرا سوره پڑھنا احتیاط کی بنا پر جائز نهیں۔

ص:200

1000۔ اگر کوئی شخص کسی سورے کا کچھ حصه بھول جائے یا به امر مجبوری مثلاً وقت کی تنگی یا کسی اور وجه سے اسے مکمل نه کرسکتے تو وه اس سوره کو چھوڑ کر کوئی دوسرا سوره پڑھ سکتا هے خواه نصف تک هی پهنچ چکا هو یا وه سوره اخلاص یا سوره کافرون هی هو۔

1001۔ مرد پر احتیاط کی بنا پر واجب هے که صبح اور مغرب و عشا کی نمازوں پر الحمد اور سوره بلند آواز سے پڑھے اور مرد اور عورت دونوں پر احتیاط کی بنا پر واجب هے که نماز ظهر و عصر میں الحمد اور سوره آهسته پڑھیں۔

1002۔احتیاط کی بنا پر ضروری هے که مرد صبح اور مغرب و عشا کی نماز میں خیال رکھے که الحمد اور سوره کے تمام کلمات حتٰی که ان کے آخری حرف تک بلند آواز سے پڑھے۔

1003۔صبح کی نماز اور مغرب و عشا کی نماز میں عورت الحمد اور سوره بلند آواز سے یا آهسته جیسا چاهے پڑھ سکتی هے۔ لیکن اگر نا محرم اس کی آواز سن رها هو اور اس کا سننا حرام هو تو احتیاط کی بنا پر آهسته پڑھے۔

1004۔ اگر کوئی شخص جس نماز کی بلند آواز سے پڑھنا ضروری هے اسے عمداً آهسته پڑھے یا جو نماز آهسته پڑھنی ضروری هے اسے عمداً بلند آواز سے پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔ لیکن اگر بھول جانے کی وجه سے یا مسئله نه جاننے کی وجه سے ایسا کرے تو (اس کی نماز) صحیح هے۔ نیز الحمد اور سوره پڑھنے کی دوران بھی اگر وه متوجه هو جائے که اس سے غلطی هوئی هے تو ضروری نهیں که نماز کا جو حصه پڑھ چکا هو اسے دوباره پڑھے۔

1005۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سوره پڑھنے کے دوران اپنی آوز معمول سے زیاده بلند کرے مثلاً ان سورتوں کو ایسے پڑھے جیسے که فریاد کر رها هو تو اس کی نماز باطل هے۔

1006۔ انسان کے لئے ضروری هے که نماز کی قرائت کو سیکھ لے تاکه غلط نه پڑھے اور جوشخص کسی طرح بھی پورے سوره الحمد کو نه سیکھ سکتا هو جس قدر بھی سیکھ سکتا هو سیکھے اور پڑھے لیکن اگر وه مقدار بهت کم هو تو احتیاط واجب کی بنا پر قرآن کے دوسرے سوروں میں سے جس قدر سیکھ سکتا هو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے اور اگر ایسا نه کر سکتا هو تو تسبیح کو اس کے ساتھ ملاکر پڑھے اور اگر کوئی پورے سوره کو نه سیکھ سکتا هو تو ضروری نهیں که اس کے بدلے کچھ پڑھے۔ اور هر حال میں احتیاط مستحب یه هے که نماز کو جماعت کے ساتھ بجالائے۔

ص:201

1007۔ اگر کسی کو الحمد اچھی طرح یاد نه هو اور وه سیکھ سکتا هو اور نماز کا وقت وسیع هو تو ضروری هے که سیکھ لے اور اگر وقت تنگ هو اور وه اس طرح پڑھے جیسا که گزشته مسئلےمیں کها گیا هے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر ممکن هو تو عذاب سے بچنے کے لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔

1008۔واجبات نماز سکھانے کی اجرات لینا احتیاط کی بنا حرام لیکن مستحبات نماز سکھانے کی اجرت لینا جائز هے۔

1009۔ اگر کوئی شخص الحمد اور سوره کا کوئی کلمه نه جانتا هویا جان بوجھ کر اسے نه پڑھے یا ایک حرف کے بجائے دوسرا حرف کهے مثلاً "ض" کی بجائے "ظ" کهے یا جهاں زیر اور زبر کے بغیر پڑھنا ضروری هو وهاں زیر اور زبر لگائے یاتشدیدحذف کر دے تو اس کی نماز باطل هے۔

1010۔ اگر انسان نے کوئی کلمه جس طرح یاد کیا هوا سے صحیح سمجھتا هو اور نماز میں اسی طرح پڑھے اور بعد میں اسے پته چلے که اس نے غلط پڑھا هے تو اس کے لئے نماز کا دوباره پڑھنا ضروری نهیں۔

1011۔ اگر کوئی شخص کسی لفظ کے زبر اور زیر سے واقف نه هو یا یه نه جانتا هو که وه لفظ (ه) سے ادا کرنا چاهئے یا (ح) سے تو ضروری هے که سیکھ لے اور ایسے لفظ کو دو (یا دو سے زائد) طریقوں سے ادا کرے۔ اور اگر اس لفظ کا غلط پڑھنا قرآن یا ذکر خدا شمار نه هو تو اس کی نماز باطل هے۔ اور اگر دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح هو مثلاً "اِھدِنَاالصِّراطَ المُستَقِیمَ" کو ایک دفعه (س) سے اور ایک دفعه (ص) سے پڑھے تو ان دونوں طریقوں سے پڑھنےمیں کوئی مضائفه نهیں۔

1012۔ علمائے تجوید کاکهنا هے که اگر کسی لفظ میں واو هو اور اس لفظ سے پهلے والے حرف پر پیش هو اور اس لفظ میں داد کے بعد والا حرف همزه هو مثلاً "سُوٓءٍ" تو پڑھنے والے کو چاهئے که اس داد کو مدکے ساتھ کھینچ کر پڑھے۔ اسی طرح اگر کسی لفظ میں "الف" هو اور اس لفظ میں الف سے پهلے والے حرف پر زبر هو اور اس لفظ میں الف کے بعد والا حرف همزه هو مثلاً جآءَ تو ضروری هے که اس لفظ کے الف کو کھینچ کر پڑھے۔ اور اگر کسی لفظ میں "ی" سے پهلے والے حرف پر زیر هو اور اس لفظ میں "ی" کے بعد والا حرف همزه هو مثلاً "جَیٓءَ " تو ضروری هے که "ی" کومد کے ساتھ پڑھے اور اگر ان حروف "داد، الف اوریا" کے بعد همزه کے بجائے کوئی ساکن حرف هو یعنی اس پر زبر، زیر یا پیش میں سے کوئی حرکت نه هو تب بھی ان تینوں حروف کو مدکے ساتھ پڑھنا ضروری هے ۔ لیکن ظاهراً ایسے معاملے میں قرات کا صحیح هونا مدپر موقف نهیں۔ لهذا جو طریقه بتایا گیا هے اگر کوئی پر اس پر عمل نه کرے تب بھی اس کی نماز صحیح هے لیکن وَلاَالضَّآلِّینَ جیسے

ص:202

الفاظ میں تشدید اور الف کا پورے طور پر ادا هونا مد پر تھوڑا سا توقف کرنے میں هے لهذا ضروری هے که الف کو تھوڑا سا کھینچ کر پڑھے۔

1013۔ احتیاط مستحب یه هے که انسان نماز میں وقف بحرکت اور وصل بسکون نه کرے اور وقف بحرکت کے معنی یه هیں که کسی لفظ کے آخر میں زیر زبر پیش پڑھے اور لفظ اور اس کے بعد کے لفظ کے درمیان فاصله درمیان فاصله دے مثلاً کهے اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیمِ اور اَلَّرحِیمِ کے میم کو زیر دے اور اس کے بعد قدرے فاصله دے اور کهے مَالِکِ یَومِ الدِّینِ اور وصل بسکون کے معنی یه هیں که کسی لفظ کی زیر زبر یا پیش نه پڑھے اور اس لفظ کو بعد کے لفظ سے جوڑ دے مثلاً یه کهے اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیمِ اور اَلرَّحِیمِ کے میم کو زیر نه دے اور فوراً مَالِکِ یَومِ الدِّینِ کهے۔

1014۔ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں فقط ایک دفعه الحمد یا ایک دفعه تسبیحات اربعه پڑھی جاسکتی هے یعنی نماز پڑھنے والا ایک دفعه کهے سُبحَاَنَ اللهِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ وَلاَ اِلٰهَ اَلاَّ اللهُ وَاللهُ اَکبَرُ اور بهتر یه هے که تین دفعه کهے۔ اور وه ایک رکعت میں الحمد اور دوسری رکعت میں تسبیحات بھی پڑھ سکتا هے۔ اور بهتر یه هے که دونوں رکعتوں میں تسبیحات پڑھے۔

1015۔اگر وقت تنگ هو تو تسبیحات اربعه ایک دفعه پڑھنا چاهئے اور اگر اس قدر وقت بھی نه هو تو بعید نهیں که ایک دفعه سُبحاَنَ الله کهنا لازم هو۔

1016۔ احتیاط کی بنا پر مرد اور عورت دونوں پر واجب هے که نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد یا تسبیحات اربعه آهسته پڑھیں۔

1017۔اگر کوئی شخص تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھے تو واجب نهیں که اس کی بِسمِ الله بھی آهسته پڑھے لیکن مقتدی کے لئے احتیاط واجب یه هے که بِسمِ الله بھی آهسته پڑھے۔

1018۔ جو شخص تسبیحات یاد نه کر سکتا هو یا انهیں ٹھیک ٹھیک پڑھ نه سکتا هو ضروری هے که وه تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھے۔

ص:203

1019۔ اگر کوئی شخص نماز کی پهلی دو رکعتوں میں یه خیال کرتے هوئے که یه آخری دو رکعتیں هیں تسبیحات پڑھے لیکن رکوع سے پهلے اسے صحیح صورت کا پته چل جائے تو ضروری هے که الحمد اور سوره پڑھے اور اگر اسے رکوع کے دوران یا رکوع کے بعد پته چلے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1020۔ اگر کوئی شخص نماز کی کی آخری دو رکعتوں میں یه خیال کرتے هوئے که یه پهلی دو رکعتیں هیں الحمد پڑھے یا نماز کی پهلی دو رکعتوں میں یه خیال کرتے هوئے که یه آخری دو رکعتیں الحمد پڑھے تو اسے صحیح صورت کا خواه رکوع سے پهلے پته چلے یا بعد میں اس کی نماز صحیح هے۔

1021۔اگر کوئی شخص تیسری یا چوتھی رکعت میں الحمد پڑھنا چاهتا هو لیکن تسبیحات اس کی زبان پر آجائیں یا تسبیحات پڑھنا چاهتا هو لیکن الحمد اس کی زبان پر آجائے اور اگر اس کے پڑھنے کا بالکل اراده نه تھا تو ضروری هے که اسے چھوڑ کر دوباره الحمد یا تسبیحات پڑھے لیکن اگر بطور کلی بلا اراده نه هو جیسے که اس کی عادت وهی کچھ پڑھنے کی هو جو اس کی زبان پر آیا هے تو وه اسی کو تمام کر سکتا هے اور اس کی نماز صحیح هے۔

1023۔ جس شخص کی عادت تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات پڑھنے کی هو اگر وه اپنی عادت سے غفلت برتے اور اپنے وظیفے کی ادائیگی کی نیت سے الحمد پڑھنے لگے تو وهی کافی هے اور اس کے لئے الحمد یا تسبیحات دوباره پڑھنا ضروری نهیں۔

1023۔ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات کے بعد اِستِغفار کرنا مثلاً کهے "اَستَغفِرُاللهَ رَبِّیِ وَاَتُوبُ اِلَیهِ" یا کهے "اَللّٰھُمَّ اغفِرلیِ" اور اگر نماز پڑھنے والا رکوع کے لئے جھکنے سے پهلے استغفاره پڑھ رها هو یا اس سے فارغ هو چکا هو اور اسے شک هو جائے که اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی هیں یا نهیں تو ضروری هے که الحمد یا تسبیحات پڑھے۔

1024۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت میں یا رکوع میں جاتے هوئے شک کرے که اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی هیں یا نهیں تو اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1025۔ اگر نماز پڑھنے والا شک کرے که آیا اس نے کوئی آیت یا جمله درست پڑھاهے یا نهیں مثلاً شک کرے که قُل هُوَاللهُ اَحَد درست پڑھا هے یا نهیں تو وه اپنے شک کی پروانه کرے لیکن اگر احتیاط وهی آیت یا جمله دوباره صحیح طریقے سے

ص:204

پڑھ دے تو کوئی حرج نهیں اور اگر کئی بار بھی شک کرے تو کئی بار پڑھ سکتا هے۔ هاں اگر وسوسے کی حد تک پهنچ جائے اور پھر بھی دوباره پڑھے تو احتیاط مستحب کی بنا پر پوری نماز دوباره پڑھے۔

1026۔ مستحب هے که پهلی رکعت میں الحمد پڑھنے سے پهلے "اَعُوذُ بِاللهِ مِنِ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ" کهے اور ظهر اور عصر کی پهلی اور دوسری رکعتوں میں بِسمِ اللهِ بلند آواز سے کهے اور الحمد اور سوره کو ممیز کرکے پڑھے اور هر آیت کے آخر پر وقف کرے یعنی اسے بعد والی آیت کے ساتھ نه ملائے اور الحمد اور سوره پرھتے وقت آیات کے معنوں کے طرف توجه رکھے۔ اور اگر جماعت سے نماز پڑھ رها هو تو امام جماعت کے سوره الحمد ختم کرنے کے بعد اور اگر فُرادٰی نماز پڑھ رها هو تو سوره الحمد پڑھنے کے بعد کهے "الحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ" اور سوره قُل ھُوَاللهُ اَحَد پڑھنے کے بعد ایک یا دو تین دفعه " کَذَالِکَ اللهُ رَبِّی " یا تین دفعه " کَذَلِکَ اللهُ رَبُّناَ" کهے اور سوره پڑھنے کے بعد اور تھوڑی دیر رکے اور اس کے بعد رکوع سے پهلے کی تکبیر کهے یا قنوت پڑھے۔

1027۔ مستحب هے که تمام نمازوں کی پهلی رکعت میں سوره قدر اور دوسری رکعت میں سوره اخلاص پڑھے۔

1028۔ پنج گانه نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں بھی انسان کا سوره اخلاص کا نه پڑھنا مکروه هے۔

1029۔ ایک هی سانس میں سوره قُل ھُوَاللهُ اَحَد کا پڑھنا مکروه هے۔

1030۔ جو سوره انسان پهلی رکعت میں پڑھے اس کا دوسری رکعت میں پڑھنا مکروه هے لیکن اگر سوره اخلاص دونوں رکعتوں میں پڑھے تو مکروه نهیں هے۔

رکوع

1031۔ضروری هے که هر رکعت میں قرائت کے بعد اس قدر جھکے که اپنی انگلیوں کے سرے گھٹنے پر رکھ سکے اور اس عمل کو رکوع کهتے هیں۔

1032۔ اگر رکوع جتنا جھک جائے لیکن اپنی انگلیوں کے سرے گھٹنوں پر نه رکھے تو کوئی حرج نهیں ۔

ص:205

1033۔ اگر کوئی شخص رکوع عام طریقے کے مابق نه بجا لائے مثلاً بائیں یا دائیں جانب جھک جائے تو خواه اس کے هاتھ گھٹنوں تک پهنچ بھی جائیں اس کا رکوع صحیح نهیں هے۔

1034۔ ضروری هے که جھکنا رکوع کی نیت سے هو لهذا اگر کسی اور کام کے لئے مثلاً کسی جانور کو مارنے کے لئے جھکے تو اسے رکوع نهیں کها جاسکتا بلکه ضروری هے که کھڑا هو جائے اور دوباره رکوع کے لئے جھکے اور اس عمل کی وجه سے رکن میں اضافه نهیں هوتا اور نماز باطل نهیں هوتی۔

1035۔ جس شخص کے هاتھ یا گھٹنے دوسرے لوگوں کے هاتھوں اور گھٹنوں سے مختلف هوں مثلاً اس کے هاتھ اتنے لمبے هوں که اگر معمولی سا بھی جھکے تو گھٹنوں تک پهنچ جائیں یا اس کے گھٹنے دوسرے لوگوں کے گھٹنوں کے مقابلے میں نیچے هوں اور اسے هاتھ گھٹنوں تک پهنچانے کے لئے بهت زیاده جھکنا پڑتا هو تو ضروری هے که اتنا جھکے جتنا عموماً لوگ جھکتے هیں۔

1036۔ جو شخص بیٹھ کر رکوع کر رها هو اسے اس قدر جھکنا ضروری هے که اس کا چهره اس کے گھٹنوں کے بالمقابل جا پهنچے اور بهتر هے که اتنا جھکے که اس کا چهره سجدے کی جگه کے قریب جاپهنچے۔

1037۔ بهتر یه هے که اختیار کی حالت میں رکوع میں تین دفعه "سُبحَانَ الله" یا ایک دفعه "سُبحَانَ رَبِّی العَظِیمَ وَبِحَمدِه" کهے اور ظاهر یه هے که جو ذکر بھی اتنی مقدار میں کها جائے کافی هے لیکن وقت کی تنگی اور مجبوری کی حالت میں ایک دفعه "سبحَانَ الله" کهنا هی کافی هے۔

1038۔ ذِکرِ رکوع مسلسل اور صحیح عربی میں پڑھنا چاهئے اور مستحب هے که اسے تین یا پانچ یا ساتھ دفعه بلکه اس سے بھی زیاده پڑھا جائے۔

1039۔ رکوع کی حالت میں ضروری هے که نماز پڑھنے والے کا بدن ساکن هو نیز ضروری هے که وه اپنے اختیار سے بدن کو اس طرح حرکت نه دے که اس پر ساکن هونا صادق نه آئے حتٰی که احتیاط کی بنا پر اگر وه واجب ذکر میں مشغول نه هو تب بھی یهی حکم هے۔

1040۔ اگر نماز پڑھنے والا اس وقت جبکه رکوع کا واجب ذکر ادا کر رها هو بے اختیار اتنی حرکت کرے که بدن کے سکون کی حالت میں هونے سے خارج هوجائے تو بهتر یه هے که بدن کے سکون حاصل کرنے کے بعد دوباره ذکر کو بجالائے لیکن

ص:206

اگر اتنی کم مدت کے لئے حرکت کرے که بدن کے سکون میں هونےکی حالت میں خارج نه هو یا انگلیوں کو حرکت دے تو کوئی حرج نهیں هے۔

1041۔ اگر نماز پڑھنے والا اس سے پیشتر که رکوع جتنا جھکے اور اس کا بدن سکون حاصل کرے جان بوجھ کر ذکر رکوع پڑھنا شروع کر دے تو اس کی نماز باطل هے۔

1042۔ اگر ایک شخص واجب ذکر کے ختم هونے سے پهلے جان بوجھ کر سر رکوع سے اٹھالے تو اس کی نماز باطل هے اور اگر سهواً سر اٹھالے اور اس سے پیشتر که رکوع کی حالت سے خارج هو جائے اسے یاد آئے که اس نے ذکر رکوع ختم نهیں کیا تو ضروری هے که رک جائے اور ذکر پڑھے۔ اور اگر اسے رکوع کی حالت سے خارج هونے کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1043۔ اگر ایک شخص ذکر کی مقدار کے مطابق رکوع کی حالت میں نه ره سکتا هو تو احتیاط مستحب یه هے که اس کا بقیه حصه رکوع سے اٹھتے هوئے پڑھے۔

1044۔ اگر کوئی شخص مرض وغیره کی وجه سے رکوع میں اپنا بدن ساکن نه رکھ سکے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن ضروری هے که رکوع کی حالت میں خارج هونے سے پهلے واجب ذکر اس طریقے سے ادا کرے جیسے اوپر بیان کیا گیا هے۔

1045۔جب کوئی شخص رکوع کے لئے نه جھک هو تو ضروری هے که کسی چیز کا سهارا لے کر رکوع بجالائے اور اگر سهارے کے ذریعے بھی معمول کے مطابق رکوع نه کر سکے تو ضروری هے که اس قدر جھکے که عُرفاً اسے رکوع کها جاسکے اور اگر اس قدر نه جھک سکے تو ضروری هے که رکوع کے لئے سر سے اشاره کرے۔

1046۔ جس شخص کو رکوع کے لئے سر سے اشاره کرنا ضروری هو اگر وه اشاره کرنے پر قادرنه هو تو ضروری هے که رکوع کی نیت کے ساتھ آنکھوں کو بند کرے اور ذکر رکوع پڑھے اور رکوع سے اٹھنے کی نیت سے آنکھوں کو کھول دے اور اگر اس قابل بھی نه هو تو احتیاط کی بنا پر دل میں رکوع کی نیت کرے اور اپنے هاتھ سے رکوع کے لئے اشاره کرے اور ذکر رکوع پڑھے۔

ص:207

1047۔ جو شخص کھڑے هو کر رکوع نه کرسکے لیکن جب بیٹھا هو تو رکوع کے لئے جھک سکتا هو تو ضروری هے که کھڑے هوکر نماز پڑھے اور رکوع کے لئے سر سے اشاره کرے۔ اور احتیاط مستحب یه هے که ایک دفعه پھر نماز پڑھے اور اس کے رکوع کے وقت بیٹھ جائے اور رکوع کے لئے جھک جائے۔

1048۔ اگر کوئی شخص رکوع کی حد تک پهنچنے کے بعد سر کو اٹھالے اور دوباره رکوع کرنے کی حد تک جھکے تو اس کی نماز باطل هے۔

1049۔ ضروری هے که ذکر رکوع ختم هونے کے بعد سیدھا کھڑا هو جائے اور جب اس کا بدن سکون حاصل کرلے اس کے بعد سجدے میں جائے اور اگر جان بوجھ کر کھڑا هونے سے پهلے یا بدن کے سکون حاصل کرنے سے پهلے سجدے میں چلا جائے تو اس کی نماز باطل هے۔

1050۔ اگر کوئی شخص رکوع ادا کرنا بھول جائے اور اس سے پیشتر که سجدے کی حالت میں پهنچے اسے یاد آجائے تو ضروری هے که کھڑا هو جائے اور پھر رکوع میں جائے۔ اور جھکے هوئے هونے کی حالت میں اگر رکوع کی جانب لوٹ جائے تو کافی نهیں۔

1051۔ اگر کسی شخص کو پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے که اس نے رکوع نهیں کیا تو اس کے لئے ضروری هے که لوٹ جائے اور کھڑا هونے کے بعد رکوع بجالائے۔ اور اگر اسے دوسرے سجدے میں یاد آئے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

1052۔ مستحب هے که انسان رکوع میں جانے سے پهلے سیدھا کھڑا هو کر تکبیر کهے اور رکوع میں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف دھکیلے۔ پیٹھ کو هموار رکھے۔ گردن کو کھینچ کر پیٹھ کے برابر رکھے۔ دونوں پاوں کے درمیان دیکھے۔ ذکر سے پهلے یا بعد میں درود پڑھے اور جب رکوع کے بعد اٹھے اور سیدھا کھڑا هو تو بدن کے سکون کی حالت میں هوتے هوئے "سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه" کهے۔

1053۔ عورتوں کے لئے مستحب هے که رکوع میں هاتھوں کو گھٹنوں سے اوپر رکھیں اور گھٹنوں کو پیچھے کی طرف نه دھکیلیں۔

ص:208

سجود

اشاره

1054۔ نماز پرھنے والے کے لئے ضروری هے که واجب اور مستحب نمازوں کی هر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے کرے۔ سجده یه هے که خاص شکل میں پیشانی کو خضوع کی نیت سے زمین پر رکھے اور نماز کے سجدے کی حالت میں واجب هے که دونوں هتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں پاوں کے انگوٹھے زمین پر رکھے جائیں۔

1055۔دو سجدے مل کر ایک رکن هیں اور اگر کوئی شخص واجب نماز میں عمداً یا بھولے سے ایک رکعت میں دونوں سجدے ترک کر دے تو اس کی نماز باطل هے۔ اور اگر بھول کر ایک رکعت میں دو سجدوں کا اضافه کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے۔

1056۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایک سجده کم یا زیاده کر دے تو اس کی نماز باطل هے اور اگر سهواً ایک سجده کم یا زیاده کرے تو اس کا حکم بعد میں بیان کیا جائے گا۔

1057۔ جو شخص پیشانی زمین پر رکھ سکتا هو اگر جان بوجھ کر یا سهواً پیشانی زمین پر نه رکھے تو خواه بدن کے دوسرے حصے زمین سے لگ بھی گئے هوں تو اس نے سجده نهیں کیا لیکن اگر وه پیشانی زمین پر رکھ دے اور سهواً بدن کے دوسرے حصے زمین پر نه رکھے یا سهواً ذکر نه پڑھے تو اس کا سجده صحیح هے۔

1058۔ بهتر یه هے که اختیار کی حالت میں سجدے میں تین دفعه "سُبحَانَ الله" یا ایک دفعه "سُبحَاَنَ رَبِّ الاَعلٰی وَبِحَمدِه" پڑھے اور ضروری هے که یه جملے مسلسل اور صحیح عربی میں کهے جائیں اور ظاهر یه هے که هر ذکر کا پڑھنا کافی هے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که اتنی هی مقدار میں هو اور مستحب هے که "سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی وَبِحَمدِه" تین یا پانچ یا سات دفعه یا اس سے بھی زیاده مرتبه پڑھے۔

1059۔ سجدے کی حالت میں ضروری هے که نمازی کا بدن ساکن هو اور حالت اختیار میں اسے اپنے بدن کو اس طرح حرکت نهیں دینا چاهئے که سکون کی حالت سے نکل جائے اور جب واجب ذکر میں مشغول نه هو تو احتیاط کی بنا پر یهی حکم هے۔

ص:209

1060۔ اگر اس پیشتر که پیشانی زمین سے لگے اور بدن سکون حاصل کرلے کوئی شخص جان بوجھ کر ذکر سجده پڑھے یا ذکر ختم هونے سے پهلے جان بوجھ کر سر سجدے سے اٹھالے تو اسکی نماز باطل هے۔

1061۔ اگر اس سے پیشتر که پیشانی زمین پر لگے کوئی شخص سهواً ذکر سجده پڑھے اور اس سے پیشتر که سر سجدے سے اٹھائے اسے پته چل جائے که اس نے غلطی کی هے تو ضروری هے که ساکن هو جائے اور دوباره ذکر پڑھے۔

1062۔ اگر کسی شخص کو سر سجدے سے اٹھالینے کے بعد پته چلے که اس نے ذکر سجده ختم هونے سے پهلے سر اٹھا لیا هے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1063۔ جس وقت کوئی شخص ذکر سجده پڑھ رها هو اگر وه جان بوجھ کر سات اعضائے سجده میں سے کسی ایک کو زمین پر سے اٹھائے تو اس کی نماز باطل هو جائے گی لیکن جس وقت ذکر پڑھنے میں مشغول نه هو اگر پیشانی کے علاوه کوئی عضو زمین پر سے اٹھالے اور دوباره رکھ دے تو کوئی حرج نهیں هے۔ لیکن اگر ایسا کرنا اس کے بدن کے ساکن هونے کے منافی هو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

1064۔ اگر ذکر سجده ختم هونے سے پهلے کوئی شخص سهواً پیشانی زمین اٹھالے تو اسے دوباره زمین پر نهیں رکھ سکتا اور ضروری هے که اسے ایک سجده شمار کرے لیکن اگر دوسرے اعضا سهواً زمین پر سے اٹھائے تو ضروری هے که انهیں دوباره زمین پر رکھے اور ذکر پڑھے۔

1065۔ پهلے سجدے کا ذکر ختم هونے کے بعد ضروری هے که بیٹھ جائے حتی که اس کا بدن سکون حاصل کرلے اور پھر دوباره سجدے میں جائے۔

1066۔ نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگه گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگه سے چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده بلند یا پست نهیں هونی چاهئے۔ بلکه احتیاط واجب یه هے که اس کی پیشانی کی جگه اس کے کھڑے هونے کی جگه سے چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده نیچی یا اونچی بھی نه هو۔

ص:210

1067۔ اگر کسی ایسی ڈھلوان جگه میں اگرچه اس کا جھکاو صحیح طور پر معلوم نه هو نماز پڑھنے والے کی پیشانی کی جگه اس کے گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگه سے چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده بلند یا پست هو تو اس کی نماز میں اشکال هے۔

1068۔ اگر نماز پڑھنے والا اپنی پیشانی کی غلطی سے ایک ایسی چیز پر رکھ دے جو گھٹنوں اور اس کے پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگه سے چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده بلند هو اور ان کی بلندی اس قدر هو که یه نه کهه سکیں که سجدے کی حالت میں هے تو ضروری هے که سر کو اٹھائے اور ایسی چیز پر جس کی بلندی چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده نه هو رکھے اور اگر اس کی بلندی اس قدر هو که کهه سکیں که سجدے کی حالت میں هے تو پھر واجب ذکر پڑھنے کے بعد متوجه هو تو سر سجدے سے اٹھا کر نماز کو تمام کر سکتا هے۔ اور اگر واجب ذکر پڑھنے سے پهلے متوجه هو تو ضروری هے که پیشانی کو اس چیز سے هٹا کر اس چیز پر رکھے که جس کی بلندی چار ملی هوئی انگلیوں کے برابر یا اس سے کم هو اور واجب ذکر پڑھے اور اگر پیشانی کو هٹاتا ممکن نه هو تو واجب ذکر کو اسی حالت میں پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور ضروری نهیں که نماز کو دوباره پڑھے۔

1069۔ ضروری هے که نماز پڑھنے والے کی پیشانی اور اس چیز کے درمیان جس پر سجده کرنا صحیح هے کوئی دوسری چیز نه هو پس اگر سجده گاه اتنی میلی هو که پیشانی سجده گاه کو نه چھوئے تو اس کا سجده باطل هے۔ لیکن اگر سجده گاه کارنگ تبدیل هوگیا هو تو کوئی حرج نهیں۔

1070۔ ضروری هے که سجدے میں دونوں هتھیلیاں زمین پر رکھے لیکن مجبوری کی حالت میں هاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھے تو کوئی حرن نهیں اور اگر هاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھنا ممکن نه هو تو احتیاط کی بنا ضروری هے که هاتھوں کی کلائیاں زمین پر رکھے اور اگر انهیں بھی نه رکھ سکے تو پھر کهنی تک جو حصه بھی ممکن هو زمین پر رکھے اور اگر یه بھی ممکن نه هو تو پھر بازو کا رکھنا بھی کافی هے۔

1071۔ (نماز پڑھنے والے کے لئے) ضروری هے که سجدے میں پاوں کے دونوں انگوٹھے زمین پر رکھے لیکن ضروری نهیں که دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھے بلکه ان کا ظاهری یا باطنی حصه بھی رکھے تو کافی هے۔ اور اگر پاوں کی دوسری انگلیاں یا پاوں کا اوپر والا حصه زمین پر رکھے یا ناخن لمبے هونے کی بنا پر انگوٹھوں کے سرے زمین پر نه لگیں تو نماز باطل هے اور جس شخص نے کوتاهی اور مسئله نه جاننے کی وجه سے اپنی نمازیں اس طرح پڑھی هوں ضروری هے که انھیں دوباره پڑھے۔

ص:211

1072۔ جس شخص کے پاوں کے انگوٹھوں کے سروں سے کچھ حصه کٹا هوا هو ضروری هے که جتنا باقی هو وه زمین پر رکھے اور اگر انگوٹھوں کا کچھ حصه بھی نه بچا هو اور اگر بچا بھی هو تو بهت چھوٹا هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که باقی انگلیوں کو زمین پر رکھے اور اگر اس کی کوئی بھی انگلی نه هو تو پاوں کا جتنا حصه بھی باقی بچا هو اسے زمین پر رکھے۔

1073۔ اگر کوئی شخص معمول کے خلاف سجده کرے مثلا سینے اور پیٹ کو زمین پر ٹکائے یا پاوں کو کچھ پھیلائے چنانچه اگر کها جائے که اس نے سجده کیا هے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر کها جائے که اس نے پاوں پھیلائے هیں اور اس پر سجده کرنا صادق نه آتا هو تو اس کی نماز باطل هے۔

1074۔ سجده گاه یا دوسری چیز جس پر نماز پڑھنے والا سجدے کرے ضروری هے که پاک هو لیکن اگر مثال کے طور پر سجده گاه کو نجس فرش پر رکھ دے یا سجده گاه کی ایک طرف نجس هو اور وه پیشانی پاک طرف رکھے تو کوئی حرج نهیں هے۔

1075۔ اگر نماز پڑھنے والے کی پیشانی پر پھوڑا یا زخم یا اس طرح کی کوئی چیز هو۔ جس کی بنا پر وه پیشانی زمین پر نه رکھ سکتا هو مثلاً اگر وه پھوڑا پوری پیشانی کو نه گھیرے هوئے هو تو ضروری هے که پیشانی کے صحت مند حصے سے سجده کرے اور اگر پیشانی کی صحت مند جگه پر سجده کرنا اس بات پر موقوف هو که زمین کو کھودے اور پھوڑے کو گڑھے میں اور صحت مند جگه کی اتنی مقدار زمین پر رکھے که سجدے کے لئے کافی هو تو ضروری هے که اس کام کا انجام دے۔

1076۔ اگر پھوڑا یا زخم تمام پیشانی پر پھیلا هوا هو تو نماز پڑھنے والے کے لئے ضروری هے که اپنے چهرے که کچھ حصے سے سجده کرے اور احتیاط لازم یه هے که اگر ٹھوڑی سے سجده کرسکتا هو تو ٹھوڑی سے سجده کرے اور اگر نه کر سکتا هو تو پیشانی کے دونوں اطراف میں سے ایک طرف سے سجده کرے اور اگر چهرے سے سجده کرنا کسی طرح بھی ممکن نه هو تو ضروری هے که سجدے کے لئے اشاره کرے۔

1077۔ جو شخص بیٹھ سکتا هو لیکن پیشانی زمین پر نه رکھ سکتا هو ضروری هے که جس قدر بھی جھک سکتا هو جھکے اور سجده گاه یا کسی دوسری چیز کو جس پر سجده صحیح هو کسی بلند چیز پر رکھے اور اپنی پیشانی اس پر اس طرح رکھے که لوگ کهیں که اس نے سجده کیا هے لیکن ضروری هے که هتھیلیوں اور گھٹنوں اور پاوں کے انگوٹھوں کو معمول کے مطابق زمین پر رکھے۔

ص:212

1078۔ اگر کوئی ایسی بلند چیز نه هو جس پر نماز پڑھنے والا سجده گاه یا کوئی دوسری چیز جس پر سجده کرنا صحیح هو رکھ سکے اور کوئی شخص بھی نه هو جو مثلاً سجده گاه کو اٹھائے اور پکڑے تا که وه شخص اس پر سجده کرے تو احتیاط یه هے که سجده گاه یا دوسری چیز کو جس پر سجده کر رها هو هاتھ سے اٹھائے اور اس پر سجده کرے۔

1079۔اگر کوئی شخص بالکل هی سجده نه کر سکتا هو تو ضروری هے که سجدے کے لئے سر سے اشاره کرے اور اگر ایسا نه کرسکے تو ضروری هے که آنکھوں سے اشاره کرے اور اگر آنکھوں سے بھی اشاره نه کرسکتا هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که هاتھ وغیره سے سجدے کے لئے اشاره کرے اور دل میں بھی سجدے کی نیت کرے اور واجب ذکر ادا کرے۔

1080۔ اگر کسی شخص کی پیشانی بے اختیار سجدے کی جگه سے اٹھ جائے تو ضروری هے که حتی الامکان اسے دوباره سجدے کی جگه پر نه جانے دے قطع نظر اس کے که اس نے سجدے کا ذکر پڑھا هو یا نه پڑھا هو یه ایک سجده شمار هوگا۔ اور اگر سر کو نه روک سکے اور وه بے اختیار دوباره سجدے کی جگه پهنچ جائے تو وهی ایک سجده شمار هوگا۔ لیکن اگر واجب ذکر ادا نه کیا هو تو احتیاط مستحب یه هے که اسے قربت مُطلَقَه کی نیت سے ادا کرے۔

1081۔ جهاں انسان کے لئے تقیه کرنا ضروری هے وهاں وه قالین یا اسطرح کی چیز پر سجده کرے اور یه ضروری نهیں که نماز کے لئے کسی دوسری جگه جائے یا نماز کو موخر کرے تا که اسی جگه پر اس سبب کے ختم هونے کے بعد نماز ادا کرے۔ لیکن اگر چٹائی یا کسی دوسری چیز جس پر سجده کرنا صحیح هو اگر وه اس طرح سجدےکرے که تقیه کی مخالفت نه هوتی هو تو ضروری هے که پھر وه قالین یا اس سے ملتی جلتی چیز پر سجده نه کرے۔

1082۔ اگر کوئی شخص (پرندوں کے) پروں سے بھرے گدے یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز پر سجده کرے جس پر جم سکون کی حالت میں نه رهے تو اس کی نماز باطل هے۔

1083۔ اگر انسان کیچڑ والی زمین پر نماز پڑھنے پر مجبور هو اور بدن اور لباس کا آلوده هو جانا اس کے لئے مشقت کا موجب نه هو تو ضروری هے که سجده اور تشهد معمول کے مطابق بجالائے اور اگر ایسا کرنا مشقت کا موجب هو تو قیام کی حالت میں سجدے کے لئے سر سے اشاره کرے اور تشهد کھڑے هو کر پڑھے تو اس کی نماز صحیح هوگی۔

ص:213

1084۔ پهلی رکعت میں اور مثلاً نماز ظهر، نماز عصر، اور نماز عشا کی تیسری رکعت میں جس میں تشهد نهیں هے احتیاط واجب یه هے که انسان دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سکون سے بیٹھے اور پھر کھڑا هو۔

وه چیزیں جن پر سجده کرنا صحیح هے

1085۔ سجده زمین پر اور ان چیزوں پر کرنا ضروری هے جو کھائی اور پهنی نه جاتی هوں اور زمین سے اگتی هوں مثلاً لکڑی اور درختوں کے پتے پر سجده کرے۔ کھانے اور پهننے کی چیزوں مثلاً گندم، جو اور کپاس پر اور ان چیزوں پر جو زمین کے اجزاء شمار نهیں هوتیں مثلاً سونے، چاندی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر سجده کرنا صحیح نهیں هے لیکن تار کول اور گنده بیروزا کی مجبوری کی حالت میں دوسری چیزوں کے مقابلے میں که جن پر سجده کرنا صحیح نهیں سجدے کے لئے اولیت دے۔

1086۔ انگور کے پتوں پر سجده کرنا جبکه وه کچے هوں اور انھیں معمولاً کھایا جاتا هو جائز نهیں۔ اس صورت کے علاوه ان پر سجده کرنے میں ظاهراً کوئی حرج نهیں۔

1087۔ جو چیزیں زمین سے اگتی هیں اور حیوانات کی خوراک هیں مثلاً گھاس اور بھوسا ان پر سجده کرنا صحیح هے۔

1088۔جن پھولوں کو کھایا نهیں جاتا ان پر سجده صحیح هے بلکه ان کھانے کی دواوں پر بھی سجده صحیح هے جو زمین سے اگتی هیں اور انھیں کوٹ کر یا جوش دیکر انکا پانی پیتے هیں مثلاً گل بنفشه اور گل گاو زبان، پر بھی سجده صحیح هے۔

1089۔ ایسی گھاس جو بعض شهروں میں کھائی جاتی هو اور بعض شهروں میں کھائی تو نه جاتی هو۔ لیکن وهاں اسے اشیاء خوردنی میں شمار کیا جاتا هو اس پر سجده صحیح نهیں اور کچے پھلوں پر بھی سجده کر صحیح نهیں هے۔

1090۔ چونے کے پتھر اور جپسم پر سجده کرنا صحیح هے اور احتیاط مستحب یه هے که اختیار کی حالت میں پخته جپسم اور چونے اور اینٹ اور مٹی کے پکے هوئے برتنوں اور ان سے ملتی جلتی چیزوں پر سجده نه کیا جائے۔

1091۔ اگر کاغذ کو ایسی چیز سے بنایا جائے که جس پر سجده کرنا صحیح هے مثلاً لکڑی اور بھوسے سے تو اس پر سجده کیا جاسکتا هے اور اسی طرح اگر روئی یا کتان سے بنایا گیا هو تو بھی اس پر سجده کرنا صحیح هے لیکن اگر ریشم یا ابریشم اور اسی طرح کی کسی چیز سے بنایا گیا هو تو اس پر سجده صحیح نهیں هے۔

ص:214

1092۔ سجدے کے لئے خاک شفا سب چیزوں سے بهتر هے اس کے بعد مٹی، مٹی کے بعد پتھر اور پتھر کے بعد گھاس هے۔

1093۔ اگر کسی کے پاس ایسی چیز نه هو جس پر سجده کرنا صحیح هے یا اگر هو تو سردی یا زیاده گرمی وغیره کی وجه سے اس پر سجده نه کرسکتا هو تو ایسی صورت میں تار کول اور گنده بیروزا کو سجدے کے لئے دوسری چیزوں پر اولیت حاصل هے لیکن اگر ان پر سجده کرنا ممکن نه هو تو ضروری هے که اپنے لباس یا اپنے هاتھوں کی پشت یا کسی دوسری چیز پر که حالت اختیار میں جس پر سجده جائز نهیں سجده کرے لیکن احتیاط مستحب یه هے که جب تک اپنے کپڑوں پر سجده ممکن هو کسی دوسری چیز پر سجده نه کرے۔

1094۔ کیچڑیر اور ایسی نرم مٹی پر جس پر پیشانی سکون سے نه ٹک سکے سجده کرنا باطل هے ۔

1095۔ اگر پهلے سجدے میں سجده گاه پیشانی سے چپک جائے تو دوسرے سجدے کے لئے اسے چھڑا لینا چاهئے۔

1096۔جس چیز پر سجده کرنا هو اگر نماز پڑھنے کے دوران وه گم هو جائے اور نماز پڑھنے والے کے پاس کوئی ایسی چیز نه هو جس پر سجده کرنا صحیح هو تو جو ترتیب مسئله 1093 میں بتائی گئ هے اس پر عمل کرے خواه وقت تنگ هو یا وسیع، نماز کو توڑ کر اس کا اعاده کرے۔

1097۔ جب کسی شخص کو سجدے کی حالت میں پته چلے که اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی هے جس پر سجده کرنا باطل هے چنانچه واجب ذکر ادا کرنے کے بعد متوجه هو تو سر سجدے سے اٹھائے اور اپنی نماز جاری رکھے اور اگر واجب ذکر ادا کرنے سے پهلے متوجه هو تو ضروری هے که اپنی پیشانی کو اس چیز پر که جس پر سجده کرنا صحیح هے لائے اور واجب ذکر پڑھے لیکن اگر پیشانی لانا ممکن نه هو تو اسی حال میں واجب ذکر ادا کر سکتا هے اور اس کی نماز هر دو صورت میں صحیح هے۔

1098۔ اگر کسی شخص کو سجدے کے بعد پته چلے که اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی هے جس پر سجده کرنا باطل هے تو کوئی حرج نهیں ۔

ص:215

1099۔ الله تعالی کے علاوه کسی دوسرے کو سجده کرنا حرام هے۔ عوام میں سے بعض لوگ جو ائمه علیهم السلام کے مزارات مقدسه کے سامنے پیشانی زمین پر رکھتے هیں اگر وه الله تعالی کا شکر ادا کرنے کی نیت سے ایسا کریں تو کوئی حرج نهیں ورنه ایسا کرنا حرام هے۔

سجده کے مستحبات اور مکروهات

1100۔ چند چیزیں سجدے میں مستحب هیں :

1۔ جو شخص کھڑا هو کر نماز پڑھ رها هو وه رکوع سر اٹھانے کے بعد مکمل طور پر کھڑے هو کر اور بیٹھ کر نماز پڑھنے والا رکوع کے بعد پوری طرح بیٹھ کر سجده میں جانے کے لئے تکبیر کهے۔

2۔ سجدے میں جاتے وقت مرد پهلے اپنی هتھیلیوں اور عورت اپنے گھٹنوں کو زمین پر رکھے۔

3۔ نمازی ناک کو سجده گاه یا کسی ایسی چیز پر رکھے جس پر سجده کرنا درست هو۔

4۔ نمازی سجدے کی حالت میں هاتھ کی انگلیوں کو ملا کر کانوں کے پاس اس طرح رکھے که ان کے سرے رو به قبله هوں۔

5۔ سجدے میں دعا کرے، الله تعالی سے حاجت طلب کرے اور یه دعا پڑھے :

"یَاخَیرَ المَسئُولِینَ وَیاَخَیرَ المُعطِینَ ارزُقنِی وَ ارزُق عَیَالِی مِن فضلِکَ فَاِنَکَ ذُوالفَضلِ الَظِیمِ "۔

یعنی :اے ان سب میں سے بهتر جن سے که مانگا جاتا هے اور اے ان سب سے برتر جو عطا کرتے هیں۔ مجھے اور میرے اهل و عیال کو اپنے فضل و کرم سے رزق عطا فرما کیونکه تو هی فضل عظیم کا مالک هے۔

6۔ سجدے کے بعد بائیں ران پر بیٹھ جائے اور دائیں پاوں کا اوپر والا حصه (یعنی پشت) بائیں پاوں کے تلوے پررکھے۔

7۔ هر سجدے کے بعد جب بیٹھ جائے اور بدن کو سکون حاصل هوجائے تو تکبیر کهے۔

8۔ پهلے سجدے که بعد جب بدن کو سکون حاصل هو جائے تو "اَستَغفِرُاللهَ رَبّیِ وَاَتُوبُ اِلَیهِ" کهے۔

ص:216

9۔ سجده زیاده دیر تک انجام دے اور بیٹھنے کے وقت هاتھوں کو رانوں پر رکھے

10۔ دوسرے سجدے میں جانے کے لئے بدن کے سکون کی حالت میں اَللهُ اَکبَر کهے :

11۔ سجدوں میں درود پڑھے۔

12۔ سجدے یا قیام کے لئے اٹھتے وقت پهلے گھٹنوں کو اور ان کے بعد هاتھوں کو زمین سے اٹھائے۔

13۔ مرد کهنیوں اور پیٹ کو زمین سے نه لگائیں نیز بازووں کو پهلو سے جدا رکھیں۔ اور عورتیں کهنیاں اور پیٹ زمین پر رکھیں اور بدن کے اعضاء کو ایک دوسرے سے ملالیں۔ ان کے علاوه دوسرے مستحبات بھی هیں جن کا ذکر مفصل کتابوں میں موجود هے۔

1101۔ سجدے میں قرآن مجید پڑھنا مکروه هے اور سجدے کی جگه کو گردوغبار جھاڑنے کے لئے پھونک مارنا بھی مکروه هے بلکه اگر پھونک مارنے کی وجه سے دو حرف بھی منه سے عمداً نکل جائیں تو احتیاط کی بنا پر نماز باطل هے اور ان کے علاوه اور مکروهات کا ذکر بھی مفصل کتابوں میں آیا هے۔

قرآن مجید کے واجب سجدے

1102۔ قرآن مجید کی چار سورتوں یعنی وَالنَّجم، اِقرَا، الٓمّ تنزیل اور حٰمٓ سجده میں سے هر ایک میں ایک آیه سجده هے جسے اگر انسان پڑھے یا سنے تو آیت ختم هونے کے بعد فوراً سجده کرنا ضروری هے اور اگر سجده کرنا بھول جائے تو جب بھی اسے یاد آئے سجده کرے اور ظاهر یه هے که آیه سجده غیر اختیاری حالت میں سنے تو سجده واجب نهیں هے اگرچه بهتریه هے که سجده کیا جائے۔

1103۔ اگر انسان سجدے کی آیت سننے کے وقت خود بھی وه آیت پڑھے تو ضروری هے که دو سجدے کرے۔

1104۔ اگر نماز کے علاوه سجدے کی حالت میں کوئی شخص آیه سجده پڑھے یا سنے تو ضروری هے که سجدے سے سر اٹھائے اور دوباره سجده کرے۔

ص:217

1105۔ اگر انسان سوئے هوئے شخص یا دیوانے یا بچے سے جو قرآن سمجھ کر نه پڑھ رها هو سجدے کی آیت سنے یا اس پر کان دھرے تو سجده واجب هے۔ لیکن اگر گرامافون یا ٹیپ ریکارڈ سے (ریکارڈشده آیه سجده) سنے تو سجده واجب نهیں۔ اور سجدے کی آیت ریڈیو پر ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے نشر کی جائے تب بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر کوئی شخص ریڈیوں اسٹیشن سے (براه راست نشریات میں) سجدے کی آیت پڑھنے اور انسان اسے ریڈیو پر تو سجده واجب هے۔

1106۔ قرآن کا واجب سجده کرنے کے لئے احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که انسان کی جگه غصبی نه هو اور احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے پیشانی رکھنے کی جگه اس کے گھٹنوں اور پاوں کی انگلیوں کے سروں کی جگه سے چار ملی هوئی انگلیوں سے زیاده اونچی یا نیچی نه هو لیکن یه ضروری نهیں که اس نے وضو یا غسل کیا هوا هو یا قبله رخ هو یا اپنی شرمگاه کو چھپائے یا اس کا بدن اور پیشانی رکھنے کی جگه پاک هو۔ اس کے علاوه جو شرائط نماز پڑھنے والے کے لباس کے لئے ضروری هیں وه شرائط قرآن مجید کا واجب سجده ادا کرنے والے کے لباس کے لئے نهیں هیں۔

1107۔ احتیاط واجب یه هے که قرآن مجید کے واجب سجدے میں انسان اپنی پیشانی سجده گاه یا کسی ایسی چیز پر رکھے۔ جس پر سجده کرنا صحیح هو اور احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کے دوسرے اعضاء زمین پر اس طرح رکھے۔ جس طرح نماز کے سلسلے میں بتایا گیا هے۔

1108۔ جب انسان قرآن مجید کا واجب سجده کرنے کے ارادے سے پیشانی زمین پر رکھ دے تو خواه وه کوئی ذکر نه بھی پڑھے تب بھی کافی هے اور ذکر کا پڑھنا مستحب هے۔ اور بهتر هے که یه پڑھے:

"لآَ اِلٰهَ الاَّ اللهُ حَقّاً حقّاً، لآَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ اِیماَناً وّتَصدِیقاً،لآَ اِلٰهَ الاَّ اللهُ عُبُودِیَّۃً وَّرِقاً، سَبَحتُّ لَکَ یَارَبِّ تَعَبُّدًا وَّرِقّاً، مُستَنکِفاً وَّلاَ مُستَکبِرًا، بَل اَنَا عَبدٌ ذَلِیلٌ ضَعِیفٌ خَآئِفٌ مُّستَجِیرٌ۔

تشهد

1109۔ سب واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت میں اور نماز مغرب کی تیسری رکعت میں اور ظهر، عصر اور عشا کی چوتھی رکعت میں انسان کے لئے ضروری هے که دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جائے اور بدن کے سکون کی حالت میں تشهد پڑھے یعنی کهے اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ وَحدَه لاَ شَرِیکَ لَه وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّمدًا عَبدُه وَرَسُولُه اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور

ص:218

اگر کهے اَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّمدًا صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَاٰلِه عَبدُهُ وَرَسُولُه تو بنابر اقوی کافی هے۔ اور نماز وتر میں بھی تشهُد پڑھنا ضروری هے۔

110۔ضروری هے که تشهد کے جملے صحیح عربی میں اور معمول کے مطابق مسلسل کهے جائیں۔

1111۔ اگر کوئی شخص تشهد پڑھنا بھول جائے اور کھڑا هو جائے، اور رکوع سے پهلے اسے یاد آئے که اس نے تشهد نهیں پڑھا تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور تشهد پڑھے اور پھر دوبارا کھرا هو اور اس رکعت میں جو کچھ پڑھنا ضروری هے پڑھے اور نماز ختم کرے۔ اور احتیاط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد بے جا قیام کرے اور نماز کے سلام کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر تشهد کی قضا کرے۔ اور ضروری هے که بھولے هوے تشهد کے لئے دو سجده سهو بجا لائے۔

1112۔مستحب هے که تشهد کی حالت میں انسان بائیں ران پر بیٹھے اور دائیں پاوں کی پشت کو بائیں پاوں کے تلوے پر رکھے اور تشهد سے پهلے کهے "اَلحَمدُ لِلّٰهِ" یا کهے۔ "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ وَ خَیرُالاَسمَآءِ لِلّٰهِ" اور یه بھی مستحب هے که هاتھ رانوں پر رکھے اور انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملائے اور اپنے دامن پر نگاه ڈالے اور تشهد میں صلوات کے بعد کهے :"وَتَقَبَّل شَفَاعَتَه وَارفَع دَرَجَتَه"۔

1113۔ مستحب هے که عورتیں تشهد پڑھتے وقت اپنی رانیں ملا کر رکھیں۔

نماز کا سلام

1114۔ نماز کی آخری رکعت کے تشهد کے بعد جب نمازی بیٹھا هو اور اس کا بدن سکون کی حالت میں هو تو مستحب هے که وه کهے : "اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرکَاتُه" اور اس کے بعد ضروری هے که کهے اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور احتیاط مستحب یه هے که اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور احتیاط مستحب یه هے که اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم کے جملے کے ساتھ وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرکَاتُه کے جملے کا اضافه کرے یا یه کهے اَلسَّلاَمُ عَلَینَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحیِینَ لیکن اگر اس اسلام کو پڑھے تو احتیاط واجب یه هے که اس کے بعد اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم بھی کهے۔

ص:219

1115۔ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کهنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب ابھی نماز کی شکل ختم نه هوئی هو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نه کیا هو جسے عمداً اور سهواً کرنے سے نماز باطل هو جاتی هو مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو ضروری هے که سلام کهے اور اس کی نماز صحیح هے۔

1116۔ اگر کوئی شخص نماز کا سلام کهنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب نماز کی شکل ختم هوگئی هو یا اس نے کوئی ایسا کام کیا هو جسے عمداً اور سهواً کرنے سے نماز باطل هو جاتی هے مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو اس کی نماز صحیح هے۔

ترتیب

1117۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کی ترتیب الٹ دے مثلاً الحمد سے پهلے سوره پڑھ لے یا رکوع سے پهلے سجدے بجالائے تو اس کی نماز باطل هوجاتی هے۔

1118۔ اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول جائے اور اس کے بعد کا رکن بجالائے مثلاً رکوع کرنے سے پهلے دو سجدے کرے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل هے۔

1119۔ اگر کوئی شخص نماز کو کوئی رکن بھول جائے اور ایسی چیز بجالائے جو اس کے بعد هو اور رکن نه هو مثلاً اس سے پهلے که دو سجدے کرے تشهد پڑھ لے تو ضروری هے که رکن بجالائے اور جو کچھ بھول کر اس سے پهلے پڑھا هو اسے دوباره پڑھے۔

1120۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نه هو اور اس کے بعد کا رکن بجالائے مثلاً الحمد بھول جائے اور رکوع میں چلاجائے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1121۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نه هو اور اس چیز کو بجالائے جو اس کے بعد هو اور وه بھی رکن نه هو مثلاً الحمد بھول جائے اور سوره پڑھ لے تو ضروری هے که جو چیز بھول گیا هو وه بجائے اور اس کے بعد وه چیز جو بھول کر پهلے پڑھ لی هو دوباره پڑھے۔

1122۔ اگر کوئی شخص پهلا سجده اس خیال سے بجالائے که دوسرا سجده هے یا دوسرا سجده اس خیال سے بجالائے که پهلا سجده هے تو اس کی نماز صحیح هے اور اس کی پهلا سجده، پهلا سجده اور دوسرا سجده دوسرا سجده شمار هوگا۔

ص:220

مُوَالات

1123۔ ضروری هے که انسان نماز مولات کے ساتھ پڑھے یعنی نماز کے افعال مثلاً رکوع، سجود اور تشهد تواتُر اور تسلسل کے ساتھ بجالائے۔ اور جو چیزیں بھی نماز میں پڑھے معمول کے مطابق پے در پے پڑھے اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصله ڈالے که لوگ یه نه کهیں که نماز پڑھ رها هے تو اس کی نماز باطل هے۔

1124۔ اگر کوئی شخص نماز میں سهواً حروف یا جملوں کے درمیان فاصله دے اور فاصله اتنا نه هو که نماز کی صورت برقرار نه رهے تو اگر وه ابھی بعد والے رکن میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که وه حروف یا جملے معمول کے مطابق پڑھے اور اگر بعد کی کوئی چیز پڑھی جاچکی هو تو ضروری هے که اسے دهرائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول هو گیا هو تو اس کی نماز صحیح هے۔

1125۔ رکوع اور سجود کو طول دینا اور بڑی سورتیں پڑھنا مُوَالات کو نهیں توڑتا۔

قُنوت

1126۔تمام واجب اور مستحب نمازوں میں دوسری رکعت کے رکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب هے لیکن نماز شفع میں ضروری هے که اسے رجاءً پڑھے اور نماز وتر میں بھی باوجودیکه ایک رکعت کی هوتی هے رکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب هے۔ اور نماز کی جمعه کی هر رکعت میں ایک قنوت، نماز آیات میں پانچ قنوت، نماز عید فطر و قربان کی پهلی رکعت میں پانچ قنوت اور دوسری رکعت میں چار قنوت هیں۔

1127۔ مستحب که قنوت پڑھتے وقت هاتھ چهرے کے سامنے اور هتھیلیاں ایک دوسری کے ساتھ ملا کر آسمان کی طرف رکھے اور انگوٹھوں کے علاوه باقی انگلیوں کو آپس میں ملائے اور نگاه هتھیلیوں پر رکھے۔

1128۔ قنوت میں انسان جو ذکر بھی پڑھے خواه ایک دفعه "سُبحَانَ اللهِ" هی کهے کافی هے اور بهتر هے که یه دعا پڑھے۔ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ، لآَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ العَلِیُّ العَظِیمُ، سُبحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَرَبِّ الاَرَضِینَ السَّبعِ وَمَافِیھِنَ وَمَا بَینَھُنَّ وَرَبِّ العَرشِ العَظِیمِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ۔

ص:221

1129۔ مستحب هے که انسان قنوت بلند آواز سے پڑھے لیکن اگر ایک شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رها هو اور امام اس کی آواز سن سکتا هو تو اس کا بلند آواز سے قنوت پڑھنا مستحب نهیں هے۔

1130۔ اگر کوئی شخص عمداً قنوت نه پڑھے تو اس کی قضا نهیں هے اور اگر بھول جائے اور اس سے پهلے که رکوع کی حد تک جھکے اسے یاد آجائے تو مستحب هے که کھڑا هو جائے اور قنوت پڑھے۔ اور اگر رکوع میں یاد آجائے تو مستحب هے که رکوع کے بعد قضا کرے اور اگر سجدے میں یاد آئے تو مستحب هے که سلام کے بعد اس کی قضا کرے۔

نماز کا ترجمه

1۔ سوره الحمد کا ترجمه

بِسمِ اللهِ الَّرحِیمِ :"بِسمِ اللهِ " یعنی میں ابتدا کرتا هوں خدا کے نام سے اس ذات کے نام سے جس میں تمام کملات یکجا هیں اور جو هر قسم کے نقص سے مُنَزَّه هے۔ "اَلرَّحمٰنِ " اس کی رحمت وسیع اور بے انتها هے۔ "الرَّحِیمِ " اس کی رحمت ذاتی اور اَزَلیِ و اَبَدیِ هے۔ "اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ"۔ یعنی ثنا اس خداوند کی ذات سے مخصوص هے جو تمام موجودات کا پالنے والا هے۔ "اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔" اس کے معنی بتائے جاچکے هیں۔ "مَالِکِ یَومِ الدِّینِ" یعنی وه توانا ذات که جزا کے دن کی حکمرانی اس کے هاتھ میں هے۔ "اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ" یعنی همیں فقط تیری هی عبادت کرتے هیں اور فقط تجھی سے مدد طلب کرتے هیں "اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ" یعنی همیں راه راست کی جانب هدایت فرما جو که دین اسلام هے "صِراطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم" یعنی ان لوگوں کے راستے کی جانب جنهیں تو نے اپنی نعمتیں عطا کی هیں جو انبیاء اور انبیاء کے جانشین هیں۔ "غَیرِالمَغضُوبِ عَلَیھِم وَلاَ الضَّآلِّینَ" یعنی نه ان لوگوں کے راستے کی جانب جن پر تیرا غضب هوا اور نه ان کے راستے کی جانب جو گمراه هیں۔

2۔ سوره اخلاص کا ترجمه

بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ اس کے معنی بتائے جاچکے هیں۔

ص:222

"قُل ھُوَاللهُ اَحَدٌ"یعنی اے محمد صلی الله علیه وآله وسلم آپ کهه دیں که خداوندی وهی هے جو یکتا خدا هے۔ "اللهُ الصَّمدُ" یعنی وه خدا جو تمام موجودات سے بے نیاز هے۔ "لَم یَلِدوَلَم یُولَد" یعنی نه اس کی کوئی اولاد هے اور نه وه کسی کی اولاد هے۔ "وَلَم یَکُن لَّه کُفُوًا اَحَدٌ" اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کے مثل نهیں هے۔

3۔ رکوع، سجود اور ان کے بعد کے مستحب اذ کار کا ترجمه

"سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَبِحَمده " یعنی میرا پروردگار بزرگ هر عیب اور هر نقص سے پاک اور مُنَزَّه هے، میں اس کی ستائش میں مشغول هوں۔ "سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی وَبِحَمدِه" یعنی میرا پروردگار جو سب سے بالاتر هے اور هر عیب اور نقص سے پاک اور مُنَزَّ هے، میں اس کی ستائش میں مشغول هوں۔ "سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه" یعنی جو کوئی خدا کی ستائش کرتا هے خدا اسے سنتا هے اور قبول کرتا هے۔

"اَستغفِرُاللهِ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیهِ" یعنی میں مغفرت طلب کرتا هوں اس خداوند سے جو میرا پالنے والا هے۔ اور میں اس کی طرف رجوع کرتا هوں۔ "بِحَولِ اللهِ وَقُوَّتِهٓ اَقُومُ وَاَقعُدُ" یعنی میں خداتعالی کی مدد سے اٹھتا اور بیٹھتا هوں۔

4۔ قنوت کا ترجمه

لآَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ الحَلِیمُ الکَرِیمُ" یعنی کوئی خدا پرستش کے لائق نهیں سوائے اس یکتا اور بے مثل خدا کے جو صاحب حلم و کرم هے۔ "لآَ اِلٰهُ الاَّ اللهُ العَلِیُّ العَظِیمُ" یعنی کوئی خدا پرستش کے لائق نهیں سوائے اس یکتا اور بے مثل خدا کے جو بلند مرتبه اور بزرگ هے۔ "سُبحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَرَبِّ الاَرَضِینَ السَّبعِ" یعنی پاک اور مُنَزَّه هے وه خدا جو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار هے۔ "وَمَافِیھِنَّ وَمَافِیھِنَّ وَمَا بَینَھُنَّ وَرَبِّ العَرشِ العَظِیمِ" یعنی وه هر اس چیز کا پروردگار هے جو آسمانوں اور زمینوں میں اور ان کے درمیان هے اور عرش اعظم کا پروردگار هے۔

"وَالحَمدُلِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ" اور حمد و ثنا اس خدا کے لئے مخصوص هے جو تمام موجودات کا پالنے والا هے۔

5۔ تسبیحات اربعه کا ترجمه

"سُبحَانَ اللهِ وَالحَمدُلِلّٰهِ وَلآَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ اَکبَرُ" یعنی خدا تعالی پاک اور مُنَزَّه اور ثنا اسی کے لئے مخصوص هے اور اس بے مثل خدا کے علاوه کوئی خدا پرستش کے لائق نهیں اور وه اس سے بالاتر هے که اس کی (کَمَاحَقُّه) توصیف کی جائے۔

ص:223

6۔ تشهُّد اور سلام کا ترجمه

"اَلحَمدُلِلّٰهِ، اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ الاَّ اللهُ وَحدَهُ لاَ شَرِیکَ لَه" یعنی ستائش پروردگار کے لئے مخصوص هے اور میں گواهی دیتا هوں که سوائے اس خدا کے جو یکتا هے اور جس کا کوئی شریک نهیں کوئی اور خدا پرستش کے لائق نهیں هے ۔ "وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا وَرَسُولُه" اور میں گواهی دیتا هوں که مُحمّد صلی الله علیه وآله وسلم خدا کے بندے اور اس کے رسول هیں "اللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ" یعنی اے خدا رحمت بھیج محمد اور آل محمد پر۔ "وَتَقبَّل شَفَاعَتَه وَارفَع دَرَجَتَه"۔ یعنی رسول الله کی شفاعت قبول کر اور آنحضرت (صلی الله علیه وآله) کا درجه اپنے نزدیک بلند کر۔ "اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیُّھَاالنّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُه" یعنی اے الله کے رسول آپ پر همارا سلام هو اور آپ پر الله کی رحمتیں اور برکتیں هوں۔ "اَلسَّلامُ عَلَیناَ وَعَلٰی عِبَادِ اللهِ الصّٰلِحِینَ" یعنی هم نماز پڑھنے والوں پر اور تمام صالح بندوں پر الله کی طرف سے سلامتی هو۔ "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرکَاتُه" یعنی تم مومنین پر خدا کی طرف سے سلامتی اور رحمت و برکت هو۔

تعقیبات نماز

1131۔ مستحب هے که نماز پڑھنے کے بعد انسان کچھ دیر کے لئے تعقیبات یعنی ذکر، دعا اور قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رهے۔ اور بهتر هے که اس سے پهلے که وه اپنی جگه سے حرکت کرے که اس کا وضو، غسل یا تیمم باطل هو جائے روبه قبله هو کر تعقبات پڑھے اور یه ضروری نهیں که تعقیبات عربی میں هوں لیکن بهتر هے که انسان وه دعائیں پڑھے جو دعاوں کی کتابوں میں بتائی گئی هیں اور تسبیح فاطمه ان تعقیبات میں سے هے جن کی بهت زیاده تاکید کی گئی هے ۔ یه تسبیح اس ترتیب سے پڑھنی چاهئے: 34 دفعه "اَللهُ اَکبَرُ" اس کے بعد 33 دفعه "اَلحَمدُلِلّٰهِ" اور اس کے بعد 33 دفعه "سُبحَانَ اللهِ" اور سُبحَانَ اللهِ، اَلحَمدُ لِلّٰهِ سے پهلے بھی پڑھا جاسکتا هے لیکن بهتر هے که اَلحَمدُ لِلّٰهِ کے بعد پڑھے۔

1132۔ انسان کے لئے مستحب هے که نماز کے بعد سجده شکر بجالائے اور اتنا کافی هے که شکر کی نیت سے پیشانی زمین پر رکھے لیکن بهتر هے که سو دفعه یا تین دفعه یا ایک دفعه "شُکرًا لِّلّٰهِ" یا "عَفوًا" کهے اور یه بھی مستحب هے که جب بھی انسان کو کوئی نعمت ملے یا کوئی مصیبت ٹل جائے سجده شکر بجالائے۔

ص:224

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله) پر صَلَوات (دُرود)

1133۔ جب بھی انسان حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) کا اسم مبارک مثلاً محمد اور اَحمَد یا آنحضرت کا لقب اور کنیت مثلاً مصطفیٰ اور ابوالقاسم (صلی الله علیه وآله) زبان سے ادا کرے یا سنے تو خواه نماز میں هی کیوں نه هو مستحب هے که صَلَوَات بھیجے۔

1134۔ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) کا اسم مبارک لکھتے وقت مستحب هے که انسان صَلَوَات بھی لکھے اور بهتر هے که جب بھی آنحضرت کو یاد کرے تو صَلَوَات بھیجے۔

مبطلات نماز ، شکّیات نماز ، سجده سهو

اشاره

1135۔ باره چیزیں نماز کو باطل کرتی هیں اور انهیں مبطلات کها جاتا هے۔

(اول) نماز کے دوران نماز کی شرطوں میں سے کوئی شرط مفقد هو جائے مثلاً نماز پڑھتے هوئے متعلقه شخص کو پته چلے که جس کپڑے سے اس نے سترپوشی کی هوئی هے وه غصبی هے۔

(دوم) نماز کے دوران عمداً یا سهواً یا مجبوری کی وجه سے انسان کسی ایسی چیز سے دوچار هو جو وضو یا غسل کو باطل کرے مثلاً اس کا پیشاب خطا هو جائے اگرچه احتیاط کی بنا پر اس طرح نماز کے آخری سجدے کے بعد سهواً یا مجبوری کی بنا پر تاهم جو شخص یا پاخانه نه روک سکتا هو اگر نماز کے دوران میں اس کا پیشاب یا پاخانه نکل جائے اور وه اس طریقے پر عمل کرے جو احکام وضو کے ذیل میں بتایا گیا هے تو اس کی نماز باطل نهیں هوگی اور اسی طرح اگر نماز کے دوران مُستَحاضه کو خون آجائے تو اگر وه اِستخاضه سے متعلق احکام کے مطابق عمل کرے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1136۔جس شخص کو بے اختیار نیند آجائے اگر اسے یه پته نه چلے که وه نماز کے دوران سو گیا تھا یا اس کے بعد سویا تو ضروری نهیں که نماز دوباره پڑھے بشرطیکه یه جانتا هو که جو کچھ نماز میں پڑھا هے وه اس قدر تھا که اسے عرف میں نماز کهیں۔

1137۔اگر کسی شخص کو علم هو که وه اپنی مرضی سے سویا تھا لیکن شک کرے که نماز کے بعد سویا تھا یا نماز کے دوران یه بھول گیا که نماز پڑھ رها هے اور سوگیا تو اس شرط کے ساتھ جو سابقه مسئلے میں بیان کی گئی هے اس کی نماز صحیح هے۔

ص:225

1138۔ اگر کوئی شخص نیند سے سجدے کی حالت میں بیدار هو جائے اور شک کرے که آیا نماز کے آخری سجدے میں هے یا سجده شکر میں هے تو اگر اسے علم هو که بے اختیار سو گیا تھا تو ضروری هے که نماز دوباره پڑھے اور اگر جانتا هو که اپنی مرضی سے سویا تھا اور اس بات کا احتمال هو که غفلت کی وجه سے نماز کے سجدے میں سوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح هے۔

(سوم) یه چیز مبطلات نماز میں سے هے که انسان اپنے هاتھوں کو عاجزای اور ادب کی نیت سے باندھے لیکن اس کام کی وجه سے نماز کا باطل هونا احتیاط کی بنا پر هے اور اگر مشروعیت کی نیت سے انجام دے تو اس کام کے حرام هونے میں کوئی اشکال نهیں هے۔

1139۔ اگر کوئی شخص بھولے سے یا مجبوری سے یا تقیه کی وجه سے یا کسی اور کام مثلاً هاتھ کھجانے اور ایسے هی کسی کام کے لئے هاتھ پر هاتھ رکھ لے تو کوئی حرج نهیں هے۔

(چهارم) مبطلات نماز میں سے ایک یه هے که الحمد پڑھنے کے بعد آمین کهے۔ آمین کهنے سے نماز کا اس طرح باطل هونا غیر ماموم میں احتیاط کی بنا پر هے۔ اگرچه آمین کهنے کو جائز سمجھتے هوئے آمین کهے تو اس کے حرام هونے میں کوئی اشکال نهیں هے۔ بهر حال اگر امین کو غلطی یا تقیه کی وجه سے کهے تو اس کی نماز میں کوئی اشکال نهیں هے۔

(پنجم) مبطلات نماز میں سے هے که بغیر کسی عذر کے قبلے سے رخ پھیرے لیکن اگر کسی عذر مثلاً بھول کر یا بے اختیاری کی بنا پر مثلاً تیز هوا کے تھپیڑے اسے قبلے سے پھیر دیں چنانچه اگر دائیں یا بائیں سمت تک نه پهنچے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن ضروری هے که جسے هی عذر دور هو فوراً اپنا قبله دسرت کرے۔ اور اگر دائیں یا بائیں طرف مڑ جائے خواه قبلے کی طرف پشت هو یا نه هو اگر اس کا عذر بھولنے کی وجه سے هو اور جس وقت متوجه هو اور نماز کو توڑ دے تو اسے دوباره قبله رخ هو کر پڑھ سکتا هو تو ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھے اگرچه اس نماز کی ایک رکعت وقت میں پڑھے ورنه اسی نماز پر اکتفا کرے اور اس پر قضا لازم نهیں اور یهی حکم هے اگر قبلے سے اس کا پھرنا بے اختیاری کی بنا پر هو چنانچه قبلے سے پھرے بغیر اگر نماز کو دوباره وقت میں پڑھ سکتا هو۔ اگرچه وقت میں ایک رکعت هی پڑھی جا سکتی هو تو ضروری هے که نماز کو نئے سرے سے پڑھے ورنه ضروری هے که اسی نماز کو تمام کرے اعاده اور قضا اس پر لازم نهیں هے۔

1140۔ اگر فقط اپنے چهرے کو قبلے سے گھمائے لیکن اس کا بدن قبلے کی طرف هو چنانچه اس حد تک گردن کو موڑے که اپنے سرکے پیچھے کچھ دیکھ سکے تو اس کے لئے بھی وهی حکم هے جو قبلے سے پھر جانے والے کے لئے هے جس کا ذکر پهلے کیا

ص:226

جاچکا هے۔ اور اگر اپنی گردن کو تھوڑا سا موڑے که عرفا کها جائے اس کے بدن کا اگلا حصه قبلے کی طرف هے تو اس کی نماز باطل نهیں هوگی اگرچه یه کام مکروه هے۔

(ششم) مبطلات نماز میں سے ایک یه هے که عمداً بات کرے اگرچه ایسا کلمه هو که جس میں ایک حرف سے زیاده نه هو اگر وه حرف بامعنی هو مثلاً (ق) که جس کے عربی زبان میں معنی حفاظت کرو کے هیں یا کوئی اور معنی سمجھ میں آتے هوں مثلاً (ب) اس شخص کے جواب میں که جو حروف تهجی کے حرف دوم کے بارے میں سوال کرے اور اگر اس لفظ سے کوئی معنی بھی سمجھ میں نه آتے هوں اور وه دو یا دو سے زیاده حرفوں سے مرکب هو تب بھی احتیاط کی بنا پر (وه لفظ) نماز کو باطل کر دیتا هے۔

1141۔اگر کوئی شخص سهواً کلمه کهے جس کے حروف ایک یا اس سے زیاده هوں تو خواه وه کلمه معنی بھی رکھتا هو اس شخص کی نماز باطل نهیں هوتی لیکن احتیاط کی بنا پر اس کے لئے ضروری هے جیسا که بعد میں ذکر آئے گا نماز کے بعد وه سجده سهو بجالائے۔

1142۔ نماز کی حالت میں کھانسنے، یا ڈکار لینے میں کوئی حرج نهیں اور احتیاط لازم کی بنا پر نماز میں اختیار آه نه بھرے اور نه هی گریه کرے۔ اور آخ اور آه اور انهی جیسے الفاظ کا عمداً کهنا نماز کو باطل کر دیتا هے۔

1143۔ اگر کوئی شخص کوئی کلمه ذکر کے قصدے سے کهے مثلاً ذکر کے قصه سے اَللّٰهُ اَکبَرُ کهے اور اسے کهتے وقت آواز کو بلند کرے تاکه دوسرے شخص کو کسی شخص کو کسی چیز کی طرف متوجه کرے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔ اور اسی طرح اگر کوئی کلمه ذکر کے قصد سے کهے اگرچه جانتا هو که اس کام کی وجه سے کوئی کسی مطلب کی طرف متوجه هوجائے گا تو کوئی اگر بالکل ذکر کا قصد نه کرے یا ذکر کا قصد بھی هو اور کسی بات کی طرف متوجه بھی کرنا چاهتا هو تو اس میں اشکال هے۔

1144۔نماز میں قرآن پڑھنے (چار آیتوں کا حکم که جن میں واجب سجده هے قراءت کے احکام مسئله نمبر 992 میں بیان هوچکا هے) اور دعا کرنے میں کوئی حرج نهیں لیکن احتیاط مستحب یه هے که عربی کے علاوه کسی زبان میں دعا نه کرے۔

1145۔ اگر کوئی شخص بغیر قصد جزئیت عمداً یا احتیاطاً الحمد اور سوره کے کسی حصے یا اذ کار نماز کی تکرار کرے تو کوئی حرج نهیں۔

ص:227

1146۔انسان کو چاهئے که نماز کی حالت میں کسی کو سلام نه کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے تو ضروری هے که جواب دے لیکن جواب سلام کی مانند هونا چاهئے یعنی ضروری هے که اصل سلام پر اضافه هو مثلاً جواب میں یه نهیں کهنا چاهئے۔ سَلاَمٌ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُه، بلکه احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که جواب میں عَلَیکُم یا عَلیَک کے لفظ کو سلام کے لفظ پر مقدم نه رکھے اگر وه شخص که جس نے سلام کیا هے اس نے اس طرح نه کیا هو بلکه احتیاط مستحب یه هے که جواب مکمل طور پر دے جس طرح که اس نے سلام کیا هو مثلاً اگر کها هو "سَلاَمُ عَلَیکُم" تو جواب میں کهے " سَلاَمُ عَلَیکُم" اور اگر کها هو "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم" تو کهے "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم" اور اگر کها هو "سَلاَمٌ عَلَیک" تو کهے "سَلاَمٌ عَلَیک" لیکن عَلَیکُم السَّلاَمُ" کے جواب میں جو لفظ چاهے کهه سکتا هے۔

1147۔ انسان کو چاهئے که خواه وه نماز کی حالت میں هو یا نه هو سلام کا جواب فوراً دے اور اگر جان بوجھ کر یا بھولے سے سلام کا جواب دینے میں اتنا وقت کرے که اگر جواب دے تو وه اس اسلام کا جواب شمار نه هو تو اگر وه نماز کی حالت میں هو تو ضروری هے که جواب نه دے اور اگر نماز کی حالت میں نه هو تو جواب دینا واجب نهیں هے۔

1148۔ انسان کو سلام کا جواب اس طرح دینا ضروری هے که سلام کرنے والا سن لے لیکن اگر سلام کرنے والا بهرا هو یا سلام کهه کر جلدی سے گزر جائے چنانچه ممکن هو تو سلام کا جواب اشارے سے یا اسی طرح کسی طریقے سے اسے سمجھا سکے تو جواب دینا ضروری هے۔ اس کی صورت کے علاوه جواب دینا نماز کے علاوه کسی اور جگه پر ضروری نهیں اور نماز میں جائز نهیں هے۔

1149۔ واجب هے که نمازی اسلام کے جواب کو سلام کی نیت سے کهے۔ اور دعا کا قصد کرنے میں بھی کوئی حرج نهیں یعنی خداوندعالم سے اس شخص کے لئے سلامتی چاهے جس نے سلام کیا هو۔

1150۔ اگر عورت یا نامحرم مرد یا وه بچه جو اچھے برے میں تمیز کر سکتا هو نماز پڑھنے والے کو سلام کرے تو ضروری هے که نماز پڑھنے والا اس کے سلام کا جواب دے اور اگر عورت "سَلاَمٌ عَلَیکَ" کهه کر سلام کرے تو جواب میں کهه سکتا هے "سَلاَمٌ عَلَیکِ" یعنی کاف کو زیر دے۔

1151۔ اگر نماز پڑھنے والا سلام کا جواب نه دے تو وه گناه گار هے لیکن اس کی نماز صحیح هے۔

ص:228

1152۔کسی ایسے شخص کے سلام کا جواب دینا جو مزاح اور تَمَسخُر کے طور پر سلام کرے اور ایسے غیر مسلم مرد اور عورت کے سلام کا جواب دینا جو ذمّی نه هوں واجب نهیں هے اور اگر ذمّی هوں تو اختیاط واجب کی بنا پر ان کے جواب میں کلمه "عَلَیکَ" کهه دینا کافی هے۔

1154۔ اگر کوئی شخص کسی گروه کو سلام کرے تو ان سب پر سلام کا جواب دینا واجب هے لیکن اگر ان میں سے ایک شخص جواب دے دے تو کافی هے۔

1155۔ اگر کوئی شخص کسی گروه کو سلام کرے اور جواب ایک ایسا شخص دے جس کا سلام کرنے والے کو سلام کرنے کا اراده نه هو تو (اس شخص کے جواب دینے کے باوجود) سلام کا جواب اس گروه پر واجب هے۔

1156۔ اگر کوئی شخص کسی گروه کو سلام کرے اور اس گروه میں سے جوشخص نماز میں مشغول هو وه شک کرے که سلام کرنے والے کا اراده اسے بھی سلام کرنے کا تھا یا نهیں تو ضروری هے که جواب نه دے اور اگر نماز پڑھنے والے کو یقین هو که اس شخص کا اراداه اسے بھی سلام کرنے کا تھا لیکن کوئی شخص سلام کا جواب دے دے تو اس صورت میں بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر نماز پڑھنے والے کو معلوم هو که سلام کرنے والے کا اراده اسے بھی سلام کرنے کا تھا اور کوئی دوسرا جواب نه دے تو ضروری هے که سلام کا جواب دے۔

1157۔ سلام کرنا مستحب هے اور اس امر کی بهت تاکید کی گئی هے که سوار پیدل کو اور کھڑا هوا شخص بیٹھے هوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

1157۔ سلام کرنا مستحب هے اور اس امر کی بهت تاکید کی گئی هے که سوار پیدل کو اور کھڑا هوا شخص بیٹھے هوئے کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔

1158۔ اگر دو شخص آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که ان میں سے هر ایک دوسرے کو اس کے سلام کا جواب دے۔

1159۔ اگر انسان نماز نه پرھ رها هو تو مستحب هے که سلام کا جواب اس سلام سے بهتر الفاظ میں دے مثلاً اگر کوئی شخص "سَلاَمٌ عَلَیکُم" کهے تو جواب میں کهے "سَلاَمٌ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللهِ"۔

ص:229

(هفتم) نماز کے مبطلات میں سے ایک آواز کے ساتھ اور جان بوجھ کر هنسنا هے۔ اگرچه بے اختیار هنسے۔ اور جن باتوں کی وجه سے هنسے وه اختیاری هوں بلکه احتیاط کی بنا پر جن باتوں کی وجه سے هنسی آئی هو اگر وه اختیاری نه بھی هوں تب بھی وه نماز کے باطل هونے کا موجب هوں گی لیکن اگر جان بوجھ کر بغیر آواز یا سهواً آواز کے ساتھ هنسے تو ظاهر یه هے که اس کی نماز میں کوئی اشکال نهیں۔

1160۔ اگر هنسی کی آواز روکنے کے لئے کسی شخص کی حالت بدل جائے مثلاً اس کا رنگ سرخ هو جائے تو اختیاط واجب یه هے که وه نماز دوباره پڑھے۔

(هشتم) احتیاط واجب کی بنا پر یه نماز کے مبطلات میں سے هے که انسان دنیاوی کام کے لئے جان بوجھ کر آواز سے یا بغیر آواز کے روئے لیکن اگر خوف خدا سے یا آخرت کے لئے روئے تو خواه آهسته روئے یا بلند آواز سے روئے کوئی حرج نهیں بلکه یه بهترین اعمال میں سے هے۔

(نهم) نماز باطل کرنے والی چیزوں میں سے هے که کوئی ایسا کام کرے جس سے نماز کی شکل باقی نه رهے مثلاً اچھلنا کودنا اور اسی طرح کا کوئی عمل انجام دینا۔ ایسا کرنا عمداً هو یا بھول چوک کی وجه سے هو۔ لیکن جس کام سے نماز کی شکل تبدیل نه هوتی هو مثلاً هاتھ سے اشاره کرنا اس میں کوئی حرج نهیں هے۔

1161۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس قدر ساکت هو جائے که لوگ یه نه کهیں که نماز پڑھ رها هے تو اس کی نماز باطل هو جاتی هے۔

1162۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کوئی کام کرے یا کچھ دیر ساکت رهے اور شک کرے که اس کی نماز ٹوٹ گئی هے یا نهیں تو ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھے اور بهتر یه هے که نماز پوری کرے اور پھر دوباره پڑھے۔

(دهم) مبطلات نماز میں سے ایک کھانا اور پینا هے۔ پس اگر کوئی شخص نماز کے دوران اس طرح کھائے یا پئے که لوگ یه نه کهیں که نماز پڑھ رها هے تو خواه اس کا یه فعل عمداً هو یا بھول چوک کی وجه سے هو اس کی نماز باطل هو جاتی هے۔ البته جو شخص روزه رکھنا چاهتا هو اگر وه صبح کی اذان سے پهلے مستحب نماز پڑھ رها هو اور پیاسا هو اور اسے ڈر هو که اگر نماز پوری کرے گا تو صبح هو جائے گی تو اگر پانی اس کے سامنے دو تین قدم کے فاصلے پر هو تو وه نماز کے دوران پانی پی سکتا هے۔ لیکن ضروری هے که کوئی ایسا کام مثلاً "قبلے سے منه پھیرنا" کرے جو نماز کو باطل کرتا هے۔

ص:230

1163۔ اگر کسی کا جان بوجھ کر کھانا یا پینا نماز کی شکل کو ختم نه بھی کرے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھے خواه نماز کا تسلسل ختم هو یعنی یه نه کها جائے که نماز کو مسلسل پڑھ رها هے یا نماز کا تسلسل ختم نه هو۔

1164۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران کوئی ایسی غذا نگل لے جو اس کے منه یا دانتوں کے ریخوں میں ره گئی هو تو اس کی نماز باطل نهیں هوتی۔ اسی طرح اگر ذر اسی قند یا شکر یا انهیں جیسی کوئی چیز منه میں ره گئی هو اور نماز کی حالت میں آهسته آهسته گُھل کر پیٹ میں چلی جائے تو کوئی حرج نهیں۔

(یاز دهم) مبطلات نماز میں سے دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں میں یا چار رکعتی نمازوں کی پهلی دو رکعتوں میں شک کرنا هے بشرطیکه نماز پڑھنے والا شک کی حالت میں باقی رهے۔

(دوازدهم) مبطلات نماز میں سے یه بھی هے که کوئی شخص نماز کا رکن جان بوجھ کر یا بھول کر کم کردے یا ایک ایسی چیز کو جو رکن نهیں هے جان بوجھ کر گھٹائے یا جان بوجھ کر کوئی چیز نماز میں بڑھائے۔ اسی طرح اگر کسی رکن مثلاً رکوع یا دو سجدوں کو ایک رکعت میں غلطی سے بڑھا دے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل هو جائے گی البته بھولے سے تکبیرۃ الاحرام کی زیادتی نماز کو باطل نهیں کرتی۔

1165۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد شک کرے که دوران نماز اس نے کوئی ایسا کام کیا هے یا نهیں جو نماز کو باطل کرتا هو تو اس کی نماز صحیح هے۔

وه چیزیں جو نماز میں مکروه هیں

1166۔ کسی شخص کا نماز میں اپنا چهره دائیں یا بائیں جانب اتنا کم موڑنا که لوگ یه نه کهیں که اس نے اپنا منه قبلے سے موڑ لیا هے مکروه هے۔ ورنه جیسا که بیان هوچکا هے اس کی نماز باطل هے۔ اور یه بھی مکروه هے که کوئی شخص نماز میں اپنی آنکھیں بند کرے یا دائیں اور بائیں طرف گھمائے اور اپنی ڈاڑھی اور هاتھوں سے کھیلے اور انگلیاں ایک دوسری میں داخل کرے اور تھوکے اور قرآن مجید یا کسی اور کتاب یا انگوٹھی کی تحریر کو دیکھے۔ اور یه بھی مکروه هے که الحمد، سوره اور ذکر پڑھتے وقت کسی کی بات سننے کے لئے خاموش هو جائے بلکه هر وه کام جو خضوع و خشوع کو کالعدم کر دے مکروه هے۔

ص:231

1167۔ جب انسان کو نیند آرهی هو اور اس وقت بھی جب اس نے پیشاب اور پاخانه روک رکھا هو نماز پڑھنا مکروه هے اور اسی طرح نماز کی حالت میں ایسا موزه پهننا بھی مکروه هے جو پاوں کو جکڑ لے اور ان کے علاوه دوسرے مکروهات بھی مفصل کتابوں میں بیان کئے گئے هیں۔

وه صورتیں جن میں واجب نمازیں توڑی جاسکتی هیں

1168۔ اختیاری حالت میں واجب نماز کا توڑنا احتیاط واجب کی بنا پر حرام هے لیکن مال کی حفاظت اور مالی یا جسمانی ضرر سے بچنے کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نهیں بلکه ظاهراً وه تمام اهم دینی اور دنیاوی کام جو نمازی کو پیش آئیں ان کے لئے نماز توڑنے میں کوئی حرج نهیں۔

1169۔ اگر انسان اپنی جان کی حفاظت یا کسی ایسے شخص کی جان کی حفاظت جس کی نگهداشت واجب هو اور وه نماز توڑے بغیر ممکن نه هو تو انسان کو چاهئے که نماز توڑ دے۔

1170۔ اگر کوئی شخص وسیع وقت میں نماز پڑھنے لگے اور قرض خواه اس سے اپنے قرضے کا مطالبه کرے اور وه اس کا قرضه نماز کے دوران ادا کرسکتا هو تو ضروری هے که اسی حالت میں ادا کرے اور اگر بغیر نماز توڑے اس کا قرضه چکانا ممکن نه هو تو ضروری هے که نماز توڑ دے اور اس کا قرضه ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے۔

1171۔ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پته چلے که مسجد نجس هے اور وقت تنگ هو تو ضروری هے که نماز تمام کرے اور اگر وقت وسیع هو اور مسجد کو پاک کرنے سے نماز نه ٹوٹتی هو تو ضروری هے که نماز کے دوران اسے پاک کرے اور بعد میں باقی نماز پڑھے اور اگر نماز ٹوٹ جاتی هو اور نماز کے بعد مسجد کو پاک کرنا ممکن هو تو مسجد کو پاک کرنے کے لئے اس کا نماز توڑنا جائز هے اور اگر نماز کے بعد مسجد کا پاک کرنا ممکن نه هو تو اس کے لئے ضروری هے که نماز توڑ دے اور مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نماز پڑھے۔

1172۔ جس شخص کے لئے نماز کا توڑنا ضروری هو اگر وه نماز ختم کرے تو وه گناهگار هوگا لیکن اس کی نماز صحیح هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که دوباره نماز پڑھے۔

ص:232

1173۔اگر کسی شخص کو قراءت یا رکوع کی حد تک جھکنے سے پهلے یاد آجائے که وه اذان اور اقامت یا فقط اقامت کهنا بھول گیا هے اور نماز کا وقت وسیع هو تو مستحب هے که انهیں کهنے کے لئے نماز توڑ دے بلکه اگر نماز ختم هونے سے پهلے اسے یاد آئے که انهیں بھول گیا تھا تب بھی مستحب هے که انهیں کهنے کے لئے نماز توڑ دے۔

شکّیات نماز

نماز کے شکیات کی 22 قسمیں هیں۔ان میں سے سات اس قسم کے شک هیں جو نماز کو باطل کرتے هیں اور چھ اس قسم کے شک هیں جن کی پروا نهیں کرنی چاهئے اور باقی نو اس قسم کے شک هیں جو صحیح هیں۔

وه شک جو نماز کو باطل کرتے هیں

1174۔ جو شک نماز کو باطل کرتے یهں وه یه هیں:

1۔ دو رکعتی واجب نماز مثلاً نماز صبح اور نماز مسافر کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں سک البته نماز مستحب اور نماز احتیاط کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک نماز کو باطل نهیں کرتا۔

2۔ تین رکعتی نماز کی تعداد کے بارے میں شک۔

3۔ چار رکعتی نماز میں کوئی شک کرے که اس نے ایک رکعت پڑھی هے یا زیاده پڑھی هیں۔

4۔ چار رکعتی نماز میں دوسرے سجده میں داخل هونے سے پهلے نمازی شک کرے که اس نے دو رکعتیں پڑھی هیں یا زیاده پڑھی هیں۔

5۔ دو اور پانچ رکعتوں میں یا دو اور پانچ سے زیاده رکعتوں میں شک کرے۔

6۔ تین اور چھ رکعتوں میں یا تین اور چھ سے زیاده رکعتوں میں شک کرے۔

7۔ چار اور چھ رکعتوں کے درمیان شک یا چار اور چھ سے زیاده رکعتوں کے درمیان شک، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔

ص:233

1175۔ اگر انسان کو نماز باطل کرنے والے شکوک میں سے کوئی شک پیش آئے تو بهتر یه هے که جسیے هی اسے شک هو نماز نه توڑے بلکه اس قدر غور و فکر کرے که نماز کی شکل برقرار نه رهے یا یقین یا گمان حاصل هونے سے ناامید هو جائے۔

وه شک جن کی پروا نهیں کرنی چاهئے

1176۔ وه شکوک جن کی پروا نهیں کرنی چاهئے مندرجه ذیل هیں :

1۔ اس فعل میں شک جس کے بجالانے کا موقع گزر گیا هو مثلاً انسان رکوع میں شک کرے که اس نے الحمد پڑھی هے یا نهیں۔

2۔ سلام نماز کے بعد شک۔

3۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد شک۔

4۔ کثیرُالشک کا شک۔ یعنی اس شخص کا شک جو بهت زیاده شک کرتا هے۔

5۔ رکعتوں کی تعداد کے بارے میں امام کا شک جب که ماموم ان کی تعداد جانتا هو اور اسی طرح ماموم کا شک جبکه امام نماز کی رکعتوں کی تعداد جانتا هو۔

6۔ مستحب نمازوں اور نماز احتیاط کے بارے میں شک۔

جس فعل کا موقع گزر گیا هو اس میں شک کرنا

1177۔ اگر نمازی نماز کے دوران شک کرے که اس نے نماز کا ایک واجب فعل انجام دیا هے یا نهیں مثلاً اسے شک هو که الحمد پڑھی هے یا نهیں جبکه اس سابق کام کو عمداً ترک کر کے جس کام میں مشغول هو اس کام میں شرعاً مشغول نهیں هونا چاهئے تھا مثلاً سوره پڑھتے وقت شک کرے که الحمد پڑھی هے یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔ اس صورت کے علاوه ضروری هے که جس چیز کی انجام دهی کے بارے میں شک هو، بجالائے۔

ص:234

1178۔ اگر نمازی کوئی آیت پڑھتے هوئے شک کرے که اس سے پهلے کی آیت پڑھی هے یا نهیں یا جس وقت آیت کا آخری حصه پڑھ رها هو شک کرے که اس کا پهلا حصه پڑھا هے یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1179۔ اگر نمازی رکوع یا سجود کے بعد شک کرے که ان کے واجب افعال۔ مثلاً ذکر اور بدن کا سکون کی حالت میں هونا۔ اس نے انجام دیئے هیں یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1180۔ اگر نمازی سجدے میں جاتے وقت شک کرے که رکوع بجا لایا هے یا نهیں یا شک کرے که رکوع کے بعد کھڑا هوا تھا یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1181۔ اگر نمازی کھڑا هوتے وقت شک کرے که سجده یا تشهد بجالایا هے یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1182۔ جو شخص بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھ رها هو اگر الحمد یا تسبیحات پڑھنے کے وقت شک کرے که سجده یا تشهد بجالایا هے یا نهیں تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے اور اگر الحمد یا تسبیحات میں مشغول هونے سے پهلے شک کرے که سجده یا تشهد بجا لایا هے یا نهیں تو ضروری هے که بجالائے۔

1183۔اگر نمازی شک کرے که نماز کا کوئی ایک رکن بجا لایا هے یا نهیں اور اس کے بعد آنے والے فعل میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے اسے بجالائے مثلاً اگر تشهد پڑھنے سے پهلے شک کرے که دو سجدے بجالایا هے یا نهیں تو ضروری هے که بجالائے اور اگر بعد میں اسے یاد آئے که وه اس رکن کو بجالایا تھا تو ایک رکن بڑھ جانے کی وجه سے احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

1184۔ اگر نمازی شک کرے که ایک ایسا عمل جو نماز کا رکن نهیں هے بجالایا هے یا نهیں اور اس کے بعد آنے والے فعل میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که اسے بجالائے مثلاً اگر سوره پڑھنے سے پهلے شک کرے که الحمد پڑھی هے یا نهیں تو ضروری هے که الحمد پڑھے اور اگر اسے انجام دینے کے بعد اسے یاد آئے که اسے پهلے هی بجالا چکا تھا تو چونکه رکن زیاده نهیں هوا اس لئے اس کی نماز صحیح هے۔

ص:235

1185۔ اگر نمازی شک کرے که ایک رکن بجالایا هے یا نهیں مثلاً جب تشهد پڑھ رها هو شک کرے که دو سجدے بجا لایا هے یا نهیں اور اپنے شک کی پروا نه کرے اور بعد مین اسے یاد آئے که اس رکن کو بجا نهیں لایا هے یا نهیں اور اپنے شک کی پروا نه کرے اور بعد میں اسے یاد آئے که اس رکن کو بجا نهیں لایا تو اگر وه بعد والے رکن میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که اس رکن کو بجالائے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول هو گیا هو تو اس کی نماز احتیاط لازم کی بنا پر باطل هے مثلاً اگر بعد والی رکعت کے رکوع سے پهلے اسے یاد آئے که دو سجدے نهیں بجا لایا تو ضروری هے که بجالائے اور اگر رکوع میں یا اس کے بعد اسے یاد آئے (که دو سجدے نهیں بجالایا) تو اس کی نماز جیسا که بتایا گیا، باطل هے۔

1186۔ اگر نماز شک کرے که وه ایک غیر رکنی عمل بجالایا هے یا نهیں اور اس کے بعد والے عمل میں مشغول هو چکا هو تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے۔ مثلاً جس وقت سوره پڑھ رها هو شک کرے که الحمد پڑھی هے یا نهیں لایا اور ابھی بعد والے رکن میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که اس عمل کو بجالائے اور اگر بعد والے رکن میں مشغول هوگیا تو تو اس کی نماز صحیح هے۔ اس بنا پر مثلاً اگر قنوت میں اسے یاد آجائے که اس نے الحمد نهیں پڑھی تھی تو ضروری هے که پڑھے اور اگر یه بات اسے رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1187۔ اگر نمازی شک کرے که اس نے نماز کا سلام پڑھا هے یا نهیں اور تعقیبات یا دوسری نماز میں مشغول هو جائے یا کوئی ایسا کام کرے جو نماز کو برقرار نهیں رکھتا اور وه حالت نماز سے خارج هوگیا هو تو ضروری هے که اپنے شک کی پروا نه کرے اور اگر ان صورتوں سے پهلے شک کرے تو ضروری هے که سلام پڑھے اور اگر شک کرے که سلام درست پڑھا هے یا نهیں تو جهاں بھی هو اپنے شک کی پروانه کرے۔

سلام کے بعد شک کرنا

1188۔ اگر نمازی سلام نماز کے بعد شک کرے که اس نے نماز صحیح طور پر پڑھی هے یا نهیں مثلاً شک کرے که رکوع ادا کیا هے یا نهیں یا چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے که چار رکعتیں پڑھی هیں یا پانچ، تو وه اپنے شک کی پروانه کرے لیکن اگر اسے دونوں طرف نماز کے باطل هونے کا شک هو مثلاً چار رکعتی نماز کے سلام کے بعد شک کرے که تین رکعت پڑھی هیں یا پانچ رکعت تو اس کی نماز باطل هے۔

وقت کے بعد شک کرنا

ص:236

1189۔ اگر کوئی شخص نماز کا وقت گزرنے کے بعد شک کرے که اس نے نماز پڑھی هے یا نهیں یا گمان کرے که نهیں پڑھی تو اس نماز کا پڑھنا لازم نهیں لیکن اگر وقت گزرنے سے پهلے شک کرے که نماز پڑھی هے یا نهیں تو خواه گمان کرے که پڑھی هے پھر بھی ضروری هے که وه نماز پڑھے۔

1190۔ اگر کوئی شخص وقت گزرنے کے بعد شک کرے که اس نے نماز دوست پڑھی هے یا نهیں تو اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1191۔اگر نماز ظهر اور عصر کا وقت گزر جانے کے بعد نمازی جان لے که چار رکعت نماز پڑھی هے لیکن یه معلوم نه هو که ظهر کی نیت سے پڑھی هے یا عصر کی نیت سے تو ضروری هے که چار رکعت نماز قضا اس نماز کی نیت سے پڑھے جو اس پر واجب هے۔

1192۔ اگر مغرب اور عشا کی نماز کا وقت گزرنے کے بعد نمازی کو پته چلے که اس نے ایک نماز پڑھی هے لیکن یه علم نه هو که تین رکعتی نماز پڑھی هے یا چار رکعتی، تو ضروری هے که مغرب اور عشا دونوں نمازوں کی قضا کرے۔

کثیرُالشک کا شک کرنا

1193۔کثیرالشک وه شخص هے جو بهت زیاده شک کرے اس معنی میں که وه لوگ جو اس کی مانند هیں ان کی نسبت وه حواس فریب اسباب کے هونے یا نه هونے کے بارے میں زیاده شک کرے۔ پس جهاں حواس کو فریب دینےوالا سبب نه هو اور هر تین نمازوں میں ایک دفعه شک کرے تو ایسا شخص اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1194۔ اگر کثیرالشک نماز کے اجزاء میں سے کسی جزو کے انجام دینے کے بارے میں شک کرے تو اسے یوں سمجھنا چاهئے که اس جزو کو انجام دے دیا هے۔ مثلاً اگر شک کرے که رکوع کیا هے یا نهیں تو اسے سمجھنا چاهئے که رکوع کر لیاهے اور اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں شک کرے جو مبطل نماز هے مثلاً شک کرے که صبح کی نماز دو رکعت پڑھی هے یا تین رکعت تو یهی سمجھے نماز ٹھیک پڑھی هے۔

1195۔جس شخص کو نماز کے کسی جزو کے بارے میں زیاده شک هوتا هو، اس طرح که وه کسی مخصوص جزو کے بارے میں (کچھ) زیاده (هی) شک کرتا رهتا هو، اگر وه نماز کے کسی دوسرے جزو کے بارے میں شک کرے تو ضروری هے که شک

ص:237

کے احکام پر عمل کرے۔ مثلاً کسی کو زیاده شک اس بات میں هوتا هو که سجده کیا هے یا نهیں، اگر اسے رکوع کرنے کےبعد شک هو تو ضروری هے شک کے حکم پر عمل کرے یعنی اگر ابھی سجدے میں نه گیا هو تو رکوع کرے اور اگر سجدے میں چلا گیا هو تو شک کی پروا نه کرے۔

1196۔ جو شخص کسی مخصوص نماز مثلاً ظهر کی نماز میں زیاده شک کرتا هو اگر وه کسی دوسری نماز مثلاً عصر کی نماز میں شک کرے تو ضروری هے که شک کے احکام پر عمل کرے۔

1197۔ جو شخص کسی مخصوص جگه پر نماز پڑھتے وقت زیاده شک کرتا هو اگر وه کسی دوسری جگه نماز پڑھے اور اسے شک پیدا هو تو ضروری هے که شک کے احکام پر عمل کرے۔

1198۔ اگر کسی شخص کو اس بارے میں شک هو که وه کثیر الشک هو گیا هے یا نهیں تو ضروری هے که شک کے احکام پر عمل کرے اور کثیر الشک شخص کو جب تک یقین نه هو جائے که وه لوگوں کی عام حالت پر لوٹ آیا هے اپنے شک کی پروا نه کرے۔

1199۔ اگر کثیر الشک شخص، شک کرے که ایک رکن بجالایا هے یا نهیں اور وه اس شک کی پروا بھی نه کرے اور پھر اسے یاد آئے که وه رکن بجا نهیں لایا اور اس کے بعد کے رکن میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که اس رکن کو بجالائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول هوگیا هو تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل هے مثلاً اگر شک کرے که رکوع کیا هے یا نهیں اور اس شک کی پروا نه کرے اور دوسرے سجدے سے پهلے اسے یاد آئے که رکوع نهیں کیا تھا تو ضروری هے که رکوع کرے اور اگر دوسرے سجدے کے دوسران اسے یاد آئے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل هے۔

1200۔ جو شخص زیاده شک کرتا هو اگر وه شک کرے که کوئی ایسا عمل جو رکن نه هو انجام کیا هے یا نهیں اور اس شک کی پروا نه کرے اور بعد میں اسے یاد آئے که وه عمل انجام نهیں دیا تو اگر انجام دینے کے مقام سے ابھی نه گزرا هو تو ضروری هے که اسے انجام دے اور اگر اس کے مقام سے گزر گیا هو تو اس کی نماز صحیح هے مثلاً اگر شک کرے که الحمد پڑھی هے یا نهیں اور شک کی پروا نه کرے مگر قنوت پڑھتے هوئے اسے یاد آئے که الحمد نهیں پڑھی تو ضروری هے که الحمد پڑھے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو اس کی نماز صحیح هے۔

امام اور مقتدی کا شک

ص:238

1202۔ اگر کوئی شخص مستحب نماز کی رکعتوں میں شک کرے اور شک عدد کی زیادتی کی طرف هو جو نماز کو باطل کرتی هے تو اسے چاهئے که یه سمجھ لے که کم رکعتیں پڑھی هیں مثلاً اگر صبح کی نفلوں میں شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا تین تو یهی سمجھے که دو پڑھی هیں۔ اور اگر تعداد کی زیادتی والا شک نماز کو باطل نه کرے مثلاً اگر نمازی شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا ایک پڑھی هے تو شک کی جس طرف پر بھی عمل کرے اس کی نماز صحیح هے۔

1203۔ رکن کا کم هونا نفل نماز کو باطل کر دیتا هے لیکن رکن کا زیاده هونا اسے باطل نهیں کرتا۔ پس اگر نمازی نفل کے افعال میں سے کوئی فعل بھول جائے اور یه بات اسے اس وقت یاد آئے جب وه اس کے بعد والے رکن میں مشغول هو چکا هو تو ضروری هے که اس فعل کو انجام دے اور دوباره اس رکن کو انجام دے مثلاً اگر رکوع کے دوران اسے یاد آئے که سورۃ الحمد نهیں پڑھی تو ضروری هے که واپس لوٹے اور الحمد پڑھے اور دوباره رکوع میں جائے۔

1204۔ اگر کوئی شخص نفل کے افعال میں سے کسی فعل کے متعلق شک کرے خواه وه فعل رکنی هو یا غیر رکنی اور اس کا موقع نه گزرا هو تو ضروری هے که اسے انجام دے اور اگر موقع گزر گیا هو تو اپنے شک کی پروانه کرے۔

1205۔ اگر کسی شخس کو دو رکعتی مستحب نماز میں تین یا زیاده رکعتوں کے پڑھ لینے کا گمان هو تو چاهئے که اس گمان کی پروا نه کرے اور اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر اس کا گمان دو رکعتوں کا یا اس سے کم کا هو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسی گمان پر عمل کرے مثلاً اگر اسے گمان هو که ایک رکعت پڑھی هے تو ضروری هے که احتیاط کے طور پر ایک رکعت اور پڑھے۔

1206۔ اگر کوئی شخص نفل نماز میں کوئی ایسا کام کرے جس کے لئے واجب نماز میں سجده سهو واجب هو جاتا هو یا ایک سجده بھول جائے تو اس کے لئے ضروری نهیں که نماز کے بعد سجده سهو یا سجدے کی قضا بجالائے۔

صحیح شکوک

1208۔اگر کسی کو نو صورتوں میں چار رکعتی نماز کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک هو تو اسے چاهئے که فوراً غور و فکر کرے اور اگر یقین یا گمان شک کی کسی ایک طرف هو جائے تو اسی کی اختیار کرے اور نماز کو تمام کرے ورنه ان احکام کے مطابق عمل کرے جو ذیل میں بتائے جارهے هیں۔

ص:239

وه نو صورتیں یه هیں:

1۔ دوسرے سجدے کے دوران شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا تین ۔ اس صورت میں اسے یوں سمجھ لینا چاهئے که تین رکعتیں پڑھی هیں اور ایک اور رکعت پڑھے پھر نماز کو تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر نماز کے بعد ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر بجالائے۔

2۔ دوسرے سجدے کے دوران اگر شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا چار تو یه سمجھ لے که چار پڑھی هیں اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں دو رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر بجالائے۔

3۔ اگر کسی کو دوسرے سجدے کے دوران شک هو جائے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا تین یا چار تو اسے یه سمجھ لینا چاهئے که چار پڑھی هیں اور وه نماز ختم هونے کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر اور بعد میں دو رکعت بیٹھ کر بجالائے۔

4۔ اگر کسی شخص کو دوسرے سجدے کے دوران شک هو که اس نے چار رکعتیں پڑھی هیں یا پانچ تو وه یه سمجھے که چار پڑھی هیں اور اس بنیاد پر نماز پوری کرے اور نماز کے بعد دو سجده سهو بجا لائے۔ اور بعید نهیں که یهی حکم هر اس صورت میں هو جهاں کم از کم شک چار رکعت پر هو مثلاً چار اور چھ رکعتوں کے درمیان شک هو اور یه بھی بعید نهیں که هر اس صورت میں جهاں چار رکعت اور اس سے کم یا اس سے زیاده رکعتوں میں دوسرے سجدے کے دوران شک هو تو چار رکعتیں قرار دے کر دونوں شک کے اعمال انجام دے یعنی اس احتمال کی بنا پر که چار رکعت سے کم پڑھی هیں نماز احتیاط پڑھے اور اس احتمال کی بنا پر که چار رکعت سے زیاده پڑھی هیں بعد میں دو سجده سهو بھی کرے۔ اور تمام صورتوں میں اگر پهلے سجدے کے بعد اور دوسرے سجدے میں داخل هونے سے پهلے سابقه چار شک میں سے ایک اسے پیش آئے تو اس کی نماز باطل هے ۔

5۔ نماز کے دوران جس وقت بھی کسی کو تین رکعت اور چار رکعت کے درمیان شک هو ضروری هے که یه سمجھ لے که چار رکعتیں پڑھی هیں اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے هو که یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔

6۔ اگر قیام کے دوران کسی کو چار رکعتوں اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک هو جائے تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور تشهد اور کا سلام پڑھے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے هوکر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔

ص:240

7۔ اگر قیام کے دوران کسی کو تین اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک هو جائے تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور تشهد اور نماز کا سلام پڑھے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر پڑھے۔

8۔ اگر قیام کے دوران کسی کو تین، چار اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک هو جائے تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور تشهد پڑھے اور سلام نماز کے بعد دو رکعت نماز احتیاط کھرے هو هو کر اور بعد میں دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔

9۔ اگر قیام کے دوران کسی کو پانچ اور چھ رکعتوں کے بارے میں شک هو جائے تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور تشهد اور نماز کا سلام پڑھے اور دو سجده سهو بجالائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر ان چار صورتوں میں بےجا قیام کے لئے دو سجده سهو بھی بجالائے۔

1209۔ اگر کسی کو صحیح شکوک میں سے کوئی شک هو جائے اور نماز کو وقت اتنا تنگ هو که ناز از سرنو نه پڑھ سکے تو نماز نهیں توڑنی چاهئے اور ضروری هے که جو مسئله بیان کیا گیا هے اس کے مطابق عمل کرے۔ بلکه اگر نماز کا وقت وسیع هو تب بھی احتیاط مستحب یه هے که نماز نه توڑے اور جو مسئله پهلے بیان کیا گیا هے اس پر عمل کرے۔

1210۔ اگر نماز کے دوران انسان کو ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق هو جائے جن کے لئے نماز احتیاط واجب هے اور وه نماز کو تمام کرے تو احتیاط مستحب یه هے که نماز احتیاط پڑھے اور نماز احتیاط پڑھے بغیر از سر نو نماز نه پڑھے اور اگر وه کوئی ایسا فعل انجام دینے سے پهلے جونماز کو باطل کرتا هو از سر نو نماز پرھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی دوسری نماز بھی باطل هے لیکن اگر کوئی ایسا فعل انجام دینے کے بعد جونماز کو باطل کرتا هو نماز میں مشغول هو جائے تو اس کی دوسری نماز صحیح هے۔

1211۔جب نماز کو باطل کرنے والے شکوک میں سے کوئی شک انسان کو لاحق هو جائے اور وه جانتا هو که بعد کی حالت میں منتقل هو جانے پر اس کے لئے یقین یا گمان پیدا هوجائے گا تو اس صورت میں جبکه اس کا باطل شک شروع کی دو رکعت میں هو اس کے لئے شک کی حالت میں نماز جاری رکھنا جائز نهیں هے۔ مثلاً اگر قیام کی حالت میں اسے شک هو که ایک رکعت پڑھی هے یا زیاده پڑھی هیں اور وه جانتا هو که اگر رکوع میں جائے تو کسی ایک طرف یقین یا گمان پیدا کرے گا تو اس حالت میں اس کے لئے رکوع کرنا جائز نهیں هے اور باقی باطل شکوک میں بظاهر اپنی نماز جاری رکھ سکتا هے تاکه اسے یقین یا گمان حاصل هو جائے۔

ص:241

1212۔ اگر کسی شخص کا گمان پهلے ایک طرف زیاده هو اور بعد میں اس کی نظر میں دونوں اطراف برابر هوجائیں تو ضروری هے که شک کے احکام پر عمل کرے اور اگر پهلے هی دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر هوں اور احکام کے مطابق جو کچھ اس کا وظیفه هے اس پر عمل کی بنیاد رکھے اور بعد میں اس کا گمان دوسری طرف چلاجائے تو ضروری هے که اسی طرف کو اختیار کرے اور نماز کو تمام کرے۔

1213۔ جو شخص یه نه جانتا هو که اس کا گمان ایک طرف زیاده هے یا دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر هیں تو ضروری هے که شک کے احکام پر عمل کرے۔

1214۔اگرکسی شخص کو نماز کے بعد معلوم هو که نماز کے دوران وه شک کی حالت میں تھا مثلاً اسے شک تھا که اس نے دو رکعتیں پڑھی هیں یا تین رکعتیں هیں اور اس نے اپنے افعال کی بنیاد تین رکعتوں پر رکھی هو لیکن اسے یه علم نه هو که اس کے گمان میں یه تھا که اس نے تین رکعتیں پڑھی هیں یا دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر تھیں تو نماز احتیاط پڑھنا ضروری هے۔

1215۔ اگر قیام کے بعد شک کرے که دو سجدے ادا کئے تھے یا نهیں اور اسی وقت اسے ان شکوک میں سے کوئی شک هو جائے جو دو سجدے تمام هونے کے بعد لاحق هوتا تو صحیح هوتا مثلاً وه شک کرے که میں نے دو رکعت پڑھی هیں یا تین اور وه اس شک کے مطابق عمل کرے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر اسے تشهد پڑھتے وقت ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق هو جائے تو بالفرض اسے یه علم هو که دو سجدے ادا کئے هیں تو ضروری هے که یه سمجھے که یه ایسی دو رکعت میں سے هے جس میں تشهد نهیں هوتا تو اس کی نماز باطل هے۔ اس مثلا کی طرح جو گزر چکی هے ورنه اس کی نماز صحیح هے جیسے کوئی شک کرے که دو رکعت پڑھی هے یا چار رکعت۔

1216۔ اگر کوئی شخص تشهد میں مشغول هونے سے پهلے یا ان رکعتوں میں جن میں تشهد نهیں هے قیام سے پهلے شک کرے که ایک یا دو سجدے بجالایا هے یا نهیں اور اسی وقت اسے ان شکوک میں سے کوئی شک لاحق هو جائے جو دو سجدے تمام هونے کے بعد صحیح هو تو اس کی نماز باطل هے۔

ص:242

1217۔ اگر کوئی شخص قیام کی حالت میں تین اور چار رکعتوں کے بارے میں یا تین اور چار اور پانچ رکعتوں کے بارے میں شک کرے اور اسے یه بھی یاد آجائے که اس نے اس سے پهلی رکعت کا ایک سجده یا دونوں سجدے ادا نهیں کئے تو اس کی نماز باطل هے۔

1218۔ اگر کسی کا شک زائل هوجائے اور کوئی دوسرا شک اسے لاحق هو جائے مثلاً پهلے شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں تین رکعتیں اور بعد میں شک کیا تھا تو هر دو شک کے حکم پر عمل کر سکتا هے۔ اور نماز کو بھی توڑ سکتا هے۔ اور جو کام نماز کو باطل کرتا هے اسے کرنے کے بعد نماز دوباره پڑھے۔

1220۔اگر کسی شخص کو نماز کے بعد پته چلے که نماز کی حالت میں اسے کوئی شک لاحق هو گیا تھا لیکن یه نه جانتا هو که وه شک نماز کو باطل کرنے والے شکوک میں سے تھا یا صحیح شکوک میں سے تھا اور اگر صحیح شکوک میں سے بھی تھا تو اس کا تعلق صحیح شکوک کی کون سے قسم سے تھا تو اس کے لئے جائز هے که نماز کو کالعدم قرار دے اور دوباره پڑھے۔

1221۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رها هو اگر اسے ایسا شک لاحق هو جائے جس کے لئے اسے ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے هوکر یا دو رکعت بیٹھ کر پڑھنی چاهئے تو ضروری هے که ایک رکعت بیٹھ کر پڑھے اور اگر وه ایسا شک کرے جس کے لئے اسے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر پڑھنی چاهئے تو ضروری هے که دو رکعت بیٹھ کر پڑھے۔

1222۔ جو شخص کھڑا هو کر نماز پڑھتا هو اگر وه نماز احتیاط پڑھنے کے وقت کھڑا هونے سے عاجز هو تو ضروری هے که نماز احتیاط اس شخص کی طرح پڑھے جو بیٹھ کر نماز پڑھتا هے اور جس کا حکم سابقه مسئلے میں بیان هو چکا هے۔

1223۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا هو اگر نماز احتیاط پڑھنے کے وقت کھڑا هوسکے تو ضروری هے که اس شخص کے وظیفے کے مطابق عمل کرے جو کھڑا هو کر نماز پڑھتا هے۔

نماز احتیاط پڑھنے کا طریقه

1224۔ جس شخص پر نماز احتیاط واجب هو ضروری هے که نماز کے سلام کے فوراً بعد نماز احتیاط کی نیت کرے اور تکبیر کهے پھر الحمد پڑھے اور رکوع میں جائے اور دو سجدے بجالائے۔ پس اگر اس پر ایک رکعت نماز احتیاط واجب هو تو دو

ص:243

سجدوں کے بعد تشهد اور سلام پڑھے۔ اور اگر اس پر دو رکعت نماز احتیاط واجب هو تو دو سجدوں کے بعد پهلی رکعت کی طرح ایک اور رکعت بجالائے اور تشهد کے بعد سلام پڑھے۔

1225۔ نماز احتیاط میں سوره اور قنوت نهیں هے اور احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که یه نماز آهسته پڑھے اور اس کی نیت زبان پر نه لائے اور احتیاط مستحب یه هے که اس کی بِسمِ الله بھی آهسته پڑھے۔

1226۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھنے سے پهلے معلوم هو جائے که جو نماز اس نے پڑھی تھی وه صحیح تھی تو اس کے لئے نماز احتیاط پڑھنا ضروری نهیں اور اگر نماز احتیاط کے دوران بھی یه علم هو جائے تو اس نماز کو تمام کرنا ضروری نهیں۔

1227۔اگر نماز احتیاط پڑھنے سے پهلے کسی شخص کو معلوم هو جائے که اس نے نماز کی رکعتیں کم پڑھی تھیں اور نماز پڑھنے کے بعد اس نے کوئی ایسا کام نه کیا هو جو نماز کو باطل کرتا هو تو ضروری هے که اس نے نماز کا جو حصه نه پڑھا هو اسے پڑھے اور بے محل سلام کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر دو سجده سهو ادا کرے اور اگر اس سے کوئی ایسا فعل سر زد هوا هے جو نماز کو باطل کرتا هو مثلاً قبلے کی جانب پیٹھ کی هو تو ضروری هے که نماز دوباره پڑھے۔

1228۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط کے بعد پته چلے کی اس کی نماز میں کمی احتیاط کے برابر تھی مثلاً تین رکعتوں اور چار رکعتوں کے درمیان شک کی صورت میں ایک نماز احتیاط پڑھے اور بعد میں معلوم هو که اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو ضروری هے که نماز دوباره پڑھے۔

1230۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھنے کے بعد پته چلے که نماز میں جو کمی هوئی تھی وه نماز احتیاط سے زیاده تھی مثلاً تین رکعتوں اور چار رکعتوں کے مابین شک کی صورت میں ایک رکعت نماز احتیاط پڑھے اور بعد میں معلوم هو که نماز کی دو رکعتیں پڑھی تھیں اور نماز احتیاط کے بعد کوئی ایسا کام کیا هو جو نماز کو باطل کرتا هو مثلاً قبلے کی جانب پیٹھ کی تو ضروری هے که نماز دوباره پڑھے اور اگر کوئی ایسا کام نه کیا هو جونماز کو باطل کرتا هو تو اس صورت میں بھی احتیاط لازم یه هے که نماز دوباره پڑھے اور باقی مانده ایک رکعت ضم کرنے پر اکتفا نه کرے۔

1231۔ اگر کوئی شخص دو اور تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور کھڑے هو کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھنے کے بعد اسے یاد آئے که اس نے نماز کی دو رکعتیں پڑھی تھیں تو اس کے لئے بیٹھ کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھنا ضروری نهیں ۔

ص:244

1232۔ اگر کوئی شخص تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور جس وقت وه ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر پڑھ هو اسے یاد آئے که اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو ضروری هے که نماز احتیاط کو چھوڑ دے چنانچه رکوع میں داخل هونے سے پهلے اسے یاد آیا هو تو ایک رکعت ملا کر پڑھے اور اس کی نماز صحیح هے اور احتیاط لازم کی بنا پر زائد سلام کے لئے دو سجده بجالائے اور اگر رکوع میں داخل هونے کے بعد یاد آئے تو ضروری هے که نماز کو دوباره پڑھے اور احتیاط کی بنا پر باقی مانده رکعت ضم کرنے پر اکتفا نهیں کرسکتا۔

1233۔ اگر کوئی شخص دو اور تین اور چار رکعتوں میں شک کرے اور جس وقت وه دو رکعت نماز احتیاط کھڑے هو کر پڑھ رها هو اسے یاد آئے که اس نے نماز کی تین رکعتیں پڑھی تھیں تو یهاں بھی بالکل وهی حکم جاری هوگا جس کا ذکر سابقه مسئلے میں کیا گیا هے۔

1234۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط کے دوران پته چلے که اس کی نماز میں کمی نماز احتیاط سے زیاده یا کم تھی تو یهاں بھی بالکل وهی حکم جاری هوگا جس کا ذکر مسئله 1232 میں کیا گیا هے۔

1235۔ اگر کوئی شخص شک کرے که جو نماز احتیاط اس پر واجب تھی وه اسے بجالایا هے یا نهیں تو نماز کا وقت گزر جانے کی صورت میں اپنے شک کی پروانه کرے اور اگر وقت باقی هو تو اس صورت میں جبکه شک اور نماز کے درمیان زیاده وقفه بھی گزرا هو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نه کیا هو مثلاً قبلے سے منه موڑنا جو نماز کو باطل کرتا هو تو ضروری هے که نماز احتیاط پڑھے اور اگر کوئی ایسا کام کیا هو جو نماز کو باطل کرتا هو یا نماز اور اس کے شک کے درمیان زیاده وقفه هوگیا هو تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز دوباره پڑھنا ضروری هے ۔

1236۔ اگر ایک شخص نماز احتیاط میں ایک رکعت کی بجائے دو رکعت پڑھ لے تو نماز احتیاط باطل هوجاتی هے اور ضروری هے که دوباره اصل نماز پڑھے۔ اور اگر وه نماز میں کوئی رکن بڑھا دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا بھی یهی حکم هے۔

1237۔ اگر کسی شخص کو نماز احتیاط پڑھتے هوئے اس نماز کے افعال میں سے کسی کے متعلق شک هو جائے تو اگر اس کا موقع نه گزرا هو تو اسے انجام دینا ضروری هے اور اگر اس کا موقع گزر گیا هو تو ضروری هے که اپنے شک کی پروانه کرے

ص:245

مثلاً اگر شک کرے که الحمد پڑھی هے یا نهیں اور ابھی رکوع میں نه گیا هو تو ضروری هے که الحمد پڑھے اور اگر رکوع میں جاچکا هو تو ضروری هے اپنے شک کی پروانه کرے۔

1238۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط کی رکعتوں کے بارے میں شک کرے اور زیاده رکعتوں کی طرف شک کرنا نماز کو باطل کرتا هو تو ضروری هے که شک کی بنیاد کم رکھے اور اگر زیاده رکعتوں کی طرف شک کرنا نماز کو باطل نه کرتا هو تو ضروری هے که اس کی بنیاد زیاده پر رکھے مثلا جب وه دو رکعت نماز احتیاط پڑھ رهاهو اگر شک کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں یا تین تو چونکه زیادتی کی طرف شک کرنا نماز کو باطل کرتا هے اس لئے اسے چاهئے که سمجھ لے که اس نے دو رکعتیں اور اگر شک کرے که ایک رکعت پڑھی هے یا دو رکعتیں پڑھی هیں تو چونکه زیادتی کی طرف شک کرنا نماز کو باطل نهیں کرتا اس لئے اس سمجھنا چاهئے که دو رکعتیں پڑھی هیں۔

1239۔ اگر نماز احتیاط میں کوئی ایسی چیز جو رکن نه هو سهواً کم یا زیاده هو جائے تو اس کے لئے سجده سهو نهیں هے۔

1240۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط کے سلام کے بعد شک کرے که وه نماز کے اجزا اور شرائط میں سے کوئی ایک جزو یا شرط انجام دے چکا هے یا نهیں تو وه اپنے شک کی پروانه کرے۔

1241۔ اگر کوئی شخص نماز احتیاط میں تشهد پڑھنا یا ایک سجده کرنا بھول جائے اور اس تشهد یا سجدے کا اپنی جگه پر تدارک بھی ممکن نه هو تو احتیاط اور ایک سجدے کی قضا یا دو سجده سهو واجب هوں تو ضروری هے که پهلے نماز احتیاط بجالائے۔

1243۔ نماز کی رکعتوں کے بارے میں گمان کا حکم یقین کے حکم کی طرح هے مثلاً اگر کوئی شخص یه نه جانتا هو که ایک رکعت پڑھی هے یا دو رکعتیں پڑھی هیں اور گمان کرے که دو رکعتیں پڑھی هیں تو وه سمجھے که دو رکعتیں پڑھی هیں اور اگر چار رکعتی نماز میں گمان کرے که چار رکعتیں پڑھی هیں تو اسے نماز احتیاط پڑھنے کی ضرورت نهیں لیکن افعال کے بارے میں گمان کرنا شک کا حکم رکھتا هے پس اگر وه گمان کرے که رکوع کیا هے اور ابھی سجده میں داخل نه هوا هو تو ضروری هے که رکوع کو انجام دے اور اگر وه گمان کرے که الحمد نهیں پڑھی اور سورے میں داخل هوچکا هو تو گمان کی پروا نه کرے اور اس کی نماز صحیح هے۔

ص:246

1244۔ روزانه کی واجب نمازوں اور دوسری واجب نمازوں کے بارے میں شک اور سهو اور گمان کے حکم میں کوئی فرق نهیں هے مثلاً اگر کسی شخص کو نماز آیات کے دوران شک هو که ایک رکعت پڑھی هے یا دو رکعتیں تو چونکه اس کا شک دو رکعتی نماز میں هے لهذا اس کی نماز باطل هے اور اگر وه گمان کرے که یه دوسری رکعت هے یا پهلی رکعت تو اپنے گمان کے مطابق نماز کو تمام کرے۔

سجده سهو

1245۔ ضروری هے که انسان سلام نماز کے بعد پانچ چیزوں کے لئے اس طریقے کے مطابق جس کا آئنده ذکر هوگا دو سجدے سهو بجالائے:

1۔ نماز کی حالت میں سهواً کلام کرنا۔

2۔ جهاں سلام نماز نه کهنا چاهئے وهاں سلام کهنا۔ مثلاً بھول کر پهلی رکعت میں سلام پڑھنا۔

3۔ تشهد بھول جانا۔

4۔ چار رکعتی نماز میں دوسری سجدے کے دوران شک کرنا که چار رکعتیں پڑھی هیں یا پانچ، یا شک کرنا که چار رکعتیں پڑھی هیں یا چھ، بالکل اسی طرح جیسا که صحیح شکوک کے نمبر 4 میں گزر چکا هے۔

ان پانچ صورتوں میں اگر نماز پر صحیح هونے کا حکم هو تو احتیاط کی بنا پر پهلی، دوسری اور پانچویں صورت میں اور اقوی کی بنا پر تیسری اور چوتھی صورت میں دو سجده سهو ادا کرنا ضروری هے۔ اور احتیاط مستحب یه هے که اگر ایک سجده بھول جائے جهاں کھڑا هونا ضروری هو مثلاً الحمد اور سوره پڑھتے وقت وهاں غلطی سے بیٹھ جائے یا جهاں بیٹھنا ضروری هو مثلا تشهد پڑھتے وقت وهاں غلطی سے کھڑا هو جائے تو دو سجده سهو ادا کرے بلکه هر اس چیز کے لئے جو غلطی سے نماز میں کم یا زیاده هو جائے دو سجده سهو کر ان چند صورتوں کے احکام آئند مسائل میں بیان هوں گے۔

1246۔اگر انساں غلطی سے یا اس خیال سے که وه نماز پڑھ چکا هے کلام کرے تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که دو سجده سهو کرے۔

ص:247

1247۔اس آواز کے لئے جو کھانسنے سے پیدا هوتی هے سجده سهو واجب نهیں لیکن اگر کوئی غلطی سے ناله و بکا کرے یا (سرد) آه بھرے یا (لفظ) آه کهے تو ضروری هے که احتیاط کی بنا پر سجده سهو کرے۔

1248۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز کو جو اس نے غلط پڑھی هو دوباره صحیح طور پر پڑھے تو اس کے دوباره پڑھنے پر سجده سهو واجب نهیں هے۔

1249۔ اگر کوئی شخص نماز میں غلطی سے کچھ دیر باتیں کرتا رهے اور عموماً اسے ایک دفعه بات کرنا سمجھا جاتا هو تو اس کے لئے نماز کے سلام کے بعد دو سجده سهو کافی هیں۔

1250۔ اگر کوئی شخص غلطی سے تسبیحات اربعه نه پڑھے تو احتیاط مستحب یه هے که نماز کے بعد دو سجده سهو بجالائے۔

1251۔ جهاں نماز کا سلام نهیں کهنا چاهئے اگر کوئی شخص غلطی سے اَلسَّلاَمُ عَلَیناَ وَعَلیٰ عِبَادِ اللهَ الصَّالِحیِن کهه دے یا الَسَّلامُ عَلَیکُم کهے تو اگر چه اس نے "وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُه" نه کها هو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پرضروری هے که دو سجده سهو کرے۔ لیکن اگر غلطی سے "اَلسَّلاَمُ عَلَیکُ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرَ کَاتُه" کهے تو احتیاط مستحب یه هے که دو سجدے سهو بجالائے۔

1252۔ جهاں سلام نهیں پڑھنا چاهئے اگر کوئی شخص وهاں غلطی سے تینوں سلام پڑھ لے تو اس کے لئے دو سجده سهو کافی هیں۔

1253۔اگر کوئی شخص ایک سجده یا تشهد بھول جائے اور بعد کی رکعت کے رکوع سے پهلے اسے یاد آئے تو ضروری هے که پلٹے اور (سجده یا تشهد) بجالائے اور نماز کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر بے جا قیام کے لئے دو سجده سهو کرے۔

1254۔اگر کسی شخس کو رکوع میں یا اس کے بعد یاد آئے که وه اس سے پهلی رکعت میں ایک سجده یا تشهد بھول گیا هے تو ضروری هے که سلام نماز کے بعد سجدے کی قضا کرے اور تشهد کے لئے دو سجده سهو کرے۔

1255۔اگر کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد جان بوجھ کر سجده سهو نه کرے تو اس نے گناه کیا هے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که جس قدر جلدی هوسکے اسے ادا کرے اور اگر اس نے بھول کر سجده سهو نهیں کیا تو جس وقت بھی اسے یاد آئے ضروری هے که فوراً سجده کرے اور اس کے لئے نماز کا دوباره پڑھنا ضروری نهیں۔

ص:248

1256۔ اگر کوئی شخص شک کرے که مثلاً اس پر دو سجده سهو واجب هوئے هیں یا نهیں تو ان کا بجالانا اس کے لئے ضروری نهیں۔

1257۔ اگر کوئی شخص شک کرے که مثلاً اس پر دو سجده سهو واجب هوئے هیں یا چار تو اس کا دو سجدے ادا کرنا کافی هے۔

1258۔ اگر کسی شخص کو علم هو که دو سجده سهو میں سے ایک سجده سهو نهیں بجالایا اور تدارک بھی ممکن نه هو تو ضروری هے که دو سجده سهو بجالائے اور اگر اسے علم هو که اس نے سهواً تین سجدے کئے هیں تو احتیاط واجب یه که دوباره دو سجده سهو بجالائے۔

سجده سهو کا طریقه

1289۔ سجده سهو کا طریقه یه هے که سلام نماز کے بعد انسان فوراً سجده سهو کی نیت کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھ دے جس پر سجده کرنا صحیح هو اور احتیاط مستحب یه هے که سجده سهو میں ذکر پڑھے اور بهتر هے که کهے : "بِسمِ اللهَ وَبِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحمَۃُ اللهِ وَبَرکَاتُه" اس کے بعد اسے چاهئے که بیٹھ جائے اور دوباره سجدے میں جائے اور مذکوره ذکر پڑھے اور بیٹھ جائے اور تشهد کے بعد کهے اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم اور اَولیٰ یه هے که "وَرَحمۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُه" کا اضافه کرے۔

بھولے هوئے سجدے اور تشهد کی قضا

1260۔ اگر انسان سجده اور تشهد بھول جائے اور نماز کے بعد ان کی قضا بجالائے تو ضروری هے که وه نمازی کی تمام شرائط مثلاً بدن اور لباس کا پاک هونا اور رو به قبله هونا اور دیگر شرائط پوری کرتا هو۔

1261۔ اگر انسان کئی دفعه سجده کرنا بھول جائے مثلاً ایک سجده پهلی رکعت میں اور ایک سجده دوسری رکعت میں بھول جائے تو ضروری هے که نماز کے بعد ان دونوں سجدوں کو قضا بجالائے اور بهتر یه هے که بھولی هوئی هر چیز کے لئے احتیاطاً دو سجده سهو کرے۔

1262۔ اگر انسان ایک سجده اور ایک تشهد بھول جائے تو احتیاطاً هر ایک کے لئے دو سجده سهو بجالائے۔

ص:249

1663۔ اگر انسان دو رکعتوں میں سے دو سجدے بھول جائے تو اس کے لئے ضروری نهیں که قضا کرتے وقت ترتیب سے بجالائے۔

1264۔ اگر انسان نماز کے سلام اور سجدے کی قضا کے درمیان کوئی ایسا کام کرے جس کے عمداً یا سهواً کرنے سے نماز باطل هو جاتی هے مثلاً پیٹھ قبلے کی طرف کرے تو احیتاط مستحب یه هے که سجدے کی قضا کے بعد دوباره نماز پڑھے۔

1265۔ اگر کسی شخص کو نماز کے سلام کے بعد یاد آئے که آخری رکعت کا ایک سجده یا تشهد بھول گیا هے تو ضروری هے که لوٹ جائے اور نماز کو تمام کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر بے محل سلام کے لئے دو سجده سهو کرے۔

1266۔ اگر ایک شخص نماز کے سلام اور سجدے کی قضا کے درمیان کوئی ایسا کام کرے۔ جس کے لئے سجده سهو واجب هو جاتا هو مثلاً بھولے سے کلام کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که پهلے سجدے کی قضا کرے اور بعد میں دو سجده سهو کرے۔

1267۔ اگر کسی شخص کو یه علم نه هو که نماز میں سجده بھولا هے یا تشهد تو ضروری هے که سجدے کی قجا کرے اور دو سجده سهو ادا کرے اور احتیاط مستحب یه هے که تشهد کی بھی قضا کرے۔

1228۔ اگر کسی شخص کو شک هو که سجده یا تشهد بھولا هے یا نهیں تو اس کے لئے ان کی قضا کرنا یا سجده سهو ادا کرنا واجب نهیں هے۔

1229۔ اگر کسی شخص کو علم هو که سجده بھول گیا هے اور شک کرے که بعد کی رکعت کے رکوع سے پهلے اسے یاد آیا تھا اور اسے بجالایا تھا یا نهیں تو احتیاط مستحب یه هے که اسے کی قضا کرے۔

1270۔ جس شخص پر سجدے کی قضا ضروری هو، اگر کسی دوسرے کام کی وجه سے اس پر سجده سهو واجب هوجائے تو ضروری هے که احتیاط کی بنا پر نماز ادا کرنے کے بعد اولاً سجدے کی قضا کرے اور اس کے بع سجده سهو کرے۔

1271۔اگر کسی شخص کو شک هو که نماز پڑھنے کے بعد بھولے سجدے کی قضا بجالایا هے یا نهیں اور نماز کا وقت نه گزرا هو تو اسے چاهئے که سجدے کی قضا کرے لیکن اگر نماز کا وقت بھی گزر گیا هو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی قضا کرنا ضروری هے۔

ص:250

نماز کے اجزا اور شرائط کو کم یا زیاده کرنا

1272۔جب نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز جان بوجھ کر کم یا زیاده کی جائے تو خواه وه ایک حرف هی کیوں نه هو نماز باطل هے۔

1273۔اگر کوئی شخص مسئله نه جاننے کی وجه سے نماز کے واجب ارکان میں سے کوئی ایک کم کر دے تو نماز باطل هے۔ اور وه شخص جو (کسی دور افتاده مقام پر رهنے کی وجه سے) مَسَائل تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر هو یا وه شخص جس نے کسی حجت (معتبر شخص یا کتاب وغیره) پر اعتماد کیا هو اگر واجب غیر رکنی کو کم کرے یا کسی رکن کو زیاده کرے تو نماز باطل نهیں هوتی۔ چنانچه اگر مسئله نه جاننے کی وجه سے اگرچه کوتاهی کی وجه سے هو صبح اور مغرب اور عشا کی نمازوں میں الحمد اور سوره آهسته پڑھے یا ظهر اور عصر کی نمازوں میں الحمد اور سوره آواز سے پڑھے یا سفر میں ظهر، عصر اور عشا کی نمازوں کی چار رکعتیں پڑھے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1274۔ اگرنماز کے دوران کسی شخص کا دھیان اس طرف جائے که اس کا وضو یا غسل باطل تھا یا وضور یا غسل کئے بغیر نماز پڑھنے لگا هے تو ضروری هے که نماز توڑ دے اور دوباره وضو یا غسل کے ساتھ پڑھے اور اگر اس طرف اس کا دھیان نماز کے بعد جائے تو ضروری هے که وضو یا غسل کے ساتھ دوباره نماز پڑھے اور اگر نماز کا وقت گزر گیا هو تو اس کی قضا کرے۔

1275۔ اگر کسی شخص کو رکوع میں پهنچنے کے بعد یاد آئے که پهلے والی رکعت کے دو سجدے بھول گیا هے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل هے اور اگر یه بات اسے رکوع میں پهنچنے سے پهلے یاد آئے تو ضروری هے که واپس مڑے اور دو سجدے بجالائے اور پھر کھڑا هو جائے اور الحمد اور سوره یا تسبیحات پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور نماز کے بعد احیتاط مستحب کی بنا پر بے محل قیام کے لئے دو سجده سهو کرے۔

1276۔ اگر کسی شخص کو اَلسَّلاَمُ عَلَینَا اور اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم کهنے سے پهلے یاد آئے که وه آخری رکعت کے دو سجدے بجا نهیں لایا تو ضروری هے که دو سجدے بجالائے اور دوباره تشهد اور سلام پڑھے۔

1277۔ اگر کسی شخص کو نماز کے سلام سے پهلے یاد آئے که اس نے نماز کے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیاده رکعتیں نهیں پڑھیں تو ضروری هے که جتنا حصه بھول گیا هو اسے بجالائے۔

ص:251

1278۔اگر کسی شخص کو نماز کے سلام کے بعد یاد آئے که اس نے نماز کے آخری حصے کی ایک یاایک سے زیاده رکعتیں نهیں پڑھیں اور اس سے ایسا کام بھی سر زد هو چکا هو که اگر وه نماز میں عمداً یا سهواً کیا جائے تو نماز کو باطل کر دیتا هو مثلا اس نے قبلے کی طرف پیٹھ کی هو تو اس کی نماز باطل هے اور اگر اس نے کوئی ایسا کام نه کیا هو جس کا عمداً یا سهواً کرنا نماز کو باطل کرتا هو تو ضروری هے که جتنا حصه پڑھنا بھول گیا هو اسے فوراً بجا لائے اور زائد سلام کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر دو سجده سهو کرے۔

1279۔ جب کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد ایک کام انجام دے جو اگر نماز کے دوران عمداً سهواً سجدے بجانهیں لایا تو اس کی نماز باطل هے اور اگر نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام کرنے سے پهلے اسے یه بات یاد آئے تو ضروری هے که جو دو سجدے ادا کرنا بھول گیا هے انهیں بجالائے اور دوباره تشهد اور سلام پڑھے اور جو سلام پهلے پڑھا هو اس کے لئے احتیاط واجب کی بنا پر دو سجده سهو کرے۔

1280۔ اگر کسی شخص کو پته چلے که اس نے نماز وقت سے پهلے پڑھ لی هے تو ضروری هے که دوباره پڑھے اور اگر وقت گزر گیا هو تو قضا کرے۔ اور اگر یه پته چلے که قبلے کی طرف پیٹھ کر کے پڑھی هے اور ابھی وقت نه گزرا هو تو ضروری هے که دوباره پڑھے اور اگر وقت گزر چکا هو اور تردد کا شکار هو تو قضا ضروری هے ورنه قضا ضروری نهیں۔ اور اگر پته چلے که قبلے کی شمالی یا جنوبی سمت کے درمیان نماز ادا کی هے اور وقت گزرنے کے بعد پته چلے تو قضا ضروری نهیں لیکن اگر وقت گزرنے سے پهلے متوجه هو اور قبلے کی سمت تبدیل کرنے سے معذور نه هو مثلاً قبلے کی سمت تلاش کرنے میں کوتاهی کی هو تو احتیاط کی بنا پر دوباره نماز پڑھنا ضروری هے۔

مسافر کی نماز

اشاره

ضروری هے که مسافر ظهر عصر اور عشا کی نماز آٹھ شرطیں هوتے هوئے قصر بجالائے یعنی دو رکعت پڑھے۔

(پهلی شرط) اس کا سفر آٹھ فرسخ شروع سے کم نه هو اور فرسخ شرعی ساڑھے پانچ کیلومیٹر سے قدرے کم هوتا هے (میلوں کے حساب سے آٹھ فرسخ شرعی تقریباً 28 میل بنتے هیں)۔

ص:252

1281۔ جس شخص کے جانے اور واپس آنے کی مجموعی مسافت ملا کر آٹھ فرسخ هو اور خواه اس کے جانے کی یا واپسی کی مسافت چار فرسخ سے کم هو یا نه هو ضروری هے که نماز قصر کر کے پڑھے۔ اس بنا پر اگر جانے کی مسافت تین فرسخ اور واپسی کی پانچ فرسخ یا اس کے برعکس هو تو ضروری هے که نماز قصر یعنی دو رکعتی پڑھے۔

1282۔اگر سفر پر جانے اور واپس آنے کی مسافت آٹھ فرسخ هو تو اگرچه جس دن وه گیا هو اسی دن یا اسی رات کو واپس پلٹ کر نه آئے ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے لیکن اس صورت میں بهتر هے که احتیاطاً پوری نماز بھی پڑھے۔

1283۔ اگر ایک مختصر سفر آٹھ فرسخ سے کم هو یا انسان کو علم نه هو که اس کا سفر آٹھ فرسخ هے یا نهیں تو اسے نماز قصر کرکے نهیں پڑھنی چاهئے اور اگر شک کرے که اس کا سفر آٹھ فرسخ هے یا نهیں تو اس کے لئے تحقیق کرنا ضروری نهیں اور ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1284۔ اگر ایک عادل یا قابل اعتماد شخص کسی کو بتائے که اس کا سفر آٹھ فرسخ هے اور وه اس کی بات سے مطمئن هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1285۔ ایسا شخص جسے یقین هو که اس کا سفر آٹھ فرسخ هے اگر نماز قصر کر کے پڑھے اور بعد میں اسے پته چلے که آٹھ فرسخ نه تھا تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے اور اگر وقت گزر گیا هو تو اس کی قضا لائے۔

1286۔ جس شخص کو یقین هو که جس جگه وه جانا چاهتا هے وهاں کا سفر آٹھ فرسخ نهیں یا شک هو که آٹھ فرسخ هے یا نهیں اور راستے میں اسے معلوم هو جائے که اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو گو تھوڑا سا سفر باقی هو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اور اگر پوری نماز پڑھ چکا هو تو ضروری هے که دوباره قصر پڑھے۔ لیکن اگر وقت گزر گیا هو تو قضا ضروری نهیں هے۔

1287۔ اگر دو جگهوں کا درمیانی فاصله چار فرسخ سے کم هو اور کوئی شخص کئی دفعه ان کے درمیان جائے اور آئے تو خواه ان تمام مسافتوں کا فاصله ملا کر آٹھ فرسخ بھه هو جائے اسے نماز پوری پڑھنی ضروری هے۔

ص:253

1288۔ اگر کسی جگه جانے کے دو راستے هوں اور ان میں سے ایک راسته آٹھ فرسخ سے کم اور دوسرا آٹھ فرسخ یا اس سے زیاده هو تو اگر انسان وهاں راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ هے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اور اگر اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ نهیں هے تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1289۔ آٹھ فرسخ کی ابتدا اس جگه سے حساب کرنا ضروری هے که جهاں سے گزر جانے کے بعد آدمی مسافر شمار هوتا هے اور غالباً وه جگه شهر کی انتها هوتی هے لیکن بعض بهت بڑے شهروں میں ممکن هے وه شهر کا آخری محله هو۔

(دوسری شرط) مسافر اپنے سفر کی ابتدا سے هی آٹھ فرسخ طے کرنے کا اراده رکھتا هو یعنی یه جانتا هو که آٹھ فرسخ تک کا فاصله طے کرے گا لهذا اگر وه اس جگه تک کا سفر کرے جو آٹھ فرسخ سے کم هو اور وهاں پهنچنے کے بعد کسی ایسی جگه جانے کا اراده کرے جس کا فاصله طے کرده فاصلے سے ملا کر آٹھ فرسخ هو جاتا هو تو چونکه وه شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا اراده نهیں رکھتا تھا اس لئے ضروری هے که پوری نماز پڑھے لیکن اگر وه وهاں سے آٹھ فرسخ آگے جانے کا اراده کرے یا مثلاً چار فرسخ جانا چاهتا هو اور پھر چار فرسخ طے کرکے اپنے وطن یا ایسی جگه واپس آنا چاهتا هو جهاں اس کا اراده دس دن ٹھهرنے کا هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1290۔ جس شخص کو یه علم نه هو که اس کا سفر کتنے فرسخ کا هے مثلاً کسی گمشده (شخص یا چیز) کو ڈھونڈنے کے لئے سفر کر رها هو اور نه جانتا هو که اسے پالینے کے لئے اسے کهاں تک جانا پڑے گا تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر واپسی پر اس کے وطن یا اس جگه تک کا فاصله جهاں وه دس دن قیام کرنا چاهتا هو آتھ فرسخ یا اس سے زیاده بنتا هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔ مزید براں اگر وه سفر پر جانے کے دوران اراده کرے که وه مثلاً چار فرسخ کی مسافت جاتے هوئے اور چار فرسخ کی مسافت واپس آتے هوئے طے کرے گا تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1291۔ مسافر کو نماز قصر کرکے اس صورت میں پڑھنی ضروری هے جب اس کا آٹھ فرسخ طے کرنے کا پخته اراده هو لهذا اگر کوئی شخص شهر سے باهر جا رها هو اور مثال کے طور پر اس کا اراده یه هو که اگر کوئی ساتھی مل گیا تو آٹھ فرسخ کے سفر پر چلاجاوں گا اور اسے اطمینان هو که ساتھی مل جائے گا تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری هے اور اگر اسے اس بارے میں اطمینان نه هو تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

ص:254

1292۔جو شخص آٹھ فرسخ سفر کرنے کا اراده رکھتا هو وه اگرچه هر روز تھوڑا فاصله طے کرے اور جب حَدِّ تَر خُّص ۔ جس کے معنی مسئله 1327 میں آئیں گے۔ تک پهنچ جائے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے لیکن اگر هر روز بهت کم فاصله طے کرے تو احتیاط لازم یه هے که اپنی نمازی پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے۔

1293۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں هو مثلاً نوکر جو اپنے آقا کے ساتھ سفر کر رها هو اگر اسے علم هو که اس کا سفر آٹھ فرسخ کا هے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اور اگر اسے علم نه هو تو پوری نماز پڑھے اور اس بارے میں پوچھنا ضروری نهیں۔

1294۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں هو اگر وه جانتا هو یا گمان رکھتا هو که چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اس سے جدا هو جائے گا اور سفر نهیں کرے گا تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1295۔ جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں هو اگر اسے اطمینان نه هو که چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اس سے جدا نهیں هوگا اور سفر جاری رکھے گا تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے لیکن اگر اسے اطمینان هو اگرچه احتمال بهت کم هو که اس کے سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا هوگی تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

(تیسری شرط) راستے میں مسافر اپنے ارادے سے پھر نه جائے۔ پس اگر وه چار فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنا اراده بدل دے یا اس کا اراده مُتَزَلزل هو جائے تو ضروری هے که پوری نماز پرھے۔

1296۔ اگر کوئی کوئی کچھ فاصله طرے کرنے کے بعد جو که واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ هو سفر ترک کر دے اور پخته اراده کرلے که اسی جگه رهے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپس جائے گا یا واپس جانے اور ٹھهرنے کے بارے میں کوئی فیصله نه کر پائے تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1297۔ اگر کوئی شخص کچھ فاصله طے کرنے کے بعد جو که واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ هو سفر ترک کردے اور واپس جانے کا پخته اراده کرلے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اگرچه وه اس جگه دس دن سے کم مدت کے لئے هی رهنا چاهتا هو۔

ص:255

1298۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگه جانے کے لئے جو آٹھ فرسخ دور هو سفر شروع کرے اور کچھ راسته طے کرنے کے بعد کسی اور جگه جانا چاهے اور جس جگه سے اس نے سفر شروع کیا هے وهاں سے اس جگه تک جهان وه اب جانا چاهتا هے آٹھ فرسخ بنتے هوں تو ضروری هے که نماز قصر کر کے پڑھے۔

1299۔ اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ تک فاصله طے کرنے سے پهلے متردد هوجائے که باقی راسته طے کرے یا نهیں اور دوران تردد سفر نه کرے اور بعد میں باقی راسته طے کرنے کا پخته اراده کرلے تو ضروری هے که سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔

1300۔اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصله طے کرنے سے پهلے تردد کا شکار هو جائے که باقی راسته طے کرے یا نهیں۔ اور حالت تردد میں کچھ فاصله طے کرلے اور بعد میں پخته اراده کرلے که آٹھ فرسخ مزید سفر کرے گا یا ایسی جگه جائے که جهاں تک اس کا جانا اور آنا آٹھ فرسخ هو خواه اسی دن یا اسی رات وهاں سے واپس آئے یا نه آئے اور وهاں دس دن سے کم ٹھهرنے کا اراده هو تو ضروری هے که سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔

1301۔ اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصله طے کرنے سے پهلے متردد هو جائے که باقی راسته طے کرے یا نهیں اور حالت تردد میں کچھ فاصله طے کرلے اور بعد میں پخته اراده کرلے که باقی راسته بھی طے کرے گا چنانچه اس کا باقی سفر آٹھ فرسخ سے کم هو تو پوری نماز پڑھنا ضروری هے۔ لیکن اس صورت میں جبکه تردد سے پهلی کی طے کرده مسافت اور تردد کے بعد کی طے کرده مصافت ملا کر آٹھ فرسخ هو تو اظهر یه هے که نماز قصر پڑھے۔

(چوتھی شرط) مسافر آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرنے اور وهاں توقف کرنے یا کسی جگه دس دن یا اس سے زیاده دن رهنے کا اراده نه رکھتا هو۔ پس جو شخص یه چاهتا هو که آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرے اور وهاں توقف کرے یا دس دن کسی جگه پر رهے تو ضروری هے که نماز پوری پڑھے۔

1302۔ جس شخص کو یه علم نه هو که آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرے گا یا توقف کرے گا یا نهیں یا کسی جگه دس دن ٹھهرنے کا قصد کرے گا یا نهیں تو ضروری هے ک پوری پڑھے۔

1303۔ وه شخص جو آٹھ فرسخ تک پهنچنے سے پهلے اپنے وطن سے گزرنا چاهتا هو تا که وهاں توقف کرے یا کسی جگه دس دن رهنا چاهتا هو اور وه شخص بھی جو وطن سے گزرنے یا کسی جگه دس دن رهنے کے بارے میں مُتَردِّد هو اگر وه دس دن کهیں

ص:256

رهنے یا وطن سے گزرنے کا اراده ترک بھی کر دے تب بھی ضروری هے که پوری نماز پڑھے لیکن اگر باقی مانده اور واپسی کا راسته ملا کر آٹھ فرسخ هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

(پانچویں شرط) مسافر حرام کام کےلئے سفر نه کرے اور اگر حرام کام مثلاً چوری کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری هے که نماز پوری پڑھے۔ اور اگر خود سفر هی حرام هو مثلاً اس سفر میں اس کے لئے کوئی ایسا ضرر مُضمَر هو جس کی جانب پیش قدمی شرعاً حرام هو یا عورت شوهر کی اجازت کے بغیر ایسے سفر پر جائے جو اس پر واجب نه هو تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر سفر حج کے سفر کی طرح واجب هو تو نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے۔

1304۔جو سفر واجب نه هو اگر ماں باپ کی اولاد سے محبت کی وجه سے ان کے لئے اذیت کا باعث هو تو حرام هے اور ضروری هے که انسان اس سفر میں پوری نماز پڑھے اور (رمضان کا مهینه هو تو) روزه بھی رکھے۔

1305۔ جس شخص کا سفر حرام نه هو اور وه کسی حرام کام کے لئے بھی سفر نه کر رها هو وه اگرچه سفر میں گناه بھی کرے مثلاً غیبت کرے یا شراب پئے تب بھی ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1306۔ اگر کوئی شخص کسی واجب کام کو ترک کرنے کے لئے سفر کرے تو خواه سفر میں اس کی کوئی دوسری غرض هو یا نه هو اسے پوری نماز پڑھنی چاهئے۔ پس جو شخص مقروض هو اور اپنا قرض چکا سکتا هو اور قرض خواه مطالبه بھی کرے تو اگر وه سفر کرتے هوئے اپنا قرض چکا سکتا هو اور قرض خواه مطالبه بھی کرے تو اگر وه سفر کرتے هوئے اپنا قرض ادا نه کرسکے اور قرض چکانے سے فرار حاصل کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے لیکن اگر اس کا سفر کسی اور کام کے لئے هو تو اگرچه وه سفر میں ترک واجب کا مرتکب بھی هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1307۔اگر کسی شخص کا سفر میں سواری کا جانور یا سواری کی کوئی اور چیز جس پر وه سوار هو غصبی هو یا اپنے مالک سے فرار هونے کے لئے سفر کر رها هو یا وه غصبی زمین پر سفر کر رها هو تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1308۔ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ سفر کر رها هو اگر وه مجبور نه هو اور اس کا سفر کرنا ظالم کی ظلم کرنے میں مدد کا موجب هو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری هے اور اگر مجبو هو یا مثال کے طور پر کسی مظلوم کو چھڑانے کے لئے اس ظالم کے ساتھ سفر کرے تو اس کی نماز قصر هوگی۔

ص:257

1309۔ اگر کوئی شخص سیروتفریح (یعنی پکنک) کی غرض سے سفر کرے تو اس کا سفر حرام نهیں هے اور ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1310۔ اگر کوئی شخص موج میلے اور سیرو تفریح کے لئے شکار کو جائے تو اس کی نماز جاتے وقت پوری هے اور واپسی پر اگر مسافت کی حد پوری هو تو قصر هے۔ اور اس صورت میں که اس کی حد مسافت پوری هو اور شکار پر جانے کی مانند نه هو لهذا اگر حصول معاش کے لئے شکار کو جائے تو اس کی نماز قصر هے اور اگر کمائی اور افزائش دولت کے لئے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے اگرچه اس صورت میں احتیاط یه هے که نماز قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

1311۔اگر کوئی شخص گناه کا کام کرنے کے لئے سفر کرے اور سفر سے واپسی کے وقت فقط اس کی واپسی کا سفر آٹھ فرسخ هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اور احیتاط مستحب یه هے که اگر اس نے توبه نه کی هو تو نماز قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

1312۔ جس شخص کا سفر گناه کا سفر هو اگر وه سفر کے دوران گناه کا اراده ترک کردے خواه باقی مانده مسافت یا کسی جگه جانا اور واپس آنا آٹھ فرسخ هو یا نه هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1313۔جش شخص نے گناه کرنے کی غرض سے سفر نه کیا هو اگر وه راستے میں طے کرے که بقیه راسته گناه کے لئے طے کرے گا تو اسے چاهئے که نماز پوری پڑھے البته اس نے جو نمازیں قصر کرکے پڑھی هوں وه صحیح هیں۔

(چھٹی شرط) ان لوگوں میں سے نه هو جن کے قیام کی کوئی (مستقل) جگه نهیں هوتی اور ان کے گھر ان کے ساتھ هوتے هیں۔ یعنی ان صحرانشینوں (خانه بدوشوں) کی مانند جو بیابانوں میں گھومتے رهتے هیں اور جهاں کهیں اپنے لئے اور اپنے مویشیوں کے لئے دانه پانی دیکھتے هیں وهیں ڈیر اڈال دیتے هیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد دوسری جگه چلے جاتے هیں۔ پس ضروری هے که ایسے لوگ سفر میں پوری نماز پڑھیں۔

1314۔ اگر کوئی صحرا نشین مثلاً جائے قیام اور اپنے حیوانات کے لئے چراگاه تلاش کرنے کے لئے سفر کرے اور مال و اسباب اس کے همراه هو تو وه پوری نماز پڑھے ورنه اگر اس کاسفرآٹھ فرسخ هو تو نماز قصر کرکے پڑھے۔

ص:258

1315۔اگر کوئی صحرا نشین مثلاً حج، زیارت، تجارت یا ان سے ملتے جلتے کسی مقصد سے سفر کرے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

(ساتویں شرط) اس شخص کا پیشه سفر نه هو۔ پس جس شخص کا پیشه سفر هو یعنی یا تو اس کا کام هی فقط سفر کرنا هو اس حد تک که لوگ اسے کثیر السفر کهیں یا جو پیشه اس نے اپنے لئے اختیار کیا هو اس کا انحصار سفر کرنے پر هو مثلاً ساربان، ڈرائیور، گله بان اور ملاح۔ اس قسم کے افراد اگرچه اپنے ذاتی مقصد مثلاً گھر کا سامان لے جانے یا اپنے گھر والوں کو منتقل کرنے کے لئے سفر کریں تو ضروری هے که نماز پوری پڑھیں۔ اور جس شخص کا پیشه سفر هو اس مسئلے میں اس شخص کے لئے بھی یهی حکم هے جو کسی دوسری جگه پر کام کرتا هو (یا اس کی پوسٹنگ دوسری جگه پر هو) اور وه هر روز یا دو دن میں ایک مرتبه وهاں تک کا سفر کرتا هو اور لوٹ آتا هو۔مثلاً وه شخص جس کی رهائش ایک جگه هو اور کام مثلاً تجارت، معلمی وغیره دوسری جگه هو۔

1316۔جس شخص کے پیشے کا تعلق سفر سے هو اگر وه کسی دوسرے مقصد مثلاً حج یا زیارت کے لئے سفر کرے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے لیکن اگر عرف عام میں کثیرالسفر کهلاتا هو تو قصر نه کرے لیکن اگر مثال کے طور پر ڈرائیور اپنی گاڑی زیارت کے لئے کرائے پر چلائے اور ضمناً خود بھی زیارت کرے تو هر حال میں ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1317۔وه بار بردار جو حاجیوں کو مکه پهنچانے کے لئے سفر کرتا هو اگر اس کا پیشه سفر کرنا هو تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے اور اگر اس کا پیشه سفر کرنا نه هو اور صرف حج کے دنوں میں بار برداری کے لئے سفر کرتا هو تو اس کے لئے احتیاط واجب یه هے که نماز پوری بھی پڑھے اور قصر کرکے بھی پڑھے لیکن اگر سفر کی مدت کم هو مثلاً دو تین هفتے تو بعید نهیں هے که اس کے لئے نماز قصر کرکے پڑھنے کا حکم هو۔

1318۔ جس شخص کا پیشه بار برداری هو اور وه دور دراز مقامات سے حاجیوں کو مکه لے جاتا هو اگر وه سال کا کافی حصه سفر میں رهتا هو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری هے ۔

ص:259

1319۔ جس شخص کا پیشه سال کے کچھ حصے میں سفر کرنا هو مثلاً ایک ڈرائیور جو صرف گرمیوں یا سردیوں کے دنوں میں اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا هو ضروری هے که اس سفر میں نماز پوری پڑھے اور احتیاط مستحب یه هے کو قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔

1320۔ ڈرائیور اور پھیری والا جو شهر کے آس پاس دو تین فرسخ میں آتا جاتا هو اگر وه اتفاقاً آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جائے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1321۔ جش کا پیشه هی مسافرت هے اگر دس دن یا اس سے زیاده عرصه اپنے وطن میں ره جائے تو خواه ابتدا سے دس دن رهنے کا اراداه رکھتا هو یا بغیر ارادے کے اتنے دن رهے تو ضروری هے که دس دن کے بعد جب پهلے سفر پر جائے تو نماز پوری پڑھے اور اگر اپنے وطن کے علاوه کسی دوسری جگه رهنے کا قصد کرکے یا بغیر قصد کے دس دن وهاں مقیم رهے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1322۔ چار 1 وادار جس کا پیشه سفر کرنا هو اگر وه اپنے وطن یا وطن کے علاوه کسی اور جگه قصد کرکے یا بغیر قصد کے دس دن رهے تو احتیاط مستحب هے که دس دن کے بعد جب وه پهلا سفر کرے تو نمازیں مکمل اور قصر دونوں پڑھے۔

1323۔ چار وادار اور ساربان کی طرح جن کا پیشه سفر کرنا هے اگر معمول سے زیاده سفر ان کی مشقت اور تھکاوٹ کا سبب هو تو ضروری هے که نماز قصر پڑھیں۔

1324۔ سیلانی که جو شهر به شهر سیاحت کرتا هو اور جس نے اپنے لئے کوئی وطن معین نه کیا هو وه پوری نماز پڑھے۔

1325۔جس شخص کا پیشه سفر کرنا نه هو اگر مثلاً کسی شهر یا گاوں میں اس کا کوئی سامان هو اور وه اسے لینے کے لئے سفر پر سفر کرے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔ مگر یه که اس کا سفر اس قدر زیاده هو که اسے عرفاً کثیرالسفر کها جائے۔

1326۔ جو شخص ترک وطن کرکے دوسرا وطن اپنانا چاهتا هو اگر اس کا پیشه سفر نه هو تو سفر کی حالت میں اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے۔

ص:260

(آٹھویں شرط) مسافر حدِّ تَرخّص تک پهنچ جائے لیکن وطن کے علاوه حَدِّخُّض معتبر نهیں هے اور جونهی کوئی شخص اپنی اقامت گاه سے نکلے اس کی نماز قصر هے۔

1327۔ حدترخض وه جگه هے جهاں سے اهل شهر مسافر کو نه دیکھ سکیں اور اس کی علامت یه هے که وه اهل شهر کو نه دیکھ سکے۔

1328۔ جو مسافر اپنے وطن واپس آرها هو جب تک وه اپنے وطن واپس نه پهنچے قصر نماز پڑھنا ضروری هے۔ اور ایسے هی جو مسافر وطن کی علاوه کسی اور جگه دس دن ٹھهرنا چاهتا هو وه جب تک اس جگه نه پهنچے اس کی نماز قصر هے۔

1329۔ اگر شهر اتنی بلندی پر واقع هو که وهاں کے باشندے دور سے دکھائی دیں یا اس قدر نشیب میں واقع هو که اگر انسان تھوڑا سا دور بھی جائے تو وهاں کے باشندوں کو نه دیکھ سکے تو اس شهر کے رهنے والوں میں سے جو شخص سفر میں هو جب وه اتنا دور چلا جائے که اگر وه شهر هموار زمین پر هوتا تو وهاں کے باسندے اس جگه سے دیکھے نه جاسکتے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اور اسی طرح اگر راستے کی بلندی یا پستی معمول سے زیاده هو تو ضروری هے که معمول کا لحاظ رکھے۔

1330۔ اگر کوئی شخص ایسی جگه سے سفر کرے جهاں کوئی رهتا نه هو تو جب وه ایسی جگه پهنچے که اگر کوئی اس مقام (یعنی سفر شروع کرنے کے مقام) پر رهتا هوتا تو وهاں سے نظر نه آتا تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1331۔ کوئی شخص کشتی یا ریل میں بیٹھے اور حد ترخص تک پهنچنے سے پهلے پوری نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے تو اگر تیسی رکعت کے رکوع سے پهلے حد ترخص تک پهنچ جائے تو قصر نماز پڑھنا ضروری هے۔

1332۔جو صورت پچھلے مسئلے میں گزر چکی هے اس کے مطابق اگر تیسری رکعت کے رکوع کے بعد حد ترخص تک پهنچے تو اس نماز کو توڑ سکتا هے اور ضروری هے که اسے قصر کرکے پڑھے۔

1333۔ اگر کسی شخص کو یه یقین هو جائے که وه حدترخص تک پهنچ چکا هے اورنماز قصر کرکے پڑھے اور اس کے بعد معلوم هو که نماز کے وقت حدترخص تک نهیں پهنچا تھا تو نماز دوباره پڑھنا ضروری هے ۔ چنانچه جب تک حدترخص تک نه

ص:261

پهنچا هو تو نمازی پوری پڑھنا ضروری هے۔ اور اس صورت میں جب که حدترخص سے گزرچکا هو نماز قصر کرکے پڑھے۔ اور اگر وقت نکل چکا هو تو نماز کو اس کے فوت هوتے وقت جو حکم تھا اس کے مطابق ادا کرے۔

1334۔ اگر مسافر کی قوت باصره غیر معمولی هو تو اسے اس مقام پر پهنچ کر نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے جهاں سے متوسط قوت کی آنکھ اهل شهر کو نه دیکھ سکے۔

1335۔ اگر مسافر کو سفر کے دوران کسی مقام پر شک هو که حدِّ ترخّص پر پهنچاهے یا نهیں تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے۔

1336۔ جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر رها هو اگر وهاں توقف کرے تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے اور اگر توقف نه کرے تو احتیاط لازم یه هے که قصر اور پوری نماز دونوں پڑھے۔

1337۔ جو مسافر اپنی مسافرت کے دوران اپنے وطن پهنچ جائے اور وهاں کچھ دیر ٹھهرے تو ضروری هے که جب تک وهاں رهے پوری نماز پڑھے لیکن اگر وه چاهے که وهاں سے آٹھ فرسخ کے فاصلے پر چلا جائے یا مثلاً چار فرسخ جائے اور پھر چار فرسخ طے کرکے لوٹے تو جس وقت وه حدِّ ترخّص پر پهنچے ضروری هے که نماز قصر کر کے پڑھے۔

1338۔ جس جگه کو انسان نے اپنی مستقل سکونت اور بود و باش کے لئے منتخب کیا هو وه اس کا وطن هے خواه وه وهاں پیدا هوا هو اور وه اس کا آبائی وطن هو یا اس نے خود اس جگه کو زندگی بسر کرنے کے لئے اختیار کیا هو۔

1339۔ اگر کوئی شخص اراداه رکھتا هو که تھوڑی سی مدت ایک ایسی جگه رهے جو اس کا وطن نهیں هے اور بعد میں کسی اور جگه چلا جائے تو وه اس کا وطن تصور نهیں هوتا۔

1340۔ اگر انسان کسی جگه کو زندگی گزارنے کے لئے اختیار کرے اگرچه وه همیشه رهنے کا قصد نه رکھتا هو تاهم ایسا هو که عرف عام میں اسے وهاں مسافر نه کهیں اور اگرچه وقتی طور پر دس دن یا دس دن سے زیاده دوسری جگه رهے اس کے باوجود پهلی جگه هی کو اس زندگی گزارنے کی جگه کهیں گے اور وهی جگه اس کے وطن کا حکم رکھتی هے۔

ص:262

1341۔ جو شخص دو مقامات پر زندگی گزارتا هو مثلاً چھ مهینے ایک شهر میں اور چھ مهینے دوسرے شهر میں رهتا هو تو دونوں مقامات اس کا وطن هیں۔ نیز اگر اس نے دو مقامات سے زیاده مقامات کو زندگی بسر کرنے کے لئے اختیار کر رکھا هو تو وه سب اس کا وطن شمار هوتے هیں۔

1342۔بعض فقهاء نے کها هے که جو شخص کسی ایک جگه سکونتی مکان کا مالک هو اگر وه مسلسل چھ مهینے وهاں رهے تو جس وقت تک مکان اس کی ملکیت میں هے یه جگه اس کے وطن کا حکم رکھتی هے۔ پس جب بھی وه سفر کے دوران وهاں پهنچے ضروری هے که پوری نماز پڑھے اگرچه یه حکم ثابت نهیں هے۔

1343۔ اگر ایک شخص کسی ایسے مقام پر پهنچے جو کسی زمانے میں اس کا وطن رها هو اور بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا هو تو خواه اس نے کوئی نیا وطن اپنے لئے منتخب نه بھی کیا هو ضروری هے که وهاں پوری نماز پڑھے۔

1344۔ اگر کسی مسافر کا کسی جگه پر مسلسل دس دن رهنے کا اراده هو یا وه جانتا هو که به امر مجبوری دس دن تک ایک جگه رهنا پڑے گا تو وهاں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری هے۔

1345۔ اگر کوئی مسافر کسی جگه دس دن رهنا چاهتا هو تو ضروری نهیں که اس کا اراده پهلی رات یا گیارهویں رات وهاں رهنےکا هو جونهی وه اراده کرے که پهلے دن کے طلوع آفتاب سے دسویں دن کے غروب آفتاب تک وهاں رهے گا ضروری هے که پوری نماز پڑھے اور مثال کے طور پر اس کا اراده پهلے دن کی ظهر سے گیارهویں دن کی ظهر تک وهاں رهنے کا هو تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1346۔ جو مسافر کسی جگه دس دن رهنا چاهتا هو اسے اس صورت میں پوری نماز پڑھنی ضروری هے جب وه سارے کے سارے دن ایک جگه رهنا چاهتا هو۔ پس اگر وه مثال کے طور پر چاهے که دس دن نَجَف اور کوفه یا تهران اور شمیران (یا کراچی اور گھارو) میں رهے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1347۔ جو مسافر کسی جگه دس دن رهنا چاهتا هو اگر شروع سے هی قصد رکھتا هو که ان دس دنوں کے درمیان اس جگه کے آس پاس ایسے مقامات پر جائے گا جو حدِّ تَرخّص تک یا اس سے زیاده دور هوں تو اگر اس کے جانے اور آنے کی مدت عرف میں دس دن قیام کے منافی نه هو تو پوری نماز پڑھے اور اگر منافی هو تو نماز قصر کرکے پڑھے۔ مثلاً اگر ابتداء هی سے اراده هو که ایک دن یا ایک رات کے لئے وهاں سے نکلے گا تو یه ٹھهرنے کے قصر کے منافی هے اور ضروری هے که نماز قصر

ص:263

کرکے پڑھے لیکن اگر اس کا قصد یه هو که مثلاً آدھے دن بعد نکلے گا اور پھر فوراً لوٹے گا اگرچه اس کی واپسی رات هونے کے بعد هو تو ضروری هے که نماز پڑھے۔ مگر اس صورت میں که اسکے بار بار نکلنے کی وجه سے عرفاً یه کها جائے که دو یا اس زیاده جگه قیام پذیر هے (تو نماز قصر پڑھے)

1348۔ اگر کسی مسافر کا کسی جگه دس دن رهنے کا مُصَمّمَ اراده نه هو مثلا اس کا اراده یه هو که اگر اس کا ساتھی آگیا یا رهنے کو اچھا مکان مل گیا تو دس دن وهاں رهے گا تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1349 ۔ جب کوئی شخص کسی جگه دس دن رهنے کا مصَمَّم اراده نه هو مثلاً اس کا اراده یه هو که اگر اس که اس کے وهاں رهنے میں کوئی روکاوٹ پیدا هوگی اور اس کا یه احتمال عقلاء کے نزدیک معقول هو تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے۔

1350۔ اگر مسافر کو علم هو که مهینه ختم هونے میں مثلاً دس یا دس سے زیاده دن باقی هیں اور کسی جگه مهینے کے آخر تک رهنے کا اراده کرے تو ضروری هے که نماز پوری پڑھے لیکن اگر اسے علم نه هو که مهینه ختم هونے میں کتنے دن باقی هیں اور مهینے کے آخر تک وهاں رهنے کا اراده کرے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے اگرچه جس وقت اس نے اراده کیا تھا اس وقت سے مهینه کے آخری دن تک دس یا اس سے زیاده دن بنتے هوں۔

1351۔ اگر مسافر کسی جگه دس دن رهنے کا اراده کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے پهلے وهاں رهنے کا اراده ترک کردے یا مُذَبذِب هو که وهاں رهے یا کهیں اور چلا جائے تو ضروری هے که نماز قصر کرکے پڑھے لیکن اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد وهاں رهنے کا اراده ترک کر دے یا مُذَبذِب هو جائے تو ضروری هے که جس وقت تک وهاں رهے نماز پوری پڑھے۔

1352۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو روزه رکھ لے اور ظهر کے بعد وهاں رهنے کا اراده ترک کردے جب که اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی هو تو جب تک وه وهاں رهے اس کے روزے درست هیں اور ضروری هے که اپنی نمازیں پوری پڑھے اور اگر اس نے چار رکعتی نماز نه پڑھی هو تو احتیاطاً اس دن کا روزه پورا کرنا نیز اس کی قضا رکھنا ضروری هے۔ اور ضروری هے که اپنی نماز نمازیں قصر کرکے پڑھے اور بعد کے دنوں میں وه روزه بھی نهیں رکھ سکتا۔

ص:264

1353۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو وهاں رهنے کا اراده ترک کر دے اور شک کرے که وهاں رهنے کا اراده ترک کرنے سے پهلے ایک چار رکعتی نماز پڑھی تھی یا نهیں تو ضروری هے که اپنی نمازیں قصر کرکے پڑھے۔

1354۔ اگر کوئی مسافر نماز کو قصر کرکے پڑھنے کی نیت سے نماز میں مشغول هو جائے اور نماز کے دوران مُصَمَّم اراده کرلے که دس یا اس سے زیاده دن وهاں رهے گا تو ضروری هے که نماز کو چار رکعتی پڑھ کر ختم کرے۔

1355۔ اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو پهلی چار رکعتی نماز کے دوران اپنے ارادے سے باز آجائے اور ابھی تیسری رکعت میں مشغول نه هوا هو تو ضروری هے که دو رکعتی پڑھ کر ختم کرے اور اپنی باقی نمازیں قصر کرکے پڑھے اور اسی طرح اگر تیسری رکعت میں مشغول هو گیا هو اور رکوع میں نه گیا هو تو ضروری هے که بیٹھ جائے اور نماز کو بصورت قصر ختم کرے اور اگر رکوع میں چلا گیا هو تو اپنی نماز توڑ سکتا هے اور ضروری هے که اس نماز کو دوباره قصر کرکے پڑھے اور جب تک وهاں رهے نماز قصر کرکے پڑھے۔

1356۔ جس مسافر نے دس دن کسی جگه رهنے کا اراده کیا هو اگر وه وهاں دس سے زیاده دن رهے تو جب تک وهاں سے سفر نه کرے ضروری هے که نماز پوری پڑھے اور یه ضروری نهیں که دوباره دس دن رهنے کا اراده کرے۔

1357۔ جس مسافر نے کسی جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو تو ضروری هے که واجب روزے رکھے اور مستحب روزه بھی رکھ سکتا هے اور ظهر، عصر اور عشا کی نفلیں بھی پڑھ سکتا هے۔

1358۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگه دن رهنے کا اراده کیا هو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد یا وهاں دس دن رهنے کے بعد اگرچه اس نے ایک بھی پوری نماز نه پڑھی هو یه چاهے که ایک ایسی جگه جائے جو چار فرسخ سے کم فاصلے پر هو اور پھر لوٹ آئے اور اپنی پهلی جگه پر دس دن یا اس سے کم مدت کے لئے جائے تو ضروری هے که جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر اس کا اپنی اقامت کے مقام پر واپس آنا فقط اس وجه سے هو که وه اس کے سفر کے راستے میں واقع هو اور اس کا سفر شرعی مسافت (یعنی آٹھ فرسخ) کا هو تو اس کے لئے ضروری هے که جانے اور آنے کے دوران اور ٹھهرنے کی جگه میں نماز قصر کر کے پڑھے۔

ص:265

1359۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد چاهے که کسی اور جگه چلا جائے جس کا فاصله آٹھ فرسخ سے کم هو اور دس دن وهاں رهے تو ضروری هے که روانگی کے وقت اور اس جگه جهاں پر وه دس دن رهنے کا اراده رکھتا هو اپنی نمازیں پوری پڑھے لیکن اگر وه جگه جهاں وه جانا چاهتا هو آٹھ فرسخ یا اس سے زیاده دور هو تو ضروری هے که روانگی کے وقت اپنی نمازیں قصر کرکے پڑھے اور اگر وه وهاں دس دن نه رهنا چاهتا هو تو ضروری هے که جتنے دن وهاں رهے ان دنوں کی نمازیں بھی قصرکرکے پڑھے۔

1360۔ اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگه دس دن رهنے کا اراده کیا هو ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگه جانا چاهے جس کا فاصله چار فرسخ سے کم هو اور مُذَبذِب هو که اپنی پهلی جگه پر واپس آئے یا نهیں یا اس جگه واپس آنے سے بالکل غافل هو یا یه چاهے که واپس هوجائے لیکن مُذَبذِب هو که دس دن اس جگه ٹھهرے یا نهیں یا وهاں دس دن رهنے اور وهاں سے سفر کرنے سے غافل هو جائے تو ضروری هے که جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔

1361۔ اگر کوئی مسافر اس خیال سے که اس کے ساتھی کسی جگه دس دن رهنا چاهتے هیں اس جگه دس دن رهنے کا اراده کرے اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد اسے پته چلے که اس کے ساتھیوں نے ایسا کوئی اراده نهیں کیا تھا تو اگرچه وه خود بھی وهاں رهنے کا خیال ترک کر دے ضروری هے که جب تک وهاں رهے نماز پوری پڑھے۔

1362۔ اگر کوئی مسافر اتفاقاً کسی جگه تیس دن ره جائے مثلاً تیس کے تیس دنوں میں وهاں سے چلے جانے یا وهاں رهنے کے بارے میں مُذَبزِب رها هو تو تیس دن گزرنے کے بعد اگرچه وه تھوڑی مدت هی وهاں رهے تو ضروری هے که نماز پوری پڑھے۔

1363۔ جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے ایک جگه رهنا چاهتا هو اگر وه اس جگه نو دن یا اس سے کم مدت گزرانے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لئے دوباره وهاں رهنے کا اراده کرے اور اسی طرح تیس دن گزر جائیں تو ضروری هے که اکتیسویں دن پوری نماز پڑھے۔

ص:266

1364۔ تیس دن گزرنے کے بعد مسافر کو اس صورت میں نماز پوری پڑھنی ضروری هے جب وه تیس دن ایک هی جگه رها هو پس اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصه ایک جگه اور کچھ حصه دوسری جگه گزارا هو تو تیس دن کے بعد بھی اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے۔

مُتَفَرِّق مَسَائِل

1365۔ مسافر مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد کوفه میں بلکه مکه مکرمه، مدینه منوره اور کوفه کے پورے شهروں میں اپنی نماز پوری پڑھ سکتا هے نیز حضرت سَیِّدُالشهداء علیه السلام کے حَرم میں بھی قبر مُطَهَّر سے 14 گز کے فاصلے تک مسافر اپنی نماز پوری پڑھ سکتا هے۔

1366۔ اگر کوئی ایسا شخص جسے معلوم هو که وه مسافر هے اور اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے ان چار جگهوں کے علاوه جن کا ذکر سابقه مسئله میں کیا گیا هے کسی اور جگه جان بوجھ کر پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل هے اور اگر بھول جائے که مسافر کو نماز قصر کرکے پڑھنی چاهئے اور پوری نماز پڑھ لے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے لیکن بھول جانے کی صورت میں اگر اسے نماز کے وقت کے بعد یه بات یاد آئے تو اس نماز کا قضا کرنا ضروری نهیں۔

1367۔جو شخص جانتا هو که وه مسافر هے اور اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے اگر وه بھول کر پوری نماز پڑھ لے اور بروقت متوجه هو جائے تو نماز دوباره پڑھنا ضروری هے اور اگر وقت گزرنے کے بعد متوجه هو تو احتیاط کی بنا پر قضا کرنا ضروری هے۔

1368۔ جو مسافر یه نه جانتا هو که اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے اگر وه پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1369۔ جو مسافر جانتا هو که اسے نماز قصر کرکے پڑھنی چاهئے اگر وه قصر نماز کے بعض خصوصیات سے ناواقف هو مثلاً یه نه جانتا هو که آٹھ فرسخ کے سفر میں نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے تو اگر وه پوری نماز پڑھ لے اور نماز کے وقت میں اس مسئلے کا پته چل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که دوباره نماز پڑھے اور اگر دوباره نه پڑھے تو اس کی قضا کرے لیکن اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے (حکم مسئله) معلوم هو تو اس نماز کی قضا نهیں هے۔

ص:267

1370۔ اگر ایک مسافر جانتا هو که اسے نماز قصر کرکے پڑھنی چاهئے اور وه اس گمان میں پوری نماز پڑھ لے که اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم هے تو جب اسے پته چلے که اس کا سفر آٹھ فرسخ کا تھا تو ضروری هے که جو نماز پوری پڑھی هو اسے دوباره قصر کرکے پڑھے اور اگر اسے اس بات کا پته نماز کا وقت گزر جانے کے بعد چلے تو قضا ضروری نهیں۔

1371۔ اگر کوئی شخص بھول جائے که وه مسافر هے اور پوری نماز پڑھ لے اور اسے نماز کے وقت کے اندر هی یاد آجائے تو اسے چاهئے که قصر کرکے پڑھے اور اگر نماز کے وقت کے بعد یاد آئے تو اس نماز کی قضا اس پر واجب نهیں۔

1372۔ جس شخس کو پوری نماز پڑھنی ضروری هے اگر وه اسے قصر کرکے پڑھے تو اس کی نماز هر صورت میں باطل هے اگرچه احتیاط کی بنا پر ایسا مسافر هو جو کسی جگه دس دن رهنے کا اراده رکھتا هو اور مسئلے کا حکم نه جاننے کی وجه سے نماز قصر کرکے پڑھی هو۔

1373۔ اگر ایک شخص چار رکعتی نماز پڑھ رها هو اور نماز کے دوران اسے یاد آئے که وه تو مسافر هے یا اس امر کی طرف متوجه هو که اس کا سفر آٹھ فرسخ هے اور وه ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نه گیا هو تو ضروری هے که نماز کو دو رکعتوں پر هی تمام کر دے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں جاچکا هو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے اور اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لئے بھی وقت باقی هو تو ضروری هے که نماز کو نئے سرے سے قصر کرکے پڑھے۔

1374۔ اگر کسی مسافر کو "نماز مسافر" کی بعض خصوصیات کا علم نه هو مثلاً وه یه جانتا هو که اگر چار فرسخ تک جائے اور واپسی میں چار فرسخ کا فاصله طے کرے تو اسے نماز قصر کرکے پڑھنی ضروری هے اور چار رکعت والی نماز کی نیت سے نماز میں مشغول هو جائے اور تیسری رکعت کے رکوع سے پهلے مسئله اس کی سمجھ میں آجائے تو ضروری هے که نماز کو دو رکعتوں پر هی تمام کر دے اور اگر وه رکوع میں اس امر کی جانب متوجه هو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے اور اس صورت میں اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لئے بھی وقت باقی هو تو ضروری هے که نماز کو نئے سرے سے قصر کرکے پڑھے۔

1375۔ جس مسافر کو پوری نماز پڑھنی ضروری هو اگر وه مسئله نه جاننے کی وجه سے دو رکعتی نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران مسئله اس کی سمجھ میں آجائے تو ضروری هے که چار رکعتیں پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور احتیاط مستحب یه هے که نماز ختم هونے کے بعد دوباره اس نماز کو چار رکعتی پڑھے۔

ص:268

1376۔ جس مسافر نے ابھی نماز نه پڑھی هو اگر وه نماز کا وقت ختم هونے سے پهلے اپنے وطن پهنچ جائے یا ایسی جگه پهنچے جهاں دس دن رهنا چاهتا هو تو ضروری هے که پوری نماز پڑھے اور جو شخص مسافر نه هو اگر اس نے نماز کے اول وقت میں نماز نه پڑھی هو اور سفر اختیار کرے تو ضروری هے که سفر میں نماز قصر کرکے پڑھے۔

1377۔ جس مسافر کو نماز قصر کرکے پڑھنا ضروری هو اگر اس کی ظهر یا عصر یا عشا کی نماز قضا هو جائے تو اگرچه وه اس کی قضا اس وقت بجالائے جب وه سفر میں نه هو ضروری هے که اس کی دو رکعتی قضا کرے۔ اور اگر ان تین نمازوں میں سے کسی ایسے شخص کی کوئی نماز قضا هو جائے جو مسافر نه هو تو ضروری هے که چار رکعتی قضا بجالائے اگرچه یه قضا اس وقت بجالائے جب وه سفر میں هوا۔

1378۔مستحب هے که مسافر هر قصر کے نماز کے بعد تیس مرتبه سُبحَانَ اللهِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ وَلاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَاللهُ اَکبَرُ کهے اور ظهر، عصر اور عشا کی تعقیبات کے متعلق بهت زیاده تاکید کی گئی هے بلکه بهتر هے که مسافر ان تین نمازوں کی تعقیب میں یهی ذکر ساٹھ مرتبه پڑھے۔

قضا نماز

1379۔ جس شخص نے اپنی یومیه نمازیں ان کے وقت نه پڑھی هوں تو ضروری هے که ان کی قضا بجالائے اگرچه وه نماز کے تمام وقت کے دوران سویا رها هو یا اس نے مدهوشی کی وجه سے نماز نه پڑھی هو اور یهی حکم هر دوسری واجب نماز کا هے جسے اس کے وقت میں نه پڑھا هو۔ حتی که احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے اس نماز کا جو منت ماننے کی وجه سے مُعَیَّین وقت میں اس پر واجب هو چکی هو۔ لیکن نماز عید فطر اور نماز عید قربان کی قضا نهیں هے۔ ایسی هی جو نمازیں کسی عورت نے حیض یا نفاس کی حالت میں نه پڑھی هوں ان کی قضا واجب نهیں خواه وه یومیه نمازیں هوں یا کوئی اور هوں۔

1380۔ اگر کسی شخص کو نماز کے وقت کے بعد پته چلے که جو نماز اس نے پڑھی تھی وه باطل تھی تو ضروری هے که اس نماز کی قضا کرے۔

1381۔ جس شخص کی نماز قضا هو جائے ضروری هے که اس کی قضا پڑھنے میں کوتاهی نه کرے البته اس کا فوراً پڑھنا واجب نهیں هے۔

ص:269

1382۔ جس شخص پر کسی نماز کی قضا (واجب) هو وه مستحب نماز پڑھ سکتا هے۔

1383۔ اگر کسی شخص کو احتمال هو که قضا نماز اس کے ذمّے هے یا جو نمازیں پڑھ چکا هے وه صحیح نهیں تھیں تو مستحب هے که احتیاطاً نمازوں کی قضا کرے۔

1384۔ یومیه نمازوں کی قضا میں ترتیب لازم نهیں هے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب هے مثلاً ایک دن کی نماز ظهر و عصر یا مغرب و عشا۔ اگرچه دوسری نمازوں میں بھی ترتیب کا لحاظ رکھنا بهتر هے۔

1385۔ اگرکوئی شخص چاهے که یومیه نمازوں کے علاوه چند نمازوں مثلاً نماز آیات کی قضا کرے یا مثال کے طور پر چاهے که کسی ایک یومیه نماز کی اور چند غیر یومیه نمازوں کی قضا کرے تو ان کا ترتیب کے ساتھ قضا کرنا ضروری نهیں هے۔

1376۔ اگر کوئی شخص ان نمازوں کی ترتیب بھول جائے جو اس نے نهیں پڑھیں تو بهتر هے که انهیں اس طرح پڑھے که اسے یقین هو جائے که اس نے وه اسی ترتیب سے پڑھی هیں جس ترتیب سے وه قضا هوئی تھیں۔ مثلاً اگر ظهر کی ایک نماز اور مغرب کی ایک نماز کی قضا اس پر واجب هو اور اسے یه معلوم نه هو که کون سی پهلے قضا هوئی تھی تو پهلے ایک نماز مغرب اور اس کے بعد ایک نماز ظهر اور دوباره نماز مغرب پڑھے یا پهلے ایک نماز ظهر اور اس کے بعد ایک نماز مغرب اور پھر دوباره ایک نماز ظهر پڑھے تاکه اسے یقین هو جائے که جو نماز بھی پهلے قضا هوئی تھی وه پهلے هی پڑھی گئی هے۔

1387۔ اگر کسی شخص سے ایک دن کی نماز ظهر اور کسی اور دن کی نماز عصر یا دو نماز ظهر یا دو نماز عصر قضا هوئی هوں اور اسے معلوم نه هو که کونسی پهلے قضا هوئی هوے تو اگر وه دو نمازیں چار رکعتی اس نیت سے پڑھے که ان میں سے پهلی نماز پهلے دن کی قضا هے اور دوسری، دوسرے دن کی قضا هے تو ترتیب حاصل هونے کے لئے کافی هے۔

1388۔ اگر کسی شخص کی ایک نماز ظهر اور ایک نماز عشا یا ایک نماز عصر اور ایک نماز عشا قضا هوجائے اور اسے یه معلوم نه هو که کون سی پهلے قضا هوئی هے تو بهتر هے که انهیں اس طرح پڑھے که اسے یقین هو جائے که اس نے انهیں ترتیب سے پڑھا هے مثلاً اگر اس سے ایک نماز ظهر اور ایک نماز عشا قضا هوئی هو اور اسے یه علم نه هو که پهلے کون سی قضا هوئی تھی تو وه پهلے ایک نماز ظهر، اس کے بعد ایک نماز عشا، اور پھر دوباره ایک نماز ظهر پڑھے یا پهلے ایک نماز عشا، اس کے بعد ایک نماز ظهر اور پھر دوباره ایک نماز عشا پڑھے۔

ص:270

1389۔ اگر کسی شخص کو معلوم هو که اس نے ایک چار رکعتی نماز نهیں پڑھی لیکن یه علم نه هو که وه ظهر کی نماز تھی یا عشا کی تو اگر وه ایک چار رکعتی نماز اس نماز کی قضا کی نیت سے پڑھے جو اس نے نهیں پڑھی تو کافی هے اور اسے اختیار هے که وه نماز بلند آواز سے پڑھے یا آهسته پڑھے۔

1390۔ اگر کسی شخص کی مسلسل پانچ نمازیں قضا هو جائیں اور اسے یه معلوم نه هو که ان میں سے پهلی کون سی تھی تو اگر وه نو نمازیں ترتیب سے پڑھے مثلاً نماز صبح سے شروع کرے اور ظهر و عصر اور مغرب و عشا پڑھنے کے بعد دوباره نماز صبح اور ظهر و عصر اور مغرب پڑھے تو اسے ترتیب کے بارے میں یقین حاصل هو جائے گا۔

1391۔ جس شخص کو معلوم هو که اس کی یومیه نمازوں میں سے کوئی نه کوئی ایک نه ایک دن قضا هوئی هے لیکن ان کی ترتیب نه جانتا هو تو بهتر یه هے که پانچ دن رات کی نمازیں پڑھے اور اگر چھ دنوں میں اس کی چھ نمازیں قضا هوئی هوں تو چھ دن رات کی نمازیں پڑھے اور اسی طرح هر اس نماز کے لئے جس سے اس کی قضا نمازوں میں اضافه هو ایک مزید دن رات کی نمازیں پڑھے تاکه اسے یقین هوجائے که اس نے نمازیں اسی ترتیب سے پڑھی هیں۔ جس ترتیب سے قضا هوئی تھیں مثلاً اگر ساتھ دن کی سات نمازیں نه پڑھی هوں تو سات دان رات کی نمازوں کی قضا کرے۔

1392۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی چند صبح کی نمازیں یا چند ظهر کی نمازیں قضا هو گئی هوں اور وه ان کی تعداد نه جانتا هو یا بھول گیا هو مثلاً یه نه جانتا هو که وه تین تھیں، چار تھیں یا پانچ تو اگر وه چھوٹے عدد کے حساب سے پڑھ لے تو کافی هے لیکن بهتر یه هے که اتنی نمازیں پڑھے که اسے یقین هو جائے که ساری قضا نمازیں پڑھ لی هیں۔ مثلا اگر وه بھول گیا هو که اس کی کتنی نمازیں قضا هوئی تھیں اور اسے یقین هو که دس سے زیاده نه تھیں تو احتیاطاً صبح کی دس نمازیں پڑھے۔

1393۔جس شخص کی گزشته دنوں کی فقط ایک نماز قضا هوئی هو اس کے لئے بهتر هے که اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نه هوا هو تو پهلے قضا پڑھے اور اس کے بعد اس دن کی نماز میں مشغول هو۔ نیز اور اگر اس کی گزشته دنوں کی کوئی نماز قضا نه هوئی هو لیکن اسی دن کی ایک یا ایک سے زیاده نمازیں قضا هوئی هوں تو اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نه هوا هو تو بهتر یه هے که اس دن کی قضا نمازیں ادا نماز سے پهلے پڑھے۔

1394۔اگر کسی شخص کو نماز پڑھتے هوئے یاد آئے که اسی دن کی ایک یا زیاده نمازیں اس سے قضا هوگئی هیں یا گزشته دنوں کی صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے هے تو اگر وقت وسیع هو اور نیت کو قضا نماز کی طرف پھیرنا ممکن هو اور اس

ص:271

دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نه هوا هو تو بهتر یه هے که قضا نماز کی نمیت کرے۔ مثلاً اگر ظهر کی نماز میں تیسری رکعت کے رکوع سے پهلے اسے یاد آئے که اس دن کی صبح کی نماز قضا هوئی هے اور اگر ظهر کی نماز کا وقت بھی تنگ نه هو تو نیت کو صبح کی نماز کی طرف پھیردے اور نماز کو دو رکعتی تمام کرے اور اس کے بعد نماز ظهر پڑھے هاں اگر وقت تنگ هو یا نیت کو قضا نماز کی طرف نه پھیر سکتا هو مثلاً نماز ظهر کی تیسری رکعت کے رکوع میں اسے یاد آئے که اس نے صبح کی نماز نهیں پڑھی تو چونکه اگر وه نماز صبح کی نیت کرنا چاهے تو ایک رکوع جو که رکن هے زیاده هو جاتا هے اس لئے نیت کو صبح کی قضا کی طرف نه پھیرے۔

1395۔ اگر گزشته دنوں کی قضا نمازیں ایک شخص کے ذمے هوں اور اس دن کی (جب نماز پڑھ رها هے) ایک یا ایک سے زیاده نمازیں بھی اس سے قضا هوگئی هوں اور ان سب نمازوں کو پڑھنے کے لئے اس کے پاس وقت نه هو یا وه ان سب کو اسی دن نه پڑھنا چاهتا هو تو مستحب هے که اس دن کی قضا نمازوں کو ادا نماز سے پهلے پڑھے اور بهتریه هے که سابق نمازیں پڑھنے کے بعد ان قضا نمازوں کی جو اس دن ادا نماز سے پهلے پڑھی هوں دوباره پڑھے۔

1396۔ جب تک انسان زنده هے خواه وه اپنی قضا نمازیں پڑھنے سے قاصر هی کیوں نه هو کوئی دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں نهیں پڑھ سکتا۔

1397۔ قضا نماز باجماعت بھی پڑھی جاسکتی هے خواه امام جماعت کی نماز ادا هو یا قضا هو اور یه ضروری نهیں که دونوں ایک هی نماز پڑھیں مثلاً اگر کوئی شخص صبح کی قضا نماز کو امام کی نماز ظهر یا نماز عصر کے ساتھ پڑھے تو کوئی حرج نهیں هے۔

1398۔ مستحب هے که سمجھدار بچے کو (یعنی اس بچے کو جو برے بھلے کی سمجھ رکھتا هو نماز پڑھنے اور دوسری عبادات بجالانے کی عادت ڈالی جائے بلکه مستحب هے که اسے قضا نمازیں پڑھنے پر بھی آماده کیا جائے۔

باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب هیں

1399۔ باپ نے اپنی کچھ نمازیں نه پڑھی هوں اور ان کی قضا پڑھنے پر قادر هو تو اگر اس نے امر خداوندی کی نامرمانی کرتے هوئے ان کو ترک نه کیا هو تو احیتاط کی بنا پر اسکے بڑے بیٹے پر واجب هے که باپ کے مرنے کے بعد اس کی قضا نمازیں پڑھے یا کسی کو اجرت دے کر پڑھوائے اور ماں کی قضا نمازیں اس پر واجب نهیں اگرچه بهتر هے (که ماں کی قضا نمازیں بھی پڑھے)۔

ص:272

1400۔ اگر بڑے بیٹے کو شک هو که کوئی قضا نماز اس کے باپ کے ذمے تھی یا نهیں تو پھر اس پر کچھ بھی واجب نهیں۔

1401۔ اگر بڑے بیٹے کو معلوم هو که اس کے باپ کے ذمے قضا نمازیں تھیں اور شک هو که اس نے وه پڑھی تھیں یا نهیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که ان کی قضا بجالائے۔

1402۔ اگر یه معلوم نه هو که بڑا بیٹا کون سا هے تو باپ کی نمازوں کی قضا کسی بیٹے پر بھی واجب نهیں هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که بیٹے باپ کی قضا نمازیں آپس میں تقسیم کرلیں بجالانے کے لئے قرعه اندازی کرلیں۔

1403۔ اگر مرنے والے نے وصیت کی هو که اس کی قضا نمازوں کے لئے کسی کو اجیر بنایا جائے (یعنی کسی سے اجرت پر نمازیں پڑھوائی جائیں) تو اگر اجیر اس کی نمازیں صحیح طور پر پڑھ دے تو اس کے بعد بڑے بیٹے پر کچھ واجب نهیں هے۔

1404۔ اگر بڑا بیٹا اپنی ماں کی قضا نمازیں پڑھنا چاهے تو ضروری هے که بلند آواز سے یا آهست نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے تو ضروری هے که اپنی ماں کی صبح، مغرب اور عشا کی قضا نمازیں بلند آواز سے پڑھے۔

1405۔ جس شخص کے ذمے کسی نماز کی قضا هو اگر وه باپ اور ماں کی نمازیں بھی قضا کرنا چاهے تو ان میں سے جو بھی پهلے بجالائے صحیح هے۔

1406۔ اگر باپ کے مرنے کے وقت بڑا بیٹا نابالغ یا دیوانه هو تو اس پر واجب نهیں که جب بالغ یا عاقل هو جائے تو باپ کی قضا نمازیں پڑھے۔

1407۔ اگر بڑا بیٹا باپ کی قضا نمازیں پرھنے سے پهلے مرجائے تو دوسرے بیٹے پر کچھ بھی واجب نهیں۔

نماز جماعت

اشاره

1408۔واجب نمازیں خصوصاً یومیه نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب هے اور مسجد کے پڑوس میں رهنے والے کو اور اس شخص کو جو مسجد کی اذان کی آواز سنتا هو نماز صبح اور مغرب و عشا جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بالخصوص بهت زیاده تاکید کی گئی هے۔

ص:273

1409۔ مُعَتَبر روایات کے مطابق یا جماعت نماز فرادی نماز سے پچیس گنا افضل هے۔

1410۔ بے اعتنائی برتتے هوئے نماز جماعت میں شریک نه هونا جائز نهیں هے اور انسان کے لئے یه مناسب نهیں هے که بغیر عذر کے نماز جماعت کو ترک کرے۔

1411۔مستحب هے که انسان صبر کرے تاکه نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور وه باجماعت نماز جو مختصر پڑھی جائے اس فرادی نماز سے بهتر هے جو طول دیکر پڑھی جائے اور وه نماز با جماعت اس نماز سے بهتر هے جو اول وقت میں فرادی یعنی تنها پڑھی جائے اور وه نماز با جماعت جو فضیلت کےوقت میں نه پڑھی جائے اور فرادی نماز جو فضیلت کے وقت میں پڑھی جائے ان دونوں نمازوں میں سے کون سی نماز بهتر هے معلوم نهیں۔

1412۔ جب جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جانے لگے تو مستحب هے که جس شخص نے تنها نماز پڑھی هو وه دوباره جماعت کے ساتھ پڑھے اور اگر اسے بعد میں پته چلے که اس کی پهلی نماز باطل تھی تو دوسری نماز کافی هے۔

1413۔ اگر امام جماعت یا مقتدی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اسی نماز کو دوباره جماعت کے ساتھ پڑھنا چاهے تو اگرچه اس کا مستحب هونا ثابت نهیں لیکن رَجَاءً دوباره پڑھنے کی کوئی مُمَانَعت نهیں هے۔

1414۔ جس شخص کو نماز میں اس قدر وسوسه هوتا هو که اس نماز کے باطل هونے کا موجب بن جاتا هو اور صرف جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے اسے وسوسے سے نجات ملتی هو تو ضروری هے که وه نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔

1415۔اگر باپ یا ماں اپنی اولاد کو حکم دیں که نماز جماعت کے ساتھ پرھے تو احتیاط مستحب یه هے که نماز جماعت کے ساتھ پڑھے البته جب بھی والدین کی طرف سے امرونهی محبت کی وجه سے هو اور اس کی مخالفت سے انهیں اذیت هوتی هو تو اولاد کے لئے ان کی مخالفت کرنا اگرچه سرکشی کی حد تک نه هو تب بھی حرام هے۔

1416۔ مستحب نماز کسی بھی جگه احتیاط کی بنا پر جماعت کے ساتھ نهیں پڑھی جاسکتی لیکن نماز اِستِقاء جو طلب باران کے لئے پڑھی جاتی هے جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے هیں اور اسی طرح وه نماز جو پهلے واجب رهی هو اور پھر کسی وجه سے مستحب هوگئی هو مثلاً نماز عید فطر اور نماز عید قربان جو امام مهدی علیه السلام کے زمانے تک واجب تھی اور ان کی غیبت کی وجه سے مستحب هوگئی هے۔

ص:274

1417۔ جس وقت امام جماعت یومیه نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھا رها هو تو اس کی اقتدا کوئی سی بھی یومیه نماز میں کی جاسکتی هے۔

1418۔اگر امام جماعت یومیه نماز میں سے قضا شده اپنی نماز پڑھ رها هو یا کسی دوسرے شخص کی ایسی نماز کی قضا پڑھ رها هو جس کا قضا هونا یقینی هو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی هے لیکن اگر وه اپنی یا کسی دوسرے کی نماز احتیاطاً پڑھ رها هو تو اس کی اقتدا جائز نهیں مگر یه که مقتدی بھی اختیاطاً پڑھ رها هو اور امام کی احتیاط کا سبب مقتدی کی احتیاط کا بھی سبب هو لیکن ضروری نهیں هے که مقتدی کی احتیاط کا کوئی دوسرا سبب نه هو۔

1419۔ اگر انسان کو یه علم نه هو که نماز امام پڑھ رها هے وه واجب پنج گانه نمازوں میں سے هے یا مستحب نماز هے تو اس نماز میں اس امام کی اقتدا نهیں کی جاسکتی۔

1420۔جماعت کے صحیح هونے کے لئے یه شرط هے که امام اور مقتدی کے درمیان اور اسی طرح ایک مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اس مقتدی اور امام کے درمیان واسطه هو کوئی چیز حائل نه هو اور حائل چیز سے مراد وه چیز هے جو انهیں ایک دوسرے سے جدا کرے خواه دیکھنے میں مانع هو جیسے که پرده یا دیوار وغیره یا دیکھنے میں حائل نه هو جیسے شیشه پس اگر نماز کی تمام یا بعض حالتوں میں امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اتصال کا ذریعه هو کوئی ایسی چیز حائل هو جائے تو جماعت باطل هوگی اور جیسا که بعد میں ذکر هوگا عورت اس حکم سے مستثنی هے۔

1421۔ اگر پهلی صف کے لمبا هونے کی وجه سے اس کے دونوں طرف کھڑے هونے والے لوگ امام جماعت کو نه دیکھ سکیں تب بھی وه اقتدا کر سکتے هیں اور اسی طرح اگر دوسری صفوں میں سے کسی صف کی لمبائی کی وجه سے اس کے دونوں طرف کھڑے هونے والے لوگ اپنے سے آگے والی صف کو نه دیکھ سکیں تب بھی وه اقتدا کر سکتے هیں۔

1422۔ اگر جماعت کی صفیں مسجد کے دروازے تک پهنچ جائیں تو جو شخص دروازے کے سامنے صف کے پیچھے کھڑا هو اس کی نماز صحیح هے۔ نیز جو اشخاص اس شخص کے پیچھے کھڑے هو کر امام جماعت کی اقتدا کر رهے هوں ان کی نماز بھی صحیح هے بلکه ان لوگوں کی نماز بھی صحیح هے جو دونوں طرف کھڑے نماز پڑھ رهے هوں اور کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے جماعت سے متصل هوں۔

ص:275

1423۔ جو شخص ستون کے پیچھے کھڑا هو اگر وه دائیں یا بائیں طرف سے کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے امام جماعت سے اتصال نه رکھتا هو تو وه اقتدا نهیں کرسکتا هے۔

1424۔ امام جماعت کے کھڑے هونی کی جگه ضروری هے که مقتدی کی جگه سے زیاده اونچی نه هو لیکن اگر معولی اونچی هو تو حرج نهیں نیز اگر ڈھلوان زمین هو اور امام اس طرف کھڑا هو جو زیاده بلند هو تو اگر ڈھلوان زیاده نه هو اور اس طرح هو که عموماً اس زمین کو مسطح کها جائے تو کوئی حرج نهیں۔

1425۔ (نماز جماعت میں) اگر مقتدی کی جگه امام کی جگه سے اونچی هو تو کوئی حرج نهیں لیکن اگر اس قدر اونچی هو که یه نه کها جاسکے که وه ایک جگه جمع هوئے هیں تو جماعت صحیح نهیں هے۔

1426۔ اگر ان لوگوں کے درمیان جو ایک صف میں کھڑے هوں ایک سمجھدار بچه یعنی ایسا بچه جو اچھے برے کی سمجھ رکھتا هو کھڑا هو جائے اور وه لوگ نه جانتے هوں که اسکی نماز باطل هے تو اقتدا کر سکتے هیں۔

1427۔ امام کی تکبیر کے بعد اگر اگلی صف کے لوگ نماز کے لئے تیار هوں اور تکبیر کهنے هی والے هوں تو جو شخص پچھلی صف میں کھڑا هو وه تکبیر کهه سکتا هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که وه انتظار کرے تاکه اگلی صف والے تکبیر کهه لیں۔

1428۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که اگلی صفوں میں سے ایک صف کی نماز باطل هے تو وه پچھلی صفوں میں اقتدا نهیں کر سکتا لیکن اگر اسے یه علم نه هو که اس صف کے لوگوں کی نماز صحیح هے یا نهیں تو اقتدا کرسکتا هے۔

1429۔ جب کوئی شخص جانتا هو که امام کی نماز باطل هے مثلاً اسے علم هو که امام وضو سے نهیں هے تو خواه امام خود اس امر کی جانب متوجه نه بھی هو وه شخص اس کی اقتدا نهیں کر سکتا۔

1430۔ اگر مقتدی کو نماز کے بعد پته چلے که امام عادل نه تھا یا کافر تھا یا کسی وجه سے مثلاً وضو نه هونے کی وجه سے اس کی نماز باطل تھی تو اس کی نماز صحیح هے۔

1431۔ اگر کوئی شخص نماز کے دوران شک کرے که اس نے اقتدا کی هے یا نهیں چنانچه علامتوں کی وجه سے اسے اطمینان هو جائے که اقتدا کی هے مثلاً ایسی حالت میں هو جو مقتدی کا وظیفه هے مثلاً امام کو الحمد اور سوره پڑھتے هوئے سن

ص:276

رها هو تو ضروری هے که نماز جماعت کے ساتھ هی ختم کرے بصورت دیگر ضروری هے که نماز فرادی کی نیت سے ختم کرے۔

1432۔اگر نماز کے دوران مقتدی کسی عذر کے بغیر فرادی کی نیت کرے تو اس کی جماعت کے صحیح هونے میں اشکال هے۔ لیکن اس کی نماز صحیح هے مگر یه که اس نے فرادی نماز میں اس کا جو وظیفه هے، اس پر عمل نه کیا هو یا ایسا کام جو فرادی نماز کو باطل کرتا هے انجام دیا هو اگرچه سهواً هو مثلاً رکوع زیاده کیا هو بلکه بعض صورتوں میں اگر فرادی نماز میں اس کا جو وظیفه هے اس پر عمل نه کیا هو تو بھی اس کی نماز صحیح هے هے۔ مثلاً اگر نمازی کی ابتدا سے فرادی کی نیت نه هو اور قراءت بھی نه کی هو لیکن رکوع میں اسے ایسا قصد کرنا پڑھے تو ایسی صورت میں فرادی کی نیت سے تمام ختم کر سکتا هے اور اسے دوباره پڑھنا ضروری نهیں هے۔

1433۔اگر مقتدی امام کے الحمد اور سوره پڑھنے کے بعد کسی عذر کی وجه سے فرادی کی نیت کرے تو الحمد اور سوره پڑھنا ضروری نهیں هے لیکن اگر (امام کے) الحمد اور سوره ختم کرنے سے پهلے فرادی کی نیت کرے تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که (الحمد اور سورے) جتنی مقدار امام نے پڑھی هو وه بھی پڑھے۔

1434۔اگر کوئی شخص نماز جماعت کے دوران فرادی کی نیت کرے تو پھر وه دوباره جماعت کی نیت نهیں کرسکتا لیکن اگر مُذَبذِب هو که فرادی کی نیت کرے یا نه کرے اور بعد میں نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرنے کا مُصَمَّم اراده کرے تو اسکی جماعت صحیح هے۔

1435۔ اگر کوئی شخص شک کرے که نماز کے دوران اس نے فرادی کی نیت کی هے یا نهیں تو ضروری هے که سمجھ لے که اس نے فرادی کی نیت نهیں کی۔

1436۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں هو اور امام کے رکوع میں شریک هو جائے اگرچه امام نے رکوع کا ذکر پڑھ لیا هو اس شخص کی نماز صحیح هے اور وه ایک رکعت شمار هوگی لیکن اگر وه شخص بقدر رکوع کے جھکے تاهم امام کو رکوع میں نه پاسکے تو وه شخص اپنی نماز فرادی کی نیت سے ختم کرسکتا هے۔

ص:277

1437۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں هو اور بقدر رکوع کے جھکے اور شک کرے که امام کے رکوع میں شریک هوا هے یا نهیں تو اگر اس کا موقع نکل گیا هو مثلاً رکوع کے بعد شک کرے تو ظاهر یه هے که اس کی جماعت صحیح هے۔ اس کے علاوه دوسری صورت میں نماز فرادی کی نیت سے پوری کرسکتا هے۔

1438۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں هو اور اس سے پهلے که وه بقدر رکوع جھکے، امام رکوع سے سر اٹھالے تو اسے اختیار هے که فرادی کی نیت کرکے نماز پوری کرے یا قربت مطلقه کی نیت سے امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور سجدے کے بعد قیام کی حالت میں تکبیرۃ الاحرام اور کسی ذکر کا قصد کیے بغیر دوباره تکبیر کهے اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔

1439۔ اگر کوئی شخص نماز کی ابتدا میں یا الحمد اور سوره کے دوران اقتدا کرے اور اتفاقاً اس سے پهلے که وه رکوع میں جائے امام اپنا سر رکوع سے اٹھالے تو اس شخص کی نماز صحیح هے۔

1440۔ اگر کوئی شخص نماز کے لئے ایسے وقت پهنچے جب امام نماز کا آخری تشهد پڑھ رها هو اور وه شخص چاهتا هو که نماز جماعت کا ثواب حاصل کرے تو ضروری هے که نیت باندھنے اور تکبریه الاحرام کهنے کے بعد بیٹھ جائے اوعر محض قربت کی نیت سے تشهد امام کے ساتھ پڑھے۔ لیکن سلام نه کهے اور انتظام کرے تاکه امام نماز کا سلام پڑھ لے۔ اس کے بعد وه شخص کھڑا ها جائے اور دوباره نیت کیے بغیر اور تکبیر کهے بغیر الحمد اور سوره پڑھے اور اسے اپنی نماز کی پهلی رکعت شمار کرے۔

1441۔ مقتدی کو امام سے آگے نهیں کھڑا هونا چاهئے بلکه احتیاط واجب یه هے که اگر مقتدی زیاده هوں تو امام کے برابر نه کھڑے هوں۔ لیکن اگر مقتدی ایک آدمی هو تو امام کے برابر کھڑے هونے میں کوئی حرج نهیں۔

1442۔ اگر امام مرد اور مقتدی عورت هو تو اگر اس عورت اور امام کے درمیان یا عورت اور دوسرے مرد مقتدی کے درمیان جو عورت اور امام کے درمیان اتصال کا ذریعه هو پرده وغیره لٹکا هو تو کوئی حرج نهیں۔

1443۔ اگر نماز شروع هونے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور اس تشخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل هو پرده یا کوئی دوسری چیز حائل هو جائے تو جماعت باطل هو جاتی هے اور لازم هے که مقتدی فرادی نماز کے وظیفے پر عمل کرے۔

ص:278

1444۔ احتیاط واجب هے که مقتدی کے سجدے کی جگه اور امام کے کھڑے هونے کی جگه کے بیچ ایک ڈگ سے زیاده فاصله نه هو اور اگر انسان ایک ایسے مقتدی کے توسط سے جو اس کے آگے کھڑا هو امام سے متصل هو تب بھی یهی حکم هے اور احتیاط مستحب یه هے که مقتدی کے کھڑے هونے کی جگه اور اس سے آگے والے شخص کے کھڑے هونے کی جگه کے درمیان اس سے زیاده فاصله نه هو جو انسان کی حالت سجده میں هوتی هے۔

1445۔ اگر مقتدی کسی ایسے شخص کے توسط سے امام سے متصل هو جس نے اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی هو اور سامنے سے امام سے متصل نه هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که اس شخص سے جس نے اس کی دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی هو ایک ڈگ سے زیاده فاصلے پر نه هو۔

1446۔ اگر نماز کے دوران مقتدی اور امام یا مقتدی اور اس شخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل هو ایک ڈگ سے زیاده فاصله هوجائے تو وه تنها هو جاتا هے اور اپنی نماز فرادی کی نیت سے جاری رکھ سکتا هے۔

1447۔جو لوگ اگلی صف میں هوں اگر ان سب کی نماز ختم هو جائے اور وه فوراً دوسری نماز کے لئے امام کی اقتدا نه کریں تو پچھلی صف والوں کی نماز جماعت باطل هو جاتی هے بلکه اگر فوراً هی اقتدا کر لیں تب بھی پچھلی صف کی جماعت صحیح هونے میں اشکال هے۔

1448۔ اگر کوئی شخص دوسری رکعت میں اقتدا کرے تو اس کے لئے الحمد اور سوره پڑھنا ضروری نهیں البته قنوت اور تشهد امام کے ساتھ پڑھے اور احتیاط یه هے که تشهد پڑھتے وقت هاتھوں کی انگلیاں اور پاوں کے تلووں کا اگلا حصه زمین پر رکھے اور گھٹنے اٹھالے اور تشهد کے بعد ضروری هے که امام کے ساتھ کھڑا هو جائے اور الحمد اور سوره پڑھے اور اگر سورے کے لئے وقت نه رکھتا هو تو الحمد کو تمام کرے اور اپنے رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے اور اگر پوری الحمد پڑھنے کے لئے وقت نه هو تو الحمد کو چھوڑ سکتا هے اور امام کے ساتھ رکوع میں جائے۔ لیکن اس صورت میں احیتاط مستحب یه هے که نماز کو فرادی کی نیت سے پڑھے۔

1449۔ اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت پڑھا رها هو تو ضروری هے که اپنی نماز کی دوسری رکعت میں جو امام کی تیسری رکعت هوگی دو سجدوں کے بعد بیٹھ جائے اور واجب مقدار میں تشهد پڑھے

ص:279

اور پھر اٹھ کھڑا هو اور اگر تین دفعه تسبیحات پڑھنے کا وقت نه رکھتا هو تو ضروری هے که ایک دفعه پڑھے اور رکوع میں اپنے آپ کو امام کے ساتھ شریک کرے۔

1450۔ اگر امام تیسری یا چوتھی رکعت میں هو اور مقتدی جانتا هو که اگر اقتدا کرے گا اور الحمد پڑھے گا تو امام کے ساتھ رکوع میں شامل نه هوسکے گا تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که امام کے رکوع میں جانے تک انتظار کرے اس کے بعد اقتدا کرے۔

1451۔اگر کوئی شخص امام کے تیسری یا چوتھی رکعت میں قیام کی حالت میں هونے کے وقت اقتدا کرے تو ضروری هے که الحمد اور سوره پڑھے اور اگر سوره پڑھنے کے لئے وقت نه هو تو ضروری هے که الحمد تمام کرے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک هو جائے اور اگر پوری الحمد پڑھنے کے لئے وقت نه هو تو الحمد کو چھوڑ کر امام کے ساتھ رکوع میں جائے لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یه هے که فرادی کی نیت سے نماز پوری کرے۔

1452۔ اگر ایک شخص جانتا هو که اگر وه سوره یا قنوت پڑھے تو رکوع میں امام کے ساتھ شریک نهیں هوسکتا اور وه عمداً سوره یا قنوت پڑھے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک نه هو تو اس کی جماعت باطل هو جاتی هے اور ضروری هے که وه فرادی طور پر نماز پڑھے۔

1453۔جس شخص کو اطمینان هو که اگر سوره شروع کرے یا اسے تمام کرے تو بشرطیکه سوره زیاده لمبا نه هو وه رکوع میں امام کے ساتھ شریک هو جائے گا تو اس کے لئے بهتر یه هے که سوره شروع کرے یا اگر شروع کیا هو تو اسے تمام کرے لیکن اگر سوره اتنا زیاده طویل هو که اسے امام کا مقتدی نه کها جاسکے تو ضروری هے که اسے شروع نه کرے اور اگر شروع کر چکا هو تو اسے پورا نه کرے۔

1454۔ جو شخص یقین رکھتا هو که سوره پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک هو جائے گا اور امام کی اقتدا ختم نهیں هوگی لهذا اگر وه سوره پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نه هوسکے تو اس کی جماعت صحیح هے۔

1456۔ اگر کوئی شخص اس خیال سے که امام پهلی یا دوسری رکعت میں هے الحمد اور سوره نه پڑھے اور رکوع کے بعد اسے پته چل جائے که امام تیسری یا چوتھی رکعت میں تما تو مقتدی کی نماز صحیح هے لیکن اگر اسے رکوع سے پهلے اس بات کا پته چل جائے تو ضروری هے که الحمد اور سوره پڑھے اور اگر وقت تنگ هو تو مسئله 1451 کے مطابق عمل کرے۔

ص:280

1457۔ اگر کوئی شخص یه خیال کرتے هوئے الحمد اور سوره پڑھے که امام تیسری یا چوتھی رکعت میں هے اور رکوع سے پهلے یا اس کے بعد اسے پته چلے که امام پهلی دوسری رکعت میں تھا تو مقتدی کی نماز صحیح هے اور اگر یه بات اسے الحمد اور سوره پڑھتے هوئے معلوم هو تو (الحمد اور سوره کا) تمام کرنا اس کے لئے ضروری نهیں۔

1458۔ اگر کوئی شخص مستحب نماز پڑھ رها هو اور جماعت قائم هو جائے اور اسے یه اطمینان نه هو که اگر مستحب نماز کو تمام کرے گا تو جماعت کے ساتھ شریک هو سکے گا تو مستحب یه هے که جو نماز پڑھ رها هو اسے چوڑ دے اور نماز جماعت میں شامل هوجائے بلکه اگر اسے یه اطمینان نه هو که پهلی رکعت میں شریک هوسکے گا تب بھی مستحب هے که اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔

1459۔ اگر کوئی شخص تین رکعتی یا چار رکعتی نماز پڑھ رها هو اور جماعت قائم هوجائے اور وه ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نه گیا هو اور اسے یه اطمینان نه هو که اگر نماز کو پورا کرے گا تو جماعت میں شریک هوسکے گا تو مستحب هے که مستحب نماز کی نیت کے ساتھ اس نماز کو دو رکعت پر ختم کر دے اور جماعت کے ساتھ شریک هو جائے۔

1460۔ جو شخص امام سے ایک رکعت پیچھے هو اس کے لئے بهتر یه هے که جب امام آخری رکعت کا تشهد پڑھ رها هو تو هاتھوں کی انگلیاں اور پاوں کے تلووں کا اگلا حصه زمین پر رکھے اور گھٹنوں کو بلند کرے اور امام کے سلام پڑھنے کا انتظار کرے اور پھر کھڑا هو جائے اور اگر اسی وقت فرادی کا قصد کرنا چاهے تو کوئی حرج نهیں۔

امام جماعت کی شرائط

1462۔ امام جماعت کے لئے ضروری هے که بالغ، عاقل، شیعه اثنا عشری، عادل اور حلال زاده هو اور نماز صحیح پڑھ سکتا هو نیز اگر مقتدی مرد هو تو اس کا امام بھی مرد هونا ضروری هے اور دس ساله بچے کی اقتدا صحیح هونا اگرچه وجه سے خالی نهیں، لیکن اشکال سے بھی خالی نهیں هے۔

1463۔ جو شخص پهلے ایک امام کو عادل سمجھتا تھا اگر شک کرے که وه اب بھی اپنی عدالت پرقائم هے یا نهیں تب بھی اس کی اقتدا کرسکتا هے۔

ص:281

1464۔ جو شخص کھڑا هو کر نماز پڑھتا هو وه کسی ایسے شخص کی اقتدا نهیں کر سکتا جو بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھتا هو اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا هو وه کسی ایسے شخص کی اقتدا نهیں کر سکتا جو لیٹ کر نماز پڑھتا هو۔

1465۔ جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا هووه اس شخص کی اقتدا کر سکتا هے جو بیٹھ کر نماز پڑھتا هو لیکن جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا هو اس کا کسی ایسے شخص کی اقتدا کرنا جو لیٹ کر یا بیٹھ کر نماز پڑھتا هو محل اشکال هے۔

1466۔ اگر امام جماعت کسی عذر کی وجه سے نجس لباس یا تیمم یا جبیرے کے وضو سے نماز پڑھے تو اس کی اقتدا کی جاسکتی هے۔

1467۔ اگر امام کسی ایسی بیماری میں مبتلا هو جس کی وجه سے وه پیشاب اور پاخانه نه روک سکتا هو تو اس کی اقتدا کی جاسکتی هے نیز جو عورت مستحاضه نه هو وه مستحاضه عورت کی اقتدا کر سکتی هے۔

1468۔ بهتر هے که جو شخص جذام یا برص کا مریض هو وه امام جماعت نه بنے اور احتیاط واجب یه هے که اس (سزا یافته ) شخص کی جس پر شرعی حد جاری هوچکی هو اقتدا نه کی جائے۔

نماز جماعت کے احکام

1469 ۔ نماز کی نیت کرتے وقت ضروری هے که مقتدی امام کو مُعَیَّین کرے لیکن امام کا نام جاننا ضروری نهیں اور اگر نیت کرے که میں موجوده امام جماعت کی اقتدا کرتا هوں تو اس کی نماز صحیح هے۔

1470۔ ضروری هے که مقتدی الحمد اور سوره کے علاوه نماز کی سب چیزیں خود پڑھے لیکن اگر اس کی پهلی اور دوسری رکعت امام کی تیسری اور چوتھی رکعت هو تو ضروری هے که الحمد اور سوره بھی پڑھے۔

1471۔ اگر مقتدی نماز صبح و مغرب و عشا کی پهلی اور دوسری رکعت میں امام الحمد اور سوره پڑھنے کی آواز سن رها هو تو خواه وه کلمات کو ٹھیک طرح نه سمجھ سکے اسے الحمد اور سوره نهیں پڑھنی چاهئے اور اگرامام کی آواز سن پائے تو مستحب هے که الحمد اور سوره پڑھے لیکن ضروری هے که آهسته پڑھے اور اگر سهواً بلند آواز سے پڑھے تو کوئی حرج نهیں۔

1472۔ اگر مقتدی امام کی الحمد اور سوره کی قراءَت کے بعض کلمات سن لے تو جس قدر نه سن سکے وه پڑھ سکتا هے۔

ص:282

1473۔ اگر مقتدی سهواً الحمد اور سوره پڑھے یا یه خیال کرتے هوئے که جو آواز سن رها هے وه امام کی نهیں هے الحمد اور سوره پڑھے اور بعد میں اسے پته چلے که امام کی آواز تھی تو اس کی نماز صحیح هے۔

1474۔ اگر مقتدی شک کرے که امام کی آواز سن رها هے یا نهیں یا کوئی آواز سنے اور یه نه جانتا هو که امام کی آواز هے یاکسی اور کی تو وه الحمد اور سوره پڑھ سکتا هے۔

1475۔ مقتدی کو نماز ظهر و عصر کی پهلی اور دوسری رکعت میں احتیاط کی بنا پر الحمد اور سوره نهیں پڑھنا چاهئے اور مستحب هے که ان کی بجائے کوئی ذکر پڑھے۔

1476۔ مقتدی کو تکبیرۃ الاحرام امام سے پهلے نهیں کهنی چاهئے بلکه احتیاط واجب یه هے که جب تک امام تکبیر نه کهه چکے مقتدی تکبیر نه کهے۔

1477۔ اگر مقتدی سهواً امام سے پهلے سلام کهه دے تو اس کی نماز صحیح هے اور ضروری نهیں که وه دوباره امام کے ساتھ سلام کهے بلکه ظاهر یه هے که اگر جان بوجھ کر بھی امام سے پهلے سلام کهه دے تو کوئی حرج نهیں هے۔

1478۔ اگر مقتدی تکبیرۃ الاحرام کے علاوه نماز کی دوسری چیزیں امام سے پهلے پڑھ لے تو کوئی حرج نهیں لیکن اگر انهیں سن لے یا یه جان لے که امام انهیں کس وقت پڑھتا هے تو احتیاط مستحب یه هے که امام سے پهلے نه پڑھے۔

1479۔ ضروری هے که مقتدی جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا هے اس کے علاوه نماز کے دوسرے افعال مثلاً رکوع اور سجود امام کے ساتھ یا اس سے تھوڑی دیر بعد بجالائے اور اگر وه ان افعال کو عمداً امام سے پهلے یا اس سے کافی دیر بعد انجام دے تو اس کی جماعت باطل هوگی۔ لیکن اگر فعادی شخص کے وظیفے پر عمل کرے تو اس کی نماز صحیح هے۔

1480۔ اگر مقتدی بھول کر امام سے پهلے رکوع سے سر اٹھالے اور امام رکوع میں هی هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که دوباره رکوع میں چلاجائے اور امام کےساتھ هی سر اٹھائے۔ اس صورت میں رکوع کی زیادتی جو که رکن هے که نماز کو باطل نهیں کرتی لیکن اگر وه دوباره رکوع میں جائے اور اس سے پیشتر که وه امام کے ساتھ رکوع میں شریک هو امام سر اٹھالے تو احیتاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

ص:283

1481۔ اگر مقتدی سهواً سر سجدے سے اٹھالے اور دیکھے که امام ابھی سجدے میں هے تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که دوباره سجدے میں چلا جائے اور ار دونوں سجدوں میں ایسا هی اتفاق هو جائے تو دو سجدوں کے زیاده هو جانے کی وجه سے جو که رکن هے نماز باطل نهیں هوتی۔

1482۔جو شخص سهواً امام سے پهلے سجدے سے سر اٹھالے اگر اسے دوباره سجدے میں جانے پر معلوم هو که امام پهلے هی سر اٹھا چکا هے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن اگر دونوں سجدوں میں ایسا هی اتفاق هو جائے تو احیتاط کی بنا پر اس کی نماز باطل هے۔

1483۔ اگر مقتدی غلطی سے سر رکوع یا سجده سے اٹھالے اور سهواً یا اس خیال سے که دوباره رکوع یا سجدے میں لوٹ جانے سے امام کے ساتھ شریک نه هوسکے گا رکوع یا سجدے میں نه جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح هے۔

1484۔ اگر مقتدی سجدے سے سر اٹھالے اور دیکھے که امام سجدے میں هے اور اس خیال سے که یه امام کا پهلا سجده هے اور اس نیت سے که امام کے ساتھ سجده کرے، سجده میں چلا جائے اور بعد میں اسے معلوم هو که یه امام کا دوسرا سجده تھا تو یه مقتدی کا دوسرا سجده شمار هو گا اور اگر اس خیال سے سجدے میں جائے که یه امام کا دوسرا سجده هے اور بعد میں معلوم هو که یه امام کا پهلا سجده تھا تو ضروری هے که اس نیت سے سجده تمام کرے که امام کے ساتھ سجده کر رها هوں اور پھر دوباره امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور دونوں صورتوں میں بهتر یه هے که نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرے اور پھر دوباره بھی پڑھے۔

1485۔ اگر کوئی مقتدی سهواً امام سے پهلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یه هو که اگر دوباره قیام کی حالت میں آجائے تو امام کی قراءَت کا کچھ حصه سن سکے تو اگر وه سر اٹھالے اور دوباره امام کے ساتھ رکوع میں جائے تو اس کی نماز صحیح هے اور اگر وه جان بوجھ کر دوباره قیام کی حالت میں نه آئے تو اس کی نماز باطل هے۔

1486۔ اگر مقتدی سهواً امام سے پهلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یه هو که اگر دوباره قیام کی حالت میں آئے تو امام کی قراءَت کا کوئی حصه نه سن سکے تو اگر وه اس نیت سے که امام کے ساتھ نماز پڑھے، اپنا سر اٹھالے اور امام کے ساتھ رکوع میں جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح هے اور اگر وه عمداً دوباره قیام کی حالت میں نه آئے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن فُرادی شمار هوگی۔

ص:284

1487۔ اگر مقتدی غَلَطی سے امام سے پهلے سجدے میں چلا جائے تو اگر وه اس قصد سے که امام کے ساتھ نماز پڑھے اپنا سر اٹھالے اور امام کے ساتھ سجدے میں جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح هے اور اگر عمداً سجدے سے سر نه اٹھائے تو اس کی نماز صحیح هے لیکن وه فرادی شمار هوگی۔

1488۔ اگر امام غلطی سے ایک ایسی رکعت میں قنوت پڑھ دے جس میں قنوت نه هو یا ایک ایسی رکعت میں جس میں تشهد نه هو غلطی سے تشهد پڑھنے لگے تو مقتدی کو قنوت اور تشهد نهیں پڑھنا چاهئے لیکن وه امام سے پهلے نه رکوع میں جاسکتا هے اور نه امام کے کھڑا هونے سے پهلے کھڑا هو سکتا هے بلکه ضروری هے که امام کے تشهد اور قنوت ختم کرنے تک انتظار کرے اور باقی مانده نماز اس کے ساتھ پڑھے۔

جماعت میں امام اور مقتدی کے فرائض

1489۔ اگر مقتدی صرف ایک مرد هو تو مستحب هے که وه امام کی دائیں طرف کھڑا هو اور اگر ایک عورت هو تب بھی مستحب هے که امام کی دائیں طرف کھڑی هو لیکن ضروری هے که اس کے سجده کرنے کی جگه امام سے اس کے سجدے کی حالت میں دو زانوں کے فاصلے پر هو۔ اور اگر ایک مرد اور ایک عورت یا ایک مرد اور چند عورتیں هوں تو مستحب هے که مرد امام کی دائیں طرف اور عورت یا عورتیں امام کے پیچھے کھڑی هوں۔ اور اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتیں هوں تو مردوں کا امام کے پیچھے اور عورتوں کا مردوں کے پیچھے کھڑا هونا مستحب هے۔

1490۔ اگر امام اور مقتدی دونوں عورتیں هوں تو احتیاط واجب یه هے که سب ایک دوسری کے برابر برابر کھڑی هوں اور امام مقتدیوں سے آگے نه کھڑی هو۔

1491۔ مستحب هے که امام صف کے درمیان میں آگے کھڑا هو اور صاحبان علم و فضل اور تقوی و ورع پهلی صف میں کھڑے هوں۔

1492۔ مستحب هے که جماعت کی صفیں منظم هوں اور جو اشخاص ایک صف میں کھڑے هوں ان کے درمیان فاصله نه هو اور ان کے کندھے ایک دوسرے کے کندھوں سے ملے هوئے هوں۔

1493۔ مستحب هے که "قَدقَامَتِ الصَّلاَۃُ" کهنے کے بعد مقتدی کھڑے هوجائیں۔

ص:285

1494۔ مستحب هے که امام جماعت اس مقتدی کی حالت کا لحاظ کرے جو دوسروں سے کمزور هو اور قنوت اور رکوع اور سجود کو طول نه دے بجز اس صورت کے که اسے علم هو که تمام وه اشخاص جنهوں نے اس کی اقتدا کی هے طول دینے کی جانب مائل هیں۔

1495۔ مستحب هے که امام جماعت الحمد اور سوره نیز بلند آواز سے پڑھے جانے والے اَذ کار پڑھتے هوئے اپنی آواز کو اتنا بلند کرے که دوسرے سن سکیں لیکن ضروری هے که آواز مناسب حد سے زیاده بلند نه کرے۔

1496۔ اگر امام کی حالت رکوع میں معلوم هو جائے که کوئی شخص ابھی ابھی آیا هے اور اقتدا کرنا چاهتا هے تو مستحب هے که رکوع کو معمول سے دُگنا طُول دے اور پھر کھڑا هو جائے خواه اسے معلوم هو جائے که کوئی دوسرا شخص بھی اقتدا کے لئے آیا هے۔

نماز جماعت کے مکروهات

1497۔ اگر جماعت کی صفوں میں جگه هو تو انسان کےلئے تنها کھڑا هونا مکروه هے۔

1498۔ مقتدی کا نماز کے اذکار کو اس طرح پڑھنا که امام سن لے مکروه هے۔

1499۔ جو مسافر ظهر، عصر اور عشا کی نمازیں قصر کرکے پڑھتا هو اس کے لئے ان نمازوں میں کسی ایسے شخص کو اقتدا کرنا مکروه هے جو مسافر نه هو اور جو شخص مسافر نه هو اس کے لئے مکروه هے که ان نمازوں میں مسافر کی اقتدا کرے۔

نماز آیات

اشاره

1500 ۔ نماز آیات جس کے پڑھنے کا طریقه بعد میں بیان هوگا تین چیزوں کی وجه سے واجب هوتی هے:

ا۔ سورج گرهن

2۔ چاند گرهن، اگرچه اس کے کچھ حصے کوهی گرهن لگے اور خواه انسان پر اس کی وجه سے خوف بھی طاری نه هوا هو۔

3۔ زلزله، احتیاط واجب کی بنا پر، اگرچه اس سے کوئی بھی خوف زده نه هوا هو۔

ص:286

البته بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، سرخ و سیاه آندھی اور انهی جیسی دوسری آسمانی نشانیاں جن سے اکثر لوگ خوفزده هوجائیں اور اسی طرح زمین کے حادثات مثلاً (دریا اور) سمندر کے پانی کا سوکھ جانا اور پهاڑوں کا گرنا جن سے اکثر لوگ خوفزده هوجاتے هیں ان صورتوں میں بھی احتیاط مستحب کی بنا پر نماز آیات ترک نهیں کرنا چاهئے۔

1501۔ جن چیزوں کے لئے نماز آیات پڑھنا واجب هے که اگر وه ایک سے زیاده وقوع پذیر هوجائیں تو ضروری هے که انسان ان میں سے هر ایک کے لئے ایک نماز آیات پڑھے مثلاً اگر سورج کو بھی گرهن لگ جائے اور زلزله بھی آجائے تو دونوں کے لئے دو الگ الگ نمازیں پڑھنی ضروری هیں۔

1502۔ اگر کسی شخص پر کئی نماز آیات واجب هوں خواه وه سب اس پر ایک هی چیز کی وجه سے واجب هوئی هوں مثلاً سورج کو تین دفعه گرهن لگا هو اور اس نے اس کی نمازیں نه پڑھی هوں یا مختلف چیزوں کی وجه سے مثلاً سورج گرهن اور چاند گرهن اور زلزلے کی وجه سے اس پر واجب هوئی هوں تو ان کی قضا کرتے وقت یه ضروری نهیں که وه اس بات کا تعین کرے که کون سی قضا کون سی چیز کے لئے کر رها هے۔

1503۔ جن چیزوں کے لئے آیات پڑھنا واجب هے وه جس شهر میں وقوع پذیر هوں فقط اسی شهر کے لوگوں کے لئے ضروری هے که نماز آیات پڑھیں اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لئے اس کا پڑھنا واجب نهیں هے۔

1504۔ جب سورج یا چاند کو گرهن لگنے لگے تو نماز آیات کا وقت شروع هو جاتا هے اور اس وقت تک رهتا هے جب تک وه اپنی سابقه حالت پر لوٹ نه آئیں ۔ اگرچه بهتر یه هے که اتنی تاخیر نه کرے که گرهن ختم هونے لگے۔ لیکن نماز آیات کی تکمیل سورج یا چاند گرهن ختم هونے کے بعد بھی کر سکتے هیں۔

1505۔ اگر کوئی شخص نماز آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے که چاند یا سورج، گرهن سے نکلنا شروع هو جائے تو ادا کی نیت کرنے میں کوئی حرج نهیں لیکن اگر اس کے مکمل طور پر گرهن سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھے تو پھر ضروری هے که قضا کی نیت کرے۔

1506۔ اگر چاند یا سورج کو گرهن لگنے کی مدت ایک رکعت نماز پرھنے کے برابر یا اس سے بھی کم هو تو جو نماز وه پڑھ رها هے ادا هے اور یهی حکم هے اگر ان کے گرهن کی مدت اس سے زیاده هو لیکن انسان نماز نه پڑھے یهاں تک که گرهن ختم هونے میں ایک رکعت پڑھنے کے برابر یا اس سے کم وقت باقی هو۔

ص:287

1507۔ جب کبھی زلزله، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، اور اسی جیسی چیزیں وقوع پذیر هوں تو اگر ان کا وقت وسیع هو تو نماز آیات کو فوراً پڑھنا ضروری نهیں هے بصورت دیگر ضروری هے که فوراً نماز آیات پڑھے یعنی اتنی جلدی پڑھے که لوگوں کی نظروں میں تاخیر کرنا شمار نه هو اور اگر تاخیر کرے تو احتیاط مستحب یه هے که بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے۔

1508۔ اگر کسی شخص کو چاند یا سورت کو گرهن لگنے کا پته نه چلے اور ان کے گرهن سے باهر آنے کے بعد پته چلے که پورے سورج یا پورے چاند کو گرهن لگا تھا تو ضروری هے که نماز آیات کی قضا کرے لیکن اگر اسے یه پته چلے که کچھ حصے کو گرهن لگا تھا تو ضروری هے که نماز آیات کی قضا کرے لیکن اگر اسے یه پته چلے که کچھ حصے کو گرهن لگا تھا تو نماز آیات کی قضا اس پر واجب نهیں هے۔

1509۔اگر کچھ لوگ یه کهیں که چاند کو یا یه که سورج کو گرهن لگا هے اور انسان کو ذاتی طور پر ان کے کهنے سے یقین یا اطمینان حاصل نه هو اس لئے وه نماز آیات نه پڑھے اور بعد میں پته چلے که انهوں نے ٹھیک کها تھا تو اس صورت میں جب که پورے چاند کو یا پورے سورج کو گرهن لگا هو نماز آیات پڑھے لیکن اگر کچھ حصے کو گرهن لگا هو تو نماز آیات کا پڑھنا اس پر واجب نهیں هے۔ اور یهی حکم اس صورت میں هے جب که دو آدمی جن کے عادل هونے کے بارے میں علم نه هو یه کهیں که چاند کو یا سورج کو گرهن لگا هے اور بعد میں معلوم هو که وه عادل تھے۔

1510۔ اگر انسان کو ماهرین فلکیات کے کهنے پر جو علمی قاعدے کی رو سے سورج کو اور چاند کو گرهن لگنے کا وقت جانتے هوں اطمینان هوجائے که سورج کو یا چاند کو گرهن لگا هے تو ضروری هے که نماز آیات پڑھے اور اسی طرح اگر وه کهیں که سورج یا چاند کو فلاں وقت گرهن لگے گا اور اتنی دیر تک رهے گا اور انسان کو ان کے کهنے سے اطمینان حاصل هوجائے تو ان کے کهنے پر عمل کرنا ضروری هے۔

1511۔ اگر کسی شخص کو علم هوجائے که جو نماز آیات اس نے پڑھی هے وه باطل تھی تو ضروری هے که دوباره پڑھے اور اگر وقت گزر گیا هو تو اس کی قضا بجالائے۔

ص:288

1512۔ اگر یومیه نماز کے وقت نماز آیات بھی انسان پر واجب هو جائے اور اس کے پاس دونوں کے لئے وقت هو تو جو بھی پهلے پڑھ لے کوئی حرج نهیں هے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کا وقت تنگ هو تو پهلے وه نماز پڑھے جس کا وقت تنگ هو اور اگر دونوں کا وقت تنگ هو تو ضروری هے که پهلے یومیه نماز پڑھے۔

1513۔ اگر کسی شخص کو یومیه نماز پڑھتے هوئے علم هو جائے که نماز آیات کا وقت تنگ هے اور یومیه نماز کا وقت بھی تنگ هو تو ضروری هے که پهلے یومیه نماز کو تمام کرے اور بعد میں نماز آیات پڑھے اور اگر یومیه نماز کا وقت تنگ نه هو تو اسے توڑ دے اور پهے نماز آیات اور اس کے بعد یومیه نماز بجالائے۔

1514۔ اگر کسی شخص کو نماز آیات پڑھتے هوئے علم هوجائے که یومیه نماز کا وقت تنگ هے تو ضروری هے که نماز آیات کو چھوڑ دے اور یومیه نماز پڑھنے میں مشغول هو جائے اور یومیه نماز کو تمام کرنے کے بعد اس سے پهلے که کوئی ایسا کام کرے جو نماز کو باطل کرتا هو باقی مانده نماز آیات وهیں سے پڑھے جهاں سے چھوڑی تھی۔

1515۔ جب عورت حیض یا نفاس کی حالت میں هو اور سورج یا چاند کو گرهن لگ جائے یا زلزله آجائے تو اس پر نماز آیات واجب نهیں هے اور نه هی اس کی قضا هے۔

نماز کی آیات پڑھنے کا طریقه

1516۔ نماز آیات کی دو رکعتیں هیں اور هر رکعت میں پانچ رکوع هیں۔اس کے پڑھنے کا طریقه یه هے که نیت کرنے کے بعد انسان تکبیر کهے اور ایک دفعه الحمد اور ایک پورا سوره پڑھے اور رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اٹھائے پھر دوباره ایک دفعه الحمد اور ایک سوره پڑھے اور پھر رکوع میں جائے۔ اس عمل کو پانچ دفعه انجام دے اور پانچویں رکوع سے قیام کی حالت میں آنے کے بعد دو سجدے بجالائے اور پھر اٹھ کھڑا هو اور پهلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بجالائے اور تشهد اور سلام پڑھ کر نماز تمام کرے۔

1517۔نماز آیات میں یه بھی ممکن یه که انسان نیت کرنے اور تکبیر اور الحمد پڑھنے کے بعد ایک سورے کی آیتوں کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کچھ زیاده پڑھے اور بلکه ایک آیت سے کم بھی پڑھ سکتا هے لیکن احتیاط کی بنا پر ضروری هے که مکمل جمله هو اور اس کے بعد رکوع میں جائے اور پھر کھڑا هو جائے اور الحمد پڑھے بغیر اسی سوره کا دوسرا حصه پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح اس عمل کو دهراتا رهے حتی که پانچویں رکوع سے پهلے سورے کو ختم

ص:289

کردے مثلاً سوره فلق میں پهلے بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۔ قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ ۔ پڑھے اور رکوع میں جائے اس کے بعد کھڑا هو اور پڑھے مِن شَرَّ مَاخَلَقَ۔ اور دوباره رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد کھڑا هو اور پڑھے۔ وَمِن شَرِّغَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۔ پھر رکوع میں جائے اور پھر کھڑا هو اور پڑھے ومِن شِرّالنَّفّٰثٰتِ فِی العُقَدِ اور رکوع میں چلا جائے اور پھر کھڑا هو جائے اور پڑھے وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ۔ اور اس کے بعد پانچویں رکوع میں جائے اور (رکوع سے) کھڑا هونے کے بعد دو سجدے کرے اور دوسری رکعت بھی پهلی رکعت کی طرح بجالائے اور اس کے دوسرے سجدے کے بعد تشهد اور سلام پڑھے۔ اور یه بھی جائز هے که سورے کو پانچ سے کم حصوں میں تقسیم کرے لیکن جس وقت بھی سوره ختم کرے لازم هے که بعد والے رکوع سے پهلے الحمد پڑھے۔

1518۔ اگر کوئی شخص نماز آیات کی ایک رکعت میں پانچ دفعه الحمد اور سوره پڑھے اور دوسری رکعت میں ایک دفعه الحمد پڑھے اور سورے کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دے تو کوئی حرج نهیں هے۔

1519۔ جو چیزیں یومیه نماز میں واجب اور مستحب هیں البته اگر نماز آیات جماعت کے ساتھ هو رهی هو تو اذان اور اقامت کی بجائے تین دفعه بطور رَجَاء "اَلصَّلوٰۃ" کها جائے لیکن اگر یه نماز جماعت کے ساتھ نه پڑھی جارهی هو تو کچھ کهنے کی ضرورت نهیں ۔

1520۔ نماز آیات پڑھنے والے کے لئے مستحب هے که رکوع سے پهلے اور اس کے بعد تکبیر کهے اور پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبیر سے پهلے "سَمَعِ اللهُ لِمَن حَمِدَه" بھی کهے۔

1521۔ دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پهلے قنوت پڑھنا مستحب هے اور اگر قنوت صرف دسویں رکوع سے پهلے پڑھ لیا جائے تب بھی کافی هے۔

1522۔ اگر کوئی شخص نماز آیات میں شک کرے که کتنی رکعتیں پڑھی هیں اور کسی نتیجے پر نه پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل هے۔

1523۔اگر (کوئی شخص جو نماز آیات پڑھ رها هو) شک کرے که وه پهلی رکعت کے آخری رکوع میں هے یا دوسری رکعت کے پهلے رکوع میں اور کسی نتیجے پر نه پهنچ سکے تو اس کی نماز باطل هے لیکن اگر مثال کے طور پر شک کرے که چار رکوع بجالایا هے یا پانچ اور اس کا یه شک سجدے میں جانے سے پهلے هو تو جس رکوع کے بارے میں اسے شک هو که

ص:290

بجالایا هے یا نهیں اسے ادا کرنا ضروری هے لیکن اگر سجدے کے لئے جھک گیا هو تو ضروری هے که اپنے شک کی پروانه کرے۔

1524۔ نماز آیات کا هر رکوع رکن هے اور اگر ان میں عمداً کمی یا بیشی هو جائے تو نماز باطل هے۔ اور یهی حکم هے اگر سهواً کمی هو یا احتیاط کی بنا پر زیاده هو۔

عید فطر اور عید قربان کی نماز

1525۔ امام عصر علیه السلام کے زمانه حضور میں عید فطر و عید قربان کی نمازیں واجب هیں اور ان کا جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری هے لیکن همارے زمانے میں جب که امام عصر علیه السلام عَیبَت کبری میں هیں یه نمازیں مستحب هیں اور باجماعت یا فرادی دونوں طرح پڑھی جاسکتی هیں۔

1526۔ نماز عید فطر و قربان کا وقت عید کے دن طلوع آفتاب سے ظهر تک هے۔

1527۔ عید قربان کی نماز سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھنا مستحب هے اور عید فطر میں مستحب هے که سورج چڑھ آنے کے بعد افطار کیا جائے، فطره دیا جائے اور بعد میں دو گانه عید ادا کیا جائے۔

1528۔ عید فطر و قربان کی نماز دو رکعت هے جس کی پهلی رکعت میں الحمد اور سوره پڑھنے کے بعد بهتر یه هے که پانچ تکبیریں کهے اور هر دو تکبیر کے درمیان ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کهے اور رکوع میں چلاجائے اور پھر دو سجدے بجالائے اور اٹھ کھڑا هو اور دوسری رکعت چار تکبیریں کهے اور هر دو تکبیر کے درمیان قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کهه کر رکوع میں چلاجائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشهد پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کهه کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشهد پڑھے اور سلام کهه کرنماز کو تمام کر دے۔

1529۔ عید فطر و قربان کی نماز کے قنوت میں جو دعا اور ذکر کر بھی پڑھی جائے۔

"اَللّٰھُمَّ اَھلَ الِکبرِیَآءِ وَالعَظَمَۃِ وَ اَھلَ الجُودِ وَالجَبَرُوتِ وَ اَھلَ العَفوِ وَالرَّحمَهِ وَ اَھلَ التَّقوٰی وَ المَغِفَرۃِ اَسئَلُکَ بِحَقِّ ھٰذَا الیَومِ الَّذِی جَعَلتَه لِلمُسلِمِینَ عِیداً وَّلِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَاٰلِه ذُخرًا وَّ شَرَفاً وَّ کَرَامَۃً وَّ مَزِیدًا اَن تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ اَن تُدخِلنِی فِی کُلِّ خَیرٍ

ص:291

اَدخَلتَ فِیهِ مُحَمَّدًا وَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ وَّ اَن تُخرِجَنیِ مِن کُلِّ سُوٓءٍ اَخرَجتَ مِنهُ مُحَمَّدًا وَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُکَ عَلَیهِ وَ عَلَیھِم اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَساَلُکَ خَیرَ مَا سَئَلکَ بِه عِبَادَکَ الصَّالِحُونَ وَاَعُوذُبِکَ مِمَّا استَعَاذَ مِنهُ عِبَادُکَ المُخلِصُونَ"۔

1530۔ امام عصر علیه السلام کے زمانه غیبت میں اگر نماز عید فطر و قربان جماعت سے پڑھی جائے تو احتیاط لازم یه هے که اس کے بعد دو خطبے پڑھے جائیں اور بهتر یه هے که عید فطر کے خطبے میں فطرے کے احکام بیان هوں اور عید قربان کے خطبے میں قربانی کے احکام بیان کئے جائیں۔

1531۔ عید کی نماز کے لئے کوئی سوره مخصوص نهیں هے لیکن بهتر هے که پهلی رکعت میں (الحمد کے بع) سوره شمس (91 واں سوره) پڑھا جائے اور دوسری رکعت میں (الحمد کے بعد) سوره غاشیه (88 واں سوره) پڑھا جائے یا پهلی رکعت میں سوره اعلی (87 واں سوره) اور دوسری رکعت میں سوره شمس پڑھا جائے۔

1532۔ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا مستحب هے مکه مکرمه میں مستحب هے که مسجد الحرام میں پڑھی جائے۔

1533۔مستحب هے که نماز عید کے لئے پیدل اور پا برهنه اور باوقار طور پر جائیں اور نماز سے پهلے غسل کریں اور سفید عمامه سر پر باندھیں۔

1534۔ مستحب هے که نماز عید میں زمین پر سجده کیا جائے اور تکبیریں کهتے وقت هاتھوں کو بلند کیا جائے اور جو شخص نماز عید پڑھ رها هو خواه وه امام جماعت هو یافرادی نماز پڑھ رها هو نماز بلند آواز سے پڑھے۔

1535۔ مستحب هے که عید فطر کی رات کی مغرب و عشا نماز کے بعد اور عید فطر کے دن نماز صبح کے بعد اور نماز عید فطر کے بعد یه تکبیریں کهی جائیں۔

" اَللهُ اَکبَرُ۔ اَللهُ اَکبَرُ، لآَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَاللهُ اَکبَرُ، اَللهُ اَکبَرُ وَلِلّٰهِ الَحمدُ، اَللهُ اَکبرُ عَلٰی مَاھَدَانَا"۔

1536۔ عید قربان میں دس نمازوں کے بعد جن میں سے پهلی نماز عید کے دن کی نماز ظهر هے اور آخری بارهویں تاریخ کی نماز صبح هے ان تکبیرات کا پڑھنا مستحب هےجن کا ذکر سابقه مسئله میں هوچکا هے اور ان کے بعد۔ اَللهُ اَکبَرُ عَلٰی مَاَرَزَقَنَا مِن بَهِیمَۃِ الاَنعَامِ وَالحَمدُ لِلّٰهِ عَلیٰ مَآ اَبلاَنَا" پڑھنا بھی مستحب هے لیکن اگر عید قربان کے موقع پر انسان منی میں هو تو مستحب هے که یه تکبیریں پندره نمازوں کے بعد پڑھے جن میں سے پهلی نماز عید کے دن نماز ظهر هے اور آخری تیرهویں ذی الحجه کی نماز صبح هے۔

ص:292

1537۔ نماز عید میں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کو چاهئے که الحمد اور سوره کے علاوه نماز کے اذکار خود پڑھے۔

1539۔ اگر مقتدی اس وقت پهنچے جب امام نماز کی کچھ تکبیریں کهه چکا هو تو امام کے رکوع میں جانے کے بعد ضروری هے جتنی تکبیریں اور قنوت اس نے امام کے ساتھ نهیں پڑھی انهیں پڑھے اور اگر هر قنوت میں ایک دفعه "سُبحاَنَ الله" یا ایک دفعه "اَلحَمدُلِلّٰه" کهه دے تو کافی هے۔

1540۔ اگر کوئی شخص نماز عید میں اس وقت پهنچے جب امام رکوع میں هو تو وه نیت کرکے اور نماز کی پهلی تکبیر کهه کر رکوع میں جاسکتا هے۔

1541۔ اگر کوئی شخص نماز عید میں ایک سجده بھول جائے تو ضروری هے که نماز کے بعد اسے بجا لائے۔ اور اسی طرح اگر کوئی ایسا فعل نماز عید میں سر زد هو جس کے لئے یومیه نماز میں سجده سهو لازم هے تو نماز عید پڑھنے والے کے لئے ضروری هے که دو سجده سهو بجالائے۔

نماز کے لیے اجیر بنانا (یعنی اجرت دے کر نماز پڑھوانا)

1542۔ انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جو وه زندگی میں نه بجالایا هو کسی دوسرے شخص کو اجیر بنایا جاسکتا هے یعنی وه نمازیں اسے اجرت دے کر پڑھوائی جاسکتی هیں اور اگر کوئی شخص بغیر اجرت لئے ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کو بجالائے تب بھی صحیح هے۔

1543۔ انسان بعض مستحب کاموں مثلاً حج و عمرے اور روضه رسول (صلی الله علیه وآله) یا قُبورِائمه علیهم السلام کی زیارت کے لئے زنده اشخاص کی طرف سے اجیر بن سکتا هے اور یه بھی کر سکتا هے۔ که مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مرده یا زنده اشخاص کو هدیه کر دے۔

1544۔جو شخص میت کی قضا نماز کے لئے اجیر بنے اس کے لئے ضروری هے که یا تو مجتهد هو یا نماز تقلید کے مطابق صحیح طریقے پر ادا کرے یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکه مَوَارِدِ احتیاط کو پوری طرح جانتا هو۔

1545۔ ضروری هے که اجیر نیت کرتے وقت میت کو معین کرے اور ضروری نهیں که میت کا نام جانتا هو بلکه اگر نیت کرے که میں یه نماز اس شخص کے لئے پڑھ رها هوں جس کے لئے میں اجیر هوا هوں تو کافی هے۔

ص:293

1546۔ ضروری هے که اجیر جو عمل بجالائے اس کے لئے نیت کے که جو کچھ میت کے ذمے هے وه بجا لا رها هوں اور اگر اجیر کوئی عمل انجام دے اور اس کا ثواب میت کو هدیه کر دے تو تو یه کافی نهیں هے۔

1547۔ اجیر ایسے شخص کو مقرر کرنا ضروری هے جس کے بارے میں اطمینان هو که وه عمل کو بجالائے گا۔

1548۔ جس شخص کو میت کی نمازوں کے لئے اجیر بنایا جائے اگر اس کے بارے میں پته چلے که وه عمل کو بجا نهیں لایا باطل طور پر بجا لایا هے تو دوباره (کسی دوسرے شخص کو) اجیر مقرر کرنا ضروری هے۔

1549۔ جب کوئی شخص شک کرے که اجیر نے عمل انجام دیا هے یا نهیں اگرچه وه کهے که میں نے انجام دے دیا هے لیکن اس کی بات پر اطمینان نه هو تو ضروری هے که دوباره اجیر مقرر کرے۔ اور اگر شک کرے که اس نے صحیح طور پر انجام دیا هے یا نهیں تو اسے صحیح سمجھ سکتا هے۔

1550۔ جو شخص کوئی عذر رکھتا هو مثلاً تیمم کرکے یا بیٹھ کر نماز پڑھتا هو اسے احتیاط کی بنا پر میت کی نمازوں کے لئے اجیر بالکل مقرر نه کیا جائے اگرچه میت کی نمازیں بھی اسی طرح قضا هوئی هوں۔

1551۔ مرد عورت کی طرف سے اجیر بن سکتا هے اور عورت مرد کی طرف سے اجیر بن سکتی هے اور جهاں تک نماز بلند آواز سے پڑھنے کا سوال هے ضروری هے که اجیر اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے۔

1552۔ میت کی قضا نمازوں میں ترتیب واجب نهیں هے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب هے مثلا ایک دن کی نماز ظهر و عصر یا مغرب و عشا جیسا که پهلے ذکر هو چکا هے۔

1553۔ اگر اجیر کے ساتھ طے کیا جائے که عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری هے که اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے اور اگر کچھ طے نه هوا هو تو ضروری هے که وه عمل اپنے وظیفے کے مطابق انجام دے اور احیتاط مستحب یه هے که اپنے وظیفے میں سے جوبھی احتیاط کے زیاده قریب هو اس پر عمل کرے مثلاً اگر میت کا وظیفه تسبیحات اربعه تین دفعه پڑھنا تھا اور اس کی اپنی تکلیف ایک دفعه پڑھنا هو تو تین دفعه پڑھے۔

1554۔ اگر اجیر کے ساتھ یه طے نه کیا جائے که نماز کے مستحبات کس مقدار میں پڑھے گا تو ضروری هے که عموماً جتنے مستحبات پڑھے جاتے هیں انهیں بجالائے۔

ص:294

1555۔ اگر انسان میت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجیر مقرر کرے تو جو کچھ مسئله 1552 بتایا گیا هے اس کی بنا پر ضروری نهیں که وه هر اجیر کے لئے وقت معین کرے۔

1556۔ اگر کوئی شخص اجیر بنے که مثال کے طور پر ایک سال میں میت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم هونے سے پهلے مرجائے تو ان نمازوں کے لئے جن کے بارے میں علم هو که وه بجا نهیں لایا کسی اور شخص کو اجیر مقرر کیا جائے اور جن نمازوں کے بارے میں احتمال هو که وه انهیں نهیں بجالایا احتیاط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجیر مقررکیا جائے۔

1557۔ جس شخص کو میت کی قضا نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیا هو اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی هو اگر وه ساری نمازیں پڑھنے سے پهلے مرجائے تو اگر اس کے ساتھ یه طے کیا گیا هو که ساری نمازیں وه خودهی پڑھے گا تو اجرت دینے والے باقی نمازوں کی طے شده اجرت واپس لے سکتے هیں یا اجاره کو فسخ کر سکتے هیں اور اس کی اجرات المثل دے سکتے هیں۔اور اگر یه طے نه کیا گیا هو که ساری نمازیں اجیر خود پڑھے گا تو ضروری هے که اجیر کے ورثاء اس کے مال سے باقیمانده نمازوں کے لئے کسی کو اجیر بنائیں لیکن اگر اس نے کوئی مال نه چھوڑا هو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

1558۔ اگر اجیر میت کی سب قضا نمازیں پڑھنے سے پهلے مرجائے اور اس کے اپنے ذمے بھی قضا نمازیں هوں تو مسئله سابقه میں جو طریقه بتایا گیا هے اس پر عمل کرنے کے بعد اگر فوت شده اجیر کے مال سے کچھ بچے اور اس صورت میں جب که اس نے وصیت کی هو اور اس کے ورثاء بھی اجازت دیں تو اس کی سب نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیاجاسکتا هے اور اگر ورثاء اجازت نه دیں تو مال کا تیسرا حصه اس کی نمازوں پر صرف کیا جاسکتا هے۔

روزے کے احکام

اشاره

(شریعت اسلام میں) روزه سے مراد هے خداوند عالم کی رضا کے لئے انسان اذان صبح سے مغرب تک نوچیزوں سے جو بعد میں بیان کی جائیں گی پرهیز کرے۔

نیت

ص:295

1559۔ انسان کے لئے روزے کی نیت دل سے گزارنا یا مثلاً یه کهنا که "میں کل روزه رکھوں گا" ضروری نهیں بلکه اس کا اراده کرنا کافی هے که وه الله تعالی کی رضا کے لئے اذان صبح سے مغرب تک کوئی ایسا کام نهیں کرے گا جس سے روزه باطل هوتا هو اور یقین حاصل کرنے کے لئے اس تمام وقت میں وه روزے سے رها هے ضروری هے که کچھ دیر اذان صبح سے پهلے اور کچھ دیر مغرب کے بعد بھی ایسے کام کرنے سے پرهیز کرے جن سے روزه باطل هو جاتا هے۔

1560۔ انسان ماه رمضان المبارک کی هر رات کو اس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کر سکتا هے۔اور بهتر یه هے که اس مهینے کی پهلی رات کو هی سارے مهینے کے روزوں کی نیت کرے۔

1561۔ وه شخص جس کا روزه رکھنے کا اراده هو اس کے لئے ماه رمضان میں روزے کی نیت کا آخری وقت اذان صبح سے پهلے هے۔ یعنی اذان صبح سے پهلے روزے کی نیت ضروری هے اگرچه نیند یا ایسی هی کسی وجه سے اپنے ارادے کی طرف متوجه نه هو۔

1562۔ جس شخص نے ایسا کوئی کام نه کیا هو جو روزے کو باطل کرے تو وه جس وقت بھی دن میں مستحب روزے کی نیت کرلے اگرچه مغرب هونے میں کم وقت هی ره گیا هو، اس کا روزه صحیح هے۔

1563۔ جو شخص ماه رمضان المبارک کے روزوں اور اسی طرح واجب روزوں میں جن کے دن معین هیں روزے کی نیت کئے بغیر اذان صبح سے پهلے سوجائے اگر وه ظهر سے پهلے بیدار هو جائے اور روزے کی نیت کرے تو اس کا روزه صحیح هے اور اگر وه ظهر کے بعد بیدار هو تو احتیاط کی بناپر ضروری هے که قربت مطلقه کی نیت نه کرے اور اس دن کے روزے کی قضا بھی بجالائے۔

1564۔اگر کوئی شخص ماه رمضان المبارک کے روزے کے علاوه کوئی دوسرا روزه رکھنا چاهے تو ضروری هے که اس روزے کو معین کرے مثلاً نیت کرے که میں قضاکا یا کفار کا روزه رکھ رها هوں لیکن ماه رمضان المبارک میں یه نیت کرنا ضروری نهیں که میں ماه رمضان کا روزه کھ رها هوں بلکه اگر کسی کو علم نه هو یا بھول جائے که ماه رمضان هے اور کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تب بھی وه روزه ماه رمضان کا روزه شمار هوگا۔

1565۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که رمضان کا مهینه هے اور جان بوجھ کر ماه رمضان کے روزے کے علاوه کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو وه روزه جس کی اس نے نیت کی هے وه روزه شمار نهیں هوگا اور اسی طرح ماه رمضان کا روزه بھی شمار

ص:296

نهیں هوگا اگر وه نیت قصد قربت کے منافی هو بلکه اگر منافی نه هو تب بھی احتیاط کی بنا پر وه روزه ماه رمضان کا روزه شمار نهیں هوگا۔

1566۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ماه رمضان المبارک کے پهلے روزے کی نیت کرے لیکن بعد میں معلوم هوکه یه دوسرا یا تیسرا روزه تھا تو اس کا روزه صحیح هے۔

1567۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پهلے روزے کی نیت کرنے کے بعد بے هوش هوجائے اور پھر اسے دن میں کسی وقت هوش آجائے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که اس دن کا روزه تمام کرے اور اگر تمام نه کرسکے تو اس کی قضا بجالائے۔

1568۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پهلے روزے کی نیت کرے اور پھر بے حواس هو جائے اور پھر اسے دن میں کسی وقت هوش آجائے تو احتیاط واجب یه هے که اس دن کا روزه تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

1569۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پهلے روزے کی نیت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بیدار هو تو اس کا روزه صبح هے۔

1570۔ اگر کسی شخص کو علم نه هو یا بھول جائے که ماه رمضان هے اور ظهر سے پهلے اس امر کی جانب متوجه هو اور اس دوران کوئی ایسا کام کر چکا هو جو روزے کو باطل کرتا هے تو اس کا روزه باطل هوگا لیکن ضروری هے که مغرب تک کوئی ایسا کام نه کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور ماه رمضان کے بعد روزے کی قضا بھی کرے۔ اور اگر ظهر کے بعد متوجه هو که رمضان کا مهینه هے تو احتیاط کی بنا پر یهی حکم هے اور اگر ظهر سے پهلے متوجه هو اور کوئی ایسا کام بھی نه کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو تو اس کا روزه صحیح هے۔

1571۔اگر ماه رمضان میں بچه اذان صبح سے پهلے بالغ هو جائے تو ضروری هے که روزه رکھے اور اگر اذان صبح کے بعد بالغ هو تو اس کا روزه اس پر واجب نهیں هے۔ لیکن اگر مستحب روزه رکھنے کا اراده کر لیا هو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس دن کے روزے کو پورا کرنا ضروری هے۔

ص:297

1572۔ جو شخص میت کے روزے رکھنے کے لئے اجیر بنا هو یا اس کے ذمے کفارے کا روزے هوں اگر وه مستحب روزے رکھے تو کوئی حرج نهیں لیکن اگر قضا روزے کسی کے ذمے هوں تو وه مستحب روزه نهیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزه رکھ لے تو اس صورت میں اگر اسے ظهر سے پهلے یاد آ جائے تو اس کا مستحب روزه کالعدم هو جاتا هے اور وه اپنی نیت واجب روزے کی جانب موڑ سکتا هے۔ اور اگر وه ظهر کے بعد متوجه هو تو احتیاط کی بنا پر اس کا روزه باطل هے اور اگر اسے مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کے روزے کا صحیح هونا اشکال سے خالی نهیں۔

1573۔اگر ماه رمضان کے روزے کے علاوه کوئی دوسرا مخصوص روزه انسان پر واجب هو مثلاً اس نے منت مانی هو که ایک مقرره دن کو روزه رکھے گا اور جان بوجھ کر اذان صبح تک نیت نه کرے تو اس کا روزه باطل هے اور اگر اسے معلوم نه هو که اس دن کا روزه اس پر واجب هے یا بھول جائے اور ظهر سے پهلے اسے یاد آئے تو اگر اس نے کوئی ایسا کام نه کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو اور روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزه صحیح هے اور اگر ظهر کے بعد اسے یاد آئے تو ماه رمضان کے روزے میں جس احیتاط کا ذکر کیا گیا هے اس کا خیال رکھے۔

1574۔ اگر کوئی شخص کسی غیر مُعَیَّن واجب روزے کے لئے مثلاً روزه کفاره کے لئے طهر کے نزدیک تک عمداً نیت نه کرے تو کوئی حرج نهیں بلکه اگر نیت سے پهلے مصمم اراده رکھتا هو که روزه نهیں رکھے گا یا مذبذب هو که روزه رکھے یا نه رکھے تو اگر اس نے کوئی ایسا کام نه کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو اور ظهر سے پهلے روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزه صحیح هے۔

1575۔اگر کوئی کافر ماه رمضان میں ظهر سے پهلے مسلمان هو جائے اور اذان صبح سے اس وقت تک کوئی ایسا کام نه کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که روزے کی نیت کرے اور روزے کو تمام کرے اور اگر اس دن کا روزه نه رکھے تو اس کی قضا بجالائے۔

1576۔ اگر کوئی بیمار شخص ماه رمضان کے کسی دن میں ظهر سے پهلے تندرست هو جائے اور اس نے اس وقت تک کوئی ایسا کام نه کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو تو نیت کرکے اس دن کا روزه رکھنا ضروری هے اور اگر ظهر کے بعد تندرست هو تو اس دن کا روزه اس پر واجب نهیں هے۔

ص:298

1577۔ جس دن کے بارے میں انسان کو شک هو که شعبان کی آخری تاریخ هے یا رمضان کی پهلی تاریخ، اس دن کا روزه رکھنا اس پر واجب نهیں هے اور اگر روزه رکھنا چاهے تو رمضان المبارک کے روزے کی نیت نهیں کر سکتا لیکن نیت کرے که اگر رمضان هے تو رمضان کا روزه هے اور اگر رمضان نهیں هے تو قضا روزه یا اسی جیسا کوئی اور روزه هے تو بعید نهیں که اس کا روزه صحیح هو لیکن بهتر یه هے که قضا روزے وغیره کی نیت کرے اور اگر بعد میں پته چلے که ماه رمضان تھا تو رمضان کا روزه شمار هوگا لیکن اگر نیت صرف روزے کی کرے اور بعد میں معلوم هو که رمضان تھا تب بھی کافی هے۔

1578۔ اگر کسی دن کے بارے میں انسان کو شک هو که شعبان کی آخری تاریخ هے یا رمضان المبارک کی پهلی تاریخ تو وه قضا یا مستحب یا ایسے هی کسی اور روزه کی نیت کرکے روزے رکھ لے اور دن میں کسی وقت اسے پته چلے که ماه رمضان هے تو ضروری هے که ماه رمضان کے روزے کی نیت کرلے۔

1579۔ اگر کسی مُعَیَّن واجب روزے کے بارے میں مثلاً رمضان المبارک کے روزے کے بارے میں انسان مُذبذِب هو که اپنے روزے کو باطل کرے یا نه کرے یا روزے کو باطل کرنے کا قصد کرے تو خواه اس نے جو قصد کیا هو اسے ترک کردے اور کوئی ایسا کام بھی نه کرے جس سے روزه باطل هوتا هو اس کا روزه احتیاط کی بنا پر باطل هوجاتا هے۔

1580۔اگر کوئی شخص جو مستحب روزه یا ایسا واجب روزه مثلاً کفارے کا روزه رکھے هوئے هو جس کا وقت مُعَیَّن نه هو کسی ایسے کام کا قصد کرے جو روزے کو باطل کرتا هو مُذَبذِب هو که کوئی ایسا کام کرے یا نه کرے تو اگر وه کوئی ایسا کام نه کرے اور واجب روزے میں ظهر سے پهلے اور مستحب روزے میں غروب سے پهلے دوباره روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزه صحیح هے۔

وه چیزیں جو روزے کو باطل کرتی هیں

1581۔چند چیزیں روزے کو باطل کر دیتی هیں:

1۔ کھانا اور پینا۔

2۔ جماع کرنا۔

ص:299

3۔ اِستِمَنَاء۔ یعنی انسان اپنے ساتھ یا کسی دوسرے کے ساتھ جماع کے علاوه کوئی ایسا فعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج هو۔

4۔ خدا تعالی پیغمبر اکرام (صلی الله علیه وآله) اور ائمه طاهرین علیهم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔

5۔ غبار حلق تک پهنچانا۔

6۔ مشهور قول کی بنا پر پورا سر پانی میں ڈبونا۔

7۔ اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں رهنا۔

8۔ کسی سَیَّال چیز سے حُقنه (انیما) کرنا ۔

9۔ قے کرنا۔

ان مبطلات کے تفصیلی احکام آئنده مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

کھانا اور پینا

1582۔ اگر روزه دار اس امر کی جانب متوجه هوتے هوئے که روزے سے هے کوئی چیز جان بوجھ کر کھائے یا پئے تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے قطع نظر اس سے که وه چیز ایسی هو جسے عموماً کھایا یا پیا جاتا هو مثلاً روٹی اور پانی یا ایسی هو جسے عموماً کھایا یا پیانه جاتا هو مثلاً مٹی اور درخت کا شیره، اور خواه کم یا زیاده حتی که اگر روزه دار مسواک منه سے نکالے اور دوباره منه میں لے جائے اور اس کی تری نگل لے تب بھی روزه باطل هوجاتا هے سوائے اس صورت کے که مسواک کی تری لعاب دهن میں گھل مل کر اس طرح ختم هو جائے که اسے بیرونی تری نه کها جاسکے۔

1583۔ جب روزه دار رکھانا کھا رها هو اگر اسے معلوم هوجائے که صبح هوگئی هے تو ضروری هے که جو لقمه منه میں هو اسے اگل دے اور اگر جان بوجھ کر وه لقمه نگل لے تو اس کا روزه باطل هے اور اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں هوگا اس پر کفاره بھی واجب هے۔

ص:300

1584۔ اگر روزه دار غلطی سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزه باطل نهیں هوتا۔

1585۔ جو انجکشن عضو کو بے حس کر دیتے هیں یا کسی اور مقصد کے لئے استعمال هوتے هیں اگر روزے دار انهیں استعمال کرے تو کوئی حرج نهیں لیکن بهتر یه هے که ان انجکشنوں سے پرهیز کیا جائے جو دوا اور غذا کی بجائے استعمال هوتے هیں۔

1586۔ اگر روزه دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی هوئی کوئی چیز عمداً نگل لے تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے۔

1587۔ جو شخص روزه رکھنا چاهتا هو اس کے لئے اذان صبح سے پهلے دانتوں میں خلال کرنا ضروری نهیں هے لیکن اگر اسے علم هو که جو غذا دانتوں کے ریخوں میں ره گئی هے وه دن کے وقت پیٹ میں چلی جائے گی تو خلال کرنا ضروری هے۔

1588۔ منه کا پانی نگلنے سے روزه باطل نهیں هوتا خواه ترشی وغیره کے تصور سے هی منه میں پانی بھر آیا هو۔

1589۔ سر اور سینے کا بلغم جب تک منه کے اندر والے حصے تک نه پهنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نهیں لیکن اگر وه منه میں آجائے تو احتیاط واجب یه هے که اسے تھوک دے۔

1590۔ اگر روزه دار کو اتنی پیاس لگے که اسے پیاس سے مرجانے کا خوف هو جائے یا اسے نقصان کا اندیشه هو یا اتنی سختی اٹھانا پڑے جو اس کے لئے ناقابل برداشت هو تو اتنا پانی پی سکتا هے که ان امور کا خوف ختم هو جائے لیکن اس کا روزه باطل هو جائے گا اور اگر ماه رمضان هو تو اختیار لازم کی بنا پر ضروری هے که اس سے زیاده پانی نه پیئے اور دن کے حصے میں وه کام کرنے سے پرهیز کرے جس سے روزه باطل هوجاتا هے۔

1591۔ بچے یا پرندے کو کھلانے کے لئے غذا کا چبانا یا غذا کا چکھنا اور اسی طرح کے کام کرنا جس میں غذاً عموماً حلق تک نهیں پهنچتی خواه وه اتفاقاً حلق تک پهنچ جائے تو روزے کو باطل نهیں کرتی۔ لیکن اگر انسان شروع سے جانتا هو که یه غذا حلق تک پهنچ جائے گی تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے اور ضروری هے که اس کی قضا بجالائے اور کفاره بھی اس پر واجب هے۔

1592۔ انسان معمولی نقاهت کی وجه سے روزه نهیں چھوڑا سکتا لیکن اگر نقاهت اس حد تک هو که عموماً برداشت نه هوسکے تو پھر روزه چھوڑنے میں کوئی حرج نهیں۔

جماع

ص:301

1593۔ جماع روزے کو باطل کر دیتا هے خواه عضو تناسل سپاری تک هی داخل هو اور منی بھی خارج نه هوئی هو۔

1594۔ اگر آله تناسل سپاری سے کم داخل هو اور منی بھی خارج نه هو تو روزه باطل نهیں هوتا لیکن جس شخص کی سپاری کٹی هوئی هو اگر وه سپاری کی مقدار سے کم تر مقدار داخل کرے تو اگر یه کها جائے که اس نے هم بستری کی هے تو اس کا روزه باطل هو جائے گا۔

1595۔ اگر کوئی شخص عمداً جماع کا اراده کرے اور پھر شک کرے که سپاری کے برابر دخول هوا تھا یا نهیں تو احیتاط لازم کی بنا پر اس کا روزه باطل هے اور ضروری هے که اس روزے کی قضا بجالائے لیکن کفاره واجب نهیں هے۔

1596۔ اگر کوئی شخص بھول جائے که روزے سے هے اور جماع کرے یا اسے جماع پر اس طرح مجبور کیا جائے که اس کا اختیار باقی نه رهے تو اس کا روزه باطل نهیں هوگا البته اگر جماع کی حالت میں اسے یاد آجائے که روزے سے هے یا مجبوری ختم هوجائے تو ضروری هے که فوراً جماع ترک کر دے اور اگر ایسا نه کرے تو اس کا روزه باطل هے۔

اِستِمنَاء

1597۔ اگر روزه دار اِستمِنَاء کرے (استمناء کے معنی مسئله 1581 بتائے جاچکے هیں) تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے۔

1598۔ اگر بے اختیاری کی حالت میں کسی کی منی خارج هوجائے تو اس کا روزه باطل نهیں هے۔

1599۔ اگرچه روزه دار کو علم هو که اگر دن میں سوئے گا تو اسے احتلام هو جائے گا یعنی سوتے میں اس کی منی خارج هوجائے گی تب بھی اس کے لئے سونا جائز هے خواه نه سونے کی وجه سے اسے کوئی تکلیف نه بھی هو اور اگر اسے احتلام هو جائے تو اس کا روزه باطل نهیں هوتا۔

1600۔ اگر روزه دار منی خارج هوتے وقت نیند سے بیدار هو جائے تو اس پر یه واجب نهیں که منی کو نکلنے سے روکے۔

1601۔ جس روزه دار کو احتلام هوگیا تو وه پیشاپ کرسکتا هے خواه اسے یه علم هو که پیشاب کرنے سے باقیمانده منی نالی سے باهر آجائے گی۔

ص:302

1602۔ جب روزے دار کو احتلام هو جائے اگر اسے معلوم هو که منی نالی میں ره گئی هے اور اگر غسل سے پهلے پیشاب نهیں کرے گا تو غسل کے بعد منی اس کے جسم سے خارج هوگی تو احتیاط مستحب یه هے که غسل سے پهلے پیشاب کرے۔

1603۔جو شخص منی نکالنے کے ارادے سے چھیڑ چھاڑ اور دل لگی کرے تو خواه منی نه بھی نکلے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

1604۔ اگر روزه دار منی نکالنے کے ارادے کے بغیر مثال کے طور پر اپنی بیوی سے چھیڑ چھاڑ اور هنسی مذاق کرے اور اسے اطمینان هو که منی خارج نهیں هوگی تو اگرچه اتفاقاً منی خارج هو جائے اس کا روزه صحیح هے۔ البته اگر اسے اطمینان نه هو تو اس صورت میں جب منی خارج هوگی تو اس کا روزه باطل هو جائے گا۔

خدا و رسول پر بهتان باندھنا

1605۔ اگر روزه دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارے سے یا کسی اور طریقے سے الله تعالی یا رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) یا آپ کے (برحق) جانشینوں میں سے کسی سے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچه وه فوراً کهه دے که میں نے جھوٹ کهاهے یا توبه کرلے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزه باطل هے اور احتیاط مستحب کی بنا پر حضرت فاطمه زَهرا سَلاَمُ اللهِ عَلَیهَا اور تمام انبیائے مرسلین اور ان کے جانشینوں سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب کرنےکا یهی حکم هے۔

1606۔ اگر (روزه دار) کوئی ایسی روایت نقل کرنا چاهے جس کے قطعی هونے کی دلیل نه هو اور اس کے بارے میں اسے یه علم نه هو که سچ هے یا جھوٹ تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که جس شخص سے وه روایت هو یا جس کتاب میں لکھی دیکھی هو اس کا حواله دے۔

1607۔ اگر (روزه دار) کسی چیز کے بارے میں اعتقاد رکھتا هو که وه واقعی قول خدایا قول پیغمبر (صلی الله علیه وآله) هے اور اسے الله تعالی یا پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله) سے منسوب کرنے اور بعد میں معلوم هو که یه نسبت صحیح نهیں تھی تو اس کا روزه باطل نهیں هوگا۔

ص:303

1608۔ اگر روزے دار کسی چیز کے بارے میں یه جانتے هوئے که جھوٹ هے اسے الله تعالی اور رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) سے منسوب کرے اور بعد میں اسے پته چلے که جو کچھ اس نے کها تھا وه درست تھا تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔

1609۔ اگر روزے دار کسی ایسے جھوٹ کو جو خود روزے دار نے نهیں بلکه کسی دوسرے نے گھڑا هو جان بوجھ کر الله تعالی یا رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) یا آپ کے (برحق) جانشینوں سے منسوب کر دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزه باطل هو جائے لیکن اگر جس نے جھوٹ گھڑا هو اس کا قول نقل کرے تو کوئی حرج نهیں ۔

1610۔ اگر روزے دار سے سوال کیا جائے که کیا رسول محتشم (صلی الله علیه وآله) نے ایسا فرمایا هے اور وه عمداً جهاں جواب نهیں دینا چاهئے وهاں اثبات میں دے اور جهاں اثبات میں دینا چاهئے وهاں عمداً نفی میں دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزه باطل هو جاتا هے۔

1611۔ اگر کوئی شخص الله تعالی یا رسول کریم (صلی الله علیه وآله) کا قول درست نقل کرے اور بعد میں کهے که میں نے جھوٹ کهاهے یا رات کو کوئی جھوٹی بات ان سے منسوب کرے اور دوسرے دن جب که روزه رکھا هو هو کهے که جو کچھ میں نے گزشته رات کها تھا وه درست هے تو اس کا روزه باطل هو جاتا هے لیکن اگر وه روایت کے (صحیح یا غلط هونے کے) بارے میں بتائے (تو اس کا روزه باطل نهیں هوتا)۔

غبار کو حلق تک پهنچانا

1612۔ احتیاط واجب کی بنا پر کثیف غبار کو حلق تک پهنچانا روزے کو باطل کر دیتا هے خواه غبار کسی ایسی چیز کا هو جس کا کھانا حلال هو مثلاً آٹا یا کسی ایسی چیز کا هو جس کا کھانا حرام هو مثلاً مٹی ۔

1613۔اقوی یه هے که غیر کثیف غبار حلق تک پهنچانے سے روزه باطل نهیں هوتا۔

1614۔ اگر هوا کی وجه سے کثیف غبار پیدا هو اور انسان متوجه هونے اور احتیاط کر سکنے کے باوجود احتیاط نه کرے اور غبار اس کے حلق تک پهنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزه باطل هو جاتا هے ۔

1615۔ احتیاط واجب یه هے که روزه دار سگریٹ اور تمباکو وغیره کا دھوان بھی حلق تک نه پهنچائے۔

ص:304

1616۔ اگر انسان احتیاط نه کرے اور غبار یا دھواں وغیره حلق میں چلا جائے تو اگر اسے یقین یا اطمینان تھا که یه چیزیں حلق میں نه پهنچیں گی تو اس کا روزه صحیح هے لیکن اسے گمان تھا که یه حلق تک نهیں پهنچیں گی تو بهتر یه هے که اس روزے کی قضا بجالائے۔

1617۔ اگر کوئی شخص یه بھول جانے پر که روزے سے هے احیتاط نه کرے یا بے اختیار غبار وغیره اس کے حلق میں پهنچ جائے تو اس کا روزه باطل نهیں هوتا۔

سر کو پانی میں ڈبونا

1618۔ اگر روزه دار جان بوجھ کر سارا سر پانی میں ڈبو دے تو خواه اس کا باقی بدن پانی سے باهر رهےمشهور قول کی بنا پر اس کا روزه باطل هو جاتا هے لیکن بعید نهیں که ایسا کرنا روزے کو باطل نه کرے۔ اگرچه ایسا کرنے میں شدید کراهت هے اور ممکن هو تو اس سے احتیاط کرنا بهتر هے۔

1619۔ اگر روزه دار اپنے نصف سر کو ایک دفعه اور باقی نصف سر کو دوسری دفعه پانی میں ڈبوئے تو اس کا روزه صحیح هونے میں کوئی اشکال نهیں هے۔

1620۔ اگر سارا سر پانی میں ڈوب جائے تو خواه کچھ بال پانی سے باهر بھی ره جائیں تو اس کا حکم بھی مسئله (1618) کی طرح هے۔

1621۔ پانی کے علاوه دوسری سیال چیزوں مثلاً دودھ میں سر ڈبونے سے روزے کو کوئی ضرر نهیں پهنچتا۔ اور مضاف پانی میں سر ڈبونے کا بھی یهی حکم هے۔

1622۔ اگر روزه دار بے اختیار پانی میں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی میں ڈوب جائے یا بھول جائے که روزے سے هے اور سر پانی میں ڈبو لے تو اس کے روزے میں کوئی اشکال نهیں هے۔

1623۔ اگر کوئی روزه دار یه خیال کرتے هوئے اپنے آپ کو پانی میں گرا دے که اس کا سر پانی میں نهیں ڈوبے گا لیکن اس کا سارا سر پانی میں ڈوب جائے تو اس کے روزے میں بالکل اشکال نهیں هے۔

ص:305

1624۔ اگر کوئی شخص بھول جائے که روزے سے هے اور سر پانی میں ڈبو دے تو اگر پانی میں ڈوبے هوئے اسے یاد آئے که روزے سے هے تو بهتر یه هے که روزه دار فوراً اپنا سر پانی سے باهر نکالے۔ اور اگر نه نکالے تو اس کا روزه باطل نهیں هوگا۔

1625۔ اگر کوئی شخص روزے دار کے سر کو زبردستی پانی میں ڈبو دے تو اس کے روزے میں کوئی اشکال نهیں هے لیکن جب که وه ابھی پانی میں هے دوسرا شخص اپنا هاتھ هٹا لے تو بهتر هے که فوراً اپنا سر پانی سے باهر نکال لے۔

1626۔ اگر روزه دار غسل کی نیت سے سر پانی میں ڈبو دے تو اس کا روزه اور غسل دونوں صحیح هیں۔

1627۔ اگر کوئی روزه دار کسی کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی میں ڈبو دے خواه اس شخص کو بچانا واجب هی کیوں نه هو تو احتیاط مستحب یه هے که روزے کی قضا بجالائے۔

اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں رهنا

1627۔اگر جُنب شخص ماه رمضان المبارک میں جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نه کرے تو اس کا روزه باطل هے اور جس شخص کا وظیفه تیمم هو، اور وه جان بوجھ کر تیمم نه کرے تو اس کا روزه بھی باطل هے اور ماه رمضان کی قضا کا حکم بھی یهی هے۔

1629۔ اگر جنب شخص ماه رمضان کے روزوں اور ان کی قضا کے علاوه ان واجب روزوں میں جن کا وقت ماه رمضان کے روزوں کی طرح معین هے جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نه کرے تو اظهر یه هے که اس کا روزه صحیح هے۔

1630۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان المبارک کی کسی رات میں جنب هوجائے تو اگر وه عمداً غسل نه کرے حتی که وقت تنگ هو جائے تو ضروری هے که تیمم کرے اور روزه رکھے اور احتیاط مستحب یه هے که اس کی قضا بھی بجالائے۔

1631۔ اگر جنب شخص ماه رمضان میں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد اسے یاد آئے تو ضروری هے که اس دن کا روه قضا کرے اور اگر چند دنوں کے بعد یاد آئے تو اتنے دنوں کے روزوں کی قضا کرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین هو که وه جنب تھا مثلاً اگر اسے یه علم نه هو که تین دن جنب رها یا چار دن تو ضروری هے تین دنوں کے روزوں کی قضا کرے۔

ص:306

1632۔ اگر ایک ایسا شخص اپنے آپ کو جنب کرلے جس کے پاس ماه رمضان کی رات میں غسل اور تیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نه هو تو اس کا روزه باطل هے اور اس پر قضا اور کفاره دونوں واجب هیں۔

1633۔ اگر روزه دار یه جاننے کے لئے جستجو کرے که اس کے پاس وقت هے یا نهیں اور گمان کرے که اس کے پاس غسل کے لئے وقت هے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد میں اسے پته چلے که وقت تنگ تھا اور تیمم کرے تو اس کا روزه صحیح هے اور اگر بغیر جستجو کئے گمان کرے که اس کے پاس وقت هے اور اپنے آپ کو جنب کر لے اور بعد میں اسے پته چلے که وقت تنگ تھا اور تیمم کرکے روزه رکھے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری هے که اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

1634۔جو شخص ماه رمضان کی کسی رات میں جنب هو اور جانتا هو که اگر سوئے گا تو صبح تک بیدار ه هوگا اسے بغیر غسل کئے نهیں سونا چاهئے اور اگر وه غسل کرنے سے پهلے اپنی مرضی سے سو جائے اور صبح تک بیدار نه هو تو اس کا روزه باطل هے اور قضا اور کفاره دونوں اس پر واجب هیں۔

1635۔جب جنب ماه رمضان کی رات میں سو کر جاگ اٹھے تو احتیاط واجب یه هے که اگر وه بیدار هونے کے بارے میں مطمئن نه هو تو غسل سے پهلے نه سوئے اگرچه اس بات کا احتمال هو که اگر دوباره سو گیا تو صبح کی اذان سے پهلے بیدا هو جائے گا۔

1636۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان کی کسی رات میں جنب هو اور یقین رکھتا هو که اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پهلے بیدار هو جائے گا اور اس کا مصمم اراده هوکه بیدار هونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سو جائے اور اذان تک سوتا رهے تو اس کا روزه صحیح هے۔ اور اگر کوئی شخص صبح کی اذان سے پهلے بیدار هونے کے بارے میں مطمئن هو تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1637۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان کی کسی رات میں جنب هو اور اسے علم هو یا احتمال هوکه اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پهلے بیدار هو جائے گا اور وه اس بات سے غافل هو که بیدار هونے کے بعد اس پر غسل کرنا ضروری هے تو اس صورت میں جب که وه سو جائے اور صبح کی اذان تک سویا رهے احتیاط کی بنا پر اس پر قضا واجب هو جاتی هے۔

ص:307

1638۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان کی کسی رات میں جنب هو اور اسے یقین هو یا احتمال اس بات کا هو که اگر وه سو گیا تو صبح کی اذان سے پهلے بیدار هوجائے گا اور وه بیدار هونے کے بعد غسل نه کرنا چاهتا هوتو اس صورت میں جب که وه سو جائے اور بیدار نه هو اس کا روزه باطل هے اور قضا اور کفاره اس کے لئے لازم هے۔ اور اسی طرح اگر بیدار هونے کے بعد اسے تردد هو که غسل کرے یا نه کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے۔

1639۔اگر جنب شخص ماه رمضان کی کسی رات میں سو کر جاگ اٹھے اور اسے یقین هو یا اس بات کا احتمال هو که اگر دوباره سو گیا تو صبح کی اذان سے پهلے بیدار هو جائے گا اور وه مصمم اراده بھی رکھتا هو که بیدار هونے کے بعد غسل کرے گا اور دوباره سو جائے اور اذان تک بیدار نه هو تو ضروری هے که بطور سزا اس دن کا روزه قضا کرے۔ اور اگر دوسری نیند سے بیدار هو جائے اور تیسری دفعه سو جائے اور صبح کی اذان تک بیدار نه هو تو ضروری هے که اس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفاره بھی دے۔

1640۔ جب انسان کو نیند میں احتلام هو جائے تو پهلی، دوسری اور تیسری نیند سے مراد وه نیند هے که انسان (احتلام سے) جاگنے کے بعد سوئے لیکن وه نیند جس میں احتلام هوا پهلی نیند شمار نهیں هوتی۔

1641۔ اگر کسی روزه دار کو دن میں احتلام هو جائے تو اس پر فوراً غسل کرنا واجب نهیں۔

1642۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان میں صبح کی اذان کے بعد جاگے اور یه دیکھے که اسے احتلام هو گیا هے تو اگرچه اسے معلوم هو که یه احتلام اذان سے پهلے هوا هے اس کا روزه صحیح هے۔

1643۔ جو شخص رمضان المبارک کا قضا روزه رکھنا چاهتا هو اور وه صبح کی اذان تک جنب رهے تو اگر اس کا اس حالت میں رهنا عمداً هو تو اس دن کا روزه نهیں رکھ سکتا اور اگر عمداً نه هو تو روزه رکھ سکتا هے اگرچه احتیاط یه هے که روزه نه رکھے۔

1644۔ جو شخص رمضان المبارک کے قضا روزے رکھنا چاهتا هو اگر وه صبح کی اذان کے بعد بیدار هو اور دیکھے که اسے احتلام هو گیا هے اور جانتا هو که یه احتلام اسے صبح کی اذان سے پهلے هوا هے تو اقوی کی بنا پر اس دن ماه رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزه رکھ سکتا هے۔

ص:308

1645۔ اگر ماه رمضان کے قضا روزوں کے علاوه ایسے واجب روزوں میں که جن کا وقت معین نهیں هے مثلاً کفارے کے روزے میں کوئی شخص عمداً اذان صبح تک جنب رهے تو اظهر یه هے که اس کا روزه صحیح هے لیکن بهتر هے که اس دن کے علاوه کسی دوسرے دن روزه رکھے۔

1646۔ اگر رمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پهلے حیض یا نفاس سے پاک هو جائے اور عمداً غسل نه کرے یا وقت تنگ هونے کی صورت میں ۔ اگرچه اس کے اختیار میں هو اور رمضان کا روزه هو ۔ تیمم نه کرے تو اس کا روزه باطل هے اور احتیاط کی بنا پر ماه رمضان کے قضا روزے کا بھی یهی حکم هے (یعنی اس کا روزه باطل هے) اور ان دو کے علاوه دیگر صورتوں میں باطل نهیں اگرچه احوط یه هے که غسل کرے۔ ماه رمضان میں جس عورت کی شرعی ذمه داری حیض یا نفاس کے غسل کے بدلے تیمم هو اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر رمضان میں اگر جان بوجھ کر اذان صبح سے پهلے تیمم نه کرے تو اس کا روزه باطل هے۔

1647۔ اگر کوئی عورت ماه رمضان میں صبح کی اذان سے پهلے حیض یا نفاس سے پاک هو جائے اور غسل کے لئے وقت نه هو تو ضروری هے که تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدار رهنا ضروری نهیں هے۔ جب جنب شخص کا وظیفه تیمم هو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1648۔ اگر کوئی عورت ماه رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے نزدیک حیض یا نفاس سے پاک هو جائے اور غسل یا تیمم کسی کے لئے وقت باقی نه هو تو اس کا روزه صحیح هے۔

1649۔ اگر کوئی عورت صبح کی اذان کے بعد حیض یا نفاس کے خون سے پاک هو جائے یا دن میں اسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو اگرچه یه خون مغرب کے قریب هی کیوں نه آئے اس کا روزه باطل هے۔

1650۔اگر عورت حیض یا نفاس کا غسل کرنا بھول جائے اور اسے ایک دن یا کئی دن کے بعد یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے هوں وه صحیح هیں۔

1651۔ اگر عورت ماه رمضان المبارک میں صبح کی اذان سے پهلے حیض یا نفاس سے پاک هو جائے اور غسل کرنے میں کوتاهی کرے اور صبح کی اذان تک غسل نه کرے اور وقت تنگ هونے کی صورت میں تیمم بھی نه کرے تو اس کا روزه

ص:309

باطل هے لیکن اگر کوتاهی نه کرے مثلا منتظر هو که زمانه حمام میسر آجائے خواه اس مدت میں وه تین دفعه سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نه کرے اور تیمم کرنے میں بھی کوتاهی نه کرے تو اس کا روزه صحیح هے۔

1652۔ جو عورت استحاضه کثیره کی حالت میں هو اگر وه اپنے غسلوں کو اس تفصیل کے ساتھ نه بجالائے جس کا ذکر مسئله 402 میں کیا گیا هے تو اس کا روزه صحیح هے۔ ایسے هی استحاضه متوسطه میں اگرچه عورت غسل نه بھی کرے، اس کا روزه صحیح هے۔

1653۔ جس شخص نے میت کو مس کیا هو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصه میت کے بدن سے چھوا هو وه غسل مس میت کے بغیر روزه رکھ سکتا هے اور اگر روزے کی حالت میں بھی میت کو مس کرے تو اس کا روزه باط نهیں هوت ا۔

حقنه لینا

1654۔ سیال چیز سے حقنه (انیما) اگرچه به امر مجبوری اور علاج کی غرض سے لیا جائے روزے کو باطل کر دیتا هے۔

قے کرنا

1655۔ اگر روزه دار جان بوجھ کر قے کرے تو اگرچه وه بیماری وغیره کی وجه سے ایسا کرنے پر مجبور هو اس کا روزه باطل هو جاتا هے لیکن اگر سهواً یا بے اختیار هو کر قے کرے تو کوئی حرج نهیں۔

1656۔ اگر کوئی شخص رات کو ایسی چیز کھالے جس کے بارے میں معلوم هو که اس کے کھانے کی وجه سے دن میں بے اختیار قے آئے گی تو احتیاط مستحب یه هے که اس دن کا روزه قضا کرے۔

1658۔ اگر روزه دار کے حلق میں مکھی چلی جائے چنانچه وه اس حد تک اندر چلی گئی هو که اس کے نیچے لے جانے کو نگلنا نه کها جائے تو ضروری نهیں که اسے باهر نکالا جائے اور اس کا روزه صحیح هے لیکن اگر مکھی کافی حد تک اندر نه گئی هو تو ضروری هے که باهر نکالے اگرچه اسے قے کرکے هی نکالنا پڑھے مگر یه که قے کرنے میں روزه دار کو ضرر اور شدید تکلیف نه هو۔ اور اگر وه قے نه کرے اور اسے نگل لے تو اس کا روزه باطل هو جائے گا۔

ص:310

1659۔ اگر روزه دار سهواً کوئی چیز نگل لے اور اس کے پیٹ میں پهنچے سے پهلے اسے یاد آجائے که روزے سے هے تو اس چیز کا نکالنا لازم نهیں اور اس کا روزه صحیح هے۔

1660۔اگر کسی روزه دار کو یقین هو که ڈکار لینے کی وجه سے کوئی چیز اس کے حلق سے باهر آجائے گی تو احتیاط کی بنا پر اسے جان بوجھ کر ڈکار نهیں لینی چاهئے لیکن اگر اسے ایسا یقین نه هو تو کوئی حرج نهیں۔

1661۔ اگر روزه دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے حلق یا منه میں آجائے تو ضروری هے که اسے اگل دے اور اگر وه چیز بے اختیار پیٹ میں چلی جائے تو اس کا روزه صحیح هے۔

ان چیزوں کے احکام جو روزے کو باطل کرتی هیں

1662۔ اگر انسان جان بوجھ کر اور اختیار کے ساتھ کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو تو اس کا روزه باطل هو جاتا هے اور اگر کوئی ایسا کام جان بوجھ کر نه کرے تو پھر اشکال نهیں لیکن اگر جنب سوجائے اور اس تفصیل کے مطابق جو مسئله 1639 میں بیان کی گئی هے صبح کی اذان تک غسل نه کرے تو اس کا روزه باطل هے۔ چنانچه اگر انسان نه جانتا هو که جو باتیں بتائی گئی هیں ان میں سے بعض روزے کو باطل کرتی هیں یعنی جاهل قاصر هو اور انکار بھی نه کرتا هو (بالفاظ دیگر مقصر نه هو) یا یه که شرعی حجت پر اعتماد رکھنا هو اور کھانے پینے اور جماع کے علاوه ان افعال میں سے کسی فعل کو انجام دے تو اس کا روزه باطل نهیں هوگا۔

1623۔ اگر روزه دار سهواً کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور اس کے گمان سے که اس کا روزه باطل هوگیا هے دوباره عمداً کوئی اور ایسا هی کام کرے تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے۔

1664۔ اگر کوئی چیز زبردستی روزه دار کے حلق میں انڈیل دی جائے تو اس کا روزه باطل نهیں هوتا لیکن اگر اسے مجبور کیا جائے مثلاً اسے کها جائے که اگر تم غذا نهیں کھاو گے تو هم تمهیں مالی یا جانی نقصان پهنچائیں گے اور وه نقصان سے بچنے کے لئے اپنے آپ کچھ کھالے تو اس کا روزه باطل هو جائے گا۔

1665۔ روزه دار کو ایسی جگه نهیں جانا چاهئے جس کے بارے میں وه جانتا هو که لوگ کوئی چیز اس کے حلق میں ڈال دیں گے یا اسے روزه توڑنے پر مجبور کریں گے اور اگر ایسی جگه جائے یا به امر مجبوری وه خود کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو

ص:311

باطل کرتا هو تو اس کا روزه باطل هوجاتا هے۔ اور اگر کوئی چیز اس کے حلق میں انڈیل دیں تو احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے۔

وه چیزیں جو روزه دار کے لئے مکروه هیں

1666۔ روزه دار کے لئے کچھ چیزیں مکروه هیں اور ان میں سے بعض یه هیں:

1۔ آنکھ میں دوا ڈالنا اور سرمه لگانا جب که اس کا مزه یا بو حلق میں پهنچے۔

2۔ هر ایسا کام کرنا جو کمزوری کا باعث هو مثلاً فصد کھلوانا اور حمام جانا۔

3۔ (ناک سے) ناس کھینچنا بشرطیکه یه علم نه هو که حلق تک پهنچے گی اور اگر یه علم هو که حلق تک پهنچے گی تو اس کا استعمال جائز نهیں هے۔

4۔ خوشبودار گھاس (اور جڑی بوٹیاں) سونگھنا۔

5۔ عورت کا پانی میں بیٹھنا۔

6۔ شیاف استعمال کرنا یعنی کسی خشک چیز سے انیما لینا۔

7۔ جو لباس پهن رکھا هو اسے تر کرنا۔

8۔ دانت نکلوانا اور هر وه کام کرنا جس کی وجه سے منه سے خون نکلے۔

9۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا۔

10۔ بلاوجه پانی یا کوئی اور سیال چیز منه میں ڈالنا

اور یه بھی مکروه هے که منی نکالنے کے قصد کے بغیر انسان اپنی بیوی کا بوسه لے یا کوئی شهوت انگیز کام کرے اور اگر ایسا کرنا منی نکالنے کے قصد سے هو اور منی نه نکلے تو احتیاط لازم کی بنا پر روزه باطل هو جاتا هے۔

ص:312

ایسے مواقع جن میں روزه کی قضا اور کفاره واجب هو جاتے هیں

1667۔اگر کوئی شخص ماه رمضان کے روزے کو کھانے، پینے یا هم بستری یا استمناء یا جنابت پر باقی رهنے کی وجه سے باطل کرے جب که جبر اور ناچاری کی بنا پر نهیں بلکه عمداً اور اختیاراً ایسا کیا هو تو اس پر قضا کے علاوه کفاره بھی واجب هوگا اور جو کوئی مَتَذَکَّره امور کے علاوه کسی اور طریقے سے روزه باطل کرے تو احتیاط مستحب یه هے که وه قضا کے علاوه کفار بھی دے۔

1668۔ جن امور کا ذکر کیا گیا هے اگر کوئی ان میں سے کسی فعل کو انجام دے جب که اسے پخته یقین هو که اس عمل سے اس کا روزه باطل نهیں هوگا تو اس پر کفاره واجب نهیں هے۔

روزے کا کفاره

1669۔ ماه رمضان کا روزه توڑنے کے کفارے کے طور پر ضروری هے که انسان ایک غلام آزاد کرے یا ان احکام کے مطابق جو آئنده مسئلے میں بیان کئے جائیں گے دو مهینے روزے رکھے یا ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا هر فقیر کو ایک مد تقریباً 4۔3 کلو طعام یعنی گندم یا جو یا روٹی وغیره دے اور اگر یه افعال انجام دینا اس کے لئے ممکن نه هو تو بقدر امکان صدقه دینا ضروری هے اور اگر یه ممکن نه هو تو توبه و استغفار کرے اور احتیاط واجب یه هے که جس وقت (کفاره دینے کے) قابل هو جائے کفاره دے۔

1670۔ جو شخص ماه رمضان کے روزے کے کفارے کے طور پر دو ماه روزے رکھنا چاهے تو ضروری هے که ایک پورا مهینه اور اس سے اگلے مهینے کے ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور اگر باقی مانده روزے مسلسل نه بھی رکھے تو کوئی اشکال نهیں۔

1671۔جو شخص ماه رمضان کے روزے کے کفارے کے طور پر دو ماه روزے رکھنا چاهے ضروری هے که وه روزے ایسے وقت نه رکھے جس کے بارے میں وه جانتا هو که ایک مهینے اور ایک دن کے درمیان عید قربان کی طرح کوئی ایسا دن آجائے گا جس کا روزه رکھنا حرام هے۔

ص:313

1672۔ جس شخص کو مسلسل روزے رکھنے ضروری هیں اگر وه ان کے بیچ میں بغیر عذر کے ایک دن روزه نه رکھے تو ضروری هے که دوباره از سر نو روزے رکھے۔

1673۔اگر ان دنوں کے درمیان جن میں مسلسل روزے رکھنے ضروری هیں روزه دار کو کوئی غیر اختیار عذر پیش آجائے مثلاً حیض یا نفاس یا ایسا سفر جسے اختیار کرنے پر وه مجبور هو تو عذر کے دور هونے کے بعد روزوں کا از سر نو رکھنا اس کے لئے واجب نهیں بلکه وه عذر دور هونے کے بعد باقیمانده روزے رکھے۔

1674۔ اگر کوئی شخص حرام چیز سے اپنا روزه باطل کر دے خواه وه چیز بذات خود حرام هو جیسے شراب اور زنا یا کسی وجه سے حرام هو جائے جیسے که حلال غذا جس کا کھانا انسان کے لئے بالعموم مضر هویا وه اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو احتیاط مستحب یه هے که کفاره جمع دے۔ یعنی اسے چاهئے که ایک غلام آزاد کرے اور دو مهینے روزے رکھے اور ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھنا کھلائے یا ان میں سے هر فقیر کو ایک مد گندم یا جَو یا روٹی وغیره دے اور اگر یه تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن هوں تو ان میں سے جو کفاره ممکن هو، دے۔

1675۔اگر روزه دار جان بوجھ کر الله تعالی یا نبی اکرم (صلی الله علیه وآله) سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو احتیاط مستحب یه هے که کفاره جمع دے جس کی تفصیل گزشته مسئله میں بیان کی گئی هے۔

1676۔اگر روزه دار ماه رمضان کے ایک دن میں کئی دفعه جماع یا استمناء کرے تو اس پر ایک کفاره واجب هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که هر دفعه کے لئے ایک ایک کفاره دے۔

1677۔اگر روزه دار ماه رمضان کے ایک دن میں جماع اور استمناء کے علاوه کئی دفعه کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو روزے کے باطل کرتا هو تو ان سب کےلئے بلااشکال صرف ایک کفاره کافی هے۔

1678۔اگر روزه دار جماع کے علاوه کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور پھر اپنی زوجه سے مجامعت بھی کرے تو دونوں کے لئے ایک کفاره کافی هے۔

1679۔ اگر روزه دار کوئی ایسا کام کرے جو حلال هو اور روزے کو باطل کرتا هو مثلاً پانی پی لے اور اس کے بعد کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو حرام هو اور روزے کو باطل کرتا هو مثلاً حرام غذا کھالے تو ایک کفاره کافی هے۔

ص:314

1680۔اگر روزے دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے منه میں آجائے تو اگر وه اسے جان بوجھ کر نگل لے تو اس کا روزه باطل هے اور ضروری هے که اس کی قضا کرے اور کفاره بھی اس پر واجب هوجاتا هے اور اگر اس چیز کا کھانا حرام هو مثلاً ڈکار لیتے وقت خون یا ایسی خوراک جو غذا کی تعریف میں نه آتی هو اس کے منه میں آجائے اور وه اسے جان بوجھ کر نگل لے تو ضروری هے که اس روزے کی قضا بجا لائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفاره جمع بھی دے۔

1681۔ اگر کوئی شخص میت مانے کی ایک خاص دن روزه رکھے گا تو اگر وه اس دن جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کر دے تو ضروری هے که کفاره دے اور اس کا کفاره اسی طرح هے جیسے که منت توڑنے کا کفاره هے۔

1682۔ اگر روزه دار ایک ایسے شخص کے کهنے پر جو کهے که مغرب کا وقت هوگیا هے اور جس کےکهنے پر اسے اعتماد نه هو روزه افطار کرلے اور بعد میں اسے پته چلے که مغرب کا وقت نهیں هوا یا شک کرے که مغرب کا وقت هوا هے یا نهیں تو اس پر قضا اور کفاره دونوں واجب هو جاتے هیں۔

1683۔ جو شخص جان بوجھ کر اپنا روزه باطل کرلے اور اگر وه ظهر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظهر سے پهلے سفر کرے تو اس پر سے کفاره ساقط نهیں هوتا بلکه اگر ظهر سے پهلے اتفاقاً اسے سفر کرنا پڑھے تب بھی کفاره اس پر واجب هے۔

1684۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنا روزه توڑ دے اور اس کے بعد کوئی عذر پیدا هو جائے مثلاً حیض یا نفاس یا بیماری میں مبتلا هو جائے تو احتیاط مستحب یه هے که کفاره دے۔

1685۔ اگر کسی شخص کو یقین هو که آج ماه رمضان المبارک کی پهلی تاریخ هے اور وه جان بوجھ کر روزه توڑ دے لیکن بعد میں اسے پته چلے که شعبان که آخری تاریخ هے تو اس پر کفاره واجب نهیں هے۔

1686۔ اگر کسی شخص کو شک هو کر آج رمضان کی آخری تاریخ هے یا شوال کی پهلی تاریخ اور وه جان بوجھ کر روزه توڑ دے اور بعد میں پته چلے که پهلی شوال هے تو اس پر کفاره واجب نهیں هے۔

ص:315

1687۔ اگر ایک روزه دار ماه رمضان میں اپنی روزه دار بیوی سے جماع کرے تو اگر اس نے بیوی کو مجبور کیا هو تو اپنے روزے کا کفاره اور احتیاط کی بنا پر ضروری هے که اپنی بیوی کے روزے کا بھی کفاره دے اور اگر بیوی جماع پر راضی هو تو هر ایک پر ایک ایک کفاره واجب هو جاتا هے۔

1688۔ اگر کوئی عورت اپنے روزه دار شوهر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوهر کے روزے کا کفاره ادا کرنا واجب نهیں هے۔

1689۔ اگر روزه دار ماه رمضان میں اپنی بیوی کو جماع پر مجبور کرے تو اس پر شوهر کے روزے کا کفاره ادا کرنا واجب نهیں هے۔

1690۔ اگر روزه دار ماه رمضان المبارک میں اپنی روزه دار بیوی سے جو سو رهی هو جماع کرے تو اس پر ایک کفاره واجب هو جاتا هے اور عورت کا روزه صحیح هے اور اس پر کفاره بھی واجب نهیں هے۔

1691۔ اگر شوهر اپنی بیوی کو یا بیوی اپنے شوهر کو جماع کے علاوه کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور کرے جس سے روزه باطل هو جاتا هو تو ان دونوں میں سے کسی پر بھی کفاره واجب نهیں هے۔

1692۔ جو آدمی سفر یا بیماری کی وجه سے روزه نه رکھے وه اپنی روزه دار بیوی کو جماع پر مجبور نهیں کرسکتا لیکن اگر مجبور کرے تب بھی مرد پر کفاره واجب نهیں۔

1693۔ ضروری هے که انسان کفاره دینے میں کوتا هی نه کرے لیکن فوری طور پر دینا بھی ضروری نهیں۔

1694۔ اگر کسی شخص پر کفاره واجب هو اور وه کئی سال تک نه دے تو کفارے میں کوئی اضافه نهیں هوتا۔

1695۔ جس شخص کو بطور کفاره ایک دن ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا ضروری هو اگر ساٹھ فقیر موجود هوں تو وه ایک فقیر کو ایک مد سے زیاده کھانا نهیں دے سکتا یا ایک فقیر کو ایک سے زائد مرتبه پیٹ بھر کر کھلائے اور اسے اپنے کفارے میں زیاده افراد کو کھانا کھلانا شمار کرے البته وه فقیر کے اهل و عیال میں سے هر ایک کو ایک مد دے سکتا هے خواه وه چھوٹے چھوٹے هی کیوں نه هوں۔

ص:316

1696۔ جو شخص ماه رمضان المبارک کے روزے کی قضا کرے اگر وه ظهر کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کرے جو روزے کے باطل کرتا هو تو ضروری هے که دس فقیروں کو فرداً فرداً ایک مد کھانا دے اور اگر نه دے سکتا هو تو تین روزے رکھے۔

وه صورتیں جن میں فقط روزے کی قضا واجب هے

1697۔ جو صورتیں بیان هوچکی هیں ان کے علاوه ان چند صورتوں میں انسان پر صرف روزے کی قضا واجب هے اور کفاره واجب نهیں هے۔

1۔ ایک شخص ماه رمضان کی رات میں جنب هو جائے اور جیسا که مسئله 1639 میں تفصیل سے بتایا گیا هے صبح کی اذان تک دوسری نیند سے بیدار نه هو۔

2۔ روزے کو باطل کرنے والا کام تو نه کیا هو لیکن روزے کی نیت نه کرے یا ریا کرے (یعنی لوگوں پر ظاهر کرے که روزے سے هوں) یا روزه رکھنے کا اراده کرے۔ اسی طرح اگر ایسے کام کا اراده کرے جو روزے کو باطل کرتا هو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس دن کے روزے کی قضا رکھنا ضروری هے۔

3۔ ماه رمضان المبارک میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک ایک کئی دن روزے رکھتا رهے۔

4۔ ماه رمضان المبارک میں یه تحقیق کئے بغیر که صبح هوئی هے یا نهیں کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور بعد میں پته چلے که صبح هوچکی تھی تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر ضروری هے که قُربت مطلقه کی نیت سے اس دن ان چیزوں سے اجتناب کرے جو روزے کو باطل کرتی هیں اور اس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔

5۔ کوئی کے کهے که صبح نهیں هوئی اور انسان اس کے کهنے کی بنا پر کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور بعد میں پته چلے که صبح هوگئی تھی۔

6۔ کوئی کهے که صبح هوگئی هے اور انسان اس کے کهنے پر یقین نه کرے یا سمجھے که مذاق کر رها هے اور خود تحقیق نه کرے اور کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو اور بعد میں معلوم هو که صبح هوگئی تھی۔

ص:317

7۔ نابینا یا اس جیسا کوئی شخص کسی کے کهنے پر جس کا قول اس کے لئے شرعاً حجت هو روزه افطار کرلے اور بعد میں پته چلے که ابھی مغرب کا وقت نهیں هوا تھا۔

8۔ انسان کو یقین یا اطمینان هو که مغرب هوگئی هے اور وه روزه افطار کرلے اور بعد میں پته چلے که مغرب نهیں هوئی تھی۔ لیکن اگر مطلع ابر آلود هو اور انسان اس گمان کے تحت روزه افطار کرلے که مغرب هوگئی هے اور بعد میں معلوم هو که مغرب نهیں هوئی تھی تو احتیاط کی بنا پر اس صورت میں قضا واجب هے۔

9۔ انسان پیاس کی وجه سے کلی کرے یعنی پانی منه میں گھمائے اور بے اختیار پانی پیٹ میں چلاجائے۔ اگر نماز واجب کے وضو کے علاوه کسی وضو میں کلی کی جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے لئے بھی یهی حکم هے لیکن اگر انسان بھول جائے که روزے سے هے اور پانی گلے سے اتر جائے یا پیاس کے علاوه کسی دوسری صورت میں که جهاں کلی کرنا مستحب هے ۔ جسیے وضو کرتے وقت۔ کلی کرے اور پانی بے اختیار پیٹ میں چلاجائے تو اس کی قضا نهیں هے۔

10۔ کوئی شخص مجبوری، اضطرار یا تقیه کی حالت میں روزه افطار کرے تو اس پر روزے کی قضا رکھنا لازم هے لیکن کفاره واجب نهیں۔

1698۔ اگر روزه دار پانی کے علاوه کوئی چیز منه میں ڈالے اور وه بے اختیار پیٹ میں چلی جائے یا ناک میں پانی ڈالے اور وه بے اختیار (حلق کے) نیچے اتر جائے تو اس پر قضا واجب نهیں هے۔

1699۔ روزه دار کے لئے زیاده کلیاں کرنا مکروه هے اور اگر کلی کے بعد لعاب دهن نگلنا چاهے تو بهتر هے که پهلے تین دفعه لعاب کو تھوک دے۔

1700۔ اگرکسی شخص کو معلوم هو یا اسے احتمال هو که کلی کرنے سے بے اختیار پانی اس کے حلق میں چلاجائے گا تو ضروری هے که کلی نه کرے۔ اور اگر جانتا هو که بھول جانے کی وجه سے پانی اس کے حلق میں چلا جائے گا تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے۔

ص:318

1701۔ اگر کسی شخص کو ماه رمضان المبارک میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم نه هو که صبح هوگئی هے اور وه کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هے اور بعد میں معلوم هو که صبح هوگئی تھی تو اس کے لئے روزے کی قضا کرنا ضروری نهیں۔

1702۔ اگر کسی شخص کو شک هو که مغرب هوگئی هے یا نهیں تو وه روزه افطار نهیں کر سکتا لیکن اگر اسے شک هو که صبح هوئی هے یا نهیں تو وه تحقیق کرنے سے پهلے ایسا کام کر سکتا هے جو روزے کو باطل کرتا هو۔

قضاروزے کے احکام

1703۔ اگر کوئی دیوانه اچھا هوجائے تو اس کے لئے عالم دیوانگی کے روزوں کی قضا واجب نهیں۔

1704۔ اگر کوئی کافر مسلمان هوجائے تو اس پر زمانه کفر کے روزوں کی قضا واجب نهیں هے لیکن اگر ایک مسلمان کافر هو جائے اور پھر دوباره مسلمان هو جائے تو ضروری هے ایام کفر کے روزوں کی قضا بجالائے۔

1705۔ جو روزے انسان کی بے حواسی کی وجه سے چھوٹ جائیں ضروری هے که ان کی قضا بجالائے خواه جس چیز کی وجه سے وه بے حواس هوا هو وه علاج کی غرض سے هی کھائی هو۔

1706۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجه سے چند دن روزے نه رکھے اور بعد میں شک کرے که اس کا عذر کسی وقت زائل هوا تا تو اس کے لئے واجب نهیں که جتنی مدت روزے نه رکھنے کا زیاده احتمال هو اس کے مطابق قضا بجالائے مثلاً اگر کوئی شخص رمضان المبارک سے پهلے سفر کرے اور اسے معلوم نه هو که ماه مبارک کی پانچویں تاریخ کو سفر سے واپس آیا تھا یا چھٹی کو یا مثلاً اس نے ماه مبارک کے آخر میں سفر شروع کیا هو اور ماه مبارک ختم هونے کے بعد واپس آیا هو اور اسے پته نه هو که پچیسویں رمضان کو سفر کیا تھا۔یا چھبیسویں کو تو دونوں صورتوں میں وه کمتر دنوں یعنی پانچ روزوں کی قضا کر سکتا هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که زیاده دنوں یعنی چھ روزوں کی قضا کرے۔

1707۔ اگر کسی شخص پر کئی سال کے ماه رمضان المبارک کے روزوں کی قضا واجب هو تو جس سال کے روزوں کی قضا پهلے کرنا چاهے کر سکتا هے لیکن اگر آخر رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کا وقت تنگ هو مثلاً آخری رمضان المبارک

ص:319

کے پانچ روزوں کی قضا اس کے ذمے هو اور آئنده رمضان المبارک کے شروع هونے میں بھی پانچ هی دن باقی هوں تو بهتر یه هے که پهلے آخری رمضان المبارک کے روزوں کی قضا بجالائے۔

1708۔ اگر کسی شخص پر کئی سال کے ماه رمضان کے روزوں کی قضا واجب هو اور وه روزه کی نیت کرتے وقت معین نه کرے که کون سے رمضان المبارک کے روزے کی قضا کر رها هے تو اس کا شمار آخری ماه رمضان کی قضا میں نهیں هوگا۔

1709۔ جس شخص نے رمضان المبارک کا قضا روزه رکھاهو وه اس روزے کو ظهر سے پهلے توڑ سکتا هے لیکن اگر قضا کا وقت تنگ هو تو بهتر هے که روزه نه توڑے۔

1710۔ اگر کسی نے میت کا قضا روزه رکھا هو تو بهتر یه هے که ظهر کے بعد روزه نه توڑے۔

1711۔اگر کوئی بیماری یا حیض یا نفاس کی وجه سے رمضان المبارک کے روزے نه رکھے اور اس مدت کے گزرنے سے پهلے که جس میں وه ان روزں کی جو اس نے نهیں رکھے تھے قضا کر سکتا هو مرجائے تو ان روزوں کی قضا نهیں هے۔

1712۔اگر کوئی شخص بیماری کی وجه سے رمضان المبارک کے روزے نه رکھے اور اس کی بیماری آئنده رمضان تک طول کھینچ جائے تو جو روزے اس نے نه رکھے هوں ان کی قضا اس پر واجب نهیں هے اور ضروری هے که هر دن کے لئے ایک مد طعام یعنی گندم یا جَو یا روٹی وغیره فقیر کو دے لیکن اگر کسی اور عذر مثلاً سفر کی وجه سے روزے نه رکھے اور اس کا عذر آئنده رمضان المبارک تک باقی رهے تو ضروری هے که جو روزے نه رکھے هوں ان کی قضا کرے اور احتیاط واجب یه هے که هر ایک دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔

1713۔ اگر کوئی شخص بیماری کی وجه سے رمضان المبارک کے روزے نه رکھے اور رمضان المبارک کے بعد اس کی بیماری دور هوجائے لیکن کوئی دوسرا عذر لاحق هو جائے جس کی وجه سے وه آئنده رمضان المبارک تک قضا روزے نه رکھ سکے تو ضروری هے که جو روزے نه رکھے هوں ان کی قضا بجالائے نیز اگر رمضان المبارک میں بیماری کے علاوه کوئی اور عذر رکھتا هو اور رمضان المبارک کے بعد وه عذر دور هو جائے اور آئنده سال کے رمضان المبارک تک بیماری کی وجه سے روزے نه رکھ سکے تو جو روزے نه رکھے هوں ضروری هے که ان کی قضا بجالائے اور احتیاط واجب کی بنا پر هر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔

ص:320

1714۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجه سے رمضان المبارک میں روزے نه رکھے اور رمضان المبارک کے بعد اس کا عذر دور هوجائے اور وه آئنده رمضان المبارک تک عمداً روزوں کی قضا نه بجالائے تو ضروری هے که روزوں کی قضا کرے اور هر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔

1715۔ اگر کوئی شخص قضا روزے رکھنے میں کوتاهی کرے حتی که وقت تنگ هو جائے اور وقت کی تنگی میں اسے کوئی عذر پیش آجائے تو ضروری هے که روزوں کی قضا کرے اور احتیاط کی بنا پر هر ایک دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دے۔ اور اگر عذر دور هونے کے بعد مصمم اراده رکھتا هو که روزوں کی قضا بجالائے گا لیکن قضا بجا لانے سے پهلے تنگ وقت میں اسے کوئی عذر پیش آجائے تو اس صورت میں بھی یهی حکم هے۔

1716۔ اگر انسان کا مرض چند سال طور کھینچ جائے تو ضروری هے که تندرست هونے کے بعد آخری رمضان المبارک کے چھٹے هوئے روزوں کی قضا بجالائے اور اس سے پچھلے سالوں کے ماه هائے مبارک کے هر دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دے۔

1717۔ جس شخص کے لئے هر روزے کے عوض ایک مد طعام فقیر کو دینا ضروری هو وه چند دنوں کا کفاره ایک هی فقیر کو دے سکتا هے۔

1718۔ اگرکوئی شخص ماه رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کرنے میں کئی سال کی تاخیر کر دے تو ضروری هے که قضا کرے اور پهلے سال میں تاخیر کرنے کی بنا پر هر روزے کے لئے ایک مدطعام فقیر کو دے لیکن باقی کئی سال کی تاخیر کے لئے اس پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

1719۔ اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے روزے جان بوجھ کر نه رکھے تو ضروری هے که ان کی قضا بجالائے اور هر دن کے لئے دو مهینے روزے رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا دے یاایک غلام آزاد کرے اور اگر آئنده رمضان المبارک تک ان روزوں کی قضانه کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر هردن کے لئے ایک مد طعام کفاره بھی دے۔

1720۔ اگر کوئی شخص جان بوجھکر رمضان المبارک کا روزه نه رکھے اور دن میں کئی دفعه جماع یا استمناء کرے تو اقوی کی بنا پر کفاره مکررنهیں هوگا (ایک کفاره کافی هے) ایسے هی اگر کئی دفعه کوئی اور ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا هو مثلاً کئی دفعه کھانا کھائے تب بھی ایک کفاره کافی هے۔

ص:321

1721۔ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که باپ کے روزوں کی قضا اسی طرح بجالائے جیسے که نماز کے سلسلے میں مسئله 1399 میں تفصیل سے بتایا گیا هے۔

1722۔اگر کسی کے باپ نے ماه رمضان المبارک کے روزوں کے علاوه کوئی دوسرے واجب روزے مثلا سَنَّتی روزے نه رکھے هوں تو احتیاط مستحب یه هے که بڑا بیٹا ان روزوں کی قضا بجالائے۔ لیکن اگر باپ کسی کے روزوں کے لئے اجیر بنا هو اور اس نے وه روزے نه رکھے هوں تو ان روزوں کی قضا بڑے بیٹے پر واجب نهیں هے۔

مسافر کے روزوں کے احکام

1723۔جس مسافر کے لئے سفر میں چار رکعتی نماز کے بجائے دو رکعت پڑھنا ضروری هو اسے روزه نهیں رکھنا چاهئے لیکن وه مسافر جو پوری نماز پڑھتا هو مثلاً وه شخص جس کا پیشه هی سفر هو یا جس کا سفر کسی ناجائز کام کے لئے هو ضروری هے که سفر میں روزه رکھے۔

1724۔ ماه رمضان المبارک میں سفر کرنے میں کوئی حرج نهیں لیکن روزے سے بچنے کے لئے سفر کرنا مکروه هے اور اسی طرح رمضان المبارک کی چوبیسویں تاریخ سے پهلے سفر کرنا (بھی مکروه هے) بجز اس سفر کے جو حج، عمره یا کسی ضروری کام کے لئے هو۔

1725۔اگر ماه رمضان المبارک کے روزوں کے علاوه کسی خاص دن کا روزه انسان پر واجب هو مثلاً وه روزه اجارے یا اجارے کی مانند کسی وجه سے واجب هوا هو یا اعتکاف کے دنوں میں سے تیسرا دن هو تو اس دن سفر نهیں کر سکتا اور اگر سفر میں هو اور اس کے لئے ٹھهرنا ممکن هو تو ضروری هے که دس دن ایک جگه قیام کرنے کی نیت کرے اور اس دن روزه رکھے لیکن اگر اس دن کا روزه منت کی وجه سے واجب هوا هو تو ظاهر یه هے که اس دن سفر کرنا جائز هے اور قیام کی نیت کرنا واجب نهیں۔ اگرچه بهتر یه هے که جب تک سفر کرنے کے لئے مجبور نه هو سفر نه کرے اور اگر سفر میں هو تو قیام کرنے کی نیت کرے۔

1726۔ اگر کوئی شخص مستحب روزے کی منت مانے لیکن اس کے لئے دن معین نه کرے تو وه شخص سفر میں اسیا مَنّتی روزه نهیں رکھ سکتا لیکن اگر منت مانے کی سفر کے دوران ایک مخصوص دن روزه رکھے گا تو ضروری هے که وه روزه سفر

ص:322

میں رکھنے نیز اگر منت مانے کی سفر میں هو یا نه هو ایک مخصوص دن کا روزه رکھے گا تو ضروری هے که اگرچه سفر میں تب بھی اس دن کا روزه رکھے۔

1727۔ مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن مدینه طیبه میں مستحب روزه رکھ سکتا هے اور اَحوَط یه هے که وه تین دن بدن، جمعرات اور جمعه هوں۔

1728۔ کوئی شخص جسے یه علم نه هو که مسافر کا روزه رکھنا باطل هے، اگر سفر میں روزه رکھ لے اور دن هی دن میں اسے حکم مسئله معلوم هو جائے تو اس کا روزه باطل هے لیکن اگر مغرب تک حکم معلوم نه هو تو اس کا روزه صحیح هے۔

1729۔ اگر کوئی شخص یه بھول جائے که وه مساف هے یا یه بھول جائے که مسافر کا روزه باطل هوتاهے اور سفر کے دوران روزه رکھ لے تو اس کا روزه باطل هے۔

1730۔ اگر روزه دار ظهر کے بعد سفر کرے تو ضروری هے احتیاط کی بنا پر اپنے روزے کو تمام کرے اور اگر ظهر سے پهلے سفر کرے اور رات سے هی سفر کا اراده رکھتا هو تو اس دن کا روزه نهیں رکھ سکتا بلکه اگر رات سے سفر کا اراده نه هو تب بھی احتیاط کی بنا پر اس دن روزه نهیں رکھ سکتا لیکن هر صورت میں حد تَرخُّص تک پهنچنے سے پهلے ایسا کوئی کام نهیں کرنا چاهئے جو روزه کو باطل کرتا هو ورنه اس پر کفاره واجب هوگا۔

1731۔ اگر مسافر ماه رمضان المبارک میں خواه وه فجر سے پهلے سفر میں هو یا روزے سے هو اور سفر کرے اور ظهر سے پهلے اپنے وطن پهنچ جائے یا ایسی جگه پهنچ جائے جهاں وه دس دن قیام کرنا چاهتا هو اور اس نے کوئی ایسا کام نه کیا هوجو روزے کو باطل کرتا هو تو ضروری هے که اس دن کا روزه رکھے اور اگر کوئی ایسا کام کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو تو اس دن کا روزه اس پر واجب نهیں هے۔

1732۔اگر مسافر ظهر کے بعد اپنے وطن پهنچے یا ایسی جگه پهنچے جهاں دس دن قیام کرنا چاهتا هو تو وه اس دن کا روزه نهیں رکھ سکتا۔

1733۔ مسافر اور وه شخص جو کسی عذر کی وجه سے روزه نه رکھ سکتا هو اس کے لئے ماه رمضان المبارک میں دن کے وقت جماع کرنا اور پیٹ بھر کر کھانا اور پینا مکروه هے۔

ص:323

وه لوگ جن پر روزه رکھنا واجب نهیں

1734۔ جو شخص بڑھاپے کی وجه سے روزه نه رکھ سکتا هو یا روزه رکھنا اس کے لئے شدید تکلیف کا باعث هو اس پر روزه واجب نهیں هے لیکن روزه نه رکھنے کی صورت میں ضروری هے که هر روزے کے عوض ایک مُدطعام یعنی گندم یا جَو یا روٹی یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز فقیر کو دے۔

1735۔ جو شخص بڑھاپے کی وجه سے ماه رمضان المبارک کے روزے نه رکھے اگر وه رمضان المبارک کے بعد روزے رکھے کے قابل هوجائے تو احتیاط مستحب یه هے که جو روزے نه رکھے هوں ان کی قضا بجالائے۔

1736۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسی بیماری هو جس کی وجه سے اسے بهت زیاده پیاس لگتی هو اور وه پیاس برداشت نه کر سکتا هو یا پیاس کی وجه سے اسے تکلیف هوتی هو تو اس پر روزه واجب نهیں هے لیکن روزه نه رکھنے کی صورت میں ضروری هے که هر روزے کے عوض ایک مدطعام فقیر کو دے اور احتیاط مستحب یه هے که جتنی مقدار اشد ضروری هو اس سے زیاده پانی نه پیئے اور بعد میں جب روزه رکھنے کے قابل هو جائے تو جو روزے نه رکھے هوں احتیاط مستحب کی بنا پر ان کی قضا بجالائے۔

1737۔جس عورت کا وضع حمل کا وقت قریب هو اس کا روزه رکھنا خود اس کے لئے یا اس کے هونے والے بچے کے لئے مضر هو اس پر روزه واجب نهیں هے اور ضروری هے که وه هر دن کے عوض ایک مد طعام فقیر کو دے اور ضروری هے که دونوں صورتوں میں جو روزے نه رکھے هوں ان کی قضا بجالائے۔

1738۔ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی هو اور اس کا دودھ کم هو خواه وه بچے کی ماں هو یا دایه اور خواه بچے کو مفت دودھ پلارهی هو اگر اس کا روزه رکھنا خود ان کے یا دودھ پینے والے بچے کے لئے مضر هو تو اس عورت پر روزه رکھنا واجب نهیں هے اور ضروری هے که هر دن کے عوض ایک مدطعام فقیر کو دے اور دونوں صورتوں میں جو روزے نه رکھے هوں ان کی قضا کرنا ضروری هے۔ لیکن احتیاط واجب کی بنا پر حکم صرف اس صورت میں هے جبکه بچے کو دودھ پلانے کا انحصار اسی پر هو لیکن اگر بچے کو دودھ پلانے کا کوئی اور طریقه هو مثلاً کچھ عورتیں مل کر بچے کو دودھ پلائیں تو ایسی صورت میں اس حکم کے ثابت هونے میں اشکال هے۔

مهینے کی پهلی تاریخ ثابت هونے کا طریقه

ص:324

1739۔ مهینے کی پهلی تاریخ (مندرجه ذیل) چار چیزوں سے ثابت هوتی هے :

1۔ انسان خود چاند دیکھے۔

2۔ ایک ایسا گروه جس کے کهنے پر یقین یا اطمینان هو جائے یه کهے که هم نے چاند دیکھا هے اور اس طرح هر وه چیز جس کی بدولت یقین یا اطمینان هو جائے۔

3۔ دو عادل مرد یه کهیں که هم نے رات کو چاند دیکھا هے لیکن اگر وه چاند کے الگ الگ اوصاف بیان کریں تو پهلی تاریخ ثابت نهیں هوگی۔ اور یهی حکم هے اگر ان کی گواهی میں اختلاف هو۔ یا اس کے حکم میں اختلاف هو۔ مثلاً شهر کے بهت سے لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں لیکن دو عادل آدمیوں کے علاوه کوئی دوسرا چاند دیکھنے کا دعوی نه کرے یا کچھ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں اور ان لوگوں میں سے دو عادل چاند دیکھنے کا دعوی کریں اور دوسروں کو چاند نظر نه آئے حالانکه ان لوگوں میں دو اور عادل آدمی ایسے هوں جو چاند کی جگه پهچاننے، نگاه کی تیزی اور دیگر خصوصیات میں ان پهلے دو عادل آدمیوں کی مانند هوں (اور وه چاند دیکھنے کا دعوی نه کریں) تو ایسی صورت میں دو عادل آدمیوں کی گواهی سے مهینے کی پهلی تاریخ ثابت نهیں هوگی۔

4۔ شعبان کی پهلی تاریخ سے تیس دن گزر جائیں جن کے گزرنے پر ماه رمضان المبارک کی پهلی تاریک ثابت هوجاتی هے اور رمضان المبارک کی پهلی تاریخ سے تیس دن گزر جائیں جن کے گزرنے پر شوال کی پهلی تاریخ ثابت هو جاتی هے۔

1740۔ حاکم شرع کے حکم سے مهینے کی پهلی تاریخ ثابت نهیں هوتی اور احتیاط کی رعایت کرنا اولی هے۔

1741۔ منجموں کی پیش گوئی سے مهینے کی پهلی تاریخ ثابت نهیں هوتی لیکن اگر انسان کو ان کے کهنے سے یقین یا اطمینان هو جائے تو ضروری هے که اس پر عمل کرے۔

1742۔ چاند ا آسمان پر بلند هونا یا اس کا دیر سے غروب هونا اس بات کی دلیل نهیں که سابقه رات چاند رات تھی اور اسی طرح اگر چاند کے گرد حلقه هو تو یه اس بات کی دلیل نهیں هے که پهلی کا چاند گزشته رات نکلا هے۔

ص:325

1743۔ اگر کسی شخص پر ماه رمضان المبارک کی پهلی تاریخ ثابت نه هو اور وه روزه نه رکھے لیکن بعد میں ثابت هو جائے که گزشته رات هی چاند تھی تو ضروری هے که اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

1744۔ اگر کسی شهر میں مهینے کی پهلی تاریخ ثابت هو جائے تو وه دوسرے شهروں میں بھی که جن کا افق اس شهر سے متحد هو مهینے کی پهلی تاریخ هوتی هے۔ یهاں پر افق کے متحد هونے سے مراد یه هے که اگر پهلے شهر میں چاند دکھائی دے تو دوسرے شهر میں بھی اگر بادل کی طرح کوئی رکاوٹ نه هو تو چاند دکھائی دیتا هے۔

1745۔ مهینے کی پهلی تاریخ ٹیلی گرام (اور ٹیلکس یا فیکس) سے ثابت نهیں هوتی سوائے اس صورت کے که انسان کو علم هو که یه پیغام دو عادل مردوں کی شهادت کی رو سے کسی دوسرے ایسے طریقے سے آیا هے جو شرعاً معتبر هے ۔

1746۔ جس دن کے متعلق انسان کو علم نه هو که رمضان المبارک کا آخری دن هے یا شوال کا پهلا دن اس دن ضروری هے که روزه رکھے لیکن اگر دن هی دن میں اسے پته چل جائے که آج یکم شوال (روز عید) هے تو ضروری هے که روزه افطار کرلے۔

1747۔ اگر کوئی شخص قید میں هو اور ماه رمضان کے بارے میں یقین نه کر سکے تو ضروری هے که گمان پر عمل کرے لیکن اگر قوی گمان پر عمل کر سکتا هو تو ضعیف گمان پر عمل نهیں کر سکتا اور اگر گمان پر عمل ممکن نه هو تو ضروری هے که جس مهینے کے بارے میں احتمال هو که رمضان هے اس مهینے میں روزے رکھے لیکن ضروری هے که وه اس مهینے کو یاد رکھے۔ چنانچه بعد میں اسے معلوم هو که وه ماه رمضان یا اس کے بعد کا زمانه تھا تو اس کے ذمے کچھ نهیں هے۔ لیکن اگر معلوم هو که ماه رمضان سے پهلے کا زمانه تھا تو ضروری هے که رمضان کے روزوں کی قضا کرے۔

حرام اور مکروه روزے

1748۔ عید فطر اور عید قربان کے دن روزه رکھنا حرام هے نیز جس دن کے بارے میں انسان کو یه علم نه هو که شعبان کی آخری تاریخ هے یا رمضان المبارک کی پهلی تو اگر وه اس دن پهلی رمضان المبارک کی نیت سے روزه رکھے تو حرام هے۔

1749۔اگر عورت کے مستحب (نفلی) روزه رکھنے سے شوهر کی حق تلفی هوتی هو تو عورت کا روزه رکھنا حرام هے اور احتیاط واجب یه هے که خواه شوهر کی حق تلفی نه بھی هوتی هو اس کی اجازت کے بغیر مستحب (نفلی) روزه نه رکھے۔

ص:326

1750۔اگر اولاد کا مستحب روزه ۔ ماں باپ کی اولاد سے شفقت کی وجه سے ۔ ماں باپ کے لئے اذیت کا موجب هو تو اولاد کے لئے مستحب روزه رکھنا حرام هے۔

1751۔ اگر بیٹا باپ کی اجازت کے بغیر مستحب روزه رکھ لے اور دن کے دوران باپ اسے (روزه رکھنے سے)منع کرے تو اگر بیٹے کا باپ کی بات نه ماننا فطری شفقت کی وجه سے اذیت کا موجب هو تو بیٹے کو چاهئے که روزه توڑ دے۔

1752۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که روزه رکھنا اس کے لئے ایسا مضر نهیں هے که جس کی پروا کی جائے تو اگرچه طبیب کهے که مضمر هے اس کے لئے ضروری هے که روزه رکھے اور اگر کوئی شخص یقین یا گمان رکھتا هو که روزه اس کے لئے مضر هے تو اگرچه طبیب کهے که مضر نهیں هے ضروری هے که وه روزه نه رکھے اور اگر وه روزه رکھے جبکه روزه رکھنا واقعی مضر هو یا قصد قربت سے نه هو تو اس کا روزه صحیح نهیں هے۔

1753۔اگر کسی شخص کو احتمال هو که روزه رکھنا اس کے لئے ایسا مضر هے که جس کی پروا کی جائے اور اس احتمال کی بنا پر (اس کے دل میں) خوف پیدا هو جائے تو اگر اس کا احتمال لوگوں کی نظر میں صحیح هوتو اسے روزه نهیں رکھنا چاهئے۔ اور اگر وه روزه رکھ لے تو سابقه مسئلے کی طرح اس صورت میں بھی اس کا روزه صحیح نهیں هے۔

1754۔ جس شخص کو اعتماد هو که روزه رکھنا اس کے لئے مضر نهیں اگر وه روزه رکھ لے اور مغرب کے بعد اسے پته چلے که روزه رکھنا اس کے لئے ایسا مضر تھا که جس کی پروا کی جاتی تو احتیاط واجب کی بنا پر اس روزے کی قضا کرنا ضروری هے۔

1755۔ مندرجه بالا روزوں کے علاوه اور بھی حرام روزے هیں جو مفصل کتابوں میں مذکور هیں۔

1756۔ عاشور کے دن روزه رکھنا مکروه هے اور اس دن کا روزه بھی مکروه هے جس کے بارے میں شک هو که عرفه کا دن هے یا عید قربان کا دن۔

مستحب روزے

1757۔ بجز حرام اور مکروه روزوں کے جن کا ذکر کیا گیا هے سال کے تمام دنوں کے روزے مستحب هیں اور بعض دنوں کے روزے رکھنے کی بهت تاکید کی گئی هے جن میں سے چند یه هیں :

ص:327

1۔ هر مهینے کی پهلی اور آخری جمعرات اور پهلا بدھ جو مهینے کی دسویں تاریخ کے بعد آئے۔

اور اگر کوئی شخص یه روزے نه رکھے تو مستحب هے که ان کی قضا کرے اور اگر روزه بالکل نه رکھ سکتا هو تو مستحب هے که هر دن کے بدلے ایک مُدطعام یا 6۔ 12 نخود سکه دار چاندی فقیر کو دے۔

2۔ هر مهینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ ۔

3۔ رجب اور شعبان کے پورے مهینے کے روزے۔ یا ان دو مهینوں میں جتنے روزے رکھ سکیں خواه وه ایک دن هی کیوں نه هو۔

4۔ عید نوروز کا دن

5۔ شوال کی چوتھی سے نویں تاریخ تک

6۔ ذی قعده کی پچیسویں اور اکتیسویں تاریخ

7۔ ذی الحجه کی پهلی تاریخ سے نویں تاریخ (یوم عرفه) تک لیکن اگر انسان روزے کی وجه سے پیدا هونے والی کمزوری کی بنا پر یوم عرفه کی دعائیں نه پڑھ سکے تو اس دن کا روزه رکھنا مکروه هے۔

8۔ عید سعید غدیر کا دن (18 ذی الحجه)

9۔ روز مباهله (24 ۔ذی الحجه)

10۔ محرم الحرام کی پهلی، تیسری اور ساتویں تاریخ

11۔ رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) کی ولادت کا دن (17۔ ربیع الاول)

12۔ جمادی الاول کی پندره تاریخ۔

ص:328

نیز (عید بِعثَت یعنی) رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) کے اعلان رسالت کے دن (27 رجب) بھی روزه رکھنا مستحب هے۔ اور جو شخص مستحب روزه رکھے اس کے لئے واجب نهیں هے که اسے اختتام تک پهنچائے بلکه اگر اس کا کوئی مومن بھائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب هے که اس کی دعوت قبول کرلے اور دن میں هی روزه کھول لے خواه ظهر کے بعد هی کیوں نه هو۔

وه صورتیں جن میں مبطلات روزه سے پرهیز مستحب هے

1758۔(مندرجه ذیل) پانچ اشخاص کے لئے مستحب هے که اگرچه روزے سے نه هوں ماه رمضان المبارک میں ان افعال سے پرهیز کریں جو روزے کو باطل کرتے هیں :

1۔ وه مسافر جس نے سفر میں کوئی ایسا کام کیا هو جو روزے کو باطل کرتا هو اور وه ظهر سے پهلے اپنے وطن یا ایسی جگه پهنچ جائے جهاں وه دس دن رهنا چاهتا هو۔

2۔ وه مسافر جو ظهر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگه پهنچ جائے جهاں وه دس دن رهنا چاهتا هو۔ اور اسی طرح اگر ظهر سے پهلے ان جگهوں پر پهنچ جائے جب که وه سفر میں روزه توڑ چکا هو تب بھی یهی حکم هے۔

3۔ وه مریض جو ظهر کے بعد تندرست هو جائے۔ اور یهی حکم هے اگر ظهر سے پهلے تندرست هوجائے اگرچه اس نے کوئی ایسا کام (بھی) کیا هو جو روزے کو باطل کرتاهو۔ اور طرح اگر ایسا کام نه کیا هو تو اس کا حکم مسئله 1576 میں گزر چکا هے۔

4۔ وه عورت جو دن میں حیض یا نفاس کے خون سے پاک هو جائے۔

1759۔ روزه دار کے لئے مستحب هے که روزه افطار کرنے سے پهلے مغرب اور عشا کی نماز پڑھےلیکن اگر کوئی دوسرا شخص اس کا انتظار کر رها هو یا اسے اتنی بھوک لگی هو که حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھ سکتا هو تو بهتر هے که پهلے روزه افطار کرے لیکن جهاں تک ممکن هو نماز فضیلت کے وقت میں هی ادا کرے۔

خمس کے احکام

اشاره

ص:329

1760۔ خمس سات چیزوں پر واجب هے۔

1۔ کاروبار (یا روزگار) کا منافع

2۔ مَعدِنی کانیں

3۔ گڑا هوا خزانه

4۔ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط هو جائے

5۔ غوطه خوری سے حاصل هونے والے سمندری موتی اور مونگے

6۔ جنگ میں ملنے والا مال غنیمت

7۔ مشهور قول کی بنا پر وه زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خریدے۔

ذیل میں ان کے احکام تفصیل سے بیان کئے جائیں گے۔

کاروبار کا منافع

1761۔ جب انسان تجارت، صنعت و حرفت یا دوسرے کام دھندوں سے روپیه پیسه کمائے مثال کے طور پر اگر کوئی اجیر بن کر کسی متوفی کی نمازیں پڑھے اور روزے رکھے اور اس طرح کچھ روپیه کمائے لهذا اگر وه کمائی خود اس کے اور اس کے اهل و عیال کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو تو ضروری هے که زائد کمائی کا خمس یعنی پانچواں حصه اس طریقے کے مطابق دے جس کی تفصیل بعد میں بیان هوگی۔

1726۔ اگر کسی کو کمائی کئے بغیر کوئی آمدنی هوجائے مثلاً کوئی شخص اسے بطور تحفه کوئی چیز دے اور وه اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو تو ضروری هے که اس کا خمس دے۔

1763۔ عورت کو جو مهر ملتا هے اور شوهر، بیوی کو طلاق خلع دینے کے عوض جو مال حاصل کرتا هے ان پر خمس نهیں هے اور اسی طرح جو میراث انسان کو ملے اس کا بھی میراث کے معتبر قواعد کی رو سے یهی حکم هے۔ اور اگر اس مسلمان کو جو

ص:330

شیعه هے کسی اور ذریعے سے مثلاً پدری رشتے دار کی طرف سے میراث ملے تو اس مال کی "فوائد" میں شمار کیا جائے گا اور ضروری هے که اس کا خمس دے۔ اسی طرح اگر اسے باپ اور بیٹے کے علاوه کسی اور کی طرف سے میراث ملے که جس کا خود اسے گمان تک نه هو تو احتیاط واجب یه هے که وه میراث اگر اس کے سال بھی کے اخراجات سے زیاده هو تو اس کا خمس دے۔

1724۔ اگر کسی شخص کو کوئی میراث ملے اور اس معلوم هو که جس شخص سے اسے یه میراث ملی هے اس نے اس کا خمس نهیں دیا تھا تو ضروری هے که وارث اس کا خمس دے۔ اسی طرح اگر خود اس مال پر خمس واجب نه هو اور وارث کو علم هو که جس شخص سے اسے وه مال ورثے میں ملا هے اس شخص کے ذمے خمس واجب الادا تھا تو ضروری هے که اس کے مال سے خمس ادا کرے۔ لیکن دونوں صورتوں میں جس شخص سے مال ورثے میں ملا هو اگر وه خمس دینے کا معتقد نه هو یا یه که وه خمس دیتا هی نه هو تو ضروری نهیں که وارث وه خمس ادا کرے جو اس شخص پر واجب تھا۔

1765۔ اگر کسی شخص نے کفایت شعاری کے سبب سال بھر کے اخراجات کے بعد کچھ رقم پس انداز کی هو تو ضروری هے که اس بچت کا خمس دے۔

1766۔جس شخص کے تمام اخراجات کوئی دوسرا شخص برداشت کرتا هو تو ضروری هے که جنتا مال اس کے هاتھ آئے اس کا خمس دے۔

1767۔ اگر کوئی شخص اپنی جائداد کچھ خاص افراد مثلاً اپنی اولاد کے لئے وقف کر دے اور وه لوگ اس جائداد میں کھیتی باڑی اور شجرکاری کریں اور اس سے منافع کمائیں اور وه کمائی ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو تو ضروری هے که اس کمائی کا خمس دیں۔ نیز یه که اگر وه کسی اور طریقے سے اس جائداد سے نفع حاصل کریں مثلاً اسے کرائے (یا ٹھیکے) پر دے دیں تو ضروری هے که نفع کی جو مقدار ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو اس کا خمس دیں۔

1768۔ جو مال کسی فقیر نے واجب یا مستحب صدقے کے طور پر حاصل کیا هو اگر وه اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو یا جو مال اسے دیا گیا هو اس سے اس نے نفع کمایا هو مثلاً اس نے ایک ایسے درخت سے جو اسے دیا گیا هو میوه حاصل کیا هو اور وه اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو تو ضروری هے که اس کا خمس دے۔ لیکن جو مال اسے بطور خمس یا زکوۃ دیا گیا هو ضروری نهیں که اس کا خمس دے۔

ص:331

1769۔ اگر کوئی شخص ایسی رقم سے کوئی چیز خریدے جس کا خمس نه دیا گیا هو یعنی بیچنے والے سے کهے که "میں یه چیز اس رقم سے خرید رها هوں" اگر بیچنے والا شیعه اثنا عشری هو تو ظاهر یه هے که کل مال کے متعلق معامله درست هے اور خمس کا تعلق اس چیز سے هو جاتا هے جو اس نے اس رقم سے خریدی هے اور (اس معاملے میں) حاکم شرع کی اجازت اور دستخط کی ضرورت نهیں هے۔

1770۔ اگر کوئی شخص کوئی چیز خریدے اور معامله طے کرنے کے بعد اس کی قیمت اس رقم سے ادا کرے جس کا خمس نه دیا هو تو جو معامله اس نےکیا هے وه صحیح هے اور جو رقم اس نے فروشنده کو دی هے اس کے خمس کے لئے وه خمس کے مستحقین کا مقروض هے۔

1771۔اگر کوئی شیعه اثنا عشری مسلمان کوئی ایسا مال خریدے جس کا خمس نه دیا گیا هو تو اس کا خمس بیچنے والے کی ذمه داری هے اور خریدار کے ذمے کچھ نهیں۔

1772۔اگر کوئی شخص کسی شیعه اثنا عشری مسلمان کو کوئی ایسی چیز بطور عطیه دے جس کا خمس نه دیا گیا هو تو اس کے خمس کی ادائیگی کی ذمه داری عطیه دینے والے پر هے اور (جس شخص کو عطیه دیا گیا هو) اس کے ذمے کچھ نهیں۔

1773۔ اگر انسان کو کسی کافر سے یا ایسے شخص سے جو خمس دینے پر اعتقاد نه رکھتا هو کوئی مال ملے تو اس مال کا خمس دینا واجب نهیں هے۔

1774۔ تاجر، دکاندار، کاریگر اور اس قسم کے دوسرے لوگوں کے لئے ضروری هے که اس وقت سے جب انهوں نے کاروبار شروع کیا هو، ایک سال گزر جائے تو جو کچھ ان کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو اس کا خمس دیں۔ اور جو شخص کسی کام دھندے سے کمائی نه کرتا هو اگر اسے اتفاقاً کوئی نفع حاصل هو جائے تو جب اسے یه نفع ملے اس وقت سے ایک سال گزرنے کے بعد جتنی مقدار اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو ضروری هے که اس کا خمس دے۔

1775۔سال کے دوران جس وقت بھی کسی شخص کو منافع ملے وه اس کا خمس دے سکتا هے اور اس کے لئے یه بھی جائز هے که سال کے ختم هونے تک اس کی ادائیگی کو موخر کر دے اور اگر وه خمس ادا کرنے کے لئے شمسی سال (رومن کیلنڈر) اختیار کرے تو کوئی حرج نهیں۔

ص:332

1776۔ اگر کوئی تاجر یا دکاندار خمس دینے کے لئے سال کی مدت معین کرے اور اسے منافع حاصل هو لیکن وه سال کے دوران مر جائے تو ضروری هے که اس کی موت تک کے اخراجات اس منافع میں سے منها کر کے باقی مانده کا خمس دیا جائے۔

1777۔ اگر کسی شخص کے بغرض تجارت خریدے هوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اور وه اسے نه بیچے اور سال کے دوران اس کی قیمت گر جائے تو جتنی مقدار تک قیمت بڑھی هو اس کا خمس واجب نهیں هے۔

1778۔ اگر کسی شخص کے بغرض تجارت خریدے هوئے مال کی قیمت بڑھ جائے اور وه اس امید پر که ابھی اس کی قیمت اور بڑھے گی اس مال کو سال کے خاتمے کے بعد تک فروخت نه کرے اور پھر اس کی قیمت گر جائے تو جس مقدار تک قیمت بڑھی هو اس کا خمس دینا واجب هے۔

1779۔کسی شخص نے مال تجارت کے علاوه کوئی مال خرید کر یا اسی کی طرح کسی طریقے سے حاصل کیا هو جس کا خمس وه ادا کر چکا هو تو اگر اس کی قیمت بڑھ جائے اور وه اسے بیچ دے تو ضروری هے که جس قدر اس چیز کی قیمت بڑھی هے اس کا خمس دے۔ اسی طرح مثلاً اگر کوئی درخت خریدے اور اس میں پھل لگیں یا (بھیڑ خریدے اور وه) بھیڑ موٹی هو جائے تو اگر ان چیزوں کی نگهداشت سے اس کا مقصد نفع کمانا تھا تو ضروری هے که ان کی قیمت میں جو اضافه هوا هے اس کا خمس دے بلکه اگر اس کا مقصد نفع کمانا نه بھی رها هو تب بھی ضروری هے که ان کا خمس دے۔

1780۔ اگر کوئی شخص اس خیال سے باغ (میں پودے) لگائے که قیمت بڑھ جانے پر انهیں بیچ دے گا تو ضروری هے که پھلوں کی اور درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی هوئی قیمت کا خمس دے لیکن اگر اس کا اراده یه رها هو که ان درختوں کے پھل بیچ کر ان سے نفع کمائے گا تو فقط پھلوں کا خمس دینا ضروری هے۔

1781۔ اگر کوئی شخص بید مشک اور چنار وغیره کے درخت لگائے تو ضروری هے که هر سال ان کے بڑھنے کا خمس دے اور اسی طرح اگر مثلاً ان درختوں کی ان شاخوں سے نفع کمائے جو عموماً هر سال کاٹی جاتی هیں اور تنها ان شاخوں کی قیمت یا دوسرے فائدوں کو ملا کر اس کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے بڑھ جائے تو ضروری هے که هر سال کے خاتمے پر اس زائد رقم کا خمس دے۔

ص:333

1782۔ اگر کسی شخص کی آمدنی کی متعدد ذرائع هوں مثلاً جائداد کا کرایه آتا هو اور خرید و فروخت بھی کرتا هو اور ان تمام ذرائع تجارت کی آمدنی اور اخراجات اور تمام رقم کا حساب کتاب یکجا هو تو ضروری هے که سال کے خاتمے پر جو کچھ اس کے اکراجات سے زائد هو اس کا خمس ادا کرے۔ اور اگر ایک ذریعے سے نفع کمائے اور دوسرے ذریعے سے نقصان اٹھائے تو وه ایک ذریعے کے نقصان کا دوسرے ذریعے کے نقصان سے تدارک کر سکتا هے۔ لیکن اگر اس کے دو مختلف پیشے هوں مثلاً تجارت اور زراعت کرتا هو تو اس صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر وه ایک پیشے کے نقصان کا تدارک دوسرے پیشے کے نفع سے نهیں کر سکتا۔

1783۔ انسان جو اخراجات فائده حاصل کرنے کے لئے مثلاً دلالی اور باربرداری کے سلسلے میں خرچ کرے تو انهیں منافع میں سے منها کر سکتا هے اور اتنی مقدار کا خمس ادا کرنا لازم نهیں۔

1784۔ کاروبار کے منافع سے کوئی شخص سال بھر میں جو کچھ خوراک، لباس، گھر کے ساز و سامان، مکان کی خریداری، بیٹے کی شادی، بیٹی کے جهیز اور زیارات وغیره پر خرچ کرے اوس پر خمس نهیں هے بشرطیکه ایسے اخراجات اس کی حیثیت سے زیاده نه هوں اور اس نے فضول خرچی بھی نه کی هو۔

1785۔ جو مال انسان منت اور کفارے پر خرچ کرے وه سالانه اخراجات کا حصه هے۔ اسی طرح وه مال بھی اس کے سالانه اخراجات کا حصه هے جو وه کسی کو تحفے یا انعام کے طور پر بشرطیکه اس کی حیثیت سے زیاده نه هو۔

1786۔ اگر انسان اپنی لڑکی شادی کے وقت تمام جهیز اکٹھا تیار نه کر سکتا هو تو وه اسے کئی سالوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے جمع کر سکتا هے چنانچه اگر جهیز خریدے جو اس کی حیثیت سے بڑھ کر نه هو تو اس پر خمس دینا لازم نهیں هے اور اگر وه جهیز اس کی حیثیت سے بڑھ کر هو یا ایک سال کے منافع سے دوسرے سال میں تیار کیا گیا هو تو اس کا خمس دینا ضروری هے۔

1787۔ جو مال کسی شخص نے زیارت بیت الله (حج) اور دوسری زیارات کے سفر پر خرچ کیا هو وه اس سال کے اخراجات میں شمار هوتا هے جس سال میں خرچ کیا جائے اور اگر اس کا سفر سال سے زیاده طول کھینچ جائے تو جو کچھ وه دوسرے سال میں خرچ کرے اس کا خمس دینا ضروری هے۔

1788۔ جو شخص کسی پیشے یا تجارت وغیره سے منافع حاصل کرے اگر اس کے پاس کوئی اور مال بھی هو جس پر خمس واجب نه هو تو وه اپنے سال بھر کے اخراجات کا حساب فقط اپنے منافع کو مدنظر رکھتے هوئے کر سکتا هے۔

ص:334

1789۔ جو سامان کسی شخص نے سال بھر استعمال کرنے کے لئے اپنے منافع سے خریدا هو اگر سال کے آخر میں اس میں سے کچھ بچ جائے تو ضروری هے که اس کا خمس دے اور اگر خمس اس کی قیمت کی صورت میں دینا چاهے اور جب وه سامان خریدا تھا اس کے مقابلے میں اس کی قیمت بڑھ گئی هو تو ضروری هے که سال کے خاتمے پر جو قیمت هو اس کا حساب لگائے۔

1790۔ کوئی شخص خمس دینے سے پهلے اپنے منافع میں سے گھریلو استعمال کے لئے سامان خریدے اگر اس کی ضرورت منافع حاصل هونے والے سال کے بعد ختم هو جائے تو ضروری نهیں که اس کا خمس دے۔ اور اگر دوران سال اس کی ضرورت ختم هو جائے تو بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر وه سامان ان چیزوں میں سے جو عموماً آئنده سالوں میں استعمال کے لئے رکھی جاتی هو جیسے سردی اور گرمی کے کپڑے تو ان پر خمس نهیں هوتا۔ اس صورت کے علاوه جس وقت بھی اس سامان کی ضرورت ختم هو جائے احتیاط واجب یه هے که اس کا خمس دے اور یهی صورت زمانه زیورات کی هے جب که عورت کا انهیں بطور زینت استعمال کرنے کا زمانه گزر جائے۔

1791۔ اگر کسی شخص کو کسی سال میں منافع نه هو تو وه اس سال کے اخراجات کو آئنده سال کے منافع سے منها نهیں کر سکتا۔

1792۔ اگر کسی شخص کو سال کے شروع میں منافع نه هو اور وه اپنے سرمائے سے خرچ اٹھائے اور سال کے ختم هونے سے پهلے اسے منافع هو جائے تو اس نے جو کچھ سرمائے میں سے خرچ کیا هے اسے منافع سے منها کر سکتا هے۔

1793۔ اگر سرمائے کا کچھ حصه تجارت وغیره میں ڈوب جائے تو جس قدر سرمایه ڈوبا هو انسان اتنی مقدار اس سال کے منافع میں سے منها کرسکتا هے۔

1794۔اگر کسی شخص کے مال میں سے سرمائے کے علاوه کوئی اور چیز ضائع هو جائے تو وه اس چیز کو منافع میں سے مهیا نهیں کر سکتا لیکن اگر اسے اسی سال میں اس چیز کی ضرورت پڑجائے تو وه اس سال کے دوران اپنے منافع سے مهیا کر سکتا هے۔

1795۔اگر کسی شخص کو سارا سال کوئی منافع نه هو اور وه اپنے اخراجات قرض لے کر پورے کرے تو وه آئنده سالوں کے منافع سے قرض کی رقم منها نهیں کر سکتا لیکن اگر سال کے شروع میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض

ص:335

لے اور سال ختم هونے سے پهلے منافع کمائے تو اپنے قرضے کی رقم اس منافع میں سے منها کر سکتا هے۔ اور اسی طرح پهلے صورت میں وه اس قرض کو اس سال کے منافع سے ادا کرسکتا هے اور منافع کی اس مقدار سے خمس کا کوئی تعلق نهیں۔

1796۔ اگر کوئی شخص مال بڑھانے کی غرض سے یا ایسی املاک خریدنے کے لئے جس کی اسے ضرورت نه هو قرض لے تو وه اس سال کے منافع سے اس قرض کو ادا نهیں کر سکتا۔هاں جو مال بطور قرض لیا هو یا جو چیز اس قرض سے خریدی هو اگر وه تلف هوجائے تو اس صورت میں وه اپنا قرض اس سال کے منافع میں سے ادا کر سکتا هے۔

1797۔ انسان هر اس چیز کا جس پر خمس واجب هو چکا هو اسی چیز کی شکل میں خمس دے سکتا هے اور اگر چاهے تو جتنا خمس اس پر واجب هو اس کی قیمت کے برابر رقم بھی دے سکتا هے لیکن اگر کسی دوسری جنس کی صورت میں جس پر خمس واجب نه هو دینا چاهے تو محل اشکال هے بجز اس کے که ایسا کرنا حاکم شرع کی اجازت سے هو۔

1798۔ جس شخص کے مال پر خمس واجب الادا هو اور سال گزر گیا هو لیکن اس نے خمس نه دیا هو اور خمس دینے کا اراده بھی نه رکھتا هو وه اس مال میں تصرف نهیں کر سکتا بلکه احتیاط واجب کی بنا پر اگر خمس دینے کا اراده رکھتا هو تب بھی وه تصرف نهیں کرسکتا۔

1799۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا هو وه یه نهیں کر سکتا که اس خمس کو اپنے ذمے لے یعنی اپنے آپ کو خمس کے مستحقین کا مقروض تصور کرے اور سارا مال استعمال کرتا رهے اور اگر استعمال کرے اور وه مال تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا خمس دے۔

1800۔ جس شخص کو خمس ادا کرنا هو اگر وه حاکم شرع سے مفاهمت کرکے خمس کو اپنے ذمے لے لے تو سارا مال استعمال کر سکتا هے اور مفاهمت کے بعد اس مال سے جو منافع اسے حاصل هو وه اس کا اپنا مال هے۔

1801۔ جو شخص کاروبار میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک هو اگر وه اپنے منافع پر خمس دے دے اور اس کا حصے دار نه دے اور آئنده سال وه حصے دار اس مال کو جس کا خمس اس نے نهیں دیا ساجھے میں سرمائے کے طور پر پیش کرے تو وه شخص (جس نے خمس ادا کر دیا هو) اگر شیعه اثنا عشری مسلمان هو تو اس مال کو استمعال میں لاسکتا هے۔

ص:336

1802۔ اگر نابالغ بچے کے پاس کوئی سرمایه هو اور اس سے منافع حاصل هو تو اقوی کی بنا پر اس کا خمس دینا هوگا اور اسکے ولی پر واجب هے که اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس نه دے تو بالغ هونے کے بعد واجب هے که وه خود اس کا خمس دے۔

1803۔ جس شخص کو کسی دوسرے شخص سے کوئی مال ملے اور اسے شک هو که (مال دینے والے) دوسرے شخص نے اس کا خمس دیا هے یا نهیں تو وه (مال حاصل کرنے والا شخص) اس مال میں تصرف کرسکتا هے۔ بلکه اگر یقین بھی هو که اس دوسرے شخص نے خمس نهیں دیا تب بھی اگر وه شیعه اثنا عشری مسلمان هو تو اس مال میں تصرف کر سکتا هے۔

1804۔ اگر کوئی شخص کاروبار کے منافع سے سال کے دوران ایسی جائداد خریدے جو اس کی سال بھر کی ضروریات اور اخراجات میں شمار نه هو تو اس پر واجب هے که سال کے خاتمے پر اس کا خمس دے اور اگر خمس نه دے اور اس جائداد کی قیمت بڑھ جائے تو لازم هے که اس کی موجوده قیمت پر خمس دے اور جائداد کے علاوه قالین وغیره کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1805۔ جس شخص نے شروع سے (یعنی جب سے اس پر خمس کی ادائیگی واجب هوئی هو) خمس نه دیا هو مثال کے طور پر اگر وه کوئی جائداد خریدے اور اس کی قیمت بڑھ جائے اور اگر اس نے یه جائداد اس ارادے سے نه خریدی هو که اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو بیچ دے گا مثلا کھیتی باڑی کے لئے زمین خریدی هو اور اس کی قیمت اس رقم سے ادا کی هو جس پر خمس نه دیا هو تو ضروری هے که قیمت خرید پر خمس دے اور مثلاً اگر بیچنے والے کو وه رقم دی هو جس پر خمس نه دیا هو اور اس سے کها هو که میں یه جائداد اس رقم سے خریدتا هوں تو ضروری هے که اس جائداد کی موجوده قیمت پر خمس دے۔

1806۔ جس شخص نے شروع سے (یعنی جب سے خمس کی ادائیگی اس پر واجب هوئی) خمس نه دیا هو اگر اس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چیز خریدی هو جس کی اسے ضرورت نه هو اور اسے منافع کمائے ایک سال گزر گیا هو تو ضروری هے که اس کا خمس دے اور اگر اس نے گھر کا سازوسامان اور ضرورت کی چیزیں اپنی حیثیت کے مطابق خریدی هوں اور جانتا هو که اس نے یه چیزیں اس سال کے دوران اس منافع سے خریدی هیں جس سال میں اسے منافع هوا هے تو ان پر خمس دینا لازم نهیں لیکن اگر اسے یه معلوم نه هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که حاکم شرع سے مفاهمت کرے۔

معدنی کانیں

ص:337

1807۔ سونے، چانده، سیسے، تانبے، لوهے (جیسی دھاتوں کی کانیں) نیز پیڑولیم، کوئلے، فیروزے، عقیق، پھٹکری یا نمک کی کانیں اور (اسی طرح کی) دوسری کانیں انفال کے زمرے میں آتی هیں یعنی یه امام عصر علیه السلام کی ملکیت هیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کوئی چیز نکالے جب که شرعا کوئی حرج نه هو تو وه اسے اپنی ملکیت قرار دے سکتا هے اور اگر وه چیز نصاب کے مطابق هو تو ضروری هے که اس کا خمس دے۔

1808۔ کان سے نکلی هوئی چیز کا نصاب 15 مثقال مروجه سکه دار سونا هے یعنی اگر کان سے نکالی هوئی کسی چیز کی قیمت 15 مثقال سکه دار سونے تک پهنچ جائے تو ضروری هے که اس پر جو اخراجات آئے هوں انهیں منها کرکے جو باقی بچے اس کا خمس دے۔

1809۔ جس شخص نےکان سے منافع کمایا هو اور جو چیز کان سے نکالی هو اگر اس کی قیمت 15 مثقال سکه دار سونے تک نه پهنچے تو اس پر خمس تب واجب هوگا جب صرف یه منافع یا اس کے دوسرے منافع اس منافع کو ملا کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هوجائیں۔

1810۔ جپسم، چونا، چکنی مٹی اور سرخ مٹی پر احتیاط لازم کی بنا پر معدنی چیزوں کے حکم کا اطلاق هوتا هے لهذا اگر یه چیزیں حد نصاب تک پهنچ جائیں تو سال بھر کے اخراجات نکالنے سے پهلے ان کا خمس دینا ضروری هے۔

1811۔ جو شخص کان سے کوئی چیز نکالے تو ضروری هے که اس کا خمس دے خواه وه کان زمین کے اوپر هو یا زیر زمین اور خواه ایسی زمین میں هو جو کسی کی ملکیت هو یا ایسی زمین میں هو جس کا کوئی مالک نه هو۔

1812۔ اگر کسی شخص کو یه معلوم نه هو که جو چیز اس نے کان سے نکالی هے اس کی قیمت 15 مثقال سکه دار سونے کے برابر هے یا نهیں تو احتیاط لازم یه هے که اگر ممکن هو تو وزن کرکے یا کسی اور طریقے اس کی قیمت معلوم کرے۔

1813۔اگر کئی افراد مل کر کان سے کئی چیز نکالیں اور اس کی قیمت 15 مثقال سکه دار سونے تک پهنچ جائے لیکن ان میں سے هر ایک کا حصه اس مقدار سے کم هو تو احتیاط مستحب یه هے که خمس دیں۔

1814۔ اگر کوئی شخص اس معدنی چیز کو جو زیر زمین دوسرے کی ملکیت میں هو اس کی اجازت کے بغیر اس کی زمین کھود کر نکالے تو مشهور قول یه هے که "جو چیز دوسرے کی زمین سے نکالی جائے وه اسی مالک کی هے" لیکن یه بات اشکال سے خالی

ص:338

نهیں اور بهتر یه هے که باهم معامله طے کرے اور اگر آپس میں سمجھوته نه هوسکے تو حاکم شرع کی طرف رجوع کریں تاکه وه اس تنازع کا فیصله کرے۔

گڑا هوا دفینه

1815۔ دفینه وه مال هے جو زمین یا درخت یا پهاڑ یا دیوار میں گڑا هوا هو اور کوئی اسے وهاں سے نکالے اور اس کی صورت یه هو ه اسے دفینه کها جاسکے۔

1816۔ اگر انسان کو کسی ایسی زمین سے دفینه ملے جو کسی کی ملکیت نه هو تو وه اسے اپنے قبضے میں لے سکتا هے یعنی اپنی ملکیت میں لے سکتا هے لیکن اس کا خمس دینا ضروری هے۔

1817۔دفینے کا نصاب 105 مثقال سکه دار چاندی اور 15 مثقال سکه دار سونا هے یعنی جو چیز دفینے سے ملے اگر اس کی قیمت ان دونوں میں سے کسی ایک کے بھی برابر هو تو اس کا خمس دینا واجب هے۔

1818۔ اگر کسی شخص کو ایسی زمین سے دفینه ملے جو اس نے کسی سے خریدی هو اور اسے معلوم هو که یه ان لوگوں کا مال نهیں هے جو اس سے پهلے اس زمین کے مالک تھے اور وه یه نه جانتا هو که مالک مسلمان هے یا ذمی هے اور وه خود یا اس کے وارث زنده هیں تو وه اس دفینے کو اپنے قبضے میں لے سکتا هے لیکن اس کا خمس دینا ضروری هے۔ اور اگر اسے احتمال هو که یه سابقه مالک کا مال هے جب که زمین اور اسی طرح دفینه یا وه جگه ضمناً زمین میں شامل هونے کی بنا پر اس کا حق هو تو ضروری هے که اسے اطلاع دے اور اگر یه معلوم هو که اس کا مال نهیں تو اس شکص کو اطلاع دے جو اس سے بھی پهلے اس زمین کا مالک تھا اور اس پر اس کا حق تھا اور اسی ترتیب سے ان تمام لوگوں کو اطلاع دے جو خود اس سے پهلے اس زمین کے مالک رهے هوں اور اس پر ان کا حق هو اور اگر پته چلے که وه ان میں سے کسی کا بھی مال نهیں هے تو پھر وه اسے اپنے قبضے میں لے سکتا هے لیکن اس کا خمس دینا ضروری هے۔

1819۔اگر کسی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال ملے جو ایک جگه دفن هوں اور اس مال کی مجموعی قیمت 105 مثقال چاندی یا 15 مثقال سونے کے برابر هو تو ضروری هے که اس مال کا خمس دے لیکن اگر مختلف مقامات سے دفینے ملیں تو ان میں سے جس دفینے کی قیمت مذکوره مقدار تک پهنچے اس پر خمس واجب هے اور جب دفینے کی قیمت اس مقدار تک نه پهنچے اس پر خمس نهیں هے۔

ص:339

1820۔ جب دو اشخاص کو ایسا دفینه ملے جس کی قیمت 105 مثقال چاندی یا 15 مثقال سونے تک پهنچتی هو لیکن ان میں سے هر ایک کا حصه اتنا نه بنتا هو تو اس پر خمس ادا کرنا ضروری نهیں هے۔

1821۔اگر کوئی شخص جانور خریدے اور اس کے پیٹ سے اسے کوئی مال ملے تو اگر اسے احتمال هو که یه مال بیچنے والے یا پهلے مالک کا هے اور وه جانور پر اور جوکچھ اس کے پیٹ سے برآمد هوا هے اس پر حق رکھتا هے تو ضروری هے که اسے اطلاع دے اور اگر معلوم هو که وه مال ان میں سے کسی ایک کا بھی نهیں هے تو احتیاط لازم یه هے که اس کا خمس دے اگرچه وه مال دفینے کے نصاب کے برابر نه هو۔ اور یه حکم مچھلی اور اس کی مانند دوسرے ایسے جانداروں کے لئے بھی هے جن کی کوئی شخص کسی مخصوص جگه میں افزائش و پرورش کرے اور ان کی غذا کا انتظام کرے۔ اور اگر سمندر یا دریا سے اسے پکڑے تو کسی کو اس کی اطلاع دینا لازم نهیں۔

وه حلال مال جو حرام مال میں مخلوط هو جائے

1822۔ اگر حلال مال حرام مال کے ساتھ اس طرح مل جائے که انسان انهیں ایک دوسرے سے الگ نه کر سکے اور حرام مال کے مالک اور اس مال کی مقدار کا بھی علم نه هو اور یه بھی علم نه هو که حرام مال کی مقدار خمس سے کم هے یا زیاده تو تمام مال کا خمس قربت مطلقه کی نیت سے ایسے شخص کو دے جو خمس کا اور مال مجهول المالک کا مستحق هے اور خمس دینے کے بعد باقی مال اس شخص پر حلال هے۔

1823۔ اگر حلال مال حرام مال سے مل جائے تو انسان حرام کی مقدار ۔ خواه وه خمس سے کم هو یا زیاده۔ جانتا هو لیکن اس کے مالک کو نه جانتا هو تو ضروری هے که اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے صدقه کر دے اور احتیاط واجب یه هے که حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔

1824۔ اگر حلال مال حرام مال سے مل جائے اور انسان کو حرام کی مقدار کا علم نه هو لیکن اس مال کے مالک کو پهچانتا هو اور دونوں ایک دوسرے کو راضی نه کرسکیں تو ضروری هے که جتنی مقدار کے بارے میں یقین هو که دوسرے کا مال هے وه اسے دیدے۔ بلکه اگر دو مال اس کی اپنی غلطی سے مخلوط هوئے هوں تو احتیاط کی بنا پر جس مال کے بارے میں اسے احتمال هو که یه دوسرے کا هے اسے اس مال سے زیاده دینا ضروری هے۔

ص:340

1825۔ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے اور بعد میں اسے پته چلے که حرام کی مقدار خمس سے زیاده تھی تو ضروری هے که جتنی مقدار کے بارے میں علم هو که خمس سے زیاده تھی اسے اس کے مالک کی طرف سے صدقه کر دے ۔

1826۔ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے یا ایسا مال جس کے مالک کو نه پهچانتا هو مال کے مالک کی طرف سے صدقه کر دے اور بعد میں اس کا مالک مل جائے تو اگر وه راضی نه هو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے مال کے برابر اسے دینا ضروری هے۔

1827۔ اگر حلال مال حرام مال سے مل جائے اور حرام کی مقدار معلوم هو اور انسان جانتا هو که اس کا مالک چند لوگوں میں سے هی کوئی ایک هے لیکن یه نه جانتا هو که وه کون هے تو ان سب کا اطلاع دے چنانچه ان میں سے کوئی ایک کهے که یه میرا مال هے اور دوسرے کهیں که همارا مال نهیں یا اس مال کے بارے میں لاعلمی کا اظهار کریں تو اسی پهلے شخص کو وه مال دیدے اور اگر دو یا دو سے زیاده آدمی کهیں که یه همارا مال هے اور صلح یا اسی طرح کسی طریقے سے وه معامله حل نه هو تو ضروری هے که تنازع کے حل کے لئے حاکم شرع سے رجوع کریں اور اگر وه سب لاعلمی کا اظهار کریں اور باهم صلح بھی نه کریں تو ظاهر یه هے که اس مال کے مالک کا تعین قرعه اندازی کے ذریعے هوگا اور احتیاط یه هے که حاکم شرع یا اس کا وکیل قرعه اندازی کی نگرانی کرے۔

غَوَّاصِی سے حاصل کئے هوئے موتی

1828۔اگر غواصی کے ذریعے یعنی سمندر میں غوطه لگا کر لُئولُئو، مرجان یا دوسرے موتی نکالے جائیں تو خواه وه ایسی چیزوں میں سے هوں جو اگتی هیں۔ یا معدنیات میں سے هوں اگر اس کی قیمت 18 چنے سونے کے برابر هوجائے تو ضروری هے که اس کا خمس دیا جائے خواه انهیں ایک دفعه میں سمندر سے نکالا گیا هو یا ایک سے زیاده دفعه میں بشرطیکه پهلی دفعه اور دوسری دفعه غوطه لگانے میں زیاده فاصله نه هو مثلاً یه که دو موسموں میں غواصی کی هو۔ بصورت دیگر هر ایک دفعه میں 18 چنے سونے کی قیمت کے برابر نه هو تو اس کا خمس دینا واجب نهیں هے۔ اور اسی طرح جب غواصی میں شریک تمام غوطه خوروں میں سے هر ایک کا حصه 18 چنے سونے کی قیمت کے برابر نه هو تو ان پر اس خمس دینا واجب نهیں هے۔

ص:341

1829۔ اگر سمندر میں غوطه لگائے بغیر دوسرے ذرائع سے موتی نکالے جائیں تو احتیاط کی بنا پر ان پر خمس واجب هے۔ لیکن اگر کوئی شخص سمندر کے پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کا خمس اسے اس صورت میں دینا ضروری هے جب جو موتی اسے دستیاب هوئے هوں وه تنها یا اس کے کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو۔

1830۔ مچھلیوں اور ان دوسرے (آبی) جانوروں کا خمس جنهیں انسان سمندر میں غوطه لگائے بغیر حاصل کرتا هے اس صورت میں واجب هوتا هے جب ان چیزوں سے حاصل کرده منافع تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده هو۔

1831۔ اگر انسان کوئی چیز نکالنے کا اراده کئے بغیر سمندر میں غوطه لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے هاتھ لگ جائے اور وه اسے اپنی ملکیت میں لینے کا اراده کرے تو اس کا خمس دینا ضروری هے بلکه احتیاط واجب یه هے که هر حال میں اس کا خمس دے۔

1832۔اگر انسان سمندر میں غوطه لگائے اور کوئی جانور نکال لائے اور اس کے پیٹ میں سے اسے کوئی موتی ملے تو اگر وه جانور سیپی کی مانند هو جس کے پیٹ میں عموماً موتی هوتے هیں اور وه نصاب تک پهنچ جائے تو ضروری هے که اس کا خمس دے اور اگر وه کوئی ایسا جانور هو جس نے اتفاقاً موتی نگل لیا هو تو احتیاط لازم یه هے که اگرچه وه حدنصاب تک نه پهنچے تب بھی اس کا خمس دے۔

1833۔ اگر کوئی شخص بڑے دریاوں مثلاً دجله اور فرات میں غوطه لگائے اور موتی نکال لائے تو اگر اس دریا میں موتی پیدا هوتے هوں تو ضروری هے که (جو موتی نکالے) ان کا خمس دے۔

1834۔ اگر کوئی شخص پانی میں غوطه لگائے اور کچھ عنبر نکال لائے اور اس کی قیمت 18 چنے سونے یا اس سے زیاده هو تو ضروری هے که اس کا خمس دے بلکه اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے بھی حاصل کرے تو اس کا بھی یهی حکم هے۔

1835۔ جس شخص کا پیشه غوطه خوری یا کان کنی هو اگر وه ان کا خمس ادا کر دے اور پھر اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچ رهے تو اس کےلئے یه لازم نهیں که دوباره اس کا خمس ادا کرے۔

ص:342

1836۔ اگر بچه کوئی معدنی چیز نکالے یا اسے کوئی دفینه مل جائے یا سمندر میں غوطه لگا کر موتی نکال لائے تو بچے کا ولی اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس ادا نه کرے تو ضروری هے که بچه بالغ هونے کے بعد خود خمس ادا کرے اور اسی طرح اگر اس کے پاس حرام مال میں حلال مال میں حلال مال ملا هوا هو تو ضروری هے که اس کا ولی اس مال کا پاک کرے۔

مال غنیمت

1837۔ اگر مسلمان امام علیه السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور جو چیزیں جنگ میں ان کے هاتھ لگیں انهیں "غنیمت" کها جاتا هے۔ اور اس مال کی حفاظت یا اس کی نقل و حمل وغیره کے مصارف منها کرنے کے بعد اور جو رقم امام علیه السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کریں اور جو مال، خاص امام علیه السلام کا حق هے اسے علیحده کرنے کے بعد باقیمانده پر خمس ادا کیا جائے۔ مال غنیمت پر خمس ثابت هونے میں اشیائے منقوله اور غیر منقوله میں کوئی فرق نهیں۔ هاں جن زمینوں کا تعلق "انفال" سے هے وه تمام مسلمانوں کی مشترکه ملکیت هیں اگرچه جنگ امام علیه السلام کی اجازت سے نه هو۔

1838۔ اگر مسلمان کافروں سے امام علیه السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل هو تو جو غنیمت حاصل هو وه امام علیه السلام کی ملکیت هے اور جنگ کرنے والوں کا اس میں کوئی حق نهیں۔

1839۔ جو کچھ کافروں کے هاتھ میں هے اگر اس کا مالک مُحتَرمُ المَال یعنی مسلمان یا کافرِ ذمّی هو تو اس پر غنیمت حاصل هو تو جو غنیمت حاصل هو وه امام علیه السلام کی ملکیت هے اور جنگ کرنے والوں کا اس میں کوئی حق نهیں۔

1840۔ کافر حَربه کا مال چرانا اور اس جیسا کوئی کام کرنا اگر خیانت اور نقص امن میں شمار هو تو حرام هے اور اس طرح کی جو چیزیں ان سے حاصل کی جائیں احتیاط کی بنا پر ضروری هے که انهیں لوٹا دی جائیں۔

1841۔ مشهور یه هے که ناصبی کا مال مومن اپنے لئے لے سکتا هے البته اس کا خمس دے لیکن یه حکم اشکال سے خالی نهیں هے۔

وه زمین جو ذمی کافر کسی مسلمان سے خریدے

ص:343

1842۔اگر کافر ذمی مسلمان سے زمین خریدے تو مشهور قول کی بنا پر اس کا خمس اسی زمین سے یا اپنے کسی دوسرے مال سے دے لیکن خمس کے عام قواعد کے مطابق اس صورت میں خمس کے واجب هونے میں اشکال هے۔

خمس کا مصرف

1843۔ ضروری هے که خمس دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کا ایک حصه سادات کا حق هے اور ضروری هے که کسی فقیر سید یا یتیم سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر میں ناچار هوگیا هو۔ اور دوسرا حصه امام علیه السلام کا هے جو ضروری هے که موجوده زمانے میں جامع الشرائط مجهتد کر دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی وه مجتهد اجازت دے خرچ کیا جائے اور احتیاط لازم یه هے که وه مرجع اعلم عمومی مصلحتوں سے آگاه هو۔

1844۔ جس یتیم سید کو خمس دیا جائے ضروری هے که وه فقیر بھی هو لیکن جو سید سفر میں ناچار هو جائے وه خواه اپنے وطن میں فقیر نه بھی هو اسے خمس دیا جاسکتا هے۔

1845۔ جو سید سفر میں ناچار هوگیا هو اگر اس کا سفر گناه کا سفر هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که اسے خمس نه دیا جائے۔

1846۔ جو سید عادل نه هو اسے خمس دیا جاسکتا هے لیکن جو سید اثنا عشری نه هو تو ضروری هے که اسے خمس نه دیا جائے۔

1847۔ جو سید گناه کا کام کرتا هو اگر اسے خمس دینے سے گناه کرنے میں اس کی مدد هوتی هو تو اسے خمس نه دیا جائے اور احوط یه هے که اس سید کو بھی خمس نه دیا جائے جو شراب پیتاهو یا نماز نه پڑھتا هو یا علانیه گناه کرتا هو گو خمس دینے سے اسے گناه کرنے میں مدد نه ملتی هو۔

1848۔ جو شخص کهے که سید هوں اسے اس وقت تک خمس نه دیا جائے جب تک دو عادل اشخاص اس کے سید هونے کی تصدیق نه کردیں یا لوگوں میں اس کا سید هونا اتنا مشهور هو که انسان کو یقین اور اطمینان هو جائے که وه سید هے۔

1849۔کوئی شخص اپنے شهر میں سید مشهور هو اور اس کے سید نه هونے کے بارے میں جو باتیں کی جاتی هوں انسان کو ان پر یقین یا اطمینان نه هو تو اسے خمس دیا جاسکتا هے۔

ص:344

1850۔ اگر کسی شخص کی بیوی سیدانی هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که شوهر اسے اس مقصد کے لئے خمس نه دے که وه اسے اپنے ذاتی استعمال میں لے آئیں لیکن اگر دوسرے لوگوں کی کفالت اس عورت پر واجب هوں اور وه ان اخراجات کی ادائیگی سے قاصر هو تو انسان کے لئے جائز هے که اپنی بیوی کو خمس دے تاکه وه زیر کفالت لوگوں پر خرچ کرے۔ اور اس عورت کو اس غرض سے خمس دینے کے بارے میں بھی یهی حکم هے جبکه وه (یه رقم) اپنے غیر واجب اخراجات پر صرف کرے (یعنی اس مقصد کے لئے اس خمس نهیں دینا چاهئے)۔

1851۔ اگر انسان پر کسی سید کے یا ایسی سیدانی کے اخراجات واجب هوں جو اس کی بیوی نه هو تو احتیاط واجب کی بنا پر وه اس سید یا سیدانی کے خوراک اور پوشاک کے اخراجات اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے ادا نهیں کر سکتا۔ هاں اگر وه اس سید یا سیدانی کو خمس کی کچھ رقم اس مقصد سے دے که وه واجب اخراجات کے علاوه اسے دوسری ضروریات پر خرچ کرے تو کوئی حرج نهیں۔

1852۔ اگر کسی فقیر سید کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب هوں اور وه شخص اس سید کے اخراجات برداشت نه کر سکتا هو یا استطاعت رکھتا هو لیکن نه دیتا هو تو اس سید کو خمس دیا جاسکتا هے۔

1853۔ احتیاط واجب یه هے که کسی ایک فقیر سید کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیاده خمس نه دیا جائے ۔

1854۔ اگر کسی شخص کے شهر میں کوئی مستحق سید نه هو اور اسے یقین یا اطمینان هو که کوئی ایسا سید بعد میں بھی نهیں ملے گا یا جب تک کوئی مستحق سید ملے خمس کی حفاظت کرنا ممکن نه هو تو ضروری هے که خمس دوسرے شهر لے جائے اور مستحق کو پهنچا دے اور خمس دوسرے شهر لے جانے کے اخراجات خمس میں سے لے سکتا هے اور اگر خمس تلف هو جائے تو اگر اس شخص نے اس کی نگهداشت میں کوتاهی برتی هو تو ضروری هے که اس کا عوض دے اور اگر کوتاهی نه برتی هو تو اس پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

1855۔ جب کسی شخص کے اپنے شهر میں خمس کا مستحق شخص موجود نه هو تو اگرچه اسے یقین یا اطمینان هو که بعد میں مل جائے گا اور خمس کے مستحق شخص کے ملنے تک خمس کی نگهداشت بھی ممکن هو تب بھی وه خمس دوسرے شهر لے جاسکتا هے اور اگر وه خمس کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتے اور وه تلف هو جائے تو اس کے لئے کوئی چیز دینا ضروری نهیں لیکن وه خمس کے دوسری جگه لے جانے کے اخراجات خمس میں سے نهیں لے سکتا هے۔

ص:345

1856۔ اگر کسی شخص کے اپنے شهر میں خمس کا مستحق مل جائے تب بھی وه خمس دوسرے شهر لے جاکر مستحق کو پهنچاسکتا هے البته خمس کا ایک شهر سے دوسرے شهر لے جانا اس قدرتاخیر کا موجب نه هو که خمس پهنچانے میں سستی شمار هو لیکن ضروری هے که اسے لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے۔ اور اس صورت میں اگر خمس ضائع هو جائے تو اگرچه اس نے اس کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتی هو وه اس کا ذمه دار هے۔

1857۔ اگر کوئی شخص حاکم شرع کے حکم سے خمس دوسرے شهر لے جائے اور وه تلف هو جائے تو اس کے لئے دوباره خمس دینا لازم نهیں اور اسی طرح اگر وه خمس حاکم شرع کے وکیل کو دے دے جو خمس کی وصولی پر مامور هو اور وه وکیل خمس کو ایک شهر سے دوسرے شهر لے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1858۔ یه جائز نهیں که کسی چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے زیاده لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے۔ اور جیسا که مسئله 1797 میں بتایا گیا هے که کسی دوسری جنس کی شکل میں خمس ادا کرنا ما سوا سونے اور چاندی کے سکوں اور انهین جیسی دوسری چیزوں کے هر صورت میں محل اشکال هے۔

1859۔جس شخص کو خمس کے مستحق شخص سے کچھ لینا هو اور چاهتا هو که اپنا قرضه خمس کی رقم سے منها کر لے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که یا تو حاکم شرع سے اجازت لے یا خمس اس مستحق کو دیدے اور بعد میں مستحق شخص اسے وه مال قرضے کی ادائیگی کے طور پر لوٹا دے اور وه یه بھی کر سکتا هے که خمس کے مستحق شخص کی اجازت سے اس کا وکیل بن کر خود اس کی طرف سے خمس لے لے اور اس سے اپنا قرض چکا لے۔

1860۔ مالک، خمس کے مستحق شخص سے یه شرط نهیں کر سکتا که وه خمس لینے کے بعد اسے واپس لوٹا دے۔ لیکن اگر مستحق شخص خمس لینے کے بعد اسے واپس دینے پر راضی هو جائے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔ مثلاً جس شخص کے ذمے خمس کی زیاده رقم واجب الادا هو اور وه فقیر هو گیا هو اور چاهتا هو که خمس کے مستح لوگوں کا مقروض نه رهے تو اگر خمس کا مستحق شخص راضی هو جائے که اس سے خمس لے کر پھر اسی کو بخش دے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔

زکوۃ کے احکام

اشاره

1861۔ زکوٰۃ چند چیزوں پر واجب هے۔

ص:346

1۔ گیهوں 2۔ جَو 3۔ کھجور 4۔ کشمش 5۔ سونا 6۔ چاندی 7۔ اونٹ 8۔ گائے 9۔بھیڑ بکری 10۔احتیاط لازم کی بنا پر مال تجارت۔

اگر کوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک هو تو ان شرائط کے تحت جن کا ذکر بعد میں کیا جائے گا ضروری هے که جو مقدار مقرر کی گئی هے اسے ان مصارف میں سے کسی ایک مد میں خرچ کرے جن کا حکم دیا گیا هے۔

1862۔ سلت پر جو گیهوں کی طرح ایک نرم اناج هے اور جسے بے چھلکے کا جَو بھی کهتے هیں اور علس پر جو گیهوں کی ایک قسم هے اور صنعا (یمن) کے لوگوں کی غذا هے احتیاط واجب کی بنا پر زکوٰۃ دینا ضروری هے۔

زکوۃ واجب هونے کی شرائط

1863۔ زکوٰۃ کوره دس چیزوں پر اس صورت میں واجب هوتی هے جب مال اس نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے جس کا ذکر بعد میں کیاجائے گا اور وه مال انسان کی اپنی ملکیت هو اور اس کا مالک آزادهو۔

1864۔ اگر انسان گیاره مهینے گائے، بھیڑ بکری، اونٹ، سونے یا چاندی کا مالک رهے تو اگرچه بارھویں مهینے کی پهلی تاریخ کو زکوٰۃ اس پر واجب هو جائے گی لیکن ضروری هے که اگلے سال کی ابتدا کی حساب بارھویں مهینے کے خاتمے کے بعد سے کرے۔

1865۔ سونے، چاندی اور مال تجارت پر زکوۃ کے واجب هونے کی شرط یه هے که ان چیزوں کا مالک، بالغ اور عاقل هو۔ لیکن گیهوں،جَو، کھجور، کشمش اور اسی طرح اونٹ، گائے اور بھیڑ بکریوں میں مالک کا بالغ اور عاقل هونا شرط نهیں هے۔

1866۔ گیهوں اور جَو پر زکوۃ اس وقت واجب هوتی هے جب انهیں "گیهوں" اور "جَو" کها جائے۔ کشمش پر زکوۃ اس وقت واجب هوتی هے جب وه ابھی انگور هی کی صورت میں هوں۔ اور کھجور پر زکوۃ اس وقت واجب هوتی هے جب (وه پک جائیں اور) عرب اسے تمر کهیں لیکن گیهوں اور جَو میں زکوۃ کا نصاب دیکھنے اور زکوۃ دینے کا وقت وه هوتا هے جب یه غله کھلیان میں پهنچے اور ان (کی بالیوں) سے بھوسا اور (دانه) الگ کیا جائے۔ جبکه کھجور اور کشمش میں یه وقت وه هوتا هے جب انهیں اتار لیتے هیں۔ اس وقت کو خشک هونے کا وقت بھی کهتے هیں۔

ص:347

1867۔ گیهوں، جَو، کشمش اور کھجور میں زکوۃ ثابت هونے کے لئے جیسا که سابقه مسئلے میں بتایا گیا هے اقوی کی بنا پر معتبر نهیں هے که ان کا مالک ان میں تصرف کر سکے۔ پس اگر مالک غائب هو اور مال بھی اس کے یا اس کے وکیل کے هاتھ میں نه هو مثلا کسی نے ان چیزوں کو غصب کر لیا هو تب بھی زکوۃ ان چیزوں میں ثابت هے۔

1868۔ سونے، چاندی اور مال تجارت میں زکوۃ ثابت هونے کے لئے ۔ جیسا که بیان هو چکا ۔ ضروری هے که مالک عاقل هو اگر مالک پورا سال یا سال کا کچھ حصه دیوانه رهے تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

1869۔ اگر گائے، بھیڑ، اونٹ، سونے اور چاندی کا مالک سال کا کچھ حصه مست (بے حواس) یا بے هوش رهے تو زکوۃ اس پر سے ساقط نهیں هوتی اور اسی طرح گیهوں، جَو، اور کشمش کا مالک زکوٰۃ واجب هونے کے موقع پر مست یا بے هوش هوجائے تو بھی یهی حکم هے۔

1870۔گیهوں، جَو، کھجور اور کشمش کے علاوه دوسری چیزوں میں زکوۃ ثابت هونے کے لئے یه شرط هے که مالک اس مال میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتا هو پس اگر کسی نے اس مال کی غصب کر لیا هو اور مالک اس مال میں تصرف نه کر سکتا هو تو اس میں زکوٰۃ نهیں هے۔

1871۔ اگر کسی نے سونا اور چاندی یا کوئی اور چیز جس پر زکوۃ دینا واجب هو کسی سے قرض لی هو اور وه چیز ایک سال تک اس کے پاس رهے تو ضروری هے که اس کی زکوٰۃ دے اور جس نے قرض دیا هو اس پر کچھ واجب نهیں هے۔

گیهوں، جَو، کھجور اور کشمش کی زکوۃ

1872۔ گیهوں، جَو، کھجور اور کشمش پر زکوٰۃ اس وقت واجب هوتی هے جب وه نصاب کی حد تک پهنچ جائیں اور ان کا نصاب تین سو صاع هے جو ایک گروه (علماء) کے بقول تقریباً 847 کیلو هوتا هے۔

1873۔جس انگور، کھجور ، جو اور گیهوں پر زکوٰۃ واجب هوچکی هو اگر کوئی شخص خود یا اس کے اهل و عیال اسے کھالیں یا مثلاً وه یه اجناس کسی فقیر کو زکوۃ کی نیت کے بغیر دے دے تو ضروری هے که جتنی مقدار استعمال کی هو اس پر زکوٰۃ دے۔

ص:348

1874۔ اگر گیهوں،جَو،کھجور اور انگور پر زکوٰۃ واجب هونے کے بعد ان چیزوں کا مالک مرجائے تو جتنی زکوٰۃ بنتی هو وه اس کے مال سے دینی ضروری هے لیکن اگر وه شخص زکوۃ واجب هونے سے پهلے مرجائے تو هر وه وارث جس کا حصه نصاب تک پهنچ جائے ضروری هے که اپنے حصے کی زکوۃ خود ادا کرے۔

1875۔ جو شخص حاکم شرح کی طرف سے زکوٰۃ جمع کرنے پر مامور هو وه گیهوں اور جو کے کھلیان میں بھوسا (اور دانه) الگ کرنے کے وقت اور کھجور اور انگور کے خشک هونےکے وقت زکوٰۃ کا مطالبه کر سکتا هے اور اگرمالک نه دے اور جس چیز پر زکوٰۃ واجب هوگئی هو وه تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

1876۔اگر کسی شخص کے کھجور کے درختوں، انگور کی بیلوں یا گیهوں اور جَو کے کھیتوں (کی پیداوار) کا مالک بننے کے بعد ان چیزوں پر زکوٰۃ واجب هو جائے تو ضروری هے که ان پر زکوٰۃ دے۔

1877۔اگر گیهوں، جَو، کھجور اور انگور پر زکوٰۃ واجب هونے کے بعد کوئی شخص کھیتوں اور درختوں کو بیچ دے تو بیچنے والے پر ان اجناس کی زکوٰۃ دینا واجب هے اور جب وه زکوۃ ادا کر دے تو خریدنے والے پر کچھ واجب نهیں هے۔

1878۔اگر کوئی شخص گیهوں، جَو، کھجور یا انگور خریدے اور اسے علم هو که بیچنے والے نے ان کی زکوٰۃ دے دی هے یا شک کرے که اس نے زکوٰۃ دی هے یا نهیں تو اس پر کچھ واجب نهیں هے اور اگر اسے معلوم هو که بیچنے والے نے ان پر زکوٰۃ نهیں دی تو ضروری هے که وه خود اس پر زکوٰۃ دیدے لیکن اگر بیچنے والے نے دغل کیا هو تو وه زکوۃ دینے کے بعد اس سے رجوع کر سکتا هے اور زکوۃ کی مقدار کا اس سے مطالبه کر سکتا هے۔

1879۔ اگر گیهوں، جَو، کھجور اور انگور کا وزن تر هونے کے وقت نصاب کی حد تک پهنچ جائے اور خشک هونے کے وقت اس حد سے کم هو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

1880۔اگر کوئی شخص گیهوں، جَو اور کھجور کو خشک هونے کے وقت سے پهلے خرچ کرے تو اگر وه خشک هو کر نصاب پر پوری اتریں تو ضروری هے که ان کو زکوٰۃ دے۔

1881۔ کھجور کی تین قسمیں هیں :۔

1۔ وه جسے خشک کیا جاتا هے (یعنی چھوارے)۔ اس کی زکوٰۃ کا حکم بیان هو چکا هے۔

ص:349

2۔ وه جو رُطَب (پکی هوئی رس دار) هونے کی حالت میں کھائی جاتی هے ۔

3۔ وه جو کچی هی کھائی جاتی هے۔

دوسری قسم کی مقدار اگر خشک هونے پر نصاب کی حد تک پهنچ جائے تو احتیاط مستحب هے که اس کی زکوۃ دی جائے۔ جهان تک تیسری قسم کا تعلق هے ظاهر یه هے که اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

1882۔ جس گیهوں، جَو، کھجور اور کشمش کی زکوٰۃ کسی شخص نے دے دی هو اگر وه چند سال اس کے پاس پڑی بھی رهیں تو ان پر دوباره زکوٰۃ واجب نهیں هوگی۔

1883۔ اگر گیهوں،جَو، کھجور اور انگور (کی کاشت) بارانی یا نهری زمین پر کی جائے یا مصر زراعت کی طرح انهیں زمین کی نمی سے فائده پهنچے تو ان پر زکوۃ دسواں حصه هے اور اگر ان کی سینچائی (جھیل یا کنویں وغیره) کے پانی سے بذریعه ڈول کی جائے تو ان پر زکوۃ بیسواں حصه هے۔

1884۔ اگر گیهوں، جو، کھجور اور انگور (کی کاشت) بارش کےپانی سے بھی سیراب هو اور اسے ڈول وغیره کے پانی سے بھی فائده پهنچے تو اگر یه سینچائی ایسی هو که عام طور پر کها جاسکے که ان کی سینچائی ڈول وغیره سے کی گئی هے تو اس پر زکوۃ بیسواں حصه هے اور اگر یه کها جائے که یه نهر اور بارش کے پانی سے سیراب هوئے هیں تو ان پر زکوٰۃ دسواں حصه هے اور اگر سینچائی کی صورت یه هو که عام طور پر کها جائے که دونوں ذرائع سے سیراب هوئے هیں تو اس پر زکوۃ ساڑھے سات فی صد هے۔

1885۔ اگر کوئی شک کرے که عام طور پر کون سی بات صحیح سمجھی جائے گی اور اسے علم نه هو که سینچائی کی صورت ایسی هے که لوگ عام طور پر کهیں که دونوں ذرائع سے سینچائی هوئی یا یه کهیں که مثلاً بارش کے پانی سے هوئی هے تو اگر وه ساڑھے سات فی صد زکوٰۃ دے تو کافی هے۔

1886۔ اگر کوئی شک کرے اور اسے علم نه هو که عموماً کهتے هیں که دونوں ذرائع سے سینچائی هوئی هے یا یه کهتے هیں که ڈول وغیره سے هوئی هے تو اس صورت میں بیسواں حصه دینا کافی هے۔ اور اگر اس بات کا احتمال بھی هو که عموماً لوگ کهیں که بارش کے پانی سے سیرابی هوئی هے تب بھی یهی حکم هے۔

ص:350

1887۔ اگر گیهوں،جَو، کھجور اور انگور بارش اور نهر کے پانی سے سیراب هوں اور انهیں ڈول وغیره کے پانی کی حاجت نه هو لیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی هوئی هو اور ڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نه ملی هو تو ان پر زکوٰۃ دسواں حصه هے اور اگر ڈول وغیره کے پانی سے سینچائی هوئی هو اور نهر اور بارش کے پانی کی حاجت نه هو لیکن نهر اور بارش کے پانی سے بھی سیراب هوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نه ملی هو تو ان پر زکوٰۃ بیسواں حصه هے۔

1888۔اگر کسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیره سے کی جائے اور اس سے ملحقه زمین میں کھیتی باڑی کی جائے اور وه ملحقه زمین اس زمین سے فائده اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نه رهے تو جس زمین کی سینچائی ڈول وغیره سے کی گئی هے اس کی زکوٰۃ بیسواں حصه اور اس سے ملحقه کھیت کی زکوٰۃ احتیاط کی بنا پر دسواں حصه هے۔

1889۔جو اخراجات کسی شخص نے گیهوں، جو، کھجور اور انگور پر کئے هوں انهیں وه فصل کی آمدنی سے منها کرکے نصاب کا حساب نهیں لگا سکتا لهذا اگر ان میں سے کسی ایک کا وزن اخراجات کا حساب لگانے سے پهلے نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری هے که اس پر زکوٰۃ دے۔

1890۔ جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیا هو خواه وه اس کے پاس موجود هو یا اس نے خریدا هو وه نصاب کا حساب اس بیچ کو فصل کی آمدنی سے منها کر کے نهیں کر سکتا بلکه ضروری هے که نصاب کا حساب پوری فصل کو مدنظر رکھتے هوئے لگائے۔

1891۔ جو کچھ حکومت اصلی مال سے (جس پر زکوٰۃ واجب هو) بطور محصول لے لے اس پر زکوۃ واجب نهیں هے مثلاً اگر کھیت کی پیداوار 2000 کیلو هو اور حکومت اس میں سے 1000 کیلو بطور لگان کے لے لے تو زکوٰۃ فقط 1900 کیلو پر واجب هے۔

1892۔ احتیاط واجب کی بنا پر انسان یه نهیں کر سکتا که جو اخراجات اس نے زکوٰۃ واجب هونے سے پهلے کئے هوں انهیں وه پیداوار سے منها کرے اور صرف باقی مانده پر زکوۃ دے۔

1893۔ زکوٰۃ واجب هونے کے بعد جو اخراجات کئے جائیں اور جو کچھ زکوۃ کی کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے وه پیداوار سے منها نهیں کیا جاسکتا اگرچه احتیاط کی بنا پر حکم شرع یا اس کے وکیل سے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی هو۔

ص:351

1894۔ کسی شخص کے لئے یه واجب نهیں که وه انتظار کرے تاکه جو اور گیهوں کھلیان تک پهنچ جائیں اور انگور اور کھجور کے خشک هونے کا وقت هو جائے پھر زکوٰۃ دے بلکه جونهی زکوٰۃ واجب هو جائز هے که زکوٰۃ کی مقدار کا اندازه لگا کر وه قیمت بطور زکوٰۃ دے۔

1895۔ زکوٰۃ واجب هونے کے بعد متعلقه شخص یه کر سکتا هے که کھڑی فصل کاٹنے یا کھجور اور انگور کو چننے سے پهلے زکوٰۃ مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وکیل کو مشترکه طور پیش کر دے اور اس کے بعد وه اخراجات میں شریک هوں گے۔

1896۔ جب کوئی شخص فصل یا کھجور اور انگور کی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وکیل کو دے دے تو اس کے لئے ضروری نهیں که بلا معاوضه مشترکه طور پر ان چیزوں کی حفاظت کرے بلکه وه فصل کی کٹائی یا کھجور اور انگور کے خشک هونےتک مال زکوٰۃ اپنی زمین میں رهنے کے بدلے اجرت کا مطالبه کر سکتا هے۔

1897۔ اگر انسان کئی شهریوں میں فصل پکنے کا وقت ایک دوسرے سے مختلف هو اور ان سب شهروں سے فصل اور میوے ایک هی وقت میں دستیاب نه هوتے هوں اور یه سب ایک سال کی پیداوار شمار هوتے هوں تو اگر ان میں سے جو چیز پهلے پک جائے وه نصاب کے مطابق هو تو ضروری هے که اس پر اس کے پکنے کے وقت زکوٰۃ دے اور باقی مانده اجناس پر اس وقت زکوٰۃ دے جب وه دستیاب هوں اور اگر پهلے پکنے والی چیز نصاب کے برابر نه هو تو انتظار کرے تاکه باقی اجناس پک جائیں۔ پھر اگر سب ملا کر نصاب کے برابر هوجائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب هے اور اگر نصاب کے برابر نه هوں تو ان پر زکوۃ واجب نهیں هے۔

1898۔ اگر کھجور اور انگور کے درخت سال میں دو دفعه پھل دیں اور دونوں مرتبه کی پیداوار جمع کرنے پر نصاب کے برابر هوجائے تو احتیاط کی بنا پر اس پیداوار پر زکوٰۃ واجب هے۔

1899۔ اگر کسی شخص کے پاس غیر خشک شده کھجوریں هوں یا انگور هوں جو خشک هونے کی صورت میں نصاب کے مطابق هوں تو اگر ان کے تازه هونے کی حالت میں وه زکوٰۃ کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف میں لے آئے جتنی ان کے خشک هونے پر زکوۃ کی اس مقدار کے برابر هو جو اس پر واجب هے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔

1900۔ اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰۃ واجب هو تو وه ان کی زکوٰۃ تازه کھجور یا انگور کی شکل میں نهیں دے سکتا بلکه اگر وه خشک کھجور یا کشمش کی زکوۃ کی قیمت لگائے اور انگور یا تازه کھجوریں یا کشمش یا کوئی اور خشک کھجوریں اس

ص:352

قیمت کے طور پر دے تو اس میں بھی اشکال هے نیز اگر کسی پر تازه کھجور یا انگور کی زکوۃ واجب هو تو وه خشک کھجور یا کشمش دے کر وه زکوٰۃ ادا نهیں کر سکتا بلکه اگر وه قیمت لگا کر کوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچه وه تازه هی هو اس میں اشکال هے۔

1901۔ جو کچھ حکومت اصلی مال سے (جس پر زکوٰۃ واجب هو) بطور محصول لے لے اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے مثلاً اگر کھیت کی پیداوار 2000 کیلو هو اور حکومت اس میں سے 100 کیلو بطور لگان کے لے لے تو زکوٰۃ فقط 1900 کیلو پر واجب هے۔

1892۔ احتیاط واجب کی بنا پر انسان یه نهیں کر سکتا که جو اخراجات اس نے زکوۃ واجب هونے سے پهلے کئے هوں انهیں وه پیداوار سے منها کرے اور صرف باقی مانده پر زکوٰۃ دے۔

1893۔ زکوٰۃ واجب هونے کے بعد جو اخراجات کئے جائیں اور جو کچھ زکوٰۃ کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے وه پیداوار سے منها نهیں کیا جاسکتا اگرچه احتیاط کی بنا پر ھاکم شرع یا اس کے وکیل سے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی هو۔

1894۔ کسی شخص کے لئے یه واجب نهیں که وه انتظار کرے تاکه جو اور گیهوں کھلیان تک پهنچ جائیں اور انگور اور کھجور کے خشک هونے کا وقت هو جائے پھر زکوٰۃ دے بلکه جونهی زکوٰۃ دے بلکه جونهی زکوٰۃ واجب هوجائز هے که زکوٰۃ کی مقدار کا اندازه لگا کر وه قیمت بطور زکوۃ دے۔

1895۔ زکوٰۃ واجب هونے کے بعد متعلقه شخص یه کر سکتا هے که کھڑی فصل کاٹنے یا کھجور اور انگور کو چننے سے پهلے زکوٰۃ مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وکیل کو مشترکه طور پر پیش کر دے اور اس کے بد وه اخراجات میں شریک هوں گے۔

1896۔ جب کوئی شخص فصل یا کھجور اور انگور کی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وکیل کو دے دے تو اس کے لئے ضروری نهیں که بلامعاوضه مشترکه طور پر ان چیزوں کی حفاظت کرے بلکه وه فصل کی کٹائی یا کھجور اور انگور کے خشک هونے تک مال زکوٰۃ اپنی زمین میں رهنے کے بدلے اجرت کا مطالبه کر سکتا هے۔

ص:353

1897۔ اگر انسان کئی شهروں میں گیهوں،جَو، کھجور یا انگور کا مالک هو اور ان شهروں میں فصل پکنے کا وقت ایک دوسرے سے مختلف هو اور ان سب شهروں سے فصل اور میوے ایک هی وقت میں دستیاب نه هوتے هوں اور یه سب ایک سال کی پیداوار شمار هوتے هوں تو اگر ان میں سے جو چیز پهلے پک جائے وه نصاب کے مطابق هو تو ضروری هے که اس پر اس کے پکنے کے وقت زکوٰۃ دے اور باقی مانده اجناس پر اس وقت زکوٰۃ دے جب وه دستیاب هوں اور اگر پهلے پکنے والی چیز نصاب کے برابر نه هو تو انتظار کرے تاکه باقی اجناس پک جائیں۔ پھر اگر سب ملا کر نصاب کے برابر هوجائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب هے اور اگر نصاب کے برابر نه هوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

1898۔ اگر کھجور اور انگور کے درخت سال میں دو دفعه پھل دیں اور دونوں مرتبه کی پیداوار جمع کرنے پر نصاب کے برابر هوجائے تو احتیاط کی بنا پر اس پیداوار پر زکوٰۃ واجب هے۔

1899۔ اگر کسی شخص کے پاس غیر خشک شده کھجوریں هوں یا انگور هوں جو خشک هونے کی صورت میں نصاب کے مطابق هوں تو اگر ان کے تازه هونے کی حالت میں وه زکوٰۃ کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف میں لے آئے جتنی ان کے خشک هونے پر زکوٰۃ کی اس مقدار کے برابر هو جو اس پر واجب هے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔

1900۔ اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰۃ واجب هو تو وه ان کی زکوٰۃ تازه کھجور یا انگور کی شکل میں نهیں دے سکتا بلکه اگر وه خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰۃ کی قیمت لگائے اور انگور یا تازه کھجوریں یا کشمش یا کوئی اور خشک کھجوریں اس قیمت کے طور پر دے تو اس میں بھی اشکال هے نیز اگر کسی پر تازه کھجور یا انگور کی زکوٰۃ واجب هو تو وه خشک کھجور یا کشمش دے کر وه زکوٰۃ ادا نهیں کر سکتا بلکه اگر وه قیمت لگا کر کوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچه وه تازه هی هو اس میں اشکال هے۔

1901۔ اگر کوئی ایسا شخص مرجائے جو مقروض هو اور اس کے پاس ایسا مال بھی هو جس پرزکوٰۃ وجاب هوچکی هو تو ضروری هے که جس مال پر زکوٰۃ واجب هوچکی هو پهلے اس میں سے تمام زکوٰۃ دی جائے اور اس کے بعد اس کا قرضه ادا کیا جائے۔

1902۔ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جو مقروض هو اور اس کے پاس گیهوں،جَو، کھجور یا انگور بھی هو اور اس سے پهلے که ان اجناس پر زکوٰۃ واجب هو اس کے ورثاء اس کا قرضه کسی دوسرے مال سے ادا کردیں تو جس وارث کا حصه نصاب کی مقدار تک پهنچتا هو ضروری هے که زکوٰۃ دے اور اگر اس سے پهلے که زکوۃ ان اجناس پر واجب هو متوفی کا قرضه ادا نه

ص:354

کریں اور اگر اس کا مال فقط اس قرضے جتنا هو تو ورثاء کے لئے واجب نهیں که ان اجناس پر زکوٰۃ دیں اوعر اگر متوفی کا مال اس کے قرض سے زیاده هو جبکه متوفی پر اتنا قرض هو که اگر اسے ادا کرنا چاهیں تو ادا کرسکیں ضروری هے که گیهوں، جَو، کھجور اور انگور میں سے کچھ مقدار بھی قرض خواه کو دیں لهذا جو کچھ قرض خواه کو دیں اس پر زکوۃ نهیں هے اور باقی مانده مال پر وارثوں میں سے جس کا بھی حصه زکوۃ کے نصاب کے برابر هو اس کی زکوٰۃ دینا ضروری هے۔

1903۔ جس شخص کے پاس اچھی اور گھٹیا دونوں قسم کی گندم، جَو، کھجور اور انگور هوں جن پر زکوٰۃ واجب هوگئی هو اس کے لئے احتیاط واجب یه هے که اچھی اور گھٹیادونوں اقسام میں سے الگ الگ زکوٰۃ نکالے۔

سونے کا نصاب

1904۔ سونے کے نصاب دو هیں :

اس کا پهلا انصاب بیس مثقال شرعی هے جب که هر مثقال شرعی 18 نخود کا هوتا هے پس جس وقت سونے کی مقدار بیس مثقال شرعی تک جو آجکل کے پندره مثقال کے برابر هوتے هیں پهنچ جائے اور وه دوسری شرائط بھی پوری هوتی هوں جو بیان کی جاچکی هیں تو ضروری هے که انسان اس کا چالیسواں حصه جو 9 نخود کے برابر هوتا هے۔ زکوٰۃ کے طور پر دے اور اگر سونا اس مقدار تک نه پهنچے تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔ اور اس کا دوسرا انصاب چار مثقال شرعی هے جو آجکل کے تین مثقال کے برابر هوتے هیں یعنی اگر پندره مثقال پر تین مثقال کا اضافه هو جائے تو ضروری هے که تمامتر 18 مثقال پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دے اور اگر تین مثقال سے کم اضافه هو تو ضروری هے که صرف 15 مثقال پر زکوٰۃ دے اور اس صورت میں اضافے پر زکوٰۃ نهیں هے اور جوں جوں اضافه هو اس کے لئے یهی حکم هے یعنی اگر تین مثقال اضافه هو تو ضروری هے که تمامتر مقدار پر زکوٰۃ دے اور اگر اضافه تین مثقال سے کم هو تو جو مقدار بڑھی هو اس پر کوئی زکوٰۃ نهیں هے۔

چاندی کا نصاب

1905۔ چاندی کے نصاب دو هیں :

ص:355

اس کا پهلا نصاب 105 مروجه مثقال هے لهذا جب چاندی کی مقدار 105 مثقال تک پهنچ جائے اور وه دوسری شرائط بھی پوری کرتی هو جو بیان کی جاچکی هیں تو ضروری هے که انسان اس کا ڈھائی فیصد جو دو مثقال اور 15 نخود بنتا هے بطور زکوٰۃ دے اور اگر وه اس مقدار تک نه پهنچے تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے اور اس کا دوسرا نصاب 21 مثقال هے یعنی اگر 105 مثقال پر 21 مثقال کا اضافه هو جائے تو ضروری هے که جیسا که بتایا جاچکا هے پورے 166 مثقال پر زکوٰۃ دے اور اگر 21 مثقال سے کم اضافه هو تو ضروری هے که صرف 105 مثقال پر زکوٰۃ دے اور جو اضافه هوا هے اس پر زکوٰۃ نهیں هے اور جتنا بھی اضافه هوتا جائے یهی حکم هے یعنی اگر 21 مثقال کا اضافه هو تو ضروری هے تمامتر مقدار پر زکوٰۃ دے اور اگر اس سے کم اضافه هو تو وه مقدار جس کا اضافه هوا هے اور جو 21 مثقال سے کم هے اس پر زکوٰۃ نهیں هے۔ اس بنا پر انسان کے پاس جتنا سونا یا چاندی هو اگر وه اس کا چالیسواں حصه بطور زکوٰۃ دے تو وه ایسی زکوۃ ادا کرے گا جو اس پر واجب تھی اور اگر وه کسی وقت واجب مقدار سے کچھ زیاده دے مثلاً اگر کسی کے پاس 110 مثقال چاندی هو اور وه اس کا چالیسوں حصه دے تو 105 مثقال کی زکوٰۃ تو وه هوگی جو اس پر واجب تھی اور 5 مثقال پر وه ایسی زکوٰۃ دے گا جو اس پر واجب نه تھی۔

1906۔ جس شخص کے پاس نصاب کے مطابق سونا یا چاندی هو اگرچه وه اس پر زکوۃ دے دے لیکن جب تک اس کے پاس سونا یا چاندی پهلے نصاب سے کم نه هوجائے ضروری هے که هر سال ان پر زکوٰۃ دے۔

1907۔ سونے اور چاندی پر زکوۃ اس صورت میں واجب هوتی هے جب وه ضروری هے ڈھلے هوئے سکوں کی صورت میں هوں اور ان کے ذریعے لین دین کا رواج هو اور اگر ان کی مهر مٹ بھی چکی هو تب بھی ضروری هے که ان زکوۃ دی جائے۔

1907۔ سونے اور چاندی پر زکوٰۃ اس صورت میں واجب هوتی هے جب وه ضروری هے ڈھلے هوئے سکوں کی صورت میں هوں اور ان کے ذریعے لین دین کا رواج هو اور اگر ان کی مهر مٹ بھی چکی هو تب بھی ضروری هے که ان پر زکوٰۃ دی جائے۔

1908۔ وه سکه دار سونا اور چاندی جنهیں عورتیں بطور زیور پهنتی هوں جب تک وه رائج هوں یعنی سونے اور چاندی کے سکوں کے طور پر ان کے ذریعے لین دین هوتا هو احتیاط کی بنا پر ان کی زکوٰۃ دینا واجب هے لیکن اگر ان کے ذریعے لین دین کا رواج باقی نه هو تو ان زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

ص:356

1909۔ جس شخص کے پاس سونا اور چاندی دونوں هون اگر ان میں سے کوئی بھی پهلے نصاب کے برابر نه هو مثلاً اس کے پاس 104 مثقال چاندی اور 14 مثقال سونا هو تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

1910۔جیسا که پهلے بتایا گیا هے سونے اور چاندی پر زکوٰۃ اس صورت میں واجب هوتی هے جب وه گیاره مهینے نصاب کی مقدار کے مطابق کسی شخص کی ملکیت میں رهیں اور اگر گیاره مهینوں میں کسی وقت سونا اور چاندی پهلے نصاب سے کم هوجائیں تو اس شخص زکوۃ واجب نهیں هے۔

1911۔ اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی هو اور وه گیاره مهینے کے دوران انهیں کسی دوسری چیز سے بدل لے یا انهیں پگھلا لے تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔لیکن اگر وه زکوٰۃ سے بچنے کے لئے ان کو سونے یا چاندی سے بدل لے یعنی سونے کو سونے یا چاندی سے یاچاندی کو چاندی یا سونے سے بدل لے تو احتیاط واجب هے که زکوٰۃ دے۔

1912۔ اگر کوئی شخص بارھویں مهینے میں سونا یا چاندی پگھلائے تو ضروری هے که ان پر زکوٰۃ دے اور اگر پگھلانے کی وجه سے ان کا وزن یا قیمت کم هو جائے تو ضروری هے که ان چیزوں کو پگھلانے سے پهلے جو زکوۃ اس پر واجب تھی وه دے۔

1913۔اگر کسی شخص کے پاس جو سونا اور چاندی هو اس میں سے کچھ بڑھیا اور کچھ گھٹیا قسم کا هو تو وه بڑھیا کی زکوۃ بڑھیا میں سے اور گھٹیا کی زکوٰۃ گھٹیا میں سے دے سکتا هے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر وه گھٹیا حصے میں سے تماما زکوٰۃ نهیں دے سکتا بلکه بهتر یه هے که ساری زکوٰۃ بڑھیا سونے اور چاندی میں سے دے۔

1914۔ سونے اور چاندی کے سکے جن میں معمول سے زیاده دوسری دھات کی آمیزش هو اگر انهیں چاندی اور سونے کے سکے کها جاتا هو تو اس صورت میں جب وه نصاب کی حد تک پهنچ جائیں ان پر زکوٰۃ واجب هے گو ان کا خالص حصه نصاب کی حد تک نه پهنچے لیکن اگر انهیں سونے اور چاندی کے سکے نه کها جاتا هو تو خواه ان کا خالص حصه نصاب کی حد تک پهنچ بھی جائے ان پر زکوٰۃ کا واجب هونا محل اشکال هے۔

1915۔ جس شخص کے پاس سونے اور چاندی کے سکے هوں اگر ان میں دوسری دھات کی آمیزش معمول کے مطابق هو تو اگر وه شخص ان کی زکوٰۃ سونے اور چاندی کے ایسے سکوں میں دے جن میں دوسری دھات کی آمیزش معمول سے زیاده هو یا ایسے سکوں میں دے جو سونے اور چاندی کے بنے هوئے نه هوں لیکن یه سکے اتنی مقدار میں هوں که ان قیمت اس زکوٰۃ کی قیمت کے برابر هو جو اس پر واجب هوگئی هے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔

ص:357

اونٹ، گائے بھیڑ، بکری کی زکوٰۃ

1916۔ اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کی زکوٰۃ کے لئے ان شرائط کے علاوه جن کا ذکر آچکا هے ایک شرط اور بھی هے اور وه یه که حیوان سارا سال صرف (خودرو) جنگلی گھاس چرتا رها هو۔ لهذا اگر سارا سال یا اس کا کچھ حصه کاٹی هوئی گھاس کھائے یا ایسی چراگاه میں چرے جو خود اس شخص کی (یعنی حیوان کے مالک کی) یا کسی دوسرے شخص کی ملکیت هو تو اس حیوان پر زکوٰۃ نهیں هے لیکن اگر وه حیوان سال بھر میں ایک یا دودن مالک کی مملوکه گھاس (یاچارا)کھائے تو اس کی زکوٰۃ واجب هے۔ لیکن اونٹ، گائے اور بھیڑ کی زکوٰۃ واجب هونے میں احتیاط کی بنا پر شرط یه نهیں هے که سارا سال حیوان بے کار رهے بلکه اگر آبیاری یاهل چلانے یا ان جسے امور میں ان حیوانوں سے استفاده کیا جائے تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که ان کی زکوٰۃ دے۔

اونٹ کے نصاب

1918۔ اونٹ کی نصاب باره هیں۔

1۔ پانچ اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک بھیڑ هے اور جب تک اونٹوں کی تعداد اس حد تک نه پهنچے، زکوٰۃ (واجب) نهیں هے۔

2۔ دس اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ دو بھیڑیں هیں۔

3۔ پندره اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ تین بھیڑیں هیں۔

4۔ بیس اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ چار بھیڑیں هیں ۔

5۔ پچیس اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ پانچ بھیڑیں هیں۔

6۔ چھبیس اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ هے جو دوسرے سال میں داخل هو چکا هو۔

7۔ چھتیس اونٹ۔اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ هے جو تیسرے سال میں داخل هوچکا هو۔

ص:358

8۔ چھیالیس اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ هے جو چوتھے سال میں داخل هوچکا هو۔

9۔ اکسٹھ اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ هے جو پانچویں سال میں داخل هوچکا هو۔

10۔ چھتر اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ دو ایسے اونٹ هیں جو تیسرے سال میں داخل هوچکے هوں ۔

11۔ اکیانوے اونٹ ۔ اور ان کی زکوٰۃ دو ایسے اونٹ هیں جو چوتھے سال میں داخل هوں۔

12۔ ایک سو اکیس اونٹ اور اس سے اوپر جتنے هوتے جائیں ضروری هے که زکوٰۃ دینے والا یا تو ان کا چالیس سے چالیس تک حساب کرے اور هر چالیس اونٹوں کے لئے ایک اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل هوچکا هو یا چالیس اور پچاس دونوں سے حساب کرے لیکن هر صورت میں اس طرح حساب کرنا ضروری هے که کچھ باقی نه بچے یا اگر بچے بھی تو نو سے زیاده نه هو مثلاً اگر اس کے پاس 140 اونٹ هوں تو ضروری هے که ایک سو لئے دو ایسے اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل هوچکے هوں اور چالیس کے لئے ایک ایسا اونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل هوچکا هو اور جو اونٹ زکوٰۃ میں دیا جائے اس کا ماده هونا ضروری هے۔

1919۔ دو نصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نهیں هے لهذا اگر ایک شخص جو اونٹ رکھتا هو ان کی تعداد پهلے نصاب سے جو پانچ هے، بڑھ جائے تو جب تک وه دوسرے نصاب تک جو دس هے نه پهنچے ضروری هے که فقط پانچ پر زکوٰۃ دے اور باقی نصابوں کی صورت بھی ایسی هی هے۔

گائے کا نصاب

1920۔ گائے کےدو نصاب هیں:

اس کا پهلا نصاب تیس هے۔ جب کسی شخص کی گایوں کی تعداد تیس تک پهنچ جائے اور وه شرائط بھی پوری هوتی هوں جن کا ذکر کیا جاچکا هے تو ضروری هے که گائے کا ایک ایسا بچه جو دوسرے سال میں داخل هوچکا هو زکوٰۃ کے طور پر دے اور احتیاط واجب یه هے که وه بچھڑا هو۔ اور اس کا دوسرا نصاب چالیس هے اور اس کی زکوٰۃ ایک بچھیا هے جو تیسرے سال میں داخل هوچکی هو اور تیس اور چالیس کے درمیان زکوٰۃ واجب نهیں هے۔ مثلاً جس شخص کے پاس انتالیس گائیں هوں ضروری هے که صرف تیس کی زکوٰۃ دے اور اگر اس کے پاس چالیس سے زیاده گائیں هوں تو جب تک ان کی تعداد

ص:359

ساٹھ تک نه پهنچ جائے ضروری هے که صرف چالیس پر زکوٰۃ دے۔ اور جب ان کی تعداد ساٹھ تک پهنچ جائے تو چونکه یه تعداد پهلے نصاب سے دگنی هے اس لئے ضروری هے که دو ایسے بچھڑے بطور زکوٰۃ دے جو دوسرے سال میں داخل هوچکے هوں اور اسی طرح جوں جوں گایوں کی تعداد بڑھتی جائے ضروری هے که یا تو تیس سے تیس تک حساب کرے یا چالیس سے چالیس تک یا تین اور چالیس دونوں کا حساب کرے اور ان پر اس طریقے کے مطابق زکوٰۃ دے جو بتایا گیا هے۔ لیکن ضروری هے که اس طرح حساب کرے که کچھ باقی نه بچے اور اگر کچھ بچے تو نو سے زیاده نه هو مثلا اگر اس کے پاس ستر گائیں هوں تو ضروری هے که تیس اور چالیس کے مطابق حساب کرے اور تیس کے لئے تیس کی اور چالیس کی زکوٰۃ دے کیونکه اگر وه تیس کے لحاظ سے حساب کرے گا تو دس گائیں بغیر زکوٰۃ دیئے ره جائیں گی۔

بھیڑ کا نصاب

1921۔ بھیڑ کے پانچ نصاب هیں۔

پهلا نصاب 40 هے اور اس کی زکوٰۃ ایک بھیڑ هے اور جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس تک نه پهنچے ان پر زکوٰۃ نهیں هے۔

دوسرا نصاب 121 هے اور اس کی زکوٰۃ دو بھیڑیں هیں۔

تیسرا نصاب 201 هے اور اس کی زکوۃ تین بھیڑیں هیں۔

چوتھا نصاب 301 هے اور اس کی زکوٰۃ چار بھیڑیں هیں۔

پانچواں نصاب 400 اور اس سے اوپر هے اور ان کا حساب سو سے سو تک کرنا ضروری هے اور هر سو بھیڑوں پر ایک بھیڑ دی جائے اور یه ضروری نهیں که زکوٰۃ انهی بھیڑوں میں سے دی جائے بلکه اگر کوئی اور بھیڑیں دے دی جائیں یا بھیڑوں کی قیمت کے برابر نقدی دے دی جائے تو کافی هے۔

1922۔ دو نصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نهیں هے لهذا اگر کسی کی بھیڑوں کی تعداد پهلے نصاب سے جو که چالیس هے زیاده هو لیکن دوسرے نصاب تک جو 121 هے نه پهنچی هو تو اسے چاهئے که صرف چالیس پر زکوٰۃ دے اور جو تعداد اس سے زیاده هو اس پر زکوٰۃ نهیں هے اور اس کے بعد کے نصابوں کے لئے بھی یهی حکم هے۔

ص:360

1923۔ اونٹ، گائیں اور بھیڑیں جب نصاب کی حد تک پهنچ جائیں تو خواه وه سب نرهوں یا ماده یا کچھ نر هوں اور کچھ ماده ان پر زکوٰۃ واجب هے۔

1924۔ زکوٰۃ کے ضمن میں گائے اور بھینس ایک جنس شمار هوتی هیں اور عربی میں غیر عربی اونٹ ایک جنس هیں۔ اسی طرح بھیڑ، بکرے اور دنبے میں کوئی فرق نهیں هے۔

1925۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کے طور پر بھیڑ دے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که وه کم از کم دوسرے سال میں داخل هوچکی هو اور اگر بکری دے تو احتیاط ضروری هے که وه تیسرے سال میں داخل هوچکی هو۔

1926۔ جو بھیڑ کوئی شخص زکوٰۃ کے طور پر دے اگر اس کی قیمت اس کی بھیڑوں سے معمولی سی کم بھی هو تو کوئی حرج نهیں لیکن بهتر هے که ایسی بھیڑ دے جس کی قیمت اس کی هر بھیڑ سے زیاده هو۔ نیز گائے اور اونٹ کے بارے میں بھی یهی حکم هے۔

1927۔ اگر کئی افراد باهم حصے دار هوں تو جس جس کا حصه پهلے نصاب تک پهنچ جائے تو ضروری هے که زکوٰۃدے اور جس کا حصه پهلے نصاب سے کم هو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں۔

1928۔ اگر ایک شخص کی گائیں یا اونٹ یا بھیڑیں مختلف جگھوں پر هوں اور وه سب ملا کر نصاب کے برابر هوں تو ضروری هے که ان کی زکوٰۃ دے۔

1929۔ اگر کسی شخص کی گائیں، بھیڑیں یا اونٹ بیمار اور عیب دار هوں تب بھی ضروری هے که ان کی زکوٰۃ دے۔

1930۔ اگر کسی شخص کی ساری گائیں، بھیڑیں یا اونٹ بیمار یا عیب دار یا بوڑھے هوں تو وه خود انهی میں سے زکوٰۃ دے سکتا هے لیکن اگر وه سب تندرست، بے عیب اور جوان هوں تو وه ان کی زکوٰۃ میں بیمار یا عیب دار یا بوڑھے جانور نهیں دے سکتا بلکه اگر ان میں سے بعض تندرست اور بعض بیمار، کچھ عیب دار اور کچھ بے عیب اور کچھ بوڑھے اور کچھ جوان هوں تو احتیاط واجب یه هے که ان کی زکوٰۃ میں تندرست، بے عیب اور جوان جانور دے۔

1931۔ اگر کوئی شخص گیاره مهینے ختم هونے سے پهلے اپنی گائیں، بھیڑیں اور اونٹ کسی دوسری چیز سے بدل لے یا جو نصاب بنتا هو اسے اسی جنس کے اتنے هی نصاب سے بدل لے مثلاً چالیس بھیڑیں دے کر چالیس اور بھیڑیں لے لے تو

ص:361

اگر ایسا کرنا زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے نه هو تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔ لیکن اگر زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے هو تو اس صورت میں جب که دونوں چیزیں ایک هی نوعیت کا فائده رکھتی هوں مثلاً دونوں بھیڑیں دودھ دیتی هوں تو احتیاط لازم یه هے که اس کی زکوٰۃ دے۔

1932۔ جس شخص کو گائے۔ بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ دینی ضروری هو اگر وه ان کی زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے دے دے تو جب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نه هو ضروری هے که هر سال زکوٰۃ دے اور اگر وه زکوٰۃ انهی جانوروں میں سے دے اور وه پهلے نصاب سے کم هو جائیں تو زکوٰۃ اس پر واجب نهیں هے مثلاً جو شخص چالیس بھیڑیں رکھتا هو اگر وه ان کی زکوٰۃ اپنے دوسرے مال سے دے دے تو جب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نه هوں ضروری هے که هر سال ایک بھیڑ دے اور اگر خود ان بھیڑوں میں سے زکوٰۃ دے تو جب تک ان کی تعداد چالیس تک نه پهنچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔

مال تجارت کی زکوٰۃ

جس مال کا انسان معاوضه دے کر مالک هوا هو اور اس نے وه مال تجارت اور فائده حاصل کرنے کے لئے محفوظ رکھا هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که (مندرجه ذیل) چند شرائط کے ساتھ اس کی زکوٰۃ دے جو چالیسوں حصه هے۔

1۔ مالک بالغ اور عاقل هو۔

2۔ مال نصاب کی مقدار تک پهنچ گیا هو اور وه نصاب سونے اور چاندی کے نصاب کے برابر هے۔

3۔ جس وقت سے اس مال سے فائده اٹھانے کی نیت کی هو، اس پر ایک سال گزر جائے

4۔ فائده اٹھانے کی نیت پورے سال باقی رهے۔ پس اگر سال کے دوران اس کی نیت بدل جائے مثلاً اس کو اخراجات کی مد میں صرف کرنے کی نیت کرے تو ضروری نهیں که اس پر زکوٰۃ دے۔

5۔ مالک اس مال میں پورا سال تصرف کر سکتا هو۔

ص:362

6۔ تمام سال اس کے سرمائے کی مقدار یا اس سے زیاده پر خریدار موجود هو۔ پس اگر سال کے کچھ حصے میں سرمائے سے کم تر مال کا خریدار هو تو اس پر زکوٰۃ دینا واجب نهیں هے۔

زکوٰۃ کا مصرف

1933۔ زکوٰۃ کا مال آٹھ مصرف میں خرچ هوسکتا هے۔

1۔ فقیر۔ وه (غریب محتاج)شخص جس کے پاس اپنے اور اپنے اهل و عیال کے لئے سال بھر کے اخراجات نه هوں فقیر هے لیکن جس شخص کے پاس کوئی هنر یا جائداد یا سرمایه هو جس سے وه اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کر سکتا هو وه فقیر نهیں هے۔

2۔ مَسکِین۔ وه شخص جو فقیر سے زیاده تنگدست هو، مسکین هے۔

3۔ وه شخص جو امام عصر علیه السلام یا نائب امام کی جانب سے اس کام پر مامور هو که زکوٰۃ جمع کرے، اس کی نگهداشت کرے، حساب کی جانچ پڑتال کرے اور جمع کیا هوا مال امام علیه السلام یا نائب امام یا فقراء (و مساکین) کو پهنچائے۔

4۔ وه کفار جنهیں زکوٰۃ دی جائے تو وه دین اسلام کی جانب مائل هوں یا جنگ میں یا جنگ کے علاوه مسلمانوں کی مدد کریں۔ اسی طرح وه مسلمان جن کا ایمان ان بعض چیزوں پر جو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم لائے هیں کمزور هو لیکن اگر ان کو زکوٰۃ دی جائے تو ان کے ایمان کی تقویت کا سبب بن جائے یا جو مسلمان (شهنشاه ولایت) امام علی علیه السلام کی ولایت پر ایمان نهیں رکھتے لیکن اگر ان کو زکوٰۃ دی جائے تو وه امیرالمومنین علیه السلام کی ولایت (کبری) کی طرف مائل هوں اور اس پر ایمان لے آئیں۔

5۔ غلاموں کو خرید کر انهیں آزاد کرنا۔ جس کی تفصیل اس کے باب میں بیان هوئی هے۔

6۔ وه مقروض جو اپنا قرض ادا نه کرسکتا هو۔

7۔ فِی سَبِیلِ الله یعنی وه کام جن کا فائده تمام مسلمانوں کو پهنچتا هو مثلاً مسجد بنانا، ایسا مدرسه تعمیر کرنا جهاں دینی تعلیم دی جاتی هو، شهر کی صفائی کرنا نیز سڑکوں کو پخته بنانا اور انهیں چوڑا کرنا اور انھی جیسے دوسرے کام کرنا۔

ص:363

8۔ اِبنُ السَّبِیل یعنی وه مسافر جو سفر میں ناچار هوگیا هو۔

یه وه مدیں هیں جهاں زکوٰۃ خرچ هوتی هے لیکن اقوی کی بنا پر مالک زکوٰۃ کو امام یا نائب امام کی اجازت کے بغیر مد نمبر 3 اور مد نمبر 4 میں خرچ نهیں کر سکتا اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر مد نمبر 7 کا حکم بھی یهی هے اور مذکوره مدوں کے احکام آئنده مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

1934۔ احتیاط واجب یه هے که فقیر اور مسکین اپنے اور اپنے اهل و عیال کے سال بھر کے اخراجات سے زیاده زکوٰۃ نه لے اور اگر اس کے پاس کچھ رقم یا جنس هو تو فقط اتنی زکوٰۃ لے جتنی رقم یا جنس اس کے سال بھر کے اخراجات کے لئے کم پڑتی هو۔

1935۔ جس شخص کے پاس اپنا پورے سال کا خرچ هو اگر وه اس کا کچھ حصه استعمال کر لے اور بعد میں شک کرے که جو کچھ باقی بچا هے وه اس کے سال بھر کے اخراجات کے لئے کافی هے یا نهیں تو وه زکوٰۃ نهیں لے سکتا ۔

1936۔ جس هنرمند یا صاحب جائداد یا تاجر کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے کم هو وه اپنے اخراجات کی کمی پوری کرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتا هے اور لازم نهیں هے که وه اپنے کام کے اوزار یا جائداد یا سرمایه اپنے اخراجات کے مصرف میں لے آئے۔

1937۔ جس فقیر کے پاس اپنے اور اپنے اهل وعیال کے لئے سال بھر کا خرچ نه هو لیکن ایک گھر کا مالک هو جس میں وه رهتا هو یا سواری کی چیز رکھتا هو اور ان کے بغیر گزر بسر نه کرسکتا هو خواه یه صورت اپنے عزت رکھنے کے لئے هی هو وه زکوٰۃ لے سکتا هے اور گھر کے سامان، برتنوں اور گرمی و سردی کے کپڑوں اور جن چیزوں کی اسے ضرورت هو ان کے لئے بھی یهی حکم هے اور جو فقیر یه چیزیں نه رکھتا هو اگر اسے ان کی ضرورت هو تو وه زکوٰۃ میں سے خرید سکتا هے۔

1938۔ جس فقیر کے لئے هنر سیکھنا مشکل نه هو احتیاط واجب کی بنا پر زکوٰۃ پرزندگی بسر نه کرے لیکن جب تک هنر سکیھنے میں مشغول هو زکوٰۃ لے سکتا هے۔

ص:364

1939۔جو شخص پهلے فقیر رها هو اور وه کهتا هو که میں فقیر هوں تو اگرچه اس کے کهنے پر انسان کو اطمینان نه هو پھر بھی اسے زکوٰۃ دے سکتا هے۔ لیکن جس شخص کے بارے میں معلوم نه هو که وه پهلے فقیر رها هے یا نهیں تو احتیاط کی بنا پر جب تک اس کے فقیر هونے کا اطمینان نه هو پھر بھی اسے زکوٰۃ دے سکتا هے۔

1940۔ جو شخص کهے که میں فقیر هوں اور پهلے فقیر نه رها هو اگر اس کے کهنے سے اطمینان نه هوتا هو تو احتیاط واجب یه هے که اسے زکوٰۃ نه دی جائے۔

1941۔ جس شخص پر زکوٰۃ واجب هو اگر کوئی فقیر اس کا مقروض هو تو وه زکوٰۃ دیتے هوئے اپنا قرض اس میں سے وصول کر سکتا هے۔

1941۔ اگر فقیر مر جائے اور اس کا مال اتنا نه هو جتنا اس نے قرضه دینا هو تو قرض خواه قرضے کو زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے بلکه متوفی کا مال اس پر واجب الادا قرضے کے برابر هو اور اس کے ورثا اس کا قرضه ادا نه کریں یا کسی اور وجه سے قرض خواه اپنا قرضه واپس نه لے سکتا هو تب بھی وه اپنا قرضه واپس نه لے سکتا هو تب بھی وه اپنا قرضه زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1943۔ یه ضروری نهیں که کوئی شخص جو چیز فقیر کو بطور زکوٰۃ دے اس کے بارے میں اسے بتائے که یه زکوٰۃ هے بلکه اگر فقیر زکوٰۃ لینے میں خفت محسوس کرتا هو تو مستحب هے که اسے مال تو زکوٰۃ کی نیت سے دیا جائے لیکن اس کا زکوٰۃ هونا اس پر ظاهر نه کیا جائے۔

1944۔ اگر کوئی شخص یه خیال کرتے هوئے کسی کو زکوٰۃ دے که وه فقیر هے اور بعد میں اسے پته چلے که وه فقیر نه تھا یا مسئلے سے ناواقف هونے کی بنا پر کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دے جس کے متعلق اسے علم هو که وه فقیر نهیں هے تو یه کافی نهیں هے لهذا اس نے جو چیز اس شخص کو بطور زکوٰۃ دی تھی اگر وه باقی هو تو ضروری هے که اس شخص سے واپس لے کر مستحق کو دے سکتا هے اور اگر لینے والے کو یه علم نه تھا که وه مال زکوٰۃ هے تو اس سے کچھ نهیں لے سکتا اور انسان کو اپنے مال سے زکوٰۃ کا عوض مستحق کو دینا ضروری هے۔

1945۔جو شخص مقروض هو اور قرضه ادا نه کرسکتا هو اگر اس کے پاس اپنا سال بھر کا خرچ بھی هو تب بھی اپنا قرضه ادا کرنے کے لئے زکوٰۃ لے سکتا هے لیکن ضروری هے که اس نے جو مال بطور قرض لیا هو اسے کسی گناه کے کام میں خرچ نه کیا هو۔

ص:365

1946۔ اگر انسان ایک ایسے شخص کو زکوٰۃ دے جو مقروض هو اور اپنا قرضه ادا نه کرسکتا هو اور بعد میں اسے پته چلے که اس شخص نے جو قرضه لیا تھا وه گناه کے کام پر خرچ کیا تھا تو اگر وه مقروض فقیر هو تو انسان نے جو کچھ اسے دیا هوا اسے سَهم فقراء میں شمار کر سکتا هے۔

1947۔ جو شخص مقروض هو اور اپنا قرضه ادا نه کرسکتا هو اگرچه وه فقیر نه هو تب بھی قرض خواه قرضے کو جو اسے مقروض سے وصول کرنا هے زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1948۔ جس مسافر کا زاد راه ختم هو جائے یا اس کی سواری قابل استعمال نه رهے اگر اس کا سفر گناه کی غرض سے نه هو اور وه قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر منزل مقصود تک نه پهنچ سکتا هو تو اگرچه وه اپنے سفر کے اخراجات حاصل کر سکتا هو تو وه فقط اتنی مقدار میں زکوٰۃ لے سکتا هے جس کے ذریعے وه اپنی منزل تک پهنچ جائے۔

1949۔جو مسافر سفر میں ناچار هوجائے اور زکوٰۃ لے اگر اس کے وطن پهنچ جانے کے بعد زکوٰۃ میں سے کچھ بچ جائے اسے زکوٰۃ دینے والے کو واپس نه پهنچا سکتا هو تو ضروری هے که وه زائد مال حاکم شرع کو پهنچا دے اور اسے بتا دے که یه مال زکوٰۃ هے۔

مُستحِقّینِ زکوٰۃ کی شرائط

1950۔(مال کا) مالک جس شخص کو اپنی زکوٰۃ دینا چاهتا هو ضروری هے که وه شیعه اثنا عشری هو۔ اگر انسان کسی کو شیعه سمجھتے هوئے زکوٰۃ دے دے اور بعد میں پته چلے که وه شیعه نه تھا تو ضروری هے که دوباره زکوٰۃ دے۔

1951۔ اگر کوئی شیعه بچه یا دیوانه فقیر هو تو انسان اس کے سرپرست کو اس نیت سے زکوٰۃ دے سکتا هے که وه جو کچھ دے رها هے وه بچے یا دیوانے کی ملکیت هوگی۔

1952۔ اگر انسان بچے یا دیوانے کے سرپرست تک نه پهنچ سکے تو وه خود یا کسی امانت دار شخص کے ذریعے زکوٰۃ کا مال ان پر خرچ کرسکتا هے اور جب زکوٰۃ ان لوگوں پر خرچ کی جارهی هو تو ضروری هے که زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ کی نیت کرے۔

ص:366

1953۔ جو فقیر بھیک مانگتا هو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی هے لیکن جو شخص مال زکوٰۃ گناه کے کام پر خرچ کرتا هو ضروری هے که اسے زکوٰۃ نه دے جائے بلکه احتیاط یه هے که وه شخص جسے زکوٰۃ دینا گناه کی طرف مائل کرنے کا سبب هو اگرچه وه اسے گناه کے کام میں خرچ نه بھی کرے اس زکوٰۃ نه دی جائے۔

1954۔جو شخص شراب پیتا هو یا نماز نه پڑھتا هو اور اسی طرح جو شخص کُھلّم کُھلاّ گناه کبیره کا مرتکب هوتا هو تو احیتاط واجب یه هے که اسے زکوٰۃ نه دی جائے۔

1955۔جو شخص مقروض هو اور اپنا قرضه ادا نه کر سکتا هو اس کا قرضه زکوٰۃ سے دیا جاسکتا هے خواه اس شخص کے اخراجات زکوٰۃ دینے والے پر هی واجب کیوں نه هوں۔

1956۔ انسان ان لوگوں کے اخراجات جن کی کفالت اس پر واجب هو۔ مثلاً اولاد کے اخراجات ۔ زکوٰۃ سے ادا نهیں کرسکتا لیکن اگر وه خود اولاد کا خرچه نه دے تو دوسرے لوگ انهیں زکوٰۃ دے سکتے هیں۔

1957۔اگر انسان اپنے بیٹے کو زکوٰۃ اس لئے دے تاکه وه اسے اپنی بیوی اور نوکر اور نوکرانی پر خرچ کرے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔

1958۔باپ اپنے بیٹے کو سَهم "فیِ سَبِیلِ الله" میں سے علمی اور دینی کتابیں جن کی بیٹے کی ضرورت هو خرید کر نهیں دے سکتا۔ لیکن اگر رفاه عامه کے لئے ان کتابوں کی ضرورت هو تو احتیاط کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

1959۔جو باپ بیٹے کی شادی کی استطاعت نه رکھتا هو وه بیٹے کی شادی کے لئے زکوٰۃ میں سے خرچ کر سکتا هے اور بیٹا بھی باپ کے لئے ایسا هی کرسکتا هے۔

1960۔ کسی ایسی عورت کو زکوٰۃ نهیں دی جاسکتی جس کا شوهر اسے خرچ دیتا هو اور ایسی عورت جسے اس کا شوهر خرچ نه دیتا هو لیکن جو حاکم شرع سے رجوع کرکے شوهر کو خرچ دینے پر مجبور کر سکتی هو اسے زکوٰۃ نه دی جائے۔

1961۔ جس عورت نے مُتعَه کیا هو اگر وه فقیر هو تو اس کا شوهر اور دوسرے هیں۔ هاں اگر عَقد کے که موقع پر شوهر نے یه شرط قبول کی هو که س کا خرچ دے گا یا کسی اور وجه سے اس کا خرچ دینا شوهر پر واجب هو اور وه اس عورت کے اخراجات دیتا هو تو اس عورت کو زکوٰۃ نهیں دی جاسکتی۔

ص:367

1962۔ عورت اپنے فقیر شوهر کو زکوٰۃ دے سکتی هے خواه شوهر وه زکوٰۃ اس عورت پر هی کیوں نه خرچ کرے۔

1963۔سید غیر سید سے زکوٰۃ نهیں لے سکتا لیکن اگر خمس اور دوسرے ذرائع آمدنی اس کے اخراجات کے لئے کافی نه هوں اور غیر سید سے زکوٰۃ لینے پر مجبور هو تو اس سے زکوٰۃ لے سکتا هے۔

1924۔ جس شخص کے بارے میں معلوم نه هو که سید هے یا غیر سید، اسے زکوٰۃ دی جاسکتی هے۔

زکوٰۃ کی نیت

1965۔ ضروری هے که انسان به قصد قربت یعنی الله تبارک و تعالی کی خوشنودی کی نیت سے زکوٰۃ دے اور اپنی نیت میں معین کرے که جو کچھ دے رها هے وه مال کی زکوٰۃ هے یا زکوٰۃ فطره هے بلکه مثال کے طور پر اگر گیهوں اور جَو کی زکوٰۃ اس پر واجب هو اور وه کچھ رقم زکوٰۃ کے طور پر دینا چاهے تو اس کے لئے یه ضروری هے که وه معیں کرے که گیهوں کی زکوٰۃ دے رها هے یا جَو کی۔

1966۔اگر کسی شخص پر متعد چیزوں کی زکوٰۃ واجب هو اور وه زکوٰۃ میں کوئی چیز دے لیکن کسی بھی چیز کی "نیت نه کرے" تو جو چیز اس نے زکوٰۃ میں دی هے اگر اس کی جنس وهی هو جو ان چیزوں میں سے کسی ایک کی هے تو وه اسی جنس کی زکوٰۃ شمار هوگی۔ فرض کریں که کسی شخص پر چالیس بھیڑوں اور پندره مثقال سونے کی زکوۃ واجب هے اگر وه مثلاً ایک بھیڑ زکوٰۃ میں دے اور ان چیزوں میں سے (که جن پر زکوٰۃ واجب هے) کسی کی بھی "نیت" نه کرے تو وه بھیڑوں کی زکوٰۃ شمار هوگی۔ لیکن اگر وه چاندی کے سکے یا کرنسی نوٹ دے جو ان (چیزوں) کے هم جنس نهیں هے تو بعض (علماء) کے بقول وه (سکے یا نوٹ) ان تمام (چیزوں) پر حساب سے بانٹ دیئے جائیں لیکن یه بات اشکال سے خالی نهیں هے بلکه احتمال یه هے که وه ان چیزوں میں سے کسی کی بھی (زکوٰۃ ) شمار نه هونگے اور (نیت نه کرنے تک) مالک مال کی ملکیت رهیں گے۔

1967۔ اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ (مستحق تک) پهنچانے کے لئے کسی کو وکیل بنائے تو جب وه مال زکوٰۃ وکیل کے حوالے کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که نیت کرے که جو کچھ اس کا وکیل بعد میں فقیر کو دے گا وه زکوٰۃ هے اور اَحوطَ یه هے که زکوٰۃ فقیر تک پهنچے کے وقت تک پهنچنے کےوقت تک وه اس نیت پر قائم رهے۔

ص:368

1968۔ اگر کوئی شخص مال زکوٰۃ قصد قربت کے بغیر زکوٰۃ کی نیت سے حاکم شرع یا فقیر کو دے دے تو اقوی کی بنا پر وه مال زکوٰۃ میں شمار هوگا اگرچه اس نے قصد قربت کے بغیر ادا کرکے گناه کیا هے۔

زکوٰۃ کے مُتَفَرِّق مَسائِل

1969۔ احتیاط کی بنا پر ضروری هے که انسان گیهوں اور جَو کو بھوسے سے الگ کرنے کے موقع پر اور کھجور اور انگور کے خشک هونے کے وقت زکوٰۃ فقیر کو دے دے یا اپنے مال سے علیحده کر دے۔ اور ضروری هے که سونے، چاندی، گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ گیاره مهینے ختم هونے کے بعد فقیر کو دے یا اپنے مال سے علیحده کر دے لیکن اگر وه شخص کسی خاص فقیر کا منتظر هو یا کسی ایسے فقیر کو زکوٰۃ دینا چاهتا هو جو کسی لحاظ سے (دوسرے پر) برتری رکھتا هو تو وه یه کر سکتا هے که زکوٰۃ علیحده نه کرے۔

1970۔ زکوٰۃ علیحده کرنے کے بعد ایک شخص کے لئے لازم نهیں که اسے فوراً مستحق شخص کو دے دے۔ لیکن اگر کسی ایسے شخص تک اس کی رسائی هو، جسے زکوٰۃ دی جاسکتی هو تو احتیاط مستحب یه هے که زکوٰۃ دینے میں تاخیر نه کرے۔

1971۔ جو شخص زکوٰۃ مستحق شخص کو پهنچا سکتا هو اگر وه اسے زکوٰۃ نه پهنچائے اور اس کے کوتاهی برتنے کی وجه سے مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

1972۔ جو شخص زکوٰۃ مستحق تک پهنچا سکتا هو اگر وه اسے زکوٰۃ پهنچائے اور مال زکوٰۃ حفاظت کرنے کے باوجود تلف هوجائے تو زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کی کوئی صحیح وجه نه هو تو ضروری هے که اس کا عِوض دے لیکن اگر تاخیر کرنے کی کوئی صحیح وجه تھی مثلاً ایک خاص فقیر اس کی نظر میں تھا یا تھوڑا تھوڑا کر کے فقراء کو دینا چاهتا تھا تو اس کا ضامن هونا معلوم نهیں هے۔

1973۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ (عین اسی ) مال سے ادا کر دے تو وه باقیمانده مال میں تصرف کر سکتا هے اور اگر وه زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے ادا کر دے تو اس پورے مال میں تصرف کرسکتا هے۔

1974۔ انسان نے جو مال زکوٰۃ علیحده کیا هو اسے اپنے لئے اٹھا کر اس کی جگه کوئی دوسری چیز نهیں رکھ سکتا۔

ص:369

1975۔ اگر اس مال زکوٰۃ سے جو کسی شخص نے علیحده کر دیا هو کوئی منفعت حاصل هو مثلاً جو بھیڑ بطور زکوٰۃ علیحده کی هو وه بچه جنے تو وه منفعت فقیر کا مال هے۔

1976۔ جب کوئی شخص مال زکوٰۃ علیحده کر رها هو اگر اس وقت کوئی مستحق موجود هو تو بهتر هے که زکوٰۃ اسے دے دے بجز اس صورت کے که کوئی ایسا شخص اس کی نظر میں هو جسے زکوٰۃ دینا کسی وجه سے بهتر هو۔

1977۔ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس مال سے کاروبار کرے جو اس نے زکوٰۃ کے لئے علیحده کر دیا هو اور اس میں خساره هو جائے تو اس زکوٰۃ میں کوئی کمی نهیں کرنی چاهئے لیکن اگر منافع هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که مستحق کو دے دے۔

1978۔ اگر کوئی شخص اس سے پهلے که زکوٰۃ اس پر واجب هو کوئی چیز بطور زکوٰۃ فقیر کو دے دے تو وه زکوٰۃ میں شمار نهیں هوگی اور اگر اس پر زکوٰۃ واجب هونے کے بعد وه چیز جو اس نے فقیر کو دی تھی تلف نه هوئی هو اور فقیر ابھی تک فقیری میں مبتلا هو تو زکوٰۃ دینے والا اس چیز کو جو اس نے فقیر کو دی تھی زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1979۔ اگر فقیر یه جانتے هوئے که زکوٰۃ ایک شخص پر واجب نهیں هوئی اس سے کوئی چیز بطور زکوٰۃ کے لے لے اور وه چیز فقیر کی تحویل میں تلف هو جائے تو فقیر اس کا ذمه دار هے اور جب زکوٰۃ اس شخص پر واجب هو جائے اور فقیر اس وقت تک تنگدست هو تو جو چیز اس شخص نے فقیر کو دی تھی اس کا عوض زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1980۔ اگر کوئی فقیر یه نه جانتے هوئے که زکوٰۃ ایک شخص پر واجب هوئی اس سے کوئی چیز بطور زکوٰۃ لے لے اور وه چیز فقیر کی تحویل میں تلف هوجائے تو فقیر ذمے دار نهیں اور دینے والا شخص اس چیز کا عوض زکوۃ میں شمار نهیں کر سکتا ۔

1981۔ مستحب هے که گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوۃ آبرومند فقرا (سفید پوش غریب غربا) کو دی جائے اور زکوٰۃ دینے میں اپنے رشته داروں کو دوسروں پر اور اهل علم کو بے علم لوگوں پر اور جو لوگ هاتھ نه پھیلاتے هوں ان کو منگتوں پر ترجیح دی جائے۔ هاں اگر فقیر کو کسی اور وجه سے زکوٰۃ دینا بهتر هو تو پھر مستحب هے که زکوٰۃ اس کو دی جائے۔

1982۔ بهتر هے که زکوٰۃ علانیه دی جائے اور مستحب صدقه پوشیده طور پر دیا جائے۔

ص:370

1983۔جو شخص زکوۃ دینا چاهتا هو اگر اس کے شهر میں کوئی مستحق نه هو اور وه زکوٰۃ اس کے لئے مُعَیّن مَد میں بھی صرف نه کرسکتا هو تو اگر اسے امید نه هو که بعد میں کوئی مستحق شخص اپنے شهر میں مل جائے گا تو ضروری هے که زکوٰۃ دوسرے شهر لے جائے اور زکوٰۃ کی مُعیّن مد میں صرف کرے اور اس شهر میں لے جانے کے اخراجات حاکم شرع کی اجازت سے مال زکوٰۃ میں سے لے سکتا هے اور اگر مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو وه ذمے دار نهیں هے۔

1984۔ اگر زکوٰۃ دینے والے کو اپنے شهر میں کوئی مستحق مل جائے تب بھی وه مال زکوٰۃ دوسرے شهر لے جاسکتا هے لیکن ضروری هے که اس شهر میں لے جانے کے اخراجات خود برداشت کرے اور اگر مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو وه خود ذمے دار هے بجز اس صورت کے که مال زکوٰۃ دوسرے شهر میں حاکم شرع کے حکم سے لے گیا هو۔

1985۔ جو شخص گیهوں، جَو، کشمش اور کھجور بطور زکوٰۃ دے رها هو، ان اجناس کے ناپ تول کی اجرت اس کی اپنی ذمے داری هے۔

1986۔ جس شخص کو زکوٰۃ میں 2 مثقال اور 15 نخود یا اس سے زیاده چاندی دینی هو وه احتیاط مستحب کی بنا پر 2 مثقال اور 15 نخود کم چاندی کسی فقیر کو نه دے نیز اگر چاندی کے علاوه کوئی دوسری چیز مثلا گیهوں اور جو دینے هوں اور ان کی قیمت 2 مثقال اور 15 نخود چاندی تک پهنچ جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر وه ایک فقیر کو اس سے کم نه دے۔

1987۔ انسان کے لئے مکروه هے که مستحق سے درخواست کرے که جو زکوٰۃ اس نے اس سے لی هے اسی کے هاتھ فروخت کردے لیکن اگر مستحق نے جو چیز بطور زکوٰۃ لی هے اسے بیچنا چاهے تو جب اس کی قیمت طے هو جائے تو جس شخص نے مستحق کو زکوٰۃ دی هو اس چیز کو خریدنے کے لئے اس کا حق دوسروں پر فائق هے۔

1988۔ اگر کسی شخص کو شک هو که جو زکوٰۃ اس پر واجب هوئی تھی وه اس نے دی هے یا نهیں اور جس مال میں زکوٰۃ واجب هوئی تھی وه بھی موجود هو تو ضروری هے که زکوٰۃ دے خواه اس کا شک گزشته سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق هی کیوں نه هو۔ اور (جس مال میں زکوٰۃ واجب هوئی تھی) اگر وه ضائع هو چکا هو تو اگرچه اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق هی شک کیوں نه هو اس پر زکوٰۃ نهیں هے۔

1989۔فقیر یه نهیں کر سکتا که زکوٰۃ لینے سے پهلے اس کی مقدار سے کم مقدار پر سمجھوته کر لے یا کسی چیز کو اس کی قیمت سے زیاده قمیت پر بطور زکوٰۃ قبل کرے اور اسی طرح مالک بھی یه نهیں کر سکتا که مستحق کو اس شرط پر زکوٰۃ دے که وه

ص:371

مستحق اسے واپس کر دے گا لیکن اگر مستحق زکوٰۃ لینے کے بعد راضی هو جائے اور اس زکوٰۃ کو اسے واپس کر دے تو کوئی حرج نهیں مثلاً کسی شخص پر بهت زیاده زکوٰۃ واجب هو اور فقیر هو جانے کی وجه سے وه زکوٰۃ ادا نه کرسکتا هو اور اس نے توبه کرلی هو تو اگر فقیر راضی هوجائے که اس سے زکوٰۃ لے کر پھر اسے بخش دے تو کوئی حرج نهیں ۔

1990۔انسان قرآن مجید، دینی کتابیں یا دعا کی کتابیں سَهم فیِ سَبِیلِ الله سے خرید کر وقف نهیں کرسکتا۔ لیکن اگر رفاه عامه کے لئے ان چیزوں کی ضرورت هو تو احتیاط لازم کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

1991۔ انسان مال زکوٰۃ سے جائداد خرید کر اپنی اولاد یا ان لوگوں کو وقف نهیں کر سکتا جن کا خرچ اس پر واجب هو تاکه وه اس جائداد کی منفعت اپنے مصرف میں لے آئیں۔

1992۔ حج اور زیارات وغیره پر جانے کے لئے انسان فِی سَبِیلِ الله کے حصے سے زکوٰۃ لے سکتاهے اگرچه وه فقیر نه هو یا اپنے سال بھر کے اخراجات کے لئے زکوٰۃ لے چکا هو لیکن یه اس صورت میں هے جب که اس کا حج اور زیارات وغیره کے لئے جانا لوگوں کے مفاد میں هو اور احیتاط کی بنا پر ایسے کاموں میں زکوٰۃ خرچ کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

1993۔اگر ایک مالک اپنے مال کی زکوٰۃ دینے کے لئے کسی فقیر کو وکیل بنائے اور فقیر کو یه احتمال هو که مالک کا اراده یه تھا که وه خود (یعنی فقیر) اس مال سے کچھ نه لے تو اس صورت میں وه کوئی چیز اس میں سے اپنے لئے نهیں لے سکتا اور اگر فقیر کو یه یقین هو که مالک کا اراده یه نهیں تھا تو وه اپنے لئے بھی لے سکتا هے۔

1994۔ اگر کوئی فقیر اونٹ، گائیں، بھیڑیں، سونا اور چاندی بطور زکوٰۃ حاصل کرے اور ان میں وه سب شرائط موجود هوں جو زکوٰۃ واجب هونے کے لئے بیان کی گئی هیں ضروری هے که فقیران پر زکوٰۃ دے۔

1995۔ اگر دو اشخاص ایک ایسے مال میں حصه دار هوں جس کی زکوٰۃ واجب هوچکی هو اور ان میں سے ایک اپنے حصے کی زکوٰۃ دے دے اور بعد میں وه مال تقسیم کرلیں (اور جو شخص زکوٰۃ دے چکا هے) اگرچه اسے علم هو که اس کے ساتھی نے اپنےحصے کی زکوٰۃ نهیں دی اور نه هی بعد میں دے گا تو اس کا اپنے حصے میں تصرف کرنا اشکال نهیں رکھتا۔

ص:372

1996۔ اگر خمس اور زکوٰۃ کسی شخص کے ذمے واجب هو اور کفار اور منت وغیره بھی اس پر واجب هو اور وه مقروض بھی هو اور ان سب کی ادائیگی نه کرسکتا هو تو اگر وه مال جس پر خمس یا زکوٰۃ واجب هوچکی هو تلف نه هوگیا هو تو ضروری هے که خمس اور زکوٰۃ دے اور اگر وه مال تلف هوگیا هو تو کفارے اور نذر سے پهلے زکوٰۃ، خمس اور قرض ادا کرے۔

1997۔جس شخص کے ذمے خمس یا زکوٰۃ هو اور حج بھی اس پر واجب هو اور وه مقروض بھی هو اگر وه مرجائے اور اس کا مال ان تمام چیزوں کے لئے کافی نه هو اور اگر وه مال جس پر خمس اور زکوٰۃ واجب هوچکے هوں تلف نه هوگیا هو تو ضروری هے که خمس یا زکوٰۃ ادا کی جائے اور اس کا باقی مانده مال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے۔ اور اگر وه مال جس پر خمس اور زکوٰۃ واجب هوچکی هو تلف هوگیا هو تو ضروری هے که اس کا مال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے اور اس صورت میں اگر کچھ بچ جائے تو حج کیا جائے اور اگر زیاده بچا هو تو سے خمس اور زکوٰۃ پر تقسیم کر دیا جائے۔

1998۔ جو شخص علم حاصل کرنے میں مشغول هو وه جس وقت علم حاصل نه کرے اس وقت اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرسکتا هے۔ اگر اس علم حاصل کرنا واجب عینی هو تو فقراء کے حصے سے اس کو زکوٰۃ دے سکتے هیں اور اگر اس علم کا حاصل کرنا عوامی بهبود کے لئے هو تو فِی سَبِیلِ الله کی مَد سے احتیاط کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے اس کو زکوٰۃ دینا جائز هے۔ اور ان دو صورتوں کے علاوه اس کو زکوٰۃ دینا جائز نهیں هے۔

زکوٰۃِ فِطره

1999۔ عید الفطر کی (چاند) رات غروب آفتاب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل هو اور نه تو فقیر هو نه هی کسی دوسرے کا غلام هو ضروری هے که اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے هاں کھانا کھاتے هوں فی کس ایک صاع جس کے بارے میں کها جاتا هے که تقریباً تین کلو هوتا هے ان غذاوں میں سے جو اس کے شهر (یا علاقے) میں استعمال هوتی هوں مثلاً گیهوں یا جَو یا کھجور یا کشمش یا چاول یا جوار مستحق شخص کو دے اور اگر ان کے بجائے ان کی قیمت نقدی کی شکل میں دے تب بھی کافی هے۔ اور احتیاط لازم یه هے که جو غذا اس کے شهر میں عام طور پر استعمال نه هوتی هو چاهے وه گیهوں، جَو، کھجور یا کشمش هو، نه دے۔

2000۔ جس شخص کے پاس اپنے اور اپنے اهل و عیال کے لئے سال بھر کا خرچ نه هو اور اس کا کوئی روزگار بھی نه هو جس کے ذریعے وه اپنے اهل و عیال کا سال بھر کا خرچ پورا کرسکے وه فقیر هے اور اس پر فطره دینا واجب نهیں هے۔

ص:373

2001۔ جو لوگ عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی شخص کے هاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری هے که وه شخص ان کا فطره دے، قطع نظر اس سے که وه چھوٹے هوں یا بڑے مسلمان هوں یا کافر، ان کا خرچه اس پر واجب هو یا نه هو اور وه اس کے شهر میں هوں یا کسی دوسرے شهر میں هوں۔

2002۔ اگر کوئی شخص ایک ایسے شخص کو جو اس کے هاں کھانا کھانے والا گردانا جائے، اسے دوسرے شهر میں نمائنده مقرر کرے که اس کے (یعنی صاحب خانه کے) مال سے اپنا فطره دے دے اور اسے اطمینان هو که وه شخص فطره دے دے گا تو خود صاحب خانه کے لئے اس کا فطره دینا ضروری نهیں۔

2003۔ جو مهمان عیدالفطر کی رات غروب سے پهلے صاحب خانه کی رضامندی کے بغیر اس کے گھر آئے اور اس کے هاں کھانا کھانے والوں میں اگرچه وقتی طور پر شمار هو اس کا فطره صاحب خانه پر واجب هے۔

2004۔ جو مهمان عیدالفطر کی رات غروب پهلے صاحب خانه کی رضامندی کے بغیر اس کے گھر آئے اور کچھ مدت صاحب کا خرچه دینے پر مجبور کیا گیا هو تو اس کے فطرے کے لئے بھی یهی حکم هے۔

2005۔ جو مهمان عیدالفطر کی رات غروب کے بعد وارد هو اگر وه صاحب خانه کے هاں کھانا کھانے والا شمار هو تو اس کا فطره صاحب خانه پر احتیاط کی بنا پر واجب هے اور اگر کھانا کھانے والا شمار نه هو تو واجب نهیں هے خواه صاحب خانه نے اسے غروب سے پهلے دعوت دی هو اور وه افطار بھی صاحب خانه کے گھر پر هی کرے۔

2006۔ اگر کوئی شخص عیدالفطر کی رات غروب کے وقت دیوانه هو اور اس کی دیوانگی عیدالفطر کے دن ظهر کے وقت تک باقی رهے تو اس پر فطره واجب نهیں هے ورنه احتیاط واجب کی بنا پر لازم هے که فطره دے۔

2007۔ غروب آفتاب سے پهلے اگر کوئی بچه بالغ هو جائے یا کوئی دیوانه عاقل هوجائے یا کوئی فقیر غنی هوجائےتو اگر وه فطره واجب هونے کی شرائط پوری کرتا هو تو ضروری هے که فطره دے۔

2008۔ جس شخص پر عیدالفطر کی رات غروب کے وقت فطره واجب نه هو اگر عید کے دن ظهر کے وقت سے پهلے تک فطره واجب هونے کی شرائط اس میں موجود هو جائیں تو احتیاط واجب یه هے که فطره دے۔

ص:374

2009۔ اگر کوئی کافر عیدالفطر کی رات غروب آفتاب کے بعد مسلمان هو جائے تو اس پر فطره واجب نهیں هے لیکن اگر ایک ایسا مسلمان جو شیعه نه هو وه عید کا چاند دیکھنے کے بعد شیعه هو جائے تو ضروری هے که فطره دے۔

2010۔جس شخص کے پاس صرف اندازاً ایک صاع گیهوں یا اسی جیسی کوئی جنس هو اس کے لئے مستحب هے که فطره دے اور اگر اس کے اهل و عیال بھی هوں اور وه ان کا فطره بھی دینا چاهتا هو تو وه ایسا کر سکتا هے که فطرے کی نیت سے ایک صاع گیهوں وغیره اپنے اهل و عیال میں سے کسی ایک و دے دے اور وه بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے اور وه اسی طرح دیتے رهیں حتی که وه جنس خاندان کے آخری فرد تک پهنچ جائے اور بهتر هے که جو چیز آخری فرد کو ملے وه کسی ایسے شخص کو دے جو خود ان لوگوں میں سے نه هو جنهوں نے فطره ایک دوسرے کو دیا هے اور اگر ان لوگوں میں سے کوئی نابالغ هو تو اس کا سرپرست اس کی بجائے فطره لے سکتا هے اور احتیاط یه هے که جو چیز نابالغ کے لئے لی جائے وه کسی دوسرے کونه دی جائے۔

2011۔ اگر عید الفطر کی رات غروب کے بعد کسی کے هاں بچه پیدا هو تو اس کا فطره دینا واجب نهیں هے لیکن احتیاط واجب یه هے که جو اشخاص غروب کے بعد سے عید کے دن ظهر سے پهلے تک صاحب خانه کے هاں کھانا کھانے والوں میں سمجھے جائیں وه ان سب کا فطره دے۔

2012۔ اگر کوئی شخص کسی کے هاں کھانا کھاتا هو اور غروب سے پهلے کسی دوسرے کے هان کھانا کھانے والا هوجائے تو اس کا فطره اسی شخص پر واجب هے جس کے هاں وه کھانا کھانے والا بن جائے مثلاً اگر عورت غروب سے پهلے شوهر کے گھر چلی جائے تو ضروری هے که شوهر اس کا فطره دے۔

2013۔ جس شخص کا فطره کسی دوسرے شخص پر واجب هو اس پر اپنا فطره خود دینا واجب نهیں هے۔

2014۔جس شخص کا فطره کسی دوسرے شخص پر واجب هو اگر وه نه دے تو احتیاط کی بنا پر فطه خود اس شخص پر فطره واجب هوجاتا هے۔ جو شرائط مسئله 1999 میں بیان هوئی هیں اگر وه موجود هوں تو اپنا فطره خود ادا کرے ۔

2015۔ جس شخص کا فطره کسی دوسرے شخص پر واجب هو اگر وه خود اپنا فطره دے دے تو جس شخص پر اس کا فطره واجب هو اس پر سے اس کی ادائیگی کا وجوب ساقط نهیں هوتا۔

ص:375

2016۔ جس عورت کا شوهر اس کو خرچ نه دیتا هو اگر وه کسی دوسرے کے هاں کھانا کھاتی هو تو اس کا فطره اس شخص پر واجب هے جس کے هاں وه کھانا کھاتی هے اور اگر وه کسی کے هاں کھانا نه کھاتی هو اور فقیر بھی نه هو تو ضروری هے که اپنا فطره خود دے۔

2017۔ غیر سَیِّد، سَیِّد کو فطره نهیں دے سکتا حتی که اگر سید اس کے هاں کھانا کھاتا هو تب بھی اس کا فطره وه کسی دوسرے سید کو نهیں دے سکتا۔

2018۔ جو بچه ماں یا دایه کا دودھ پیتا هو اس کا فطره اس شخص پر واجب هے جو ماں یا دایه کے اخراجات برداشت کرتا هو لیکن اگر ماں یا دایه کا خرچ خود بچے کے مال سے پورا هو تو بچے کا فطره کسی پر واجب نهیں هے۔

2019۔انسان اگرچه اپنے اهل و عیال کا خرچ حرام مال سے دیتا هو، ضروری هے که ان کا فطره حلال مال سے دے۔

2020۔ اگر انسان کسی شخص کو اجرت پر رکھے جیسے مستری، بڑھئی یا خدمت گار اور اس کا خرچ اس طرح دے که وه اس کا کھانا کھانے والوں میں شمار هو تو ضروری هے که اس کا فطره بھی دے۔ لیکن اگر اسے صرف کام کی مزدوری دے تو اس (اجیر) کا فطره ادا کرنا اس پر واجب نهیں هے۔

2021۔ اگر کوئی شخص عیدالفطر کی رات غروب سے پهلے فوت هو جائے تو اس کا اور اس کے اهل و عیال کا فطره اس کے مال سے دینا واجب نهیں۔ لیکن اگر غروب کے بعد فوت هو تو مشهور قول کی بنا پر ضروری هے که اس کا اور اس کے اهل و عیال کا فطره اس کے مال سےدیا جائے۔ لیکن یه حکم اشکال سے خالی نهیں هے۔ اور اس مسئلے میں احتیاط کے پهلو کو ترک نهیں کرنا چاهئے۔

زکوٰۃ فِطره کا مصرف

2022۔ فطره احیتاط واجب کی بنا پر فقط ان شیعه اثنا عشری فقراء کو دینا ضروری هے، جو ان شرائط پر پورے اترتے هوں جن کا ذکر زکوٰۃ کے مستحقین میں هوچکا هے۔ اور اگر شهر میں شیعه اثنا عشری فقراء نه ملیں تو دوسرے مسلمان فقراء کو فطره دے سکتا هے لیکن ضروری هے که کسی بھی صورت میں "ناصبی" کو نه دیاجائے۔

ص:376

2023۔ اگر کوئی شیعه بچه فقیر هو تو انسان یه کر سکتا هے که فطره اس پر خرچ کرے یا اس کے سرپرست کو دے کر اسے بچے کی ملکیت قرار دے۔

2024۔ جس فقیر کو فطره دیا جائے ضروری نهیں که وه عادل هو لیکن احتیاط واجب یه هے که شرابی اور بے نمازی کو اور اس شخص کو جو کھلم کھلا گناه کرتا هو فطره نه دیا جائے۔

2025۔ جو شخس فطره ناجائز کاموں میں خرچ کرتا هو ضروری هےکه اسے فطره نه دیا جائے

2026۔ احتیاط مستحب یه هے که ایک فقیر کو ایک صاع سے کم فطره نه دیا جائے۔ البته اگر ایک صاع سے زیاده دیا جائے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2027۔ جب کسی جنس کی قیمت اسی جنس کی معمولی قسم سے دگنی هو مثلاً کسی گیهوں کی قیمت معمولی قسم کی گیهوں کی قیمت سے دو چند هو تو اگر کوئی شخص اس (بڑھیا جنس) کا آدھا صاع بطور فطره دے تو یه کافی نهیں هے بلکه اگر وه آدھا صاع فطره کی قیمت کی نیت سےبھی دے تو بھی کافی نهیں هے۔

2029۔ انسان کے لئے مستحب هے که زکوٰۃ دینے میں اپنے فقیر رشتے داروں اور همسایوں کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دے۔ اور بهتر یه هے که اهل علم و فضل اور دیندار لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دے۔

2030۔اگر انسان یه خیال کرتے هوئے که ایک شخص فقیر هے اسے فطره دے اور بعد میں معلوم هو که وه فقیر نه تھا تو اگر اس نے جو مال فقیر کو دیا تھا وه ختم نه هوگیا هو تو ضروری هے که واپس لے لے اور مستحق کو دے دے اور اگر واپس نه لے سکتا هو تو ضروری هے که خود اپنےمال سے فطرے کا عوض دے اور اگر وه مال ختم هوگیا هو لیکن لینے والے کو علم هو که جو کچھ اس نے لیا هے وه فطره هے تو ضروری هے که اس کا عوض دے اور اگر اسے یه علم نه هو تو عوض دینا اس پر واجب نهیں هے اور ضروری هے که انسان فطرے کا عوض دے۔

2031۔ اگر کوئی شخص کهے که میں فقیر هوں تو اسے فطرے نهیں دیا جاسکتا بجز اس صورت کے که انسان کو اس کے کهنے سے اطمینان هو جائے یا انسان کو علم هو که وه پهلے فقیر تھا۔

زکوٰۃ فطره کے متفرق مسائل

ص:377

2032۔ ضروری هے که انسان فطره قربت کے قصد سے یعنی الله تبارک و تعالی کی خوشنودی کے لئے دے اور اسے دیتے وقت فطرے کی نیت کرے۔

2033۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان المبارک سے پهلے فطره دے دے تو یه صحیح نهیں هے اور بهتر یه هے که ماه رمضان المبارک میں بھی فطره نه دے البته اگر ماه رمضان المبارک سے پهلے کسی فقیر کو قرضه دے اور جب فطره اس پر واجب هوجائے، قرضے کو فطرے میں شمار کرلے تو کوئی حرج نهیں هے۔

2034۔ گیهوں یا کوئی دوسری چیز جو فطره کے طور پر دی جائے ضروری هے که اس میں کوئی اور جنس یا مٹی نه ملی هوئی هو۔ اور اگر اس میں کوئی ایسی چیز ملی هوئی هو اور خالص مال ایک صاع تک پهنچ جائے اور ملی هوئی چیز جدا کئے بغیر استعمال کے قابل هو یا جدا کرنے میں حد سے زیاده زحمت نه هو یا جو چیز ملی هوئی هو وه اتنی کم هو که قابل توجه نه هو تو کوئی حرج نهیں هے۔

2035۔ اگر کوئی شخص عیب دار چیز فطرے کے طور پر دے تو احتیاط واجب کی بنا پر کافی نهیں هے۔

2036۔ جس شخص کو کئی اشخاص کا فطره دینا هو اس کے لئے ضروری نهیں که سارا فطره ایک هی جنس سے دے مثلاً اگر بعض افراد کا فطره گیهوں سے اور بعض دوسروں کا جَو سے دے تو کافی هے۔

2037۔ عید کی نماز پڑھنے والے شخص کو احتیاط واجب کی بنا پر عید کی نماز سے پهلے فطره دینا ضروری هے لیکن اگر کوئی شخص نماز عید نه پڑھے تو فطرے کی ادائیگی میں ظهر کے وقت تک تاخیر کر سکتا هے۔

2038۔ اگر کوئی شخص فطرے کی نیت سے اپنے مال کی کچھ مقدار علیحده کر دے اور عید کے دن ظهر کے وقت تک مستحق کو نه دے تو جب بھی وه مال مستحق کو دے، فطرے کی نیت کرے۔

2039۔ اگر کوئی شخص فطرے واجب هونے کے وقت فطره نه دے اور الگ بھی نه کرے تو اس کے بعد ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر فطره دے۔

2040۔ اگرکوئی شخص فطره الگ کر دے تو وه اسے اپنے مصرف میں لاکر دوسرا مال اس کی جگه بطور فطره نهیں رکھ سکتا۔

ص:378

2041۔ اگر کسی شخس کے پاس ایسا مال هو جس کی قیمت فطره سے زیاده هو تو اگر وه شخص فطره نه دے اور نیت کرے که اس مال کی کچھ مقدار فطرے کے لئے هوگی تو ایسا کرنے میں اشکال هے۔

2042۔ کسی شخص نے جو مال فطرے کے لئے کیا هو اگر وه تلف هوجائے تو اگر وه شخص فقیر تک پهنچ سکتا تھا اور اس نے فطره دینے میں تاخیر کی هو یا اس کی حفاظت کرنے میں کوتا هی کی هو تو ضروری هے که اس کا عِوَض دے اور اگر فقیر تک نهیں پهنچ سکتا تھا اور اس کی حفاظت میں کاتاهی نه کی هو تو پھر ذمه دار نهیں هے۔

2043۔ اگر فطرے دینے والے کے اپنے علاقے میں مستحق مل جائے تو احتیاط واجب یه هے که فطره دوسری جگه نه لے جائے اور اگر دوسری جگه لے جائے اور وه تلف هوجائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

حج کے اَحکام

2044۔ بیت الله کی زیارت کرنے اور ان اعمال کو بجالانےکا نام "حج" هے جن کے وهاں بجا لانے کا حکم دیا گیا هے اور اس کی ادائیگی هر اس شخص کے لئے جو مندرجه ذیل شرائط پوری کرتا هو تمام عمر میں ایک دفعه واجب هے:

(اول) انسان بالغ هو۔

(دوم) عاقل اور آزاد هو۔

(سوم) حج پر جانے کی وجه سے کوئی ایسا ناجائز کام کرنے پر مجبور نه هو جس کا ترک کرنا حج کرنے سےزیاده اهم هو یا کوئی ایسا واجب کام ترک نه هوتا هو جو حج سے زیاده اهم هو۔

(چهارم) اِستِطاعت رکھتا هو۔ اور صاحب اِستِطاعت هونا چند چیزوں پر منحصر هے:

1۔ انسان راستے کا خرچ اور اسی طرح اگر ضرورت هو تو سواری رکھتا هو یا اتنا مال رکھتا هو جس سے ان چیزوں کو مهیا کرسکے۔

2۔ اتنی صحت اور طاقت هو که زیاده مشقت کے بغیر مکه مکرمه جا کر حج کر سکتا هو۔

ص:379

3۔ مکه مکرمه جانے کے لئے راستے میں کوئی رکاوٹ نه هو اور اگر راسته بند هو یا انسان کو ڈر هو که راستے میں اس کی جان یا آبروچلی جائے گی یا اس کا مال چھین لیا جائے گا تو اس پر حج واجب نهیں هے لیکن اگر وه دوسرے راستے سے جاسکتا هو تو اگرچه وه راسته زیاده طویل هو ضروری هے که اس راستے سے جائے بجز اس کے که وه راسته اس قدر دور اور غیر معروف هو که لوگ کهیں که حج کا راسته بند هے۔

4۔ اس کے پاس اتنا وقت هو که مکه مکرمه پهنچ کر حج کے اعمال بجالا سکے۔

5۔ جن لوگوں کے اخراجات اس پر واجب هوں مثلاً بیوی اور بچے اور جن لوگوں کے اخراجات برداشت کرنا لوگ اس کے لئے ضروری سمجھتے هوں ان کے اخراجات اس کے پاس موجود هوں۔

6۔ حج سے واپسی کے بعد وه معاش کے لئے کوئی هنر یا کھیتی یا جائیداد رکھتا هو یا پھر کوئی دوسرا ذریعه آمدنی رکھتا هو یعنی اس طرح نه هو که حج کے اخراجات کی وجه سے حج سے واپسی پر مجبور هوجائے اور تنگی ترشی میں زندگی گزارے۔

2045۔ جس شخص کی ضرورت اپنے ذاتی مکان کے بغیر پوری نه هوسکے اس پر حج اس وقت واجب هے جب اس کے پاس مکان کے لئے بھی رقم هو۔

2046۔ جو عورت مکه مکرمه جاسکتی هو اگر واپسی کے بعد اس کے پاس اس کا اپنا کوئی مال نه هو اور مثال کے طور پر اس کا شوهر بھی فقیر هو اور اسے خرچ نه دیتا هو اور وه عورت عسرت میں زندگی گزارنے مجبور هوجائے تو اس پر حج واجب نهیں۔

2047۔ اگر کسی شخص کے پاس حج کے لئے زاد راه اور سواری نه هو اور دوسرا اسے کهے که تم حج پر جاو میں تمهار سفر خرچ دوں گا اور تمهارے سفر حج کے دوران تمهارے اهل و عیال کو بھی خرچ دیتا رهوں گا تو اگر اسے اطمینان هو جائے که وه شخص اسے خرچ دے گا تو اس پر حج واجب هو جاتا هے۔

2048۔ اگر کسی شخص کو مکه مکرمه جانے اور واپس آنے کا خرچ اور جتنی مدت اسے وهاں جانے اور واپس آنے میں لگے اس کے لئے اس کے اهل و عیال کا خرچ دے دیا جائے که وه حج کر لے تو اگرچه وه مقروض بھی هو اور واپسی پر گزر بسر کرنے کے لئے مال بھی نه رکھتا هو اس پر حج واجب هوجاتا هے۔ لیکن اگر اس طرح هو که حج کے سفر کا زمانه اس اس کے

ص:380

کاروبار اور کام کا زمانه هو که اگر حج پر چلا جائے تو اپنا قرض مقرره وقت پر ادا نه کر سکتا هو یا اپنی گزر بسر کے اخراجات سال کے باقی دنوں میں مهیا کر سکتا هو تو اس پر حج واجب نهیں هے۔

2049۔ اگر کسی کو مکه مکرمه تک جانے اور آنے کے اخراجات نیز جتنی مدت وهاں جانے اور آنے میں لگے اس مدت کے لئے اس کے اهل و عیال کے اخراجات دے دیئے جائیں اور اس سے کها جائے که حج پر جاو لیکن یه سب مصارف اس کی ملکیت میں نه دیئے جائیں تو اس صورت میں جب که اسے اطمینان هو که دیئے هوئے اخراجات کا اس سے پھر مطالبه نهیں کیا جائے گا اس پر حج واجب هو جاتا هے۔

2050۔ اگر کسی شخص کو اتنا مال دے دیا جائے جو حج کے لئے کافی هو اور یه شرط لگائی جائے که جس شخص نے مال دیا هے مال لینے والا مکه مکرمه کے راستے میں اس کی خدمت کرے گا تو جسے مال دیا جائے اس پر حج واجب نهیں هوتا۔

2051۔ اگر کسی شخص کو اتنا مال دیا جائے که اس پر حج واجب هو جائے اور وه حج کرے تو اگرچه بعد میں وه خود بھی (کهیں سے) مال حاصل کرلے دوسرا حج اس پر واجب نهیں هے۔

2052۔ اگر کوئی شخص بغرض تجارت مثال کے طور پر جده جائے اور اتنا مال کمائے که اگر وهاں سے مکه جانا چاهے تو استطاعت رکھنے کی وجه سے ضروری هے که حج کرے اور اگر وه حج کرلے تو خواه وه بعد میں اتنی دولت کمالے که خود اپنے وطن سے بھی مکه مکرمه جاسکتا هو تب بھی اس پر دوسرا حج واجب نهیں هے۔

2053۔ اگر کوئی اس شرط پراجیربنے که وه خود ایک دوسرے شخص کی طرف سے حج کرے گا تو اگر وه خود حج کو نه جاسکے اور چاهے که کسی دوسرے اور کو اپنی جگه بھیج دے تو ضروری هے که جس نے اسے اجیر بنایا هے اس سے اجازت لے۔

2054۔ اگر کوئی صاحب استطاعت هو که حج کو نه جائے اور پھر فقیر هو جائے تو ضروری هے که خواه اسے زحمت هی کیوں نه اٹھانی پڑے بعد میں حج کرے اور اگر وه کسی بھی طرح حج کو نه جاسکتا هو اور کوئی اسے حج کرنے کے لئے اجیر بنائے تو ضروری هے که مکه مکرمه جائے اور جس نے اسے اجیر بنایا هو اس کی طرف سے حج کرے اور دوسرے سال تک اگر ممکن هو تو مکه مکرمه میں رهے اور پھر اپنا حج بجالائے لیکن اگر اجیر بنے اور اجرت نقد لے لے اور جس شخص نے اسے اجیر بنایا هو وه اس بات پر راضی هو که اس کی طرف سے حج دوسرے سال بجالایا جائے جب که وه اطمینان نه رکھتا هو که دوسرے

ص:381

سال بھی اپنے لئے حج پر جا سکے گا تو ضروری هے که اجیر پهلے سال خود اپنا حج کرے اور اس شخص کا حج جس نے اس کو اجیر بنایا تھا دوسرے سال کے لئے اٹھا رکھے۔

2055۔ جس سال کوئی شخص صاحب استطاعت هوا هو اگر اسی سال مکه مکرمه چلا جائے اور مقرره وقت پر عرفات اور مشعر الحرام میں نه پهنچ سکے اور بعد کے سالوں میں صاحب استطاعت نه هو تو اس پر حج واجبنهیں هے۔ سوائے اس کے که چند سال پهلے سے صاحب استطاعت رها هو اور حج پر نه گیا هو تو اس صورت میں خواه زحمت هی کیوں نه اٹھانی پڑے اسے حج کرنا ضروری هے۔

2056۔ اگر کوئی شخص صاحب استطاعت هوتے هوئے حج نه کرے اور بعد میں بڑھاپے، بیماری یا کمزوری کی وجه سے حج نه کرسکے اور اس بات سے نا امید هو جائے که بعد میں خود حج کرسکے گا تو ضروری هے که کسی دوسرے کو اپنی طرف سے حج کے لئے بھیج دے بلکه اگر ناامید نه بھی هوا هو تو احتیاط واجب یه هے که ایک اجیر مقرر کرے اور اگر بعد میں اس قابل هو جائے تو خود حج کرے۔اور اگر اس کے پاس کسی سال پهلی دفعه اتنا مال هوجائے جو حج کے لئے کافی هو اور بڑھاپے یا بیماری یا کمزوری کی وجه سے حج نه کرسکے اور طاقت (وصحت) حاصل کرنے سے ناامید هو تب بھی یهی حکم هے اور ان تمام صورتوں میں احتیاط مستحب یه هے که جس کی طرف سے حج کے لئے جارها هو اگر وه مرد هو تو ایسے شخص کو نائب بنائے جس کا حج پر جانے کا پهلا موقع هو (یعنی اس سے پهلے حج کرنے نه گیا هو)۔

2057۔ جو شخص حج کرنے کے لئے کسی دوسرے کی طرف سے اجیر هو ضروری هے که اس کی طرف سے طواف النساء بھی کرے اور اگر نه کرےتو اجیر پر اس کی بیوی حرام هو جائے گی۔

2058۔ اگر جو شخص طواف النساء صحیح طور پر نه بجالائے یا اس کو بجالانا بھول جائے اور چند روز بعد اسے یاد آئے اور راستے سے واپس هو کر بجالائے تو صحیح هے لیکن اگر واپس هونا اس کے لئے باعث مشقت هو تو طواف النساء کی بجا آوری کے لئے کسی کو نائب بنا سکتا هے۔

مُعَامَلات

خرید و فروخت کے احکام

ص:382

2059۔ ایک بیوپاری کے لئے مناسب هے که خرید و فروخت کے سلسلے میں جن مسائل کا (عموماً) سامنا کرنا پڑتا هے ان کے احکام سیکھ لے بلکه اگر مسائل نه سیکھنے کی وجه سے کسی واجب حکم کی مخالفت کرنے کا اندیشه هو تو مسائل لازم ولابد هے۔ حضرت امام جعفر صادق عَلَیهِ الصّلوٰۃُ وَالسّلام سے روایت هے که "جو پهلے خرید و فروخت کرے گا باطِل یا مُشتَبَه معامله کرنے کی وجه سے هلاکت میں پڑے گا۔"

2060۔ اگر کوئی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر یه نه جانتا هو که اس نے جو معامله کیا هے وه صحیح هے یا باطل تو جو مال اس نے حاصل کیا هو اسے استعمال نهیں کر سکتا مگر یه که اسے علم هوجائے که دوسرا فریق اس مال کو استعمال کرنے پر راضی هے تو اس صورت میں وه استعمال کر سکتا هے اگرچه معامله باطل هو۔

2061۔ جس شخص کے پاس مال نه هو اور کچھ اخراجات اس پر واجب هوں، مثلاً بیوی بچوں کا خرچ، تو ضروری هے که کاروبار کرے۔ اور مستحب کاموں کے لئے مثلاً اهل و عیال کی خوشحالی اور فقیروں کی مدد کرنے کے لئے کاروبار کرنا مستحب هے۔

خرید و فروخت کے مسُتحبّات

خرید و فروخت میں چند چیزیں مستحب شمار کی گئی هیں :

(اول) فقر اور اس جیسی کیفیت کے سوا جنس کی قیمت میں خریداروں کے درمیان فرق نه کرے۔

(دوم) اگر وه نقصان میں نه هو تو چیزیں زیاده مهنگی نه بیچے۔

(سوم) جو چیز بیچ رها هو وه کچھ زیاده دے اور جو چیز خرید رها هو وه کچھ کم لے۔

(چهارم) اگر کوئی شخص سودا کرنے کے بعد پشیمان هو کر اس چیز کو واپس کرنا چاهے تو واپس لے لے۔

مکروه معاملات

2062۔خاص خاص معاملات جنهیں مکروه شمار کیا گیا هے، یه هیں:

ص:383

1۔ جائداد کا بیچنا، بجز اس کے که اس رقم سے دوسری جائداد خریدی جائے۔

2۔ گوشت فروشی کا پیشه اختیار کرنا۔

3۔ کفن فروشی کا پیشه اختیار کرنا۔

4۔ ایسے (اوچھے) لوگوں سے معامله کرنا جن کی صحیح تربیت نه هوئی هو۔

5۔ صبح کی اذان سے سورج نکلنے کے وقت تک معامله کرنا۔

6۔ گیهوں، جَو اور ان جیسی دوسری اجناس کی خریدوفرخت کو اپنا پیشه قرار دینا۔

7۔ اگر مسلمان کوئی جنس خرید رها هو تو اس کے سودے میں دخل اندازی کرکے خریدار بننے کا اظهار کرنا۔

حرام معاملات

2063۔ بهت سے معاملات حرام هیں جن میں سے کچھ یه هیں:

1۔ نشه آور مشروبات، غیر شکاری کتے اور سور کی خریدوفروخت حرام هے اور احتیاط کی بنا پر نجس مردار کے متعلق بھی یهی حکم هے۔ ان کے علاوه دوسری نجاسات کی خریدوفروخت اس صورت میں جائز هے جب که عین نجس سے حلال فائده حاصل کرنا مقصود هو مثلاً گوبر اور پاخانے سے کھاد بنائیں اگرچه احتیاط اس میں هے که ان کی خرید و فروخت سے بھی پرهیز کیا جائے۔

2۔ غصبی مال کی خرید و فروخت

3۔ ان چیزوں کی خریدوفروخت بھی احتیاط کی بنا پر حرام هے جنهیں بالعموم مال تجارت نه سمجھا جاتا هو مثلاً درندوں کی خریدوفروخت اس صورت میں جبکه ان سے مناسب حد تک حلال فائده نه هو۔

4۔ ان چیزوں کی خریدوفروخت جنهیں عام طور پر فقط حرام کام میں استعمال کرتے هوں مثلاً جوئے کا سامان۔

ص:384

5۔ جس لین دین میں ربا (سود) هو۔

6۔ وه لین دین جس میں ملاوٹ هو یعنی ایسی چیز کا بیچنا جس میں دوسری چیز اس طرح ملائی گئی هو که ملاوٹ کا پته نه چل سکے اور بیچنے والا بھی خریدار کو نه بتائے مثلاً ایسا گھی بیچناجس میں چربی ملائی گئ هو۔ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) کا ارشاد هے " جو شخص ملاوٹ کرکے کوئی چیز کسی مسلمان کے هاتھ بیچتا هے یا مسلمان کو نقصان پهنچاتا هے یا ان کے ساتھ مکروفریب سے کام لیتا هے وه میری امت میں سے نهیں هے اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ملاوٹ والی چیز بیچتا هے تو خداوندتعالی اس کی روزی سے برکت اٹھا لیتا هے اور اس کی روزی کے راستوں کو تنگ کر دیتا هے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا هے"

2064۔جو پاک چیز نجس هوگئی هو اور اسے پانی سے دھو کر پاک کرنا ممکن هو تو اسے فروخت کرنے میں کوئی حرج نهیں هے اور اگر اسے دھونا ممکن نه هو تب بھی یهی حکم هے لیکن اگر اس کا حلال فائده عرف عام میں اس کے پاک هونے پر منحصر نه هو مثلاً بعض اقسام کے تیل بلکه اگر اس کا حلال فائده پاک هونے پر موقوف هو اور اس کا مناسب حد تک حلال فائده بھی هو تب بھی اس کا بیچنا جائز هے۔

2065۔ اگر کوئی شخص نجس چیز بیچنا چاهے تو ضروری هے که وه اس کی نجاست کے بارے میں خریدار کو بتا دے اور اگر اسے نه بتائے تو وه ایک حکم واجب کی مخالفت کا مرتکب هوگا مثلانجس پانی کو وضو یا غسل میں استعمال کرے گا اور اس کے ساتھ اپنی واجب نماز پڑھے گا یا اس نجس چیز کو کھانے یا پینے میں استعمال کرے گا البته اگر یه جانتا هو که اسے بتانے سے کوئی فائده نهیں کیوں که وه لاپرو شخص هے اور نجس پاک کا خیال نهیں رکھتا تو اسے بتانا ضروری نهیں۔

2066۔ اگرچه کھانے والی اور نه کھانے والی نجس دواوں کی خریدوفروخت جائز هے لیکن ان کی نجاست کے متعلق خریدار کو اس صورت میں بتا دینا ضروری هے جس کا ذکر سابقه مسئلے میں کیا گیا هے۔

2067۔ جو تیل غیر اسلامی ممالک سے در آمد کئے جاتے هیں اگر ان کے نجس هونے کے بارے میں علم نه هو تو ان کی خرید و فرخت میں کوئی حرج نهیں اور جو چربی کسی حیوان کے مرجانے کے بعد حاصل کی جاتی هے اگر اسے کافر سے لیں یا غیر اسلامی ممالک سے منگائیں تو اس صورت میں جب که اس کے بارے میں احتمال هو که ایسے حیوان کی هے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا هے تو گو وه پاک هے اور اس کی خریدوفرخت جائز هے لیکن اس کا کھانا حرام هے اور بیچنے والے کے

ص:385

لئے ضروری هے که وه اس کی کیفیت سے خریدار کو آگاه کرے کیوں که خریدار کو آگاه کرنے کی صورت میں وه کسی واجب حکم کی مخالفت کا مرتکب هوگا جسے که مسئله 2065 میں گزر چکا هے۔

2068۔ اگر لومڑی یا اس جیسے جانوروں کو شرعی طریقے سے ذبح نه کیا جائے یا وه خود مرجائیں تو ان کی کھال کی خریدوفروخت احتیاط کی بنا پر جائز نهیں هے۔

2069۔ جو چمڑا غیر اسلامی ممالک سے در آمد کیا جائے یا کافر سے لیا جائے اگر اس کے بارے میں احتمال هو که ایک ایسے جانور کا هے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا هے تو اس کی خریدوفروخت جائز هے اور اسی طرح اس میں نماز بھی اقوی کی بنا پر صحیح هوگی۔

2070 ۔ جو تیل اور چربی حیوان کے مرنے کے بعد حاصل کی جائے یا وه چمڑا جو مسلمان سے لیا جائے اور انسان کو علم هو که اس مسلمان نے یه چیز کافر سے لی هے لیکن یه تحقیق نهیں کی که یه ایسے حیوان کی هے جیسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا هے یا نهیں اگرچه اس پر طهارت کا حکم لگتا هے اور اس کی خریدوفروخت جائز هے لیکن اس تیل یا چربی کا کھانا جائز نهیں هے۔

2071۔ نشه آور مشروبات کالین دین حرام اور باطل هے۔

2072۔ غصبی مال کا بیچنا باطل هے اور بیچنے والے نے جو رقم خریدار سے لی هو اسے واپس کرنا ضروری هے۔

2073۔ اگر خریدار سنجیدگی سے سودا کرنے کا اراده رکھتا هو لیکن اس کی نیت یه هو که جو چیز خرید رها هے اس کی قیمت نهیں دے گا تو اس کا یه سوچنا سو دے که صحیح هونے میں مانع نهیں اور ضروری هے که خریدار اس سودے کی قیمت بیچنے والے کو دے۔

2074۔ اگر خریدار چاهے که جو مال اس نے ادھار خریدا هے اس کی قیمت بعد میں حرام مال سے دے گا تب بھی معامله صحیح هے البته ضروری هے که جتنی قیمت اس کے ذمے هو حلال مال سے دے تاکه اس کا ادھار چکتا هوجائے۔

2075۔ موسیقی کے آلات مثلاً ستار اور طنبوره کی خریدوفروخت جائز نهیں هے اور احتیاط کی بنا پر چھوٹے چھوٹے ساز جو بچوں کے کھلونے هوتے هیں ان کے لئے بھی یهی حکم هے۔ لیکن (حلال اور حرام میں استعمال هونے والے) مشترکه

ص:386

آلات مثلاً ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نهیں بشرطیکه انهیں حرام کاموں استعمال کرنے کا اراده نه هو۔

2076۔ اگر کوئی چیز که جس سے جائز فائده اٹھایا جاسکتا هو اس نیت سے بیچی جائے که اسے حرام مصرف میں لایا جائے مثلاً انگور اس نیت سے بیچا جائے که اس سے شراب تیار کی جائے تو اس کا سودا حرام بلکه احتیاط کی بنا پر باطل هے۔ لیکن اگر کوئی شخص انگور اس مقصد سے نه بیچے اور فقط یه جانتا هو که خریدار انگور سے شراب تیار کرے گا تو ظاهر یه هے که سودے میں کوئی حرج نهیں۔

2077۔ جاندار کا مجسمه بنانا احتیاط کی بنا پر مطلقاً حرام هے (مطلقاً سے مراد یه هے که مجسمه کامل بنایا جائے یاناقص) لیکن ان کی خریدوفروخت ممنوع نهیں هے اگرچه احوط یه هے که اسے بھی ترک کیا جائے لیکن جاندار کی نقاشی اقوی کی بنا پر جائز هے۔

2078۔ کسی ایسی چیز کا خریدنا حرام هے جو جُوئے یا چوری یا باطل سودے سے حاصل کی گئی هو اور اگر کوئی ایسی چیز خرید لے تو ضروری هے که اس کے اصلی مالک کو لوٹا دے۔

2079۔اگر کوئی شخص ایسا گھی بیچے جس میں چربی کی ملاوٹ هو اور اسے مُعَیَّن کردے مثلاً کهے که میں "یه ایک من گھی بیچ رها هوں" تو اس صورت میں جب اس میں چربی کی مقدار اتنی زیاده هو که اسے گھی نه کها جائے تو معامله باطل هے اور اگر چربی کی مقدار اتنی کم هو که اسے چربی ملا هوا کها جائے تو معامله صحیح هے لیکن خریدنے والے کو مال عیب دار هونے کی بنا پر حق حاصل هے که وه معامله ختم کرسکتا هے اور اپنا پیسه واپس لے سکتا هے اور اگر چربی گھی سے جدا هو تو چربی کی جتنی مقدار کی ملاوٹ هے اس کا معامله باطل هے اور چربی کی جو قیمت بیچنے والے نے لی هے وه خریدار کی هے اور چربی، بیچنے والے کا مال هے اور گاهک اس میں جو خالص گھی هے اس کا معامله بھی ختم کر سکتا هے۔ لیکن اگر معین نه کرے بلکه صرف ایک من گھی بتا کر بیچے لیکن دیتے وقت چربی ملا هوا گھی دے تو گاهک وه گھی واپس کرکے خالص گھی کا مطالبه کر سکتا هے۔

2080۔ جس جنس کو ناپ تول کر بیچا جاتا هے اگر کوئی بیچنے والا اسی جنس کے بدلے میں بڑھا کر بیچے مثلاً ایک من گیهوں کی قیمت ڈیڑھ من گیهوں وصول کرے تو یه سود اور حرام هے بلکه اگر دو جنسوں میں سے ایک بے عیب اور دوسری عیب دار هو یا ایک جنس بڑھیا اور دوسری گھٹیا هو یا ان کی قیمتوں میں فرق هو تو اگر بیچنے والا جو مقدار دے رها هو اس سے زیاده

ص:387

لے تب بھی سود اور حرام هے۔ لهذا اگر وه ثابت تانبا دے کر اس سے زیاده مقدار میں ٹوٹا هوا تانبا لے یا ثابت قسم کا پیتل دے کر اس سے زیاده مقدار میں ٹوٹا هوا پیتل لے یا گھڑا هوا سونا دے کر اس سے زیاده مقدار میں بغیر گھڑا هوا سونا لے تو یه بھی سود اور حرام هے۔

2081۔ بیچنے والا جو چیز زائد لے اگر وه اس جنس سے مختلف هو جو وه بیچ رها هے مثلاً ایک من گیهوں کو ایک من گیهوں اور کچھ نقد رقم کے عوض بیچے تب بھی یه سود اور حرام هے بلکه اگر وه کوئی چیز زائد نه لے لیکن یه شرط لگائے که خریدار اس کے لئے کوئی کام کرے گا تو یه بھی سود اور حرام هے۔

2082۔ جو شخص کوئی چیز کم مقدار میں دے رها هو اگر وه اس کے ساتھ کوئی اور چیز شامل کر دے مثلاً ایک من گیهوں اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گیهوں کے عِوَض بیچے تو اس میں کوئی حرج نهیں اس صورت میں جب که اس کی نیت یه هو که وه رومال اس زیاده گیهوں کے مقابلے میں هے اور معامله بھی نقد هو۔ اور اسی طرح اگر دونوں طرف سے کوئی چیز بڑھا دی جائے مثلاً ایک شخص ایک من گیهوں اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گیهوں اور ایک رومال کے عوض بیچے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے لهذا اگر ان کی نیت یه هو که ایک کا رومال اور آدھا من گیهوں دوسرے کے رومال کے مقابلے میں هے تو اس میں کوئی اشکال نهیں هے۔

2083۔ اگر کوئی شخص ایسی چیز بیچے جو میڑ اور گز کے حساب سے بیچی جاتی هے مثلاً کپڑا یا ایسی چیز بیچے جو گن کر یچی جاتی هے مثلاً اخروٹ اور انڈے اور زیاده لے مثلاً دس انڈے دے اور گیاره لے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔ لیکن اگر ایسا هو که معاملے میں دونوں چیزیں ایک هی جنس سے هوں اور مدت معین هو تو اس صورت میں معاملے کے صحیح هونے میں اشکال هے مثلاً دس اخروٹ نقددے اور باره اخروٹ ایک مهینے کے بعد لے۔ اور کرنسی نوٹوں کا فروخت کرنا بھی اسی زمرے میں آتا هے مثلاً تو مان کو نوٹوں کی کسی دوسری جنس کے بدلے میں مثلاً دینار یا ڈالر کے بدلے میں نقد یا معین مدت کے لئے بیچے تو اس میں کوئی حرج نهیں لیکن اگر اپنی هی جنس کے بدلے میں بیچنا چاهے اور بهت زیاده لے تو معامله معین مدت کے لئے نهیں هونا چاهئے مثلاً سو تو مان نقد دے اور ایک سو دس تو مان چھ مهینے کے بعد لے تو اس معاملے کے صحیح هونے میں اشکال هے۔

2084۔ اگر کسی جنس کو اکثر شهروں میں ناپ تول کر بیچا جاتا هو اور بعض شهروں میں اس کا لین دین گن کر هوتا هو تو اقوی کی بنا پر اس جنس کو اس شهر کی نسبت جهاں گن کر لین دین هوتا هے دوسرے شهر میں زیاده قیمت پر بیچنا جائز هے۔

ص:388

اور اسی طرح اس صورت میں جب شهر مختلف هوں اورا ایسا غلبه درمیان میں نه هو (یعنی یه نه کهاجاسکے که اکثر شهروں میں یه جنس ناپ تول کر بکتی هے یا گن کر بکتی هے) تو هر شیر میں وهاں کے رواج کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔

2085۔ ان چیزوں میں جو تول کر یا ناپ کر بیچی جاتی هیں اگر بیچی جانے والی چیز اور اس کے بدلے میں لی جانے والی چیز ایک جنس سے نه هوں اور لین دین بھی نقد هو تو زیاده لینے میں کوئی حرج نهیں هے لیکن اگر لین دین معین مدت کے لئے هو تو اس میں اشکال هے۔ لهذا اگر کوئی شخص ایک من چاول کو دو من گیهوں کے بدلے میں ایک مهینے کی مدت تک بیچے تو اس لین دین کا صحیح هونا اشکال سے خالی نهیں ۔

2086۔اگر ایک شخص پکے میووں کا سودا کچے میووں سے کرے تو زیاده نهیں لے سکتا اور مشهور (علماء) نےکها هے که ایک شخص جو چیز بیچ رها هو اور اس کے بدلے میں جو کچھ لے رها هو اگر وه دونوں ایک هی چیز سے بنی هوں تو ضروری هے که معاملے میں اضافه نه لے مثلاً اگر وه ایک من گائے کا گھی بیچے اور اس کے بدلے میں ڈیڑھ من گائے کا پنیر حاصل کرے تو یه سود هے اور حرام هے لیکن اس حکم کے کلی هونے میں اشکال هے۔

2087۔ سود کے اعتبار سے گیهوں اور جو ایک جنس شمار هوتے هیں لهذا مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک من گیهوں دے اور اس کے بدلے میں ایک من پانچ سیر جولے تو یه سود هے اور حرام هے۔ اور مثال کے طور پر اگر دس من جو اس شرط پر خریدے که گیهوں کی فصل اٹھانے کے وقت دس من گیهوں بدلے میں دے گا تو چونکه جو اس نے نقد لئے هیں اور گیهوں کچھ مدت بعد دے رها هے لهذایه اسی طرح هے۔ جیسے اضافه لیا هو اس لئے حرام هے۔

2088۔ باپ بیٹا اور میاں بیوی ایک دوسرے سے سود لے سکتے هیں اور اسی طرح مسلمان ایک ایسے کافر سے جو اسلام کی پناه میں نه هو سود لے سکتا هے لیکن ایک ایسے کافر سے جو اسلام کی پناه میں هے سود کا لین دین حرام البته معامله طے کر لینے کے بعد اگر سود دینا اس کی شریعت میں جائز هو تو اس سے سود لے سکتا هے۔

بیچنے والے اور خریدارکی شرائط

2089۔ بیچنے والے اور خریدار کےلئے چھ چیزیں شرط هیں :

1۔ بالغ هوں۔

ص:389

2۔ عاقل هوں۔

3۔ سَفیه نه هوں یعنی اپنا مال احمقانه کاموں میں خرچ نه کرتے هوں۔

4۔ خرید و فروخت کا اراده رکھتے هوں۔ پس اگر کوئی مذاق میں کهے که میں نے اپنا مال بیچا تو معامله باطل هوگا۔

5۔ کسی نے انهیں خریدوفروخت پر مجبور نه کیا هو۔

6۔ جو جنس اور اس کے بدلے میں جو چیز ایک دوسرے کو دے رهے هوں اس کے مالک هوں۔ اور ان کے بارے میں احکام آئنده مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

2090۔ کسی نابالغ بچے کے ساتھ سودا کرنا جو آزادانه طور پر سودا کر رها هو باطل هے لیکن ان کم قیمت چیزوں میں جن کی خریدوفروخت کا رواج هے اگر نابالغ مگر سمجھ دار بچے کے ساتھ لین دین هوجائے (توصحیح هے) اور اگر سودا اس کے سرپرست کے ساتھ هو اور نابالغ مگر سمجھ دار بچه لین دین کا صیغه جاری کرے تو سوداهر صورت میں صحیح هے بلکه اگر جنس یا رقم کسی دوسرے آدمی کا مال هو اور بچه بحیثیت وکیل اس مال کے مالک کی طرف سے وه مال بیچے یا اس رقم سے کوئی چیز خریدے تو ظاهر یه هے که سودا صحیح هے اگرچه وه سمجھ دار بچه آزادانه طور پر اس مال یا رقم میں (حق) تصرف رکھتا هو اور اسی طرح اگر بچه اس کام میں وسیله هو که رقم بیچنے والے کو دے اور جنس خریدار تک پهنچائے یا جنس خریدار کو دے اور رقم بیچنے والے کو پهنچائے تو اگرچه بچه سمجھ دار نه هو سودا صحیح هے کیونکه در اصل دو بالغ افراد نے آپس میں سودا کیا هے۔

2091۔ اگر کوئی شخص اس صورت میں که ایک نابالغ بچے سے سودا کرنا صحیح نه هو اس سے کوئی چیز خریدے یا اس کے هاتھ کوئی چیز بیچنے تو ضروری هے که جو جنس یا رقم اس بچے سے لے اگر وه خود بچے کا مال هو تو اس کے سرپرست کو اور اگر کسی اور کا مال هو تو اس کے مالک کو دے دے یا اس کے مالک کی رضا مندی حاصل کرے اور اگر سودا کرنے والا شخص اس جنس یا رقم کے مالک کو نه جانتا هو اور اس کا پته چلانے کا کوئی ذریعه بھی نه هو تو اس شخص کے لئے ضروری هے که جو چیز اس نے بچے سے لی هو وه اس چیز کے مالک کی طرفے بعنوان مَظَالم (ظلماً اور ناحق لی هوئی چیز) کسی فقیر کو دے دے اور احتیاط لازم یه هے که اس کام میں حاکم شرع سے اجازت لے۔

ص:390

2092۔ اگر کوئی شخص ایک سمجھ دار بچے سے اس صورت میں سودا کرے جب که اس کے ساتھ سودا کرنا صحیح نه هو اور اس نے جو جنس یا رقم بچے کو دی هو وه تلف هو جائے تو ظاهر یه هے که وه شخص بچے سے اس کے بالغ هونے کے بعد یا اس کے سرپرست سے مطالبه کر سکتا هے اور اگربچه سمجھ دار نه هو تو پھر وه شخص مطالبے کا حق نهیں رکھتا۔

2093۔ اگر خریدار یا بیچنے والے کو سودا کرنے پر مجبور کیا جائے اور سودا هوجانے کے بعد وه راضی هو جائے اور مثال کے طور پر کهے که میں راضی هوں تو سودا صحیح هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که معاملے کا صیغه دوباره پڑھا جائے۔

2094۔ اگر انسان کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مال کا مالک اس کے بیچنے پر راضی نه هو اور اجازت نه دے تو سودا باطل هے۔

2095۔ بچے کا باپ اور دادا نیز باپ کا وصی اور دادا کا وصی بچے کا مال فروخت کر سکتے هیں اور اگر صورت حال کا تقاضا هو تو مجتهد عادل بھی دیوانے شخص یا یتیم بچے کا مال یا ایسے شخص کا مال جو غائب هو فروخت کر سکتا هے۔

2096۔ اگر کوئی شخص کسی کا مال غصب کرکے بیچ ڈالے اور مال کے بک جانے کے بعد اس کا مالک سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحیح هے اور جو چیز غصب کرنے والے نے خریدار کو دی هو اور اس چیز سے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل هو وه خریدار کی ملکیت هے اور جو چیز خریدار نے دی هو اور اس چیز سے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل هو وه اس شخص کی ملکیت هے جس کا مال غصب کیا گیا هے۔

2097۔ اگر کوئی شخص کسی کا مال غصب کرکے بیچ دے اور اس کا اراده یه هو که اس مال کی قیمت خود اس کی ملکیت هوگی اور اگر مال کا مالک سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحیح هے لیکن مال کی قیمت مالک کی ملکیت هوگی نه که غاصب کی۔

جنس اور اس کے عِوض کی شرائط

2098۔ جو چیز بیچی جائے اور جو چیز اس کے بدلے میں لی جائے اس کی پانچ شرطیں هیں :

(اول) ناپ، تول یا گنتی وغیره کی شکل میں اس کی مقدار معلوم هو۔

ص:391

(دوم) بیچنے والا ان چیزوں کو تحویل میں دینے کا اهل هو۔ اگر اهل نه هو تو سودا صحیح نهیں هے لیکن اگر وه اس کو کسی دوسری چیز کے کے ساتھ ملا کر بیچے جسے وه تحویل میں دے سکتا هو تو اس صورت میں لین دین صحیح هے البته ظاهر یه هے که اگر خریدار اس چیز کو جو خریدی هو اپنے قبضے میں لے سکتا هو اگرچه بیچنے والا اسے اس کی تحویل میں دینے کا اهل نه هو تو بھی لین دین صحیح هے مثلاً جو گھوڑا بھاگ گیا هو اگر اسے بیچے اور خریدنے والا اس گھوڑے کو ڈھونڈ سکتا هو تو اس سودے میں کوئی حرج نهیں اور وه صحیح هوگا اور اس صورت میں کسی بات کے اضافے کی ضرورت نهیں هے۔

(سوم) وه خصوصیات جو جنس اور عوض میں موجود هوں اور جن کی وجه سے سودے میں لوگوں کو دلچسپی میں فرق پڑتا هو معین کر دی جائیں۔

(چهارم) کسی دوسرے کا حق اس مال سے اس طرح وابسته نه هو که مال مالک کی ملکیت سے خارج هونے سے دوسرے کا حق ضائع هو جائے۔

(پنجم) بیچنے والا خود اس جنس کو بیچے نه که اس کی منفعت کو۔ پس مثال کے طور پر اگر مکان کی ایک سال کی منفعت بیچی جائے تو صحیح نهیں هے لیکن اگر خریدار نقد کی بجائے اپنی ملکیت کا منافع دے مثلاً کسی سے قالین یا دری وغیر خریدے اور اس کے عوض میں اپنا مکان کا ایک سال کا منافع اسے دے دے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔ ان سب کے احکام آئنده مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

2099۔ جس جنس کا سودا کسی شهر میں تول کر یا ناپ کا کیا جاتا هو اس شهر میں ضروری هے اس جنس کو تول کر یا ناپ کر هی خریدے لیکن جس شهر میں اس جنس کا سودا اسے دیکھ کر کیا جاتا هوں اس شهر میں وه اسے دیکھ کر خرید سکتا هے۔

2100۔ جس چیز کی خریدوفروخت تول کرکی جاتی هو اس کا سودا ناپ کر بھی کیا جاسکتا هے مثال کے طور پر اگر ایک شخص دس من گیهوں بیچنا چاهے تو وه ایک ایسا پیمانه جس میں ایک من گیهوں سماتی هو دس مرتبه بھر کر دے سکتا هے۔

2101۔ اگر معامله چوتھی شرط کے علاوه جو شرائط بیان کی گئی هیں ان میں سے کوئی ایک شرط نه هونے کی بنا پر باطل هو لیکن بیچنے والا اور خریدار ایک دوسرے کے مال میں تصرف کرنے پر راضی هوں تو ان کے تصرف کرنے میں کوئی حرج نهیں۔

ص:392

2102۔جو چیز وقت کی جاچکی هو اس کا سودا باطل هے لیکن اگر وه چیز اس قدر خراب هو جائے که جس فائدے کے لئے وقف کی گئی هے وه حاصل نه کیا جاسکے یا وه چیز خراب هونے والی هو مثلاً مسجد کی چٹائی اس طرح پھٹ جائے که اس پر نماز نه پڑھی جاسکے تو جو شخص مُتَولِّی هے یا جسے مَتَولِّی جیسے اختیارات حاصل هوں اور اسے بیچ دے تو کوئی حرج نهیں اور احتیاط کی بنا پر جهاں تک ممکن هو اس کی قیمت اسی مسجد کے کسی ایسے کام پر خرچ کی جائے جو وقت کرنے والے کے مقصد سے قریب تر هو۔

2103۔ جب ان لوگوں کے مَابَین جن کے لئے مال وقف کیا گیا هو ایسا اختلاف پیدا هو جائے که اندیشه هو که اگر وقف شده مال فروخت نه کیا گیا تو مال یا کسی کی جان تلف هو جائے گی تو بعض (فقهاء) نے کها هے که وه ایسا کر سکتے هیں که مال بیچ کر رقم ایسے کام پر خرچ کریں جو وقف کرنے والے کے مقصد سے قریب هو لیکن یه حکم محل اشکال هے۔ هاں اگر وقف کرنے والا یه شرط لگائے که وقف کے بیچ دینے میں کوئی مصلحت هو تو بیچ دیا جائے تو اس صورت میں اسے بیچنے میں کوئی حرج نهیں هے۔

2104۔ جو جائداد کسی دوسرے کو کرائے پر دی گئی هو اس کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نهیں هے لیکن جتنی مدت کے لئے اسے کرائے پر دی گئی هو اتنی مدت کی آمدنی صاحب جائداد کا مال هے اور اگر خریداد کو یه علم نه هو که وه جائداد کرائے پر دی جاچکی هے یا اس گمان کے تحت که کرائے کی مدت تھوڑی هے اس جائداد کو خرید لے تو جب اسے حقیقت حال کا علم هو، وه سودا فسخ کر سکتا هے۔

خریدوفروخت کا صیغه

2105۔ ضروری نهیں که خریدوفروخت کا صیغه عربی زبان میں جاری کیا جائے مثلاً اگر بیچنے والا فارسی (یا اردو) میں کهے که میں نے یه مال اتنی رقم پر بیچا اور خریدار کهے که میں نے قبول کیا تو سودا صحیح هے لیکن یه ضروری هے که خریدار اور بیچنے والا (معاملے کا) دلی اراده رکھتے هوں یعنی یه دو جملے کهنے سے ان کی مراد خرید و فروخت هو۔

2106۔ اگر سودا کرتے وقت صیغه نه پڑھا جائے لیکن بیچنے والا اس مال کے مقابلے میں جو وه خریدار سے لے اپنا مال اس کی ملکیت میں دے دے تو سودا صحیح هے اور دونوں اشخاص متعلقه چیزوں کےمالک هوجاتے هیں۔

پھلوں کی خرید و فروخت

ص:393

2107۔ جن پھلوں کے پھول گر چکے هوں اور ان میں دانے پڑچکے هوں اگر ان کے آفت (مثلاً بیماریوں اور کپڑوں کے حملوں) سے محفوظ هونے یا نه هونے کے بارے میں اس طرح علم هو که اس درخت کی پیداوار کا اندازه لگا سکیں تو اس کے توڑنے سے پهلے اس کا بیچنا صحیح هے بلکه اگر معلوم نه بھی هو که آفت سے محفوظ هے یا نهیں تب بھی اگر دو سال یا اس سے زیاده عرصے کی پیداوار یا پھلوں کی صرف اتنی مقدار جو اس وقت اس وقت لگی هو بیچی جائے بشرطیکه اس کی کسی حد تک مالیت هو تو معامله صحیح هے۔ اسی طرح اگر زمین کی پیداوار یا کسی دوسری چیز کو اس کے ساتھ بیچا جائے تو معامله صحیح هے لیکن اس صورت میں احتیاط لازم یه هے که دوسری چیز (جو ضمناً بیچ رها هو وه) ایسی هو که اگر بیج ثمر آور نه هوسکیں تو خریدار کے سرمائے کو ڈوبنے سے بچالے۔

پھلوں کی خرید و فروخت

2108۔ جس درخت پر پھل لگا هو، دانے بننے اور پھول گرنے سے پهلے اس کا بیچنا جائز هے لیکن ضروری هے که اس کے ساتھ کوئی اور چیز بھی بیچے جیسا که اس سے پهلے والے مسئلے میں بیان کیا گیا هے یا ایک سال سے زیاده مدت کا پھل بیچے۔

2109۔ درخت پر لگی هوئی وه کھجوریں جو زرد یا سرخ هو چکی هوں ان کو بیچنے میں کوئی حرج نهیں لیکن ان کے عوض میں خواه اسی درخت کی کھجوریں هوں یا کسی اور درخت کی، کھجوریں نه دی جائیں البته اگر ایک شخص کو کھجور کا درخت کسی دوسرے شخص کے گھر میں هو تو اگر اس درخت کی کھجوروں کا تخمینه لگا لیا جائے اور درخت کا مالک انهیں گھر کے مالک کو بیچ دے اور کھجوروں کو اس کا عوضانه قرار دیا جائے تو کوئی حرج نهیں۔

2110۔ کھیرے، بینگن،سبزیاں اور ان جیسی (دوسری) چیزیں جو سال میں کئی دفعه اترتی هوں اگر وه اگ آئی هوں اور یه طے کر لیا جائے که خریدار انهیں سال میں کتنی دفعه توڑے گا تو انهیں بیچنے میں کوئی حرج نهیں هے لیکن اگر اگی نه هوں تو انهیں بیچنے میں اشکال هے۔

2111۔ اگر دانه آنے کے بعد گندم کے خوشے کو گندم سے جو خود اس سے حاصل هوتی هے یا کسی دوسرے خوشے کے عوض بیچ دیا جائے تو سودا صحیح نهیں هے۔

نقد اور ادھار کے احکام

ص:394

2112۔ اگر کسی جنس کو نقد بیچا جائے تو سودا طے پا جانے کے بعد خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جنس اور رقم کا مطالبه کر سکتے هیں اور اسے اپنے قبضے میں لے سکتے هیں۔ منقوله چیزوں مثلاً قالین، اور لباس کو قبضے میں دینے اور غیر منقوله چیزوں مثلاً گھر اور زمین کو قبضے میں دینے سے مراد یه هے که ان چیزوں سے دست بردار هو جائے اور انهیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دے دے که جب وه چاهے اس میں تصرف کر سکے۔ اور (واضح رهے که) مختلف چیزوں میں تصرف مختلف طریقے سے هوتا هے۔

2113۔ ادھار کے معاملے میں ضروری هے که مدت ٹھیک ٹھیک معلوم هو۔ لهذا اگر ایک شخص کوئی چیز اس وعدے پر بیچے که وه اس کی قیمت فصل اٹھنے پر لے گا تو چونکه اس کی مدت ٹھیک ٹھیک معین نهیں هوئی اس لئے سودا باطل هے۔

2114۔ اگر کوئی شخص اپنا مال ادھار بیچے تو جو مدت طے هوئی هو اس کی میعاد پوری هونے سے پهلے وه خریدار سے اس کے عوض کا مطالبه نهیں کرسکتا لیکن اگر خریدار مرجائے اور اس کا اپنا کوئی مال هو تو بیچنے والا طے شده میعاد پوری هونے سے پهلے هی جو رقم لینی هو اس کا مطالبه مرنے والے کے ورثاء سے کر سکتا هے۔

2115۔ اگر کوئی شخص ایک چیز ادھار بیچے تو طے شده مدت گزرنے کے بعد وه خریدار سے اس کے عوض کا مطالبه کر سکتا هے لیکن اگر خریدار ادائیگی نه کرسکتا هو تو ضروری هے که بیچنے والا اسے مهلت دے یا سودا ختم کر دے اور اگر وه چیز جو بیچی هے موجود هو تو اسے واپس لے لے۔

2116۔ اگر کوئی شخص ایک ایسےایسے فرد کو جسے کسی چیز کی قیمت معلوم نه هو اس کی کچھ مقدار ادھار دے اور اس کی قیمت اسے نه بتائے تو سودا باطل هے۔ لیکن اگر ایسے شخص کو جسے جنس کی نقد قیمت معلوم هو ادھار پر مهنگے داموں بیچے مثلاً کهے که جو جنس میں تمهیں ادھار دے رهاهوں اس کی قیمت سے جس پر میں نقد بیچتا هوں ایک پیسه فی روپیه زیاده لوں گا اور خریدار اس شرط کو قبول کر لے تو ایسے سودے میں کوئی حرج نهیں هے۔

2117۔ اگر ایک شخص نے کوئی جنس ادھار فروخت کی هو اور اس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر کی گئی هو تو اگر مثال کے طور پر آدھی مدت گزرنے کے بعد (فروخت کرنے والا) واجب الادا رقم میں کٹوتی کر دے اور باقی مانده رقم نقد لے لے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔

معامله سلف کی شرائط

ص:395

2118۔ معامله سلف (پیشگی سودا) سے مراد یه هے که کوئی شخص نقد رقم لے کر پورا مال جو وه مقرره مدت کے بعد تحویل میں دے گا، بیچ دے لهذا اگر خریدار کهے که میں یه رقم دے رها هوں تاکه مثلاً چھ مهینے بعد فلاں چیز لے لوں اور بیچنے والا کهے که میں نے قبول کیا یا بیچنے والا رقم لے لے اور کهے که میں نے فلاں چیز بیچی اور اس کا قبضه چھ مهینے بعد دوں گا تو سودا صحیح هے۔

2119۔ اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کے سکے بطور سلف بیچے اور س کے عوض چاندی یا سونے کے سکے لے تو سودا باطل هے لیکن اگر کوئی ایسی چیز یا سکے جو سنے یا چاندی کے نه هوں بیچے اور ان کے عوض کوئی دوسری چیز یا سونے یا چاندی کےسکے لے تو سودا اس تفصیل کے مطابق صحیح هے جو آئنده مسئلے کی ساتویں شرط میں بتائی جائے گی اور احتیاط مستحب یه هے که جو مال بیچے اس کے عوض رقم لے،کوئی دوسرا مال نه لے۔

2120۔معامله سلف میں ساتھ شرطیں هیں :

1۔ ان خصوصیات کو جن کی وجه سے کسی چیز کی قیمت میں فرق پڑتا هو مُعَیّن کر دیا جائے لیکن زیاده تفصیلات میں جانے کی ضرورت نهیں بلکه اسی قدر کافی هے که لوگ کهیں که اس کی خصوصیات معلوم هوگئی هیں۔

2۔ اس سے پهلے که خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جدا هو جائیں خریدار پوری قیمت بیچنے والے کو دے یا اگر بیچنےوالا خریدار کا اتنی هی رقم کا مقروض هو اور خریدار کو اس سے جو کچھ لینا هو اسے مال کی قیمت کی کچھ مقدار بیچنے والے کو دے دے تو اگرچه اس مقدار کی نسبت سے سودا صحیح هے لیکن بیچنے والا سودا فتح کرسکتا هے۔

3۔ مدت کو ٹھیک ٹھیک مُعَیّن کیا جائے۔ مثلاً اگر بیچنے والا کهے که فصل کا قبضه کٹائی پر دوں گا تو چونکه اس سے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نهیں هوتا اس لئے سودا باطل هے۔

4۔ جنس کا قبضه دینے کے لئے ایسا وقت مُعَیّن کیا جائے جس میں بیچنے والا جنس کا قبضه دے سکے خواه وه جنس کمیاب هو یا نه هو۔

5۔ جنس کا قبضه دینے کی جگه کا تعین احتیاط کی بنا پر مکمل طور پر کیا جائے۔ لیکن اگر طرفین کی باتوں سے جگه کا پتا چل جائے تو اس کا نام لینا ضروری نهیں ۔

ص:396

6۔ اس جنس کا تول یا ناپ معین کیاجائے اور جس چیز کا سودا عموماً دیکھ کر کیا جاتا هے اگر اسے بطور سلف بیچا جائے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے لیکن مثال کے طور پر اخروٹ اور انڈوں کی بعض قسموں میں تعداد کا فرق ضروری هے که اتنا هو که لوگ اسے اهمیت نه دیں۔

7۔ جس چیز کو بطور سلف بیچا جائے اگر وه ایسی هوں جنهیں تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا هے تو اس کا عوض اسی جنس سے نه هو بلکه احتیاط لازم کی بنا پر دوسری جنس میں سے بھی ایسی چیز نه هو جسے تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا هے اور اگر وه چیز جسے بیچا جا رها هے ان چیزوں میں سے هو جنهیں گن کر بیچا جاتا هو تو احتیاط کی بنا پر جائز نهیں هے که اس کا عوض خود اسی کی جنس سے زیاده مقدار میں مقرر کرے۔

معامله سلف کے احکام

2121۔ جو جنس کسی نے بطور سلف خریدی هو اسے وه مدت ختم هونے سے پهلے بیچنے والے کے سوا کسی اور کے هاتھ نهیں بیچ سکتا اور مدت ختم هونے کے بعد اگرچه خریدار نے اس کا قبضه نه بھی لیا هو اسے بیچنے میں کوئی حرج نهیں۔ البته پھلوں کے علاوه جن غلوں مثلاً گیهوں اور جو وغیره کو تول کر یا ناپ کر فروخت کیا جاتا هے انهیں اپنے قبضے میں لینے سے پهلے ان کا بیچنا جائز نهیں هے ماسوا اس کے که گاهگ نے جس قیمت پر خریدی هوں اسی قیمت پر یا اس سے کم قیمت پر بیچے۔

2122۔ سلف کے لین دین میں اگر بیچنے والا مدت ختم هونے پر اس چیز کا قبضه دے جس کا سودا هوا هے تو خریدار کے لئے ضروری هے که اسے قبول کرے اگرچه جس چیز کا سودا هوا هے اس سے بهتر چیز دے رها هو جبکه اس چیز کو اسی جنس میں شمار کیا جائے۔

2123۔ اگر بیچنے والا جو جنس دے وه اس جنس سے گھٹیا هو جس کا سودا هوا هے تو خریدار اسے قبول کرنے سے انکار کر سکتا هے۔

2124۔ اگر بیچنے والا اس جنس کی بجائے جس کا سودا هوا هے کوئی دوسری جنس دے اور خریدار اسے لینے پر راضی هو جائے تو اشکال نهیں هے۔

ص:397

2125۔ جو چیز بطور سلف بیچی گئی هو اگر وه خریدار کے حوالے کرنے کے لئے طے شده وقت پر دستیاب نه هوسکے تو خریدار کو اختیار هے که انتظار کرے تاکه بیچنے والا اسے مهیا کر دے یا سودا فسخ کر دے اور جو چیز بیچنے والے کو دی هو اسے واپس لے لے اور احتیاط کی بنا پر وه چیز بیچنے والے کو زیاده قیمت پر نهیں بیچ سکتا هے۔

2126۔ اگر ایک شخص کوئی چیز بیچے اور معاهده کرے که کچھ مدت بعد وه چیز خریدار کے حوالے کر دے گا اور اس کی قیمت بھی کچھ مدت بعد لے گا تو ایسا سودا باطل هے۔

سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا

2127۔ اگر سونے کو سونے سے یا چاندی کو چاندی سے بیچا جائے تو چاهے وه سکه دار هوں یا نه هو اگر ان میں سے ایک کا وزن دوسرے سے زیاده هو تو ایسا سودا حرام اور باطل هے۔

2128۔اگر سونے کو چاندی سے یا چاندی کو سونے سے نقد بیچا جائے تو سودا صحیح هے اور ضروری نهیں که دونوں کا وزن برابر هو۔ لیکن اگر معاملے میں مدت معین هو تو باطل هے۔

2129۔ اگر سونے یا چاندی کو سونے یا چاندی کے عوض بیچا جائے تو ضروری هے که بیچنے والا اور خریدار ایک دوسرے سے جدا هونے سے پهلے جنس اور اس کا عوض ایک دوسرے کے حوالے کر دیں اور اگر جس چیز کے بارے میں معامله طے هوا هے اس کی کچھ مقدار بھی ایک دوسرے کے حوالے نه کی جائے تو معامله باطل هے۔

2130۔ اگر بیچنے والے یا خریدار میں سے کوئی ایک طے شده مال پورا پورا دوسرے کے حوالے کر دے لیکن دوسرا (مال کی صرف) کچھ مقدار حوالے کرے اور پھر وه ایک دوسرے سے جدا هو جائیں تو اگرچه اتنی مقدار کے متعلق معامله صحیح هے لیکن جس کو پورا مال نه ملا هو وه سودا فسخ کر سکتا هے۔

2131۔ اگر چاندی کی کان کی مٹی کو خالص چاندی سے اور سونے کی کان کی سونے کی مٹی کو خالص سونے سے بیچا جائے تو سودا باطل هے۔ مگر یه که جب جانتے هوں که مثلاً چاندی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر هے لیکن جیسا که پهلے کها جاچکا هے چاندی کی مٹی کو سونے کے عوض اور سونے کی مٹی کو سونے کے عوض اور سونے کی مٹی کو چاندی کے عوض بیچنے میں کوئی اشکال نهیں۔

ص:398

معامله فسخ کئے جانے کی صورتیں

2132۔معامله فسخ کرنے کے حق کو "خِیَار" کهتے هیں اور خریدار اور بیچنے والا گیاره صورتوں میں معامله فسخ کر سکتے هیں :

1۔ جس مجلس میں معامله هوا هے وه برخاست نه هوئی هو اگرچه سودا هو چکا هو اسے "خِیَار مجلس" کهتے هیں۔

2۔ خرید و خروفت کے معاملے میں خریدار یابیچنے والا نیز دوسرے معاملات میں طرفین میں سے کوئی ایک مغبون هو جائے اسے "خِیارِ غبن" کهتے هیں (مغبون سے مراد وه شخص هے جس کے ساتھ فراڈ کیا گیا هو) خیار کی اس قسم کا منشا عرف عام میں شرط ارتکازی هوتا هے یعنی هر معاملے میں فریقین ذهن میں یه شرط موجود هوتی هے که جو مال حاصل کر رها هے اس کی قیمت مال سے بهت زیاده کم نهیں جو وه ادا کر رها هے اور اگر اس کی قیمت کم هو تو وه معاملے کو ختم کرنے کا حق رکھتا هے لیکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح هو مثلاً یه شرط یه که اگر جو مال لیا هو وه بلحاظ قیمت اس مال سے کم هو جو اس نے دیا هے تو دونوں (مال) کے درمیان جو کمی بیشی هوگی اس کا مطالبه کر سکتا هے اور اگر ممکن نه هوسکے تو معاملے کو ختم کر دے اور ضروری هے که اس قسم کی صورتوں میں عرف خاص کا خیال رکھا جائے۔

3۔ سودا کرتے وقت یه طے کیا جائے که مقرره مدت تک فریقین کو یاکسی ایک فریق کو سودا فسخ کرنے کا اختیار هوگا۔ اسے "خِیارِ شرط" کهتے هیں۔

4۔ فریقین میں سے ایک فریق اپنے مال کو اس کی اصلیت سے بهتر بتا کر پیش کرے جس کی وجه سے دوسر فریق اس میں دل چسپی لے یا اس کی دل چسپی اس میں بڑھ جائے اسے "خیار تدلیس"کهتے هیں۔

5۔ فریقین میں سے ایک فریق دوسرے کے ساتھ شرط کرے که وه فلاں کام انجام دے گا اور اس شرط پر عمل نه هو یا شرط کی جائے که ایک فریق دوسرے فریق کو ایک مخصوص قسم کا معین مال دے گا اور جو مال دیا جائے اس میں وه خصوصیت نه هو، اس صورت میں شرط لگانے والا فریق معاملے کو فسخ کر سکتا هے ۔ اسے "خِیارِ تَخَلُّفِ شرط" کهتے هیں۔

6۔ دی جانے والی جنس یا اس کے عوض میں کوئی عیب هو۔ اسے "خیار عیب" کهتے هیں۔

ص:399

7۔ یه پتا چلے که فریقین نے جس جنس کا سودا کیا هے اس کی کچھ مقدار کسی اور شخص کا مال هے۔ اس صورت میں اگر اس مقدار کا مالک سودے پر راضی نه هو تو خریدنے والا سودا فسخ کر سکتا هے یا اگر اتنی مقدار کی ادائیگی کر چکا هو تو اسے واپس لے سکتا هے۔ اسے "خیار شرکت" کهتے هیں۔

8۔ جس مُعَیَّن جنس کو دوسرے فریق نے نه دیکھا هو اگر اس جنس کا مالک اسے اس کی خصوصیات بتائے اور بعد میں معلوم هو که جو خصوصیات اس نے بتائی تھیں وه اس میں نهیں هیں یا دوسرے فریق نے پهلے اس جنس کو دیکھا تھا او اس کا خیال تھا که وه خصوصیات اب ابھی اس میں باقی هیں لیکن دیکھنے کے بعد معلوم هو که وه خصوصیات اب اس میں باقی نهیں هیں تو اس صورت میں دوسرا فریق معامله فسخ کر سکتا هے۔ اسے "خِیارِ رُویَت" کهتے هیں۔

9۔ خریدار نے جو جنس خریدی هو اگر اس کی قیمت تین دن تک نه دے اور بیچنے والے نے بھی وه جنس خریدار کے حوالے نه که هو تو بیچنے والا سودے کو ختم کر سکتا هے لیکن ایسا اس صورت میں هو سکتا هےجب بیچنے والے نے خریدار کو قیمت ادا کرنے کی مهلت دی هو لیکن مدت معین نه کی هو۔ اور اگر اس کو بالکل مهلت نه دی هو تو بیچنے والا قیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تاخیر سے بھی سودا ختم کر سکتا هے ۔ اور اگر اسے تین دن سے زیاده مهلت دی هو تو مدت پوری هونے سے پهلے سودا ختم نهیں کر سکتا۔ اس سے یه معلوم هو جاتا هے که جو جنس بیچی هے اگر وه بعض ایسے پھلوں کی طرح هو جو ایک دن باقی رهنے سے ضائع هو جاتے هیں چنانچه خریدار رات تک اس کی قیمت نه دے اور یه شرط بھی نه کرے که قیمت دینے میں تاخیر کرے گا تو بیچنے والا سودا ختم کر سکتا هے۔ اسے "خیار تاخیر" کهتے هیں۔

10۔ جس شخص نے کوئی جانور خریدا هو وه تین دن تک سودا فسخ کر سکتا هے اور جو چیز اس نے بیچی هو اگر اس کے عوض میں خریدار نے جانور دیا هو تو جانور بیچنے والا بھی تین دن تک سودا فسخ کر سکتا هے۔ اسے "خیار حیوان" کهتے هیں۔

11۔ بیچنے والے نے جو چیز بیچی هو اگر اس کا قبضه نه دے سکے مثلاً جو گھوڑا اس نے بیچا هو وه بھاگ گیا هو تو اس صورت میں خریدار سودا فسخ کر سکتا هے اسے "خیار تَعَذُّر تسلیم" کهتے هیں۔

(خیارات کی) ان تمام اقسام کے (تفصیلی) احکام آئنده مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔

2133۔ اگر خرید کو جنس کی قیمت کا علم نه هو یا وه سودا کرتے وقت غفلت برتے اور اس چیز کو عام قیمت سے مهنگا خریدے اور یه قیمت خرید بڑی حد تک مهنگی هو تو وه سودا ختم کر سکتا هے بشرطیکه سودا ختم کرتے وقت جس قدر فرق هو وه موجود

ص:400

بھی هو اور اگر فرق موجود نه هو تو اس کے بارے میں معلوم نهیں که وه سودا ختم کر سکتا هے۔ نیز اگر بیچنے والے کو جنس کی قیمت کا علم نه هو یا سودا کرتے وقت غفلت برتے اور اس جنس کو اس کی قیمت سے سستا بیچے اور بڑی حد تک سستا بیچے تو سابقه شرط کے مطابق سودا ختم کر سکتا هے۔

2134۔ مشروط خرید و فروخت میں جب که مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے کا مکان پچاس هزار روپے میں بیچ دیا جائے اور طے کیا جائے که اگر بیچنے والا مقرره مدت تک رقم واپس کر دے تو سودا فسخ کر سکتا هے تو اگر خریدار اور بیچنے والا خرید و فروخت کی نیت رکھتے هوں تو سودا صحیح هے۔

2135۔ مشروط خریدوفرخت میں اگر بیچنے والے کو اطمینان هو که خریدار مقرره مدت میں رقم ادا نه کر سکنے کی صورت میں مال اسے واپس کر دے گا تو سودا صحیح هے لیکن اگر وه مدت ختم هونے تک رقم ادا نه کر سکے تو وه خریدار سے مال کی واپسی کا مطالبه کرنے کا حق نهیں رکھتا اور اگر خریدار مر جائے تو اس کے ورثاء سے مال کی واپسی کا مطالبه نهیں کر سکتا۔

2136۔ اگر کوئی شخص عمده چائے میں گھٹیا چائے که ملاوٹ کرکے عمده چائے کے طور پر بیچے تو خریدار سودا فتح کر سکتا هے۔

2137۔ اگر خریدار کو پتا چلے که جو مُعَیَّن مال اس نے خریدا هے وه عیب دار هے مثلاً ایک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اسے پتا چلے که اس کی ایک آنکھ نهیں هے لهذا اگر یه عیب مال میں سودے سے پهلے تھا اور اسے علم نهیں تھا تو وه سودا فسخ کر سکتا هے اور مال بیچنے والے کو واپس کر سکتا هے اور اگر واپس کرنا ممکن نه هو مثلاً اس مال میں کوئی تبدیلی هوگئی هو یا ایسا تصرف کر لیا گیا هو جو واپسی میں رکاوٹ بن رها هو تو اس صورت میں وه بے عیب اور عیب دار مال کی قیمت کے فرق کا حساب کرکے بیچنے والے سے (فرق کی) رقم واپس لے لے مثلاً اگر س نے کوئی مال چار روپے میں خریدار هو اور اسے اس کے عیب دار هونے کا علم هو جائے تو اگر ایسا هی بے عیب مال (بازار میں) آٹھ روپے کا اور عیب دار چھ روپے کا هو تو چونکه بے عیب اور عیب دار کی قیمت کا فرق ایک چوتھائی هے اس لئے اس نے جتنی رقم دی هے اس کا ایک چوتھائی یعنی ایک روپیه بیچنے والے سے واپس لے سکتا هے۔

2138۔ اگر بیچنے والے کو پتا چلے که اس نے جس معین عوض کے بدلے اپنا مال بیچا هے اس میں عیب هے تو اگر وه عیب اس عوض میں سودے سے پهلے موجود تھا اور اسے علم نه هوا هو تو وه سودا فسخ کر سکتا هے اور وه عوض اس کے مالک کو واپس

ص:401

کر سکتا هے لیکن اگر تبدیلی یا تصرف کی وجه سے واپس نه کر سکے تو بے عیب اور عیب دار کی قیمت کا فرق اس قاعدے کے مطابق لے سکتا هے جس کا ذکر سابقه مسئلے میں کیا گیا هے۔

2139۔ اگر سودا کرنے کے بعد اور قبضه دینے سے پهلے مال میں کوئی عیب پیدا هو جائے تو خریدار سودا فسخ کرسکتا هے نیز جو چیز مال کے عوض دی جائے اگر اس میں سودا کرنے کے بعد اور قبضه دینے سے پهلے کوئی عیب پیدا هو جائے تو بیچنے والا سودا فسخ کر سکتا هے اور اگر فریقین قیمت کا فرق لینا چاهیں تو سودا طے نه هونے کی صورت میں چیز کو لوٹانا جائز هے۔

2140۔ اگر کسی شخص کو مال کے عیب کا علم سودا کرنے کے بعد هو تو اگر وه (سودا ختم کرنا) چاهے تو ضروری هے که فوراً سودے کو ختم کردے اور ۔ اختلاف کی صورتوں کو پیش نظر رکھتے هوئے ۔ اگر معمول سے زیاده تاخیر کرے تو وه سودے کو ختم نهیں کر سکتا۔

2141۔ جب کسی شخص کو کوئی جنس خریدنے کے بعد اس کے عیب کا پتا چلے تو خواه بیچنے والا اس پر تیار نه بھی هو خریدار سودا فسخ کر سکتا هے اور دوسرے خیارات کے لئے بھی یهی حکم هے۔

2142۔ چار صورتوں میں خریدار مال میں عیب هونے کی بنا پر سودا فسخ نهیں کر سکتا اور نه هی قیمت کا فرق لے سکتا هے۔

1۔ خریدتے وقت مال کے عیب سے واقف هو۔

2۔ مال کے عیب کو قبول کرے۔

3۔ سودا کرتے وقت کهے : "اگر مال میں عیب هو تب بھی واپس نهیں کروں گا اور قیمت کا فرق بھی نهیں لوں گا"۔

4۔ سودے کے وقت بیچنے والا کهے" میں اس مال کو جو عیب بھی اس میں هے اس کے ساتھ بیچتا هوں"لیکن اگر وه ایک عیب کا تعین کر دے اور کهے"میں اس مال کو فلاں عیب کے ساتھ بیچ رها هوں" اور بعد میں معلوم هو که مال میں کوئی دوسرا عیب بھی هے تو جو عیب بیچنے والے نے معین نه کیا هو اس کی بنا پر خریدار وه مال واپس کرسکتا هے اور اگر واپس نه کرسکے تو قیمت کا فرق لے سکتا هے۔

ص:402

2143۔ اگر خریدار کو معلوم هو که مال میں ایک عیب هے اور اسے وصول کرنے کے بعد اس میں کوئی اور عیب نکل آئے تو وه سودا فسخ نهیں کرسکتا لیکن بے عیب اور عیب دار مال کا فرق لے سکتا هے لیکن اگر وه عیب دار حیوان خریدے اور خیار کی مدت جو که تین دن هے گزرنے سے پهلے اس حیوان میں کسی اور عیب کا پتا چل جائے تو گو خریدار نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا هو پھر بھی وه اسے واپس کر سکتا هے۔ نیز اگر فقط خریدار کو کچھ مدت تک سودا فسخ کرنے کا حق حاصل هو اور اس مدت کے دوران مال میں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تو اگرچه خریدار نے وه مال اپنی تحویل میں لے لیا هو وه سودا فسخ کر سکتا هے۔

2144۔ اگر کسی شخص کے پاس ایسا مال هو جسے اس نے بچشم خود نه دیکھا هو اور کسی دوسرے شخص نے مال کی خصوصیات اسے بتائی هوں اور وهی خصوصیات خریدار کو بتائے اور وه مال اس کے هاتھ بیچ دے اور بعد میں اسے (یعنی مالک کو) پتا چلے که وه مال اس سے بهتر خصوصیات کا حامل هے تو وه سودا فسخ کر سکتا هے۔

متفرق مسائل

2145۔ اگر بیچنے والا خریدار کو کسی جنس کی قیمت خرید بتائے تو ضروری هے که وه تمام چیزیں بھی اسے بتائے جن کی وجه سے مال کی قیمت گھٹتی بڑھتی هے اگرچه اسی قیمت پر (جس پر خریدار هے) یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچے۔ مثلاً اسے بتاتا ضروری هے که مال نقد خریدا هے یا ادھار لهذا اگر مال کی کچھ خصوصیات نه بتائے اور خریدار کو بعد میں معلوم هو تو وه سودا فسخ کر سکتا هے۔

2146۔ اگر انسان کوئی جنس کسی کو دے اور اس کی قیمت معین کر دے اور کهے "یه جنس اس قیمت پر بیچو اور اس سے زیاده جتنی قیمت وصول کرو گے وه تمهاری محنت کی اجرت هوگی" تو اس صورت میں وه شخص اس قیمت سے زیاده جتنی قیمت بھی وصول کرے وه جنس کے مالک کامال هوگا اور بیچنے والا مالک سے فقط محنتانه لے سکتا هے لیکن اگر معاهده بطور جعاله هو اور مال کا مالک کهے که اگر تو نے یه جنس اس قیمت سے زیاده پر بیچی تو فاضل آمدنی تیرا مال هے تو اس میں کوئی حرج نهیں۔

2147۔ اگر قصاب نر جانور کا گوشت کهه کر ماده کا گوشت بیچے تو وه گنهگار هوگالهذا اگر وه اس گوشت کا معین کر دے اور کهے که میں یه نر جانور کا گوشت بیچ رها هوں تو خریدار سودا فسخ کرسکتا هے اور اگر قصاب اس گوشت کو معین نه کرے اور

ص:403

خریدار کو جو گوشت ملا هو (یعنی ماده کا گوشت) وه اس پر راضی نه هو تو ضروری هے که قصاب اسے نر جانور کا گوشت دے۔

2148۔ اگر خریدار بزاز سے کهے که مجھے ایسا کپڑا چاهئے جس کا رنگ کچا نه هو اور بزاز ایک ایسا کپڑا اس کے هاتھ فروخت کرے جس کا رنگ کچا هو تو خریدار سودا فسخ کر سکتا هے۔

2149۔ لین دین میں قسم کھانا اگر سچی هو تو مکروه هے اور اگر جھوٹی هو تو حرام هے۔

شراکت کے احکام

2150۔ دو آدمی اگر باهم طے کریں که اپنے مشترک مال سے بیوپار کرکے جو کچھ نفع کمائیں گے اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے اور وه عربی یا کسی اور زبان میں شراکت کا صیغه پڑھیں یا کوئی ایسا کام کریں جس سے ظاهر هوتا هو که وه ایک دوسرے کے شریک بننا چاهتے هیں تو ان کی شراکت صحیح هے۔

2151۔ اگر چند اشخاص اس مزدوری میں جو وه اپنی محنت سے حاصل کرتے هوں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کریں مثلاً چند حجام آپس میں طے کریں که جو اجرت حاصل هوگی اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے تو ان کی شراکت صحیح نهیں هے۔ لیکن اگر باهم طے کر لیں که مثلاً هر ایک آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئے دوسرے کی آدھی مزدوری کے بدلے میں هوگی تو معامله صحیح هے۔ اور ان میں سے هر ایک دوسرے کی مزدوری میں شریک هوگا۔

2152۔ اگر وه اشخاص آپس میں اس طرح شراکت کریں که ان میں سے هر ایک اپنی ذمے داری پر جنس خریدے اور اس کی قیمت کی ادائیگی کا بھی خود ذمے دار هو لیکن جو جنس انهوں نے خریدی هو اس کے نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک هوں تو ایسی شراکت صحیح نهیں، البته اگر ان میں سے هر ایک دوسرے کو اپنا وکیل بنائے که جو کچھ وه ادھار لے رها هے اس میں اسے شریک کر لے یعنی جنس کو اپنے اور اپنے حصه دار کے لئے خریدے۔ جس کی بنا پر دونوں مقروض هوجائیں تو دونوں میں سے هر ایک جنس میں شریک هو جائے گا۔

2153۔ جو اشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کار بن جائیں ان کے لئے ضروری هے که بالغ اور عاقل هوں نیز یه که ارادے اور اختیار کے ساتھ شراکت کریں اور یه بھی ضروری هے که وه اپنے مال میں تصرف کر سکتے

ص:404

هوں لهذا چونکه سفیه ۔ جو اپنا بال احمقانه اور فضول کاموں پر خرچ کرتا هے۔ اپنے مال میں تصرف کا حق نهیں رکھتا اگر وه کسی کے ساتھ شراکت کرے تو صحیح نهیں هے۔

2154۔ اگر شراکت کے معاهدے میں یه شرط لگائی جائے که جو شخص کام کرے گا یا جو دوسرے شریک سے زیاده حصه ملے گا تو ضروری هے که جیسا طے کیا گیا هو متعلقه شخص کو اس کے مطابق دیں اور اسی طرح اگر شرط لگائی جائے که جو شخص کام نهیں کرے گا یا زیاده کام نهیں کرے گا یا جس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیاده اهمیت نهیں هے اسے منافع کا زیاده حصه ملے گا تب بھی شرط صحیح هے اور جیسا طے کیا گیا هو متعلقه شخص کو اس کے مطابق دیں۔

2155۔اگر شرکاء طے کریں که سارا منافع کسی ایک شخص کا هوگا یا سار نقصان کسی ایک کو برداشت کرنا هوگا تو شراکت صحیح هونے میں اشکال هے۔

2156۔ اگر شرکاء یه طے نه کریں که کسی ایک شریک کو زیاده منافع ملے گا تو اگر ان میں سے هر ایک کا سرمایه ایک جتنا هو تو نفع نقصان بھی ان کے مابین برابر تقسیم هوگا اور ان کا سرمایه برابر برابر نه هو تو ضروری هے که نفع نقصان سرمائے کی نسبت سے تقسیم کریں مثلاً اگر دو افراد شراکت کریں اور ایک کا سرمایه دوسرے کے سرمائے سے دُگنا هو تو نفع نقصان میں بھی اس کا حصه دوسرے سے دگنا هوگا خواه دونوں ایک جتنا کام کریں یا ایک تھوڑا کام کرے یا بالکل کام نه کرے۔

2157۔ اگر شراکت کے معاهدے میں یه طے کیا جائے که دونوں شریک مل کر خریدوفروخت کریں گے یا هر ایک انفرادی طور پر لین دین کرنے کا مجاز هوگا یا ان میں سے فقط ایک شخص لین دین کرے گا یا تیسرا شخص اجرت پر لین دین کرے گا تو ضروری هے که اس معاهدے پر عمل کریں۔

2158۔ اگر شرکاء یه معین نه کریں که ان میں سے کون سرمائے کے ساتھ خریدوفروخت کرے گا تو ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی اجازت کے بغیر اس سرمائے سے لین دین نهیں کر سکتا۔

2159۔ جو شریک شراکت کے سرمائے پر اختیار رکھتا هو اس کے لئے ضروری هے که شراکت کے معاهدے پر عمل کرے مثلاً اگر اس سے طے کیا گیا هو که ادھار خریدے گا یا نقد بیچے گا یا کسی خاص جگه سے خریدے گا تو جو معاهده طے پایا هے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری هے اور اگر اسکے ساتھ کچھ طے نه هوا هو تو ضروری هے که معمول کے مطابق لین

ص:405

دین کرے تاکه شراکت کو نقصان نه هو۔ نیز اگر عام روش کے عَلَی الرَّغم هو تو سفر میں شراکت کا مال اپنے همراه نه لے جائے۔

2160۔ جو شریک شراکت کے سرمائے سے سودے کرتا هو اگر جو کچھ اس کے ساتھ طے کیا گیا هو اس کے برخلاف خریدوفروخت کرے یا اگر کچھ طے نه کیا گیا هو اور معمول کے خلاف سودا کرے تو ان دونوں صورتوں میں اگرچه اقوی قول کی بنا پر معامله صحیح هے لیکن اگر معامله نقصان ده هو یا شراکت کے مال میں سے کچھ مال ضائع هو جائے تو جس شریک نے معاهدے یا عام روش کے عَلَی الَّرغم عمل کیا هو وه ذمے دار هے۔

2161۔ جو شریک شراکت کے سرمائے سے کاروبار کرتا هو اگر وه فضول خرچی نه کرے اور سرمائے کی نگهداشت میں بھی کوتاهی نه کرے اور پھر اتفاقاً اس سرمائے کی کچھ مقدار یا سارے کا سار سرمایه تلف هوجائے تو وه ذمے دار نهیں هے۔

2162۔ جو شریک شراکت کے سرمائے سے کاروبار کرتا هو اگر وه کهے که سرمایه تلف هوگیا هے تو اگر وه دوسرے شرکاء کے نزدیک معتبر شخص هو تو ضروری هے که اس کا کهنا لیں۔ اور اگر دوسرے شرکاء کے نزدیک وه معتبر شخص نه هو تو شرکاء حاکم شرع کے پاس اس کے خلاف دعوی کر سکتے هیں تاکه حاکم شرع قضاوت کے اصولوں کے مطابق تنازع کا فیصله کرے۔

2163۔ اگر تمام شریک اس اجازت سے جو انهوں نے ایک دوسرے کو مال میں تصرف کے لئے دے رکھی هو پھر جائیں تو ان میں سے کوئی بھی شراکت کے مال میں تصرف نهیں کر سکتا اور اگر ان میں سے ایک اپنی دی هوئی اجازت سے پھر جائے تو دوسرے شرکاء کو تصرف کا کوئی حق نهیں لیکن جو شخص اپنی دی هوئی اجازت سے پھر گیا هو وه شراکت کے مال میں تصرف کر سکتا هے۔

2164۔ جب شرکاء میں سے کوئی ایک تقاضا کرے که شراکت کا سرمایه تقسیم کر دیا جائے تو اگرچه شراکت کی معینه مدت میں ابھی کچھ وقت باقی هو دوسروں کو اس کا کهنا مان لینا ضروری هے مگر یه که انهوں نے پهلے هی (معاهده کرتے وقت) سرمائے کی تقسیم کو رد کر دیا هو (یعنی قبول نه کیا هو) یا مال کی تقسیم شرکاء کے لئے قابل ذکر نقصان کا موجب هو (تو اسکی بات قبول نهیں کرنی چاهئے)۔

ص:406

2165۔ اگر شرکاء میں سے کوئی مرجائے یا دیوانه یا بے حواس هو جائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نهیں کرسکتے اور اگر ان میں سے کوئی سفیه هو جائے یعنی اپنا مال احمقانه اور فضول کاموں میں خرچ کرے تو اس کا بھی یهی حکم هے۔

2166۔ اگر شریک اپنے لئے کوئی چیز ادھار خریدے تو اس نفع نقصان کا وه خود ذمے دار هے لیکن اگر شراکت کےلئے خریدے اور شراکت کے معاهدے میں ادھار معامله کرنا بھی شامل هو تو پھر نفع نقصان میں دونوں شریک هوں گے۔

2167۔ اگر شراکت کے سرمائے سے کوئی معامله کیا جائے اور بعد میں معلوم هو که شراکت باطل تھی تو اگر صورت یه هو که معامله کرنے کی اجازت میں شراکت کے صحیح هونے کی قید نه تھی یعنی اگر شرکاء جانتے هوتے که شراکت درست نهیں هے تب بھی وه ایک دوسرے کے مال میں تصرف پر راضی هوتے تو معامله صحیح هے اور جو کچھ اس معاملے سے حاصل هو وه ان سب کا مال هے۔ اور اگر صورت یه نه هو تو جو لوگ دوسروں کے تصرف پر راضی نه هوں اگر وه یه کهه دیں که هم اس معاملے پر راضی هیں تو معامله صحیح هے۔ ورنه باطل هے۔ دونوں صورتوں میں ان میں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کام کیا هو اگر اس نے بلامعاوضه کام کرنے کے ارادے سے نه کیا هو تو وه اپنی محنت کا معاوضه معمول کےمطابق دوسرے شرکاء سے ان کے مفاد کا خیال رکھتے هوئے لے سکتا هے۔ لیکن اگر کام کرنے کا معاوضه اس فائده کی مقدار سے زیاده هو جو وه شراکت صحیح هونے کی صورت میں لیتا تو وه بس اسی قدر فائده لے سکتا هے۔

صلح کے احکام

2168۔ "صُلح" سے مراد هے که انسان کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرے که اپنے مال سے یا اپنے مال کےمنافع سے کچھ مقدار دوسرے کو دے دے یا اپنا قرض یا حق چھوڑے دے تاکه دوسرا بھی اس کے عوض اپنے مال یا منافع کی کچھ مقدار اسے دے دے یا قرض یا حق سے دستبردار هو جائے۔ بلکه اگر کوئی شخص عوض لئے بغیر کسی سے اتفاق کرے اور اپنا مال یا مال کے منافع کی کچھ مقدار اس کو دے دے یا اپنا قرض یا حق چھوڑ دے تب بھی صلح صحیح هے۔

ص:407

2169۔ جو شخص اپنا مال بطور صلح دوسرے کو دے اس کے لئے ضروری هے که وه بالغ اور عاقل هو اور صلح کا قصد رکھتا هو نیز یه که کسی نے اسے صلح پر مجبور نه کیا هو اور ضروری هے که سَفیه یا دیوالیه هونے کی بنا پر اسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے نه روکا گیا هو۔

6170۔ صلح کا صیغه عربی میں پڑھنا ضروری نهیں بلکه جن الفاظ سے اس بات کا اظهار هو که فریقین نے آپس میں صلح کی هے (توصلح) صحیح هے۔

2171۔اگر کوئی شخص اپنی بھیڑیں چرواهے کودے تاکه وه مثلاً ایک سال ان کی نگهداشت کرے یا انکے دودھ سے خود استفاده حاصل کرے اور گھی کی کچھ مقدار مالک کو دے تو اگر چرواهے کی محنت اور اس گھی کے مقابلے میں وه شخص بھیڑوں کے دودھ پر صلے کرے تو معامله صحیح هے بلکه اگر بھیڑیں چرواهے کو ایک سال کے لئے اس شرط کے ساتھ اجارے پر دے که وه ان کے دودھ سے استفاده حاصل کرے اور اس کے عوض اسے کچھ گھی دے مگر یه قید نه لگائے که بالخصوص انھی بھیڑوں کے دودھ کا گھی هو تو اجاره صحیح هے۔

2172۔ اگر کوئی قرض خواه اس قرض کے بدلے جو اسے مقروض سے وصول کرنا هے یا اپنے حق کے بدلے اس شخص سے صلح کرنا چاهے تو یه صلح اس صورت میں صحیح هے جب دوسرا اسے قبول کرلے لیکن اگر کوئی شخص اپنے قرض یا حق سے دستبردار هونا چاهے تو دوسرے کا قبول کرنا ضروری نهیں۔

2173۔ اگر مقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتا هو جبکه قرض خواه کو علم نه هو اور قرض خواه نے جو کچھ لینا هو اس سے کم پر صلح کرے مثلا اس نے پچاس روپے لینے هوں اور دس روپے پر صلح کرلے تو باقیمانده رقم مقروض کے لئے حلال نهیں هے۔ سوائے اس صورت کے که وه جتنے قرض کا دین دار هے اس کے متعلق خود قرض خواه کو بتائے اور اسے راضی کرے یا صورت ایسی هو که اگر قرض خواه کو قرضے کی مقدار کا علم هو تاتب بھی وه اسی مقدار (یعنی دس روپے پر صلح کر لیتا۔

2174۔ اگر دو آدمیوں کے پاس کوئی مال موجود هو یا ایک دوسرے کے ذمے کوئی مال باقی هو اور انهیں یه علم هو که ان دونوں اموال میں سے ایک مال دوسرے مال سے زیاده هے تو چونکه ان دونوں اموال کو ایک دوسرے کے عوض میں فروخت کرنا سود هونے کی بنا پر حرام هے اس لئے ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح کرنا بھی حرام هے بلکه اگر

ص:408

ان دونوں اموال میں سے ایک کے دوسرے سے زیاده هونے کا علم نه بھی هو لیکن زیاده هونے کا احتمال هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح نهیں کی جاسکتی۔

2175۔ اگر دو اشخاص کو ایک شخص سے یا دو اشخاص کو اشخاص سے قرضه وصول کرنا هو اور وه اپنی اپنی طلب پر ایک دوسرے سے صلح کرنا چاهتے هوں۔ چنانچه اگر صلح کرنا سود کا باعث نه هو جیسا که سابقه مسئلے میں کها گیا هے تو کوئی حرج نهیں هے مثلاً اگر دونوں کو دس من گیهوں وصول کرنا هو اور ایک کا گیهوں اعلی اور دوسرے کا درمیانے درجے کا هو اور دونوں کی مدت پوری هوچکی هو تو ان دونوں کا آپس میں مصالحت کرنا صحیح هے۔

2176۔ اگر ایک شخص کو کسی سے اپنا قرضه کچھ مدت کے بعد واپس لینا هو اور وه مقروض کے ساتھ مقرره مدت سے پهلے معین مقدار سے کم پر صلح کرلے اور اس کا مقصد یه هو که اپنے قرضے کا کچھ حصه معاف کردے اور باقیمانده نقد لے لے تو اس میں کوئی حرج نهیں اور یه حکم اس صورت میں هے که قرضه سونے یا چاندی کی شکل میں یا کسی ایسی جنس کی شکل میں هو جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی هے اور اگر جنس اس قسم کی نه هو تو قرض خواه کے لئے جائز هے که اپنے قرضے کو مقروض سے یا کسی اور شخص سے کمتر مقدار پر صلح کرلے یا بیچ دے جیسا که مسئله 2297 میں بیان هوگا۔

2177۔ اگر دو اشخاص کسی چیز پر آپس میں صلح کرلیں تو ایک دوسرے کی رضامندی سے اس صلح کو توڑ سکتے هیں۔ نیز اگر سودے کے سلسلے میں دونوں کو یا کسی ایک کو سودا فسخ کرنے کا حق دیا گیا هو تو جس کے پاس حق هے، وه صلح کو فسخ کر سکتا هے۔

2178۔ جب تک خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جدا نه هوگئے هوں وه سودے کو فسخ کرسکتے هیں۔ نیز اگر خریدار ایک جانور خریدے تو وه تین دن تک سودا فسخ کرنے کا حق رکھتا هے۔ اسی طرح اگر ایک خریدار خریدی هوئی جنس کی قیمت تین دن تک ادا نه کرے اور جنس کو اپنی تحویل میں نه لے تو جیسا که مسئله 2132 میں بیان هوچکا هے بیچنے والا سودے کو فسخ کرسکتا هے لیکن جو شخص کسی مال پر صلح کرے وه ان تینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کا حق نهیں رکھتا۔ لیکن اگر صلح کا دوسرا فریق مصالحت کا مال دینے میں غیر معمولی تاخیر کرے یا یه شرط رکھی گئی هو که مصالحت کا مال نقد دیا جائے اور دوسرا فریق اس شرط پر عمل نه کرے تو اس صورت میں صلح فسخ کی جاسکتی هے۔ اور اسی طرح باقی صورتوں میں بھی جن کا ذکر خرید و فروخت کے احکام میں آیا هے صلح فسخ کی جاسکتی هے مگر مصالحت کے دونوں فریقوں میں سے ایک کو نقصان هو تو اس صورت میں معلوم نهیں که سودا فسخ کیا جاسکتا هے (یانهیں)

ص:409

2179۔ جو چیز بذریعه صلح ملے اگر وه عیب دار هو تو صلح فسخ کی جاسکتی هے لیکن اگر متعلقه شخص بے عیب اور عیب دار کے مابین قیمت کا فرق لینا چاهے تو اس میں اشکال هے۔

2180۔ اگر کوئی شخص اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے صلح کرے اور اس کے ساتھ شرط ٹھهرائے اور کهے "جس چیز میں نے تم سے صلح کی هے میرے مرنے کے بعد مثلاً تم اسے وقف کر دو گے" اور دوسرا شخص بھی اس کو قبول کرلے تو ضروری هے که اس شرط پر عمل کرے۔

کرائے کے احکام

2181۔ کوئی چیز کرائے پر دینے والے اور کرائے پر لینے والے کے لئے ضروری هے که بالغ اور عاقل هون اور کرایه لینے یا کرایه دینے کا کام اپنے اختیاط سے کریں۔ اور یه بھی ضروری هے که اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتے هوں لهذا چونکه سَفِیه اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق نهیں رکھتا اس لئے نه وه کوئی چیز کرائے پر لے سکتا هے اور نه دے سکتا هے۔ اسی طرح جو شخص دیوالیه هو چکا هو وه ان چیزوں کو کرائے پر نهیں دے سکتا جن میں وه تصرف کا حق نه رکھتا هو اور نه وه ان میں سے کوئی چیز کرائے پر لے سکتا هے لیکن اپنی خدمات کو کرائے پر پیش کر سکتا هے۔

2182۔ انسان دوسرے کی طرف سے وکیل بن کر اس کا مال کرائے پر دے سکتا هے یا کوئی مال اس کے لئے کرائے پر لے سکتا هے۔

2183۔ اگر بچے کا سرپرست یا اس کے مال کا منتظم بچے کا مال کرائے پر دے یا بچے کو کسی کا اجیر مقرر کر دے تو کوئی حرج نهیں اور اگر بچے کے بالغ هونے کے بعد کی کچھ مدت کو بھی اجارے کی مدت کا حصه قرار دیا جائے تو بچه بالغ هونے کے بعد باقیمانده اجاره فسخ کرسکتا هے اگرچه صورت یه هو که اگر بچے کے بالغ هونے کی کچھ مدت کو اجاره کی مدت کا حصه نه بنایا جاتا تو یه بچے کے لئے مصلحت کے علی الرغم هوتا۔ هاں اگر وه مصلحت که جس کے بارے میں یه علم هو که شارع مُقدس اس مصلحت کو ترک کرنے پر راضی نهیں هے اس صورت میں اگر حاکم شرع کی اجازت سے اجاره وقع هو جائے تو بچه بالغ هونے کے بعد اجاره فسخ نهیں کرسکتا۔

2184۔ جس نابالغ بچے کا سرپرست نه هو اسے مجتهد کی اجازت کے بغیر مزدوری پر نهیں لگایا جاسکتا اور جس شخص کی رسائی مجتهد تک نه هو وه ایک مومن شخص کی اجازت لے کر جو عادل هو بچے کو مزدوری پر لگا سکتا هے۔

ص:410

2175۔ اجاره دینے والے اور اجاره لینے والے کے لئے ضروری نهیں که صیغه عربی زبان میں پڑھیں بلکه اگر کسی چیز کا مالک دوسرے سے کهے که میں نے اپنا مال تمهیں اجارے پر دیا اور دوسرا کهے که میں نے قبول کیا تو اجاره صحیح هے بلکه اگر وه منه سے کچھ بھی نه کهیں اور مالک اپنا مال اجارے کے قصد سے مُستاجِر کو دے اور وه بھی اجارے کے قصد سے لے تو اجاره صحیح هوگا۔

2186۔ اگر کوئی شخص چاهے که اجارے کا صیغه پڑھے بغیر کوئی کام کرنے کے لئے اجیر بن جائے جونهی وه کام کرے میں مشغول هوگا اجاره صحیح هوجائے گا۔

2187۔ جو شخص بول نه سکتا هو اگر وه اشارے سے سمجھا دے که اس نے کوئی چیز اجارے پر دی هے یا اجارے پرلی هے تو اجاره صحیح هے۔

2188۔ اگر کوئی شخص مکان یا دکان یا کشتی یا کمره اجارے پر لے اور اس کا مالک یه شرط لگائے که صرف وه اس سے استفاده کر سکتا هے تو مُستَاجِر اسے کسی دوسرے کو استعمال کے لئے اجارے پر نهیں دے سکتا بجز اس کے که وه نیا اجاره اس طرح هو که اس کے فوائد بھی خود مستاجر سے مخصوص هوں۔ مثلاً ایک عورت ایک مکان یا کمره کرائے پر لے اور بعد میں شادی کرلے اور کمره یا مکان اپنی رهائش کے لئے کرائے پر دے دے (یعنی شوهر کو کرائے پر دے کیونکه بیوی کی رهائش کا انتظام بھی شوهر کی ذمے داری هے) اور اگر مالک ایسی کوئی شرط نه لگائے تو مستاجر دوم کے سپرد کرنے کے لئے احتیاط کی بنا پر ضروری هے که مالک سے اجازت لے لے لیکن اگر وه یه چاهے که جتنے کرائے پر لیا هے اس سے زیاده کرائے پردے اگرچه (کرایه رقم نه هو) دوسری جنس سے هو تو ضروری هے که اس نے مرمت اور سفیدی وغیره کرائی هو یا اس کی حفاظت کے لئے کچھ نقصان برادشت کیا هو تو وه اسے زیاده کرائے پر دے سکتا هے۔

2189۔ اگر اجیر مُستَاجر سے یه شرط طے کرے که وه فقط اسی کا کام کرے گا تو بجز اس صورت کے جس کا ذکر سابقه مسئلے میں کیا گیا هے اس اجیر کو کسی دوسرے شخص کو بطور اجاره نهیں دیا جاسکتا اور اگر اجیر ایسی کوئی شرط نه لگائے تو اسے دوسرے کو اجارے پر دے سکتا هے لیکن جو چیز اس کو اجارے پر دے رها هے ضروری هے که اس کی قیمت اس اجارے سے زیاده نه هو جو اجیر کے لئے قرار دیا هے۔ اور اسی طرح اگر کوئی شخص خود کسی کا اجیر بن جائے اور کسی دوسرے شخص کو وه کام کرنے کے لئے کم اجرت پر رکھ لے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے (یعنی وه اسے کم اجرت پر نهیں رکھ سکتا) لیکن اگر اس نے کام کی کچھ مقدار خود انجام دی هو تو پھر دوسرے کو کم اجرت پر بھی رکھ سکتا هے۔

ص:411

2190۔ اگر کوئی شخص مکان دکان، کمرے اور کشتی کے علاوه کوئی اور چیز مثلاً زمین کرائے پرلے اور زمین کا مالک اس سے یه شرط نه کرے که صرف وهی اس سے استفاده کرسکتا هے تو اگر جتنے کرائے پر اس نے وه چیز لی هے اس سے زیاده کرائے پر دے تو اجاره صحیح هونے میں اشکال هے۔

2191۔ اگر کوئی شخص مکان یا دکان مثلاً ایک سال کے لئے سو روپیه کرائے پر لے اور اس کا آدھا حصه خود استعمال کرے تو دوسرا حصه سو روپیه کرائے پر چڑھا سکتا هے لیکن اگر وه چاهے که مکان یا دکان کا آدھا حصه اس سے زیاده کرائے پر چڑھا دے جس پر اس نے خود وه دکان یا مکان کرائے پر لیا هے مثلاً 120 روپے کرائے پر دے دے تو ضروری هے که اس نے اس میں مرمت وغیره کا کام کرایا هو۔

کرائے پر دیئے جانے والے مال کی شرائط

2192۔ جو مال اجارے پر دیا جائے اس کی چند شرائط هیں :

1۔ وه مال معین هو۔ لهذا اگر کوئی شخص کهے که میں نے اپنے مکانات میں سے ایک مکان تمهیں کرائے پر دیا تو یه درست نهیں هے۔

2۔ مستاجر یعنی کرائے پر لینے والا اس مال کو دیک لے یا اجارے پر دینے والا شخص اپنے مال کی خصوصیات اس طرح بیان کرے که اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل هوجائیں۔

3۔ اجارے پر دیئے جانے والے مال کو دوسرے فریق کے سپرد کرنا ممکن هو لهذا اس گھوڑے کو اجارے پر دینا جو بھاگ گیا هو اگر مستاجر اس کو نه پکڑ سکے تو اجاره باطل هے اور اگر پکڑ سکے تو اجاره صحیح هے۔

4۔ اس مال سے استفاده کرنا اس کے ختم یا کالعدم هوجانے پر موقوف نه هو لهذا روٹی، پھلوں اور دوسری خوردنی اشیاء کو کھانے کے لئے کرائے پر دینا صحیح نهیں هے۔

5۔ مال سے وه فائده اٹھانا ممکن هو جس کے لئے اسے کرائے پر دیا جائے۔ لهذا ایسی زمین کا زراعت کے لئے کرائے پر دینا جس کے لئے بارش کا پانی کافی نه هو اور وه دریا کے پانی سے بھی سیراب نه هوتی هو صحیح نهیں هے۔

ص:412

6۔ جو چیز کرائے پر دی جارهی هو وه کرائے پردینے والے کا اپنا مال هو اور اگرکسی دوسرے کا مال کرائے پر دیا جائے تو معامله اس صورت میں صحیح هے که جب اس مال کا مالک رضامند هو۔

2193۔ جس درخت میں ابھی پھل نه لگا هو اس کا اس مقصد سے کرائے پر دینا که اس کے پھل سے استفاده کیا جائے گا درست هے اور اسی طرح ایک جانور کو اس کے دودھ کے لئے کرائے پر دینے کا بھی یهی حکم هے۔

2194۔ عورت اس مقصد کے لئے اجیر بن سکتی هے که اس کے دودھ سے استفاده کیا جائے (یعنی کسی دوسرے کے بچے کو اجرت پر دودھ پلاسکتی هے) اور ضروری نهیں که وه اس مقصد کے لئے شوهر سے اجازت لے لیکن اگر اس کے دودھ پلانے سے شوهر کی حق تلفی هوتی هو تو پھر اس کی اجازت کے بغیر عورت اجیر نهیں بن سکتی۔

کرائے پر دیئے جانے والے مال سے اِستِفَادے کی شرائط

2195۔ جس اِستِفَادے کے لئے مال کرائے پر دیا جاتا هے اس کی چار شرطیں هیں :

1۔ استفاده کرنا حلال هو۔ لهذا دکان کو شراب بیچنے یا شراب ذخیره کرنے کے لئے کرائے پر دینا اور حیوان کو شراب کی نقل و حمل کے لئے کرائے پر دینا باطل هے۔

2۔وه عمل شریعت میں بلامعاوضه انجام دینا واجب نه هو۔ اور احتیاط کی بنا پر اسی قسم کے کاموں میں سے هے حلال اور حرام کے مسائل سکھانا اور مردوں کی تجهیز و تکفین کرنا۔ لهذا ان کاموں کی اجرت لینا جائز نهیں هے اور احتیاط کی بنا پر معتبر هے که اس استفادے که لئے رقم دینا لوگوں کی نظروں میں فضول نه هو۔

3۔ جو چیز کرائے پر دی جائے اگر وه کثِیرالفَوائد (اور کثیرُالمَقاصد) هو تو جو فائده اٹھانے کی مستاجر کو اجازت هو اسے معین کیا جائے مثلاً ایک ایسا جانور کرائے پر دیا جائے جس پر سوای بھی کی جا سکتی هو اور مال بھی لادا جاسکتا هو تو اسے کرائے پر دیتے وقت یه معین کرنا ضروری هے که مستاجر اسے فقط سواری کے مقصد کے لئے یا فقط بار برداری کے مقصد کے لئے استعمال کرسکتا هےیا اس سے هر طرح استفاده کرسکتا هے۔

ص:413

4۔ استفاده کرنے کی مدت کا تعین کر لیا جائے۔ اور یه استفاده مدت معین کر کے حاصل کیا جاسکتا هے مثلاً مکان یا دکان کرائے پر دے کر یا کام کا تعین کرکے حاصل کیا جاسکتا هے مثلاً درزی کے ساتھ طے کر لیا جائے که وه ایک معین لباس مخصوص ذیزائن میں سئے گا۔

2196۔ اگر اجارے کی شروعات کا تعین نه کیا جائے تو اس کے شروع هونے کا وقت اجارے کا صیغه پڑھنے کے بعد سے هوگا۔

2197۔ مثال کے طور پر اگر مکان ایک سال کے لئے کرائے پر دیا جائے اور معاهدے کی ابتدا کا وقت صیغه پڑھنے سے ایک مهینه بعد سے مقرر کیا جائے تو اجاره صحیح هے اگرچه جب صیغه پڑھا جارها هو وه مکان کسی دوسرے کے پاس کرائے پرهو۔

2198۔ اگر اجارے کی مدت کا تعین نه کیا جائے بلکه کرائے دار سے کها جائے که جب تک تم اس مکان میں رهو گے دس روپے ماهوار کرایه دو گے تو اجاره صحیح نهیں هے۔

2199۔ اگرمالک مکان، کرائے دار سے کهے که میں نے تجھے یه مکان دس روپے ماهوار کرائے پر دیا یا یه کهے که یه مکان میں نے تجھے ایک مهینے کے لئے دس روپے کرائے پر دیا اور اس کے بعد بھی تم جتنی مدت اس میں رهو گے اس کا کرایه دس روپے ماهانه هوگا تو اس صورت میں جب اجارے کی مدت کی ابتدا کا تعین کر لیا جائے یا اس کی ابتدا کا علم هو جائے تو پهلے مهینے کا اجاره صحیح هے۔

2200۔ جس مکان میں مسافر اور زائر قیام کرتے هوں اور یه علم نه هو که وه کتنی مدت تک وهاں رهیں گے اگر وه مالک مکان سے طے کر لیں که مثلاً ایک رات کا ایک روپیه دیں گے اور مالک مکان اس پر راضی هو جائے تو اس مکان سے استفاده کرنے میں کوئی حرج نهیں لیکن چونکه اجارے کی مدت طے نهیں کی گئی لهذا پهلی رات کے علاوه اجاره صحیح نهیں هے اور مالک مکان پهلی رات کے بعد جب بھی چاهے انهیں نکال سکتا هے۔

کرائے کے متفرق مسائل

ص:414

2201۔ جو مال مُستَاجِر اجارے کے طور پر دے رها هو ضروری هے که وه مال معلوم هو۔ لهذا اگر ایسی چیزیں هوں جن کالین دین تول کر کیا جاتا هے مثلاً گیهوں تو ان کا وزن معلوم هونا ضروری هے اور اگر ایسی چیزیں هوں جن کا لین دین گن کر کیا جاتا هے مثلاً رائج الوقت سکے تو ضروری هے که ان کی تعداد معین هو اور اگر وه چیزیں گھوڑے اور بھیڑ کی طرح هوں تو ضروری هے که کرایه لینے والا انهیں دیکھ لے مستاجران کی خصوصیات بتادے۔

2202۔اگر زمین زراعت کے لئے کرائے پر دی جائے اور اس کی اجرت اسی زمین کی پیدوار قرار دی جائے جو اس وقت موجود نه هو یا کلی طور پر کوئی چیز اس کے ذمے قرار دے اس شرط پر که وه اسی زمین کی پیداوار سے ادا کی جائے گی تو اجاره صحیح نهیں هے اور اگر اجرت (یعنی اس زمین کی پیداوار ) اجاره کرتے وقت موجود هو تو پھر کوئی حرج نهیں هے۔

2203۔ جس شخص نے کوئی چیز کرائے پر دی هو وه اس چیز کو کرایه دار کی تحویل میں دینے سے پهلے کرایه مانگنے کا حق نهیں رکھتا نیز اگر کوئی شخص کسی کام کے لئے اجیر بنا هو تو جب تک وه کام انجام نه دے دے اجرات کا مطالبه کرنے کا حق نهیں رکھتا مگر بعض صورتوں میں، مثلاً حج کی ادائیگی کے لئے اجیر جسے عموماً عمل کے انجام دینے سے پهلے اجرت دے دی جاتی هے (اجرت کا مطالبه کرنے کا حق رکھتا هے)۔

2204۔ اگر کوئی شخص کرائے پر دی گئی چیز کرایه دار کی تحویل میں دے دے تو اگرچه کرایه دار اس چیز پر قبضه نه کرے یا قبضه حاصل کرلے لیکن اجاره ختم هونے تک اس سے فائده نه اٹھائے پھر بھی ضروری هے که مالک کو اجرت ادا کرے۔

2205۔ اگر ایک شخص کوئی کام ایک معین دن میں انجام دینے کے لئے اجیر بن جائے اور اس دن وه کام کرنے کے لئے تیار هو جائے تو جس شخص نے اسے اجیر بنایا هے خواه وه اس دن اس سے کام نه لے ضروری هے که اس کی اجرت اسے دے دے۔ مثلاً اگر کسی درزی کو ایک معین دن لباس سینے کے لئے اجیر بنائے اور درزی اس دن کام کرنے پر تیار هو تو اگرچه مالک اسے سینے کے لئے کپڑا نه دے تب بھی ضروری هے که اسے اس کی مزدوری دے دے۔ قطع نظر اس سے که درزی بیکار رها هو اس نے اپنا یا کسی دوسرے کا کام کیا هو۔

2206۔ اگر اجارے کی مدت ختم هو جانے کے بعد معلوم هو که اجاره باطل تھا تو مستاجر کےلئے ضروری هے که عام طور پر اس چیز کا جو کرایه هوتا هے مال کے مالک کو دے دے مثلاً اگر وه ایک مکان سو روپے کرائے پر ایک سال کے لئے لے اور بعد میں اسے پتا چلے که اجاره باطل تھا تو اگر اس مکان کا کرایه عام طور پر پچاس روپے هو تو ضروری هے که پچاس

ص:415

روپے دے اور اگر اس کا کرایه عام طور پر دو سو روپے هو تو اگر مکان کرایه پر دینے والا مالک مکان هو یا اس کا وکیل مطلق هو اور عام طور پر گھر کے کرائے کی جو شرح هو اسے جانتا هو تو ضروری نهیں هے که مستاجر سو روپے سے زیاده دے اور اگر اس کے برعکس صورت میں هو تو ضروری هے مستاجر دو سو روپے دے نیز اگر اجارے کی کچھ مدت گزرنے کے بعد معلوم هو که اجاره باطل تھا تو جو مدت گزر چکی هو اس پر بھی یهی حکم جاری هوگا۔

2207۔ جس چیز کو اجارے پر لیا گیا هو اگر وه تلف هو جائے اور مستاجر نے اس کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتی هو اور اسے غلط طور پر استمعال نه کیا هو تو (پھر وه اس چیز کے تلف هونے کا) ذمے دار نهیں هے۔ اسی طرح مثال کے طور پر اگر درزی کو دیا گیا کپڑا تلف هو جائے تو اگر درزی نے بے احتیاطی نه کی هو اور کپڑے کی نگهداشت میں بھی کوتاهی نه برتی هو تو ضروری هے که وه اس کا عوض اس سے طلب نه کرے۔

2208۔ جو چیز کسی کاریگر نےلی هو اگر وه اسے ضائع کر دے تو (وه اس کا ) ذمه دار هے۔

2209۔ اگر قصاب کسی جانور کا سر کاٹ ڈالے اور اسے حرام کر دے تو خواه اس نے مزدوری لی هو یا بلامعاوضه ذبح کیا هو ضروری هے که جانور کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے۔

2210۔ اگر کوئی شخص ایک جانور کرائے پر لے اور معین کرے که کتنا بوجھ اس پر لادے گا تو اگر وه اس پر مُعَیَّنَه مقدار سے زیاده بوجھ لادے اور اس وجه سے جانور مرجائے یا عیب دار هو جائے تو مستاجر ذمے دار هے۔ نیز اگر اس نے بوجھ کی مقدار مُعَیَّن نه کی هو اور معمول سے زیاده بوجھ جانور پر لادے اور جانور مر جائے یا عیب دار هو جائے تب بھی مَستَاجِر ذمے دار هے اور دونوں صورتوں میں مستاجر کے لئے یه بھی ضروری هے که معمول سے زیاده اجرت ادا کرے۔

2211۔ اگر کوئی شخص حیوان کو ایسا (نازک) سامان لادنے کے لئے کرائے پر دے جو ٹوٹنے والا هو اور جانور پھسل جائے یا بھاگ کھڑا هو اور سامان کو توڑ پھوڑ دے تو جانور کا مالک ذمے دار نهیں هے۔ هاں اگر مالک جانور کو معمول سے زیاده مارے یا ایسی حرکت کرے جس کی وجه سے جانور گر جائے اور لدا هوا سامان توڑ دے تو مالک ذمے دار هے۔

2212۔ اگر کوئی شخص بچے کا ختنه کرے اور وه اپنے کام میں کوتاهی یا غلطی کرے مثلاً اس نے معمول سے زیاده (چمڑا) کاٹا هو اور وه بچه مرجائے یا اس میں کوئی نقص پیدا هوجائے تو وه ذمے دار هے اور اگر اس نے کوتاهی یا غلطی نه کی هو اور بچه ختنه کرنے سے هی مرجائے یا اس میں کوئی عیب پیدا هو جائے چنانچه اس بات کی تشخیص کے لئے که بچے کے لئے نقصان

ص:416

ده هے یا نهیں اس کی طرف رجوع نه کیا گیا هو نیز وه یه بھی نه جانتا هو که بچے کو نقصان هوگا تو اس صورت میں وه ذمے دار نهیں هے۔

2213۔اگر معالج اپنے هاتھ سے کسی مریض کو دوا دے یا اس کے لئے دوا تیار کرنے کو کهے اور دوا کھانے کی وجه سے مریض کو نقصان پهنچے یا وه مر جائے تو معالج ذمه دار هے اگرچه اس نے علاج کرنے میں کوتاهی نه کی هو۔

2214۔ جب معالج مریض سے کهه دے اگر تمهیں کوئی ضرر پهنچا تو میں ذمے دار نهیں هوں اور پوری احتیاط سے کام لے لیکن اس کے باوجود اگر مریض کو ضرر پهنچے یا وه مرجائے تو معالج ذمے دار نهیں هے۔

2215۔ کرائے پر لینے والا اور جس شخص نے کوئی چیز کرائے پر دی هو، وه ایک دوسرے کی رضامندی سے معامله فسخ کرسکتے هیں اور اگر اجارے میں یه شرط عائد کریں که وه دونوں یا ان میں سے کوئی ایک معاملے کو فسخ کرنے کا حق رکھتا هے تو وه معاهدے کے مطابق اجاره فسخ کرسکتے هیں۔

2216۔ اگر مال اجاره پر دینے والے یا مستاجر کو پتا چلے که وه گھاٹے میں رها هے تو اگر اجاره کرنے کے وقت وه اس امر کی جانب متوجه نه تھا که وه گھاٹے میں هے تو وه اس تفصیل کے مطابق جو مسئله 2132 میں گزر چکی هے اجاره فسخ کر سکتا هے لیکن اگر اجارے کے صیغے میں یه شرط عائد کی جائے که اگر ان میں سے کوئی گھاٹے میں بھی رهے گا تو اسے اجاره فسخ کرنے کا حق نهیں هوگا تو پھر وه اجاره فسخ نهیں کرسکتے۔

2217۔ اگر ایک شخص کوئی چیز ادھار پر دے اور اس سے پهلے که اس کا قبضه مستاجر کو دے کوئی اور شخص اس چیز کو غصب کرلے تو مستاجر اجاره فسخ کر سکتا هے اور جو چیز اس نے اجارے پر دینے والے کو دی هو اسے واپس لے سکتا هے۔ یا (یه بھی کر سکتا هے که) اجاره فسخ نه کرے اور جتنی مدت وه چیز غاصب کے پاس رهی هو اس کی عام طور پر جتنی اجرت بنے وه غاصب سے لے لے لهذا اگر مستاجر ایک حیوان کا ایک مهینے کا اجاره دس روپے کے عوض کرے اور کوئی شخص اس حیوان کو دس دن کے لئے غصب کر لے اور عام طور پر اس کا دس دن کا اجاره پندره روپے هو تو مستاجر پندره روپے غاصب سے لے سکتے هے۔

ص:417

2218۔ اگر کوئی دوسرا شخص مستاجر کو اجاره کرده چیز اپنی تحویل میں نه لینے دے یا تحویل میں لینے کے بعد اس پر ناجائز قبضه کرلے یا اس سے استفاده کرنے میں حائل هو تو مستاجر اجاره فسخ نهیں کر سکتا اور صرف یه حق رکھتا هے که اس چیز کا عام طور پر جتنا کرایه بنتا هو وه غاصب سے لے لے۔

2219۔ اگر اجارے کی مدت ختم هونے سے پهلے مالک اپنا مال مستاجر کے هاتھ بیچ ڈالے تو اجاره فسخ نهیں هوتا اور مستاجر کو چاهئے که اس چیز کا کرایه مالک کو دے اور اگر (مالک مستاجر کے علاوه) اس (مال) کو کسی اور شخص کے هاتھ بیچ دے تب بھی یهی حکم هے۔

2220۔ اگر اجارے کی مدت شروع هونے سے پهلے جو چیز اجارے پر لی هے وه اس استفادے کے قابل نه رهے جس کا تعین کیا گیا تھا تو اجاره باطل هوجاتا هے اور مستاجر اجاره کی رقم مالک سے واپس لے سکتا هے اور اگر صورت یه هو که اس مال سے تھوڑا سا استفاده کیا جاسکتا هو تو مستاجر اجاره فسخ کر سکتا هے۔

2221۔ اگر ایک شخص کوئی چیز اجارے پر لے اور وه کچھ مدت گزرنے کے بعد جو استفاده مستاجر کے لئے طے کیا گیا هو اس کے قابل نه رهے تو باقی مانده مدت کے لئے اجاره باطل هوجاتا هے اور مستاجر گزری هوئی مدت کا اجاره "اُجرَۃُ المِثل" یعنی جتنے دن وه چیز استعمال کی هو اتنے دنوں کی عام اجرت دے کر اجاره فسخ کرسکتا هے۔

2222۔اگر کوئی شخص ایسا مکان کرائے پر دے جس کے مثلاً دو کمرے هوں اور ان میں سے ایک کمره ٹوٹ پھوٹ جائے لیکن اجارے پر دینے والا اس کمره کو (مرمت کرکے) اس طرح بنادے جس میں سابقه کمرے کے مقابلے میں کافی فرق هو تو اس کے لئے وهی حکم هے جو اس سے پهلے والے مسئلے میں بتایا گیا هے اور اگر اس طرح نه هو بلکه اجارے پر دینے والا اسے فوراً بنا دے اور اس سے استفاده حاصل کرنے میں بھی قطعاً فرق دافع نه هو تو اجاره باطل نهیں هوتا۔ اور کرائے دار بھی اجارے کو فسخ نهیں کرسکتا لیکن اگر کمرے کی مرمت میں قدرے تاخیر هو جائے اور کرائے دار اس سے استفاده نه کر پائے تو اس "تاخیر" کی مدت تک کا اجاره باطل هوجاتا هے اور کرائے دار چاهے تو ساری مدت کا اجاره بھی فسخ کرسکتا هے البته جتنی مدت اس نے کمرے سے استفاده کیا هے اس کی اُجرَۃُ المِثل دے۔

2223۔اگر مال کرائے پر دینے والا یا مستاجر مر جائے تو اجاره باطل نهیں هوتا لیکن اگر مکان کا فائده صرف اس کی زندگی میں هی اس کا هو مثلاً کسی دوسرے شخص نے وصیت کی هو که جب تک وه (اجارے پر دینے والا) زنده هے مکان

ص:418

کی آمدنی اس کا مال هوگا تو اگر وه مکان کرائے پر دے دے اور اجاره کی مدت ختم هونے سے پهلے مرجائے تو اس کے مرنے کے وقت سے اجاره باطل هے اور اگر موجوده مالک اس اجاره کی تصدیق کر دے تو اجاره صحیح هے اور جارے پر دینے والے کے موت کے بعد اجارے کی جو مدت باقی هوگی اس کی اجرت اس شخص کو ملے گی جو موجوده مالک هو۔

2224۔ اگر کوئی شخص کسی معمار کو اس مقصد سے وکیل بنائے که وه اس کے لئے کاریگر مهیا کرے تو اگر معمار نے جو کچھ اس شخص سے لے لیا هے کاریگروں کو اس سے کم دے تو زائد مال اس پر حرام هے اور اس کے لئے ضروری هے که وه رقم اس شخص کو واپس کر دے لیکن اگر معمار اجبیر بن جائے که عمارت کو مکمل کر دے گا اور وه اپنے لئے یه اختیار حاصل کرلے که خود بنائے گا یا دوسرے سے بنوائے گا تو اس صورت میں که کچھ کام خود کرے اور باقیمانده دوسروں سے اس اجرت سے کم پر کروائے جس پر وه خود اجیر بنا هے تو زائد رقم اس کے لئے حلال هوگی۔

2225۔ اگر رنگریز وعده کرے که مثلاً کپڑا نیل سے رنگے گا تو اگر وه نیل کے بجائے اسے کسی اور چیز سے رنگ دے تو اسے اجرت لینے کا کوئی حق نهیں۔

جعاله کے احکام

2226۔ "جعاله" سے مراد یه هے که انسان وعده کرے که اگر ایک کام اس کے لئے انجام دیا جائے گا تو وه اس کے بدلے کچھ مال بطور انعام دے گا مثلاً یه کهے که جو اس کی گمشده چیز بر آمد کرے گا وه اسے دس روپے (انعام) دے گا تو جو شخص اس قسم کا وعده کرے اسے "جاعل" اور جو شخص وه کام انجام دے اسے "عامل" کهتے هیں۔ اور اجاره و جعالے میں بعض لحاظ سے فرق هے۔ ان میں سے ایک یه هے که که اجارے میں صیغه پڑھنے کے بعد اجیر کے لئے ضروری هے که کام انجام دے۔ اور جس نے اسے اجیر بنایا هو وه اجرت کے لئے اس کا مقروض هوجاتا هے لیکن جعاله میں اگرچه عامل ایک معین شخص هو تاهم هوسکتا هے که وه کام میں مشغول نه هو۔ پس جب تک وه کام انجام نه دے۔ جاعل اس کا مقروض نهیں هوتا۔

2227۔جاعل کے لئے ضروری هے که بالغ اور عاقل هو اور انعام کا وعده اپنے ارادے اور اختیار سے کرے اور شرعاً اپنے مال میں تصرف کرسکتا هو۔ اس بنا پر سفیه کا جعاله صحیح نهیں هے اور بالکل اسی طرح دیوالیه شخص کا جعاله ان اموال میں صحیح نهیں هے جن میں تصرف کا حق نه رکھتا هو۔

ص:419

2228۔ جاعل جو کام لوگوں سے کرانا چاهتا هو ضروری هے که وه حرام یا بے فائده نه هو اور نه هی ان واجبات میں سے هو جن کا بلامعاوضه بجالانا شرعاً لازم هو۔ لهذا اگرکوئی کهے که جو شخص شراب پیئے گا یا رات کے وقت کسی عاقلانه مقصد کے بغیر ایک تاریک جگه پر جائے گا یا واجب نماز پڑھے گا میں اسے دس روپے دوں گا تو جعاله صحیح نهیں هے۔

2229۔ جس مال کے بارے میں معاهده کیا جارها هو ضروری نهیں هے که اسے اس کی پوری خصوصیات کا ذکر کرکے معین کیا جائے بلکه اگر صورت حال یه هو که کام کرنے والے کو معلوم هو که اس کام کو انجام دینے کے لئے اقدام کرنا حماقت شمار نه هوگا تو کافی هے مثلاً اگر جاعل یه کهے که اگر تم نے اس مال کو دس روپے سے زیاده قیمت پر بیچا تو اضافی رقم تمهاری هوگی تو جعاله صحیح هے اور اسی طرح اگر جاعل کهے که جو کوئی میرا گھوڑا ڈھونڈ کر لائے گا میں اسے گھوڑے میں نصف شراکت یا دس من گیهوں دوں گا تو بھی جعاله صحیح هے۔

2230۔ اگر کام کی اجرت مکمل طور پر مبهم هو مثلاً جاعل یه کهے که جو میرا بچه تلاش کر دے گا میں اسے رقم دوں گا لیکن رقم کی مقدار کا تعین نه کرے تو اگر کوئی شخص اس کام کو انجام دے تو ضروری هے که جاعل اسے اتنی اجرت دے جتنی عام لوگوں کی نظروں میں اس عمل کی اجرت قرار پاسکے۔

2231۔ اگر عامل نے جاعل کے قول و قرار سے پهلے هی وه کام کر دیا هو یا قول و قرار کے بعد اس نیت سے وه کام انجام دے که اس کے بدلے رقم نهیں لے گا تو پھر وه اجرت کا حقدار نهیں۔

2232۔ اس سے پهلے که عامل کام شروع کرے جاعل جعاله کو منسوخ کرسکتا هے۔

2233۔ جب عامل نے کام شروع کر دیا هو اگر اس کے بعد جاعل جعاله منسوخ کرنا چاهے تو اس میں اشکال هے۔

2234۔ عامل کام کو ادھورا چھوڑ سکتا هے لیکن اگر کام ادھورا چھوڑنے پر جاعل کو یا جس شخص کے لئے یه کام انجام دیا جارها هے که کوئی نقصان پهنچتا هو تو ضروری هے که کام کو مکمل کرے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کهے که جو کوئی میری آنکھ کا علاج کر دے میں اسے اس قدر معاوضه دوں گا اور ڈاکڑ اس کی آنکھ کا آپریشن کر دے اور صورت یه هو که اگر وه علاج مکمل نه کرے تو آنکھ میں عیب پیدا هوجائے تو ضروری هے که اپنا عمل تکمیل تک پهنچائے اور اگر ادھورا چھوڑ دے تو جاعل سے اجرت لینے کا اسے کوئی حق نهیں۔

ص:420

2235۔ اگر عامل کام ادھورا چھوڑ دے اور وه کام ایسا هو جسے گھوڑا تلاش کرنا که جس کے مکمل کئے بغیر جاعل کو کوئی فائده نه هو تو عامل، جاعل سے کسی چیز کا مطالبه نهیں کرسکتا۔ اور اگر جاعل اجرت کو کام مکمل کرنے سے مشروط کر دے تب بھی یهی حکم هے۔ مثلاً وه کهے که جو کوئی میرا لباس سئے گا میں اسے دس روپے دوں گا لیکن اگر اس کی مراد یه هو که جتنا کام کیا جائے گا اتنی اجرت دے گا تو پھر جاعل کو چاهئے که جتنا کام هوا هو اتنی اجرت عامل کودے دے اگرچه احتیاط یه هے که دونوں مصالحت کے طور پر ایک دوسرے کو راضی کرلیں۔

مَزارعه کے احکام

2236۔ مُزارعه کی چند قسمیں هیں۔ان میں سے ایک یه هے که (زمین کا) مالک کاشتکار (مزارع) سے معاهد کرکے اپنی زمین اس کے اختیار میں دے تاکه وه اس میں کاشت کاری کرے اور پیداوار کا کچھ حصه مالک کو دے۔

2237۔ مُزاعه کی چند شرائط هیں :

1۔ زمین کا مالک کاشتکار سے کهے که میں نے زمین تمهیں کھیتی باڑی کے لئے دی هے اور کاشتکاری بھی کهے که میں نے قبول کی هے یا بغیر اس کے که زبانی کچھ کهیں مالک کاشتکار کو کھیتی باڑی کے ارادے سے زمین دے دے اور کاشتکار قبول کر لے۔

2۔ زمین کا مالک اور کاشتکار دونوں بالغ اور عاقل هوں اور بٹائی کا معاهده اپنے ادارے اور اختیار سے کریں اور سفیه نه هوں۔ اور اسی طرح ضروری هے که مالک دیوالیه نه هو۔ لیکن اگر کاشتکار دیوالیه هو اور اس کا مزارعه کرنا ان اموال میں تصرف نه کهلائے جن میں اسے تصرف کرنا منع تھا تو ایسی صورت میں کوئی اشکال نهیں هے۔

3۔ مالک اور کاشتکار میں سے هر ایک زمین کی پیداوار میں سے کچھ حصه مثلاً نصف یا ایک تهائی وغیره لے لے ۔ لهذا اگر کوئی بھی اپنے لئے کوئی حصه مقرر نه کرے یا مثلاً مالک کهے که اس زمین میں کھیتی باڑی کرو اور جو تمهارا جی چاهے مجھے دے دینا تو یه درست نهیں هے اور اسی طرح اگر پیداوار کی ایک معین مقدار مثلاً دس من کاشتکار یا مالک کے لئے مقرر کردی جائے تو یه بھی صحیح نهیں هے۔

ص:421

4۔ احتیاط کی بنا پر هر ایک کا حصه زمین کی پوری پیداوار میں مشترک هو۔ اگرچه اظهر یه هے که یه شرط معتبرنهیں هے۔ اسی بنا پر اگر مالک کهے که اس زمین میں کھیتی باڑی کرو اور زمین کی پیداوار کا پهلا آدھا حصه جتنا بھی هو تمهارا هوگا اور دوسرا آدھا حصه میرا تو مزارعه صحیح هے۔

5۔ جتنی مدت کے لئے زمین کاشتکار کے قبضے میں رهنی چاهئے اسے معین کر دیں اور ضروری هے که وه مدت اتنی هو که اس مدت میں پیداوار حاصل هونا ممکن هو اور اگر مدت کی ابتدا ایک مخصوص دن سے اور مدت کا اختتام پیداوار ملنے کو مقرر کر دیں تو کافی هے۔

6۔ زمین قابل کاشت هو۔ اور اگر اس میں ابھی کاشت کرنا ممکن نه هو لیکن ایسا کام کیا جاسکتا هو جس سے کاشت ممکن هو جائے تو مزارعه صحیح هے۔

7۔ کاشتکار جو چیز کاشت کرنا چاهے، ضروری هے که اس کو معین کر دیا جائے۔ مثلاً معین کرے که چاول هے یا گیهوں، اور اگر چاول هے تو کونسی قسم کا چاول هے۔ لیکن اگر کسی مخصوص چیز کی کاشت پیش نظر نه هو تو اس کا معین کرنا ضروری نهیں هے۔ اور اسی طرح اگر کوئی مخصوص چیز پیش نظر هو اور اس کا علم هو تو لازم نهیں هے که اس کی وضاحت بھی کرے۔

8۔ مالک، زمین کو معین کر دے۔ یه شرط اس صورت میں هے جبکه مالک کے پاس زمین کے چند قطعات هوں اور ان قطعات کے لوازم کاشتکاری میں فرق هو۔ لیکن اگر ان میں کوئی فرق نه هو تو زمین کو معین کرنا لازم نهیں هے۔ لهذا اگر مالک کاشتکار سے کهے که زمین کے ان قطعات میں سے کسی ایک میں کھیتی باڑی کرو اور اس قطعه کو معین نه کرے تو مزارعه صحیح هے۔

9۔ جو خرچ ان میں سے هر ایک کو کرنا ضروری هو اسے معین کردیں لیکن جو خرچ هر ایک کو کرنا ضروری هے هو اگر اس کا علم هو تو پھر اس کی وضاحت کرنا لازم نهیں۔

2238۔ اگر مالک کاشتکار سے طے کرے که پیداوار کی کچھ مقدار ایک کی هوگی اور جو باقی بچے گا اسے وه آپس میں تقسیم کر لیں گے تو مزارعه باطل هے اگرچه انهیں علم هو که اس مقدار کو علیحده کرنے کے بعد کچھ نه کچھ باقی بچ جائے گا۔ هان

ص:422

اگر وه آپس میں یه طے کرلیں که بیج کی جو مقدار کاشت کی گئی هے یا ٹیکس کی جو مقدار حکومت لیتی هے وه پیداوار سے نکالی جائے گی اور جو باقی بچے گا اسے دونوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا تو مزارعه صحیح هے ۔

2239۔ اگر مزارعه کے لئے کوئی مدت معین کی هو که جس میں عموماً پیداوار دستیاب هوجاتی هے لیکن اگر اتفاقاً معین مدت ختم هو جائے اور پیداوار دستیاب نه هوئی هو تو اگر مدت معین کرتے وقت یه بات بھی شامل تھی یعنی دونوں اس بات پر راضی تھے که مدت ختم هونے کے بعد اگرچه پیداوار دستیاب نه هو مزارعه ختم هوجائے گا تو اس صورت میں اگر مالک اس بات پر راضی هو که اجرت پر یا بغیر اجرت فصل اس کی زمیں میں کھڑی رهے اور کاشتکار بھی راضی هو تو کوئی ھرج نهیں اور اگر مالک راضی نه هو تو کاشتکار کو مجبور کر سکتا هے که فصل زمین میں سے کاٹ لے اور اگر فصل کاٹ لینے سے کاشتکار کا کوئی نقصان پهنچے تو لازم نهیں که مالک اسے اس کا عوض دے لیکن اگرچه کاشتکار مالک کو کوئی چیز دینے پر راضی هو تب بھی وه مالک کو مجبور نهیں کر سکتا که وه فصل اپنی زمین پر رهنے دے۔

2240۔اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے که زمین میں کھیتی باڑی کرنا ممکن نه هو مثلاً زمین کا پانی بند هوجائے تو مزارعه ختم هوجاتا هے اور اگر کاشتکار بلاوجه کھیتی باڑی نه کرے تو اگر زمین اس کے تصرف میں رهی هو اور مالک کا اس میں کوئی تصرف نه رها هو تو ضروری هے که عام شرح کے حساب سے اس مدت کا کرایه مالک کو دے۔

2241۔ زمین کا مالک اور کاشتکاری ایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر مزارعه (کا معاهده) منسوخ نهیں کرسکتے ۔ لیکن اگر مزارعه کے معاهدے کے سلسلے میں انهوں نے شرط طے کی هو که ان میں سے دونوں کو یا کسی ایک کو معامله فسخ کرنے کا حق حاصل هوگا تو جو معاهده انهوں نے کر رکھا هو اس کے مطابق معامله فسخ کرسکتے هیں۔ اسی طرح اگر ان دونوں میں سے ایک فریق طے شده شرائط کے خلاف عمل کرے تو دوسرا فریق معامله فسخ کر سکتا هے۔

2242۔ زمین کا مالک اور کاشتکار ایک دوسرے کی رضامندی کے بغیر مزارعه (کا معاهده) منسوخ نهیں کرسکتے۔ لیکن اگر مزارعه کے معاهدے کے سلسلے میں انهوں نے شرط طے کی هو که ان میں سے دونوں کو یا کسی یاک کو معامله فسخ کرنے کا حق حاصل هوگا تو جو معاهده انهوں نے کر رکھا هو اس کے مطابق معامله فسخ کر سکتے هیں۔ اسی طرح اگر ان دونوں میں سے ایک فریق طے شده شرائط کے خلاف عمل کرے تو دوسرا فریق معامله فسخ کر سکتا هے۔

ص:423

2243۔ اگر کاشت کے بعد پتا چلے که مزارعه باطل تھا تو اگر جو بیج ڈالا گیا هو وه مالک کا مال هو تو جو فصل هاتھ آئے گی وه بھی اسی کا مال هوگی اور ضروری هے که کاشتکاری کی اجرت اور جو کچھ اس نے خرچ کیا هو اور کاشتکاری کے مملو که جن بیلوں اور دوسرے جانوروں نے زمین پر کام کیا هو ان کا کرایه کاشتکار کو دے۔اور اگر بیج کاشتکار کا مال هو تو فصل بھی اسی کا مال هے اور ضروری هے که زمین کا کرایه اور جو کچھ مالک نے خرچ کیا هو اور ان بیلوں اور دوسرے جانوروں کا کرایه جو مالک کا مال هوں اور جنهوں نے اس زراعت پر کام کیا هو مالک کو دے۔ اور دونوں صورتوں میں عام طور پر جو حق بنتا هو اگر اس کی مقدار طے شده مقدار سے زیاده هو اور دوسرے فریق کو اس کا علم هو تو زیاده مقدار دینا واجب نهیں۔

2244۔اگر بیج کاشتکار کا مال هو اور کاشت کے بعد فریقین کو پتا چلے که مزارعه باطل تھا تو اگر مالک اور کاشتکار رضامند هوں که اجرت پر یا بلا اجرت فصل زمین پر کھڑی رهے تو کوئی اشکال نهیں هے اور اگر مالک راضی نه هو تو (علماء کے) ایک گروه نے کها هے که فصل پکنے سے پهلے هی وه کاشتکار کو مجبور کر سکتا هے که اسے کاٹ لے اور اگرچه کاشتکار اس بات پر تیار هو که وه مالک کو کوئی چیز دے دے تب بھی وه اسے فصل اپنی زمین میں رهنے دینے پر مجبور نهیں کرسکتا هے۔ لیکن یه قول اشکال سے خالی نهیں هے اور کسی بھی صورت میں مالک کاشتکار کو مجبور نهیں کرسکتا که وه کرایه دے کر فصل اس کی زمین میں کھڑی رهنے دے حتی که اس سے زمین کا کرایه طلب نه کرے (تب بھی فصل کھڑی رکھنے پر مجبور نهیں کر سکتا)۔

2245۔ اگر کھیت کی پیداوار جمع کرنے اور مزارعه کی میعاد ختم هونے کے بعد کھیت کی جڑیں زمین میں ره جائیں اور دوسرے سال سر سبز هو جائیں اور پیداوار دیں تو اگر مالک نے کاشتکار کے ساتھ زراعت کی جڑوں میں اشتراک کا معاهده نه کیا هو تو دوسرے سال کی پیداوار بیج کے مالک کا مال هے۔

مُساقات اور مُغارسه کے احکام

2246۔ اگر انسان کسی کے ساتھ اس قسم کا معاهده کرے مثلاً پھل دار درختوں کو جن کا پھل خود اس کا مال هو یا اس پھل پر اس احتیاط هو ایک مقرره مدت کے لئے کسی دوسرے شخص کے سپرد کر دے تاکه وه ان کی نگهداشت کرے اور انهیں پانی دے اور جتنی مقدار وه آپس میں طے کریں اس کے مطابق وه ان درختوں کا پھل لے لے تو ایسا معامله "مُساقات" (آبیاری) کهلاتا هے۔

ص:424

2247۔ جو درخت پھل نهیں دیتے اگر ان کی کوئی دوسری پیداوار هو مثلاً پتے اور پھول هوں که جو کچھ نه کچھ مالیت رکھتے هوں مثلاً مهندی (اور پان) کے درخت که اس کے پتے کام آتے هیں، ان کے لئے مساقات کا معامله صحیح هے۔

2248۔ مساقات کے معاملے میں صیغه پڑھنا لازم نهیں بلکه اگر درخت کا مالک مساقات کی نیت سے اسے کسی کے سپرد کر دے اور جس شخص کو کام کرنا هو وه بھی اسی نیت سے کام میں مشغول هو جائے تو معامله صحیح هے۔

2249۔ درختوں کا مالک اور جو شخص درختوں کی نگهداشت کی ذمے داری لے ضروری هے که دونوں بالغ اور عاقل هوں اور کسی نے انهیں معامله کرنے پر مجبور نه کیا هو نیز یه بھی جروری هے که سفیه نه هوں۔ اسی طرح ضروری هے که مالک دیوالیه نه هو۔ لیکن اگر باغبان دیوالیه هو اور مساقات کا معامله کرنے کی صورت میں ان اموال میں تصرف کرنا لازم نه آئے جن میں تصرف کرنے سے اسے روکا گیا هو تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2250۔ مساقات کی مدت معین هونی چاهئے۔ اور اتنی مدت هونا ضروری هے که جس میں پیداوار کا دستیاب هونا ممکن هو۔ اور اگر فریقین اس مدت کی ابتدا معین کر دیں اور اس کا اختتام اس وقت کو قرار دیں جب اس کی پیداوار دستیاب هو تو معامله صحیح هے۔

2251۔ضروری هے هر فریق کا حصه پیداوار کا آدھا یا ایک تهائی یا اسی کی مانند هو اور اگر یه معاهده کریں که مثلاً سو من میوه مالک کا اور باقی کام کرنے والے کا هوگا تو معامله باطل هے۔

2252۔ لازم نهیں هے که مساقات کا معامله پیداوار ظاهر هونے سے پهلے طے کرلیں۔ بلکه اگر پیداوار ظاهر هونے کے بعد معامله کریں اور کچھ کام باقی ره جائے جو که پیداوار میں اضافے کے لئے یا اس کی بهتری یا اسے نقصان سے بچانے کے لئے ضروری هو تو معامله صحیح هے۔ لیکن اگر اس طرح کے کوئی کام باقی نه رهے هوں که جو آبیاری کی طرح درخت کی پرورش کے لئے ضروری هیں یا میوه توڑنے یا اس کی حفاظت جیسے کاموں میں سے باقی ره جاتے هیں تو پھر مساقات کے معاملے کا صحیح هونا محل اشکال هے۔

2253۔خربوزے اور کھیرے وغیره کی بیلوں کے بارے میں مساقات کا معامله بنابر اظهر صحیح هے۔

ص:425

2254۔ جو درخت بارش کے پانی یا زمین کی نمی سے استفاده کرتا هو اور جسے آبپاشی کی ضرورت نه هو اگر اسے مثلاً دوسرے ایسے کاموں کی ضرورت هو جو مسئله 2252 میں بیان هوچکے هیں تو ان کاموں کے بارے میں مساقات کا معامله کرنا صحیح هے۔

2255۔ دو افراد جنهوں نے مسافات کی هو باهمی رضامندی سے معامله فسخ کرسکتے هیں اور اگر مساقات کے معاهدے کے سلسلے میں یه شرط طے کریں که ان دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو معامله فسخ کرنے کا حق هوگا تو ان کے طے کرده معاهده کے مطابق معامله فسخ کرنے میں کوئی اشکال نهیں اور اگر مساقات کے معاملے میں کوئی شرط طے کریں اور اس شرط پر عمل نه هو تو جس شخص کے فائدے کے لئے وه شرط طے کی گئی هو وه معامله فسخ کرسکتا هے۔

2256۔اگر مالک ماجائے تو مساقات کا معامله فسخ نهیں هوتا بلکه اس کے وارث اس کی جگه پاتے هیں۔

2257۔درختوں کی پرورش جس شخص کے سپرد کی گئی هو اگر وه مرجائے اور معاهدے میں یه قید اور شرط عائد نه کی گئی هو که وه خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے ورثاء اس کی جگه لے لیتے هیں اور اگر ورثاء نه خود درختوں کی پرورش کا کام انجام دیں اور نه هی اس مقصد کے لئے کسی کو اجیر مقرر کریں تو حاکم شرع مردے کے مال سے کسی کو اجیر مقرر کردے گا اور جو آمدنی هوگی اسے مردے کے ورثاء اور درختوں کے مالک کے مابین تقسیم کر دے گا اور اگر فریقین نے معاملے میں یه قید لگائی هو که وه شخص خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے مرنے کے بعد معامله فسخ هو جائے گا۔

2258۔ اگر یه شرط طے کی جائے که تمام پیداوار مالک کا مال هوگی تو مساقات باطل هے لیکن ایسی صورت میں پیداوار مالک کا مال هوگا اور جس شخص نے کام کیا هو وه اجرت کا مطالبه نهیں کرسکتا لیکن اگر مساقات کسی اور وجه سے باطل هو تو ضروری هے که مالک آبیاری اور دوسرے کام کرنے کی اجرت درختوں کی نگهداشت کرنے والے کو معمول کے مطابق دے لیکن اگر معمول کے مطابق اجرت طے شده اجرت سے زیاده هو اور وه اس سے مطلع هو تو طے شده اجرت سے زیاده دینا لازم نهیں۔

2289۔ "مُغارسه" یه هے که کوئی شخص زمین دوسرے کے سپرد کردے تاکه وه درخت لگائے اور جو کچھ حاصل هو وه دونوں کا مال هو تو بنابر اظهر یه معامله صحیح هے اگرچه احتیاط یه هے که ایسے معاملے کو ترک کرے۔لیکن اس معاملے کے نتیجے پر پهنچنے کے لئے کوئی اور معامله انجام دے تو بغیر اشکال کے وه معامله صحیح هے، مثلاً فریقین کسی طرح باهم صلح اور

ص:426

اتفاق کرلیں یا نئے درخت لگانے میں شریک هوجائیں پھر باغبان اپنی خدمات مالک زمین کو بیج بونے، درختوں کی نگهداشت اور آبیاری کرنے کے لئے ایک معین مدت تک زمین کی پیداوار کے نصف فائدے کے عوض کرایه پر پیش کرے۔

وه اشخاص جو اپنے مال میں تصرف نهیں کرسکتے

2260۔ جو بچه بالغ نه هوا هو وه اپنی ذمے داری اور اپنے مال میں شرعاً تصرف نهیں کرسکتا اگرچه اچھے اور برے کو سمجھنے میں حد کمال اور رشد تک پهنچ گیا هو اور سرپرست کی اجازت اس بارے میں کوئی فائده نهیں رکھتی۔ لیکن چند چیزوں میں بچے کا تصرف کانا صحیح هے، ان میں سے کم قیمت والی چیزوں کی خریدوفروخت کرنا هے جیسے که مسئله 2090 میں گزر چکا هے۔ اسی طرح بچے کا اپنے خونی رشتے داروں اور فریبی رشتے داروں کے لئے وصیت کرنا جس کا بیان مسئله 2706 میں آئے گا۔ لڑکی میں بالغ هونے کی علامت یه هے که وه نوقمری سال پورے کرلے اور لڑکے کے بالغ هونےکی علامت تین چیزوں میں سے ایک هوتی هے۔

1۔ ناف کے نیچے اور شرم گاه سے اوپر سخت بالوں کا اگنا

2۔ منی کا خارج هونا۔

3۔ بنابر مشهور عمر کے پندره قمری سال پورے کرنا ۔

2261۔چهرے پر اور هونٹوں کے اوپر سخت بالوں کا اگنا بعید نهیں که بلوغت کی علامت هو لیکن سینے پر اور بغل کے نیچے بالوں کا اگنا اور آواز کا بھاری هوجانا اور ایسی هی دوسری علامات بلوغت کی نشانیاں نهیں هیں مگر ان کی وجه سے انسان بالغ هونے کا یقین کرے۔

2262۔دیوانه اپنے مال میں تصرف نهیں سکتا۔ اسی طرح دیوالیه یعنی وه شخص جسے اس کے قرض خواهوں کے مطالبے پر حاکم شرع نے اپنے مال میں تصرف کرنے سے منع کر دیا هو، قرض خواهوں کی اجازت کے بغیر اس مال میں تصرف نهیں کرسکتا اور اسی طرح سفیه یعنی وه شخص جو اپنا مال احمقانه اور فضول کاموں میں خرچ کرتا هو، سرپرست کی اجازت کے بغیر اپنے مال میں تصرف نهیں کرسکتا۔

ص:427

2273۔ جو شخص کبھی عاقل اور کبھی دیوانه هوجائے اس کا دیوانگی کی حالت میں اپنے مال میں تصرف کرنا صحیح نهیں هے۔

2264۔انسان کو اختیار هے مرض الموت کے عالم میں اپنے آپ پر یا اپنے اهل و عیال اور مهمانوں پر اور ان کاموں پر جو فضول خرچی میں شمار نه هوں جتنا چاهے صرف کرے۔ اور اگر اپنے مال کو اس کی (اصل) قیمت پر فروخت کرے یا کرائے پر دے تو کوئی اشکال نهیں هے لیکن اگر مثلاً اپنا مال کسی کو بخش دے یا رائج قیمت سے سستا فروخت کرے تو جتنی مقدار اس نے بخش دی هے یا جتنی سستی فروخت کی هے اگر وه اس کے مال کی ایک تهائی کے برابر یا اس سے کم هو تو اس کا تصرف کرنا صحیح هے۔ اور اگر ایک تهائی سے زیاده هو تو ورثاء کی اجازت دینے کی صورت میں اس کا تصرف کرنا صحیح هے اور اگر ورثاء اجازت نه دیں تو ایک تهائی سے زیاده میں اس کا تصرف باطل هے۔

وکالت کے احکام

"وکالت" سے مراد یه هے که وه کام جسے انسان خود کرنے کا حق رکھتا هو، جیسے کوئی معامله کرنا۔اسے دوسرے کے سپرد کر دے تاکه وه اس کی طرف سے وه کام انجام دے مثلاً کسی کو اپنا وکیل بنائے تاکه وه اس کا مکان بیچ دے یا کسی عورت سے اس کا عقد کردے۔ لهذا سفیه چونکه اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق نهیں رکھتا اس لئے وه مکان بیچنے کے لئے کسی کو وکیل نهیں بنا سکتا۔

2265۔وکالت میں صیغه پڑھنا لازم نهیں بلکه اگر انسان دوسرے شخص کو سمجھادے که اس نے اسے وکیل مقرر کیا هے اور وه بھی سمجھا دے که اس نے وکیل بننا قبول کرلیا هے مثلاً ایک شخص اپنا مال دوسرے کو دے تاکه وه اسے اس کی طرف سے بیچ دے اور دوسرا شخص وه مال لے لے تو وکالت صحیح هے۔

2266۔ اگر انسان ایک ایسے شخص کو وکیل مقرر کرے جس کی رهائش دوسرے شهر میں هو اور اس کو وکالت نامه بھیج دے اور وه وکالت نامه قبول کرلے تو اگرچه وکالت نامه اسے کچھ عرصے بعد هی ملے پھر بھی وکالت صحیح هے۔

2267۔مُئَوکِّل یعنی وه شخص جو دوسرے کو وکیل بنائے اور وه شخص جو وکیل بنے ضروری هے که دونوں عاقل هوں اور (وکیل بنانے اور وکیل بننے کا) اقدام قصد اور اختیار سے کریں اور مُئَوکّلِ کے معاملے میں بلوغ بھی معتبر هے۔ مگر ان کاموں میں جن کو ممیز بچے کا انجام دینا صحیح هے۔ (ان میں بلوغ شرط نهیں هے)۔

ص:428

2268۔ جو کام انسان انجام نه دے سکتا هو یا شرعاً انجام دینا ضروری نه هو اسے انجام دینے کے لئے وه دوسرے کا وکیل نهیں بن سکتا۔ مثلاً جو شخص حج کا احرام باندھ چکا هو چونکه اسے نکاح کا صیغه نهیں پڑھنا چاهئے اس لئے وه صیغه نکاح پڑھنے کے لئے دوسرے کا وکیل نهیں بن سکتا۔

2269۔اگر کوئی شخص اپنے تمام کام انجام دینے کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنائے تو صحیح هے لیکن اگر اپنے کاموں میں سے ایک کام کرنے کے لئے دوسرے کو وکیل بنائے اور کام کا تعین نه کرے تو وکالت صحیح نهیں هے۔ هاں اگر وکیل کو چند کاموں میں سے ایک کام جس کا وه خود انتخاب کرے انجام دینے کے لئے وکیل بنائے مثلاً اس کو وکیل بنائے که یا اس کا گھر فروخت کرے یا کرائے پر دے تو وکالت صحیح هے۔

2270۔ اگر (مُئَوکّلِ) وکیل کو معزول کردے یعنی جو کام اس کے ذمے لگایا هو اس سے برطرف کر دے تو وکیل اپنی معزولی کی خبر مل جانے کے بعد اس کام کو (مُئَوکّلِ کی جانب سے) انجام نهیں دے سکتا لیکن معزولی کی خبر ملنے سے پهلے اس نے وه کام کر دیا هو تو صحیح هے۔

2271۔ مُئَوکّلِ خواه موجود نه هو وکیل خود کو وکالت سے کناره کش کر سکتا هے۔

2272۔ جو کام وکیل کے سپرد کیا گیا هو، اس کام کے لئے وه کسی دوسرے شخص کو وکیل مقرر نهیں کرسکتا لیکن اگر مُئَوکّلِ نے اسے اجازت دی هو که کسی کو وکیل مقرر کرے تو جس طرح اس نے حکم دیا هے اسی طرح وه عمل کرسکتا هے لهذا اگر اس نے کها هو که میرے لئے ایک وکیل مقرر کرو تو ضروری هے که اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے لیکن از خود کسی کو وکیل مقرر نهیں کرسکتا۔

2273۔ اگر وکیل مُئَوکّلِ کی اجازت سے کسی کو اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے تو پهلا وکیل دوسرے وکیل کو معزول نهیں کرسکتا اور اگر پهلا وکیل مرجائے یامُئَوکّلِ کی اسے معزول کر دے تب بھی دوسرے وکیل کی وکالت باطل نهیں هوتی۔

2274۔ اگر وکیل مَئَوکّلِ کی اجازت سے کسی کو خود اپنی طرف سے وکیل مقرر کرے تو مُئَوکّلِ اور پهلاوکیل اس وکیل کو معزول کر سکتے هیں اور اگر پهلا وکیل مرجائے یا معزول هوجائے تو دوسری وکالت باطل هوجاتی هے۔

ص:429

2275۔ اگر (مُئَوکّلِ) کسی کام کے لئے چند اشخاص کو وکیل مقرر کرے اور ان سے کهے که ان میں سے هر ایک ذاتی طور پر اس کام کو کرے تو ان میں سے هر ایک اس کام کو انجام دے سکتا هے اور اگر ان میں سے ایک مرجائے تو دوسروں کی وکالت باطل نهیں هوتی، لیکن اگر یه کها هو که سب مل کر انجام دیں تو ان میں سے کوئی تنها اس کام کو انجام نهیں دے سکتا اور اگر ان میں سے ایک مرجائے تو باقی اشخاص کی وکالت باطل هوجاتی هے۔

2276۔ اگر وکیل یا مُئَوکّلِ مرجائے تو وکالت باطل هوجاتی هے۔ نیز جس چیز میں تصرف کے لئے کسی شخص کو وکیل مقرر کیا جائے اگر وه چیز تلف هوجائے مثلاً جس بھیڑ کو بیچنے کے لئے کسی کو وکیل مقرر کیا گیا هو اگر وه بھیڑ مرجائے تو وه وکالت باطل هوجائے گی اور اس طرح اگر وکیل یا مُئَوکّلِ میں سے کوئی ایک همیشه کے لئے دیوانه یا بے حواس هو جائے تو وکالت باطل هوجائے گی۔ لیکن اگر کبھی کبھی دیوانگی یابے حواسی کا دوره پڑتا هو تو وکالت کا باطل هونا دیوانگی اور بے هواسی کی مدت میں حتی که دیوانگی اور بے حواسی ختم هونے کے بعد بھی مُطلَقاً محلِّ اِشکال هے۔

2277۔ اگر انسان کسی کو اپنے کام کے لئے وکیل مقرر کرے اور اسے کوئی چیز دینا طے کرے تو کام کی تکمیل کے بعد ضروری هے که جس چیز کا دینا طے کیا هو وه اسے دیدے۔

2278۔ جو مال وکیل کے اختیار میں هو اگر وه اس کی نگهداشت میں کوتاهی نه کرے اور جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی هو اس کے علاوه کوئی تصرف اس میں نه کرے اور اتفاقاً وه مال تلف هوجائے تو اس کے لئے اس کا عوض دینا ضروری نهیں۔

2279۔ جو مال وکیل کے اختیار میں هو اگر وه اس کی نگهداشت میں کوتاهی برتے یا جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی هو اس سے تجاوز کرے اور وه مال تلف هوجائے تو وه (وکیل) ذمے دار هے۔ لهذا جس لباس کے لئے اسے کها جائے که اسے بیچ دو اگر وه اسے پهن لے اور وه لباس تلف هوجائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

2280۔ اگر وکیل کو مال میں جس تصرف کی اجازت دی گئی هو اس کے علاوه کوئی تصرف کے مثلاً اسے جس لباس کے بیچنے کے لئے کها جائے وه اسے پهن لے اور بعد میں وه تصرف کرے جس کی اسے اجازت دی گئی هو تو وه تصرف صحیح هے۔

قرض کے احکام

ص:430

مومنین کو خصوصاً ضرورت مند مومنین کو قرض دینا ان مستحب کاموں میں سے هے جن کے متعلق احادیث میں کافی تاکید کی گئی هے۔ رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) سے روایت هے: "جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو قرض دے اس کے مال میں برکت هوتی هے اور ملائکه اس پر (خدا کی) رحمت برساتے هیں اور اگر وه مقروض سے نرمی برتے تو بغیر حساب کے اور تیزی سے پل صراط پر سے گزر جائے گا اور اگر کسی شخص سے اس کا مسلمان بھائی قرض مانگے اور وه نه دے تو بهشت اس پر حرام هو جاتی هے"

2281۔ قرض میں صیغه پڑھنا لازم نهیں بلکه اگر ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز قرض کی نیت سے دے اور دوسرا بھی اسی نیت سے لے تو قرض صحیح هے۔

2282۔ جب بھی مقروض اپنا قرض ادا کرے تو قرض خواه کو چاهئے که اسے قبول کرلے۔ لیکن اگر قرض ادا کرنے کے لئے قرض خواه کے کهنے سے یا دونوں کے کهنے سے ایک مدت مقرر کی هو تو اس صورت میں قرض خواه اس مدت کے ختم هونے سے پهلے اپنا قرض واپس لینے سے انکار کر سکتا هے۔

2283۔ اگر قرض کے صیغے میں قرض کی واپسی کی مدت معین کر دی جائے اور مدت کا تعین مقروض کی درخواست پر هو یا جانبین کی درخواست پر، قرض خواه اس معین مدت کے ختم هونے سے پهلے قرض کی ادائیگی کا مطالبه نهیں کرسکتا۔ لیکن اگر مدت کا تعین قرض خواه کی درخواست پر هوا هو یا قرضے کی واپسی کے لئے کوئی مدت معین نه کی گئی هو تو قرض خواه جب بھی چاهے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبه کر سکتا هے۔

2284۔ اگر قرض خواه اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبه کرے اور مقروض قرض ادا کر سکتا هو تو اسے چاهئے که فوراً ادا کرے اور اگر ادائیگی میں تاخیر کرے تو گنهگار هے۔

2285۔ اگر مقروض کے پاس ایک گھر که جس میں وه رهتا هو اور گھر کے اسباب اور ان لوازمات که جن کی اسے ضرورت هو اور ان کے بغیر اسے پریشانی هو اور کوئی چیز نه هو تو قرض خواه اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبه نهیں کرسکتا بلکه اسے چاهئے که صبر کرے حتی که مقروض قرض ادا کرنے کے قابل هو جائے۔

ص:431

2286۔ جو شخص مقروض هو اور اپنا قرض ادا نه کرسکتا هو تو اگر وه کوئی ایسا کام کاج کر سکتا هو جو اس کی شایان شان هو تو احتیاط واجب هے که کام کاج کرے اور اپنا قرض ادا کرے۔ بالخصوص ایسے شخص کے لئے جس کے لئے کام کرنا آسان هو یا اس کا پیشه هی کام کاج کرنا هو بلکه اس صورت میں کام کا واجب هونا قوت سے خالی نهیں۔

2287۔جس شخص کو اپنا قرض خواه نه مل سکے۔ اور مستقبل میں اس کے یا اس کے وارث کے ملنے کی امید بھی نه هو تو ضروری هے که وه قرضے کا مال قرض خواه کی طرف سے فقیر کو دے دے اور احتیاط کی بنا پر ایسا کرنے کی اجازت شرع سےلے لے اور اگر اس کا قرض خواه سید نه هو تو احتیاط مستحب یه هے که قرضے کا مال سید فقیر کو نه دے۔ لیکن اگر مقروض کو قرض خواه یا اس کے وارث کے ملنے کی امید هو تو ضروری هے که انتظار کرے اور اس کو تلاش کرے اور اگر وه نه ملے تو وصیت کرے که اگر وه مرجائے اور قرض خواه یا اس کا وارث مل جائے تو اس کا قرض اس کے مال سے ادا کیا جائے۔

2288۔ اگر کسی میت کا مال اس کے کفن دفن کے واجب اخراجات اور قرض سے زیاده نه هو تو اس کا مال انهی امور پر خرچ کرنا ضروری هے اور اس کے وارث کو کچھ نهیں ملے گا۔

2289۔ اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کے سکے وغیره قرض لے اور بعد میں ان کی قیمت کم هو جائے تو اگر وه وهی مقدار جو اس نے لی تھی واپس کر دے تو کافی هے اور اگر ان کی قیمت بڑھ جائے تو لازم هے که اتنی هی مقدار واپس کرے جو لی تھی لیکن دونوں صورتوں میں اگر مقروض اور قرض خواه کسی اور بات پر رضامند هوجائیں تو اس میں کوئی اشکال نهیں۔

2290۔ کسی شخص نے جو مال قرض لیا هو اگر وه تلف نه هوا هو اور مال کا مالک اس کا مطالبه کرے تو احتیاط مستحب یه هے که مقروض وهی مال مالک کو دے دے۔

2291۔ اگر قرض دینے والا شرط عائد کرے که وه جتنی مقدار میں مال دے رها هے اس سے زیاده واپس لے گا مثلاً ایک من گیهوں دے اور شرط عائد کرے که ایک من پانچ کیلو واپس لوں گا یا دس انڈے دے اور کهے که گیاره انڈے واپس لوں گا تو یه سود اور حرام هے بلکه اگر طے کرے که مقروض اس کے لئے کوئی کام کرے گا یا جو چیز لی هو وه کسی دوسری جنس کی کچھ مقدار کے ساتھ واپس کرے گا مثلاً طے کرے که (مقروض نے) جو ایک روپیه لیا هے واپس کرتے وقت اس کے ساتھ ماچس کی ایک ڈبیه بھی دے تو یه سود هوگا اور حرام هے۔ نیز اگر مقروض کے ساتھ شرط کرے که جو چیز وه

ص:432

قرض لے رها هے اسے ایک مخصوص طریقے سے واپس کرے گا مثلاً ان گھڑے سونے کی کچھ مقدار اسے دے اور شرط کرے که گھڑا هوا سونا واپس کرے گا تب بھی یه سود اور حرام هوگا البته اگر قرض خواه کوئی شرط نه لگائے بلکه مقروض خود قرضے کی مقدار سے کچھ زیاده واپس دے تو کوئی اشکال نهیں بلکه (ایسا کرنا) مستحب هے۔

2292۔ سود دینا سود لینے کی طرح حرام هے لیکن جو شخص سود پر قرض لے ظاهر یه هے که وه اس کا مالک هو جاتا هے اگرچه اولی یه هے که اس میں تصرف نه کرے اور اگر صورت یه هو که طرفین نے سود کا معاهده نه بھی کیا هوتا اور رقم کا مالک اس بات پر راضی هوتا که قرض لینے والا اس رقم میں تصرف کرلے تو مقروض بغیر کسی اشکال کے اس رقم میں تصرف کرسکتا هے۔

2293۔ اگرکوئی شخص گیهوں یا اسی جیسی کوئی چیز سودی قرضے کے طور پر لے اور اس کے ذریعے کاشت کرے تو ظاهر یه هے که وه پیداوار کا مالک هوجاتا هے اگرچه اولٰی یه هے که اس سے جو پیداوار حاصل هو اس میں تصرف نه کرے۔

2294۔ اگر ایک شخص کوئی لباس خریدے اور بعد میں اس کی قیمت کپڑے کے مالک کو سودی رقم سے یا ایسی حلال رقم سے جو سودی قرضے پر لی گئی رقم کے ساتھ مخلوط هوگئی هو ادا کرے تو اس لباس کے پهننے یا اس کے ساتھ نماز پڑھنےمیں کوئی اشکال نهیں لیکن اگر بیچنے والے سے کهے که میں یه لباس اس رقم سے خرید رها هوں تو اس لباس کو پهننا حرام هے اور اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم نماز گزار کے لباس کے احکام میں گزرچکا هے۔

2295۔ اگر کوئی شخص کسی تاجر کو کچھ رقم دے اور دوسرے شهر میں اس تاجر سے کم رقم لے تو اس میں کوئی اشکال نهیں اور اسے "صَرفِ براءت" کهتے هیں۔

2296۔ اگر کوئی شخص کسی کو کچھ رقم اس شرط پر دے که چند دن بعد دوسرے شهر میں اس سے زیاده لے گا مثلاً 990 روپے دے اور دس دن بعد دوسرے شهر میں اس کے بدلے ایک هزار روپے لے تو اگر یه رقوم (یعنی 990 اور هزار روپے) مثال کے طور پر سونے یا چاندی کی بنی هوں تو یه سود اور حرام هے لیکن جو شخص زیاده لے رها هو اگر وه اضافے کے مقابلے میں کوئی جنس دے یا کوئی کام کر دے تو پھر اشکال نهیں تاهم وه عام رائج نوٹ جنهیں گن کر شمار کیا جاتا هو اگر انهیں زیاده لیا جائے تو کوئی اشکال نهیں ماسوا اس صورت کے که قرض دیا هو اور زیاده کی ادائیگی کی شرط لگائی هو تو اس

ص:433

صورت میں حرام هے یا ادھار پر بیچے اور جنس اور اس کا عوض ایک هی جنس سے هوں تو اس صورت میں معاملے کا صحیح هونا اشکال سے خالی نهیں هے۔

2297۔ اگر کسی شخص نے کسی سے کچھ قرض لینا هو اور وه چیز سونا یا چاندی یا ناپی یا تولی جانے والی جنس نه هو تو وه شخص اس چیز کو مقروض یا کسی اور کے پاس کم قیمت پر بیچ کر اس کی قیمت نقد وصول کر سکتا هے۔ اسی بنا پر موجوده دور میں جو چیک اور هنڈیاں قرض خواه مقروض سے لیتا هے انهیں وه بنک کے پاس یا کسی دوسرے شخص کے پاس اس سے کم قیمت پر ۔ جسے عام طور پر بھاو گرنا کهتے هیں ۔ بیچ سکتا هے اور باقی رقم نقد لے سکتا هے کیونکه رائج الوقت نوٹوں کا لین دین ناپ تول سے نهیں هوتا۔

حواله دینے کے احکام

2298۔ اگر کوئی شخص اپنے قرض خواه کو حواله دے که وه اپنا قرض ایک اور شخص سے لے لے اور قرض خواه اس بات کو قبول کر لے تو جب " حواله" ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر بعد میں آئے گا مکمل هوجائے تو جس شخص کے نام حواله دیا گیا هے وه مقروض هوجائے گا اور اس کے بعد قرض خواه پهلے مقروض سے اپنے قرض کا مطالبه نهیں کرسکتا۔

2299۔ مقروض اور قرض خواه اور جس شخص کا حواله دیا جاسکتا هو ضروری هے که سب بالغ اور عاقل هوں اور کسی نے انهیں مجبور نه کیا هو نیز ضروری هے که سفیه نه هوں یعنی اپنا مال احمقانه اور فضول کاموں میں خرچ نه کرتے هوں اور یه بھی معتبر هے که مقروض اور قرض خواه دیوالیه نه هوں۔ هاں اگر حواله ایسے شخص کے نام هو جو پهلے سے حواله دینے والے کا مقروض نه هو تو اگرچه حواله دینے والا دیوالیه بھی هو کوئی اشکال نهیں هے۔

2300۔ ایسے شخص کے نام حواله دینا جو مقروض نه هو اس صورت میں صحیح نهیں هے جب وه حواله قبول نه کرے۔ نیز اگر کوئی شخص چاهے که جو شخص ایک جنس کے لئے اس کا مقروض هے اس کے نام دوسری جنس کا حواله لکھے۔ مثلاً جو شخص جَو کا مقروض هو اس کے نام گیهوں کا حواله لکھے تو جب تک وه شخص قبول نه کرے حواله صحیح نهیں هے۔ بلکه حواله دینے کی تمام صورتوں میں ضروری هے که جس شخص کے نام حواله کیا جارها هے وه حواله قبول کرے اور اگر قبول نه کرے تو بنا بر اظهر (حواله) صحیح نهیں هے۔

ص:434

2301۔انسان جب حواله دے تو ضروری هے که وه اس وقت مقروض هو لهذا اگر وه کسی سے قرض لینا چاهتا هو تو جب تک اس سے قرض نه لے لے اسے کسی کے نام کا حواله نهیں دے سکتا تاکه جو قرض اسے بعد میں دینا هو وه پهلے هی اس شخص سے وصول کرلے۔

2302۔ حواله کی جنس اور مقدار فی الواقع معین هونا ضروری هے پس اگر حواله دینے والا کسی شخص کا دس من گیهوں اور دس روپے کا مقروض هو اور قرض خواه کو حواله دے که ان دونوں قرضوں میں سے کوئی ایک فلاں شخص سے لے لو اور اس قرضے کو معین نه کرے تو حواله درست نهیں هے۔

2303۔ اگر قرض واقعی معین هو لیکن حواله دینے کے وقت مقروض اور قرض خواه کو اس کی مقدار یا جنس کا علم نه هو تو حواله صحیح هے مثلاً اگر کسی شخص نے دوسرے کا قرضه رجسٹر میں لکھا هو اور رجسٹر دیکھنے سے پهلے حواله دے دے اور بعد میں رجسٹر دیکھے اور قرض خواه کو قرضے کی مقدار بتا دے تو حواله صحیح هوگا۔

2304۔قرض خواه کو اختیاط هے که حواله قبول نه کرے اگرچه جس کے نام کا حواله دیا جائے وه دولت مند هو اور حواله کے ادا کرنے میں کوتاهی بھی نه کرے۔

2305۔جو شخص حواله دینے والے کا مقروض نه هو اگر حواله قبول کرے تو اظهر یه هے که حواله ادا کرنے سے پهلے حواله دینے والے سے حوالے کی مقدار کا مطالبه کر سکتا هے۔ مگر یه که جو قرض جس کے نام حواله دیا گیا هے اس کی مدت معین هو اور ابھی وه مدت ختم نه هوئی هو تو اس صورت میں وه مدت ختم هونے سے پهلے حوالے دینے والے سے حوالے کی مقدار کا مطالبه نهیں کر سکتا اگرچه اس نے ادائیگی کر دی هو اور اسی طرح اگر قرض خواه اپنے قرض سے تھوڑی مقدار پر صلح کرے تو وه حواله دینے والے سے فقط (تھوڑی) مقدار کا هی مطالبه کر سکتا هے۔

2306۔ حواله کی شرائط پوری هونے کے بعد حواله دینے والا اور جس کے نام حواله دیا جائے حواله منسوخ نهیں کر سکتے اور وه شخص جس کے نام کا حواله دیا گیا هے حواله کے وقت فقیر نه هو تو اگرچه وه بعد میں فقیر هو جائے تو قرض خواه بھی حوالے کو منسوخ نهیں کرسکتا هے۔ یهی حکم اس وقت هے جب (وه شخص جس کے نام کا حواله دیا گیا هو) حواله دینے کے وقت فقیر هو اور قرض خواه جانتا هو که وه فقیر هےلیکن اگر قرض خواه کو علم نه هو که وه فقیر هے اور بعد میں اسے پته چلے تو

ص:435

اگر اس وقت وه شخص مالدار نه هوا هو قرض خواه حواله منسوخ کرکے اپنا قرض حواله دینے والے سے لے سکتا هے۔ لیکن اگر وه مالدار هوگیا هو تو معلوم نهیں که معاملے کو فسخ کرسکتا هے (یا نهیں)۔

2307۔ اگر مقروض اور قرض خواه اور جس کے نام کا حواله دیا گیا هو یا ان میں سے کسی ایک نے اپنے حق میں حواله منسوخ کرنے کا معاهده کیا هو تو جو معاهده انهوں نےکیا هو اس کے مطابق وه حواله منسوخ کر سکتے هیں۔

2308۔ اگر حواله دینے والا خود قرض خواه کا قرضه ادا کر دے یه کام اس شخص کی خواهش پر هوا هو جس کے نام کا حواله دیا گیا هو جبکه وه حواله دینے والے کا مقروض بھی هو تو وه جو کچھ دیا هو اس سے لے سکتا هے اور اگر اس کی خواهش کے بغیر ادا کیا هو یا وه حواله دهنده کا مقروض نه هو تو پھر اس نے جو کچھ دیا هے اس کا مطالبه اس سے نهیں کرسکتا۔

رهن کے احکام

2309۔رهن یه هے که انسان قرض کے بدلے اپنا مال یا جس مال کے لئے ضامن بنا هو وه مال کسی کے پاس گروی رکھوائے که اگر رهن رکھوانے والا قرضه نه لوٹا سکے یا رهن نه چھڑا سکے تو رهن لینے والا شخص اس کو عوض اس مال سے لے سکے۔

2310۔رهن میں صیغه پڑھنا لازم نهیں هے بلکه اتنا کافی هے که گروی دینے والا اپنا مال گروی رکھنے کی نیت سے گروی لینے والے کو دے دے اور وه اسی نیت سے لے لے تو رهن صحیح هے۔

2311۔ ضروری هے که گروی رکھوانے والا اور گروی رکھنے والا بالغ اور عاقل هوں اور کسی نے انهیں اس معاملے کے لئے مجبور نه کیا هو اور یه بھی ضروری هے که مال گروی رکھوانے والا دیوالیه اور سفیه نه هو۔ دیوالیه اور سفیه کے معنی مسئله 2262 میں بتائے جاچکے هیں۔ اور اگر دیوالیه هو لیکن جو مال وه گروی رکھوا رها هے اس کا اپنا مال نه هو یا ان اموال میں سے نه هو جس کے تصرف کرنے سے منع کیا گیا هو تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2312۔ انسان وه مال گروی رکھ سکتا هے جس میں وه شرعاً تصرف کر سکتا هو اور اگر کسی دوسرے کا مال اس کی اجازت سے گروی رکھ دے تو بھی صحیح هے۔

ص:436

2313۔ جس چیز کو گروی رکھا جا رها هو ضروری هے که اس کی خرید و فروخت صحیح هو۔ لهذا اگر شراب یا اس جیسی چیز گروی رکھی جائے تو درست نهیں هے۔

2314۔جس چیز کو گروی رکھا جا رها هے اس سے جو فائده هوگا وه اس چیز کے مالک کی ملکیت هوگا خواه وه گروی رکھوانے والا هو یا کوئی دوسرا شخص هو۔

2315۔گروی رکھنے والے نے جو مال بطور گروی لیا هو اس مال کو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر خواه گروی رکھوانے والا هو یا کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کی ملکیت میں نهیں دے سکتا۔ مثلاً نه وه کسی دوسرے کو وه مال بخش سکتا هے نه کسی کو بیچ سکتا هے۔ لیکن اگر وه اس مال کو کسی کو بخش دے یا فروخت کر دے اور مالک بعد میں اجازت دے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2316۔اگر گروی رکھنے والا اس مال کو جو اس نے بطور گروی لیا هو اس کے مالک کی اجازت سے بیچ دے تو مال کی طرح اس کی قیمت گروی نهیں هوگی۔ اور یهی حکم هے اگر مالک کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مالک بعد میں اجازت دے (یعنی اس مال کی جو قیمت وصول کی جائے وه اس مال کی طرح گروی نهیں هوگی)۔ لیکن اگر گروی رکھوانے والا اس چیز کو گروی رکھنے والے کی اجازت سے بیچ دے تاکه اس کی قیمت کو گروی قرار دے تو ضروری هے که مالک کی اجازت سے بیچ دے اور اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں معامله باطل هے۔ مگر یه که گروی رکھنے والےنے اس کی اجازت دی هو (تو پھر معامله صحیح هے)۔

2317۔جس وقت مقروض کو قرض ادا کر دینا چاهئے اگر قرض خواه اس وقت مطالبه کرے اور مقروض ادائیگی نه کرے تو اس صورت میں جب که قرض خواه مال کو فروخت کرکے اپنا قرضه اس کے مال سے وصول کرنے کا احتیاط رکھتا هو وه گروی لئے هوئے مال کو فروخت کرکے اپنا قرضه وصول کرسکتا هے۔ اور اگر اختیاط نه رکھتا هو تو اس کے لئے لازم هے که مقروض سے اجازت لے اور اگر اس تک پهنچ نه هو تو ضروری هے که حاکم شرع سے اس مال کو بیچ کر اس کی قیمت سے اپنا قرضه وصول کرنے کی اجازت لے اور دونوں صورتوں میں اگر قرضے سے زیاده قیمت وصول هو تو ضروری هے که زائد مال مقروض کو دیدے۔

ص:437

2318۔ اگر مقروض کے پاس اس مکان کے علاوه جس میں وه رهتا هو اور اس سامان کے علاوه جس کی اسے ضرورت هو اور کوئی چیز نه هو تو قرض خواه اس سے اپنے قرض کا مطالبه نهیں کر سکتا لیکن مقروض نے جو مال بطور گروی دیا هو اگرچه وه مکان اور سامان هی کیوں نه هو قرض خواه اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کر سکتا هے۔

ضمانت کے احکام

2319۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضه ادا کرنے کے لئے ضامن بننا چاهے تو اس کا ضامن بننا اس وقت صحیح هوگا جب وه کسی لفظ سے اگرچه وه عربی زبان میں نه هو یا کسی عمل سے قرض خواه کو سمجھا دے که میں تمهارے قرض کی ادائیگی کے لئے ضامن بن گیا هوں اور قرض خواه بھی اپنی رضامندی کا اظهار کر دے اور (اس سلسلے میں) مقروض کا رضامند هونا شرط نهیں هے۔

2320۔ ضامن اور قرض خواه دونوں کے لئے ضروری هے بالغ اور عاقل هوں اور کسی نے انهیں اس معاملے پر مجبور نه کیا هو نیز ضروری هے که وه سفیه بھی نه هوں اور اسی طرح ضروری هے که قرض خواه دیوالیه نه هو، لیکن یه شرائط مقروض کے لئے نهیں هیں مثلاً اگر کوئی شخص بچے، دیوانے یا سفیه کا قرض ادا کرنے کے لئے ضامن بنے تو ضمانت صحیح هے۔

2321۔ جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً یه کهے که "اگر مقروض تمهارا قرض ادا نه کرے تو میں تمهارا قرض ادا کروں گا" تو اس کے ضامن هونے میں اشکال هے۔

2322۔انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رها هے ضروری هے که وه مقروض هو لهذا اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے قرض لینا چاهتا هو تو جب تک وه قرض نه لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کا ضامن نهیں بن سکتا۔

2323۔ انسان اسی صورت میں ضامن بن سکتا هے جب قرض، قرض خواه اور مقروض (یه تینوں) فی والوقع معین هوں لهذا اگر دو اشخاص کسی ایک شخص کے قرض خواه هوں اور انسان کهے که میں تم میں سے ایک کا قرض ادا کردوں گا تو چونکه اس نے اس بات کو معین نهیں کیا که وه ان میں سے کس کا قرض ادا کرے گا اس لئے اس کا ضامن بننا باطل هے۔ نیز اگر کسی کو دو اشخاص سے قرض وصول کرنا هو اور کوئی شخص کهے که میں ضامن هوں که ان دو میں سے ایک کا قرض تمهیں ادا کر دوں گا تو چونکه اس نے بات کو معین نهیں کیا که دونوں میں سے کس کا قرضه ادا کرے گا اس لئے اس کا

ص:438

ضامن بننا باطل هے۔ اور اسی طرح اگر کسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طور پر دس من گیهوں اور دس روپے لینے هوں اور کوئی شخص کهے که میں تمهارے دونوں قرضوں میں سے ایک کی ادائیگی کا ضامن هوں اور اس چیز کو معین نه کرے که وه گیهوں کے لئے ضامن هے یا روپوں کے لئے تو یه ضمانت صحیح نهیں هے۔

2324۔ اگر قرض خواه اپنا قرض ضامن کو بخش دے تو ضامن مقروض سے کوئی چیز نهیں لے سکتا اور اگر وه قرضے کی کچھ مقدار اسے بخش دے تو وه (مقروض سے) اس مقدار کا مطالبه نهیں کرسکتا۔

2325۔ اگر کوئی شخص کسی کا قرضه ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو پھر وه ضامن هونے سے مکر نهیں سکتا۔

2326۔ احتیاط کی بنا پر ضامن اور قرض خواه یه شرط نهیں کرسکتے که جس وقت چاهیں ضامن کی ضمانت منسوخ کر دیں۔

2327۔ اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواه کا قرضه ادا کرنے کے قابل هو تو خواه وه (ضامن) بعد میں دیوالیه هو جائے قرض خواه اس کی ضمانت منسوخ کرکے پهلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کا مطالبه نهیں کر سکتا۔ اور اسی طرح اگر ضمانت دیتے وقت ضامن قرض ادا کرنے پر قادر نه هو لیکن قرض خواه یه بات جانتے هوئے اس کے ضامن بننے پر راضی هوجائے تب بھی یهی حکم هے۔

2328۔ اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواه کا قرضه ادا کرنے پر قادر نه هو اور قرض خواه صورت حال سے لاعلم هونے کی بنا پر اس کی ضمانت منسوخ کرنا چاهے تو اس میں اشکال هے خصوصاً اس صورت میں جب که قرض خواه کے اس امر کی جانب متوجه هونے سے پهلے ضامن قرضے کی ادائیگی پر قادر هوجائے۔

2329۔ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت کے بغیر اس کا قرضه ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو وه قرضه ادا کرنے پر مقروض سے کچھ نهیں لے سکتا۔

2330۔ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت سے اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن بن جائے تو جس مقدار کے لئے ضامن بنا هو۔ اگرچه اسے ادا کرنے سے پهلے ۔ مقروض سے اس کا مطالبه کر سکتا هے۔ لیکن جس جنس کے لئے وه مقروض تھا اس کی بجائے کوئی اور جنس قرض خواه کو دے تو جو چیز دی هو اس کا مطالبه مقروض سے نهیں کر سکتا مثلاً اگر مقروض کو

ص:439

دس من گیهوں دینی هو اور ضامن دس من چاول دے دے تو ضامن مقروض سے دس من چاول کا مطالبه نهیں کرسکتا لیکن اگر مقروض خود چاول دینے پر رضامند هوجائے تو پھر کوئی اشکال نهیں۔

کَفالَت کے احکام

2331۔ " کَفالَت" سے مراد یه هے که کوئی شخص ذمه لے که جس وقت قرض خواه چاهے گا وه مقروض کر اس کے سپرد کردے گا۔ اور جو شخص اس قسم کی ذمے داری قبول کرے اسے کفیل کهتے هیں۔

2332۔کَفالَت اس وقت صحیح هے جب کفیل کوئی سے الفاظ میں خواه عربی زبان کے نه بھی هوں یا کسی عمل سے قرض خواه کو یه بات سمجھا دے که میں ذمه لیتا هوں که جس وقت تم چاهو گے میں مقروض کو تمهارے حوالے کردوں گا اور قرض خواه بھی اس بات کو قبول کرلے۔ اور احتیاط کی بنا پر کَفالَت کے صحیح هونے کے لئے مقروض کی رضامندی بھی مُعتَبَر هے۔ بلکه احتیاط یه هے که کَفاَلت کے معاملے میں اسے طرح مقروض کو بھی ایک فریق هونا چاهے یعنی مقروض اور قرض خواه دونوں کَفالَت کو قبول کریں۔

2333۔کفیل کے لئے ضروری هے که بالغ اور عاقل هو اور اسے کفیل بننے پر مجبور نه کیا گیا هو اور وه اس بات پر قادر هو که جس کا کفیل بنے اسے حاضر کر سکے اور اسی طرح اس صورت میں جب مقروض کو حاضر کرنے کے لئے کفیل کو اپنا مال خرچ کرنا پڑے تو ضروری هے که وه سفیه اور دیوالیه نه هو۔

2324۔ان پانچ چیزوں میں سے کوئی ایک کفالت کو کالعدم کر دیتی هے :

1۔ کفیل مقروض کو قرض خواه کے حوالے کر دے یا وه خود اپنے آپ کو قرض خواه کے حوالے کر دے۔

2۔ قرض خواه کا قرضه ادا کر دیا جائے۔

3۔ قرض خواه اپنے قرضے سے دستبردار هو جائے۔ یا اسے کسی دوسرے کے حوالے کر دے۔

4۔ مقروض یا کفیل میں سے ایک مرجائے۔

5۔ قرض خواه کفیل کو کفالت سے بَرِیُّالذِّمَّه قرار دے دے۔

ص:440

2335۔اگر کوئی شخص مقروض کو قرض خواه سے زبردستی آزاد کرادے اور قرض خواه کی پهنچ مقروض تک نه هوسکے تو جس شخص نے مقروض کو آزاد کرایا هو ضروری هے که وه مقروض کو قرض خواه کے حوالے کر دے یا اس کا قرض ادا کرے۔

امانت کے احکام

2336۔ اگر ایک شخص کوئی مال کسی کو دے اور کهے که یه تمهارے پاس امانت رهے گا اور وه بھی قبول کرے یا کوئی لفظ کهے بغیر مال کا مالک اس شخص کو سمجھا دے که وه اسے مال رکھوالی کے لئے دے رها هے اور وه بھی رکھوالی کے مقصد سے لے لے تو ضروری هے امانت داری کے ان احکام کے مطابق عمل کرے جو بعد میں بیان هوں گے۔

2337۔ ضروری هے که امانت دار اور وه شخص جو مال بطور امانت دے دونوں بالغ اور عاقل هوں اور کسی نے انهیں مجبور نه کیا هو لهذا اگر کوئی شخص کسی مال کو دیوانے یا بچے کے پاس امانت کے طور پر رکھے یا دیوانه یا بچه کوئی مال کسی کے پاس امانت کے طور پر رکھے تو صحیح نهیں هے هان سمجھ دار بچه کسی دوسرے کے مال کو اس کی اجازت سے کسی کے پاس امانت رکھے تو جائز هے۔ اسی طرح ضروری هے که که امانت رکھوانے والا سفیه اور دیوالیه نه هو لیکن اگر دیوالیه هو تاهم جو مال اس نے امانت کے طور پر رکھوایا هو وه اس مال میں سے نه هو جس میں اسے تصرف کرنے سے منع کیا گیا هے تو اس صورت میں کوئی اشکال نهیں هے۔ نیز اس صورت میں که جب مال کی حفاظت کرنے کے لئے امانت دار کو اپنا مال خرچ کرنا پڑے تو ضروری هے که وه سفیه اور دیوالیه نه هو۔

2338۔ اگر کوئی شخص بچے سے کوئی چیز اس کے مالک کی اجازت کے بغیر بطور امانت قبول کرلے تو ضروری هے که وه چیز اس کے مالک کو دے دے اور اگر وه چیز خود بچے کا مال هو تو لازم هے که وه چیز بچے کے سرپرست تک پهنچا دے اور اگر وه مال ان لوگوں کے پاس پهنچانے سے پهلے تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے مگر اس ڈر سے که خدا نخواسته تلف هوجائے اس مال کو اس کے مالک تک پهنچانے کی نیت سے لیا هو تو اس صورت میں اگر اس نے مال کی حفاظت کرنے اور اسے مالک تک پهنچانے میں کوتاهی نه کی هو تو وه ضامن نهیں هے اور اگر امانت کے طور پر مال دینے والا دیوانه هو تب بھی یهی حکم هے۔

ص:441

2339۔ جو شخص امانت کی حفاظت نه کرسکتا هو اگر امانت رکھوانے والا اس کی اس حالت سے باکبر نه هو تو ضروری هے که وه شخص امانت قبول نه کرے۔

2340۔ اگر انسان صاحب مال کو سمجھائے که وه اس کے مال کی حفاظت کے لئے تیار نهیں اور اس مال کو امانت کے طور پر قبول نه کرے اور صاحب مال پھر بھی مال چھوڑ کر چلا جائے اور وه مال تلف هو جائے تو جس شخص امانت قبول نه کی هو وه ذمے دارنهیں هے لیکن احتیاط مستحب یه هے که اگر ممکن هو تو اس مال کی حفاظت کرے۔

2341۔جو شخص کسی کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھوائے وه امانت کو جس وقت چاهے منسوخ کرسکتا هے اور اسی طرح امین بھی جب چاهے اسے منسوخ کرسکتا هے۔

2342۔ اگر کوئی شخص امانت کی نگهداشت ترک کردے اور امانت داری منسوخ کر دے تو ضروری هے که جس قدر جلد هو سکے مال اس کے مالک یا مالک کے وکیل یا سرپرست کو پهنچا دے یا انهیں اطلاع دے که وه مال کی (مزید) نگهداشت کے لئے تیار نهیں هے اور اگر وه بغیر عذر کے مال ان تک نه پهنچائے یا اطلاع نه دے اور مال تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

2343۔ جو شخص امانت قبول کرے اگر اس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگه نه هو تو ضروری هے که اس کے لئے مناسب جگه حاصل کرے اور امانت کی اس طرح نگهداشت کرے که یه لوگ یه نه کهیں که اس نے نگهداشت میں کوتاهی کی هے اور اگر وه اس کام میں کوتاهی کرے اور امانت تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

2344۔جو شخص امانت قبول کرے اگر وه اس کی نگهداشت میں کوتاهی نه کرے اورنه هی تعدّی کرے اور اتفاقاً وه مال تلف هو جائے تو وه شخص ذمه دار نهیں هے لیکن اگر وه اس مال کی حفاظت میں کوتاهی کرے اور مال کو ایسی جگه رکھے جهاں وه ایسا غیر محفوظ هو که اگر کوئی ظالم خبر پائے تو لے جائے یا وه اس مال میں تَعَدِّی کرے یعنی مالک کی اجازت کے بغیر اس مال میں تصرف کرے مثلاً لباس کو استعمال کرے یا جانور پر سواری کرے اور وه تلف هو جائے تو ضروریهے که اس کا عوض اس کے مالک کو دے۔

2345۔ اگر مال کا مالک اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگه معین کر دے اور جس شخص نے امانت قبول کی هو اس سے کهه که "تمهیں چاهئے که یهیں مال کا خیال رکھو اور اگر اس کے ضائع هو جانے کا احتمال هو تب بھی تم اس کو کهیں اور

ص:442

نه لے جانا۔ تو امانت کرنے والا اسے کسی اور جگه نهیں لے جاسکتا اور اگر وه مال کو کسی دوسری جگه لے جائے اور وه تلف هو جائے تو امین ذمه دار هے۔

2346۔ اگر مال کا مالک اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگه معین کرے لیکن ظاهراً وه یه کهه رها هو که اس کی نظر میں وه جگه کوئی خصوصیت نهیں رکھتی بلکه وه جگه مال کے لئے محفوظ جگهوں میں سے ایک هے تو وه شخص جس نے امانت قبول کی هے اس مال کو کسی ایسی جگه جو زیاده محفوظ هو یا پهلی جگه جتنی محفوظ هو لے جاسکتا هے اور اگر مال وهاں تلف هو جائے تو وه ذمے دار نهیں هے۔

2347۔اگر مال کا مالک مرجائے تو امانت کا معامله باطل هوجاتا هے۔ لهذا اگر اس مال میں کسی دوسرے کا حق نه هو تو وه مال اس کے وارث کو ملتا هے اور ضروری هے که امانت دار اس مال کو اس کے وارث تک پهنچائے یا اسے اطلاع دے۔ اور اگر وه شرعی عذر کے بغیر مال کو اس کے وارث کے حوالے نه کرے اور خبر دینے میں بھی کوتاهی برتے اور مال ضائع هوجائے تو وه ذمے دار هے لیکن اگر وه مال اس وجه سے وارث کو نه دے اور اسے خبر دینے میں بھی کوتاهی کرے که جاننا چاهتا هو که وه شخص جا کهتا هے که میں میت کا وارث هوں واقعاً ٹھیک کهتا هے یا نهیں یا یه جانتا چاهتا هو که کوئی اور شخص میت کا وارث هے یا نهیں اور اگر (اس تحقیق کے بیچ) مال تلف هو جائے تو وه ذمے دار نهیں هے۔

2349۔اگر مال کا مالک مرجائے اور مال کی ملکیت کا حق اس کے ورثاء کو مل جائے تو جس شخص نے امانت قبول کی هو ضروری هے که مال تمام ورثاء کو دے یا اس شخص کو دے جسے مال دینے پر سب ورثاء رضامند هوں۔ لهذا اگر وه دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر تمام مال فقط ایک وارث کو دے دے تو وه دوسروں کے حصوں کا ذمے دار هے۔

2350۔جس شخص نے امانت قبول کی هو اگر وه مرجائے یا همیشه کے لئے دیوانه یا بے حواس هو جائے تو امانت کا معامله باطل هوجائے گا اور اس کے سرپرست یا وارث کو چاهئے که جس قدر جلد هو سکے مال کے مالک کو اطلا ع دے یا امانت اس تک پهنچائے۔لیکن اگر کبھی کبھار (یا تھوڑی مدت کے لئے)دیوانه یا بے حواس هوتا هو تو اس صورت میں امانت کا معامله باطل هونے میں اشکال هے۔

2351۔اگر امانت دار اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھے تو اگر ممکن هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که امانت کو اس کے مالک، سرپرست یا وکیل تک پهنچادے یا اس کو اطلاع دے، اور اگر یه ممکن نه هو تو ضروری هے که ایسا بندوبست

ص:443

کرے که اسے طمینان هو جائے که اس کے مرنے کے بعد مال اس کے مالک کو مل جائے گا مثلاً وصیت کرے اور اس وصیت پر گواه مقرر کرے اور مال کے مالک کا نام اور مال کی جنس اور خصوصیات اور محل وقوع وصی اور گواهوں کو بتا دے۔

2352۔اگر امانت دار اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھے اور جو طریقه اس سے پهلے مسئلے میں بتایا گیا هے اس کے مطابق عمل نه کرے تو وه اس امانت کا ضامن هوگا لهذا اگر امانت ضائع هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔ لیکن اگر وه جانبر هو جائے یا کچھ مدت گزرنے کے بعد پشیمان هو جائے اور جو کچھ (سابقه مسئلے میں) بتایا گیاهے اس پر عمل کرے اور اظهر یه هے که وه ذمے دار نهیں هے۔

عاریه کے احکام

2353۔ "عاریه" سے مراد یه هے که انسان اپنا مال دوسرے کو دے تاکه وه اس مال سے استفاده کرے اور اس کے عوض کوئی چیز اس سے نه لے۔

2354۔ عاریه میں صیغه پڑھنا لازم نهیں اور اگر مثال کے طور پر کوئی شخص کسی کو لباس عاریه کے قصد سے دے اور وه بھی اسی قصد سے لے تو عاریه صحیح هے۔

2355۔ غصبی چیز یا اس چیز کو بطور عاریه دینا جو که عاریه دینے والے کا مال هو لیکن اس کی آمدنی اس نے کسی دوسرے شخص کے سپرد کردی هو مثلاً اسے کرائے پر دے رکھا هو، اس صورت میں صحیح هے جب غصبی چیز کا مالک یا وه شخص جس نے عاریه دی جانے والی چیز کو بطور اجاره لے رکھا هو اس کے بطور عاریه دینے پر راضی هو۔

2356۔ جس چیز کی منفعت کسی شخص کے سپرد هو مثلاً اس چیز کو کرائے پر لے رکھا هو تو اسے بطور عاریه دے سکتا هے لیکن احتیاط کی بنا پر مالک کی اجازت کے بغیر اس شخص کے حوالے نهیں کر سکتا جس نے اسے بطور عاریه لیا هے۔

2357۔ اگر دیوانه، بچه، دیوالیه اور سفیه اپنا مال عاریتاً دیں تو صحیح نهیں هے لیکناگر (ان میں سے کسی کا) سرپرست عاریه دینے کی مصلحت سمجھتا هو اور جس شخص کا وه سرپرست هے اس کا مال عاریتاً دے دے تو اس میں کوئی اشکال نهیں اسی طرح جس شخص نے مال عریتاً لیا هو اس تک مال پهنچانے کے لئے بچه وسیله بنے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

ص:444

2358۔ عاریتاً هوئی چیز کی نگهداشت میں کوتاهی نه کرے اور اس سے معمول سے زیاده اِستِفاده بھی نه کرے اور اتفاقاً وه چیز تلف هو جائے تو وه شخص ذمے دار نهیں هے لیکن اگر طرفین آپس میں یه شرط کریں که اگر وه چیز تلف هوجائے تو عاریتاً لینے والا ذمه دار هوگا یا جو چیز عاریتاً لی وه سونا یا چاندی هو تو اس کی عوض دینا ضروری هے۔

2359۔ اگر کوئی شخص سونا یا چاندی عاریتاً لے اور یه طے کیا هو که اگر تلف هوگیا تو ذمے دار نهیں هوگا پھر تلف هوجائے تو وه شخص ذمے دار نهیں هے۔

2360۔ اگر عاریه پر دینے والا مرجائے تو عاریه پر لینے والے کے لئے ضروری هے که جو طریقه امانت کے مالک کے فوت هو جانے کی صورت میں مسئله 2348 میں بتایا گیا هے اسی کے مطابق عمل کرے۔

2361۔ اگر عاریه دینے والے کی کیفیت یه هو که وه شرعاً اپنے مال میں تصرف نه کرسکتا هو مثلاً دیوانه یا بے حواس هو جائے تو عاریه لینے والے کے لئے ضروری هے که اسی طریقے کے مطابق عمل کرے جو مسئله 2347 میں امانت کےبارے میں اسی جیسی صورت میں بیان کیا گیا هے۔

2362۔ جس شخص نے کوئی چیز عاریتاً دی هو وه جب بھی چاهے اسے منسوخ کر سکتا هے اور جس نے کوئی چیز عاریتاً لی هو وه بھی جب چاهے اسے منسوخ کر سکتا هے۔

2363۔کسی چیز کا عاریتاً دینا جس سے حلال استفاده نه هوسکتا هو مثلا لهو و لعب اور قمار بازی کے آلات اور کھانے پینے کا استعمال کرنے کے لئے سونے اور چاندی کے برتن عاریتاً دینا۔ بلکه احتیاط لازم کی بنا پر هر قسم کے استعمال کے لئے عاریتاً دینا باطل هے اور تزئین و آرائش کے لئے عاریتاً دینا جائز هے اگرچه احتیاط نه دینے میں هے۔

2364۔ بھیڑ (بکریوں) کو ان کے دودھ اور اُون سے استفاده کرنےکے لئے نیز نر حیوان کو ماده حیوانات کے ساتھ ملاپ کے لئے عاریتاً دینا صحیح هے۔

2365۔ اگر کسی چیز کو عاریتاً لینے والا اسے اس کے مالک یا مالک کے وکیل یا سرپرست کو دے دے اور اس کے بعد وه چیز تلف هو جائے تو اس چیز کو عاریتاً لینے والا ذمے دار نهیں هے لیکن اگر وه مال کے مالک یا اس کے وکیل یا سرپرست کی اجازت کے بغیر مال کو خواه ایسی جگه لے جائے جهاں مال کا مالک اسے عموماً لے جاتا هو مثلاً گھوڑے کو اس اصطبل میں

ص:445

باندھ دے جو اس کے مالک نے اس کے لئے تیار کیا هو اور بعد میں گھوڑا تلف هو جائے یا کوئی اسے تلف کر دے تو عاریتاً لینے والا ذمے دار هے۔

2366۔ اگر ایک شخص کوئی نجس چیز عاریتاً دے تو اس صورت میں اسے چاهئے که ۔ جیسا که مسئله 2065 گزر چکا هے۔ اس چیز کے نجس هونے کے بارے میں عاریتاً لینے والے شخص کو بتا دے۔

2367۔ جو چیز کسی شخص نے عاریتاً لی هو اسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو کرائے پر یا عاریتاً نهیں دے سکتا۔

2368۔ جو چیز کسی شخص نے عاریتاً هو اگر وه اسے مالک کی اجازت سے کسی اور شخص کو عاریتاً دے دے تو اگر جس شخص نے پهلے وه چیز عاریتاً لی هو مر جائے یا دیوانه هو جائے تو دوسرا عاریه باطل نهیں هوتا۔

2369۔ اگر کوئی شخص جانتا هو که جو مال اس نے عاریتاً لیا هے وه غصبی هے تو ضروری هے که وه مال اس کے مالک کو پهنچا دے اور وه اسے عاریتاً دینے والے کو نهیں دے سکتا۔

2370۔ اگر کوئی شخص ایسا مال عاریتاً لے جس کے متعلق جانتا هو که وه غصبی هے اور اس سے فائده اٹھائے اور اس کے هاتھ سے وه مال تلف هو جائے تو مالک اس مال کا عوض اور جو فائده عاریتاً لینے والے نے اٹھایا هے اس کا عوض اس سے یا جس نے مال غصب کیا هو اس سے طلب کر سکتا هے اور اگر مالک عاریتاً لینے والے سے عوض لے لے تو عاریتاً لینے والا جو کچھ مالک کو دے اس کا مطالبه عاریتاً دینے والے سے نهیں کرسکتا۔

2371۔ اگر کسی شخص کو یه معلوم نه هو که اس نے جو مال عاریتاً لیا هے وه غصبی هے اور اس کے پاس هوتے هوئے وه مال تلف هو جائے تو اگر مال کا مالک اس کا عوض اس سے لے لے تو وه بھی جو کچھ مال کے مالک کو دیا هو اس کا مطالبه عاریتاً دینے والے سے کرسکتا هے لیکن اگر اس نے جو چیز عاریتاً لی هو وه سونا یا چاندی هو یا بطور عاریه دینے والے نے اس سے شرط کی هو که اگر وه چیز تلف هوجائے تو وه اس کا عوض دے گا تو پھر اس نے مال کا جو عوض مال کے مالک کو دیا هو اس کا مطالبه عاریتاً دینے والے سے نهیں کرسکتا۔

نکاح کے احکام

اشاره

ص:446

عقدِازدِواج کے ذریعے عورت، مرد پر اور مرد، عورت پر حلال هوجاتے هیں اور عقد کی دو قسمیں هیں پهلی دائمی اور دوسری غیر دائمی۔ مقرره وقت کے لئے عقد۔ عقد دائمی اسے کهتے هیں جس میں ازدواج کی مدت معین نه هو اور وه همیشه کے لئے هو اور جس عورت سے اس قسم کاعقد کیا جا4ے اسے دائمه کهتے هیں۔ اور غیر دائمی عقد وه هے جس میں ازدواج کی مدت معین هو مثلاً عورت کے ساتھ ایک گھنٹے یا ایک دن یا ایک مهینے یا ایک سال یا اس سے زیاده مدت کے لئے عقد کیا جائے لیکن اس عقد کی مدت عورت اور مرد کی عام عمر سے زیاده نهیں هونی چاهئے کیونکه اس صورت میں عقد باطل هو جائے گا۔ جب عورت سے اس قسم کا عقد کیا جائے تو اسے مُتعه یا صیغه کهتے هیں۔

2372۔ازدواج خواه دائمی هو یا غیر دائمی اس میں صیغه (نکاح کے بول) پڑھنا ضروری هے۔ عورت اور مرد کا محض رضامند هونا اور اسی طرح (نکاح نامه) لکھنا کافی نهیں هے۔ نکاح کا صیغه یا تو عورت اور مرد خود پڑھتے هیں یا کسی کو وکیل مقرر کر لیتے هیں تاکه وه ان کی طرف سے پڑھ دے۔

2373۔ وکیل کا مرد هونا لازم نهیں بلکه عورت بھی نکاح کا صیغه پڑھنے کے لئے کسی دوسرے کی جانت سے وکیل هوسکتی هے۔

2374۔عورت اور مرد کو جب تک اطمینان نه هوجائے که ان کے وکیل نے صیغه پڑھ دیا هے اس وقت تک وه ایک دوسرے کو محرمانه نظروں سے نهیں دیکھ سکتے اور اس بات کا گمان که وکیل نے صیغه پڑھ دیا هے کافی نهیں هے بلکه اگر وکیل کهه دے که میں نے صیغه پڑھدیا هے لیکن اس کی بات پر اطمینان نه هو تو اس کی بات پر بھروسه کرنا محل اشکال هے۔

2375۔ اگر کوئی عورت کسی کو وکیل مقرر کرے اور کهے که تم میرا نکاح دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساتھ پڑھ دو اور دس دن کی ابتدا کو معین نه کرے تو وه (نکاح خوان) وکیل جن دس دنوں کے لئے چاهے اسے اس مرد کے نکاح میں دے سکتا هے لیکن اگر وکیل کو معلوم هو که عورت کا مقصد کسی خاصدن یا گھنٹے کا هے تو پھر اسے چاهئے که عورت کے قصد کے مطابق صیغه پڑھے۔

ص:447

2376۔ عقد دائمی یا عقد غیر دائمی کا صیغه پڑھنے کے لئے ایک شخص دو اشخاص کی طرف سے وکیل بن سکتا هے اور انسان یه بھی کرسکتا هے که عورت کی طرف سے وکیل بن جائے اور اس سے خود دائمی یا غیر دائمی نکاح کرلے لیکن احتیاط مستحب یه هے که نکاح دو اشخاص پڑھیں۔

نکاح پڑھنے کا طریقه

2377۔ اگر عورت اور مرد خود اپنے دائمی نکاح کا صیغه پڑھیں تو مهر معین کرنےکے بعد پهلے عورت کهے "زَوَّجتُکَ نَفسِی عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" یعنی میں نے اس مهر پر جو معین هوچکا هے اپنے آپ کو تمهاری بیوی بنایا اور اس کے لمحه بھی بعد مرد کهے "قَبِلتُ التَّزوِیجَ" یعنی میں نے ازدواج کو قبول کیا تو نکاح صحیح هے اور اگر وه کسی دوسرے کو وکیل مقرر کریں که ان کی طرف سے صیغه نکاح پڑھ دے تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمه هو اور عورت کا وکیل کهے "زَوَّجتُ مُوِکِّلَکَ اَحمَدَ مُوَکِّلَتیِ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" اور اس کے لمحه بھر بعد مرد کا وکیل کهے " قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی اَحمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ المَعلُومِ" تو نکاح صحیح هوگا اور احتیاط مستحب یه هے که مرد جو لفظ کهے وه عورت کے کهے جانے والے لفظ کے مطابق هو مثلاً اگر عورت "زَوَّجتُ" کهے تو مرد بھی "قَبِلتُ التَّزوِیجَ" کهے اور قَبِلتُ النِّکَاحَ نه کهے۔

2378۔اگر خود عورت اور مرد چاهیں تو غیر دائمی نکاح کا صیغه نکاح کی مدت اور مهر معین کرنے کے بعد پڑھ سکتے هیں۔ لهذا اگر عورت کهے "زَوَّجتُکَ نَفسِی فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ" اور اس کے لمحه بھر بعد مرد کهے "قَبِلتُ" تو نکاح صحیح هے اور اگر وه کسی اور شخص کو وکیل بنائیں اور پهلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے کهے "زَوَّجتُکَ مُوَکِّلَتِی مُوَکِّلَکَ فِی المُدَّۃِ المَعلُومَۃِ عَلَی المَھرِ المَعلُومِ" اور اس کے بعد مرد کا وکیل توقّف کے بعد کهے۔ "قَبِلتُ التَّزوِیجَ لِمُوَکِّلِی ھٰکَذَا" تو نکاح صحیح هوگا۔

نکاح کی شرائط

2379۔نکاح کی چند شرطیں هیں جو ذیل میں درج کی جاتی هیں:

1۔ احتیاط کی بنا پر نکاح کا صیغه صحیح عربی میں پڑھا جائے اور اگر خود مرد اور عورت صیغه صحیح عربی میں نه پڑھ سکتے هوں تو عربی کے علاوه کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے هیں اور کسی شخص کو وکیل بنانا لازم نهیں هے۔ البته انهیں چاهئے که وه الفاظ کهیں جو زَوَّجتُ اور قَبِلتُ کا مفهوم ادا کر سکیں۔

ص:448

2۔ مرد اور عورت یا ان کے وکیل جو که صیغه پڑھ رهے هوں وه "قصد انشاء" رکھتے هوں یعنی اگر خود مرد اور عورت صیغه پڑھ رهے هوں تو عورت کا "زَوَّجتُکَ نَفسِی " کهنا اس نیت سے هو که خود کو اس کی بیوی قرار دے اور مرد کا قَبِلتُ التَّزوِیجَ کهنا اس نیت سے هو که وه اس کا اپنی بیوی بننا قبول کرے اور اگر مرد اور عورت کے وکیل صیغه پڑھ رهے هوں تو "زَوَّجتُ وَقَبِلتُ" کهنے سے ان کی نیت یه هو که وه مرد اور عورت جنهوں نے انهیں وکیل بنایا هے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں۔

3۔ جو شخص صیغه پڑھ رها هوضروری هے که وه عاقل هو اور احتیاط کی بنا پر اسے بالغ بھی هونا چاهئے۔ خواه وه اپنے لئے صیغه پڑھے یاکسی دوسرے کی طرف سے وکیل بنایا گیا هو۔

4۔ اگر عورت اور مرد کے وکیل یا ان کے سرپرست صیغه پڑھ رهے هوں تو وه نکاح کے وقت عورت اور مرد کو معین کرلیں مثلاً ان کے نام لیں یا ان کی طرف اشاره کریں۔ لهذا جس شخص کی کئی لڑکیاں هوں اگر وه کسی مرد سے کهے "زَوَّجتُکَ اِحدٰی بَنَاتِی" یعنی میں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو تمهاری بیوی بنایا اور وه مرد کهے "قَبِلتُ" یعنی میں نے قبول کیا تو چونکه نکاح کرتے وقت لڑکی کو معین نهیں خیا گیا اس لئے نکاح باطل هے۔

5۔ عورت اور مزد ازدواج پر راضی هوں۔ هاں اگر عورت بظاهر ناپسندیدگی سے اجازت دے اور معلوم هو که دل سے راضی هے تو نکاح صحیح هے۔

2380۔ اگر نکاح میں ایک حرف بھی غلط پڑھا جائے جو اس کے معنی بدل دے تو نکاح باطل هے۔

2381۔وه شخص جو نکاح کا صیغه پڑھ رها هو اگر ۔ خواه اجمالی طور پر۔نکاح کے معنی جانتا هو اور اس کے معنی کو حقیقی شکل دینا چاهتا هو تو نکاح صحیح هے۔ اور یه لازم نهیں که وه تفصیل کے ساتھ صیغے کے معنی جانتا هو مثلاً یه جاننا (ضروری نهیں هے) که عربی زبان کے لحاظ سے فعل یا فاعل کونسا هے۔

2382۔ اگر کسی عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کسی مرد سے کر دیا جائے اور بعد میں عورت اور مرد اس نکاح کی اجازت دے دیں تو نکاح صحیح هے۔

ص:449

2383۔ اگر عورت اور مرد دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو ازدواج پر مجبور کیا جائے اور نکاح پڑھے جانے کے بعد وه اجازت دے دیں تو نکاح صحیح هے اور بهتر یه هے که دوباره نکاح پڑھا جائے۔

2384۔ باپ اور دادا اپنے نابالغ لڑکے یا لڑکی (پوتے یا پوتی) یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ هوا هو نکاح کرسکتے هیں اور جب وه بچه بالغ هوجائے یا دیوانه عاقل هوجائے تو انهوں نے اس کا جو نکاح کیا هو اگر اس میں کوئی خرابی هو تو انهیں اس نکاح کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار هے اور اگر کوئی خرابی نه هو اور نابالغ لڑکے یا لڑکی میں سے کوئی ایک اپنے اس نکاح کو منسوخ کرے تو طلاق یا دوباره نکاح پڑھنے کی احتیاط ترک نهیں هوتی۔

2385۔ جو لڑکی سن بلوغ کو پهنچ چکی هو اور رَشِیدَه هو یعنی اپنا برا بھلا سمجھ سکتی هو اگر وه شادی کرنا چاهے اور کنواری هو تو ۔ احتیاط کی بنا پر ۔ اسے چاهئے که اپنے باپ یا دادا سے اجازت لے اگرچه وه خود مختاری سے اپنی زندگی کے کاموں کو انجام دیتی هو البته ماں اور بھائی سے اجازت لینا لازم نهیں۔

2386۔اگر لڑکی کنواری نه هو یا کنواری هو لیکن باپ یا دادا اس مرد کے ساتھ اسے شادی کرنے کی اجازت نه دیتے هوں جو عرفاً و شرعاً اس کا هم پله هو یا باپ اور دادا بیٹی کے شادی کے معاملے میں کسی طرح شریک هونے کے لئے راضی نه هوں یا دیوانگی یا اس جیسی کسی دوسری وجه سے اجازت دینےکی اهلیت نه رکھتے هوں تو ان تمام صورتوں میں ان سے اجازت لینا لازم نهیں هے۔ اسی طرح ان کے موجود نه هونے یا کسی دوسری وجه سے اجازت لینا ممکن نه هو اور لڑکی کا شادی کرنا بیحد ضروری هو تو باپ اور دادا سے اجازت لینا لازم نهیں هے۔

2387۔ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ لڑکے (یاپوتے) کی شادی کر دیں تو لڑکے (یاپوتے) کو چاهئے که بالغ هونے کے بعد اس عورت کا خرچ دے بلکه بالغ هونے سے پهلے بھی جب اس کی عمر اتنی هو جائے که وه اس لڑکی سے لذت اٹھانے کی قابلیت رکھتا هو اور لڑکی بھی اس قدر چھوٹی نه هو که شوهر اس سے لذت اٹھانے کی قابلیت رکھتا هو اور لڑکی بھی اس قدر چھوٹی نه هو که شوهر اس سے لذت نه اٹھا سکے تو بیوی کے خرچ کا ذمے دار لڑکا هے اور اس صورت کے علاوه بھی احتمال هے که بیوی خرچ کی مستحق هو۔ پس احتیاط یه هے که مصالحت وغیره کے ذریعے مسئلے کو حل کرے۔

2388۔ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ لڑکے (یاپوتے) کی شادی کر دیں تو اگر لڑکے کے پاس نکاح کے وقت کوئی مال نه هو تو باپ یا دادا کو چاهئے که اس عورت کا مهر دے اور یهی حکم هے اگر لڑکے (یاپوتے) کے پاس کوئی مال هو لیکن باپ یا دادا

ص:450

نے مهر ادا کرنے کی ضمانت دی هو۔ اور ان دو صورتوں کے علاوه اگر اس کا مهر مهرالمثل سے زیاده نه هو یا کسی مصلحت کی بنا پر اس لڑکی کا مهر مهرالمثل سے زیاده هو تو باپ یا دادا بیٹے (یا پوتے) کے مال سے مهر ادا کرسکتے هیں و گرنه بیٹے (یاپوتے) کے مال سے مهرالمثل سے زیاده مهر نهیں دے سکتے مگر یه که بچه بالغ هونے کے بعد ان کے اس کام کو قبول کرے۔

وه صورتیں جن میں مرد یا عورت نکاح فسخ کرسکتے هی

2389۔ اگر نکاح کے بعد مرد کو پتا چلے که عورت میں نکاح کے وقت مندرجه ذیل چھ عیوب میں سے کوئی عیب موجود تھا تو اس کی وجه سے نکاح کو فسخ کرسکتا هے۔

1۔ دیوانگی۔ اگرچه کبھی کبھار هوتی هو۔

2۔ جذام۔

3۔برص۔

4۔اندھاپن۔

5۔ اپاهج هونا۔ اگرچه زمین پر نه گھسٹتی هو۔

6۔ بچه دانی میں گوشت یا هڈی هو۔ خواه جماع اور حمل کے لئے مانع هو یا نه هو۔ اور اگر مرد کو نکاح کے بعد پتا چلے که عورت نکاح کے وقت افضا هوچکی تھی یعنی اس کا پیشاب اور حیض کا مخرج یا حیض اور پاخانے کا مخرج ایک هوچکا تھا تو اس صورت میں نکاح کو فسخ کرنے میں اشکال هے اور احتیاط لازم یه هے که اگر عقد کو فسخ کرنا چاهے تو طلاق بھی دے۔

2390۔ اگر عورت کو نکاح کے بعد پتا چلے که اس کے شوهر کا آله تناسل نهیں هے، یا نکاح کے بعد جماع کرنے سے پهلے، یا جماع کرنے کے بعد، اس کا آله تناسل کٹ جائے، یا ایسی بیماری میں مبتلا هو جائے که صحبت اورجماع نه کرسکتا هو خواه وه بیماری نکاح کے بعد اور جماع کرنے سے پهلے، یا جماع کرنے کے بعد هی کیوں نه لاحق هوئی هو۔ ان تمام صورتوں میں عورت طلاق کے بغیر نکاح کو ختم کرسکتی هے۔ اور اگر عورت کو نکاح کے بعد پتا چلے که اس کا شوهر نکاح سے پهلے دیوانه تھا، یا نکاح کے بعد ۔ خواه جماع سے پهلے، یا جماع کے بعد۔ دیوانه هوجائے ، یا اسے (نکاح کے بعد) پتا چلے که نکاح کے

ص:451

وقت اس کے فوطے نکالے گئے تھے یا مسل دیئے گئے تھے، یا اسے پتا چلے که نکاح کے وقت جذام یا برص میں مبتلا تھا تو ان تمام صورتوں میں اگر عورت ازدواجی زندگی برقرار نه رکھنا اور نکاح کو ختم کرنا چاهے تو احتیاط واجب یه هے که اس کا شوهر یا اس کا سرپرست عورت کو طلاق دے۔ لیکن اس صورت میں که اس کا شوهر جماع نه کرسکتا هو اور عورت نکاح کو ختم کرنا چاهے تو اس پر لازم هے که پهلے حاکم شرع یا اس کے وکیل سے رجوع کرے اور حاکم شرع اسے ایک سال کی مهلت دے گا لهذا اگر اس دوران وه اس عورت یا کسی دوسری عورت سے جماع نه کرسکے تو اس کے بعد عورت نکاح کو ختم کرسکتی هے۔

2391۔ اگر عورت اس بنا پر نکاح ختم کردے که اس کا شوهر نامرد هے تو ضروری هے که شوهر اسے آدھا مهر دے لیکن اگر ان دوسرے نقائص میں سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا هے کسی ایک کی بنا پر مرد یا عورت نکاح ختم کر دیں تو اگر مرد نے عورت کے ساتھ جماع نه کیا هو تو وه کسی چیز کا ذمه دار نهیں هے اور اگر جماع کیا هو تو ضروری هے که پورا مهر دے۔ لیکن اگر مرد عورت کے ان عیوب کی وجه سے نکاح ختم کرے جن کا بیان مسئله 2389 میں هوچکا هے اور اس نے عورت کے ساتھ جماع نه کیا هو تو کسی چیز کا ذمے دار نهیں هے لیکن اگر جماع کے بعد نکاح ختم کرے تو ضروری هے که عورت کو پورا مهر دے۔

2392۔ اگر مرد یا عورت جو کچھ وه هیں اس سے زیاده بڑھا چڑھا کر ان کی تعریف کی جائے تاکه وه شادی کرنے میں دلچسپی لی۔ خواه یه تعریف نکاح کے ضمن میں هو یا اس سے پهلے ۔ اس صورت میں که اس تعریف کی بنیاد پر نکاح هوا هو۔ لهذا اگر نکاح کے بعد دوسرے فریق کو اس بات کا غلط هونا معلوم هوجائے تو وه نکاح کو ختم کرسکتا هے اور اس مسئلے کے تفصیلی احکام "مسائِلِ مُنتَخَحبَه" جیسی دوسری کتابوں میں بیان کئے گئے هیں۔

وه عورتیں جن سے نکاح کرنا حرام هے

2393۔ ان عورتوں کے ساتھ جو انسان کی محرم هوں ازدواج حرام هے مثلاً ماں، بهن، بیٹی، پھوپھی، خاله، بھتیجی، بھانجی، ساس۔

2394۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے چاهے اس کے ساتھ جماع نه بھی کرے تو اس عورت کی ماں، نانی اور دادی اور جتنا سلسله اوپر چلاجائے سب عورتیں اس مرد کی محرم هوجاتی هیں۔

ص:452

2395۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کے ساتھ هم بستری کرے تو پھر اس عورت کی لڑکی، نواسی، پوتی اور جتنا سلسله نیچے چلا جائے سب عورتیں اس مرد کی محرم هوجاتی هیں خواه وه عقد کے وقت موجود هوں یا بعد میں پیدا هوں۔

2396۔ اگر کسی مرد نے ایک عورت سے نکاح کیا هو لیکن هم بستری نه کی هو تو جب تک وه عورت اس کے نکاح میں رهے۔ احتیاط واجب کی بنا پر۔ اس وقت تک اس کی لڑکی سے ازدواج نه کرے۔

2397۔ انسان کی پھوپھی اور خاله اور اس کے باپ کی پھوپھی اور خاله اور دادا کی پھوپھی اور خاله باپ کی ماں (دادی) اور ماں کی پھوپھی اور خاله اور نانی اور نانا کی پھوپھی اور خاله اور جس قدر یه سلسله اوپر چلاجائے سب اس کے محرم هیں۔

2398۔ شوهر کا باپ اور دادا اور جس قدر یه سلسله اوپر چلا جائے اور شوهر کا بیٹا، پوتا اور نواسا جس قدر بھی یه سلسله نیچے چلا جائے اور خواه وه نکاح کے وقت دنیا میں موجود هوں یا بعد میں پیدا هوں سب اس کی بیوی کے محرم هیں۔

2399۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو خواه وه نکاح دائمی هو یا غیر جب تک وه عورت اس کی منکوحه هے وه اس کی بهن کے ساتھ نکاح نهیں کرسکتا۔

2400۔ اگر کوئی شخص اس ترتیب کے مطابق جس کا ذکر طلاق کے مسائل میں کیا جائے گا اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے دے تو وه وعدت کے دوران اس کی بهن سے نکاح نهیں کرسکتا لیکن طلاق بائن کی عدت کے دوران اس کی بهن سے نکاح کرسکتا هے اور مُتعَه کی عدت کے دوران احتیاط واجب یه هے که عورت کی بهن سے نکاح نه کرے۔

2401۔ انسان اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی بھتیجی یا بھانجی سے شادی نهیں کرسکتا لیکن اگر وه بیوی کی اجازت کے بغیر ان سے نکاح کرلے اور بعد میں بیوی اجازت دے دے تو پھر کوئی اشکال نهیں۔

2402۔اگر بیوی کو پتا چلے که اس کے شوهر نے اس کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کرلیا هے اور خاموش رهے تو اگر وه بعد میں راضی هوجائے تو نکاح صحیح هے اور اگر رضامند نه هو تو ان کا نکاح باطل هے۔

2403۔ اگر انسان خاله یا پھوپھی کی لڑکی سے شادی کرنے سے پهلے (نَعوذُ بِالله) خاله یا پھوپھی سے زنا کرے تو پھر وه اس کی لڑکی سے احتیاط کی بنا پر شادی نهیں کرسکتا۔

ص:453

2404۔ اگر کوئی شخص اپنی پھوپھی کی لڑکی یا خاله کی لڑکی سے شادی کرے اور اس سے هم بستری کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو یه بات ان کی جدائی کا موجب نهیں بنتی اور اگر اس سے نکاح کے بعد لیکن جماع کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرے تو یه بات ان کی جدائی کا موجب نهیں بنتی اور اگر اس سے نکاح کے بعد لیکن جماع کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرے تب بھی یهی حکم هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که اس صورت طلاق دے کر اس سے (یعنی پھوپھی زاد یا خاله زاد بهن سے) جدا هوجائے۔

2405۔اگر کوئی شخص اپنی پھوپھی یا خاله کے علاوه کسی اور عورت سے زنا کرے تو احتیاط مستحب یه هے که اس کی بیٹی کے ساتھ شادی نه کرے بلکه اگر کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کے ساتھ جماع کرنے سے پهلے اس کی ماں کے ساتھ زنا کرے تو احتیاط مستحب یه هے که اس عورت سے جدا هوجائے لیکن اگر اس کے ساتھ جماع کرلے اور بعد میں اس کی ماں سے زنا کرے تو بے شک عورت سے جدا هونا لازم نهیں۔

2406۔مسلمان عورت کا فرد مرد سے نکاح نهیں کرسکتی۔ مسلمان مرد بھی اهل کتاب کے علاوه کافر عورتوں سے نکاح نهیں کرسکتا۔ لیکن یهودی اور عیسائی عورتوں کی مانند اهل کتاب عورتوں سے مُتعَه کرنے سے کوئی حرج نهیں اور احتیاط لازم کی بنا پر ان سے دائمی عقد نه کیا جائے اور بعض فرقے مثلاً ناصبی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے هیں کفار کے حکم میں هیں اور مسلمان مرد اور عورتیں ان کے ساتھ دائمی یا غیر دائمی نکاح نهیں کرسکتے۔

2407۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی عورت سے زنا کرے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رهی هو تو احتیاط کی بنا پر۔ وه عورت اس پر حرام هوجاتی هے اور اگر ایسی عورت کے ساتھ زنا کرے جو متعه یا طلاق بائن یا وفات کی عدت گزار رهی هو تو بعد میں اس کے ساتھ نکاح کر سکتا هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که اس سے شادی نه کرے۔ اور رَجعی طلاق اور بَائِن طلاق اور مُتعه کی عِدّت اور وفات کی عِدّت کے معنی طلاق کے احکام میں بتائے جائیں گے۔

2408۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو بے شوهر هو مگر عدت میں نه هو تو احتیاط کی بنا پر توبه کرنے سے پهلے اس سے شادی نهیں کرسکتا۔ لیکن اگر زانی کے علاوه کوئی دوسرا شخص (اس عورت کے) توبه کرنے سے پهلے اس کے ساتھ شادی کرنا چاهے تو کوئی اشکال نهیں هے۔ مگر اس صورت میں که وه عورت زناکار مشهور هو تو احتیاط کی بنا پر اس (عورت) کے توبه کرنے سے پهلے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نهیں هے۔ اسی طرح کوئی مرد زنا کار مشهور هو تو توبه کرنے سے پهلے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نهیں هے اور احتیاط مستحب یه هے که اگر کوئی شخص زنا کا عورت سے جس

ص:454

سے خود اس نے یا کسی دوسرے نے منه کالا کیا هو شادی کرنا چاهے تو حیض آنے تک صبر کرے اور حیض آنے کے بعد اس کے ساتھ شادی کرلے۔

2409۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی عورت سے نکاح کرے جو دوسرے کی عدت میں هو تو اگر مرد اور عورت دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جانتا هو که عورت کی عدت ختم نهیں هوئی اور یه بھی جانتے هوں که عدت کے دوران عورت سے نکاح کرنا حرام هے تو اگرچه مرد نے نکاح کے بعد عورت سے جماع نه بھی کیا هو اور عورت همیشه کے لئے اس پر حرام هوجائے گی۔

2410۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جو دوسرے کی عدت میں هو اور اس سے جماع کرے تو خواه اسے یه علم نه هو که وه عورت عدت میں هے یا یه نه جانتا هو که عدت کے دوران عورت سے نکاح کرنا حرام هے وه عورت همیشه کے لئے اس شخص پر حرام هوجائے گی۔

2411۔ اگر کوئی شخص یه جانتے هوئے که عورت شوهر دار هے اور (اس سے شادی کرنا حرام هے) اس سے شادی کرے تو ضروری هے که اس عورت سے جدا هو جائے اور بعد میں بھی اس سے نکاح نهیں کرنا چاهئے۔ اور اگر اس شخص کو یه علم نه هو که عورت شوهر دار هے لیکن شادی کے بعد اس سے هم بستری کی هو تب بھی احتیاط کی بنا پر تب بھی یهی حکم هے۔

2412۔اگر شوهر دار عورت زنا کرے تو ۔ احتیاط کی بنا پر۔ وه زانی پر همیشه کے لئے حرام هوجاتی هے لیکن شوهر پر حرام نهیں هوتی اور اگر توبه و استغفار نه کرے اور اپنے عمل پر باقی رهے (یعنی زنا کاری ترک نه کرے) تو بهتر یه هے که اس کا شوهر اسے طلاق دے دے لیکن شوهر کو چاهئے که اس کا مهر بھی دے۔

2413۔ جس عورت کو طلاق مل گئی هو اور جو عورت متعه میں رهی هو اور اس کے شوهر نے متعه کی مدت بخش دی هو یا متعه کی مدت ختم هوگئی هو اگر وه کچھ عرصے کے بعد دوسرا شوهر کرے اور پھر اسے شک هو که دوسرے شوهر سے نکاح کے وقت پهلے شوهر کی عدت ختم هوئی تھی یا نهیں تو وه اپنے شک کی پروا نه کرے۔

2414۔ اغلام کروانے والے لڑکے کی ماں، بهن اور بیٹی اغلام کرنے والے پر۔ جب که (اغلام کرنے والا) بالغ هو۔ حرام هوجاتے هیں ۔ اور اگر اغلام کروانے والا مرد هو یا اغلام کرنے والا نابالغ هوتب بھی احتیاط لازم کی بنا پر بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر اسے گمان و که دخول هوا تھا یا شک کرے که دخول هوا تھا یا نهیں تو پھر وه حرام نهیں هوں گے۔

ص:455

2415۔ اگر کوئی شخص کسی لڑکے کی ماں یا بهن سے شادی کرے اور شادی کے بعد اس لڑکے سے اغلام کرے تو احتیاط کی بنا پر وه عورتیں اس پر حرام هو جاتی هیں۔

2416۔ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں جو اعمال حج میں سے ایک عمل هے کسی عورت سے شادی کرے تو اس کا نکاح باطل هے اور اگر اسے علم تھا که کسی عورت سے احرام کی حالت میں نکاح کرنا اس پر حرام هے تو بعد میں وه اس عورت سے شادی نهیں کرسکتا۔

2417۔ جو عورت احرام کی حالت میں هو اگر وه ایک ایسے مرد سے شادی کرے جو احرام کی حالت میں نه هو تو اس کا نکاح باطل هے اور اگر عورت کو معلوم تھا که احرام کی حالت میں شادی کرنا حرام هے تو احتیاط واجب یه هے که بعد میں اس مرد سے شادی نه کرے۔

2418۔ اگر مرد طواف النساء جو حج اور عمر مفرده کے اعمال میں سے ایک عمل هے بجا نه لائے تو اس کی بیوی اور دوسری عورتیں اس پر حلال نهیں هوتیں اور اگر عورت طواف النساء نه کرے تو اس کا شوهر اور دوسرے مرد اس پر حلال نهیں هوتے لیکن اگر وه بعد میں طواف النساء بجالائیں تو مرد پر عورتیں اور عورتوں پر مرد حلال هو جاتے هیں۔

2419۔ اگر کوئی شخص نابالغ لڑکی سے نکاح کرے تو اس لڑکی کی عمر نوسال هونے سے پهلے اس کے ساتھ جماع کرنا حرام هے۔ لیکن اگر جماع کرے تو اظهر یه هے که لڑکی کے بالغ هونے کے بعد اس سے جماع کرنا حرام نهیں هے خواه اسے افضاء هی هوگیا هو۔ افضاء کے معنی مسئله 2389 میں بتائے جاچکے هیں۔ لیکن احوط یه هے که اسے طلاق دے دے۔

2420۔ جس عورت کو تین مرتبه طلاق دی جائے وه شوهر پر حرام هوجاتی هے۔ هاں اگر ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر طلاق کے احکام میں کیا جائے گا وه عورت دوسرے مرد سے شادی کرے تو دوسرے شوهر کی موت یا اس سے طلاق هوجانے کے بعد اور عدت گزر جانے کے بعد اس کا پهلا شوهر دوباره اس کے ساتھ نکاح کرسکتا هے۔

دائمی عقد کے احکام

2421۔ جس عورت کا دائمی نکاح هو جائے اس کے لئے حرام هے که شوهر کی اجازت کے بغیر گھر سے باهر نکلے خواه اس کا نکلنا شوهر کے حق کے منافی نه بھی هو۔ نیز اس کے لئے ضروری هے که جب بھی شوهر جنسی لذتیں حاصل کرنا چاهے تو

ص:456

اس کی خواهش پوری کرے اور شرعی عذر کے بغیر شوهر کو هم بستری سے نه روکے۔ اور اس کی غذا، لباس رهائش اور زندگی کی باقی ضروریات کا انتظام جب تک وه اپنی ذمے داری پوری کرنے شوهر پر واجب هے۔ اور اگر وه یه چیزیں مهیانه کرے تو خواه ان کے مهیا کرنے پر قدرت رکھتا هو یا نه رکھتا هو وه بیوی کا مقروض هے۔

2422۔ اگر کوئی عورت هم بستری اور جنسی لذتوں کے سلسلے میں شوهر کا ساتھ دے کر اس کی خواهش پوری نه کرے تو روٹی، کپڑے اور مکان کا وه ذمے دار نهیں هے اگرچه وه شوهر کے پاس هی رهے اور اگر وه کبھی کبھار اپنی ان ذمے داریوں کو پورا نه کرے تو مشهور قول کے مطابق تب بھی روٹی، کپڑے اور مکان کا شوهر پر حق نهیں رکھتی لیکن یه حکم محل اشکال هے اور هر صورت میں بلااشکال اس کا مهر کالعدم نهیں هوتا۔

2423۔ مرد کو یه حق نهیں که بیوی کو گھریلو خدمت پر مجبور کرے

2424۔بیوی کے سفر کے اخراجات وطن میں رهنے کے اخراجات سے زیاده هوں تو اگر اس نے سفر شوهر کی اجازت سے کیا هو تو شوهر کی ذمے داری هے که وه ان اخراجات کو پورا کرے۔ لیکن اگر وه سفر گاڑی یا جهاز وغیره کے ذریعے هو تو کرائے اور سفر کے دوسرے ضروری اخراجات کی وه خود ذمے دار هے۔ لیکن اگر اس کا شوهر اسے سفر میں ساتھ لے جانا چاهتا هو تو اس کے لئے ضروری هے که بیوی کے سفری اخراجات برداشت کرے۔

2425۔جس عورت کا خرچ اس کے شوهر کے ذمے هو اور شوهر اسے خرچ نه دے تو وه اپنا خرچ شوهر کے اجازت کے بغیر اس کے مال سے لے سکتی هے اور اگر نه لے سکتی هو اور مجبور هو که اپنی معاش خود بندوبست کرے اور شکایت کرنے کے لئے حاکم شرع تک اس کی رسائی نه هوتا که وه اس کے شوهر کو ۔ اگرچه قید کرکے هی ۔ خرچ دینے پر مجبور کرے تو جس وقت وه اپنی معاش کا بندوبست کرنے میں مشغول هو اس وقت شوهر کی اطاعت اس پر واجب نهیں ۃے۔

2426۔ اگر کسی مرد کی مثلاً دو بیویاں هوں اور وه ان میں سے ایک کے پاس ایک رات رهے تو اس پر واجب هے که چار راتوں میں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گزارے اور صورت کے علاوه عورت کے پاس رهنا واجب نهیں هے۔ هاں یه لازم هے که اس کے پاس رهنا بالکل هی ترک نه کردے اور اولی اور احوط یه هے که هر چار راتوں میں سے ایک رات مرد اپنی دائمی منکوحه بیوی کے پاس رهے۔

ص:457

2427۔ شوهر اپنی جوان بیوی سے چار مهینے سے زیاده مدت کے لئے هم بستری ترک نهیں کرسکتا مگر یه که هم بستری اس کے لئے نقصان ده یا بهت زیاده تکلیف کا باعث هو یا اس کی بیوی خود چار مهینے سے زیاده مدت کے لئے هم بستری ترک کرنے پر راضی هو یا شادی کرتے وقت نکاح کے ضمن میں چار مهینے سے زیاده مدت کے لئے هم بستری ترک کرنے کی شرط رکھی گئی هو اور اس حکم میں احتیاط کی بنا پر شوهر کے موجود هونے یا مسافر هونے یا عورت کے منکوحه یا مَمتُوعه هونے میں کوئی فرق نهیں هے۔

2428۔ اگر دائمی نکاح میں مهر معین نه کیا جائے تو نکاح صحیح هے اور اگر مرد عورت کے ساتھ جماع کرے تو اسے چاهئے که اس کا مهر اسی جیسی عورتوں کے مهر کے مطابق دے البته اگر متعه میں مهر معین نه کیا جائے تو متعه باطل هوجاتا هے۔

2429۔ اگر دائمی نکاح پڑھتے وقت مهر دینے کے لئے مدت معین نه کی جائے تو عورت مهر لینے سے پهلے شوهر کو جماع کرنے سے روک سکتی هے قطع نظر اس سے که مرد مهر دینے پر قادر هو یا نه هو لیکن اگر وه مهر لینے سے پهلے جماع پر راضی هو اور شوهر اس سے جماع کرے تو بعد میں وه شرعی عذر کے بغیر شوهر کو جماع کرنے سے نهیں روک سکتی۔

مُتعَه (مُعَیَّنَه مُدّت کا نکاح)

2430۔ عورت کے ساتھ متعه کرنا اگرچه لذت حاصل کرنے کے لئے نه هو تب بھی صحیح هے۔

2431۔ احتیاط واجب یه هے که شوهر نے جس عورت سے متعه کیا هو اس کے ساتھ چار مهینے سے زیاده جماع ترک نه کرے۔

2432۔جس عورت کے ساتھ متعه کیا جا رها هو اگر وه نکاح میں یه شرط عائد کرے که شوهر اس سے جماع نه کرے تو نکاح اور اس کی عائد کرده شرط صحیح هے اور شوهر اس سے فقط دوسری لذتیں حاصل کرسکتا هے لیکن اگر وه بعد میں جماع کے لئے راضی هو جائے تو شوهر اس سے جماع کر سکتا هے اور دائمی عقد میں بھی یهی حکم هے۔

2433۔ جس عورت کے ساتھ متعه کیا گیا هو خواه وه حامله هو جائے تب بھی خرچ کا حق نهیں رکھتی۔

ص:458

2434۔ جس عورت کے ساتھ متعه کیا گیا هو وه هم بستری کا حق نهیں رکھتی اور شوهر سے میراث بھی نهیں پاتی اور شوهر بھی اس سے میراث نهیں پاتا۔ لیکن اگر ۔ ان میں سے کسی ایک فریق نے یا دونوں نے ۔ میراث پانے کی شرط رکھی هو تو اس شرط کا صحیح هونا محل اشکال هے۔ لیکن احتیاط کا خیال رکھے۔

2435۔ جس عورت سے متعه کیا گیا هو اگرچه اسے یه معلوم نه هو که وه خرچ اور هم بستری کا حق نهیں رکھتی اس کا نکاح صحیح هے اور اس وجه سے که وه ان امور سے ناواقف تھی اس کا شوهر پر کوئی حق نهیں بنتا۔

2436۔ جس عورت سے متعه کیا گیا هو اگر وه شوهر کی اجازت کے بغیر گھر سے باهر جائے اور اس کے باهر جانے کی وجه سے شوهر کی حق تلفی هو تو اس کا باهر جانا حرام هے اور اس صورت میں جبکه اس کے باهر جانے سے شوهر کی حق تلفی نه هوتی هوتب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر شوهر کی اجازت کے بغیر گھر سے باهر نه جائے۔

2437۔ اگر کوئی عورت کسی مرد کو وکیل بنائے که معین مدت کے لئے اور معین رقم کے عوض اس کا خود اپنے ساتھ صیغه پڑھے اور وه شخص اس کا دائمی نکاح اپنے ساتھ پڑھ لے یا مدت مقرر کئے بغیر یا رقم کا تعین کئے بغیر متعه کا صیغه پڑھ دے تو جس وقت عورت کو ان امور کا پتا چلے اگر وه اجازت دے دے تو نکاح صحیح هے ورنه باطل هے۔

2438۔ اگر محرم هونے کے لئے ۔ مثلاً ۔ باپ یا دادا اپنی نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح معینه مدت کے لئے کسی سے پڑھیں تو اس صورت میں اگر اس نکاح کی وجه سے کوئی فساد نه هو تو نکاح صحیح هے لیکن اگر نابالغ لڑکا شادی کی اس پوری مدت میں جنسی لذت لینے کی بالکل صلاحیت نه رکھتا هو یا لڑکی ایسی هو که وه اس سے بالکل لذت نه لے سکتا هو تو نکاح کا صحیح هونا محل اشکال هے۔

2439۔ اگر باپ یا دادا اپنی بچی کا جو دوسری جگه هو اور یه معلوم نه هو که وه زنده بھی هے یا نهیں محرم بن جانے کی خاطر کسی عورت سے نکاح کر دیں اور زوجیت کی مدت اتنی هو که جس عورت سے نکاح کیا گیا هو اس سے استمتاع هوسکے تو ظاهری طور پر محرم بننے کا مقصد حاصل هوجائے گا اور اگر بعد میں معلوم هو که نکاح کے وقت وه بچی زنده نه تھی تو نکاح باطل هے اور وه لوگ جو نکاح کی وجه سے بظاهر محرم بن گئے تھے نامحرم هیں۔

ص:459

2440۔ جس عورت کے ساتھ متعه کیا گیا هو اگر مرد اس کی نکاح میں معین کی هوئی مدت بخش دے تو اگر اس نے اس کے ساتھ هم بستری کی هو تو مرد کو چاهئے که تمام چیزیں جن کا وعده کیا گیا تھا اسے دے دے اور اگر هم بستری نه کی هو تو آدھا مهر دینا واجب هے اور احتیاط مستحب یه هے که سارا مهر اسے دیدے۔

2441۔ مرد یه کرسکتا هے که جس عورت کے ساتھ اس نے پهلے متعه کیا هو اور ابھی اس کی عدت ختم نه هوئی هو اس سے دائمی عقد کرلے یا دوباره متعه کرلے۔

نا محرم پرنگاه ڈالنے کے احکام

2442۔ مرد کے لئے نامحرم عورت کا جسم دیکھنا اور اسی طرح اس کے بالوں کو دیکھنا خواه لذت کے ارادے سے هو یا اس کے بغیر یا حرام میں مبتلا هونے کا خوف ها یا نه هو حرام هے اور اس کے چهرے پر نظر ڈالنا اور هاتھوں کو کهنیوں تک دیکھنا اگر لذت کے ارادے سے هو یا حرام میں مبتلا هونے کا خوف هو تو حرام هے۔ بلکه احتیاط مستحب یه هے که لذت کے ارادے کے بغیر اور حرام میں مبتلا هونے کا خوف نه هو تب بھی نه دیکھے۔ اسی طرح عورت کے لئے نامحرم مرد کے جسم پر نظر ڈالنا حرام هے۔ لیکن اگر عورت مرد کے جسم کے ان حصوں مثلاً سر، دونوں هاتھوں اور دونوں پنڈلیوں پر جنهیں عرفاً چھپانا ضروری نهیں هے لذت کے ارادے کے بغیر نظر ڈالے اور حرام میں مبتلا هونے کا خوف نه هو تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2443۔ وه بے پرده عورتیں جنهیں اگر کوئی پرده کرنے کے لئے کهے تو اس کو اهمیت نه دیتی هوں، ان کے بدن کی طرف دیکھنے میں اگر لذت کا قصد اور حرام میں مبتلا هونے کا خوف نه هو تو کوئی اشکال نهیں ۔ اور اس حکم میں کافر اور غیر کافر عورتوں میں کوئی فرق نهیں هے۔ اور اسی طرح ان کے هاتھ، چهرے اور جسم کے دیگر حصے جنهیں چھپانے کی وه عادی نهیں کوئی فرق نهیں هے۔

2444۔عورت کو چاهئے که وه ۔ علاوه هاتھ اور چهرے کے۔ سر کے بال اور اپنا بدن نا محرم مرد سے چھپائے اور احتیاط لازم یه هے که اپنا بدن اور سر کے بال اس لڑکے سے بھی چھپائے جو ابھی بالغ تو نه هوا هو لیکن (اتنا سمجھدار هو که ) اچھے اور برے کو سمجھتا هو اور احتمال هو که عورت کے بدن پر اس کی نظر پڑنے سے اس کی جنسی خوهش بیدار هو جائے گی۔لیکن عورت نا محرم مرد کے سامنے چهره اور کلائیوں تک هاتھ کھلے رکھ سکتی هے۔ لیکن اس صورت میں که حرام میں

ص:460

مبتلا هونے کا خوف یا کسی مرد کو (هاتھ اور چهره) دکھانا حرام میں مبتلا کرنے کے ارادے سے هو تو ان دونوں صورتوں میں ان کا کھلا رکھنا جائز نهیں هے۔

2445۔ بالغ مسلمان کی شرم گاه دیکھنا حرام هے۔ اگرچه ایسا کرنا شیشے کے پیچھے سے یا آئینے میں یا صاف شفاف پانی وغیره میں هی کیوں نه هو۔ اور احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم هے کافر اور اس بچے کی شرم گاه کی طرف دیکھنے کا جو اچھے برے کو سمجھتا هو، البته میاں بیوی ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے هیں۔

2446۔ جو مرد اور عورت آپس میں محرم هوں اگر وه لذت کی نیت نه رکھتے هوں تو شرمگاه کے علاوه ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے هیں۔

2447۔ ایک مرد کو دوسرے مرد کا بدن لذت کی نیت سے نهیں دیکھنا چاهئے اور ایک عورت کا بھی دوسری عورت کے بدن کو لذت کی نیت سے دیکھنا حرام هے۔

2448۔اگرکوئی مرد کسی نامحرم عورت کو پهچانتاهو اگر وه بے پرده عورتوں میں سے نه هو تو احتیاط کی بنا پر اسے اس کی تصویر نهیں دیکھنی چاهئے۔

2449۔ اگر ایک عورت کسی دوسری عورت کا یا اپنے شوهر کے علاوه کسی مرد کا انیما کرنا چاهے یا اس کی شرم گاه کو دھو کر پاک کرنا چاهے تو ضروری هے که اپنے هاتھ پر کوئی چیز لپیٹ لے تاکه اس کا هاتھ اس (عورت یا مرد) شرم گاه پر نه لگے۔ اور اگر ایک مرد کسی دوسرے مرد یا اپنی بیوی کے علاوه کسی دوسری عورت کا انیما کرنا چاهے یا اس کی شرم گاه کو دھو کر پاک کرنا چاهے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

2450۔اگر عورت نامحرم مرد سے اپنی کسی ایسی بیماری کا علاج کرانے پر مجبور هو جس کا علاج وه بهتر طور پر کرسکتا هو تو وه عورت اس نامحرم مرد سے اپنا علاج کراسکتی هے۔ چنانچه وه مرد علاج کے سلسلے میں اس کو دیکھنے یا اس کے بدن کو هاتھ لگانے پر مجبور هو تو (ایسا کرنے میں) کوئی اشکال نهیں لیکن اگر وه محض دیکھ کر علاج کرسکتا هو تو ضروری هے اس عورت کے بدن کو هاتھ نه لگائے اور اگر صرف هاتھ لگانے سے علاج کرسکتا هو تو پھر ضروری هے که اس عورت پر نگاه نه ڈالے۔

ص:461

2451۔ اگر انسان کسی شخص کا علاج کرنے کے سلسلے میں اس کی شرم گاه پر نگاه ڈالنے پر مجبور هو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاهئے که آئینه سامنے رکھے اور اس میں دیکھے لیکن اگر شرم گاه پر نگاه ڈالنے کے علاوه کوئی چاره نه هو تو (ایسا کرنے میں ) کوئی اشکال نهیں۔ اور اگر شرم گاه پر نگاه ڈالنے کی مدت آئینے میں دیکھنے کی مدت سے کم هو تب بھی یهی حکم هے۔

ازدواج کے مختلف مسائل

2452۔ جو شخص شادی نه کرنے کی وجه سے حرام "فعل" میں مبتلا هوتا هو اس پر واجب هے که شادی کرے۔

2453۔ اگر شوهر نکاح میں مثلاً یه شرط عائد کرے که عورت کنوای هو اور نکاح کے بعد معلوم هو که وه کنواری نهیں تو شوهر نکاح کو فسخ کرسکتا هے البته اگر فسخ کرے تو کنواری هونے اور کنوارے نه هونے کے مابین مقرر کرده مهر میں جو فرق هو وه لے سکتا هے۔

2454۔ نامحرم مرد اور عورت کا کسی ایسی جگه ساتھ هونا جهاں اور کوئی نه هو جب که اس صورت میں بهکنے کا اندیشه بھی هو حرام هے چاهے وه جگه ایسی هو جهاں کوئی اور بھی آسکتا هو، البته اگر بهکنے کا اندیشه نه هو تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2455۔ اگر کوئی مرد عورت کا مهر نکاح میں معین کردے اور اس کا اراده یه هو که وه مهر نهیں دے گا تو (اس سے نکاح نهیں ٹوٹتا بلکه) صحیح هے لیکن ضروری هے که مهر ادا کرے۔

2456۔جو مسلمان اسلام سے خارج هوجائے اور کفر اختیاط کرے تو اسے "مرتد" کهتے هیں اور مرتد کی دو قسمیں هیں: 1۔ مرتد فطری 2۔ مرتد ملی۔ مرتد فطری وه شخص هے جس کی پیدائش کے وقت اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں کوئی ایک مسلمان هو اور وه خود بھی اچھے برے کو پهچاننے کے بعد مسلمان هو هوا هو لیکن بعد میں کافر هوجائے، اور مرتد ملی اس کے برعکس هے (یعنی وه شخص هے جس کی پیدائش کے وقت ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بھی مسلمان نه هو)۔

2457۔ اگر عورت شادی کے بعد مرتد هوجاۓ تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا هے اور اگر اس کے شوهر نے اس کے ساتھ جماع نه کیا هو تو اس کے لیے عدت نهیں هے۔ اور اگر جماع کے بعد مرتد هوجائے لیکن یائسه هوچکی هو یا بهت چھوٹی هو تب بھی یهی حکم هے لیکن اگر اس کی عمر حیض آنے والے عورتوں کے برابر هو تو اسے چاهئے که اس دستور کے مطابق جس کا ذکر طلاق کے احکام میں کیا جائے گا عدت گزارے اور (علماء کے مابین) مشهور یه هے که اگر عدت کے دوران

ص:462

مسلمان هوجائے تو اس کا نکاح (نهیں ٹوٹتا یعنی) باقی رهتا هے۔ اور یه حکم وجه سے خالی نهیں هے اگرچه بهتر یه هے که احتیاط کی رعایت ترک نه هو۔ اور یائسه اس عورت کو کهتے هیں جس کی عمر پچاس سال هوگئی هو اور عمر رسیده هونے کی وجه سے اسے حیض نه آتا هو اور دوباره آنے کی امید بھی نه هو۔

2458۔ اگر کوئی مرد شادی کے بعد مرتد فطری هوجائے تو اس کی بیوی اس پر حرام هوجاتی هے اور اس عورت کے لئے ضروری هے که وفات کے عدت کے برابر جس کا بیان طلاق کے احکام میں هوگا عدت رکھے۔

2459۔اگر کوئی مرد شادی کے بعد مرتد ملی هوجائے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا هے لهذا اگر اس نے اپنی بیوی کے ساتھ جماع کیا هو یا وه عورت یائسه یا بهت چھوٹی هو تو اس کے لیے عدت نهیں هے اور اگر وه مرد جماع کے بعد مرتد هو اور اس کی بیوی ان عورتوں کی هم سن هو جنهیں حیض آتا هے تو ضروری هے که وه عورت طلاق کی عدت کے برابر جس کا ذکر طلاق کے احکام میں آئے گا عدت رکھے۔ اور مشهور یه هے که اگر اس کی عدت ختم هونے سے پهلے اس کا شوهر مسلمان هوجائے تو اس کا نکاح قائم رهتا هے۔ اور یه حکم بھی وجه سے خالی نهیں هے البته احتیاط کا خیال رکھنا بهتر هے۔

2460۔ اگر عورت عقد میں مرد پر شرط عائد کرے که اسے (ایک معین) شهر سے باهر نه لے جائے اور مرد بھی اس شرط کو قبول کرلے تو ضروری هے که اس عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اس شهر سے باهر نه لے جائے۔

2461۔ اگر کسی عورت کی پهلے شوهر سے لڑکی هو تو بعد میں اس کا دوسرا شوهر اس لڑکی کا نکاح اپنے اس لڑکے سے کرسکتا هے جو اس بیوی سے نه هو نیز اگر کسی لڑکی کا نکاح اپنے بیٹے سے کرے تو بعد میں اس لڑکی کی ماں سے خود بھی نکاح کرسکتا هے۔

2462۔ اگر کوئی عورت زنا سے حامله هوجائے تو بچے کو گرانا اس کے لئے جائز نهیں هے۔

2463۔ اگر کوئی مرد کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو شوهر دار نه هو اور کسی دوسرے کی عدت میں بھی نه هو چنانچه بعد میں اس عورت سے شادی کرلے اور کوئی بچه پیدا هوجائے تو اس صورت میں که جب وه یه نه جانتے هو که بچه حلال نطفے سے هے یا حرام نطفے سے تو وه بچه حلال زاده هے۔

ص:463

2464۔ اگر کسی مرد کو یه معلوم نه هو که ایک عورت عدت میں هے اور وه اس سے نکاح کرے تو اگر عورت کو بھی اس بارے میں علم نه هو اور ان کے هاں بچه پیدا هو تو وه حلال زاده هوگا اور شرعاً ان دونوں کا بچه هوگا لیکن اگر عورت کو علم تھا که وه عدت میں هے اور عدت کے دوران نکاح کرنا حرام هے تو شرعاً وه بچه باپ کا هوگا۔ اور مذکوره دونوں صورتوں میں ان دونوں کا نکاح باطل هے اور جیسے که بیان هوچکا هے وه دونوں ایک دوسرے پر حرام هیں۔

2465۔ اگر کوئی عورت یه کهے که میں یائسه هوں تو اس کی یه بات قبول نهیں کرنی چاهئے لیکن اگر کهے که میں شوهر دار نهیں هوں تو اس کی بات مان لینا چاهئے۔ لیکن اگر وه غلط بیاں هو تو اس صورت میں احتیاط یه هے که اس کے بارے میں تحقیق کی جائے۔

2466۔اگر کوئی شخس کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس نے کها هو که میرا شوهر نهیں هے اور بعد میں کوئی اور شخص کهے که وه عورت اس کی بیوی هے تو جب تک شرعاً یه بات ثابت نه هوجائے که وه سچ کهه رها هے اس کی بات کو قبول نهیں کرنا چاهئے۔

2467۔جب تک لڑکا یا لڑکی دو سال کے نه هوجائیں باپ، بچوں کو ان کی ماں سے جدا نهیں کرسکتا اور احوط اور اولی یه هے که بچے کو سات سال تک اس کی ماں سے جدا نه کرے۔

2468۔اگر رشته مانگنے والے کی دیانت داری اور اخلاق سے خوش هو تو بهتر یه هے که لڑکی کا هاتھ اس کے هاتھ میں دینے سے انکار نه کرے۔ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآله) سے روایت هے که "جب بھی کوئی شخص تمهاری لڑکی کا رشته مانگنے آئے اور تم اس شخص کے اخلاق اور دیانت داری سے خوش هو تو اپنی لڑکی کی شادی اس سے کردو۔ اگر ایسا نه کرو گے تو گویا زمین پر ایک بهت بڑا فتنه پھیل جائے گا۔"

2469۔اگر بیوی شوهر کے ساتھ اس شرط پر اپنے مهر کی مصالحت کرے (یعنی اسے مهر بخش دے) که وه دوسری شادی نهیں کرے گا تو واجب هے که وه دوسری شادی نه کرے۔ اور بیوی کو بھی مهر لینے کا کوئی حق نهیں هے۔

2470۔ جو شخص ولد الزنا هو اگر وه شادی کرلے اور اس کے هاں بچه پیدا هو تو وه حلال زاده هے۔

ص:464

2471۔ اگر کوئی شخص ماه رمضان المبارک کے روزوں میں یا عورت کے حائض هونے کی حالت میں اس سے جماع کرے تو گنهگار هے لیکن اگر اس جماع کے نتیجے میں ان کے هاں کوئی بچه پیدا هو تو وه حلال زاده هے۔

2472۔ جس عورت کو یقین هو که اس کا شوهر سفر میں فوت هوگیا هے اگر وه وفات کی عدت کے بعد شادی کرے اور بعد ازاں اس کا پهلا شوهر سفر سے (زنده سلامت) واپس آجائے تو ضروری هے که دوسرے شوهر سے جدا هو جائے اور وه پهلے شوهر پر حلال هوگی لیکن اگر دوسرے شوهر نے اس سے جماع کیا هو تو عورت کے لئے ضروری هے که عدت گزارے اور دوسرے شوهر کو چاهئے که اس جیسی عورتوں کے مهر کے مطابق اسے مهر ادا کرے لیکن عدت (کے زمانے) کا خرچ (دوسرے شوهر کے ذمے) نهیں هے۔

دودھ پلانے کے احکام

2473۔ اگر کوئی عورت ایک بچے کو ان شرائط کے ساتھ کے دودھ پلائے جو مسئله 2483 میں بیان هوں گی تو وه بچه مندرجه ذیل لوگوں کا محرم بن جاتا هے۔

1۔ خود وه عورت ۔ اور اسے رضاعی ماں کهتے هیں۔

2۔ عورت کا شوهر جو که دودھ کا مالک هے۔ اور اسے رضاعی باپ کهتے هیں۔

3۔ اس عورت باپ اور ماں۔ اور جهاں تک یه سلسله اوپر چلا جائے اگرچه وه اس عورت کے رضاعی ماں باپ هی کیوں نه هوں۔

4۔ اس عورت کے وه بچے جو پیدا هوچکے هوں یا بعد میں پیدا هوں۔

5۔ اس عورت کی اولاد کی اولاد خواه یه سلسله جس قدر بھی نیچے چلاجائے اور اولاد کی اولاد خواه حقیقی هو خواه اس کی اولاد نے ان بچوں کو دودھ پلایا هو۔

6۔ اس عورت کی بهنیں اور بھائی خواه وه رضاعی هی کیوں نه هوں یعنی دودھ پینے کی وجه سے اس عورت کے بهن اور بھائی بن گئے هوں۔

ص:465

7۔ اس عورت کا چچا اور پھوپھی خواه وه رضاعی هی کیوں نه هوں۔

8۔ اس عورت کا ماموں اور خاله خواه وه رضاعی هی کیوں نه هوں۔

9۔ اس عورت کے اس شوهر کی اولاد جو دودھ کا مالک هے۔ اور جهاں تک بھی یه سلسله نیچے چلا جائے اگرچه اس کی اولاد رضاعی هی کیوں نه هو۔

10۔ اس عورت کے اس شوهر کے ماں باپ جو دودھ کا مالک هے۔ اور جهاں تک بھی یه سلسله اوپر چلا جائے۔

11۔ اس عورت کے اس شوهر کے بهن بھائی جو دودھ کا مالک هے خواه اس کے رضای بهن بھائی هی کیوں نه هوں۔

12۔ اس عورت کا جو شوهر دودھ کا مالک هے اس کے چچا اور پھوپھیاں اور ماموں اور خالائیں۔ اور جهاں تک یه سلسله اوپر چلا جائے اور اگرچه وه رضاعی هی کیوں نه هوں۔

اور ان کے علاوه کئی اور لوگ بھی دودھ پلانے کی وجه سے محرم بن جاتے هیں جن کا ذکر آئنده مسائل میں کیا جائے گا۔

2474۔اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئله 2483 میں کیا جائے گا تو اس بچے کا باپ ان لڑکیوں سے شادی نهیں کر سکتا جنهیں وه عورت جنم دے اور اگر ان میں سے کوئی ایک لڑکی ابھی اس کی بیوی هو تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ البته اس کا اس عورت کی رضاعی لڑکیوں سے نکاح کرنا جائز هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که ان کے ساتھ بھی نکاح نه کرے نیز احتیاط کی بنا پر وه اس عورت کے اس شوهر کی بیٹیوں سے نکاح نهیں کر سکتا جو دودھ کا مالک هے اگرچه وه اس شوهر کی رضاعی بیٹیاں هوں لهذا اگر اس وقت ان میں سے کوئی عورت اس کی بیوی هو تو احتیاط کی بنا پر اس کا نکاح ٹوٹ جاتا هے۔

2475۔ اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئله 2483 میں کیا جائے گا تو اس عورت کا وه شوهر جو که دودھ کا مالک هے اس بچے کی بهنوں کا محرم نهیں بن جاتا لیکن احتیاط مستجب یه هے که وه ان سے شادی نه کرے نیز شوهر کے رشته دار بھی اس بچے کے بھائی بهنوں کے محرم نهیں بن جاتے۔

ص:466

2476۔ اگر کوئی عورت ایک بچے کو دودھ پلائے تو وه اس کے بھائیوں کی محرم نهیں بن جاتی اور اس عورت کے رشته دار بھی اس بچے کے بھائی بهنوں کے محرم نهیں بن جاتے۔

2477۔ اگر کوئی شخص اس عورت سے جس نے کسی لڑکی کو پورا دودھ پلایا هو نکاح کرلے اور اس سے مجامعت کرلے تو پھر وه اس لڑکی سے نکاح نهیں کرسکتا۔

2487۔ اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے نکاح کرلے تو پھر وه اس عورت سے نکاح نهیں کرسکتا جس نے اس لڑکی کو پورا دودھ پلایا هو۔

2479۔ کوئی شخص اس لڑکی سے نکاح نهیں کرسکتا جسے اس شخص کی ماں یا دادی نے دودھ پلایا هو۔ نیز اگر کسی شخص کے باپ کی بیوی نے (یعنی اس کی سوتیلی ماں نے) اس شخص کے باپ کا مملو که دودھ کسی لڑکی کو پلایا هو تو هو شخص اس لڑکی سے نکاح نهیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی شخص کسی دودھ پیتی بچی سے نکاح کرے اور اس کے بعد اس کی ماں یا دادی یا اس کی سوتیلی ماں اس بچی کو دودھ پلادے تو نکاح ٹوٹ جاتا هے۔

2480۔ جس لڑکی کو کسی شخص کی بهن یا بھابی نے بھائی کے دودھ سے پورا دودھ پلایا هو وه شخص اس لڑکی سے نکاح نهیں کرسکتا۔ اور جب کسی شخص کی بھانجی، بھتیجی یا بهن یا بھائی کی پوتی یا نواسی نے اس بچی کو دودھ پلایا هو تب بھی یهی حکم هے۔

2481۔اگر کوئی عورت اپنی لڑکی کے بچے کو (یعنی اپنے نواسے یا نواسی کو) پورا دودھ پلائے تو وه لڑکی اپنے شوهر پر حرام هوجائے گی۔ اور اگر کوئی عوعرت اس بچے کو دودھ پلائے جو اس کی لڑکی کے شوهر کی دوسری بیوی سے پیدا هوا هو تب بھی یهی حکم هے لیکن اگر کوئی عورت اپنے بیتے کے بچے کو (یعنی اپنے پوتے یا پوتی کو) دودھ پلائے تو اس کے بیٹے کی بیوی (یعنی دودھ پلائی کی بهو) جو اس دودھ پیتے بچے کی ماں هے اپنے شوهر پر حرام نهیں هوگی۔

2482۔ اگرکسی لڑکی کی سوتیلی ماں اس لڑکی کے شوهر کے بچے کو اس لڑکی کے باپ کا مملوکه دودھ پلادے تو اس احتیاط کی بنا پر جس کا ذکر مسئله 2474 میں کیا گیا هے، وه لڑکی اپنے شوهر پر حرام هو جاتی هے خواه بچه اس لڑکی کے بطن سے یا کسی دوسری عورت کے بطن سے هو۔

دودھ پلانے سے محرم بننے کی شرائط

ص:467

2483۔بچے کو جو دودھ پلانا محرم بننے کا سبب بنتا هے اس کی آٹھ شرطیں هیں :

1۔ بچه زنده عورت کا دودھ پئے۔ پس اگروه مرده عورت کے پستان سے دودھ پئے تو اس کا کوئی فائده نهیں۔

2۔ عورت کا دودھ فعل حرام کا نتیجه نه هو۔ پس اگر ایسے بچے کا دودھ جو ولدالزنا هو کسی دوسرے بچے کو دیا جائے تو اس دودھ کے توسط سے وه دوسرا بچه کسی کا محرم نهیں بنے گا۔

3۔ بچه پستان سے دودھ پئے۔ پس اگر دودھ اس کے حلق میں انڈیلا جائے تو بیکار هے۔

4۔ دودھ خالص هو اور کسی دوسری چیز سے ملا هو نه هو۔

5۔ دودھ ایک هی شوهر کا هو۔ پس جس عورت کو دودھ اترتا هو اگر اسے کو طلاق هو جائے اور وه عقد ثانی کرلے اور دوسرے شوهر سے حامله هو جائے اور بچه جننے تک اس کے پهلے شوهر کا دودھ اس میں باقی هو مثلاً اگر اس بچے کو خود بچه جننے سے قبل پهلے شوهر کا دود آٹھ دفعه اور وضع حمل کے بعد دوسرے شوهر کا دودھ سات دفعه پلائے تو وه بچه کسی کا بھی محرم نهیں بنتا۔

6۔ بچه کسی بیماری کی وجه سے دودھ کی قے نه کردے اور اگر قے کردے تو بچه محرم نهیں بنتا هے۔

7۔ بچے کو اس قدر دودھ پلاجائے که اس کی هڈیاں اس دودھ سے مضبوط هوں اور بدن کا گوشت بھی اس سے بنے اور اگر اس بات کا علم نه هو که اس قدر دودھ پیا هے یا نهیں تو اگر اس نے ایک دن اور ایک رات یا پندره دفعه پیٹ بھر کر دودھ پیاهو تب بھی (محرم هونے کے لئے) کافی هے جیسا که اس کا (تفصیلی) ذکر آنے والے مسئلے میں کیا جائے گا۔ لیکن اگر اس بات کا علم هو که اس کی هڈیاں اس دودھ سے مضبوط نهیں هوئیں اور اس کا گوشت بھی اس سے نهیں بنا حالانکه بچے نے ایک دن اور ایک رات یا پندره دفعه دودھ پیا هو تو اس جیسی صورت میں احتیاط کا خیال کرنا ضروری هے۔

8۔ بچے کی عمر کے دو سال مکمل نه هوئے هوں اور اگر اس کی عمر دو سال هونے کے بعد اسے دودھ پلایا جائے تو وه کسی کا محرم نهیں بنتا بلکه اگر مثال کے طور پر وه عمر کے دو سال مکمل هونے سے پهلے آٹھ دفعه اور اس کے بعد ساتھ دفعه دودھ پئے تب بھی وه کسی کا محرم نهیں بنتا۔ لیکن اگر دودھ پلانے والی عورت کو بچه جنے هوئے دو سال سے زیاده مدت گزر چکی

ص:468

هو اور اس کا دودھ ابھی باقی هو اور وه کسی بچے کو دودھ پلائے تو وه بچه ان لوگوں کا محرم بن جاتا هے جن کا ذکر اوپر کیا گیا هے۔

2484۔ دودھ پینے کی وجه سے محرم بننے کے لئے ضروری هے که ایک دن رات میں بچه نه غذا کھائے اور نه کسی دوسری عورت کا دودھ پئے لیکن اگر اتنی تھوڑی غذا کھائے که لوگ یه نه کهیں که اس نے بیچ میں غذا کھائی هے تو پھر کوئی اشکال نهیں۔ نیز یه بھی ضروری هے که پندره مرتبه ایک هی عورت کا دودھ پئے اور اس پندره مرتبه دودھ پینے کے درمیان کسی دوسری عورت کا دودھ نه پئے اور هر بار بلافاصله دودھ پئے۔ هاں اگر دودھ پیتے هوئے سانس لے یا تھوڑا ساصبر کرے گویا که جب اس نے پهلی بار پستان منه میں لیا تھا اس وقت سے لے کر اس کے سیر هوجانے تک ایک دفعه دودھ پینا هی شمار کیا جائے تو اس میں کوئی اشکال نهیں۔

2485۔ اگر کوئی عورت اپنے شوهر کا دودھ کسی بچے کو پلائے۔ بعد ازاں عقد ثانی کرلے اور دوسرے شوهر کا دودھ کسی اور بچے آپس میں محرم نهیں بنتے اگر چه بهتر یه هے که وه آپس میں شادی نه کریں۔

2486۔ اگر کوئی عورت ایک شوهر کا دودھ کئی بچوں کو پلائے تو وه سب بچے آپس میں نیز اس آدمی کے اور اس عورت کے جنس نے انهیں دودھ پلایا هو محرم بن جاتے هیں۔

2487۔ اگر کسی شخص کی کئی بیویاں هوں اور ان میں سے هر ایک شرائط کے ساتھ جو بیان کی گئی هیں ایک ایک بچے کو دودھ پلادے تو وه سب بچے آپس میں اور اس آدمی اور ان تمام عورتوں کے محرم بن جاتے هیں۔

2488۔ اگر کسی شخص کو دو بیویوں کو دودھ اترتا هو اور ان میں سے ایک کسی بچے کو مثال کے طور پر آٹھ مرتبه اور دوسری سات مرتبه دودھ پلادے تو وه بچه کسی کا بھی محرم نهیں بنتے۔

2489۔ اگر کوئی عورت ایک شوهر کا پورا دودھ ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو پلائے تو اس لڑکی کے بهن بھائی اس لڑکے کے بهن بھائیوں کے محرم نهیں بن جاتے۔

2490۔ کوئی شخص اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر ان عورتوں سے نکاح نهیں کرسکتا جو دودھ پینے کی وجه سے اس کی بیوی کی بھانجیاں یا بھتیجیاں بن گئی هوں نیز اگر کوئی شخص کسی لڑکے سے اغلام کرے تو وه اس لڑکے کی رضاعی بیٹی، بهن، ماں

ص:469

اور دادی سے یعنی ان عورتوں سے جو دودھ پینے کی وجه سے اس کی بیٹی، بهن، ماں اور دادی بن گئی هوں نکاح نهیں کرسکتا۔اور احتیاط کی بنا پر اس صورت میں جبکه لواطت کرنے والا بالغ هو تب بھی یهی حکم هے۔

2491۔ جس عورت نے کسی شخص کے بھائی کو دودھ پلایا هو وه اس شخص کی محرم نهیں بن جاتی اگرچه احتیاط مسحب یه هے که اس شادی نه کرے۔

2492۔ کوئی آدمی دو بهنوں سے (ایک هی وقت میں) نکاح نهیں کرسکتا اگرچه وه رضا4ی بهنیں هی هوں یعنی دودھ پینے کی وجه سے ایک دوسری کی بهنیں بن گئی هوں اور اگر وه دو عورتوں سے شادی کرے اور بعد میں اسے پتا چلے که وه آپس میں بهنیں هیں تو اس صورت میں جب که ان کی شادی ایک هی وقت میں هوئی هو اظهر یه هے که دونوں نکاح باطل هیں۔ اور اگر نکاح ایک هی وقت میں نه هوا هو تو پهلا نکاح صحیح هو دوسرا باطل هے۔

2493۔ اگر کوئی عورت اپنے شوهر کا دودھ ان اشخاص کا پلائے جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا هے تو اس عورت کا شوهر اس پر حرام نهیں هوتا اگرچه بهتر یه هے که احتیاط کی جائے۔

1۔ اپنے بھائی اور بهن کو۔

2۔ اپنے چچا، پھوپھی، اماموں اور خاله کو۔

3۔ اپنے چچا اور ماموں کی اولاد کو۔

4۔ اپنے بھتیجے کو۔

5۔ اپنے جیٹھ یا دیور اور نند کو۔

6۔ اپنے بھانجے یا اپنے شوهر کے بھانجے کو۔

8۔ اپنے شوهر کی دوسری بیوی کے نواسے یا نواسی کی۔

ص:470

2494۔ اگر کوئی عورت کسی شخص کی پھوپھی زاد یا خاله زاد بهن کو دودھ پلائے تو وه (عورت) اس شخص کی محرم نهیں بنتی لیکن احتیاط مستحب یه هے که وه شخص اس عورت سے شادی نه کرے۔

2495۔ جس شخص کی دو بیویاں هوں اگر اس کی ایک بیوی دوسری بیوی کے چچا کے بیٹے کو دودھ پلائے تو جس عورت کے چچا کے بیٹے نے دودھ پیا هے وه اپنے شوهر پر حرام نهیں هوگی۔

دودھ پلانے کے آداب

2496۔ بچے کو دودھ پلانے کے لئے سب عورتوں سے بهتر اس کی اپنی ماں هے۔ اور ماں کے لئے مناسب هے که بچے کو دودھ پلانے کی اجرت اپنے شوهر سے نه لے اور شوهر کے لئے اچھی بات یه هے که اسے اجرت دے اور اگر بچے کی ماں، دایه (دودھ ماں) کے مقابلے میں زیاده اجرت لینا چاهے تو شوهر بچے کو اس سے لے کر دایه کے سپرد کرسکتا هے۔

2497۔ مستحب هے که بچے کی دایه شیعه اثنا عشری، هوش مند، پاک دامن اور خوش شکل هو۔ اور مکروه هے که وه غبی، غیر شیعه اثنا عشری، بد صورت، بد اخلاق یا حرام زادی هو۔ اور یه بھی مکروه هے۔ که اس عورت کو بطور دایه منتخب کیا جائے جس کا دودھ ایسے بچے سے هو جو والدالزنا هو۔

دودھ پلانے کے مختلف مسائل

2498۔ عورتوں کے لئے بهتر هے که وه هر ایک کے بچے کو دودھ نه پلائیں کیونکه هوسکتا هے وه یه یاد نه رکھ سکیں که انھوں نےکس کسی کو دودھ پلایا هے اور (ممکن هے که) بعد میں دو محرم ایک دوسرے سے نکاح کرلیں۔

2499۔اگر ممکن هو تو مستحب هے که بچے کو پورے 21 مهینے دودھ پلایا جائے اور دوسال سے زیاده دودھ پلانا مناسب نهیں هے۔

2500۔اگر دودھ پلانے کی وجه سے شوهر کا حق تلف نه هوتا هو تو عورت شوهر کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کے بچے کو دودھ پلاسکتی هے۔

ص:471

2501۔ اگر کسی عورت کا شوهر ایک شیر خوار بچی سے نکاح کرے اور وه عورت اس بچی کو دودھ پلائے تو مشهور قول کی بنا پر وه عورت اپنے شوهر کی ساس بن جاتی هے اور اس پر حرام هوجاتی هے۔ لیکن یه حکم اشکال سے خالی نهیں هے اور احتیاط کا خیال رکھنا چاهئے۔

2502۔ اگر کوئی چاهے که اس کی بھابی اس کی محرم بن جائے تو بعض فقهانے فرمایا هے که اسے چاهئے که کسی شیر خوار بچی سے مثال کے طور پر دو دن کے لئے متعه کرلے اور ان دونوں میں ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر مسئله 2483 میں کیا گیا هے اس کی بھابی اس بچی کو دودھ پلائے تاکه وه اس کی بیوی کی ماں بن جائے۔ لیکن یه حکم اس صورت میں جب بھائی بھائی کے مملوک دودھ سے اس بچی کو پلائے محل اشکال هے۔

2503۔ اگر کوئی کرد کسی عورت سے شادی کرنے سے پهلے کهے که رضاعت کی وجه سے وه عورت مجھ پر حرام هے مثلاً کهے که میں نے اس عورت کی ماں کا دودھ پیا هے تو اگر اس بات کی تصدیق ممکن هو تو وه اس عورت سے شادی نهیں کرسکتا اور اگروه یه بات شادی کے بعد کهے اور خود عورت بھی اس بات کو قبول کرے تو ان کا نکاح باطل هے۔ لهذا اگر مرد نے اس عورت سے هم بستری نه کی هو یا کی هو لیکن هم بستری کے وقت عورت کو معلوم هو که وه اس مرد پر حرام هے تو عورت کا کوئی مهر نهں اور اگر عورت کو هم بستری کے بعد پتا چلے که وه اس مرد پر حرام تھی تو ضروری هے که شوهر اس جیسی عورتوں کے مهر کے مطابق اسے مهر دے۔

2504۔ اگر کوئی عورت شادی سے پهلے کهه دے که رضاعت کی وجه سے میں اس مرد پر حرام هوں اور اس کی تصدیق ممکن هو تو وه اس مرد سے شادی نهیں کرسکتی اور اگر وه یه بات شادی کے بعد کهے تو اس کا کهنا ایسا هی جیسے که مرد شادی کے بعد کهے که وه عورت اس پر حرام هے اور اس کے متعلق حکم سابقه مسئلے میں بیان هوچکا هے۔

2505۔ دودھ پلانا جو محرم سے بننے کا سبب هے دو چیزوں سے ثابت هوتا هے :

1۔ ایک ایسی جماعت کا خبر دینا جس کی بات پر یقین یا اطمینان هوجائے

2۔ دو عادل مرد اس کی گواهی دیں لیکن ضروری هے که وه دودھ پلانے کی شرائط کے بارے میں بھی بتائیں مثلاً کهیں که هم نے فلاں بچے کو چوبیس گھنٹے فلاں عورت کے پستان سے دودھ پیتے دیکھا هے اور اس نے اس دوران اور کوئی چیز بھی

ص:472

نهیں کھائی اور اسی طرح ان باقی شرائط کو بھی واشگاف الفاظ میں بیان کریں جن کا ذکر مسئله 2483 میں کیا گیا هے۔ البته ایک مرد اور دو عورتوں یا چار عورتوں کی گواهی هے جو سب کے سب عادل هوں رضاعت کا ثابت محل اشکال هے۔

2506۔ اگر اس بات میں شک هو که بچے نے اتنی مقدار میں دودھ پیا هے جو محرم بننے کا سبب هے یا نهیں پیا هے یا گمان هو که اس نے اتنی مقدار میں دودھ پیا هے تو بچه کسی کا بھی محرم نهیں هوتا لیکن بهتر یه هے که احتیاط کی جائے۔

طلاق کے احکام

اشاره

2507۔جو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اس کے لئے ضروری هے که بالغ اور عاقل هو لیکن اگر دس سال کا بچه اپنی بیوں کو طلاق دے تو اس کے بارے میں احتیاط کا خیال رکھیں اور اسی طرح ضروری هے که مرد اپنے اختیار سے طلاق دے اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو طلاق باطل هے اور یه بھی ضروری هے که وه شخص طلاق کی نیت رکھتا هو لهذا اگر وه مثلاً مذاق مذاق میں طلاق کا صیغه کهے تو طلاق صحیح نهیں هے۔

2508۔ ضروری هے که عورت طلاق کے وقت حیض یا نفاس سے پاک هو اور اس کے شوهر نے اس پاکی کے دوران اس سے هم بستری نه کی هو اور ان دو شرطوں کی تفصیل آئنده مسائل میں بیان کی جائے گی۔

2509۔ عورت کو حیض یا نفاس کی حالت میں تین صورتوں میں طلاق دینا صحیح هے:

1۔ شوهر نے نکاح کے بعد اس سے هم بستری نه کی هو۔

2۔ معلوم هو که وه حامله هے۔ اور اگر یه بات معلوم نه هو اور شوهر اسے حیض کی حالت میں طلاق دے دے اور بعد میں شوهر کو پتا چلے که وه حامله تھی تو وه طلاق باطل هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که اسے دوباره طلاق دے۔

3۔ مرد غیر حاضری یا ایسی هی کسی اور وجه سے اپنی بیوں سے جدا هوا اور یه معلوم نه هوسکتا هو که عورت حیض یا نفاس سے سے پاک هے یا نهیں۔ لیکن اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که مرد انتظار کرے تاکه بیوں سے جدا هونے کے بعد کم از کم ایک مهینه گزر جائے اس کے بعد اس طلاق دے۔

ص:473

2510۔ اگر کوئی شخص عورت کو حیض سے پاک سمجھے اور اسے طلاق دے دے اور بعد میں پتا چلے که وه حیض کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق باطل هے اور اگر شوهراسے حیض کی حالت میں سمجھے اور طلاق دے دے اور بعد میں معلوم هو که پاک تھی تو اس کی طلاق صحیح هے۔

2511۔ جس شخص کو علم هو که اس کی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں هے اگر وه بیوی سے جدا هو جائے مثلاً سفر اختیار کرے اور اسے طلاق دینا چاهتا هو تو اسے چاهئے که اتنی مدت صبر کرے جس میں اسے یقین یا اطمینان هو جائے که وه عورت حیض یا نفاس سے پاک هو گئی هے اور جب وه یه جان لے که عورت پاک هے اسے طلاق دے۔ اور اگر اسے شک هوتب بھی یهی حکم هے لیکن اس صورت میں غائب شخص کی طلاق کے بارے میں مسئله 2509 میں جو شرائط بیان هوئی هیں ان کا خیال رکھے۔

2512۔جو شخص اپنی بیوی سے جدا هو اگر وه اسے طلاق دینا چاهے تو اگر وه معلوم کرسکتا هو که اس کی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں هے یا نهیں تو اگرچه عورت کی حیض کی عادت یا ان دوسری نشانیوں کو جو شرع میں معین هیں دیکھتے هوئے اسے طلاق دے اور بعد میں معلوم هو که وه حیض یا نفاس کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق صحیح هے۔

2513۔اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جو حیض یا نفاس سے پاک هو هم بستری کرے اور پھر اسے طلاق دینا چاهے تو ضروری هے که صبر کرے حتی که اسے دوباره حیض آجائے اور پھر وه پاک هوجائے لیکن اگر ایسی عورت کو هم بستری کے بعد طلاق دی جائے جس کی عمر نو سال سے کم هو یا معلوم هو که وه حامله هے تو اس میں کوئی اشکال نهیں اور اگر عورت یائسه هو تب بھی یهی حکم هے۔

2514۔اگر کوئی شخص ایسی عورت سے هم بستری کرے جو حیض یا نفاس سے پاک هو اور اسی پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے دے اور بعد میں معلوم هو که وه طلاق دینے کے وقت حامله تھی تو وه طلاق باطل هے اور احتیاط مستحب یه هے هک شوهر اسے دوباره طلاق دے۔

2515۔ اگر کوئی شخص ایسی عورت سے هم بستری کرے جو حیض یا نفاس سے پاک هو پھر وه اس سے جدا هوجائے مثلاً سفر اختیار کرے لهذا اگر وه چاهے که سفر کے دوران اسے طلاق دے اور اس کی پاکی یانا پاکی کے بارے میں نه جان سکتا هو تو

ص:474

ضروری هے که اتنی مدت صبر کرے که عورت کو اس پاکی کے بعد حیض آئے اور وه دوباره پاک هو جائے اور احتیاط واجب یه هے که وه مدت ایک مهینے سے کم نه هو۔

2516۔اگر کوئی مرد ایسی عورت کو طلاق دینا چاهتا هو جسے پیدائشی طور پر یاکسی بیماری کی وجه سے حیض نه آتا هو اور اس عمر کی دوسری عورتوں کو حیض آتا هو تو ضروری هے که جب اس نے ایسی عورت سے جماع کیا هو اس وقت سے تین مهینے تک اس سے جماع نه کرے اور بعد میں اسے طلاق دے دے۔

2517۔ ضروری هے که طلاق کا صیغه صحیح عربی میں لفظ "طالقٌ" کے ساتھ پڑھا جائے اور دو عادل مرد اسے سنیں۔ اگر شوهر خود طلاق کا صیغه پڑھنا چاهے اور مثال کے طور پر اس کی بیوی کا نام فاطمه هو تو ضروری هے که کهے :زَوجَتِی فَاطِمَۃُ طَالِقٌ یعنی میری بیوی فاطمه آزاد هے اور اگر وه کسی دوسرے شخص کو وکیل کرے تو ضروری هے که وکیل کهے : "زَوجَۃُ مُوَکِّلِی فَاطِمَۃُ طَالِقٌ" اور اگر عورت معین هو تو اس کا نام لینا لازم نهیں هے اور اگر مرد عربی میں طلاق کا صیغه نه پڑھ سکتا هو اور وکیل بھی نه بنا سکے تو وه جس زبان میں چاهے هر اس لفظ کے ذریعے طلاق دے سکتا هے جو عربی لفظ کے هم معنی هو۔

2518۔ جس عورتسے متعه کیا گیا هو مثلاً ایک سال ایک ایک مهینے کے لئے اس سے نکاح کیا گیا هو اسے طلاق دینے کا کوئی سوال نهیں۔ اور اس کا آزاد هونا اس بات پر منحصر هے که یا تو متعه کی مدت ختم هو جائے یا مرد اسے مدت بخش دے اور وه اس طرح که اس سے کهے : "میں نے مدت تجھے بخش دی۔" اور کسی کو اس پر گواه قرار دینا اور اس عورت کا حیض سے پاک هونا لازم نهیں۔

طلاق کی عدت

2519۔ جس لڑکی کی عمر (پورے) نو سال نه هوئی هو۔ اور جو عورت یائسه هوچکی هو۔ اس کی کوئی عدت نهیں هوتی۔ یعنی اگرچه شوهر نے اس سے مجامعت کی هو، طلاق کے بعد کے بعد وه فوراً دوسرا شوهر کر سکتی هے۔

2520۔ جس لڑکی کی عمر ( پورے) نو سال هوچکی هو اور جو عورت یائسه نه هو، اس کا شوهر اس سے مجامعت کرے تو اگر وه اسے طلاق دے تو ضروری هے که وه (لڑکی یا) عورت طلاق کے بعد عدت رکھے اور آزاد عورت کی عدت یه هے که جب اس کا شوهر اسے پاکی کی حالت میں طلاق دے تو اس کے بعد وه اتنی مدت صبر کرے که دو دفعه حیض سے پاک هوجائے اور جونهی اسے تیسری دفعه حیض آئے تو اس کی عدت ختم هوجاتی هے اور وه دوسرا نکاح کرسکتی هے لیکن اگر

ص:475

شوهر عورت سے مجامعت کرنے سے پهلے اسے طلاق دے دے تو اس کے لئے کوئی عدت نهیں یعنی وه طلاق کے فوراً بعد دوسرا نکاح کرسکتی هے۔ لیکن اگر شوهر کی منی جذب یا اس جیسی کسی اور وجه سے اس کی شرم گاه میں داخل هوئی هو تو اس صورت میں اظهر کی بنا پر ضروری هے که وه عورت عدت رکھے۔

2521۔ جس عورت کو حیض نه آتا هو لیکن اس کا سن ان عورتوں جیسا هو جنهیں حیض آتا هو اگر اس کا شوهر مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تو ضروری هے که طلاق کے بعد تین مهینے کی عدت رکھے۔

2522۔ جس عورت کی عدت تین مهینے هو اگر اسے چاند کی پهلی تاریخ کو طلاق دی جائے تو ضروری هے که تین قمری مهینے تک یعنی جب چاند دیکھا جائے اس وقت سے تین مهینے تک عدت رکھے اور اگر اسے مهینے کے دوران (کسی اور تاریخ کو) طلاق دی جائے تو ضروری هے که اس مهینے کے باقی دنوں میں میں اس کے بعد آنے والے دومهینے اور چوتھے کے اتنے دن جتنے دن پهلے مهینے سے کم هوں عدت رکھے تاکه تین مهینے مکمل هوجائیں مثلاً اگر اسے مهینے بیسویں تاریخ کو غروب کے وقت طلاق دی جائے اور یه مهینه انتیس دن کا هو تو ضروری هے که نو دن اس مهینے کے اور اس کے بعد دو مهینے اور اس کے بعد چوتھے مهینے کے بیس دن عدت رکھے بلکه احتیاط واجب یه هے که چوتھے مهینے کے اکیس دن عدت رکھے تاکه پهلے مهینے کے جتنے دن عدت رکھی هے انهیں ملا کر دنوں کی تعداد تیس هوجائے۔

2523۔اگر حامله عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی عِدّت وَضع حَمل یا اِستاطِ حَمل تک هے لهذا مثال کے طور اگر طلاق کے ایک گھنٹے بعد بچه پیدا هوجائے تو اس عورت کی عدت ختم هوجائے گی۔ لیکن یه حکم اس صورت میں هے جن وه بچه صاحبه عدت کا شرعی بیٹا هو لهذا اگر عورت زنا سے حامله هوئی هو اور شوهر اسے طلاق دے تو اس کی عدت بچے کے پیدا هونے سے ختم نهیں هوتی۔

2524۔ جس لڑکی نے عمر کے نو سال مکمل کرلئے هوں اور جو عورت یائسه نه هو اگر وه مثال کے طور پر کسی شخص سے ایک مهینے یا ایک سال کے لئے متعه کرے تو اگر اس کا شوهر اس سے مجامعت کرے اور اس عورت کی مدت تمام هوجائے یا شوهر اسے مدت بخش دے تو ضروری هے که وه عدت رکھے۔ پس اگر اسے حیض آئے تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که دو حیض کے برابر عدت رکھے اور نکاح نه کرے اور اگر حیض نه آئے تو پینتالیس یا اسقاط هونے تک هے۔ اگرچه احتیاط مستحب یه هے که جو مدت وضع حمل یا پینتالیس دن میں سے زیاده هو اتنی مدت کے لئے عدت رکھے۔

ص:476

2525۔ طلاق کی عدت اس وقت شروع هوتی هے جب صیغه کا پڑھنا ختم هوجاتا هے خواه عورت کو پتا چلے یا نه چلے که اسے طلاق هوگئی هے پس اگر اسے عدت (کے برابر مدت) گزرنے کے بعد پتا چلے که اسے طلاق هوگئی هے تو ضروری نهیں که وه دوباره عدت رکھے۔

وفات کی عدت

2526۔ اگر کوئی عورت بیوه هوجائے تو اس صورت میں جبکه وه آزاد هو اگر وه حامله نه هو تو خواه وه یائسه هو یا شوهر نے اس سے مُتعه کیا هو یا شوهر نے اس سے مجامعت نه کی هو ضروری هے که چار مهینے اور دس دن عدت رکھے اور اگر حامله هو تو ضروری هے که وضع حمل تک عدت رکھے لیکن اگر چار مهینے اور دس دن گزرنے سے پهلے بچه پیدا هوجائے تو ضروری هے که شوهر کی موت کے بعد چار مهینے دس دن تک صبر کرے اور اس عدت کو وفات کی عدت کهتے هیں۔

2527۔ جو عورت وفات کی عدت میں هو اس کے لئے رنگ برنگا لباس پهننا، سرمه لگانه اور اسی طرح دوسرے ایسے کام جو زینت میں شمار هوتے هیں حرام هیں۔

2528۔ اگر عورت کو یقین هوجائے که اس کا شوهر مرچکا هے اور عدت وفات تمام هونے کے بعد وه دوسرا نکاح کرے اور پھر اسے معلوم هو که اس کے شوهر کی موت بعد میں واقع هوئی هے تو ضروری هے که دوسرے شوهر سے علیحدگی اختیار کرے اور احتیاط کی بنا پر اس صورت میں جب که وه حامله هو وضع حمل تک دوسرے شوهر کے لئے وطی شبه کی عدت رکھے۔ جو که طلاق کی عدت کی طرح هے۔ اور اس کے بعد پهلے شوهر کے لئے عدت وفات رکھے اور اگر حامله نه هو تو پهلے شوهر کے لئے عدت وفات اور اس کے بعد دوسرے شوهر کے لئے وطی شبه کی عدت رکھے۔

2529۔جس عورت کا شوهر لاپته هو یا لاپته هونے کے حکم میں هو اس کی عدت وفات شوهر کی موت کی اطلاع ملنے کے وقت سے شروع هوتی هے نه که شوهر کی موت کے وقت هے۔ لیکن اس حکم کا اس عورت کے لئے هونا جو نابالغ یا پاگل هو اشکال هے۔

2530۔ اگر عورت کهے که میری عدت ختم هوگئی هے تو اس کی بات قابل قبول هے مگر یه که وه غلط بیان مشهور هو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس کی بات قابل قبول نهیں هے۔ مثلاً وه کهے که مجھے ایک مهینے میں تین دفعه خون آتا هے تو

ص:477

اس بات کی تصدیق نهیں کی جائے گی مگر یه که اس کی سهیلیاں اور رشتے دار عورتیں اس بات کی تصدیق کریں اور اس کی حیض کی عادت ایسی هی تھی۔

طلاق بائِن اور طلاق رَجعی

2531۔طلاق بائن وه که طلاق هے جس کے بعد مرد اپنی عورت کی طرف رجوع کرنے کا حق نهیں رکھتا یعنی یه که بغیر نکاح کے دوباره اسے اپنی بیوی نهیں بنا سکتا اور اس طلاق کو چھ قسمیں هیں :

1۔ اس عورت کو دی گئی طلاق جس کی عمر ابھی نو سال نه هوئی هو۔

2۔ اس عورت کو دی گئی طلاق جا یائسه هو۔

3۔ اس عورت کو دی گئی طلاق جس کے شوهر نے نکاح کے بعد اس سے جماع نه کیا هو۔

4۔ جس عورت کو تین دفعه طلاق دی گئی هو اسے دی جانے والی تیسری طلاق۔

5۔ خُلع اور مبارات کی طلاق

6۔ حاکم شرع کا اس عورت کو طلاق دینا جس کا شوهر نه اس کے اخراجات برداشت کرتا هو نه اسے طلاق دیتا هو، جن کے احکام بعد میں بیان کئے جائیں گے۔

اور ان طلاقوں کے علاوه جو طلاقیں هیں وه رجعی هیں جس کا مطلب یه هے که جب تک عورت عدت میں هو شوهر اس سے رجوع کر سکتا هے۔

2532۔ جس شخص نے اپنی عورت کو رجعی طلاق دی هو اس کے لئے اس عورت کو اس گھر سے نکال دینا جس میں وه طلاق دینے کے وقت مقیم تھی حرام هے البته بعض موقعوں پر ۔ جن میں سے ایک یه هے که عورت زنا کرے تو اسے گھر سے نکال دینے میں کائی اشکال نهیں ۔ نیز یه بھی حرام هے که عورت غیر ضروری کاموں کے لئے شوهر کی اجازت کے بغیر اس گھر سے باهر جائے۔

ص:478

رجوع کرنے کے احکام

2533۔رجعی طلاق میں مرد دو طریقوں سے عورت کی طرف رجوع کر سکتا هے :

1۔ ایسی باتیں کرے جن سے مترشح هو که اس نے اسے دوباره اپنی بیوی بنا لیا هے۔

2۔ کوئی کام کرے اور اس کام سے رجوع کا قصد کرے اور ظاهر یه هے که جماع کرنے سے رجوع ثابت هوجاتا هے خواه اس کا قصد رجوع کرنے کا نه بھی هو۔ بلکه بعض (فقهاء) کا کهنا هے که اگرچه رجوع کا قصد نه هو صرف لپٹانے اور بوسه لینے سے رجوع ثابت هوجاتا هے البته یه قول اشکال سے خالی نهیں هے۔

2534۔ رجوع کرنے میں مرد کے لازم نهیں که کسی کو گواه بنائے یا اپنی بیوی کو (رجوع کے متعلق) اطلاع دے بلکه اگر بغیر اس کے که کسی کو پتا چلے وه خود هی رجوع کرلے تو اس کا رجوع کرنا صحیح هے لیکن اگر عدت ختم هوجانے کے بعد مرد کهے که میں نےعدت کے دوران هی رجوع کر لیاتھا تو لازم هے که اس بات کو ثابت کرے۔

2535۔جس مرد نے عورت کو رجعی طلاق دی هو اگر وه اس سے کچھ مال لے لے اور اس سے مصالح ت کرلے که اب تجھ سے رجوع نه کروں گا تو اگرچه یه مصالحت درست هے اور مرد پر واجب هے که رجوع نه کرے لیکن اس سے مرد کے رجوع کرنے کا حق ختم نهیں هوتا اور اگر وه رجوع کرے تو جو طلاق دے چکا هے وه علیحدگی کا موجب نهیں بنتی۔

2536۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دو دفعه طلاق دے کر اس کی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفعه طلاق دے اور هر طلاق کے بعد اس سے نکاح کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کرے اور دوسری طلاق کے بعد نکاح کرے تو تیسری طلاق کے بعد وه اس مرد پر حرام هوجائے گی۔ لیکن اگر عورت تیسری طلاق کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تو وه پانچ شرطوں کے ساتھ پهلے مرد پر حلال هوگی یعنی وه اس عورت سے دوباره نکاح کرسکے گا۔

1۔ دوسرے شوهر کا نکاح دائمی هو۔ پوس اگر مثال کے طور پر وه ایک مهینے یا ایک سال کے لئے اس عورت سے متعه کرلے تو اس مرد کے اس سے علیحدگی کے بعد پهلا شوهر اس سے نکاح نهیں کرسکتا۔

2۔ دوسرا شوهر جماع کرے اور احتیاط واجب یه هے که جماع فرج میں کرے۔

ص:479

3۔ دوسرا شوهر اسے طلاق دے یا مرجائے۔

4۔ دوسرے شوهر کی طلاق کی عدت یا وفات کی عدت ختم هوجائے۔

5۔ احتیاط واجب کی بنا پر دوسرا شوهر جماع کرتے وقت بالغ هو۔

طلاق خلع

2537۔ اس عورت کی طلاق کو جو اپنے شوهر کی طرف مائل نه هو اور اس سے نفرت کرتی هو اپنا مهر یا کوئی اور مال اسے بخش دے تاکه وه اسے طلاق دے دے طلاق خلع کهتے هیں۔ اور طلاق خلع میں اظهر کی بنا پر معتبر هے که عورت اپنے شوهر سے اس قدر شدید نفرت کرتی هو که اسے وظیفه زوجیت ادا نه کرنے کی دھکمی دے۔

2538۔ جب شوهر خود طلاق خلع کا صیغه پڑھنا چاهے تو اگر اس کی بیوی کا نام مثلاً فاطمه هو تو عوض لینے کے بعد کهے :" زَوجَتِی فَاطِمَۃُ کَالَعتُھَا عَلٰی مَا بَذَلَت" اور احتیاط مستحب کی بنا پر "ھِیَ طَالِقٌ" بھی کهے یعنی میں نے اپنی بیوی فاطمه کو اس مال کے عوض جو اس نے مجھے دیا هے طلاق خلع دے رها هوں اور وه آزاد هے ۔ اور اگر عورت معین هو تو طلاق خلع میں اور نیز طلاق مبارات میں اس کا نام لینا لازم نهیں ۔

2539۔ اگر کوئی عورت کسی شخص کو وکیل مقرر کرے تاکه وه اس کا مهر اس کے شوهر کو بخش دے اور شوهر بھی اسی شخص کو وکیل مقرر کرے تاکه وه اس کی بیوی کو طلاق دے دے تو اگر مثال کے طور پر شوهر کا نام محمد اور بیوی کا نام فاطمه هو تو وکیل صیغه طلاق یوں پڑھے "عن مَوَکِّلَتِی فَاطِمَۃَ بَذَلتُ مَهرَھَا لِمُوَکِّلِی مُحَمَّدٍ لِیَخلَعَھَا عَلَیهِ" اور اس کے بعد بلافاصله کهے "زَوجۃُ مَوَکِّلِی خَالَعتُھا عَلٰی مَابَذَلَت ھِیَ طَالِقٌ۔ اور اگر عورت کسی کو وکیل مقرر کرے که اس کے شوهر کو مهر کے علاوه کوئی اور چیز بخش دے تاکه اس کا شوهر اسے طلاق دے دے تو ضروری هے که وکیل لفظ "مَهرَھَا" کی بجائے اس چیز کا نام لے مثلاً اگر عورت نے سو روپے دیئے هوں تو ضروری هے که کهے: بَذّلَت مِاَۃَ رُوبِیَۃ۔"

طلاق مبارات

2540۔اگر میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کو نه چاهتے هوں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے هوں اور عورت مرد کو کچھ مال دے تاکه وه اسے طلاق دے دے تو اسے طلاق مبارات کهتے هیں۔

ص:480

2541۔اگر شوهر مبارات کا صیغه پڑھنا چاهے تو اگر مثلاً عورت کا نام فاطمه هو تو ضروری هے که کهے :

"بَارَاتُ زَوجَتِی فَاطِمَۃَ عَلٰی مَابَذَلَت" اور احتیاط لازم کی بنا پر "فَھِیَ طَالِقٌ" بھی کهے یعنی میں اور میری بیوی فاطمه اس عطا کے مقابل میں جو اس نے کی هے ایک دوسرے سے جدا هوگئے هیں پس وه آزاد هے۔ اور اگر وه شخص کسی کو وکیل مقرر کرے تو ضروری هے که وکیل کهے : "عَن قِبَلِ مُوَکِّلِی بَارَاتُ زَوجَتَه فَاطِمَۃَ عَلٰی مَابَذَلَت فَھِیَ طَالِقٌ" اور دونوں صورتوں میں کلمه "عَلٰی مَابَذَلَت" کی بجائے اگر "بِمَا بَذَلَت" کهے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2542۔ خلع اور مبارات کی طلاق کا صیغه اگر ممکن هو تو صحیح عربی میں پڑھنا جانا چاهئےاور اگر ممکن نه هو تو اس کا حکم طلاق کے حکم جیسا هے جس کا بیان مسئله 2517 میں گزر چکا هے لیکن اگر عورت مبارات کی طلاق کے لئے شوهر کو اپنا مال بخش دے۔ مثلاً ارودو میں کهے که "میں نے طلاق لینے کے لئے فلاں مال تمهیں بخش دیا" تو کوئی اشکال نهیں۔

2543۔ اگر کوئی عورت طلاق خلع یا طلاق مبارات کی عدت کے دوران اپنی بخشش سے پھر جائے تو شوهر اس کی طرف رجوع کرسکتا هے اور دوباره نکاح کئے بغیر اسے اپنی بیوی بنا سکتا هے۔

2544۔ جو مال شوهر طلاق مبارات دینے کے لئے ضروری هے که وه عورت کے مهر سے زیاده نه هو لیکن طلاق خلع کے سلسلے میں لیا جانے والا مال اگر مهر سے زیاده بھی هو تو کوئی اشکال نهیں۔

طلاق کے مختلف احکام

2545۔ اگر کوئی آدمی کسی نامحرم عورت سے اس گمان میں جماع کرے که وه اس کی بیوی هے تو خواه عورت کو علم هو که وه شخص اس کا شوهر نهیں هے یا گمان کرے که اس کا شوهر هے ضروری هے که عدت رکھے۔

2546۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت سے یا جانتے هوئے زنا کرے که وه اس کی بیوی نهیں هے تو اگر عورت کو علم هو که وه آدمی اس کا شوهر نهیں هے اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نهیں۔ لیکن اگر اسے شوهر هونےکا گمان هو تو احتیاط لازم یه هے که وه عورت عدت رکھے۔

ص:481

2547۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو ورغلائے کے وه اپنے شوهر سے متعلق ازدواجی ذمے داریاں پوری نه کرے تاکه اس طرح شوهر اسے طلاق دینے پر مجبور هوجائے اور وه خود اس عورت کے ساتھ شادی کرسکے تو طلاق اور نکاح صحیح هیں لیکن دونوں نے بهت بڑا گناه کیا هے۔

2548۔ اگر عورت نکاح کے سلسلے میں شوهر سے شرط کرے که اگر اس کا شوهر سفر اختیار کرلے یا مثلاً چھ مهینے اسے خرچ نه دے تو طلاق کا اختیار عورت کو حاصل هوگا تو یه شرط باطل هے۔ لیکن اگر وه یوں شرط کرے که ابھی سے شوهر کی طرف سے وکیل هے که اگر وه مسافرت اختیار کرے یا چھ مهینے تک اس کے اخراجات پورے نه کرے تو وه اپنے آپ کو طلاق دے گی تو اس میں کوئی اشکال نهیں هے۔

2549۔ جس عورت کا شوهر لاپته هو جائے اگر وه دوسرا شوهر کرنا چاهے تو ضروری هے که مجتهد عادل کے پاس جائے اور اس کے حکم مطابق عمل کرے۔

2550۔ دیوانے کے باپ دادا اس کی بیوی کو طلاق دے سکتے هیں۔

2551۔ اگر باپ یا دادا اپنے (نابالغ) لڑکے (یا پوتے) کا کسی عورت سے متعه کر دیں اور متعه کی مدت میں اس لڑکے کے مکلف هونے کی کچھ مدت بھی شامل هو مثلاً اپنے چوده ساله لڑکے کا کسی عورت سے دو سال کے لئے متعه کر دیں تو اگر اس میں لڑکے کی بھلائی هو توه (یعنی باپ دادا) اس عورت کی مدت بخش سکتے هیں لیکن لڑکے کی دائمی بیوی کو طلاق نهیں دے سکتے۔

2552۔ اگر کوئی شخص دو آدمیوں کو شرع کو مقرر کرده علامت کی رو سے عادل سمجھے اور اپنی بیوی کو ان کے سامنے طلاق دے دے تو کوئی اور شخص جس کے نزدیک ان دو آدمیوں کی عدالت ثابت نه هو اس عورت کی عدت ختم هونے کے بعد س کے ساتھ خود نکاح کرسکتا هے یا اسے کسی دوسرے کے نکاح میں دے سکتا هے اگرچه احتیاط مستحب یه هے که اس کے ساتھ نکاح سے اجتناب کرے اور دوسرے کا نکاح بھی اس کے ساتھ نه کرے۔

2553۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے علم میں لائے بغیر اسے طلاق دے دے تو اگر وه اس کے اخراجات اسی طرح دے جس طرح اس وقت دیتا تھا جب وه اس کی بیوی تھی اور مثلاً ایک سال کے بعد اس سے کهے که "میں ایک سال هوا تجھے طلاق دے چکا هوں" اور اس بات کو شرعاً ثابت بھی کر دے تو جو چیزیں اس نے اس مدت میں اس عورت کو مهیا کی

ص:482

هوں اور وه انهیں اپنے استعمال میں نه لائی هو اس سے واپس لے سکتا هے لیکن جو چیزیں اس نے استمعال کر لی هوں ان کا مطالبه نهیں کرسکتا۔

غصب کے احکام

"غصب" کے معنی یه هیں که کوئی شخص کسی کے مال پر حق پر ظلم (اور دھونس یا دھاندلی) کے ذریعے قابض هو جائے۔ اور یه بهت بڑے گناهوں میں سے ایک گناه هے جس کا مرتکب قیامت کے دن سخت عذاب میں گرفتار هوگا۔ جناب رسول اکرم (صلی الله علیه وآله) سے روایت هے "جو شخص کسی دوسرے کی ایک بالشت زمین غصب کرے قیامت کے دن اس زمین کو اس کے ساتھ طبقوں سمیت طوق کی طرح اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔”

2554۔ اگر کوئی شخص لوگوں کو مسجد یا مدرسے یا پل یا دوسری ایسی جگهوں سے جو رفاه حامه کے لئے بنائی گئی هوں استفاده نه کرنے دے تو اس نے ان کا حق غصب کیا هے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں اپنے (بیٹھنے کے) لئے جگه مختص کرے اور دوسرا کوئی شخص اسے اس جگه سے نکال دے اور اسے اس جگه سے استفاده کرنے دے تو وه گناه گار هے۔

2555۔اگر گردی رکھوانے والا اور گردی رکھنے والا یه طے کریں که جو چیز گروی رکھی جارهی هو وه گروی رکھنے والے یا کسی تیسرے شخص کے پاس رکھی جائے تو گروی رکھوانے والا اس کا قرض ادا کرنے سے پهلے اس چیز کو واپس نهیں لے سکتا اور اگر وه چیز واپس لی هو تو ضروری هے که فوراً لوٹا دے۔

2556۔ جو مال کسی کے پاس گروی رکھا گیا هو اگر کوئی اور شخص اسے غصب کرلے تو مال کامالک اور گروی رکھنے والا دونوں غاصب سے غصب کی هوئی چیز کا مطالبه کر سکتے هیں اور اگر وه چیز غاصب سے واپس لے لیں تو وه گروی رهے گی اور اگر وه چیز تلف هو جائے اور وه اس کا عوض حاصل کریں تو وه عوض بھی اصلی چیز کی طرح گروی رهے گا۔

2557۔ اگر انسان کوئی چیز غصب کرے تو ضروری هے که اس کے مالک کو لوٹا دے اور اگر وه چیز ضائع هوجائے اور اس کی کوئی قیمت هو تو ضروری هے که اس کا عوض مالک کو دے۔

ص:483

2558۔ جو چیز غصب کی گئی هو اگر اس سے کوئی نفع هو مثلاً غصب کی هوئی بھیڑ کا بچه پیدا هو تو وه اس کے مالک کا مال هے نیز مثال کے طور پر اگر کسی نے کوئی مکان غصب کر لیا هو تو خواه غاصب اس مکان میں نه رهے ضروری هے که اس کا کرایه مالک کو دے۔

2559۔اگر کوئی بچے یا دیوانے سے کوئی چیز جو اس (بچے یا دیوانے) کا مال هو غصب کرے تو ضروری هے که وه چیز اس کے سرپرست کو دے دے اور اگر وه چیز تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

2560۔ اگر وه آدمی مل کر کسی چیز کو غصب کریں چنانچه وه دونوں اس چیز پر تسلط رکھتے هوں تو ان میں سے هر ایک اس پوری چیز کا ضامن هے اگرچه ان میں سے هر ایک جدا گانه طور پر اسے غصب نه کرسکتا هے۔

2561۔ اگر کوئی شخص غصب کی هوئی چیز کو کسی دوسری چیز سے ملا دے مثلاً جو گیهوں غصب کی هو اسے جَوسے ملادے تو اگر ان کا جدا کرنا ممکن هو تو خواه اس میں زحمت هی کیوں نه هو ضروری هے که انهیں ایک دوسرے سے علیحده کرے اور (غصب کی هوئی چیز) اس کے مالک کو واپس کر دے۔

2562۔ اگر کوئی شخص طلائی چیز مثلاً سونے کی بالیوں کو غصب کرے اور اس کے بعد اسے پگھلا دے تو پگھلانے سے پهلے اور پگھلانے کے بعد کی قیمت میں جو فرق هو ضروری هے که وه مالک کو ادا کرے چنانچه اگر قیمت میں جو فرق پڑا هو وه نه دینا چاهے اور کهے که میں اسے پهے کی طرح بنا دوں گا تو مالک مجبور نهیں که اس کی بات قبول کرے اور مالک بھی اسے مجبور نهیں کرسکتا که وه اسے پهلے کی طرح بنادے۔

2563۔جس شخص نے کوئی چیز غصب کی هو اگر وه اس میں ایسی تبدیلی کرے که اس چیز کی حالت پهلے سے بهتر هو جائے مثلاً جو سونا غصب کیا هو اس کے بند بنا دے تو اگر مال کا مالک اسے کهه که مجھے مال اسی حالت میں (یعنی بندے کی شکل میں) دو تو ضروری هے که اسے دے دے اور جو زحمت اس نے اٹھائی هو (یعنی بندے بنانے پر جو محنت کی هو) اس کی مزدوری نهیں لے سکتا اور اسی طرح وه یه حق نهیں رکھتا که مالک کی اجازت کے بغیر اس چیز کو اس کو پهلی حالت میں لے آئے لیکن اگر اس کی اجازت کے بغیر اس چیز کو پهلے جیسا کردے یا اور کسی شکل میں تبدیل کرے تو معلوم نهیں هے که دونوں صورتوں میں قیمت کا جو فرق هے اس کا ضامن هے یا (نهیں)۔

ص:484

2564۔ جس شخص نے کوئی چیز غصب کی هو اگر وه اس میں ایسی تبدیلی کرے که اس چیز کی حالت پهلے سے بهتر هوجائے اور صاحب مال اسے اس چیز کی پهلی حالت میں واپس کرنے کو کهتے تو اس کے لئے واجب هے که اسے اس کی پهلی حالت میں لے آئے اور اگر تبدیلی کرنے کی وجه سے اس چیز کی قیمت پهلی حالت سے کم هوجائے تو ضروری هے که اس کا فرق مالک کو دے لهذا اگر کوئی شخص غصب کئے هوئے سونے کا هار بنالے اور اس سونے کا مالک کهے که تمهارے لئے لازم هے که اسے که پهلی شکل میں لے آو تو اگر پگھلانے کے بعد سونے کی قیمت اس سے کم هو جائے جتنی هار بنانے سے پهلی تھی تو غاصب کے لئے ضروری هے که قیمتوں میں جتنا فرق هو اس کے مالک کو دے۔

2565۔ اگر کوئی شخص اس زمین میں جو اس نے غصب کی هو کھیتی باڑی کرے یا درخت لگائے تو زراعت، درخت اور ان کا پھل خود اس کا مال هے اور زمین کا مالک اس بات راضی نه هو که درخت اس زمین میں رهیں تو جس نے وه زمین غصب کی هو ضروری هے که خواه ایسا کرنا اس کے لئے نقصان ده هی کیوں نه هو وه فوراً اپنی زراعت یا درختوں کو زمین سے اکھیڑلے نیز ضروری هے که جتنی مدت زراعت اور درخت اس زمین میں رهے هوں اتنی مدت کا کرایه زمین کے مالک کو دے اور جو خرابیاں زمین میں پیدا هوئی هوں انهیں درست کرے مثلاً جهاں درختوں کو اکھیڑنے سے زمین میں گڑھے پڑگئے هوں اس جگه کو هموار کرے اور اگر ان خرابیوں کی وجه سےزمین کی قیمت پهلے سے کم هوجائے تو ضروری هے که قیمت میں جو فرق پڑے وه بھی ادا کرے اور وه زمین کے مالک کو اس بات پر مجبور نهیں کرسکتا که زمین اس کے هاتھ بیچ دے یا کرائے پر دیدے نیز زمین کا مالک بھی اسے مجبور نهیں کرسکتا که درخت یا زراعت اس کے هاتھ بیچ دے۔

2566۔ اگر زمین کا مالک اس بات پر راضی هو جائے که زراعت اور درخت اس کی زمین میں رهیں تو جس شخص نے زمین غصب کی هو اس کے لئے لازم نهیں که زراعت اور درختوں کو اکھیڑے لیکن ضروری هے که جب زمین غصب کی هو اس وقت سے لے کر مالک کے راضی هونے تک کی مدت کا زمین کا کرایه دے۔

2567۔ جو چیز کسی نے غصب کی هو اگر وه تلف هو جائےتو اگر وه چیز گائے اور بھیڑ کی طرح کی هو جن کی قیمت ان کی ذاتی خصوصیات کی بنا پر عقلاء کی نظر میں فرداً فرداً مختلف هوتی هے تو ضروری هے که غاصب اس چیز کی قیمت ادا کرے اور اگر اس وقت اور ضرورت مختلف هونے کی وجه سے اس کی بازار کی قیمت بدل گئی هو تو ضروری هے که وه قیمت دے جو تلف هونے کے وقت تھی اور احتیاط مستحب یه هے که غصب کرنے کے وقت سے لے کر تلف هونے تک اس چیز کی جو زیاده سے زیاده قیمت رهی هو وه دے۔

ص:485

2568۔ جو چیز کسی نے غصب کی هو اگر وه تلف هو جائے تو اگر وه گیهوں اور جَو کی مانند هو جن کی فرداً فرداً قیمت کا ذاتی خصوصیات کی بنا پر باهم فرق نهیں هوتا تو ضروری هے که (غاصب نے) جو چیز غصب کی هو اسی جیسی چیز مالک کو دے لیکن جو چیز دے ضروری هے که اس کی قسم اپنی خصوصیات میں اس غصب کی هوئی چیز کی قسم کے مانند هو جو که تلف هوگئی هے مثلاً اگر بڑھیا قسم کا چاول غصب کیا تھا تو گھٹیا قسم کا نهیں دے سکتا۔

2569۔ اگر ایک شخص بھیڑ جیسی کوئی چیز غصب کرے اور وه تلف هو جائے تو اگر اس کی بازار کی قیمت میں فرق نه پڑا هو لیکن جتنی مدت وه غصب کرنے والے کے پاس رهی هو اس مدت میں مثلاً فربه هو گئی هو اور پھر تلف هو جائے تو ضروری هے که فربه هونے کے وقت کی قیمت ادا کرے۔

2570۔ جو چیز کسی نے غصب کی هو اگر کوئی اور شخص وهی چیز اس سے غصب کرے اور پھر وه تلف هو جائے تو مال ان دونوں میں سے هر ایک سے اس کا عوض لے سکتا هے یا ان دونوں میں سے هر ایک سے اس کے عوض کی کچھ مقدار کا مطالبه کر سکتا هے لهذا اگر مال کا مالک اس کا عوض پهلے غاصب سے لے لے تو پهلے غاصب نے جو کچھ دیا هو وه دوسرے غاصب سے لے سکتا هے لیکن اگر مال کا مالک اس کا عوض دوسرے غاصب سے لے لے تو اس نے جو کچھ دیا هے اس کا مطالبه دوسرا غاصب پهلے غاصب سے نهیں کرسکتا۔

2571۔ جس چیز کو بیچا جائے اگر اس میں معاملے کی شرطوں میں سے کوئی ایک موجود نه هو مثلاً جس چیز کی خریدوفروخت وزن کرکے کرنی ضروری هو اگر اس کا معامله بغیر وزن کئے کیا جائے تو معامله باطل هے اور اگر بیچنے والا اور خریدار معاملے سے قطع نظر اس بات پر رضامند هوں که ایک دوسرے کے مال میں تصرف کریں تو کوئی اشکال نهیں هے ورنه جو چیز انهوں نے ایک دوسرے سے لی هو وه غصبی مال کی مانند هے اور ان کے لئے ضروری هے که ایک دوسرے کی چیزیں واپس کر دیں اور اگر دونوں میں سے جس کے بھی هاتھوں دوسرے کا مال تلف هو جائے تو خواه اسے معلوم هو یا نه هو که معامله باطل تھا ضروری هے که اس کا عوض دے۔

2572۔ جب ایک شخص کوئی مال کسی بیچنے والے سے اس مقصد سے لے که اسے دیکھے یا کچھ مدت اپنے پاس رکھے تاکه اگر پسند آئے تو خرید لے تو اگر وه مال تلف هوجائے تو مشهور قول کی بنا پر ضروری هے که اس کا عوض اس کے مالک کو دے۔

ص:486

گم شده مال پانے کے احکام

2573۔اگر کسی شخص کو کسی دوسرے کا گم شده ایسا مال ملے جو حیوانات میں سے نه هو اور جس کی کوئی ایسی نشانی بھی نه هو جس کے ذریعے اس کے مالک کا پتا چل سکے تو خواه اس کی قیمت ایک درهم ۔ 12 چنے سکه دار چاندی ۔ سے کم هو یا نه هو وه اپنے لئے لے سکتا هے لیکن احتیاط مستحب هے که وه شخص اس مال کو اس کے مالک کی طرف سے فقیروں کو صدقه کر دے۔

2574۔ اگر کوئی انسان کهیں گری هوئی ایسی چیز پائے جس کی قیمت ایک درهم سے کم هو تو اگر اس کا مالک معلوم هو لیکن انسان کو یه علم نه هو که وه اس کے اٹھانے پر راضی هے یا نهیں تو وه اس کی اجازت کے بغیر اس چیز کو نهیں اٹھا سکتا اور اگر اس کے مالک کا علم نه هو تو احتیاط واجب یه هے که اس کو مالک کی طرف سے صدقه کر دے اور جب بھی اس کا مالک ملے اور صدقه دینے پر راضی نه هو تو اسے اس کا عوض دے دے۔

2575۔ اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز پائے جس پر کوئی ایسی نشانی هو جس کے ذریعے اس کے مالک کا پتا چلایا جاسکے تو اگرچه اسے معلوم هو که اس کا مالک ایک ایسا کافر جس کا مال محترم هے تو اس صورت میں اس چیز کی قیمت ایک درهم تک پهنچ جائے تو ضروری هے که جس دن وه چیز ملی هو اس سے ایک سال تک لوگوں کی بیٹھکوں (یا مجلسوں) میں اس کا اعلان کرے۔

2576۔ اگر انسان خود اعلان نه کرنا چاهے تو ایسے آدمی کو اپنی طرف سے اعلان کرنے کے لئے کهه سکتا هے جس کے متعلق اسے اطمینان هو که وه اعلان کر دے گا۔

2577۔ اگر مذکوره شخص ایک سال تک اعلان کرے اور مال کا مالک نه ملے تو اس صورت میں جب که وه مال حرم پاک (مکه) کے علاوه کسی جگه سے ملا هو وه اسے اس کے مالک کے لئے اپنے پاس رکھ سکتا هے تاکه جب بھی وه ملے اسے دے دے یا مال کے مالک کی طرف سے فقیروں کو صدقه کر دے اور احتیاط لازم یه هے که وه خود نه لے اور اگر وه مال اسے حرم پاک میں ملا هو تو احتیاط واجب یه هے که اسے صدقه کردے۔

ص:487

2578۔ اگر ایک سال تک اعلان کرنے کے بعد بھی مال کا مالک نه ملے اور جسے وه مال ملا هو وه اس کے مالک کے لئے اسے اپنے پاس رکھ لے (یعنی جب مالک ملے گا اسے دے دوں گا) اور وه مال تلف هو جائے تو اگر اس نے مال کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتی هو اور تعدی بھی نه کی هو تو پھر وه ذمے دار نهیں هے لیکن اگر وه مال اس کے مالک کی طرف سے صدقه کر چکا هو تو مال کے مالک کو اختیار هے که اس صدقے پر راضی هو جائے یا اپنے مال کے عوض کا مطالبه کرے اور صدقے کا ثواب صدقه کرنے والے کو ملے گا۔

2579۔ جس شخص کو کوئی مال ملا هو اگر وه اس طریقے کے مطابق جس کا ذکر اوپر کیا گیا هے عمداً اعلان نه کرے تو پهلے (اعلان نه کرکے اگرچه) اس نے گناه کیا هے لیکن اب اسے احتمال هو که (اعلان کرنا) مفید هوگا تو پھر بھی اس پر واجب هے که اعلان کرے۔

2580۔اگر دیوانے یا نابالغ بچے کو کوئی ایسی چیز مل جائے جس میں علامت موجود هو اور اس کی قیمت ایک درهم کے برابر هو تو اس کا سرپرست اعلان کرسکتا هے ۔ بلکه اگر وه چیز سرپرست نے بچے یا دیوانے سے لے لی هو تو اس پر واجب هے که اعلان کرے۔ اور اگر ایک سال تک اعلان کرے پھر بھی مال کا مالک نه ملے تو ضروری هے که جو کچھ مسئله 2577 میں بتایا گیا هے اس کے مطابق عمل کرے۔

2581۔ اگر انسان اس سال کے دوران جس میں وه (ملنے والے مال کے بارے میں) اعلان کر رها هو مال کے مالک کے ملنے سے ناامید هو جائے تو ۔ احتیاط کی بنا پر ۔ ضروری هے که حاکم شرع کی اجازت سے اس مال کو صدقه کردے ۔

2582۔اگر اس سال کے دوران جس میں (انسان ملنے والے مال کے بارے میں) اعلان کر رها هو وه مال تلف هو جائے تو اگر اس شخص نے اس مال کی نگهداشت میں کوتاهی کی هو یا تَعَّدی یعنی بیجا استعمال کرے تو وه ضامن هے که اس کا عوض اس کے مالک کو دے اور ضروری هے که اعلان کرتا رهے اور اگر کوتاهی یا تَعَّدی نه که هو تو پھر اس پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

2583۔اگر کوئی مال جس پر کوئی نشانی (یا مارکه) هو اور اس کی قیمت ایک درهم تک پهنچتی هو ایسی جگه ملے جس کے بارے میں معلوم هو که اعلان کے ذریعے اس کا مالک نهیں ملے گا تو ضروری هے که (جس شخص کو وه مال ملا هو) وه پهلے

ص:488

دن هی اسے احتیاط لازم کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے اس کے مالک کی طرف سے فقیروں کو صدقه کر دے اور ضروری نهیں که وه ایک سال ختم هونے تک انتظار کرے۔

2584۔ اگرکسی شخص کو کوئی چیز ملے اور وه اسے اپنا مال سمجھتے هوئے اٹھالے اور بعد میں اسے پتا چلے که وه اس کا اپنا مال نهیں هے تو جو اس سے پهلے والے مسائل میں بیان کئے گئے هیں انهی کے مطابق عمل کرے۔

2575۔ جو چیز ملی هو ضروری هے که اس طرح اعلان کیا جائے۔ که اگر اس کا مالک سنے تو اسے غالب گمان هو که وه چیز اس کا مال هے اور اعلان کرنے میں مختلف مواقع کے لحاظ سے فرق هوتا هے مثلاً بعض اوقات اتنا کهنا هی کافی هے که "مجھے کوئی چیز ملی هے" لیکن بعض دیگر صورتوں میں ضروری هے که اس چیز کی جنس کا تعین کرے مثلاً یه کهے که "سونے کا ایک ٹکڑا مجھے ملا هے" اور بعض صورتوں میں اس چیز کی بعض خصوصیات کا بھی اضافه ضروری هے مثلاً کهے "سونے کی بالیاں مجھے ملی هیں " لیکن بهر حال ضروری هے که اس چیز کی تمام خصوصیات کا ذکر نه کرے تاکه وه چیز معین نه هو جائے۔

2586۔ اگر کسی کو کوئی چیز مل جائے اور دوسرا شخص کهے که یه میرا مال هے اور اس کی نشانیاں بھی بتا دے تو وه چیز اس دوسرے شخص کو اس وقت دینا ضروری هے جب سے اطمینان هو جائے که یه اسی کا مال هے۔ اور یه ضروری نهیں که وه شخص ایسی نشانیاں بتائے جن کی طرف عموماً مال کا مالک بھی توجه نهیں دیتا۔

2587۔ کسی شخص کو جو چیز ملی هو اگر اس کی قیمت ایک درهم تک پهنچے تو اگر وه اعلان نه کرے اور اس چیز کو مسجد یا کسی دوسری جگه لوگ جمع هوتے هوں رکھ دے اور وه چیز تلف هوجائے یا کوئی دوسرا شخص اسے اٹھالے تو جس شخص کو وه چیز پڑی هوئی ملی هو وه ذمے دار هے۔

2588۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسی چیز مل جائے جو ایک سال تک باقی نه رهتی هو تو ضروری هے که ان تمام خصوصیات کے ساتھ جب تک که وه باقی رهے اس چیز کی حفاظت کرے جو اس کی قیمت باقی رکھنے میں اهمیت رکھتی هوں اور احتیاط لازم هے که اس مدت کے دوران اس کا اعلان بھی کرتا رهے اور اگر اس کا مالک نه ملے تو احتیاط کی بنا پر ۔ حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت سے اس کی قیمت کا تعین کرے اور اسے بیچ دے اور ان پیسوں کو اپنے پاس رکھے اور اس کے ساتھ

ص:489

ساتھ اعلان بھی جاری رکھے اور اگر ایک سال تک اس کا مالک نه ملے تو ضروری هے که جو کچھ مسئله 2577 میں بتایا گیا هے اس کے مطابق عمل کرے۔

2589۔ جو چیز کسی کو پڑی هوئی ملی هو اگر وضو کرتے وقت یا نماز پڑھتے وقت وه اس کے پاس هو اور اگر وه مالک کے ملنے کی صورت میں اسے نه لوٹانا چاهتا هو تو اس کا وضو اور نماز باطل نهیں هوگی۔

2590۔ اگر کسی شخص کا جوتا اٹھا لیا جائے اور اس کی جگه کسی اور کاجوتا رکھ دیا جائے اور اگر وه شخص جانتا هو که جو جوتا رکھا هے۔ وه اس شخص کا مال هے جو اس کا جوتا لے گیا هے اور اس بات پر راضی هو که جوتا وه لے گیا هے اس کے عوض اس کا جوتا رکھ لے تو وه اپنے جوتے کے بجائے وه جوتا رکھ سکتا هے۔ اور اسی طرح اگر وه شخص جانتا هو که وه شخص اس کا جوتا ناحق اور ظلماً لے گیا هے تب بھی یهی حکم هے لیکن اس صورت میں ضروری هے که اس جوتے کی قیمت اس کے اپنے جوتے کی قیمت سے زیاده نه هو ورنه زیاده قیمت کے متعلق مجهول المالک کا حکم جاری هوگا اور ان دو صورتوں کے علاوه اس جوتے پر مجهول المالک کا حکم جاری هوگا۔

2591۔اگر انسان کے پاس مجهول المالک مال هو اور اس مال پر لفظ گم شده کا اطلاق نه هوتا هو تو اس صورت میں که جب اسے اطمینان هو که اس کے اس مال میں تصرف کرنے پر اس مال کا مالک راضی هوگا تو جس طرح بھی وه اس مال میں تصرف کرنا چاهے اس کے لئے جائز هے۔ اور اگر اطمینان نه هو تو انسان کے لئے لازم هے که اس کے مالک کو تلاش کرے اور جب تک اس کے ملنے کی امید هو اس وقت تک تلاش کرے اور اس کے مالک کے ملنے سے مایوس هونے کے بعد اس مال کو بطور صدقه فقیر کو دینا ضروری هے۔ اور احتیاط لازم یه هے که حاکم شرع کی اجازت سے صدقه دے اور اگر بعد میں مال کا مالک مل جائے اور صدقه دینے پر راضی نه هو تو احتیاط کی بنا پر اسے اس کا عوض دینا ضروری هے۔

حیوانات کو شکار اور ذبح کرنے کے احکام

اشاره

2592۔ حیوان جنگلی هو یا پالتو۔ حرام گوشت حیوانوں کے علاوه جن کا بیان کھانے اور پینے والی چیزوں کے احکام میں آئے گا۔ اس کو اس طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے جو بعد میں بتایا جائے گا تو اس کی جان نکل جانے کے بعد اس کو گوشت حلال اور بدن پاک هے۔ لیکن اونٹ، مچھلی اور ٹڈی کو ذبح کئے بغیر کھانا حلال هوجائے گا جس طرح کی آئنده مسائل میں بیان کیا جائے گا۔

ص:490

2593۔ وه جنگلی حیوان جن کا گوشت حلال هو مثلاً هرن، چکور اور پهاڑی بکری اور وه حیوان جن کا گوشت حلال هو اور جو پهلے پالتو رهے هوں اور بعد میں جنگلی بن گئے هوں مثلاً پالتو گائے اور اونٹ جو بھاگ گئے هوں اور جنگلی بن گئے هوں اگر انهیں اس طریقے کے مطابق شکار کیا جائے جس کا ذکر بعد میں هوگا تو وه پاک اور حلال هیں لیکن حلال گوشت والے پالتو حیوان مثلاً بھیڑ اور گھریلو مرغ اور حلال گوشت والے وه جنگلی حیوان جو تربیت کی وجه سے پالتو بن جائیں شکار کرنے سے پاک اور حلال نهیں هوتے۔

2594۔ حلال گوشت والا جنگلی حیوان شکار کرنے سے اس صورت میں پاک اور حلال هوتا هے جب وه بھاگ سکتا هو یا اڑسکتا هو۔ لهذا هرن کا وه بچه جو بھاگ نه سکے اور چکور کا وه بچه جو اڑ نه سکے شکار کرنے سے پاک اور حلال نهیں هوتے اور اگر کوئی شخص هرنی کو اور اس کے ایسے بچے کو جو بھاگ نه سکتا هو ایک هی تیر سے شکار کرے تو هرنی حلال اور اس کا بچه حرام هوگا۔

2595۔ حلال گوشت والا وه حیوان جو اچھلنے والا خون نه رکھتا هو مثلاً مچھلی اگر خود بخود مرجائے تو پاک هے لیکن اس کا گوشت کھایا نهیں جاسکتا۔

2596۔ حرام گوشت والا وه حیوان جو اچھلنے والا خون نه رکھتا هو مثلاً سانپ اس کا مرده پاک هے لیکن ذبح کرنے سے وه حلال نهیں هوتا۔

2597۔ کتا اور سور ذبح کرنے اور شکار کرنے سے پاک نهیں هوتے اور ان کا گوشت کھانا بھی حرام هے اور وه حرام گوشت والا حیوان جو بھیڑیئے اور چیتے کی طرح چیرپھاڑ کرنے والا اور گوشت کھانے والا هوا اگر اسے اس طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا یا تیر یا اسی طرح کی کسی چیز سے شکار کیا جائے تو وه پاک هے لیکن اس کا گوشت حلال نهیں هوتا اور اگر اس کا شکار شکاری کتے کے ذریعے کیا جائے تو اس کا بدن پاک هونے میں بھی اشکال هے۔

2598۔هاتھی، ریچھ اور بندر جو کچھ ذکر هوچکا هے اس کے مطابق درنده حیوانوں کا حکم رکھتے هیں لیکن حشرات (کیڑے مکوڑے) اور وه بهت چھوٹے حیوانات جو زیر زمین رهتے هیں جیسے چوها اور گوه (وغیره) اگر اچھلنے والا خون رکھتے هوں اور انهیں ذبح کیا جائے یا شکار کیا جائے تو ان کا گوشت اور کھا پاک نهیں هوں گے۔

ص:491

2599۔ اگر زنده حیوان کے پیٹ سے مرده بچه نکلے یا نکالا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام هے ۔

حیوانات کو ذبح کرنے کا طریقے

2600۔ حیوان کو ذبح کرنے کا طریقه یه هے که اس کی گردن کی چار بڑی رگوں کو مکمل طور پر کاٹا جائے، ان میں صرف چیرا لگانا یا مثلاً صرف گلا کاٹنا احتیاط کی بنا پر کافی نهیں هے اور در حقیقت یه چار رگوں کا کاٹنا نه هوا۔ مگر (شرعاً ذبیحه اس وقت صحیح هوتا هے) جب ان چار لوگوں کو گلے کی گره کے نیچے سے کاٹا جائے اور وه چار گیس سانس کی نالی اور کھانے کی نالی اور دو موٹی رگیں هیں جو سانس کی نالی کے دونوں طرف هوتی هیں۔

2601۔ اگر کوئی شخص چار رگوں میں سے بعض کو کاٹے اور پھر حیوان کے مرنے تک صبر کرے اور باقی رگیں بعد میں کاٹے تو اس کا کوئی فائده نهیں لیکن اس صورت میں جب که چاروں رگیں حیوان کی جان نکلنے سے پهلے کاٹ دی جائیں مگر جسب معمول مسلسل نه کاٹی جائیں تو وه حیوان پاک اور حلال هوگا اگرچه احتیاط مستحب یه هے که مسلسل کاٹی جائیں۔

2602۔ اگر بھیڑیا کسی بھیڑ کا گلاس اس طرح پھاڑ دے که گردن کی ان چار رگوں میں سے جنهیں ذبح کرتے وقت کاٹنا ضروری هے کچھ بھی باقی نه رهے تو وه بھیڑ حرام هوجاتی هے اور اگر صرف سانس کی نالی بالکل باقی نه رهے تب بھی یهی حکم هے۔ بلکه اگر بھیڑیا گردن کا کچھ حصه پھاڑ دے اور چاروں رگیں سر سے لٹکی هوئی یا بدن سے لگی هوئی باقی رهیں تو احتیاط کی بنا پر وه بھیڑ حرام هے لیکن اگر بدن کا کوئی دوسرا حصه پھاڑے تو اس صورت میں جب که بھیڑ ابھی زنده هو اور اس طریقے کے مطابق ذبح کی جائے جس کا ذکر بعد میں هوگا تو وه حلال اور پاک هوگی۔

حیوان کو ذبح کرنے کی شرائط

2603۔ حیوان کو ذبح کرنے کی چند شرطیں هیں :

1۔ جو شخص کسی حیوان کو ذبح کرے خواه مرد یا عورت اس کے لئے ضروری هے که مسلمان هو اور وه مسلمان بچه بھی جو سمجھدار هو یعنی برے بھلے کی سمجھ رکھتا هو حیوان کو ذبح کر سکتا هے لیکن غیر کتابی کفار اور ان فرقوں کے لوگ جو کفار کے حکم میں هیں مثلاً نواصب اگر کسی حیوان کو ذبح کریں تو وه حلال نهیں هوگا بلکه کتابی کافر (مثلاً یهودی اور عیسائی) بھی کسی حیوان کو ذبح کرے اگرچه بِسمِ الله بھی کهے تو بھی احتیاط کی بنا پر وه حیوان حلال نهیں هوگا۔

ص:492

2۔ حیوان کو اس چیز سے ذبح کیا جائے جو لوهے (یااسٹیل) کی بنی هوئی هو لیکن اگر لوهے کی چیز دستیاب نه هو تو اسے ایسی تیز چیز مثلاً شیشے اور پتھر سے بھی ذبح کیا جاسکتا هے جو اس کی چاروں رگیں کاٹ دے اگرچه ذبح کرنے کی (فوری) ضرورت پیش نه آئی هو۔

3۔ ذبح کرتے وقت حیوان قبلی کی طرف هو۔ حیوان کا قبله رخ هونا خواه بیٹھا هو یا کھڑا هو دونوں حالتوں میں ایسا هو جیسے انسان نماز میں قبله رخ هوتا هے اور اگر حیوان دائیں طرف یا بائیں طرف لیٹا هو تو ضروری هے که حیوان کی گردن اور اس کا پیٹ قبله رخ هو اور اس کے پاوں هاتھوں اور منه کا قبله رخ هونا لازم نهیں هے۔ اور جو شخص جانتا هو که ذبح کرتے وقت ضروری هے که حیوان، قبله رخ هو اگر وه جان بوجھ کر اس کا منه قبلے کی طرف نه کرے تو حیوان حرام هوجاتا هے۔ لیکن اگر ذبح کرنے والا بھول جائے یا مسئله نه جانتا هو یا قبلے کے بارے میں اسے اشتباه هو یا یه نه جانتا هو که قبله کس طرف هے یا حیوان کا منه قبلے کی طرف نه کرسکتا هو تو پھر اشکال نهیں اور احتیاط مستجب یه هے که حیوان کو ذبح کرنے والا بھی قبله رخ هو۔

4۔ کوئی شخص کسی حیوان کو ذبح کرتے وقت یا ذبح سے کچھ پهلے ذبح کرنے کی نیت سے خدا کا نام لے اور صرف بسم الله کهه دے تو کافی هے بلکه اگر صرف الله کهه دے تو بعید نهیں که کافی هو اور اگر ذبح کرنے کی نیت کے بغیر خدا کا نام لے تو وه حیوان پاک نهیں هوتا اور اس کا گوشت بھی حرام هے لیکن اگر بھول جانے کی وجه سے خدا کا نام نه لے تو اشکال نهیں هے۔

5۔ ذبح هونے کے بعد حیوان حرکت کرے اگرچه مثال کے طور پر سرف آنکھ یا دم کی حرکت دے یا اپنا پاوں زمین پر مارے اور یه حکم اس صورت میں هے جب ذبح کرتے وقت حیوان کا زنده هونا مشکوک هو اور اگر مشکوک نه هو تو یه شرط ضرور نهیں هے۔

6۔ حیوان کے بدن سے اتنا خون نکلے جتنا معمول کے مطابق نکلتا هے۔ پس اگر خون اس کی رگوں میں رک جائے اور اس سے خون نه نکلے یا خون نکلا هو لیکن اس حیوان کی نوع کی نسبت کم هو تو وه حیوان حلال نهیں هوگا۔ لیکن اگر خون کم نکلنے کی وجه یه هو که اس حیوان کا ذبح کرنے سے پهلے خون بهه چکا هو تو اشکال نهیں هے۔

ص:493

7۔ حیوان کو گلے کی طرف سے ذبح کیا جائے اور احتیاط مستحب یه هے که گردن کو اگلی طرف سے کاٹا جائے اور چھری کو گردن کی پشت میں گھونپ کر اس طرح اگلی طرف نه لایا جائے که اس کی گردن پشت کی طرف سے کٹ جائے۔

2604۔ احتیاط کی بنا پر جائز نهیں هے که حیوان کی جان نکلنے سے پهلے اس کا سر تن سے جدا کیا جائے ۔ اگرچه کرنے سے حیوان حرام نهیں هوتا۔ لیکن لاپروائی یا چھری تیز هونے کی وجه سے سرجدا هو جائے تو اشکال نهیں هے اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر حیوان کی گردن چیرنا اور اس سفید رگ کو جو گردن کے مهروں سے حیوان کی دم تک جاتی هے اور نخاع کهلاتی هے حیوان کی جان نکلنے سے پهلے کاٹنا جائز نهیں هے۔

اونٹ کو نحر کرنے کا طریقه

2605۔اگر اونٹ کو نحر کرنا مقصود هوتا که جان نکلنے کے بعد وه پاک اور حلال هوجائے تو ضروری هے که ان شرائط کے ساتھ جو حیوان کو ذبح کرنے کے لئے بتائی گئی هیں چھری یا کوئی اور چیز جو لوهے (یا اسٹیل) کی بنی هوئی اور کاٹنے والی هو اونٹ کی گردن اور سینے کے درمیان جوف میں گھونپ دیں۔ اور بهتر یه هے که اونٹ اس وقت کھڑا هو لیکن اگر وه گھٹنے زمین پر ٹیک دے یا کسی پهلو لیٹ جائے اور قبله رخ هو اس وقت چھری اس کی گردن کی گهرائی میں گھونپ دی جائے تو اشکال نهیں هے۔

2606۔ اگر ونٹ کی گردن کی گهرائی میں چھری گھونپنے کی بجائے اسے ذبح کیا جائے (یعنی اس کی گردن کی چار رگیں کاٹی جائیں) یا بھیڑ اور گائے اور ان جیسے دوسرے حیوانات کی گردن کی گهرائی میں اونٹ کی طرح چھری گھونپی جائے تو ان کا گوشت حرام اور بدن نجس هے لیکن اگر اونٹ کی چار رگیں کاٹی جائیں اور ابھی وه زنده هو تو مذکوره طریقے کے مطابق اس کی گردن کی گهرائی میں چھری گھونپی جائے تو اس گوشت حلال اور بدن پاک هے۔ نیز اگر گائے یا بھیڑ اور ان جیسے حیوانات کی گردن کی گهرائی میں چھری گھونپی جائے اور ابھی وه زنده هوں که انھیں ذبح کر دیا جائے تو وه پاک اور حلال هیں۔

2607۔ اگرکوئی حیوان سرکش هوجائے اور اس طریقے کے مطابق جو شرع نے مقرر کیا هے ذبح (یانحر) کرنا ممکن نه هو مثلاً کنویں میں گرجائے اور اس بات کا احتمال هو که وهیں مرجائے گا اور اس کا مذکوره طریقے کے مطابق ذبح (یانحر) کرنا ممکن نه هو تو اس کے بدن پر جهاں کهیں بھی زخم لگایا جائے اور اس زخم کے نتیجے میں اس کی جان نکل جائے وه حیوان

ص:494

حلال هے اور اس کا روبه قبله هونا لازم نهیں لیکن ضروری هے که دوسری شرائط حیوان کو ذبح کرنے کے بارے میں بتائی گئی هیں اس میں موجود هوں۔

حیوانات کو ذبح کرنے کے مستحبات

2608۔فُقهَاء رِضوَانُ اللهِ عَلیهِم نے حیوانا کو ذبح کرنے میں کچھ چیزوں کو مستحب شمار کیا هے :

1۔ بھیڑ کو ذبح کرتے وقت اس کے دونوں هاتھ اور ایک پاوں باندھ دیئے جائیں اور دوسرا پاوں کھلا رکھا جائے اور گائے کو ذبح کرتے وقت اس کے چاروں هاتھ پاوں باندھ دیئے جائیں اور دم کھلی رکھی جائے اور اونٹ کو نحر کرتے وقت اگر وه بیٹھا هوا هو تو اس کے دونوں نیچے سے گھٹنے تک یا بغل کے نیچے ایک دوسرے سے باندھ دیئے جائیں اور اس کے پاوں کھلے رکھے جائیں اور مستحب هے که پرندے کو ذبح کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے تاکه وه اپنے پر اور بال پھڑپھڑا سکے۔

2۔ حیوان کو ذبح (یانحر) کرنے سے پهلے اس کے سامنے پانی رکھا جائے۔

3۔ (ذبح یا نحر کرتے وقت) ایسا کام کیا جائے که حیوان کو کم سے کم تکلیف هو مثلاً چھری خوب تیز کرلی جائے اور حیوان کو جلدی ذبح کیا جائے۔

حیوانات کو ذبح کرنے کے مکروهات

2609۔ حیوانات کو ذبح کرتے وقت بعض روایات میں چند چیزیں مکروه شمار کی گئی هیں :

1۔ حیوان کی جان نکلنے سے پهلے اس کی کھال اتارنا

2۔ حیوان کی ایسی جگه ذبح کرنا جهاں اس کی نسل کا دوسرا حیوان اسے دیکھ رها هو۔

3۔ شب جمعه کو یا جمع کے دن ظهر سے پهلے حیوان کا ذبح کرنا۔ لیکن اگر ایسا کرنا ضرورت کے تحت هو تو اس میں کوئی عیب نهیں۔

4۔ جس چوپائے کو انسان نے پالا هو اسے خود اپنے هاتھ سے ذبح کرنا۔

ص:495

هتھیاروں سے شکار کرنے کے احکام

2610۔ اگر حلال گوشت جنگلی حیوان کا شکار هتھیاروں کے ذریعے کیا جائے اور وه مرجائے تو پانچ شرطوں کے ساتھ وه حیوان حلال اور اس کا بدن پاک هوتا هے۔

1۔ شکار کا هتھیار چھری اور تلوار کی طرح کاٹنے والا هو یا نیزے اور تیر کی طرح تیز هو تاکه تیز هونے کی وجه سے حیوان کے بدن کو چاک کر دے اور اگر حیوان کا شکار جال یا لکڑی یا پتھر یا انهی جیسی چیزوں کے ذریعے کیا جائے تو وه پاک نهیں هوتا اور اس کا کھانا بھی حرام هے۔ اور اگر حیوان کا شکار بندوق سے کیا جائے اور اس کی گولی اتنی تیز هو که حیوان کے بدن میں گھس جائے اور اسے چاک کردے تو وه حیوان پاک اور حلال هے۔ اور اگر گولی تیز نه هو بلکه دباو کے ساتھ حیوان کے بدن میں داخل هو اور اسے مار دے یا اپنی گرمی کی وجه سے اس کا بدن جلا دے اور اس جلنے کے اثرے سے حیوان مرجائے تو اس حیوان کے پاک اور حلال هونے میں اشکال هے۔

2۔ ضروری هے که شکاری مسلمان هو یا ایسا مسلمان بچه هو جو برے بھلے کو سمجھتا هو اور اگر غیر کتابی کافر یا وه شخص جو کافر کے حکم میں هو۔ جیسے ناصبی۔ کسی حیوان کا شکار کرے تو وه شکار حلال نهیں هے۔ بلکه کتابی کافر بھی اگر شکار کرے اور بسم الله کا نام بھی لے تب بھی احتیاط کی بنا پر وه حیوان حلال نهیں هوگا۔

3۔ شکاری هتھیار اس حیوان کو شکار کرنے کے لئے استعمال کرے اور اگر مثلاً کوئی شخص کسی جگه کو نشانه بنا رها هو اور اتفاقاً ایک حیوان کو مار دے تو وه حیوان پاک نهیں هے اور اس کا کھانا بھی حرام هے۔

4۔ هتھیار چلاتے وقت شکاری الله کا نام لے اور بنابر اَقویٰ اگر شانے پر لگنے سے پهلے اغصبلله کا نام لے تو بھی کافی هے لیکن اگر جان بوجھ کر الله تعالی کا نام نه لے تو شکار حلال نهیں هوتا البته بھول جائے تو کوئی اشکال نهیں۔

5۔ اگر شکاری حیوان کے پاس اس وقت پهنچے جب وه مرچکا هو یا گر زنده هو تو ذبح کرنے کے لئے وقت نه هو یا ذبح کرنے کے لئے وقت هوتے هوئے وه اسے ذبح نه کرے حتی که وه مرجائے تو حیوان حرام هے۔

ص:496

2611۔ اگر دو اشخاص (مل کر) ایک حیوان کا شکار کریں اور ان میں سے ایک مذکوره پوری شرائط کے ساتھ شکار کرے لیکن دوسرے کے شکار میں مذکوره شرائط میں سے کچھ کم هوں مثلاً ان دونوں میں سے ایک الله تعالی کا نام لے اور دوسرا جان بوجھ کر الله تعالی کا نام نه لے تو وه حیوان حلال نهیں هے۔

2612۔ اگر تیر لگنے کے بعد مثال کے طور پر حیوان پانی میں گرجائے اور انسان کو علم هو که حیوان تیر لگنے اور پانی میں گرنے سے مرا هے تو وه حیوان حلال نهیں هے بلکه اگر انسان کو یه علم نه هو که وه فقط تیر لگنے سے مرا هے تب بھی وه حیوان حلال نهیں هے۔

2613۔ اگر کوئی شخص غصبی کتے یا غصبی هتھیار سے کسی حیوان کا شکار کرے تو شکار حلال هے اور خود شکاری کا مال هوجاتا هے لیکن اس بات کے علاوه که اس نے گناه کیا هے ضروری هے که هتھیار یا کتے کی اجرت اس کے مالک کو دے۔

2614۔ اگر شکار کرنے کے هتھیار مثلاً تلوار سے حیوان کے بعض اعضاء مثلا هاتھ اور پاوں اس کے بدن سے جدا کردیئے جائیں تو وه عضو حرام هیں لیکن اگر مسئله (2610) میں مذکوره شرائط کے ساتھ اس حیوان کو ذبح کیا جائے تو اس کا باقی مانده بدن حلال هوجائے گا۔ لیکن اگر شکار کے هتھیار سے مذکوره شرائط کے ساتھ حیوان کے بدن کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں اور سر اور گردن ایک حصے میں رهیں اور انسان اس وقت شکار کے پاس پهنچے جب اس کی جان نکل چکی هو تو دونوں حصے حلال هیں۔ اور اگر حیوان زنده هو لیکن اسے ذبح کرنے کے لئے وقت نه هو تب بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر ذبح کرنے کے لئے وقت هو اورممکن هو که حیوان کچھ دیر زنده رهے تو وه حصه جس میں سر اور گردن نه هو حرام هے اور وه حصه جس میں سر اور گردن هو اگر اسے شرع کے معین کرده طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے تو حلال هے ورنه وه بھی حرام هے۔

2615۔ اگر لکڑی یا پتھر یا کسی دوسری چیز سے جن سے شکار کرنا صحیح نهیں هے کسی حیوان کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو وه حصه جس میں سر اور گردن نه هوں حرام هے اور اگر حیوان زنده هو اور ممکن هو که کچھ دیر زنده رهے اور اسے شرع کے معین کرده طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے تو وه حصه جس میں سر اور گردن هوں حلال هے ورنه وه حصه بھی حرام هے۔

ص:497

2616۔ جب کسی حیوان کا شکار کیا جائے یا اسے ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ سے زنده بچه نکلے تو اگر اس بچے کو شرع کے معین کرده طریقے کے مطابق ذبح کیا جائے تو حلال ورنه حرام هے۔

2617۔ اگر کسی حیوان کا شکار کیا جائے یا اسے ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ سے مرده بچه نکلے تو اس صورت میں که جب بچه اس حیوان کو ذبح کرنے سے پهلے نه مرا هو اور اسی طرح جب وه بچه اس حیوان کے پیٹ سے دیر سے نکلنے کی وجه سے نه مرا هو اگر اس بچے کی بناوٹ مکمل هو اور اون یا بال اس کے بدن پر اگے هوئے هوں تو وه بچه پاک اور حلال هے۔

شکاری کتے سے شکار کرنا

2618۔ اگر شکاری کتا کسی حلال گوشت والے جنگلی حیوان کا شکار کرے تو اس حیوان کے پاک هونے اور حلال هونے کے لئے چھ شرطیں هیں :

1۔ کتا اس طرح سدھایا هوا هو که جب بھی اسے شکار پکڑنے کے لئے بھیجا جائے چلا جائے اور جب اسے جانے سے روکا جائے تو روک جائے۔ لیکن اگر شکار سے نزدیک هونے اور شکار کو دیکھنے کے بعد اس جانے سے روکا جائے اور نه رکے تو کوئی حرج نهیں هے اور لازم نهیں هے که اس کی عادت ایسی هو که جب تک مالک نه پهنچے شکار کو نه کھائے بلکه اگر اس کی عادت یه هو که اپنے مالک کے پهنچنے سے پهلے شکار سے کچھ کھالے تو بھی حرج نهیں هے اور اسی طرح اگر اسے شکار کا خون پینے کی عادت هو تو اشکال نهیں۔

2۔ اس کا مالک اسے شکار کے لئے بھیجے۔ اور اگر وه اپنے آپ هی شکار کے پیچھے جائے اور کسی حیوان کو شکار کرلے تو اس حیوان کا کھانا حرام هے۔ بلکه اگر کتا اپنے آپ شکار کے پیچھے لگ جا4ے اور بعد میں اس کا مالک بانگ لگائے تاکه وه جلدی شکار تک پهنچے تو اگرچه وه مالک کی آواز کی وجه سے تیز بھاگے پھر بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس شکار کو کھانے سے اجتناب کرنا ضروری هے۔

3۔ جو شخس کتے کو شکار کے پیچھے لگائے ضروری هے که مسلمان هو اس تفصیل کے مطابق جو اسلحه سے شکار کرنے کی شرائط میں بیان هوچکی هے۔

ص:498

4۔ کتے کو شکار کے پیچھے بھیجتے وقت شکاری الله تعالی کا نام لے اور اگر جان بوجھ کر الله تعالی کا نام نه لے تو وه شکار حرام لیکن اگر بھول جائے تو اشکال نهیں۔

5۔ شکار کو کتے کے کاٹنے سے جو زخم آئے وه اس سے مرے۔ لهذا اگر کتا شکار کا گلا گھونٹ دے یا شکار دوڑنے یا ڈر جانے کی وجه سے مرد جائے تو حلال نهیں هے۔

6۔ جس شخص نے کتے کو شکار کے پیچھے بھیجا هو اگر وه (شکار کئے گئے حیوان کے پاس) اس وقت پهنچے جب وه مرچکا هو یا اگر زنده هو تو اسے ذبح کرنے کے لئے وقت نه هو۔ لیکن شکاری کے پاس پهنچنا غیر معمولی تاخیر کی وجه سے نه هو۔ اور اگر ایسے وقت پهنچے جب اسے ذبح کرنے کے لئے وقت هو لیکن وه حیوان کو ذبح نه کرے حتی که وه مرجائے تو وه حیوان حلال نهیں هے۔

2619۔جس شخص نے کتے کو شکار کے پیچھے بھیجا هو اگر وه شکار کے پاس اس وقت پهنچے جب وه اسے ذبح کرسکتا هو تو ذبح کرنے کے لوازمات مثلاً اگر چھری نکالنے کی وجه سے وقت گزرجائے اور حیوان مر جائے تو حلال هے لیکن اگر اس کے پاس ایسی کوئی چیز نه هو جس سے حیوان کو ذبح کرے اور وه مر جائے تو بنابر احیتاط وه حلال نهیں هوتا البته اس صورت میں اگر وه شخص اس حیوان کو چھوڑ دے تاکه کتا اسے مار ڈالے تو وه حیوان حلال هوجاتا هے۔

2620۔ اگر کئی کتے شکار کے پیچھے پیچھے جائیں اور وه سب مل کر کسی حیوان کا شکار کریں تو اگر وه سب کے سب ان شرائط کو پورا کرتے هوں جو مسئله 2618 میں بیان کی گئی هیں تو شکار حلال هے اور اگر ان میں سے ایک کتا بھی ان شرائط کو پورا نه کرے تو شکار حرام هے۔

2621۔ اگر کوئی شخص کتے کو کسی حیوان کے شکار کے لئے بھیجے اور وه کتا کوئی دوسرا حیوان شکار کرلے تو وه شکار حلال اور پاک هے اور اگر جس حیوان کے پیچھے بھیجا گیا هو اسے بھی اور ایک حیوان کو بھی شکار کرلے تو وه دونوں حلال اور پاک هیں۔

2622۔ اگر چند اشخاص مل کر ایک کتے کو شکار کے پیچھے بھیجیں اور ان میں سے ایک شخص جان بوجھ کر خدا کا نام نه لے تو وه شکار حرام هے نیز جو کتے شکار کے پیچھے بھیجے گئے هوں اگر ان میں سے ایک کتا اس طرح سدھایا هوا نه هو جیسا که مسئله 2618 میں بتایا گیا هے تو وه شکار حرام هے۔

ص:499

2623۔ اگر بازشکاری کتے کے علاوه کوئی اور حیوان کسی جانور کا شکار کرے تو وه شکار حلال نهیں هے لیکن اگر کوئی شخص اس شکار کے پاس پهنچ جائے اور وه ابھی زنده هو اور اس طریقے کے مطابق جو شرع میں معین هے اسے ذبح کرلے تو پھر وه حلال هے۔

مچھلی اور ٹڈی کا شکار

2624۔ اگر مچھلی کو جو پیدائش کے لحاظ سے چھلکے والی هو۔ اگرچه کسی عارضی وجه سے اس کا چھلکا اتر گیا هو۔ پانی میں زنده پکڑلیا جائے اور وه پانی سے باهر آکر ماجائے تو وه پاک هے اور اس کا کھانا حلال هے۔ اور اگر وه پانی میں مرجائے تو پاک هے لیکن اس کا کھانا حرام هے۔ مگر یه که وه مچھیرے کے جال کے اندر پانی میں مرجائے تو اس صورت میں اس کا کھانا حلال هے۔ اور جس مچھلی کے چھلکےنه هوں اگرچه اسے پانی سے زنده پکڑ لیا جائے اور پانی کے باهر مرے وه حرام هے۔

2625۔ اگر مچھلی (اچھل کر) پانی سے باهر آگرے یا پانی کی لهر اسے باهر پھینک دے یا پانی اتر جائے اور مچھلی خشکی پر ره جائے تو اگر اس کے مرنے سے پهلے کوئی شخص اسے هاتھ سے یا کسی اور ذریعے سے پکڑلے تو وه مرنے کے بعد حلال هے۔

2626۔ جو شخص مچھلی کا شکار کرے اس کے لئے لازم نهیں که مسلمان هو یا مچھلی کو پکڑتے وقت خدا کا نام لے لیکن نه ضروری هے که مسلمان دیکھے یا کسی اور طریقے سے اسے (یعنی مسلمان کو) یه اطمینان هو گیا هو که مچھلی کو پانی سے زنده پکرا هے یا وه مچھلی اس کے جال میں پانی کے اندر مرگئی هے۔

2627۔ جس مری هوئی مچھلی کے متعلق معلوم نه هو که اسے پانی سے زنده پکڑا گیا هے یا مرده حالت میں پکڑا گیا هے اگر وه مسلمان کے هاتھ میں هو تو حلال هے لیکن اگر کافر کے هاتھ میں هو تو خواه وه کهے که اس نے اسے زنده پکڑا هے، حرام هے مگر یه که انسان کو اطمینان هو که اس کافر نے مچھلی کو پانی سے زنده پکڑا هے یا وه مچھلی اس کے جال میں پانی کے اندر مرگئی هے (تو حلال هے)۔

2628۔ زنده مچھلی کا کھانا جائز هے لیکن بهتر یه هے که اسے زنده کھانے سے پرهیز کیا جائے۔

2629۔ اگر زنده مچھلی کو بھون لیا جائے یا اسے پانی کے باهر مرنے سے پهلے ذبح کر دیا جا4ے تو اس کا کھانا جائز هے اور بهتر یه هے که اسے کھانے سے پرهیز کیا جائے۔

ص:500

2630۔ اگر پانی سے باهر مچھلی کے دو ٹکڑے کر لئے جائیں اور ان میں سے ایک ٹکڑا زنده هونے کی حالت میں پانی میں گر جائے تو جو ٹکڑا پانی سے باهر ره جائے اسے کھانا جائز هے اور احتیاط مستحب یه هے که اسے کھانے سے پرهیز کیا جائے۔

2631۔ اگر ٹڈی کو هاتھ سے یا کسی اور ذریعے سے زنده پکڑ لیا جائے تو وه مرجانے کے بعد حلال هے اور یه لازم نهیں که اسے پکڑنے والا مسلمان هو اور اسے پکڑتے وقت الله تعالی کا نام لے لیکن اگر مرده ٹڈی کافر کے هاتھ میں هو اور یه معلوم نه هو که اس نے اسے زنده پکڑا تھا یا نهیں تو اگرچه وه کهے که اس نے اس زنده پکڑا تھا وه حرام هے۔

2632۔ جس ٹڈی کے پر ابھی تک نه اگے هوں اور اڑ نه سکتی هو اس کا کھانا حرام هے۔

کھانے پینے کی چیزوں کے احکام

2633۔ هر وه پرنده جو شاهین، عقاب، باز اور شکرے کی طرح چیرنے پھاڑنے والا اور پنجے دار هو حرام هے اور ظاهر یه هے که هر وه پرنده جو اڑتے وقت پروں کو مارتا کم اور بے حرکت زیاده رکھتا هے نیز پنجنے دار هے، حرام هوتا هے۔ اور هر وه پرنده جو اڑتے وقت پروں کو مارتا زیاده اور بے حرکت کم رکھتا هے، وه حلال هے، اسی فرق کی بنا پر حرام گوشت پرندوں کو حلال گوشت پرندوں میں سے ان کی پرواز کی کیفیت دیکھ کر پهچانا جاسکتا هے۔ لیکن اگر کسی پرندے کی پرواز کی کیفیت معلوم نه هو تو اگر وه پرنده پوٹا، سنگدانه اور پاوں کی پشت پر کانٹا رکھتا هو تو وه حلال هے اور اگر ان میں سے کوئی ایک علامت بھی موجود نه هو تو وه حرام هے۔ اور احتیاط لازم یه هے که کو4ے کی تمام اقسام حتی که زاغ (پهاڑی کوے) سے بھی اجتناب کیا جائے اور جن پرندوں کا ذکر هوچکا هے ان کے علاوه دوسرے تمام پرندے مثلاً مرغ، کبوت اور چڑیاں یهاں تک که شتر مرغ اور مور بھی حلال هیں۔ لیکن بعض پرندوں مثلاً مرغ، کبوتر اور چڑیاں یهاں تک که شترمرغ اور مور بھی حلال هیں۔ لیکن بعض پرندوں جسیے هدهد اور ابابیل کو ذبح کرنا مکروه هے۔ اور جو حیوانات اڑتے هیں مگر پر نهیں رکھتے مثلاً چمگادڑ حرام هیں اور احتیاط لازم کی بنا پر زنبور (بِھڑ، شهدکی مکھی، تتیاً) مچھر اور اڑنے والے دوسرے کیڑے مکوڑوں کا بھی حکم هے۔

2634۔ اگر اس حصے کو جس میں روح هو زنده حیوان سے جدا کر لیا جائے مثلاً زنده بھیڑ کی چکتی یا گوشت کی کچھ مقدار کاٹ لے جائے تو وه نجس اور حرام هے۔

2635۔ حلال گوشت حیوانات کے کچھ اجزاء حرام هیں اور ان کی تعداد چوده هے۔

ص:501

1۔ خون۔

2۔ فضله۔

3۔ عضو تناسل۔

4۔شرمگاه۔

5۔ بچه دانی

6۔ غدود۔

7۔ کپورے۔

8۔ وه چیز جو بھیجے میں هوتی هے اور چنے کے دانی کی شکل کی هوتی هے

9۔ حرام مغز جو ریڑھ کی هڈی میں هوتا هے۔

10۔ بنابر احتیاط لازم وه رگیں جو ریڑھ کی هڈی کے دونوں طرف هوتی هیں۔

11۔ پته

12۔ تلی

13۔ مثانه

14۔ آنکھ کا ڈھیلا۔

یه سب چیزیں پرندوں کے علاوه حلال گوشت حیوانات میں حرام هیں۔ اور پرندوں کا خون اور ان کا فضله بلااشکال حرام هے۔ لیکن ان دو چیزوں (خون اور فضلے) کے علاوه پرندوں میں وه چیزیں هوں جو اوپر بیان هوئی هیں تو ان کا حرام هونا احتیاط کی بنا پر هے۔

2636۔ حرام گوشت حیوانات کا پیشاب پینا حرام هے اور اسی طرح حلال گوشت حیوان ۔ حتی که احتیاط لازم کی بنا پر اونٹ ۔ کے پیشاب کا بھی یهی حکم هے۔ لیکن علاج کے لئے اونٹ، گائے اور بھیڑ کا پیشاب پینے میں اشکال نهیں هے۔

2637۔ چکنی مٹی کھانا حرام هے نیز مٹی اور بجری کھانا احتیاط لازم کی بنا پر یهی حکم رکھتا هے البته (ملتانی مٹی کے مماثل) داغستانی اور آرمینیائی مٹی وغیره علاج کے لئے بحالت مجبوری کھانے میں اشکال نهیں هے۔ اور حصول شفاء کی غرض سے (سید الشهداء امام حسین علیه السلام کے مزار مبارک کی مٹی یعنی) خاک شفاء کی تھوڑی سی مقدار کھانا جائز هے۔ اور

ص:502

بهتر یه هے که خاک شفاء کی کچھ مقدار پانی میں ملا لی جائے تاکه وه (حل هوکر) ختم هوجائے اور بعد میں اس پانی کو پی لیا جائے۔

2638۔ ناک کا پانی اور سینے کا بلغم جو منه میں آجائے اس کا نگلنا حرام نهیں هے نیز اس غذا کے نگلنے میں جو خلال کرتے وقت دانتوں کے ریخوں سے نکلے کوئی اشکال نهیں هے۔

2639۔ کسی ایسی چیز کا کھانا حرام هے جو موت کا سبب بنے یا انسان کے لئے سخت نقصان ده هو۔

2640۔ گھوڑے، خچر اور گدھے کا گوشت کھانا مکروه هے اور اگر کوئی شخص ان سے بد فعلی کرے تو وه حیوان حرام هوجاتا هے اور جونسل بدفعلی کے بعد پیدا هو احتیاط کی بنا پر وه بھی حرام هو جاتی هے اور ان کا پیشاب اور لید نجس هوجاتی هے اور ضروری هے که انهیں شهر سے باهر لے جاکر دوسری جگه بیچ دیا جائے اور اگر بدفعلی کرنے والا اس حیوان کا مالک نه هو تو اس پر لازم هے که اس حیوان کی قیمت اس کے مالک کو دے۔ اور اگر کوئی شخص حلال گوشت حیوان مثلاً گائے یا بھیڑ سے بدفعلی کرے تو ان کا پیشاب اور گوبر نجس هو جاتا هے اور ان کا گوشت کھانا حرام هے اور احتیاط کی بنا پر ان کا دودھ پینے کا اور ان کی جونسل بدفعلی کے بعد پیدا هو اس کا بھی یهی حکم هے۔ اور ضروری هے که ایسے حیوان کو فوراً ذبح کرکے جلادیا جائے اور جس نے اس حیوان کے ساتھ بدفعلی کی هو اگر وه اس کا مالک نه هو تو اس کی قیمت اس کے مالک کو دے۔

2641۔ اگر بکری کا بچه سورنی کا دودھ اتنی مقدار میں پی لے که اس کا گوشت اور هڈیاں اس سے قوت حاصل کریں تو خود وه اور اس کی نسل حرام هوجاتی هے اور اگر وه اس سے کم مقدار میں دودھ پئے تو احتیاط کی بنا پر لازم هے که اس کا استبراء کیاجائے اور اس کے بعد وه حلال هو جاتا هے۔ اور اس کا استبراء یه هے که سات دن پاک دودھ پئے اور اگر اسے دودھ کی حاجت نه هو تو سات دن گھاس کھائے اور بھیڑ کا شیر خوار بچه اور گائے کا بچه اور دوسرے حلال گوشت حیوانوں کے بچے ۔ احتیاط لازم کی بنا پر ۔ بکری کے بچے کے حکم میں هیں۔ اور نجاست کھانے والے حیوان کاگوشت کھانا بھی حرام هے اور اگر اس کا استبراء کیا جائے تو حلال هوجاتا هے اور اس کے استبراء کی ترکیب مسئله 226 میں بیان هوئی هے۔

2642۔ شراب پینا حرام هے اور بعض احادیث میں اسے گناه کبیره بتایا گیا هے۔ حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت هے که آپ نے فرمایا: " شراب برائیوں کی جڑ اور گناهوں کا منبع هے۔ جو شخص شراب پئے وه اپنی عقل کھو بیٹھتا

ص:503

هے اور اس وقت خداتعالی کو نهیں پهچانتا، کوئی بھی گناه کرنے سے نهیں چوکتا، کسی شخص کا احترام نهیں کرتا، اپنے قریبی رشتے داروں کے حقوق کا پاس نهیں کرتا، کھلم کھلا برائی کرنے سے نهیں شرماتا، پس ایمان اور خدا شناسی کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی هے اور ناقص خبیث روح جو خدا کی رحمت سے دور هوتی هے اس کے بدن میں ره جاتی هے۔ خدا اور اس کے فرشتے نیز انبیاء مرسلین اور مومنین اس پر لعنت بھیجتے هیں، چالیس دن تک اس کی نماز قبول نهیں هوتی، قیامت کے دن اس کا چهره سیاه هوگا اور اس کی زبان (کتے کی طرح) منه سے باهر نکلی هوئی هوگی، اس کی رال سینے پر ٹپکتی هوگی اور وه پیاس کی شدت سے واویلا کرے گا۔"

2643۔ جس دستر خوان پر شراب پی جارهی هو اس پر چینی هوئی کوئی چیز کھانا حرام هے اور اسی طرح اس دستر خوان پر بیٹھا جس پر شراب پی جارهی هو اگر اس پر بیٹھنے سے انسان شراب پینے والوں میں شمار هوتا هو تو احتیاط کی بنا پر، حرام هے۔

2644۔ هر مسلمان پر واجب هے که اس کے اڑوس پڑوس میں جب کوئی دوسرا مسلمان بھوک یا پیاس سے جاں بلب هو تو اسے روٹی اور پانی دے کر مرنے سے بچائے۔

کھانا کھانے کے آداب

اشاره

2645۔ کھانا کھانے کے آداب میں چند چیزیں مستحب شمار کی گئی هیں۔

1۔ کھانا کھانے سے پهلے کھانے والا دونوں هاتھ دھوئے۔

2۔ کھانا کھا لینے کے بعد اپنے هاتھ دھوئے اور رومال (تولئے وغیره) سے خشک کرے۔

3۔ میزبان سب سے پهلے کھانا کھانا شروع کرے اور سب کے بعد کھانے سے هاتھ کھینچے اور کھانا شروع کرنے سے قبل میزبان سب سے پهلے اپنے هاتھ دھوئے اس کے بعد جو شخص اس کی دائیں طرف بیٹھا هو وه دھوئے اور اسی طرح سلسله وار هاتھ دھوتے رهیں حتی که نوبت اس شخص تک آجائے جو اس کے بائیں طرف بیٹھا هو اور کھانا کھالینے کے بعد جو شخص میزبان کی بائیں طرف بیٹھا هو سب سے پهلے وه هاتھ دھوئے اور اسی طرح دھوتے چلے جائیں حتی که نوبت میزبان تک پهنچ جائے۔

ص:504

4۔ کھانا کھانے سے پهلے بِسم الله پڑھے لیکن اگر ایک دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے هوں تو ان میں سے کھانا، کھانے سے پهلے بِسم الله پڑھنا مستحب هے

5۔ کھانا دائیں هاتھ سے کھائے۔

6۔ تین یا زیاده انگلیوں سے کھانا کھائے اور دو انگلیوں سے نه کھائے

7۔ اگر چند اشخاص دسترخوان پر بیٹھیں تو هر ایک اپنے سامنے سے کھانا کھائے۔

8۔ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر کھائے

9۔ دستر خوان پر زیاده دیر بیٹھے اور کھانے کو طول دے۔

10۔ کھانا خوب اچھی طرح چبا کر کھائے۔

11۔ کھانا کھالینے کے بعد الله تعالی کا شکر بجالائے۔

12۔ انگلیوں کو چاٹے۔

13۔ کھانا کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرے البته ریحان کے تنکے یا کھجور کے درخت کے پتے سے خلال نه کرے۔

14۔ جو غذا دسترخوان سے باهر گرجائے اسے جمع کرے اور کھالے لیکن اگر جنگل میں کھانا کھائے ت مستحب هے که جو کچھ گرے اسے پرندوں اور جانوروں کے لئے چھوڑ دے۔

15۔ دن اور رات کی ابتدا میں کھانا کھائے اور دن کے درمیان میں اور رات کے درمیان میں نه کھائے۔

16۔ کھانا کھانے کے بعد پیٹھ کے بل لیٹے اور دایاں پاوں بائیں پاوں رکھے ۔

17۔ کھانا شروع کرتے وقت اور کھالینے کے بعد نمک چکھے۔

18۔ پھل کھانے سے پهلے انهیں پانی سے دھولے۔

وه باتیں جو کھانا کھاتے وقت مکروه هیں

ص:505

2646۔کھانا کھاتے وقت چند باتیں مذموم شمار کی گئی هیں۔

1۔ بھرے پیٹ پر کھانا کھانا

2۔ بهت زیاده کھانا ۔ روایت هے که خداوند عالم کے نزدیک بهت زیاده کھانا سب سے بری چیز هے۔

3۔ کھانا کھاتے وقت دوسروں کے منه کی طرف دیکھنا

4۔ گرم کھانا کھانا

5۔ جو چیز کھائی یا پی جارهی هو اسے پھونک مارنا۔

6۔ دسترخوان پر کھانا لگ جانے کے بعد کسی اور چیز کا منتظر هونا۔

7۔ روٹی کو چھری سے کاٹنا

8۔ روٹی کو کھانے کے برتن کے نیچے رکھنا۔

9۔ هڈی سے چپکے هوئے گوشت کو یوں کھانا که هڈی پر بالکل گوشت باقی نه رهے ۔

10۔ اس پھل کا چھلکا اتارنا جو چھلکے کے ساتھ کھایا جاتا هے۔

11۔ پھل پورا کھانے سے پهلے پھینک دینا۔

پانی پینے کا آداب

2647۔ پانی کے پینے کے آداب میں چند چیزیں شمار کی گئی هیں ؛

1۔ پانی چوسنے کی طرز پر پیئے۔

2۔ پانی دن میں کھڑے هو کر پیئے۔

3۔ پانی پینےسے پهلے بِسمِ الله اور پینے کے بعد الحمد الله کهے۔

4۔ پانی (غٹاغٹ نه پیئے بلکه) تین سانس میں پیئے۔

5۔ پانی پینے کے بعد حضرت امام حسین علیه السلام اور ان کے اهل حرم کو یا کرے اور کے قاتلوں پر لعنت بھیجے۔

وه باتیں جو پانی پیتے وقت مکروه هیں

2648۔ زیاده پانی پینا، مرغن کھانے کے بعد پانی پینا اور رات کو کھڑے هو کر پانی پینا مذموم شمار کیا گیا هے۔ علاوه ازیں پانی بائیں هاتھ سے پینا اور اس طرح کوزے (وغیره) کی ٹوٹی هوئی جگه سے اور اس جگه سے پینا جهاں کوزے کا دسته هو مذموم شمار کیا گیا هے۔

ص:506

منت اور عهد کے احکام

اشاره

2649۔ "منّت" یه هے که انسان اپنے آپ پر واجب کرلے که الله تعالی کی رضا کے لئے کوئی اچھا کام کرے گا یا کوئی ایسا کام جس کا نه کرنا بهتر هو ترک کر دے گا۔

2650۔ منت میں صیغه پڑھنا ضروری هے اور یه لازم نهیں که صیغه عربی میں هی پڑھا جائے لهذا اگر کوئی شخص کهے که "میرا مریض صحت یاب هو گیا تو الله تعالی کی خاطر مجھ پر لازم هے که میں دس روپے فقیر کو دوں" تو اس کی منت صحیح هے۔

2651۔ ضروری هے که منت ماننے والا بالغ اور عاقل هو نیز اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ منت مانے لهذا کسی ایسے شخص کا منت ماننا جسے مجبور کیا جائے یا جو جذبات میں آکر بغیر ارادے کے بے اختیار منت مانے تو صحیح نهیں هے۔

2652۔ کوئی سفیه اگر منت مانے مثلاً یه که کوئی چیز فقیر کو دے گا تو اس کی منت صحیح نهیں هے۔ اور اسی طرح اگر کوئی دیوالیه شخص منت مانے که مثلاً اپنے اس مال میں سے جس میں تصرف کرنے سے اسے روک دیا گیا هو کوئی چیز فقیر کو دے گا تو اس کی منت صحیح نهیں هے۔

2653۔ شوهر کی اجازت کے بغیر عورت کا ان کاموں میں منت ماننا جو شوهر کے حقوق کے منافی هوں صحیح نهیں هے۔ اور اسی طرح عورت کا اپنے مال میں شوهر کی اجازت کے بغیر منت ماننا محل اشکال هے لیکن (اپنے مال میں سے شوهر کی اجازت کے بغیر) حج کرنا، زکوٰۃ اور صدقه دینا اور ماں باپ سے حسن سلوک اور رشتے داروں سے صله رحمی کرنا (صحیح هے)۔

2654۔ اگر عورت شوهر کی اجازت سے منت مانے تو شوهر اس کی منت ختم نهیں کر سکتا اور نه هی اسے منت پر عمل کرنے سے روک سکتا هے۔

2655۔ اگر ۔ بیٹا باپ کی اجازت کے بغیر یا اس کی اجازت سے منت مانے تو ضروری هے که اس پر عمل کرے لیکن اگر باپ یا ماں اسے اس کام سے جس کی اس نے منت مانی هو اس طرح منع کریں که ان کے منع کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا اس کے لئے بهتر نه هو تو اس کی منت کالعدم هو جائے گی۔

ص:507

2656۔ انسان کسی ایسے کام کی منت مان سکتا هے جسے انجام دینا اس کے لئے ممکن هو لهذا جو شخص مثلاً پیدل چل کر کربلا نه جاسکتا هو اگر وه منت مانے که وهاں تک پیدل جائے گا تو اس کی منت صحیح نهیں هے۔

2657۔ اگر کوئی شخص منت مانے که کوئی حرام یا مکروه کام انجام دے گا یا کوئی واجب یا مستحب کام ترک کر دے گا تو اس کی منت صحیح نهیں هے۔

2658۔ اگر کوئی شخص منت مانے که کسی مباح کام کو انجام دے گا یا ترک کرے گا لهذا اگر اس کام کا بجا لانا اور ترک کرنا هر لحاظ سے مساوی هو تو اس کی منت صحیح نهیں اور اگر اس کام کا انجام دینا کسی لحاظ سے بهتر هو اور انسان منت بھی اسی لحاظ سے مانے مثلاً منت مانے که کوئی (خاص) غذا کھائے گا تاکه الله کی عبادت کے لئے اسے توانائی حاصل هو تو اس کی منت صحیح هے۔ لیکن اگر بعد میں تمباکو کا استعمال ترک کرنا اس کے لئے نقصان ده هو تو اس کی منت کالعدم هوجائے گی۔

2659۔ اگر کوئی شخص منت مانے که واجب نماز ایسی جگه پڑھے گا جهاں بجائے خود نماز پڑھنے کا ثواب زیاده نهیں مثلاً منت مانے که نماز کمرے میں پڑھے گا تو اگر وهاں نماز پڑھنا کسی لحاظ سے بهتر هو مثلاً چونکه وهاں خلوت هے اس لئے انسان حضور قلب پیدا کرسکتا هے اگر اس کے منت ماننے کا مقصد یهی هے تو منت صحیح هے۔

2660۔ اگر ایک شخص کوئی عمل بجالانے کی منت مانے تو ضروری هے که وه عمل اسی طرح بجالائے جس طرح منت مانی هو لهذا اگر منت مانے که مهینے کی پهلی تاریخ کو صدقه دے گا یا روزه رکھے گا یا (مهینے کی پهلی تاریخ کو) اول ماه کی نماز پڑھے گا تو اگر اس دن سے پهلے یا بعد میں اس عمل کو بجالائے تو کافی نهیں هے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص منت مانے که جب اس کا مریض صحت یاب هوجائے گا تو وه صدقه دے گا تو اگر اس مریض کے صحت یاب هونے سے پهلے صدقه دے دے تو کافی نهیں هے۔

2661۔ اگر کوئی شخص روزه رکھنے کی منت مانے لیکن روزوں کا وقت اور تعداد معین نه کرے تو اگر ایک روزه رکھے تو کافی هے۔ اگر نماز پڑھنے کی منت مانے اور نمازوں کی مقدار اور خصوصیات معین نه کرے تو اگر ایک دو رکعتی نماز پڑھ لے تو کافی هے۔ اور اگر منت مانے کی صدقه دے گا اور صدقے کی جنس اور مقدار معین نه کرے تو اگر ایسی چیز دے که لوگ کهیں که اس نے صدقه دیا هے تو پھر اس نے اپنی منت کے مطابق عمل کر دیا هے۔ اور اگر منت مانے که کوئی کام الله تعالی

ص:508

کی خوشنودی کے لئے بجالائے گا تو اگر ایک (دو رکعتی) نماز پڑھ لے یا ایک روزه رکھ لے یا کوئی چیز صدقه دے دے تو اس نے اپنی منت نبھالی هے۔

2662۔ اگر کوئی شخص منت مانے که ایک خاص دن روزه رکھے گا تو ضروری هے که اسی دن روزه رکھے اور اگر جان بوجھ کر روزه نه رکھے تو ضروری هے که اس دن کے روزے کی قضا کے علاوه کفاره بھی دے اور اظهر یه هے که اس کا کفاره قسم توڑنے کا کفاره هے جیسا که بعد میں بیان کیا جائے گا لیکن اس دن وه اختیاراً یه کرسکتا هے که سفر کرے اور روزه نه رکھے۔ اور اگر سفر میں هو تو لازم نهیں که ٹھهرنے کی نیت کرکے روزه رکھے اور اس صورت میں جب که سفر کی وجه سے یاکسی دوسرے عذر مثلاً بیماری یا حیض کی وجه سے روزه نه رکھے تو لازم هے که روزے کی قضا کرے لیکن کفاره نهیں هے۔

2663۔ اگر انسان حالت اختیار میں اپنی منت پر عمل نه کرے تو کفاره دینا ضروری هے ۔

2664۔ اگر کوئی شخص ایک معین وقت تک کوئی عمل ترک کرنے کی منت مانے تو اس وقت کے گزرنے کے بعد اس عمل کو بجالاسکتا هے اور اگر اس وقت کے گزرنے سے پهلے بھول کر یا به امر مجبوری اس عمل کو انجام دے تو اس پر کچھ واجب نهیں هے لیکن پھر بھی لازم هے که وه وقت آنے تک اس عمل کو انجام نه دے اور اگر اس وقت کے آنے سے پهلے بغیر عذر کے اس عمل کو دوباره انجام دے تو ضروری هے که کفاره دے۔

2665۔ جس شخص نے کوئی عمل ترک کرنے کی منت مانی هو اور اس کے لئے کوئی وقت معین نه کیا هو اگر وه بھول کر یا به امر مجبوری یا غفلت کی وجه سے اس عمل کو انجام دے تو اس پر کفاره واجب نهیں هے لیکن اس کے بعد جب بھی به حالت اختیار اس عمل کو بجالائے ضروری هے که کفاره دے۔

2626۔ اگر کوئی شکص منت مانے که هر هفتے ایک معین دن کا مثلاً جمعے کا روزه رکھے گا تو اگر ایک جمعے کے دن عید فطر یا عید قربان پڑ جائے یا جمعه کے دن اسے کوئی اور عذر مثلاً سفر در پیش هو یا حیض آجائے تو ضروری هے که اس دن روزه نه رکھے اور اس کی قضا بجالائے۔

2627۔ اگر کوئی شخص منت مانے که ایک معین مقدار میں صدقه دے گا تو اگر وه صدقه دینے سے پهلے مرجائے تو اس کے مال میں سے اتنی مقدار میں صدقه دینا لازم نهیں هے اور بهتر یه هے که اس کے بالغ ورثاء میں میراث میں سے اپنے حصے سے اتنی مقدار میت کی طرف سے صدقه دے دیں۔

ص:509

2628۔ اگر کوئی شخص منت مانے که ایک معین فقیر کو صدقه دے گا تو وه کسی دوسرے فقیر کو نهیں دے سکتا اور اگر وه معین کرده فقیر مرجائے تو احتیاط مستحب یه هے که صدقه اس کے پسماندگان کو دے۔

2629۔ اگر کوئی منت مانے که ائمه علیهم السلام میں سے کسی ایک کی مثلاً حضرت امام حسین ؑ کی زیارت سے مشرف هوگا تو اگر وه کسی دوسرے امام کی زیارت کے لئے جائے تو یه کافی نهیں هے۔ اور اگر کسی عزر کی وجه سے ان امام کی زیارت نه کرسکے تو اس پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

2670۔ جس شخص نے زیارت کرنے کی منت مانی هو لیکن غسل زیارت اور اس کی نماز کی منت نه مانی هو تو اس کے لئے انهیں بجالانا لازم نهیں هے۔

2671۔ اگر کوئی شخص کسی امام یا امام زادے کے حرم کے لئے مال خرچ کرنے کی منت مانے اور کوئی خاص مصرف معین نه کرے تو ضروری هے که اس مال کو اس حرم کی تعمیر ( ومرمت) روشنیوں اور قالین وغیره پر صرف کرے۔

2672۔ اگر کوئی شخص کسی امام کے لئے کوئی چیز نذر کرے تو اگر کسی معین مصرف کی نیت کی هو تو ضروری هے که اس چیز کو اسی مصرف میں لائے اور اگر کسی معین مصرف کی نیت نه کی هو تو ضروری هے که اسے ایسے مصرف میں لے آئے جو امام سے نسبت رکھتا هو مثلاً اس امام ؑ کے نادار زائرین پر خرچ کرے یا اس امام ؑ کے حرم کے مصارف پر خرچ کرے یا ایسے کاموں میں خرچ کرے جو امام کا تذکره عام کرنے کا سبب هوں۔اور اگر کوئی چیز کسی امام زادے کے لئے نذر کرے تب بھی یهی حکم هے۔

2637۔ جس بھیڑ کو صدقے کے لئے یا کسی امام کے لئے نذر کیا جائے اگر وه نذر کے مصرف میں لائے جانے سے پهلے دودھ دے یا بچه جنے تو وه (دودھ یا بچه) اس کا مال هے جس نے اس بھیڑ کو نذر کیا هو مگر یه که ا س کی نیت عام هو( یعنی نذر رکنے والے نے اس بھیڑ، اس کے بچے اور دودھ وغیره سب چیزوں کی منت مانی هو تو وه سب نذر هے) البته بھیڑ کی اون اور جس مقدار میں وه فربه هو جائے نذر کا جزو هے۔

2674۔ جب کوئی منت مانے که اگر اس کا مریض تندرست هوجائے یا اس کا مسافر واپس آجائے تو وه فلاں کام کرے گا تو اگر پتا چلے که منت ماننے سے پهلے مریض تندرست هوگیا تھا یا مسافر واپس آگیا تھا تو پھر منت پر عمل کرنا لازم نهیں۔

ص:510

2675۔ اگر باپ یا ماں منت مانیں که اپنی بیٹی کی شادی سید زادے سے کریں گے تو بالغ هونے کے بعد لڑکی اس بارے میں خود مختار هے اور والدین کی منت کی کوئی اهمیت نهیں۔

2676۔جب کوئی شخص الله تعالی سے عهد کرے که جب اس کی کوئی معین شرعی حاجت پوری هوجائے گی تو فلاں کام کرے گا۔ پس جب اس کی حاجت پوری هوجائے تو ضروری هے که وه کام انجام دے۔ نیز اگر وه کوئی حاجت نه هوتے هوئے عهد کرے که فلاں کام انجام دے گا تو وه کام کرنا اس پر واجب هوجاتا هے۔

2677۔ عهد میں بھی منت کی طرح صیغه پڑھنا ضروری هے ۔ اور (علماء کے بیچ) مشهور یه هے که کوئی شخص جس کام کے انجام دینے کا عهد کرے ضروری هے که یا تو واجب اور مستجب نمازوں کی طرح عبادت هو یا ایسا کام هو جس کا انجام دینا شرعاً اس کے ترک کرنے سے بهتر هو لیکن ظاهر هے که یه بات معتبر نهیں هے۔ بلکه اگر اس طرح هو جیسے مسئله 2680 میں قسم کے احکام میں آئے گا، تب بھی عهد صحیح هے اور اس کام کو انجام دینا ضروری هے۔

2678۔ اگر کوئی شخص اپنے عهد پر عمل نه کرے تو ضروری هے که کفاره دے یعنی ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا دو مهینے مسلسل روزے رکھے یا ایک غلام کو آزاد کرے۔

قسم کھانے کے احکام

2679۔ جب کوئی شخص قسم کھائے که فلاں کام انجام دے گا یا ترک کرے گا مثلاً قسم کھائے که روزه رکھے گا یا تمباکو استمعال کرے گا تو اگر بعد میں جان بوجھ کر اس قسم کے خلاف عمل کرے تو ضروری هے که کفاره دے یعنی ایک غلام آزاد کرے یا دس فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا انھیں پوشاک پهنائے اور اگر ان اعمال کو بجا نه لاسکتا هو تو ضروری هے که تین دن روزے رکھے اور یه بھی ضروری هے اور که روزے مسلسل رکھے۔

2680۔ قسم کی چند شرطیں هیں:۔

1۔ جو شخص قسم کھائے ضروری هے که وه بالغ اور عاقل هو نیز اپنے ارادے اور اختیار سے قسم کھائے۔ لهذا بچے یا دیوانے یا بے حواس یا اس شخص کا قسم کھانا جسے مجبور کیا گیا هو درست نهیں هے۔ اور اگر کوئی شخص جذبات میں آکر بلا اراده یا بے اختیار قسم کھائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

ص:511

2۔ (قسم کھانے والا) جس کام کے انجام دینے کی قسم کھائے ضروری هے که وه حرام یا مکروه نه هو اور جس کام کے ترک کرنے کی قسم کھائے ضروری هے که وه واجب یا مستحب نه هو۔ اور اگر کوئی مباح کام کرنے کی قسم کھائے تو اگر عقلاء کی نظر میں اس کام کو انجام دینا اس کو ترک کرنے سے بهتر هو تو اس کی قسم صحیح هے اور اسی طرح کسی کام کو ترک کرنے کی قسم کھائے تو اگر عقلاء کی نظر میں اسے ترک کرنا اس کو انجام دینے سے بهتر هو تو اس کی قسم صحیح هے۔بلکه دونوں صورتوں میں اگر اس کا انجام دینا یا ترک کرنا عقلاء کی نظر میں بهتر نه هو لیکن خود اس شخص کے لئے بهتر هو تب بھی اس کی قسم صحیح هے۔

3۔ (قسم کھانے والا) الله تعالی کے ناموں میں سے کسی ایسے نام کی قسم کھائے جو اس ذات کے سوا کسی اور کے لئے استعمال نه هوتا هو مثلاً خدا اور الله ۔ اور اگر ایسے نام کی قسم کھائے جو اس ذات کے سوا کسی اور کے ل4ے بھی استعمال هوتا هو لیکن الله تعالی کے لئے اتنی کثرت سے استعمال هوتا هو که جب بھی کوئی وه نام لے تو خدائے بزرگ و برتر کی ذات هی ذهن میں آتی هو مثلاً اگر کوئی خالق اور رازق کی قسم کھائے تو قسم صحیح هے۔ بلکه اگر کسی ایسے نام کی قسم کھائے که جب اس نام کو تنها بولا جائے تو اس سے صرف ذات باری تعالی هی ذهن میں نه آتی هو لیکن اس نام کو قسم کھانے کے مقام میں استعمال کیا جائے تو ذات حق هی ذهن میں آتی هو مثلاً سمیع اور بصیر (کی قسم کھائے) تب بھی اس کی قسم صحیح هے۔

4۔ (قسم کھانے والا) قسم کے الفاظ زبان پر لائے۔ لیکن اگر گونگا شخص اشارے سے قسم کھائے تو صحیح هے اور اسی طرح وه شخص جو بات کرنے پر قادر نه هو اگر قسم کو لکھے اور دل میں نیت کر لے تو کافی هے بلکه اس کے علاوه صورتوں میں بھی (کافی هے۔ نیز) احتیاط ترک نهیں هوگی۔

5۔ (قسم کھانے والے کے لئے) قسم پر عمل کرنا ممکن هو۔ اور اگر قسم کھانے کے وقت اس کے لئے اس پر عمل کرنا ممکن هو لیکن بعد میں عاجز هو جائے اور اس نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر عاجز نه کیا هو تو جس وقت سے عاجز هوگا اس وقت سے اس کی قسم کالعدم هوجائے گی۔ اور اگر منت یا قسم یا عهد پر عمل کرنے سے اتنی مشقت اٹھانی پڑے جو اس کی برداشت سے باهر هو تو اس صورت میں بھی یهی حکم هے۔

2681۔ اگر باپ، بیٹے کو یا شوهر، بیوی کو قسم کھانے سے رو کے تو ان کی قسم صحیح نهیں هے۔

ص:512

2682۔اگر بیٹا، باپ کی اجازت کے بغیر اور بیوی شوهر کی اجازت کے بغیر قسم کھائے تو باپ اور شوهر ان کی قسم فسخ کر سکتے هیں۔

2683۔ اگر انسان بھول کر یا مجبوری کی وجه سے یا غفلت کی بنا پر قسم پر عمل نه کرے تو اس پر کفاره واجب نهیں هے اور اگر اسے مجبور کیا جائے که قسم پر عمل نه کرے تب بھی یهی حکم هے۔اور اگر وهمی قسم کھائے مثلاً یه کهے که والله میں ابھی نماز میں مشغول هوتا هوں اور هم کی وجه سے مشغول نه هو تو اگر اس کا وهم ایسا هو که اس کی وجه سے مجبور هو کر قسم پر عمل نه کرے تو اس پر کفاره نهیں هے۔

2684۔ اگر کوئی شخص قسم کھائے که میں جو کچھ کهه رها هوں سچ کهه رها هوں تو اگر وه سچ کهه رها هے تو اس کا قسم کھانا مکروه هے اور اگر جھوٹ بول رها هے تو حرام هے بلکه مقدمات کے فیصلے کے وقت جھوٹی قسم کھانا کبیره گناهوں میں سے هے لیکن اگر وه اپنے آپ کو یا کسی دوسرے مسلمان کو کسی ظالم کے شر سے نجات دلانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے تو اس میں اشکال نهیں بلکه بعض اوقات ایسی قسم کھانا واجب هو جاتا هے تاهم اگر توریه کرنا ممکن هو۔ یعنی قسم کھاتے وقت قسم کے الفاظ کے ظاهری مفهوم کو چھوڑ کر دوسرے مطلب کی نیت کرے اور جو مطلب اس نے لیا هے اس کو ظاهر نه کرے۔ تو احتیاط لازم یه هے که توریه کرے مثلاً اگر کوئی ظالم کسی کو اذیت دینا چاهے اور کسی دوسرے شخص سے پوچھے که کیا تم نے فلاں شخص کو دیکھا هے؟ اور اس نے اس شخص کو ایک منٹ قبل دیکھا هو تو وه کهے که میں نے اسے نهیں دیکھا او قصد یه کرے که اس وقت سے پانچ منٹ پهلے میں نے اسے نهیں دیکھا۔

وقف کے احکام

2685۔ اگر ایک شخص کوئی چیز وقف کرے تو وه اس کی ملکیت سے نکل جاتی هے اور وه خود یا دوسرے لوگ نه هی وه چیز کسی دوسرے کو بخش سکتے هیں اور نه هی اسے بیچ سکتے هیں اور نه کوئی شخص اس میں سے کچھ بطور میراث لے سکتا هے لیکن بعض صورتوں میں جن کا ذکر مسئله 2102 اور مسئله 2103 میں کیا گیا هے اسے بیچنے میں اشکال نهیں۔

2686۔ یه لازم نهیں که وقف کا صیغه عربی میں پڑھا جائے بلکه مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کهے که میں نے یه کتاب طالب علموں کے لئے وقف کر دی هے تو وقف صحیح هے بلکه عمل سے بھی وقف ثابت هوجاتا هے مثلاً اگر کوئی شخص وقف کی نیت سے چٹائی مسجد میں ڈال دے یا کسی عمارت کو مسجد کی نیت سے اس طرح بنائے جسے مساجد بنائی جاتی هیں تو

ص:513

وقف ثابت هوجائے گا۔ اور عمومی اوقاف مثلاً مسجد، مدرسه یا ایسی چیزیں جا عام لوگوں کے لئے وقف کی جائیں یا مثلاً فقراء اور سادات کے لئے وقف کی جائیں ان کے وقف کے صحیح هونے میں کسی کا قبول کرنا لازم نهیں هے بلکه بنا بر اظهر خصوصی اوقاف مثلاً جو چیزیں اولاد کے لئے وقف کی جائیں ان میں بھی قبول کرنا معتبر نهیں هے۔

2687۔ اگر کوئی شخص اپنی کسی چیز کو وقف کرنے کے لئے معین کرے اور وقف کرنے سے پهلے پچھتائے یا مر جائے تو وقف وقوع پذیر نهیں هوتا۔

2688۔ اگر ایک شخص کوئی مال وقف کرے تو ضروری هے که وقف کرنے کے وقت سے اس مال کو همیشه کے لئے وقف کر دے اور مثال کے طور پر اگر وه کهے که یه مال میرے مرنے کے بعد وقف هوگا تو چونکه وه مال صیغه پڑھنے کے وقت سے اس کے مرنے کے وقت تک وقف نهیں رها اس لئے وقف صحیح نهیں هے۔ نیز اگر کهے که یه مال دس سال تک وقف رهے گا اور پھر وقف نهیں هوگا یا یه کهے که یه مال دس سال کے لئے وقف هوگا پھر پانچ سال کے لئے وقف نهیں هوگا اور پھر دوباره وقف هوجائے گا تو وه وقف صحیح نهیں هے۔

2689۔خصوصی وقف اس صورت میں صحیح هے جب وقف کرنے والا وقف کا مال پهلی پشت یعنی جن لوگوں کے لئے وقف کیا گیا هے ان کے یا ان کے وکیل یا سرپرست کے تصرف میں دے دے لیکن اگر کوئی شخص کوئی چیز اپنے نابالغ بچوں کے لئے وقف کرے اور اس نیت سے که وقف کرده چیز ان کی ملکیت هوجائے اس چیز کی نگهداری کرے تو وقف صحیح هے۔

2690۔ ظاهر یه هے که عام اوقاف مثلاً مدرسوں اور مساجد وغیره میں قبضه معتبر نهیں هے بلکه صرف وقف کرنے سے هی ان کا وقف هونا ثابت هوجاتا هے۔

2691۔ ضروری هے که وقف کرنے والا بالغ اور عاقل هو نیز قصد اور اختیاط رکھتا هو اور شرعاً اپنے مال میں تصرف کرسکتا هو لهذا اگر سفیه ۔ یعنی وه شخص جو اپنا مال احمقانه کاموں میں خرچ کرتا هو۔ کوئی چیز وقف کرے تو چونکه وه اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق نهیں رکھتا اس لئے (اس کا کیا هو وقف) صحیح نهیں۔

2692۔ اگر کوئی شخص کسی مال کو ایسے بچے کے لئے وقف کرے جو ماں کے پیٹ میں هو اور ابھی پیدا نه هوا هو تو اس وقف کا صحیح هونا محل اشکال هے اور لازم هے که احتیاط ملحوظ رکھی جائے لیکن اگر کوئی مال ایسے لوگوں کے لئے وقف کیا

ص:514

جائے جو ابھی موجود هوں اور ان کے بعد ان لوگوں کے لئے وقف کیا جائے جو بعد میں پیدا هوں تو اگرچه وقف کرتے وقت وه ماں کے پیٹ میں بھی نه هوں وه وقف صحیح هے۔ مثلاً ایک شخص کوئی چیز اپنی اولاد کے لئے وقف کرے که ان کے بعد اس کے پوتوں کے لئے وقف هوگی اور (اولاد کے) هر گروه کے بعد آنے والا گروه اس وقف سے استفافه کرے گا تو وقف صحیح هے۔

2693۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے آپ پر وقف کرے مثلاً کوئی دکان وقف کردے تاکه اس کی آمدنی اس کے مرنے کے بعد اس کے مقبرے پر خرچ کی جائے تو یه وقف صحیح نهیں هے۔ لیکن مثال کے طور پر وه کوئی مال فقرا کے لئے وقف کر دے اور خود بھی فقیر هو جائے تو وقف کے منافع سے استفاده کرسکتا هے۔

2694۔ جو چیز کسی شخص نے وقف کی هو اگر اس نے اس کا متولی بھی معین کیا هو تو ضروری هے که هدایات کے مطابق عمل هو اور اگر واقف نے متولی معین نه کیا هو اور مال مخصوص افراد پر مثلاً اپنی اولاد لئے وقف کیا هو تو وه افراد اس سے استفاده کرنے میں خود مختار هیں اور اگر بالغ نه هوں تو پھر ان کا سرپرست مختار هے اور وقف سے استفاده کرنے کے لئے حاکم شرع کی اجازت لازم نهیں لیکن ایسے کام جس میں وقف کی بهتری یا آئنده نسلوں کی بھلائی هو مثلاً وقف کی تعمیر کرنا یا وقف کو کرائے پر دینا که جس میں بعد والے طبقے کے لئے فائده هے تو اس کا مختار حاکم شرع هے۔

2695۔ اگر مثال کے طور پر کوئی شخص کسی مال کو قفرا یا سادات کے لئے وقف کرے یا اس مقصد سے وقف کرے که اس مال کا منافع بطور خیرات دیا جائے تو اس صورت میں که اس نے وقف کے لئے متولی معین نه کیا هو اس کا اختیار حاکم شرع کو هے۔

2696۔ اگر کوئی شخص کسی املاک کو مخصوص افراد مثلاً اپنی اولاد کے لئے وقف کرے تاکه ایک پشت کے بعد دوسری پشت اس سے استفاده کرے تو اگر وقف کا متولی اس مال کو کرائے پر دے دے اور اس کے بعد مرجائے تو اجاره باطل نهیں هوتا۔ لیکن اگر اس املاک کا کوئی متولی نه هو اور ن لوگوں کیلئے وه املاک وقف هوئی هے ان میں سے ایک پشت اسے کرائے پردے دے اور اجارے کی مدت کے دوران وه پشت مرجائے اور جو پشت اس کے بعد هو وه اس اجارے کی تصدیق نه کرلے تو اجاره باطل هو جائے گا اور اس صورت میں اگر کرایه دار نے پوری مدت کا کرایه ادا کر رکھا هو تو مرنے والے کی موت کے وقت سے اجارے کی مدت کے خاتمے تک کا کرایه اس (مرنے والے) کے مال سے لے سکتا هے۔

ص:515

2697۔ اگر وقف کرده املاک برباد بھی هو جائے تو اس کے وقف کی حیثیت نهیں بدلتی بجز اس صورت کے که وقف کی هوئی چیز کسی خاص مقصد کے لئے وقف هو اور وه مقصد فوت هو جائے مثلاً کسی شخص نے کوئی باغ بطور باغ وقف کیا هو تو اگر وه باغ خراب هو جائے تو وقف باطل هوجائے گا اور وقف کرده مال واقف کی ملکیت میں دوباره داخل هوجائے گا۔

2698۔اگر کسی املاک کی کچھ مقدار وقف هو اور کچھ مقدار وقف نه هو اور وه املاک تقسیم نه کی گئی هو تو هر وه شخص جسے وقف میں تصرف کرنے کا اختیار هے جیسے حاکم شرع، وقت کامتولی اور وه لوگ جن کے لئے وقف کیا گیا هے باخبر لوگوں کے رائے کے مطابق وقف شده حصه جدا کرسکتے هیں۔

2699۔ اگر وقف کا متولی خیانت کرے مثلاً اس کا منافع معین مدوں میں استعمال نه کرے تو حاکم شرع اس کے ساتھ کسی امین شخص کو لگا دے تاکه وه متولی کو خیانت سے روکے اور اگر یه ممکن نه هو تو حاکم شرع اس کی جگه کوئی دیانتدار متولی مقرر کرسکتا هے۔

2700۔ جو قالین (وغیره) امام بارگاه کے لئے وقف کیا گیا هو اسے نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں نهیں لے جایا جاسکتا خواه وه مسجد امام بارگاه سے ملحق هی کیوں نه هو۔

2701۔ اگر کوئی املاک کسی مسجد کی مرمت کے لئے وقف کی جائے تو اگر اس مسجد کو مرمت کی ضرورت نه هو اور اس بات کی توقع بھی نه هو که آئنده یاکچھ عرصے بعد اسے مرمت کی ضرورت هوگی نیز اس املاک کی آمدنی کو جمع کرکے حفاظت کرنا بھی ممکن نه هو که بعد میں اس مسجد کی مرمت میں لگادی جائے تو اس صورت میں احتیاط لازم یه هے که اس املاک کی آمدنی کو اس کام میں صرف کرے جو وقف کرنے والے کے مقصود سے نزدیک تو هو مثلاً اس مسجد کی کوئی دوسری ضرورت پوری کر دی جائے یا کسی دوسری مسجد کی تعمیر میں لگا دی جائے۔

2702۔ اگر کوئی شخص کوئی املاک وقف کرے تاکه اس کی آمدنی مسجد کی مرمت پر خرچ کی جائے اور امام جماعت کو اور مسجد کے موذن کو دی جائے تو اس صورت میں که اس شخص نے هر ایک کے لئے کچھ مقدار معین کی هو تو ضروری هے که آمدنی اسی کے مطابق خرچ کی جائے اور اگر معین نه کی هو تو ضروری هے که پهلے مسجد کی مرمت کرائی جائے اور پھر اگر کچھ بچے تو متولی اسے امام جماعت اور موذن کے درمیان جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کر دے لیکن بهتر هے که یه دونوں اشخاص تقسیم کے متعلق ایک دوسرے سے مصالحت کرلیں۔

ص:516

وصیت کے احکام

اشاره

2703۔ "وصیت" یه هے که انسان تاکید کرے که اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے فلاں فلاں کام کئے جائیں یا یه کهے که اس کے مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیز فلاں شخص کی ملکیت هوگی یا اس کے مال میں سے کوئی چیز کسی شخص کی ملکیت میں دے دی جائے یا خیرات کی جائے یا امور خیر یه پر صرف کی جائے یا اپنی اولاد کے لئے اور جو لوگ اس کی کفالت میں هوں ان کے لئے کسی کو نگران اور سرپرست مقرر کرے اور جس شخص کو وصیت کی جائے اسے "وصی" کهتے هیں۔

2704۔ جو شخص بول نه سکتا هو اگر وه اشارے سے اپنا مقصد سمجھا دے تو وه هر کام کے لئے وصیت کر سکتا هے بلکه جو شخص بول سکتا هو اگر وه بھی اس طرح اشارے سے وصیت کرے که اس کا مقصد سمجھ میں آجائے تو وصیت صحیح هے۔

2705۔ اگر ایسی تحریر مل جائے جس پر مرنے والے کے دستخط یا مهر ثبت هو تو اگر اس تحریر سے اس کا مقصد سمجھ میں آجائے اور پتا چل جائے که یه چیز اس نے وصیت کی غرض سے لکھی هے تو اس کے مطابق عمل کرنا چاهئے لیکن اگر پتا چلے که مرنے والے کا مقصد وصیت کرنا نهیں تھا اور اس نے کچھ باتیں لکھی تھی تاکه بعد میں ان کے مطابق وصیت کرے تو ایسی تحریر وصیت کافی نهیں هے۔

2706۔جو شخص وصیت کرے ضروری هے که بالغ اور عاقل هو، سفیه نه هو اور اپنے اختیار سے وصیت کرے لهذا نابالغ بچے کا وصیت کرنا صحیح نهیں هے۔ مگر یه که بچه دس سال کا هو اور اس نے اپنے رشتے داروں کے لئے وصیت کی هو یا عام خیرات میں خرچ کرنے کی وصیت کی هو تو ان دونوں صورتوں میں اس کی وصیت صحیح هے۔ اور اگر اپنے رشتے داروں کے علاوه کسی دوسرے کے لئے وصیت کرے یا سات ساله بچه یه وصیت کرے که "اس کے اموال میں سے تھوڑی سی چیز کسی شخص کے لئے هے یا کسی شخص کو دے دی جائے " تو وصیت کا نافذ هونا محل اشکال هے اور ان دونوں صورتوں میں احتیاط کا خیال رکھا جائے اور اگر کوئی شخص سفیه هو تو اس کی وصیت اس کے اموال میں نافذ نهیں هے۔ لیکن اگر اس اس کی وصیت اموال کے علاوه دوسرے امور میں هو مثلاً ان مخصوص کاموں کے متعلق هو جو موت کے بعد میت کے لئے انجام دیئے جاتے هیں تو وه وصیت نافذ هے۔

ص:517

2707۔ جس شخص نے مثال کے طور پر عمداً اپنے آپ کو زخمی کر لیا هو یا زهر کھالیا هو جس کی وجه سے اس کے مرنے کا یقین یا گمان پیدا هوجائے اگر وه وصیت کرے که اس کے مال کی کچھ مقدار کسی مخصوص مصرف میں لائی جائے اور اس کے بعد وه مرجائے تو اس کی وصیت صحیح نهیں هے۔

2708۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے که اس کی املاک میں سے کوئی چیز کسی دوسرے کا مال هوگی تو اس صورت میں جب که وه دوسرا شخص وصیت کو قبول کرلے خواه اس کا قبول کرنا وصیت کرنے والے کی زندگی میں هی کیوں نه هو وه چیز "موصی" کی موت کے بعد اس کی ملکیت هوجائے گی۔

2709۔جب انسان اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ لے تو ضروری هے که لوگوں کی امانتیں فوراً ان کے مالکوں کو واپس کر دے یا انهیں اطلاع دے دے۔ اس تفصیل کے مطابق جو مسئله 2351 میں بیان هوچکی هے۔ اور اگر وه لوگوں کا مقروض هو اور قرضے کی ادائیگی کا وقت آگیا هو اور قرض خواه اپنے قرضے کا مطالبه بھی کر رها هو تو ضروری هے که قرضه ادا کردے اور اگر وه خود قرضه ادا کرنے کے قابل نه هو یا قرضے کی ادائیگی کا وقت نه آیا هو یا قرض خواه ابھی مطالبه نه کر رها هو تو ضروری هے که ایسا کام کرے جس سے اطمینان هو جائے که اس کا قرض اس کی موت کے بعد قرض خواه کو ادا کر دیا جائے گا مثلاً اس صورت میں که اس کے قرضے کا کسی دوسرے کو علم نه هو وه وصیت کرے اور گواهوں کے سامے وصیت کرے۔

2710۔ جو شخص اپنے اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رها هو اگر زکوٰۃ، خمس اور مظالم اس کے ذمے هوں اور وه انهیں اس وقت ادا نه کرسکتا هو لیکن اس کے پاس مال هو یا اس بات کا احتمال هو که کوئی دوسرا شخص یه چیزیں ادا کردے گا تو ضروری هے که وصیت کرے اور اگر اس پر حج واجب هو تو اس کا بھی یهی حکم هے۔ لیکن اگر وه شخص اس وقت اپنے شرعی واجبات ادا کرسکتا هو تو ضروری هے که فوراً ادا کرے اگرچه وه اپنے آپ میں موت کی نشانیاں نه دیکھے۔

2711۔ جو شخص اپنےآپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رها هوا اگر اس کی نمازیں اور روزے قضا هوئے هوں تو ضروری هے که وصیت کرے که اس کے مال سے ان عبارات کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنایا جائے بلکه اگر اس کے پاس مال نه هو لیکن اس بات کا احتمال هوکه کوئی شخص بلا معاوضه یه عبادات بجالائے گا تب بھی اس پر واجب هے که وصیت کرے لیکن اگر اس کا اپنا کوئی هو مثلاً بڑا لڑکا هو اور وه شخص جانتا هو که اگر اسے خبر دی جائے تو وه اس کی قضا نمازیں اور روزے بجالائے گا تو اسے خبر دینا هی کافی هے، وصیت کرنا لازم نهیں۔

ص:518

2712۔ جو شخص اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھ رها هو اگر اس کا مال کسی کے پاس هو یا ایسی جگه چھپا هوا هو جس کا ورثاء کو علم نه هو تو اگر لاعلمی کی وجه سے ورثاء کا حق تلف هوتا هو تو ضروری هے که انهیں اطلاع دے اور یه لازم نهیں که وه اپنے نابالغ بچوں کے لئے نگراں اور سرپرست مقرر کرے لیکن اس صورت میں جب که نگراں کا نه هونا مال کے تلف هونے کا سبب هو یا خود بچوں کے لئے نقصان ده هو تو ضروری هے که ان کے لئے ان امین نگران مقرر کرے۔

2713۔ وصی کا عاقل هونا ضروری هے۔ نیز جو امور موصی سے متعلق هیں اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر جو امور دوسروں سے متعلق هیں ضروری هے که وصی ان کے بارے میں مطمئن هو اور ضروری هے که مسلمان کا وصی بھی احتیاط کی بناپر مسلمان هو۔ اور اگر موصی فقط نابالغ بچے کے لئے اس مقصد سے وصیت کرے تاکه وه بچپن میں سرپرست سے اجازت لئے بغیر تصرف کرسکے تو احتیاط کی بنا پر درست نهیں هے۔ لیکن اگر موصی کا مقصد یه هو که بالغ هونے کے بعد یا سرپرست کی اجازت سے تصرف کرے تو کوئی اشکال نهیں هے۔

2714۔ اگر کوئی شخص کئی لوگوں کو اپنا وصی معین کرے تو اگر اس نے اجازت دی هو که ان میں سے هر ایک تنها وصیت پر عمل کرسکتا هے تو لازم نهیں که وه وصیت انجام دینے میں ایک دوسرے سے اجازت لیں اور اگر وصیت کرنے والے نے ایسی کوئی اجازت نه دی هو تو خواه اس نے کها هو یا نه کها هو که دونوں مل کر وصیت پر عمل کریں انهیں چاهئے که ایک دوسرے کی رائے کے مطابق وصیت پر عمل کریں اور اگر وه مل کر وصیت پر عمل کرنے پر تیار نه هوں اور مل کر عمل نه کرنے میں کوئی شرعی عذر نه هو تو حاکم شرع انهیں ایسا کرنے پر مجبور کرسکتا هے اور اگر وه حاکم شرع کا حکم نه مانیں یا مل کر عمل نه کرنے کا دونوں کے پاس کوئی شرعی عذر هو تو وه ان میں سے کسی ایک کی جگه کوئی اور وصی مقرر کر سکتا هے۔

2715۔ اگر کوئی شخص اپنے وصیت سے منحرف هوجائے مثلاً پهلے وه یه کهے که اس کے مال تیسرا حصه فلاں شخص کو دیا جائے اور بعد میں کهے که اسے نه دیا جائے تو وصیت کالعدم هوجاتی هے اور اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں تبدیلی کر دے مثلاً کو اپنے بچوں کا نگران مقرر کرے اور بعد میں اس کی جگه کسی دوسرے شخص کو نگراں مقرر کردے تو اس کی پهلی وصیت کالعدم هوجاتی هے اور سروری هے که اس کی دوسری وصیت پر عمل کیا جائے۔

2716۔ اگر ایک شخص کوئی ایسا کام کرے جس سے پتا چلے که وه اپنی وصیت سے منحرف هوگیا هے مثلاً جس مکان کے بارے میں وصیت کی هو که وه کسی کو دیا جائے اسے بیچ دے یا۔ پهلی وصیت کو پیش نظر رکھتے هوئے ۔ کسی دوسرے شخص کو اسے بیچنے کے لئے وکیل مقرر کر دے تو وصیت کالعدم هوجاتی هے۔

ص:519

2717۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے که ایک معین چیز کسی شخص کو دی جائے اور بعد میں وصیت کرے که اس چیز کا نصف حصه کسی اور شخص کو دیا جائے تو ضروری هے اس چیز کے دو حصے کئے جائیں اور ان دونوں اشخاص میں سے هر ایک کو ایک حصه دیا جائے۔

2718۔ اگر کوئی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وه مرجائے اپنے مال کی کچھ مقدار کسی شخص کو بخش دے اور وصیت کرے که میرے مرنے کے بعد مال کی کچھ مقدار کسی اور شخص کو بھی دی جائے تو اگر اس کے مال کا تیسرا حصه دونوں مال کے لئے کافی نه هو اور ورثاء اس زیاده مقدار کی اجازت دینے پر تیار نه هوں تو ضروری هے پهلے جو مال اس سے بخشا هے وه تیسرے حصے سے دیدیں اور اس کے بعد جو مال ماقی بچے وه وصیت کے مطابق خرچ کریں۔

2719۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے که اس کے مال کا تیسرا حصه نه بیچا جائے اور اس کی آمدنی ایک معین کام میں خرچ کی جائے تو اس کے کهنے کے مطابق عمل کرنا ضروری هے۔

2720۔ اگر کوئی ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے وه مرجائے یه کهے که وه اتنی مقدار میں کسی شخص کا مقروض هے تو اگر اس پر یه تهمت لگائی جائے که اس نے یه بات ورثاء کو نقصان پهنچانے کے لئے کی هے تو جو مقدار قرضے کی اس نے معین کی هے وه اس کے مال کے تیسرے حصے سے دی جائے گی اور اگر اس پر یه تهمتنه لگائی جائے تو اس کا اقرار نافذ هے اور قرضه اس کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری هے۔

2721۔ جس شخص کے لئے انسان وصیت کرے که کوئی چیز اسے دی جائے یه ضروری نهیں که وصیت کرنے کے وقت وه وجود رکھتا هو لهذا اگر کوئی انسان وصیت کرے که جو بچه فلاں عورت کے پیٹ سے پیدا هو اس بچے کو فلاں چیز دی جائے تو اگر وه بچه وصیت کرنے والے کی موت کے بعد پیدا هو تو لازم هے که وه چیز اسے دی جائے لیکن اگر وه وصیت کرنے والے کی موت کے بعد وه (بچه) پیدا نه هو اور وصیت ایک سے زیاده مقاصد کے لئے سمجھی جائے تو ضروری هے که اس مال کو کسی ایسے دوسرے کام میں صرف کیا جائے جو وصیت کرنے والے کے مقصد سے زیاده قریب هو ورنه ورثاء خود اسے آپس میں تقسیم کر سکتے هیں۔ لیکن اگر وصیت کرے که مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کوئی چیز کسی شخص کا مال هوگی تو اگر وه شخص وصیت کرنے والے کی موت کے وقت موجود هو تو صیت صحیح هے ورنه باطل هے اور جس چیز کی اس شخص کے لئے وصیت کی گئی هو۔(وصیت باطل هونے کی صورت میں) ورثاء اسے آپس میں تقسیم کرسکتے هیں۔

ص:520

2722۔ اگر انسان کو پتا چلے که کسی نے اسے وصی بنایا هے تو اگر وه وصیت کرنےوالے کو اطلاع دے دے که وه اس کی وصیت پر عمل کرنے پر آماده نهیں هے تو لازم نهیں که وه اس کے مرنے کے بعد اس وصیت پر عمل کرے لیکن اگر وصیت کننده کے مرنے سے پهلے انسان کو یه پتا نه چلے که اس نے اسے وصی بنایا هے یا پتا چل جائے لیکن اسے یه اطلاع نه دے که وه (یعنی جسے وصی مقرر کیا گیا هے) اس کی (یعنی موصی کی) وصیت پر عمل کرنے پر آماده نهیں هے تو اگر وصیت پر عمل کرنے میں کوئی زحمت نه هو تو ضروری هے که اس کی وصیت پر عملدر آمد کرے نیز اگر موصی کے مرنے سے پهلے وصی کسی وقت اس امر کی جانب متوجه هو که مرض کی شدت کی وجه سے یا کسی اور عذر کی بنا پر موصی کسی دوسرے شخص کو وصیت نهیں کرسکتا تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که وصی وصیت کو قبول کرلے۔

2723۔جس شخص نے وصیت کی هو اگر وه مرجائے تو وصی کو یه اختیار نهیں که وه کسی دوسرے کو میت کا وصی معین کرے اور خود ان کاموں سے کناره کش هوجائے لیکن اگر اسے علم هو که مرنے والے کا مقصد یه نهیں تھا که خود وصی هی ان کاموں کو انجام دینے میں شریک هو بلکه اس کا مقصد فقط یه تھا که کام کر دیئے جائیں تو وصی کسی دوسرے شخص کو ان کاموں کی انجام دهی کے لئے اپنی طرف سے وکیل مقرر کرسکتا هے۔

2724۔ اگر کوئی شخص دو افراد کو اکٹھے وصی بنائے تو اگر ان دونوں میں سے ایک مرجائے یا دیوانه یا کافر هو جائے تو حاکم شرع اس کی جگه ایک اور شخص کو وصی مقرر کرے گا اور اگر دونوں مر جائیں یا کافر یا دیوانے هو جائیں تو حاکم شرع دو دوسرے اشخاص کو ان کی جگه معین کرے گا لیکن اگر ایک شخص وصیت پر عمل کرسکتا هو تو دو اشخاص کا معین کرنا لازم نهیں۔

2725۔ اگر وصی تنها خواه وکیل مقرر کرکے یا دوسرے کو اجرت دے کر متوفی کے کام انجام نه دے سکے تو حاکم شرع اس کی مدد کے لئے ایک اور شخص مقرر کرے گا۔

2726۔ اگر متوفی کے مال کی کچھ مقدار وصی کے هاتھ سے تلف هوجائے تو اگر وصی نے اس کی نگهداشت میں کوتا هی یا تعدی کی هو مثلاً اگر متوفی نے اسے وصیت کی هو که مال کی اتنی مقدار فلاں شهر کے فقیروں کو دے دے اور وصی مال کو دوسرے شهر لے جائے اور وه راستے میں تلف هو جائے تو وه ذمے دار هے اور اگر اس نے کوتاهی یا تعدی نه کی هو تو ذمے دار نهیں هے۔

ص:521

2727۔ اگر انسان کسی شخص کو وصی مقرر کرے اور کهے که اگر وه شخص (یعنی وصی) مر جائے تو پھر فلاں شخص وصی هوگا تو جب پهلا وصی مرجائے تو دوسرے وصی کے لئے متوفی کے کام انجام دینا ضروری هے۔

2728۔ جو حج متوفی پر واجب هو نیز قرضه اور مالی واجبات مثلاً خمس، زکوٰۃ اور مظالم جن کا ادا کرنا واجب هوا نهیں متوفی کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری هے خواه متوفی نے ان کے لئے وصیت نه بھی کی هو۔

2729۔ اگر متوفی کا ترکه قرضے سے اور واجب حج سے اور ان شرعی واجبات سے جو اس پر واجب هوں مثلاً خمس اور زکوٰۃ اور مظالم سے زیاده هو تو اگر اس نے وصیت کی هو که اس کے مال کا تیسرا حصه یا تیسرے حصے کی کچھ مقدار ایک معین مصرف میں لائی جائے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا ضروری هے اور اگر وصیت نه کی هو تو جو کچھ بچے وه ورثاء کا مال هے۔

2730۔ جو مصرف متوفی نے معین کیاهو اگر وه اس کے مال کے تیسرے حصے سے زیاده هو تو مال کے تیسرے حصے سے زیاده کے بارے میں اس کی وصیت اس صورت میں صحیح هے جب ورثاء کوئی ایسی بات یا ایسا کام کریں جس سے معلوم هو که انهوں نے وصیت کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دے دی هے اور ان کا صرف راضی هونا کافی نهیں هے اور اگر وه موصی کی رحلت کے کچھ عرصے بعد بھی اجازت دیں تو صحیح هے اور اگر بعض ورثاء اجازت دے دیں اور بعض وصیت کو رد کردیں تو جنهوں نے اجازت دی هو ان کے حصوں کی حد تک وصیت صحیح اور نافذ هے۔

2731۔ جو مصرف متوفی نے معین کیا هو اگر اس پر اس کے مال تیسرے حصے سے زیاده لاگت آتی هو اور اس کے مرنے سے پهلے ورثاء اس مصرف کی اجازت دے دیں (یعنی یه اجازت دے دیں که ان کے حصے سے وصیت کو مکمل کیا جاسکتا هے) تو اس کے مرنے کے بعد وه اپنی دی هوئی اجازت سے منحرف نهیں هوسکتے۔

2732۔ اگر مرنے والا وصیت کرے که اس کے مال کے تیسرے حصے خمس اور زکوٰۃ یا کوئی اور قرضه جو اس کے ذمے هو دیا جائے اور اس کی قضا نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور کوئی مستحب کام مثلاً فقیروں کو کھانا کھلانا بھی انجام دیا جائے تو ضروری هے که پهلے اس کا قرضه مال کے تیسرے حصے سے دیا جائے اور اگر کچھ بچ جائے تو نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور اگر پھر بھی کچھ بچ جائے تو جو مستحب کام اس نے معین کیا هو اس پر صرف کیا

ص:522

جائے اور اگر اس کے مال کا تیسرا حصه صرف اس کے قرضے کے برابر هو اور ورثاء بھی تهائی مال سے زیاده خرچ کرنے کی اجازت نه دیں تو نماز، روزوں اور مستحب کاموں کے لئے کی گئی وصیت باطل هے۔

2733۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے که اس کا قرضه ادا کیا جائے اور اس کی نمازوں اور روزوں کے لئے اجیر مقرر کیا جائے اور کوئی مستحب کام بھی انجام دیا جائے تو اگر اس نے یه وصیت نه کی هو که یه چیزیں مال کے تیسرے حصے سے دی جائیں تو ضروری هے که اس کا قرضه اصل مال سے دیا جائے اور پھر جو کچھ بچ جائے اس کا تیسرا حصه نماز، روزوں (جیسی عبادات) اور ان مستحب کاموں کے مصرف میں لایا جائے جو اس نے معین کئے هیں اور اس صورت میں جبکه تیسرا حصه (ان کاموں کے لئے) کافی نه هو اگر ورثا اجازت دیں تو اس کی وصیت پر عمل کرنا چاهئے اور اگر وه اجازت نه دیں تو نماز اور روزوں کی قضا کی اجرت مال کے تیسرے حصے سے دینی چاهئے اور اگر اس میں سے کچھ بچ جائے تو وصیت کرنے والے نے جو مستحب کام معین کیا هو اس پر خرچ کرنا چاهئے ۔

2734۔ اگرکوئی شخص کهے که مرنے والے نے وصیت کی تھی که اتنی رقم مجھے دی جائے تو اگر وه عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کر دیں یا وه قسم کھائے اور ایک عادل شخص اس کے قول کی تصدیق کر دے یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتیں یا پھر چارعادل عورتیں اس کے قول کی گواهی دیں تو جتنی مقدار وه بتائے اسے دے دینی ضروری هے اور اگر ایک عادل عورت گواهی دے تو ضروری هے که جس چیز کا وه مطالبه کر رها و اس کا چوتھا حصه اسے دیا جائے اور اگر دو عادل عورتیں گواهی دیں تو اس کا نصف دیا جائے اور اگر تین عادل عورتیں گواهی دیں تو اس کا تین چوتھائی دیاجائے نیز اگر دو کتابی کافر مرد جو اپنے مذهب میں عادل هوں اس کے قول کی تصدیق کریں تو اس صورت میں جب که مرنے والا وصیت کرنے پرمجبور هوگیا هو اور عادل مرد اور عورتیں بھی وصیت کے موقع پر موجود نه رهے هوں تو وه شخص متوفی کے مال سے جس چیز کا مطالبه کر رها هو وه اسے دے دینی ضروری هے۔

2735۔ اگر کوئی شخص کهے که میں متوفی کا وصی هوں تاکه اس کے مال کو فلاں مصرف میں لے آوں یا یه کهے که متوفی نے مجھے اپنے بچوں کا نگراں مقرر کیا تھا تو اس کا قول اس صورت میں قبول کرنا چاهئے جب که دو عادل مرد اس کے قول کی تصدیق کریں۔

2736۔ اگر مرنے والا وصیت کرے که اس کے مال کی اتنی مقدار فلاں شخص کی هوگی اور وه شخص وصیت کو قبول کرنے یا رد کرنے سے پهلے مرجائے تو جب تک اس کے ورثاء وصیت کو رد نه کردیں وه اس چیز کو قبول کرسکتے هیں لیکن یه

ص:523

حکم اس صورت میں هے که وصیت کرنے والا اپنی وصیت سے منحرف نه هو جائے ورنه وه (یعنی وصی یا اس کے ورثاء) اس چیز پر کوئی حق نهیں رکھتے۔

میراث کے احکام

2737۔ جو اشخاص متوفی سے رشتے داری کو بناپر ترکه پاتے هیں ان کے تین گروه هیں :

1۔ پهلا گروه متوفی کا باپ، ماں اور اولاد هے اور اولاد کے نه هونے کی صورت میں اولاد کی اولاد هے جهاں تک یه سلسله نیچے چلا جائے۔ ان میں سے جو کوئی متوفی سے زیاده قریب هو وه ترکه پاتا هے اور جب تک اس گروه میں سے اک شخص بھی موجود هو دوسرا اگر وه ترکه نهیں پاتا۔

2۔ دوسرا گروه، دادا ، دادی ،نانا، نانی، بهن اور بھائی هے اور بھائی اور بهن نه هونے کی صورت میں ان کی اولاد هے۔ ان میں سے جو کوئی متوفی سے زیاده قریب هو توه ترکه پاتا هے۔ اور جب تک اس گروه میں سے ایک شخص بھی موجود هو تیسرا گروه ترکه نهیں پاتا۔

3۔ تیسرا گروه چچا، پھوپھی ماموں خاله اور انکی اولاد هے۔ اور جب تک متوفی کے چچاوں پھوپھیوں، مامووں اور خلاوں میں سے ایک شخص بھی زنده هو اس کی اولاد ترکه نهیں پاتی لیکن اگر متوفی کا پدری چچا اور ماں باپ دونوں کی طرف سے چچا زاد بھائی موجود هو تو ترک باپ اور مال کی طرف سے چچازاد بھائیوںکو ملے گا اور پدری چچا کو نهیں ملے گالیکن اگر چچایا چچازار بھائی متعدد هوں یا متوفی کی بیوی زنده هو۔ تو یه حکم اشکال سے خالی نهیں هے۔

2738۔ اگر خود متوفی کا چچا، پھوپھی، ماموں اور خاله اور ان کی اولاد یا ان کی اولاد کی اولاد نه هو تو اس کے باپ اور ماں کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خاله ترکه پاتے هیں اور اگر وه نه هوں تو ان کی اولاد ترکه پاتی هے اور اگر وه بھی نه هو تو متوفی کے دادا، دادی کے چچا پھوپھی، ماموں اور خاله ترکه پاتے هیں اور اگر وه بھی نه هوں تو ان کی اولاد ترکه پاتی هے۔

2739۔ بیوی اور شوهر جیسا که بعد میں تفصیل سے بتایا جائے گا ایک دوسرے سے ترکه پاتے هیں۔

پهلے گروه کی میراث

ص:524

2740۔ اگر پهلے گروه میں سے صرف ایک شخص متوفی کا وارث هو مثلاً باپ یا ماں یا اکلوتا بیٹا یا اکلوتی بیٹی هو ت ومتوفی کا مال اسے ملتا هے اور اگر بیٹے اور بیٹیاں وارث هوں تو مال کو یوں تقسیم کیا جاتا هے که هر بیٹا بیٹی سے دگنا حصه پاتا هے۔

2741۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کا باپ اور اس کی ماں هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں جن میں سے دو حصے باپ اور ایک حصه ماں کو ملتا هے۔ لیکن اگرمتوفی کے دو بھائی یا چار بهنیں یا ایک بھائی اور دو بهنیں هوں جو سب کے سب مسلمان، آزاد اور ایک باپ کی اولاد هوں خواه ان کی ماں حقیقی هو یا سوتیلی هو اور کوئی بھی ماں حامله نه هو تو اگرچه وه متوفی کے باپ اور ماں کے هوتے هوئے ترکه نهیں پاتے لیکن ان کے هونے کی وجه سے ماں کو مال چھٹا حصه ملتا هے اور باقی مال باپ کوملتا هے۔

2742۔ جب متوفی کے وارث فقط اس کا باپ، ماں اور ایک بیٹی هو لهذا اگر اس کے گزشته مسئلے میں بیان کرده شرائط رکھنے والے دو پدری بھائی یا چار پدری بهنیں یا ایک پدری بھائی اور دو پدری بهنیں نه هوں تو مال کے پانچ حصے کئے جاتے هیں۔ باپ اور ماں ان میں سے ایک ایک حصه لیتے هیں اور بیٹی تین حصے لیتی هے۔ اور اگر متوفی کے سابقه بیان کرده شرائط والے دوپدری بھائی یا چار پدری بهنیں یا ایک پدری بھائی اور دو پدری بهنیں بھی هوں تو ایک قول کے مطابق مال کے ۔ سابقه ترتیب کے مطابق ۔ پانچ حصے کئے جائیں گے اور ان افراد کے وجود سے کوئی اثر نهیں پڑتا لیکن (علماء کے بیچ) مشهور یه هے که اس صورت میں مال چھ حصوں میں تقسیم هوگا۔ اس میں سے باپ اور ماں کو ایک ایک حصه اور بیٹی کو تین حصے ملتے هیں اور جو ایک حصه باقی بچے گا اس کے پھر چار حصے کئے جائیں گے جس میں سے ایک حصه باپ کو اور تین حصے بیٹی کو ملتے هیں۔ نتیجے کے طور پر متوفی کے مال کے 24 حصے کئے جاتے هیں جن میں سے 15 حصے بیٹی کو، 5 حصے باپ کو اور 4 حصے ماں کو ملتے هیں چونکه یه حکم اشکال سے خالی نهیں اس لئے ماں کے حصے میں 5۔1 اور 6۔1 میں جو فرق هے اس میں احتیاط کو ترک نه کیا جائے۔

2743۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کا باپ، ماں، اور ایک بیٹا هو تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں جن میں سے باپ اور ماں کو ایک ایک حصه اور بیٹے کو چار حصے ملتے هیں اور اگر متوفی کے (صرف) چند بیٹے هوں یا (بصورت دیگر صرف) چند بیٹیاں هوں تو وه ان چار حصوں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتے هیں اور اگر بیٹے بھی هوں اور بیٹیاں بھی هوں تو ان چار حصوں کو اس طرح تقسیم کیا جاتا هے که هر بیٹے کو ایک بیٹی سے دگنا حصه ملتا هے۔

ص:525

2744۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک یا کئی بیٹے هوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه باپ یا ماں کو اور پانچ حصے بیٹے کو ملتے هیں اور اگر کئی بیٹے هوں تو وه ان پانچ حصوں کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیتے هیں۔

2745۔ اگر باپ یا ماں متوفی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ اس کے وارث هوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه باپ یا ماں کو ملتا هے اور باقی حصوں کو یوں تقسیم کیا جاتا هے که هر بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصه ملتا هے۔

2746۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک بیٹی هوں تو مال کے چار حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه باپ یا ماں کو اور باقی تین حصے بیٹی کو ملتے هیں۔

2747۔ اگر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور چند بیٹیاں هوں تو مال کے پانچ حصے کئے جاتے هیں ان میں سے ایک حصه باپ یا ماں کو ملتا هے اور چار حصے بیٹیاں آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتی هیں۔

2748۔ اگر متوفی کی اولاد نه هو تو اس کے بیٹے کی اولاد ۔ خواه وه بیٹی هی کیوں نه هو۔ متوفی کے بیٹے کا حصه پاتی هے اور بیٹی کی اولاد ۔ خواه وه بیٹا هی کیوں نه هو۔ متوفی کی بیٹی کا حصه پاتی هے۔ مثلاً اگر متوفی کا ایک نواسا (بیٹی کا بیٹا) اور ایک پوتی (بیٹے کی بیٹی) هو تو مال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصه نواسے کو اور دو حصے پوتی کو ملیں گے۔

دوسرے گروه کی میراث

2749۔ جو لوگ رشته داری کی بنا پر میراث پاتے هیں ان کا دوسرا گروه متوفی کا دادا، دادی ، نانا، نانی، بھائی اور بهنیں هیں اور اگر اس کے بھائی بهنیں نه هوں تو ان کی اولاد میراث پاتی هے۔

2750۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک بھائی یا ایک بهن هو تو سارا مال اس کو ملتا هے اور اگر کئی سگے بھائی یا کئی سگی بهنیں هوں تو مال ان میں برابر برابر تقسیم هوجاتا هے اور اگر سگے بھائی بھی هوں اور بهنیں بھی تو هر بھائی کو بهن سے دگنا حصه ملتا هے مثلاً اگر متوفی کے دو سگے بھائی اور ایک سگی بهن هو تو مال کے پانچ حصے کئے جائیں گے جن میں سے هر بھائی کو دو حصے ملیں گے اور بهن کو ایک حصه ملے گا۔

ص:526

2751۔ اگر متوفی کے سگے بهن بھائی موجود هوں تو پدری بھائی اور بهنیں جن کی ماں متوفی کی سوتیلی ماں هو میراث پاتے اور اگر اس کے سگے بهن بھائی نه هوں یا ایک پدری بهن هو تو سارا مال اس کو ملتا هے اور اگر اس کے لئے کئی پدری بھائی یا کئی پدری بهنیں هوں تو مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم هوجاتا هے اور اگر اس کے پدری بھائی بھی هوں اور پدری بهنیں بھی تو هر بھائی کو بهن سے دگنا حصه ملتا هے۔

2752۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک مادری بهن یا بھائی هو جو باپ کی طرف سے متوفی کی سوتیلی بهن یا سوتیلا بھائی هو تو سارا مال اسے ملتا هے اور اگر چند مادری بھائی هوں یا چند مادری بهنیں هوں یا چند مادری بھائی اور بهنیں هوں تو مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم هوجاتا هے۔

2753۔ اگر متوفی کے سگے بھائی بهنیں اور پدری بھائی بهنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بهن هو تو پدری بھائی بهنوں کو ترکه نهیں ملتا اور مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه مادری بھائی یا مادری بهن کو ملتا هے اور باقے حصے سگے بھائی بهنوں کوملتے هیں اور هر بھائی دو بهنوں کے برابر حصه پاتا هے۔

2754۔ اگر متوفی کے سگے بھائی بهنیں اور پدری بھائی بهنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بهن هوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں ان میں سے ایک حصه مادری بھائی یا مادری بهن کو ملتا هے اور باقی حصے پدری بهن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کئے جاتے هیں که هر بھائی کو بهن سے دگنا حصه ملتا هے۔

2756۔ اگر متوفی کے وارث فقط پدری بھائی بهنیں اور ایک مادری بھائی یا ایک مادری بهن هوں تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں ان میں سے ایک حصه مادری بھائی یا مادری بهن کو ملتا هے اور باقی حصے پدری بهن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کئے جاتے هیں که هر بھائی کو بهن سے دگنا حصه ملتا هے۔

2756۔ اگر متوفی کے وارث فقط پدری بھائی بهنیں اور چند مادری بھائی بهنیں هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں۔ان میں سے ایک حصه مادری بھائی بهنیں آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے هیں اور باقی دو حصے پدری بهن بھائیوں کو اس طرح ملتے یں که هر بھائی کا حصه بهن سے دگنا هوتاهے۔

2757۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کے بھائی بهنیں اور بیوی هوں تو بیوی اپنا ترکه اس تفصیل کے مطابق لے گی جو بعد میں بیان کی جائے گی اور بھائی بهنیں اپنا ترکه اس طرح لیں گے جیسا که گذشته مسائل میں بتایا گیا هے نیز اگر کوئی

ص:527

عورت مر جائے اور اس کے وارث فقط اس کے بھائی بهنیں اور شوهر هوں تو نصف مال شوهر کو ملے گا اور بهنیں اور بھائی اس طریقے سے ترکه پائیں گے جس کا ذکر گذشته مسائل میں کیا گیاهے لیکن بیوی یا شوهر کے ترکه پانے کی وجه سے مادری بھائی بهنوں کے حصے میں کوئی کمی نهیں هوگی تاهم سگے بھائی بهنوں یا پدری بھائی بهنوں کے حصے میں کمی هوگی مثلاً اگر کسی متوفیه کے وارث اس کا شوهر اور مادری بهن بھائی اور سگے بهن بھائی هوں تو نصف مال شوهر کو ملے گا اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصه مادری بهن بھائیوں کو ملے گا اور جو کچھ بچے وه سگے بهن بھائیوں کا مال هوا۔ پس اگر اس کا کل مال چھ روپے هو تو تین روپے شوهر کو اور دو روپے مادری بهن بھائیوں کو اور ایک روپیه سگے بهن بھائیوں کو ملے گا۔

2758۔ اگر متوفی کے بھائی بهنیں نه هوں تو ان کے ترکه کا حصه ان کی (یعنی بھائی بهنوں کی) اولاد کو ملے گا اور مادری بھائی بهنوں کی اولاد کا حصه ان کے مابین برابر تقسیم هوتا هے اور جو حصه پدری بھائی بهنوں کی اولاد یا سگے بھائی بهنوں کی اولاد کو ملتا هے اس کے بارے میں مشهور هے که هر لڑکا دو لڑکیوں کے برابر حصه پاتا هے لیکن کچھ بعید نهیں که ان کے مابین بھی ترکه برابر برابر تقسیم هو اور احوط یه هے که وه مصالحت کی جانب رجوع کریں۔

2759۔ اگر متوفی کا وارث فقط دادا یا فقط دادی یا فقط نانا یا فقط نانی هو تو متوفی کا تمام مال اسے ملے گا اور اگر متوفی کا دادا یا نانا موجود هو تو اس کے باپ (یعنی متوفی کے پردادا یا پرنانا) کو ترکه نهیں ملتا اور اگر متوفی کے وارث فقط اس کے دادا اور دادی هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں جن میں سے دو حصے دادا کو اور ایک حصه دادی کو ملتا هے اور اگر وه نانا اور نانی هوں تو وه مال کو برابر برابر تقسیم کر لیتے هیں۔

2760۔ اگر متوفی کے وارث ایک دادا یا دادی اور ایک نانا هوں تو مال کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے دو حصے دادا یا دادی کو ملیں گے اور ایک حصه نانا یا نانی کو ملے گا۔

2761۔ اگر متوفی کے وارث دادا اور دادی اور نانا اور نانی هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه نانا اور نانی آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے هیں اور باقی دو حصے دادا اور دادی کو ملتے هیں جن میں دادا کا حصه دو تهائی هوتا هے۔

2762۔ اگر متوفی کے وارث فقط اس کی بیوی اور دادا، دادی اور نانا، نانی هوں تو بیوی اپنا حصه اس تفصیل کے مطابق لیتی هے جو بعد میں بیان هوگی اور اصل مال کے تین حصوں میں سے ایک حصه نانا اور نانی کو ملتا هے جو وه آپس میں برابر برابر

ص:528

تقسیم کرتے هیں اور باقی مانده (یعنی بیوی اور نانا ،نانی کے بعد جو کچھ بچے) دادا اور دادی کو ملتا هے جس میں سے دادا، دادی کے مقابلے میں دگنا لیتا هے۔ اور اگر متوفی کے وارث اس کا شوهر اور دادا یا نانا اور دادی یا نانی هوں تو شوهر کو نصف مال ملتا هے اور دادا، نانا اور دادی نانی ان احکام کے مطابق ترکه پاتے هیں جن کا ذکر گزشته مسائل میں هوچکا هے۔

2763۔ بھائی ، بهن، بھائیوں، بهنوں کے ساتھ دادا، دادی یا نانا، نانی اور داداوں، دادیوں یا ناناوں، نانیوں کے اجتماع کی چند صورتیں هیں :

اول : نانا یا نانی اور بھائی یا بهن سب ماں کی طرف سے هوں۔ اس صورت میں مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم هوجاتا هے اگرچه وه مذکر اور مونث کی حیثیت سے مختلف هوں۔

دوم : دادا یا دادی کے ساتھ بھائی یا بهن باپ کی طرف سے هوں۔ اس صورت میں بھی ان کے مابین مال مساوی طور پر تقسیم هوتا هے بشرطیکه وه سب مرد هوں یا سب عورتیں هوں اور اگر مرد اور عورتیں هوں تو پھر هر مرد هر عورت کے مقابلے میں دگنا حصه لیتا هے۔

سوم: دادا یا دادی کے ساتھ بھائی یا بهن ماں اور باپ کی طرف سے هوں اس صورت میں بھی وهی حکم هے جو گزشته صورت میں هے اور یه جاننا چاهے که اگر متوفی کے پدری بھائی یا بهن، سگے بھائی یا بهن کے ساتھ جمع هو جائے تو تنها پدری بھائی یا بهن میراث نهیں پاتے (بلکه سبھی پاتے هیں)۔

چهارم: دادے ، دادیاں اور نانے ، نانیاں هوں۔ خواه وه سب کے سب مرد هوں یا عورتیں هوں یا مختلف هوں اور اسی طرح سگے بھائی اور بهنیں هوں۔ اس صورت میں جو مادری رشتے دار بھائی، بهن اور نانے، نانیاں هوں ترکے میں ان کا ایک تهائی حصه هے اور ان کے درمیان برابر تقسیم هوجاتا هے خواه وه مرد اور عورت کی حیثیت سے ایک دوسرے سے مختلف هوں اور ان میں سے جو پدری رشته دار هوں ان کا حصه دو تهائی هے جس میں سے هر مرد کو هر عورت کے مقابلے میں دگنا ملتا هے اور اگر ان میں کوئی فرق نه هو اور سب مرد یا سب عورتیں هوں تو پھر وه ترکه ان میں برابر برابر تقسیم هوجاتا هے۔

ص:529

پنجم: دادا یا دادی ماں کی طرف سے بھائی، بهن کے ساتھ جمع هوجائیں اس صورت میں اگر بهن یا بھائی بالفرض ایک هو تو اسے مال کا چھٹا حصه ملتا هے اور اگر کئی هوں تو تیسرا حصه ان کے درمیان برابر برابر تقسیم هوجاتا هے اور جو باقی بچے وه دادا یا دادی کا مال هے اور اگر دادا اور دادی دونوں میں هوں تو دادا کو دادی کے مقابلے میں دگنا حصه ملتا هے۔

ششم:نانا یا نانی باپ کی طرف سے بھائی کے ساتھ جمع هو جائیں۔ اس صورت میں نانا یا نانی کا تیسرا حصه هے خواه ان میں سے ایک هی هو اور تهائی بھائی کا حصه هے خواه وه بھی ایک هی هو اور اگر اس نانا یا نانی کے ساتھ باپ کی طرف سے بهن هو اور وه ایک هی هو تو وه آدھا حصه لیتی هے اور اگر کئی بهنیں هوں تو دو تهائی لیتی هیں اور هر صورت میں نانا یا نانی کا حصه ایک تهائی هی هے اور اگر بهن ایک هی هو تو سب کے حصے دے کر ترکے کا چھٹا حصه بچ جاتا هے اور اس کے بارے میں احتیاط واجب مصالحت میں هے۔

هفتم: دادا یا دادیاں هوں اور کچھ نانا نانیاں هوں اور ان کے ساتھ پدری بھائی یا بهن هو خواه وه ایک هی هو یا کئی هوں اس صورت میں نانا یا نانی کا حصه ایک تهائی هے اور اگر وه زیاده هوں تو ی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم هوجاتا هے خواه وه مرد اور عورت کی حیثیت سے مختلف هی هوں اور باقی مانده دو تهائی دادے یا دادی اور پدری بھائی یا بهن کا هے اور اگر وه مرد اور عورت کی حیثیت سے مختلف هوں تو فرق کے ساتھ اور اگر مختلف نه هوں تو برابر ان میں تقسیم هوجاتا هے۔ اور اگر ان دادوں، نانوں یا دادیوں نانیوں کے ساتھ مادری بھائی یا بهن هوں تو نانا یا نانی کا حصه مادری بھائی یا بهن کے ساتھ ایک تهائی هے جو ان کے درمیان برابر برابر تقسیم هوجاتا هے اگرچه وه به حیثیت مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف هوں اور دادا یا دادی کا حصه دو تهائی هے جو ان کے مابین اختلاف کی صورت میں (یعنی به حیثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں) فرق کے ساتھ ورنه برابر برابر تقسیم هوجاتا هے۔

هشتم: بھائی اور بهنیں هوں جن میں سے کچھ پدری اور کچھ مادری هوں اور ان کے ساتھ دادا یا دادی هوں۔ اس صورت میں اگر مادری بھائی یا بهن ایک هو تو ترکے میں اس کا چھاٹا حصه هے اور اگر ایک سے زیاده هوں تو تیسرا حصه هے جو که ان کے مابین برابر برابر تقسیم هوجاتا هے اور باقی ترکه پدری بھائی یا بهن اور دادی یا دادی کا هے جو ان کے بحیثیت مرد اور عورت مختلف نه هونے کی صورت میں ان کے مابین برابر برابر تقسیم هوجاتا هے اور مختلف هونے کی صورت میں فرق سے تقسیم هوتا هے اور اگر ان بھائیوں یا بهنوں کے ساتھ نانا یا نانی هوں تو نانا یا نانی اور مادری بھائیوں اور بهنوں کو ملا کر سب کا حصه ایک تهائی هوتا هے اور ان کے مابین برابر تقسیم هوجاتا هے اور پدری بھائیوں یا بهنوں کا حصه دو تهائی هوتا هے جو ان

ص:530

میں به حیثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں فرق سے اور اختلاف نه هونے کی صورت میں برابر برابر تقسیم هوجاتا هے۔

2764۔ اگر متوفی کے بھائی یا بهنیں هوں تو بھائیوں یا بهنوں کی اولاد کی میراث نهیں ملتی لیکن اگر بھائی کی اولاد اور بهن کی اولاد کا میراث پانا بھائیوں اور بهنوں کی میراث سے مزاحم نه هو تو پھر اس حکم کا اطلاق نهیں هوتا۔ مثلاً اگر متوفی کا پدری بھائی اور نانا هو تو پدری بھائ کو میراث کے دو حصه اور نانا کو ایک تهائی حصه ملے گا اور اس صورت میں اگر متوفی کے مادری بھائی کا بیٹا بھی هو تو بھائی کا بیٹا نانا کے ساتھ ایک تهائی میں شریک هوتا هے۔

تیسرے گروه کی میراث

2765۔ میراث پانے والوں کے تیسرے گروه میں چچا، پھوپھی، ماموں اور خاله اور ان کی اولاد هیں اور جیسا که بیان هوچکا هے اگر پهلے اور دوسرے گروه میں سے کوئی وارث موجود نه هو تو پھر یه لوگ ترکپ پاتے هیں۔

2766۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک چچا یا ایک پھوپھی هو تو خواه وه سگا هو یعنی وه اور متوفی ایک ماں باپ کی اولاد هوں یا پدری هو یا مادری هو سارا مال اسے ملتا هے۔ اور اگر چند چچا یا چند پھوپھیاں هوں اور وه سب سگے یا سب پدری هوں تو ان کے درمیان مال برابر تقسیم هوگا۔ اور اگر چچا اور پھوپھی دونوں هوں اور سب سگے هوں یا سب پدری هوں تو بنابر اقوی چچا کو پھوپھی سے دگنا حصه ملتا هے مثلاً اگر دو چچا اور ایک پھوپھی متوفی کے وارث هوں تو مال پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا هے جن میں سے ایک حصه پوپھی کو ملتا هے اور باقی مانده چار حصوں کو دونوں چچا آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔

2767۔ اگر متوفی کے وارث فقط کچھ مادری چچا یا کچھ مادری پھوپھیاں هوں تو متوفی کا مال ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم هوگا اور اگر وارث مادری چچا اور مادری پھوپھی هو تو چچا کو پھوپھی سے دو گنا ترکه ملے گا اگرچه احتیاط یه هے که چچا کو جتنا زیاده حصه ملا هے اس پر باهم تصفیه کریں۔

2768۔ اگر متوفی کے وارث چچا اور پھوپھیاں هوں اور ان میں سے کچھ پدری اور کچھ مادری اور کچھ سگے هوں تو پدری چچاوں اور پھوپھیوں کو ترکه نهیں ملتا اور اقوی یه هے که اگر متوفی کا ایک مادری چچا یا ایک مادری پھوپھی هو تو مال کے چھ حصے کئے جاتے هیں جن میں سے ایک حصه مادری چچا یا پھوپھی کو دیا جاتا هے اور باقی حصے سگے چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے هیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پھوپھیاں نه هوں تو وه حصے پدری چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے هیں۔ اور اگر متوفی کے مادری

ص:531

چچا اور مادری پھوپھیاں بھی هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں جن میں سے دو حصے سگے چچاوں اور پھوپھیوں کو ملتے هیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پھوپھیاں نه هوں تو پدری چچا اور پدری پھوپھی کو ترکه ملتا هے اور ایک حصه مادری چچا اور پھوپھی کو ملتا هے اور مشهور یه هے که مادری چچا اور مادری پھوپھی کا حصه ان کے مابین برابر برابر تقسیم هوگا لیکن بعید نهیں که چچا کو پھوپھی سے دگنا حصه ملے اگرچه احتیاط اس میں هے که باهم تصفیه کریں۔

2769۔اگر متوفی کا وارث فقط ایک ماموں یا ایک خاله هو تو سارا مال اسے ملتا هے۔ اور اگر کئی ماموں بھی هوں اور خالائیں بھی هوں اور سب سگے یا پدری یا مادری هوں تو بعید نهیں که ماموں کو خاله سے دگنا ترکه ملے لیکن برابر، برابر ملنے کا احتمال بھی هے لهذا احتیاط کو ترک نهیں کرنا چاهئے۔

2770۔ اگر متوفی کا وارث فقط ایک یا چند مادری ماموں اور خالائیں اور سگے ماموں اور خالائیں هوں اور پدری ماموں اور خالائیں هوں تو پدری مامووں اور خالاوں کو ترکه نه ملنا محل اشکال هے بهر حال بعید نهیں که ماموں کو خاله سے دگنا حصه ملے لیکن احتیاط باهم رضامندی سے معامله کرنا چاهئے۔

2771۔ اگر متوفی کے وارث ایک یا چند ماموں یا ایک چند خالائیں یا ماموں اور خاله اور ایک یا چند چچا یا ایک یا چند پھوپھیاں یا چچا اور پھوپھی هوں تو مال تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا هے۔ ان میں سے ایک حصه ماموں یا خاله کو یا دونوں کو ملتا هے اور باقی دو حصے چچا یا پھوپھی کو یا دونوں کوملتے هیں۔

2772۔ اگر متوفی کے وارث ایک ماموں یا ایک خاله اور چچا اور پھوپھی هوں تو اگر چچا اور پھوپھی سگے هوں یا پدری هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں ان میں سے ایک حصه ماموں یا خاله کو ملتا هے، اور اقوی کی بنا پر باقی سے دو حصے چچا کو اور ایک حصه پھوپھی کو ملتا هے لهذا مال کے نو حصے هوں گے جن میں سے تین حصے ماموں یا خاله کو اور چار حصے چچا کو اور دو حصے پھوپھی کو ملیں گے۔

2773۔ اگر متوفی کے وارث ایک ماموں یا ایک خاله اور ایک مادری چچا یا ایک مادری پھوپھی اور سگے یا پدری چچا اور پھوپھیاں هوں تو مال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا هے جن میں سے ایک حصه ماموں یا خاله کو دیا جاتا هے۔ اور باقی دو حصوں کو چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بعید نهیں که چچا کو پھوپھی سے دگنا حصه ملے اگرچه احتیاط کا خیال رکھنا بهتر هے۔

ص:532

2774۔اگر متوفی کے وارث چند ماموں یا چند خالائیں هوں جو سگے یا پدری یا مادری هوں اور اس کے چچا اور پھوپھیاں بھی هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں۔ ان میں سے دو حصے اس دستور کے مطابق جو بیان هوچکا هے چچاوں اور پھوپھیوں کے مابین تقسیم هوجاتے هیں اور باقی ایک حصه ماموں اور خالائیں جیسا که مسئله 2770 میں گزر چکا هے آپس میں تقسیم کریں گے۔

2775۔اگر متوفی کے وارث مادری ماموں یا خالائیں اور چند سگے ماموں اور خالائیں هوں یا فقط پدری ماموں اور خالائیں اور چچا و پھوپھی هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں۔ ان میں سے دو حصے اس دستور کے مطابق جو بیان هوچکا هے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بعید نهیں که باقیمانده تیسرے حصے کو تقسیم میں باقی ورثا کے حصے برابر هوں۔

2776۔ اگر متوفی کے چچا اور پھوپھیاں اور ماموں اور خالائیں نه هوں تو مال کی جو مقدار چچاوں اور پھوپھیوں کو ملنی چاهئے وه ان کی اولاد کو اور جو مقدار مامووں اور خالاوں کو ملنی چاهئے وه ان کی اولاد کو دی جاتی هے۔

2777۔اگر متوفی کے وارث اس کے باپ کے چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں اور اس کی ماں کے چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں هوں تو مال کے تین حصے کئے جاتے هیں۔ ان میں سے ایک حصه متوفی کی ماں کے چچاوں، پھوپھیاں، مامووں اور خالاوں کو بطور میراث ملے گا۔ اور مشهور قول کی بنا پر مال ان کے درمیان برابر، برابر تقسیم کر دیا جائے گا لیکن احتیاط کے طور پر مصالحت کا خیال رکھنا چاهئے۔ اور باقی دو حصوں کے تین حصے کئے جاتے هیں۔ ان میں سے ایک حصه متوفی کے باپ کے ماموں اور خالائیں (یعنی ننھیالی رشتے دار) اسی کیفیت کے مطابق آپس میں برابر، برابر بانٹ لیتے هیں اور باقی دو حصے بھی اسی کیفیت کے مطابق متوفی کے باپ کے چچاوں اور پھوپھیوں (یعنی ددھیالی رشتے داروں) کو ملتے هیں۔

بیوی اور شوهر کی میراث

2778۔ اگر کوئی عورت بے اولاد مرجائے تو اس کے سارے مال کا نصف حصه شوهر کو اور باقی مانده دوسرے ورثاء کو ملتا هے اور اگر کسی عورت کو پهلے شوهر سے یا کسی اور شوهر سے اولاد هو تو سارے مال کا چوتھائی حصه شوهر کو اور باقی مانده دوسرے ورثاء کو ملتا هے۔

ص:533

2779۔ اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس کی کوئی اولاد نه هو تو اس کے مال کا چھوتھائی حصه اس کی بیوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا هے۔ اور اگر اس آدمی کو اس بیوی سے یا کسی اور بیوی سے اولاد هو تو مال کا آٹھواں حصه بیوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا هے۔ اور گھر کی زمین، باغ، کھیت اور دوسری زمینوں میں سے عورت نه خود زمین بطور میراث حاصل کرتی هے اور نه هی اس کی قیمت میں سے کوئی ترکه پاتی هے نیز وه گھر کی فضا میں قائم چیزوں مثلاً عمارت اور درختوں سے ترکه نهیں پاتی لیکن ان کی قیمت کی صورت میں ترکه پاتی هے۔ اور جو درخت، کھیت اور عمارتیں باغ کی زمین، مزروعه زمین اور دوسری زمینوں میں هوں اور ان کا بھی یهی حکم هے۔

2780۔ جن چیزوں میں سے عورت ترکه نهیں پاتی مثلاً رهائشی مکان کی زمین اگر وه ان میں تصرف کرنا چاهے تو ضروری هے که دوسرے ورثاء سے اجازت لے اور ورثاء جب تک عورت کا حصه نه دے دیں ان کے لئے جائز نهیں هے که اس کی اجازت کے بغیر ان چیزوں میں مثلاً عمارتوں اور درختوں میں تصرف کریں ان کی قیمت سے وه ترکه پاتی هے۔

2781۔اگر عمارت اور درخت وغیره کی قیمت لگانا مقصود هو تو جیسا که قیمت لگانے والوں کا معمول هوتا هے که جس زمین میں وه هیں اس کی خصوصیت کو پیش نظر رکھے بغیر ان کا حساب کریں که ان کی کتنی قیمت هے، نه که انهیں زمین سے اکھڑے هوئے فرض کرکے ان کی قیمت لگائیں اور نه هی ان کی قیمت کا حساب اس طرح کریں که وه بغیر کرائے کے اس زمین میں اسی حالت میں باقی رهیں یهاں تک که اجڑ جائیں۔

2782۔نهروں کا پانی بهنے کی جگه اور اسی طرح کی دوسری جگه زمین کا حکم رکھتی هے اور اینٹیں اور دوسری چیزیں جو اس میں لگائی گئی هوں اور وه عمارت کے حکم میں هیں۔

2783۔ اگر متوفی کی ایک سے زیاده بیویاں هوں لیکن اولاد کوئی نه تو مال کا چوتھا حصه اور اگر اولاد هو تو مال کا آٹھواں حصه اس تفصیل کے مطابق جس کا بیان هوچکا هے سب بیویوں میں مساوی طور پر تقسیم هوتاهے خواه شوهر نے ان سب کے ساتھ یا ان میں سے بعض کے ساتھ هم بستری نه بھی کی هو۔ لیکن اگر اس نے ایک ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے اس کی موت واقع هوئی هے کسی عورت سے نکاح کیا هو اور اس سے همبستری نه کی هو تو وه عورت اس سے ترکه نهیں پاتی اور وه مهر کا حق بھی نهیں رکھتی۔

ص:534

2784۔ اگر کوئی عورت مرض کی حالت میں کسی مرد سے شادی کرے اور اسی مرض میں مرجائے تو خواه مرد نے اس سے هم بستری نه بھی کی هو وه اس کے ترکے میں حصے دار هے۔

2785۔ اگر عورت کو اس ترتیب سے رجعی طلاق دی جائے جس کا ذکر طلاق کے احکام میں کیا جاچکا هے اور وه عدت کے دوران مرجائے تو شوهر اس سے ترکه پاتا هے۔ اسی طرح اگر شوهر اس عدت کے دوران فوت هوجائے تو بیوی اس سے تکه پاتی هے لیکن عدت گزرنے کے بعد یا بائن طلاق کی عدت کے دوران ان میں سے کوئی ایک مرجائے تو دوسرا اس سے ترکه نهیں پاتا۔

2786۔اگر شوهر مرض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور باره قمری مهینے گزرنے سے پهلے مر جائے تو عورت تین شرطیں پوری کرنے پر اس کی میراث سے ترکه پاتی هے:

1۔ عورت نے اس مدت میں دوسرا شوهر نه کیا هو اور اگر دوسرا شوهر کیا هو تو اسے میراث نهیں ملے گی اگرچه احتیاط یه هے که صلح کرلیں (یعنی متوفی کے ورثاء عورت سے مصالحت کرلیں)۔

2۔ طلاق عورت کی مرضی اور درخواست پر نه هوئی هو۔ ورنه اسے میراث نهیں ملے گی خواه طلاق حاصل کرنے کے لئے اس نے اپنے شوهر کو کوئی چیز دی هو یا نه دی هو۔

3۔ شوهر نے جس مرض میں عورت کو طلاق دی هو اس مرح کے دوران اس مرض کی وجه سے یا کسی اور وجه سے مرگیا هو۔ لهذا اگر وه اس مرض سے شفایاب هوجائے اور کسی اور وجه سے مرجائے تو عورت اس سے میراث نهیں پاتی۔

2787۔ جو کپڑے مرد نے اپنی بیوی کو پهننے کے لئے فراهم کئے هوں اگرچه وه ان کپڑوں کو پهن چکی هو پھر بھی شوهر کے مرنے کے بعد وه شوهر کے مال کا حصه هوں گے۔

مِیراث کے مختلف مسائل

2788۔ متوفی کا قرآن مجید، انگوٹھی، تلوار اور جو کپڑے وه پهن چکا هو وه بڑے بیٹے کا مال هے اور اگر پهلی تین چیزوں میں سے متوفی نے کوئی چیز ایک سے زیاده چھوڑی هوں مثلاً اس نے قرآن مجید کے دو نسخے یا دو انگوٹھیاں چھوڑی هوں تو احتیاط واجب یه هے که اس کا بڑا بیٹا ان کے بارے میں دوسرے ورثاء سے مصالحت کرے اور ان چار چیزوں کے ساتھ

ص:535

رحل، بندوق، خنجر اور جیسے دوسرے هتھیاروں کو بھی ملادیں تو "وجه" سے خالی نهیں لیکن احتیاط واجب یه هے که بڑا بیٹا ان چیزوں سے متعلق دوسرے ورثاء سے مصالحت کرے۔

2789۔ اگر کسی متوفی کے بڑے بیٹے ایک سے زیاده هوں مثلاً دو بیویوں سے دو بیٹے بیک وقت پیدا هوں تو جن چیزوں کا ذکر کیا جاچکا هے انهیں برابر برابر آپس میں تقسیم کریں۔

2790۔ اگر متوفی مقروض هو تو اگر اس کا قرض اس کے مال کے برابر یا اس سے زیاده هو تو ضروری هے که بڑا بیٹا اس مال سے بھی اس کا قرض ادا کرے جو اس کی ملکیت هے اور جن کا سابقه مسئلے میں ذکر کیا گیا هے یا اس کی قیمت کے برابر اپنے مال سے دے۔ اور اگر متوفی کا قرض اس کے مال سے کم هو اور ذکر شده چند چیزوں کے علاوه جو باقی مال اسے میراث میں مل هو اگر وه بھی اس کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی نه هو تو ضروری هے که بڑا بیٹا ان چیزوں سے یا اپنے مال سے اس کا قرض دے۔ اور اگر باقی مال قرض ادا کرنے کے لئے کافی هو تب بھی احتیاط لازم یه هے که بڑا بیٹا جیسے که پهلے بتایا گیا هے قرض ادا کرنے میں شرکت کرے مثلاً اگر متوفی کا تمام مال ساٹھ روپے کا هو اور اس میں سے بیس روپے کی وه چیزیں هوں جو بڑے بیٹے کا مال هیں اور اس پر تیس روپے قرض هو تو بڑے بیٹے کو چاهئے که ان چیزوں میں سے دس روپے متوفی کے قرض کے سلسلے میں دے۔

2791۔ مسلمان کافر سے ترکه پاتا هے لیکن کافر خواه مسلمان متوفی کا باپ یا بیٹا هی کیوں نه هو اس سے ترکه نهیں پاتا۔

2793۔ جب کسی متوفی کے ورثاء که تقسیم کرنا چاهیں تو وه بچه جو ابھی ماں کے پیٹ میں هو اور اگر زنده پیدا هو تو میراث کا حق دارهوگا اس صورت میں جب که ایک سے زیاده بچوں کے پیدا هونے کا احتمال نه هو اور اطمینان نه هو که وه بچه لڑکی هے تو احتیاط کی بنا پر ایک لڑکے کا حصه علیحده کر دیں اور جو مال اس سے زیاده هو وه آپس میں تقسیم کرلیں بلکه اگر ایک سے زیاده بچے هونے کا قوی احتمال هو مثلاً عورت کے پیٹ میں دو یا تین بچے هونے کا احتمال هو تو احتیاط کی بنا پر ضروری هے که جن بچوں کے پیداهونے کا احتمال هو ان کے حصے علیحده کریں مثلاً اگر ایک لڑکے یا ایک لڑکی کی ولادت هو تو زائد ترکے کو ورثاء آپس میں تقسیم کرلیں۔

چند فِقهی اصطلاحات

ص:536

(جو اس کتاب میں استعمال هوئی هیں)

احتیاطوه طریقه عمل جس سے "عمل" کے مطابق واقعه هونے کا یقین حاصل هوجائے۔

احتیاط لازماحتیاط واجب۔ دیکھئے لفظ "لازم"۔

احتیاط مستحبفتوے کے علاوه احتیاط هے، اس لئے اسکا لحاظ ضروری نهیں هوتا۔

احتیاط واجبوه حکم جو احتیاط کے مطابق هو اور فقیه ے اس کے ساتھ فتوی نه دیا هو ایسے مسائل میں مقلد اس مجتهد کی تقلید کر سکتا هے جو اعلم میں سب سے بڑھ کر هو۔

احتیاط ترک نهیں کرنا چاهیےجس مسئلے میں یه اصطلاح آئے اگر اس میں مجتهد کا فتوی مذکور نه (احتیاط کا خیال رهے) هو اس کا مطلب احتیاط واجب هوگا۔ اور اگر مجتهد کا فتوی بھی مذکور هو تو اس سے احتیاط کی تاکید مقصود هوتی هے۔

اَحوَطاحتیاط کے مطابق۔

اشکال هےاس عمل کی وجه سے شرعی تکلیف ساقط نه هوگی۔ اسے انجام نه دینا

چاهئے۔ اس مسئلے میں کسی دوسرے مجتهد کی طرف رجوع کیا جاسکتاهے بشرطیکه اس کے ساتھ فتوی نه هو۔

اظهرزیاده ظاهر۔ مسئلے سے متعلق دلائل سے زیاده نزدیک دلیلوں که ساتھ منطبق هونے کے لحاظ سے زیاده واضح ۔ یه مجتهد کا فتوی هے۔

اِفضاءکھلنا۔ پیشاب اور حیض کے مقام کا ایک هو جانا یا حیض اور پاخانےکے مقام کا ایک هو جانا یا تینوں مقامات کا ایک هوجانا۔

اَقویٰقَوی نظریه۔

اَولٰیبهتر ۔ زیاده مناسب

ص:537

ایقاعوه معامله جو یکطرفه طور پر واقع هوجاتا هے اور اسے قبول کرنے والے کی ضرورت نهیں هوتی جیسے طلاق میں صرف طلاق دینا کافی هوتا هے، قبول کرنے کی ضرورت نهیں هوتی۔

بعید هےفتویٰ اس کے مطابق نهیں هے۔

جاهلِ مُقَصِّروه ناواقف شخص جس کے لئے مسائل کا سیکھنا ممکن رها هو لیکن اسنے کوتاهی کی هو اور جان بوجھ کر مسائل معلوم نه کئے هوں۔

حاکم شرعوه مجتهد جامع الشرائط جس کا حکم، شرعی قوانین کی بنیاد پر نافذ هو۔

حَدَثِ اصغرهر وه چیز جس کی وجه سے نماز کے لئے وضو کرنا پڑے۔ یه سات چیزیں هیں: 1۔ پیشاب 2۔ پاخانه 3 ریاح 4۔ نیند 5۔ عقل کو زائل کرنے والی چیزیں مثلاً دیوانگی، مستی یا بے هوشی 6۔ اِستِحاضه 7۔ جن چیزوں کی وجه سے غسل واجب هوتا هے۔

حَدَث اکبروه چیز جس کی وجه سے نماز کے لئے غسل کرنا پڑے جیسے احتلام، جماع

حَدّ تَرخّصمسافت کی وه حد جهاں سے اذان کی آواز سنائی نه دے اور آبادی کی دیواریں دکھائی نه دیں۔

حرامهر وه عمل، جس کا ترک کرنا شریعت کی نگاهوں میں ضروری هو۔

درهم10۔6۔12 چنوں کے برابر سکه دار چاندی تقریباً 50ء 21 گرام

ذِمّی کافریهودی، عیسائی اور مجوسی جو اسلامی مملکت میں رهتے هوں اور اسلام کے اجتماعی قوانین کی پابندی کا وعده کرنے کی وجه سے اسلامی حکومت ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرے۔

رَجَاءِ مَطُلوبَیّتکسی عمل کو مطلوب پرودگار هونے کی امید میں انجام دینا۔

رجوع کرناپلٹنا۔ اس کا استعمال دو مقامات پر هوا هے:

(1)۔۔۔اعلم جس مسئلے میں احتیاط واجب کا حکم دے اس مسئلے میں کسی دوسرے مجتهد کی تقلید کرنا۔

ص:538

(2)۔۔۔بیوی کو طلاق رجعی دینے کے بعد عدت کے دوران ایسا کوئی عمل انجام دینا یا ایسی کوئی بات کهنا جس سے اس بات کا پتا چلے که اسے دوباره بیوی لینا هے۔

شاخصظهر کا وقت معلوم کرنے کے لئے زمین میں گاڑی جانے والی لکڑی

شارعخداوند عالم، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم

طلاق بائنوه طلاق جس کے بعد مرد کو رجوع کرنے حق نهیں هوتا۔ تفصیلات طلاق کے باب میں دیکھئے۔

طلاق خلعاس عورت کی طلاق جو شوهر کرنا پسند کرتی هو اور طلاق لینے کے لئے شوهر کو اپنا مهر یا کوئی مال بخش دے۔ تفصیلات طلاق کے باب میں دیکھئے۔

طلاق رجعیوه طلاق جس میں مرد عدت کے دوران عورت کی طرف رجوع کر سکتا هے۔ اس کے احکام طلاق کے باب میں بیان هوئے هیں۔

طواف نساءحج اور عمره مفرده کا آخری طواف جسے انجام نه دینے سے حج یا عمره مفرده کرنے والے پر هم بستری حرام رهتی هے۔

ظاهر یه هےفتوی یه هے (سوائے اس کے که عبارت میں اس کے برخلاف کوئی قرینه موجود هو)۔

ظُهر شرعیظهر شرعی کا مطلب آدھا دن گزرنا هے۔ مثلاً اگر دن باره گھنٹے کا هو تو طلوع آفتاب کے چھ گھنٹے گزرنے کے بعد اور اگر تیره گھنٹے کا هو توساڑھے چھ گھنٹے گزرنے کے بعد اور اگر گیاره گھنٹے کا هو تو ساڑھے پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد ظهر شرعی کا وقت هے۔ اور ظهر شرعی کا وقت جو که طلوع آفتاب کے بعد آدھا دن گزرنے سے غروب آفتاب تک هے بعض مواقع پر باره بجے سے چند منٹ پهلے اور کبھی باره بجے سے چند منٹ بعد هوتا هے۔

عدالتوه معنوی کیفیت جو تقوی کی وجه سے انسان میں پیدا هوتی هے اور جس کی

وجه سے وه واجبات کو انجام دیتا هے اور محرمات کو ترک کرتاهے

عقدمعاهده، نکاح

ص:539

فتویشرعی مسائل میں مجتهد کا نظریه۔

قرآن کے واجب سجدےقرآن میں پندره آیتیں ایسی هیں جن کے پڑھنے یا سننے کے بعد خداوند عالم کی عظمت کے سامنے سجده کرنا چاهئے، ان میں سے چار مقامات پرسجده واجب اور گیاره مقامات پر مستحب (مندوب) هے۔ آیات سجده مندرجه ذیل هیں :

قرآن کے مستجب سجدے 1۔ پاره 9۔۔۔سوره اعراف۔۔۔ آخری آیت

2 ۔پاره 13۔۔۔ سوره رعد۔۔۔ آیت 15

3۔پاره 14۔۔۔ سوره نحل۔۔۔ آیت 49

4۔ پاره 15۔۔۔ سوره بنی اسرائیل۔۔۔ آیت 107

5۔ پاره 16۔۔۔ سوره مریم ۔۔۔ آیت 58

6۔ پاره 17۔۔۔ سوره حج۔۔۔ آیت 18

7۔ پاره 17۔۔۔ سوره حج۔۔۔ آیت 77

8۔ پاره 19۔۔۔ سوره فرقان ۔۔۔ آیت 60

9۔ پاره 19۔۔۔ سوره نمل ۔۔۔ آیت 25

10۔ پاره 23 ۔۔۔ سوره صٓ ۔۔۔ آیت 24

11۔ پاره 30 ۔۔۔ سوره انشقاق ۔۔۔ آیت 21

قرآن کے واجب سجدے 1۔پاره 21۔۔۔ سوره سجده ۔۔۔ آیت 15

2۔پاره 24۔۔۔ سوره الٓمّ تنزیل۔۔۔ آیت 37

ص:540

3۔پاره 27 ۔۔۔ سوره والنجم ۔۔۔ آخری آیت

4۔ پاره 30 ۔۔۔ سوره علق ۔۔۔۔ آخری آیت

قصد انشاءخرید و فروخت کے مانند کسی اعتباری چیز کو اس سے مربوط الفاظ کے ذریعے عالم وجود میں لانے کا اراده۔

قصد قرُبت (قربت کی نیت)مرضی پروردگار سے قریب هونے کا اراده۔

قوت سے خالی نهیں هےفتوی یه هے (سوائے اس کے که عبارت میں اس کے برخلاف کوئی قرینه موجود هو)

کفاره جمع (مجموعاً کفاره)تینوں کفارے (1) ساٹھ روزے رکھنا (2) ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کھانا کھلانا (3) غلام آزاد کرنا۔

لازمواجب، اگر مجتهد کسی امر کے واجب و لازم هونے کا استفاده آیات اور روایات سے اس طرح کرے که اس کا شارع کی طرف منسوب کرنا ممکن هو تو اس کی تعبیر لفظ "واجب" کے ذریعے کی جاتی هے اور اگر اس واجب و لازم هونے کو کسی اور ذریعے مثلاً عقلی دلائل سے سمجھا هو اس طرح که اس کا شارع کی طرف منسوب کرنا ممکن نه هو تو اس کی تعبیر لفظ "لازم" سے کی جاتی هے۔ احتیاط واجب اور احتیاط لازم میں بھی اسی فرق کو پیش نظر رکھنا چاهئے۔ بهر حال مُقلد کے لئے مقام عمل میں "واجب" اور "لازم" کے درمیان کوئی فرق نهیں هے۔

مباحوه عمل جو شریعت کی نگاهوں میں نه قابل ستائش هو اور نه قابل مذمت (یه لفظ واجب، حرام، مستحب اور مکروه کے مقابلے میں هے)

نجسهر وه چیز جو ذاتی طور پر پاک هو لیکن کسی نجس چیز سے بالواسطه یا براه راست مل جانے کی وجه سے نجس هوگئی هو۔

مجَهُولُ المَالکوه مال جس کا مالک معلوم نه هو۔

مَحرَموه قریبی رشتے دار جن سے کبھی نکاح نهیں کیا جاسکتا۔

مُحرِمجو شخص حج یا عمرے کے احرام میں هو۔

ص:541

محل اشکال هےاس میں اشکال هے، اس عمل کا صحیح اور مکمل هونا مشکل هے (مقلد اس مسئلے میں کسی دوسرے مجهتد کی طرف رجوع کرسکتا هے بشرطیکه اس کے ساتھ فتوی نه هو۔)

مُسَلَّمات دینوه ضروری اور قطعی امور جو دین اسلام کا جزو لاینفک هیں اور جنهیں سارے مسلمان دین کا لازمی جرو مانتے هیں جیسے نماز، روزے کی فرضیت اور ان کا وجوب۔ ان امور کو "ضروریات دین" اور "قطعیات دین" بھی کهتے هیں کیونکه یه وه امور هیں جن کا تسلیم کرنا دائره اسلام کے اندر رهنے کیلئے از بس ضروری هے۔

مستحبپسندید۔ جو چیز شارع مقدس کو پسند هو لیکن اسے واجب قرار نه دے۔ هر وه حکم جس کو کرنے میں ثواب هو لیکن ترک کرنے میں گناه نه هو۔

مکروهناپسندیده، وه کام جس کا انجام دینا حرام نه هو لیکن انجام نه دینا بهتر هو۔

نصابمعینه مقدار یا معینه حد۔

واجبهروه عمل جس کا انجام دینا شریعت کی نگاهوں میں فرض هو۔

واجب تَخیِیریجب وجوب دو چیزوں میں کسی ایک سے متعلق هو تو ان میں سے هر ایک کو واجب تخییری کهتے هیں جیسے روزے کے کفاره میں، تین چیزوں کے درمیان اختیار هوتا هے۔ 1۔ غلام آزاد کرنا 2۔ ساٹھ روزے رکھنا 3۔ ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا۔

واجب عینیوه واجب جو هر شخص پر خود واجب هو جیسے نماز روزه۔

واجب کفائیایسا واجب جسے اگر کچھ لوگ انجام دے دیں تو باقی لوگوں سے ساقط هو جائے جسیے غسل میت سب پر واجب هے لیکن اگر کچھ لوگ اسے انجام دے دیں تو باقی لوگوں سے ساقط هوجائے گا۔

وقفاصل مال کو ذاتی ملکیت سے نکال کر اس کی منفعت کو مخصوص افراد یا امور خیریه کے ساتھ مخصوص کر دینا۔

ولیسرپرست مثلاً باپ، دادا، شوهر یا حاکم شرع

ص:542

شرعی اوزان اور اعشاری اوزان

5 نخود (چنے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گرام

10۔6۔12 نخود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقریباً 50ء 3 گرام

18 نخود (یا ایک مثقال شرعی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقریباً 50ء 3 گرام

1 دینار(یا ایک مثقال شرعی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقریباً 50ء3 گرام

ایک مثقال صیرفی (24 نخود)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً 50 گرام

ایک مد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً 750 گرام

ایک صاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً 3 کلو گرام

ایک کر (پانی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً 377 کلو گرام

کے بارے میں مرکز

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد الله رب العالمین
کوثر وجود زهرائے مرضیه سلام الله علیہا کی بارگاہ میں پیش ہے
هَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ سوره زمر/ 9
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی سالوں سے، قائمیہ کمپیوٹر ریسرچ سینٹر موبائل سافٹ ویئر، ڈیجیٹل لائبریریاں تیار کر رہا ہے، اور انہیں مفت میں پیش کر رہا ہے۔ یہ مرکز مکمل طور پر مقبول ہے اور اسے تحائف، نذر، اوقاف اور امام علیہ السلام کے بابرکت حصے کی تقسیم سے تعاون حاصل ہے۔ مزید خدمت کے لیے، آپ جہاں کہیں بھی ہوں مرکز کے خیراتی لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پیسہ اہل بیت علیہم السلام کی راہ میں خرچ کرنے کا مستحق نہیں ہے؟
اور ہر شخص کو یہ کامیابی نہیں ملے گی؟
آپ کو مبارک ہو.
کارڈ نمبر :
6104-3388-0008-7732
بینک میلات اکاؤنٹ نمبر:
9586839652 ۔
شیبا اکاؤنٹ نمبر:
IR390120020000009586839652
نام: (غامیہ کمپیوٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
اپنے تحفے کی رقم جمع کروائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکزی دفتر کا پتہ:
اصفہان –خیابان عبدالرزاق - بازارچه حاج محمد جعفر آباده ای - کوچه شہید محمد حسن توکلی -پلاک 129- طبقه اول
ویب سائٹ: www.ghaemiyeh.com
ای میل: Info@ghbook.ir
مرکزی دفتر ٹیلی فون: 00983134490125
تہران ٹیلی فون: 88318722 021
تجارت اور فروخت: 00989132000109
صارفین کے معاملات: 00989132000109